Surat ul Fatah

Surah: 48

Verse: 20

سورة الفتح

وَعَدَکُمُ اللّٰہُ مَغَانِمَ کَثِیۡرَۃً تَاۡخُذُوۡنَہَا فَعَجَّلَ لَکُمۡ ہٰذِہٖ وَ کَفَّ اَیۡدِیَ النَّاسِ عَنۡکُمۡ ۚ وَ لِتَکُوۡنَ اٰیَۃً لِّلۡمُؤۡمِنِیۡنَ وَ یَہۡدِیَکُمۡ صِرَاطًا مُّسۡتَقِیۡمًا ﴿ۙ۲۰﴾

Allah has promised you much booty that you will take [in the future] and has hastened for you this [victory] and withheld the hands of people from you - that it may be a sign for the believers and [that] He may guide you to a straight path.

اللہ تعالٰی نے تم سے بہت ساری غنیمتوں کا وعدہ کیا ہے جنہیں تم حاصل کرو گے پس یہ تو تمہیں جلدی ہی عطا فرما دی اور لوگوں کے ہاتھ تم سے روک دیئے تاکہ مومنوں کے لئے یہ ایک نشانی ہو جائے ( تاکہ ) اور وہ تمہیں سیدھی راہ چلائے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Good News of abundant Spoils of War Mujahid said that Allah's statement, وَعَدَكُمُ اللَّهُ مَغَانِمَ كَثِيرَةً تَأْخُذُونَهَا ... Allah has promised you abundant spoils that you will capture, refers to the spoils that Muslims earned up until this time, while, ... فَعَجَّلَ لَكُمْ هَذِهِ ... and He has hastened for you this, means, the conquest of Khyber. Al-`Awfi reported that Ibn Abbas said, فَعَجَّلَ لَكُمْ هَذِهِ (and He has hastened for you this), means, "The peace treaty of Al-Hudaybiyyah." Allah said, ... وَكَفَّ أَيْدِيَ النَّاسِ عَنكُمْ ... and He has restrained the hands of men from you, meaning, `no harm that your enemies had planned against you, both fighting and warfare, touched you. Allah also restrained the hands of men, whom you left behind close to your families and children, from harming them,' ... وَلِتَكُونَ ايَةً لِّلْمُوْمِنِينَ ... that it may be a sign for the believers, with which they take heed and understand. Verily, Allah the Exalted and Most Honored shall help and protect the believers against all enemies, even though the believers are few in number. By doing so, the believers will come to know that Allah is truly the Knower of the consequences of all matters and that the best decisions are those which He prefers for His believing servants, even though these decisions might look unfavorable outwardly, وَعَسَى أَن تَكْرَهُواْ شَيْيًا وَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ It may be that you dislike a thing that is good for you. (2:216). Allah said, ... وَيَهْدِيَكُمْ صِرَاطًا مُّسْتَقِيمًا and that He may guide you to the straight path. i.e. on account of your obeying His commands and adhering by His orders by following the path of His Messenger , Good News of continuous Muslim Victories until the Day of Resurrection The statement of Allah the Exalted and Most Honored, وَأُخْرَى لَمْ تَقْدِرُوا عَلَيْهَا قَدْ أَحَاطَ اللَّهُ بِهَا وَكَانَ اللَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرًا

کفار کے بد ارادے ناکام ہوئے ان بہت سی غنیمتوں سے مراد آپ کے زمانے اور بعد کی سب غنیمتیں ہیں جلدی کی غنیمت سے مراد خیبر کی غنیمت ہے اور حدیبیہ کی صلح ہے اس اللہ کا ایک احسان یہ بھی ہے کہ کفار کے بد ارادوں کو اس نے پورا نہ ہونے دیا نہ مکے کے کافروں کے نہ ان منافقوں کے جو تمہارے پیچھے مدینے میں رہے تھے ۔ نہ یہ تم پر حملہ اور ہو سکے نہ وہ تمہارے بال بچوں کو ستا سکے یہ اس لئے کہ مسلمان اس سے عبرت حاصل کریں اور جان لیں کہ اصل حافظ و ناصر اللہ ہی ہے پس دشمنوں کی کثرت اور اپنی قلت سے ہمت نہ ہار دیں اور یہ بھی یقین کرلیں کہ ہر کام کے انجام کا علم اللہ ہی کو ہے بندوں کے حق میں بہتری یہی ہے کہ وہ اس کے فرمان پر عامل رہیں اور اسی میں اپنی خیریت سمجھیں گو وہ فرمان بہ ظاہر خلاف طبع ہو ، بہت ممکن ہے کہ تم جسے ناپسند رکھتے ہو وہی تمہارے حق میں بہتر ہو وہ تمہیں تمہاری حکم بجا آوری اور اتباع رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور سچی جانثاری کی عوض راہ مستقیم دکھائے گا اور دیگر غنیمتیں اور فتح مندیاں بھی عطا فرمائے گا جو تمہارے بس کی نہیں لیکن اللہ خود تمہاری مدد کرے گا اور ان مشکلات کو تم پر آسان کر دے گا سب چیزیں اللہ کے بس میں ہیں وہ اپنا ڈر رکھنے والے بندوں کو ایسی جگہ سے روزیاں پہنچاتا ہے جو کسی کے خیال میں تو کیا ؟ خود ان کے اپنے خیال میں بھی نہ ہوں اس غنیمت سے مراد خیبر کی غنیمت ہے جس کا وعدہ صلح حدیبیہ میں پنہاں تھا یا مکہ کی فتح تھی یا فارس اور روم کے مال ہیں یا وہ تمام فتوحات ہیں جو قیامت تک مسلمانوں کو حاصل ہوں گی ۔ پھر اللہ تبارک وتعالیٰ مسلمانوں کو خوشخبری سناتا ہے کہ وہ کفار سے مرعوب اور خائف نہ ہوں اگر کافر مقابلہ پر آئے تو اللہ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کی مدد کرے گا ۔ اور ان بے ایمانوں کو شکست فاش دے گا یہ پیٹھ دکھائیں گے اور منہ پھیر لیں گے اور کوئی والی اور مددگار بھی انہیں نہ ملے گا اس لئے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول سے لڑنے کے لئے آئے ہیں اور اس کے ایماندار بندوں کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں ۔ پھر فرماتا ہے یہی اللہ تعالیٰ کی عادت ہے کہ جب کفر و ایمان کا مقابلہ ہو وہ ایمان کو کفر پر غالب کرتا ہے اور حق کو ظاہر کر کے باطل کو دبا دیتا ہے جیسے کہ بدر والے دن بہت سے کافروں کو جو باسامان تھے چند مسلمانوں کے مقابلہ میں جو بےسرو سامان تھے شکست فاش دی ۔ پھر اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتا ہے میرے احسان کو بھی نہ بھولو کہ میں نے مشرکوں کے ہاتھ تم تک نہ پہنچنے دئیے اور تمہیں بھی مسجد حرام کے پاس لڑنے سے روک دیا اور تم میں اور ان میں صلے کرا دی جو دراصل تمہارے حق میں سراسر بہتری ہے کیا دنیا کے اعتبار سے اور کیا آخرت کے اعتبار سے وہ حدیث یاد ہوگی جو اسی سورت کی تفسیر میں بہ روایت حضرت سلمہ بن اکوع گذر چکی ہے کہ جب ستر کافروں کو باندھ کر صحابہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں پیش کیا تو آپ نے فرمایا انہیں جانے دو ان کی طرف سے ہی ابتدا ہو اور انہی کی طرف سے دوبارہ شروع ہو اسی بابت یہ آیت اتری ، مسند احمد میں ہے کہ اسی کافر ہتھیاروں سے آراستہ جبل ( تنعیم ) کی طرف سے چپ چپاتے موقعہ پا کر اتر آئے لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم غافل نہ تھے آپ نے فورًا لوگوں کو آگاہ کر دیا سب گرفتار کر لئے گئے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کئے گئے آپ نے ازراہ مہربانی ان کی خطا معاف فرما دی اور سب کو چھوڑ دیا ، اور نسائی میں بھی ہے حضرت عبداللہ بن مغفل فرماتے ہیں جس درخت کا ذکر قرآن میں ہے اس کے نیچے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تھے ہم لوگ بھی آپ کے اردگرد تھے اس درخت کی شاخیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی کمر سے لگ رہی تھیں حضرت علی بن ابو طالب اور سہیل بن عمرو آپ کے سامنے تھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی سے فرمایا بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھو اس پر سہیل نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ تھام لیا اور کہا ہم رحمن اور رحیم کو نہیں جانتے ہمارے اس صلح نامہ میں ہمارے دستور کے مطابق لکھوائیے ، پس آپ نے فرمایا ( باسمک اللھم ) لکھ لو ۔ پھر لکھا یہ وہ ہے جس پر اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل مکہ سے صلح کی اس پر پھر سہیل نے آپ کا ہاتھ تھام کر کہا آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں تو پھر ہم نے بڑا ظلم کیا اس صلح نامہ میں وہی لکھوائے جو ہم میں مشہور ہے تو آپ نے فرمایا لکھو یہ وہ ہے جس پر محمد بن عبداللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے اہل مکہ سے صلح کی اتنے میں تیس نوجوان کفار ہتھیار بند آن پڑے آپ نے ان کے حق میں بددعا کی اللہ نے انہیں بہرا بنا دیا ہم اٹھے اور ان سب کو گرفتار کر کے آپ کے سامنے پیش کر دیا ۔ آپ نے ان سے دریافت فرمایا کہ کیا تمہیں کسی نے امن دیا ہے ـ؟ یا تم کسی کی ذمہ داری پر آئے ہو ؟ انہوں نے انکار کیا لیکن باوجود اس کے آپ نے ان سے درگذر فرمایا اور انہیں چھوڑ دیا اس پر یہ آیت ( وھوالذی ) الخ ، نازل ہوئی ( نسائی ) ابن جریر میں ہے جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم قربانی کے جانور لے کر چلے اور ذوالحلیفہ تک پہنچ گئے تو حضرت عمر نے عرض کی اے نبی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ ایک ایسی قوم کی بستی میں جا رہے ہیں جو برسرپیکار ہیں اور آپ کے پاس نہ تو ہتھیار ہیں نہ اسباب ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر آدمی بھیج کر مدینہ سے سب ہتھیار اور کل سامان منگوا لیا جب آپ مکہ کے قریب پہنچ گئے تو مشرکین نے آپ کو روکا آپ مکہ نہ آئیں آپ کو خبر دی کہ عکرمہ بن ابو جہل پانچ سو کا لشکر لے کر آپ پر چڑھائی کرنے کے لئے آرہا ہے آپ نے حضرت خالد بن ولید سے فرمایا اے خالد تیرا چچازاد بھائی لشکر لے کر آرہا ہے حضرت خالد نے فرمایا پھر کیا ہوا ؟ میں اللہ کی تلوار ہوں اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اسی دن سے آپ کا لقب سیف اللہ ہوا ۔ مجھے آپ جہاں چاہیں اور جس کے مقابلہ میں چاہیں بھیجیں چنانچہ عکرمہ کے مقابلہ کے لئے آپ روانہ ہوئے گھاٹی میں دونوں کی مڈبھیڑ ہوئی حضرت خالد نے ایسا سخت حملہ کیا کہ عکرمہ کے پاؤں نہ جمے اسے مکہ کی گلیوں تک پہنچا کر حضرت خالد واپس آگئے لیکن پھر دوبارہ وہ تازہ دم ہو کر مقابلہ پر آیا اب کی مرتبہ بھی شکست کھا کر مکہ کی گلیوں میں پہنچ گیا وہ پھر تیسری مرتبہ نکلا اس مرتبہ بھی یہی حشر ہوا اسی کا بیان آیت ( وَهُوَ الَّذِيْ كَفَّ اَيْدِيَهُمْ عَنْكُمْ وَاَيْدِيَكُمْ عَنْهُمْ بِبَطْنِ مَكَّةَ مِنْۢ بَعْدِ اَنْ اَظْفَرَكُمْ عَلَيْهِمْ ۭ وَكَانَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْرًا 24؀ ) 48- الفتح:24 ) ، میں ہے ، پس اللہ تعالیٰ نے باوجود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ظفر مندی کے کفار کو بھی بچا لیا تاکہ جو مسلمان ضعفاء اور کمزور مکہ میں تھے انہیں اسلامی لشکر کے ہاتھوں کوئی گذند نہ پہنچے لیکن اس روایت میں بہت کچھ نظر ہے ناممکن ہے کہ یہ حدیبیہ والے واقعہ کا ذکر ہو اس لئے کہ اس وقت تک تو حضرت خالد مسلمان ہی نہ ہوئے تھے بلکہ مشرکین کے طلایہ کے یہ اس دن سردار تھے جیسے کہ صحیح حدیث میں موجود ہے اور یہ بھی نہیں ہو سکتا کہ یہ واقعہ عمرۃ القضاء کا ہو ۔ اس لئے کہ حدیبیہ کے صلح نامہ کی شرائط کے مطابق یہ طے شدہ امر تھا کہ اگلے سال حضور صلی اللہ علیہ وسلم آئیں عمرہ ادا کریں اور تین دن تک مکہ میں ٹھہریں چنانچہ اسی قرارداد کے مطابق جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما ہوئے تو کافروں نے آپ کو روکا نہیں نہ آپ سے جنگ و جدال کیا ۔ اسی طرح یہ بھی نہیں ہو سکتا کہ یہ واقعہ فتح مکہ کا ہو اس لئے کہ فتح مکہ والے سال آپ اپنے ساتھ قربانیاں لے کر نہیں گئے تھے اس وقت تو آپ جنگی حیثیت سے گئے تھے لڑنے اور جہاد کرنے کی نیت سے تشریف لے گئے تھے پس اس روایت میں بہت کچھ خلل ہے اور اس میں ضرور قباحت واقع ہوئی ہے خوب سوچ لینا چاہیے واللہ اعلم ۔ حضرت ابن عباس کے مولیٰ حضرت عکرمہ فرماتے ہیں کہ قریش نے اپنے چالیس یا پچاس آدمی بھیجے کہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لشکر کے اردگرد گھومتے رہیں اور موقعہ پا کر کچھ نقصان پہنچائیں یا کسی کو گرفتار کر کے لے آئیں یہاں یہ سارے کے سارے پکڑے لئے گئے لیکن پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں معاف فرما دیا اور سب کو چھوڑ دیا انہوں نے آپ کے لشکر پر کچھ پتھر بھی پھینکے تھے اور کچھ تیربازی کر کے ان کو شہید کر دیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ سوار ان کے تعاقب میں روانہ کئے وہ ان سب کو جو تعداد میں بارہ سو تھے گرفتار کر کے لے آئے آپ نے ان سے پوچھا کہ کوئی عہدو پیمان ہے ؟ کہا نہیں لیکن پھر بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں چھوڑ دیا اور اسی بارے میں آیت ( وَهُوَ الَّذِيْ كَفَّ اَيْدِيَهُمْ عَنْكُمْ وَاَيْدِيَكُمْ عَنْهُمْ بِبَطْنِ مَكَّةَ مِنْۢ بَعْدِ اَنْ اَظْفَرَكُمْ عَلَيْهِمْ ۭ وَكَانَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْرًا 24؀ ) 48- الفتح:24 ) نازل ہوئی ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

20۔ 1 یہ دیگر فتوحات کے نتیجے میں حاصل ہونے والی غنیمتوں کی خوشخبری ہے جو قیامت تک مسلمانوں کو حاصل ہونے والی ہیں۔ 20۔ 2 یعنی فتح خیبر یا صلح حدیبیہ کیونکہ یہ دونوں تو فوری طور پر مسلمانوں کو حاصل ہوگئیں۔ 20۔ 3 حدیبیہ میں کافروں کے ہاتھ اور خیبر میں یہودیوں کے ہاتھ اللہ نے روک دیئے یعنی ان کے حوصلے پست کردیئے اور وہ مسلمانوں سے مصروف پیکار نہیں ہوئے۔ 20۔ 4 یعنی لوگ اس واقعے کا تذکرہ پڑھ کر اندازہ لگا لیں گے کہ اللہ تعالیٰ قلت تعداد کے باوجود مسلمانوں کا محافظ اور دشمنوں پر ان کو غالب کرنے والا ہے یا یہ روک لینا تمام موعودہ باتوں میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صداقت کی نشانی ہے۔ 20۔ 5 یعنی ہدایت پر استقامت عطا فرمائے یا اس نشانی سے تمہیں ہدایت میں اور زیادہ کرے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٨] اس سے مراد فتح مکہ، حنین کے اموال غنائم ہیں۔ بلکہ صلح حدیبیہ کے بعد وہ کثیر مقدار میں اموال غنیمت بھی جو پے در پے فتوحات کے نتیجہ میں مسلمانوں کو حاصل ہوتے رہے۔ [٢٩] حدیبیہ کے مقام پر جنگ نہ ہونے کی حکمتیں :۔ اللہ تعالیٰ یہ بات بطور احسان مسلمانوں سے فرما رہے ہیں اور اس کے دو مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ تمہاری پوزیشن اتنی مضبوط نہ تھی کہ کفر کے سب سے بڑے مرکز میں تم دشمن کی تاب لاسکتے۔ لہذا اللہ نے جنگ کی صورت پیدا ہی نہ ہونے دی۔ اور یہ بھی ایک طرح سے اللہ کی مدد تھی۔ دوسرے یہ کہ تم مدینہ کا مرکز چھوڑ کر بہت دور نکل آئے تھے۔ جنگ کی صورت میں یہ بھی ممکن تھا کہ تمہارے دوسرے دشمن تمہاری غیر حاضری میں مدینہ پر چڑھ آتے۔ اللہ نے انہیں بھی تم سے روک دیا۔ [٣٠] یہاں آیت سے مراد معجزہ ہے۔ یعنی صلح حدیبیہ جسے بظاہر مسلمان اپنی شکست اور توہین سمجھ رہے تھے وہ درحقیقت ان کی معجزانہ فتح تھی جس کی کفار تو درکنار، مسلمانوں کو بھی سمجھ نہیں آرہی تھی۔ جوں جوں اس کے نتائج سامنے آتے گئے مسلمانوں کو یقین ہوتا چلا گیا کہ دراصل یہ صلح اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی تھی۔ [٣١] یہ سیدھی راہ ہر حال میں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت ہے۔ اگر وہ کٹ مرنے کو کہیں تو اس کے لئے تیار ہوجاؤ اور اگر وہ اپنے جذبات کو ٹھنڈا کرنے اور دب جانے کو کہیں تو اس وقت دب جاؤ۔ جوش و خروش کا مظاہرہ نہ کرو۔ یہ اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتا ہے کہ اسلام کی سربلندی کے لئے فلاں وقت کون سا اقدام بہتر ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) وعدکم اللہ مغانم کثیرۃ تاخذونھا : ان بہت سی غنیمتوں سے مراد صلح حدیبیہ، خیبر اور اس کے اردگرد کے علاقوں اور بستیوں کی فتح ہے، کیونکہ اس سے پہلے گزر چکا ہے :(سقول المخلقون اذا انطلقتم الی مغانم لتاخذوھا ذرونا تبعکم یریدون ان یبدلوا کلم اللہ ، قل لن تثبعونا کذلکم قال اللہ من قبل فسیقولون بل تحسدوننا، بل کانوا لایفقھون الا قلیلاً (الفتح : ١٥)” عنقریب پیچھے چھوڑ دیئے جانے والے لوگ کہیں گے جب تم کچھ غنیمتوں کی طرف چلو گے، تاکہ انہیں لے لو، ہمیں چھوڑو کہ ہم تمہارے ساتھ چلیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے کلام کو بدل دیں۔ کہہ دے تم ہمارے ساتھ کبھی نہیں جاؤ گے، اسی طرح اللہ نے پہلے سے کہہ دیا ہے۔ تو وہ ضرور کہیں گے بلکہ تم ہم سے حسد کرتے ہو۔ بلکہ وہ نہیں سمجھتے تھے مگر بہت تھوڑا۔ “ (٢) فعجل لکم ھذہ : تو اس نے تمہیں ان غنیمتوں میں سے یہ صلح حدیبیہ جلدی عطا فرما دی جس میں تمہارے اور قریش کے درمیان معاہدہ ہوگیا کہ دس سال تک جنگ بند رہے گی اور سملمان آئندہ سال اسی ماہ آکر عمرہ ادا کریں گے۔ اس کے نتیجے میں مسلمانوں اور قریش کا ایک دوسرے کے پاس آنا جانا، ملنا جلنا شروع ہوگیا اور بیشمار لوگ مسلمان ہوئے، خیبر اور دوسرے علاقوں کی فتح کا دروازہ کھل گیا، غضر یہ صلح فتح بھی تھی اور اپنے بیشمار فوائد کے لحاظ سے غنیمت بھی۔ بعض مفسرین نے اس سے مراد فتح خیبر لی ہے، یہ بھی ممکن ہے، مگر پہلی تفسیر زیادہ واضح ہے، کیونکہ یہ آیات حدیبیہ سے واپسی پر اتری ہیں۔ (٣) وکف ایدی الناس عنکم : مسلمانوں سے لوگوں کے ہاتھ روک دینے میں مسلمانوں کی قلت کے باوجود قریش مکہ کو لڑائی سے روک دینا بھی شامل ہے اور خیبر اور دوسرے علاقوں کے یہود کو مدینہ پر حملہ آور ہونے سے روک دینا بھی ۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ رعب تھا کہ جب مسلمانوں کی پوری جنگی قوت مدینہ سے باہر تھی، اگر اس وقت یہود اپنے حلیفوں اور منافقین کیساتھ مل کر مدینہ پر حملہ آور ہوتے تو ان کے لئے میدان خالی تھا، کیونکہ وہاں عورتوں، بچوں اور معذوروں کے سوا کوئی موجود نہ تھا، مگر یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کا کرشمہ تھا کہ کسی کو یہ جرأت ہی نہیں ہونے دی۔ (٤) ولتکون ایۃ للمومنین : اس جملے کا واؤ کے ساتھ مقدر جملے پر عطف ہے اور اسے مقدر اس لئے رکھا گیا ہے کہ وہ کئی جملوں میں سے کوئی ایک جملہ ہوسکتا ہے، مثلاً :” فعجل لکم ھذہ وکف ایدی الناس عنکم لتشکروہ ولتکون المعجلۃ و کف ایدی الناس عنکم ایۃ للمومنین “ ” یعنی اس نے یہ غنیمت تمہیں جلدی دے دی اور لوگوں کے ہاتھ تم سے روک دیئے، تاکہ تم اس کا شکر ادا کرو اور تاکہ جلد عطا کی جانے والی یہ غنیمت اور لوگوں کے ہاتھوں کا تم سے روک دیا جانا ایمان والوں کے لئے ایک نشانی بن جائے (کہ آئندہ بھی اللہ تعالیٰ اسی طرح ہماری مدد فرمائے گا۔ )” لتشکروہ “ کے بجائے مقدر جملہ ” لیحصل لھم ال کسی نۃ “ یا ” لیزدادوا ایماناً “ وغیرہ بھی ہوسکتا ہے اور اسے حذف اسی لئے کیا گیا ہے کہ اگر ذکر کیا جاتا تو ایک آدھ بات ذکر ہوسکتی تھی، حالانکہ وہ بہت سی چیزیں ہیں جن کے لئے اللہ تعالیٰ نے یہ غنیمت پہلے عطا کردی۔ (٥) ویھدیکم صراط مستقیماً : یہ جملہ بھی قرآن مجید کے معجزات میں سے ایک معجزہ ہے، کیونکہ اہل حدیبیہ میں سے کوئی ایک شخص بھی صراط مستقیم سے ادھر ادھر نہیں ہوا، بلکہ سب کے سب آخر دم تک اسلام پر قائم رہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

ذِهِ (Allah had promised you many spoils that you would receive, so He gave these to you sooner - 48:20). The phrase |"many spoils|" mentioned here refers to the sizeable spoils that fell into the hands of Muslims in the conquests which followed the victory at Khaibar, in the rest of Arabia and the neighbouring countries. This verse embodies a prophecy that Muslims will achieve other great victories after the victory of Khaibar, and in consequence many spoils until the end of the world. However, before those numerous conquests, the conquest of Daibar was given first, the spoils of which were reserved by Allah exclusively for the participants of Hudaibiyah. But the spoils to be achieved in all the next conquest would be common to all. This shows that the injunction of reserving the right of participating in Khaibar is not laid down explicitly in these verses. That injunction was laid down, as detailed earlier, in a separate category of revelation, that is, in the unrecited revelation. The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) acted upon the injunction and imparted its knowledge to the noble Companions (رض) . وَكَفَّ أَيْدِيَ النَّاسِ عَنكُمْ (...and stopped the hands of the people from (harming) you. ... 48:20). This refers to the unbelievers of Khaibar. In this battle, Allah did not allow them the opportunity to show much strength or force. Imam Baghawi says that the tribe of Ghatafan was the ally of the Jews of Khaibar. When it heard of the Holy Prophet&s (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) march against the Jews of Khaibar, it equipped itself with heavy arms to defend the Jews. But Allah infused terror into their minds, and they were worried that if they went forward, it was possible that a Muslim army might attack their homes in their absence. As a result, they got cold feet and did not have the courage to proceed (Mazhari). وَيَهْدِيَكُمْ صِرَ‌اطًا مُّسْتَقِيمًا (...And (He did this) so that He guides you to the right path.... 48:20) It is clarified earlier (in the commentary on verse 2 of this Surah that there are several degrees of guidance. From that point of view, they were all already guided on the straight path. Here it refers to the degree of guidance which they had not yet attained, that is, full reliance on Allah and increase in the power of faith.

(آیت) وَعَدَكُمُ اللّٰهُ مَغَانِمَ كَثِيْرَةً تَاْخُذُوْنَهَا فَعَجَّلَ لَكُمْ هٰذِهٖ اس سے مراد تمام اسلامی فتوحات اور ان کے غنائم ہیں جو قیامت تک حاصل ہونے والی ہیں۔ پہلے مغانم اہل حدیبیہ کے لئے اللہ تعالیٰ کے حکم سے مخصوص کردیئے گئے تھے یہ سب کے لئے عام ہیں۔ اسی سے معلوم ہوتا ہے کہ تخصیص کا حکم ان آیات میں ذکر نہیں کیا گیا بلکہ وہ جداگانہ وحی کے ذریعہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بتلایا گیا ہے۔ آپ نے اس پر عمل کیا اور صحابہ کرام کو بتلایا۔ (آیت) وَكَفَّ اَيْدِيَ النَّاسِ عَنْكُمْ اس سے مراد کفار اہل خیبر ہیں کہ ان کو اس جہاد میں کچھ زیادہ زور دکھانے کا موقع اللہ تعالیٰ نے نہیں دیا۔ امام بغوی نے فرمایا کہ قبیلہ غطفان یہود خیبر کا حلیف تھا جب اس قبیلہ نے خبر سنی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خیبر پر چڑھائی کی ہے تو یہ لوگ یہود کی مدد کے لئے بڑے سازو سامان سے نکلے مگر اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا اور یہ اس فکر میں پڑگئے کہ اگر ہم اس طرف گئے تو بعید نہیں کہ مسلمانوں کا کوئی لشکر ہمارے پیچھے ہمارے گھروں پر حملہ کر دے اس لئے سب ٹھنڈے ہو کر بیٹھ گئے (مظہری) (آیت) وَيَهْدِيَكُمْ صِرَاطًا مُّسْتَقِيْمًا، اصل ہدایت صراط مستقیم کی تو ان حضرات کو پہلے سے حاصل تھی مگر جیسا کہ پہلے لکھا گیا ہے کہ ہدایت کے درجات بیشمار ہیں یہاں وہ درجہ مراد ہے جو پہلے سے حاصل نہ تھا یعنی اللہ پر بھروسہ اور قوت ایمان کی زیادتی۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَعَدَكُمُ اللہُ مَغَانِمَ كَثِيْرَۃً تَاْخُذُوْنَہَا فَعَجَّلَ لَكُمْ ہٰذِہٖ وَكَفَّ اَيْدِيَ النَّاسِ عَنْكُمْ۝ ٠ ۚ وَلِتَكُوْنَ اٰيَۃً لِّــلْمُؤْمِنِيْنَ وَيَہْدِيَكُمْ صِرَاطًا مُّسْتَقِيْمًا۝ ٢٠ ۙ وعد الوَعْدُ يكون في الخیر والشّرّ. يقال وَعَدْتُهُ بنفع وضرّ وَعْداً ومَوْعِداً ومِيعَاداً ، والوَعِيدُ في الشّرّ خاصّة . يقال منه : أَوْعَدْتُهُ ، ويقال : وَاعَدْتُهُ وتَوَاعَدْنَا . قال اللہ عزّ وجلّ : إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم/ 22] ، أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص/ 61] ، ( وع د ) الوعد ( وعدہ کرنا ) کا لفظ خیر وشر یعنی اچھے اور برے ( وعدہ دونوں پر بولا جاتا ہے اور اس معنی میں استعمال ہوتا ہے مگر الوعید کا لفظ خاص کر شر ( یعنی دھمکی اور تہدید ) کے لئے بولا جاتا ہے ۔ اور اس معنی میں باب اوعد ( توقد استعمال ہوتا ہے ۔ اور واعدتہ مفاعلۃ ) وتوا عدنا ( تفاعل ) کے معنی باہم عہدو پیمان کر نا کے ہیں ( قرآن کریم میں ودع کا لفظ خيٰر و شر دونوں کے لئے استعمال ہوا ہے ( چناچہ وعدہ خیر کے متعلق فرمایا إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم/ 22] جو ودعے خدا نے تم سے کیا تھا وہ تو سچا تھا ۔ أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص/ 61] بھلا جس شخص سے ہم نے نیک وعدہ کیا ۔ عجل العَجَلَةُ : طلب الشیء وتحرّيه قبل أوانه، وهو من مقتضی الشّهوة، فلذلک صارت مذمومة في عامّة القرآن حتی قيل : «العَجَلَةُ من الشّيطان» «2» . قال تعالی: سَأُرِيكُمْ آياتِي فَلا تَسْتَعْجِلُونِ [ الأنبیاء/ 37] ، ( ع ج ل ) العجلۃ کسی چیز کو اس کے وقت سے پہلے ہی حاصل کرنے کی کوشش کرنا اس کا تعلق چونکہ خواہش نفسانی سے ہوتا ہے اس لئے عام طور پر قرآن میں اس کی مذمت کی گئی ہے حتی کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا العجلۃ من الشیطان ( کہ جلد بازی شیطان سے ہے قرآن میں ہے : سَأُرِيكُمْ آياتِي فَلا تَسْتَعْجِلُونِ [ الأنبیاء/ 37] میں تم لوگوں کو عنقریب اپنی نشانیاں دکھاؤ نگا لہذا اس کے لئے جلدی نہ کرو ۔ كف الْكَفُّ : كَفُّ الإنسان، وهي ما بها يقبض ويبسط، وكَفَفْتُهُ : أصبت كَفَّهُ ، وكَفَفْتُهُ : أصبته بالکفّ ودفعته بها . وتعورف الکفّ بالدّفع علی أيّ وجه کان، بالکفّ کان أو غيرها حتی قيل : رجل مَكْفُوفٌ لمن قبض بصره، وقوله تعالی: وَما أَرْسَلْناكَ إِلَّا كَافَّةً لِلنَّاسِ [ سبأ/ 28] أي : كافّا لهم عن المعاصي، والهاء فيه للمبالغة کقولهم : راوية، وعلّامة، ونسّابة، وقوله : وَقاتِلُوا الْمُشْرِكِينَ كَافَّةً كَما يُقاتِلُونَكُمْ كَافَّةً [ التوبة/ 36] قيل : معناه : كَافِّينَ لهم كما يقاتلونکم کافّين «2» ، وقیل : معناه جماعة كما يقاتلونکم جماعة، وذلک أن الجماعة يقال لهم الکافّة، كما يقال لهم الوازعة لقوّتهم باجتماعهم، وعلی هذا قوله : يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً [ البقرة/ 208] ، وقوله : فَأَصْبَحَ يُقَلِّبُ كَفَّيْهِ عَلى ما أَنْفَقَ فِيها[ الكهف/ 42] فإشارة إلى حال النادم وما يتعاطاه في حال ندمه . وتَكَفَّفَ الرّجل : إذا مدّ يده سائلا، واسْتَكَفَّ : إذا مدّ كفّه سائلا أو دافعا، واسْتَكَفَّ الشمس : دفعها بكفّه، وهو أن يضع کفّه علی حاجبه مستظلّا من الشمس ليرى ما يطلبه، وكِفَّةُ المیزان تشبيه بالکفّ في كفّها ما يوزن بها، وکذا كِفَّةُ الحبالة، وكَفَّفْتُ الثوب : إذا خطت نواحيه بعد الخیاطة الأولی. ( ک ف ف ) الکف کے معنی ہاتھ کی ہتھیلی کے ہیں جس کے ساتھ انسان چیزوں کو اکٹھا کرتا اور پھیلا تا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَأَصْبَحَ يُقَلِّبُ كَفَّيْهِ عَلى ما أَنْفَقَ فِيها[ الكهف/ 42] تو جو مالی اس نے اس پر خرچ کیا تھا اس پر حسرت سے ہاتھ ملنے لگا ۔ الکف کے معنی ہاتھ کی ہتھلی کے ہیں جس کے ساتھ انسان چیزوں کو اکٹھا کرتا اور پھیلا تا ہے ۔ کففتہ کے اصل معنی کسی کی ہتھیلیپر مارنے یا کسی کو ہتھلی کے ساتھ مار کر دو ر ہٹا نے اور روکنے کے ہیں پھر عرف میں دور ہٹانے اور روکنے کے معنی میں استعمال ہونے لگانے خواہ ہتھلی سے ہو یا کسی اور چیز سے رجل مکفو ف البصر جس کی مینائی جاتی رہی ہو ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَما أَرْسَلْناكَ إِلَّا كَافَّةً لِلنَّاسِ [ سبأ/ 28] اور ( اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) ہم نے تم کو گناہوں سے روکنے والا بنا کر بھیجا ہے ۔ میں کافۃ کے معنی لوگوں کو گناہوں سے روکنے والا کے ہیں ۔ اس میں ہا مبالغہ کے لئے ہے ۔ جیسا کہ روایۃ وعلامۃ اور نشابۃ میں ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَقاتِلُوا الْمُشْرِكِينَ كَافَّةً كَما يُقاتِلُونَكُمْ كَافَّةً [ التوبة/ 36] اور تم سب کے سب مشرکون سے لڑو جیسے وہسب کے سب تم سے لڑتے ہیں میں بعض نے دونوں جگہوں میں کا فۃ کے معنیکا فین یعنی روکنے والے کیے ہیں ۔ اور بعض نے یہ معنی کیا ہے ۔ کہ جماعۃ یعنی اجتماعی قوت کی وجہ سے اسے کافۃ بھی کہا جاتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً [ البقرة/ 208] مومنوں اسلام میں پورے پورے داخل ہوجاؤ میں بھی کافۃ بمعنی جماعت ہی ہے اور آیت کریمہ : ۔ فَأَصْبَحَ يُقَلِّبُ كَفَّيْهِ عَلى ما أَنْفَقَ فِيها[ الكهف/ 42] تو جو مالی اس نے اس پر خرچ کیا تھا اس پر حسرت سے ہاتھ ملنے لگا ۔ پشمان ہونے والے کی حالت کی طرف اشارہ ہے ۔ کیونکہ انسان پشمانی کی حالت میں ہاتھ ملتا ہے ۔ تکفف الرجل سوال کے لئے ہاتھ پھیلانا استکف سوال یا مدافعت کیلئے ہاتھ پھیلانا استکف الشمس ہتھلی کے ذریعہ دھوپ کو دفع کرتا اور وہ اس طرح کہ دھوپ کی شعا عوں کو روکنے کے لئے ابرؤں پر بطور سایہ ہاتھ رکھ لے تاکہ جس چیز کو دیکھنا مطلوب ہو آسانی سے دیکھی جا سکے ۔ کفۃ المیزان ترازو کا پلڑا ۔ کیونکہ وہ بھی موزوں چیز کو روک لینے میں ہتھیلی کے مشابہ ہوتا ہے ۔ ایسے ہی کفۃ الحبالۃ ہے جس کے معنی شکاری کے پھندا کے ہیں ۔ کففت التوب ۔ کچی سلائی کے بعد کپڑے کے اطراف کو سینا ۔ يد الْيَدُ : الجارحة، أصله : وقوله : فَرَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْواهِهِمْ [إبراهيم/ 9] ، ( ی د ی ) الید کے اصل معنی تو ہاتھ کے ہیں یہ اصل میں یدی ( ناقص یائی ) ہے کیونکہ اس کی جمع اید ویدی اور تثنیہ یدیان اور آیت کریمہ : ۔ فَرَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْواهِهِمْ [إبراهيم/ 9] تو انہوں نے اپنے ہاتھ ان کے مونہوں پر رکھ دئے ۔ نوس النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب، قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس/ 1] ( ن و س ) الناس ۔ بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس/ 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔ الآية والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع . الایۃ ۔ اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔ هدى الهداية دلالة بلطف، وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه : الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل، والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه/ 50] . الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء، وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا [ الأنبیاء/ 73] . الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی، وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن/ 11] الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43]. ( ھ د ی ) الھدایتہ کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه/ 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء/ 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ ( 3 ) سوم بمعنی توفیق خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔ ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43] میں فرمایا ۔ صرط الصِّرَاطُ : الطّريقُ المستقیمُ. قال تعالی: وَأَنَّ هذا صِراطِي مُسْتَقِيماً [ الأنعام/ 153] ، ويقال له : سِرَاطٌ ، وقد تقدّم . سرط السِّرَاطُ : الطّريق المستسهل، أصله من : سَرَطْتُ الطعامَ وزردته : ابتلعته، فقیل : سِرَاطٌ ، تصوّرا أنه يبتلعه سالکه، أو يبتلع سالکه، ألا تری أنه قيل : قتل أرضا عالمها، وقتلت أرض جاهلها، وعلی النّظرین قال أبو تمام : 231- رعته الفیافي بعد ما کان حقبة ... رعاها وماء المزن ينهلّ ساكبه «2» وکذا سمّي الطریق اللّقم، والملتقم، اعتبارا بأنّ سالکه يلتقمه . ( ص ر ط ) الصراط ۔ سیدھی راہ ۔ قرآن میں ہے : وَأَنَّ هذا صِراطِي مُسْتَقِيماً [ الأنعام/ 153] اور یہ کہ میرا سیدھا راستہ یہی ہے ۔ اسے سراط ( بسین مھملہ ) پڑھا جاتا ہے ملاحظہ ہو ( س ر ط) السراط کے معنی آسان راستہ ، کے آتے ہیں اور اصل میں سرطت الطعام وزاردتہ سے مشتق ہے جس کے معنی طعام کو نگل جانے کے ہیں ۔ اور راستہ کو صراط اس لئے کہاجاتا ہے کہ وہ راہر کو گویا نگل لیتا ہے یار ہرد اس کو نگلتا ہوا چلایا جاتا ہے ۔ مثل مشہور ہے ۔ قتل ارضا عالھا وقتلت ارض جاھلھا کہ واقف کار رہر و توزمین کو مار ڈالتا ہے لیکن ناواقف کو زمین ہلاک کردیتی ہے ۔ ابو تمام نے کہا ہے ۔ رعتہ الفیما فی بعد ماکان حقبۃ رعاھا اذا ماالمزن ینھل ساکبہ اس کے بعد کو اس نے ایک زمانہ دراز تک سرسبز جنگلوں میں گھاس کھائی اب اس کو جنگلات نے کھالیا یعنی دبلا کردیا ۔ اسی طرح راستہ کو لقم اور ملتقم بھی کہا جاتا ہے اس لحاظ سے کہ گویا ر ہرو اس کو لقمہ بنالیتا ہے۔ الاسْتِقَامَةُ يقال في الطریق الذي يكون علی خطّ مستو، وبه شبّه طریق المحقّ. نحو : اهْدِنَا الصِّراطَ الْمُسْتَقِيمَ [ الفاتحة/ 6] واسْتِقَامَةُ الإنسان : لزومه المنهج المستقیم . نحو قوله :إِنَّ الَّذِينَ قالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقامُوا[ فصلت/ 30] الاستقامۃ ( استفعال ) کے معنی راستہ خط مستقیم کی طرح سیدھا ہونے کے ہیں اور تشبیہ کے طور پر راہ حق کو بھی صراط مستقیم کہا گیا ہے چناچہ فرمایا : ۔ اهْدِنَا الصِّراطَ الْمُسْتَقِيمَ [ الفاتحة/ 6] ہم کو سيدھے راستے پر چلا ۔ اور کسی انسان کی استقامت کے معنی سیدھی راہ پر چلنے اور اس پر ثابت قدم رہنے کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنَّ الَّذِينَ قالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقامُوا[ فصلت/ 30] جس لوگوں نے کہا کہ ہمارا پروردگار خدا پے پھر وہ اس پر قائم رہے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

مکہ بزور شمشیر فتح ہوا تھا نہ کہ صلح کے نتیجے میں قول باری ہے (وھو الذی کف ایدیھم عنکم وایدیکم عنھم ببطن مکۃ من بعد ان اظفر کم علیھم۔ وہ (اللہ) وہی تو ہے جس نے ان کے ہاتھ تم سے اور تمہارے ہاتھ ان سے بطن مکہ میں روک دیے بعد اس کے کہ تم کو ان پر قابو دے دیا تھا) تا آخر آیت۔ حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ آیت کا نزول صلح حدیبیہ کے سلسلے میں ہوا تھا۔ واقعہ اس طرح ہے کہ مشرکین نے چالیس آدمیوں کا ایک دستہ مسلمانوں پر حملہ کرنے کے لئے بھیجا تھا، یہ لوگ پکڑے گئے اور انہیں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے قیدیوں کی صورت میں پیش کردیا گیا۔ آپ نے انہیں رہا کرنے کا حکم دیا۔ ایک روایت کے مطابق آیت کا نزول فتح مکہ کے سلسلہ میں ہوا تھا جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس میں فاتح کی حیثیت سے داخل ہوئے تھے۔ اگر فتح مکہ کے سلسلے میں آیت کا نزول تسلیم کرلیا جائے تو پھر اس امر پر اس کی دلالت واضح ہے کہ مکہ بزور شمشیر فتح ہوا تھا۔ کیونکہ قول باری ہے (من بعد ان اظفر علیھم) اگر فتح مکہ صلح کی بنیاد پر ہوتا تو اس میں مشرکین پر مسلمانوں کے قابو پانے کا کوئی پہلو نہ ہوتا۔ یہ بات اس امر کی مقتضی ہے کہ مکہ بزور شمشیر فتح ہوا تھا۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور اللہ تعالیٰ نے تم سے بہت سی غنیمتوں کا وعدہ کر رکھا ہے جو ابھی تک حاصل نہیں ہوئیں عنقریب تمہارے ہاتھ آئیں گی جیسا کہ فارس وغیرہ کی غنیمتیں ان میں سردست تمہیں خیبر کی غنیمت دے دی اور خلفاء اہل خیبر یعنی اسد و غطفان کے تم سے قتال کرنے سے ہاتھ روک دیے۔ اور تاکہ یہ فتح خیبر کا واقعہ اہل ایمان کے لیے ایک نمونہ ہوجائے کیونکہ مسلمان آٹھ ہزار تھے اور خیبر والے ستر ہزار اور تاکہ تمہیں ایک پسندیدہ دین پر ثابت قدمی عطا فرمائے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٠ { وَعَدَکُمُ اللّٰہُ مَغَانِمَ کَثِیْرَۃً تَاْخُذُوْنَہَا فَعَجَّلَ لَکُمْ ہٰذِہٖ } ” (اے مسلمانو ! ) اللہ تم سے وعدہ کرتا ہے بہت سے اموالِ غنیمت کا جنہیں تم حاصل کرو گے ‘ پس یہ (فتح) تو اس نے تمہیں فوری طور پر عطاکر دی ہے “ اس سے مراد صلح حدیبیہ ہے ‘ جس کا ذکر سورت کے آغاز میں بایں الفاظ ہوا : { اِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُّبِیْنًا } ” یقینا ہم نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایک بڑی روشن فتح عطا فرمائی ہے۔ “ { وَکَفَّ اَیْدِیَ النَّاسِ عَنْکُمْ } ” اور اس نے روک لیا لوگوں کے ہاتھوں کو تم سے۔ “ ظاہر ہے اگر جنگ ہوتی اور قریش بھی اپنی طاقت کا مظاہرہ کرتے تو کچھ نہ کچھ نقصان مسلمانوں کا بھی ضرور ہوتا۔ { وَلِتَـکُوْنَ اٰیَۃً لِّلْمُؤْمِنِیْنَ وَیَہْدِیَکُمْ صِرَاطًا مُّسْتَقِیْمًا } ” تاکہ یہ اہل ِایمان کے لیے ایک نشانی بن جائے اور وہ تمہاری راہنمائی فرمائے سیدھے راستے کی طرف۔ “ تاکہ اس کے بعد اقامت دین کے لیے تمہاری اجتماعی جدوجہد کامیابی کے مراحل جلد از جلد طے کرے اور اللہ تعالیٰ اسے تیر کی طرح سیدھا اس کے آخری ہدف اور منزل مقصود تک پہنچا دے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

35 This refers to the other victories that the Muslim achieved successively after Khaiber. 36 This implies the treaty of Hudaibiyah which has been described as "a manifest victory" in the beginning of the Surah. 37 That is, "He restrained the disbelieving Quraish from attacking you at Hudaibiyah although from all appearances they were in a much better position and yours was a much weaker side militarily." Furthermore, it also implies that no enemy power could muster courage to attack Madinah in those days, whereas after the departure of 1,400 soldiers the Madinah front had become very weak, and the Jews, the polytheists and hypocrites could take advantage of the situation. 38 Sign of this as to how Allah helps the one who remains steadfast on obedience to Allah and His Messenger and comes out to support and defend the Truth and righteousness with his trust and faith in Allah. 39 "To the right way" : "To the way of greater insight and faith so that you may remain steadfast on obedience to Allah and His Messenger in the future and may go on marching on the way of truth with trust in AIlah, and may learn this lesson from these experiences that the believer should take practical steps to do whatever is demanded by Allahs Religion with his trust in Him, and should not overestimate either his own strength or the strength of the unbelievers."

سورة الْفَتْح حاشیہ نمبر :35 اس سے مراد وہ دوسری فتوحات ہیں جو خیبر کے بعد مسلمانوں کو مسلسل حاصل ہوتی چلی گئیں ۔ سورة الْفَتْح حاشیہ نمبر :36 اس سے مراد ہے صلح حدیبیہ جس کو سورۃ کے آغاز میں فتح مبین قرار دیا گیا ہے ۔ سورة الْفَتْح حاشیہ نمبر :37 یعنی کفار قریش کو یہ ہمت اس نے نہ دی کہ وہ حدیبیہ کے مقام پر تم سے لڑ جاتے ، حالانکہ تمام ظاہری حالات کے لحاظ سے وہ بہت زیادہ بہتر پوزیشن میں تھے ، اور جنگی نقطہ نظر سے تمہارا پلہ ان کے مقابلہ میں بہت کمزور نظر آتا تھا ۔ مزید براں اس سے مراد یہ بھی ہے کہ کسی دشمن طاقت کو اس زمانے میں مدینے پر بھی حملہ آور ہونے کی جرأت نہ ہوئی ، حالانکہ چودہ سو مردان جنگی کے نکل جانے کے بعد مدینے کا محاذ بہت کمزور ہو گیا تھا اور یہود و مشرکین اور منافقین اس موقع سے فائدہ اٹھا سکتے تھے ۔ سورة الْفَتْح حاشیہ نمبر :38 نشانی اس بات کی کہ جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت میں ثابت قدم رہتا ہے اور اللہ کے بھروسے پر حق اور راستی کی حمایت کے لیے اٹھ کھڑا ہوتا ہے اسے اللہ کس کس طرح اپنی تائید و نصرت سے نوازتا ہے ۔ سورة الْفَتْح حاشیہ نمبر :39 یعنی تمہیں مزید بصیرت اور یقین حاصل ہو ، اور آئندہ تم اسی طرح اللہ اور رسول کی اطاعت پر قائم رہو اور اللہ کے اعتماد پر راہ حق میں پیش قدمی کرتے چلے جاؤ ، اور یہ تجربات تمہیں یہ سبق سکھا دیں کہ خدا کا دین جس اقدام کا تقاضا کر رہا ہو ، مومن کا کام یہ ہے کہ خدا کے بھروسے پر وہ اقدام کر ڈالے ، اس حیص بیص میں لگ جائے کہ میری طاقت کتنی ہے اور باطل کی طاقتوں کا زور کتنا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

17: اس سے مراد وہ فتوحات ہیں جو خیبر کے علاوہ حاصل ہونے والی تھیں۔ 18: یعنی خیبر کے یہودی اور ان کے حلیف اس فتح میں جو رکاوٹ ڈال سکتے تھے، اللہ تعالیٰ نے اسے روک دیا۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٢٠۔ ٢٦۔ اوپر ذکر تھا کہ جن لوگوں نے بیعت رضوان خالص دل سے کی ہے اللہ ان سے خوش ہے اور اس نیک نیتی کے کام پر اللہ تعالیٰ نے ان کو خیبر کی فتح انعام کے طور پر عنایت کی اور یہ حکم دیا کہ اس فتح کی غنیمت کے مال میں سوائے ان بیعت والے لوگوں کے اور کسی دوسرے کا حصہ نہیں ان آیتوں میں فرمایا جن فتوحات اور غنیمت کے بہت سے مال کا وعدہ اللہ نے کیا ہے اس وعدہ میں سے فتح خیبر اور وہاں کے غنیمت کا مال ایک فوری انعام ہے اس کے بعد رفتہ رفتہ اور فتوحات کی امید اللہ تعالیٰ سے رکھنی چاہئے اللہ سچا ہے اللہ کا وعدہ سچا ہے اس کے بعد اللہ کے رسول اور خلفا کے زمانہ میں بہت سی فتوحات ہوئیں جن کا ذکر حدیث اور تاریخ کی کتابوں میں تفصیل سے ہے جس وقت مسلمانوں کا لشکر خیبر کی چڑھائی پر تھا اس وقت میں اسد اور غطفان قبیلہ کے لوگوں نے یہ ارادہ کیا تھا کہ مسلمانوں کے اہل و عیال پر حملہ کرکے ان کا مال لوٹ لیا جائے مگر اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں ایسا رعب پیدا کردیا جس سے ان کے دلوں میں اس ارادہ کے پورا کرنے کی جرأت باقی نہیں رہی۔ اس کو فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی دست درازی روک دی تاکہ مسلمانوں کو یہ نمونہ ہوجائے کہ دین کی لڑائی پر جو لوگ جاتے ہیں ان کے اہل و عیال کا اللہ نگہبان ہے اسی نمونہ کے دیکھ لینے کے بعد وہ دین کی باتوں پر ثابت قدم ہوجائیں مسلمان جب عمرہ کی نیت سے مکہ گئے اور مشرکین مکہ نے ان کو روکا اور ان کا روکنا چل بھی گیا اس سے مسلمانوں کی نظر میں فتح مکہ ایک دشوار چیز معلوم ہوتی تھی اس واسطے عام فتوحات کے ذکر کے بعد خاص فتح مکہ کا یوں ذکر فرمایا کہ جو فتح تم لوگوں کے بس کی نہیں ہے وہ اللہ کی قدرت سے باہر نہیں ہے پھر فرمایا مسلمانوں کے اس سفر میں اللہ تعالیٰ کے نزدیک صلح مناسب تھی اگر یہ بات اللہ تعالیٰ کے علم غیب میں نہ ٹھہری ہوتی کہ اس سفر میں لڑائی نہ ہوگی اور یہ مشرک لڑائی کا قصد کرتے تو ضرور ایسے بھاگتے کہ ان کا مددگار اور حمایتی کوئی پیدا نہ ہوتا کیونکہ نیکیوں کی جزا اور بدیوں کی سزا ایک دستور الٰہی ہے جو پلٹ نہیں سکتا۔ صحیح مسلم ١ ؎ میں انس بن مالک سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ جب مسلمان لوگ بیعت میں مصروف تھے تو مشرکین مکہ کے میں اسی آدمی مسلمانوں کے لشکر میں گھس آئے اگرچہ ان کا ارادہ حملہ کرنے کا تھا مگر مسلمانوں نے زندہ گرفتار کرلیا اور اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کا قصور معاف کرکے ان کو چھوڑ دیا آخری آیت میں اسی قصہ کا ذکر فرمایا۔ پھر فرمایا اللہ تعالیٰ کے وعدہ کے موافق فتوحات تو ضرور ظہور آئیں گی مگر یاد رکھنا چاہئے کہ نیک و بد سب کے عمل اللہ کی نگاہ میں ہیں فوحات کے خوشحالی کے بعد ایسے کام نہیں کرنے چاہئیں جس سے ناشکری پائی جائے ورنہ پھر یہ فتح مندی باقی نہ رہے گی۔ صحیح ١ ؎ بخاری و مسلم کے حوالہ سے عمرو (رض) بن عوف انصاری کی روایت ایک جگہ گزر چکی ہے جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مجھ کو اپنی امت کی تنگ دستی کے زمانہ کا کچھ خوف نہیں ہے خوف تو اسی زمانہ کا ہے جب پچھلی امتوں کی طرح ان پر دنیا کی بہبودی زیادہ ہوجائے گی جس سے پہلے لوگوں کی طرح ان میں ناشکری کی باتیں پھیل جائیں گی جو ان کی ہلاکت کی نشانی ہے اس حدیث کو آیتوں کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ اگرچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدہ کے موافق فتوحات اور غنیمت کے مال سے امت محمدیہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مالا مال کردیا لیکن اس خوشحالی کے زمانہ میں امت کے لوگوں میں وہی ناشکری کی باتیں پھیل گئیں جن کا اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اندیشہ تھا شروع اس اندیشہ کا حضرت عثمان (رض) کی خلافت سے ہوا ایک ذرا سی بات میں لوگوں نے خلیفہ عثمان (رض) کو شہید کر ڈالا حضرت عثمان (رض) کی شہادت کے قصہ کا حال ٢ ؎ یہ ہے کہ عثمان نے عبداللہ (رض) بن ابی سرح اپنے دودھ کے بھائی کو مصر کا حاکم کردیا تھا عبد اللہ نے مصر کے لوگوں پر جب ظلم کرنا شروع کیا اور مصر کے لوگ عثمان (رض) کے پاس عبد اللہ (رض) کے ظلم کی فریاد کو آئے تو حضرت علی (رض) کے مشورہ سے حضرت عثمان (رض) نے عبد اللہ کو معزول کرکے اس کی جگہ محمد بن عبد الرحمن حضرت ابوبکر صدیق کے پوتے کو مامور کردیا۔ یہ لوگ محمد بن عبد الرحمن کی ماموری کا حکم لے کر جب مصر کو جا رہے تھے اور محمد بن عبد بن عبد الرحمن ان لوگوں کے ساتھ تھے تو انہوں نے حضرت عثمان (رض) کے غلام کو حضرت عثمان (رض) کے اونٹ پر سوار مصر کی طرف گھبرایا ہوا جاتے دیکھا اس غلام کو گھبرایا ہوا دیکھ کر ان لوگوں نے اس سے پوچھا تو کس کام کو مصر جا رہا ہے تو اس نے کہا خلیفہ نے مجھ کو مصر کے حاکم کے پاس بھیجا ہے ان لوگوں نے پوچھا تریے پاس خلیفہ کا کوئی خط ہے تو اس نے انکار کیا اس پر ان لوگوں نے اس کی تلاشی لی تو حضرت عثمان (رض) کا مہری خط عبد اللہ (رض) بن ابی سرح کے نام نکلا جس کا مضمون یہ تھا کہ محمد بن عبد الرحمن اور ان کے ساتھیوں کو کسی حلیہ سے قتل کردیا جائے اور تاحکم ثانی عبد اللہ مصر کا حاکم رہے۔ اس خط کو دیکھ کر یہ لوگ مصر میں نہیں گئے بلکہ مدینہ کو واپس آئے اور اس خط کا حال حضرت عثمان (رض) سے جب بیان کیا گیا تو انہوں نے قسم کھا کر اس خط کے لکھنے سے انکار کیا پھر زیادہ دریافت سے معلوم ہوا کہ یہ حضرت عثمان کے چچا زاد بھائی مروان بن حکم نے لکھا تھا اور حضرت عثمان (رض) کی مہر کسی طرح اس خط پر کرکے حضرت عثمان کے غلام کو ان کے اونٹ پر بٹھا کر اس غلام کے ہاتھ یہ خط عبد اللہ بن سرح کے پاس مصر بھیجا تھا اس دریافت کے بعد مروان کے مخالف لوگ حضرت عثمان سے مروان کو مانگتے تھے اور حضرت عثمان (رض) مروان کو ان لوگوں کے حوالہ میں دینے سے تامل کر رہے تھے کہ اتنے میں نامعلوم دو شخص حضرت عثمان (رض) کے پڑوس کی دیوار پر سے حضرت عثمان (رض) کے گھر میں کو دے اور حضرت عثمان (رض) کو شہید کر ڈالا۔ یہ دونوں شخص غیر راستہ سے اس واسطے گئے کہ حضرت علی (رض) نے حضرت عثمان (رض) کے گھر کے دروازہ پر امام حسن (رض) اور امام حسین (رض) کو کھڑا کردیا تھا اور تاکید کردی تھی کہ حضرت عثمان (رض) کے گھر کے اندر کوئی نہ جائے حضرت علی (رض) کے فرمانے سے حضرت امام حسن (رض) اور امام حسین (رض) ہتھیار لگائے وہاں کھڑے تھے یہ عبد اللہ بن ابی سرح وہی شخص ہے جس کے مار ڈالنے کا حکم فتح مکہ کے وقت اللہ کے رسول نے دیا تھا اور حضرت عثمان (رض) کی سفارش سے اس کی جان بخشی ہوئی ١ ؎ تھی۔ یہ ذکر پہلے ایک جگہ تفصیل سے گزر چکا ہے حدیبیہ کے سفر سے پہلے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ خواب دیکھا کہ آپ مع صحابہ کے امن سے مکہ گئے ہیں اور عمرہ کی باتیں ادا کر رہے ہیں نبوت سے پہلے بھی اللہ کے رسول کے خواب کی تعبیر جلدی ظاہر ہوجایا کرتی تھی چناچہ صحیح ٢ ؎ بخاری کے حوالہ سے حضرت عائشہ کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے کہ جس طرح ہر رات کے بعد صبح ہوتی ہے اسی طرح اللہ کے رسول کے ہر ایک خواب کے بعد تعبیر کا حال تھا حاصل کلام یہ ہے کہ اور خوابوں کی جلدی اور یقینی تعبیروں کی طرح اس خواب کی تعبیر کو خیال کیا اور چودہ سو صحابہ کو ساتھ لے کر اللہ کے رسول نے مکہ کا قصد کیا لیکن اللہ تعالیٰ کے علم غیب میں برس دن کے بعد اس خواب کی تعبیر کا ظہور ہونے والا تھا اس لئے مکہ کے اندر اس سال جانا نہیں ہوا مکہ کے قریب حدیبیہ نام کی ایک بستی ہے وہاں مشرکوں نے اہل اسلام کے اس عمرہ کے قافلہ کو روکا اور بڑے جھگڑے کے بعد اگلے سال عمرہ کرنے اور دس برس تک لڑائی کے موقوف رہنے پر صلح ہوئی اس کا ذکر ان آیتوں میں ہے کہ مشرکین مکہ اپنے آپ کو ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد کہتے ہیں اتنا نہیں جانتے کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے تو اللہ سے یہ دعا کی تھی کہ غیب سے لوگوں کے دلوں میں کعبہ کی زیارت کا شوق پیدا ہوجائے اور یہ نسل ابراہیمی کہلا کر لوگوں کو اس زیارت سے اور قربانی کے جانوروں کو منیٰ کے جانے سے روکتے ہیں۔ پھر فرمایا کہ کچھ چھپے ہوئے مسلمان مرد و عورت مکہ میں نہ ہوتے اور کچھ نئے لوگوں کا رحمت الٰہی سے داخل اسلام ہونا اللہ کے علم غیب میں نہ ٹھہر چکا ہوتا تو بدر کی لڑائی کی طرح اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو ایسی مدد دیتا کہ وہ لڑ کر مکہ تہ وبالا کردیتے لیکن اللہ تعالیٰ کو یہ منظور تھا کہ اس وقت صلح ہو کر صلح کے زمانہ میں کمزور چھپے ہوئے مسلمان مدینہ میں امن سے آن بسیں اور جو نئے مسلمان ہونے والے ہیں وہ مسلمان ہوجائیں اس لئے اگرچہ ان مشرکین مکہ نے صلح کے وقت ضد کی باتیں کیں لیکن اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے دلوں میں تحمل پیدا کردیا جس سے انہوں نے مشرکوں کی ضد کی باتوں کی برداشت کی اور آخر صلح ہوگئی۔ ضد کی باتیں مثلاً صلح نامہ میں بسم اللہ کا اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نام کے ساتھ لفظ رسول کا نہ لکھنے دینا پھر فرمایا مسلمانوں کی بردباری کی باتیں اور مشرکوں کی ضد کی باتیں اللہ کو سب معلوم ہیں جزا و سزا کے وقت ہر ایک کا فیصلہ ہوجائے گا۔ صحیح بخاری ١ ؎ میں مسور بن مخرمہ اور مروان بن حکم سے جو روایتیں ہیں ان میں اس صلح حدیبیہ کی تفصیل زیادہ ہے اور وہی روایتیں ان آیتوں کی گویا تفسیر ہیں جس کا حاصل وہی ہے جو اوپر بیان کیا گیا زہری ٢ ؎ نے کلمۃ التقوی کی تفسیر بسم اللہ الرحمن الرحیم قرار دی حاصل مطلب اس تفسیر کا یہ ہے کہ مسلمانوں نے صلح نامہ کو بسم اللہ الرحمن الرحیم سے شروع کرنا چاہا لیکن مشرکین مکہ ضد سے اس پر رضا منہ نہیں ہوئے۔ (١ ؎ صحیح مسلم باب قول اللہ تعالیٰ وھو الذی کف ایدیہم عنکم الایۃ ص ١١٦ ج ٢۔ ) (١ ؎ صحیح بخاری باب مایحذر من زھرۃ الدنیا۔ الخ ص ٩٥٠ ج ٢۔ ) (٢ ؎ اس قصہ کے بہت سے اجزا تاریخی حقائق کے خلاف ہیں اور تھوڑے سے تامل سے معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ سب باتیں صحابہ کرام کو اور خاص کر حضرت عثمان کو بدنام کرنے کے لئے بنائی گئی ہیں حقیقت سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔ ) (١ ؎ سنن ابو داؤود کتاب الحدود باب الحکم فیمن ارتد ج ٢۔ ) (٢ ؎ صحیح بخاری باب کیف کان بدء الوحی الخ ص ٢ ج ١۔ ) (١ ؎ صحیح بخاری باب غزوۃ الحدیبیۃ ص ٥٩٨ و ٦٠٠ ج ٢۔ ) (٢ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ١٩٤ ج ٤۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(48:20) تاخذونھا : تاخذون مضارع جمع مذکر حاضر اخذ (باب نصر) مصدر ھا ضمیر مفعول واحد مؤنث غائب جو مغانم کی طرف راجع ہے۔ تم ان (غنیمتوں) کو لوگے۔ حاصل کرو گے۔ ان غنیمتوں کا اشارہ ان اموال غنیمت کی طرف اشارہ جو خٰبر کے بعد دوسری فتوحات کے سلسلہ میں مسلمانوں کو حاصل ہوئیں۔ فجعل : ف ترتیب کا ہے عجل ماضی واحد مذکر غائب تعجیل (تفعیل) مصدر اس نے جلدی کی۔ اس نے جلدی دیدی۔ عجلت بمعنی شتابی۔ جلدی۔ ھذا۔ اس سے فتح خیبر مراد ہے (تفسیر مظہری) ۔ اس سے مراد صلح حدیبیہ ہے جس کو سورة کے آغاز میں فتح مبین قرار دیا گیا ہے (تفہیم القرآن) ۔ ھذہ ای مغانم خیبر۔ (روح المعانی) ۔ ھذہ کا مشار الیہ صلح حدیبیہ ہے۔ قالہ ابن عباس۔ عجل لکم صلح الحدیبیۃ۔ (ضیاء القرآن) فجعل لکم ھذہ۔ پس اس نے سردست تم کو بہ دے دی۔ (صلح حدیبیہ یا فتح خیبر اور اس کے اموال غنیمت) وکف ایدی الناس عنکم : واؤ عاطفہ، کیف ۔۔ عن۔ ماضی واحد مذکر غائب۔ کف (باب نصر) مصدر۔ عن کے صلہ کے ساتھ کف عن (کسی کام سے) باز رکھنا۔ کم ضمیر مفعول جمع مذکر حاضر۔ ایدی الناس مضاف مضاف الیہ مل کر مفعول اول کف کا۔ اور لوگوں کے ہاتھوں کو باز رکھا تم سے۔ یعنی مخالفین کو تم پر حملہ آور ہونے سے روکا۔ اس میں مختلف اقوال ہیں :۔ (1) اہل خیبر اور ان کے حلیف بنی اسد۔ عظفان وغیرہ جب وہ اہل خیبر کی مدد کو آئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں رعب (خوف) ڈال دیا۔ اور وہ پلٹ گئے۔ (2) مجاہد کا قول ہے کہ صلح حدیبیہ کی وجہ سے اہل مکہ کو کوئی معاندانہ اقدام کرنے سے روک دیا۔ (3) الطبری کا قول ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مدینہ سے حدیبیہ یا خیبر کی طرف خروج سے اگرچہ مسلمانوں کی پوزیشن مدینہ میں ظاہرا کمزور تھی لیکن یہودی مسلمانوں کے خلاف کوئی قدم نہ اٹھاسکے (روح المعانی) (4) جمہور کے نزدیک اس سے مراد یہ ہے کہ قریش مکہ باوجود مسلمانوں کی جنگی حالت تشویشناک حد تک کمزور ہونے کے ان پر حملہ آور ہونے یا ان کو لڑائی میں الجھانے سے باز رہے۔ ولتکون ایۃ للمؤمنین : واؤ عاطفہ، اس جملہ کا عطف محذوف پر ہے جو الکف کی علت ہے ای فعل ما فعل من التعجیل والکف لتکون نافعۃ لہم وایۃ لہم۔ بعض کے نزدیک واؤ زائدہ ہے۔ لام تعلیل کا ہے تکون مضارع واحد مؤنث غائب۔ کون (باب نصر) مصدر ضمیر فاعل برائے التعجیل والکف ہے۔ ایۃ نشانی۔ (خدا کی) قدرت کا نمونہ۔ ترجمہ :۔ اور اس تعجیل و الکف کی غرض یہ تھی کہ یہ مومنوں کے لئے (خدا کی) قدرت کا نمونہ بن جائے۔ ویھدیکم صراط مستقیما : اس جملہ کا عطف جملہ سابقہ پر ہے۔ صراط مستقیما۔ موصوف و صفت مل کر مفعول یھدی کا۔ اور تاکہ وہ تم کو سیدھے راستہ پر چلائے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 اس سیم راد وہ دوسری فتوحات ہیں جو خیبر کے بعد مسلمانوں کو پے در پے حاصل ہوتی رہیں۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ یعنی سب کے دل میں رعب پیدا کردیا کہ ان کو زیادہ دراز دستی کی ہمت نہ ہوئی، اور اس سے تمہارا نفع دنیوی بھی مقصود تھا تاکہ آرام ہو۔ 3۔ مراد اس سے سڑک سے توکل و وثوق باللہ ہے یعنی ہمیشہ کے لئے اس کو سوچ کر اللہ پر اعتماد سے کام لیا کرو۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام (رض) کو اپنی رضا مندی کی خوشخبری دیتے ہوئے یہ بھی بتلا دیا کہ عنقریب تمہیں بہت سی غنیمتیں عطا کی جائیں گی۔ بیعت رضوان جن حالات میں ہوئی۔ کوئی آدمی یہ سوچ نہیں سکتا تھا کہ اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ اس قدر کامیابیاں عطا فرمائے گا۔ صحابہ کرام (رض) کو اس موقعہ پر چار انعامات سے سرفراز کیا گیا۔ اب ارشاد ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ تمہیں ہر صورت کثیر مال غنیمت عطا کرے گا۔ اسی نے اپنے فضل سے حدیبیہ کے مقام پر مکہ والوں کے ہاتھوں کو تمہاری طرف بڑھنے سے روک لیا تاکہ مومنوں کو اللہ کی قدرت کا نمونہ دکھایا جائے اور ان کی صحیح راستے کی طرف راہنمائی کی جائے۔ اللہ تعالیٰ تمہیں مزید نعمتیں عطا فرمائے گا جو اللہ تعالیٰ کے احاطہ اختیار میں ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔ یہ اس کی قدرت کا کرشمہ ہے کہ اہل مکہ تمہارے ساتھ لڑنے کی کوشش کرتے تو وہ پیٹھ پھیر کر بھاگ جاتے اور پھر وہ کسی کو اپنا مددگار اور خیرخواہ نہ پاتے۔ صحیح راستے سے مراد یہ بھی ہے کہ صلح حدیبیہ کی شرائط تمہیں نہ پسند ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ نے تمہاری راہنمائی فرمائی کہ تم بالآخر اس معاہدہ پر مطمئن ہوگئے۔ اس سے پہلی آیت میں کثیر غنیمت کی خو شخبری دیتے ہوئے فرمایا تھا کہ تم اس کو حاصل کرنے والے ہو لیکن یہاں ” قَدْ اَحَاط اللّٰہُ “ کے الفاظ میں اشارہ کیا ہے کہ اللہ نے تمہارے لیے ایسی غنیمتیں بھی سنبھال رکھی ہیں جن پر تمہاری دسترس نہیں ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا قانون اور طریقہ ہے جو پہلے لوگوں سے چلا آتا ہے۔ آپ اللہ کے قانون اور طریقے میں تبدیلی نہیں پائیں گے۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر صحابہ کرام (رض) مدینہ سے تقریباً ساڑھے تین سو کلومیٹر دور ہونے کے ساتھ اسلحہ سے بھی خالی ہاتھ تھے سوائے چند تلواروں کے جو عرب کے لوگ روایتی طور پر سفر میں اپنے ساتھ رکھتے تھے۔ وطن سے دور اور اسلحہ سے خالی ہاتھ ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ نے کفار پر صحابہ کا اس قدر رعب ڈال دیا کہ کفار نہ صرف معاہدہ کرنے پر مجبور ہوئے بلکہ وہ اس قدر خوفزدہ تھے کہ انہوں نے اپنی طرف سے معاہدے کی پیشکش کی کہ آئندہ سال جب مسلمان عمرہ کے لیے مکہ آئیں گے تو ہم تین دن کے لیے مکہ خالی کردیں گے تاکہ کسی قسم کے تصادم کا خطرہ باقی نہ رہے۔ اس صورت حال کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کا ملہ سے تمہارا کفار پر رعب ڈال دیا۔ اگر وہ تمہارے ساتھ جنگ کرنے کی کوشش کرتے تو یقیناً پیٹھ پھیر کر بھاگ جاتے اور اس صورت میں ان کی کوئی مدد اور خیرخواہی کرنے والا نہ ہوتا کیونکہ عرب کے قبائل بدر، احد اور خندق کے معرکوں میں جان چکے تھے کہ تینوں غزوات میں مسلمانوں کا پلڑا بھاری رہا ہے۔ اس لیے فرمایا ہے کہ مکہ والے اپنے لیے کوئی مددگار اور خیرخواہ نہ پاتے۔ یہی اللہ تعالیٰ کا ضابطہ اور طریقہ ہے کہ جب وہ کسی قوم کو سزا دینے پر آتا ہے تو پھر کوئی زندہ یا مردہ اس کی مدد کرنے والا نہیں ہوتا اور یہی کچھ اہل مکہ کے ساتھ ہوا کہ جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دو سال بعد مکہ والوں کی عہد شکنی کی وجہ سے مکہ کا محاصرہ کیا تو کسی ایک قبیلہ نے بھی اہل مکہ کی حمایت نہ کی۔ مکہ فتح ہونے کے چند ہفتے بعد حنین فتح ہوا۔ غزوہ حنین میں مال غنیمت : چھ (٦٠٠٠) ہزار قیدی، چوبیس (٢٤٠٠٠) ہزار اونٹ، چالیس (٤٠٠٠٠) ہزار سے زائد بکریاں، چار (٤٠٠٠) ہزار اوقیہ چاندی ( یعنی ایک لاکھ ساٹھ ہزار درہم) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سب کو جمع کرنے کا حکم دیا پھر جعرانہ کے مقام پر مسعود بن عمرو غفاری (رض) کی نگرانی میں دے دیا۔ جب غزوۂ طائف سے فارغ ہوئے تو اسے تقسیم فرمایا۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے حدیبہ کے مقام پر بیعت کرنے والوں کے ساتھ کثیر مال غنیمت عطا کرنے کا وعدہ کیا اور اسے پورا فرمایا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے مکہ والوں کے ہاتھ روک لیے تھے جس وجہ سے وہ صلح حدیبیہ کرنے پر مجبور ہوگئے۔ ٣۔ صلح حدیبیہ کے وقت اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو صحیح راستے پر قائم رکھا جس وجہ سے وہ حدیبیہ پر مطمئن ہوگئے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ کا ضابطہ اور طریقہ کبھی تبدیل نہیں ہوتا۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کا طریقہ اور قانون یہ ہے کہ جب وہ کسی قوم کی پکڑ کرتا ہے تو پھر اس کی مدد کرنے والا کوئی نہیں ہوتا : ١۔ اللہ کا عذاب برحق ہے اور تم اللہ تعالیٰ کو عاجز نہیں کرسکتے۔ (یونس : ٥٣) ٢۔ اس دن وہ پیٹھ پھیر کر بھاگیں گے لیکن اللہ کی پکڑ سے انہیں کوئی بچانے والا نہیں ہوگا۔ (المومن : ٣٣) ٣۔ اگر اللہ کسی کو تکلیف دے تو کون ہے جو اسے اس سے بچا سکے۔ (الاحزاب : ١٧) ٤۔ جسے اللہ رسوا کرے اسے کوئی عزت نہیں دے سکتا۔ (الحج : ١٨) ٥۔ حضرت نوح نے اپنے بیٹے کو فرمایا کہ آج کے دن اللہ کے عذاب سے کوئی نہیں بچ سکتا۔ (ھود : ٤٣) ٦۔ جب اللہ کسی قوم پر مصیبت نازل کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو اس کے ہٹنے کی کوئی صورت نہیں ہوتی اور نہ کوئی بچانے والا ہوتا ہے۔ (الرعد : ١١) ٧۔ اللہ کا عذاب بڑا سخت ہے اور انہیں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے کوئی بچانے والا نہیں۔ (الرعد : ٣٤) ٨۔ اللہ نے ان کو ان کے گناہوں کی وجہ سے پکڑلیا اور انہیں بچانے والا کوئی نہیں تھا۔ ( المومن : ٢١) ٩۔ اللہ کے عذاب سے کوئی نہیں بچ سکتا مگر جس پر اللہ رحم فرمائے۔ (ہود : ٤٣)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یہ ایک صریح خوشخبری ہے اللہ کی طرف سے ، اس کو مومنین نے سنا ، اس پر انہوں نے خوب یقین کیا اور انہوں نے جان لیا کہ ان کے لئے بہت کچھ تیار کرلیا گیا ہے اور اس کے بعد وہ زندہ رہے اور ان آیات کا مصداق بچشم سر دیکھتے رہے۔ کیونکہ یہ اللہ کا وعدہ تھا اور اللہ کے وعدے کی کوئی خلاف ورزی نہیں ہوتی ۔ یہاں اللہ فرماتا ہے کہ فوری طور پر تو یہ فتح تمہیں عطا کردی ۔ اس سے مراد صلح حدیبیہ ہو سکتی ہے ، جیسا کہ حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ حدیبیہ ہی فتح اور غنیمت تھی اور جیسا کہ پہلے ہم نے بیان کیا صلح حدیبیہ درحقیقت فتح تھی اور جن حالات میں یہ فتح ہوئی ، انہوں نے بھی اس کو مسلمانوں ہی کی فتح بنایا اور اس سے مراد فتح خیبر بھی ہو سکتی ہے جیسا کہ مجاہد سے مروی ہے کیونکہ حدیبیہ کے بعد یہ قریب ترین مال غنیمت تھا جو مسلمانوں کو ملا۔ زیادہ راجح بات یہ ہے کہ خود صلح حدیبیہ کو فتح کہا گیا ہے۔ اللہ نے بتایا کہ تم پر اللہ کا یہ بہت ہی بڑا احسان ہے کہ اس نے لوگوں کو روک دیا کہ وہ تم پر ہاتھ ڈالیں۔ ان میں مشرکین مکہ تھی تھے اور دوسرے لوگ بھی تھے جو بروقت اس انتظار میں تھے کہ مسلمان کسی چکر میں پھنس جائیں اور ہم بھی حملہ کردیں۔ اس وقت بہرحال مسلمان قلیل تعداد میں تھے۔ اور دوسرے لوگ بہت زیادہ تھے لیکن انہوں نے اپنی بیعت کو پورا کردیا اور اپنی ذمہ داریوں کو ادا کیا۔ اس لیے اللہ نے ان سے لوگوں کے ہاتھ روکے اور انہیں امن میں رکھا۔ ولتکون ایۃ للمومنین (٤٨ : ٢٠) “ اور تاکہ یہ مومنوں کے لئے ایک نشانی بن جائے ”۔ یہ واقعہ جسے آغاز میں انہوں نے بہت ہی ناپسند کیا تھا اور ان کے دلوں پر وہ بھاری پتھر کی طرح تھا ، اللہ بتاتا ہے کہ یہ ان کے لئے ایک معجزہ ہوگا۔ آنے والے دنوں میں وہ اس کے نتائج دیکھیں گے اور ان لوگوں نے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کی اور سر تسلیم خم کیا ، ناپسند کرتے ہوئے بھی ، تو اس کی انہیں جزاء ملے گی وہ جان لیں گے کہ یہ تو بہت یہ عظیم واقعہ تھا۔ اور جو جزاء ملے گی وہ بہت ہی بڑی ہوگی اور ان کے دلوں میں سکون ، اطمینان اور یقین انڈیل دیا جائے گا۔ ویھدیکم صراطا مستقیما (٤٨ : ٢٠) “ اور اللہ سیدھے راستے کی طرف تمہیں ہدایت بخشے گا ”۔ تمہاری اطاعت ، تمہاری فرمانبرداری اور تمہارے صدق نیت کی وجہ سے۔ یوں اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے جامع انعام کا اعلان کردیا۔ انہیں مال غنیمت بھی ملے گا اور انہیں ہدایت بھی نصیب ہوگی۔ لہٰذا ہر طرف سے ان کے لئے خیر ہی خیر ہوگی۔ اور یہ بھلائی اور خیر اس معاملے میں ہوگی جسے وہ پسند ہی نہ کرتے تھے۔ اور ایک بھاری پتھر سمجھتے تھے۔ یوں ان کو پیشگی اطلاع دی جاتی ہے کہ اللہ نے ان کے لئے جو پسند کیا ہے وہی اصل پسند ہے۔ اس طرح ان کو تربیت دی جاتی ہے کہ ہر حال میں اطاعت اور حکم کی بجا آوری کرو۔ ان انعامات و مفادات کے علاوہ کچھ دوسرے مفادات کا بھی یہاں اعلان کیا جاتا ہے اور یہ مفادات وہ اپنے قوت بازو سے حاصل نہ کرسکے تھے لیکن اللہ نے اپنی قدرت اور تدبیر سے وہ چیزیں انہیں عطا کردیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

18:۔ ” وعدکم اللہ “ یہاں مغانم کثیرۃ سے وہ تمام اموال غنیمت مراد ہیں جو قیامت تک مسلمانوں کو حاصل ہوتے رہیں گے۔ ھی علی ما قال ابن عباس و مجاھد و جمہور المفسرین ما وعد اللہ تعالیٰ المومنین من الغنائم الی یوم القیامۃ (روح ج 26 ص 109) ۔ اور ھذہ سے غنائم خیبر کی طرف اشارہ ہے۔ ایدی الناس، ناس سے اہل خیبر اور ان کے حلفاء بنی اسد و غطفان مراد ہیں۔ اہل خیبر کے دلوں میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کا ایسا رعب ڈال دیا کہ انہیں مقابلے کی ہمت نہ ہوئی اور جب ان کے حلفاء بنی اسد و غطفان ان کی مدد کے لیے آئے تو وہ بھی مرعوب اور خوفزدہ ہو کر واپس چلے گئے (خازن، مدارک) ۔ یا اس سے اہل مکہ کے اسی آدمیوں کی وہ جماعت مراد ہے جو حدیبیہ کے دن ہتھیاروں سے لیس ہو کر مسلمانوں پر حملہ آور ہوئی۔ مسلمانوں نے ان کو پکڑ لیا اور آپ نے انہیں معافی دے کر چھوڑ دیا (روح) ۔ ” ولتکون “ کا معطوف علیہ محذوف ہے ای لتنتفعوا ولتکون (روح) ۔ ” واخری “ یہ ھذہ پر معطوف ہے اور اس کا موصوف مقدر ہے ای مغانم اخری (مدارک، روح) ۔ غنائم خیبر جو بہت جلد تمہارے ہاتھ میں آنے والی ہیں ان کے علاوہ کچھ اور غنائم ہیں جن پر تاحال تم قابض نہیں ہو سکے لیکن وہ اللہ کے احاطہ اختیار وقدرت میں ہیں اور وہ ان پر بھی تمہیں قابض فرمائیگا۔ اس سے وہ فتوحات مراد ہیں جو خیبر کے بعد ہوئیں مثلا حنین وغیرہ (قرطبی، روح) ۔ ہم نے پروانہ خشونشودی عطا کرنے کے علاوہ تمہیں دنیوی نعمتوں سے بھی مالا مال کرنے کا فیصلہ فرمایا ہے چناچہ تمہیں بہت سے اموال غنیمت ملنے کا وعدہ دیا ہے جن میں سے یہ غنائم خیبر تو بہت جلدی تمہیں مل جائیں گے اور اہل خیبر اور ان کے حلفاء کے ہاتھ تم سے روک دئیے جائیں گے اور وہ تم سے لڑنے کی جرات نہیں کرسکیں گے تاکہ تم ان غنائم سے فائدہ اٹھاؤ اور ایمان والوں کیلئے یہ صدق پیغمبر (علیہ السلام) کی دلیل ہو اور تاکہ تمہیں صراط مستقیم پر ثابت قدم رکھے۔ اور کچھ اور غنائم ہیں جن پر تم ابھی تک قابض نہیں ہوسکے وہ اللہ کے احاطہ قدرت میں ہیں ان پر بھی وہ تمہیں قابض فرمائیگا، کیونکہ وہ ہر چیز پر قادر ہے اور کوئی چیز اس کی قدرت سے باہر نہیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(20) اور اللہ تعالیٰ تم سے بہت سی غنیمتوں کا وعدہ فرماچکا ہے جن کو تم حاصل کرو گے پس اس نے جلدی عطا کی یہ تم کو یعنی فی الحال اور سردست یہ خیبر کی غنیمت تم کو عطا کی اور لوگوں کے ہاتھوں کو تم سے روک دیا یہ اس لئے کیا کہ علاوہ اور مقاصد کے یہ واقعہ مسلمانوں کے لئے قدرت کا ایک نمونہ ہوجائے نیز اس لئے کہ اللہ تعالیٰ تم کو سیدھی راہ چلائے۔