Surat ul Fatah

Surah: 48

Verse: 25

سورة الفتح

ہُمُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَ صَدُّوۡکُمۡ عَنِ الۡمَسۡجِدِ الۡحَرَامِ وَ الۡہَدۡیَ مَعۡکُوۡفًا اَنۡ یَّبۡلُغَ مَحِلَّہٗ ؕ وَ لَوۡ لَا رِجَالٌ مُّؤۡمِنُوۡنَ وَ نِسَآءٌ مُّؤۡمِنٰتٌ لَّمۡ تَعۡلَمُوۡہُمۡ اَنۡ تَطَئُوۡہُمۡ فَتُصِیۡبَکُمۡ مِّنۡہُمۡ مَّعَرَّۃٌۢ بِغَیۡرِ عِلۡمٍ ۚ لِیُدۡخِلَ اللّٰہُ فِیۡ رَحۡمَتِہٖ مَنۡ یَّشَآءُ ۚ لَوۡ تَزَیَّلُوۡا لَعَذَّبۡنَا الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنۡہُمۡ عَذَابًا اَلِیۡمًا ﴿۲۵﴾

They are the ones who disbelieved and obstructed you from al-Masjid al-Haram while the offering was prevented from reaching its place of sacrifice. And if not for believing men and believing women whom you did not know - that you might trample them and there would befall you because of them dishonor without [your] knowledge - [you would have been permitted to enter Makkah]. [This was so] that Allah might admit to His mercy whom He willed. If they had been apart [from them], We would have punished those who disbelieved among them with painful punishment

یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے کفر کیا اور تم کو مسجد حرام سے روکا اور قربانی کے لئے موقوف جانور کو اس کی قربان گاہ میں پہنچنے سے ( روکا ) اور اگر ایسے ( بہت سے ) مسلمان مرد اور ( بہت سی ) مسلمان عورتیں نہ ہوتیں جن کی تم کو خبر نہ تھی یعنی ان کے پس جانے کا احتمال نہ ہوتا جس پر ان کی وجہ سے تم کو بھی بے خبری میں ضرر پہنچتا ( تو تمہیں لڑنے کی اجازت دے دی جاتی لیکن ایسا نہیں کیا گیا ) تاکہ اللہ تعالٰی اپنی رحمت میں جس کو چاہے داخل کرے اور اگر یہ الگ الگ ہوتے تو ان میں جو کافر تھے ہم ان کو دردناک سزا دیتے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Some of the Benefits gained from the Treaty at Al-Hudaybiyyah Allah the Exalted states that the Arab idolators from Quraysh and their allies who extended help to them against His Messenger, هُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا ... They are those who disbelieved, i.e. they are indeed the disbelievers, ... وَصَدُّوكُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ... and hindered you from Al-Masjid Al-Haram, i.e. `even though you are its people and more worthy of being responsible for it,' ... وَالْهَدْيَ مَعْكُوفًا أَن يَبْلُغَ مَحِلَّهُ ... and detained the sacrificial animals, from reaching their place of sacrifice. i.e. they prevented, because of transgression and stubbornness, the sacrificial animals from being reached to the place where they would be slaughtered. There were seventy sacrificial camels designated for sacrifice, as we will mention, Allah willing. Allah the Exalted and Most Honored said, ... وَلَوْلاَ رِجَالٌ مُّوْمِنُونَ وَنِسَاء مُّوْمِنَاتٌ ... Had there not been believing men and believing women, i.e. `living among the Makkans hiding their faith for fearing for their safety from the pagans. Otherwise, We would have given you authority over the Makkans and you would have killed them to the brink of extermination. However, there were some faithful believers, men and women, living among them, about whom you had no knowledge of being believers and you might try to kill them.' Allah's statement, ... لَّمْ تَعْلَمُوهُمْ أَن تَطَوُوهُمْ فَتُصِيبَكُم مِّنْهُم مَّعَرَّةٌ ... whom you did not know, that you may kill them and on whose account a sin would have been committed by you, (an evil and erroneous act), ... بِغَيْرِ عِلْمٍ لِيُدْخِلَ اللَّهُ فِي رَحْمَتِهِ مَن يَشَاء ... without (your) knowledge, that Allah might bring into His mercy whom He wills, that Allah might delay the punishment of the pagans of Makkah to save the believers who lived among them, and so that many of the idolators might embrace Islam. Allah the Exalted and Most Honored said, ... لَوْ تَزَيَّلُوا ... if they had been apart, i.e. if the disbelievers and the believers who were living among them had been apart, ... لَعَذَّبْنَا الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْهُمْ عَذَابًا أَلِيمًا We verily, would have punished with painful torment those of them who disbelieved. `We would have given you dominance over the disbelievers and you would have inflicted tremendous slaughter on them.' Allah the Exalted and Most Honored said,

مسجد حرام بیت اللہ کے اصل حقدار مشرکین عرب جو قریش تھے اور جو ان کے ساتھ اس عہد پر تھے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کریں گے ان کی نسبت قرآن خبر دیتا ہے کہ دراصل یہ لوگ کفر پر ہیں انہوں نے ہی تمہیں مسجد حرام بیت اللہ شریف سے روکا ہے حالانکہ اصلی حقدار اور زیادہ لائق بیت اللہ کے تم ہی لوگ تھے پھر ان کی سرکشی اور مخالفت نے انہیں یہاں تک اندھا کر دیا کہ اللہ کی راہ کی قربانیوں کو بھی قربان گاہ تک نہ جانے دیا یہ قربانیاں تعداد میں ستر تھیں جیسے کہ عنقریب ان کا بیان آرہا ہے انشاء اللہ تعالیٰ پھر فرماتا ہے کہ سردست تمہیں لڑائی کی اجازت نہ دینے میں یہ راز پوشیدہ تھے کہ ابھی چند کمزور مسلمان مکے میں ایسے ہیں جو ان ظالموں کی وجہ سے نہ اپنے ایمان کو ظاہر کر سکے ہیں نہ ہجرت کر کے تم میں مل سکے ہیں اور نہ تم انہیں جانتے ہو تو یوں دفعۃً اگر تمہیں اجازت دے دی جاتی اور تم اہل مکہ پر چھاپہ مارتے تو وہ سچے پکے مسلمان بھی تمہارے ہاتھوں شہید ہو جاتے اور بےعلمی میں تم ہی مستحق گناہ اور مستحق دیت بن جاتے ، پاس ان کفار کی سزا کو اللہ نے کچھ اور پیچھے ہٹا دیا تاکہ ان کمزور مسلمانوں کو چھٹکارا مل جائے اور بھی جن کی قسمت میں ایمان ہے وہ ایمان لے آئیں ۔ اگر یہ مومن ان میں نہ ہوتے تو یقینا ہم تمہیں ان کفار پر ابھی اسی وقت غلبہ دے دیتے اور ان کا نام مٹا دیتے حضرت جنید بن سبیع فرماتے ہیں صبح کو میں کافروں کے ساتھ مل کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے لڑ رہا تھا لیکن اسی شام کو اللہ تعالیٰ نے میرا دل پھیر دیا میں مسلمان ہو گیا اور اب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہو کر کفار سے لڑ رہا تھا ، ہمارے ہی بارے میں یہ آیت ( لو لا رجال ) الخ ، نازل ہوئی ہے ہم کل نو شخص تھے سات مرد و عورتیں ( طبرانی ) اور روایت میں ہے کہ ہم تین مرد تھے اور نو عورتیں تھیں حضرت ابن عباس فرماتے ہیں اگر یہ مومن ان کافروں میں ملے جلے نہ ہوتے تو اللہ تعالیٰ اسی وقت مسلمانوں کے ہاتھوں ان کافروں کو سخت سزا دیتا یہ قتل کر دئیے جاتے ۔ پھر فرماتا ہے جبکہ یہ کافر اپنے دلوں میں غیرت و حمیت جاہلیت کو جما چکے تھے صلح نامہ میں آیت ( بسم اللہ الرحمن الرحیم ) لکھنے سے انکار کر دیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کے ساتھ لفظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لکھوانے سے انکار کیا ، پس اللہ تعالیٰ نے اس وقت اپنے نبی اور مومنوں کے دل کھول دئیے ان پر اپنی سکینت نازل فرما کر انہیں مضبوط کر دیا اور تقوے کے کلمے پر انہیں جما دیا یعنی آیت ( لا الہ الا اللہ ) پر جیسے ابن عباس کا فرمان ہے اور جیسے کہ مسند احمد کی مرفوع حدیث میں موجود ہے ۔ ابن ابی حاتم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے جہاد کرتا رہوں جب تک کہ وہ آیت ( لا الہ الا اللہ ) نہ کہہ لیں جس نے آیت ( لا الہ الا اللہ کہہ لیا اس نے مجھ سے اپنے مال کو اور اپنی جان کو بچا لیا مگر حق اسلام کی وجہ سے اس کا حساب اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی کتاب میں نازل فرمایا ایک قوم کی مذمت بیان کرتے ہوئے فرمایا آیت ( اِنَّهُمْ كَانُوْٓا اِذَا قِيْلَ لَهُمْ لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ ۙ يَسْتَكْبِرُوْنَ 35؀ۙ ) 37- الصافات:35 ) یعنی ان سے کہا جاتا تھا کہ سوائے اللہ کے کوئی عبادت کے لائق نہیں تو یہ تکبر کرتے تھے اور اللہ تعالیٰ جل ثناء نے یہاں مسلمانوں کی تعریف بیان کرتے ہوئے یہ بھی فرمایا کہ یہی اس کے زیادہ حقدار اور یہی اس کے قابل بھی تھے ۔ یہ کلمہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ہے انہوں نے اس سے تکبر کیا اور مشرکین قریش نے اسی سے حدیبیہ والے دن تکبر کیا پھر بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے ایک مدت معینہ تک کے لئے صلح نامہ مکمل کر لیا ، ابن جریر میں بھی یہ حدیث ان ہی زیادتیوں کے ساتھ مروی ہے لیکن بہ ظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ پچھلے جملے راوی کے اپنے ہیں یعنی حضرت زہری کا قول ہے جو اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ گویا حدیث میں ہی ہے مجاہد فرماتے ہیں اس سے مراد وہ اخلاص ہے عطا فرماتے ہیں وہ کلمہ یہ ہے حدیث ( لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ الملک ولہ الحمد وھو علی کل شی قدیر ) حضرت فرماتے ہیں اس سے مراد حدیث ( لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ ) ہے حضرت علی فرماتے ہیں اس سے حدیث ( لا الہ الا اللہ واللہ اکبر ) مراد ہے یہی قول حضرت ابن عمر کا حضرت ابن عباس فرماتے ہیں اس سے مراد اللہ کی وحدانیت کی شہادت ہے جو تمام تقوے کی جڑ ہے ۔ حضرت سعید بن جبیر فرماتے ہیں اس سے مراد حدیث ( لا الہ الا اللہ ) بھی ہے اور جہاد فی سبیل اللہ بھی ہے ۔ حضرت عطا خراسانی فرماتے ہیں کلمہ تقویٰ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ہے حضرت زہری فرماتے ہیں آیت ( بسم اللہ الرحمن الرحیم ) مراد ہے حضرت قتادہ فرماتے ہیں مراد حدیث ( لا الہ الا اللہ ) ہے پھر فرماتا ہے اللہ تعالیٰ ہر چیز کو بخوبی جاننے والا ہے اسے معلوم ہے کہ مستحق خیر کون ہے ؟ اور مستحق شر کون ہے ؟ حضرت ابی بن کعب کی قرأت اسی طرح ہے ( اذ جعل الذین کفروا فی قلوبھم الحمیتہ حمیتہ الجاھلیتہ ولو حمیتم کما حموا الفسد المسجد الحرام ) یعنی کافروں نے جس وقت اپنے دل میں جاہلانہ ضد پیدا کر لی اگر اس وقت تم بھی ان کی طرح ضد پر آجاتے تو نتیجہ یہ ہوتا کہ مسجد حرام میں فساد برپا ہو جاتا جب حضرت عمر کو اس قرأت کی خبر پہنچی تو بہت تیز ہوئے لیکن حضرت ابی نے فرمایا یہ تو آپ کو بھی معلوم ہو گا کہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتا جاتا رہتا تھا اور جو کچھ اللہ تعالیٰ آپ کو سکھاتا تھا آپ اس میں سے مجھے بھی سکھاتے تھے اس پر جناب عمر فاروق نے فرمایا آپ ذی علم اور قرآن دان ہیں آپ کو جو کچھ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھایا ہے وہ پڑھئے اور سکھائیے ( نسائی ) ان احادیث کا بیان جن میں حدیبیہ کا قصہ اور صلح کا واقعہ ہے مسند احمد میں حضرت مسور بن محزمہ اور حضرت مروان بن حکم فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زیارت بیت اللہ کے ارادے سے چلے آپ کا ارادہ جنگ کا نہ تھا ستر اونٹ قربانی کے آپ کے ساتھ تھے کل ساتھی آپ کے سات سو تھے ایک ایک اونٹ دس دس آدمیوں کی طرف سے تھا آپ جب عسفان پہنچے تو بشر بن سفیان کعبی نے آپ کو خبر دی کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قریشیوں نے آپ کے آنے کی خبر پا کر مقابلہ کی تیاریاں کر لی ہیں انہوں نے اونٹوں کے چھوٹے چھوٹے بچے بھی اپنے ساتھ لے لئے ہیں اور چیتے کی کھالیں پہن لی ہیں اور عہد و پیمان کر لئے ہیں کہ وہ آپ کو اس طرح جبراً مکہ میں نہیں آنے دیں گے خالد بن ولید کو انہوں نے چھوٹا سا لشکر دے کر کراع غمیم تک پہنچا دیا یہ سن کر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا افسوس قریشیوں کو لڑائیوں نے کھا لیا کتنی اچھی بات تھی کہ وہ مجھے اور لوگوں کو چھوڑ دیتے اگر وہ مجھ پر غالب آجاتے تو ان کا مقصود پورا ہو جاتا اور اگر اللہ تعالیٰ مجھے اور لوگوں پر غالب کر دیتا تو پھر یہ لوگ بھی دین اسلام کو قبول کر لیتے اور اگر اس وقت بھی اس دین میں نہ آنا چاہتے تو مجھ سے لڑتے اور اس وقت ان کی طاقت بھی پوری ہوتی قریشیوں نے کیا سمجھ رکھا ہے ؟ قسم اللہ اس دین پر میں ان سے جہاد کرتا رہوں گا اور ان سے مقابلہ کرتا رہوں گا یہاں تک کہ یا تو اللہ مجھے ان پر کھلم کھلا غلبہ عطا فرما دے یا میری گردن کٹ جائے پھر آپ نے اپنے لشکر کو حکم دیا کہ دائیں طرف حمص کے پیچھے سے اس راستہ پر چلیں جو ( ثنیۃ المرار ) کو جاتا ہے اور حدیبیہ مکہ کے نیچے کے حصے میں ہے ۔ خالد والے لشکر نے جب دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے راستہ بدل دیا ہے تو یہ دوڑے ہوئے قریشیوں کے پاس گئے اور انہیں اس کی خبر دی ، ادھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب ( ثنیۃ المرار ) میں پہنچے تو آپ کی اونٹنی بیٹھ گئی ۔ لوگ کہنے لگے اونٹنی تھک گئی ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہ یہ تھکی نہ اس کی بیٹھ جانے کی عادت اسے اس اللہ نے روک لیا ہے جس نے مکہ سے ہاتھیوں کو روک لیا تھا ۔ سنو قریش آج مجھ سے جو چیز مانگیں گے جس میں صلہ رحمی ہو میں انہیں دوں گا پھر آپ نے لشکریوں کو حکم دیا کہ وہ پڑاؤ کریں انہوں نے کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس پوری وادی میں پانی نہیں آپ نے ترکش میں سے ایک تیر نکال کر ایک صحابی کو دیا اور فرمایا اسے یہاں کے کسی کنویں میں گاڑ دو اس کے گاڑتے ہی پانی جوش مارتا ہوا ابل پڑا تمام لشکر نے پانی لے لیا اور وہ برابر بڑھتا چلا جا رہا تھا جب پڑاؤ ہو گیا اور وہ اطمینان سے بیٹھ گئے اتنے میں بدیل بن ورقہ اپنے ساتھ قبیلہ خزاعہ کے چند لوگوں کو لے کر آیا آپ نے اس سے بھی وہی فرمایا جو بشر بن سفیان سے فرمایا تھا چنانچہ یہ لوٹ گیا اور جا کر قریش سے کہا کہ تم لوگوں کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بڑی عجلت کی حضور صلی اللہ علیہ وسلم تم سے لڑنے کو نہیں آئے آپ تو صرف بیت اللہ کی زیارت کرنے اور اس کی عزت کرنے کو آئے ہیں تم اپنے فیصلے پر دوبارہ نظر ڈالو دراصل قبیلہ خزاعہ کے مسلم و کافر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طرفدار تھے مکہ کی خبریں انہی لوگوں سے آپ کو پہنچا کرتی تھی قریشیوں نے انہیں جواب دیا کہ گو آپ اسی ارادے سے آئے ہوں لیکن یوں اچانک تو ہم انہیں یہاں نہیں آنے دیں گے ورنہ لوگوں میں تو یہی باتیں ہوں گی کہ آپ مکہ گئے اور کوئی آپ کو روک نہ سکا انہوں نے پھر مکرز بن حفص کو بھیجا یہ بنو عامر بن لوئی کے قبیلے میں سے تھا اسے دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ عہد شکن شخص ہے اور اس سے بھی آپ نے وہی فرمایا جو اس سے پہلے آنے والے دونوں اور شخصوں سے فرمایا تھا یہ بھی لوٹ گیا اور جا کر قریشیوں سے سارا واقعہ بیان کر دیا قریشیوں نے پھر حلیس بن علقمہ کنانی کو بھیجا یہ ادھر ادھر کے مختلف لوگوں کا سردار تھا اسے دیکھ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ اس قوم سے ہے جو اللہ کے کاموں کی عظمت کرتی ہے اپنی قربانی کے جانوروں کو کھڑا کر دو ۔ اس نے جو دیکھا کہ ہر طرف سے قربانی کے نشان دار جانور آ جا رہے ہیں اور رک جانے کی وجہ سے ان کے بال اڑے ہوئے ہیں یہ تو وہیں سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے بغیر لوٹ گیا اور جا کر قریش سے کہا کہ اللہ جانتا ہے تمہیں حلال نہیں کہ تم انہیں بیت اللہ سے روکو اللہ کے نام کے جانور قربان گاہ سے رکے کھڑے ہیں یہ سخت ظلم ہے ۔ اتنے دن رکے رہنے سے ان کے بال تک اڑ گئے ہیں میں اپنی آنکھوں سے دیکھ کر آرہا ہوں قریش نے کہا تو تو نرا اعرابی ہے خاموش ہو کر بیٹھ جا اب انہوں نے مشورہ کر کے عروہ بن مسعود ثقفی کو بھیجا عروہ نے اپنے جانے سے پہلے کہا کہ اے قریشیو جن جن کو تم نے وہاں بھیجا وہ جب واپس ہوئے تو ان سے تم نے کیا سلوک کیا یہ میں دیکھ رہا ہوں تم نے انہیں برا کہا ان کی بےعزتی کی ان پر تہمت رکھی ان سے بد گمانی کی میری حالت تمہیں معلوم ہے کہ میں تمہیں مثل باپ کے سمجھتا ہوں تم خوب جانتے ہو کہ جب تم نے ہائے وائے کی میں نے اپنی تمام قوم کو اکٹھا کیا اور جس نے میری بات مانی میں نے اسے اپنے ساتھ لیا اور تمہاری مدد کے لئے اپنی جان مال اور اپنی قوم کو لے کر آپہنچا سب نے کہا بیشک آپ سچے ہیں ہمیں آپ سے کسی قسم کی بد گمانی نہیں آپ جائیے ۔ اب یہ چلا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچ کر آپ کے سامنے بیٹھ کر کہنے لگا کہ آپ نے ادھر ادھر کے کچھ لوگوں کو جمع کر لیا ہے اور آئے ہیں اپنی قوم کی شان و شوکت کو آپ ہی توڑنے کے لئے ۔ سنئے یہ قریشی ہیں آج یہ مصمم ارادہ کر چکے ہیں اور چھوٹے چھوٹے بچے بھی ان کے ساتھ ہیں جو چیتوں کی کھالیں پہنے ہوئے ہیں وہ اللہ کو بیچ میں رکھ کر عہد و پیمان کر چکے ہیں کہ ہرگز ہرگز آپ کو اس طرح اچانک زبردستی مکہ میں نہیں آنے دیں گے اللہ کی قسم مجھے تو ایسا نظر آتا ہے کہ یہ لوگ جو اس وقت بھیڑ لگائے آپ کے اردگرد کھڑے ہوئے ہیں یہ لڑائی کے وقت ڈھونڈنے سے بھی نہ ملیں گے ، یہ سن کر ابو بکر صدیق سے رہا نہ گیا آپ اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے آپ نے کہاجالات کی وہ چوستا رہ ، ہم اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوں؟ عروہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا یہ کون ہے ؟ آپ نے فرمایا ابو قحافہ کے بیٹے تو کہنے لگا اگر مجھ پر تیرا احسان پہلے کا نہ ہوتا تو میں تجھے ضرور مزہ چکھاتا اس کے بعد عروہ نے پھر کچھ کہنے کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ڈاڑھی میں ہاتھ ڈالا اس کی اس بے ادبی کو حضرت مغیرہ بن شعبہ برداشت نہ کر سکے یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہی کھڑے تھے لوہا ان کے ہاتھ میں تھا وہی اس کے ہاتھ پر مار کر فرمایا اپنا ہاتھ دور رکھ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم کو چھو نہیں سکتا ۔ یہ کہنے لگا تو بڑا ہی بدزبان اور ٹیڑھا آدمی ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تبسم فرمایا اس نے پوچھا یہ کون ہے ؟ آپ نے فرمایا یہ تیرا بھتیجا مغیرہ بن شعبہ ہے ؟ تو کہنے لگا غدار تو تو کل طہارت بھی نہ جانتا تھا ۔ الغرض اسے بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے وہی جواب دیا جو اس سے پہلے والوں کو فرمایا تھا اور یقین دلا دیا کہ ہم لڑنے نہیں آئے ۔ یہ واپس چلا اور اس نے یہاں کا یہ نقشہ دیکھا تھا کہ اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پروانے بنے ہوئے ہیں آپ کے وضو کا پانی وہ اپنے ہاتھوں ہاتھ لیتے ہیں آپ کے تھوک کو اپنے ہاتھوں میں لینے کے لئے وہ ایک دوسرے پر سبقت کرتے ہیں آپ کا کوئی بال گر پڑے تو ہر شخص لپکتا ہے کہ وہ اسے لے لے ، جب یہ قریشیوں کے پاس پہنچا تو کہنے لگا اے قریش کی جماعت کے لوگو!میں کسریٰ کے ہاں اس کے دربار میں ہو آیا ہوں اللہ کی قسم میں نے ان بادشاہوں کی بھی وہ عظمت اور وہ احترام نہیں دیکھا جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے آپ کے اصحاب تو آپ کی وہ عزت کرتے ہیں کہ اس سے زیادہ ناممکن ہے اب تم سوچ سمجھ لو اور اس بات کو باور کر لو کہ اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم ایسے نہیں کہ اپنے نبی کو تمہارے ہاتھوں میں دے دیں ، اب آپ نے حضرت عمر کو بلایا اور انہیں مکہ والوں کے پاس بھیجنا چاہا لیکن اس سے پہلے یہ واقعہ ہو چکا تھا کہ آپ نے ایک مرتبہ حضرت خراش بن امیہ خزاعی کو اپنے اونٹ پر جس کا نام ثعلب تھا سوار کرا کر مکہ مکرمہ بھیجا تھا قریش نے اس اونٹ کی کوچیں کاٹ دیں تھیں اور خود قاصد کو بھی قتل کر ڈالتے لیکن احابیش قوم نے انہیں بچا لیا ( شاید اسی بنا پر ) حضرت عمر نے جواب میں کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے تو ڈر ہے کہ کہیں یہ لوگ مجھے قتل نہ کر دیں کیونکہ وہاں میرے قبیلہ بنو عدی کا کوئی شخص نہیں جو مجھے ان قریشیوں سے بچانے کی کوشش کرے اس لئے کیا یہ اچھا نہ ہو گا کہ آپ حضرت عثمان بن عفان کو بلا کر انہیں مکہ میں بھیجیں کہ جا کر قریش سے کہہ دیں کہ ہم لڑنے کے لئے نہیں آئے بلکہ صرف بیت اللہ شریف کی زیارت اور اس کی عظمت بڑھانے کو آئے ہیں ، حضرت عثمان نے شہر میں قدم رکھا ہی تھا جو ابان بن سعید بن عاص آپ کو مل گئے اور اپنی سواری سے اتر کو حضرت عثمان کو آگے بٹھایا اور خود پیچھے بیٹھا اور اپنی ذمہ داری پر آپ کو لے چلا کہ آپ پیغام رسول صلی اللہ علیہ وسلم اہل مکہ کو پہنچا دیں چنانچہ آپ وہاں گئے اور قریش کو یہ پیغام پہنچا دیا ، انہوں نے کہا کہ آپ تو آہی گئے ہیں آپ اگر چاہیں تو بیت اللہ کا طواف کرلیں لیکن ذوالنورین نے جواب دیا کہ جب تک حضور صلی اللہ علیہ وسلم طواف نہ کرلیں ناممکن ہے کہ میں طواف کروں قریشیوں نے جناب عثمان کو روک لیا اور انہیں واپس نہ جانے دیا ادھر لشکر اسلام میں یہ خبر پہنچی کہ حضرت عثمان کو شہید کر دیا گیا ہے ، زہری کی روایت میں ہے کہ پھر قریشیوں نے سہیل بن عمرو کو آپ کے پاس بھیجا کہ تم جا کر صلح کر لو لیکن یہ ضروری ہے کہ اس سال آپ مکہ میں نہیں آ سکتے تا کہ عرب ہمیں یہ طعنہ نہ دے سکیں کہ وہ آئے اور تم روک نہ سکے چنانچہ سہیل یہ سفارت لے کر چلا جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دیکھا تو فرمایا معلوم ہوتا ہے کہ قریشیوں کا ارادہ اب صلح کا ہو گیا جو اسے بھیجا ہے اس نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے باتیں شروع کیں اور دیر تک سوال جواب اور بات چیت ہوتی رہی شرائط صلح طے ہوگئے صرف لکھنا باقی رہا ، حضرت عمر دوڑے ہوئے حضرت ابو بکر کے پاس گئے اور فرمانے لگے کیا ہم مسلمان نہیں ہیں ؟ کیا یہ لوگ مشرک نہیں ہیں ؟ آپ نے جواب دیا کہ ہاں تو کہا پھر کیا وجہ ہے کہ ہم دینی معاملات میں اتنی کمزوری دکھائیں ، حضرت ابو بکر صدیق نے فرمایا عمر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رکاب تھامے رہو آپ اللہ کے سچے رسول ہیں حضرت عمر نے فرمایا یہ مجھے بھی کامل یقین ہے کہ آپ اللہ کے سچے رسول ہیں ، حضرت عمر سے پھر بھی نہ صبر ہو سکا خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر اسی طرح کہا آپ نے جواب میں فرمایا سنو میں اللہ کا رسول ہوں اور اس کا غلام ہوں میں اس کے فرمان کے خلاف نہیں کر سکتا اور مجھے یقین ہے کہ وہ مجھے ضائع نہ کرے گا ، حضرت عمر فرماتے ہیں کہنے کو تو اس وقت جوش میں میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سب کچھ کہہ گیا لیکن پھر مجھے بڑی ندامت ہوئی میں نے اس کے بدلے بہت روزے رکھے بہت سی نمازیں پڑھیں اور بہت سے غلام آزاد کئے اس سے ڈر کر کہ مجھے اس گستاخی کی کوئی سزا اللہ کی طرف سے نہ ہو ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی کو صلح نامہ لکھنے کے لئے بلوایا اور فرمایا لکھو آیت ( بسم اللہ الرحمن الرحیم ) اس پر سہیل نے کہا میں اسے نہیں جانتا یوں لکھئے ( بسمک اللھم ) آپ نے فرمایا اچھا یوں ہی لکھو پھر فرمایا لکھو یہ وہ صلح نامہ ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا اس پر سہیل نے کہا اگر میں آپ کو رسول مانتا تو آپ سے لڑتا ہی کیوں ؟ یوں لکھئے کہ یہ وہ صلح نامہ ہے جو محمد بن عبداللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اور سہیل بن عمرو نے کیا اس بات پر کہ دس سال تک ہم میں کوئی لڑائی نہ ہو گی لوگ امن و امان سے رہیں گے ایک دوسرے سے بچے ہوئے رہیں گے اور یہ کہ جو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنے ولی کی اجازت کے بغیر چلا جائے گا آپ اسے واپس لوٹا دیں گے اور جو صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قریشیوں کے پاس چلا جائے گا وہ اسے نہیں لوٹائیں گے ہم میں آپ میں لڑائیاں بند رہیں گی صلح قائم رہے گی کوئی طوق و زنجیر قیدو بند بھی نہ ہو گا اسی میں ایک شرط یہ بھی تھی کہ جو شخص محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جماعت اور آپ کے عہدو پیمان میں آنا چاہے وہ آسکتا ہے اور جو شخص قریش کے عہدوپیمان میں آنا چاہے وہ بھی آسکتا ہے اس پر بنو خزاعہ جلدی سے بول اٹھے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدو پیمان میں آنا اور بنو بکر نے کہا کہ ہم قریشیوں کے ساتھ ان کے ذمہ میں ہیں صلح نامہ میں یہ بھی تھا کہ اس سال آپ واپس لوٹ جائیں مکہ میں نہ آئیں اگلے سال آئیں اس وقت ہم باہر نکل جائیں گے اور آپ نے اپنے اصحاب سمیت آئیں تین دن مکہ میں ٹھہریں ہتھیار اتنے ہی ہوں جتنے ایک سوار کے پاس ہوتے ہیں تلوار میان میں ہو ، ابھی صلح نامہ لکھا جا رہا تھا کہ سہیل کے لڑکے حضرت ابو جندل رضی اللہ عنہ لوہے کی بھاری زنجیروں میں جکڑے ہوئے گرتے پڑتے مکہ سے چھپتے چھپاتے بھاگ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوگئے صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین مدینہ سے نکلتے ہوئے ہی فتح کا یقین کئے ہوئے تھے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خواب دیکھ چکے تھے اس لئے انہیں فتح ہونے میں ذرا سا بھی شک نہ تھا یہاں آکر جو یہ رنگ دیکھا کہ صلح ہو رہی ہے اور بغیر طواف کے بغیر زیارت بیت اللہ کے یہیں سے واپس ہونا پڑے گا بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے نفس پر دباؤ ڈال کر صلح کر رہے ہیں تو اس سے وہ بہت ہی پریشان خاطر تھے بلکہ قریب تھا کہ ہلاک ہو جائیں ۔ یہ سب کچھ تو تھا ہی مزید برآں جب حضرت ابو جندل رضی اللہ عنہ جو مسلمان تھے اور جنہیں مشرکین نے قید کر رکھا تھا اور جن پر طرح طرح کے مظالم توڑ رہے تھے یہ سن کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم آئے ہوئے ہیں کسی نہ کسی طرح موقعہ پا کر بھاگ آتے ہیں اور طوق و زنجیر میں جکڑے ہوئے حاضر حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہوتے ہیں تو سہیل اٹھ کر انہیں طمانچے مارنا شروع کر دیتا ہے اور کہتا ہے اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) میرے آپ کے درمیان تصفیہ ہو چکا ہے یہ اس کے بعد آیا ہے لہذا اس شرط کے مطابق میں اسے واپس لے جاؤں گا آپ جواب دیتے ہیں کہ ہاں ٹھیک ہے سہیل کھڑا ہوتا ہے اور حضرت ابو جندل کے گریبان میں ہاتھ ڈال کر گھسیٹتا ہوا انہیں لے کر چلتا ہے حضرت ابو جندل بلند آواز کہتے ہیں اے مسلمانو مجھے مشرکوں کی طرف لوٹا رہے ہو ؟ ہائے یہ میرا دین مجھ سے چھیننا چاہتے ہیں اس واقعہ نے صحابہ کو اور برا فروختہ کیا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو جندل سے فرمایا ابو جندل صبر کر اور نیک نیت رہ اور طلب ثواب میں رہ نہ صرف تیرے لئے ہی بلکہ تجھ جیسے جتنے کمزور مسلمان ہیں ان سب کے لئے اللہ تعالیٰ راستہ نکالنے والا ہے اور تم سب کو اس درد و غم رنج و الم ظلم و ستم سے چھڑوانے والا ہے ، ہم چونکہ صلح کر چکے ہیں شرطیں طے ہو چکی ہیں اس بنا پر ہم نے انہیں سردست واپس کر دیا ہے ، ہم غدر کرنا ، شرائط کے خلاف کرنا ، عہد شکنی کرنا نہیں چاہتے ۔ حضرت عمر بن خطاب حضرت ابو جندل کے ساتھ ساتھ پہلو بہ پہلو جانے لگے اور کہتے جاتے تھے کہ ابو جندل صبر کرو ان میں رکھا ہی کیا ہے ؟ یہ مشرک لوگ ہیں ان کا خون مثل کتے کے خون کے ہے ۔ حضرت عمر ساتھ ہی ساتھ اپنی تلوار کی موٹھ حضرت ابو جندل کی طرف کرتے جا رہے تھے کہ وہ تلوار کھینچ لیں اور ایک ہی وار میں باپ کے آرپار کر دیں لیکن حضرت ابو جندل کا ہاتھ باپ پر نہ اٹھا ۔ صلح نامہ مکمل ہو گیا فیصلہ پورا ہو گیا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم احرام میں نماز پڑھتے تھے اور جانور حلال ہونے کے لئے مضطرب تھے ۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے فرمایا کہ اٹھو اپنی اپنی قربانیاں کر لو اور سر منڈوا لو لیکن ایک بھی کھڑا نہ ہوا تین مرتبہ ایسا ہی ہوا ۔ آپ لوٹ کر ام سلمہ کے پاس گئے اور فرمانے لگے لوگوں کو یہ کیا ہو گیا ہے ؟ ام المومنین نے جواب دیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت جس قدر صدمے میں یہ ہیں آپ کو بخوبی علم ہے آپ ان سے کچھ نہ کہئے اپنی قربانی کے جانور کے پاس جائیے اور اسے جہاں وہ ہو وہیں قربان کر دیجئے اور خود سر منڈوا لیجئے پھر تو ناممکن ہے کہ اور لوگ بھی یہی نہ کریں آپ نے یہی کیا اب کیا تھا ہر شخص اٹھ کھڑا ہوا قربانی کو قربان کیا اور سر منڈوا لیا اب آپ یہاں سے واپس چلے آدھا راستہ طے کیا ہو گا جو سورۃ الفتح نازل ہوئی ، یہ روایت صحیح بخاری شریف میں بھی ہے اس میں ہے کہ آپ کے سامنے ایک ہزار کئی سو صحابہ تھے ، ذوالحلیفہ پہنچ کر آپ نے قربانی کے اونٹوں کو نشان دار کیا اور عمرے کا احرام باندھا اور اپنے ایک جاسوس کو جو قبیلہ خزاعہ میں سے تھا تجسس کے لئے روانہ کیا ۔ غدیر اشطاط میں آکر اس نے خبر دی کہ قریش نے پورا مجمع تیار کر لیا ہے ادھر ادھر کے مختلف لوگوں کو بھی انہوں نے جمع کر لیا ہے اور ان کا ارادہ لڑائی کا اور آپ کو بیت اللہ سے روکنے کا ہے آپ نے صحابہ سے فرمایا اب بتاؤ کیا ہم ان کے اہل و عیال پر حملہ کر دیں اگر وہ ہمارے پاس آئیں گے تو اللہ تعالیٰ نے ان کی گردن کاٹ دی ہو گی ورنہ ہم انہیں غمگین چھوڑ کر جائیں گے اگر وہ بیٹھ رہیں گے تو اس غم و رنج میں رہیں گے اور اگر انہوں نے نجات پالی تو یہ گردنیں ہوں گی جو اللہ عزوجل نے کاٹ دی ہوں گی ، دیکھو تو بھلا کتنا ظلم ہے کہ ہم نہ کسی سے لڑنے کو آئے نہ کسی اور ارادے سے آئے صرف اللہ کے گھر کی زیارت کے لئے جا رہے ہیں اور وہ ہمیں روک رہے ہیں بتاؤ ان سے ہم کیوں نہ لڑیں ؟ اس پر حضرت ابو بکر صدیق نے فرمایا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ بیت اللہ کی زیارت کو نکلے ہیں آپ چلے چلئے ہمارا ارادہ جدال وقتال کا نہیں لیکن جو ہمیں اللہ کے گھر سے روکے گا ہم اس سے ضرور لڑیں گے خواہ کوئی ہو ، آپ نے فرمایا بس اب اللہ کا نام لو اور چل کھڑے ہو ۔ کچھ اور آگے چل کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خالد بن ولید طلائیہ کا لشکر لے کر آرہا ہے پس تم دائیں طرف کو ہو لو خالد کو اس کی خبر بھی نہ ہوئی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم مع صحابہ کے ان کے کلے پر پہنچ گئے اب خالد دوڑا ہوا قریشیوں میں پہنچا اور انہیں اس سے مطلع کیا اونٹنی کا نام اس روایت میں قصویٰ بیان ہوا ہے اس میں یہ بھی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ فرمایا کہ جو کچھ وہ مجھ سے طلب کریں گے میں دوں گا بشرطیکہ حرمت اللہ کی اہانت نہ ہو پھر جو آپ نے اونٹنی کو للکارا تو وہ فوراً کھڑی ہو گئی بدیل بن ورقاء خزاعی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جا کر قریشیوں کو جب جواب پہنچاتا ہے تو عروہ بن مسعود ثقفی کھڑے ہو کر اپنا تعارف کرا کر جو پہلے بیان ہو چکا یہ بھی کہتا ہے کہ دیکھو اس شخص نے نہایت معقول اور واجبی بات کہی ہے اسے قبول کر لو اور جب یہ خود حاضر حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہو کر آپ کا یہی جواب آپ کے منہ سے سنتا ہے تو آپ سے کہتا ہے کہ سنئے جناب دو ہی باتیں ہیں یا آپ غالب وہ مغلوب یا وہ غالب آپ مغلوب اگر پہلی بات ہی ہوئی تو بھی کیا ہوا آپ ہی کی قوم ہے آپ نے کسی کے بارے میں ایسا سنا ہے کہ جس نے اپنی قوم کا ستیاناس کیا ہو ؟ اور اگر دوسری بات ہو گی تو یہ جتنے آپ کے پاس ہیں میں تو دیکھتا ہوں کہ سارے ہی آپ کو چھوڑ چھاڑ دوڑ جائیں گے ، اس پر حضرت ابو بکر صدیق کا وہ جواب دیا جو پہلے گذر چکا ۔ حضرت مغیرہ والے بیان میں یہ بھی ہے کہ ان کے ہاتھ میں تلوار تھی اور سر پر خود تھا ان کے مارنے پر عروہ نے کہا غدار میں نے تو تیری غداری میں تیرا ساتھ دیا تھا بات یہ ہے کہ پہلے یہ جاہلیت کے زمانہ میں کافروں کے ایک گروہ کے ساتھ تھے موقعہ پا کر انہیں قتل کر ڈالا اور ان کا مال لے کر حاضر حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہوئے آپ نے فرمایا تمہارا اسلام تو میں منظور کرتا ہوں لیکن اس مال سے میرا کوئی تعلق نہیں عروہ نے یہاں یہ منظر بھی بچشم خود دیکھا کہ آپ تھوکتے ہیں تو کوئی نہ کوئی صحابی لپک کر اسے اپنے ہاتھوں میں لے لیتا ہے اور اپنے چہرے اور جسم پر مل لیتا ہے آپ کے ہونٹوں کو جنبش ہوتے ہی فرمانبرداری کے لئے ایک سے ایک آگے بڑھتا ہے جب آپ وضو کرتے ہیں تو آپ کے اعضاء بدن سے گرے ہوئے پانی پر جو قریب ہوتا ہے یوں لپکتا ہے جیسے صحابہ لڑپڑیں ، جب آپ بات کرتے ہیں تو بالکل سناٹا ہو جاتا ہے مجال نہیں جو کہیں سے چوں کی آواز بھی سنائی دے حد تعظیم یہ ہے کہ صحابہ آنکھ بھر کر آپ کے چہرہ منور کی طرف تکتے ہی نہیں بلکہ نیچی نگاہوں سے ہر وقت باادب رہتے ہیں اس نے پھر واپس آن کر یہی حال قریشیوں کو سنایا اور کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جو انصاف و عدل کی بات پیش کر رہے ہیں اسے مان لو بنو کنانہ کے جس شخص کو اس کے بعد قریش نے بھیجا اسے دیکھ کر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ لوگ قربانی کے جانوروں کی بڑی تعظیم کرتے ہیں اس لئے قربانی کے جانوروں کو کھڑا کر دو اور اس کی طرف ہانک دو اس نے جو یہ منظر دیکھا ادھر صحابہ کی زبانی لبیک کی صدائیں سنیں تو کہہ اٹھا کہ ان لوگوں کو بیت اللہ سے روکنا نہایت لغو حرکت ہے اس میں یہ بھی ہے کہ مکرز کو دیکھ کر آپ نے فرمایا یہ ایک تاجر شخص ہے ابھی یہ بیٹھا باتیں کر ہی رہا تھا جو سہیل آگیا اسے دیکھ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ سے فرمایا لو اب کام سہل ہو گیا اس نے جب بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھنے پر اعتراض کیا تو آپ نے فرمایا واللہ میں رسول اللہ ہی ہوں گو تم نہ مانو ، یہ اس بنا پر کہ جب آپ کی اونٹنی بیٹھ گئی تھی تو آپ نے کہدیا تھا کہ یہ حرمات الہٰی کی عزت رکھتے ہوئے مجھ سے جو کہیں گے میں منظور کر لوں گا ، آپ نے صلح نامہ لکھواتے ہوئے فرمایا کہ اس سال ہمیں یہ بیت اللہ کی زیارت کر لینے دیں گے لیکن سہیل نے کہا یہ ہمیں منظور نہیں ورنہ لوگ کہیں گے کہ ہم دب گئے اور کچھ نہ کر سکے جب یہ شرط ہو رہی تھی کہ جو کافر ان میں سے مسلمان ہو کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلا جائے آپ اسے واپس کر دیں گے اس پر مسلمانوں نے کہا سبحان اللہ یہ کیسے ہو سکتا ہے ؟ کہ وہ مسلمان ہو کر آئے اور ہم اسے کافروں کو سونپ دیں یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ حضرت ابو جندل اپنی بیڑیوں میں جکڑے ہوئے آگئے ، سہیل نے کہا اسے واپس کیجئے آپ نے فرمایا ابھی تک صلح نامہ مکمل نہیں ہوا میں اسے کیسے واپس کر دوں ؟ اس نے کہا پھر تو اللہ کی قسم میں کسی طرح اور کسی شرط پر صلح کرنے میں رضامند نہیں ہوں آپ نے فرمایا تم خود مجھے خاص اس کی بابت اجازت دے دو اس نے کہا میں اس کی اجازت بھی آپ کو نہیں دوں گا آپ نے دوبارہ فرمایا لیکن اس نے پھر بھی انکار کر دیا مگر مکرز نے کہا ہاں ہم آپ کو اس کی اجازت دیتے ہیں اس وقت حضرت ابو جندل نے مسلمانوں سے فریاد کی ان بےچاروں کو مشرکین بڑی سخت سنگین سزائیں کر رہے تھے اس پر حضرت عمر حاضر حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہوئے اور وہ کہا جو پہلے گذر چکا پھر پوچھا کیا آپ نے ہم سے یہ نہیں کہا کہ یہ اسی سال ہو گا حضرت عمر فرماتے ہیں میں پھر ابو بکر کے پاس آیا اور وہی کہا جس کا اوپر بیان گذرا ہے اس میں اتنا اور ہے کہ کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نہیں ؟ اس کے جواب میں حضرت ابو بکر صدیق نے فرمایا ہاں ، پھر میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشین گوئی کا اسی طرح ذکر کیا اور وہی جواب مجھے ملا جو ذکر ہوا ۔ جو جواب خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا تھا ۔ اس روایت میں یہ بھی ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے اپنے اونٹ کو نحر کیا اور نائی کو بلوا کر سر منڈوا لیا پھر تو سب صحابہ ایک ساتھ کھڑے ہوگئے اور قربانیوں سے فارغ ہو کر ایک دوسرے کا سر خود مونڈنے لگے اور مارے غم کے اور اژدھام کے قریب تھا کہ آ پس میں لڑ پڑیں ۔ اس کے بعد ایمان والی عورتیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں جن کے بارے میں آیت ( يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا جَاۗءَكُمُ الْمُؤْمِنٰتُ مُهٰجِرٰتٍ فَامْتَحِنُوْهُنَّ ۭ اَللّٰهُ اَعْلَمُ بِـاِيْمَانِهِنَّ ۚ فَاِنْ عَلِمْتُمُوْهُنَّ مُؤْمِنٰتٍ فَلَا تَرْجِعُوْهُنَّ اِلَى الْكُفَّارِ ۭ لَا هُنَّ حِلٌّ لَّهُمْ وَلَا هُمْ يَحِلُّوْنَ لَهُنَّ ۭ وَاٰتُوْهُمْ مَّآ اَنْفَقُوْا ۭ وَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ اَنْ تَنْكِحُوْهُنَّ اِذَآ اٰتَيْتُمُوْهُنَّ اُجُوْرَهُنَّ ۭ وَلَا تُمْسِكُوْا بِعِصَمِ الْكَوَافِرِ وَاسْـَٔــلُوْا مَآ اَنْفَقْتُمْ وَلْيَسْـَٔــلُوْا مَآ اَنْفَقُوْا ۭ ذٰلِكُمْ حُكْمُ اللّٰهِ ۭ يَحْكُمُ بَيْنَكُمْ ۭ وَاللّٰهُ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ 10؀ ) 60- الممتحنة:10 ) ، نازل ہوئی اور حضرت عمر نے اس حکم کے ماتحت اپنی دو مشرکہ بیویوں کو اسی دن طلاق دے دی جن میں سے ایک نے معاویہ بن ابو سفیان سے نکاح کر لیا اور دوسری نے صفوان بن امیہ سے نکاح کر لیا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہیں سے واپس لوٹ کر مدینہ شریف آگئے ابو بصیر نامی ایک قریشی جو مسلمان تھے موقعہ پا کر مکہ سے نکل کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مدینہ شریف پہنچے ان کے پیچھے ہی دو کافر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ عہد نامہ کی بنا پر اس شخص کو آپ واپس کیجئے ہم قریشیوں کے بھیجے ہوئے قاصد ہیں اور ابو بصیر کو واپس لینے کے لئے آئے ہیں آپ نے فرمایا اچھی بات ہے میں اسے واپس کر دیتا ہوں چنانچہ آپ نے حضرت ابو بصیر کو انہیں سونپ دیا یہ انہیں لے کر چلے جب ذوالحلیفہ پہنچے اور بےفکری سے وہاں کھجوریں کھانے لگے تو حضرت ابو بصیر نے ان میں سے ایک شخص سے کہا واللہ میں دیکھ رہا ہوں کہ آپ کی تلوار نہایت عمدہ ہے ۔ اس نے کہا ہاں بیشک بہت ہی اچھے لوہے کی ہے میں نے بارہا اس کا تجربہ کر لیا ہے اس کی کاٹ کا کیا پوچھنا ہے ؟ یوں کہتے ہوئے اس نے تلوار میان سے نکال لی ، حضرت ابو بصیر نے ہاتھ بڑھا کر کہا ذرا مجھے دکھانا اس نے دے دی آپ نے ہاتھ میں لیتے ہی تول کر ایک ہی ہاتھ میں اس ایک کافر کا تو کام تمام کیا ، دوسرا اس رنگ کو دیکھتے ہی مٹھیاں بند کر کے ایسا سرپٹ بھاگا کہ سیدھا مدینہ پہنچ کر دم لیا اسے دیکھتے ہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ بڑی گھبراہٹ میں ہے کوئی خوفناک منظر دیکھ چکا ہے ، اتنے میں یہ قریب پہنچ گیا اور دہائیاں دینے لگا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرا ساتھی تو مار ڈالا گیا اور میں بھی اب تھوڑے دم کا مہمان ہوں دیکھئے وہ آیا اتنے میں حضرت ابو بصیر پہنچ گئے اور عرض کرنے لگے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ نے آپ کے ذمہ کو پورا کر دیا آپ نے اپنے وعدے کے مطابق مجھے ان کے حوالے کر دیا ، اب یہ اللہ تعالیٰ کی کریمی ہے کہ اس نے مجھے ان سے رہائی دلوائی آپ نے فرمایا افسوس یہ کیسا شخص ہے؟ یہ تو لڑائی کی آگ بھڑکانے والا ہے کاش کہ کوئی اسے سمجھا دیتا یہ سنتے ہی حضرت ابو بصیر چونک گئے کہ معلوم ہوتا ہے آپ شاید مجھے دوبارہ مشرکین کے حوالے کر دیں گے یہ سوچتے ہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے چلے گئے مدینہ کو الوداع کہا اور لمبے قدموں سمندر کے کنارے کی طرف چل دئیے اور وہیں بودوباش اختیار کر لی یہ واقعہ مشہور ہو گیا ادھر سے ابو جندل بن سہیل جنہیں حدیبیہ میں اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے واپس کیا تھا وہ بھی موقعہ پا کر مکہ سے بھاگ کھڑے ہوئے اور براہ راست حضرت ابو بصیر کے پاس چلے ، اب یہ ہوا کہ مشرکین قریش میں سے جو بھی ایمان قبول کرتا سیدھا حضرت ابو بصیر کے پاس آجاتا اور یہیں رہتا سہتا یہاں تک کہ ایک خاص معقول جماعت ایسے ہی لوگوں کی یہاں جمع ہو گئی اور انہوں نے یہ کرنا شروع کیا کہ قریشیوں کا جو قافلہ شام کی طرف جانے کے لئے نکلتا یہ اس سے جنگ کرتے جس میں قریشی کفار قتل بھی ہوئے اور ان کے مال بھی ان مہاجر مسلمانوں کے ہاتھ لگے یہاں تک کہ قریش تنگ آگئے بالاخر انہوں نے اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آدمی کو بھیجا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہم پر رحم فرما کر ان لوگوں کو وہاں سے واپس بلوا لیجئے ہم ان سے دستبردار ہوتے ہیں ان میں سے جو بھی آپ کے پاس آجائے وہ امن میں ہے ہم آپ کو اپنی رشتہ داریاں یاد دلاتے ہیں اور اللہ کا واسطہ دیتے ہیں کہ انہیں اپنے پاس بلوا لو چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس درخواست کو منظور فرما لیا اور ان حضرات کے پاس ایک آدمی بھیج کر سب کو بلوا لیا اور اللہ عزوجل نے آیت ( وَهُوَ الَّذِيْ كَفَّ اَيْدِيَهُمْ عَنْكُمْ وَاَيْدِيَكُمْ عَنْهُمْ بِبَطْنِ مَكَّةَ مِنْۢ بَعْدِ اَنْ اَظْفَرَكُمْ عَلَيْهِمْ ۭ وَكَانَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْرًا 24؀ ) 48- الفتح:24 ) ، نازل فرمائی ۔ ان کفار کی حمیت جاہلیت یہ تھی کہ انہوں نے آیت ( بسم اللہ الرحمن الرحیم ) نہ لکھنے دی آپ کے نام کے ساتھ رسول اللہ نہ لکھنے دیا آپ کو بیت اللہ شریف کی زیارت نہ کرنے دی صحیح بخاری شریف کی کتاب التفسیر میں ہے حبیب بن ابو ثابت کہتے ہیں میں ابو وائل کے پاس گیا تاکہ ان سے پوچھوں انہوں نے کہا ہم صفین میں تھے ایک شخص نے کہا کیا تو نے انہیں نہیں دیکھا کہ وہ کتاب اللہ کی طرف بلائے جاتے ہیں پس حضرت علی بن ابو طالب نے فرمایا ہاں پس سہیل بن حنیف نے کہا اپنی جانوں پر تہمت رکھو ہم نے اپنے آپ کو حدیبیہ والے دن دیکھا یعنی اس صلح کے موقعہ پر جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور مشرکین کے درمیان ہوئی تھی اگر ہماری رائے لڑنے کی ہوتی تو ہم یقینا لڑتے ، حضرت عمر نے آکر کہا کہ کیا ہم حق پر اور وہ باطل پر نہیں ؟ کیا ہمارے مقتول جنتی اور ان کے مقتول جہنمی نہیں ؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں کہا پھر ہم کیوں اپنے دین میں جھک جائیں اور لوٹ جائیں ؟ حالانکہ اب تک اللہ تعالیٰ نے ہم میں ان میں کوئی فیصلہ کن کاروائی نہیں کی ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابن خطاب میں اللہ کا رسول ہوں وہ مجھے کبھی بھی ضائع نہ کرے گا یہ جواب سن کر حضرت عمر لوٹ آئے لیکن بہت غصے میں تھے وہاں سے حضرت صدیق کے پاس آئے اور یہی سوال و جواب یہاں بھی ہوئے اور سورہ فتح نازل ہوئی بعض روایات میں حضرت سہیل بن حنیف کے یہ الفاظ بھی ہیں کہ میں نے اپنے آپ کو ابو جندل والے دن دیکھا کہ اگر مجھ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کو لوٹانے کی قدرت ہوتی تو میں یقینا لوٹا دیتا ، اس میں یہ بھی ہے کہ جب سورہ فتح اتری تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر کو بلا کر یہ سورت انہیں سنائی مسند احمد کی روایت میں ہے کہ جس وقت یہ شرط طے ہوئی کہ ان کا آدمی انہیں واپس کیا جائے اور ہمارا آدمی وہ واپس نہ کریں گے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا کہ کیا ہم یہ بھی مان لیں ؟ اور لکھ دیں آپ نے فرمایا ہاں اس لئے کہ ہم میں سے جو ان میں جائے اللہ اسے ہم سے دور ہی رکھے ( مسلم ) مسند احمد میں حضرت عبداللہ بن عباس سے مروی ہے کہ جب خارجی نکل کھڑے ہوئے اور انہوں نے علیحدگی اختیار کی تو میں نے ان سے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیبیہ والے دن جب مشرکین سے صلح کی تو مشرکین نے کہا اگر ہم آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مانتے تو آپ سے ہرگز نہ لڑتے تو آپ نے فرمایا علی اسے مٹا دو ۔ اللہ تو خوب جانتا ہے کہ میں تیرا رسول ہوں علی اسے کاٹ دو اور لکھو یہ وہ شرائط ہیں جن پر صلح کی محمد بن عبداللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے اللہ کی قسم رسول اللہ حضرت علی بہت بہتر تھے پھر بھی آپ نے اس لکھے ہوئے کو کٹوایا اس سے کچھ آپ نبوت سے نہیں نکل گئے مسند احمد میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیبیہ والے دن ستر اونٹ قربان کئے جن میں ایک اونٹ ابو جہل کا بھی تھا جب یہ اونٹ بیت اللہ سے روک دئیے گئے تو اس طرح نالہ و بکا کرتے تھے جیسے کسی سے اس کا دودھ پیتا بچہ الگ ہو گیا ہو ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

25۔ 1 ھدی اس جانور کو کہا جاتا ہے جو حاجی یا معتمر عمرہ کرنے والا اپنے ساتھ مکہ لے جاتا تھا یا وہیں سے خرید کر ذبح کرتا تھا محل سے مراد وہ قربان گاہ ہے جہاں ان کو لے جا کر ذبح کیا جاتا ہے جاہلیت کے زمانے میں یہ مقام معتمر کے لیے مروہ پہاڑی کے پاس اور حاجیوں کے لیے منی تھا اور اسلام میں ذبح کرنے کی چگہ مکہ منی اور پورے حدود حرم ہیں۔ معکوفا حال ہے یعنی یہ جانور اس انتظار میں رکے ہوئے تھے کہ مکہ میں داخل ہوں تاکہ انہیں قربان کیا جائے مطلب یہ ہے کہ ان کافروں نے ہی تمہیں بھی مسجد حرام سے روکا اور تمہارے ساتھ جو جانور تھے انہیں بھی اپنی قربان گاہ تک نہیں پہنچنے دیا۔ 25۔ 2 یعنی مکہ میں اپنا ایمان چھپائے رہ رہے تھے۔ 25۔ 3 کفار کے ساتھ لڑائی کی صورت میں ممکن تھا کہ یہ بھی مارے جاتے اور تمہیں ضرر پہنچتا معرۃ کے اصل معنی عیب کے ہیں یہاں مراد کفارہ اور وہ برائی اور شرمندگی ہے جو کافروں کی طرف سے تمہیں اٹھانی پڑتی یعنی ایک تو قتل خطا کی دیت دینی پڑتی اور دوسرے کفار کا یہ طعنہ سہنا پڑتا کہ یہ اپنے مسلمان ساتھیوں کو بھی مار ڈالتے ہیں۔ 25۔ 4 یہ لولا کا محذوف جواب ہے یعنی اگر یہ بات نہ ہوتی تو تمہیں مکہ میں داخل ہونے کی اور قریش مکہ سے لڑنے کی اجازت دے دی جاتی۔ 25۔ 5 بلکہ اہل مکہ کو مہلت دے دی گئی تاکہ جس کو اللہ چاہے قبول اسلام کی توفیق دے دے۔ 25۔ 6  تزیلوا بمعنی تمیزوا ہے مطلب یہ ہے کہ مکہ میں آباد مسلمان اگر کافروں سے الگ رہائش پذیر ہوتے تو ہم تمہیں اہل مکہ سے لڑنے کی اجازت دے دیتے اور تمہارے ہاتھوں ان کو قتل کرواتے اور اس طرح انہیں دردناک سزا دیتے عذاب الیم سے مراد یہاں قتل قیدی بنانا اور قہر اور غلبہ ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٥] یہ کل ستر اونٹ تھے جو صحابہ اپنے ہمراہ لائے تھے۔ جب قریشی اس بات پر اڑ گئے کہ کسی قیمت پر مسلمانوں کو مکہ میں داخل نہ ہونے دیں گے تو معاہدہ صلح کے بعد انہیں وہیں حدیبیہ کے مقام پر ذبح کردیا گیا۔ [٣٦] حدیبیہ میں جنگ نہ لڑنے کا ایک بہت اہم پہلو :۔ مکہ میں کچھ ایسے مسلمان موجود تھے جو قریش مکہ کے مظالم کی وجہ سے اپنا اسلام چھپائے رکھتے تھے۔ اور ان کے پاس ایسے ذرائع بھی موجود نہ تھے کہ وہ ہجرت کرکے مدینہ چلے جاتے۔ ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کی نظروں میں بھی فی الواقع معذور تھے۔ چناچہ سیدنا ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ میں اور میری ماں ایسے ہی لوگوں میں سے تھے۔ جنگ کی صورت میں ایسے معذور مسلمانوں کو بھی مجبوراً کافروں کی صفوں میں شامل ہونا پڑتا اور حملہ کی صورت میں انہیں یقیناً نقصان پہنچ سکتا تھا جس کی تمہیں خبر تک نہ ہوتی۔ پھر خبر لگ جانے پر تمہیں الگ افسوس ہوتا کہ کافر الگ انہیں طعنے دینے لگتے کہ تمہارے مسلمان بھائیوں نے تمہارا بھی خیال تک نہ کیا۔ [٣٧] صلح حدیبیہ کا اہل عرب پر تاثر :۔ جنگ روکنے اور بہرحال صلح کرنے کا دوسرا فائدہ یہ ہوا کہ قبائل عرب میں یہ تاثر عام پھیل گیا کہ مسلمان ایک امن پسند قوم ہیں۔ اسی بات سے متاثر ہو کو صلح حدیبیہ کے بعد بیشمار لوگ علی وجہ البصیرت اسلام کو حق سمجھ کر اسلام لے آئے۔ ان میں دو نامور شخصیتیں بالخصوص قابل ذکر ہیں۔ ایک سیدنا خالد بن ولید سیف اللہ اور دوسرے سیدنا عمرو بن عاص جنہوں نے بعد میں مصر کو فتح کیا۔ [٣٨] البتہ اگر مکہ میں معذور مسلمان موجود نہ ہوتے یا انہیں الگ کرلینے کی کوئی صورت نکل آتی تو پھر یقیناً صلح کے بجائے جنگ ہی بہتر تھی۔ اس صورت میں ہم کافروں کو تمہارے ہاتھوں بری طرح پٹوا دیتے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) ھم الذین کفروا و صدوکم عن المسجد الحرام : اس سے اہل مکہ کی اس زیادتی کا بیان مقصود ہے جسے اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے عار قرار دیا اور وہ یہ کہ اللہ کے رسول پر ایمان لانے کے بجائے کفر پر اڑ گئے اور انہوں نے مسلمانوں کو مسجد حرام میں داخلے اور اس کے طواف سے اور عمرہ کے دوسرے ارکان ادا کرنے سے روک دیا اور لڑائی پر آمادہ ہوگئے، حالانکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمان لڑنے کی نیت سے نہیں آئے تھے، نہ وہ پوری طرح ہتھیار لائے تھے، بلکہ وہ حالت احرام میں تھے لڑنا تو ایک طرف رہا وہ اس حالت میں کسی کو ایذا بھی نہیں دے سکتے تھے۔ (٢) والھدی معکوفاً ان یبلغ محلہ :” الھدی “ مصدر بمعنی اسم مفعول : ” ای الانعام المھدیۃ “ وہ چاپائے جو کعبہ میں قربانی کے لئے لائے جاتے ہیں۔ یہ لفظ مصدر ہونے کی وجہ سے واحد جمع اور مذکر و ومونث سب پر استعمال ہوتا ہے۔ ” معوفاً “ ” عکف یعکف “ (ن) سے اسم مفعول ہے۔” عکف “ لازم بھی آتا ہے جس کا معنی ” ایک جگہ ٹھہرنے کو لازم کرلینا “ ہے، جیسا کہ فرمایا :(وانتم عکفون ، فی المسجد) (البقرۃ :188)” جب کہ تم مسجدوں میں معتکف ہو۔ “ یہاں متعدی استعمال ہوا ہے :” عکفہ ای حبسہ “” معکوفاً “ جسے ایک جگہ روک کر رکھا گیا ہو۔” الھدی “ پر نصب اس لئے آیا کہ اس کا عطف ” صدورکم “ میں ضمیر مخطاب پر ہے اور ” معکوفاً “ ” الھدی “ سے حال ہونے کی وجہ سے منصوب ہے، یعنی یہ وہ لوگ ہیں جن ہوں نے کفر کیا اور تمہیں مسجد حرام سے روکا اور قربانی کے جانوروں کو بھی روک دیا، اس حال میں کہ وہ اپنے حلال ہونے کی جگہ پہنچنے سے روکی ہوئی تھیں۔ یعنی قربانیوں کو بھی مکہ میں داخل نہیں ہونے دیا جو عمرہ اور حج کی قربانیوں کے حلال ہونے کی اصل جگہ ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے ساتھ ہدی یعنی قربانی کے اونٹ لے کر آئے تھے جب کفار نے اس سال مکہمیں داخلے اور عمرہ کرنے کی اجازت دینے سے انکار کردیا اور اسے آئندہ اسل کے لئے موخر کردیا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حدیبیہ کے مقام پر وہ جانور قربان کردیئے اور سرمنڈا کر احرام کھو دیا۔ (٣) ولا لارجال مومنون و نسآء مومنت …:” تطوھم “” وطی یطا وطاً “ (س) روندنا، پاما کرنا۔ یہ مضارع معلوم سے جمع مذکر حاضر ہے۔ ” معزۃ “ عیب، گناہ ، نقصان۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اس موقع پر جنگ نہ ہونے دینے کی دو وجہیں بیان فرمائی ہیں۔ ایک یہ کہ مکہ میں مشرکین کے ساتھ کئی مومن مرد اور مومن عورتیں بھی موجود تھیں، جن کا مسلمانوں کو علم نہیں تھا۔ ان میں سے کچھ وہ تھے جو مسلمان ہوچکے تھے مگر انہوں نے اپنا ایمان چھپا رکھا تھا اور کچھ دو ر تھے جو کھلم کھلا مسلمان ہوچکے تھے مگر بےبسی کی وجہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت نہیں کرسکتے تھے اور کفار کے ظلم و ستمک ا نشانہ بنے ہوئے تھے۔ اگر مکہ پر حملہ ہوتا تو مشرکین کے ساتھ وہ مومن مرد اور مومن عورتیں بھی روند دیئے جاتے جو مسلمانوں کے لئے عیب کا باعث ہو تاکہ انہوں نے اپنے ہی بھائی بہنوں کو قتل کردیا، حالانکہ ان کا یہ قتل لاعلمی کی بنا پر ہوتا۔ عیب کا باعث ہونے سے مراد کفار ک طرف سے عیب لگانا ہے کہ مسلمانوں نے اپنے ہی بھائی مار دیئے اور وہ رنج و الم بھی جو اپنے بھائیوں کو ق تل کرنے سے مسلمانوں کے دلوں میں پیدا ہوتا، ورنہ جنگ کے دوران کفار میں رہنے والے کسی مسلمان کو قتل کرنے پر نہ دیت ہے نہ کفارہ اور نہ ہی ملامت۔ اللہ تعالیٰ نے جنگ روک کر یہ نوبت ہی نہ آنے دی کہ مسلمانوں پر کوئی الزام آسکے۔ واض رہے کہ ” ولولا رجال مومنون “ سے ” بغیر علم “ تک جملہ شرط ہے، جزا اس کی محذوف ہے ، کیونکہ وہ خود واضح ہو رہی ہے، یعنی اگر یہ مانع نہ ہوتا ” تو تمہارے ہاتھ نہ روکے جاتے، بلکہ اہل مکہ پر حملہ کردیا جاتا۔ “ (٤) لیدخل اللہ فی رحمتہ من یشآء : یہ اس وقت جنگ سے مسلمانوں کے ہاتھ روک دینے کی دوسری وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ مشرکین میں سے بہت سے لوگوں کو ایمان کی توفیق عطا فرما کر اپنی رحمت میں داخل کرنا چاہتا تھا، جو کفار اور مسلمانوں کی صلح اور باہمی میل جول ہی سے ممکن تھا۔ اگر لڑائی ہوجاتی تو انہیں سوچنے سمجھنے اور اسلام قبول کرنے کا موقع ہی نہ ملتا اور نہ معلوم کتنے ہی کفر کی حالت میں مارے جاتے ۔ پھر واقعی اس صلح کی بدولت بیشمار لوگ اسلام میں دناخل ہوئے۔ سنہ ٦ ہجری میں آنے والے مسلمان صرف چودہ سو تھے، دو سال کے قلیل عرصے میں مکہ فتح کرنے کے لئے آنے والوں کی تعداد دس ہزار تھی اور مکہ فتح ہونے اور مشرکین کو عام معافی کے اعلان پر پورا مکہ مسلمان ہوگیا ۔ (والحمد اللہ) (٥) لوتزیلوا لعذبنا الذین کفروا …:” تزیلوا “ ” تزیل یتزیل تزیلا “ (تفغل) ایک دوسرے سے جدا ہونا۔ یعنی اگر اس موقع پر مکہ میں رہنے والے مسلم و کافر کی پوری طرح تمیز ہوتی اور وہ لوگ جو مسلمان ہوچکے تھے یا آئندہ ان کی قسمت میں مسلمان ہونا لکھا تھا، کفار سے الگ اور نمایاں ہوتے تو ہم اہل مکہ کے کافر کو ایسی درد ناک سزا دیتے کہ یا تو لڑائی میں مارے جاتے یا قید ہو کر ذلیل و خوار ہوتے ۔ (٦) اس آیت سے ظاہر ہے کہ ایمان والوں کا وجود دنیا میں کفار کے لئے بھی باعث رحمت ہے، اسی طرح کہ ان کی موجودگی کی وجہ سے بعض اوقات کفار بھی عذاب سے بچ جاتے ہیں۔ (مزید دیکھیے سورة انفال (٣٣)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

فَتُصِيبَكُم مِّنْهُم مَّعَرَّ‌ةٌ بِغَيْرِ‌ عِلْمٍ (and thus an embarrassing situation might have befallen you because of them unknowingly....48:25): According to some authorities on lexicology ma&arrah connotes |"sin|"; according to others it means |"harm|"; and other authorities say it denotes |"shame|" or |"embarrassment|". In this context, apparently the last meaning appears to be apt. There was a nucleus of Muslims in Makkah and if the fight had broken out, Muslim army would have unwittingly killed their own Muslim brethren in faith, thereby causing great injury to their own cause, and incurring obloquy and opprobrium for themselves. Natural Safeguard of the Noble Companions against Mistakes Imam Qurtubi says that if a Muslim unknowingly kills another Muslim, it is not a sin or crime. It is, however, certainly a source of shame, embarrassment and regret. Since it is a Qatl Khata&, the laws of diyah [ blood-wit ] will apply. Allah has protected the noble Companions (رض) against this as well. This shows the noble Companions (رض) are not infallible like the prophets of Allah, but Allah has in general terms safeguarded them in a natural way against mistakes which would be a cause of embarrassment, obloquy and opprobrium to them. لِّيُدْخِلَ اللَّـهُ فِي رَ‌حْمَتِهِ مَن يَشَاءُ (so that Allah may admit to His mercy whom He wills...48:25): It means that Allah infused patience in Muslims on this occasion to avoid war, because He knew that many people in future would embrace Islam on whom His mercy will be showered. Similarly the nucleus of Muslims who were detained in Makkah will also receive a large share of His mercy. لَوْ تَزَيَّلُوا (And if they [ the believing men and women ] had been separate, [ from disbelievers ], We would surely have punished those of them who disbelieved....48:25) Lexically, the word tazayyul denotes &separation&. The sense is that if Muslims detained in Makkah had been separate and distinct from the unbelievers, the Muslims coming from Madinah would have been able to save them in case of war, and Allah would have had the disbelievers punished then and there, because that was the demand of their attitude. However, the Makkan society at that time was a mixed society - helpless Muslim men and women and non-Muslims were living together. The Muslims were indistinguishable from non-Muslims. If fighting had broken out, there would have been no way to save the Muslims. Therefore, Allah averted the war.

(آیت) فَتُصِيْبَكُمْ مِّنْهُمْ مَّعَرَّةٌۢ بِغَيْرِ عِلْمٍ ۚ، لفظ معرہ کے معنی بعض حضرات نے گناہ کے بیان کئے ہیں اور بعض حضرات نے مطلق مضرت کے اور بعض نے عیب کے بیان کئے ہیں، اس مقام پر ظاہر یہی آخری معنی ہیں کہ اگر جنگ چھڑ جاتی اور بیخبر ی کی حالت میں مسلمانوں کے ہاتھ سے مکہ میں محبوس مسلمان قتل ہوجاتے تو یہ ایک عیب اور عار کی بات بھی تھی کہ کفار ان کو عار دلاتے کہ اپنے ہی دینی بھائیوں کو مار ڈالا اور مضرت بھی، مقتول مسلمانوں کی مضرت تو ظاہر ہی ہے۔ قاتل مسلمانوں کو جب خبر ہوتی سخت ندامت اور افسوس ہوتا، یہ مضرت عام مسلمانوں کو پہنچتی۔ صحابہ کرام کو غلطی اور عیب سے بچانے کا قدرتی انتظام : امام قرطبی نے فرمایا کہ بغیر علم کے اگر کوئی مسلمان کسی مسلمان کے ہاتھ سے مارا جائے وہ گناہ تو نہیں مگر ایک عیب اور عار اور ندامت و افسوس کا سبب ضرور ہے اور قتل خطاء پر دیت وغیرہ دینے کے بھی احکام ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کے صحابہ کی اس سے بھی حفاظت فرمائی۔ اس سے معلوم ہوا کہ صحابہ کرام کے ساتھ حق تعالیٰ کا معاملہ یہ ہے کہ وہ اگرچہ انبیاء کی طرح معصوم تو نہیں مگر عامتہ ان کو خطاؤں اور عیبوں سے بچانے کا قدرتی انتظام ہوجاتا ہے۔ لِيُدْخِلَ اللّٰهُ فِيْ رَحْمَتِهٖ مَنْ يَّشَاۗءُ ۚ یعنی حق تعالیٰ نے اس موقع پر مسلمانوں کے قلوب میں تحمل پیدا کر کے جنگ نہ ہونے کا انتظام اس لئے فرمایا کہ ان میں سے بہت سے لوگوں کا آئندہ اسلام قبول کرلینا اللہ تعالیٰ جانتا تھا ان پر رحمت کرنے کے لئے نیز جو مسلمان محبوس تھے ان پر رحمت کے لئے یہ سارا سامان کیا گیا۔ لوتزیلوا، تزیل کے معنی اصل میں تفرق کے ہیں مطلب یہ ہے کہ مکہ میں محبوس مسلمان اگر کفار سے الگ اور ممتاز ہوتے کہ مسلمان ان کو پہچان کر تکلیف سے بچا لیتے تو ان کفار کے حالات کا تقاضا یہی تھا کہ اسی وقت ان کو مسلمانوں کے ہاتھوں سزا دلوادی جاتی مگر چونکہ محبوس ضعفاء مسلمین مرد اور عورتیں انہی کے اندر مخلوط تھے اگر قتال ہوتا تو ان کو بچانے کی صورت نہ بنتی اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس جنگ کو موقوف رکھا۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

ہُمُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَصَدُّوْكُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَــرَامِ وَالْہَدْيَ مَعْكُوْفًا اَنْ يَّبْلُغَ مَحِلَّہٗ۝ ٠ ۭ وَلَوْلَا رِجَالٌ مُّؤْمِنُوْنَ وَنِسَاۗءٌ مُّؤْمِنٰتٌ لَّمْ تَعْلَمُوْہُمْ اَنْ تَـطَــــُٔـــوْہُمْ فَتُصِيْبَكُمْ مِّنْہُمْ مَّعَرَّۃٌۢ بِغَيْرِ عِلْمٍ۝ ٠ ۚ لِيُدْخِلَ اللہُ فِيْ رَحْمَتِہٖ مَنْ يَّشَاۗءُ۝ ٠ ۚ لَوْ تَزَيَّلُوْا لَعَذَّبْنَا الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْہُمْ عَذَابًا اَلِـــيْمًا۝ ٢٥ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ صدد الصُّدُودُ والصَّدُّ قد يكون انصرافا عن الشّيء وامتناعا، نحو : يَصُدُّونَ عَنْكَ صُدُوداً ، [ النساء/ 61] ، وقد يكون صرفا ومنعا نحو : وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطانُ أَعْمالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ [ النمل/ 24] ( ص د د ) الصدود والصد ۔ کبھی لازم ہوتا ہے جس کے معنی کسی چیز سے رو گردانی اور اعراض برتنے کے ہیں جیسے فرمایا ؛يَصُدُّونَ عَنْكَ صُدُوداً ، [ النساء/ 61] کہ تم سے اعراض کرتے اور کے جاتے ہیں ۔ اور کبھی متعدی ہوتا ہے یعنی روکنے اور منع کرنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطانُ أَعْمالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ [ النمل/ 24] اور شیطان نے ان کے اعمال ان کو آراستہ کردکھائے اور ان کو سیدھے راستے سے روک دیا ۔ سجد السُّجُودُ أصله : التّطامن «3» والتّذلّل، وجعل ذلک عبارة عن التّذلّل لله وعبادته، وهو عامّ في الإنسان، والحیوانات، والجمادات، وذلک ضربان : سجود باختیار، ولیس ذلک إلا للإنسان، وبه يستحقّ الثواب، نحو قوله : فَاسْجُدُوا لِلَّهِ وَاعْبُدُوا[ النجم/ 62] ، أي : تذللوا له، وسجود تسخیر، وهو للإنسان، والحیوانات، والنّبات، وعلی ذلک قوله : وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً وَظِلالُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْآصالِ [ الرعد/ 15] ( س ج د ) السجود ( ن ) اسکے اصل معنی فرو تنی اور عاجزی کرنے کے ہیں اور اللہ کے سامنے عاجزی اور اس کی عبادت کرنے کو سجود کہا جاتا ہے اور یہ انسان حیوانات اور جمادات سب کے حق میں عام ہے ( کیونکہ ) سجود کی دو قسمیں ہیں ۔ سجود اختیاری جو انسان کے ساتھ خاص ہے اور اسی سے وہ ثواب الہی کا مستحق ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ فَاسْجُدُوا لِلَّهِ وَاعْبُدُوا[ النجم/ 62] سو اللہ کے لئے سجدہ کرو اور اسی کی ) عبادت کرو ۔ سجود تسخیر ی جو انسان حیوانات اور جمادات سب کے حق میں عام ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ : وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً وَظِلالُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْآصالِ [ الرعد/ 15] اور فرشتے ) جو آسمانوں میں ہیں اور جو ( انسان ) زمین میں ہیں ۔ چار ونا چار اللہ ہی کو سجدہ کرتے ہیں اور صبح وشام ان کے سایے ( بھی اسی کو سجدہ کرتے ہیں اور صبح وشام ان کے سایے ( بھی اسی کو سجدہ کرتے ہیں ) حَرَمُ ( محترم) والحَرَمُ : سمّي بذلک لتحریم اللہ تعالیٰ فيه كثيرا مما ليس بمحرّم في غيره من المواضع وکذلک الشهر الحرام، هَدْيُ قرباني والهَدْيُ مختصّ بما يُهْدَى إلى البیت . قال الأخفش : والواحدة هَدْيَةٌ ، قال : ويقال للأنثی هَدْيٌ كأنه مصدر وصف به، قال اللہ تعالی: فَإِنْ أُحْصِرْتُمْ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ البقرة/ 196] ، هَدْياً بالِغَ الْكَعْبَةِ [ المائدة/ 95] ، وَلَا الْهَدْيَ وَلَا الْقَلائِدَ [ المائدة/ 2] ، وَالْهَدْيَ مَعْكُوفاً [ الفتح/ 25] اور ھدی کا لفظ خاص کر اس جانور پر بولا جاتا ہے جو بیت اللہ کی طرف ذبح کے لئے بھیجا جائے اخفش نے اس کا وحد ھدیۃ لکھا ہے نر کی طرح مادہ جانور پر بھی ہدی کا لفظ بولا جاتا ہے کیونکہ یہ مصدر ہے جو بطور صفت کے استعمال ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ فَإِنْ أُحْصِرْتُمْ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ [ البقرة/ 196] اور اگر رستے میں روک لئے جاؤ تو جیسی قر بانی میسر ہو کردو ۔ هَدْياً بالِغَ الْكَعْبَةِ [ المائدة/ 95] قر بانی کعبے پہنچائی جائے وَلَا الْهَدْيَ وَلَا الْقَلائِدَ [ المائدة/ 2] اور قربانی کو اور ان جانوروں کو جن کے گلے میں پٹے بندھے ہوں ۔ وَالْهَدْيَ مَعْكُوفاً [ الفتح/ 25] اور قر بانیوں کو بھی جگہ پہنچنے سے رکی رہیں ۔ عكف العُكُوفُ : الإقبال علی الشیء وملازمته علی سبیل التّعظیم له، والاعْتِكَافُ في الشّرع : هو الاحتباس في المسجد علی سبیل القربة ويقال : عَكَفْتُهُ علی كذا، أي : حبسته عليه، لذلکقال : سَواءً الْعاكِفُ فِيهِ وَالْبادِ [ الحج/ 25] ، وَالْعاكِفِينَ [ البقرة/ 125] ، فَنَظَلُّ لَها عاكِفِينَ [ الشعراء/ 71] ، يَعْكُفُونَ عَلى أَصْنامٍ لَهُمْ [ الأعراف/ 138] ، ظَلْتَ عَلَيْهِ عاكِفاً [ طه/ 97] ، وَأَنْتُمْ عاكِفُونَ فِي الْمَساجِدِ [ البقرة/ 187] ، وَالْهَدْيَ مَعْكُوفاً [ الفتح/ 25] ، أي : محبوسا ممنوعا . ( ع ک ف ) العکوف کے معنی ہیں تعظیما کسی چیز پر متوجہ ہونا اور اس سئ وابستہ رہنا ۔ اور اصطلاح شریعت میا الاغتکاف کے معنی ہیں عبادت کی نیت سے مسجد میں رہنا اور اس سے باہر نہ نکلنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَنْتُمْ عاكِفُونَ فِي الْمَساجِدِ [ البقرة/ 187] جب تم مسجدوں میں اعتکاف بیٹھے ہو ۔ سَواءً الْعاكِفُ فِيهِ وَالْبادِ [ الحج/ 25] خواہ وہ دہاں کے رہنے والے ہوں یا باہر سے آنے والے ۔ وَالْعاكِفِينَ [ البقرة/ 125] اور اعتکاف کرنے والوں ۔ فَنَظَلُّ لَها عاكِفِينَ [ الشعراء/ 71] اور اس کی پوجا پر قائم رہیں۔ عکفتہ علٰی کذا کسی چیز پر روک رکھنا يَعْكُفُونَ عَلى أَصْنامٍ لَهُمْ [ الأعراف/ 138] یہ اپنے بتوں کی عبادت کے لئے بیٹھے رہتے تھے ۔ ظَلْتَ عَلَيْهِ عاكِفاً [ طه/ 97] جس معبود کی پوجا پر تو قائم اور معتکف تھا ۔ وَالْهَدْيَ مَعْكُوفاً [ الفتح/ 25] اور قربانی کے جانوروں کو بھی روک دئے گئے ہیں ۔ بلغ البُلُوغ والبَلَاغ : الانتهاء إلى أقصی المقصد والمنتهى، مکانا کان أو زمانا، أو أمرا من الأمور المقدّرة، وربما يعبّر به عن المشارفة عليه وإن لم ينته إليه، فمن الانتهاء : بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً [ الأحقاف/ 15] ( ب ل غ ) البلوغ والبلاغ ( ن ) کے معنی مقصد اور متبٰی کے آخری حد تک پہنچے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ مقصد کوئی مقام ہو یا زمانہ یا اندازہ کئے ہوئے امور میں سے کوئی امر ہو ۔ مگر کبھی محض قریب تک پہنچ جانے پر بھی بولا جاتا ہے گو انتہا تک نہ بھی پہنچا ہو۔ چناچہ انتہاتک پہنچے کے معنی میں فرمایا : بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً [ الأحقاف/ 15] یہاں تک کہ جب خوب جو ان ہوتا ہے اور چالس برس کو پہنچ جاتا ہے ۔ مَحِلَّهُ ومن الحُلُول أَحَلَّت الشاة : نزل اللبن في ضرعها وقال تعالی: حَتَّى يَبْلُغَ الْهَدْيُ مَحِلَّهُ [ البقرة/ 196] ، وأَحَلَّ اللہ كذا، قال تعالی: أُحِلَّتْ لَكُمُ الْأَنْعامُ [ الحج/ 30] ، وقال تعالی: يا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَحْلَلْنا لَكَ أَزْواجَكَ اللَّاتِي آتَيْتَ أُجُورَهُنَّ وَما مَلَكَتْ يَمِينُكَ مِمَّا أَفاءَ اللَّهُ عَلَيْكَ وَبَناتِ عَمِّكَ وَبَناتِ عَمَّاتِكَ ... الآية [ الأحزاب/ 50] ، فإِحْلَال الأزواج هو في الوقت، لکونهنّ تحته، وإحلال بنات العم وما بعدهنّ إحلال التزوج بهنّ وبلغ الأجل محلّه، ورجل حلالٌ ومُحِلُّ : إذا خرج من الإحرام، أو خرج من الحرم، قال عزّ وجلّ : وَإِذا حَلَلْتُمْ فَاصْطادُوا [ المائدة/ 2] ، وقال تعالی: وَأَنْتَ حِلٌّ بِهذَا الْبَلَدِ [ البلد/ 2] ، أي : حلال، وقوله عزّ وجلّ : قَدْ فَرَضَ اللَّهُ لَكُمْ تَحِلَّةَ أَيْمانِكُمْ [ التحریم/ 2] ، أي : بيّن ما تَنْحَلُّ به عقدة أيمانکم من الکفّارة، وروي :«لا يموت للرجل ثلاثة من الأولاد فتمسّه النّار إلا تحلّة القسم» أي : قدر ما يقول إن شاء اللہ تعالی، ۔ قرآن میں ہے : ۔ حَتَّى يَبْلُغَ الْهَدْيُ مَحِلَّهُ [ البقرة/ 196] جب تک قربانی اپنے مقام پر نہ پہنچ جائے ۔ جو احرام کھول دے یا وہ آدمی جو حدو حرم سے باہر چلاجائے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذا حَلَلْتُمْ فَاصْطادُوا [ المائدة/ 2] اور جب احرام اتارو و تو پھر شکار کرو ۔ وَأَنْتَ حِلٌّ بِهذَا الْبَلَدِ [ البلد/ 2] اور تم اسی شہر میں تو رہتے ہو اور آیت کریمہ : ۔ قَدْ فَرَضَ اللَّهُ لَكُمْ تَحِلَّةَ أَيْمانِكُمْ [ التحریم/ 2] خدا نے تم لوگوں کے لئے تمہاری قسموں کا کفارہ مقرر کردیا ہے ۔ کے معنی یہ ہیں کہ تمہاری قسموں کی گرہ کشائی کا کفارہ بیان کردیا ہے ۔ حدیث میں ہے کہ جس مسلمان کے تین بچے مرجائیں ( اور وہ صبر کرے ) تو اسے دوزخ کی آگ صرف تحلہ القسم کی مقدار سے زیادہ نہیں چھوئے گی ۔ یعنی جتنی دیر میں کہ انشاء اللہ کہے «لَوْلَا» يجيء علی وجهين : أحدهما : بمعنی امتناع الشیء لوقوع غيره، ويلزم خبره الحذف، ويستغنی بجوابه عن الخبر . نحو : لَوْلا أَنْتُمْ لَكُنَّا مُؤْمِنِينَ [ سبأ/ 31] . والثاني : بمعنی هلّا، ويتعقّبه الفعل نحو : لَوْلا أَرْسَلْتَ إِلَيْنا رَسُولًا[ طه/ 134] أي : هلّا . وأمثلتهما تکثر في القرآن . ( لولا ) لو لا ( حرف ) اس کا استعمال دو طرح پر ہوتا ہے ایک شے کے پائے جانے سے دوسری شے کا ممتنع ہونا اس کی خبر ہمیشہ محذوف رہتی ہے ۔ اور لولا کا جواب قائم مقام خبر کے ہوتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ لَوْلا أَنْتُمْ لَكُنَّا مُؤْمِنِينَ [ سبأ/ 31] اگر تم نہ ہوتے تو ہمضرور مومن ہوجاتے ۔ دو م بمعنی ھلا کے آتا ہے ۔ اور اس کے بعد متصلا فعل کا آنا ضروری ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لَوْلا أَرْسَلْتَ إِلَيْنا رَسُولًا[ طه/ 134] تو نے ہماری طرف کوئی پیغمبر کیوں نہیں بھیجا ۔ وغیرہ ذالک من الا مثلۃ رجل الرَّجُلُ : مختصّ بالذّكر من الناس، ولذلک قال تعالی: وَلَوْ جَعَلْناهُ مَلَكاً لَجَعَلْناهُ رَجُلًا [ الأنعام/ 9] ( ر ج ل ) الرجل کے معنی مرد کے ہیں اس بنا پر قرآن میں ہے : ۔ وَلَوْ جَعَلْناهُ مَلَكاً لَجَعَلْناهُ رَجُلًا[ الأنعام/ 9] اگر ہم رسول کا مدد گار ) کوئی فرشتہ بناتے تو اس کو بھی آدمی ہی بناتے ۔ أیمان يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ( ا م ن ) الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ { وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ } ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ علم العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، ( ع ل م ) العلم کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا وطأ وَطُؤَ الشیءُ فهو وَطِيءٌ بيّن الوَطَاءَةِ ، والطَّأَةِ والطِّئَةِ ، والوِطَاءُ : ما تَوَطَّأْتَ به، ووَطَأْتُ له بفراشه . ووَطَأْتُهُ برجلي أَطَؤُهُ وَطْأً ووَطَاءَةً ، وتَوَطَّأْتُهُ. قال اللہ تعالی: إِنَّ ناشِئَةَ اللَّيْلِ هِيَ أَشَدُّ وَطْئاً [ المزمل/ 6] وقرئ : وِطَاءً وفي الحدیث : «اللهمّ اشدد وَطْأَتَكَ علی مضر» أي : ذلّلهم . ووَطِئَ امرأتَهُ كناية عن الجماع، صار کالتّصریح للعرف فيه، والمُوَاطَأَةُ : الموافقة، وأصله أن يَطَأَ الرجل برجله مَوْطِئَ صاحبه . قال اللہ عزّ وجلّ : إِنَّمَا النَّسِيءُ إلى قوله : لِيُواطِؤُا عِدَّةَ ما حَرَّمَ اللَّهُ [ التوبة/ 37] ( و ط ء ) وطوء الشئی فھواوطییء : کے معنی کسی چیز کے پامال ہونے کے ہیں ۔ الوطاء ہر اس شے کو کہتے ہیں جو پاؤں کے نیچے روندی جائے جیسے فراش وغیرہ ۔ وطات لہ بفرشہ کسی کے لئے فراش بچھا نا ۔ وطا تہ ( ف ) برجل وطا ووطا ۃ ووطا ءۃ وتوطاحہ کسی چیز کو پاوں سے روند نا قرآن پاک میں ہے : ۔ إِنَّ ناشِئَةَ اللَّيْلِ هِيَ أَشَدُّ وَطْئاً [ المزمل/ 6] کچھ شک نہیں کہ رات کا اٹھنا ( نفس بہیمی کو ) سخت پامال کرتا ہے ۔ ایک قرات میں وطاء ہے اور حدیث میں ہے ( اللھم اشدد وطاتک علی مضر) اے اللہ مضر پر اپنی گرفت کو سخت کر یعنی انہیں ذلیل کر وطی امراء تہ عورت سے ہمبستری کرنا یہ لفظ اگر چہ اپنے اصل معنی کے لحاظ سے جماع کے معنی میں بطو ر کنایہ استعمال ہوتا ہے لیکن عرف میں بمنزلہ لفظ صریح کے ہیں ۔ المواطاۃ ۔ اس کے معنی موافقت کے آتے ہیں اور اصل معنی دوسرے کے نشان قدم پر اپنا قدم رکھنے کے ہیں چناچہ آیت آخر میں فرمایا ۔ لِيُواطِؤُا عِدَّةَ ما حَرَّمَ اللَّهُ [ التوبة/ 37] تاکہ ادب کے مہینوں کی جو خدا نے مقرر کئے ہیں ۔ گنتی پوری کرلیں ۔ ( صاب) مُصِيبَةُ والمُصِيبَةُ أصلها في الرّمية، ثم اختصّت بالنّائبة نحو : أَوَلَمَّا أَصابَتْكُمْ مُصِيبَةٌ قَدْ أَصَبْتُمْ مِثْلَيْها[ آل عمران/ 165] ، فَكَيْفَ إِذا أَصابَتْهُمْ مُصِيبَةٌالنساء/ 62] ، وَما أَصابَكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران/ 166] ، وَما أَصابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِما كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ [ الشوری/ 30] ، وأصاب : جاء في الخیر والشّرّ. قال تعالی:إِنْ تُصِبْكَ حَسَنَةٌ تَسُؤْهُمْ وَإِنْ تُصِبْكَ مُصِيبَةٌ [ التوبة/ 50] ، وَلَئِنْ أَصابَكُمْ فَضْلٌ مِنَ اللَّهِ [ النساء/ 73] ، فَيُصِيبُ بِهِ مَنْ يَشاءُ وَيَصْرِفُهُ عَنْ مَنْ يَشاءُ [ النور/ 43] ، فَإِذا أَصابَ بِهِ مَنْ يَشاءُ مِنْ عِبادِهِ [ الروم/ 48] ، قال : الإِصَابَةُ في الخیر اعتبارا بالصَّوْبِ ، أي : بالمطر، وفي الشّرّ اعتبارا بِإِصَابَةِ السّهمِ ، وکلاهما يرجعان إلى أصل . مصیبۃ اصل میں تو اس تیر کو کہتے ہیں جو ٹھیک نشانہ پر جا کر بیٹھ جائے اس کے بعد عرف میں ہر حادثہ اور واقعہ کے ساتھ یہ لفظ مخصوص ہوگیا ہے قرآن پاک میں ہے : ۔ أَوَلَمَّا أَصابَتْكُمْ مُصِيبَةٌ قَدْ أَصَبْتُمْ مِثْلَيْها[ آل عمران/ 165]( بھلا یہ ) کیا بات ہے کہ ) جب ( احد کے دن کفار کے ہاتھ سے ) تم پر مصیبت واقع ہوئی حالانکہ ( جنگ بدر میں ) اس سے دو چند مصیبت تمہارے ہاتھ سے انہیں پہنچ چکی تھی ۔ فَكَيْفَ إِذا أَصابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ [ النساء/ 62] تو کیسی ( ندامت کی بات ہے کہ جب ان پر کوئی مصیبت واقع ہوتی ہے ۔ وَما أَصابَكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران/ 166] اور جو مصیبت تم پر دونوں جماعتوں کے مابین مقابلہ کے دن واقع ہوئی ۔ وَما أَصابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِما كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ [ الشوری/ 30] اور جو مصیبت تم پر واقع ہوتی ہے سو تمہارے اپنے اعمال سے ۔ اور اصاب ( افعال ) کا لفظ خیرو شر دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ إِنْ تُصِبْكَ حَسَنَةٌ تَسُؤْهُمْ وَإِنْ تُصِبْكَ مُصِيبَةٌ [ التوبة/ 50] اے پیغمبر اگر تم کو اصائش حاصل ہوتی ہے تو ان کی بری لگتی ہے اور اگر مشکل پڑتی ہے ۔ وَلَئِنْ أَصابَكُمْ فَضْلٌ مِنَ اللَّهِ [ النساء/ 73] ، اور اگر خدا تم پر فضل کرے فَيُصِيبُ بِهِ مَنْ يَشاءُ وَيَصْرِفُهُ عَنْ مَنْ يَشاءُ [ النور/ 43] تو جس پر چاہتا ہے اس کو برسادیتا ہے اور جس سے چاہتا ہے پھیر دیتا ہے ۔ فَإِذا أَصابَ بِهِمَنْ يَشاءُ مِنْ عِبادِهِ [ الروم/ 48] پھر جب وہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے اسے برسا دیتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ جباصاب کا لفظ خیر کے معنی میں استعمال ہوتا ہے تو یہ صوب بمعنی بارش سے مشتق ہوتا ہے اور جب برے معنی میں آتا ہے تو یہ معنی اصاب السمھم کے محاورہ سے ماخوز ہوتے ہیں مگر ان دونوں معانی کی اصل ایک ہی ہے ۔ عرَّ قال تعالی: أَطْعِمُوا الْقانِعَ وَالْمُعْتَرَّ [ الحج/ 36] ، وهو المعترض للسّؤال، يقال : عَرَّهُ يَعُرُّهُ ، واعْتَرَرْتُ بک حاجتي، وَالعَرُّ والعُرُّ : الجرب الذي يَعُرُّ البدنَ. أي : يعترضه ومنه قيل للمضرّة : مَعَرَّةٌ ، تشبيها بالعُرِّ الذي هو الجرب . قال تعالی: فَتُصِيبَكُمْ مِنْهُمْ مَعَرَّةٌ بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الفتح/ 25] . والعِرَارُ : حكايةُ حفیفِ الرّيحِ ، ومنه : العِرَارُ لصوت الظّليم حكاية لصوتها، وقد عَارَّ الظّليم، والعَرْعَرُ : شجرٌ سمّي به لحكاية صوت حفیفها، وعَرْعَار : لُعبةٌ لهم حكاية لصوتها . ( ع ر ر ) المتعر وہ ہے جو کچھ لینے کے لئے تمہارے سامنے آئے قرآن پاک میں ہے : أَطْعِمُوا الْقانِعَ وَالْمُعْتَرَّ [ الحج/ 36] اور قناعت سے بیٹھے رہنے والوں اور سوال کرنے والوں کو بھی کھلاؤ ۔ عرہ یعرہ کے معنی ہیں بخشش طلب کرنے کے لئے کسی کے سامنے آنا : ۔ اعتزرت بک حاجتی : میں نے اپنی ضرورت تمہارے سامنے پیش کی ۔ العروالعر : خارش کی بیماری کو کہتے ہیں جو بدن کو عارض ہوجاتی ہے اس مناسبت سے معرۃ کا لفظ ہر قسم کی مضرت پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ فَتُصِيبَكُمْ مِنْهُمْ مَعَرَّةٌ بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الفتح/ 25] مبادا انہیں ان کی طرف سے بیخبر ی میں کوئی نقصان پہنچ جائے ۔ العرار ۔ اس سنسنا ہٹ کو کہتے ہیں جو تیز ہوا کے چلنے سے پیدا ہوتی ہے پھر تشبیہا نر شتر مرغ کی آواز کی ۔ العر عر ( شمشا د کی قسم کا ) ایک درخت جو ہوا کے چلنے سے گونجتا ہے عر عار : ایک قسم کا بچوں کا کھیل ( جس میں وہ یہ کلمہ بولنے ہیں تاکہ دوسرے بچے اپنے چھپنے کی جگہ سے باہر نکل آئیں ) غير أن تکون للنّفي المجرّد من غير إثبات معنی به، نحو : مررت برجل غير قائم . أي : لا قائم، قال : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص/ 50] ، ( غ ی ر ) غیر اور محض نفی کے لئے یعنی اس سے کسی دوسرے معنی کا اثبات مقصود نہیں ہوتا جیسے مررت برجل غیر قائم یعنی میں ایسے آدمی کے پاس سے گزرا جو کھڑا نہیں تھا ۔ قرآن میں ہے : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص/ 50] اور اس سے زیادہ کون گمراہ ہوگا جو خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کے پیچھے چلے دخل الدّخول : نقیض الخروج، ويستعمل ذلک في المکان، والزمان، والأعمال، يقال : دخل مکان کذا، قال تعالی: ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة/ 58] ( دخ ل ) الدخول ( ن ) یہ خروج کی ضد ہے ۔ اور مکان وزمان اور اعمال سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے کہا جاتا ہے ( فلاں جگہ میں داخل ہوا ۔ قرآن میں ہے : ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة/ 58] کہ اس گاؤں میں داخل ہوجاؤ ۔ رحم والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین . ( ر ح م ) الرحم ۔ الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] لوگو ! تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے ) شاء والْمَشِيئَةُ عند أكثر المتکلّمين كالإرادة سواء، وعند بعضهم : المشيئة في الأصل : إيجاد الشیء وإصابته، وإن کان قد يستعمل في التّعارف موضع الإرادة، فالمشيئة من اللہ تعالیٰ هي الإيجاد، ومن الناس هي الإصابة، قال : والمشيئة من اللہ تقتضي وجود الشیء، ولذلک قيل : ( ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن) والإرادة منه لا تقتضي وجود المراد لا محالة، ألا تری أنه قال : يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة/ 185] ، وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر/ 31] ، ومعلوم أنه قد يحصل العسر والتّظالم فيما بين الناس، قالوا : ومن الفرق بينهما أنّ إرادةالإنسان قد تحصل من غير أن تتقدّمها إرادة الله، فإنّ الإنسان قد يريد أن لا يموت، ويأبى اللہ ذلك، ومشيئته لا تکون إلّا بعد مشيئته لقوله : وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان/ 30] ، روي أنّه لما نزل قوله : لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير/ 28] ، قال الکفّار : الأمر إلينا إن شئنا استقمنا، وإن شئنا لم نستقم، فأنزل اللہ تعالیٰ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ وقال بعضهم : لولا أن الأمور کلّها موقوفة علی مشيئة اللہ تعالی، وأنّ أفعالنا معلّقة بها وموقوفة عليها لما أجمع الناس علی تعلیق الاستثناء به في جمیع أفعالنا نحو : سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّابِرِينَ [ الصافات/ 102] ، سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ صابِراً [ الكهف/ 69] ، يَأْتِيكُمْ بِهِ اللَّهُ إِنْ شاءَ [هود/ 33] ، ادْخُلُوا مِصْرَ إِنْ شاءَ اللَّهُ [يوسف/ 69] ، قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا إِلَّا ما شاء اللَّهُ [ الأعراف/ 188] ، وَما يَكُونُ لَنا أَنْ نَعُودَ فِيها إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ رَبُّنا [ الأعراف/ 89] ، وَلا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فاعِلٌ ذلِكَ غَداً إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الكهف/ 24] . ( ش ی ء ) الشیئ المشیئۃ اکثر متکلمین کے نزدیک مشیئت اور ارادہ ایک ہی صفت کے دو نام ہیں لیکن بعض کے نزدیک دونوں میں فرق سے ( 1 ) مشیئت کے اصل معنی کسی چیز کی ایجاد یا کسی چیز کو پا لینے کے ہیں ۔ اگرچہ عرف میں مشیئت ارادہ کی جگہ استعمال ہوتا ہے پس اللہ تعالیٰ کی مشیئت کے معنی اشیاء کو موجود کرنے کے ہیں اور لوگوں کی مشیئت کے معنی کسی چیز کو پالینے کے ہیں پھر اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کو چاہنا چونکہ اس کے وجود کو مقتضی ہوتا ہے اسی بنا پر کہا گیا ہے ۔ ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن کہ جو اللہ تعالیٰ چاہے وہی ہوتا ہے اور جو نہ چاہے نہیں ہوتا ۔ ہاں اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کا ارادہ کرنا اس کے حتمی وجود کو نہیں چاہتا چناچہ قرآن میں ہے : ۔ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة/ 185] خدا تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور سختی نہیں چاہتا ۔ وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر/ 31] اور خدا تو بندوں پر ظلم کرنا نہیں چاہتا ۔ کیونکہ یہ واقعہ ہے کہ لوگوں میں عسرۃ اور ظلم پائے جاتے ہیں ۔ ( 2 ) اور ارادہ میں دوسرا فرق یہ ہے کہ انسان کا ارادہ تو اللہ تعالیٰ کے ارادہ کے بغیر ہوسکتا ہے مثلا انسان چاہتا ہے کہ اسے موت نہ آئے لیکن اللہ تعالیٰ اس کو مار لیتا ہے ۔ لیکن مشیئت انسانی مشئیت الہیٰ کے بغیروجود ہیں نہیں آسکتی جیسے فرمایا : ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان/ 30] اور تم کچھ بھی نہیں چاہتے مگر وہی جو خدائے رب العلمین چاہے ایک روایت ہے کہ جب آیت : ۔ لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير/ 28] یعنی اس کے لئے جو تم میں سے سیدھی چال چلنا چاہے ۔ نازل ہوئی تو کفار نے کہا ہے یہ معاملہ تو ہمارے اختیار میں ہے کہ ہم چاہیں تو استقامت اختیار کریں اور چاہیں تو انکار کردیں اس پر آیت کریمہ ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ «1» نازل ہوئی ۔ بعض نے کہا ہے کہ اگر تمام امور اللہ تعالیٰ کی مشیئت پر موقوف نہ ہوتے اور ہمارے افعال اس پر معلق اور منحصر نہ ہوتے تو لوگ تمام افعال انسانیہ میں انشاء اللہ کے ذریعہ اشتشناء کی تعلیق پر متفق نہیں ہوسکتے تھے ۔ قرآن میں ہے : ۔ سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّه مِنَ الصَّابِرِينَ [ الصافات/ 102] خدا نے چاہا تو آپ مجھے صابروں میں پائے گا ۔ سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ صابِراً [ الكهف/ 69] خدا نے چاہا تو آپ مجھے صابر پائیں گے ۔ يَأْتِيكُمْ بِهِ اللَّهُ إِنْ شاءَ [هود/ 33] اگر اس کو خدا چاہے گا تو نازل کریگا ۔ ادْخُلُوا مِصْرَ إِنْ شاءَ اللَّهُ [يوسف/ 69] مصر میں داخل ہوجائیے خدا نے چاہا تو ۔۔۔۔۔۔۔ قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا إِلَّا ما شاء اللَّهُ [ الأعراف/ 188] کہدو کہ میں اپنے فائدے اور نقصان کا کچھ بھی اختیار نہیں رکھتا مگر جو خدا چاہے وما يَكُونُ لَنا أَنْ نَعُودَ فِيها إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّہُ رَبُّنا [ الأعراف/ 89] ہمیں شایان نہیں کہ ہم اس میں لوٹ جائیں ہاں خدا جو ہمارا پروردگار ہے وہ چاہے تو ( ہم مجبور ہیں ) ۔ وَلا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فاعِلٌ ذلِكَ غَداً إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الكهف/ 24] اور کسی کام کی نسبت نہ کہنا کہ میں اسے کل کروں گا مگر ان شاء اللہ کہہ کر یعنی اگر خدا چاہے ۔ لو لَوْ : قيل : هو لامتناع الشیء لامتناع غيره، ويتضمّن معنی الشرط نحو : قوله تعالی: قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء/ 100] ( لو ) لو ( حرف ) بعض نے کہا ہے کہ یہ امتناع الشئی لا متناع غیر ہ کے لئے آتا ہے ( یعنی ایک چیز کا دوسری کے امتناع کے سبب ناممکن ہونا اور معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء/ 1 00] کہہ دو کہ اگر میرے پروردگار کی رحمت کے خزانے تمہارے ہاتھ میں ہوتے ۔ زال زَالَ الشیء يَزُولُ زَوَالًا : فارق طریقته جانحا عنه، وقیل : أَزَلْتُهُ ، وزَوَّلْتُهُ ، قال : إِنَّ اللَّهَ يُمْسِكُ السَّماواتِ وَالْأَرْضَ أَنْ تَزُولا [ فاطر/ 41] زول زال الشئ یزول زوالا کسی چیز کا اپنا صحیح رخ چھوڑ کر ایک جانب مائل ہونا ( اپنی جگہ سے ہٹ کر جانا اور ازلتہ وزولتہ کے معنی ہیں ایک جانب مائل کردینا ۔ کسی چیز کو اس کو اس کی جگہ سے ہٹا دینا ۔ قرآن میں ہے : إِنَّ اللَّهَ يُمْسِكُ السَّماواتِ وَالْأَرْضَ أَنْ تَزُولا [ فاطر/ 41] عذب والعَذَابُ : هو الإيجاع الشّديد، وقد عَذَّبَهُ تَعْذِيباً : أكثر حبسه في العَذَابِ. قال : لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل/ 21] واختلف في أصله، فقال بعضهم : هو من قولهم : عَذَبَ الرّجلُ : إذا ترک المأكل والنّوم فهو عَاذِبٌ وعَذُوبٌ ، فَالتَّعْذِيبُ في الأصل هو حمل الإنسان أن يُعَذَّبَ ، أي : يجوع ويسهر، ( ع ذ ب ) العذاب سخت تکلیف دینا عذبہ تعذیبا اسے عرصہ دراز تک عذاب میں مبتلا رکھا ۔ قرآن میں ہے ۔ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل/ 21] میں اسے سخت عذاب دوں گا ۔ لفظ عذاب کی اصل میں اختلاف پا یا جاتا ہے ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عذب ( ض ) الرجل کے محاورہ سے مشتق ہے یعنی اس نے ( پیاس کی شدت کی وجہ سے ) کھانا اور نیند چھوڑدی اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب وعذوب کہا جاتا ہے لہذا تعذیب کے اصل معنی ہیں کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر اکسانا كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ ألم الأَلَمُ الوجع الشدید، يقال : أَلَمَ يَأْلَمُ أَلَماً فهو آلِمٌ. قال تعالی: فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَما تَأْلَمُونَ [ النساء/ 104] ، وقد آلمت فلانا، و عذاب أليم، أي : مؤلم . وقوله : لَمْ يَأْتِكُمْ [ الأنعام/ 130] فهو ألف الاستفهام، وقد دخل علی «لم» . ( ا ل م ) الالم کے معنی سخت درد کے ہیں کہا جاتا ہے الم یالم ( س) أَلَمَ يَأْلَمُ أَلَماً فهو آلِمٌ. قرآن میں ہے :۔ { فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَمَا تَأْلَمُونَ } ( سورة النساء 104) تو جس طرح تم شدید درد پاتے ہو اسی طرح وہ بھی شدید درد پاتے ہیں ۔ اٰلمت فلانا میں نے فلاں کو سخت تکلیف پہنچائی ۔ اور آیت کریمہ :۔ { وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ } ( سورة البقرة 10 - 174) میں الیم بمعنی مؤلم ہے یعنی دردناک ۔ دکھ دینے والا ۔ اور آیت :۔ اَلَم یَاتِکُم (64 ۔ 5) کیا تم کو ۔۔ نہیں پہنچی ۔ میں الف استفہام کا ہے جو لم پر داخل ہوا ہے ( یعنی اس مادہ سے نہیں ہے )

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

قربانی کا اصل مقام حدود حرم ہے قول باری ہے (والھدی معکوفا ان یبلغ محلہ۔ اور (انہوں نے) قربانی کے جانور کو جو رکا ہوا رہ گیا تھا اس کی قربانی کی جگہ پر پہنچنے سے روک دیا تھا) آیت سے وہ لوگ استدلال کرتے ہیں جو دم احصار کو غیر حرم میں ذبح کرنے کے جواز کے قائل ہیں کیونکہ آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ قربانی کا جانور اپنی قربانی کی جگہ پر پہنچنے سے روک دیا گیا تھا۔ اگر یہ جانور حدود حرم میں پہنچ کر وہاں ذبح ہوجانا تو محبوس یعنی رکا ہوا نہ کہلاتا۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ ان حضرات جس طرح سوچا ہے بات اس طرح نہیں ہے۔ اس لئے کہ ابتداء میں ہدی کو قربانی کی جگہ پر پہنچے سے روک دیا گیا تھا۔ جب صلح ہوگئی تو رکاوٹ دور ہوگئی اور بدی اپنی قربانی کی جگہ پر پہنچ گئی اور وہاں اسے ذبح کردیا گیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر رکاوٹ کم سے کم وقت کے لئے بھی پیدا ہوجائے تو یہ کہنا درست ہوتا ہے کہ رکاوٹ پیدا ہوگئی ہے جس طرح یہ قول باری ہے (قالوا یا ابانا منع منا الکیل۔ بیٹوں نے کہا ابا جان ! غلے کی ناپ تو ل ہمارے لئے روک دی گئی) حالانکہ ناپ تول ایک وقت کے لئے رکی رہی پھر دوسرے وقت میں یہ رکاوٹ ختم کردی گئی تھی۔ آیت میں اس امر پر دلالت موجود ہے کہ قربانی کی جگہ حرم ہے۔ اس لئے کہ ارشادباری ہے (و الھدی معکوفا ان یبلغ محلہ) اس سے یہ بات واجب ہوگئی کہ قول باری (ولا تحلقوا رذسکم حتی یبلغ الھدی محلہ۔ اور تم اپنے سر نہ مونڈو جب تک بدی اپنی قربانی کی جگہ پر نہ پہنچ جائے) میں قربانی کی جگہ حرم کو قرار دیا جائے۔ یہ جانتے ہوئے کہ مشرکین کے اندر مسلمانوں کے بچے اور قیدی موجود ہیں ان پر تیراندازی کا حکم امام ابوحنیفہ، امام ابویوسف، امام محمد، زفر اور سفیان ثوری کا قول ہے کہ مشرکین کے قلعوں پر تیر چلانے میں کوئی حرج نہیں ہے خواہ ان قلعوں میں مسلمانوں کے بچے اور ان کے قیدی کیوں نہ موجودہوں۔ ان قلعوں کو آگ لگا دینے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے بشرطیکہ نیت مشرکین کو نقصان پہنچانے کی ہو۔ اسی طرح اگر مشرکین مسلمانوں کے بچوں کو ڈھال بنالیں تو اس صورت میں بھی ان پر تیر برسائے جائیں گے اگر تیروں کی زد میں کوئی بچہ یا قیدی آجائے گا تو اس کی نہ دیت ہوگی اور نہ کفارہ۔ ثوری کا قول ہے کہ اس صورت میں کفارہ لازم ہوگا دیت واجب نہیں ہوگی۔ امام مالک کا قول ہے کہ کفاروں کی کشتی میں اگر مسلمان قیدی موجودہوں تو اسے آگ نہیں لگائی جائے گی کیونکہ قول باری ہے (لو تویلوا لعذبنا الذین کفروا منھم عذابا الیما۔ اگر یہ (بےکس مسلمان) ٹل گئے ہوتے تو ان (مکہ والوں) میں سے جو کافر تھے انہیں ہم دردناک عذاب دیتے) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان مشرکین مکہ سے اپنا ہاتھ صرف اس لئے روک دیا تھا کہ ان میں مسلمان موجود تھے۔ اگر کافر مسلمانوں سے الگ ہوتے تو اللہ تعالیٰ کافروں کو سزا دیتا۔ اوزاعی کا قول ہے کہ کافر اگر مسلمان بچوں کو ڈھال کے طور پر استعمال کریں تو ان پر تیراندازی نہیں کی جائے گی کیونکہ قول باری ہے (ولولا رجال مومنون اور اگر اہل ایمان مرد نہ ہوتے) تاآخر آیت۔ اوزاعی کا یہ بھی قول ہے کہ جس کشتی میں مسلمان موجود ہوں کافروں کی ایسی کشتی پر آگ نہیں برسائی جائے گی۔ البتہ اگر کافروں کے قلعوں میں مسلمان قیدی ہوں تو ان پر منجنیق کے ذریعے پتھر پھینکے جائیں گے اگر پتھر کسی مسلمان کو لگ جائے گا تو اسے خطا شمار کیا جائے گا۔ اگر قلعہ والے کافر مسلمانوں کو ڈھال بنالیں تو ان پر تیراندازی کی جائے گی اور نیت دشمنوں کو مارنے کی ہوگی۔ لیث بن سعد کا بھی یہی قول ہے۔ امام شافعی کا قول ہے کہ اگر کافروں کے قلعے میں مسلمانوں کے بچے اور قیدی موجود ہوں تو اس پر تیربرسانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اگر کوئی مسلمان تیروں کی زد میں آجائے گا تو اس کی وجہ سے کوئی دیت یا کفارہ لازم نہیں آئے گا۔ اگر کافر ان مسلمانوں کو ڈھال کے طور پر استعمال کریں تو اس صورت میں امام شافعی سے دو قول منقول ہیں۔ ایک قول تو یہ ہے کہ کافروں پر تیراندازی کی جائے گی اور دوسرا قول یہ ہے کہ تیر اندازی نہیں کی جائے گی الایہ کہ مسلمان اور کافر گڈمڈ ہوں۔ اس صورت میں کافروں کو نشانہ بنایا جائے گا اور مسلمان کو حتی الامکان نشانہ بننے سے بچایا جائے گا۔ لیکن تیر چلانے والا اس حالت میں اگر کسی مسلمان کو ماردے گا تو قاتل پر دیت اور غلام آزاد کرنا واجب ہوگا بشرطیکہ اسے یہ معلوم ہو کہ اس نے مسلمان کو نشانہ بنایا ہے۔ اگر اسے اس کا علم نہ ہو تو صرف غلام آزاد کرنا واجب ہوگا۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ اہل سیر نے یہ روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے طائف والوں کے گرد محاصرہ قائم کردیا تھا اور ان پر منجنیق سے پتھر پھینکے تھے لیکن آپ نے عورتوں اور بچوں کو نشانہ بنانے سے منع کردیا تھا حالانکہ آپ کو اس بات کا علم تھا کہ یہ پتھر عورتوں اور بچوں کو بھی نشانہ بنانے سے منع کردیا تھا حالانکہ آپ کو اس بات کا علم تھا کہ یہ پتھر عورتوں اور بچوں کو بھی لگ سکتے ہیں ۔ آپ نے مسلمانوں کو یہ اجازت نہیں دی تھی کہ وہ عورتوں اور بچوں کو جان بوجھ کر نشانہ بنائیں۔ یہ بات اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ اہل حرب کے درمیان مسلمانوں کی موجودگی انہیں نشانہ بنانے کی راہ میں حائل نہیں ہوتی بشرطیکہ مشرکین کو نشانہ بنانے کا ارادہ ہو مسلمانوں کو نشانہ بنانے کا ارادہ نہ ہو۔ زہری نے عبید اللہ بن عبداللہ سے، انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے اور انہوں نے صعب بن جثامہ سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ان مشرکین کے اہل خاندان کے متعلق پوچھا گیا تھا جن پر شبخون ماری جائے اور اس کاروائی کے دوران بچوں اور عورتوں کو بھی نقصان پہنچ جائے، آپ نے جواب میں فرمایا تھا (ھم منھم یہ بچے اور عورتیں بھی ان مشرکین میں سے ہیں) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت اسامہ بن زید (رض) کو لشکر دے کر بھیجا تھا اور انہیں یہ حکم دیا تھا کہ ابنی (ایک مقام کا نام) پر صبح کے وقت حملہ کردیں اور وہاں آگ لگادیں۔ آپ جب فوجی مہمات روانہ کرتے تو انہیں حکم دیتے کہ حملہ کرنے کے پہلے انتظار کریں اگر دوسری جانب سے اذان کی آواز آجائے تو حملے سے با زرہیں اور اگر اذان کی آواز نہ سنیں تو حملہ کردیں۔ خلفائے راشدین نے بھی یہی طریق کاراختیار کیا تھا۔ اب یہ بات تو ظاہر ہے کہ ان لوگوں پر حملہ کرنے والوں کے حملے کی زد میں عورتیں اور بچے بھی آتے ہوں گے جن کے قتل کی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ممانعت فرمادی تھی۔ اس لئے یہی بات اس وقت بھی ہونی چاہیے جب ان دشمنوں کے اندر مسلمان قیدی وغیرہ موجود ہوں۔ ان کے اندر مسلمانوں کی موجودگی ان پر دھاوا بولنے اور انہیں تیروں پر رکھ لینے کی راہ میں ہرگز رکاوٹ نہ بنے۔ خواہ اس میں مسلمانوں کے جانی نقصان کا خطرہ کیوں نہ ہو۔ اگر یہ کہا جائے کہ یہ بات اس طرح جائز ہوئی تھی کہ مشرکین کی اولاد اور ان کی عورتوں کا شمار مشرکین میں ہوتا تھا۔ جیسا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت صعب بن جثامہ کی روایت میں فرمایا تھا۔ اسے اس صورت پر منطبق نہیں کیا جاسکتا جب کفار کے درمیان مسلمان قیدی وغیرہ ہوں۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ کہنا درست نہیں ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مراد یہ تھی کہ کافروں کی اولاد کفر کے لحاظ سے ان میں شمار ہوتی ہے کیونکہ بچے حقیقت میں کافر نہیں ہوتے اور نہ ہی دیت اور کفارہ کے سقوط کے باب میں وہ اپنے آباء کے فعل کی بنا پر قتل یا دیگر سزائوں کے مستحق قرار پاتے ہیں۔ جن حضرات نے کافروں کے اندر مسلمانوں کی موجودگی کی صورت میں ان پر تیر چلانے کی ممانعت کے سلسلے میں آیت (ولو لا رجال مومنون) تا آخر آیت سے استدلال کیا ہے تو درحقیقت ان کا یہ استدلال بہت کمزور ہے کیونکہ آیت میں اختلافی نکتے پر کوئی دلالت موجود نہیں ہے۔ اس میں زیادہ سے زیادہ جو بات ہے وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ان پر حملہ کرنے سے اس لئے روک دیا تھا کہ ان میں مسلمان بھی موجود تھے اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کرام کو خدشہ تھا کہ اگر وہ تلوار چلاتے ہوئے مکہ میں داخل ہوں گے تو اس کی زد میں مکہ میں موجود مسلمان بھی آجائیں گے۔ یہ بات کافروں پر تیراندازی اور حملہ نہ کرنے کی اباحت پر دلالت کرتی ہے ان پر حملہ کرنے کی ممانعت پر جبکہ حملہ کرنے والوں کو یہ معلوم ہو کہ دشمنوں کے اندر مسلمان بھی موجود ہیں دلالت نہیں کرتی۔ اس لئے کہ یہ ممکن ہے کہ مسلمانوں کی موجودگی کی بنا پر حملہ نہ کرنے کی اباحت ہوئی ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ تخییر کے طور پر حملہ کرنے کی اباحت کردی گئی ہو اس لئے آیت میں حملہ کرنے کی ممانعت پر کوئی دلالت نہیں ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ آیت کے مضمون میں حملہ کرنے کی ممانعت موجود ہے کیونکہ ارشاد ہے (لم تعلموھم ان تطوئوھم قتصیبکم منھم محرۃ بغیر علم۔ جن کی تمہیں خبر نہ تھی یعنی ان کے کچل جانے کا احتمال نہ ہوتا جس پر ان کے باعث تمہیں بھی نادانستگی میں ضرر پہنچتا) اگر ممانعت نہ ہوتی تو انہیں قتل کرنے اور نقصان پہنچانے کی بنا پر حملہ کرنے والے مسلمانوں کو ضرور نہ پہنچتا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اس مقام پر لفظ ” معرۃ “ کے معنی میں اختلاف رائے ہے۔ ابن اسحاق سے مروی ہے کہ اس سے دیت کا جرمانہ مراد ہے۔ دوسرے حضرات کا قول ہے کہ اس سے کفارہ مراد ہے۔ ان کے علاوہ دوسرے حضرات نے اس سے وہ صدمہ مراد لیا ہے جو اتفاقیہ طور پر مسلمانوں کے ہاتھ سے ایک مسلمان کے قتل ہوجانے کی بنا پر انہیں لاحق ہوتا ہے کیونکہ مسلمانوں کو اس بات کا صدمہ ضرور ہوتا ہے کہ ان کے ہاتھوں بلا ارادہ کس مسلمان کی جان چلی جائے۔ بعض حضرات نے اس سے عیب مراد لی ہے۔ بعض سے یہ منقول ہے کہ معرہ گناہ کو کہتے ہیں۔ لیکن یہ تاویل غلط ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے یہ بتادیا ہے کہ اگر کسی مسلمان کا خون ہوجاتا تو یہ ہماری لاعلمی میں ہوتا چناچہ ارشاد باری ہے (لم تعلموھم ان تطئو ھم فتصیبکم منھم معدۃ بغیر علم) جس چیز کا ایک شخص کو علم نہ ہو اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس پر کوئی دلیل بھی قائم نہ کی گئی ہو اس کے کرلینے میں اس پر کوئی گناہ لازم نہیں آتا۔ ارشاد باری ہے (ولیس علیکم جناح فیما اخطاتم بہ ولکن ما تعمدت قلوبکم۔ اور تم پر اس کام میں کوئی گناہ نہیں جو تم سے غلطی سے سرزد ہوگیا۔ ہو لیکن گناہ اس کام میں ہے جو تمہارے دل جان بوجھ کر کریں) اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوگئی کہ آیت زیر بحث میں گناہ مراد نہیں ہے۔ یہاں یہ بھی احتمال ہے کہ یہ حکم حرم کی حرمت کی بنا پر اہل مکہ کے ساتھ خاص تھا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ جو شخص قتل کا سزاوار ہو اگر وہ حرم میں پناہ لے لے تو ہمارے نزدیک اسے قتل نہیں کیا جائے گا۔ اسی طرح حربی کا فر بھی اگر حرم میں پناہ لے لے اسے قتل نہیں کیا جائے گا۔ قتل صرف ایسے شخص کو کیا جائے گا جو حرم میں جرم کرکے اس کی حرمت کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوا ہو۔ اس لئے مسلمانوں کو مکہ والوں پر حملے کی جو ممانعت کردی گئی تھی اس کی وجہ حرم کی حرمت تھی۔ یہ بھی احتمال ہے کہ آیت میں اللہ کی مراد یہ ہو کہ ” اگر ایسے مسلمان مراد اور مسلمان عورتیں نہ ہوتیں جن کے متعلق اللہ کے علم میں یہ بات تھی کہ وہ ان کافروں کی اولاد میں ہوں گی بشرطیکہ ان کافروں کو قتل نہ کیا جائے۔ “ اس لئے ہمیں ان کافروں کو قتل کرنے سے روک دیا گیا کیونکہ اللہ کے علم میں یہ بات تھی کہ ان کی اولاد میں مسلمان بھی ہوں گے۔ چونکہ اللہ کے علم میں یہ بات تھی کہ اگر ان کافروں کو زندہ رہنے دیا گیا تو ان کی اولاد میں مسلمان بھی ہوں گے اس لئے اللہ نے انہیں زندہ رہنے دیا اور ان کے قتل کا حکم نہیں دیا۔ قول باری (لو تذیلوا) کا درج بالا تاویل کی بنا پر مفہوم یہ ہوگا کہ یہ اہل ایمان جو ان کافروں کے اندر مسلمان موجود ہیں ان کافروں پر حملہ آور ہونے کا جواز ہے تو ضروری ہے کہ یہی حکم اس وقت بھی ثابت ہو جب کافر مسلمانوں کو ڈھال کے طور پر استعمال کریں۔ کیونکہ دونوں صورتوں میں کافروں کا نشانہ بنانا مقصود ہوتا ہے، مسلمانوں کو نہیں۔ اگر کوئی مسلمان حملے کی زد میں آجائے تو نہ اس کی دیت واجب ہوگی اور نہ ہی کفارہ ۔ جس طرح کافروں کے قلعے پر حملہ کرنے کی صورت میں قلعے کے اندر رہنے والا کوئی مسلمان اگر زد میں آجاتا ہے تو اس کی نہ توردیت ہوتی ہے اور نہ ہی کفارہ۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ اس علم کے باوجود کہ محاذ کے فلاں طرف مسلمان موجود ہیں ہمارے لئے اس جہت میں تیر برسانے کی اباحت ہے اس لئے ان مسلمانوں کی حیثیت ان لوگوں کی طرح ہوگئی جن کے قتل کی اباحت ہوتی ہے اس لئے اس قتل میں کوئی چیز واجب نہیں ہوگی۔ آیت میں مذکور لفظ نہ تودیت ہے اور نہ ہی کفارہ کیونکہ نہ تو لفظی اعتبار سے دیت یا کفارہ پر اس کی دلالت ہے اور نہ کسی اور اعتبار سے اس لئے زیادہ طاہر بات یہی ہے کہ اس لفظ سے مراد وہ صدمہ ہے جو ایک مسلمان کو اس وقت لاحق ہوتا ہے جب اس کے ہاتھ سے اتفاقیہ طور پر کسی مسلمان کا خون ہوجاتا ہے کیونکہ ایسی صورت میں صدمہ کا لاحق ہونا ایک فطری امر ہوتا ہے اور دستور بھی یہی ہے۔ جن حضرات نے اس لفظ کی تاویل عیب سے کی ہے ان کی اس تاویل کی بھی گنجائش ہے کیونکہ عرف اور عادت میں ایسے شخص پر انگشت نمائی ضرور کی جاتی ہے جس کے ہاتھوں غلطی سے اتفاقیہ طور پر کسی مسلمان کا خون ہوگیا ہو اگرچہ یہ انگشت نمائی سزا کے طور پر نہ بھی ہوتی ہو۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور وہ لوگ یعنی اہل مکہ جنہوں نے کفر کیا اور تمہیں حدیبیہ کے سال مسجد حرام سے روکا اور قربانی کے جانور کو بھی اس کے موقع پر پہنچنے سے روکا کہ وہ حدیبیہ ہی میں رہ گیا۔ اور اگر اس وقت مکہ مکرمہ میں بہت سے مسلمان مرد جیسا کہ ولید سلمہ بن ہشام، عیاش بن ربیعہ، ابو جندل اور بہت سی مسلمان عورتیں نہ ہوتیں جن کی تمہیں خبر بھی نہ تھی یعنی ان کے قتل ہونے کا خدشہ نہ ہوتا جس پر ان کی وجہ سے تمہیں بھی بیخبر ی میں گناہ اور دیت کا نقصان پہنچتا تو ابھی تمہیں ان پر مسلط کر کے ان کا سارا قصہ ہی ختم کردیا تھا۔ تاکہ اللہ تعالیٰ اپنے دین کی اس کو دولت عطا فرمائے جو اس چیز کا اہل ہو البتہ اگر یہ مزکور مسلمان مکہ والوں کے درمیان سے کہیں ٹل گئے ہوتے تو ہم ان مکہ والوں میں سے جو کافر تھے دردناک سزا دیتے اور مسلمانوں کی تلواروں سے ان کی گردنیں کٹواتے۔ شان نزول : وَلَوْلَا رِجَالٌ مُّؤْمِنُوْنَ (الخ) طبرانی اور ابو یعلی نے ابو جمعہ جنید بن سبع سے روایت کیا ہے بیان کرتے ہیں کہ دنیا کے ابتدائی حصہ میں میں نے رسول رسول اکرم سے کفر کی حالت میں قتال کیا اور اخیر حصہ میں آپ کے ساتھ شامل ہو کر اسلام کی حالت میں کفار سے لڑا اور ہم تین آدمی اور سات عورتیں تھے ہمارے ہی بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٥ { ہُمُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَصَدُّوْکُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَالْہَدْیَ مَعْکُوْفًا اَنْ یَّبْلُغَ مَحِلَّہٗ } ” وہی لوگ ہیں جنہوں نے کفر کیا اور تمہیں روکے رکھا مسجد ِحرام تک جانے سے اور قربانی کے جانور بھی روکے گئے اپنی جگہ پہنچنے سے۔ “ یہ ان جرائم کا تذکرہ ہے جن کا ارتکاب قریش مکہ نے اس پورے واقعے کے دوران کیا تھا۔ انہوں نے نہ صرف مسلمانوں کو احرام کی حالت میں ہوتے ہوئے بھی بیت اللہ کے طواف سے روکا بلکہ ان کے قربانی کے جانوروں کو بھی قربان گاہوں تک نہ پہنچنے دیا۔ لیکن اس سب کچھ کے باوجود اللہ تعالیٰ نے فریقین کے ہاتھوں کو ایک دوسرے کی طرف بڑھنے سے روک دیا اور اس ممکنہ جنگ کو ٹال دیا۔ اللہ تعالیٰ کے اس فیصلے میں جو حکمت کارفرما تھی اب اس کا ذکر ہو رہا ہے : { وَلَوْلَا رِجَالٌ مُّؤْمِنُوْنَ وَنِسَآئٌ مُّؤْمِنٰتٌ لَّمْ تَعْلَمُوْہُمْ اَنْ تَطَئُوْہُمْ فَتُصِیْبَکُمْ مِّنْہُمْ مَّعَرَّۃٌ بِغَیْرِ عِلْمٍ } ” اور اگر نہ ہوتے (مکہ میں موجود) ایسے مومن مرد اور مومن عورتیں جنہیں تم نہیں جانتے تھے ‘ اندیشہ تھا کہ تم لوگ انہیں بھی کچل دیتے تو ان کے بارے میں تم پر الزام آتا بیخبر ی میں (تو جنگ نہ روکی جاتی) ۔ “ عین موقع پر جنگ کو روکنے میں دراصل یہ حکمت پوشیدہ تھی کہ اس وقت تک مکہ میں بہت سے ایسے اہل ِ ایمان افراد موجود تھے جو کسی نہ کسی وجہ سے ہجرت نہیں کرسکے تھے۔ اس میں ضعفاء بھی تھے ‘ مریض بھی تھے اور عورتیں بھی تھیں۔ ان لوگوں کا ذکر سورة النساء کے چودھویں رکوع میں بھی آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کی معذوری کو دیکھتے ہوئے انہیں معاف کر دے گا اور ہجرت نہ کرسکنے کی بنا پر ان سے مواخذہ نہیں کرے گا۔ چناچہ ایسے لوگوں کی شہر میں موجودگی کی صورت میں جب جنگ کی چکی ّچلتی تو یہ بےگناہ لوگ بھی اس میں پس جاتے اور الٹا مسلمانوں پر ان سے متعلق الزام بھی آتا کہ انہوں نے اپنے ہی اہل ایمان ساتھیوں کو قتل کردیا ہے۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے اسی لیے ممکنہ جنگ کو روک دیا اور مسلمانوں کو بغیر لڑے صلح کی شکل میں فتح دے دی۔ { لِیُدْخِلَ اللّٰہُ فِیْ رَحْمَتِہٖ مَنْ یَّشَآئُ } ” (جنگ اس لیے روکی گئی) تاکہ اللہ داخل کرے اپنی رحمت میں جس کو چاہے۔ “ { لَوْ تَزَیَّلُوْا لَـعَذَّبْنَا الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْہُمْ عَذَابًا اَلِیْمًا } ” اگر وہ (اہل ِایمان) علیحدہ ہوچکے ہوتے تو ان (اہل ّمکہ) میں سے جو کافر تھے ان کو ہم ایک دردناک عذاب کا مزہ چکھا دیتے۔ “ اگر وہ کمزور اور معذور اہل ایمان اس وقت تک مکہ سے نکل چکے ہوتے تو ہم یہ جنگ ہونے دیتے اور مسلمانوں کے ہاتھوں قریش مکہ کو ان کے جرائم کی بدترین سزا دلواتے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

43 That is, "Allah was seeing the sincerity and the selfless devotion with which you had become ready to lay down your lives in the cause of the true Faith and were obeying the Prophet without any question. Allah was also seeing that the disbelievers were being unfair and high-handed. The demand of this situation was that they should have been punished there and then through you, but in spite of that. AIIah restrained your hands from them and their hands from you." 44 This was the reason why Allah did not allow fighting to take place at Hudaibiyah. This has two aspects: (I) That at that time there were quite a number of the Muslim men and women living in Makkah, who were either hiding their faith, or were being persecuted because of their faith as they had no means to emigrate. Had there been fighting and the Muslims had pushed back the disbelievers and entered Makkah, these Muslims also would have been killed in ignorance along with the disbelievers. This would not only have grieved the Muslims but the Arab polytheists also would have got an opportunity to say that the Muslims did not even spare their own brethren in faith during wartime. Therefore, Allah took pity on the helpless Muslims and averted the war in order to save the Companions from grief and infamy. The other aspect of the expedience was that Allah did not will that Makkah should fall to the Muslims as a result of the defeat of the Quraish after a bloody clash but He willed that they should be encircled from all sides so that within two years or so they should become absolutely helpless and subdued without offering any resistance, and then the whole tribe should accept Islam and enter Allah's mercy as it actually happened on the Conquest of Makkah. Here the juristic dispute has arisen that if during a war between the Muslims and the disbelievers, the disbelievers should bring out some Muslim men and women, children and old men, in their possession and put them in the forefront as a shield for themselves, or if there is some Muslim population also in the non-Muslim city under attack by the Muslim forces, or if in a warship of the disbelievers, which is within our gun-fire, the disbelievers have taken some Muslims also on board, can the Muslim army open fire on it? In answer to it the nulings given by different jurists are as follows: Imam Malik says that in such a case fire should not be opened, and for this he cites this very verse as an argument. He contends that Allah prevented the war at Hudaibiyah only in order to save the Muslims. (Ibn al-`Arabi, Ahkam al Qur'an). But this in fact is a weak argument. There is no word in the verse which may support the view that launching an attack on the enemy in this case is unlawful and forbidden. At the most what one can say on the basis of this verse is that the launching of an sttack in such a case should be avoided in order to save the Muslims, provided that it does not put the disbelievers in an advantageous position against the Muslims militarily, or does not diminish the Muslims' chances of gaining an upper hand in the conflict. Imam Abu Hanifah, Imam Abu Yusuf, Imam Zufar and Imam Muhammad saythat it is lawful to open fire in such a case; so much so that even if the disbelievers use the children of the Muslims as a shield by putting them in the forefront, there is no harm in shooting at them, and it is not obligatory for the Muslims to expiate and pay any blood-money for the Muslims thus killed, (AIJassas, Ahkam al-Qur'an; Imam Muhammad, :Kitab as-Siyar). Imam Sufyan Thauri also in this case regards opening of the fire as lawful, but he says that although the Muslims will not pay the blood-money of the Muslims thus killed, it is obligatory for them to expiate the sin. (AI-Jassas, Ahkam al-Qur an). Imam Auza`i and Laith bin Sa`d say that if the disbelievers use the Muslims as a shield, fire should not be opened on them. Likewise, if it is known that in their warship ow own prisoners also are on board, it should not be sunk. But if we attack a city of theirs and we know that there are Muslims also in the city, it is lawful to open fire on the city, for it is not certain that our shells will only hit the Muslims, and if a Muslim becomes a victim of this shelling, it will not be wilful murder of a Muslim but an inadvertant accident. (Al-Jassas, Ahkam alQur an). Imam Shafe`i holds the view that in such a case if it is not inevitable to open fire it is better to try to save the Muslims from destruction; although it is not unlawful to open fire in this case, it is undesirable. But if it is really necessary and it is feared that in case fire is not opened it will put the disbelievers in a better position militarily against the Muslims, it is lawful to resort to shelling, but even then every effort should be made to save the Muslims as far as possible. Furthermore, Imam Shafe'i also says that if during a conflict the disbelievers put a Muslim in front as a shield and a Muslim kills him, there can be two possible alternatives: either the killer knew that the murdered person was a Muslim, or he did not know that he was a Muslim. In the first case, he will be under obligation to pay compensation for manslaughter as well as do expiation; in the second case he will only do expiation. (Mughni al-Muhtaj).

سورة الْفَتْح حاشیہ نمبر :43 یعنی جس خلوص اور بے نفسی کے ساتھ تم لوگ دین حق کے لیے سردھڑ کی بازی لگا دینے پر آمادہ ہو گئے تھے اور جس طرح بے چون و چرا رسول کی اطاعت کر رہے تھے ، اللہ اسے بھی دیکھ رہا تھا ، اور یہ بھی دیکھ رہا تھا کہ کفار سراسر زیادتی کر رہے ہیں ۔ اس صورت حال کا تقاضا تو یہ تھا کہ وہیں اور اسی وقت تمہارے ہاتھوں سے ان کی سرکوبی کرا دی جاتی ۔ لیکن اس کے باوجود ایک مصلحت تھی جس کی بنا پر اللہ نے تمہارے ہاتھ ان سے اور ان کے ہاتھ تم سے روک دیے ۔ سورة الْفَتْح حاشیہ نمبر :44 یہ تھی وہ مصلحت جس کی بنا پر اللہ تعالی نے حدیبیہ میں جنگ نہ ہونے دی ۔ اس مصلحت کے دو پہلو ہیں ۔ ایک یہ کہ مکہ معظمہ میں اس وقت بہت سے مسلمان مرد و زن ایسے موجود تھے جنہوں نے یا تو اپنا ایمان چھپا رکھا تھا ، یا جن کا ایمان معلوم تھا ، مگر وہ اپنی بے بسی کی وجہ سے ہجرت نہ کر سکتے تھے اور ظلم و ستم کے شکار ہو رہے تھے ۔ اس حالت میں اگر جنگ ہوتی اور مسلمان کفار کو رگیدتے ہوئے مکہ معظمہ میں داخل ہوتے تو کفار کے ساتھ ساتھ یہ مسلمان بھی نادانستگی میں مسلمانوں کے ہاتھوں سے مارے جاتے جس سے مسلمانوں کو اپنی جگہ بھی رنج و افسوس ہوتا اور مشرکین عرب کو بھی یہ کہنے کا موقع مل جاتا کہ لوگ تو لڑائی میں خود اپنے دینی بھائیوں کو بھی مارنے سے نہیں چوکتے ۔ اس لیے اللہ تعالی نے ان بے بس مسلمانوں پر رحم کھا کر ، اور صحابہ کرام کو رنج اور بدنامی سے بچانے کی خاطر اس موقع پر جنگ کو ٹال دیا ۔ دوسرا پہلو اس مصلحت کا یہ تھا کہ اللہ تعالی قریش کو ایک خونریز جنگ میں شکست دلوا کر مکہ فتح کرانا نہ چاہتا تھا بلکہ اس کے پیش نظر یہ تھا کہ دو سال کے اندر ان کو ہر طرف سے گھیر کر اس طرح بے بس کر دے کہ وہ کسی مزاحمت کے بغیر مغلوب ہو جائیں ، اور پھر پورا کا پورا قبیلہ اسلام قبول کر کے اللہ کی رحمت میں داخل ہو جائے ، جیسا کہ فتح مکہ کے موقع پر ہوا ۔ اس مقام پر یہ فقہی بحث پیدا ہوتی ہے کہ اگر ہماری اور کافروں کی جنگ ہو رہی ہو اور کافروں کے قبضے میں کچھ مسلمان مرد ، عورتیں ، بچے اور بوڑھے ہوں جنہیں وہ ڈھال بنا کر سامنے لے آئیں ، یا کافروں کے جس شہر پر ہم چڑھائی کر رہے ہوں وہاں مسلمان آبادی بھی موجود ہو ، یا کافروں کا کوئی جنگی جہاز ہماری زد میں ہو اور اس کے اندر کافروں نے کچھ مسلمانوں کو بھی رکھ چھوڑا ہو ، تو کیا ایسی صورت میں ہم ان پر گولہ باری کر سکتے ہیں؟ اس کے جواب میں مختلف فقہاء نے جو فیصلے دیے ہیں وہ حسب ذیل ہیں: امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس حالت میں گولہ باری نہیں کرنی چاہیے ، اور اس کے لیے وہ اسی آیت کو دلیل قرار دیتے ہیں ۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ اللہ تعالی نے مسلمانوں کو بچانے کے لیے ہی تو حدیبیہ میں جنگ کو روک دیا ( احکام القرآن لابن العربی ) ۔ لیکن فی الواقع یہ ایک کمزور دلیل ہے ۔ آیت میں کوئی لفظ ایسا نہیں ہے کہ جس سے یہ بات نکلتی ہو کہ ایسی حالت میں حملہ کرنا حرام و ناجائز ہے ، بلکہ زیادہ سے زیادہ اس سے جو بات نکلتی ہے وہ یہ ہے کہ اس حالت میں مسلمانوں کو بچانے کے لیے حملہ سے اجتناب کیا جاسکتا ہے جبکہ اجتناب سے یہ خطرہ نہ کہ کفار کو مسلمانوں پر غلبہ حاصل ہو جائے گا ، یا ان پر ہمارے فتح یاب ہونے کے مواقع باقی نہ رہیں گے ۔ امام ابو حنیفہ ، امام ابو یوسف ، امام زُفَر اور امام محمد رحمہم اللہ کہتے ہیں کہ ان حالات میں گولہ باری کرنا بالکل جائز ہے ، حتی کہ اگر کفار مسلمانوں کے بچوں کو ڈھال بنا کر سامنے لا کھڑا کریں تب بھی ان پر گولی چلانے میں کوئی مضائقہ نہیں ۔ اور جو مسلمان اس حالت میں مارے جائیں ان کے خون کا کوئی کفارہ اور کوئی دیت مسلمانوں پر واجب نہیں ہے ۔ ( احکام القرآن للجصاص کتاب السیر للامام محمد ، باب قطع الماء عن اہل الحرب ) ۔ امام سفیان ثوری رحمہ اللہ بھی اس حالت میں گولہ باری کو جائز رکھتے ہیں ، مگر وہ کہتے ہیں کہ جو مسلمان اس حالت میں مارے جائیں ان کی دیت تو نہیں ، البتہ کفارہ مسلمانوں پر واجب ہے ( احکام القرآن للجصاص ) ۔ امام اوزاعی اور لیث بن سعد رحمہما اللہ کہتے ہیں کہ اگر کفار مسلمانوں کو ڈھال بنا کر سامنے لے آئیں تو ان پر گولی نہیں چلانی چاہیے ۔ اسی طرح اگر ہمیں معلوم ہو کہ ان کے جنگی جہاز میں خود ہمارے قیدی بھی موجود ہیں ، تو اس حالت میں اس کو غرق نہ کرنا چاہیے ۔ لیکن اگر ہم ان کے کسی شہر پر حملہ کریں اور ہمیں معلوم ہو کہ اس شہر میں مسلمان بھی موجود ہیں تو اس پر گولہ باری کرنا جائز ہے ، کیونکہ یہ امر یقینی نہیں ہے کہ ہمارا گولہ مسلمانوں ہی پر جا کر گرے گا ، اور اگر کوئی مسلمان اس گولہ باری کا شکار ہو جائے تو یہ ہماری طرف سے بالقصد مسلمان کا قتل نہ ہوگا بلکہ نادانستگی میں ایک حادثہ ہو گا ( احکام القرآن للجصاص ) ۔ امام شافعی رحمہ اللہ کا مذہب یہ ہے کہ اگر اس حالت میں گولہ باری کرنا ناگزیر نہ ہو تو مسلمانوں کو ہلاکت سے بچانے کی کوشش کرنا بہتر ہے ۔ اگرچہ اس صورت میں گولہ باری کرنا حرام نہیں مگر وہ ضرور ہے ۔ لیکن اگر فی الواقع اس کی ضرورت ہو ، اور اندیشہ ہو کہ اگر ایسا نہ کیا جائے گا تو یہ کفار کے لیے جنگی حیثیت سے مفید اور مسلمانوں کے لیے نقصان دہ ہوگا تو پھر گولہ باری کرنا جائز ہے ۔ مگر اس حالت میں بھی مسلمانوں کو بچانے کی حتی الامکان کوشش کرنی چاہیے ۔ مزید براں امام شافعی رحمہ اللہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر معرکہ قتال میں کفار کسی مسلمان کو ڈھال بنا کر آگے کریں اور کوئی مسلمان اسے قتل کر دے تو اس کی دو صورتیں ہیں ۔ ایک یہ کہ قاتل معلوم تھا کہ یہ مسلمان ہے ، اور دوسری صورت یہ کہ اسے معلوم نہ تھا کہ یہ مسلمان ہے ۔ پہلی صورت میں دیت اور کفارہ دونوں واجب ہیں ، اور دوسری صورت میں صرف کفارہ واجب ہے ( مغنی المحتاج ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

23: آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام چونکہ عمرے کے ارادے سے تشریف لائے تھے، اس لئے حرم میں قربانی کے لئے جانور بھی ساتھ لائے تھے جنہیں حرم میں پہنچ کر قربان ہونا تھا، وہ ان کافروں کے رکاوٹ ڈالنے کی وجہ سے حدیبیہ ہی میں کھڑے رہ گئے، اور جس جگہ لے کا کر انہیں قربان کرنے کا ارادہ تھا وہاں نہیں پہنچ پائے۔ 24: یہ ان مصلحتوں میں سے ایک مصلحت کا بیان ہے جن کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اس وقت جنگ کو مناسب نہیں سمجھا۔ اور وہ مصلحت یہ تھی کہ مکہ مکرمہ میں بہت سے مسلمان موجود تھے، اور اب حضرت عثمان اور ان کے ساتھی بھی وہاں پہنچ گئے تھے۔ جنگ ہوتی تو پورے زور و شور سے ہوتی، اور اس گھمسان کی جنگ میں مکہ مکرمہ کے مسلمانوں کو خود مسلمانوں ہی کے ہاتھوں بے خبری میں نقصان پہنچ سکتا تھا جس پر بعد میں خود مسلمانوں کو ندامت اور نقصان کا احساس ہوتا۔ 25: یعنی اللہ تعالیٰ نے مکہ مکرمہ کے مسلمانوں پر یہ رحمت فرمائی کہ انہیں قتل ہونے سے بچالیا، اور مدینہ منورہ کے مسلمانوں پر یہ رحمت فرمائی کہ انہیں اپنے دینی بھائیوں کے قتل سے بچا لیا۔ 26: یعنی اگر مکہ مکرمہ میں جو مسلمان کافروں کے ہاتھوں ظلم سہہ رہے تھے، وہ وہاں سے کہیں اور چلے گئے ہوتے تو ہم ان کافروں سے مسلمانوں کی جنگ کروادیتے جس کے نتیجے میں وہ دردناک شکست سے دوچار ہوتے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(48:25) ہم ضمیر شان ۔ جمع مذکر غائب، وہ ، وہی۔ اشارہ اہل مکہ کی طرف ہے ۔ الذین اسم موصول جمع مذکر، باقی جملہ اس کا صلہ۔ ہم الذین کفروا۔ یعنی وہ اہل مکہ ہی ہیں جنہوں نے کفر کیا۔ وصدوکم : واؤ عاطفہ، صدوا ماضی جمع مذکر غائب۔ صدو صدود (باب نصر) مصدر یعنی روکنا۔ کم ضمیر مفعول جمع مذکر حاضر۔ اور انہوں نے تم کا روکا۔ عن المسجد الحرام : عن حرف جر۔ المسجد الحرام موصوف و صفت حرمت والی مسجد یعنی کعبہ۔ یعنی کعبہ کا طواف کرنے سے روکا۔ والھدی۔ واؤ عاطفہ۔ الھدی منصوب ہے کہ اس کا عطف صدوکم میں ضمیر منصوب پر ہے۔ ای وصدوا الھدی اسم معرف باللام۔ قربانی کا جانور جو ماہ حرم میں حرم کے اندر ذبح ہونے کے لئے بھیجا جاتا ہے۔ معکوفا ان یبلغ الھدی محلہ۔ جملہ الھدی سے حال ہے۔ معکوفا بوجہ حال منصوب ہے۔ معکوفا : عکف باب ضرب و نصر، مصدر سے بمعنی روکے رکھنا۔ روکا ہوا۔ اعتکاف مسجد میں عبادت کے لئے رکے رہنا۔ ان مصدریہ ہے یبلغ مضارع منصوب بوجہ عمل ان صیغہ واحد مذکر غائب ۔ بلوغ باب نصر مصدر بمعنی پہنچنا۔ محلہ مضاف مضاف الیہ۔ محل اسم ظرف مکان ۔ قربانی کی جگہ۔ لولا۔ امتناعیہ ہے ۔ لو حرف شرط اور لا نافیہ ہے مرکب ہے اگر نہ ہوتے نیز ملاحظہ ہو (6:43) جواب لولا محذوف ہے۔ یعنی اگر نامعلوم مومن مرد اور عورتوں کا تمہارے ہاتھوں پامال ہوجانے کا خطرہ نہ ہوتا تو اللہ تعالیٰ مکہ پر حملہ کی اجازت دیدیتا۔ لم تعلمونھم : نفی جحد بلم صیغہ جمع مذکر حاضر ہم ضمیر مفعول جمع مذکر غائب (رجال ونساء کے لئے۔ تغلیب المذکر علی المؤنث کی وجہ سے صیغہ جمع مذکر لایا گیا) لم تعلمونھم صفت ہے رجال ونساء کی۔ ان تطؤہم ان مصدریہ تطؤا مضارع جمع مذکر حاضر۔ نون اعرابی ان کے عمل سے ساقط ہوگیا۔ وظا (باب سمع) مصدر و ط ا مادہ۔ بمعنی کسی چیز کو پاؤں تلے روندنا۔ ہم ضمیر جمع مذکر غائب رجال ونساء کے لئے ہے تاکہ تم ان کو پامال کروگے، یا روند ڈالو گے۔ اسی معنی میں اور جگہ قرآن مجید میں ہے : ان ناشئۃ اللیل ہی اشد وطأ (73:6) کچھ شک نہیں کہ رات کا اٹھنا (نفس بہیمی کو) سخت پامال کرتا ہے۔ فتصیبکم ف سببیہ ہے تصیب مضارع منصوب واحد مؤنث غائب ۔ اصابۃ (افعال) مصدر۔ ضمیر فاعل معرۃ کی طرف راجع ہے کم ضمیر مفعول جمع مذکر حاضر۔ اور بدیں سبب تم کو بدنامی پہنچے (ان کی وجہ سے) معرۃ گناہ۔ تکلیف ، دکھ، مضرت، بدی ، عیب، بری بات، سختی (ع ر ر مادہ) ۔ اعتر (باب افتعال سے) بغیر سوال کئے بخشش کے لئے آنا۔ قرآن مجید میں ہے واطعموا القانع والمعتر (22:36) اور قناعت سے بیٹھ رہنے والوں کو اور بغیر سوال کئے بخشش کے لئے آنے والوں کو بھی کھلاؤ۔ منھم۔ ان کی وجہ سے ۔ ہم کی ضمیر رجال مومنون و نساء مؤمنات کی طرف راجع ہے۔ بغیر علم۔ اس کا تعلق یا تو ان تطؤھم سے ہے۔ یعنی لاعلمی میں تم ان کو رونڈ ڈالو گے۔ یا اس کا تعلق فتصیبکم منھم معرۃ سے ہے۔ یعنی بےعلمی میں ان کی پامالی کی وجہ سے تم کو گناہ پہنچ جائے۔ لیدخل اللّٰہ فی رحمتہ من یشاء لام تعلیل کا ہے علت محذوف ہے یعنی مکہ میں زبردستی داخل ہونے کی ممانعت۔ آیت کا مطلب یوں ہوگا :۔ اگر یہ خطرہ نہ ہوتا کہم کہ میں وہ مومن مرد اور عورتیں جن کو تم نہیں جانتے تھے تمہارے ہاتھوں لاعلمی میں پامال ہوجائیں گے اور ان کی طرف سے تمہیں یوں بدنامی پہنچے گی تو اللہ تعالیٰ تمہیں زبردستی مکہ میں داخل ہونے کی اجازت دیدیتا۔ لیکن اس نے زبردستی داخل ہونے ممانعت اسلئے کردی کہ وہ جس کو چاہے اپنی رحمت میں داخل کر دے (اس ادخال رحمت میں مومن مرد اور عورتوں کا پامال سے بچ جانا۔ مسلمانوں کا مومنین کو پامال کرنے کی بدنامی سے بچ جانا اور کفار کی کثیر تعداد کا بعد میں ایمان لے آنا شامل ہے لو : حرف شرط۔ اگر۔ تزیلوا ماضی جمع مذکر غائب۔ یزیل (تفعل) مصدر جس کے معنی پراگندہ اور متفرق ہونے کے ہیں۔ یعنی اگر وہ ایک طرف ہوتے یا جدا ہوجاتے ، اگر وہ مسلمان کافروں سے الگ ہوتے۔ اور جگہ قرآن مجید میں ہے فزیلنا بینھم (10:27) تو ہم ان میں تفرقہ ڈال دیں گے۔ لعذبنا۔ لام جواب شرط کے لئے ہے۔ عذبنا ماضی جمع متکلم تو ہم عذاب دیتے ۔ منھم : ای من اہل مکہ۔ اہالیان مکہ میں سے (جو کافر تھے ان کو دردناک عذاب دیتے) ۔ عذابا الیما : موصوف و صفت، مفعول مطلق، دردناک۔ فائدہ : اللہ تعالیٰ کو اپنے نیک بندوں کا اتنا پاس ہے کہ ان کی موجودگی کی وجہ سے ساری بستی والوں کو بچا لیتا ہے گو بستی والے ان اللہ کے بندوں کو دکھ ہی کیوں نہ دیتے ہوں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 ۔ حالانکہ تم اس مسجد کے ان کی یہ نسبت زیادہ حقدار تھے اور پھر تم نے انہیں سمجھایا بھی کہ ہم لڑنے کے لئے نہیں آئے ہیں۔ صرف عمرہ کر کے واپس ہوجائیں گے۔ ‘ 2 یعنی حرم کے اس حصہ تک نہ پہنچ سکے جاں ذبح کرنے کا عام دستور ہے بلکہ حدیبیہ ہی میں رکے رہے اور وہیں ذبح کئے گئے اس موقع پر مسلمانوں کے ساتھ قربانی کے ستر اونٹ تھے۔ (شو کانی) 3 یعنی جن کا مسلمان ہونا تمہیں معلوم نہ تھا۔ ان سے مراد وہ مرد اور عروتیں ہیں جو اس وقت مکہ میں موجود تھے اور مسلمان ہوچکے تھے لیکن یا تو انہوں نے اپنا ایمان چھپا رکھا تھا یا بےبسی کی وجہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت نہ کرسکتے تھے بلکہ کفار کے ظلم و ستم کا نشانہ بن رہے تھے۔ 4 تو تمہیں لڑائی سے منع نہ کیا جاتا۔ یہ ” لولا “ کا جواب ہے جو محذوف ہے تم کو ان کی طرف سے پہنچنے کا مطلب یہ ہے کہ تم پر مسلمان افراد کے قتل کرنے کرانے کا الزم آتا ہے اور تمہیں دیت ادا کرنی پڑتی ادھر مشرکین کو بھی یہ کہنے کا موقع مل جاتا کہ مسلمان ایسے دشی ہیں کہ لڑائی میں خود اپنے بھائیوں کو مار ڈالتے ہیں۔ 5 یعنی تمہیں جو لڑائی سے منع کیا گیا اس کی مصلحت یہ تھی کہ … 6 یعنی انہیں کفارہ کے نرغہ سے نکال کر مسلمانوں کی جماعت میں لے آئے، یا (کفار قریش میں سے) جسے چاہے اپنی رحمت میں شریک کرے۔ “ یعنی ان میں سے جن لوگوں کا اسلام لانا مقدر تھا، انہیں لڑائی کی کشمکش سے بچائے اور اپنی رحمت … اسلام… میں داخل کرے چناچہ بعد میں جب مکہ فتح ہوا تو ان میں سے اکثر لوگ اسلام میں داخل ہوئے۔ اگر حدیبیہ کے موقع پر جنگ ہوتی تو نہ معلوم ان میں سے کتنے مارے جاتے۔ 7 ” جو پہلے سے مسلمانت ہے یا آزاد مسلمان ہونے والے تھے۔ 8 یعنی تمہیں لڑائی کا حکم دیتے اور وہ مارے جاتے یا قید و ذلیل ہوتے۔ 9 جاہلیت کی ضد سے مراد کفار مکہ کا یہ کہنا ہے کہ ان مسلمانوں نے ہمارے بھائیوں اور بیٹوں کو قتت کیا ہے اسلئے اگر وہ مکہ میں داخل ہوگئے چاہے عارضی طور پر عمرہ کرنے ہی کے لئے سہی، تو ہماری ناک کٹ جائیگی کیونکہ اردگرد کے تمام عرب قبائل کہیں گے کہ وہ ہمارے علی الرغم ہمارے گھر میں داخل ہوئے اس لئے لات و عزیٰکی قسم ہم انہیں ہرگز عمرہ کرنے کی اجازت نہ دینگے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

6۔ چناچہ ان مسلمانوں کی جان بچی اور تمہارا دین بچا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اب اللہ مسلمانوں کے مخالف کیمپ پر تبصرہ فرماتا ہے کہ اللہ کے پیمانے کے مطابق ان کے شب و روز کیا ہیں ؟ اور اللہ ان کی کاروائیوں کو کس نگاہ سے دیکھتا ہے ؟ وہ مومنین کو مسجد حرام سے روک رہے ہیں اور یہ کہ اللہ مسلمانوں کو کس نگاہ سے دیکھ رہا ہے اور ان کے دشمنوں کو کس نگاہ سے ! ھم الذین کفروا ۔۔۔۔۔۔ کفروا منھم عذابا الیما (٢٥) اذ جعل الذین کفروا ۔۔۔۔۔۔ بکل شیء علیما (٢٦) (٤٨ : ٢٥ تا ٢٦) “ وہی لوگ تو ہیں جنہوں نے کفر کیا اور تم کو مسجد حرام سے روکا اور ہدی کے اونٹوں کو ان کی قربانی کی جگہ نہ پہنچے دیا۔ اگر (مکہ میں) ایسے مومن مرد و عورت موجود نہ ہوتے جنہیں تم نہیں جانتے ، اور یہ خطرہ نہ ہوتا کہ نادانستگی میں تم انہیں پامال کر دو گے اور اس سے تم پر حرف آئے گا (تو جنگ نہ روکی جاتی۔ روکی وہ اس لیے گئی) تا کہ اللہ اپنی رحمت میں جس کو چاہے داخل کرلے۔ وہ مومن الگ ہوگئے ہوتے تو ( اہل مکہ میں ) جو کافر تھے ان کو ہم ضرور سخت سزا دیتے ۔ (یہی وجہ ہے کہ ) جب ان کافروں نے اپنے دلوں میں جاہلانہ حمیت بٹھالی تو اللہ نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مومنوں پر سکینت نازل فرمائی اور مومنوں کو تقویٰ کی بات کا پابند رکھا کہ وہی اس کے زیادہ حق دار اور اس کے اہل تھے۔ اللہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے ”۔ اللہ کے پیمانوں کے مطابق وہ بلاشک کافر ہیں ، اس لیے وہ اس مکروہ لقب کے مستحق ہیں۔ ھم الذین کفروا (٤٨ : ٢٥) “ وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا ”۔ اللہ تعالیٰ یہ لقب ان کو عطا کرتا ہے کہ گویا کافر یہی اہل مکہ ہیں۔ چونکہ یہ صفت کفر میں کانوں تک غرق ہیں ، اس لیے یہ لوگ اللہ کے ہاں مکروہ ترین مخلوق ہیں ، اس لیے کہ اللہ کفر کو نہایت ہی مکروہ سمجھتا ہے۔ پھر دوسرا برا فعل جو یہ کر رہے ہیں وہ یہ ہے کہ یہ اہل ایمان کو مسجد حرام سے روک رہے ہیں اور قربانی کے جانوروں کو بھی روک رہے ہیں کہ ان کو اپنے محل ذبح تک لے جایا جائے۔ وصدوکم عن المسجد الحرام والھدی معکوفا ان یبلغ محلہ (٤٨ : ٢٥) “ تم کو مسجد حرام سے روکا اور ہدی کے اونٹوں کو ان کی قربانی کی جگہ نہ پہنچنے دیا ”۔ یہ کام اسلام میں بھی گناہ کبیرہ ہے اور جاہلیت میں بھی گناہ تھا۔ اور ابراہیم (علیہ السلام) سے ادھر جزیرۃ العرب میں جس قدر ادیان بھی گزرے ان سب میں یہ گناہ کبیرہ افعال تھے۔ ان کے عرف ، ان کے عقیدہ اور مسلمانوں کے دین کے مطابق یہ مکروہ کام تھے۔ اس لیے اللہ نے مسلمانوں کو ان پر حملہ کرے سے اس لیے نہیں روکا کہ ان کے یہ جرائم کہیں چھوٹے تھے ، ہرگز نہیں۔ بلکہ اس کی کوئی اور حکمت تھی۔ اللہ مہربانی فرماتے ہوئے اس حکمت کا انکشاف فرماتا ہے۔ ولو لا رجال ۔۔۔۔۔۔ بغیر علم (٤٨ : ٢٥) “ اگر ( مکہ میں ) ایسے مومن مردو عورت نہ ہوتے جنہیں تم نہیں جانتے اور یہ خطرہ نہ ہوتا کہ نادانستگی میں تم پامال کردو گے اور اس سے تم پر حرف آئے گا (تو جنگ نہ روکی جاتی ) مکہ میں بعض ضعیف اور کمزور مسلمان رہ گئے تھے جنہوں نے ابھی تک ہجرت نہ کی تھی۔ اور انہوں نے مشرکین کے درمیان رہتے ہوئے اپنے اسلام کو خوف کے مارے چھپا رکھا تھا۔ اگر جنگ شروع ہوجاتی اور مسلمان مکہ پر حملہ آور ہوجاتے اور وہ نہ جانتے کہ کون مسلم ہے اور کون کافر ہے ، ممکن تھا کہ یہ مسلمان ان ضعیف مسلمانوں کو روند کر قتل کردیتے ۔ اور پھر کافر یہ کہتے کہ مسلمانوں کو بھی معاف نہ کیا۔ یوں مسلمانوں کو ان مسلمانوں کی دیت دینا پڑتی جن کو انہوں نے خطا کے طور پر قتل کردیا تھا۔ پھر ایک حکمت یہ بھی تھی کہ آج جو کافر مسلمانوں کو عمرہ کرنے سے اور ہدی کے جانوروں کو جائے ذبح روک رہے ہیں ، انہی میں سے بعض لوگ عظیم مسلمان بننے والے ہیں۔ اور اللہ کی رحمتوں میں داخل ہونے والے ہیں اور اللہ ان سب کو جانتا تھا۔ اگرچہ اس وقت یہ لوگ جدا ہوتے تو اللہ ضرور اجازت دے دیتا لیکن ابھی تک اللہ نے ان کو جدانہ کیا تھا۔ اس لیے اللہ نے اس موقعہ پر کافروں کو اس مار سے بچا لیا۔ لیدخل اللہ فی رحمتہ ۔۔۔۔۔ عذابا الیما (٤٨ : ٢٥) “ جنگ (روکی اس لیے گئی ) تا کہ اللہ اپنی رحمت میں جس کو چاہے داخل کرلے۔ وہ مومن الگ ہوگئے ہوتے تو (اہل مکہ سے) جو کافر تھے ان کو ہم ضرورت سخت سزا دیتے ”۔ یوں اللہ اس منفرد جماعت مسلمہ کو اپنی حکمتوں کے بعض پہلو بتاتا ہے ، جو اللہ کی تدبیر ، تقدیر اور ہدایات کی پشت پر ہیں۔ ان لوگوں کی ظاہری حالت جنہوں نے کفر کیا ، اور ان کے ظاہری اعمال بتانے کے بعد اب ان نفوس کی اندرونی حالت کا تذکرہ ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

کافروں نے مسلمانوں کو مسجد حرام میں داخل ہونے سے روکا ان پر حمیت جاہلیہ سوار ہوگئی، اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر سکینہ نازل فرمائی اور انہیں تقویٰ کی بات پر جما دیا ! ان آیات میں چند امور بیان فرمائے اول مشرکین کی مذمت فرمائی کہ انہوں نے مسلمانوں کو مسجد حرام تک پہنچنے سے روک دیا اور وہ جو قربانی کے جانور ساتھ لائے تھے ان کو ان کے موقع ذبح میں نہ جانے دیا (ان کی حرکتوں کا تقاضا یہ تھا کہ ان سے جنگ کی جاتی اور انہیں سزا دی جاتی۔ ) تفسیر ابن کثیر میں لکھا ہے کہ ہدی کے جانور جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے ساتھ لے گئے تھے ان کی تعداد ستر تھی عمرہ کرکے انہیں مکہ معظمہ میں ذبح کیا جانا تھا قریش آڑے آئے لہٰذا حدیبیہ ہی میں حلق کرنا پڑا اور ہدی کے جانور وہیں ذبح فرما دئیے دوسرے یہ فرمایا کہ مکہ معظمہ میں ایسے مومن مرد اور مومن عورتیں موجود تھیں جن کا تمہیں علم نہ تھا ہوسکتا تھا کہ تم بےعلمی میں اپنے قدموں سے انہیں روند ڈالتے اور اس کی وجہ سے تم کو ضرر پہنچ جاتا اللہ تعالیٰ شانہٗ نے ضعیف مومنین اور مومنات کی وجہ سے صلح کی صورت پیدا فرما دی اگرچہ قریش مکہ کی حرکت ایسی تھی کہ ان سے جنگ کی جاتی۔ صاحب روح المعانی فرماتے ہیں کہ لو لا کا جواب محذوف ہے۔ و جواب لو لا محذوف لدلالة الکلام علیہ، والمعنی علی ما سمعت اولا لو لا کراھة ان تھلکو مومنین بین ظھر انی الکفار جاھلین بھم فیصیبکم باھلاکھم مکروہ لما کف ایدیکم عنھم، وحاصلہ انہ تعالیٰ ولولم یکف ایدیکم عنھم لانجر الامرالیٰ اھلاک مومنین بین ظھرانیھم فیصیبکم من ذلک مکروہ وھو عزوجل یکرہ ذٰلك۔ (لَوْلاَ کا جواب محذوف ہے۔ اس بناء پر معنی یہ ہے کہ اگر یہ خدشہ نہ ہوتا کہ انجانے میں تم کافروں کے درمیان مومن لوگوں کو قتل کرو گے اور ان کی ہلاکت سے تمہیں تکلیف ہوگی تو ان سے تمہارے ہاتھ نہ روکے جاتے حاصل یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ ان سے تمہارے ہاتھ نہ روکتا تو معاملہ کا نتیجہ یہ ہوتا کہ کافروں کے درمیان رہنے والے مومن ہلاک ہوتے اور اس سے تمہیں تکلیف ہوتی اور اللہ تعالیٰ بھی اس بات کو ناپسند کرتے ہیں۔ ) ﴿ فَتُصِيْبَكُمْ مِّنْهُمْ مَّعَرَّةٌۢ بِغَيْرِ عِلْمٍ ﴾ جو فرمایا اس میں لفظ مَعَرَّةُ وارد ہوا ہے اس کا ترجمہ ضرر اور مکروہ اور مشقت اور گناہ کیا گیا ہے بعض حضرات نے اس کی تشریح کرتے ہوئے یوں فرمایا ہے کہ اگر جنگ ہوتی تو مومن مرد اور عورتیں اس کی زد میں آجاتے تو اہل ایمان کو رنج پہنچتا اور دکھ ہوتا اور کافروں کو یوں کہنے کا موقعہ مل جاتا کہ دیکھو مسلمانوں نے اپنے اہل دین ہی کو قتل کردیا۔ بعض حضرات نے یہ مطلب بتایا ہے کہ ان کے قتل کرنے سے گناہ میں مبتلا ہوجاتے اور بعض حضرات کا قول ہے کہ دیت واجب ہوجاتی لیکن صاحب روح المعانی نے ابن عطیہ سے نقل کیا ہے کہ یہ دونوں ضعیف ہیں طبری کا قول ہے کہ اس سے قتل خطا کا کفارہ مراد ہے صاحب روح المعانی نے اس پر کلام کیا ہے اور بعض حضرات کا تعصب نقل کیا ہے۔ (فراجعہ ان شئت) تیسرے ﴿ لِيُدْخِلَ اللّٰهُ فِيْ رَحْمَتِهٖ مَنْ يَّشَآءُ ﴾ فرمایا یعنی اللہ شانہ نے اہل ایمان کو جنگ کرنے سے بچا دیا تاکہ وہ اس کے ذریعہ جنگ کے بغیر جسے چاہے اپنی رحمت میں داخل فرما دے یعنی اس نے اہل ایمان کو جنگ سے بھی بچالیا اور انہیں اپنی رحمت میں بھی داخل فرما دیا جو ضعیف مومن اور مومنات مکہ میں تھے ان کے پرامن رہنے کی بھی صورت نکل آئی اور مشرکین کی طرف سے جو انہیں ضعیف سمجھ کر تکلیفیں دی جاتی تھیں ان سے بھی چھٹکارہ حاصل ہوگیا اور پوری طرح عبادت کرنے لگے اور مشرکین بھی مراد ہیں کیونکہ انہیں سوچنے اور سمجھنے اور اسلام قبول کرنے کا موقعہ دے دیا گیا۔ (راجع روح المعانی ص ١١٥ ج ٢٦) چوتھے یہ فرمایا ﴿ لَوْ تَزَيَّلُوْا لَعَذَّبْنَا الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْهُمْ عَذَابًا اَلِيْمًا ٠٠٢٥﴾ اگر وہ مومنین اور مومنات کافروں سے علیحدہ ہوجاتے جو مکہ معظمہ میں موجود تھے اور ضعف کی وجہ سے ہجرت نہیں کرسکتے تھے تو ہم کافروں کو درد ناک عذاب دے دیتے یعنی کافر مقتول ہوتے اور قیدی بنالیے جاتے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

21:۔ ” ھم الذین والھدی ‘ ” کم “ ضمیر خطاب پر معطوف ہے۔ معکوفا، الھدی سے حال ہے یعنی رکی ہوئی۔ ” ان یبلغ محلہ “ یہ الھدی سے بدل الاشتمال ہے (روح) ان مشرکین نے تمہیں بیت اللہ تک پہنچنے سے روکا۔ اور قربانی کے جانور جو مقام حدیبیہ میں رکے ہوئے تھے ان کو قربان گاہ یعنی مقام منی میں پہنچنے سے روکا۔ اس لحاظ سے مشرکین مکہ مجرم اور ظالم ہیں، اور اس لائق نہیں تھے کہ انہیں معاف کیا جاتا اور ان سے جنگ نہ کیجاتی لیکن مکہ میں کچھ ایسے مسلمان مرد اور عورتیں موجود تھیں جنہیں تم نہیں جانتے تھے، بصورت قتال وہ بیچارے بھی جنگ میں کچل دئیے جاتے اور بعد میں تمہیں اس پر افسوس اور پشیمانی لاحق ہوتی۔ اگر یہ مسلمان ان میں نہ ہوتے تو تمہیں اہل مکہ سے بھڑا کر تمہارے ہاتھوں ان کو قتل و قید کی صورت میں ہم دردناک سزا دیتے۔ یہ جنگ کو روکنے کی دوسری حکمت تھی۔ رجال مؤمنون الخ “ موصوف مبدل منہ، لم تعلموھم صفت، ” ان تطئوھم “ بدل الاشتمال ہے یعنی مکہ میں ان کا ہونا بایں معنی کہ تمہارے پاؤں تلے ان کے کچلے جانے کا احتمال نہ ہوتا۔ فتصیبکم الخ، تمہارے ان کو روندنے کی وجہ سے تمہیں دلی رنج ہوتا۔ اور تم تکلیف و مشقت میں پڑجاتے۔ ” لوتزیلوا “ یہ بعد عہد کی وجہ سے ” لولا رجال الخ “ کا اعادہ ہے اور ” لعذبنا “ لولا، کا جواب ہے اور ” لیدخل اللہ الخ “ درمیان میں ترک عذاب کی علت کا بیان ہے اور اس کا متعلق محذوف ہے۔ کفہا لیدخل، یا ترکنا العذاب لیدخل، یہ کف قتال کی تیسری حکمت ہے، یعنی جنگ کو روک کر اللہ تعالیٰ نے مشرکین مکہ میں سے بہت بڑی تعداد کو اسلام کی توفیق عطاء فرما کر اپنی رحمت میں لے لیا۔ (من الروح والمدارک) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(25) یہ اہل مکہ وہی ہیں جنہوں نے حق کو قبول کرنے سے انکار کیا اور تم کو مسجد حرام سے روکا یعنی عمرے کے احکام بجا لانے سے تم کو روک دیا اور نیز قربانی کے وہ جانور جو حدیبیہ میں رکے ہوئے تھے۔ ان جانوروں کو ان کے ٹھکانے پر پہنچنے سے روکا یعنی ہدی کو منیٰ میں پہنچ کر ذبح ہونے سے روک دیا اور اگر یہ خطرہ نہ ہوتا کہ تم بہت سے ان مسلمان مردوں اور ان مسلمان عورتوں کو جن کو تم جانتے اور پہچانتے نہیں ہو اپنی بیخبر ی اور لاعلمی کے باعث ان کو روند ڈالتے اور پامال کردیتے پھر ان بےگناہوں کی وجہ سے تم کو تکلیف پہنچتی تو یہ سب قضیہ طے کردیا جاتا اور خواب کی تصدیق اسی سال ہوجاتی اور مکہ کی فتح نصیب ہوجاتی لیکن فتح کو اس لئے موخر کیا گیا تاکہ اللہ تعالیٰ جس کو چاہے اپنی رحمت میں داخل کرے۔ ہاں ! اگر یہ مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں ان کفار سے جدا ہوگئے ہوتے اور ایک طرف ہوجاتے تو ہم ان اہل مکہ میں سے جو کافر تھے ان کو سخت دردناک سزادیتے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی اس ماجرے میں ساری ضد اور بےادبی کعبے کی انہی سے ہوئی تم باادب رہے انہوں نے عمرے والوں کو منع کیا اور قربانی نہ بھیجنے دی وہ اس قابل تھے کہ اسی وقت تمہارے ہاتھ سے فتح ہوتے مگر بعض مسلمان چھپے تھے مردوزن اور بعضے ابھی مسلمان ہونے مقدر تھے اس روز فتح میں وہ پیسے جاتے آخر دو برس کی صلح میں جتنے مسلمان ہونے تھے وہ سب ہوچکے اور نکلنے والے نکل آئے تب اللہ نے مکہ فتح کرایا۔ خلاصہ : یہ کہ خواب کی تعبیر تو اسی سال پوری ہوجاتی لیکن یہ اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کا احسان ہے کہ اس نے مکہ کے کافروں کی حد سے بڑھی ہوئی شرارتوں اور گستاخیوں اور بےادبیوں کے باوجود بعض حکمتوں کی بنا پر سزا کو موخر کردیا۔ اور جنگ کو ٹلا دیا۔ حالانکہ یہ وہ شقی ہیں کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کیا اور تم کو مسجد حرام سے روکا نہ عمرے کے احکام یعنی طواف وسعی وغیرہ کرنے دیئے نہ تمہاری ہدی کو منیٰ جو ان کے ذبح کا مقام تھا وہاں پہنچنے دیا بلکہ تم نے مجبوراً حدیبیہ میں ہی جو حرم کا ایک حصہ اور کونا ہے سر منڈوائے اور قربانیاں کیں اور حلال ہوکر واپس ہوگئے اگر حملہ ہوجاتا تو بہت مسلمان مردہ عورتیں کو کفار مکہ کی قید میں تھے ان کو گزند پہنچ جاتا تم نادانستہ ان کو بھی قتل کردیتے اور کافر سمجھ کر مار ڈالتے یا کافران کو تمہارے حملے سے متاثر ہوکر قتل کردیتے۔ بہرحال وہ بےگناہ پس جاتے پھر ان کے قتل سے تم کو رنج اور کوفت ہوتی اور تم کو افسوس ہوتا اور تم کو بھی نادانستگی میں ضرر سختی اور گناہ پہنچتا بغیرعلم کو بعض نے ان تطوھم کے اور بعض نے فتصیبکم کے متعلق کیا ہے۔ ہم نے دونوں باتوں کی طرف اشارہ کردیا ہے تمہاری نادانستگی کی وجہ سے وہ مظلوم مسلمان پس جاتے یا تم کو نادانستہ کوئی سزا اور سختی پہنچتی کیونکہ بےگناہ مسلمان تمہارے ہاتھ قتل ہوتے ان کافروں میں بعض مسلمان ہونے والے بھی تھے اس لئے فتح کو موخر کیا کہ وہ مسلمان ہوکر اللہ کی رحمت میں داخل ہوجائیں اور جو نکل سکیں وہ نکل آئیں، ہاں ! اگر وہ مسلمان جو کافروں کی قید میں تھے اور کافروں سے دبے پڑے تھے کہیں ٹل جاتے اور ان کافروں سے جدا ہوگئے ہوتے تو پھر اسی سال ان کو تمہارے ہاتھوں سے سخت دردناک سزا دیتے یعنی مکہ فتح ہوجاتا اور کافروں کو ختم کردیا جاتا۔