Surat ul Jasiya

Surah: 45

Verse: 37

سورة الجاثية

وَ لَہُ الۡکِبۡرِیَآءُ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ۪ وَ ہُوَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ ﴿۳۷﴾٪  20

And to Him belongs [all] grandeur within the heavens and the earth, and He is the Exalted in Might, the Wise.

تمام ( بزرگی اور ) بڑائی آسمانوں اور زمین میں اسی کی ہے اور وہی غالب اور حکمت والا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

37۔ 1 جیسے حدیث قدسی میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اَلْعَظَمَۃُ اِذَارِیْ وَالْکِبْریاءُ رِدَائیْ فَمَنْ نَازَعَنِیْ وَاحِدًا مِنْھُمَا اَسْکَنْتُہُ نَارِیْ (صحیح مسلم)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤٩] ١۔ تکبر کی مذمت۔ ٢۔ کبریائی صرف اللہ کو لائق ہے :۔ تکبر اور غرور ایسا جرم ہے جس کی سزا دنیا میں بھی مل کے رہتی ہے۔ مثل مشہور ہے کہ غرور کا سر نیچا ہوتا ہے۔ یہ ایسی حقیقت ہے کہ جس کا ہر شخص دنیا میں ہی مشاہدہ کرلیتا ہے۔ اور آخرت میں تو متکبرین کا یہ انجام ہوگا کہ کوئی ایسا متکبر نہیں ہوگا جسے جہنم میں ذلیل و رسوا کرکے داخل نہ کیا جائے۔ بہت سی احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ جہنم میں زیادہ تر متکبر قسم کے لوگ ہی ہوں گے۔ نیز سیدنا ابو سعید خدری اور سیدنا ابوہریرہ (رض) دونوں سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا &&: عزت پروردگار کی ازار ہے اور بزرگی اس کی چادر ہے۔ (پھر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے) جو کوئی اسے مجھ سے کھینچنے کی کوشش کرے گا میں اسے ضرور عذاب دوں گا && (مسلم۔ کتاب البر والصلۃ والادب۔ باب تحریم الکبر) نیز ایک حدیث قدسی کے مطابق اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ کبریائی میری چادر اور عظمت میرا ازار بند ہے۔ لہذا جو شخص ان دونوں میں سے کسی چیز کو مجھ سے کھینچنے کی کوشش کرے گا۔ میں اسے اٹھا کر آگ میں پھینک دوں گا && (حوالہ ایضاً ) گویا کبریائی اور تکبر ایسی صفت ہے جو صرف اللہ اکیلے کو سزاوار ہے اور ایک مومن کبھی متکبر نہیں ہوسکتا۔ تکبر اور ایمان ایک دوسرے کی ضد ہیں جو کسی ایک انسان میں جمع نہیں ہوسکتے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) ولہ الکبریآ فی السموت والارض : یہ جملہ لانے کا مطلب یہ ہے کہ اس نے بندوں کو اپنی حمد کی تلقین و تاکید انھی کیف ائدے کے لئے کی ہے، ورنہ وہ خود نہ ان کی تعریف کا محتاج ہے، نہ اسے اس کی ضرورت ہے اور نہ ان کی تعریف سے اس کی شان میں کوئی اضافہ ہوتا ہے، کیونکہ وہ پہلے سے اور ہمیشہ ساری بڑائی اور عظمت کا اکیلا مالک ہے۔ کوئی اور اس کی بڑائی میں کیا اضافہ کرے گا۔ (٢) وھو العزیز الحکیم : یہ دو صفات اس بات کی دلیل کے طور پر ذکر فرمائیں کہ وہ اکیلا ہر کبریائی اور عظمت کا مالک ہے، کیونکہ وہی عزیز ہے اور وہی حکیم ہے (خبر پر الف لام سے حصر کا معنی پیدا ہو رہا ہے) ، دوسرا کوئی نہ عزیز ہے نہ نہ حکیم تو اس میں کبریئای کیا ہوگی ؟” العزیز “ میں قدرت و اختیار کی ہر صورت آجاتی ہے اور ” الحکیم “ میں علم کا ہر مفہوم آجاتا ہے۔ وہ ” العزیز “ (سب پر غالب) ہے، جو چاہے کرسکتا ہے، کوئی کام ایسا نہیں جو وہ نہ کرسکے اور کوئی ہستی ایسی نہیں جو اسے روک سکے اور وہ ” الحکیم “ (کمال حکمت والا ) ہے، جو کرتا ہے عین حکمت اور بالکل درست ہوتا ہے، کوئی اس میں نہ غلطی نکال سکتا ہے نہ اس سے بہتر کی نشان دہی کرسکتا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَہُ الْكِبْرِيَاۗءُ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝ ٠ ۠ وَہُوَالْعَزِيْزُ الْحَـكِيْمُ۝ ٣٧ ۧ كِبْريَاءُ والْكِبْريَاءُ : الترفع عن الانقیاد، وذلک لا يستحقه غير الله، فقال : وَلَهُ الْكِبْرِياءُ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الجاثية/ 37] ولما قلنا روي عنه صلّى اللہ عليه وسلم يقول عن اللہ تعالی: «الکبریاء ردائي والعظمة إزاري فمن نازعني في واحد منهما قصمته» ، وقال تعالی: قالُوا أَجِئْتَنا لِتَلْفِتَنا عَمَّا وَجَدْنا عَلَيْهِ آباءَنا وَتَكُونَ لَكُمَا الْكِبْرِياءُ فِي الْأَرْضِ [يونس/ 87] ، الکبریاء ۔ اطاعت کیشی کے درجہ سے اپنے آپ کو بلند سمجھنے کا نام کبریاء ہے ۔ اور یہ استحقاق صرف ذات باری تعالیٰ کو ہی حاصل ہے ۔ چناچہ فرمایا : وَلَهُ الْكِبْرِياءُ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الجاثية/ 37] اور آسمانوں اور زمینوں میں اس کیلئے بڑائی ہے اور اس کا ثبوت اسی حدیث قدسی سے بھی ملتا ہے ۔ جس میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ۔ (90) الکبریاء ردائی والعظمۃ ازاری فمن ناز عنی فی واحد منھما قصمتہ کہ کیریاء میری رواء ہے اور عظمت ازار ہے ۔ جو شخص ان دونوں میں سے کسی ایک میں میرے ساتھ مزاحم ہوگا ۔ تو میں اس کی گردن توڑ دالوں گا۔ اور قرآن پاک میں ہے ؛ قالُوا أَجِئْتَنا لِتَلْفِتَنا عَمَّا وَجَدْنا عَلَيْهِ آباءَنا وَتَكُونَ لَكُمَا الْكِبْرِياءُ فِي الْأَرْضِ [يونس/ 87] وہ بولے کیا تم ہمارے پاس اس لئے آئے ہو کہ جس ( راہ ) پر ہم اپنے باپ دادوں کو پاتے رہیں ہیں اس سے ہم کو پھیر دو اور اس ملک میں تم دونوں ہی کی سرداری ہوجائے ۔ عزیز ، وَالعَزيزُ : الذي يقهر ولا يقهر . قال تعالی: إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت/ 26] ، يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف/ 88] ( ع ز ز ) العزیز العزیز وہ ہے جو غالب ہو اور مغلوب نہ ہو قرآن ، میں ہے : ۔ إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت/ 26] بیشک وہ غالب حکمت والا ہے ۔ يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف/ 88] اے عزیز میں اور ہمارے اہل و عیال کو بڑی تکلیف ہورہی ہے ۔ اعزہ ( افعال ) کے معنی کسی کو عزت بخشے کے ہیں ۔ ) حكيم والحِكْمَةُ : إصابة الحق بالعلم والعقل، فالحکمة من اللہ تعالی: معرفة الأشياء وإيجادها علی غاية الإحكام، ومن الإنسان : معرفة الموجودات وفعل الخیرات . وهذا هو الذي وصف به لقمان في قوله عزّ وجلّ : وَلَقَدْ آتَيْنا لُقْمانَ الْحِكْمَةَ [ لقمان/ 12] ، ونبّه علی جملتها بما وصفه بها، فإذا قيل في اللہ تعالی: هو حَكِيم «2» ، فمعناه بخلاف معناه إذا وصف به غيره، ومن هذا الوجه قال اللہ تعالی: أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین/ 8] ، وإذا وصف به القرآن فلتضمنه الحکمة، نحو : الر تِلْكَ آياتُ الْكِتابِ الْحَكِيمِ [يونس/ 1] ( ح ک م ) الحکمتہ کے معنی علم وعقل کے ذریعہ حق بات دریافت کرلینے کے ہیں ۔ لہذا حکمت الہی کے معنی اشیاء کی معرفت اور پھر نہایت احکام کے ساتھ انکو موجود کرتا ہیں اور انسانی حکمت موجودات کی معرفت اور اچھے کو موں کو سرانجام دینے کا نام ہے چناچہ آیت کریمہ : وَلَقَدْ آتَيْنا لُقْمانَ الْحِكْمَةَ [ لقمان/ 12] اور ہم نے لقمان کو دانائی بخشی ۔ میں حکمت کے یہی معنی مراد ہیں جو کہ حضرت لقمان کو عطا کی گئی تھی ۔ لهذا جب اللہ تعالے کے متعلق حکیم کا لفظ بولاجاتا ہے تو اس سے وہ معنی مراد نہیں ہوتے جو کسی انسان کے حکیم ہونے کے ہوتے ہیں اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے متعلق فرمایا ہے ۔ أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین/ 8] کیا سب سے بڑا حاکم نہیں ہے ؟

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣٧ { وَلَہُ الْکِبْرِیَآئُ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِص وَہُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ } ” اور اسی کے لیے ہے بڑائی آسمانوں اور زمین میں۔ اور وہی ہے زبردست ‘ حکمت والا۔ “ اللہ اکبر ! یقینا اللہ سب سے بڑا ہے ! وہ آسمانوں میں بھی سب سے بڑا ہے اور وہ زمین میں بھی سب سے بڑا ہے۔ مگر زمین میں عملی طور پر اسے بڑا نہیں مانا جا رہا۔ زمین میں اللہ کے بندے اللہ سے بغاوت کرچکے ہیں۔ وہ اللہ کے قوانین کو پس پشت ڈال کر اپنی مرضی کی قانون سازی کر رہے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ کسی ملک کے عوام ہی اس کے اقتدارِ اعلیٰ (sovereignty) کے اصل مالک ہیں۔ لیکن یاد رکھیے ! ” حاکمیت “ کا یہی دعویٰ سب سے بڑا کفر اور سب سے بڑا شرک ہے ‘ چاہے یہ دعویٰ فردِ واحد کرے یا پوری قوم مل کر کرے۔ اس حوالے سے بائبل میں موجود Lord&s Prayer کے یہ الفاظ بہت اہم ہیں۔ اس دعا میں اسی دعوے کو ختم کرنے ‘ اسی کفر و شرک کو مٹانے اور آسمانوں کی طرح زمین پر بھی اللہ کی مرضی نافذ کرنے کا ذکر ہے : Thy Kingdom come Thy will be done on Earth As it is in Heavens کہ اے اللہ ! تیری بادشاہت آئے۔ تیری مرضی جیسے آسمانوں میں پوری ہو رہی ہے ویسے ہی زمین پر بھی پوری ہو۔ آسمانوں کی مخلوق تو تیرے احکام کو من و عن تسلیم کرتی ہے۔ سورج تیری مرضی کے مطابق رواں دواں ہے۔ چاند تیرے حکم کا تابع ہے اور تمام کہکشائیں تیری مشیت کے سامنے سرنگوں ہیں ‘ لیکن ایک زمین ہے کہ جس کے بحر و بر کو انسان نے اپنے کرتوتوں کے سبب فساد سے بھر دیا ہے : { ظَہَرَ الْفَسَادُ فِی الْْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ } (الروم : ٤١) … اس لیے ضروری ہے کہ اللہ کی مرضی جیسے آسمانوں پر نافذ ہے ویسے ہی زمین پر بھی نافذ ہو۔ زمین پر بھی اللہ کے حکم کو سپریم لاء کا درجہ حاصل ہو۔ اسی قانون کے مطابق فیصلے ہوں۔ اسی کیفیت کا نام ” اقامت دین “ ہے ‘ جس کے لیے ” تنظیم اسلامی “ جدوجہد میں مصروف ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(45:37) ولہ الکبریا فی السموت والارض : واؤ عاطفہ ہے لہ میں لام تخصیص و حصر کے لئے ہے اور لہ کی تقدیم نے اس میں مزید تاکید پیدا کردی ہے۔ یعنی کبریائی صرف اسی ایک خدائے وحدہ لاشریک کی ہے کوئی اور اس میں شریک نہیں نہ آسمانوں میں اور نہ زمین میں۔ الکبریاء اسم مصدر۔ ہر ایک کی اطاعت سے بالاتر ہونا۔ سب پر فوقیت اور بزرگی رکھنا۔ (لغات القرآن) العظمۃ والملک (عظمت و سلطنت) ابن الاثیر۔ اس جملہ کی تشریح میں امام راغب اصفہانی (رح) لکھتے ہیں :۔ اور آسمانوں اور زمین میں اس کے لئے بڑائی ہے اور اس کا ثبوت اس حدیث قدسی سے بھی ملتا ہے جس میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں الکبریاء ردائی والعظمۃ ازاری فمن ناز غنی فی واحد منھما قصمتہ۔ (کبریائی میری رداء ہے اور عظمت میری چادر ہے جو شخص ان دونوں میں سے کسی ایک میں میرے ساتھ مزاحم ہوگا تو میں اس کی گردن توڑ دوں گا۔ اور قرآن میں ہے :۔ قالوا اجئتنا لتلفتنا عما وجدنا علیہ اباء نا وتکون لکما الکبریاء فی الارض (10:78) وہ بولے کیا تم ہمارے پاس اس لئے آئے ہو کہ جس (راہ) پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے اس سے ہم کو پھیر دو ۔ اور اس ملک مین تم دونوں کی سرداری ہوجائے ۔ ایک شاعر نے کہا ہے :۔ مر اورا رسد کبریا ومنی کہ ملکش قدیم است وذاتش غنی العزیز غالب ، زبردست، قوی، عزۃ سے فعیل کے وزن پر بمعنی فاعل مبالغہ کا صیغہ ہے۔ الحکیم : حکمت والا۔ بروزن فعیل صفت مشبہ کا صیغہ ہے۔ ہر دونوں اللہ کے اسماء حسنی میں سے ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 یعنی کوئی اس کے برابر کا نہیں ہے وہ سب سے بڑا ہے۔ صحیح حدیث ہیں ہے کہ ” اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بزرگی میری ازار ہے اور بڑائی میری چادر جو شخص ان میں سے کوئی چیز مجھ سے چھیننا چاہے گا اسے میں دوزخ میں ٹھہرائوں گا۔ (بحوالہ صحیح مسلم)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(37) اور اسی کی بزرگی اور بڑائی ہے آسمانوں میں اور زمین میں اور وہی کمال قوت اور کمال حکمت کا مالک ہے۔ یعنی آسمانوں میں اور زمین میں اسی کی بڑائی اور اسی کی بزرگی کا ظہور ہورہا ہے وہ زبردست قوت والا ہے انتقام لینے میں اور اپنے احکام کی حکمت اور مصالح کو خوب جانتا ہے۔ تم تفسیر سورة الجاثیہ