Surat ul Ehkaaf

Surah: 46

Verse: 17

سورة الأحقاف

وَ الَّذِیۡ قَالَ لِوَالِدَیۡہِ اُفٍّ لَّکُمَاۤ اَتَعِدٰنِنِیۡۤ اَنۡ اُخۡرَجَ وَ قَدۡ خَلَتِ الۡقُرُوۡنُ مِنۡ قَبۡلِیۡ ۚ وَ ہُمَا یَسۡتَغِیۡثٰنِ اللّٰہَ وَیۡلَکَ اٰمِنۡ ٭ۖ اِنَّ وَعۡدَ اللّٰہِ حَقٌّ ۚ ۖ فَیَقُوۡلُ مَا ہٰذَاۤ اِلَّاۤ اَسَاطِیۡرُ الۡاَوَّلِیۡنَ ﴿۱۷﴾

But one who says to his parents, "Uff to you; do you promise me that I will be brought forth [from the earth] when generations before me have already passed on [into oblivion]?" while they call to Allah for help [and to their son], "Woe to you! Believe! Indeed, the promise of Allah is truth." But he says, "This is not but legends of the former people" -

اور جس نے اپنے ماں باپ سے کہا کہ تم سے میں تنگ آگیا ، تم مجھ سے یہ کہتے رہو گے کہ میں مرنے کے بعد پھر زندہ کیا جاؤں گا مجھ سے پہلے بھی امتیں گزر چکی ہیں وہ دونوں جناب باری میں فریادیں کرتے ہیں اور کہتے ہیں تجھے خرابی ہو تو ایمان لے آ ، بیشک اللہ کا وعدہ حق ہے ، وہ جواب دیتا ہے کہ یہ تو صرف اگلوں کے افسانے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Mention of the Undutiful Children and Their End In the previous Ayat, Allah mentions the dutiful offspring who supplicate for their parents and treat them with kindness. He describes the success and salvation He has prepared for them. Here He connects to that discussion the situation of the wretched offspring who are undutiful toward their parents. Allah says, وَالَّذِي قَالَ لِو... َالِدَيْهِ أُفٍّ لَّكُمَا ... But he who says to his parents: "Uff to you! ..." As for the saying "Uff" in this Ayah, it is a general description applying to anyone who says it to his parents. Some people claim that it was revealed about Abdur-Rahman bin Abi Bakr. But this claim is weak and rejected, because Abdur-Rahman bin Abi Bakr embraced Islam after this was revealed. His adherence to Islam was excellent, and he was among the best of his contemporaries. Al-Bukhari recorded from Yusuf bin Mahak that; Marwan (bin Al-Hakam) was governor of Hijaz (Western Arabia), appointed by Mu`awiyah bin Abi Sufyan. He (Marwan) delivered a speech in which he mentioned Yazid bin Mu`awiyah and urged the people to give a pledge of allegiance after his father. Abdur-Rahman bin Abi Bakr said something to him in response to that, upon which Marwan commanded his men: "Arrest him!" But he entered Aishah's house, and they were not able to capture him. Marwan then said: "This is the one about whom Allah revealed: وَالَّذِي قَالَ لِوَالِدَيْهِ أُفٍّ لَّكُمَا أَتَعِدَانِنِي أَنْ أُخْرَجَ وَقَدْ خَلَتْ الْقُرُونُ مِن قَبْلِي ... But he who says to his parents: "Uff to you! Do you promise me that I will be raised -- when generations before me have passed?" From behind the curtain, Aishah responded: "Allah did not reveal any Qur'an in our regard (i.e. the children of Abu Bakr), except for the declaration of my innocence." In another report recorded by An-Nasa'i, Muhammad bin Ziyad reported that; when Mu`awiyah was soliciting people to pledge allegiance to his son, and Marwan declared: "This follows the tradition of Abu Bakr and `Umar." On hearing this, Abdur-Rahman bin Abi Bakr said: "Rather, this is the tradition of Heraclius and Caesar." Marwan responded: "This is the one about whom Allah revealed, وَالَّذِي قَالَ لِوَالِدَيْهِ أُفٍّ لَّكُمَا (But he who says to his parents: "Uff to you!")" When that was conveyed to A'ishah, she said: "Marwan is lying! By Allah, that was not revealed about him. If I wish to name the person meant by it, I could. On the other hand, Allah's Messenger placed a curse on Marwan's father (Al- Hakam bin Abi Al-`As when Marwan was still in his loins, so Marwan (bin Al-Hakam) is an outcome of Allah's curse." As for Allah's statement: ... أَتَعِدَانِنِي أَنْ أُخْرَجَ ... Do you promise me that I will be raised? meaning, resurrected. ... وَقَدْ خَلَتْ الْقُرُونُ مِن قَبْلِي ... when generations before me have passed, meaning, generations of people have already passed away, and none of them has ever returned to tell (what happened to them) . ... وَهُمَا يَسْتَغِيثَانِ اللَّهَ ... While they invoke Allah for help, meaning, they ask Allah to guide him, and they say to their son, ... وَيْلَكَ امِنْ إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقّفَيَقُولُ مَا هَذَا إِلاَّ أَسَاطِيرُ الاَْوَّلِينَ "Woe to you! Believe! Verily, the promise of Allah is true." But he says: "This is nothing but the legends of the ancient." Allah then says, أُوْلَيِكَ الَّذِينَ حَقَّ عَلَيْهِمُ الْقَوْلُ فِي أُمَمٍ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِم مِّنَ الْجِنِّ وَالاِْنسِ إِنَّهُمْ كَانُوا خَاسِرِينَ   Show more

اس دنیا کے طالب آخرت سے محروم ہوں گے چونکہ اوپر ان لوگوں کا حال بیان ہوا تھا جو اپنے ماں باپ کے حق میں نیک دعائیں کرتے ہیں اور ان کی خدمتیں کرتے رہتے ہیں اور ساتھ ہی ان کے اخروی درجات کا اور وہاں نجات پانے اور اپنے رب کی نعمتوں سے مالا مال ہونے کا ذکر ہوا تھا ۔ اس لئے اس کے بعد ان بدبختوں کا بیان...  ہو رہا ہے جو اپنے ماں باپ کے نافرمان ہیں انہیں باتیں سناتے ہیں بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ آیت حضرت ابو بکر صدیق کے صاحبزادے حضرت عبدالرحمن کے حق میں نازل ہوئی ہے جیسے کہ عوفی بروایت ابن عباس بیان کرتے ہیں جس کی صحت میں بھی کلام ہے اور جو قول نہایت کمزور ہے اس لئے کہ حضرت عبدالرحمن بن ابو بکر تو مسلمان ہوگئے تھے اور بہت اچھے اسلام والوں میں سے تھے بلکہ اپنے زمانے کے بہترین لوگوں میں سے تھے بعض اور مفسرین کا بھی یہ قول ہے لیکن ٹھیک یہی ہے کہ یہ آیت عام ہے ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ مروان نے اپنے خطبہ میں کہا کہ اللہ تعالیٰ نے امیر المومنین کو یزید کے بارے میں ایک اچھی رائے سمجھائی ہے اگر وہ انہیں اپنے بعد بطور خلیفہ کے نامزد کر جائیں تو حضرت ابو بکر اور حضرت عمر نے بھی تو اپنے بعد خلیفہ مقرر کیا ہے اس پر حضرت عبدالرحمن بن ابو بکر بول اٹھے کہ کیا ہرقل کے دستور پر اور نصرانیوں کے قانون پر عمل کرنا چاہتے ہو ؟ قسم ہے اللہ کی نہ تو خلیفہ اول نے اپنی اولاد میں سے کسی کو خلافت کے لئے منتخب کیا نہ اپنے کنبے قبیلے والوں سے کسی کو نامزد کیا اور معاویہ نے جو اسے کیا وہ صرف ان کی عزت افزائی اور ان کے بچوں پر رحم کھا کر کیا یہ سن کر مروان کہنے لگا کہ تو وہی نہیں جس نے اپنے والدین کو اف کہا تھا ؟ تو عبدالرحمن نے فرمایا کیا تو ایک ملعون شخص کی اولاد میں سے نہیں ؟ تیرے باپ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت کی تھی ۔ حضرت صدیقہ نے یہ سن کر مروان سے کہا تو نے حضرت عبدالرحمن سے جو کہا وہ بالکل جھوٹ ہے وہ آیت ان کے بارے میں نہیں بلکہ وہ فلاں بن فلاں کے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔ پھر مروان جلدی ہی منبر سے اتر کر آپ کے حجرے کے دروازے پر آیا اور کچھ باتیں کر کے لوٹ گیا بخاری میں یہ حدیث دوسری سند سے اور الفاظ کے ساتھ ہے ۔ اس میں یہ بھی ہے کہ حضرت معاویہ بن ابی سفیان کی طرف سے مروان حجاز کا امیر بنایا گیا تھا اس میں یہ بھی ہے کہ مروان نے حضرت عبدالرحمن کو گرفتار کر لینے کا حکم اپنے سپاہیوں کو دیا لیکن یہ دوڑ کر اپنی ہمشیرہ صاحبہ ام المومنین حضرت عائشہ کے حجرے میں چلے گئے اس وجہ سے انہیں کوئی پکڑ نہ سکا ۔ اور اس میں یہ بھی ہے کہ حضرت صدیقہ کبریٰ نے پردہ میں سے ہی فرمایا کہ ہمارے بارے میں بجز میری پاک دامنی کی آیتوں کے اور کوئی آیت نہیں اتری ۔ نسائی کی روایت میں ہے کہ اس خطبے سے مقصود یزید کی طرف سے بیعت حاصل کرنا تھا حضرت عائشہ کے فرمان میں یہ بھی ہے کہ مروان اپنے قول میں جھوٹا ہے جس کے بارے میں یہ آیت اتری ہے مجھے بخوبی معلوم ہے لیکن میں اس وقت اسے ظاہر کرنا نہیں چاہتی لیکن ہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مروان کے باپ کو ملعون کہا ہے اور مروان اس کی پشت میں تھا پس یہ اس اللہ تعالیٰ کی لعنت کا بقیہ ہے ۔ یہ جہاں اپنے ماں باپ کی بے ادبی کرتا ہے وہاں اللہ تعالیٰ کی بے ادبی سے بھی نہیں چوکتا مرنے کے بعد کی زندگی کو جھٹلاتا ہے اور اپنے ماں باپ سے کہتا ہے کہ تم مجھے اس دوسری زندگی سے کیا ڈراتے ہو مجھ سے پہلے سینکڑوں زمانے گزر گئے لاکھوں کروڑوں انسان مرے میں تو کسی کو دوبارہ زندہ ہوتے نہیں دیکھا ان میں سے ایک بھی تو لوٹ کر خبر دینے نہیں آیا ۔ ماں باپ بیچارے اس سے تنگ آکر جناب باری سے اس کی ہدایت چاہتے ہیں اس بارگاہ میں اپنی فریاد پہنچاتے ہیں اور پھر اس سے کہتے ہیں کہ بدنصیب ابھی کچھ نہیں بگڑا اب بھی مسلمان بن جا لیکن یہ مغرور پھر جواب دیتا ہے کہ جسے تم ماننے کو کہتے ہو میں تو اسے ایک دیرینہ قصہ سے زیادہ وقعت کی نظر سے نہیں دیکھ سکتا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ لوگ اپنے جیسے گذشتہ جنات اور انسانوں کے زمرے میں داخل ہوگئے جنہوں نے خود اپنا نقصان بھی کیا اور اپنے والوں کو بھی برباد کیا اللہ تعالیٰ کے فرمان میں یہاں لفظ ( اولئک ) ہے حالانکہ اس سے پہلے لفظ ( والذی ) ہے اس سے بھی ہماری تفسیر کی پوری تائید ہوتی ہے کہ مراد اس سے عام ہے جو بھی ایسا ہو یعنی ماں باپ کا بے ادب اور قیامت کا منکر اس کے لئے یہی حکم ہے چنانچہ حضرت حسن اور حضرت قتادہ بھی یہی فرماتے ہیں کہ اس سے مراد کافر فاجر ماں باپ کا نافرمان اور مر کر جی اٹھنے کا منکر ہے ، ابن عساکر کی ایک غریب حدیث میں ہے کہ چار شخصوں پر اللہ عزوجل نے اپنے عرش پر سے لعنت کی ہے اور اس پر فرشتوں نے آمین کہی ہے جو کسی مسکین کو بہکائے اور کہے کہ آؤ تجھے کچھ دوں گا اور جب وہ آئے تو کہدے کہ میرے پاس تو کچھ نہیں اور جو ماعون سے کہے سب حاضر ہے حالانکہ اس کے آگے کچھ نہ ہو ۔ اور وہ لوگ جو کسی کو اس کے اس سوال کے جواب میں فلاں کا مکان کونسا ہے ؟ کسی دوسرے کا مکان بتا دیں اور وہ جو اپنے ماں باپ کو مارے یہاں تک کہ تنگ آجائیں اور چیخ و پکار کرنے لگیں ۔ پھر فرماتا ہے ہر ایک کے لئے اس کی برائی کے مطابق سزا ہے اللہ تعالیٰ ایک ذرے کے برابر بلکہ اس سے بھی کم کسی پر ظلم نہیں کرتا ۔ حضرت عبدالرحمن فرماتے ہیں جہنم کے درجے نیچے ہیں اور جنت کے درجے اونچے ہیں ۔ پھر فرماتا ہے کہ جب جہنمی جہنم پر لا کھڑے کئے جائیں گے انہیں بطور ڈانٹ ڈپٹ کے کہا جائے گا کہ تم اپنی نیکیاں دنیا میں ہی وصول کر چکے ان سے فائدہ وہیں اٹھا لیا ، حضرت عمر بن خطاب نے بہت زیادہ مرغوب اور لطیف غذا سے اسی آیت کو پیش نظر رکھ کر اجتناب کر لیا تھا اور فرماتے تھے مجھے خوف ہے کہیں میں بھی ان لوگوں میں سے نہ ہو جاؤں جنہیں اللہ تعالیٰ ڈانٹ ڈپٹ کے ساتھ یہ فرمائے گا ۔ حضرت ابو جعفر فرماتے ہیں کہ بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو دنیا میں کی ہوئی اپنی نیکیاں قیامت کے دن گم پائیں گے اور ان سے یہی کہا جائے گا ۔ پھر فرماتا ہے آج انہیں ذلت کے عذابوں کی سزا دی جائے گی ان کے تکبر اور ان کے فسق کی وجہ سے جیسا عمل ویسا ہی بدلہ ملا ۔ دنیا میں یہ ناز و نعمت سے اپنی جانوں کو پالنے والے اور نخوت و بڑائی سے اتباع حق کو چھوڑنے والے اور برائیوں اور نافرمانیوں میں ہمہ تن مشغول رہنے والے تھے تو آج قیامت کے دن انہیں اہانت اور رسوائی والے عذاب اور سخت دردناک سزائیں اور ہائے وائے اور افسوس و حسرت کے ساتھ جہنم کے نیچے کے طبقوں میں جگہ ملے گی اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہمیں ان سب باتوں سے محفوظ رکھے ۔   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

17۔ 1 مذکورہ آیت میں سعادت مند اولاد کا تذکرہ تھا جو ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک بھی کرتی ہے اور ان کے حق میں دعائے خیر بھی اب اس کے مقابلے میں بدبخت اور نافرمان اولاد کا ذکر کیا جارہا ہے جو ماں باپ کے ساتھ گستاخی سے پیش آتی ہے اف لکما افسوس ہے تم پر اف کا کلمہ ناگواری کے اظہار کے لیے استعمال ہوتا ہے ... یعنی نافرمان اولاد باپ کی ناصحانہ باتوں پر یا دعوت ایمان وعمل صالح پر ناگواری اور شدت غیظ کا اظہار کرتی ہے جس کی اولاد کو قظعا اجازت نہیں ہے یہ آیت عام ہے ہر نافرمان اولاد اس کی مصداق ہے۔ 17۔ 2 مطلب ہے کہ وہ تو دوبارہ زندہ ہو کر دنیا میں نہیں آئے۔ حالانکہ دوبارہ زندہ ہونے کا مطلب قیامت والے دن زندہ ہونا ہے جس کے بعد حساب ہوگا۔ 17۔ 3 ماں باپ مسلمان ہوں اور اولاد کافر، تو وہاں اولاد اور والدین کے درمیان اسی طرح تکرار اور بحث ہوتی ہے جس کا ایک نمونہ اس آیت میں ذکر کیا گیا ہے۔   Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٦] یہ کوئی مخصوص کردار نہیں ہے۔ بلکہ مکہ میں ایسی مثالیں بھی موجود تھیں۔ بعض لوگ خود مشرک تھے اور ان کی اولاد مسلمان ہوگئی تھی اور بعض بڑے بوڑھے خود مسلمان تھے مگر ان کی نوجوان اور متکبر اولاد مشرک اور عقیدہ آخرت سے منکر تھی۔ اس آیت میں && گفتہ آید در حدیث دیگراں && کے مصداق ایسے ... ہی ایک گھرانے کا مکالمہ پیش کیا جارہا ہے۔ مشرک بیٹے کی وہی پرانی اور گھسی پٹی دلیل ہے جو کہ آخرت کے منکر عموماً جواب میں کہا کرتے ہیں کہ ہزارسال سے لوگ مرتے رہے ہیں کوئی زندہ ہو کر واپس تو آیا نہیں۔ پھر تم مجھے یہ کیسی دھمکی دیتے ہو۔ اس سوال کا جواب یہاں چھوڑ دیا گیا ہے۔ کیونکہ اکثر مقامات پر قرآن میں اس کا جواب دیا جاچکا ہے۔ [٢٧] اگر عقیدہ آخرت پرانا ہے تو اس کا جواب بھی تو اتنا ہی پرانا افسانہ ہے :۔ پہلے لوگ بھی کچھ ایسی باتیں کرتے رہے ہیں مگر آج تک چونکہ کوئی مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہو کر واپس نہیں آیا تو پھر ہم ان کی یہ بات کیسے درست تسلیم کرلیں۔ یہ تو محض پرانے افسانے ہی ہیں۔ مگر اسے یہ بات یاد نہیں رہتی کہ اگر یہ پرانے افسانے ہیں تو اس کا جواب بھی تو ویسا ہی پرانا افسانہ ہے جو آخرت کے منکر دیتے رہے ہیں۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) والذین قال لو الدیہ اف لکما :” اف “ کا لفظ اکتاہٹ اور تنگ پڑجانے کے موقع پر بولا جاتا ہے۔ پچھلی آیت میں ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرنے والی سعادت مند مومن اولاد کا اور ان کے حسن انجام کا ذکر تھا، اس آیت میں ان کے مقابلے میں اس بدبخت اور نافرمان اولاد کا اور ان کے برے انجام کا ذکر ہے جس کے والدین ... مومن ہیں اور وہ اس کی کوشش میں ہیں کہ ان کی اولاد ایمان لے آئے، مگر ان کی اولاد اس دعوت پر شدید اکتاہٹ کا اظہار کرتے ہئے انہیں کہتی ہے، تم دونوں کے لئے ’ اف “ ہے، تم نے مجھے تنگ کردیا۔ مکہ میں ایسے بہت سے خاندان تھے جن میں والدین ایمان لے ائٓے تھے مگر اولاد مشرک اور قیامت کی منکر تھی، یا اولاد ایمان لے آئی تھی اور والدین مشرک تھے۔ (٢) اتعدنی ان اخرج و قد خلت القرون من قبلی : کیا تم مجھے ڈراتے ہو کہ مجھے دوبارہ قبر سے زندہ کرکے نکالا جائے گا جب میں مٹی اور ہڈیوں کی صورت ہوچکا ہوں گا ؟ حالانکہ مجھ سے پہلے صدیاں گزر چکیں، آج تک کوئی واپس نہیں آیا۔ یہاں اس بدبخت کی اس بات کا جواب ذکر نہیں فرمایا : کیونکہ قرآن مجید میں بہت سے مقامات پر اس کا جواب آچکا ہے۔ (٣) وھما یستغیثن اللہ : اور وہ دونوں اس کی اتنی گستاخانہ اور کفریہ بات کے شر سے پناہ مانگنے کے لئے فریاد کرتے ہیں کہ یا اللہ چ ہمیں اس کے شر سے بچا اور اسے ہدایت دے۔ (٤) ویلک امن ، ان وعد اللہ حق :’ ویلک “ کا لفظ اگرچہ بد دعا ہے، مگر بعض دفعہ اسے نہایت محبت و شفقت اور درد مندی کے اظہار کے لئے بولا جاتا ہے، جیسے ” ثکلتک الثواکل “ (تجھے گم کرنے والیاں گم پائیں۔ ) یعنی ماں باپ اسے سمجھاتے ہوئے کہتے ہیں، ت یرا ستیاناس ہو، ایمان لے آ اور آخرت کا انکار نہ کر، کیونکہ اللہ کا وعدہ سچا ہے، مگر وہ نہایت نفرت کے ساتھ انہیں جھڑک دیتا ہے۔ (٥) فیقول ماھذا الا اساطیر الاولین : اس کی تفصیل کے لئے دیکھیے سورة انفال (٣١) ، مومنون (٨٣) اور نمل (٦٨) ۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

وَالَّذِي قَالَ لِوَالِدَيْهِ أُفٍّ لَّكُمَا (And, [ contrary to this is the case on the one who said to his parents, &Fie upon you both!& - 46:17). The previous verse has laid down the order to serve and obey the parents; this verse announces punishment for one who maltreats his parents and is impertinent to them, especially when they are calling him towards Islam and virtuous deeds, be... cause rejecting their call is a double sin. Ibn Kathir has said that the verse is general and applies to anyone who maltreats his parents. Marwan&s saying, in one of his addresses, that this verse holds true for ` Abdur Rahman Ibn Abi Bakr (رض) has been contradicted by Sayyidah ` A&ishah (رض) ، as narrated in Sahih of Bukhari. The fact of the matter is that the verse is general in sense, and there is no correct narration which states this verse to hold true for a particular person.  Show more

(آیت) وَالَّذِيْ قَالَ لِوَالِدَيْهِ اُفٍّ لَّكُمَآ سابقہ آیت میں والدین کی خدمت و اطاعت کے احکام تھے اس آیت میں اس شخص کا عذاب و سزا مذکور ہے جو اپنے والدین کے ساتھ بدسلوکی، بدزبانی سے پیش آئے، خصوصاً جبکہ والدین اس کو اسلام اور اعمال صالحہ کی طرف دعوت دیتے ہوں ان کی بات نہ ماننا دوہرا گناہ ہے۔ اب... ن کثیر نے فرمایا کہ مفہوم آیت کا عام ہے جو شخص بھی اپنے والدین کے ساتھ بدسلوکی سے پیش آئے وہ اس کا مصداق ہے۔ مروان نے جو اس آیت کا مصداق حضرت عبدالرحمٰن بن ابی بکر کو اپنے کسی خطبے میں کہا تھا اس کی تکذیب صحیح بخاری میں حضرت عائشہ سے منقول ہے۔ صحیح بات یہی ہے کہ مفہوم آیت کا عام ہے کسی صحیح روایت میں کسی فرد کا مصداق آیت ہونا منقول نہیں۔   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَالَّذِيْ قَالَ لِوَالِدَيْہِ اُفٍّ لَّكُمَآ اَتَعِدٰنِـنِيْٓ اَنْ اُخْرَجَ وَقَدْ خَلَتِ الْقُرُوْنُ مِنْ قَبْلِيْ۝ ٠ ۚ وَہُمَا يَسْتَغِيْثٰنِ اللہَ وَيْلَكَ اٰمِنْ۝ ٠ ۤ ۖ اِنَّ وَعْدَ اللہِ حَقٌّ۝ ٠ ۚ ۖ فَيَقُوْلُ مَا ھٰذَآ اِلَّآ اَسَاطِيْرُ الْاَوَّلِيْنَ۝ ١٧ أفّ أصل الأُفِّ : كل مستقذر من وسخ ... وقلامة ظفر وما يجري مجراها، ويقال ذلک لکل مستخف به استقذارا له، نحو : أُفٍّ لَكُمْ وَلِما تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ [ الأنبیاء/ 67] ، وقد أَفَّفْت لکذا : إذا قلت ذلک استقذارا له، ومنه قيل للضجر من استقذار شيء : أفّف فلان . ( ا ف ف ) الاف ۔ اصل میں ہر گندی اور قابل نفرت چیز کو کہتے ہیں میل کچیل اور ناخن کا تراشہ وغیرہ اور محاورہ میں کسی بری چیز سے اظہار نفرت کے لئے یہ لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ؛ { أُفٍّ لَكُمْ وَلِمَا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ } [ الأنبیاء : 67] تف ہے تم پر اور جنہیں تم خدا کے سوا پوجتے ہو ان پر بھی ۔ اففت لکذا کسی چیز سے کراہت ظاہر کرنا اف کہنا ۔ اسی سے افف فلان کا محاورہ ہے ۔ جس کے معنی کسی مکروہ چیز سے دل برداشتگی کا اظہار کرنے کے ہیں ۔ وعد الوَعْدُ يكون في الخیر والشّرّ. يقال وَعَدْتُهُ بنفع وضرّ وَعْداً ومَوْعِداً ومِيعَاداً ، والوَعِيدُ في الشّرّ خاصّة . يقال منه : أَوْعَدْتُهُ ، ويقال : وَاعَدْتُهُ وتَوَاعَدْنَا . قال اللہ عزّ وجلّ : إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم/ 22] ، أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص/ 61] ، ( وع د ) الوعد ( وعدہ کرنا ) کا لفظ خیر وشر یعنی اچھے اور برے ( وعدہ دونوں پر بولا جاتا ہے اور اس معنی میں استعمال ہوتا ہے مگر الوعید کا لفظ خاص کر شر ( یعنی دھمکی اور تہدید ) کے لئے بولا جاتا ہے ۔ اور اس معنی میں باب اوعد ( توقد استعمال ہوتا ہے ۔ اور واعدتہ مفاعلۃ ) وتوا عدنا ( تفاعل ) کے معنی باہم عہدو پیمان کر نا کے ہیں ( قرآن کریم میں ودع کا لفظ خيٰر و شر دونوں کے لئے استعمال ہوا ہے ( چناچہ وعدہ خیر کے متعلق فرمایا إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم/ 22] جو ودعے خدا نے تم سے کیا تھا وہ تو سچا تھا ۔ أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص/ 61] بھلا جس شخص سے ہم نے نیک وعدہ کیا ۔ خرج خَرَجَ خُرُوجاً : برز من مقرّه أو حاله، سواء کان مقرّه دارا، أو بلدا، أو ثوبا، وسواء کان حاله حالة في نفسه، أو في أسبابه الخارجة، قال تعالی: فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص/ 21] ، ( خ رج ) خرج ۔ ( ن) خروجا کے معنی کسی کے اپنی قرار گاہ یا حالت سے ظاہر ہونے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ قرار گاہ مکان ہو یا کوئی شہر یا کپڑا ہو اور یا کوئی حالت نفسانی ہو جو اسباب خارجیہ کی بنا پر اسے لاحق ہوئی ہو ۔ قرآن میں ہے ؛ فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص/ 21] موسٰی وہاں سے ڈرتے نکل کھڑے ہوئے کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔ خلا الخلاء : المکان الذي لا ساتر فيه من بناء ومساکن وغیرهما، والخلوّ يستعمل في الزمان والمکان، لکن لما تصوّر في الزمان المضيّ فسّر أهل اللغة : خلا الزمان، بقولهم : مضی الزمان وذهب، قال تعالی: وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدخَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ [ آل عمران/ 144] ( خ ل و ) الخلاء ۔ خالی جگہ جہاں عمارت و مکان وغیرہ نہ ہو اور الخلو کا لفظ زمان و مکان دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ چونکہ زمانہ میں مضی ( گذرنا ) کا مفہوم پایا جاتا ہے اس لئے اہل لغت خلاالزفان کے معنی زمانہ گزر گیا کرلیتے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْخَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ [ آل عمران/ 144] اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) تو صرف ( خدا کے ) پیغمبر ہیں ان سے پہلے بھی بہت سے پیغمبر ہوگزرے ہیں ۔ قرن والقَرْنُ : القوم المُقْتَرِنُونَ في زمن واحد، وجمعه قُرُونٌ. قال تعالی: وَلَقَدْ أَهْلَكْنَا الْقُرُونَ مِنْ قَبْلِكُمْ [يونس/ 13] ، ( ق ر ن ) قرن ایک زمانہ کے لوگ یا امت کو قرن کہا جاتا ہے اس کی جمع قرون ہے قرآن میں ہے : ۔ وَلَقَدْ أَهْلَكْنَا الْقُرُونَ مِنْ قَبْلِكُمْ [يونس/ 13] اور تم سے پہلے ہم کئی امتوں کو ۔ ہلاک کرچکے ہیں غوث ( استغاث) الغَوْثُ يقال في النّصرة، والغَيْثُ في المطر، واسْتَغَثْتُهُ : طلبت الغوث أو الغیث، فَأَغَاثَنِي من الغوث، وغَاثَنِي من الغیث، وغَوَّثت من الغوث، قال تعالی: إِذْ تَسْتَغِيثُونَ رَبَّكُمْ [ الأنفال/ 9] ، وقال : فَاسْتَغاثَهُ الَّذِي مِنْ شِيعَتِهِ عَلَى الَّذِي مِنْ عَدُوِّهِ [ القصص/ 15] ، وقوله : وَإِنْ يَسْتَغِيثُوا يُغاثُوا بِماءٍ كَالْمُهْلِ [ الكهف/ 29] ، فإنّه يصحّ أن يكون من الغیث، ويصحّ أن يكون من الغوث، وکذا يُغَاثُوا، يصحّ فيه المعنیان . والغيْثُ : المطر في قوله : كَمَثَلِ غَيْثٍ أَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَباتُهُ [ الحدید/ 20] ، قال الشاعر : سمعت النّاس ينتجعون غيثا ... فقلت لصیدح انتجعي بلالا ( غ و ث) الغوث کے معنی مدد اور الغیث کے معنی بارش کے ہیں اور استغثتہ ض ( استفعال ) کے معنی کسی کو مدد کے لیے پکارنے یا اللہ تعالیٰ سے بارش طلب کرنا آتے ہیں جب کہ اس معنی مدد طلب کرنا ہو تو اس کا مطاوع اغاثنی آئیگا مگر جب اس کے معنی بارش طلب کرنا ہو تو اس کا مطاوع غاثنی آتا ہے اور غوثت میں نے اس کی مدد کی یہ بھی غوث سے مشتق ہے جس کے معنی مدد ہیں قرآن پاک میں ہے :إِذْ تَسْتَغِيثُونَ رَبَّكُمْ [ الأنفال/ 9] جب تم اپنے پروردگار سے فریاد کرتے تھے ۔ فَاسْتَغاثَهُ الَّذِي مِنْ شِيعَتِهِ عَلَى الَّذِي مِنْ عَدُوِّهِ [ القصص/ 15] تو جو شخص ان کی قوم میں سے تھا اس نے دوسرے شخص کے مقابلے میں جو موسیٰ کے دشمنوں میں سے تھا ، موسیٰ سے مدد طلب کی ۔ اور آیت کر یمہ ؛وَإِنْ يَسْتَغِيثُوا يُغاثُوا بِماءٍ كَالْمُهْلِ [ الكهف/ 29] اور اگر فریاد کریں گے تو ایسے کھولتے ہوئے پانی سے ان کی دادرسی کی جائے گی جو پگھلے ہوئے تانبے کی طرح گرم ہوگا ۔ میں یستغیثوا غوث ( مدد ما نگنا) سے بھی ہوسکتا ہے ۔ اور غیث ( پانی مانگنا ) سے بھی اسی طرح یغاثوا ( فعل مجہول ) کے بھی دونوں معنی ہوسکتے ہیں ( پہلی صورت میں یہ اغاث یعنی ( باب افعال ) سے ہوگا دوسری صورت میں غاث ، یغیث سے اور آیت کریمہ : كَمَثَلِ غَيْثٍ أَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَباتُهُ [ الحدید/ 20] جیسے بارش کہ اس سے کھیتی اگتی اور کسانوں کو کھیتی بھلی لگتی ہے ۔ میں غیث کے معنی بارش ہیں چناچہ کو شاعر نے کہا ہے ۔ (332) سمعت الناس ینتجعون غیثا فقلت لصیدح انتجعی بلالا میں نے سنا ہے کہ لوگ بارش کے مواضع تلاش کرتے ہیں تو میں نے اپنی اونٹنی صیدح سے کہا تم بلال کی تلاش کرو ۔ ويل قال الأصمعيّ : وَيْلٌ قُبْحٌ ، وقد يستعمل علی التَّحَسُّر . ووَيْسَ استصغارٌ. ووَيْحَ ترحُّمٌ. ومن قال : وَيْلٌ وادٍ في جهنّم، قال عز وجل : فَوَيْلٌ لَهُمْ مِمَّا كَتَبَتْ أَيْدِيهِمْ وَوَيْلٌ لَهُمْ مِمَّا يَكْسِبُونَ [ البقرة/ 79] ، وَوَيْلٌ لِلْكافِرِينَ [إبراهيم/ 2] وَيْلٌ لِكُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ [ الجاثية/ 7] ، فَوَيْلٌ لِلَّذِينَ كَفَرُوا [ مریم/ 37] ، فَوَيْلٌ لِلَّذِينَ ظَلَمُوا [ الزخرف/ 65] ، وَيْلٌ لِلْمُطَفِّفِينَ [ المطففین/ 1] ، وَيْلٌ لِكُلِّ هُمَزَةٍ [ الهمزة/ 1] ، يا وَيْلَنا مَنْ بَعَثَنا[يس/ 52] ، يا وَيْلَنا إِنَّا كُنَّا ظالِمِينَ [ الأنبیاء/ 46] ، يا وَيْلَنا إِنَّا كُنَّا طاغِينَ [ القلم/ 31] . ( و ی ل ) الویل اصمعی نے کہا ہے کہ ویل برے مونیں میں استعمال ہوتا ہے اور حسرت کے موقع پر ویل اور تحقیر کے لئے ویس اور ترحم کے ویل کا لفظ استعمال ہوتا ہے ۔ اور جن لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ ویل جہنم میں ایک وادی کا نام ہے۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَوَيْلٌ لَهُمْ مِمَّا كَتَبَتْ أَيْدِيهِمْ وَوَيْلٌ لَهُمْ مِمَّا يَكْسِبُونَ [ البقرة/ 79] ان پر افسوس ہے اس لئے کہ بےاصل باتیں اپنے ہاتھ سے لکھتے ہیں اور پھر ان پر افسوس ہے اس لئے کہ ایسے کام کرتے ہیں وَوَيْلٌ لِلْكافِرِينَ [إبراهيم/ 2] اور کافروں کے لئے سخت عذاب کی جگہ خرابی ہے ۔ ۔ فَوَيْلٌ لِلَّذِينَ ظَلَمُوا [ الزخرف/ 65] سو لوگ ظالم ہیں ان کی خرابی ہے ۔ وَيْلٌ لِلْمُطَفِّفِينَ [ المطففین/ 1] ناپ تول میں کمی کر نیوالا کے لئے کر ابی ہے ۔ وَيْلٌ لِكُلِّ هُمَزَةٍ [ الهمزة/ 1] ہر طعن آمیز اشارتیں کرنے والے چغلخور کی خرابی ہے ۔ يا وَيْلَنا مَنْ بَعَثَنا[يس/ 52]( اے ہے) ہماری خواب گا ہوں سے کسی نے ( جگا ) اٹھایا ۔ يا وَيْلَنا إِنَّا كُنَّا ظالِمِينَ [ الأنبیاء/ 46] ہائے شامت بیشک ہم ظالم تھے ۔ يا وَيْلَنا إِنَّا كُنَّا طاغِينَ [ القلم/ 31] ہائے شامت ہم ہی حد سے گبڑھ گئے تھے ۔ حقَ أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة . والحقّ يقال علی أوجه : الأول : يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس/ 32] . والثاني : يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] ، والثالث : في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] . والرابع : للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا : فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] ( ح ق ق) الحق ( حق ) کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔ (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔ قول القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ، ( ق و ل ) القول القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ ما مَا في کلامهم عشرةٌ: خمسة أسماء، وخمسة حروف . فإذا کان اسما فيقال للواحد والجمع والمؤنَّث علی حدّ واحد، ويصحّ أن يعتبر في الضّمير لفظُه مفردا، وأن يعتبر معناه للجمع . فالأوّل من الأسماء بمعنی الذي نحو : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس/ 18] ثمّ قال : هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس/ 18] لمّا أراد الجمع، وقوله : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل/ 73] ، فجمع أيضا، وقوله : بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة/ 93] . الثاني : نكرة . نحو : نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء/ 58] أي : نعم شيئا يعظکم به، وقوله : فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة/ 271] فقد أجيز أن يكون ما نكرة في قوله : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها [ البقرة/ 26] ، وقد أجيز أن يكون صلة، فما بعده يكون مفعولا . تقدیره : أن يضرب مثلا بعوضة «1» . الثالث : الاستفهام، ويسأل به عن جنس ذات الشیء، ونوعه، وعن جنس صفات الشیء، ونوعه، وقد يسأل به عن الأشخاص، والأعيان في غير الناطقین . وقال بعض النحويين : وقد يعبّر به عن الأشخاص الناطقین کقوله تعالی: إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون/ 6] ، إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت/ 42] وقال الخلیل : ما استفهام . أي : أيّ شيء تدعون من دون اللہ ؟ وإنما جعله كذلك، لأنّ «ما» هذه لا تدخل إلّا في المبتدإ والاستفهام الواقع آخرا . الرّابع : الجزاء نحو : ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ الآية [ فاطر/ 2] . ونحو : ما تضرب أضرب . الخامس : التّعجّب نحو : فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة/ 175] . وأمّا الحروف : فالأوّل : أن يكون ما بعده بمنزلة المصدر كأن الناصبة للفعل المستقبَل . نحو : وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة/ 3] فإنّ «ما» مع رَزَقَ في تقدیر الرِّزْق، والدّلالة علی أنه مثل «أن» أنه لا يعود إليه ضمیر لا ملفوظ به ولا مقدّر فيه، وعلی هذا حمل قوله : بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة/ 10] ، وعلی هذا قولهم : أتاني القوم ما عدا زيدا، وعلی هذا إذا کان في تقدیر ظرف نحو : كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة/ 20] ، كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة/ 64] ، كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء/ 97] . وأما قوله : فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر/ 94] فيصحّ أن يكون مصدرا، وأن يكون بمعنی الذي «3» . واعلم أنّ «ما» إذا کان مع ما بعدها في تقدیر المصدر لم يكن إلّا حرفا، لأنه لو کان اسما لعاد إليه ضمیر، وکذلک قولک : أريد أن أخرج، فإنه لا عائد من الضمیر إلى أن، ولا ضمیر لهابعده . الثاني : للنّفي وأهل الحجاز يعملونه بشرط نحو : ما هذا بَشَراً [يوسف/ 31] «1» . الثالث : الکافّة، وهي الدّاخلة علی «أنّ» وأخواتها و «ربّ» ونحو ذلك، والفعل . نحو : إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] ، إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران/ 178] ، كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال/ 6] وعلی ذلك «ما» في قوله : رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر/ 2] ، وعلی ذلك : قَلَّمَا وطَالَمَا فيما حكي . الرابع : المُسَلِّطَة، وهي التي تجعل اللفظ متسلِّطا بالعمل، بعد أن لم يكن عاملا . نحو : «ما» في إِذْمَا، وحَيْثُمَا، لأنّك تقول : إذما تفعل أفعل، وحیثما تقعد أقعد، فإذ وحیث لا يعملان بمجرَّدهما في الشّرط، ويعملان عند دخول «ما» عليهما . الخامس : الزائدة لتوکيد اللفظ في قولهم : إذا مَا فعلت کذا، وقولهم : إمّا تخرج أخرج . قال : فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم/ 26] ، وقوله : إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما[ الإسراء/ 23] . ( ما ) یہ عربی زبان میں دو قسم پر ہے ۔ اسمی اور حر فی پھر ہر ایک پانچ قسم پر ہے لہذا کل دس قسمیں ہیں ( 1 ) ما اسمی ہو تو واحد اور تذکیر و تانیث کے لئے یکساں استعمال ہوتا ہے ۔ پھر لفظا مفرد ہونے کے لحاظ سے اس کی طرف ضمیر مفرد بھی لوٹ سکتی ہے ۔ اور معنی جمع ہونے کی صورت میں ضمیر جمع کا لانا بھی صحیح ہوتا ہے ۔ یہ ما کبھی بمعنی الذی ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس/ 18] اور یہ ( لوگ ) خدا کے سوا ایسی چیزوں کی پر ستش کرتے ہیں جو نہ ان کا کچھ بگاڑ سکتی ہیں ۔ تو یہاں ما کی طرف یضر ھم میں مفرد کی ضمیر لوٹ رہی ہے اس کے بعد معنی جمع کی مناسب سے هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس/ 18] آگیا ہے اسی طرح آیت کریمہ : ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل/ 73] اور خدا کے سوا ایسوں کو پوجتے ہیں جوان کو آسمانوں اور زمین میں روزیدینے کا ذرہ بھی اختیار نہیں رکھتے میں بھی جمع کے معنی ملحوظ ہیں اور آیت کریمہ : ۔ بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة/ 93] کہ تمہارا ایمان تم کو بری بات بتاتا ہے ۔ میں بھی جمع کے معنی مراد ہیں اور کبھی نکرہ ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء/ 58] بہت خوب نصیحت کرتا ہے ۔ تو یہاں نعما بمعنی شیئا ہے نیز فرمایا : ۔ فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة/ 271] تو وہ بھی خوب ہیں ایت کریمہ : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة/ 26] کہ مچھر یا اس سے بڑھ کر کیس چیز کی میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما نکرہ بمعنی شیاء ہو اور یہ بھی کہ ماصلہ ہو اور اس کا ما بعد یعنی بعوضۃ مفعول ہو اور نظم کلام دراصل یوں ہو أن يضرب مثلا بعوضة اور کبھی استفھا فیہ ہوتا ہے اس صورت میں کبھی کبھی چیز کی نوع یا جنس سے سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی کسی چیز کی صفات جنسیہ یا نوعیہ کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی غیر ذوی العقول اشخاص اور اعیان کے متعلق سوال کے لئے بھی آجاتا ہے ۔ بعض علمائے نحو کا قول ہے کہ کبھی اس کا اطلاق اشخاص ذوی العقول پر بھی ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون/ 6] مگر ان ہی بیویوں یا ( کنیزوں سے ) جو ان کی ملک ہوتی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت/ 42] جس چیز کو خدا کے سوا پکارتے ہیں خواہ وہ کچھ ہی ہو خدا اسے جانتا ہے ۔ میں خلیل نے کہا ہے کہ ماتدعون میں ما استفہامیہ ہے ای شئی تدعون من دون اللہ اور انہوں نے یہ تکلف اس لئے کیا ہے کہ یہ ہمیشہ ابتداء کلام میں واقع ہوتا ہے اور مابعد کے متعلق استفہام کے لئے آتا ہے ۔ جو آخر میں واقع ہوتا ہے جیسا کہ آیت : ۔ ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُالآية [ فاطر/ 2] خدا جو اپنی رحمت کا در وازہ کھول دے اور مثال ماتضرب اضرب میں ہے ۔ اور کبھی تعجب کے لئے ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة/ 175] یہ ( آتش جہنم کیسی بر داشت کرنے والے ہیں ۔ ما حرفی ہونے کی صورت میں بھی پانچ قسم پر ہے اول یہ کہ اس کا بعد بمنزلہ مصدر کے ہو جیسا کہ فعل مستقبل پر ان ناصبہ داخل ہونے کی صورت میں ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة/ 3] اور جو کچھ ہم نے انہیں عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔ تو یہاں ما رزق بمعنی رزق مصدر کے ہے اور اس ما کے بمعنی ان مصدر یہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اس کی طرف کہیں بھی لفظا ما تقدیر اضمیر نہیں لوٹتی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة/ 10] اور ان کے جھوٹ بولتے کے سبب ۔ میں بھی ما مصدر ری معنی پر محمول ہے ۔ اسی طرح اتانیالقوم ماعدا زیدا میں بھی ما مصدر یہ ہے اور تقدیر ظرف کی صورت میں بھی ما مصدر یہ ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة/ 20] جب بجلی ( چمکتی اور ) ان پر روشنی ڈالتی ہے تو اس میں چل پڑتے ہیں ۔ كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة/ 64] یہ جب لڑائی کے لئے آگ جلاتے ہیں ۔ خدا اس کو بجھا دیتا ہے ۔ كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء/ 97] جب ( اس کی آگ ) بجھنے کو ہوگی تو ہم ان کو ( عذاب دینے ) کے لئے اور بھڑ کا دیں گے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر/ 94] پس جو حکم تم کو ( خدا کی طرف سے ملا ہے وہ ( لوگوں ) کو سنا دو ۔ میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما مصدر یہ ہوا اور یہ بھی کہ ما موصولہ بمعنی الذی ہو ۔ یاد رکھو کہ ما اپنے مابعد کے ساتھ مل کر مصدری معنی میں ہونے کی صورت میں ہمیشہ حرفی ہوتا ہے کیونکہ اگر وہ اسی ہو تو اس کی طرف ضمیر کا لوٹنا ضروری ہے پس یہ ارید ان اخرک میں ان کی طرح ہوتا ہے جس طرح ان کے بعد ضمیر نہیں ہوتی جو اس کی طرف لوٹ سکے اسی طرح ما کے بعد بھی عائد ( ضمیر نہیں آتی ۔ دوم ما نافیہ ہے ۔ اہل حجاز اسے مشروط عمل دیتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ ما هذا بَشَراً [يوسف/ 31] یہ آدمی نہیں ہے تیسرا ما کا فہ ہے جو ان واخواتھا اور ( رب کے ساتھ مل کر فعل پر داخل ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں ۔ إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران/ 178] نہیں بلکہ ہم ان کو اس لئے مہلت دیتے ہیں کہ اور گناہ کرلیں ۔ كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال/ 6] گویا موت کی طرف دھکیلے جارہے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر/ 2] کسی وقت کافر لوگ آرزو کریں گے ۔ میں بھی ما کافہ ہی ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ قلما اور لما میں بھی ما کافہ ہوتا ہے ۔ چہارم ما مسلمۃ یعنی وہ ما جو کسی غیر عامل کلمہ کو عامل بنا کر مابعد پر مسلط کردیتا ہے جیسا کہ اذا ما وحیتما کا ما ہے کہ ما کے ساتھ مرکب ہونے سے قبل یہ کلمات غیر عاملہ تھے لیکن ترکیب کے بعد اسمائے شرط کا سا عمل کرتے ہیں اور فعل مضارع کو جز م دیتے ہیں جیسے حیثما نقعد اقعد وغیرہ پانچواں مازائدہ ہے جو محض پہلے لفظ کی توکید کے لئے آتا ہے جیسے اذا مافعلت کذا ( جب تم ایسا کرو ماتخرج اخرج اگر تم باہر نکلو گے تو میں بھی نکلو نگا قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم/ 26] اگر تم کسی آدمی کو دیکھوں ۔ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما [ الإسراء/ 23] اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھا پے کو پہنچ جائیں ۔ هذا ( ذَاكَ ذلك) وأما ( ذا) في (هذا) فإشارة إلى شيء محسوس، أو معقول، ويقال في المؤنّث : ذه وذي وتا، فيقال : هذه وهذي، وهاتا، ولا تثنّى منهنّ إلّا هاتا، فيقال : هاتان . قال تعالی: أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء/ 62] ، هذا ما تُوعَدُونَ [ ص/ 53] ، هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات/ 14] ، إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه/ 63] ، إلى غير ذلك هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور/ 14] ، هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن/ 43] ، ويقال بإزاء هذا في المستبعد بالشخص أو بالمنزلة : ( ذَاكَ ) و ( ذلك) قال تعالی: الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة/ 1- 2] ، ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف/ 17] ، ذلِكَ أَنْ لَمْ يَكُنْ رَبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرى [ الأنعام/ 131] ، إلى غير ذلك . ( ذ ا ) ہاں ھذا میں ذا کا لفظ اسم اشارہ ہے جو محسوس اور معقول چیز کی طرف اشارہ کے لئے آتا ہے ۔ چناچہ کہا جاتا ہے ۔ ھذہ وھذی وھاتا ۔ ان میں سے سرف ھاتا کا تژنیہ ھاتان آتا ہے ۔ ھذہٰ اور ھٰذی کا تثنیہ استعمال نہیں ہوتا قرآن میں ہے : أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء/ 62] کہ دیکھ تو یہی وہ ہے جسے تونے مجھ پر فضیلت دی ہے ۔ هذا ما تُوعَدُونَ [ ص/ 53] یہ وہ چیزیں ہیں جن کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا ۔ هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات/ 14] یہ وہی ہے جس کے لئے تم جلدی مچایا کرتے تھے ۔ إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه/ 63] کہ یہ دونوں جادوگر ہیں ۔ هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور/ 14] یہی وہ جہنم ہے جس کو تم جھوٹ سمجھتے تھے ۔ هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن/ 43] یہی وہ جہنم ہے جسے گنہگار لوگ جھٹلاتے تھے ۔ ھذا کے بالمقابل جو چیز اپنی ذات کے اعتبار سے دور ہو یا باعتبار مرتبہ بلند ہو ۔ اس کے لئے ذاک اور ذالک استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة/ 1- 2] یہ کتاب یہ خدا کی نشانیوں میں سے ہے ۔ ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف/ 17] یہ اس لئے کہ تمہارا پروردگار ایسا نہیں ہے کہ بستیوں کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہلاک کردے ۔ «أَلَا»«إِلَّا»هؤلاء «أَلَا» للاستفتاح، و «إِلَّا» للاستثناء، وأُولَاءِ في قوله تعالی: ها أَنْتُمْ أُولاءِ تُحِبُّونَهُمْ [ آل عمران/ 119] وقوله : أولئك : اسم مبهم موضوع للإشارة إلى جمع المذکر والمؤنث، ولا واحد له من لفظه، وقد يقصر نحو قول الأعشی: هؤلا ثم هؤلا کلّا أع طيت نوالا محذوّة بمثال الا) الا یہ حرف استفتاح ہے ( یعنی کلام کے ابتداء میں تنبیہ کے لئے آتا ہے ) ( الا) الا یہ حرف استثناء ہے اولاء ( اولا) یہ اسم مبہم ہے جو جمع مذکر و مؤنث کی طرف اشارہ کے لئے آتا ہے اس کا مفرد من لفظہ نہیں آتا ( کبھی اس کے شروع ۔ میں ھا تنبیہ بھی آجاتا ہے ) قرآن میں ہے :۔ { هَا أَنْتُمْ أُولَاءِ تُحِبُّونَهُمْ } ( سورة آل عمران 119) دیکھو ! تم ایسے لوگ ہو کچھ ان سے دوستی رکھتے ہواولائک علیٰ ھدی (2 ۔ 5) یہی لوگ ہدایت پر ہیں اور کبھی اس میں تصرف ( یعنی بحذف ہمزہ آخر ) بھی کرلیا جاتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ع (22) ھؤلا ثم ھؤلاء کلا اعطیتہ ت نوالا محذوۃ بمشال ( ان سب لوگوں کو میں نے بڑے بڑے گرانقدر عطیئے دیئے ہیں سطر السَّطْرُ والسَّطَرُ : الصّفّ من الکتابة، ومن الشّجر المغروس، ومن القوم الوقوف، وسَطَّرَ فلان کذا : كتب سطرا سطرا، قال تعالی: ن وَالْقَلَمِ وَما يَسْطُرُونَ [ القلم/ 1] ، وقال تعالی: وَالطُّورِ وَكِتابٍ مَسْطُورٍ [ الطور/ 1- 2] ، وقال : كانَ ذلِكَ فِي الْكِتابِ مَسْطُوراً [ الإسراء/ 58] ، أي : مثبتا محفوظا، وجمع السّطر أَسْطُرٌ ، وسُطُورٌ ، وأَسْطَارٌ ، قال الشاعر : 233- إنّي وأسطار سُطِرْنَ سطرا«6» وأما قوله : أَساطِيرُ الْأَوَّلِينَ [ الأنعام/ 24] ، فقد قال المبرّد : هي جمع أُسْطُورَةٍ ، نحو : أرجوحة وأراجیح، وأثفيّة وأثافي، وأحدوثة وأحادیث . وقوله تعالی: وَإِذا قِيلَ لَهُمْ ماذا أَنْزَلَ رَبُّكُمْ قالُوا أَساطِيرُ الْأَوَّلِينَ [ النحل/ 24] ، أي : شيء کتبوه کذبا ومینا، فيما زعموا، نحو قوله تعالی: أَساطِيرُ الْأَوَّلِينَ اكْتَتَبَها فَهِيَ تُمْلى عَلَيْهِ بُكْرَةً وَأَصِيلًا [ الفرقان/ 5] ( س ط ر ) السطر والسطر قطار کو کہتے ہیں خواہ کسی کتاب کی ہو یا درختوں اور آدمیوں کی ۔ اور سطر فلان کذا کے معنی ایک ایک سطر کر کے لکھنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ ن وَالْقَلَمِ وَما يَسْطُرُونَ [ القلم/ 1] ن قلم کی اور جو ( اہل قلم ) لکھتے ہیں اس کی قسم ۔ وَالطُّورِ وَكِتابٍ مَسْطُورٍ [ الطور/ 1- 2] اور کتابت جو لکھی ہوئی ہے ۔ یہ حکم کتاب ( یعنی قرآن میں لکھ دیا گیا ہے ۔ یعنی غفو ذا اور ثابت ہے ۔ اور سطر کی جمع اسطر وسط ور واسطار ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( رجز ( 227 ) انی واسطار سطرن سطرا یعنی قسم ہے قرآن کی سطروں کی کہ میں اور آیت کریمہ : ۔ أَساطِيرُ الْأَوَّلِينَ [ الأنعام/ 24] پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں ۔ میں مبرد نے کہا ہے کہ یہ اسطرۃ کی جمع ہے جیسے ارجوحۃ کی جمع اراجیع اور اثقیۃ کی جمع اثانی اور احد وثہ کی احادیث آتی ہے ۔ اور آیت : ۔ وَإِذا قِيلَ لَهُمْ ماذا أَنْزَلَ رَبُّكُمْ قالُوا أَساطِيرُ الْأَوَّلِينَ [ النحل/ 24] اور جب ان ( کافروں سے کہا جاتا ہے کہ تمہارے پروردگار نے کیا اتارا ہے ۔ تو کہتے ہیں کہ ( وہ تو ) پہلے لوگوں کی حکایتیں ہیں یعنی انہوں نے بزعم خود یہ کہا کہ یہ جھوٹ موٹ کی لکھی ہوئی کہانیاں ہیں جیسا کہ دوسری جگہ ان کے قول کی حکایت بیان کرتے ہوئے فرمایا : ۔ أَساطِيرُ الْأَوَّلِينَ اكْتَتَبَها فَهِيَ تُمْلى عَلَيْهِ بُكْرَةً وَأَصِيلًا [ الفرقان/ 5] اور کہتے ہیں کہ یہ ( پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں جن کو اس نے جمع کر رکھا ہے وہ صبح وشام ان کو پڑھو پڑھ کر سنائی جاتی ہیں ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور جس نے یعنی حضرت عبدالرحمن بن ابوبکر نے اسلام لانے سے پہلے اپنے والدین سے کہا تف ہے تم پر کیا تم مجھ سے یہ بیان کرتے ہو کہ میں حشر کے لیے قبر سے نکالا جاؤں گا حالانکہ مجھ سے پہلے بہت سی امتیں گزر رہی ہیں میں نے تو ابھی تک نہیں دیکھا کہ ان میں سے کوئی قبر میں سے نکلا ہو، عبدالرحمن کے دو دادا یعنی ... جدعان بن عمرو اور عثمان بن عمرو زمانہ جاہلیت میں مرگئے تھے عبدالرحمن کی مراد وہ تھے۔ اور اس کے والدین اللہ تعالیٰ سے دعا کر رہے ہیں اور ان سے کہہ رہے ہیں کہ ارے تم پر دنیا تنگ ہو رسول اکرم اور قرآن کریم پر ایمان لے آ۔ شان نزول : وَالَّذِيْ قَالَ لِوَالِدَيْهِ اُفٍّ لَّكُمَآ (الخ) ابن ابی حاتم نے سدی سے روایت کیا کہ یہ آیت حضرت عبدالرحمن بن ابوبکر کے بارے میں نازل ہوئی ہے انہوں نے اپنے والدین سے ایسا کہا تھا اور ان کے والدین مشرف بااسلام ہوگئے تھے اور یہ اسلام لانے سے انکار کرتے تھے اور ان کو اسلام لانے کا حکم کرتے تھے تو یہ ان کی تردید اور تکذیب کرتے تھے اور قریش کے بوڑھوں کے بارے میں جو مرچکے تھے پوچھتے کہ وہ کہاں ہیں، پھر اس کے بعد یہ بھی مشرف بااسلام ہوگئے اور ان کا اسلام اچھا ہوا تو حق تعالیٰ نے ان کی توبہ اس آیت میں نازل فرمائی۔ ولکل درجت مما عملوا (الخ) اور ابن جریر نے بواسطہ عوفی ابن عباس سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔ مگر امام بخاری نے یوسف بن ہامان کے طریق سے روایت کیا ہے کہ مروان نے حضرت عبدالرحمن بن ابوبکر کے بارے میں کہا کہ یہ وہ شخص ہیں کہ جن کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی، یہ سن کر حضرت عائشہ نے پردہ کے پیچھے سے فرمایا کہ ہمارے بارے میں قرآن کریم کی کوئی آیت نازل نہیں ہوئی البتہ حق تعالیٰ نے میری پاکدامنی نازل فرمائی ہے۔ اور عبدالرزاق نے متی کے طریق سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے حضرت عائشہ سے سنا کہ وہ اس آیت کا عبدالرحمن بن ابوبکر کے بارے میں نازل ہونے کا انکار کرتی ہیں اور ایک شخص کا نام لے کر فرماتے ہیں کہ یہ آیت اس شخص کے بارے میں نازل ہوئی۔ حافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں یہ حضرت عائشہ کی انکار والی روایت سند کے اعتبار سے بھی زیادہ صحیح اور قبولیت کے اعتبار سے بھی زیادہ لائق توجہ ہے۔ بیشک مرنے کے بعد ضرور زندہ ہونا ہے تو اس وقت عبدالرحمن جواب میں کہتے ہیں کہ محمد جو کہہ رہے ہیں یہ بےسند باتیں اگلوں سے منقول چلی آرہی ہیں۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٧ { وَالَّذِیْ قَالَ لِوَالِدَیْہِ اُفٍّ لَّکُمَآ اَتَعِدٰنِنِیْٓ اَنْ اُخْرَجَ } ” اور ایک وہ شخص ہے جو اپنے والدین سے کہتا ہے کہ میں بیزار ہوں آپ دونوں سے ‘ کیا آپ مجھے اس سے ڈراتے ہیں کہ میں نکال کھڑا کیا جائوں گا (زندہ کر کے قبر سے) ؟ “ والدین مسلمان ہیں ‘ نیک سیرت ہیں ‘ لیکن بیٹا آوارہ ا... ور ذہنی طور پر گمراہ ہوچکا ہے۔ وہ نہ اللہ کو مانتا ہے ‘ نہ آخرت پر یقین رکھتا ہے۔ وہ اپنے والدین سے توتکار کرتا ہے کہ یہ آپ مجھے کیا ہر وقت حساب کتاب کی دھمکیاں دیتے رہتے ہیں ! ُ تف ہے آپ لوگوں پر ! میں آپ کے ان ڈھکوسلوں کی خود ساختہ تفصیلات سن سن کر تنگ آگیا ہوں ! بس آپ لوگ مجھے مزید سمجھانا چھوڑ دیں ! میں کسی آخرت واخرت کو نہیں مانتا ! { وَقَدْ خَلَتِ الْقُرُوْنُ مِنْ قَبْلِیْج } ” حالانکہ مجھ سے پہلے کتنی ہی نسلیں گزر چکی ہیں ! “ اب تک نسل در نسل کروڑوں ‘ اربوں لوگ اس دنیا میں آئے اور چلے گئے۔ ان میں سے تو آج تک کوئی اُٹھ کر نہ آیا۔ ایک وقت میں ان سب کا زندہ ہونا اور پھر ایک ایک کا حساب کتاب ہونا بالکل بعید از قیاس ہے۔ میں ایسی دقیانوسی باتوں کو ماننے والا نہیں ہوں۔ { وَہُمَا یَسْتَغِیْثٰنِ اللّٰہَ وَیْلَکَ اٰمِنْق اِنَّ وَعْدَ اللّٰہِ حَقٌّج } ” اور وہ دونوں اللہ کی دہائی دے کر کہتے ہیں : بربادی ہو تیری ‘ ایمان لے آ ! یقینا اللہ کا وعدہ سچا ہے۔ “ { فَـیَقُوْلُ مَا ہٰذَآ اِلَّآ اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ } ” لیکن وہ کہتا ہے : یہ کچھ نہیں مگر پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں۔ “ یہ دوبارہ زندہ ہونے اور آخرت کی باتیں بس فرضی کہانیاں ہیں جو پچھلے زمانے سے سینہ بہ سینہ نقل ہوتی چلی آرہی ہیں۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٧۔ ١٩۔ اگرچہ تفسیر سدی تفسیر ٢ ؎ ابن جریر اور تفسیر ابن ابی حاتم وغیرہ میں لکھا ہے کہ یہ آیت حضرت عبد الرحمن حضرت ابوبکر صدیق کے بیٹے کی شان میں نازل ہوئی ہے اور تفسیر ابن جریج ٣ ؎ میں بجائے عبد الرحمن کے عبد اللہ حضرت ابوبکر صدیق کے دوسرے بیٹے کا نام لیا ہے۔ لیکن اور مفسروں نے اس شان نزول کو اس سب... ب سے ضعیف قرار دیا ہے کہ اس شان نزول کی روایت صحیح بخاری ١ ؎ اور نسائی کی صحیح روایتوں کے مخالف ہے صحیح بخاری اور نسائی وغیرہ میں جو قصہ ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ جب مروان نے معاویہ کی طرف سے مدینہ میں لوگوں کو یزید کی بیعت کی رغبت دلائی اور کہا امیر المومنین معاویہ کا اپنے جیتے جی اپنے بیٹے کے نام پر لوگوں سے بیعت لینا ایسا ہی ہے جس طرح ابوبکر صدیق نے حضرت عمر کو اور حضرت عمر نے حضرت عثمان کو اپنے جیتے جی خلافت کے لئے نامزد کیا تھا حضرت عبد الرحمن بن ابی بکر صدیق نے کہا نہیں یہ بیٹے کو ولی عہد بنانے کی رسم تو فارس اور روم کے بادشاہوں کی ہے خلفاء اسلام کی نہیں ہے مروان نے طعن کے طور پر کہا کہ یہ وہی عبد الرحمن ہیں جن کی شان میں سورة احقاف کی مذمت کی آیت نازل ہوئی ہے حضرت عائشہ نے پردہ کے پیچھے سے جواب دیا کہ حضرت ابوبکر صدیق کی اولاد کی شان میں سوا سورة نور کی آیتوں کے اور کوئی آیت نہیں اتری حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں لکھا ہے کہ اپنے بھائیوں کا حال جس قدرحضرت عائشہ کو معلوم ہوسکتا ہے دوسرے شخص کو نہیں معلوم ہوسکتا اس واسطے حضرت عائشہ کے قول کے مخالف جن مفسروں نے حضرت عبد الرحمن یا حضرت عبد اللہ کی شان میں اس آیت کا نازل ہونا بیان کیا ہے وہ قول صحیح نہیں ہے اور حافظ ابن حجر نے یہ بھی لکھا ہے کہ حضرت عائشہ کے اس قول سے بعض شیعہ مذہب کے لوگوں نے یہ بات جو نکالی ہے کہ خود حضرت ابوبکر کی بیٹی غار کی آیت حضرت ابوبکر صدیق کی شان میں نازل ہونے کی منکر تھیں کیونکہ وہ صاف کہتی ہیں کہ سورة نور کی ان کی برات کی آیتوں کے سوا اور کوئی آیت ان کے خاندان کے حق میں نازل نہیں ہوئی شیعہ مذہب کے لوگوں کی یہ بات بالکل غلط ہے کیونکہ حضرت عائشہ کے قول میں خاندان سے مراد حضرت ابوبکر صدیق کی اولاد ہے خود حضرت ابوبکرصدیق کے تذکرہ کا وہاں موقع نہیں ہے حاصل کلام یہ ہے کہ اوپر کی آیتوں میں نیک اولاد کا ذکر فرما کر ان آیتوں میں ناہموار اولاد کا ذکر فرمایا ہے حاصل مطلب ان آیتوں کا یہ ہے کہ بنی آدم میں بعض ایسے ناہموار بھی ہیں کہ ماں باپ سے حشر کا ذکر سن کر بیزار ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اے میرے ماں باپ تم مجھ کو دوبارہ زندہ ہونے اور حساب و کتاب سے ڈراتے ہو اگر ایسا ہوتا تو جو لوگ مجھ سے پہلے مرگئے ہیں آج تک ان میں سے کوئی ضرور دوبارہ زندہ ہوتا، ماں باپ ناہموار اولاد کی نادانی کی باتیں سن کر اس کے راہ راست پر آجانے کی اللہ تعالیٰ سے التجا کرتے ہیں اور اولاد کو سمجھاتے ہیں کہ اے کمبخت دوبارہ زندہ کئے جانے اور نیک و بد کی جزا و سزا کا اللہ تعالیٰ کا وعدہ برحق ہے تاکہ دنیا کا پیدا کرنا ٹھکانے لگے ماں باپ کی یہ سمجھ میں آجانے کے قابل نصیحت سن کر اس ناہموار اولاد نے یہ الٹا جواب دیا کہ یہ باتیں پہلے سے کہانیوں کی طرح چلی آتی ہیں ان ہی کو تم نے سچا جان لیا ہے۔ آگے فرمایا کہ ایسے لوگ ہیں جو اللہ کے علم غیب میں ان میں کے اگلے پچھلے جنات اور بنی آدم سب دوزخی ٹھہر چکے ہیں اور یہ لوگ ایسی باتوں سے کسی کا کچھ نہیں بگاڑتے قیامت کے دن انہی کو بڑا نقصان پہنچے گا۔ ابن ١ ؎ ماجہ کے حوالہ سے ابوہریرہ (رض) کی صحیح حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر شخص کے لئے ایک ٹھکانہ جنت میں اور ایک دوزخ میں پیدا کیا ہے اب جو لوگ ہمیشہ کے واسطے دوزخی قرار پائیں گے اور ان کے جنت میں ٹھکانے خالی رہ جائیں گے وہ ٹھکانے بھی جنتیوں کو مل جائیں گے۔ آیتوں میں دوزخی لوگوں کے ٹوٹے کا جو ذکر ہے یہ حدیث گویا اس کی تفسیر ہے پھر فرمایا نیک و بد ہر فرقے کے لئے جنت و دوزخ میں درجے مقرر ہیں جیسے جس کے عمل ہوں گے ویسی ہی جزا و سزا ہوگی کسی پر کچھ ظلم نہ ہوگا کہ نیکی کا بدلہ گھٹا دیا جائے یا بدی کی سزا بڑھا دی جائے۔ صحیح مسلم ٢ ؎ میں سمرہ (رض) بن جندب سے روایت ہے جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا دوزخ کی آگ کسی کے ٹخنوں تک ہوگی کسی کی کمر تک کسی کی گردن تک۔ ترمذی ٣ ؎ کے حوالہ سے ابوہریرہ (رض) کی صحیح حدیث ایک گزر چکی ہے کہ جنت کے سو درجے ہیں صحیح مسلم ٤ ؎ کے حوالہ سے ابوذر کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ظلم اپنی ذات پاک پر حرام کرلیا ہے ان حدیثوں سے یہ مطلب اچھی طرح سمجھ میں آسکتا ہے کہ عملوں کے موافق دوزخ اور جنت میں سزا و جزا کے درجے مقرر ہیں ان کے موافق سزا و جزا تجویز ہوگی سزا کے بڑھا دینے یا جزا کے گھٹا دینے میں کسی پر ظلم نہ ہوگا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ظلم اپنی ذات پاک پر حرام ٹھہرا لیا ہے آگے فرمایا کہ اب تو یہ لوگ دوبارہ زندہ ہونے اور سزا و جزا کو کہانیاں بتاتے ہیں لیکن قیامت کے دن سزا کے طور پر دوزخ میں جھونکے جانے کے لئے جب ان کو دوزخ کے کنارہ پر ٹھہرایا جائے گا تو اس وقت کا ان کا حال دیکھنے کے قابل ہوگا کہ دنیا میں دوبارہ آنے اور نیک عمل کرنے کی کتنی بڑی آرزو ظاہر کریں گے ان آیتوں میں اس مطلب کو مختصر طور پر فرمایا ہے سورة الانعام میں یہ مطلب آیت ولو تری اذ وقفوا علی النار میں تفصیل سے گزر چکا ہے اس لئے سورة الانعام کی وہ آیتیں ویوم یعرض الذین کفروا علے النار کی گویا تفسیر ہیں۔ (٢ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ١٥٩ ج ٤۔ ) (٣ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ١٥٩ ج ٤۔ ) (١ ؎ صحیح بخاری تفسیر سورة الاحقاف ص ٧١٥ ج ٢۔ ) (١ ؎ ابن ماجہ باب صفۃ الجنۃ۔ ص ٣٣٢۔ ) (٢ ؎ صحیح مسلم با جھنم اعاذنا اللہ منھا۔ ص ٣٨١ ج ٢۔ ) (٣ ؎ جامع ترمذی باب ماجاء فی صفۃ درجات الجنۃ۔ ص ٨٩ ج ٢۔ ) (٤ ؎ صحیح مسلم باب تحریم الظلم ص ٣١٩ ج ٢۔ )  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(46:17) والذی قال لوالدیہ۔ آیات 15 ۔ 16 میں بندۂ مومن کا کردار ادا کیا گیا کہ وہ اپنے رب کا اطاعت گذار اور اپنے والدین کا فرمانبردار ہوتا ہے جن گوناگوں نعمتوں سے اسے سرفراز کیا جاتا ہے ان کا شکریہ اد ا کرتا رہتا ہے۔ اب ایسے شخص کا کردار بیان کیا جا رہا ہے جسے آخرت پر ایمان نہیں اور اپنے خالق سے رو... گرداں ہے اپنے ماں باپ کا گستاخ ہے۔ انہیں بات بات پر جھڑکتا ہے اگر وہ اس کی اصلاح احوال کے لئے کوشش کرتے ہیں تو ان کا مذاق اڑاتا ہے ان کو احمق اور بیوقوف سمجھتا ہے (جب وہ اسے اللہ تعالیٰ کے وعدہ حق یعنی حیات بعد الممات، اعمال نیک کی جزا اور اعمال بد کی سزا۔ بہشت اور دوزخ کی بات کرتے ہیں تو کہتا ہے کہ یہ کچھ نہیں محض پہلے لوگوں کی فرسودہ کہانیاں ہیں) تفسیر حقانی۔ والذی قال لوالدیہ اف لکما اتعدنی ان اخرج وقد خلت القرون من قبلی۔ الذی بمعنی الذین ہے اور اس کا اطلاق ہر اس شخص پر ہوتا ہے جو اپنے والدین کا نافرمان اور کج بحث ہے۔ الذی بمعنی الذین کی مثالیں کلام عرب اور قرآن مجید میں متعدد ملتی ہیں جیسے کہ سورة البقرہ میں ہے مثلہم کمثل الذی اس تو قد نارا فلما اضاءت ما حولہ ذھب اللہ بنورہم وترکہم فی ظلمت الا یبصرون (2:17) بنورہم اور ترکہم میں ضمیر ہم جمع مذکر غائب اور یبصرون میں ضمیر جمع مذکر غائب سے صریحا ثابت ہے کہ الذی سے مراد الذین ہے۔ ایسی اور کئی مثالیں مل سکتی ہیں۔ اف۔ ہوں۔ اصل میں اف ہر قسم کے میل کچیل (جیسے ناخن کا تراشہ وغیرہ) کو کہتے ہیں اور اسی اعتبار سے کسی چیز کے متعلق گرانی اور نفرت کے اظہار کے لئے اس کا استعمال ہوتا ہے۔ اصمعی کا بیان ہے کہ اف کان کا میل ہے اور ثف ناخن کا۔ کسی چیز سے گھن ظاہر کرتے وقت اف کہا جاتا ہے چناچہ اس معنی میں یہ کثرت سے بولا گیا کہ ہر اذیت رساں چیز کے بارے میں اہل عرب اس کا استعمال کرنے لگے۔ یہ یا تو اسم فعل ہے یا اسم صوت جو تنگ دلی اور گرانی کو بتاتا ہے۔ افسوس ہے تم دونوں پر۔ اتعدنی۔ تم دونوں مجھے وعدہ دیتے ہو۔ ڈراتے ہو یا دھمکی دیتے ہو۔ تعدان مضارع کا صیغہ تثنیہ مذکر حاضر۔ ن اول تثنیہ کا اور دوسران وقایہ کا ہے اور ی ضمیر واحد متکلم۔ کیا تم دونوں مجھے (اس بات پر) ڈراتے ہو کہ قبر سے دوبارہ زندہ کر کے نکالا جائوں گا۔ اس میں استفہام سوالیہ نہیں بلکہ انکاریہ توبیخیہ ہے۔ اف کہنے کی وجہ کو ظاہر کر رہا ہے۔ وقد خلت القرون من قبلی۔ وائو حالیہ ہے جملہ کا عطف جملہ سابقہ پر ہے اس کے بعد عبارت محذوف ہے ای ولم یرجع بعد ان مات۔ مرنے کے بعد کوئی واپس نہیں آئی۔ قد خلت ماضی کے ساتھ قد تحقیق کا معنی دیتا ہے۔ خلت ماضی کا صیغہ واحد مؤنث غائب خلو (باب نصر) مصدر۔ وہ گذر گئی۔ یہاں جمع کے لئے آیا ہے۔ گذر گئیں۔ القرون : قرن کی جمع۔ زمانے، صدیاں ، جماعتیں۔ قومیں ۔ یہاں قومیں مراد ہیں ۔ ترجمہ :۔ اور حال یہ ہے کہ مجھ سے پہلے گئی قومیں مٹ گئیں اور موت کے بعد کوئی بھی واپس نہیں آئی۔ وھما یستغیثن اللہ۔ جملہ حالیہ ہے اللہ مفعول ہے یستغیثن کا۔ یستغیثن فعل مضارع تثنیہ مذکر غائب “ استغاثۃ (استفعال) مصدر۔ فریاد کرنا۔ درآں حالیکہ وہ دونوں اللہ سے (نالائق اولاد کے کفر والحاد) سے گھبرا کر) فریاد کر رہے ہوتے ہیں (کہ اللہ کرے ان کا لڑکا راہ حق اختیار کرے اور بعث بعد الموت پر ایمان لے آئے) ۔ ویلک مضاف مضاف الیہ۔ تیری کم بختی، ارے اے کمبخت، امن ، امر کا صیغہ واحد مذکر حاضر، ایمان (باب نصر) مصدر سے۔ تو ایمان لے آ۔ ای امن باللہ والبعث بعد الموت۔ یعنی اللہ پر اور بعث بعد الموت پر ایمان لے آ۔ ویلک امن سے قبل ویقولان لولدھما (اور کہتے ہیں اپنے لڑکے سے ) محذوف ہے۔ ان وعد اللہ حق۔ بیشک اللہ کا وعدہ سچا ہے۔ وعدہ سے مراد وعدہ بعث بعد الموت ہے۔ فیقول۔ ای فیقول ذلک الولد العاق المنکر للبعث وہ نافرمان منکر بعث بعد الموت لڑکا جواب دیتا ہے۔ ما ھذا۔ ما نافیہ ہے ھذا کا اشارہ اسی بعث بعد الموت اور عذاب آخرت کی طرف ہے۔ ای ان الذی تعدننی ایاہ من البعث بعد الموت۔ جس بعث بعد الموت کا تم مجھ کو ڈراوا دے رہے ہو وہ کچھ بھی نہیں ہے۔ الا اساطیر الاولین۔ الا حرف استثناء مگر “۔ سوائے اس کے کہ اساطیر الاولین۔ مضاف مضاف الیہ۔ اساطیر اسطورۃ کی جمع۔ کہانیاں۔ من گھڑت لکھی ہوئی باتیں۔ وہ جھوٹی خبر جس کے متعلق یہ اعتقاد ہو کہ وہ جھوٹ گھڑ کر لکھ دی گئی ہے اسطورہ کہلاتی ہے۔ یہ وعدہ آخرت و عذاب آخرت کچھ بھی نہیں سوائے پہلے لوگوں کی من گھڑت باتوں کے۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 ان میں سے پھر کوئی بھی قبر سے اٹھ کر نہیں آیا۔ “ اس سے مقصد بعث “ دوبارہ زندگی کا انکار ہے یا یہ کہ صرف میں ہی قیامت کا منکر نہیں ہوں بلکہ مجھ سے پہلے بھی ایسی بہت سی قومیں گزر چکی ہیں جو قیامت کی منکر تھیں۔ اس صورت میں یہ جملہ گویا ” انکار بعث “ پر ایک طرح سے استدلا ہوگا۔ روح ) 4 یعنی خدا کی دہ... ائی دیتے ہوئے اس سے کہتے ہیں۔ 5 جن کو کوئی حقیقت نہیں ہے “ اوپر کی آیت میں ایک مومن شخص کا کردار پیش کیا گیا ہے اور اس آیت میں ایک کافر شخص کا جسے اللہ تعالیٰ اور یوم آخرت پر ایمان نہیں چونکہ اس سے کوئی آستین شخص مراد نہیں ہے اس لئے اگلی آیت میں اولئک واحد کی بجائے جمع کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے بدوی ہے کہ جب حضرت معاویہ نے اپنے بعد یزید کو نامزد کیا تو مردان کو لکھا کہ مدینہ میں اس کا اظہار کرے چناچہ مروان نے خطبہ دیا اور حضرت معاویہ کی اس رائے کی تحسین کی۔ اس پر حضرت عبدالرحمٰن بن ابوبکر (رض) کو غصہ آیا اور کہا کہ یہ ہرا قلیت سے ہے مردان نے حضرت عبدالرحمٰن سے لوگوں کو متنفر کرنے کیلئے کہا : ” تم وہی تو ہو جس کے بارے میں آیت والذی قال لولالدبہ افء “ نازل ہوئی ہے۔ حضرت عائشہ نے مروان کی یہ گفتگو سنی تو انہوں نے تین مرتبہ مرد ہن کی تکذیب کرتے ہوئے کہا کہ یہ آیت ہرگز عبدالرحمان کے بارے میں نازل نہیں ہوئی اور مردان کو سخت سست بھی کہا۔ لہٰذا بعض علماء جیسا کہ سہیلی نے ” الاعلام میں نقل کیا ہے۔ کا یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ اس سے مراد حضرت عبدالرحمٰن ہیں کیونکہ یہاں جس شخص کا ذکر ہے اس کے حق میں قرآن نے الذی حق علیہ القول فرمایا ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ وہ کافر مریگا۔ اس کے برعکس حضرت عبدالرحمٰن مسلمان بلکہ افاضل صحابہ میں سے تھے اور جنگ یمامہ میں ان کے کارنامے مشہور ہیں۔ (ابن کثیر قرطبی وغیرہ)  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

7۔ مطلب یہ کہ ایسا شقی ہے کہ کفر اور عقوق دونوں کا مرتک ہے، اور عقوق بھی اس درجہ کا کہ ماں باپ کی مخالفت کے ساتھ ان سے کلام میں بھی بد تمیزی اور درشتی کرتا ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : نیک والدین اور صالح اولاد کے تذکرہ کے بعد بری اولاد کے خیالات اور اس کے کردار کا ذکر۔ اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمتوں میں ایک بڑی نعمت اولاد کا صالح ہونا ہے۔ اولاد نیک اور باصلاحیت ہوتوبوڑھے والدین اپنے آپ میں ایک قوت اور اطمینان محسوس کرتے ہیں۔ اولاد اعتقادی طور پر بری ہو اور عملی...  طور پر نافرمان ہو تو والدین کی زندگی اجیرن ہوجاتی ہے۔ یہاں نیک اور بری اولاد کا موازنہ کیا جارہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ اور اس کے رسول کے نافرمان لوگ بھی اولاد کی نافرمانی کا دکھ برداشت نہیں کرسکتے لیکن نیک والدین کے لیے یہ دکھ زیادہ ہی اذّیت کا باعث ہوتا ہے۔ جب ان کی اولاد اعتقادی طور پر دین کی مخالف اور عملی طور پر اپنے ماں باپ کی نافرمان ہو تو والدین کے لیے یہ اذّیت اس قدر کربناک ہوتی ہے کہ جس سے ماں، باپ کی زندگی دکھوں، پریشانیوں کا گہوارہ بن جاتی ہے۔ یہاں اسی کیفیت کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ نیک ماں، باپ اپنی بدعقیدہ اولاد کو بار بار سمجھاتے ہیں کہ بیٹا اپنے رب کے تابعدار ہوجاؤ اور ہمارا خیال رکھو۔ بری اولاد نہ صرف ماں باپ کو دکھ پہنچاتی ہے بلکہ وہ اس بات کا بھی مذاق اڑاتی ہے کہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ پرانے اور بوسیدہ خیالات کی بنیاد پر مجھے ڈراتے اور خوفزدہ کرتے ہو کہ مرنے کے بعد مجھے زندہ کیا جائے گا اور وہاں مجھے سے پوچھ گچھ ہوگی۔ میں اس عقیدے کو نہیں مانتا کیونکہ یہ پرانی باتیں ہیں۔ مجھ سے پہلے اَن گنت لوگ فوت ہوچکے آج تک ان میں سے کوئی ایک بھی زندہ ہو کر واپس نہیں آیا۔ نافرمان بیٹے کی اصلاح اور فلاح کے لیے والدین اپنے رب سے رو رو کر دعائیں اور التجائیں کرتے ہیں لیکن نافرمان بیٹا کسی صورت بھی تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا کہ مجھے مر کر زندہ ہونا اور اپنے رب کی بارگاہ میں جواب دینا ہے۔ والدین پھر سمجھاتے ہیں کہ اے ناعاقبت اندیش بیٹے ! تجھ پر افسوس ! اللہ تعالیٰ کا وعدہ سچا ہے کہ وہ لوگوں کو ہر صورت زندہ کرے گا اور ان سے حساب و کتاب لے گا۔ جو کسی کے انکار کرنے سے ٹل نہیں سکتا۔ یہاں ایک طرف اولاد کی نافرمانی کا کرب بیان کیا گیا ہے اور دوسری طرف آخرت پر یقین نہ رکھنے والی نسل کے نظریات اور کردار کی نشاندہی کی گئی ہے۔ جب کوئی شخص آخرت کی جوابدہی کا عقیدہ فراموش کردیتا ہے تو اسے کسی رشتے کا احترام اور اپنے محسن کے احسان کا احساس نہیں رہتا۔ فکر آخرت کا عقیدہ جس قدرکمزور ہوگا تو اسی قدر ہی انسان کے کردار اور اخلاق میں کمزوری واقع ہوگی۔ فکر آخرت کا عقیدہ جس قدر مضبوط اور تازہ ہوگا اس قدر ہی انسان اپنے والدین کا فرمانبردار اور اپنے رب کا عبادت گزار ہوگا۔ (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ (رض) قَالَ ذَکَرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) الْکَبَآءِرَ فَقَال الشِّرْکُ باللّٰہِ وَقَتْلُ النَّفْسِ وَعُقُوْقُ الْوَالِدَیْنِ فَقَالَ أَلَآ أُنَبِّءُکُمْ بِأَکْبَرِ الْکَبَاءِرِ قَالَ شَھَادَۃُ الزُّوْرِ ) (رواہ البخاری : کتاب الأدب، باب عقوق الوالدین من الکبائر) ” حضرت انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کبیرہ گناہوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : بڑے گناہ یہ ہیں : اللہ کے ساتھ شرک کرنا، ناحق خون کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا۔ “ پھر فرمایا : کیا میں تمہیں بڑے گناہ سے آگاہ نہ کروں ؟ وہ جھوٹی گواہی دینا ہے۔ “ مسائل ١۔ آخرت کا انکار کرنے والے لوگوں کی اکثریت اپنے ماں، باپ کی گستاخ ہوتی ہے۔ ٢۔ آخرت کا انکار کرنے والوں کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ ہم سے پہلے لوگ اب تک کیوں زندہ نہیں ہوئے ؟ ٣۔ قیامت کا انکار کرنے والے دوبارہ زندہ ہونے کو پہلے لوگوں کے قصے کہانیاں قرار دیتے ہیں۔ ٤۔ قیامت کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا وعدہ سچا ہے وہ ہر صورت لوگوں کو دوبارہ زندہ کرے گا اور ان سے ان کے عقیدہ وعمل کا حساب لے گا۔ ٥۔ نیک ماں باپ کو نافرمان اولاد کا بڑا دکھ ہوتا ہے۔” اللہ “ اس دکھ سے بچائے رکھے۔ آمین یا رب العالمین ! تفسیر بالقران قیامت سے پہلے لوگوں کو زندہ کرنے کی مثالیں : ١۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے سامنے چار پرندوں کو زندہ فرمایا۔ (البقرۃ : ٢٦٠) ٢۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے مقتول کو زندہ فرمایا۔ (البقرۃ : ٧٣) ٣۔ حضرت عزیر (علیہ السلام) کو زندہ فرمایا۔ (البقرۃ : ٢٥٩) ٤۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے ہزاروں لوگوں کو دوبارہ زندہ کیا۔ (البقرۃ : ٢٤٣) ٥۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کے ذریعے مردوں کو زندہ کیا۔ ( آل عمران : ٤٩) (الکہف : ٢٥)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

والدین مومن ہیں اور لڑکا نافرمان ہے۔ وہ سب سے پہلے ان کی نیک روش کا انکار کرتا ہے۔ وہ نہایت ہی کرخت ، جارح اور قابل نفرت انداز میں ان سے مخاطب ہوتا ہے۔ اف لکما (٤٦ : ١٧) “ اف ، تنگ کردیا تم نے ” اور اس کے بعد پورے دین کی بنیادی کا انکار کردیتا ہے یعنی آخرت کا ۔ اور ان الفاظ میں : اتعدنی ان اخرج وق... د خلت القرون من قبلی ( ٤٦ : ١٧) “ کیا تم مجھے یہ خوف دلاتے ہو کہ میں مرنے کے بعد قبر سے نکالا جاؤں گا ، حالانکہ مجھ سے پہلے نسلیں گزر چکی ہیں ”۔ یعنی وہ چلے گئے اور ان میں سے کوئی ایک بھی تو واپس نہیں آیا۔ حالانکہ قیامت کا تو وقت طے شدہ ہے اور لوگوں کا اٹھایا جانا اس طرح ہوگا کہ سب کو اکٹھا اٹھایا جائے گا ، ایک ایک آدمی کو نہیں۔ یہ بات تو اس کو کسی نے بھی نہ کہی تھی کہ ایک ایک آدمی کو یا ایک ایک نسل کو اٹھایا جائے گا۔ یہ کوئی مزاح تو ہے نہیں۔ یہ تو آخری حساب ہوگا اور سب کا ہوگا۔ والدین اس کے منہ سے یہ کفر سنتے ہیں ، اس کی ان باتوں سے پریشان ہوجاتے ہیں ، یہ اللہ کا بھی گستاخ ہے اور ان کے ساتھ بھی گستاخانہ رویہ رکھتا ہے۔ وہ سخت پریشان ہوجاتے ہیں۔ مارے خوف کے کانپ اٹھتے ہیں۔ وھما یستغیثن ۔۔۔۔ اللہ حق (٤٦ : ١٧) “ ماں اور باپ اللہ کی دہائی دے کر ، کہتے ہیں “ ارے بدنصیب مان جا ، اللہ کا وعدہ سچا ہے ” ۔ ان والدین کی باتوں سے ان کا خوف اور پریشانی ٹپکنی پڑتی ہے ، جبکہ یہ نافرمان بدبخت کفرو انکار پر مصر ہے۔ فیقول ما ۔۔۔۔۔ الاولین (٤٦ : ١٧) “ مگر وہ کہتا ہے یہ سب اگلے وقتوں کی فرسودہ باتیں ہیں ” ۔ اور اللہ پھر ایسے لوگوں کے انجام کو جلد ہی ہمارے سامنے رکھ دیتا ہے۔ ٭٭٭٭٭ اولئک الذین ۔۔۔۔۔ کانوا خسرین (٤٦ : ١٨) “ یہ لوگ ہیں جن پر عذاب کا فیصلہ چسپاں ہوچکا ہے ، ان سے پہلے جنوں اور انسانوں کے جو ٹولے (اسی قماش کے ) ہو گزرے ہیں ، انہی میں یہ بھی جا شامل ہوں گے۔ بیشک یہ گھاٹے میں رہ جانے والے لوگ ہیں ”۔ ایسے لوگ اس بات کے مستحق ہوجاتے ہیں کہ اللہ کی عدالت سے ان کو خلاف فیصلہ صادر ہوجائے کیونکہ یہ منکر اور جھٹلانے والے ہیں اور اس قسم کے بہت سے لوگ موجود بھی ہیں اور گزر بھی گئے ہیں۔ انسانوں میں سے بھی ہیں اور جنوں میں سے بھی ہیں۔ اور ان کے بارے میں اللہ نے جو فیصلہ کردیا ہے ، وہ نافذ ہو کر رہے گا۔ اللہ کے فیصلے نافذ ہوتے ہیں۔ انھم کانوا خسرین (٤٦ : ١٨) “ بیشک یہ لوگ گھاٹے میں رہ جانے والے ہیں ”۔ اس سے بڑا خسارہ اور کیا ہوگا کہ انسان دنیا میں ایمان ویقین سے محروم ہوجائے اور آخرت میں اللہ کی رضا مندی اور جنت سے محروم ہوجانے اور پھر دائمی طور پر عذاب جہنم میں گرفتار ہوجائے۔ ٭٭٭ اوپر جمالاً یہ بتا دیا گیا اہل ہدایت کو جزا ملے گی اور اہل ضلالت کو سزا ، اب یہاں بتایا جاتا ہے کہ حساب میں کسی کے ساتھ ناانصافی نہ ہوگی۔ ولکل درجت ۔۔۔۔ لا یظلمون (٤٦ : ١٩) “ دونوں گروہوں میں سے ہر ایک کے درجے ان کے اعمال کے لحاظ سے ہیں تا کہ اللہ ان کے کئے کا پورا پورا بدلہ ان کو دے۔ ان پر ظلم ہرگز نہ کیا جائے گا ”۔ ہر فرد کا اپنا اپنا مقام ہے اور ہر فرد کی اپنی اپنی کمائی ہے۔ اور ہر فرد کو اس کے اعمال کے مطابق بدلہ ملے گا۔ جن دو نمونوں کا اوپر ذکر ہوا۔ لوگوں میں بالعموم پائے جاتے ہیں۔ لیکن یہاں قرآن مجید نے ان کا تعین دو کرداروں اور دو افراد کی طرح کیا ہے اور یہ انداز اچھی طرح ذہن نشین ہوتا ہے۔ یوں گویا ایک متعین مثال کو بیان کیا جا رہا ہو۔ بعض روایات میں آتا ہے کہ یہ آیات بعض متعین افراد کے بارے میں وارد ہوئی ہیں لیکن ان میں سے کوئی روایت بھی صحت کے درجے میں نہیں ہے۔ مناسب یہی ہے کہ ان دونوں کو دو کرداروں کا بیان یا دو نمونے سمجھا جائے۔ دونوں نمونوں کے بیان کے بعد قرآن کریم نے جو تبصرہ دونوں پر الگ الگ کیا ہے ، وہ عام ہے۔ پہلے نمونے کے بعد وہ یہ تبصرہ آیا ہے۔ اولئک الذین نتقبل ۔۔۔۔۔ کانوا یوعدون (٤٦ : ١٦) “ اس طرح کے لوگوں سے ہم ان کے بہترین اعمال قبول کرتے ہیں اور ان کی برائیوں سے درگزر کر جاتے ہیں۔ یہ جنتی لوگوں میں شامل ہوں گے۔ اس سچے وعدے کے مطابق جو ان سے کیا جاتا رہا ہے ”۔ اور دوسرے کردار پر تبصرہ ہے۔ ولکل درجت ۔۔۔۔۔ لا یظلمون (٤٦ : ١٩) “ دونوں گروہوں میں سے ہر ایک کے درجے ان کے اعمال کے لحاظ سے ہیں تا کہ اللہ ان کے کئے کا پورا پورا بدلہ ان کو دے۔ ان پر ظلم ہرگز نہ کیا جائے گا ”۔ ان سب سے معلوم ہوتا ہے ان آیات میں دو متعین افراد کی طرف اشارہ نہیں بلکہ دو عام کرداروں کا تذکرہ ہے جو ہر زمان ومکان میں پائے جاتے ہیں۔ ٭٭٭٭ اب ان کو قیامت کے ایک منظر کے سامنے کھڑا کر کے اس کی ایک جھلک دکھائی جاتی ہے کہ یہ ہوگا وہ دن جس کا تم انکار کرتے ہو۔ ویوم یعرض الذین ۔۔۔۔۔ کنتم تفسقون (٤٦ : ٢٠) “ پھر جب یہ کافر ۔۔۔۔ کے سامنے لا کھڑے کئے جائیں گے تو ان سے کہا جائے گا : “ تم اپنے حصے کی نعمتیں اپنی دنیا کی زندگی میں ختم کرچکے اور ان کا لطف تم نے اٹھا لیا ، اب جو تکبر تم زمین میں کسی حق کے بغیر کرتے رہے اور جو نافرمانیاں تم نے کیں ، ان کی پاداش میں آج تم کو موت کا عذاب دیا جائے گا ”۔ یہ اسکرین پر سے بڑی تیزی سے گزر جانے والی ایک جھلک ہے ۔ گو ایک فیصلہ سنا دیا گیا لیکن دیکھنے والا گہرے غوروفکر میں ہوب جاتا ہے۔ یہ منظر اس وقت کا ہے جب آگ میں ڈالے جانے سے قبل وہ جہنم کے اوپر لائے جائیں گے۔ اس وقت ان کو بتا دیا جائے گا جس طرح مجرم کو سزا سے قبل سنا دیا جاتا ہے۔ اذھبتم طیبتکم فی حیاتکم الدنیا واستعتعتم بھا (٤٦ : ٢٠) “ تم اپنے حصے کی نعمتیں اپنی دنیا کی زندگی میں ختم کرچکے اور ان کا لطف تم نے اٹھا لیا ”۔ دنیا میں ان کو اللہ نے بہت سی پاکیزہ چیزیں دی تھیں لیکن انہوں نے دنیا کی عیش و عشرت ہی میں سب کچھ لٹا دیا اور آخرت کے لئے کچھ بھی باقی نہ چھوڑا۔ انہوں نے آخرت کا کوئی خیال نہ رکھا۔ اس طرح دنیا ہی میں چرچگ گئے جس طرح جانور چرچگ جاتے ہیں۔ اور کل کا خیال نہیں کرتے۔ نہ اللہ کا شکر ادا کیا۔ نہ حرام سے بچے اور نہ کوئی نیک کام کیا۔ ان کے اس رویہ کی وجہ سے اللہ نے ان کو دنیا ہی دے دی اور آخرت میں محروم کردیا۔ ان کی بڑی غلطی یہ تھی کہ دنیا کے ان مختصر لمحات کے عیش کے لئے انہوں نے آخرت کی نہ ختم ہونے والی طویل زندگی کو بھلا دیا جس کی طوالت کا تصور بھی انسان نہیں کرسکتا۔ فالیوم تجذون ۔۔۔۔۔ کنتم تفسقون (٤٦ : ٢٠) “ اب جو تکبر تم زمین میں کسی حق کے بغیر کرتے رہے اور جو نافرمانیاں تم نے کیں ان کی پاداش میں آج تم کو ذلت کا عذاب دیا جائے گا ” ۔ اس دنیا میں جو شخص بھی تکبر کرتا ہے وہ ناحق ہی کرتا ہے۔ تکبر اور گہرائی صرف اللہ کی چادر ہے۔ بڑائی کا حق اللہ کے بندوں کو نہیں ہے۔ نہ کم نہ زیادہ اور یہ توہین آمیز سزا اسی تکبر کے بدلے میں ہے اور جو لوگ فسق وفجور اختیار کرتے ہیں وہ بھی تکبر کی وجہ سے ایسا کرتے ہیں اسی لیے ان کو بھی توہین آمیز سزا دی جائے گی کیونکہ عزت تو اللہ ، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مومنین کے لئے مخصوص ہے۔ یہ سبق انسانوں کے یہ دو ماڈل پیش کر کے یہاں ختم ہوتا ہے ، جس میں منکرین آخرت ، بدکاروں اور مستکبرین فی الارض کے لئے توہین آمیز سزا کا اعلان کیا گیا ہے۔ اسے پڑھ کر فطرت سلیمہ رکھنے والے لوگ خدا خوفی پر آمادہ ہو کر سیدھی اور محفوظ راہ لیتے ہیں۔ آیت نمبر ١٧ تا ٢٠ والدین مومن ہیں اور لڑکا نافرمان ہے۔ وہ سب سے پہلے ان کی نیک روش کا انکار کرتا ہے۔ وہ نہایت ہی کرخت ، جارح اور قابل نفرت انداز میں ان سے مخاطب ہوتا ہے۔ اف لکما (٤٦ : ١٧) “ اف ، تنگ کردیا تم نے ” اور اس کے بعد پورے دین کی بنیادی کا انکار کردیتا ہے یعنی آخرت کا ۔ اور ان الفاظ میں : اتعدنی ان اخرج وقد خلت القرون من قبلی ( ٤٦ : ١٧) “ کیا تم مجھے یہ خوف دلاتے ہو کہ میں مرنے کے بعد قبر سے نکالا جاؤں گا ، حالانکہ مجھ سے پہلے نسلیں گزر چکی ہیں ”۔ یعنی وہ چلے گئے اور ان میں سے کوئی ایک بھی تو واپس نہیں آیا۔ حالانکہ قیامت کا تو وقت طے شدہ ہے اور لوگوں کا اٹھایا جانا اس طرح ہوگا کہ سب کو اکٹھا اٹھایا جائے گا ، ایک ایک آدمی کو نہیں۔ یہ بات تو اس کو کسی نے بھی نہ کہی تھی کہ ایک ایک آدمی کو یا ایک ایک نسل کو اٹھایا جائے گا۔ یہ کوئی مزاح تو ہے نہیں۔ یہ تو آخری حساب ہوگا اور سب کا ہوگا۔ والدین اس کے منہ سے یہ کفر سنتے ہیں ، اس کی ان باتوں سے پریشان ہوجاتے ہیں ، یہ اللہ کا بھی گستاخ ہے اور ان کے ساتھ بھی گستاخانہ رویہ رکھتا ہے۔ وہ سخت پریشان ہوجاتے ہیں۔ مارے خوف کے کانپ اٹھتے ہیں۔ وھما یستغیثن ۔۔۔۔ اللہ حق (٤٦ : ١٧) “ ماں اور باپ اللہ کی دہائی دے کر ، کہتے ہیں “ ارے بدنصیب مان جا ، اللہ کا وعدہ سچا ہے ” ۔ ان والدین کی باتوں سے ان کا خوف اور پریشانی ٹپکنی پڑتی ہے ، جبکہ یہ نافرمان بدبخت کفرو انکار پر مصر ہے۔ فیقول ما ۔۔۔۔۔ الاولین (٤٦ : ١٧) “ مگر وہ کہتا ہے یہ سب اگلے وقتوں کی فرسودہ باتیں ہیں ” ۔ اور اللہ پھر ایسے لوگوں کے انجام کو جلد ہی ہمارے سامنے رکھ دیتا ہے۔ ٭٭٭٭٭ اولئک الذین ۔۔۔۔۔ کانوا خسرین (٤٦ : ١٨) “ یہ لوگ ہیں جن پر عذاب کا فیصلہ چسپاں ہوچکا ہے ، ان سے پہلے جنوں اور انسانوں کے جو ٹولے (اسی قماش کے ) ہو گزرے ہیں ، انہی میں یہ بھی جا شامل ہوں گے۔ بیشک یہ گھاٹے میں رہ جانے والے لوگ ہیں ”۔ ایسے لوگ اس بات کے مستحق ہوجاتے ہیں کہ اللہ کی عدالت سے ان کو خلاف فیصلہ صادر ہوجائے کیونکہ یہ منکر اور جھٹلانے والے ہیں اور اس قسم کے بہت سے لوگ موجود بھی ہیں اور گزر بھی گئے ہیں۔ انسانوں میں سے بھی ہیں اور جنوں میں سے بھی ہیں۔ اور ان کے بارے میں اللہ نے جو فیصلہ کردیا ہے ، وہ نافذ ہو کر رہے گا۔ اللہ کے فیصلے نافذ ہوتے ہیں۔ انھم کانوا خسرین (٤٦ : ١٨) “ بیشک یہ لوگ گھاٹے میں رہ جانے والے ہیں ”۔ اس سے بڑا خسارہ اور کیا ہوگا کہ انسان دنیا میں ایمان ویقین سے محروم ہوجائے اور آخرت میں اللہ کی رضا مندی اور جنت سے محروم ہوجانے اور پھر دائمی طور پر عذاب جہنم میں گرفتار ہوجائے۔ ٭٭٭ اوپر جمالاً یہ بتا دیا گیا اہل ہدایت کو جزا ملے گی اور اہل ضلالت کو سزا ، اب یہاں بتایا جاتا ہے کہ حساب میں کسی کے ساتھ ناانصافی نہ ہوگی۔ ولکل درجت ۔۔۔۔ لا یظلمون (٤٦ : ١٩) “ دونوں گروہوں میں سے ہر ایک کے درجے ان کے اعمال کے لحاظ سے ہیں تا کہ اللہ ان کے کئے کا پورا پورا بدلہ ان کو دے۔ ان پر ظلم ہرگز نہ کیا جائے گا ”۔ ہر فرد کا اپنا اپنا مقام ہے اور ہر فرد کی اپنی اپنی کمائی ہے۔ اور ہر فرد کو اس کے اعمال کے مطابق بدلہ ملے گا۔ جن دو نمونوں کا اوپر ذکر ہوا۔ لوگوں میں بالعموم پائے جاتے ہیں۔ لیکن یہاں قرآن مجید نے ان کا تعین دو کرداروں اور دو افراد کی طرح کیا ہے اور یہ انداز اچھی طرح ذہن نشین ہوتا ہے۔ یوں گویا ایک متعین مثال کو بیان کیا جا رہا ہو۔ بعض روایات میں آتا ہے کہ یہ آیات بعض متعین افراد کے بارے میں وارد ہوئی ہیں لیکن ان میں سے کوئی روایت بھی صحت کے درجے میں نہیں ہے۔ مناسب یہی ہے کہ ان دونوں کو دو کرداروں کا بیان یا دو نمونے سمجھا جائے۔ دونوں نمونوں کے بیان کے بعد قرآن کریم نے جو تبصرہ دونوں پر الگ الگ کیا ہے ، وہ عام ہے۔ پہلے نمونے کے بعد وہ یہ تبصرہ آیا ہے۔ اولئک الذین نتقبل ۔۔۔۔۔ کانوا یوعدون (٤٦ : ١٦) “ اس طرح کے لوگوں سے ہم ان کے بہترین اعمال قبول کرتے ہیں اور ان کی برائیوں سے درگزر کر جاتے ہیں۔ یہ جنتی لوگوں میں شامل ہوں گے۔ اس سچے وعدے کے مطابق جو ان سے کیا جاتا رہا ہے ”۔ اور دوسرے کردار پر تبصرہ ہے۔ ولکل درجت ۔۔۔۔۔ لا یظلمون (٤٦ : ١٩) “ دونوں گروہوں میں سے ہر ایک کے درجے ان کے اعمال کے لحاظ سے ہیں تا کہ اللہ ان کے کئے کا پورا پورا بدلہ ان کو دے۔ ان پر ظلم ہرگز نہ کیا جائے گا ”۔ ان سب سے معلوم ہوتا ہے ان آیات میں دو متعین افراد کی طرف اشارہ نہیں بلکہ دو عام کرداروں کا تذکرہ ہے جو ہر زمان ومکان میں پائے جاتے ہیں۔ ٭٭٭٭ اب ان کو قیامت کے ایک منظر کے سامنے کھڑا کر کے اس کی ایک جھلک دکھائی جاتی ہے کہ یہ ہوگا وہ دن جس کا تم انکار کرتے ہو۔ ویوم یعرض الذین ۔۔۔۔۔ کنتم تفسقون (٤٦ : ٢٠) “ پھر جب یہ کافر ۔۔۔۔ کے سامنے لا کھڑے کئے جائیں گے تو ان سے کہا جائے گا : “ تم اپنے حصے کی نعمتیں اپنی دنیا کی زندگی میں ختم کرچکے اور ان کا لطف تم نے اٹھا لیا ، اب جو تکبر تم زمین میں کسی حق کے بغیر کرتے رہے اور جو نافرمانیاں تم نے کیں ، ان کی پاداش میں آج تم کو موت کا عذاب دیا جائے گا ”۔ یہ اسکرین پر سے بڑی تیزی سے گزر جانے والی ایک جھلک ہے ۔ گو ایک فیصلہ سنا دیا گیا لیکن دیکھنے والا گہرے غوروفکر میں ہوب جاتا ہے۔ یہ منظر اس وقت کا ہے جب آگ میں ڈالے جانے سے قبل وہ جہنم کے اوپر لائے جائیں گے۔ اس وقت ان کو بتا دیا جائے گا جس طرح مجرم کو سزا سے قبل سنا دیا جاتا ہے۔ اذھبتم طیبتکم فی حیاتکم الدنیا واستعتعتم بھا (٤٦ : ٢٠) “ تم اپنے حصے کی نعمتیں اپنی دنیا کی زندگی میں ختم کرچکے اور ان کا لطف تم نے اٹھا لیا ”۔ دنیا میں ان کو اللہ نے بہت سی پاکیزہ چیزیں دی تھیں لیکن انہوں نے دنیا کی عیش و عشرت ہی میں سب کچھ لٹا دیا اور آخرت کے لئے کچھ بھی باقی نہ چھوڑا۔ انہوں نے آخرت کا کوئی خیال نہ رکھا۔ اس طرح دنیا ہی میں چرچگ گئے جس طرح جانور چرچگ جاتے ہیں۔ اور کل کا خیال نہیں کرتے۔ نہ اللہ کا شکر ادا کیا۔ نہ حرام سے بچے اور نہ کوئی نیک کام کیا۔ ان کے اس رویہ کی وجہ سے اللہ نے ان کو دنیا ہی دے دی اور آخرت میں محروم کردیا۔ ان کی بڑی غلطی یہ تھی کہ دنیا کے ان مختصر لمحات کے عیش کے لئے انہوں نے آخرت کی نہ ختم ہونے والی طویل زندگی کو بھلا دیا جس کی طوالت کا تصور بھی انسان نہیں کرسکتا۔ فالیوم تجذون ۔۔۔۔۔ کنتم تفسقون (٤٦ : ٢٠) “ اب جو تکبر تم زمین میں کسی حق کے بغیر کرتے رہے اور جو نافرمانیاں تم نے کیں ان کی پاداش میں آج تم کو ذلت کا عذاب دیا جائے گا ” ۔ اس دنیا میں جو شخص بھی تکبر کرتا ہے وہ ناحق ہی کرتا ہے۔ تکبر اور گہرائی صرف اللہ کی چادر ہے۔ بڑائی کا حق اللہ کے بندوں کو نہیں ہے۔ نہ کم نہ زیادہ اور یہ توہین آمیز سزا اسی تکبر کے بدلے میں ہے اور جو لوگ فسق وفجور اختیار کرتے ہیں وہ بھی تکبر کی وجہ سے ایسا کرتے ہیں اسی لیے ان کو بھی توہین آمیز سزا دی جائے گی کیونکہ عزت تو اللہ ، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مومنین کے لئے مخصوص ہے۔ یہ سبق انسانوں کے یہ دو ماڈل پیش کر کے یہاں ختم ہوتا ہے ، جس میں منکرین آخرت ، بدکاروں اور مستکبرین فی الارض کے لئے توہین آمیز سزا کا اعلان کیا گیا ہے۔ اسے پڑھ کر فطرت سلیمہ رکھنے والے لوگ خدا خوفی پر آمادہ ہو کر سیدھی اور محفوظ راہ لیتے ہیں۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

15:۔ ” والذی قال “ یہ زجر مع تخویف اخروی ہے۔ مؤمن بیٹے کے ذکر کے بعد والدین کے اس بیٹے کا ذکر ہے جو والدین کے کہنے پر ایمان نہیں لاتا اور شرک و کفر پر قائم رہتا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے پہلے اس شخص کا ذکر ہے جو والدین کے کہنے پر ایمان لے آئے یعنی ایک بیٹا تو وہ ہے جو والدین کے کہنے پر ایمان ... لے آئے اور ایک وہ ہے جو والدین کی مشفقانہ پند و نصیحت کے جواب میں نہایت گستاخانہ رویہ اختیار کر کے کہتا ہے تم نے مجھے کس قدر دق کر رکھا ہے، تم کہتے ہو کہ میں مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کیا جاؤں گا حالانکہ مجھ سے پہلے قرنوں کے قرن گذر چکے ہیں، لیکن آج تک کسی مردے کو زندہ ہوتے تو ہم نے نہیں دیکھا۔ ” وھما یستغیثان اللہ “ ایک طرف گستاخ بیٹے کی معاندانہ گفتگو ہے، لیکن دوسری طرف والدین نہایت دلسوزی سے اس کو ایمان کی طرف بلاتے اور اللہ سے دعاء مانگتے ہیں کہ اسے ہدایت کی توفیق عطاء فرمائے اور اسے مسلسل ایمان کی دعوت دئیے جا رہے ہیں کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے اور قیامت ضرور آئیگی لیکن وہ کہے جا رہا ہے کہ یہ وعدہ قیامت اگلے لوگوں کی خود ساختہ باتوں میں سے ایک ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(17) اور وہ شخص جس نے اپنے ماں باپ کو کہا کہ تف ہے تم پر کیا تم مجھ کو یہ وعدہ اور یہ خبر دیتے ہو کہ قبر سے نکالا جائوں گا حالانکہ مجھ سے پہلے بہت سی قومیں اور طبقے اور امتیں گزر چکی ہیں اور ماں باپ کا یہ حال ہے کہ وہ دونوں اللہ تعالیٰ سے فریاد کرتے ہیں اور لڑکے سے کہتے ہیں ارے تیرابراہو تو ایمان لے...  اور یقین جان کر اللہ تعالیٰ کا وعدہ سچا اور برحق ہے مگر وہ جواب دیتا ہے کچھ نہیں یہ محض اگلے لوگوں کی بےسروپاکہانیاں ہیں۔ یعنی ماں باپ کو مسلمان ہونے کی بنا پر ڈانٹتا ہے کفر اور عقوق یعنی ماں باپ کی نافرمانی دونوں ککا ارتکاب کرتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ یہ آیت کسی شقی اور بدبخت کے حق میں نازل ہوئی ہو جیسا کہ حسن بصری (رح) وغیرہ سے منقول ہے یا ہر وہ شخص مراد ہے جو اس مذموم صفت سے متصف ہو۔  Show more