Surat ul Ehkaaf

Surah: 46

Verse: 21

سورة الأحقاف

وَ اذۡکُرۡ اَخَا عَادٍ ؕ اِذۡ اَنۡذَرَ قَوۡمَہٗ بِالۡاَحۡقَافِ وَ قَدۡ خَلَتِ النُّذُرُ مِنۡۢ بَیۡنِ یَدَیۡہِ وَ مِنۡ خَلۡفِہٖۤ اَلَّا تَعۡبُدُوۡۤا اِلَّا اللّٰہَ ؕ اِنِّیۡۤ اَخَافُ عَلَیۡکُمۡ عَذَابَ یَوۡمٍ عَظِیۡمٍ ﴿۲۱﴾

And mention, [O Muhammad], the brother of 'Aad, when he warned his people in the [region of] al-Ahqaf - and warners had already passed on before him and after him - [saying], "Do not worship except Allah . Indeed, I fear for you the punishment of a terrible day."

اور عاد کے بھائی کو یاد کرو ، جبکہ اس نے اپنی قوم کو احقاف میں ڈرایا اور یقیناً اس سے پہلے بھی ڈرانے والے گزر چکے ہیں اور اس کے بعد بھی یہ کہ تم سوائے اللہ تعالٰی کے اور کی عبادت نہ کرو بیشک میں تم پر بڑے دن کے عذاب سے خوف کھاتا ہوں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Story of `Ad Allah says, consoling His Prophet in regard to the rejection of those who opposed him among his people, وَاذْكُرْ أَخَا عَادٍ ... And remember the brother of `Ad, This refers to Hud, peace be upon in him. ... إِذْ أَنذَرَ قَوْمَهُ بِالاَْحْقَافِ when he warned his people in Al-Ahqaf. Allah sent him to the first people of `Ad who inhabited Al-Ahqaf. Ahqaf is plural of Haqf. According to Ibn Zayd, it means a sand dune; and according to Ikrimah, it means a mountain or a cave. Qatadah said: "We were informed that `Ad was a tribe in Yemen. They dwelt among sand (hills), and overlooked the sea in a land called Ash-Shihr." Under the chapter, "He Who supplicates should first mention Himself," Ibn Majah recorded that Ibn Abbas narrated that the Prophet said: يَرْحَمُنَا اللهُ وَأَخَا عَاد May Allah have mercy on us and the Brother of `Ad. Allah then says, وَقَدْ خَلَتْ النُّذُرُ مِن بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ ... And surely, warners had already passed on before him and after him. meaning, Allah had sent Messengers and warners to the towns surrounding the land of `Ad. This is similar to Allah's saying, فَجَعَلْنَـهَا نَكَـلً لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهَا وَمَا خَلْفَهَا And We made it a deterrent punishment for those who were present and those who succeeded them. (2:66) And it is also similar to Allah's saying, فَإِنْ أَعْرَضُواْ فَقُلْ أَنذَرْتُكُمْ صَـعِقَةً مِّثْلَ صَـعِقَةِ عَادٍ وَثَمُودَ إِذْ جَأءَتْهُمُ الرُّسُلُ مِن بَيْنِ أَيْدِيهِمْ وَمِنْ خَلْفِهِمْ أَلاَّ تَعْبُدُواْ إِلاَّ اللَّهَ But if they turn away, then say: "I have warned you of a thunderbolt like the thunderbolt that struck `Ad and Thamud. (That occurred) when the Messengers had come to them from before them and after them (saying): "Worship none but Allah." (41:13-14) ... أَلاَّ تَعْبُدُوا إِلاَّ اللَّهَ ... "Worship none but Allah; Allah then says, ... إِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ truly, I fear for you the torment of a mighty Day. meaning, Hud said this to them (his people), and they responded to him saying,

قوم عاد کی تباہی کے اسباب جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تسلی کے لئے اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر آپ کی قوم آپ کو جھٹلائے تو آپ اگلے انبیاء کے واقعات یاد کر لیجئے کہ ان کی قوم نے بھی ان کی تکذیب کی عادیوں کے بھائی سے مراد حضرت ہود پیغمبر ہیں علیہ السلام والصلوۃ ۔ انہیں اللہ تبارک وتعالیٰ نے عاد اولیٰ کی طرف بھیجا تھا جو احقاف میں رہتے تھے احقاف جمع ہے حقف کی اور حقف کہتے ہیں ریت کے پہاڑ کو ۔ مطلق پہاڑ اور غار اور حضر موت کی وادی جس کا نام برہوت ہے جہاں کفار کی روحیں ڈالی جاتی ہیں یہ مطلب بھی احقاف کا بیان کیا گیا ہے قتادہ کا قول ہے کہ یمن میں سمندر کے کنارے ریت کے ٹیلوں میں ایک جگہ تھی جس کا نام شہر تھا یہاں یہ لوگ آباد تھے امام ابن ماجہ نے باب باندھا ہے کہ جب دعا مانگے تو اپنے نفس سے شروع کرے اس میں ایک حدیث لائے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ ہم پر اور عادیوں کے بھائی پر رحم کرے پھر فرماتا ہے کہ اللہ عزوجل نے ان کے اردگرد کے شہروں میں بھی اپنے رسول مبعوث فرمائے تھے ۔ جیسے اور آیت میں ہے آیت ( فَجَــعَلْنٰھَا نَكَالًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهَا وَمَا خَلْفَهَا وَمَوْعِظَةً لِّلْمُتَّقِيْنَ 66۝ ) 2- البقرة:66 ) اور جیسے اللہ جل وعلا کا فرمان ہے آیت ( فَاِنْ اَعْرَضُوْا فَقُلْ اَنْذَرْتُكُمْ صٰعِقَةً مِّثْلَ صٰعِقَةِ عَادٍ وَّثَمُوْدَ 13۝ۭ ) 41- فصلت:13 ) ، پھر فرماتا ہے کہ حضرت ہود علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا کہ تم موحد بن جاؤ ورنہ تمہیں اس بڑے بھاری دن میں عذاب ہو گا ۔ جس پر قوم نے کہا کیا تو ہمیں ہمارے معبودوں سے روک رہا ہے ؟ جا جس عذاب سے تو ہمیں ڈرا رہا ہے وہ لے آ ۔ یہ تو اپنے ذہن میں اسے محال جانتے تھے تو جرات کر کے جلد طلب کیا ۔ جیسے کہ اور آیت میں ہے آیت ( يَسْتَعْجِلُ بِهَا الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِهَا 18؀ ) 42- الشورى:18 ) یعنی ایمان نہ لانے والے ہمارے عذابوں کے جلد آنے کی خواہش کرتے ہیں ۔ اس کے جواب میں ان کے پیغمبر نے کہا کہ اللہ ہی کو بہتر علم ہے اگر وہ تمہیں اسی لائق جانے گا تو تم پر عذاب بھیج دے گا ۔ میرا منصب تو صرف اتنا ہی ہے کہ میں اپنے رب کی رسالت تمہیں پہنچا دوں لیکن میں جانتا ہوں کہ تم بالکل بےعقل اور بےوقوف لوگ ہو اب اللہ کا عذاب آگیا انہوں نے دیکھا کہ ایک کالا ابر ان کی طرف بڑھتا چلا آرہا ہے چونکہ خشک سالی تھی گرمی سخت تھی یہ خوشیاں منانے لگے کہ اچھا ہوا ابر چڑھا ہے اور اسی طرف رخ ہے اب بارش برسے گی ۔ دراصل ابر کی صورت میں یہ وہ قہر الہی تھا جس کے آنے کی وہ جلدی مچا رہے تھے اس میں وہ عذاب تھا جسے حضرت ہود سے یہ طلب کر رہے تھے وہ عذاب ان کی بستیوں کی تمام ان چیزوں کو بھی جن کی بربادی ہونے والی تھی تہس نہس کرتا ہوا آیا اور اسی کا اسے اللہ کا حکم تھا جیسے اور آیت میں ہے آیت ( مَا تَذَرُ مِنْ شَيْءٍ اَتَتْ عَلَيْهِ اِلَّا جَعَلَتْهُ كَالرَّمِيْمِ 42؀ۭ ) 51- الذاريات:42 ) یعنی جس چیز پر وہ گذر جاتی تھی اسے چورا چورا کر دیتی تھی ۔ پس سب کے سب ہلاک و تباہ ہوگئے ایک بھی نہ بچ سکا ۔ پھر فرماتا ہے ہم اسی طرح ان کا فیصلہ کرتے ہیں جو ہمارے رسولوں کو جھٹلائیں اور ہمارے احکام کی خلاف ورزی کریں ایک بہت ہی غریب حدیث میں ان کا جو قصہ آیا ہے وہ بھی سن لیجئے ۔ حضرت حارث کہتے ہیں میں علا بن حضرمی کی شکایت لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جا رہا تھا ربذہ میں مجھے بنو تمیم کی ایک بڑھیا ملی جس کے پاس سواری وغیرہ نہ تھی مجھ سے کہنے لگی اے اللہ کے بندے میرا ایک کام اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے کیا تو مجھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچا دے گا ؟ میں نے اقرار کیا اور انہیں اپنی سواری پر بٹھا لیا اور مدینہ شریف پہنچا میں نے دیکھا کہ مسجد شریف لوگوں سے کھچا کھچ بھری ہوئی ہے سیاہ رنگ جھنڈا لہرا رہا ہے اور حضرت بلال تلوار لٹکائے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کھڑے ہیں میں نے دریافت کیا کہ کیا بات ہے ؟ تو لوگوں نے مجھ سے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم عمرو بن عاص کو کسی طرف بھیجنا چاہتے ہیں میں ایک طرف بیٹھ گیا جب آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنی منزل یا اپنے خیمے میں تشریف لے گئے تو میں بھی گیا اجازت طلب کی اور اجازت ملنے پر آپ کی خدمت میں باریاب ہوا اسلام علیک کی تو آپ نے مجھ سے دریافت فرمایا کہ کیا تمہارے اور بنو تمیم کے درمیان کچھ رنجش تھی ؟ میں نے کہا ہاں اور ہم ان پر غالب رہے تھے اور اب میرے اس سفر میں بنو تمیم کی ایک نادار بڑھیا راستے میں مجھے ملی اور یہ خواہش ظاہر کی کہ میں اسے اپنے ساتھ آپ کی خدمت میں پہنچاؤں چنانچہ میں اسے اپنے ساتھ لایا ہوں اور وہ دروازہ پر منتظر ہے آپ نے فرمایا اسے بھی اندر بلا لو چنانچہ وہ آگئیں میں نے کہا یا رسول اللہ اگر آپ ہم میں اور بنو تمیم میں کوئی روک کر سکتے ہیں تو اسے کر دیجئے اس پر بڑھیا کو حمیت لاحق ہوئی اور وہ بھرائی ہوئی آواز میں بول اٹھی کہ پھر یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کا مضطر کہاں قرار کرے گا ؟ میں نے کہا سبحان اللہ میری تو وہی مثل ہوئی کہ اپنے پاؤں میں آپ ہی کلہاڑی ماری مجھے کیا خبر تھی کہ یہ میری ہی دشمنی کرے گی ؟ ورنہ میں اسے لاتا ہی کیوں ؟ اللہ کی پناہ واللہ کہیں ایسا نہ ہو کہ میں بھی مثل عادیوں کے قاصد کے ہوجاؤں ۔ آپ نے دریافت فرمایا کہ عادیوں کے قاصد کا واقعہ کیا ہے ؟ باوجودیکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس واقعہ سے بہ نسبت میرے بہت زیادہ واقف تھے لیکن آپ کے فرمان پر میں نے وہ قصہ بیان کیا کہ عادیوں کی بستیوں میں جب سخت قحط سالی ہوئی تو انہوں نے اپنا ایک قاصد قیل نامی روانہ کیا ، یہ راستے میں معاویہ بن بکر کے ہاں آکر ٹھہرا اور شراب پینے لگا اور اس کی دونوں کنیزوں کا گانا سننے میں جن کا نام جرادہ تھا اس قدر مشغول ہوا کہ مہینہ بھر تک یہیں پڑا رہا پھر چلا اور جبال مہرہ میں جا کر اس نے دعا کی کہ اللہ تو خوب جانتا ہے میں کسی مریض کی دوا کے لئے یا کسی قیدی کا فدیہ ادا کرنے کے لئے تو آیا نہیں الہٰی عادیوں کو وہ پلا جو تو نے انہیں پلانے والا ہے چنانچہ چند سیاہ رنگ بادل اٹھے اور ان میں سے ایک آواز آئی کہ ان میں سے جسے تو چاہے پسند کر لے چنانچہ اس نے سخت سیاہ بادل کو پسند کر لیا اسی وقت ان میں سے ایک آواز آئی کہ اسے راکھ اور خاک بنانے والا کر دے تاکہ عادیوں میں سے کوئی باقی نہ رہے ۔ کہا اور مجھے جہاں تک علم ہوا ہے یہی ہے کہ ہواؤں کے مخزن میں سے صرف پہلے ہی سوراخ سے ہوا چھوڑی گئی تھی جیسے میری اس انگوٹھی کا حلقہ اسی سے سب ہلاک ہوگئے ۔ ابو وائل کہتے ہیں یہ بالکل ٹھیک نقل ہے عرب میں دستور تھا کہ جب کسی قاصد کو بھیجتے تو کہدیتے کہ عادیوں کے قاصد کی طرح نہ کرنا ۔ یہ روایت ترمذی نسائی اور ابن ماجہ میں بھی ہے ۔ جیسے کہ سورہ اعراف کی تفسیر میں گذرا مسند احمد میں حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی کھل کھلا کر اس طرح ہنستے ہوئے نہیں دیکھا کہ آپ کے مسوڑھے نظر آئیں ۔ آپ صرف تبسم فرمایا کرتے تھے اور جب ابر اٹھتا اور آندھی چلتی تو آپ کے چہرے سے فکر کے آثار نمودار ہو جاتے ۔ چنانچہ ایک روز میں نے آپ سے کہا یارسول اللہ لوگ تو ابروباد کو دیکھ کر خوش ہوتے ہیں کہ اب بارش برسے گی لیکن آپ کی اس کے بالکل برعکس حالت ہو جاتی ہے؟ آپ نے فرمایا عائشہ میں اس بات سے کہ کہیں اس میں عذاب ہو کیسے مطمئن ہو جاؤں ؟ ایک قوم ہوا ہی سے ہلاک کی گئی ایک قوم نے عذاب کے بادل کو دیکھ کہا تھا کہ یہ ابر ہے جو ہم پر بارش برسائے گا ۔ صحیح بخاری و مسلم میں بھی یہ روایت دوسری سند سے مروی ہے ۔ مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کبھی آسمان کے کسی کنارے سے ابر اٹھتا ہوا دیکھتے تو اپنے تمام کام چھوڑ دیتے اگرچہ نماز میں ہوں اور یہ دعا پڑھتے ( اللھم انی اعوذ بک من شرما فیہ ) اللہ میں تجھ سے اس برائی سے پناہ چاہتا ہوں جو اس میں ہے ۔ پس اگر کھل جاتا تو اللہ عزوجل کی حمد کرتے اور اگر برس جاتا تو یہ دعا پڑھتے ( اللھم صیبا نافعا ) اے اللہ اسے نفع دینے والا اور برسنے والا بنا دے ۔ صحیح مسلم میں روایت ہے کہ جب ہوائیں چلتیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا پڑھتے ( اللھم انی اسألک خیرھا وخیر ما فیھا وخیر ما ارسلت بہ واعوذ بک من شرھا ما فیھا وشر ما ارسلت بہ ) یا اللہ میں تجھ سے اس کی اور اس میں جو ہے اس کی اور جس کے یہ ساتھ لے کر آئی ہے اس کی بھلائی طلب کرتا ہوں اور تجھ سے اس کی اور اس میں جو ہے اس کی اور جس چیز کے ساتھ یہ بھیجی گئی ہے اس کی برائی سے پناہ چاہتا ہوں ۔ اور جب ابر اٹھتا تو آپ کا رنگ متغیر ہو جاتا کبھی اندر کبھی باہر آتے کبھی جاتے ۔ جب بارش ہو جاتی تو آپ کی یہ فکرمندی دور ہو جاتی ۔ حضرت عائشہ نے اسے سمجھ لیا اور آپ سے ایک بار سوال کیا تو آپ نے جواب دیا کہ عائشہ خوف اس بات کا ہوتا ہے کہ کہیں یہ اسی طرح نہ ہو جس طرح قوم ہود نے اپنی طرف بادل بڑھتا دیکھ کر خوشی سے کہا تھا کہ یہ ابر ہمیں سیراب کرے گا ۔ سورہ اعراف میں عادیوں کی ہلاکت کا اور حضرت ہود کا پورا واقعہ گذر چکا ہے اس لئے ہم اسے یہاں نہیں دوہراتے ( فللہ الحمد والمنہ ) طبرانی کی مرفوع حدیث میں ہے کہ عادیوں پر اتنی ہی ہوا کھولی گئی تھی جتنا انگوٹھی کا حلقہ ہوتا ہے یہ ہوا پہلے دیہات والوں اور بادیہ نشینوں پر آئی وہاں سے شہری لوگوں پر آئی جسے دیکھ کر یہ کہنے لگے کہ یہ ابر جو ہماری طرف بڑھا چلا آرہا ہے یہ ضرور ہم پر بارش برسائے گا لیکن یہ جنگلی لوگ تھے جو ان شہریوں پر گرا دئیے گئے اور سب ہلاک ہو گئے ہوا کے خزانچیوں پر ہوا کی سرکشی اس وقت اتنی تھی کہ دروازوں کے سوراخوں سے وہ نکلی جا رہی تھی واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

21۔ 1 احقاف حقف کی جمع ہے ریت کا بلند مستطیل ٹیلہ بعض نے اس کے معنی پہاڑ اور غار کے کیے ہیں یہ حضرت ہود (علیہ السلام) کی قوم عاد اولی کے علاقے کا نام ہے جو حضرموت (یمن) کے قریب تھا کفار کہ کی تکذیب کے پیش نظر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تسلی کے لیے گزشتہ انبیاء (علیہم السلام) کے واقعات کا تذکرہ کیا جا رہا ہے۔ 21۔ 2 یوم عظیم سے مراد قیامت کا دن ہے، جسے اس کی ہولناکیوں کی وجہ سے بجا طور پر بڑا دن کہا گیا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٣] یہاں قوم عاد کا ذکر اس مناسبت سے کیا گیا ہے کہ یہ لوگ قریشی سرداروں سے بھی زیادہ مغرور، متکبر اور سرکش تھے۔ یہ قوم کفار مکہ کی نسبت قدوقامت، ڈیل ڈول اور جسمانی قوت کے لحاظ سے بھی بہت بڑھ کر تھی۔ [٣٤] احقاف قوم عاد کا مسکن :۔ احقاف، حقف کی جمع ہے۔ بمعنی ریت کے بڑے بڑے میلوں میں پھیلے ہوئے ٹیلے۔ یہی علاقہ قوم عاد کا مسکن تھا۔ جو کسی زمانہ میں سرسبز اور شاداب علاقہ تھا۔ قوم عاد نے اسی جگہ زمین دوز مکان بنا رکھے تھے۔ یہ علاقہ جنوبی عرب میں حضرموت کے شمال میں واقع ہے۔ اور آج کل وہاں ریت ہی ریت کے ٹیلے ہیں جو سینکڑوں میل تک پھیلتے چلے گئے ہیں۔ اس علاقہ کو آج کل ربع خالی بھی کہتے ہیں۔ کوئی شخص اس صحرا میں داخل ہونے کی جرأت نہیں کرتا۔ اور جو چیز اس ریت میں گرپڑے وہ بھی ریت میں دھنس کر ریت ہی بن جاتی ہے۔ جیسے کوئی چیز نمک کی کان میں گرپڑے تو وہ بھی نمک ہی بن جاتی ہے۔ [٣٥] اس علاقہ میں ہود (علیہ السلام) سے پہلے بھی کئی نبی آئے تھے اور بعد میں آتے رہے۔ ان سب کی تعلیم یہی تھی کہ اللہ ہی کائنات کا اور تمہارا خالق اور مالک ہے۔ لہذا وہی ہستی عبادت کے لائق ہے۔ صرف اسی کی عبادت کرو۔ کیونکہ اور کسی کے اختیار میں کچھ بھی نہیں ہے۔ اور اگر تم نے اللہ کا حکم نہ مانا، شرک اور اپنی سرکشی سے باز نہ آئے تو تم پر سخت عذاب نازل ہوگا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) واذکرا اخاعاد :” اذکر “ ” ذکر “ سے ہو تو مطلب یہ ہے کہ اپنی قوم کے سامنے اس کا ذکر کرو، تاکہ انہیں نصیحت ہو اور اگر ” ذکر “ سے ہو تو مطلب یہ ہے کہ اسے یاد کرو، تاکہ تمہیں اس سے تسلی حاصل ہو۔ دونوں باتیں بیک وقت بھی مراد ہوسکتی ہیں، کیونکہ ” اذکر “ دونوں سے فعل امر ہے۔ قیامت کے دن تکبر کرنے والوں کا حال بیان کرنے کے بعد دنیا میں چند متکبر اقوام کا ذکر فرمایا، جن میں سے عاد کا ذکر کچھ تفصیل کے ساتھ اور دوسری اقوام کا حال آیت (٢٧) (ولقد اھلکنا ماحولکم من القری) میں اجمال کے ساتھ بیان فرمایا۔ عاد کے بھائی سے مراد ہود (علیہ السلام) ہیں، جیسا کہ فرمایا :(والی عاد اخاھم ھوداً (الاعراف : ٦٥)” اور عاد کی طرف ان کے بھائی ہود کو (بھیجا۔ ) “ تفصیل کے لئے دیکھیے سورة اعراف (٦٥) کی تفسیر۔ ہود (علیہ السلام) کو قوم عاد کا بھائی اس لئے فرمایا کہ وہ ان کے ایک فرد تھے۔ عاد کا تفصیلی ذکر اس لئے فرمایا کہ عرب اقوام میں سے یہ پہلی قوم ہے جس کے پاس نوح (علیہ السلام) کی عام رسالت کے بعد کوئی رسول آیا۔ ہود اور صالح علیہ اسلام کا زمانہ ابراہیم (علیہ السلام) سے پہلے کا ہے۔ سرداران قریش جو اپنی بڑائی کا زعم کا زعم رکھتے تھے، انہیں قوم عاد کا قصہ سنایا جو ان کی سر زمین کی سب سے طاقتور قوم تھی۔ (٢) اذا نذر قومہ بالاحقاف :” الاخقاف “ ” حفق “ کی جمع ہے، ریت کے بلند اور مستطیل ٹیلے کو ” حقف “ کہتے ہیں، جو کچھ ٹیڑھا ہو۔” احقوقف الشی “ جب کوئی چیز ٹیڑھی ہو۔ یہاں ” احقاف “ سے مراد یمن کے مشرق میں حضر موت کا وہ علاقہ ہے جو عرب کے صحرائے اعظم (ربع خالی) کا حصہ ہے۔ ہود (علیہ السلام) کی قوم وہاں آباد تھی اور اس زمانے میں وہ نہایت نرخیز اور ترقی یافتہ علاقہ تھا، جس میں چشمے ، باغات اور مال مویشی کثرت کے ساتھ موجود تھے، جیسا کہ سورة شعراء (١٣٢ تا ١٣٤) میں مذکور ہے۔ اللہ تعالیٰ کے عذاب کے بعد وہ علاقہ ایسا برپا ہوا کہ اب تک وہاں آبادی کا نام و نشان نہیں، ہر طرف ریگستان ہے اور ریت کے لمبے چوڑے ٹیلے۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس علاقے کو ” احقاف “ اس کی موجودہ حالت کے اعتبار سے کہا گیا ہے۔ تفہیم القرآن میں ہے :” احقاف کی موجودہ حالت دیھک کر کوئی شخص یہ گمان بھی نہیں کرسکتا کہ کبھی یہاں ایک شاندار تمدن رکھنے والی ایک طاقتور قوم آباد ہوگی۔ اغلب یہ ہے کہ ہز اورں برس پہلے یہ ایک شاداب علاقہ ہوگا اور بعد میں آب و ہوا کی تبدیلی نے اسے ریگزار بنادیا ہوگا۔ آج اس کی یہ حالت ہے کہ وہ ایک لق و دق ریگستان ہے، جس کے اندرونی حصوں میں جانے کی بھی کوئی ہمت نہیں رکھتا۔ ١٨٤٣ ء میں بویریا کا ایک فوجی آدمی اس کے جنوبی کنارے پر پہنچ گیا تھا، وہ کہتا ہے کہ حضر موت کی شمالی سطح مرتفع پر سے کھڑا ہو کر دیکھا جائے تو یہ صحرا ایک ہزار فٹ نشیب میں نظر آتا ہے، اس میں جگہ جگہ ایسے سفید خطے ہیں جن میں اگر کوئی چیز گرجائے تو ریت میں غرق ہوتی چلی جاتی ہے اور بالکل بوسیدہ ہوجاتی ہے۔ عرب کے بدو اس علاقے سے بہت ڈرتے ہیں اور کسی قیمت پر وہاں جانے پر راضی نہیں ہوتے۔ ایک موقع پر جب بدو اسے وہاں لے جانے پر راضی نہ ہوئے تو وہ اکیلا وہاں گیا۔ اس کا بیان ہے کہ یہاں کی ریت بالکل باریک سفوف کی طرح ہے، میں نے دور سے ایک شاقول اس میں پھینکا تو وہ پانچ منٹ کے اندر اس میں غرق ہوگیا اور اس رسی کا سرا گل گیا جس کے ساتھ وہ بندھا ہوا تھا۔ مفصل معلومات کے لئے ملاحظہ ہو : Arabia and the Isles by Harold Ingrams, Land in 1946. the Unveiling of Arabia. By Reginald Hugh Kiernan, Land in 1937. the Empty Quarter By st. john philby. London 1933.&& (٣) وقد خلت النذر من بین یدیہ ومن خلفۃ…:” اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں کہ ہود (علیہ السلام) سے پہلے بھی کئی ڈرانے والے گزرے اور ان کے بعد بھی اپنی اپنی قوم کو ڈرانے والے کئی پیغمبر گزر چکے، سب کی تعلیم یہی تھی کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔ ڈرانے والوں کا ذکر اس لئے فرمایا کہ بشارت ماننے والوں کو دی جاتی ہے۔ اس سورت کی ابتدا بھی اسی بات سے ہوئی ہے، فرمایا :(والذین کفروا عما انذوا تعرضون) (الاحقاف : ٣)” اور وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا اس چیز سے جس سے وہ ڈرائے گئے ، منہ پھیرنے والے ہیں۔ “ (٤) انی اخاف علیکم عذاب یوم عظیم :” عظیم “” یوم “ کی صفت ہے۔ اس عظیم دن سے مراد آخرت کا دن بھی واقعات کی وجہ سے عظیم کہا ہے جو اس میں واقع ہوں گے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

{ 1} The reference here is to the towns of Thamud and the people of Sayyidna Lut (علیہ السلام) that were in the way of the people of Arabia while they travelled to Syria. The people of ` Ad were in Yemen, towards South from Makkah, while the towns of Thamud and those of Sayyidna Lut (علیہ السلام) were towards North, hence the words, |"around you|" Commentary These verses are to remind the infidels of the severe punishments faced by earlier people who rejected the messengers sent to them. Special reference is made to ` Ad, the people of Sayyidna Hud (علیہ السلام) who has been described as their &brother&, firstly because he belonged to their tribe, and secondly because he was their well-wisher as a brother. Since this nation lived in valleys surrounded by long, curved sand dunes, called in Arabic Ahqaf , special reference is made to these dunes, so that one could find out their places, if he so wishes when traveling to their localities. It is mentioned in verse 22 that they themselves demanded Allah&s punishment to be brought upon them. Then verse 24 states that the punishment was sent to them in the form of a cloud that appeared to be benign, and therefore they were happy to see it in the hope that it would bring rain to them, but in fact it contained the divine punishment in the form of a violent wind that destroyed everything, leaving nothing except their empty homes that remained as a sign for those who might learn a lesson. The detailed account of the story of ` Ad and Thamud has already been given in Surah Hud (11:50) for which volume 4, page 643 of this book may be consulted. Mention of these events in these verses is in the form of a brief reference, and in verse 26 the infidels of Makkah are reminded that those nations were much more powerful and well-established than the people of Makkah. Still, their power and strength was of no use to them against Allah&s punishment. Moreover, verse 28 points out that the false gods believed by them to be their patrons could not save them from the torment they faced, because they were coined only by their false imagination, having no real existence at all.

خلاصہ تفسیر اور آپ قوم عاد کے بھائی (یعنی ہود علیہ السلام) کا (ان سے) ذکر کیجئے جبکہ انہوں نے اپنی قوم کو جو کہ ایسے مقام پر رہتے تھے کہ وہاں ریگ کے مستطیل خمدار تو دے تھے (یہ مقام کی نشان دہی اس لئے کی گئی کہ دیکھنے والوں کے ذہن میں استحضار ہوجائے) اس (بات) پر (عذاب الٰہی سے) ڈرایا کہ تم خدا کے سوا کسی کی عبادت مت کرو (ورنہ تم پر عذاب نازل ہوگا) اور (یہ ایسی ضروری اور صحیح بات ہے کہ) ان (ہود علیہ السلام) سے پہلے اور ان کے پیچھے (اسی مضمون کے متعلق) بہت سے ڈرانے والے (پیغمبر اب تک) گزر چکے ہیں (اور عجب نہیں کہ ہود (علیہ السلام) نے ان سب کا متفق ہونا دعوت الی التوحید میں ان کے سامنے بیان بھی کیا ہو، پس جملہ وَقَدْ خَلَتِ النُّذُرُ کا بیچ میں بڑھا دینا ان فوائد کے لئے ہے کہ مضمون دعوت کی تاکید ہوجائے اور ہود (علیہ السلام) نے انداز میں یہ فرمایا کہ) مجھ کو تم پر ایک بڑے (سخت) دن کے عذاب کا اندیشہ ہے (اگر اس سے بچنا ہے تو توحید قبول کرلو) وہ کہنے لگے کیا تم ہمارے پاس اس ارادے سے آئے ہو کہ ہم کو ہمارے معبودوں سے پھیر دو سو (ہم تو پھرنے والے ہیں نہیں باقی) اگر تم سچے ہو تو جس (عذاب) کا تم ہم سے وعدہ کرتے ہو اس کو ہم پر واقع کردو۔ انہوں نے فرمایا کہ پورا علم تو خدا ہی کو ہے ( کہ عذاب کب تک آوے گا) اور مجھ کو تو جو پیغام دے کر بھیجا گیا ہے میں تم کو وہ پہنچا دیتا ہوں (چنانچہ اس میں مجھ سے یہ بھی کہا گیا کہ تم پر عذاب آوے گا میں نے تم کو اطلاع کردی، اس سے زیادہ نہ مجھ کو علم ہے اور نہ قدرت) لیکن میں تم کو دیکھتا ہوں کہ تم لوگ نری جہالت کی باتیں کرتے ہو (کہ ایک تو توحید کو قبول نہیں کرتے پھر اپنے منہ سے بلا مانگتے ہو، پھر مجھ سے اس کی فرمائش کرتے ہو۔ البتہ اپنے صدق کا میں مدعی ہوں جس پر دلیل قائم کرچکے ہیں اور جس واقعہ میں تم کو شبہ ہے اس کا وقت وقوع مجھ کو نہیں بتلایا گیا ہاں نفس وقوع کو جب اللہ چاہے دیکھ لیتا ہے غرض جب کسی طرح انہوں نے حق کو قبول نہ کیا تو اب عذاب کا اس طرح سامان شروع ہوا کہ اول ایک بادل اٹھا) سو ان لوگوں نے جب اس بادل کو اپنی وادیوں کے مقابل آتا دیکھا تو کہنے لگے کہ یہ تو بادل ہے جو ہم پر برسے گا (ارشاد ہوا کہ) نہیں (برسنے والا بادل نہیں) بلکہ یہ وہی (عذاب) ہے جس کی تم جلدی مچاتے تھے (کہ وہ عذاب جلدی لاؤ اور اس بال میں) ایک آندھی ہے جس میں درد ناک عذاب ہے وہ (آندھی) ہر چیز کو (جس کے ہلاک کرنے کا حکم ہوگا) اپنے رب کے حکم سے ہلاک کر دیگی چناچہ ( وہ آندھی) ہر چیز کو جس کے ہلاک کرنے کا حکم ہوگا) اپنے رب کے حکم سے ہلاک کر دیگی چناچہ (وہ آندھی چھٹتی اور آدمیوں کو اور مواشی کو اٹھا اٹھا کر پٹک دیتی تھی جس سے) وہ ایسے (تباہ) ہوگئے کہ بجز ان کے مکانات کے اور کچھ (آدمی اور حیوان) نہ دکھلائی دیتا تھا، ہم مجرموں کو یوں ہی سزا دیا کرتے ہیں اور ہم نے ان کو (یعنی قوم عاد کے) لوگوں کو ان باتوں میں قدرت دی تھی کہ تم کو ان باتوں میں قدرت نہیں دی (مراد ان باتوں سے وہ تصرفات ہیں جو قوت جسمانی و مالی پر موقوف ہیں) اور ہم نے ان کو کان اور آنکھ اور دل (سب ہی کچھ) دیئے تھے، سو چونکہ وہ لوگ آیات الہیہ کا انکار کرتے تھے اس لئے (جب ان پر عذاب آیا ہے تو) نہ ان کے کان ان کے ذرا کام آئے اور نہ ان کی آنکھیں اور نہ ان کے دل اور جس (عذاب) کی وہ ہنسی اڑایا کرتے تھے اسی نے ان کو آگھیرا (یعنی نہ ان کے حواس ان کو عذاب سے بچا سکے اور نہ ان کی تدبیر جس کا ادراک قلب سے ہوتا ہے، نہ ان کی قوت پس تمہاری تو کیا حقیقت ہے)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاذْكُرْ اَخَا عَادٍ۝ ٠ ۭ اِذْ اَنْذَرَ قَوْمَہٗ بِالْاَحْقَافِ وَقَدْ خَلَتِ النُّذُرُ مِنْۢ بَيْنِ يَدَيْہِ وَمِنْ خَلْفِہٖٓ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّا اللہَ۝ ٠ ۭ اِنِّىْٓ اَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيْمٍ۝ ٢١ أخ أخ الأصل أخو، وهو : المشارک آخر في الولادة من الطرفین، أو من أحدهما أو من الرضاع . ويستعار في كل مشارک لغیره في القبیلة، أو في الدّين، أو في صنعة، أو في معاملة أو في مودّة، وفي غير ذلک من المناسبات . قوله تعالی: لا تَكُونُوا كَالَّذِينَ كَفَرُوا وَقالُوا لِإِخْوانِهِمْ [ آل عمران/ 156] ، أي : لمشارکيهم في الکفروقوله تعالی: أَخا عادٍ [ الأحقاف/ 21] ، سمّاه أخاً تنبيهاً علی إشفاقه عليهم شفقة الأخ علی أخيه، وعلی هذا قوله تعالی: وَإِلى ثَمُودَ أَخاهُمْ [ الأعراف/ 73] وَإِلى عادٍ أَخاهُمْ [ الأعراف/ 65] ، وَإِلى مَدْيَنَ أَخاهُمْ [ الأعراف/ 85] ، ( اخ و ) اخ ( بھائی ) اصل میں اخو ہے اور ہر وہ شخص جو کسی دوسرے شخص کا ولادت میں ماں باپ دونوں یا ان میں سے ایک کی طرف سے یا رضاعت میں شریک ہو وہ اس کا اخ کہلاتا ہے لیکن بطور استعارہ اس کا استعمال عام ہے اور ہر اس شخص کو جو قبیلہ دین و مذہب صنعت وحرفت دوستی یا کسی دیگر معاملہ میں دوسرے کا شریک ہو اسے اخ کہا جاتا ہے چناچہ آیت کریمہ :۔ { لَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ كَفَرُوا وَقَالُوا لِإِخْوَانِهِمْ } ( سورة آل عمران 156) ان لوگوں جیسے نہ ہونا جو کفر کرتے ہیں اور اپنے مسلمان بھائیوں کی نسبت کہتے ہیں ۔ میں اخوان سے ان کے ہم مشرب لوگ مراد ہیں اور آیت کریمہ :۔{ أَخَا عَادٍ } ( سورة الأَحقاف 21) میں ہود (علیہ السلام) کو قوم عاد کا بھائی کہنے سے اس بات پر تنبیہ کرنا مقصود ہے کہ وہ ان پر بھائیوں کی طرح شفقت فرماتے تھے اسی معنی کے اعتبار سے فرمایا : ۔ { وَإِلَى ثَمُودَ أَخَاهُمْ صَالِحًا } ( سورة هود 61) اور ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو بھیجا ۔ { وَإِلَى عَادٍ أَخَاهُمْ } ( سورة هود 50) اور ہم نے عاد کی طرف ان کے بھائی ( ہود ) کو بھیجا ۔ { وَإِلَى مَدْيَنَ أَخَاهُمْ شُعَيْبًا } ( سورة هود 84) اور مدین کی طرف ان کے بھائی ( شعیب ) کو بھیجا ۔ نذر وَالإِنْذارُ : إخبارٌ فيه تخویف، كما أنّ التّبشیر إخبار فيه سرور . قال تعالی: فَأَنْذَرْتُكُمْ ناراً تَلَظَّى[ اللیل/ 14] والنَّذِيرُ : المنذر، ويقع علی كلّ شيء فيه إنذار، إنسانا کان أو غيره . إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُبِينٌ [ نوح/ 2] ( ن ذ ر ) النذر الا نذار کے معنی کسی خوفناک چیز سے آگاہ کرنے کے ہیں ۔ اور اس کے بالمقابل تبشیر کے معنی کسی اچھی بات کی خوشخبری سنا نیکے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَأَنْذَرْتُكُمْ ناراً تَلَظَّى[ اللیل/ 14] سو میں نے تم کو بھڑکتی آگ سے متنبہ کردیا ۔ النذ یر کے معنی منذر یعنی ڈرانے والا ہیں ۔ اور اس کا اطلاق ہر اس چیز پر ہوتا ہے جس میں خوف پایا جائے خواہ وہ انسان ہو یا کوئی اور چیز چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُبِينٌ [ الأحقاف/ 9] اور میرا کام تو علانیہ ہدایت کرنا ہے ۔ قوم والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] ، ( ق و م ) قيام القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] حقف قوله تعالی: إِذْ أَنْذَرَ قَوْمَهُ بِالْأَحْقافِ [ الأحقاف/ 21] ، جمع الحِقْف، أي : الرمل المائل، وظبي حاقف : ساکن للحقف، واحْقَوْقَفَ : مال حتی صار کحقف، قال : سماوة الهلال حتی احقوقفا ( ح ق ف) الحقف منحنی تو وہ ریت اسکی جمع احقاف ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ إِذْ أَنْذَرَ قَوْمَهُ بِالْأَحْقافِ [ الأحقاف/ 21] کہ جب انہوں نے اپنی قوم کو سرزمین احقاف میں ہدایت کی ۔ ظبی حاقب وہ ہرن جو ریت کے تو دوں میں رہتا ہو ۔ احقوقف ۔ مائل ہو کر ریت کے تو وہ کی طرح ہوجانا شاعر نے کہا ہے ع ( رجز) (115) سماوۃ الھلال حتی احقوقفا چاند کو راتیں تدریجا کم کرتی رہتی ہیں حتی کہ وہ کمان کی طرح خمیدہ ہوکر رہ جاتا ہے ۔ خلا الخلاء : المکان الذي لا ساتر فيه من بناء ومساکن وغیرهما، والخلوّ يستعمل في الزمان والمکان، لکن لما تصوّر في الزمان المضيّ فسّر أهل اللغة : خلا الزمان، بقولهم : مضی الزمان وذهب، قال تعالی: وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدخَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ [ آل عمران/ 144] ( خ ل و ) الخلاء ۔ خالی جگہ جہاں عمارت و مکان وغیرہ نہ ہو اور الخلو کا لفظ زمان و مکان دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ چونکہ زمانہ میں مضی ( گذرنا ) کا مفہوم پایا جاتا ہے اس لئے اہل لغت خلاالزفان کے معنی زمانہ گزر گیا کرلیتے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْخَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ [ آل عمران/ 144] اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) تو صرف ( خدا کے ) پیغمبر ہیں ان سے پہلے بھی بہت سے پیغمبر ہوگزرے ہیں ۔ نذر وَالإِنْذارُ : إخبارٌ فيه تخویف، كما أنّ التّبشیر إخبار فيه سرور . قال تعالی: فَأَنْذَرْتُكُمْ ناراً تَلَظَّى[ اللیل/ 14] والنَّذِيرُ : المنذر، ويقع علی كلّ شيء فيه إنذار، إنسانا کان أو غيره . إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُبِينٌ [ نوح/ 2] ( ن ذ ر ) النذر الا نذار کے معنی کسی خوفناک چیز سے آگاہ کرنے کے ہیں ۔ اور اس کے بالمقابل تبشیر کے معنی کسی اچھی بات کی خوشخبری سنا نیکے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَأَنْذَرْتُكُمْ ناراً تَلَظَّى[ اللیل/ 14] سو میں نے تم کو بھڑکتی آگ سے متنبہ کردیا ۔ النذ یر کے معنی منذر یعنی ڈرانے والا ہیں ۔ اور اس کا اطلاق ہر اس چیز پر ہوتا ہے جس میں خوف پایا جائے خواہ وہ انسان ہو یا کوئی اور چیز چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُبِينٌ [ الأحقاف/ 9] اور میرا کام تو علانیہ ہدایت کرنا ہے ۔ «بَيْن»يدي و «بَيْن» يستعمل تارة اسما وتارة ظرفا، فمن قرأ : بينكم [ الأنعام/ 94] ، جعله اسما، ومن قرأ : بَيْنَكُمْ جعله ظرفا غير متمکن وترکه مفتوحا، فمن الظرف قوله : لا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ [ الحجرات/ 1] ، وقوله : فَقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيْ نَجْواكُمْ صَدَقَةً [ المجادلة/ 12] ، فَاحْكُمْ بَيْنَنا بِالْحَقِّ [ ص/ 22] ، وقوله تعالی: فَلَمَّا بَلَغا مَجْمَعَ بَيْنِهِما [ الكهف/ 61] ، فيجوز أن يكون مصدرا، أي : موضع المفترق . وَإِنْ كانَ مِنْ قَوْمٍ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُمْ مِيثاقٌ [ النساء/ 92] . ولا يستعمل «بين» إلا فيما کان له مسافة، نحو : بين البلدین، أو له عدد ما اثنان فصاعدا نحو : الرجلین، وبین القوم، ولا يضاف إلى ما يقتضي معنی الوحدة إلا إذا کرّر، نحو : وَمِنْ بَيْنِنا وَبَيْنِكَ حِجابٌ [ فصلت/ 5] ، فَاجْعَلْ بَيْنَنا وَبَيْنَكَ مَوْعِداً [ طه/ 58] ، ويقال : هذا الشیء بين يديك، أي : متقدما لك، ويقال : هو بين يديك أي : قریب منك، وعلی هذا قوله : ثُمَّ لَآتِيَنَّهُمْ مِنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ [ الأعراف/ 17] ، ولَهُ ما بَيْنَ أَيْدِينا وَما خَلْفَنا [ مریم/ 64] ، وَجَعَلْنا مِنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ سَدًّا وَمِنْ خَلْفِهِمْ سَدًّا [يس/ 9] ، مُصَدِّقاً لِما بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْراةِ [ المائدة/ 46] ، أَأُنْزِلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ مِنْ بَيْنِنا [ ص/ 8] ، أي : من جملتنا، وقوله : وَقالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لَنْ نُؤْمِنَ بِهذَا الْقُرْآنِ وَلا بِالَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ [ سبأ/ 31] ، أي : متقدّما له من الإنجیل ونحوه، وقوله : فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَصْلِحُوا ذاتَ بَيْنِكُمْ [ الأنفال/ 1] ، أي : راعوا الأحوال التي تجمعکم من القرابة والوصلة والمودة . ويزاد في بين «ما» أو الألف، فيجعل بمنزلة «حين» ، نحو : بَيْنَمَا زيد يفعل کذا، وبَيْنَا يفعل کذا، بین کا لفظ یا تو وہاں استعمال ہوتا ہے ۔ جہاں مسافت پائی جائے جیسے ( دو شہروں کے درمیان ) یا جہاں دو یا دو سے زیادہ چیزیں موجود ہوں جیسے اور واھد کی طرف مضاف ہونے کی صورت میں بین کو مکرر لانا ضروری ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَمِنْ بَيْنِنا وَبَيْنِكَ حِجابٌ [ فصلت/ 5] اور ہمارے اور تمہارے درمیان پردہ ہے فَاجْعَلْ بَيْنَنا وَبَيْنَكَ مَوْعِداً [ طه/ 58] ۔ تو ہمارے اور اپنے درمیان ایک وقت مقرر کرلو ۔ اور کہا جاتا ہے : / یعنی یہ چیز تیرے قریب اور سامنے ہے ۔ اسی معنی میں فرمایا : ۔ ثُمَّ لَآتِيَنَّهُمْ مِنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ [ الأعراف/ 17] پھر ان کے آگے ۔۔۔۔۔ ( غرض ہر طرف سے ) آؤنگا ۔ ولَهُ ما بَيْنَ أَيْدِينا وَما خَلْفَنا [ مریم/ 64] جو کچھ ہمارے آگے ہے اور جو پیچھے ۔۔۔ سب اسی کا ہے ۔ وَجَعَلْنا مِنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ سَدًّا وَمِنْ خَلْفِهِمْ سَدًّا [يس/ 9] اور ہم نے ان کے آگے بھی دیوار بنادی ۔ اور ان کے پیچھے بھی ۔ مُصَدِّقاً لِما بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْراةِ [ المائدة/ 46] جو اپنے سے پہلے کی کتاب تورات کی تصدیق کرتے تھے ۔ أَأُنْزِلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ مِنْ بَيْنِنا [ ص/ 8] کیا ہم سب میں سے اسی نصیحت ۃ ( کی کتاب ) اتری ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَقالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لَنْ نُؤْمِنَ بِهذَا الْقُرْآنِ وَلا بِالَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ [ سبأ/ 31] اور جو کافر ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم نہ تو اس قرآن کو مانیں گے اور نہ ان کتابوں ) کو جو اس سے پہلے کی ہیں ۔ میں سے انجیل اور دیگر کتب سماویہ مراد ہیں اور آیت کریمہ : ۔ فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَصْلِحُوا ذاتَ بَيْنِكُمْ [ الأنفال/ 1] خدا سے ڈرو اور آپس میں صلح رکھو ۔ کے معنی یہ ہیں کہ صلہ رحمی ، قرابت ، دوستی وغیرہ باہمی رشتوں کا لحاظ کرد جو باہم تم سب کے درمیان مشترک ہیں اور بین کے م، ابعد یا الف کا اضافہ کرکے حین کے معنی میں استعمال کرلینے ہیں خلف ( پیچھے ) خَلْفُ : ضدّ القُدَّام، قال تعالی: يَعْلَمُ ما بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَما خَلْفَهُمْ [ البقرة/ 255] ، وقال تعالی: لَهُ مُعَقِّباتٌ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ [ الرعد/ 11] ( خ ل ف ) خلف ( پیچھے ) یہ قدام کی ضد ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ يَعْلَمُ ما بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَما خَلْفَهُمْ [ البقرة/ 255] جو کچھ ان کے روبرو ہو راہا ہے اور جو کچھ ان کے پیچھے ہوچکا ہے اسے سب معلوم ہے ۔ لَهُ مُعَقِّباتٌ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ [ الرعد/ 11] اس کے آگے پیچھے خدا کے جو کیدار ہیں ۔ عبادت العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] . والعِبَادَةُ ضربان : عِبَادَةٌ بالتّسخیر، وهو كما ذکرناه في السّجود . وعِبَادَةٌ بالاختیار، وهي لذوي النّطق، وهي المأمور بها في نحو قوله : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة/ 21] ، وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء/ 36] . ( ع ب د ) العبودیۃ کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ عبادۃ دو قسم پر ہے (1) عبادت بالتسخیر جسے ہم سجود کی بحث میں ذکر کرچکے ہیں (2) عبادت بالاختیار اس کا تعلق صرف ذوی العقول کے ساتھ ہے یعنی ذوی العقول کے علاوہ دوسری مخلوق اس کی مکلف نہیں آیت کریمہ : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة/ 21] اپنے پروردگار کی عبادت کرو ۔ وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء/ 36] اور خدا ہی کی عبادت کرو۔ میں اسی دوسری قسم کی عبادت کا حکم دیا گیا ہے ۔ خوف الخَوْف : توقّع مکروه عن أمارة مظنونة، أو معلومة، كما أنّ الرّجاء والطمع توقّع محبوب عن أمارة مظنونة، أو معلومة، ويضادّ الخوف الأمن، ويستعمل ذلک في الأمور الدنیوية والأخروية . قال تعالی: وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء/ 57] ( خ و ف ) الخوف ( س ) کے معنی ہیں قرآن دشواہد سے کسی آنے والے کا خطرہ کا اندیشہ کرنا ۔ جیسا کہ کا لفظ قرائن دشواہد کی بنا پر کسی فائدہ کی توقع پر بولا جاتا ہے ۔ خوف کی ضد امن آتی ہے ۔ اور یہ امور دنیوی اور آخروی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے : قرآن میں ہے : ۔ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء/ 57] اور اس کی رحمت کے امید وار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں ۔ عذب والعَذَابُ : هو الإيجاع الشّديد، وقد عَذَّبَهُ تَعْذِيباً : أكثر حبسه في العَذَابِ. قال : لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل/ 21] واختلف في أصله، فقال بعضهم : هو من قولهم : عَذَبَ الرّجلُ : إذا ترک المأكل والنّوم فهو عَاذِبٌ وعَذُوبٌ ، فَالتَّعْذِيبُ في الأصل هو حمل الإنسان أن يُعَذَّبَ ، أي : يجوع ويسهر، ( ع ذ ب ) العذاب سخت تکلیف دینا عذبہ تعذیبا اسے عرصہ دراز تک عذاب میں مبتلا رکھا ۔ قرآن میں ہے ۔ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل/ 21] میں اسے سخت عذاب دوں گا ۔ لفظ عذاب کی اصل میں اختلاف پا یا جاتا ہے ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عذب ( ض ) الرجل کے محاورہ سے مشتق ہے یعنی اس نے ( پیاس کی شدت کی وجہ سے ) کھانا اور نیند چھوڑدی اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب وعذوب کہا جاتا ہے لہذا تعذیب کے اصل معنی ہیں کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر اکسانا عظیم وعَظُمَ الشیء أصله : كبر عظمه، ثم استعیر لكلّ كبير، فأجري مجراه محسوسا کان أو معقولا، عينا کان أو معنی. قال : عَذابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ [ الزمر/ 13] ، قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ [ ص/ 67] ، ( ع ظ م ) العظم عظم الشئی کے اصل معنی کسی چیز کی ہڈی کے بڑا ہونے کے ہیں مجازا ہر چیز کے بڑا ہونے پر بولا جاتا ہے خواہ اس کا تعلق حس سے یو یا عقل سے اور عام اس سے کہ وہ مادی چیز ہو یا مون ی قرآن میں ہے : ۔ عَذابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ [ الزمر/ 13] بڑے سخت دن کا عذاب ) تھا ۔ قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ [ ص/ 67] کہہ دو کہ وہ ایک سخت حادثہ ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور آپ کفار مکہ کے سامنے حضرت ہود کا تذکرہ کیجیے جبکہ انہوں نے اپنی قوم کو دوزخ کی سختیوں سے ڈرایا یا یہ کہ احقاف میں یا شام میں ایک پہاڑ سے یا یہ کہ احقاف ریت کے ٹیلوں کو کہتے ہیں وہاں یہ قوم آباد تھی یا یہ کہ یمن میں ایک جگہ کا نام ہے جہاں حضرت ہود نے کھڑے ہو کر اپنی قوم کو ڈرایا۔ حالانکہ حضرت ہود سے پہلے اور ان کے بعد بہت سے نبی گزر چکے ہیں۔ حضرت ہود نے ان سے فرمایا کہ اللہ کے علاوہ اور کسی کی وحدانیت کے مت قائل ہو اور یہ کہ مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ اگر تم ایمان نہ لائے تو تم پر سخت دن کا عذاب آئے گا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢١ { وَاذْکُرْ اَخَا عَادٍط اِذْ اَنْذَرَ قَوْمَہٗ بِالْاَحْقَافِ } ” اور ذرا تذکرہ کیجیے قوم عاد کے بھائی (ہود ( (علیہ السلام) ) کا ‘ جب اس نے خبردار کیا اپنی قوم کو احقاف میں “ جزیرہ نمائے عرب کے جنوبی ساحلی علاقے کو پرانے زمانے میں ” احقاف “ کہا جاتا تھا جہاں قوم عاد آباد تھی ‘ اب یہ علاقہ لق و دق صحرا کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ { وَقَدْ خَلَتِ النُّذُرُ مِنْم بَیْنِ یَدَیْہِ وَمِنْ خَلْفِہٖٓ} ” اور اس سے پہلے بھی اور اس کے بعد بھی بہت سے خبردار کرنے والے گزر چکے تھے “ یعنی ایسے خبردار کرنے والے اس سے پہلے بھی گزر چکے تھے اور اس کے بعد بھی آتے رہے ۔ - ۔ اللہ تعالیٰ کی اس سنت کے بارے میں قبل ازیں بھی کئی مرتبہ وضاحت کی جا چکی ہے کہ کسی قوم میں پہلے بہت سے انبیاء (علیہ السلام) بھیجے جاتے تھے اور پھر آخر میں اتمامِ حجت کے لیے ایک رسول (علیہ السلام) کو مبعوث کیا جاتا تھا۔ وہ سب کے سب ایک ہی دعوت دیتے تھے۔ { اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّا اللّٰہَ } ” کہ مت عبادت کرو کسی کی سوائے اللہ کے ! “ { اِنِّیْٓ اَخَافُ عَلَیْکُمْ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیْمٍ } ” مجھے اندیشہ ہے تم پر ایک بڑے دن کے عذاب کا۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

25 As the chiefs of the Quraish had a false pride of their superiority and exulted in their wealth and prosperity, the story of `Ad is being related to them about whom it was well known that they had been the mightiest people in Arabia. Literally, Ahqaf (pl. of hiqf) are long dunes of sand less in height than mountains, but technically it is a name given to the southern-western part of the Arabian desert (Ar-Rub'ul-khali) which is wholly un-inhabited. Please see the map on page 672. Ibn Ishaq says that the territory of 'Ad extended from 'Oman to Yaman, and the Qur'an tells us that they actually belonged to Al-Ahqaf from where they spread to the adjoining lands and subdued weak nations. 125 miles to the north of the present-day city of Makkah there is a place in Hadramaut, where the people have built a tomb to the Prophet Hud, and the place is well known as the Grave of Hud. A religious festival is held there on the 15th of Sha'ban and thousands of people from different parts of Arabia gather there annually. Although it is not historically established, the grave's being built there and the southern Arabs' visiting it in large numbers is at least a proof that local tradition regards this very territory as the land of `Ad. Besides, there are several nuns in Hadramaut which the natives still call by the name of Dar-'Ad (Abode of 'Ad). From the present condition of Al-Ahqaf no one can even imagine that this land might have been the home of a mighty people boasting of magnificent civilization. Probably it was a green and fertile land thousands of years ago, and then the change of climate might have turned it into a sandy desert. Today it is a vast, wind-swept desert, and no one can dare go into its interior. In 1843 A.D. a Bavarian soldier was able to reach its southern edge. He says that if one looks down from the northern plateau of Hadramaut one can see this desert about a thousand feet in the depression. Here and there in it there are white areas where if a thing falls it goes on sinking into the sand and decays. The Arab Beduins fear this land and arc never willing to step into it at any cost. Once when the Bedouins were not ready to take him there, he went by himself. He says that the sand there is very fine powder, and when he threw a plummet into it from a distance, it sank into it within five minutes and the end of the line to which it was attached, also decayed. For detailed information, sec: Arabia and The Isles, Harold Ingrams, London, 1946. The Unveiling of Arabia, R H. Kirnan, London, 1937. The Empty Quarter. Philby. London, 1933.

سورة الْاَحْقَاف حاشیہ نمبر :25 چونکہ سرداران قریش اپنی بڑائی کا زعم رکھتے تھے اور اپنی ثروت و مشیخت پر پھولے نہ سماتے تھے ، اس لیے یہاں ان کو قوم عام کا قصہ سنایا جا رہا ہے ۔ جس کے متعلق اگر قدیم زمانہ میں وہ اس سرزمین کی سب سے زیادہ طاقتور قوم تھی ۔ احقاف حِقف کی جمع ہے اور اس کے لغوی معنی ہیں ریت کے لمبے لمبے ٹیلے جو بلندی میں پہاڑوں کی حد کو نہ پہنچے ہو ۔ لیکن اصلاحاً یہ صحرا عرب ( الربع الخالی ) کے جنوبی مغربی حصے کا نام ہے جہاں آج کوئی آبادی نہیں ہے ۔ نقشے میں اس کا مقام ملاحظہ ہو ۔ ابن اسحاق کا بیان ہے کہ عاد کا علاقہ عمان سے یمن تک پھیلا ہوا تھا اور قرآن مجید ہمیں بتاتا ہے کہ اس کا اصل وطن الاحقاف تھا جہاں سے نکل کر وہ گرد و پیش کے ممالک میں پھیلے اور کمزور ممالک پر چھا گئے ۔ آج کے زمانے تک بھی جنوبی عرب کے باشندوں میں یہی بات مشہور ہے کہ عاد اسی علاقہ میں آباد تھے ۔ موجودہ شہر مکلا سے تقریباً 125 میل کے فاصلہ پر شمال کی جانب حضر موت میں ایک مقام ہے جہاں لوگوں نے حضرت ہود علیہ السلام کا مزار بنا رکھا ہے اور وہ قبر ہود علیہ السلام کے نام ہی سے مشہور ہے ۔ ہر سال 15 شعبان کو وہاں عرس ہوتا ہے اور عرب کے مختلف حصوں سے ہزاروں آدمی وہاں جمع ہوتے ہیں ۔ یہ خبر اگرچہ تاریخی طور پر ثابت نہیں ہے ، لیکن اس کا وہاں بنایا جانا اور جنوبی عرب کے لوگوں کا کثرت سے اس کی طرف رجوع کرنا کم از کم اس بات کا ثبوت ضرور ہے کہ مقامی علاقہ سے اسی علاقہ کو قوم عاد کا علاقہ قرار دیتی ہے اس کے لیے حضر موت میں متعدد خرابے ( Ruins ) ایسے ہیں جن کو مقامی باشندے آج تک دارِ عاد کے نام سے موسوم کرتے ہیں ۔ الاحقاف کی موجودہ حالت دیکھ کر کوئی شخص یہ گمان بھی نہیں کر سکتا کہ کبھی یہاں ایک شاندار تمدن رکھنے والی ایک طاقتور قوم آباد ہو گی ۔ اغلب یہ ہے کہ ہزاروں برس پہلے یہ ایک شاداب علاقہ ہو گا اور بعد میں آب و ہوا کی تبدیلی نے اسے ریگزار بنا دیا ہو گا ۔ آج اس کی حالت یہ ہے کہ وہ ایک لق و دق ریگستان ہے جس کے اندرونی حصوں میں جانے کی بھی کوئی ہمت نہیں رکھتا ۔ 1843ء میں بویریا کا ایک فوجی آدمی اس کے جنوبی کنارے پر پہنچ گیا تھا ۔ وہ کہتا ہے کہ حضرت موت کی شمالی سطح مرتفع پر سے کھڑے ہو کر دیکھا جائے تو یہ صحرا ایک ہزار فیٹ نشیب میں نظر آتا ہے اس میں جگہ جگہ ایسے سفید خطے ہیں جس میں اگر کوئی چیز گر جائے تو ریت میں غرق ہوتی چلی جاتی ہے اور بالکل بوسیدہ ہو جاتی ہے ۔ عرب کے بدو اس علاقہ سے بہت ڈرتے ہیں اور کسی قیمت پر وہاں جانے پر راضی نہیں ہوتے ۔ ایک موقع پر جب بدو اسے وہاں لے جانے پر راضی نہ ہوئے تو وہ اکیلا وہاں گیا ۔ اس کا بیان ہے کہ یہاں کی ریت بالکل باریک سفوف کی طرح ہے ۔ میں نے دور سے ایک شاقول اس میں پھینکا تو وہ پانچ منٹ کے اندر اس میں غرق ہو گیا اور اسی رسی کا سرا گل گیا ۔ اس کے ساتھ وہ بندھا ہوا تھا ۔ مفصل معلومات کے لیے ملاحظہ ہو: Arabia the isles, Harold ingrams London, 1946 The unveiling of Arabia R.H.Kiran,London 1937. The Empty Quarter, Phiby, London 1933

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

13: قرآن کریم میں اصل لفظ احقاف ہے۔ یہ حقف کی جمع ہے جو لمبے مگر خم دار ریت کے ٹیلے کو کہتے ہیں جس جگہ قوم عاد آباد تھی، وہاں اسی قسم کے ٹیلے کثرت سے پائے جاتے تھے۔ اور بعض حضرات نے کہا ہے کہ اس سرزمین کا نام ہی احقاف تھا اور یہ یمن کے علاقے میں واقع تھی، آج یہاں کوئی آبادی نہیں ہے۔ قوم عاد کی طرف حضرت ہود (علیہ السلام) کو بھیجا گیا تھا، اور ان کا تعارف پیچھے سورۃ اعراف : 65 کے حاشیے میں گذر چکا ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٢١۔ ٢٥۔ قوم عاد کے بھائی ہود (علیہ السلام) کو فرمایا ہود (علیہ السلام) کی امت کے لوگ بڑے شہ زور اور صاحب قوت تھے اس لئے ان کی شہ زوری کا غرور توڑنے کے لئے ان پر ہوا کا عذاب بھیجا اس قوم کا قصہ سورة الاعراف سورة ہود اور سورة الشعرا میں گزر چکا ہے ایسی شہ زور قوم کا ہوا میں اڑنا اور پٹخنیاں کھا کھا کر ہلاک ہونا اللہ کی قدرت کی ایک نشانی ہے اسی واسطے فرمایا اے رسول اللہ کے تم اپنی قوم کو قوم عاد کا حال سناؤ احقاف ریتلی جگہ کو کہتے ہیں ہود (علیہ السلام) نے اپنی بت پرست قوم کو یہی نصیحت کی کہ مجھ سے آگے نوح (علیہ السلام) گزر چکا ہیں اور مجھ سے پیچھے اور جو پیغمبر آئیں گے سب کی نصیحت یہی ہے کہ سوائے اللہ کے اور کسی کی بندگی نہیں ہے اگر تم میری اس نصیحت کو نہ مانو گے تو مجھ کو خوف ہے کہ تم لوگوں پر کوئی سخت عذاب آجائے گا قوم کے سرکش لوگوں نے جواب دیا کہ ہود اگر تم سچے ہو تو ہم پر عذاب لے آؤ ہم تو اپنے ٹھاکروں کی پوجا نہ چھوڑیں گے ہود (علیہ السلام) نے کہا میں تو فقط اللہ کا پیغام پہنچانے والا ہوں عذاب کے آنے کا وقت تو اللہ کو ہی معلوم ہے مگر یہ تم لوگوں کی نادانی ہے کہ اللہ سے خبر نہیں مانگتے عذاب کی جلدی کرتے ہو اس کے بعد بادل کی صورت میں آندھی آئی جس نے ساری قوم کو پٹخ پٹخ کر ہلاک کردیا آخر کو فرمایا کہ مجرموں کو اللہ تعالیٰ یوں سزا دیتا ہے اس قصہ کے سنانے میں قریش کو یہ تنبیہ ہے کہ تم لوگ بھی قوم عاد کی طرح اللہ کے رسول کے جھٹلانے کے مجرم ہو اگر تم اس حالت سے باز نہ آئے تو یہی انجام تمہارا ہوگا اللہ کی وعدہ سچا ہے قوم عاد کے قصہ سے مشرکین مکہ میں کے جن سرکش لوگوں کو عبرت نہیں ہوئی بدر کی لڑائی کے وقت ان کے حق میں اس وعدہ کا جو ظہور ہوا اس کا قصہ صحیح ١ ؎ بخاری و مسلم کی انس (رض) بن مالک کی روایت سے کئی جگہ گزرچکا ہے۔ (١ ؎ مشکوٰۃ شریف باب فضل الفقراء الفصل الاول ص ٤٤٧۔ ) (٢ ؎ صحیح مسلم باب فی الکفار ص ٣٧٤ ج ٢۔ ) (١ ؎ صحیح بخاری باب قتل ابی جھل ص ٥٦٦ ج ٢۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(46:21) واذکر۔ وائو عاطفہ اذکر امر کا صیغہ مذکر حاضر۔ ذکر باب نصر ۔ مصدر۔ تو یاد کر ۔ تو ذکر کر۔ تو ذکر سنا۔ اخا عاد۔ مضاف مضاف الیہ مل کر مفعول اذکر کا۔ تو یاد کر، قوم عاد کے بھائی (ہود) کو۔ یا تو ذکر سنا (ان کو یعنی کفار مکہ کو :۔ خطاب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہے قوم عاد کے بھائی ہود کا۔ اذ انذر قومہ۔ اذ۔ جب ۔ ظرف زمان، انذر ماضی واحد مذکر، غائب انذار (افعال) مصدر۔ اس نے ڈرایا۔ قومہ مضاف مضاف الیہ مل کر مفعول انذر کا، جب اس نے اپنی قوم (والوں) کو ڈرایا۔ بالاحقاف۔ ای فی الاحقاف “ احقاف میں۔ یعنی جو احقاف میں رہتی تھی۔ الاحقاف حقف کی جمع ہے۔ حقف ریت کے اس ٹیلے کو کہتے ہیں جو مستطیل ہو اور مرتفع ہو لیکن قدرے منحنی ہو۔ قوم عاد کا مرکزی مقام ارض احقاف ہے یہ حضر موت کے شمال میں اس طرح واقع ہے کہ اس کے شرق میں عمان اور شمال میں ” ربع خالی “ ہے جسے صحرائے اعظم الدھنا بھی کہتے ہیں گو ” ربع خالی “ آبادی کے لائق نہیں تاہم اس کے اطراف میں کہیں کہیں آبادی کے قابل کچھ کچھ زمین ہے خصوصاً اس حصہ میں جو حضر موت سے نجران تک پھیلا ہوا ہے اگر چہ اس وقت وہ بھی آباد نہیں ہے اور بجز ریت کے ٹیلوں کے اور کچھ نظر نہیں آتا۔ تاہم قدیم زمانے میں اسی حضر موت اور نجران کے درمیانی حصہ میں ” عاد ارم “ کا مشہور قبیلہ آباد تھا۔ جس کو خدا نے آس کی نافرمانی کی پاداش میں آندھی کا عذاب بھیج کر نیست ونابود کردیا تھا۔ وقد خلت النذر من بین یدیہ ومن خلفہ جملہ معترضہ ہے۔ خلت ملاحظہ ہو آیت 17 ۔ متذکرہ بالا۔ النذر جمع ہے نذیر کی۔ ڈرانے والے یعنی پیغمبر۔ بین بمعنی بیچ، درمیان اسم ظرف مکان ہے من بین یدیہ۔ یدیہ مضاف مضاف الیہ مل کر مضاف الیہ ہوا اپنے مضاف بین کا۔ پھر یہ مضاف مضاف الیہ مل کر مجرور ہوئے من حرف جار کے۔ لفظی معنی ہوں گے اس کے دونوں ہاتھوں کے درمیان سے۔ یہاں بمعنی من قبلہ آیا ہے۔ بمعنی اس سے پہلے۔ یعنی حضرت ہود (علیہ السلام) سے پہلے جیسے حضرت نوح (علیہ السلام) وغیرہ۔ من خلفہ۔ خلفہ مضاف مضاف الیہ۔ من حرف جار۔ اس کے پیچھے۔ اس کے بعد حضرت ہود کے بعد جیسے حضرت صالح (علیہ السلام) ۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) حضرت لوط (علیہ السلام) وغیرہم۔ مطلب یہ کہ حضرت ہود (علیہ السلام) سے پہلے بھی (اپنی اپنی امتوں کو) ڈرانے والے گذر چکے تھے ۔ اور ان کے بعد بھی گذرے۔ ان لا تعبدوا الا اللہ۔ الا ان مفسرہ اور لام نہی سے مرکب ہے : ان مفسرہ ہمیشہ اس فعل کے بعد آتا ہے جس میں کہنے کے معنی پائے جائیں ، لفظی طور پر یا معنوی طور پر۔ یہاں پر عبارت یوں ہے۔ اذ انذر قومہ بالاحقاف الا تعبدوا الا اللہ۔ انذار میں قول کے معنی معنوی طور پر موجود ہیں۔ جب اس نے اپنی قوم کو جو ارض احقاف میں تھی یہ کہتے ہوئے ڈرایا کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔ انی اخاف علیکم عذاب یوم عظیم۔ میں تمہارے متعلق ایک بڑے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں۔ یوم عظیم موصوف وصفت مل کر مضاف الیہ۔ عذاب مضاف، مضاف مضاف الیہ مل کر۔ مفعول فعل اخاف کا۔ یعنی اگر اللہ کے سوا کسی اور کی عبادت کرو گے۔ تو مجھے تمہارے متعلق یوم عظیم کے عذاب کا ڈر ہے کہ تم اس دن کے عذاب میں مبتلا نہ ہوجائو جس کی مصبیت بہت بڑی ہوگی۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 توحید و نبوت کے دلائل پیش کرنے کے قوم عاد کا قصہ بیان فرمایا کہ اہل مکہ اس سے عبرت حاصل کریں (رازی) احقاف، حقف کی جمع ہے۔ ریت کے بلند اور مستطیل ٹیلے کو حقف کہتے ہیں۔ یہاں ” احقاف “ سے مراد یمن کے مشرق میں حضرموت کا وہ علاقہ ہے جو عرب کے صحرائے اعظم (ربع خالی) کا حصہ ہے حضرت ہود کی قوم عاد اسی علاقہ میں آباد تھی۔ لیکن آج وہاں کوئی آبادی نہیں ہے۔ 3 یعنی قیامت کے دن کا … پس یہاں عظیم یوم کی صفت ہے اور اس دن کی ہولناکی اور سختی کے پیش نظر اس کو بڑا دن کہا ہے بعض نے لکھا ہے کہ یہاں عظیم اصل میں عذاب کی صفت ہے اور بس کا مجرور ہونا یوم کے متصل آنے یعنی جوار کی وجہ سے ہے۔ (روح)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

آیات ٢١ تا ٢٦۔ اسرار ومعارف۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت ہود (علیہ السلام) کا واقعہ یاد کرلیجئے جو قوم عاد کے فرد تھے اور ان ہی کی طرف مبعوث ہوئے حالانکہ وہ لوگ ریتلے ٹیلوں کے درمیان رہتے تھے جہاں کسی نعمت کا پہنچناآسان نہ تھا مگر اللہ نے بذریعہ نبی ہدایت کا پیغام پہنچادیا اور ان سے پہلے بھی نبی گزرچکے تھے جن کے بارے کفار جانتے تھے اور یہ سلسلہ نبوت ہود (علیہ السلام) کے بعد بھی جاری رہا یہ کوئی انوکھی بات نہیں جس کا تصور کفار کے پاس نہ ہو اور سب نے ایک ہی پیغام دیا وہی ہود (علیہ السلام) نے بھی پہنچایا کہ اللہ کے علاوہ کسی اور کی کبھی عبادت نہ کرو اور اللہ کے مقابلے میں کسی دوسرے کی اطاعت سے باز آجاؤ ورنہ اگر تم اسی شرک میں مبتلا رہے تو مجھے تم پر ایک عظیم دن کے عذاب کا خطرہ ہے وہ کہنے لگے کیا آپ یہ چاہتے ہیں کہ ہم سے ہمارے معبودوں کو چھڑادیں۔ انعامات باری کو دوسروں کی طرف منسوب کرکے ان کی اطاعت میں لگارہتا ہے۔ ہر انسان کو قدرت کی طرف سے رزق و روزی صحت عزت وغیرہ سب نعمتیں پہنچتی ہیں مگر اللہ کی معرفت سے محرومی کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ انہیں دوسروں کی طرف منسوب کرکے ان کی غلامی کرتارہتا ہے جبکہ انبیاء (علیہم السلام) اللہ کی معرفت عطا فرماتے ہیں ۔ چناچہ انہیں بڑا دکھ ہوا کہ ان کے زعم باطل میں تو بتوں سے انہیں بہت فوائد مل رہے تھے اور یہی سوچ اہل مکہ کی تھی چناچہ انہوں نے برہم ہو کر کہا کہ اگر آپ اپنی بات میں سچے ہیں تو اس یوم عظیم یا روز قیامت کو رہنے دیں اور ہم پر ابھی سے عذاب لے آئیں یہی دعا اہل مکہ نے بھی کی تھی مگر جواب ارشاد ہوا کہ اس حال میں عذاب نہ اتاریں گے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی موجود ہوں چناچہ آپ کی نبوت کو دوام ہے تو ہمیشہ کے لیے اجتماعی عذاب دنیا سے ٹل گیا۔ ہاں جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہجرت فرمائی تو جزوی عذاب اہل مکہ پہ آیاقحط پڑے بدر میں ہلاک ہوئے احد میں شکست کھائی خندق میں بےآبرو ہوئے اور بالا آخر مکہ مکرمہ فتح ہوکرمشرکین کا خاتمہ ہوگیا تو ہود (علیہ السلام) نے فرمایا کہ نزول عذاب کا وقت یا قیام قیامت کا وقت تو اللہ ہی کو معلوم ہے کہ مجھے نہ تو عذاب نازل کرنا ہے نہ قیامت کا حساب مجھے لینا ہے کہ مجھے وقت کی خبر ہو وہ اللہ کا اپنا کام ہے اور وہ خوب جانتا ہے کہ اسے کب ایسا کرنا ہے ہاں میرا کام اللہ کا حکم اور اس کا پیغام تم تک پہنچانا ہے سو میں کرچکا مگر میں دیکھتا ہوں کہ تم نرے جاہل ہو اور غیرمتعلقہ سوال کرتے ہو اور جب نہ مانے تو عذاب آگیا انہیں دور سے بادل سادکھائی دیتاتھاجوان کی وادیون کی طرف بڑھ رہا تھا بہت خوش ہوئے کہ یہ عذاب سے ڈراتے تھے حالانکہ صحرا میں ہم پر بادل آرہا ہے جو برسے گا اور خوب آبادی ہوگی لیکن ایسانہ تھا یہ تو وہ عذاب تھا جس کی ان لوگوں کو جلدی پڑی ہوئی تھی اس میں بہت سخت آندھی تھی اور وہ دردناک عذاب تھا۔ چناچہ اس نے ہر شے کو پٹک پٹک کر تباہ کردیا اور شب بھر میں سب ہلاک ہوگئے انسان مواشی یا کوئی جاندار باقی نہ بچا کہ یہی پروردگار کا حکم تھ اچنانچہ ویران مکان لاشوں سے پٹے پڑے تھے ہم مجرموں کو ایسے ہی سزا دیا کرتے ہیں۔ پہلی اقوام نے بھی سائنس وغیرہ میں بہت ترقی کی تھی۔ اور اے مخاطبین قرآن جس طرح کی قوت اور کمالات انہیں عطا ہوئے تھے اس طرح کے تم کو ملے بھی نہیں ، اور یہ حق ہے کہ پہلی اقوام نے بھی سائنس اور علوم دنیا میں بہت ترقی کی تھی آج کتنے آثار ایسے ملتے ہیں کہ جو کام انہوں نے اس دور میں کردکھائے انسان آج کی ساری ترقی کے باوجود نہیں کرسکتا۔ ہم نے ان کو بھی سماعت و بصارت دی تھی یعنی کمالات مادی کے حصول کے ذرائع بخشے تھے اور قلب بھی دیا تھا یعنی روحانی کمالات کی استعداد بھی لکن انہوں نے ان سب سے عظمت الٰہی کو جاننے اور معرفت باری کو حاصل کرنے کا کام نہ لیا صرف دنیاوی نعمتیں مال دولت یا حکومت واقتدار کے حصول میں لگے رہے تو ان کمالات کا محض ان کے پاس ہونا ان سے عذاب دور نہ کرسکا ان کے کسی کام نہ آیا اس لیے کہ انہوں نے اللہ کی آیات کی مخالفت کی اور مذاق اڑایا چناچہ وہ عذاب جس کا وہ مذاق اڑاتے تھے وہ ان پر واقع ہوگیا اور ان کی تباہی کا باعث بن گیا۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

تشریح آیات نمبر 12 تا 28 قرآن کریم کے مخاطب اول مکہ مکرمہ کے کفار و مشرکین تھے جو اپنی معمولی سردارریوں اور بہت تھوڑے مال دولت کے بوجود اتنے مغرور اور متکبر بن چکے تھے کہ ان کے نزدیک اللہ اور اس کے رسول کے احکامات کی کوئی حیثیت نہ تھی۔ اللہ تعالیٰ نے زیر مطالعہ آیات کے ذریعہ اہل مکہ کو قوم عاد، قوم ثمود، قوم لوط، اصحاب مدین اور قوم سبا کے واقعات کی طرف اشارہ کرکے یہ بتایا ہے کہ جب ان کے پاس ان کے پغمبروں اللہ کا پیغام لے کر پہنچے تو انہوں نے غرور تکبر کا پیکر بن کر ان کی اطاعت سے انکار کیا اور اور اپنے کفر و شرک اور مال و دولت کی بدمستی میں لگے رہے۔ آخر کار ان کا اور ان کی ترقیات کا انجام یہ ہوا کہ زبر دست طاقت وقوت ہونے کے باوجود جب ان پر اللہ کا عذاب آیا تو ان کو صفحہ ہستی سے اس طرح مٹا دیا گیا کہ آج ان کے گھروں کے کھنڈرات بھی مشکل سے نظر آتے ہیں ۔ اہل مکہ سے فرمایا جارہا ہے کہ تمہارے اندر اللہ کے آخری نبی اور رسول حضرت محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لا چکے ہیں جو ان کو دوسرے پغمبروں کی طرح یاد دلا رہے ہیں کہ اگر انہوں نے اپنے کفر و شرک اور تکبر سے توبہ نہ کی تو وہ برے انجام سے دوچار ہو سکتے ہیں لیکن اگر انہوں نے اپنے کفر و شرک سے توبہ کرلی اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مکمل اطاعت و فرماں برداری قبو ل کرلی تو ان کو قوم عاد سے زیادہ قوت و طاقت ، حکومت و سلطلنت اور عزت و عظمت نصیب ہوگی۔ قوم عاد اور ان کے پغمبر حضرت ہود (علیہ السلام) کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا گیا کہ قوم عاد قدیم زمانے کی ایک زبر دست تر قی یافتہ قوم تھی جو احقاف کے علاقے (الربع الخالی) میں آباد تھی جب ان کے کفر وشرک ، نا فرمانیوں ، غرور وتکبر کی وجہ سے اللہ کا عذاب آیا تو ان کی بستیاں اس طرح اجاڑ کر رکھ دی کہ آج ان کا نام و نشان تک مٹ گیا ہے۔ اہل مکہ سے فرمایا جار ہا ہے کہ مال و دولت طاقت و قوت ، حکومت سلطلنت اور ان کی زبر دست ترقیات کے مقابلے میں تمہاری حیثیت کچھ بھی نہیں ہے۔ تم چند بستیوں اور شہروں تک محدود ہو جب کہ قوم عاد زمین کے اکثر ح سے پر چھائی ہوئی تھی۔ لیکن نا فرمانیوں ، غرور وتکبر کی وجہ سے اللہ کا عذاب آیا تو ان کی بستیاں اس طرح اجاڑ کر رکھ دی گئیں کہ آج ان کا نام و نشان تک مٹ گیا ہے ۔ اہل مکہ سے فرمایا جارہا ہے کہ مال و دولت، طاقت و قوت حکومت و سلطلنت اور ان کی زبردست ترقیات کے مقابلے میں تمہاری حیثیت کچھ بھی نہیں ہے ۔ تم چند بستیوں اور شہروں تک محدود ہو جب کہ قوم عاد زمین کے اکثرحصے پر چھائی ہوئی تھی۔ لیکن نافرمانیوں کی وجہ سے آج ان کا وجود اس طرح مٹ گیا کہ اگر کوئی ان کی ویران اور برباد آبادیوں اور بستیوں کو دیکھتا ہے تو وہ اس کا تصور بھی نہیں کرسکتا کہ اس علاقے میں کبھی کوئی زبر دست اور ترقی یافتہ قوم آباد تھی۔ عذاب الہٰی سے پہلے وہ ایک سر سبز و شاداب سلطنت اور دنیاوی تر قیات میں نمایاں حیثیت کی مالک تھی مگر عذاب الہٰی آنے کے بعد وہ پورا علاقہ ایک ایسے خوفناک ریگستان میں تبدیل ہوگیا ہے کہ جس کے اندرونی علاقوں میں دن کی روشنی میں جاتے ہوئے بھی خوف آتا ہے۔ قوم عاد یمن میں حضرت موت اور نجران کے درمیانی علاقے میں آباد تھی۔ صحرا میں ریت کے ٹیلے پہاڑوں کی طرح سر اٹھائے کھڑے تھے۔ زمین پیداوار کے قابل نہ تھی مگر اس قوم نے نہایت محنت سے اسے صحرا کو گل و گلزار بنا دیا تھا۔ ہر طرف خوشحالی اور مال و دولت کے ڈھیر تھے ۔ اس قوم نے دنیاوی ترقیات تو ضرور کیں، ان کا معیاری زندگی بہت بلند ہوگیا تھا مگر معیار اخلاق اس قدر پست اور گھٹیا ہوچکا تھا کہ وہ اپنی قوت و طاقت کے مقابلے میں سب کو حقیر اور ذلیل سمجھتے تھے۔ کمزور اور بےبس لوگوں کو سانا، پریشان کرنا، طرح طرح کے ظلم و ستم کرنا، دوسروں کی عزت و آبرو سے کھیلنا ، ایک اللہ کو چھوڑ کر بیشمار بتوں کی عبادت و پرستش کرنا اور گناہوں کے کاموں میں سب سے آگے رہنا یہ اس قوم کا مزاج بن چکا تھا ۔ اللہ تعالیٰ نے قوم عاد کی اصلاح کیلئے ان ہی کی قوم اور برداری سے حضرت ہود (علیہ السلام) کو پغمبر بنا کر بھیجا۔ جنہوں نے دن رات اپنی قوم کو سمجھایا کہ وہ ظلم و ستم کے راستے سے ہٹ کر لوگوں کو سکون پہنچائیں اور مٹی ، پتھر اور لکڑی سے بنائے ہوئے بتوں کے بجائے صرف اس اللہ کی عبادت و بندگی کریں جس نے اس ساری کائنات کو بنایا ہے۔ حضرت ہود (علیہ السلام) نے قوم کو بتایا کہ اگر انہوں نے توبہ نہ کی تو ان کے کفر شرک اور غرور کی وجہ سے اللہ کا عذاب آجائے گا جس سے کوئی نہ بچ سکے گا ۔ حضرت ہو د (علیہ السلام) اس قوم کو دن رات ہر طرح سمجھاتے رہے مگر اس قوم نے حضرت ہود (علیہ السلام) کی باتوں پر کوئی توجہ نہ کی ۔ ان نصیحتوں پر عمل کرنے کے بجائے ان کا مذاق اڑانا شروع کردیا۔ کہنے لگے کہ اے ہود (علیہ السلام) کیا ہم تمہارے کہنے سے اپنے معبودوں کو نہیں چھوڑسکتے۔ اور تم جس عذاب کی دھمکیاں دیتے رہتے ہو وہ عذاب ہم پر لے آئو۔ حضرت ہود (علیہ السلام) کا پغمبر انہ اور سنجیدہ جواب یہ تھا کہ مجھے یہ تو معلوم نہیں ہے کہ تمہارے اعمال کے سبب اللہ کا عذاب تم پر کب آئے گا۔ بہر حال اللہ نے مجھے جو پیغام دے کر بھیجا ہے وہ میں نے تم تک پہنچا دیا ہے ۔ مگر حیرت ہے کہ میں تمہیں اللہ کی رحمت کی بلا رہا ہوں اور تم اس کی رحمت کے بجائے اس کا عذاب مانگ رہے ہو ۔ بڑی جہالت اور نادانی کی بات ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جب اس قوم کی نا فرمانیاں بہت بڑھ کئیں اور ہر طرح سمجھانے کے باوجود انہوں نے کفرو شرک اور تکبر اور غرور سے توبہ نہ کی تو اللہ کے عذاب کے آثار آنا شروع ہوگئے۔ پورے ملک میں بارشوں کی شدید کمی ہوگئی جس سے ان کے سر سبز و شاداب باغات بےرونق ہوگئے ۔ ان کی کھیت خشک ہونا شروع ہوگئے۔ گرمی کی شدت کا یہ حال تھا کہ گھر اور گھر سے باہر کہیں بھی سکون نہیں ملتا تھا۔ ایک دن جب انہوں نے آسمان کے ایک طرف سے تیز گھٹاؤں کو اٹھتے دیکھا تو خوشی سے بےقابو ہو کر کہنے لگے کہ دیکھو کیسے زبردست بادل ہماری طرف آرہے ہیں۔ اب خوب بارش برسے گی ، ہمارے ندی نالے بھر جائیں گے ، پانی کی کمی نہ رہے گی، ہر طرف سر سبز شادابی ہوگی اور موسم خوش گو ار اور ٹھنڈا ہوجائے گا ۔ حضرت ہود (علیہ السلام) نے ان کو بتایا کہ تم جس بادل اور بارش کو اپنی راحت کا ذریعہ سمجھ رہے وہ اللہ کا عذاب ہے جو تمہاری طرف بڑی تیزی سے چلا آرہا ہے اگر اب بھی تم نے توبہ نہ کی تو یہ عذاب اتناسخت ہوگا جو تمہیں اور تمہاری بستیوں کو تباہ و برباد کرکے رکھ دے گا۔ قوم ہود (علیہ السلام) کی نصیحتوں پر کوئی توجہ نہ کی ۔ نتیجہ ہوا کہ طوفانی جھکڑ چلنا شروع ہوگئے۔ آہستہ آہستہ ہوا کے یہ جھکڑ تیز ہونا شروع ہوئے اور انسان ، درخت اور جانوروں کی حیثیت ایک تنکے سے زیادہ نہ رہی۔ ہوا کی شدت کا یہ حال تھا کہ وہ لوگوں کو اور جانوروں کو اٹھا اٹھا کر اس طرح پھینک رہی تھی کہ ان کے سر اور جسم پتھروں سے ٹکرا ٹکرا کر پاش پاش ہورہے تھے ۔ شدید طوفانی ہواؤں نے ان کے گھروں کی چھتیں اڑا کر رکھ دیں غرضیکہ اس طوفانی ہوا نے چیز کو الٹ پلٹ کر رکھ دیا اور ہر طرف تباہی پھیل گئی ۔ آخر کار مکانوں کے کھنڈرات کے سوا کچھ بھی نظر نہ آتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے یاد دلایا کہ جس قوم نے بھی اللہ کی نافرنی کی اس کا یہی انجام ہوا۔ فرمایا کہ قوم ثمود ، قوم لوط ، قوم سبا، اصحاب مدین اور اہل یمن بھی بڑی طاقتوں والے تھے لیکن جب انہوں نے مسلسل اللہ کی نا فرمانیاں کیں اور اس کے بھیجے ہوئے پیغمبروں کی نصیحتوں سے انکار کیا تو ان کو بھی اللہ نے اس طرح تہس نہس کر کے رکھ دیا تھا کہ پھر ان کے مال و دولت ، حکومت و سلطلنت ، اونچی عمارتیں اور ترقیات ان کے کسی کام نہ آسکیں ۔ اللہ نے فرمایا کہ اگر ہم نے ان تمام قوموں کے سننے کے لئے کان، دیکھنے کے لئے آنکھیں اور سوچنے کے لئے دل و دماغ عطا کئے تھے مگر انہوں نے ان صلا حیتوں سے کام نہ لیا اور جب انکی عقلیں مفلوج ہو کر رہ گئیں تو اللہ نے ان کو جڑ و بنیاد سے اکھاڑ پھینکا اور ان کے وجود کو ان کی ترقیات کو نشان عبرت بنا دیا۔ اللہ تعالیٰ نے اہل مکہ اور قیامت تک آنے والی قوموں کو یہ بتا دیا ہے کہ قوم عاد جو جسمانی اور مالی اعتبار سے ایک زبر دست ، مضبوط اور ترقی یافتہ قوم بھی جب انہوں نے بد نصیبی کا راستہ اختیار کیا تب ان پر قہر نازل ہوا اور ان کو اس طرح مٹا دیا گیا کہ آج ان کی زندگی اور اس کے آثار قصے کہانیاں بن کر رہ گئے ہیں۔ جو بھی قوم عاد کے راستے پر چلے گا اس کا انجام بھی اس سے مختلف نہ ہوگا اور جو لوگ انبیاء کرام (علیہ السلام) کے راستے پر چل کر اللہ کی اطاعت و فرماں برداری کریں گے ان کی نہ صرف دنیا بہتر ہوگی بلکہ ان کی صرف دنیا بہتر ہوگی بلکہ آخرت کی تمام کامیابیاں ان کا مقدر ہوں گی۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ ان لوگوں کا مسکن بقول اکثر بلاد یمن میں تھا، اور وہاں ریگ کے تودے تھے، عرب کے لوگ تجارت کے لئے اکثر سفر کیا کرتے تو ان مقامات پر گزرتے تھے اور آدمیوں کا اور مواشی کا اس ہوا میں اڑے اڑے پھرنا در منثور میں ابن عباس (رض) سے مروی ہے۔ اور وادی کہتے ہیں نشیب زمین کو جہاں پانی جمع ہوجاتا ہے، اسی وجہ سے کبھی اس کا ترجمہ میدان سے کیا جاتا ہے اور کبھی ندی نالہ سے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : حق کے ساتھ استکبار کرنے والے لوگوں میں قوم عاد بھی شامل ہے اس لیے ان کے انجام کا ذکر کیا جاتا ہے۔ حضرت ہود (علیہ السلام) کا تعلق عرب کے عاد قبیلے سے تھا جن کی رہائش موجودہ جغرافیے کے مطابق عمان اور یمن کے علاقے حضرموت کے درمیان تھی۔ یہ علاقہ سمندر کے کنارے پر واقع تھا یہاں ریت کے بڑے بڑے ٹیلے اور بلندوبالا پہاڑ تھے۔ اس کے رہنے والے جسمانی اعتبار سے دراز قامت، کڑیل جوان اور قوی ہیکل تھے۔ دنیا میں ان کا کوئی ثانی پیدا نہیں ہوا۔ انھوں نے پہاڑتراش، تراش کر خوبصورت محلات تعمیر کر رکھے تھے۔ ان کی سرزمین نہایت سر سبزتھی جس میں ہر قسم کے باغات آراستہ تھے قرآن مجید نے انھیں ” احقاف والے “ کہا ہے۔ احقاف ریت کے بڑے بڑے ٹیلوں کو کہا جاتا ہے جو عرب کے جنوب مغربی حصہ میں واقع تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اسی علاقہ میں حضرت ہود (علیہ السلام) کو مبعوث فرمایا جو خوش اندام، کڑیل جوان اور بہترین سیرت و صورت کے حامل تھے۔ حضرت ہود (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو بار بار نصیحت فرمائی کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرو۔ کفر و شرک اور برے کاموں کو چھوڑ دو اور میرے پیچھے چلو۔ میں پوری دیانت داری کے ساتھ تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہارے لیے رسول منتخب کیا گیا ہوں۔ اس خدمت پر میں آپ سے کوئی اجر طلب نہیں کرتا، میرا صلہ رب العالمین کے ذمہ ہے۔ حضرت ھود (علیہ السلام) نے انھیں سمجھایا کہ تم ہر اونچی جگہ پر یاد گاریں بناتے ہو اور تم بےمقصد بڑے بڑے محلات تعمیر کرتے ہو جیسے تم نے دنیا میں ہمیشہ رہنا ہے۔ تم میں یہ برائی بھی موجود ہے کہ جب کسی پر گرفت کرتے ہو تو تمھاراروّیہ ظالموں اور ” اللہ “ کے باغیوں جیسا ہوتا ہے۔ میں تمہیں پھر سمجھتاتا ہوں کہ اللہ سے ڈرو میں اس کا رسول ہوں اور میری تابعداری کرو۔ (الشعراء : ١٢٥ تا ١٣١) حضرت ھود (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو ” اللہ “ کی عبادت اور توبہ و استغفار کی دعوت دی۔ لیکن قوم نے اس کا یہ جواب دیا کہ اے ھود ! تو ہمارے پاس ٹھوس اور واضح دلائل نہیں لایا۔ اس لیے ہم تیری بےبنیاد باتوں پر اپنے معبودوں کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں اور نہ ہی تجھ پر ایمان لائیں گے۔ ہم تو سمجھتے ہیں کہ ہمارے معبودوں کی مخالفت کی وجہ سے ہمارے کچھ معبودوں کی تجھ پر مار پڑگئی ہے۔ جس کی وجہ سے تو الٹی سیدھی باتیں کرتا ہے۔ حضرت ھود (علیہ السلام) نے فرمایا تم جو چاہو کہو۔ لیکن میں اس بات پر اللہ کو گواہ بناتا ہوں کہ جو کچھ میں کہہ رہا ہوں وہ سچ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ گواہ رہنا کہ جن کو اللہ کا شریک بناتے ہو میں ان سے نفرت اور برأت کا اعلان کرتا ہوں۔ جہاں تک تمہاری اس بات کا تعلق ہے کہ مجھے تمہارے معبودوں نے کچھ کردیا ہے، اس میں کوئی حقیقت نہیں۔ میں تمہیں چیلنج کرتا ہوں کہ تم اور تمہارے معبود اکٹھے ہو کر میرے خلاف جو اقدام کرنا چاہتے ہو کرو۔ میں تم سے ایک لمحہ بھی مہلت مانگنے کے تیار نہیں ہوں۔ (ھود : ٥٢ تا ٥٥) حضرت ھود (علیہ السلام) سے ان کی قوم نے وہی مطالبہ کیا جو ان سے پہلے حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم مطالبہ کرچکی تھی۔ حضرت ھود (علیہ السلام) نے اپنی قوم کے مطالبہ پر تین باتیں ارشاد فرمائیں۔ 1 ۔ میں نہیں جانتا کہ اللہ تعالیٰ تم پر کب اور کس طرح کا عذاب نازل کرے گا۔ 2 ۔ میرا کام تم تک اپنے رب کے پیغامات پہچانا ہے۔ 3 ۔ اے میری قوم ! تم نے ہدایت کی بجائے عذاب کا مطالبہ کیا ہے جو پرلے درجے کی جہالت ہے۔ یاد رہے کہ مشرکین کی شروع سے عادت ہے کہ وہ اپنے باطل عقیدہ کو سچ ثابت کرنے کے لیے نہ صرف اپنے معبودوں کے متعلق جھوٹے دعوے اور پروپیگنڈہ کرتے ہیں۔ بلکہ توحید کی دعوت دینے والوں کو یہ کہہ کر ڈراتے ہیں کہ اگر تم نے ہمارے حاجت روا اور مشکل کشاؤں کے خلاف بات کی تو وہ تمہارا قلع قمع کردیں گے۔ اگر کسی موحد کو ناگہانی مشکل آن پڑے یا کوئی نقصان ہوجائے تو مشرکین یہ کہنے میں جھجک محسوس نہیں کرتے کہ یہ سب کچھ ہمارے بزرگوں کا کیا دھرا ہے۔ ایسا ہی دعویٰ حضرت ھود (علیہ السلام) کے مخالفوں نے کیا تھا حالانکہ ہر دور میں یہ مثالیں موجود رہی ہیں کہ مشرکین جن کو حاجت روا اور مشکل کشا سمجھتے ہیں وہ اپنے اور کسی دوسرے کے نفع و نقصان کے مالک نہیں ہیں۔ پاکستان میں علی ہجویری کے مزار کی تعمیر کے دوران مزار کی چھت گِر پڑی جس سے درجنوں مزدور لقمہ اجل بنے، سندھ میں شہباز قلندر کے مزار میں آگ لگ گئی جس سے سب کچھ جل کر خاکستر ہوا۔ ٢٠١٠ ء میں بڑے بڑے مزارات پر دھماکے ہوئے جن میں درجنوں لوگ چل بسے۔ پنجاب حکومت نے لاہور کی سڑکیں کھلی کرنے کے لیے کئی مزارات مسمار کیے لیکن مسمار کرنے والوں کو کوئی نقصان نہ پہنچا۔ حالانکہ اس وقت کے وزیر اعلیٰ یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ قبروں والے مدد کرتے ہیں۔ اسی عقیدہ کی بنا پر اس نے مزارات پر کروڑوں روپے لگا کر انہیں نئے سرے سے تعمیر کروایا۔ مسائل ١۔ حضرت ھود (علیہ السلام) نے قوم عاد کو سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی بندگی کرنے کی تلقین فرمائی۔ ٢۔ حضرت ھود (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو عظیم دن کے عظیم عذاب سے ڈرایا۔ ٣۔ قوم عاد نے حضرت ھود (علیہ السلام) کی دعوت کے مقابلے میں اپنے باطل معبودوں پر اصرار کیا اور ھود (علیہ السلام) سے عذاب لانے کا مطالبہ کیا۔ ٤۔ قوم عاد کی دھمکی پر حضرت ھود (علیہ السلام) نے فرمایا کہ تم جہالت کا مظاہرہ کر رہے ہو۔ تفسیر بالقرآن حضرت ھود (علیہ السلام) کی بدعا اور قوم کا انجام : ١۔ میرے رب میری مدد فرما انھوں نے مجھے کلی طور پر جھٹلا دیا ہے۔ (المومنون : ٣٩) ٢۔ قوم ہود پر سات راتیں اور آٹھ دن زبردست آندھی اور ہوا کے بگولے چلے۔ (الحاقہ : ٧) ٣۔ گرج چمک اور بادو باراں کا طوفان آیا۔ (الاحقاف : ٢٤) ٤۔ آندھی نے انھیں کھجور کے تنوں کی طرح پٹخ پٹخ کر دے مارا۔ (الحاقہ : ٧) ٥۔ انھیں ریزہ ریزہ کردیا گیا۔ (الذاریات : ٤٢) ٦۔ قوم ھود کو نیست و نابود کردیا گیا۔ (الاعراف : ٧٢) ٧۔ دنیا اور آخرت میں ان پر پھٹکار برستی رہے گی۔ (حٰم السجدۃ : ١٦) ٨۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ھود اور ایمانداروں کو اس عذاب سے محفوظ رکھا۔ (ھود : ٥٨)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

درس نمبر ٢٣٩ ایک نظر میں یہ سبق گزشتہ دو اسباق سے بالکل مختلف موضوع پر ہے۔ گزشتہ اسباق میں انسانی قلب و نظر کو جن زاویوں سے لیا گیا تھا اس سبق میں ان سے مختلف بالکل ایک نیا پہلو لیا گیا ہے اس سبق میں مشرکین مکہ کو وادی احقاف کی سیر کرائی جاتی ہے کہ یہ وادی اور دوسری جو تباہ ہوئیں وہ مکہ کے اردگرد واقع تھیں۔ اور یہ لوگ ان واقعات سے پوری طرح باخبر تھے جو قوم عاد اور ان کے رسول حضرت ہود (علیہ السلام) کو پیش آئے۔ انہوں نے بھی اپنے رسول سے وہی سلوک کیا تھا جو یہ حضرت نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کر رہے ہیں۔ انہوں نے بھی یہی اعتراضا کئے تھے جو یہ کر رہے تھے۔ اور حضرت ہود (علیہ السلام) نے بھی آداب نبوت کے حدود وقیود کے اندر ان کو جوابات دئیے تھے ، لیکن اہل مکہ کو معلوم ہے کہ ان پر اللہ کا کیسا سخت عذاب آیا۔ ان کی قوت اس عذاب کا مقابلہ نہ کرسکی۔ حالانکہ اہل مکہ سے وہ زیادہ قوی الجثہ تھے۔ ان کی دولت اور ثروت ان کو کوئی فائدہ نہ دے سکی۔ حالانکہ وہ ان سے زیادہ دولت مند تھے۔ وہ انہی کی طرح آنکھیں ، کان اور دل و دماغ رکھتے تھے مگر انہوں نے ان سے فائدہ نہ اٹھایا ۔ ان کے مقابلے میں وہ ذہنی لحاظ سے بھی اونچے تھے اور انہوں نے جو الہہ بنا رکھے تھے وہ بھی ان کی مدد کو نہ پہنچ سکے۔ غرض مشرکین مکہ کو خود اپنے اسلاف کے انجام کے سامنے کھڑا کر کے قرآن ان کا نقشہ ان کے سامنے پیش کرتا ہے۔ اور بتاتا ہے مکہ رسالت کا یہ ایک ہی سلسلہ اور شجرہ ہے ، ایک ہی دعوت ہے اور سنت الٰہیہ بھی ایک ہے۔ انہوں نے انکار کیا۔ ہلاک ہوئے ، تم انکار کرتے ہو ، ہلاکت کے مستحق بنتے ہو۔ عقیدۂ توحید کوئی نیا گھڑا ہوا عقیدہ نہیں ہے ، یہ دعوت نوح (علیہ السلام) سے ادھر تاریخ میں چلی آرہی ہے۔ زمان و مکان کے اختلاف سے اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ درس نمبر ٢٣٩ تشریح آیات ٢١ ۔۔۔۔ تا ۔۔۔۔۔ ٢٨ آیت نمبر ٢١ تا ٢٨ احقاف ، حقف کی جمع ہے جس کے معنی ریت کے بلند ٹیلے کے ہیں ، اہل عاد کے مکانات جزیرۃ العرب کے جنوب میں حضر موت کے علاقے میں بلند ٹیلوں پر تھے۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا جاتا ہے کہ ان لوگوں کی عاد کی کہانی سنائیں اور یہ بتائیں کہ ان کے بھائی ہود نے بھی اسی طرح اپنی قوم کو ڈرایا تھا۔ یہ اس لیے کہ حضرت ہود (علیہ السلام) کی دعوت کے مقابلے میں قوم عاد کا رد عمل ایسا ہی تھا جس طرح اہل قریش آپ کی دعوت کی تکذیب کر رہے ہیں جس طرح آپ ان میں سے ہیں اسی طرح حضرت ہود بھی عاد ہی میں سے تھے مگر یہ لوگ ذرا سنبھلیں کہ دعوت حق کی تکذیب کے ویسے ہی نتائج بھی ہو سکتے ہیں۔ عاد کا علاقہ قریش کے قریب تھا اور ان کے واقعات سے وہ باخبر بھی تھے۔ عاد کے بھائی ہود (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو ڈرایا ، حضرت ہود بھی رسولوں میں سے کوئی پہلے رسول نہ تھے۔ ان سے پہلے بھی کئی اقوام میں رسول آچکے تھے۔ وقد خلت النذر من بین یدیہ ومن خلفہ (٤٦ : ٢١) “ اور ایسے خبردار کرنے والے ان سے پہلے بھی گزر چکے تھے اور اس کے بعد بھی آتے رہے ”۔ زمان و مکان کے اعتبار سے ان کے قریب بھی تھے اور ان سے دور بھی تھے۔ کیونکہ لوگوں کو انجام بد سے ڈرانے کا سلسلہ اللہ نے اپنی مخلوق کے لئے جاری رکھا ، دعوت و رسالت زمانہ قدیم سے چلی آرہی ہے۔ یہ کوئی عجیب و غریب اور غیر معمولی بات تو نہ تھی۔ اور ان کو اس چیز اور اس دعوت اور اسی بات سے ڈراؤ جس سے تمام رسول ڈراتے رہے۔ الا تعبدوا ۔۔۔۔۔۔۔ یوم عظیم (٤٦ : ٢١) “ کہ اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو ، مجھے تمہارے حق میں ایک بڑے ہولناک دن کے عذاب کا اندیشہ ہے ”۔ اللہ کی بندگی کرو ، یعنی عقیدہ بھی توحید کا رکھو اور پوری زندگی میں اطاعت بھی اللہ کے احکام کی کرو ، اور اگر تم اس دعوت کی مخالفت کرو گے تو اس کے نتیجے میں دنیا و آخرت کے عذاب میں مبتلا ہوجاؤ گے۔ اشارہ یوم عظیم کے عذاب کی طرف ہے۔ یوم عظیم کا اطلاق قرآن مجید میں قیامت پر ہوتا ہے کہ قیامت کی خوفناکیاں عظیم و شدید ہیں۔ توجہ الی اللہ کی اس دعوت اور عذاب الٰہی سے ڈرانے کا انجام کیا ہوا۔ ٭٭٭٭ قالوا اجئتنا ۔۔۔۔ من الصدقین (٤٦ : ٢٢) “ انہوں نے کہا “ کیا تو اس لیے آیا ہے کہ ہمیں بہکا کر ہمارے معبودوں سے برگشتہ کر دے ؟ اچھا تو لے آ ، اپنا وہ عذاب جس سے ڈراتا ہے اگر واقعی تو سچا ہے ”۔ انہوں نے اپنے بھائی پر بدگمانی کی اور الٹا ان کو چیلنج دے دیا کہ لاؤ وہ عذاب جس سے ڈراتے ہو اور اس کے ساتھ انہوں نے ان کا مذاق بھی اڑایا ۔ اور باطل پر اصرار کیا۔ حضرت ہود ایک نبی کی طرح یہ سب باتیں برداشت کرتے ہیں۔ کوئی بڑا دعویٰ نہیں کرتے اور اپنے حدود میں رہتے ہوئے کہتے ہیں۔ ٭٭٭ قال انما العلم ۔۔۔۔ قوما تجھلون (٤٦ : ٢٣) “ اس نے کہا “ اس کا علم تو اللہ کو ہے ، میں صرف وہ پیغام تمہیں پہنچا رہا ہوں جسے دے کر مجھے بھیجا گیا ہے۔ مگر میں دیکھ رہا ہوں کہ تم لوگ جہالت برت رہے ہو ”۔ میں تو تمہیں عذاب سے ڈراتا ہوں کیونکہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں تمہیں ڈراؤں۔ مجھے کیا معلوم کہ عذاب کب آئے گا اور عذاب کیسا ہوگا۔ ان امور کا علم تو اللہ کے پاس ہے۔ میں تو اللہ کی طرف سے صرف پیغام پہنچانے والا ہوں۔ میں اللہ کے ساتھ علم اور قدرت میں شریک نہیں ہوں۔ ولکنی ارکم قوما تجھلون (٤٦ : ٢٣) “ میں دیکھ رہا ہوں کہ تم لوگ جہالت برت رہے ہو ”۔ بہت ہی کم عقل نظر آرہے ہو ، اس سے بڑی حماقت اور کیا ہوگی کہ ایک بھائی اور ناصح مشفق ڈرا رہا ہے اور جواب میں وہ چیلنج دیتے ہیں۔ حضرت ہود (علیہ السلام) اور ان کی قوم کے درمیان دعوت اسلامی کے سلسلے میں طویل مکالمہ اور مجادلہ ہوا تھا۔ یہاں قرآن کریم اسے مختصر کردیتا ہے کیونکہ یہاں جلد جلد ان کے سامنے انجام بد پیش کرنا ہے ، تا کہ ان کے چیلنج اور جلد بازی کا جواب دیا جاسکے۔ ٭٭٭٭ فلما راوہ عارضا۔۔۔۔۔ عذاب الیم (٢٤) تدمر کل شیء ۔۔۔۔۔۔ القوم المجرمین (٢٥) (٤٦ : ٢٤- ٢٥) “ پھر جب انہوں نے اس عذاب کو اپنی وادیوں کی طرف آتے دیکھا تو کہنے لگے “ یہ بادل ہے جو ہم کو سیراب کر دے گا ”۔۔۔۔ “ نہیں ، بلکہ یہ وہی چیز ہے جس کے لئے تم جلدی مچا رہے تھے۔ یہ ہوا کا طوفان ہے جس میں دردناک عذاب چلا آرہا ہے ، اپنے رب کے حکم سے ہر چیز کو تباہ کر ڈالے گا ”۔ آخر کار ان کا حال یہ ہوا کہ ان کے رہنے کی جگہوں کے سوا وہاں کچھ نظر نہ آتا تھا۔ اس طرح ہم مجرموں کو بدلہ دیا کرتے ہیں ”۔ روایت میں آتا ہے کہ ان کو شدید گرمی نے آلیا ۔ بارش رک گئی اور خشکی اور سخت گرمی کی وجہ سے علاقہ آگ اور دھواں بن گیا ۔ اس کے بعد بادل کا ایک ٹکڑا آیا۔ یہ لوگ بہت خوش ہوئے اور ان لوگوں نے وادیوں میں نکل کر اس بادل کا استقبال کیا۔ سمجھتے تھے کہ بس اب بارش ہوگی۔ قالوا ھذا عارض ممطرنا (٤٦ : ٢٤) “ یہ بادل ہے جو ہم کو سیراب کر دے گا ”۔ اور لسان الحال نے ان کو یہ جواب دیا۔ بل ھو ما ۔۔۔۔۔ عذاب الیم (٤٦ : ٢٤) تدمر کل شیء بامر ربھا (٤٦ : ٢٥) “ نہیں بلکہ یہ وہی چیز ہے جس کے لئے تم جلدی مچا رہے تھے۔ یہ ہوا کا طوفان ہے جس میں دردناک عذاب چلا آرہا ہے۔ اپنے رب کے حکم سے ہر چیز کو تباہ کر ڈالے گا ”۔ یہ نہایت تیز چلنے والی ہوا ہے۔ اور اس قدر سخت اور بےقابو ہے جس طرح کوئی سرکش جابر ہوتا ہے۔ ما تذر ۔۔۔۔۔ کالرمیم (٥١ : ٤٢) “ جس چیز پر بھی وہ گزر گئی اسے بوسیدہ کر کے رکھ دیا ”۔ قرآن کی اس آیت میں ہوا کو ایک زندہ مخلوق کی طرح بتایا گیا ہے گویا وہ سنتی ہے اور اسے حکم دیا جاتا ہے کہ ان کو نیست و نابود کر کے رکھ دو ۔ تدمر کل شییء بامر ربھا (٤٦ : ٢٥) “ اپنے رب کے حکم سے ہر چیز کو تباہ کرنے والی ” یہ ہے وہ کائناتی حقیقت جس کا شعور قرآن کریم بار بار انسانوں کو دیتا ہے۔ یوں کہ یہ کائنات بھی اسی طرح زندہ ہے جس طرح ہم زندہ ہیں۔ اس کی تمام قوتیں شعور رکھتی ہیں۔ یہ تمام اشیاء اللہ کے احکام لیتی ہیں اور بجا لاتی ہیں۔ انسان بھی ان قوتوں میں سے ایک قوت ہے۔ جب وہ ایمان لے آئے اور اس کا قلب معرفت الٰہی کے لئے کھل جائے تو پھر وہ بھی اپنے ارد گرد پھیلی ہوئی کائنات قوتوں سے پیغام لے سکتا ہے۔ ان کے ساتھ ہمقدم ہو کر چل سکتا ہے۔ اور یہ قوتیں بھی اس کے ساتھ چل سکتی ہیں۔ یہ چیزیں بھی مومن کے ساتھ اس طرح ہمقدم ہو کر چلتی ہیں ، لیکن اس ہم آہنگی کی صورت وہ نہیں ہوتی جو زندہ انسانوں کی ہوتی ہے۔ درحقیقت گو ہر چیز زندہ ہے لیکن اس کی زندگی اس طرح نہیں جس طرح کی زندگی کے ہم عادی ہیں۔ ہم صرف زندگی کی ظاہری صورتیں ہی دیکھ سکتے ہیں اور اس ظاہر بینی کی وجہ سے باطن صورتیں ہم نہیں دیکھ سکتے۔ جن لوگوں کی چشم بصیرت کھل جاتی ہے۔ وہ دیکھ سکتے ہیں اور اس ظاہر بینی کی وجہ سے باطن صورتیں ہم نہیں دیکھ سکتے۔ جن لوگوں کی چشم بصیرت کھل جاتی ہے۔ وہ دیکھ سکتے اگرچہ ہماری یہ آنکھیں ان کو نہیں دیکھ سکتیں۔ بہرحال اس ہوا کو جو حکم دیا گیا اس نے وہ پورا کردیا۔ اس نے ہر چیز کو نیست و نابود کردیا۔ فاصبحوا لا یری الا مسکنھم (٤٦ : ٢٥) “ آخر کار ان کا حال یہ ہوا کہ ان کے رہنے کی جگہوں کے سوا کچھ نظر نہ آتا تھا ”۔ رہے وہ ، ان کے مویشی ، ان کے مال و اسباب تو ان میں سے کوئی چیز نہ رہی۔ خالی خولی مکانات و محلات رہ گئے ۔ کوئی زندہ شخص ان میں نہ تھا۔ کذلک نجزی القوم المجرمین (٤٦ : ٢٥) “ اس طرح ہم مجرموں کو بدلہ دیا کرتے ہیں ” ۔ یہ سنت جاریہ ہے اور مجرموں پر نافذ ہونے والی تقدیر الٰہی ہے۔ ٭٭٭ تباہی کے اس نقشے کو دیکھنے والوں کی طرف ایک نکتہ توجہ ! کہ دیکھو حضرت ہود (علیہ السلام) کی طرح تم بھی حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ یہی سلوک کر رہے ہو۔ ولقد مکنھم فبما ۔۔۔۔۔ بہ یستھزءون (٤٦ : ٢٦) “ ان کو ہم نے وہ کچھ دیا تھا جو تم لوگوں کو نہیں دیا ہے۔ ان کو ہم نے کان ، آنکھیں اور دل سب کچھ دے رکھے تھے ، مگر نہ وہ کان ان کے کسی کام آئے ، نہ آنکھیں ، نہ دل۔ کیونکہ وہ اللہ کی آیات کا انکار کرتے تھے ، اور اسی چیز کے ۔۔۔۔۔ میں وہ آگئے جس کا وہ مذاق اڑاتے تھے ”۔ یہ لوگ جن کو اللہ کی قوتوں میں سے ایک معمولی قوت ۔۔۔۔ کردیا ، ان کو ہم نے وہ قوت دی جو اے اہل قریش ، تم کو نہیں دی گئی۔ قوت ، مال ، علم اور سازوسامان میں وہ تم سے زیادہ تھے۔ اسی طرح سننے ، دیکھنے اور سوچنے کی قوت بھی ان میں تم سے زیادہ تھی۔ قرآن کریم قوت مدرکہ کو کبھی دل کہتا ہے ، کبھی دماغ کہتا ہے اور کبھی عقل کہتا ہے۔ سب سے مراد قوت مدرکہ ہوتی ہے۔ یعنی ان کے یہ حواس بڑے ترقی یافتہ تھے مگر انہوں نے اس سے فائدہ نہ اٹھایا ۔ انہوں نے راہ ہدایت دیکھنے میں ان کو معطل کردیا۔ اذ کانوا یجحدون بایت اللہ (٤٦ : ٢٦) “ کیونکہ وہ اللہ کی آیات کا انکار کرتے تھے ”۔ اور جب انسان آیات الٰہیہ کا انکار کر دے تو اس کے حواس معطل ہوجاتے ہیں اور اس کا احساس روشنی اور نور اور ادراک ختم ہوجاتا ہے۔ وحاق بھم ما کانوا بہ یستھزءون (٤٦ : ٢٦) “ اور اسی چیز کے پھیر میں وہ آگئے جس کا وہ مذاق اڑاتے تھے ” یعنی عذاب الٰہی اور مصیبت۔ اس واقعہ سے قرآن ہر صاحب سمع و بصر اور قلب کو جو سبق دینا چاہتا ہے وہ یہ ہے کہ کوئی قوت والا اپنی قوت پر مغرور نہ ہو ، کوئی مالدار شخص اپنے مال پر مغرور نہ ہو ، کوئی صاحب علم اپنے علم پر مغرور نہ ہو۔ اس لیے کہ اللہ کی ان کائناتی قوتوں میں سے یہ ایک ہی قوت تھی جسے اللہ نے ان زبردست قوت والے ، مال والے اور علم والے لوگوں پر مسلط کیا اور انہیں ختم کر کے رکھ دیا۔ اور وہ یوں رہ گئے کہ صرف عالیشان ، مکانات ہی رہ گئے اور بس۔ اور جب اللہ کی پکڑ آتی ہے تو یہی ہوتا ہے۔ ہوا ایک ایسی قوت ہے جو مسلسل کام کرتی ہے اور یہ اللہ کے کائنات نظام کے مطابق چلتی ہے۔ اللہ جس وقت چاہے اسے بربادی پر مامور کر دے۔ عام طور پر تو وہ تعمیر کا کام کرتی ہے لیکن جب اللہ چاہے تو وہ ہلاک کرنا شروع کردیتی ہے۔ تمام کائناتی قوتیں جو ایک ڈگر پر کام کرتی نظر آتی ہیں ان کا سبب ان کے اندر یہی امر ربی ہے اور جب امر ربی دوسرا حکم دے تو یہ دوسرا کام کرتی ہیں جو کوتاہ نظر انسانوں کو خارق عادت نظر آتا ہے۔ نظام اسباب پیدا کرنے و الا اللہ ہے۔ وہ ہر چیز کو ، ہر حرکت کو ، ہر حادثہ کو ، ہر رحجان کو ، ہر شخص کو اور ہر کام کو اپنے احکام اور اپنے نقشے کے مطابق چلاتا ہے۔ اور جس جگہ بھی وہ کام ہوتا ہے اس کی تقدیر کے مطابق ہوتا ہے۔ اگرچہ ہمیں وہ کام خارق عادت نظر آئے۔ ہوا بھی دوسری کائناتی قوتوں کی طرح اپنا مقررہ وظیفہ سر انجام دیتی ہے۔ اسی طرح انسانی قوت اور دوسری کائناتی قوتیں جو انسان کے لئے مسخر کردی گئی ہیں وہ کائناتی نقشے کے مطابق کام کرتی ہیں۔ جو نہی انسان حرکت میں آتا ہے یہ قوتیں بھی ان کے ہم قدم ہو کر حرکت کرتی ہیں۔ یوں وہ اسکیم اپنا کام کرتی ہے جو اللہ نے اس دنیا کے لئے مقرر کی ہے۔ انسان کو جو ارادے کی آزادی دی گئی ہے تو وہ اس کائنات نظام کے فریم ورک کے اندر ہے۔ جسے اس کائنات کا ناموس کلی کہا جاتا ہے جسے نظام قضا و قدر کہا جاتا ہے ۔ اور جسے سنت الہٰیہ کہا جاتا ہے جس کے اندر کوئی تغیر اور اضطراب نہیں ہوتا۔ ٭٭٭ اب اس سبق کا خاتمہ ایک عام تبصرے پر ہوتا ہے جس میں عاد کے سوا دوسری بستیوں کا بھی ذکر ہے جو مکہ کے ارد گرد زمانہ ما قبل میں ہلاک ہوئیں۔ ولقد اھلکنا ۔۔۔۔ لعلھم یرجعون (٢٧) فلولا نصرھم ۔۔۔۔۔۔ کانوا یفترون (٤٦ : ٢٨) “ تمہارے گردوپیش کے علاقوں میں بہت سی بستیوں کو ہم ہلاک کرچکے ہیں ۔ ہم نے اپنی آیات بھیج کر بار بار طرح طرح سے ان کو سمجھایا ، شاید کہ وہ باز آجائیں ۔ پھر کیوں نہ ان ہستیوں نے ان کی مدد کی جنہیں اللہ کو چھوڑ کر انہوں نے تقرب الی اللہ کا ذریعہ سمجھتے ہوئے معبود بنا لیا تھا ؟ بلکہ وہ تو ان سے کھوئے گئے ، اور یہ تھا ان کے جھوٹ اور ان بناؤٹی عقیدوں کا انجام جو انہوں نے گھڑ رکھے تھے ”۔ جزیرۃ العرب میں کئی بستیوں کو ہلاک کیا گیا تھا ، جنہوں نے رسولوں کی تکذیب کی تھی۔ احقات میں عاد ہلاک ہوئے۔ یہ جنوب میں تھے اور ثمود حجر میں ہلاک ہوئے جو شمال میں تھے اور سبا یمن میں ہلاک ہوئے اور اہل مدین شام کی راہ میں تھے۔ اسی طرح ذرا مزید شمال میں لوط کی بستیاں تھیں اور اہل عرب ان کی کہانیوں سے بھی واقف تھے اور ان بستیوں سے گزرتے رہتے تھے۔ ان آیات میں اللہ نے ان کی طرف ان کے انجام کی طرف اشارہ کیا کہ شاید مکہ کے مکذبین باز آجائیں۔ اللہ فرماتا ہے کہ ہم نے ان کو بار بار سمجھایا مگر وہ باز نہ آئے۔ اور اپنی گمراہی میں بڑھتے ہی چلے گئے ۔ تب ان پر ہمارے عذاب آئے ، قسم قسم کے عذاب ۔ ان کے بارے میں بعد کے آنے والے ان کی کہانیاں ایک دوسرے کو سناتے رہے۔ عرب کے موجودہ مشرک بھی ان کو سنتے اور جانتے ہیں اور صبح و شام ان بستیوں میں سے گزرتے رہتے ہیں اور ان کے آثار ابھی تک قائم ہیں لیکن اے کاش کہ وہ عبرت لیتے۔ یہاں اب قرآن مجید مشرکین مکہ کو ایک حقیقت واقعہ بتاتا ہے۔ اللہ نے ان سے پہلے بھی مشرکین کو ہلاک کیا اور ان کو نیست و نابود کردیا اور ان میں سے ایک شخص بھی زندہ نہ رہا۔ لیکن وہ جن معبودوں کو پکارتے تھے اور یہ گمان کرتے تھے کہ یہ ان کو اللہ کے قریب تر لاتے ہیں تو ان ہستیوں نے کیوں نہ اللہ کے غصب کو کم کر کے ان کو ہلاکت سے بچایا۔ فلو لا نصرھم الذین ۔۔۔۔۔۔ قربانا الھۃ (٤٦ : ٢٨) “ پھر کیوں نہ ان ہستیوں نے ان کی مدد کی جنہیں اللہ کو چھوڑ کر انہوں نے تقرب الی اللہ کا ذریعہ سمجھتے ہوئے معبود بنا لیا تھا ”۔ نہ صرف یہ کہ ان ہستیوں نے ان کی مدد نہ کی بلکہ بل ضلوا عنھم (٤٦ : ٢٨) “ بلکہ وہ تو ان سے کھوئے گئے ”۔ اور انہوں نے ان لوگوں کو اکیلا چھوڑ دیا ، اور ان کو ان معبودوں تک بھیجنے کا راستہ بھی معلوم نہ ہوا تا کہ وہ ان کو پکڑیں اور اللہ کے عذاب سے بچنے میں ان کی مدد لیں۔ وذلک افکھم وما کانوا یفترون (٤٦ : ٢٨) “ اور یہ تھا ان کا جھوٹ اور ان بنیادی عقیدوں کا انجام جو انہوں نے گھڑ رکھے تھے ”۔ یہ جھوٹ اور افتراء ہے۔ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اس کا یہ انجام ہے ۔ اور یہ ان معبود ان باطل کی حقیقت ہے۔ اور اس شرک اور عبادت کا یہ انجام ہے کہ یہ لوگ نیت و نابود کر دئیے گئے۔ لہٰذا مکہ کے ان مشرکوں کو جو ان معبودوں کی عبادت اس لیے کرتے ہیں کہ وہ انہیں خدا کے قریب کریں گے ، اپنے اس فعل کے بارے میں سوچ لینا چاہئے کہ اس کا انجام کیا ہوگا اور ایسے عقائد کا انجام تاریخ میں کیا ہوتا رہا ہے

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

قوم عاد کی طرف حضرت ہود (علیہ السلام) کی بعثت، قوم کا انکار اور تکذیب، پھر ہلاکت اور تعذیب یہ پورے ایک رکوع کا ترجمہ ہے اس میں قوم عاد کے کفر وعناد کا اور حضرت ہود (علیہ السلام) کے تبلیغ کرنے کا پھر قوم عاد کے ہلاک ہونے کا تذکرہ ہے اس قوم کے پیغمبر حضرت ہود (علیہ السلام) تھے جن کو یہاں ﴿ اَخَا عَادٍ ﴾ کے عنوان سے ذکر ہے چونکہ حضرت ہود (علیہ السلام) عاد ہی کی قوم میں سے تھے اس لیے ﴿ اَخَا عَادٍ ﴾ فرمایا لفظ ﴿اَلاحْقَاف﴾ حِقْفٌ کی جمع ہے۔ قوم عاد کا رہنا سہنا اور بودو باش یمن میں تھی جس علاقہ میں یہ لوگ رہتے تھے وہاں ریت کے پہاڑ تھے اس لیے اسے احقاف سے تعبیر فرمایا ﴿حِقفُ﴾ اس پہاڑی کو کہتے ہیں جو گولائی لیے ہوئے اور نیچے جھکی ہوئی ہو ریت کی پہاڑیاں ایسی ہی ہوتی ہیں چونکہ ریت میں مضبوطی سے ٹھہرنے اور قرار پانے کی صلاحیت نہیں ہوتی اس لیے ڈھلتی چلی جاتی ہے۔ ﴿اِذْ اَنْذَرَ قَوْمَهٗ بالْاَحْقَافِ ﴾ جبکہ ہود (علیہ السلام) نے احقاف کے علاقہ میں اپنی قوم کو ڈرایا اور انہیں سمجھایا کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ان سے پہلے بھی اللہ کی طرف سے پیغمبر آئے تھے جنہوں نے اپنی قوموں کو تبلیغ کی توحید کی دعوت دی اور انکار پر عذاب کی وعید سنائی حضرت ہود (علیہ السلام) کے بعد بھی اللہ تعالیٰ کے پیغام پہنچائے اسی کو ﴿ وَ قَدْ خَلَتِ النُّذُرُ مِنْۢ بَيْنِ يَدَيْهِ وَ مِنْ خَلْفِهٖۤ ﴾ سے تعبیر فرمایا۔ حضرت ہود (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے فرمایا ﴿ اِنِّيْۤ اَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيْمٍ ٠٠٢١﴾ (میں تم سے بڑے دن کے عذاب کا اندیشہ کرتا ہوں) یعنی اگر تم نے حق کو قبول نہ کیا تو تم پر بڑا عذاب آئے گا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

19:۔ ” واذکر اخا عاد “ یہ تیسری تفصیلی نقلی دلیل ہے از ہود (علیہ السلام) مع تخویف دنیوی۔ ” الاحقاف “ حقف کی جمع ہے جس کے معنی ریت کے ٹیلے کے ہیں۔ قوم عاد ریت کے ٹیلوں پر سکونت پذیر تھی۔ حضرت ہود (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو توحید کا پیغام پہنچایا۔ اور اسے اللہ کے عذاب سے ڈرایا۔ قوم ہود سے پہلے اور اس کے بعد جتنے بھی اللہ کی طرف سے پیغمبر آئے سب نے اپنی اپنی قوم کو یہی دعوت دی۔ ” ان لا تعبدوا الا اللہ “ کہ اللہ کے سوا کسی کو حاجات میں غائبانہ مت پکارو۔ اگر پیغام توحید کو ٹھکراؤ گے تو ایک بہت بڑے اور دردناک عذاب کا خطرہ ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(21) اور اے پیغمبر آپ قوم عاد کے بھائی یعنی ہود (علیہ السلام) کا ذکر کیجئے جیسا کہ اس نے اپنی قوم کو جو ایک ریگستانی علاقہ میں آباد تھی ڈرایا اور یقینا ہود سے پہلے بھی اور اس کے پیچھے بھی بہت سے ڈرانے والے گزر چکے ہیں ہود (علیہ السلام) نے کہا کہ تم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرو میں تم پر ایک بڑے سخت دن کا آفت اور عذاب سے ڈرتا ہوں۔ یہود (علیہ السلام) جو قوم عاد کے بھائی برادر تھے ان کو عاد کے لئے پیغمبر بنا کر بھیجا جیسا کہ قرآن میں کئی جگہ ان کا ذکر گزر چکا ہے۔ یہ لوگ یمن کے علاقے میں یا عمان اور مہرہ کے درمیان ریگستان میں جہاں بڑے بڑے مستطیل ریت کے ٹیلے تھے وہاں آباد تھے ۔ ہود (علیہ السلام) نے ان کو ڈرایا کہ سوائے اللہ تعالیٰ کے کسی دوسرے کی عبادت نہ کیا کرو مجھے تم پر ایک بڑے سخت دن کی آفت کا اندیشہ ہے۔ اس دن سے مراد قیامت کا دن یا دنیوی عذاب کا دن ہے بیچ میں فرمایا اس سے پہلے اور اس سے پیچھے اور بہت سے ڈرانے والے گزر چکے ہیں یہ اس لئے فرمایا تاکہ ہود (علیہ السلام) کی بات کی تائید ہو کہ اور پیغمبر بھی توحید کی تبلیغ کرتے رہے ہیں انہوں نے ایک متفق علیہ بات اپنی قوم کے روبرو پیش کی تھی۔