Surat ul Hujraat

Surah: 49

Verse: 11

سورة الحجرات

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا یَسۡخَرۡ قَوۡمٌ مِّنۡ قَوۡمٍ عَسٰۤی اَنۡ یَّکُوۡنُوۡا خَیۡرًا مِّنۡہُمۡ وَ لَا نِسَآءٌ مِّنۡ نِّسَآءٍ عَسٰۤی اَنۡ یَّکُنَّ خَیۡرًا مِّنۡہُنَّ ۚ وَ لَا تَلۡمِزُوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ وَ لَا تَنَابَزُوۡا بِالۡاَلۡقَابِ ؕ بِئۡسَ الِاسۡمُ الۡفُسُوۡقُ بَعۡدَ الۡاِیۡمَانِ ۚ وَ مَنۡ لَّمۡ یَتُبۡ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الظّٰلِمُوۡنَ ﴿۱۱﴾

O you who have believed, let not a people ridicule [another] people; perhaps they may be better than them; nor let women ridicule [other] women; perhaps they may be better than them. And do not insult one another and do not call each other by [offensive] nicknames. Wretched is the name of disobedience after [one's] faith. And whoever does not repent - then it is those who are the wrongdoers.

اے ایمان والو! مرد دوسرے مردوں کا مذاق نہ اڑائیں ممکن ہے کہ یہ ان سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں عورتوں کا مذاق اڑائیں ممکن ہے کہ یہ ان سے بہتر ہوں اور آپس میں ایک دوسرے کو عیب نہ لگاؤ اور نہ کسی کو برے لقب دو ایمان کے بعد فسق برا نام ہے ، اور جو توبہ نہ کریں وہی ظالم لوگ ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Prohibition of mocking and ridiculing One Another Allah the Exalted forbids scoffing at people, which implies humiliating and belittling them. In the Sahih, it is recorded that the Messenger of Allah said, الْكِبْرُ بَطَرُ الْحَقِّ وَغَمْصُ النَّاس Arrogance is refusing the truth and belittling people. And in another Version غَمْطُ النَّاس And despising people, It is forbidden to scoff at and belittle people, for the injured party could be more honored and dearer to Allah the Exalted than those who ridicule and belittle them. This is why Allah the Exalted said, يَا أَيُّهَا الَّذِينَ امَنُوا لاَا يَسْخَرْ قَومٌ مِّن قَوْمٍ عَسَى أَن يَكُونُوا خَيْرًا مِّنْهُمْ وَلاَ نِسَاء مِّن نِّسَاء عَسَى أَن يَكُنَّ خَيْرًا مِّنْهُنَّ ... O you who believe! Let not a group scoff at another group; it may be that the latter are better than the former. Nor let (some) women scoff at other women, it may be that the latter are better than the former. thus, stating this prohibition for men and then women. The statement of Allah the Exalted, ... وَلاَ تَلْمِزُوا أَنفُسَكُمْ ... Nor defame yourselves, forbids defaming each other. He among men who is a slanderer, and a backbiter, is cursed and condemned as Allah states وَيْلٌ لِّكُلِّ هُمَزَةٍ لُّمَزَةٍ Woe to every Humazah, Lumazah, (104:1) Hamz is defamation by action, while Lamz is by words. Allah the Exalted and Most Honored said, هَمَّازٍ مَّشَّأءِ بِنَمِيمٍ Hammaz (defaming), going about with slander. (68:11) meaning, he belittles and defames people, transgressing and spreading slander among them, which is the Lamz that uses words as its tool. Allah's statement here, وَلاَ تَلْمِزُوا أَنفُسَكُمْ (Nor defame yourselves), just as He said in another Ayah, وَلاَ تَقْتُلُواْ أَنفُسَكُمْ Nor kill yourselves, (4:29), meaning, nor kill one another. Abdullah bin Abbas, Mujahid, Sa`id bin Jubayr, Qatadah and Muqatil bin Hayyan said that the Ayah, وَلاَ تَلْمِزُوا أَنفُسَكُمْ (Nor defame yourselves), means, none of you should defame each other,' while, ... وَلاَ تَنَابَزُوا بِالاَْلْقَابِ ... (...nor insult one another by nicknames...) means, `you should not address people by nick names that people dislike.' Imam Ahmad recorded that Abu Jabirah bin Ad-Dahhak said, "This Ayah was revealed about us, Banu Salamah; وَلاَ تَنَابَزُوا بِالاَْلْقَابِ (nor insult one another by nicknames), When the Messenger of Allah migrated to Al-Madinah, every man among us had two or three nicknames. When the Prophet called a man by one of these nicknames, people would say, `O Allah's Messenger! He hates that nickname.' Then this Ayah, وَلاَ تَنَابَزُوا بِالاَْلْقَاب (nor insult one another by nicknames) was revealed." Abu Dawud also collected this Hadith. The statement of Allah the Exalted and Most Honored, ... بِيْسَ الاِسْمُ الْفُسُوقُ بَعْدَ الاِْيمَانِ ... Evil is the name of wickedness after faith, means, the names and descriptions of wickedness are evil; meaning, `to use the nicknames that were used by the people of Jahiliyyah, after you embraced Islam and understood it,' ... وَمَن لَّمْ يَتُبْ ... And whosoever does not repent, means, from this sin, ... فَأُوْلَيِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ then such are indeed wrongdoers.

ہر طعنہ باز عیب جو مجرم ہے اللہ تبارک وتعالیٰ لوگوں کو حقیر و ذلیل کرنے اور ان کا مذاق اڑانے سے روک رہا ہے حدیث شریف میں ہے تکبر حق سے منہ موڑ لینے اور لوگوں کو ذلیل و خوار سمجھنے کا نام ہے ۔ اس کی وجہ قرآن کریم نے یہ بیان فرمائی کہ جسے تم ذلیل کر رہے ہو جس کا تم مذاق اڑا رہے ہو ممکن ہے کہ اللہ کے نزدیک وہ تم سے زیادہ باوقعت ہو مردوں کو منع کر کے پھر خاصتہ عورتوں کو بھی اس سے روکا اور اس ملعون خصلت کو حرام قرار دیا چنانچہ قرآن کریم کا ارشاد ہے آیت ( وَيْلٌ لِّكُلِّ هُمَزَةٍ لُّمَزَةِۨ Ǻ۝ۙ ) 104- الهمزة :1 ) یعنی ہر طعنہ باز عیب جو کے لئے خرابی ہے ہمز فعل سے ہوتا ہے اور لمز قول سے ایک اور آیت میں ہے ( ھماز مشاء بنمیم ) الخ ، یعنی وہ جو لوگوں کو حقیر گنتا ہو ان پر چڑھا چلا جا رہا ہو اور لگانے بجھانے والا ہو غرض ان تمام کاموں کو ہماری شریعت نے حرام قرار دیا ۔ یہاں لفظ تو یہ ہیں کہ اپنے آپ کو عیب نہ لگاؤ مطلب یہ ہے کہ آپس میں ایک دوسرے کو عیب نہ لگاؤ جیسے فرمایا آیت ( وَلَا تَقْتُلُوْٓا اَنْفُسَكُمْ ۭاِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيْمًا 29؀ ) 4- النسآء:29 ) یعنی ایک دوسرے کو قتل نہ کرو ۔ حضرت ابن عباس ، مجاہد ، سعید بن جبیر ، قتادہ ، مقاتل ، بن حیان فرماتے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک دوسرے کو طعنے نہ دے پھر فرمایا کسی کو چڑاؤ مت ! جس لقب سے وہ ناراض ہوتا ہو اس لقب سے اسے نہ پکارو نہ اس کو برا نام دو ۔ مسند احمد میں ہے کہ یہ حکم بنو سلمہ کے بارے میں نازل ہوا ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینے میں آئے تو یہاں ہر شخص کے دو دو تین تین نام تھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان میں سے کسی کو کسی نام سے پکارتے تو لوگ کہتے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ اس سے چڑتا ہے ۔ اس پر یہ آیت اتری ( ابو داؤد ) پھر فرمان ہے کہ ایمان کی حالت میں فاسقانہ القاب سے آپس میں ایک دوسرے کو نامزد کرنا نہایت بری بات ہے اب تمہیں اس سے توبہ کرنی چاہئے ورنہ ظالم گنے جاؤ گے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

11۔ 1 ایک شخص دوسرے کسی شخص کا استہزا یعنی اس سے مسخرا پن اسی وقت کرتا ہے جب وہ اپنے کو اس سے بہتر اور اس کو اپنے سے حقیر اور کمتر سمجھتا ہے حالانکہ اللہ کے ہاں ایمان وعمل کے لحاظ سے کون بہتر ہے اور کون نہیں۔ اس کا علم صرف اللہ کو ہے اس لیے اپنے کو بہتر اور دوسرے کو کم تر سمجنے کا کوئی جواز ہی نہیں ہے بنا بریں آیت میں اس سے منع فرما دیا گیا ہے اور کہتے ہیں کہ عورتوں میں یہ اخلاقی بیماری زیادہ ہوتی ہے اس لیے عورتوں کا الگ ذکر کر کے انہیں بھی بظور خاص اس سے روک دیا گیا ہے اور حدیث رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں لوگوں کے حقیر سمجھنے کو کبر سے تعبیر کیا گبا ہے الکبر بطر الحق وغمط الناس اور کبر اللہ کو نہایت ہی ناپسند ہے۔ 11۔ 2 یعنی ایک دوسرے پر طعنہ زنی مت کرو، مثلاً تو فلاں کا بیٹا ہے، تیری ماں ایسی ویسی ہے، تو فلاں خاندان کا ہے نا وغیرہ۔ 11۔ 3 یعنی اپنے طور پر استزاء اور تحقیر کے لیے لوگوں کے ایسے نام رکھ لینا جو انہیں ناپسند ہوں یا اچھے بھلے ناموں کو بگاڑ کر بولنا یہ تنابز بالالقاب ہے جس کی یہاں ممانعت کی گئی ہے 11۔ 4 یعنی اس طرح نام بگاڑ کر یا برے نام تجریز کر کے بلانا یا قبول اسلام اور توبہ کے بعد اسے سابقہ دین یا گناہ کی طرف منسوب کر کے خطاب کرنا مثلا اے کافر اے زانی یا شرابی وغیرہ یہ بہت برا کام ہے الاسم یہاں الذکر کے معنی میں ہے یعنی بئس الاسم الذی یذکر بالفسق بعد دخولھم فی الایمان فتح القدیر۔ البتہ اس سے بعض وہ صفاتی نام بعض حضرات کے نزدیک مستثنی ہیں جو کسی کے لیے مشہور ہوجائیں اور وہ اس پر اپنے دل میں رنج بھی محسوس نہ کریں جیسے لنگڑے پن کی وجہ سے کسی کا نام لنگڑا پڑجائے کالے رنگ کی بنا پر کا لیا یا کالو مشہور ہوجائے وغیرہ۔ القرطبی۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٤] مذاق اڑانے سے پرہیز :۔ اس آیت میں ایسے معاشرتی آداب سکھائے جارہے ہیں ہیں جو عموماً لڑائی جھگڑے کا سبب بنتے ہیں۔ مذاق اڑانے کی دو ہی وجہیں ہوسکتی ہیں۔ ایک مذہبی یا نظریاتی اختلاف کا ہونا دوسرے مخاطب کو اپنے سے کمتر اور حقیر سمجھنا۔ خواہ کوئی بھی صورت ہو مذاق اڑانے سے چونکہ لڑائی جھگڑے کا امکان ہے۔ لہذا لڑائی جھگڑے کے ان ابتدائی لوازمات سے بھی روک دیا گیا۔ [١٥] اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مرد، مردوں کا مذاق نہ اڑائیں اور نہ عورتیں عورتوں کا، یہ نہیں فرمایا مرد عورت کا مذاق نہ اڑائے یا عورت کسی مرد کا مذاق نہ اڑائے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں مخلوط سوسائٹی یا آزادانہ اختلاط مرد و زن کا تصور ہی مفقود ہے۔ [١٦] طنز اور طعنہ سے اجتناب :۔ لَمَزَ بمعنی کسی شخص کے کسی فعل یا حرکت میں عیب جوئی کرنا۔ جیسے پھبتیاں کسنا، کسی کی نقلیں اتارنا، اشارے کرنا، یا زیر لب کسی کو نشانہ ملامت بنانا یا طنزیہ بات اور چوٹیں کرنا سب کچھ اس لفظ کے معنی میں داخل ہے۔ اس قسم کی حرکتیں چونکہ معاشرتی تعلقات کو بگاڑ دیتی ہیں۔ لہذا ان کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ [١٧] لقب کا مفہوم اور قسمیں :۔ لقب دو طرح کے ہوتے ہیں ایک وہ جو پسند ہوتے ہیں اور ان کی دو صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ انسان خود اپنے لئے کوئی پسندیدہ سا لقب اختیار کرلیتا ہے اور دوسری صورت یہ کہ کوئی دوسرا ایسا لقب رکھ دیتا ہے۔ جیسے سیدنا ابوبکر صدیق (رض) کا لقب صدیق یا سیدنا عمر کا لقب فاروق تھا۔ دوسرے وہ جو مذموم ہوتے ہیں اور ایسے لقب عموماً حریف یا فریق مخالف یا دشمن رکھ دیتے ہیں اور یہ صرف اس کی تحقیر یا اس کو چڑانے کے لئے رکھے جاتے ہیں۔ اس آیت میں ایسے القاب سے پکارنے سے منع کیا گیا ہے۔ اور اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ بطور گالی یا تمسخر کسی کو فاسق یا یہودی کہا جائے یا اس کے ایسے جرم سے منسوب کیا جائے جسے وہ چھوڑ چکا ہو جیسے کسی کو ایمان لانے اور توبہ کرلینے کے بعد زانی، چور یا ڈاکو وغیرہ کہا جائے۔ ایسی سب باتیں فتنہ فساد اور لڑائی کا موجب بن جاتی ہیں۔ اسی لئے ان سے منع کردیا گیا ہے اور ایسے کام کرنا گناہ کبیرہ ہے۔ چناچہ سیدنا ابوذر غفاری (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ :&& جو شخص کسی مسلمان کو فاسق یا کافر کہے اور درحقیقت وہ کافر یا فاسق نہ ہو تو خود کہنے والا شخص فاسق یا کافر ہوجائے گا && (بخاری۔ کتاب الادب۔ باب ما ینہی من السباب واللعن) خ برے نام رکھنے یا بلانے کی ممانعت :۔ اور بعض دفعہ کسی شخص کا ایسا لقب رکھ دیا جاتا ہے جس میں نہ اس کی تحقیر ہوتی ہے اور نہ وہ خود اسے برا سمجھتا ہے بلکہ وہ محض تعارف کے طور پر ہوتا ہے۔ جیسے دور نبوی میں ایک صحابی کا اس کے لمبے ہاتھوں کے وجہ سے نام ہی ذوالیدین پڑگیا تھا۔ ایسے ہی عبداللہ طویل یا نابینا حکیم وغیرہ کہنے میں کچھ حرج نہیں۔ (بخاری۔ کتاب الادب۔ باب مایجوز من ذکر الناس۔۔ ) [١٨] یعنی مندرجہ بالا سب کام فسق کے کام ہیں۔ کسی مومن کا یہ کام نہیں کہ وہ ایمان لانے کے بعد بھی ایسے کام کرتا رہے۔ اور اگر کوئی ایسی باتوں میں نامور اور مشہور بھی ہوجائے تو یہ تو بہت ہی بری بات ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) یایھا الذین امنوا…: گزشتہ آیات میں مسلمانوں کے آپ س میں لڑنے کی صورت میں ان کے درمیان صلح کروانے کا حکم دیا، اس سے پہلے بلاتحقیق خبر پر عمل سے منع فرمایا تھا، کیونکہ اس سے لڑائی پیدا ہوسکتی ہے اور لاعلمی میں نقصان پہنچانے کا باعث بن سکتی ہے۔ یہاں سے مزید ان چیزوں سے منع فرمایا جو اسلامی اخوت کو نقصان پہنچاتی ہیں اور باہمی عداوت اور لڑائی کا باعث بنتی ہیں۔ اس آیت میں ایسی تین چیزیں ذکر فرمائیں :(١) کسی کا مذاق اڑانا۔ (٢) کسی پر عیب لگانا۔ (٣) کسی کو برے لقب سے پکارنا۔ (٢) لایسخر قوم من قوم :” سخر یسخر سخر وسخراً و سخراً و سخرا و سخرۃ و مسخراً بہ و منہ “ ( َ ) استہزائ، مذاق اڑانا، ٹھٹھا کرنا، و ہنسی جس سے دوسرے کی تحقیر اور دل آزاری ہو۔ وہ ہنسی جس سے دوسرے کا دل خوش ہو وہ مزاح کہلاتی ہے، وہ جائز ہے بلکہ مسنون ہے۔ کشاف میں ہے :” قوم کا لفظ مردوں کے ساتھ خاص ہے، کیونکہ مرد عورتوں کے ” قوام “ ہوتے ہیں جیسا کہ شاعر نے کہا ہے۔ ولا اذری و سوف اخال ادری اقوم ال حصن ام نساء ” اور میں نہیں جانتا اور میرا خیال ہے کہ میں جل ہی جان لوں گا کہ آل حصن قوم (یعنی مرد) ہیں یا عورتیں۔ “ یہ آیت بھی اس بات کی دلیل ہے ، کیونکہ قوم کو ٹھٹھا کرنے سے منع کرنے کے بعد عورتوں کو اس سے منع فرمایا ہے۔ رہی یہ بات کہ قرآن میں مذکور قوم فرعون اور قوم ثمود وغیرہ میں مرد اور عورتیں دونوں شامل ہیں تو اصل یہ ہے کہ وہاں مردوں کے ذکر پر اکتفا کیا گیا ہے، کیونکہ عورتیں ان کے تابع ہیں۔ (٣) پہلی چیز جس سے منع فرمایا وہ کس کا مذاق اڑانا یا تمسخ رہے، کیونکہ اس سے دلوں میں شدید بغض پیدا ہوتا ہے۔ جس کا مذاق اڑایا جائے وہ اسے اپنی تذلیل سمجھ کر ہر وقت اتنقام کے موقع کی تلاش میں رہتا ہے اور ظاہر ہے انتقام میں بات کاں سے کہاں تک جا پہنچتی ہے۔ کوئی شخص کسی کا ٹھٹھا اسی وقت اڑاتا ہے جب وہ اپنے آپ کو اس سے بہتر اور اس کو اپنے سے حقیر اور کمتر سمجھتا ہے اور یہ سمجھنا تکبر ہے، جس پر شدید وعید ائٓی ہے۔ عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ولا یدخل الجنۃ من کان فی قلبہ مثقال ذرۃ من کبر، قال رجل ان الرجل یحب ان یکون نوبہ حسنا ونعلہ حسنۃ، قال ان اللہ جمیل یحب الجمال، الکبر بطر الحق و غمط الناس) (مسلم، الایمان ، باب تحریم الکبر و بیانہ : ٩١)” وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہوگا جس کے دل میں ذرہ برابر تکبر ہوگا۔ “ ایک آدمی نے کہا : ” آدمی پسند کرتا ہے کہ اس کا کپڑا اچھا ہو اور اس کا جوتا اچھا ہو (تو کیا یہ بھی تکبر ہے) ؟ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” بیشک اللہ جمیل ہے اور جمال کو پسند کرتا ہے۔ تکبر تو حق کے انکار اور لوگوں کو حقیر جاننے کا نام ہے۔ “ یہاں قوم کو قوم کم مذاق اڑانے سے منع فرمایا، کیونکہ عموماً کسی مجلس ہی میں کسی کا مذاق اڑایا جاتا ہے ، ورنہ اکیلے کا مذاق اڑانا بھی منع ہے۔ (٤) عسی ان یکونوا خیراً منھم : مذاق اڑانے سے منع کرنے کی وجہ بیان فرمائی کہ جسے تم حقیر سمجھ کر ذلیل کر رہے ہو، ہوسکتا ہے وہ اللہ کے ہاں تم سے بہتر ہو، کیونکہ اچھا یا برا ہونے کا دار وم دار ظاہری شکل و صورت پر نہیں، بلکہ دل کے تقویٰ پر ہے اور اس کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے۔ پھر دار و مدار موجودہ حالت پر نہیں بلکہ خاتمے پر ہے، تمہیں کیا معلوم کہ اس کا خاتمہ تم سے اچھا ہو جسے تم حقیر سمجھ کر ذلیل کر رہے ہو۔ (٥) ولا نسآء من نسآء عسی ان یکن خیراً منھن : قرآن مجید میں عموماً احکام کے لئے مردوں ہی کو مخطاب کیا گیا ہے، عورتوں کا ذکر تابع ہونے کی وجہ سے لاگ نہیں کیا گیا۔ یہاں عورتوں کو الگ بھی خطاب فرمایا، اس سے ظاہر ہے کہ عورتوں کو اس گناہ سے روکنے کی خاص ضرورت ہے۔ یہاں ایک سوال ہے کہ اس آیت میں مردوں کو مردوں سے اور عورتوں کو عورتوں سے ٹھٹھا کرنے سے منع فرمایا تو کیا مرد عورتوں سے یا عورتیں مردوں سے ٹھٹھا کرسکتی ہیں ؟ جواب اس کا یہ ہے کہ مسلم معاشرہ میں مردوں اور عورتوں کے ملے جلے معاشرے کی گنجئاش ہی نہیں، جس میں وہ ایک دوسرے کا بےتکلف مذاق اڑا سکیں۔ یہاں مردوں اور عورتوں کی مجلسیں الگ الگ ہوتی ہیں، اس لئے دونوں کو الگ الگ منع فرمایا۔ (٦) مذاق خواہ زبان کے ساتھ اڑایا جائے یا کسی کے نقصک ی طرف اشارہ کر کے یہ نقل اتار کر، ہر طرح کا مذاق حرام ہے۔ عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ میں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہاک :(حسبک من صفیۃ کذا وکذا ، قال غیر مسدد تعنی فصیرۃ فقال لقد قلت کلمۃ لو مرجث بماء البحر لمرجنہ قالت و حکیت لہ انساناً فقال ما احب انی حکمت انسانًا و ان لی کذا وکذا) (ابوداؤد، الادب ، باب فی الغیۃ :3858 وقال الابانی صحیح)” آپ کو صفیہ سے یہی کچھ کافی ہے کہ وہ ایسے ایسے ہے۔ “ مسدد کے علاوہ دوسرے راوی نے وضاحت کی کہ مرادان کے قد کا چھوٹا ہونا تھا۔ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” یقینا تم نے ایسی بات کہی ہے کہ اگر سمندر کے پانی میں ملا دی جائے تو سارے پانی کو خراب کر دے۔” عائشہ (رض) نے بیان کیا :” اور میں نے آپ کے سامنے کسی انسان کی نقل اتاری (تو اس کا کیا حکم ہے ؟ ) “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” میں پسند نہیں کرتا کہ میں کسی انسان کی نقل ات اورں، خواہ مجھے یہ یہ کچھ مل جائے۔ “ (٧) ولا ت لمزوا انفسکم :” لمز یلمز لمزا “ (ض ، ن) کسی پر عیب لگانا ، خفی کلام کے ساتھ آنکھ کا اشار کرنا، دھکا دینا، مارنا۔ مزید دیکھیے سورة ہمزہ کی آیت (١):(ویل لکل ھمزۃ لمزۃ) کی تفسیر۔ اللہ تعالیٰ نے یہ کہنے کے بجائے کہ کسی پر عیب نہ لگاؤ، یہ فرمایا کہ اپنے آپ پر عیب نہ لاگوء جیسا کہ فرمایا :(لاتقتلوا انفسکم) (النسائ : ٢٩)” اپنے آپ کو قتتل نہ کرو۔ “ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ تمام مسلمان ” کالجسد الواحد “ (ایک جسم کی مانند) ہیں، عیب لگانے والے کو یہ یاد رکھنی چاہیے کہ جب وہ کسی مسلم بھائی پر عیب لگا رہا ہے تو درحقیقت وہ اپنے آپ ہی پر عیب لگا رہا ہے، سو اسے ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ جب یہ دوسروں پر عیب لگائے گا تو عیب سے خالی تو یہ بھی نہیں اور دوسرں کی آنکھیں بھی ہیں اور زبان بھی، پھر اس کے عیوب بھی ظاہر کئے جائیں گے، اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا :” اپنے آپ پر عیب مت لگائگو۔ “ اس آیت میں لوگوں کے سامنے کسی کے عیب ظاہر کرنے اور ان کا طعنہ دینے سے منع فرمایا، اگلی آیت میں کسی کی عدم موجودگی میں اس کے عیب ذکر کرنے یعنی غیبت سے بھی منع کیا۔ صرف ایک بات کی اجازت ہے اور وہ ہے نصیحت کہ اپنے بھائی کو الگ لے جا کر اسے اس کی غلطی بات کر درست کرنے کی نصیحت کرے، جس طرح آئینہ غلطی بتاتا ہے مگر شور نہیں ڈالتا۔ لوگوں کے سامنے کسی مسلم کے منہ پر یا اس کی عدم موجودگی میں اس کے عیب کا اظہار کرنے کے بجائے اس پر پردہ ڈلانے کا حکم ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(المسلم اخوالمسلم، لایظلمہ ولایسلمہ، ومن کان فی حاجۃ اخیہ کان اللہ فی حاجتہ ، ومن فرج عن مسلم کر بۃ فرج اللہ عنہ کر بۃ من کر بات یوم القیامۃ و من ستر مسلما سترہ اللہ یوم القیامۃ (بخاری، المظالم، باب لا یظلم المسلم المسلم ولا بسلمہ :2332 عن ابن عمر (رض) )” مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، نہ اس پر ظلم کرنا ہے اور نہ اسے بےیارو مددگار چھوڑتا ہے اور جو شخص اپنے بھائی کے کام میں ہو اللہ اس کے کام میں ہوتا ہے اور جو کسی مسلم سے کوئی تکلیف دور کرے اللہ تعالیٰ قیامت کی تکلیفوں میں سے کوئی تکلیف اس سے دور فرمائے گا اور جو کسی مسلم پر پردہ ڈلاے، (رض) اس پر پردہ ڈالے گا۔ “ (٨) ولا تنا بروا بالالقاب :” النبر “ (نون اور باء کے فتحہ کے ساتھ) برے لقب کو کہتے ہیں، مثلاً لنگڑا، لولا، اندھا، کالا، ٹھگنا، کبڑا، گدھا، لومڑ یا کوئی بھی نام جس سے کسی کو تکلیف ہوتی ہو، مثلاً کسی سے کوئی گناہ ہوا ہو، تائب ہونے کے بعد عار دلانے کے لئے اسے چور یا زانی یا شربای کہہ کر پکارنا۔ لقب ایسے نام کو کہتے ہیں جس سے کسی خوبی یا خامی کا اظہار ہوتا ہو، خواہ آدمی نے خود اپنے لئے رکھا لیا ہو یا کسی دوسرے نے رکھ دیا ہو۔ یہاں ” لاتنابروا “ کے قرینے سے لقب سے مراد برا نام ہے، کیونکہ اچھے القاب سے پکارنا تو قابل تعریف ہے، جیسے ابوبکر صدیق، عمر فاورق، حمزہ اسد اللہ، خالد سیف اللہ ، ابوعبیدہ امین الامت، حذیفہ صاحب سر رسول اللہ ، عبداللہ بن مسعود صاحب المطہرۃ والو سادۃ والنعلین (رضی اللہ عنہ ) ۔ اس کے علاوہ عرب کا طریقہ اکرام کرتے ہوئے کنیت کے ساتھ پکارنے کا تھا، جس یا سلام نے برقرار رکھا۔ مومن کا حق یہ ہے کہ اسے اس نام سے پکارا جائے جو اسے اپنے لئے سب سے زیادہ پسند ہو، کیونکہ یہ محبت پیدا کرنے اور اسے قائم رکھنے کا باعث ہے۔” ولا تنا بروا بالالقاب “ یعنی کوئی شخص کسی دوسرے کا برا نام نہ رکھے جس سے وہ ناراض ہو، یا اس کی توین و تذلیل ہوتی ہو اور نہ ایسے نام کیساتھ اسے آواز دے کر پکارے۔ جاہلیت میں یہ بات عام تھی کہ ایک شخص نے دوسرے کا برا لقب رکھا تو اس نے اس کا رکھ دیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس سے منع فرما دیا۔ ابو جبیرہ بن ضحاک (رض) بیان کرتے ہیں :” آیت :(ولاتنا بزوا بالالقاب بئس الاسم الفسوق بعد الایمان) ہم بنو سلمہ کے بارے میں نازل ہوئی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ میں آئے تو ہم میں سے ہر آدمی کے دو دو، تین تین نام تھے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی کو کوئی نام لے کر بلاتے تو لوگ کہتے :” یا رسول اللہ ! اسے اس نام سے نہ بلائیں، کیونکہ وہ اس سے ناراض ہوتا ہے۔ “ تو اس پر آیت (ولا تنا بزوا بالالقاب) اتری۔ “ (ابوداؤد، الادب، باب فی الاقاب :3962) (٩) اس حکم سے وہ القاب مستثنیٰ ہیں جو کسی کی پہچان بن چکے ہوں، نہ اس نام والا اسے برا سمجھتا ہو اور نہ اس سے مقصود تحقیر یا تذلیل ہو، بلکہ مقصود صرف تعارف ہو، جیسے سلیمان الاعمش (چندھیائی ہوئی آنکھوں والا): واصل الاحدب (کبڑا) ، حمید الطویل (لمبا) ، ابوہریرہ اور ذوالیدین وغیرہ۔ (١٠) بئس الاسم الفسوق بعد الایمان : اس سے معلوم ہوا کہ اوپر جن چیزوں سے روکا گیا ہے وہ سب فسوق ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ جو شخص ان کاموں کا ارتکاب کرے وہ مومن ہونے کے باوجود فاسق ہے اور یہ بہت بری بات ہے کہ آدمی کا نام فاسق رکھا جائے، اسکے بعد کہ اس کا نام ممنون ہے۔” بعد الایمان “ (ایمان کے بعد) اس لئے فرمایا کہ اگر تم ایمان کا شرف حاصل نہ کرچکے ہوتے تو فاسق یا بدمعشا کہلانے میں عار کی کئیو خاص بات نہ تھی، لیکن اب ایمان لے آنے کے بعد یہ نام تم پر آنا بہت بری بات ہے۔ تمہیں یہ بات مدنظر رکھنی چاہیے کہ اب تم وہ ہو جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا :(ولکن اللہ حبب الیکم الایمان وزینہ فی قلوبکم و کرہ الیکم الکفروا الفسوق والعصیان) (الحجرات : ٨) ” اور لیکن اللہ نے تمہاریلئے ایمان کو م حبوب بنادیا اور اسے تمہارے دلوں میں مزین کردیا اور اس نے کفر اور گناہ اور نافرمانی کو تمہارے لئے ناپسندیدہ بنادیا۔ “ تو تمہیں ہر ایسے کام سے اجتناب کرنا چاہیے جس سے تم پر فسق کا نام آئے (١١) ومن لم یتب فاولئک ھم الظلمون :” الف لام “ کمال کا ہے، یعنی اگرچہ جو بھی گناہ کرے ظالم ہے مگر توبہ سے اس ظلم کی تلافی ہوجاتی ہے۔ اصل ظالم وہی ہیں جو گناہوں پر اصرار کرتے ہیں اور توبہ کئے بغیر فوت ہوجاتے ہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

(*). It means that calling others with bad nicknames is a sinful act, and the real bad name for a person after embracing Faith is that he is known among people for sinful acts. Therefore, if a Muslim commits the sin of calling others with bad nicknames, and it is known among people, then the real bad name is earned by himself, and not by the person whom he has abused with that nickname. (Muhammad Taqi Usmani) Prohibition of Ridiculing One Another The beginning part of this chapter laid down the Prophet&s (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) rights and the etiquettes to be observed when dealing with him. Then the Holy Qur&an has started mentioning the mutual rights and good manners for the general body of Muslims to be observed among themselves. The injunctions laid down in the preceding two verses related to the collective reformation of the society. Now the current verse mentions the rights and etiquettes to be observed between individuals. Thus the verse prohibits three social evils: [ 1] ridiculing one another; [ 2] finding fault with one another; and [ 3] reviling one another with nicknames. According to Qurtubi, mocking or scoffing does not only connote mocking with the tongue, but it also implies mimicking someone, making pointed references to him, laughing at his words, his works, his appearance, his dress or calling people&s attention to some of his defects, so that they may laugh at him. Mocking includes all of this. By the clear text of the Qur&an, poking fun at someone or ridiculing him is absolutely forbidden. Stylistically, the Qur&an has, on this occasion, addressed men and women separately. Men are referred to as qawm, a word that is specifically reserved for male members of the human society, though by extension the word most often includes the female members of the human society as well. The Qur&an, however, generally employs the word qawm for both men and women, but here it is specifically used for men in contradistinction to the word nisa& which specifically refers to women. Here both men and women are reminded that mocking one another is a disdainful and evil act. They must refrain from it, because it is very likely that the man who is mocked at may be better than the mocking person and the woman who is mocked at may be better than the mocker. Here the Qur&an prohibits men from mocking other men, and women from mocking other women. This, however, does not mean that it is permitted for men to mock at women or for women to mock at men. The actual reason for making separate mention of the two sexes is that Islam does not allow free intermingling of the two sexes. Ridiculing each other generally occurs where there is such an intermingling. Therefore, in a Muslim society it is inconceivable that men would mock a woman or women would mock a man in an intermingling situation. In short: no one dare make mockery of a person whose body, face, shape and stature are defective, imperfect, impaired or deformed, because he does not know that the other person, in the sight of Allah, might be better than him on account of his sincerity and purity of heart. When the righteous predecessors heard this verse, they adopted a conducive attitude: For example, Sayyidna ` Amr Ibn Shurahbil (رض) said that he would not laugh at a person when he sees him drink milk direct from the udders of a goat, lest he should become one like him. Sayyidna ` Abdullah Ibn Masud (رض) said: |"I would not like to scoff at a dog, lest I be Metamorphosed into a dog (Qurtubi).|" It is recorded in Sahib of Muslim on the authority of Sayyidna Abu &Hurairah (رض) that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said: |"Allah does not look at your Faces and your wealth; He looks at your hearts and your works.|" Qurtubi derives a legal maxim from this tradition of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) that in any matter it is not proper to pass a categorical judgment on the basis of overt evidence or circumstances, because it is possible that a person&s overt actions might seem to be good but in the sight of Allah, on account of the insincerity and impurity of his heart, they could be bad, as He is fully aware of the inner state of people&s hearts. On the contrary, a person&s overt actions might seem to us bad, but in the sight of Allah, on account of the sincerity and purity of his heart, they could serve as an expiation of the bad actions, as He is fully aware of the inner state of people&s heart. The next thing that is prohibited in the verse is lamz which connotes to find fault with someone or to upbraid him. The verse says, وَلَا تَلْمِزُوا أَنفُسَكُمْ literally it means, |"Do not find fault with your selves.|" But the intention is: |"Do not find fault with one another-|" [ 49:11] as is seen in the translation above. This expression is similar to the expression وَلَا تَقْتُلُوا أَنفُسَكُمْ &...And do not kill yourselves - [ 4:29] &. Although the verse commands |"do not kill yourselves|", it purports to say |"do not kill one another|". This expression indicates that, from one point of view, killing another person amounts to killing oneself. Often it happens that if one person kills another person, the victim&s supporters kill the murderer. Even if this does not happen, a Muslim is the brother of another Muslim. Killing one&s brother is like killing oneself and rendering oneself crippled, helpless and powerless. Similarly, the expression لَا تَلْمِزُوا أَنفُسَكُمْ &and not find fault with yourselves& means when you find fault with others and upbraid them, others will find fault with you and upbraid you, because no man is normally free from any fault. Scholars have formulated the maxim: وفیک عیوب و للنّاس اعین |"You have faults and people have eyes|" with which they see them. Thus if someone seeks out the imperfections of some other person and broadcasts them, the latter will do the same in return. If, however, he exercises patience and evades retaliation to his verbal attacks, it comes down to the same thing: If one considers carefully, he will find that defaming and despising one&s Muslim brother is actually casting aspersions on oneself. Scholars have suggested that the satisfaction, well-being and happiness of man lies in examining his own faults and finding ways of mending them. This approach to life will give him no time to find fault with others and broadcast it. How well the last king of India Bahadur Shah Zafar has versified it! نہ تھی حال کی جب ہمیں اپنی خبر رہے دیکھتے لوگوں کے عیب و ہنر پڑی اپنی برایٌوں پر جو نظر تو جہان میں کویٔی بُرا نہ رہا As long as we were unaware of our own faults, we looked into the faults and failings of others; But when we looked at our own faults there remained no one faulty in the world. The third thing that is prohibited in the verse is reviling one another with nicknames which are offensive to them, e.g. calling a person lame, hands cropped, blind or one-eyed; or referring to him by other offensive nicknames. Sayyidna Abu Jabirah Ansari (رض) says, |"This verse was revealed in connection with us. When we migrated to Madinah, most of us had two or three names. Some of them were popularised in order to denigrate, defame or belittle the bearer of the name. The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) was not aware of this situation; as a result he sometimes called them by one of these offensive names unwittingly. The noble Companions (رض) informed the Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) that the name offends the bearer of that name. This verse was revealed on that occasion.|" Sayyidna Ibn-Abbas (رض) says that prohibition of tanabuz bil-alqab means that if a person committed a sin or performed an evil deed from which he repented and mended his ways, it is unlawful for anyone to call him by denigrating names, such as thief, an adulterer, a drunkard or any such name. The Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) is reported to have said: |"Anyone who denigrates a Muslim who has committed a sin of which he has repented, Allah takes it upon Himself that He will get the person to commit the very same sin and expose him to embarrassment and humiliation in this world and in the Hereafter [ Qurtubi ]. Exception to the Rule There are some nicknames, which though apparently offensive, are not intended to defame or insult the bearer of that name, but they rather serve as a symbol of identification. That is why scholars have permitted to attach titles to the names of the traditionalists - like A&raj [ lame, cripple ] or ahdab [ humpbacked, hunchbacked ] provided they are not intended to insult or defame. The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) himself named a Companion dhul-yadain because his hands were relatively long. ` Abdullah Ibn Mubarak was posed the question: |"In the asanid [ chains of authorities on which a tradition is based ] we come across names to which are attached titles like Hamid At-Tawil [ Hamid, the Tall ], Sulaiman al-A&mash [ Sulaiman the weak-eyed ] and Marwan al-Asfar [ Marwan, the Yellow ]: are these titles allowed?|" He replied: “ If your intention is not to insult or defame, but rather to complete identification, it is permitted.|" [ Qurtubi ] It is Sunnah to call people by Good Titles The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) is reported to have said that it is the right of a believer to call his fellow-believers by good names and titles which they like the best. Therefore the use of kunniyyah [ agnomen/cognomen ] had become commonplace in Arabia. The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) also favoured this, and consequently he himself bestowed appropriate titles on some of the individual Companions, e.g. Abu Bakr Siddiq (رض) received the title of ` Atiq [ the noble ], Sayyidna ` Umar (رض) ، the title of Faruq [ he who distinguishes truth from falsehood ], Sayyidna Hamzah (رض) the title of Asadullah [ the lion of Allah ] and Khalid Ibn Walid, the title of Saifullah [ the sword of Allah ].

خلاصہ تفسیر اے ایمان والو ! نہ تو مردوں کو مردوں پر ہنسنا چاہئے کیا عجب ہے کہ (جن پر ہنستے ہیں) وہ ان (ہنسنے والوں) سے (خدا کے نزدیک) بہتر ہوں (پھر وہ تحقیر کیسے کرتے ہیں) اور نہ عورتوں کو عورتوں پر ہنسنا چاہئے کیا عجب ہے کہ (جن پر ہنستی ہیں) وہ ان (ہنسنے والیوں) سے (خدا کے نزدیک) بہتر ہوں (پھر وہ تحقیر کیسے کرتی ہیں) اور نہ ایک دوسرے کو طعنہ دو اور نہ ایک دوسرے کو برے لقب سے پکارو (کیونکہ یہ سب باتیں گناہ کی ہیں اور) ایمان لانے کے بعد (مسلمان پر) گناہ کا نام لگتا (ہی) برا ہے (یعنی یہ گناہ کر کے تمہاری شان میں یہ کہا جا سکنا کہ فلاں مسلمان جس سے تم مراد ہو گناہ یعنی خدا کی نافرمانی کرتا ہے نفرت کی بات ہے تو اس سے بچو) اور جو (ان حرکتوں سے) باز نہ آویں گے تو وہ ظلم کرنے والے (اور حقوق العباد کو تلف کرنے والے) ہیں (جو سزا ظالموں کو ملے گی وہی ان کو ملے گی) ۔ سورة حجرات کے شروع میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حقوق اور آداب کا بیان آیا پھر عام مسلمانوں کے باہمی حقوق و آداب معاشرت کا بیان شروع ہوا، سابقہ دو آیتوں میں ان کی اجتماعی و جماعتی اصلاح کے احکام بیان ہوئے، مذکور الصدر آیتوں میں اشخاص و افراد کے باہمی حقوق و آداب معاشرت کا ذکر ہے، ان میں تین چیزوں کی ممانعت فرمائی گئی ہے۔ اول کسی مسلمان کے ساتھ تمسخر و استہزاء کرنا، دوسرے کسی پر طعنہ زنی کرنا، تیسرے کسی کو ایسے لقب سے ذکر کرنا جس سے اس کی توہین ہوتی ہو یا وہ اس سے برا مانتا ہو۔ پہلی چیز سخریہ یا تمسخر ہے۔ قرطبی نے فرمایا کہ کسی شخص کی تحقیر و توہین کے لئے اس کے کسی عیب کو اس طرح ذکر کرنا جس سے لوگ ہنسنے لگیں اس کو سخریہ، تمسخر، استہزا کہا جاتا ہے اور یہ جیسے زبان سے ہوتا ہے ایسے ہی ہاتھوں پاؤں وغیرہ سے اس کی نقل اتارنے یا اشارہ کرنے سے بھی ہوتا ہے اور اس طرح بھی کہ اس کا کلام سن کر بطور تحقیر کے ہنسی اڑائی جائے اور بعض حضرات نے فرمایا کہ سخریہ و تمسخر کسی شخص کے سامنے اس کا اسی طرح ذکر کرنا ہے کہ اس سے لوگ ہنس پڑیں اور یہ سب چیزیں بنص قرآن حرام ہیں۔ سخریہ کی ممانعت کا قرآن کریم نے اتنا اہتمام فرمایا کہ اس میں مردوں کو الگ مخاطب فرمایا عورتوں کو الگ، مردوں کو لفظ قوم سے تعبیر فرمایا کیونکہ اصل میں یہ لفظ مردوں ہی کے لئے وضع کیا گیا ہے اگرچہ مجازاً و تو سعاً عورتوں کو اکثر شامل ہوجاتا ہے اور قرآن کریم نے عموماً لفظ قوم مردوں عورتوں دونوں ہی کے لئے استعمال کیا ہے مگر یہاں لفظ قوم خاص مردوں کے لئے استعمال فرمایا اس کے بالمقابل عورتوں کا ذکر لفظ نساء سے فرمایا اور دونوں میں یہ ہدایت فرمائی کہ جو مرد کسی دوسرے مرد کے ساتھ استہزاء و تمسخر کرتا ہے اس کو کیا خبر ہے کہ شاید وہ اللہ کے نزدیک استہزاء کرنے والے سے بہتر ہو، اسی طرح جو عورت کسی دوسری عورت کے ساتھ استہزاء و تمسخر کا معاملہ کرتی ہے اس کو کیا خبر ہے شاید وہی اللہ کے نزدیک اس سے بہتر ہو۔ قرآن میں مردوں کا مردوں کے ساتھ اور عورتوں کا عورتوں کے ساتھ استہزاء کرنے اور اس کی حرمت کا ذکر فرمایا حالانکہ کوئی مرد کسی عورت کے ساتھ یا کوئی عورت کسی مرد کے ساتھ استہزاء کرے تو وہ بھی اس حرمت میں داخل ہے مگر اس کا ذکر نہ کرنے سے اشارہ اس طرف ہے کہ عورتوں اور مردوں کا اختلاط ہی شرعاً ممنوع اور مذموم ہے جب اختلاط نہیں تو تمسخر کا تحقق ہی نہیں ہوگا۔ حاصل آیت کا یہ ہے کہ اگر کسی شخص کے بدن یا صورت یا قد و قامت وغیرہ میں کوئی عیب نظر آوے تو کسی کو اس پر ہنسنے یا استہزاء کرنے کی جرات نہ کرنا چاہئے کیونکہ اسے معلوم نہیں کہ شاید وہ اپنے صدق و اخلاص وغیرہ کے سبب اللہ کے نزدیک اس سے بہتر اور افضل ہو۔ اس آیت کو سن کر سلف صالحین کا حال یہ ہوگیا تھا کہ عمرو بن شرجیل نے فرمایا کہ میں اگر کسی شخص کو بکری کے تھنوں سے منہ لگا کر دودھ پیتے دیکھوں اور اس پر مجھے ہنسی آجائے تو میں ڈرتا ہوں کہ کہیں میں بھی ایسا ہی نہ ہوجاؤں۔ حضرت عبداللہ بن مسعود نے فرمایا کہ میں اگر کسی کتے کے ساتھ بھی استہزاء کروں تو مجھے ڈر ہوتا ہے کہ میں خود کتا نہ بنادیا جاؤں (قرطبی) صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کی صورتوں اور ان کے مال و دولت پر نظر نہیں فرماتا بلکہ ان کے قلوب اور اعمال کو دیکھتا ہے قرطبی نے فرمایا کہ اس حدیث سے ایک ضابطہ اور اصل یہ معلوم ہوئی کہ کسی شخص کے معاملہ میں اس کے ظاہری حال کو دیکھ کر کوئی قطعی حکم لگا دینا درست نہیں، کیونکہ ہوسکتا ہے کہ جس شخص کے ظاہری اعمال و افعال کو ہم بہت اچھا سمجھ رہے ہیں اللہ تعالیٰ جو اس کے باطنی حالات اور قلبی کیفیات کو جانتا ہے وہ اس کے نزدیک مذموم ہو اور جس شخص کے ظاہری حال اور اعمال برے ہیں ہوسکتا ہے کہ اس کے باطنی حالات اور قلبی کیفیات اس کے اعمال بد کا کفارہ بن جائیں اس لئے جس شخص کو بری حالت یا برے اعمال میں مبتلا دیکھو تو اس کی اس حالت کو تو برا سمجھو مگر اس شخص کو حقیر و ذلیل سمجھنے کی اجازت نہیں، دوسری چیز جس کی ممانعت اس آیت میں کی گئی ہے وہ لمز ہے۔ لمز کے معنی کسی میں عیب نکالنے اور عیب ظاہر کرنے یا عیب پر طعنہ زنی کرنے کے ہیں آیت میں ارشاد فرمایا وَلَا تَلْمِزُوْٓا اَنْفُسَكُمْ ، یعنی تم اپنے عیب نہ نکالو۔ یہ ارشاد ایسا ہی ہے جیسے قرآن کریم میں ہے لا تقتلوا انفسکم، جس کے معنی یہ ہیں کہ تم اپنے آپ کو قتل نہ کرو، دونوں جگہ اپنے آپ کو قتل کرنے یا اپنے عیب نکالنے سے مراد یہ ہے کہ تم آپس میں ایک دوسرے کو قتل نہ کرو، ایک دوسرے کو طعنہ نہ دو اور اس عنوان سے تعبیر کرنے میں حکمت یہ بتلانا ہے کہ کسی دوسرے کو قتل کرنا ایک حیثیت سے اپنے آپ ہی کو قتل کرنا ہے کیونکہ اکثر تو ایسا واقع ہو ہی جاتا ہے کہ ایک نے دوسرے کو قتل کیا دوسرے کے حمایتی لوگوں نے اس کو قتل کردیا اور اگر یہ بھی نہ ہو تو اصل بات یہ ہے کہ مسلمان سب بھائی بھائی ہیں اپنے بھائی کو قتل کرنا گویا خود اپنے آپ کو قتل کرنا اور بےدست و پا بنانا ہے یہی معنی یہاں وَلَا تَلْمِزُوْٓا اَنْفُسَكُمْ میں ہیں کہ تم جو دوسروں کے عیب نکالو اور طعنہ دو تو یاد رکھو کہ عیب سے تو کوئی انسان عادةً خالی نہیں ہوتا، تم اس کے عیب نکالو گے تو وہ تمہارے عیب نکالے گا جیسا کہ بعض علماء نے فرمایا کہ وفیک عیوب و للناس اعین، یعنی تم میں بھی کچھ عیوب ہیں اور لوگوں کی آنکھیں ہیں جو ان کو دیکھتی ہیں تم کسی کے عیب نکالو گے اور طعنہ زنی کرو گے تو وہ تم پر یہی عمل کریں گے اور بالفرض اگر اس نے صبر بھی کیا تو بات وہی ہے کہ اپنے ایک بھائی کی بدنامی اور تذلیل پر غور کریں تو اپنی ہی تذلیل و تحقیر ہے۔ علماء نے فرمایا ہے کہ انسان کی سعادت اور خوش نصیبی اس میں ہے کہ اپنے عیوب پر نظر رکھے ان کی اصلاح کی فکر میں لگا رہے اور جو ایسا کرے گا اس کو دوسروں کے عیب نکالنے اور بیان کرنے کی فرصت ہی نہ ملے گی۔ ہندوستان کے آخری مسلمان بادشاہ ظفر نے خوب فرمایا ہے۔ نہ تھی حال کی جب ہمیں اپنی خبر، رہے دیکھتے لوگوں کے عیب و ہنر پڑی اپنی برائیوں پر جو نظر، تو جہان میں کوئی برا نہ رہا تیسری چیز جس سے آیت میں ممانعت کی گئی ہے وہ کسی دوسرے کو برے لقب سے پکارنا ہے جس سے وہ ناراض ہوتا ہو، جیسے کسی کو لنگڑا لولا یا اندھا کانا کہہ کر پکارنا یا اس لفظ سے اس کا ذکر کرنا اسی طرح جو نام کسی شخص کی تحقیر کے لئے استعمال کیا جاتا ہو اس نام سے اس کو پکارنا، حضرت ابوجبیرہ انصاری نے فرمایا کہ یہ آیت ہمارے بارے میں نازل ہوئی ہے کیونکہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ میں تشریف لائے تو ہم میں اکثر آدمی ایسے تھے جن کے دو یا تین نام مشہور تھے اور ان میں سے بعض نام ایسے تھے جو لوگوں نے اس کو عار دلانے اور تحقیر و توہین کے لئے مشہور کردیئے تھے۔ آپ کو یہ معلوم نہ تھا بعض اوقات وہی برا نام لے کر آپ اس کو خطاب کرتے تو صحابہ عرض کرتے کہ یا رسول اللہ وہ اس نام سے ناراض ہوتا ہے اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ اور حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ آیت میں تنابزو بالا لقاب سے مراد یہ ہے کہ کسی شخص نے کوئی گناہ یا برا عمل کیا ہو اور پھر اس سے تائب ہوگیا ہو اس کے بعد اس کو اس برے عمل کے نام سے پکارنا، مثلاً چور یا زانی یا شرابی وغیرہ جس نے چوری، زنا، شراب سے توبہ کرلی ہو اس کو اس پچھلے عمل سے عار دلانا اور تحقیر کرنا حرام ہے۔ حدیث میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ جو شخص کسی مسلمان کو ایسے گناہ پر عار دلائے جس سے اس نے توبہ کرلی ہے تو اللہ نے اپنے ذمہ لے لیا ہے کہ اس کو اسی گناہ میں مبتلا کر کے دنیا و آخرت میں رسوا کرے گا (قرطبی) بعض القاب کا استثناء بعض لوگوں کے ایسے نام مشہور ہوجاتے ہیں جو فی نفسہ برے ہیں مگر وہ بغیر اس لفظ کے پہچانا ہی نہیں جاتا تو اس کو اس نام سے ذکر کرنے کی اجازت پر علماء کا اتفاق ہے بشرطیہ ذکر کرنے والے کا قصد اس سے تحقیر و تذلیل کا نہ ہو جیسے بعض محدثین کے نام کے ساتھ اعرج یا احدب مشہور ہے اور خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک صحابی کو جس کے ہاتھ نسبتاً زیادہ طویل تھے ذوالیدین کے نام سے تعبیر فرمایا ہے۔ حضرت عبداللہ بن مبارک سے دریافت کیا گیا کہ اسانید حدیث میں بعض ناموں کے ساتھ کچھ ایسے القاب آتے ہیں مثلاً حمید الطویل، سلیمان الاعمش، مروان الاصفر وغیرہ، تو کیا ان القاب کے ساتھ ذکر کرنا جائز ہے، آپ نے فرمایا جب تمہارا قصد اس کا عیب بیان کرنے کا نہ ہو بلکہ اس کی پہچان پوری کرنے کا ہو تو جائز ہے (قرطبی) سنت یہ ہے کہ لوگوں کو اچھے القاب سے یاد کیا جائے : حدیث میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ مومن کا حق دوسرے مومن پر یہ ہے کہ اس کا ایسے نام و لقب سے ذکر کرے جو اس کو زیادہ پسند ہو اس لئے عرب میں کنیت کا رواج عام تھا اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی اس کو پسند فرمایا۔ خود آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خاص خاص صحابہ کو کچھ لقب دیئے ہیں۔ صدیق اکبر کو عتیق اور حضرت عمر کو فاروق اور حضرت حمزہ کو اسد اللہ اور خالد بن ولید کو سیف اللہ فرمایا ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ عَسٰٓى اَنْ يَّكُوْنُوْا خَيْرًا مِّنْہُمْ وَلَا نِسَاۗءٌ مِّنْ نِّسَاۗءٍ عَسٰٓى اَنْ يَّكُنَّ خَيْرًا مِّنْہُنَّ۝ ٠ ۚ وَلَا تَلْمِزُوْٓا اَنْفُسَكُمْ وَلَا تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِ۝ ٠ ۭ بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوْقُ بَعْدَ الْاِيْمَانِ۝ ٠ ۚ وَمَنْ لَّمْ يَتُبْ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الظّٰلِمُوْنَ۝ ١١ سخر التَّسْخِيرُ : سياقة إلى الغرض المختصّ قهرا، قال تعالی: وَسَخَّرَ لَكُمْ ما فِي السَّماواتِ وَما فِي الْأَرْضِ [ الجاثية/ 13] ( س خ ر ) التسخیر ( تفعیل ) کے معنی کسی کو کسی خاص مقصد کی طرف زبر دستی لیجانا کے ہیں قرآن میں ہے وَسَخَّرَ لَكُمْ ما فِي السَّماواتِ وَما فِي الْأَرْضِ [ الجاثية/ 13] اور جو کچھ آسمان میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اس نے ( اپنے کرم سے ) ان سب کو تمہارے کام میں لگا رکھا ہے ۔ قوم والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] ، ( ق و م ) قيام القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] عسی عَسَى طَمِعَ وترجّى، وكثير من المفسّرين فسّروا «لعلّ» و «عَسَى» في القرآن باللّازم، وقالوا : إنّ الطّمع والرّجاء لا يصحّ من الله، وفي هذا منهم قصورُ نظرٍ ، وذاک أن اللہ تعالیٰ إذا ذکر ذلک يذكره ليكون الإنسان منه راجیا لا لأن يكون هو تعالیٰ يرجو، فقوله : عَسى رَبُّكُمْ أَنْ يُهْلِكَ عَدُوَّكُمْ [ الأعراف/ 129] ، أي : کونوا راجین ( ع س ی ) عسیٰ کے معنی توقع اور امید ظاہر کرنا کے ہیں ۔ اکثر مفسرین نے قرآن پاک میں اس کی تفسیر لازم منعی یعنی یقین سے کی ہے وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے حق میں طمع اور جا کا استعمال صحیح نہیں ہے مگر یہ ان کی تاہ نظری ہے کیونکہ جہاں کہیں قرآن میں عسی کا لفظ آیا ہے وہاں اس کا تعلق انسان کے ساتھ ہے نہ کہ اللہ تعالیٰ کیساتھ لہذا آیت کریمہ : ۔ عَسى رَبُّكُمْ أَنْ يُهْلِكَ عَدُوَّكُمْ [ الأعراف/ 129] کے معنی یہ ہیں کہ تم اللہ تعالیٰ سے امید رکھو کہ تمہارے دشمن کو ہلاک کردے خير الخَيْرُ : ما يرغب فيه الكلّ ، کالعقل مثلا، والعدل، والفضل، والشیء النافع، وضدّه : الشرّ. قيل : والخیر ضربان : خير مطلق، وهو أن يكون مرغوبا فيه بكلّ حال، وعند کلّ أحد کما وصف عليه السلام به الجنة فقال : «لا خير بخیر بعده النار، ولا شرّ بشرّ بعده الجنة» «3» . وخیر وشرّ مقيّدان، وهو أن يكون خيرا لواحد شرّا لآخر، کالمال الذي ربما يكون خيرا لزید وشرّا لعمرو، ولذلک وصفه اللہ تعالیٰ بالأمرین فقال في موضع : إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة/ 180] ، ( خ ی ر ) الخیر ۔ وہ ہے جو سب کو مرغوب ہو مثلا عقل عدل وفضل اور تمام مفید چیزیں ۔ اشر کی ضد ہے ۔ اور خیر دو قسم پر ہے ( 1 ) خیر مطلق جو ہر حال میں اور ہر ایک کے نزدیک پسندیدہ ہو جیسا کہ آنحضرت نے جنت کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خیر نہیں ہے جس کے بعد آگ ہو اور وہ شر کچھ بھی شر نہیں سے جس کے بعد جنت حاصل ہوجائے ( 2 ) دوسری قسم خیر وشر مقید کی ہے ۔ یعنی وہ چیز جو ایک کے حق میں خیر اور دوسرے کے لئے شر ہو مثلا دولت کہ بسا اوقات یہ زید کے حق میں خیر اور عمر و کے حق میں شربن جاتی ہے ۔ اس بنا پر قرآن نے اسے خیر وشر دونوں سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة/ 180] اگر وہ کچھ مال چھوڑ جاتے ۔ نِّسَاءُ والنِّسْوَان والنِّسْوَة جمعُ المرأةِ من غير لفظها، کالقومِ في جمعِ المَرْءِ ، قال تعالی: لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ إلى قوله : وَلا نِساءٌ مِنْ نِساءٍ [ الحجرات/ 11] ما بالُ النِّسْوَةِ اللَّاتِي قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ [يوسف/ 50] النساء والنسوان والنسوۃ یہ تینوں امراءۃ کی جمع من غیر لفظہ ہیں ۔ جیسے مرء کی جمع قوم آجاتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ إلى قوله : وَلا نِساءٌ مِنْ نِساءٍ [ الحجرات/ 11] اور نہ عورتیں عورتوں سے تمسخر کریں ما بال النِّسْوَةِ اللَّاتِي قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ [يوسف/ 50] کہ ان عورتوں کا کیا حال ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ کا ٹ لئے تھے ۔ لمز اللَّمْزُ : الاغتیاب وتتبّع المعاب . يقال : لَمَزَهُ يَلْمِزُهُ ويَلْمُزُهُ. قال تعالی: وَمِنْهُمْ مَنْ يَلْمِزُكَ فِي الصَّدَقاتِ [ التوبة/ 58] ، الَّذِينَ يَلْمِزُونَ الْمُطَّوِّعِينَ [ التوبة/ 79] ، وَلا تَلْمِزُوا أَنْفُسَكُمْ [ الحجرات/ 11] أي : لا تلمزوا الناس فيلمزونکم، فتکونوا في حکم من لمز نفسه، ورجل لَمَّازٌ ولُمَزَةٌ: كثير اللّمز، قال تعالی: وَيْلٌ لِكُلِّ هُمَزَةٍ لُمَزَةٍ [ الهمزة/ 1] . ( ل م ز ) لمزہ ( ض ن ) لمزا کے معنی کسی کی غیبت کرنا ۔ اس پر عیب چینی کرنا کے ہیں ۔ کہا جاتا ہے ۔ لمزہ یلمزہ ویلمزہ ۔ یعنی یہ باب ضرفب اور نصر دونوں سے آتا ہے قرآن میں ہے : الَّذِينَ يَلْمِزُونَ الْمُطَّوِّعِينَ [ التوبة/ 79] اور ان میں بعض ایسے بھی ہیں کہ تقسیم صدقات میں تم پر طعنہ زنی کرتے ہیں ۔ جو رضا کار انہ خیر خیرات کرنے والوں پر طنزو طعن کرتے ہیں ۔ وَلا تَلْمِزُوا أَنْفُسَكُمْ [ الحجرات/ 11] اور اپنے ( مومن بھائیوں ) پر عیب نہ لگاؤ۔ یعنی دوسروں پر عیب نہ لگاؤ ورنہ ودتم پر عیب لگائیں گے ۔ اسی طرح گویا تم اپنے آپ عیب لگاتے ہو ۔ رجل لما ر و لمزۃ ۔ بہت زیادہ عیب جوئی اور طعن وطنز کرنے والا ۔ قرآن میں ہے : وَيْلٌ لِكُلِّ هُمَزَةٍ لُمَزَةٍ [ الهمزة/ 1] ہر طعن آمیز آشارتیں کرنے والے چغلخور کی خرابی ہے ۔ نفس الَّنْفُس : ذاته وقوله : وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 30] فَنَفْسُهُ : ذَاتُهُ ، ( ن ف س ) النفس کے معنی ذات ، وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 30] اور خدا تم کو اپنے ( غضب سے ڈراتا ہے ۔ میں نفس بمعنی ذات ہے نبز النَّبْزُ : التَّلْقِيب . قال اللہ تعالی: وَلا تَنابَزُوا بِالْأَلْقابِ [ الحجرات/ 11] . ( ن ب ز ) النبز کے معنی کسی کو برے نام کے ساتھ پکار نے کے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَلا تَنابَزُوا بِالْأَلْقابِ [ الحجرات/ 11] اور نہ ایک دوسرے کا برا نام رکھو ۔ لقب اللَّقَبُ : اسم يسمّى به الإنسان سوی اسمه الأول، ويراعی فيه المعنی بخلاف الأعلام، ولمراعاة المعنی فيه قال الشاعر : وقلما أبصرت عيناک ذا لقب ... إلّا ومعناه إن فتشت في لقبه واللَّقَبُ ضربان : ضرب علی سبیل التشریف كَأَلْقَابِ السّلاطین، وضرب علی سبیل النّبز، وإيّاه قصد بقوله : وَلا تَنابَزُوا بِالْأَلْقابِ [ الحجرات/ 11] . ( ل ق ب ) اللقب ۔ اس نام کو کہتے ہیں جو اصلی نام کے علاوہ ہو ۔۔۔ لقب دینے میں معنی کی رعایت کی جاتی ہے بخلاف اعلام کے کہ ان میں معنوی رعایت نہیں ہوتی اس بنا پر شاعر نے کہا ہے وقلما ابصرت علینا ذالقب الاوسعناہ ان فتثت فی لقبہ تم نے کسی صاحب لقب کو نہیں دیکھا ہوگا ۔ مگر ذرا تلاش کرنے پر اس کے اوصاف اس کے لقب میں مل سکتے ہیں ۔ لقب دو قسم پر ہے ۔ ایک لقب تشریفی جیسا کہ سلاطین کے القاب ہوتے ہیں اور دو سرالقب تحقیر چانچہ آیت کریمہ : وَلا تَنابَزُوا بِالْأَلْقابِ [ الحجرات/ 11] اور نہ ایک دوسرے کا برا نام رکھو ۔ میں اس دوسری قسم کا القاب سے منع کیا گیا ہے ۔ کیونکہ ان سے اہانت کا پہلو نکلتا ہے ۔ بِئْسَ و «بِئْسَ» كلمة تستعمل في جمیع المذام، كما أنّ نعم تستعمل في جمیع الممادح، ويرفعان ما فيه الألف واللام، أو مضافا إلى ما فيه الألف واللام، نحو : بئس الرجل زيد، وبئس غلام الرجل زيد . وينصبان النکرة نحو : بئس رجلا، ولَبِئْسَ ما کانوا يَفْعَلُونَ [ المائدة/ 79] ، أي : شيئا يفعلونه، ( ب ء س) البؤس والباس بئس ۔ فعل ذم ہے اور ہر قسم کی مذمت کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسا کہ نعم ہر قسم کی مدح کے لئے استعمال ہوتا ہے ان کا اسم اگر معرف بالللام ہو یا معرف باللام کی طرف مضاف ہو تو اسے رفع دیتے ہیں جیسے بئس الرجل زید وبئس غلام الرجل زید ۔ اور اسم نکرہ کو نصب دیتے ہیں جیسے قرآن میں ہے ؛ ۔ { بِئْسَ مَا كَانُوا يَفْعَلُونَ } ( سورة المائدة 79) یعنی بلا شبہ وہ برا کرتے تھے اسْمُ والِاسْمُ : ما يعرف به ذات الشیء، وأصله سِمْوٌ ، بدلالة قولهم : أسماء وسُمَيٌّ ، وأصله من السُّمُوِّ وهو الذي به رفع ذکر الْمُسَمَّى فيعرف به، قال اللہ : بِسْمِ اللَّهِ [ الفاتحة/ 1] ، وقال : ارْكَبُوا فِيها بِسْمِ اللَّهِ مَجْراها [هود/ 41] ، بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ [ النمل/ 30] ، وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ [ البقرة/ 31] ، أي : لألفاظ والمعاني مفرداتها ومرکّباتها . وبیان ذلک أنّ الاسم يستعمل علی ضربین : أحدهما : بحسب الوضع الاصطلاحيّ ، وذلک هو في المخبر عنه نحو : رجل وفرس . والثاني : بحسب الوضع الأوّليّ. ويقال ذلک للأنواع الثلاثة المخبر عنه، والخبر عنه، والرّابط بينهما المسمّى بالحرف، وهذا هو المراد بالآية، لأنّ آدم عليه السلام کما علم الاسم علم الفعل، والحرف، ولا يعرف الإنسان الاسم فيكون عارفا لمسمّاه إذا عرض عليه المسمّى، إلا إذا عرف ذاته . ألا تری أنّا لو علمنا أَسَامِيَ أشياء بالهنديّة، أو بالرّوميّة، ولم نعرف صورة ما له تلک الأسماء لم نعرف الْمُسَمَّيَاتِ إذا شاهدناها بمعرفتنا الأسماء المجرّدة، بل کنّا عارفین بأصوات مجرّدة، فثبت أنّ معرفة الأسماء لا تحصل إلا بمعرفة المسمّى، و حصول صورته في الضّمير، فإذا المراد بقوله : وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ كُلَّها [ البقرة/ 31] ، الأنواع الثلاثة من الکلام وصور المسمّيات في ذواتها، وقوله : ما تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِهِ إِلَّا أَسْماءً سَمَّيْتُمُوها [يوسف/ 40] ، فمعناه أنّ الأسماء التي تذکرونها ليس لها مسمّيات، وإنما هي أسماء علی غير مسمّى إذ کان حقیقة ما يعتقدون في الأصنام بحسب تلک الأسماء غير موجود فيها، وقوله : وَجَعَلُوا لِلَّهِ شُرَكاءَ قُلْ سَمُّوهُمْ [ الرعد/ 33] ، فلیس المراد أن يذکروا أساميها نحو اللّات والعزّى، وإنما المعنی إظهار تحقیق ما تدعونه إلها، وأنه هل يوجد معاني تلک الأسماء فيها، ولهذا قال بعده : أَمْ تُنَبِّئُونَهُ بِما لا يَعْلَمُ فِي الْأَرْضِ أَمْ بِظاهِرٍ مِنَ الْقَوْلِ [ الرعد/ 33] ، وقوله : تَبارَكَ اسْمُ رَبِّكَ [ الرحمن/ 78] ، أي : البرکة والنّعمة الفائضة في صفاته إذا اعتبرت، وذلک نحو : الكريم والعلیم والباري، والرّحمن الرّحيم، وقال : سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى [ الأعلی/ 1] ، وَلِلَّهِ الْأَسْماءُ الْحُسْنى [ الأعراف/ 180] ، وقوله : اسْمُهُ يَحْيى لَمْ نَجْعَلْ لَهُ مِنْ قَبْلُ سَمِيًّا [ مریم/ 7] ، لَيُسَمُّونَ الْمَلائِكَةَ تَسْمِيَةَ الْأُنْثى [ النجم/ 27] ، أي : يقولون للملائكة بنات الله، وقوله : هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم/ 65] أي : نظیرا له يستحقّ اسمه، وموصوفا يستحقّ صفته علی التّحقیق، ولیس المعنی هل تجد من يتسمّى باسمه إذ کان کثير من أسمائه قد يطلق علی غيره، لکن ليس معناه إذا استعمل فيه كما کان معناه إذا استعمل في غيره . الاسم کسی چیز کی علامت جس سے اسے پہچانا جائے ۔ یہ اصل میں سمو ہے کیونکہ اس کی جمع اسماء اور تصغیر سمی آتی ہے ۔ اور اسم کو اسم اس لئے کہتے ہیں کہ اس سے مسمیٰ کا ذکر بلند ہوتا ہے اور اس کی معرفت حاصل ہوتی ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ ارْكَبُوا فِيها بِسْمِ اللَّهِ مَجْراها [هود/ 41] اور ( نوح (علیہ السلام) نے ) کہا کہ خدا کا نام لے کر ( کہ اس کے ہاتھ میں ) اس کا چلنا ( ہے ) سوار ہوجاؤ۔ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ [ النمل/ 30] وہ سلیمان کی طرف سے ہے اور مضمون یہ ہے ) کہ شروع خدا کا نام لے کر جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے ۔ اور آیت : وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ [ البقرة/ 31] اور اس آدم کو سب ( چیزوں کے ) نام سکھائے ۔ میں اسماء سے یہاں الفاظ و معانی دونوں مراد ہیں ۔ خواہ مفردہوں خواہ مرکب اس اجمال کی تفصیل یہ ہے ۔ کہ لفظ اسم دو طرح استعمال ہوتا ہے ۔ ایک اصطلاحی معنی میں اور اس صورت میں ہمیشہ مخبر عنہ بنتا ہے ۔ جیسے رجل وفرس دوم وضع اول کے لحاظ سے اس اعتبار سے ( کلمہ کی ) انواع ثلاثہ یعنی مخبر عنہ ( اسم ) خبر اور رابطہ ( حرف ) تینوں پر اس معنی مراد ہیں ۔ کیونکہ آدم (علیہ السلام) نے جس طرح اسماء کی تعلیم حاصل کی تھی ۔ اسی طرح افعال وحروف کا علم بھی نہیں حاصل ہوگیا تھا اور یہ ظاہر ہے کہ جب تک کسی چیز کی ذات کا علم حاصل نہ ہو محض نام کے جاننے سے انسان اسے دیکھ کر پہچان نہیں سکتا ہے مثلا اگر ہم ہندی یا رومی زبان میں چند چیزوں کے نام حفظ کرلیں تو ان چیزوں کے اسماء کے جاننے سے ہم ان کے مسمیات کو نہیں پہچان سکیں گے ۔ بلکہ ہمار علم انہیں چند اصوات تک محدود رہے گا اس سے ثابت ہوا کہ اسماء کی معرفت مسمیات کی معرفت کو مستلزم نہیں ہے اور نہ ہی محض اسم سے مسمی ٰ کی صورت ذہن میں حاصل ہوسکتی ہے ۔ لہذا آیت : وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ كُلَّها [ البقرة/ 31] میں اسماء سے کلام کی انواع ثلاثہ اور صورۃ مسمیات بمع ان کی ذوات کے مراد ہیں اور آیت ما تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِهِ إِلَّا أَسْماءً سَمَّيْتُمُوها [يوسف/ 40] جن چیزوں کی تم خدا کے سوا پرستش کرتے ہو وہ صرف نام ہی نام ہیں جو تم نے رکھ لئے ہیں ۔ کے معنی یہ ہیں ک جن اسماء کی تم پرستش کرتے ہو ان کے مسمیات نہیں ہیں ۔ کیونکہ و اصنام ان اوصاف سے عاری تھے ۔ جن کا کہ وہ ان اسماء کے اعتبار سے ان کے متعلق اعتقاد رکھتے تھے ۔ اور آیت : وَجَعَلُوا لِلَّهِ شُرَكاءَ قُلْ سَمُّوهُمْ [ الرعد/ 33] اور ان لوگوں نے خدا کے شریک مقرر کر رکھے ہیں ۔ ان سے کہو کہ ( ذرا ) انکے نام تولو ۔ میں سموھم سے یہ مراد نہیں ہے کہ لات ، عزی وغیرہ ان کے نام بیان کرو بلکہ آیت کے معنی پر ہیں کہ جن کو تم الاۃ ( معبود ) کہتے ہو ان کے متعلق تحقیق کرکے یہ تو بتاؤ کہ آیا ان میں ان اسماء کے معانی بھی پائے جاتے ہیں ۔ جن کے ساتھ تم انہیں موسوم کرتے ہو ( یعنی نہیں ) اسی لئے اس کے بعد فرمایا أَمْ تُنَبِّئُونَهُ بِما لا يَعْلَمُ فِي الْأَرْضِ أَمْ بِظاهِرٍ مِنَ الْقَوْلِ [ الرعد/ 33] ( کہ ) کیا تم اسے ایسی چیزیں بتاتے ہو جس کو وہ زمین میں ( کہیں بھی ) معلوم نہیں کرتا یا ( محض ) ظاہری ( باطل اور جھوٹی ) بات کی ( تقلید کرتے ہو ۔ ) اور آیت : تَبارَكَ اسْمُ رَبِّكَ [ الرحمن/ 78] تمہارے پروردگار ۔۔ کا نام برا بابر کت ہے ۔ میں اسم رب کے بابرکت ہونے کے معنی یہ ہیں ک اس کی صفات ۔ الکریم ۔ العلیم ۔ الباری ۔ الرحمن الرحیم کے ذکر میں برکت اور نعمت پائی جاتی ہے جیسا ک دوسری جگہ فرمایا : سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى [ الأعلی/ 1] ( اے پیغمبر ) اپنے پروردگار جلیل الشان کے نام کی تسبیح کرو ۔ وَلِلَّهِ الْأَسْماءُ الْحُسْنى [ الأعراف/ 180] اور خدا کے نام سب اچھے ہی اچھے ہیں ۔ اور آیت : اسْمُهُ يَحْيى لَمْ نَجْعَلْ لَهُ مِنْ قَبْلُ سَمِيًّا[ مریم/ 7] اسمہ یحیٰ لم نجعل لہ من قبل سمیا َ (719) جس کا نام یحیٰ ہے ۔ اس سے پہلے ہم نے اس نام کا کوئی شخص پیدا نہیں کیا ۔ میں سمیا کے معنی ہم نام ، ، کے ہیں اور آیت :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا[ مریم/ 65] بھلا تم اس کا کوئی ہم نام جانتے ہو ۔ میں سمیا کے معنی نظیر کے ہیں یعنی کیا اس کی کوئی نظیر ہے جو اس نام کی مستحق ہوا اور حقیقتا اللہ کی صفات کے ساتھ متصف ہو اور اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ کیا تم کسی بھی پاتے ہو جو اس کے نام سے موسوم ہوکیون کہ ایسے تو اللہ تعالیٰ کے بہت سے اسماء ہیں جن کا غیر اللہ پر بھی اطلاق ہوسکتا ہے یا ہوتا ہے لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا ہے کہ ان سے معافی بھی وہی مراد ہوں جو اللہ تعالیٰ پر اطلاق کے وقت ہوتے ہیں ۔ اور آیت : لَيُسَمُّونَ الْمَلائِكَةَ تَسْمِيَةَ الْأُنْثى[ النجم/ 27] اور وہ فرشتوں کو ( خدا کی ) لڑکیوں کے نام سے موسوم کرتے ہیں ۔ میں لڑکیوں کے نام سے موسوم کرنے کے معنی یہ ہیں ۔ کہ وہ فرشتوں کو بنات اللہ کہتے ہیں ۔ فسق فَسَقَ فلان : خرج عن حجر الشّرع، وذلک من قولهم : فَسَقَ الرُّطَبُ ، إذا خرج عن قشره «3» ، وهو أعمّ من الکفر . والفِسْقُ يقع بالقلیل من الذّنوب وبالکثير، لکن تعورف فيما کان کثيرا، وأكثر ما يقال الفَاسِقُ لمن التزم حکم الشّرع وأقرّ به، ( ف س ق ) فسق فسق فلان کے معنی کسی شخص کے دائر ہ شریعت سے نکل جانے کے ہیں یہ فسق الرطب کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی گدری کھجور کے اپنے چھلکے سے باہر نکل آنا کے ہیں ( شرعا فسق کا مفہوم کفر سے اعم ہے کیونکہ فسق کا لفظ چھوٹے اور بڑے ہر قسم کے گناہ کے ارتکاب پر بولا جاتا ہے اگر چہ عرف میں بڑے گناہوں کے ارتکاب پر بولا جاتا ہے اور عام طور پر فاسق کا لفظ اس شخص کے متعلق استعمال ہوتا ہے جو احکام شریعت کا التزام اور اقرار کر نیکے بعد تمام یا بعض احکام کی خلاف ورزی کرے۔ أیمان يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ( ا م ن ) الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ { وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ } ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ توب التَّوْبُ : ترک الذنب علی أجمل الوجوه وهو أبلغ وجوه الاعتذار، فإنّ الاعتذار علی ثلاثة أوجه : إمّا أن يقول المعتذر : لم أفعل، أو يقول : فعلت لأجل کذا، أو فعلت وأسأت وقد أقلعت، ولا رابع لذلک، وهذا الأخير هو التوبة، والتَّوْبَةُ في الشرع : ترک الذنب لقبحه والندم علی ما فرط منه، والعزیمة علی ترک المعاودة، وتدارک ما أمكنه أن يتدارک من الأعمال بالأعمال بالإعادة، فمتی اجتمعت هذه الأربع فقد کملت شرائط التوبة . وتاب إلى الله، فذکر «إلى الله» يقتضي الإنابة، نحو : فَتُوبُوا إِلى بارِئِكُمْ [ البقرة/ 54] ( ت و ب ) التوب ( ن) کے معنی گناہ کے باحسن وجود ترک کرنے کے ہیں اور یہ معذرت کی سب سے بہتر صورت ہے کیونکہ اعتذار کی تین ہی صورتیں ہیں ۔ پہلی صورت یہ ہے کہ عذر کنندہ اپنے جرم کا سرے سے انکار کردے اور کہہ دے لم افعلہ کہ میں نے کیا ہی نہیں ۔ دوسری صورت یہ ہے کہ اس کے لئے وجہ جواز تلاش کرے اور بہانے تراشے لگ جائے ۔ تیسری صورت یہ ہے کہ اعتراف جرم کے ساتھ آئندہ نہ کرنے کا یقین بھی دلائے افرض اعتزار کی یہ تین ہی صورتیں ہیں اور کوئی چوتھی صورت نہیں ہے اور اس آخری صورت کو تو بہ کہا جاتا ہ مگر شرعا توبہ جب کہیں گے کہ گناہ کو گناہ سمجھ کر چھوڑ دے اور اپنی کوتاہی پر نادم ہو اور دوبارہ نہ کرنے کا پختہ عزم کرے ۔ اگر ان گناہوں کی تلافی ممکن ہو تو حتی الامکان تلافی کی کوشش کرے پس تو بہ کی یہ چار شرطیں ہیں جن کے پائے جانے سے توبہ مکمل ہوتی ہے ۔ تاب الی اللہ ان باتوں کا تصور کرنا جو انابت الی اللہ کی مقتضی ہوں ۔ قرآن میں ہے ؛۔ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعاً [ النور/ 31] سب خدا کے آگے تو بہ کرو ۔ ظلم وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه، قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ: الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی، وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس، وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری/ 42] والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه، وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] ، ( ظ ل م ) ۔ الظلم اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی کسب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔ ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

تمسخرنہ اڑایا جائے قول باری ہے (یایھا الذین امنوا لا یسخرقوم من قوم، اے ایمان لانے والو ! مردوں کو مردوں پر ہنسنا نہیں چاہیے) اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں تحقیر کی بنا پر کسی کا مذاق اڑانے اور اس پر ہنسنے سے منع فرمایا ہے جب کہ وہ شخص اس تمسخر کا سزا وارنہ ہو۔ مسخریہ اور تمسخر کے یہی معنی ہیں۔ ساتھ ہی یہ بتادیا کہ مذاقاڑانے والا ہوسکتا ہے کہ دنیاوی لحاظ سے ارفع ہو تو یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جس کا وہ مذاق اڑارہا ہے اللہ کے نزدیک اس کا درجہ اس سے بلند ہو۔ طعنہ زنی منع ہے قول باری ہے (ولا تلمزوا انفسکم اور ایک دوسرے کو طعنہ نہ دو ) حضرت ابن عباس (رض) اور قتادہ سے مروی ہے کہ ایک دوسرے کو طعنہ نہ دیں۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ اس کی مثال یہ قول باری ہے (فلا تقتلوا انفسکم ، اور تم ایک دوسرے کو قتل نہ کرو) کیونکہ تمام مسلمان یک جان ہوتے ہیں اس لئے جو شخص اپنے مسلمان بھائی کی جان لیتا ہے وہ گویا اپنی جان لیتا ہے۔ یا جس طرح یہ قول باری ہے (فسلموا علی انفسکم، تو تم ایک دوسرے کو سلام کرلیاکرو) یعنی ایک دوسرے کو سلام کیا کرو۔ لمز عیب کو کہتے ہیں۔ جس کوئی شخص کسی کو طعنہ دے نکتہ چینی کرے اور اس پر عیب لگائے تو اس موقعہ پر کہا جاتا ہے ” لمزہ “ قول باری ہے (ومنھم من یلمزک فی الصدقات، اور ان میں بعض تو ایسے ہیں جو صدقات کی تقسیم کے سلسلے) میں آپ پر نکتہ چینی کرتے ہیں۔ زیادالاعجم کا شعر ہے، ؎ اذا لقیتک تبدی لی مکا شرۃ وان تغیبت کنت لمزہ المزع جب تمہارے سامنے آتا ہوں تو تم بتیسی نکالتے ہو اور جب تمہاری نظروں سے غائب ہوجاتا ہوں تو تم پس پشت میری عیب جوئی کرتے اور مجھے طعنے دیتے ہو۔ ماکنت اخشی وان کان الزمان بہ حیف علی الناس ان یعتا بنی غنزل مجھے تو اس بات کا خطرہ نہیں تھا کہ کوئی بکری میری غیبت کرے گی اگر چہ یہ بھی اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ زمانہ کی طرف سے لوگوں پر ظلم ڈھائے جاتے رہتے ہیں۔ اس بنا پر تمہیں میری غیبت کی جرات ہوئی۔ فاسق وفاجر کی نکتہ چینی جائز ہے اس آیت میں ان لوگوں پر نکتہ چینی کرنے اور عیب نکالنے سے منع کیا گیا ہے جو اس کے سزاوار نہ ہوں لیکن اگر کسی شخص کا دامن فسق وفجور سے داغدار ہو تو اس پر اس سلسلے میں نکتہ چینی کرنا اور عیب نکالنا جائز ہے۔ روایت ہے کہ جب حجاج کا انتقال ہوگیا تو حسن بصری نے یہ دعا کی۔ “ میرے اللہ ! تونے اسے اس دنیا سے اٹھا لیا ہے اب اس کے ظالمانہ طریق کار کو بھی مٹادے۔ جب یہ ہم پر حاکم بن کر آیا تھا تو اس کی ہیئت کذائی یہ تھی کہ آنکھیں اندر دھنسی ہوئی تھیں ، بینائی کمزور تھی گویا کہ چندھا تھا۔ جب ہاتھ آگے بڑھاتا توانگلیوں کے پورے بہت چھوٹے چھوٹے دکھائی دیتے۔ اللہ کے راستے میں ان پوروں کے اندر گھوڑے کی باگ کو کبھی پسینے سے تر ہونے کی نوبت نہ آئی۔ اپنی زلفوں کی کنگھی کرتا رہتا اور چلتے وقت اس کے قدم لڑکھڑاتے رہتے۔ منبر پر جا بیٹھتا اور یا وہ گوئی شروع کردیتا حتیٰ کہ نماز کا وقت فوت ہوجاتا۔ نہ اسے خدا کا خوف تھا اور نہ ہی مخلوق کی شرم۔ اس کے اوپر اللہ تھا اور اس کے نیچے یعنی کمان میں ایک لاکھ یا اس سے زائد نفری تھی۔ کسی کو یہ کہنے کی جرات نہ ہوتی کہ ” بندہ خدا نماز کا وقت جارہا ہے۔ “ حسن بصری نے مزید کہا، ” یہ بات کہناکس قدر مشکل ہوگیا اور بعید ہوگیا تھا، بخدا، اس بات کے کہنے میں تلوار اور کوڑہ حائل ہوگیا تھا۔ “ برے ناموں سے نہ پکارو قول باری ہے : (ولا تنابزوا بالانقاب، اور ایک دوسرے کو برے القاب سے نہ پکارو) حماد بن سلمہ نے یونس سے اور انہوں نے حسن سے روایت کی ہے کہ حضرت ابوذر غفاری (رض) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں موجود تھے۔ ایک شخص کے ساتھ ان کا تنازعہ چل رہا تھا۔ حضرت دائو د (رض) نے غصے میں آکر اسے ” اے یہودن کے لڑکے ! “ کے الفاظ سے پکارا۔ یہ سن کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ” کیا تم نہیں دیکھتے کہ یہاں جتنے بھی سرخ وسفید چل پھر رہے ہیں ان پر تمہیں صرف تقویٰ کی بنا پر فضیلت حاصل ہے۔ “ حسن کہتے ہیں کہ اللہ نے اس موقعہ پر درج بالا آیت نازل فرمائی۔ قتادہ نے آیت کی تفسیر میں کہا ہے کہ تم اپنے مسلمان بھائی کو ” یا فاسق، یا منافق “ کہہ کر نہ پکارو۔ ہمیں عبداللہ بن محمد نے روایت بیان کی، انہیں حسن نے، انہیں عبدالرزاق نے معمر سے، انہوں نے حسن سے ان کا یہ قول نقل کیا ہے کہ ” کوئی یہودی یا نصرانی مسلمان ہوجاتا تو اسے ” یا یہودی، یا نصرانی “ کہہ کر پکارا جاتا ، اس سے لوگو کو منع کردیا گیا۔ “ ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی، انہیں ابودائود نے، اسے موسیٰ بن اسماعیل نے، انہیں وہب نے دائود سے، انہوں نے عامر سے، انہیں ابوجبیرہ بن الضحاک نے بیان کیا کہ آیت (ولاتنابزوا بالالقاب بئس الاسم الفسوق بعد الایمان ایک دوسرے کو برے القاب سے نہ پکارو، ایمان کے بعد گناہ کا نام ہی برا ہے) ہمارے بارے میں یعنی بنو سلمہ کے متعلق نازل ہوئی تھی، ہمارے پاسحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لائے اس وقت ہم میں سے ہر آدمی کے دو دو یا تین تین نام تھے، آپ جب کسی کو یا فلاں “ کہہ کر بلاتے تو لوگ عرض کرتے ” اللہ کے رسول ! اسے اس نام سے نہ پکارئیے، کیونکہ یہ نام سن کرا سے غصہ آجاتا ہے۔ “ اس پر یہ آیت (ولا تنابزوا بالالقاب) نازل ہوئی۔ یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ ناپسندیدہ لقب وہ ہوتا ہے جسے اس لقب والا ناپسند کرتا ہو اور اس سے اس کی مذمت کا پہلو نکلتا ہو۔ کیونکہ یہ لقب اس کے حق میں ایک گالی کی حیثیت رکھتا ہے۔ رہ گئے ایسے نام اور القاب واو صاف جن میں مذمت کا پہلو موجود نہ ہو وہ ناپسندیدہ نہیں ہوتے، اور آیت میں نہی کا حکم انہیں شامل نہیں ہے کیونکہ اس کی حیثیت اشخاص کے اسماء نیز افعال سے مشتق ہونے والے ناموں جیسی ہوتی ہے۔ محمد بن اسحاق نے محمد بن یزیدبن خثیم سے روایت کی ہے، انہوں نے محمد بن کعب سے، انہیں محمد بن خثیم المحاربی نے حضرت عمار (رض) بن یاسر سے ۔ وہ کہتے ہیں کہ میں اور حضرت علی (رض) غزوہ عشیرہ کے اندر وادی ینبخ میں ایک ساتھ تھے۔ جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وہاں پڑائو ڈالا تو ایک ماہ تک وہیں قیام فرمایا۔ اسی دوران آپ نے بنو مدلج اور بنو ضمرہ میں ان کے حلیفوں سے صلح کی اور ان سے جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کیا۔ حضرت علی (رض) نے مجھ سے فرمایا۔ بنو مدلج کے آدمیوں کے پاس چل کر انہیں اپنے جنگلی گدھوں پر کام کرتے ہوئے نہ دیکھیں ؟ “ میں اس پر راضی ہوگیا۔ چنانچہ ہم ان کے پاس گئے اور ایک گھڑی تک انہیں کام کرتے ہوئے دیکھتے رہے۔ پھر ہمیں نیند آنے لگی۔ ہم کھجور کے ایک چھوٹے سے درخت کے پاس چلے گئے اور اس کے سائے میں بنجر زمین پر سوگئے۔ پھر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قدموں کی چاپ سے ہماری آنکھ کھلی، ہم اٹھ بیٹھے، ہمارے جسم پر مٹی لگی ہوئی تھی۔ اس روزحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی (رض) کو ” یا اباتراب “ (اے مٹی والے) کہہ کر پکارا کیونکہ ان کے جسم پر مٹی لگی ہوئی تھی۔ ہم نے آپ کو ساری بات بتادی جسے سن کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ کیا میں تمہیں دو بدبخت ترین انسانوں کے بارے میں نہ بتائوں ؟ “ ہم نے عرض کیا،” وہ کون ہیں “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ایک تو قوم ثمود کا وہ شخص ہے جس کی رنگت سرخ تھی اور جس نے معجزہ کی اونٹنی کی کونچیں کاٹ ڈالی تھیں اور دوسرا وہ شخص ہے جو تمہیں ” اے علی ! اس جگہ پر تلوار کی ضرب لگائے گا “۔ یہ کہہ کر آپ نے اپنا ہاتھ حضرت علی (رض) کے سر پر رکھا۔ پھر فرمایا : ” اور یہ جگہ خون سے سرخ ہوجائے گی۔ “ یہ کہہ کر آپ نے اپنا ہاتھ ان کی ڈاڑھی پر رکھا۔ سہل بن سعد کہتے ہیں کہ حضرت علی (رض) کو اپنے ناموں میں سے کوئی نام ابوتراب سے بڑھ کر پسند نہیں تھا، اس نام سے پکارے جانے کو آپ سب سے زیادہ پسند کرتے تھے، ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ اس جیسا نام ناپسندیدہ نہیں ہوتا کیونکہ اس میں مذمت کا کوئی پہلو موجود ہے اور نہ ہی متعلقہ شخص اسے ناپسندیدہ خیال کرتا ہے۔ ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی، انہیں ابودائود نے، انہیں ابراہیم مہدی نے، انہیں شریک نے عاصم سے اور انہوں نے حضرت انس سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (یا ذا الاذمنین اے دوکانوں والے) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بہت سے اشخاص کے نام تبدیل کردیے تھے چناچہ آپ نے عاص کا نام عبداللہ رکھ دیا، شہاب کا نام ہشام اور حرب کا نام مسلم رکھ دیا۔ یہ تمام باتیں اس پر دلالت کرتی ہیں کہ آیت میں جس القاب سے روکا گیا ہے ان کی صورتیں وہ ہیں جن کا ہم نے گزشتہ سطور میں ذکر کیا ہے۔ اس کے سوا دوسرے القاب پر اس نہی کا اطلاق نہیں ہوتا۔ ایک روایت کے مطابق ایک شخص نے ایک انصاری عورت سے نکاح کرنا چاہا تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے مشورہ دیا کہ اسے پہلے دیکھ لو کیونکہ انصاری کی عورتوں میں ایک بات موجود ہے یعنی ان کی آنکھیں چھوٹی ہوتی ہیں۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس شخص سے انصار کی عورتوں کے متعلق جو بات فرمائی تھی وہ غیبت میں شمار نہیں ہوتی کیونکہ آپ نے یہ فرما کر ان کی مذمت اور نہ ہی ان کی بدگوئی کا ارادہ کیا تھا۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اے ایمان والو نہ تو مردوں کو مردوں پر ہنسنا چاہیے، یہ آیت حضرت ثابت بن قیس بن شماس کے بارے میں نازل ہوئی ہے، انہوں نے ایک انصاری شخص کی ماں کا تذکرہ کر کے ان کو عار دلائی تھی جیسا کہ زمانہ جاہلیت میں ان کو عار دلایا کرتے تھے، اس چیز سے اللہ تعالیٰ نے منع فرما دیا اسی طرح اگلی آیت کا حصہ ازواج مطہرات میں سے دو بیویوں کے بارے میں نازل ہوا ہے کہ انہوں نے حضرت ام سلمہ کا مذاق اڑایا تھا اس چیز سے بھی اللہ تعالیٰ نے روک دیا اور نہ عورتوں کو عورتوں پر ہنسنا چاہیے کیا عجب ہے کہ جن پر ہنستے ہیں وہ ان سے ہنسنے والوں سے اللہ کے نزدیک بہتر اور افضل ہوں، اور نہ اپنے مسلمان بھائیوں کی عیب جوئی کرو اور نہ ایک دوسرے کو طعنہ دو اور نہ ایک دوسرے کو برے لقب اور گالی گلوچ کے ساتھ پکارو۔ کیونکہ ایمان لانے کے بعد مسلمان پر گناہ کا نام لگتا ہی برا ہے جب ایک شخص اسلام لے آیا اور کفر کو چھوڑ دیا پھر اسے یہودی نصرانی مجوسی کہہ کر پکارنا ہی برا اور گناہ کی بات ہے۔ شان نزول : وَلَا تَنَابَزُوْا بالْاَلْقَابِ (الخ) سنن اربعہ نے ابی جبیر بن ضحاک سے روایت نقل کی ہے کہ ہم میں سے ایک شخص کے دو نام تھے اور تیسرا بھی تھا، جب ایک نام لے کر اسے پکارا جاتا تو اسے ناگوار گزرتا تھا اس پر یہ آیت نازل ہوئی یعنی اور نہ ایک دوسرے کو برے لقب سے پکارو۔ امام ترمذی نے فرمایا یہ حدیث حسن ہے۔ اور امام حاکم نے انہیں سے روایت نقل کی ہے کہ جاہلیت میں لوگوں کے لقب تھے، چناچہ رسول اکرم نے ایک شخص کو اس کے لقب کے ساتھ پکارا آپ سے کہا گیا یا رسول اللہ یہ لقب اسے برا معلوم ہوتا ہے۔ اس پر حق تعالیٰ نے یہ آیت مبارکہ نازل فرمائی۔ اور امام احمد نے انہی سے ان الفاظ میں روایت نقل کی ہے کہ ہمارے یعنی بنی سلمہ کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔ رسول اکرم مدینہ منورہ تشریف لائے تو ہم میں سے کوئی بھی شخص ایسا نہ تھا کہ جس کے دو یا تین نام نہ ہوں۔ چناچہ جب آپ ان میں سے کسی کو اس کے ان ناموں میں سے کسی نام کے ساتھ پکارتے تھے تو وہ لوگ کہتے یا رسول اللہ وہ اس نام سے غصہ ہوتا ہے تب یہ آیت نازل ہوئی۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١١{ یٰٓــاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا یَسْخَرْ قَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ عَسٰٓی اَنْ یَّـکُوْنُوْا خَیْرًا مِّنْہُمْ } ” اے اہل ایمان ! تم میں سے کوئی گروہ دوسرے گروہ کا مذاق نہ اڑائے ‘ ہوسکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں “ ممکن ہے مدمقابل شخص کی کوئی خوبی اس کے ظاہری عیب کے مقابلے میں بہت بڑی ہو۔ مثلاً آپ جس شخص کی بھدی ناک یا چھوٹے کان کا مذاق اڑا رہے ہوں ممکن ہے اس کے دل کا تقویٰ تمہارے تقویٰ کے مقابلے میں دس گنا زیادہ ہو۔ یا ممکن ہے وہ تمہارے مقابلے میں اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہزار گنا زیادہ محبت کرتا ہو۔ { وَلَا نِسَآئٌ مِّنْ نِّسَآئٍ عَسٰٓی اَنْ یَّـکُنَّ خَیْرًا مِّنْہُنَّ } ” (اسی طرح) عورتیں بھی دوسری عورتوں کا مذاق نہ اڑائیں ‘ ہوسکتا ہے وہ ان سے بہتر ہوں۔ “ گویا پہلے حکم میں مسلمان مردوں اور عورتوں کو اپنے اپنے حلقوں میں ایک دوسرے کا مذاق اور تمسخر اڑانے سے منع کیا گیا ہے۔ اب اس سلسلے کا دوسرا حکم ملاحظہ ہو : { وَلَا تَلْمِزُوْٓا اَنْفُسَکُمْ } ” اور اپنے آپ کو عیب مت لگائو “ اپنے بھائی بندوں پر عیب لگانے سے منع کرنے کا یہ بہت ہی بلیغ انداز ہے کہ اپنے آپ کو عیب نہ لگائو۔ یعنی کسی کو عیب لگانے سے پہلے یہ ضرور سوچ لو کہ وہ تمہاری اپنی ہی ملت کا ایک فرد ہے اور اپنی ملت کے کسی فرد کو عیب لگانا گویا خود اپنے آپ ہی کو عیب لگانے کے مترادف ہے۔ { وَلَا تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِ } ” اور نہ آپس میں ایک دوسرے کے چڑانے والے نام رکھا کرو۔ “ یہ تیسرا حکم ہے کہ کسی فرد یا کسی گروہ کے اصل نام کو چھوڑ کر اس کے لیے کوئی ایسا نام نہ رکھ لوجو اسے پسند نہ ہو۔ یہ ایک مذموم اور ناپسندیدہ حرکت ہے۔ { بِئْسَ الاِسْمُ الْفُسُوْقُ بَعْدَ الْاِیْمَانِ } ” ایمان کے بعد تو برائی کا نام بھی برا ہے۔ “ تم تو وہ لوگ ہو جن کے دل ایمان کے نور سے منور ہوچکے ہیں۔ یہ بہت بڑی فضیلت ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے تم لوگوں کو نوازا ہے۔ ایسے اعلیٰ مقام و مرتبے پر فائز ہوجانے کے بعد ایسی گھٹیا حرکات کا ارتکاب اب تمہارے شایانِ شان نہیں۔ { وَمَنْ لَّمْ یَتُبْ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الظّٰلِمُوْنَ } ” اور جو باز نہیں آئیں گے وہی تو ظالم ہیں۔ “ پچھلے فقرے میں معیوب روش کو ترک کرنے کے لیے ترغیب و تشویق کی جھلک تھی جبکہ ان الفاظ میں اس روش سے تائب ہو کر باز نہ آنے والوں کے لیے زجرو توبیخ کا انداز پایا جاتا ہے۔ ممکن ہے کوئی شخص بادی النظر میں مذکورہ برائیوں کو معمولی سمجھے ‘ لیکن کسی معاشرے یا تنظیم میں ایسی برائیوں کا عادتاً رائج ہوجانا انتہائی نقصان دہ ہے۔ گزشتہ آیت میں جن تین برائیوں کا ذکر ہوا ہے ان کا ارتکاب عام طور پر دوسرے فریق کے رو برو کیا جاتا ہے ‘ جبکہ اگلی آیت میں تین ایسے رذائل سے بچنے کا حکم دیا جا رہا ہے جو عموماً کسی فرد کی پیٹھ پیچھے سرزد ہوتے ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

19 In the preceding two verses after giving necessary instructions about the Muslim people's mutual fighting, the believers were made to realize that by virtue of the most sacred relationship of the faith they were brothers one to another, and they should fear God and try to keep their mutual relations right. Now, in the following two verses, they are being enjoined to avoid and shun those major evils which generally spoil the mutual relationships of the people in a society. Slandering and taunting the people and harboring suspicions and spying on others are, in fact, the evils that cause mutual enmities and then lead to grave mischief. In this connection, from the commandments that are being given in the following verses and the explanations of these found in the Hadith a detailed law of libel can be compiled. The western law pertaining to libel in this regard is so defective that a person who sues another under this law may well cause some loss to his own honor. The Islamic law, on the contrary,, recognizes a basic honour for every person and gives nobody the right to attack it, no matter whether the attack is based on reality or not, and whether the person who has been attacked has a `reputation" of his own or not. Only the fact that a person has debased and humiliated the other person is enough to declare him a criminal unless, of course, it is proved. that the humiliation caused had a legal ground for it. 20 Mocking does not only imply mocking with the tongue but it also includes mimicking somebody, making pointed references to him, laughing at his words, or his works, or his appearance, or his dress, or calling the people's attention to some defect or blemish in him so that others also may laugh at him. All this is included in mocking. What is actually forbidden is that one should make fun of and ridicule another, for under such ridiculing there always lie feelings of one's own superiority and the other's abasement and contempt, which are morally unworthy of a gentleman. Moreover, it hurts the other person, which causes mischief to spread in society. That is why it has been forbidden, To make mention of the men and the women separately dces not mean that it is lawful for the men to mock the women or the women to mock the men. The actual reason for making a separate mention of the two sexes is that Islam does not at all believe in mixedsociety. Ridiculing each other generally takes place in mixed gatherings and Islam dces not permit that non-mahram males and females should meet in such gatherings and make fun of each other. Therefore, in a Muslim society it is inconceivable that the men would mock a woman, or the women would mock a man in an assembly. 21 The word lamz as used in the original is very comprehensive and applies to ridiculing, reviling, deriding, jeering, charging somebody or finding fault with him, and making him the target of reproach and blame by open or tacit references. As aII such things also spoil mutual relationships and create bad blood in society, they have been forbidden. Instead of saying, °Do not taunt one another", it has been said "Do not taunt yourselves", which by itself shows that the one who uses taunting words for others, in fact, taunts his own self. Obviously, a person dces not use invectives against others unless he himself is filled with evil feelings and is almost in a state of bursting like a volcano. Thus, tire one who nourishes such feelings has made his own self a nest of evils before he makes others a target, Then, when he taunts others, it means that he is inviting others to taunt him. It is a different matter that the other person may evade his attacks because of a gentle nature, but he himself has opened the door to mischief so that the other may treat him likewise. 22 This Command requires that a person should not be called by a name or a title which may cause him humiliation, e.g. calling somebody a sinner or a hypocrite, or calling someone a lame or blind one, or one-eyed, or giving him a nickname containing a reference to some defect or blemish in him, or in his parents, or in his family, or calling a person a Jew or a Christian even after his conversion to Islam, or giving such a nickname to a person, or a family, or a community, or a group, which may bring condemnation or disgrace on it. Only those nicknames have been made an exception from this Command, which though apparently offensive, are not intended to condemn the persons concerned, but they rather serve as a mark of recognition for them. That is why the traditionists have allowed as permissible names like Suleman al-A`mash (the weak-eyed Suleman) and Wasil' al-Ahdab (the hunch-backed Wasil) among the reporters of the Hadith. If there are several men of the same name and a particular man among them may be recognized only by a particular title or nickname of his, the title or nickname can be used, even though the title by itself may be offensive. For instance, if there are several men called `Abdullah, and one of them is blind, he may be called Abdullah the blind, for his recognition. Likewise, those titles also are excluded from this Command, which though apparently offensive, are in fact, given out of love and the people who are called by those titles themselves approve them, like Abu Hurairah (father of the kitten) and Abu Turab (father of the dust). 23 That is, "It is very shameful for a believer that in spite of being a believer he should earn a name for using abusive language and for immodest behaviour. If a disbeliever earns reputation for himself for mocking the people, or taunting them, or for proposing evil and offensive titles for others, it may not be a good reputation from the point of view of humanity, but it at least goes well with his disbelief. But if a person after affirming the Faith in Allah and His Messenger and the Hereafter earns reputation on account of these base qualities, it is simply regrettable.

سورة الْحُجُرٰت حاشیہ نمبر :19 پچھلی دو آیتوں میں مسلمانوں کی باہمی لڑائی کے متعلق ضروری ہدایات دینے کے بعد اہل ایمان کو یہ احساس دلایا گیا تھا کہ دین کے مقدس ترین رشتے کی بنا پر وہ ایک دوسرے کے بھائی ہیں اور ان کو خدا سے ڈرتے ہوئے اپنے آپس کے تعلقات کو درست رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔ اب آگے کی دو آیتوں میں ان بڑی بڑی برائیوں کے سد باب کا حکم دیا جا رہا ہے جو بالعموم ایک معاشرے میں لوگوں کے باہمی تعلقات کو خراب کرتے ہیں ۔ ایک دوسرے کی عزت پر حملہ ، ایک دوسرے کی دل آزاری ، ایک دوسرے سے بد گمانی ، اور ایک دوسرے کے عیوب کا تجسس ، در حقیقت یہی وہ اسباب ہیں جن سے آپس کی عداوتیں پیدا ہوتی ہیں اور پھر دوسرے اسباب کے ساتھ مل کر ان سے بڑے بڑے فتنے رو نما ہوتے ہیں ۔ اس سلسلے میں جو احکام آگے کی آیتوں میں دیے گئے ہیں اور ان کی جو تشریحات احادیث میں ملتی ہیں ان کی بنا پر ایک مفصل قانون ہتک عزت ( Law of libel ) مرتب کیا جا سکتا ہے ۔ مغربی قوانین ہتک عزت اس معاملے میں اتنے ناقص ہیں کہ ایک شخص ان کے تحت دعویٰ کر کے اپنی عزت کچھ اور کھو آتا ہے ۔ اسلامی قانون اس کے بر عکس ہر شخص کی ایک بنیادی عزت کا قائل ہے جس پر حملہ کرنے کا کسی کو حق نہیں ہے ۔ قطع نظر اس سے کہ حملہ واقعیت پر مبنی ہو یا نہ ہو ، اور جس پر حملہ کیا گیا ہے اس کی کوئی حیثیت عرفی ہو یا نہ ہو ۔ مجرد یہ بات کہ ایک آدمی نے دوسرے آدمی کی تذلیل کی ہے اسے مجرم بنا دینے کے لیے کافی ہے ، الا یہ کہ اس تذلیل کا کوئی شرعی جواز ثابت کر دیا جائے ۔ سورة الْحُجُرٰت حاشیہ نمبر :20 مذاق اڑانے سے مراد محض زبان ہی سے کسی کا مذاق اڑانا نہیں ہے ، بلکہ کسی کی نقل اتارنا ، اس کی طرف اشارے کرنا ، اس کی بات پر یا اس کے کام یا اس کی صورت یا اس کے لباس پر ہنسنا ، یا اس کے کسی نقص یا عیب کی طرف لوگوں کو اس طرح توجہ دلانا کہ دوسرے اس پر ہنسیں ، یہ سب بھی مذاق اڑانے میں داخل ہیں ۔ اصل ممانعت جس چیز کی ہے وہ یہ ہے کہ ایک شخص دوسرے شخص کی کسی نہ کسی طور پر تضحیک کرے ، کیونکہ اس تضحیک میں لازماً اپنی بڑائی اور دوسرے کی تذلیل و تحقیر کے جذبات کار فرما ہوتے ہیں جو اخلاقاً سخت معیوب ہیں ، اور مزید برآں اس سے دوسرے شخص کی دل آزاری بھی ہوتی ہے جس سے معاشرے میں فساد رو نما ہوتا ہے ۔ اسی بنا پر اس فعل کو حرام کیا گیا ہے ۔ مردوں اور عورتوں کا الگ الگ ذکر کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مردوں کے لیے عورتوں کا مذاق اڑانا یا عورتوں کے لیے مردوں کا مذاق اڑانا جائز ہے ۔ دراصل جس وجہ سے دونوں کا ذکر الگ الگ کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ اسلام سرے سے مخلوط سوسائٹی ہی کا قائل نہیں ہے ۔ ایک دوسرے کی تضحیک عموماً بے تکلف مجلسوں میں ہوا کرتی ہے ، اور اسلام میں یہ گنجائش رکھی ہی نہیں گئی ہے کہ غیر محرم مرد اور عورتیں کسی مجلس میں جمع ہو کر آپس میں ہنسی مذاق کریں ۔ اس لیے اس بات کو ایک مسلم معاشرے میں قابل تصور نہیں سمجھا گیا ہے کہ ایک مجلس میں مرد کسی عورت کا مذاق اڑائیں گے یا عورتیں کسی مرد کا مذاق اڑائیں گی ۔ سورة الْحُجُرٰت حاشیہ نمبر :21 اصل میں لفظ لَمزْ استعمال ہوا ہے جس کے اندر طعن و تشنیع کے علاوہ متعدد دوسرے مفہومات بھی شامل ہیں ، مثلاً چوٹیں کرنا ، پھبتیاں کسنا ، الزام دھرنا ، اعتراض جڑنا ، عیب چینی کرنا ، اور کھلم کھلا یا زیر لب یا اشاروں سے کسی کو نشانہ ملامت بنانا ۔ یہ سب افعال بھی چونکہ آپس کے تعلقات کو بگاڑتے اور معاشرے میں فساد برپا کرتے ہیں اس لیے ان کو حرام کر دیا گیا ہے ۔ کلام الہیٰ کی بلاغت یہ ہے کہ : لَا یَلْمِزُ بَعْضُکُمْ بَعْضاً ( ایک دوسرے پر طعن نہ کرو ) کہنے کے بجائے : لَا تَلْمِزُوٓا اَنْفُسَکُمْ ( اپنے اوپر طعن نہ کرو ) کے الفاظ استعمال فرمائے گئے ہیں جن سے خود بخود یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ دوسروں پر زبان طعن دراز کرنے والا دراصل خود اپنے آپ کو مطعون کرتا ہے ۔ ظاہر بات ہے کہ کسی شخص کی زبان دوسروں کے خلاف بد گوئی کے لیے اس وقت تک نہیں کھلتی جب تک اس کے دل میں برے جذبات کا لاوا خوب پک کر پھوٹ پڑنے کے لیے تیار نہ ہو گیا ہو ۔ اس طرح ان جذبات کی پرورش کرنے والا دوسروں سے پہلے اپنے نفس کو تو بدی کا آشیانہ بنا چکتا ہے ۔ پھر جب وہ دوسروں پر چوٹ کرتا ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ خود اپنے اوپر چوٹیں کرنے لیے دوسروں کو دعوت دے رہا ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ کوئی اپنی شرافت کی بنا پر اس کے حملوں کو ٹال جائے ۔ مگر اس نے تو اپنی طرف سے یہ دروازہ کھول ہی دیا کہ وہ شخص بھی اس پر حملہ آور ہو جس کو اس نے اپنی زبان کے تیروں کا ہدف بنایا ہے ۔ سورة الْحُجُرٰت حاشیہ نمبر :22 اس حکم کا منشا یہ ہے کہ کسی شخص کو ایسے نام سے نہ پکارا جائے یا ایسا لقب نہ دیا جائے جو اس کو ناگوار ہو اور جس سے اس کی تحقیر و تنقیص ہوتی ہو ۔ مثلاً کسی کو فاسق یا منافق کہنا ۔ کسی کو لنگڑا یا اندھا یا کانا کہنا ۔ کسی کو اس کے اپنے یا اس کی ماں یا باپ یا خاندان کے کسی عیب یا نقص سے ملّقب کرنا ۔ کسی کو مسلمان ہو جانے کے بعد اس کے سابق مذہب کی بنا پر یہودی یا نصرانی کہنا ۔ کسی شخص یا خاندان یا برادری یا گروہ کا ایسا نام رکھ دینا جو اس کی مذمت اور تذلیل کا پہلو رکھتا ہو ۔ اس حکم سے صرف وہ القاب مستثنیٰ ہیں جو اپنی ظاہری صورت کے اعتبار سے تو بد نما ہیں مگر ان سے مذمت مقصود نہیں ہوتی بلکہ وہ ان لوگوں کی پہچان کا ذریعہ بن جاتے ہیں جن کو ان القاب سے یاد کیا جاتا ہے ۔ اسی بنا پر محدثین نے اسماء الرجال میں سلیمان الاعمش ( چندے سلیمان ) اور واصل الاخدَب ( کبڑے واصل ) جیسے القاب کو جائز رکھا ہے ۔ ایک نام کے کئی آدمی موجود ہوں اور ان میں سے کسی خاص شخص کی پہچان اس کے کسی خاص لقب ہی سے ہوتی ہو تو وہ لقب استعمال کیا جاسکتا ہے ۔ اگرچہ وہ بجائے خود برا ہو ۔ مثلاً عبداللہ نام کے کئی آدمی ہوں اور ایک ان میں سے نابینا ہو تو آپ اس کی پہچان کے لیے نابینا عبداللہ کہہ سکتے ہیں ۔ اسی طرح ایسے القاب بھی اس حکم کے تحت نہیں آتے جن میں بظاہر تنقیص کا پہلو نکلتا ہے مگر در حقیقت وہ محبت کی بنا پر رکھے جاتے ہیں اور خود وہ لوگ بھی جنہیں ان القاب سے یاد کیا جاتا ہے ، انہیں پسند کرتے ہیں ، جیسے ابو ہریرہ اور ابو تراب ۔ سورة الْحُجُرٰت حاشیہ نمبر :23 یعنی ایک مومن کے لیے یہ بات سخت شرمناک ہے کہ مومن ہونے کے باوجود وہ بد زبانی اور شہد پن میں نام پیدا کرے ۔ ایک کافر اگر اس لحاظ سے مشہور ہو کہ وہ لوگوں کا مذاق خوب اڑاتا ہے ، یا پھبتیاں خوب کستا ہے ، یا برے برے نام خوب تجویز کرتا ہے ، تو یہ انسانیت کے لحاظ سے خواہ اچھی شہرت نہ ہو کم از کم اس کے کفر کو تو زیب دیتی ہے ۔ مگر ایک آدمی اللہ اور اس کے رسول اور آخرت پر ایمان لانے کے بعد ایسے ذلیل اوصاف میں شہرت حاصل کرے تو یہ ڈوب مرنے کے لائق بات ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

5: معاشرے میں جن باتوں سے لڑائی جھگڑے پیدا ہوتے ہیں، ان آیتوں میں ان باتوں کو نہایت جامعیت کے ساتھ بیان فرمایا گیا ہے۔ ان میں سے ایک بات یہ ہے کہ کسی دوسرے کا کوئی ایسا برا نام رکھ دیا جائے جو اسے ناگوار ہو۔ اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں کہ ایسا کرنا گناہ ہے، اور اس سے خود تم گنہگار ہو گے، اور خود تم پر گنہگار ہونے کا نام لگے گا، اور کسی مسلمان پر یہ نام لگنا کہ وہ گنہگار ہے، ایمان لانے کے بعد بہت بری بات ہے۔ نتیجہ یہ ہوگا کہ تم کسی دوسرے پر برا نام لگا رہے تھے، اور اس عمل سے خود تم پر برا نام لگ گیا۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١١۔ ١٢۔ صحیحین ١ ؎ میں ابوہریرہ (رض) کی روایت سے ایک بڑی حدیث ہے جس کے ایک ٹکڑے کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ایماندار آدمی کو چاہئے کہ یا تو نیک بات منہ سے نکالے نہیں تو چپکا رہے غرض اس آیت اور اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ٹھٹھے بدگوئی اور غیبت سے زبان کو روکنا ایمانداری کی نشانی ہے جس طرح گالی کا منہ سے نکالنا جھوٹ بولنا امانت میں خیانت کرنا منافق کی نشانی ہے۔ صحیح ٢ ؎ مسلم میں حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ کسی شخص کی مذمت پیٹھ پیچھے کرنا غیبت ہے صحابہ نے عرض کیا کہ حضرت اگر اس شخص میں وہ مذمت کی بات موجود ہو تو کیا اس کا ذکر کرنا بھی غیبت ہے آپ نے فرمایا غیبت تو یہی ہے ورنہ ایک شخص میں کوئی بات موجود ہی نہیں ہے اگر اس کی مذمت کوئی شخص اپنے جی سے ایک بات گھڑ کے کرے تو اس کا نام بہتان ہے ترمذی ١ ؎ میں حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا خوبی اسلام کی اس شخص نے پائی جس نے بےہودہ باتوں سے اپنی زبان کو روکا اس حدیث کی سند میں ایک راوی قرۃ بن عبد الرحمن بن حبویل ہے جس کو بعض علما نے ضعیف قرار دیا ہے لیکن ابن عدی نے اس کو معتبر قرار دیا ہے اور ابن حبان نے اس کی روایتوں کو صحیح ٹھہرایا ہے اور صحیح مسلم میں دوسری روایتوں کی تقویت سے اس کی روایتیں لی گئی ہیں۔ مسند امام ترمذی ٢ ؎ نسائی اور ابن ماجہ کی روایت سے حضرت معاذ بن جبل کی حدیث مشہور ہے کہ حضرت معاذ بن جبل نے بڑے تعجب سے آنحضرت سے پوچھا کہ کیا حضرت زبانی باتوں پر بھی قیامت کے دن مواخذہ ہوگا آپ نے فرمایا کہ ہاں بڑا مواخذہ زبان کے سبب سے ہی ہوگا ترمذی نے اس حدیث کو صحیح بخاری ٣ ؎ میں حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت نے فرمایا بعض وقت بےپروائی سے آدمی زبان سے ایسا کلمہ کہہ بیٹھتا ہے جس کے سبب سے بری طرح دوزخ میں جھونکا جائے گا حاصل کلام یہ ہے کہ بعض وقت خوش طبعی کے طور پر کسی سچی بات کا منہ سے نکالناجیسا کہ مثلاً آنحضرت نے ہنسی سے حضرت ٤ ؎ انس کو دو کانوں والا فرمایا کرتے تھے یا ایک بڑھیا عورت سے آپ نے ٥ ؎ فرمایا کہ بوڑھی عورتیں جنت میں نہیں جائیں گی جب وہ عورت بہت گھبرائی تو آپ نے فرمایا کہ بوڑھی عورتیں جوان ہو کر جنت میں جائیں گی اسی طرح ضرورت دینی کے سبب سے نصیحت کے طور پر غیبت کے جائز ہونے کا بھی حکم ہے غرض شریعت میں جس قدر روا ہے اس سے بڑھ کر خوش طبعی بدگوئی بدگمانی خود پسندی غیبت سب حرام ہے اسی واسطے ان سب باتوں سے اللہ تعالیٰ نے ان آیتوں میں مسلمانوں کو منع فرمایا ہے اور اللہ کے رسول نے اپنے قول اور فعل سے امت کے لوگوں کو یہ سمجھایا ہے کہ کون سی خوش طبعی اور کون سی غیبت جائز ہے پوری تفصیل اس حدیث کی کتابوں میں ہے۔ حاصل مطلب ان آیتوں کا یہ ہے کہ کسی مسلمان مرد کو مرد سے یا عورت کو عورت سے بےجا ہنسی دلی لگی جائز نہیں ہے کیونکہ جس سے ہنسی کی جائے ہنسی میں اس کی حقارت نکلتی ہے اب ہنسی کرنے والے کو کیا معلوم کہ یہ جس کی حقارت کے درپے ہے اللہ کے نزدیک بعض باتوں میں وہ اس ہنسی کرنے والے شخص سے بہتر ہو۔ پھر فرمایا جس طرح مسلمان مرد اور عورتوں کو آپس کی بےجا ہنسی جائز نہیں ہے اسی طرح آپس میں طعنے دینا نام رکھنا بھی جائز نہیں ہے کیونکہ اسلام لانے کے بعد اسلام سے پہلے کی عادتوں سے کسی کو اپنانا اچھی بات نہیں ہے پھر فرمایا جو شخص ان مناہی کی باتوں سے باز نہ آئے گا تو اپنی جان پر گویا ظلم کرے گا کیونکہ یہ سب مناہی کی باتیں حق العباد کی قسم کے گناہ ہیں جن کا فیصلہ قیامت کے دن یہ ہوگا کہ ظالموں کی نیکیاں مظلوموں کو مل جائیں گی اور ظالم خالی ہاتھ دوزخ میں جھونک دیئے جائیں گے۔ چناچہ صحیح مسلم ١ ؎ کے حوالہ سے ابی امامہ کی حدیث اس باب میں ایک جگہ گزر چکی ہے صحیح مسلم ٢ ؎ کے حوالہ سے ابوہریرہ (رض) کی حدیث جو اوپر گزری جس میں بہتان کا ذکر ہے وہ حدیث ان بعض الظن اثم کی گویا تفسیر ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ زبردستی ایک شخص کی نسبت کوئی بدگمانی پیدا کرکے کوئی عیب اس کے ذمہ لگانا اسی کا نام بہتان ہے جس طرح مردہ کا کوئی گشت کاٹے تو اس کو خبر نہیں ہوتی اسی طرح جس کی غیبت کی جائے وہ بھی بیخبر ہوتا ہے لیکن جس طرح جسم میں سے گوشت کی بوٹی کاٹ لینے سے جسم کو زخم کی تکلیف ہوتی ہے اسی طرح بدگوئی کے لفظوں کو سن کر آدمی کے دل میں زخم پڑجاتا ہے چناچہ مثل مشہور ہے کہ برچھی کا زخم بر جاتا ہے لیکن زبان کا زبان نہیں بھرتا انہیں مناسبتوں سے غیبت کو مردہ کے گوشت کے کھانے سے مشابہت دی گئی ہے آگے فرمایا آئندہ جو کوئی ان باتوں سے توبہ کرے گا تو اللہ غفور الرحیم ہے اس کی توبہ قبول فرمائے گا۔ صحیح مسلم ٣ ؎ میں ابوہریرہ سے روایت ہے۔ جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو مسلمان آدمی اپنے بھائی مسلمان کی حقارت اور ذلت کے درپے ہوا اس نے بہت بڑا گناہ کمایا اس حدیث کو آیتوں کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آیتوں میں جن باتوں کی مناہی ہے وہ سب باتیں مسلمانوں میں حقارت اور ذلت کے پھیلنے کی ہیں جو اس صحیح حدیث کے موافق بڑے وبال کی بات ہے اس لئے ہر مسلمان کو ان سب باتوں سے بہت بچنا چاہئے۔ سورة آل عمران میں گزر چکا ہے کہ گناہوں کی دو قسمیں ہیں ایک فقط اللہ کا گناہ ہے جیسے مثلاً نماز کا نہ پڑھنا دوسرا وہ گناہ ہے جس میں بندوں کا بھی حق ہے جیسے مثلاً غبیت کرنا اس دوسری قسم کے گناہوں کی توبہ میں صاحب حق کا راضی کردینا بھی ضروری ہے ان آیتوں میں دوسری قسم کے گناہوں کے ذکر کے بعد ان اللہ تو اب رحیم جو فرمایا اس کا مطلب یہی ہے کہ اس قسم کے گناہ کرنے کے بعد جو شخص آئندہ کے لئے خالص دل سے توبہ کرکے صاحب حق کو بھی راضی کرے گا تو اللہ غفور الرحیم اپنی رحمت سے اس کی توبہ قبول کرے گا۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(49:11) لایسخر : فعل نہی واحد مذکر غائب سخر (باب سمع) مصدر۔ ب اور من کے صلہ کے ساتھ۔ مذاق بنانا۔ ٹھٹھا کرنا۔ (چاہیے کہ یہ تمسخر اڑائے مردوں کی ایک جماعت دوسری جماعت کا۔ عسی۔ ممکن ہے۔ ہوسکتا ہے۔ ان یکن خیرا منھن : ان مصدریہ ۔ یکن مضارع جمع مؤنث غائب ۔ کون باب نصر۔ مصدر۔ وہ ہوں گی۔ وہ ہوں۔ خیرا افعل التفضیل کا صیغہ ہے بہتر۔ بوجہ خبر یکن منصوب ہے۔ یکن میں ضمیر جمع مؤنث غائب ان عورتوں کی طرف راجع ہے جن کا تمسخر اڑایا جا رہا ہو۔ اور منھن میں ان عورتوں کی طرف جو تمسخر اڑا رہی ہوں ۔ لاتلمزوا۔ فعل نہی جمع مذکر حاضر۔ لمز (باب ضرب و نصر) مصدر۔ تم عیب مت لگاؤ۔ تم عیب چینی مت کرو۔ انفسکم۔ مضاف مضاف الیہ۔ تمہارے اپنے اشخاص کی یعنی آپس کی۔ ایک دوسرے کی (عیب جوئی مت کرو) اور جگہ قرآن مجید میں ہے :۔ ومنھم من یلمزک فی الصدقت (9:58) اور ان میں سے بعض ایسے بھی ہیں کہ تقسیم صدقات میں تم پر طعنہ زنی کرتے ہیں۔ ولا تنابزوا۔ واؤ عاطفہ۔ لاتنابزوا۔ فعل نہی جمع مذکر حاضر تنابز (تفاعل) باہم چڑ مقرر کرنا۔ آپس میں برا نام نکالنا۔ اور ایک دوسرے کو چرانا اور برے نام سے پکارنا۔ اور تم ایک دوسرے کو برے نام سے مت پکارو۔ بالالقاب : مضاف مضاف الیہ۔ القاب کے ساتھ ۔ القاب جمع ہے لقب کی اصلی نام اور لقب میں فرق صرف یہ ہے کہ علم میں معنی کی رعایت نہیں ہوتی لیکن لقب میں معنی کا لحاظ ہوتا ہے۔ لقب کی دو قسمیں ہیں :۔ (1) ایک وہ جو عزت و شرف کے لحاظ سے ہو جیسے بادشاہوں کے لقب ہوتے ہیں۔ (2) دوم یہ کہ بطور چڑانے کے رکھ دیا جائے آیت ہذا میں دوسرے ہی قسم کے لقب مراد ہیں یعنی ایک دوسرے کو چڑانے کیلئے نام نہ ڈالو بئس۔ برا ہے۔ فعل ذم ہے اس کی گردان نہیں آتی۔ بئس اصل میں بئس تھا بروزن فعل (باب سمع) سے۔ عین کلمہ کی اتباع میں اس کی فاء کو کسرہ دیا گیا۔ پھر تخفیف کے لئے عین کلمہ کو ساکن کردیا گیا۔ بئس ہوگیا۔ الاسم الفسوق : موصوف و صفت۔ برا نام ۔ عیب دار نام۔ مثلا یہودی ، کافر، فاسق۔ ایمان کے بعد گناہ کا نام لگنا ہی برا ہے۔ لم یتب۔ مضارع نفی جحد بلم۔ صیغہ واحد مذکر غائب توب (باب نصر) مصدر (اور جس نے) توبہ نہ کی۔ ای من لم یتب عما نھی عنہ۔ اور جس نے توبہ نہ کی اس سے جس سے اس کو منع کیا گیا (تو ایسے لوگ ہی ظالم ہیں) ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 جیسے کسی کو فاسق منافق کانا گدھا وغیرہ ناموں سے پکارنا یا کسی کو مسلمان ہوجانے کے بعد اس کے سابق مذہب کی بنیاد پر یہودی نصرانی وغیرہ کہہ کر پکارنا 4 یعنی مسلمان پر طعن کرنا، اس کا مذاق اڑانا اور اسے برے ناموں سے پکارنا۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

آیات ١١ تا ١٨۔ اسرار ومعارف۔ اے ایمان والو ! ایسی صورتون سے بچوجولڑائی کا سبب بنتی ہیں جیسے کوئی گروہ کسی دوسری جماعت کا مذاق نہ اڑائے کہ کیا خبر اللہ کریم کے نزدیک وہ لوگ ان سے بہتر ہوں ایسے ہی مسلمان خواتین کو بھی بات کرنے میں احتیاط لازم ہے اور دوسری خواتین کے بارے تحقیر کا انداز اختیار نہ کرنا چاہیے کیا خبر اللہ کریم انہیں ان مذاق کرنے والوں سے زیادہ محبوب رکھتا ہو اور ایک دوسرے کی نکتہ چینیاں نہ کیا کرو یہی بات نفرت کا سبب بن کر ایک دوسرے سے دور کردیتی ہے نہ ہی ایک دوسرے کو ناپسندیدہ ناموں سے پکارو۔ یہ بات اس قدر اہم ہے کہ قرآن کریم نے مردوں اور عورتوں کو الگ الگ حکم دیا ہے کہ جبکہ آج کل اس کی پرواہ نہیں کی جاتی جو نفرتوں کو بڑھانے کا سبب بن رہی ہے کہ ایمان لانے کے بعد گناہ کی بات بہت بری ہے جیسے لوگ کہیں کہ فلاں مسلمان لوگوں کے نام بگاڑتا ہے یاتمسخر اڑاتا ہے تو یہ زیب نہیں دیتا اور اگر کوئی ان حرکات سے باز نہ آئے اور باوجود مسلمان ہونے کے یہ حرکات اختیار کیے رکھے تو وہ ظلم کررہا ہے یعنی اس کے ساتھ وہ معاملہ ہوگا جو ظلم کرنے والوں کے ساتھ ہوتا ہے اسی طرح بدگمانی بھی بہت بری بات ہے جو ایمان والوں کو زیب نہیں دیتی اور بعض گمان تو بہت بڑا گناہ ہوتے ہیں لہذا بلادلیل کسی مسلمان کے خلاف براگمان رکھنا حرام ہے۔ اور خواہ مخواہ دوسروں کے عیوب تلاش نہ کرتے پھرو کہ جو بات ظاہر ہے تم اس کے مکلف ہو اس پر عمل کرو اپناوقت دوسروں کی عیب جوئی میں برباد نہ کرو اور نہ ہی کسی کو پیٹھ پیچھے برا کہا کرو کہ غیت کرنا ایسا ہے جیسے کوئی اپنے مردہ بھائی کا گوشت نوچ نوچ کر کھارہا ہو اور یہ بات تمہیں کس قدر ناگوار لگتی ہے یہی حال غیبت کا ہے جیسے مردے کو گوشت نوچنے کی تکلیف نہیں مگر اس کی ہڈیاں ننگی ہورہی ہیں اور نوچنے والا کتنا نفرت انگیز کام کررہا ہے ایسے ہی غائب کو خبر نہیں مگر غیب کرنے والا اس کا پردہ نوچ نوچ کر اندر کی اشیاء یاس کی پوشیدہ باتیں ظاہر کررہا ہے لہذا اس سے توبہ کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو یقینا اللہ توبہ کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔ مختصرا غیبت کے مسائل۔ کسی کی پیٹھ پیچھے برائی کرنا غیبت ہے اور اگر اس میں وہ برائی نہ ہوتوبہتان ہوگالہذا اگر کسی کی غیبت کی جائے تو اگر اسے علم نہیں ہوا تو جس کے سامنے کی گئی اس کے سامنے غلطی کا اعتراف کرے اور اگر اسے علم ہوگیا ہو تو اس سے بھی معاف کرائے۔ اسی طرح بچے کافر ذمی اور مجنون کی غیبت بھی حرام ہے۔ نیز زبان سے ہو یا اشارہ کرکے سب حرام ہے ہاں چندصورتیں استثنی کی ہے جیسے کسی برائی پھیلنے کا اندیشہ ہوتولوگوں کو اس کے شر سے بچانے کے لیے آگاہ کیا جائے یا کسی ایسے شخص یا ادارے کو آگاہ کرنا جو اس کی اصلاح کرسکے جائز ہوگا غرض مقصد محض اس کی تحقیر نہ ہو اصلاح ہو۔ اے لوگو ! ہم نے تم سب کو ایک مرد اور ایک خاتون سے پیدا فرمایا اور تمہارے مختلف کنبے اور قبیلے بنادیے کہ تمہاری پہچان ہوجائے اور بس جہاں تک عزت وشرف کا تعلق ہے تو اللہ کے نزدیک تم میں سے بڑا شریف وہ ہے جو بڑا پرہیزگار ہے اور پرہیزگاری ایساوصف ہے جسے اللہ ہی بہتر جانتا ہے بندوں کے پاس کوئی پیمانہ نہیں لہذا سب افراد کی حسب مراتب عزت کیا کرو کہ اللہ علم رکھنے والاباخبر ہے وہ سب کو خوب جانتا ہے ۔ مدینہ منورہ میں ریاست کے قیام سے لوگوں کے دنیاوی مفادات وابستہ ہوگئے تودیہات سے آنے والے لوگوں نے بظاہر اطاعت اختیار کرلی عبادت بھی کرلیتے مگر ذاتی فائدے کے لیے کہ تصدیق قلبی نصیب نہ ہوئی تھی مگر بارگاہ نبوت میں اپنے مومن ہونے کا تذکرہ ایسے انداز میں کیا جیسے بڑا احسان کیا ہو تو ارشاد ہوا کہ ان سے فرمادیجئے تم ایمان نہیں لائے ہاں زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتے ہو تم نے اطاعت اختیار کرلی اور تسلیم کرلیا حالانکہ ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا اگر تم اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرکے خلوص دل سے ایمان قبول کرلوتوتب تمہارے یہ اعمال جو محض نقل تھے اللہ انہیں بھی قبول فرما کر ضائع نہ کرے گا اور تمہیں کوئی نقصان نہ ہوگا کہ اللہ بخشنے والا اور مہربان ہے۔ ایمان واسلام کیا الگ شے ہیں ؟۔ اسلام اور ایمان اصطلاح شریعت میں ایک ہی شے ہے کہ اسلام سے مراد تسلیم کرکے تصدیق قلبی تک یعنی اعمال میں اتباع سے شروع ہو کر تصدیق قلبی تک جانا مراد ہے جبکہ ایمان میں تصدیق قلبی حاصل کرکے اتباع اختیار کرنا ہے دونوں ایک ہی شے ہیں مگر لغت کے اعتبار سے معانی الگ ہیں جیسے منافقین بظاہر اطاعت کرتے تھے دل میں ایمان نہ تھا۔ مسلمان توکہلاتے تھے مگر علم الٰہی میں مومن نہ تھے اور مومن کون لوگ ہیں ان کی صفات یہ ہیں کہ انہوں نے جب اللہ اور رسول پر ایمان قبول کرلیا تو زندگی بھر کبھی اس میں شک نہیں کیا ، بلکہ ہمیشہ کے لیے اس پر جم گئے اور اپنی جان کو اپنا سمجھا نہ مال کو اپنا جانا بلکہ جان ومال سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا ایسے لوگ کھرے ہیں اپنے ایمان میں مگر تم کو فائدہ اٹھانے کے لیے اطاعت کا دعوی رکھتے اور اللہ کی راہ میں کچھ دینے کے لیے تیار نہیں نہ جہاد کا نام لینے کے لیے تیار ہو اپنے دعوے میں کھرے نہیں ہو۔ یہ کیسادین ہے جو تم اللہ کریم کو بتانا چاہ رہے ہو کہ ہم بڑے پارسا ہیں کہ ایسا دین اس نے تو نہیں اتارا اور تم کوئی نئی بات بتانے کی دوسری گستاخی نہ کرو کہ اللہ آسمانوں اور زمین کی سب باتوں کو جانتا ہے اور وہ ہر شے سے باخبر ہے۔ یہ بیوقوف گویا اپنے مسلمان ہونے کا آپ پر احسان دھرتے ہیں۔ آپ فرمادیجئے کہ مجھ پر احسان نہ کرو کہ تمہارے مسلمان ہونے سے تمہارا فائدہ ہے اور اگر نہ ہوگے تو خود تباہ ہوجاؤ گے بلکہ اگر تم اپنے دعوائے اسلام میں سچے ہو اور تم نے دل سے ایمان قبول کرلیا ہے تو یہ تم پر اللہ کا احسان ہے کہ اس نے تمہیں ایمان قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائی۔ اور یاد رکھو کہ اللہ آسمانوں اور زمینوں کی سب پوشیدہ باتیں جانتا ہے لہذا جو تمہارے دل میں ہے وہ اللہ کریم کو خوب خبر ہے اور جو تم عمل کرتے ہو اسے بھی اللہ دیکھ رہا ہے۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر (11 تا 12 ) ۔ لا یسخر (مذاق نہ اڑائے) ۔ لا تلمزوا (طعنے مت دو ) ۔ لا تنابزوا (برے نام نہ رکھو) ۔ القاب (لقب۔ نام رکھنا) ۔ بئس (برا ہے) ۔ لم یتب (توبہ نہ کی) ۔ اجتنبوا (بچتے رہو) ۔ لا تجسسوا (ٹوہ میں نہ لگو) ۔ لا یغتب (غیبت نہیں کرتا) ۔ ایحب (کیا پسند ہے ؟ ) ۔ ان یا کل (یہ کہ وہ کھائے) ۔ لحم (گوشت ) ۔ کر ھتم (تم نے برا سمجھا ) ۔ تشریح : آیت نمبر (11 تا 12 ) ۔ ” آپس میں ایک دوسرے کا مذاق اڑانا، طعنے دینا، کسی کو برے الفاظ و القاب سے پکارنا، بدگمانیاں کرنا، دوسرے کے عیب تلاش کرنا اور پیٹھ پیچھے اپنے بھائیوں کی غیبت کرنا یہ سب وہ باتیں ہیں جن سے فسادات اور جھگڑے پیدا ہوتے ہیں اور ملت کا شیرازہ بکھر جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں ان سب برائیوں اور گناہوں سے بچنے کی سخت تاکید گی ہے۔ ایک مومن سے اس بات کی توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ ایمان لانے کے بعد طعنے دینے، بدکلامی کرنے اور بد زبانی کرنے جیسی برائیوں میں مبتلا ہوگا۔ مومن کی شان تو یہ ہے کہ وہ محبت و اخلاص کا پیکر ہوتا ہے جس سے کسی کو کسی طرح کی اذیت نہیں پہنچتی۔ اسی لئے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ تم اس وقت تک کامل مومن نہیں بن سکتے جب تک تم میں باہمی محبت و اخلاص نہ پیدا ہوجائے۔ انسانی تکبر کو توڑنے کے لئے آپ نے فرمایا کہ ” کیا میں تمہیں ایسی بات نہ بتاؤں کہ اگر تم اس پر عمل کرنے لگو تو تمہارے درمیان محبت پیدا ہوجائے اور وہ یہ ہے کہ تم آپس میں ایک دوسرے کو سلام کرو اور اس کو (اپنے معاشرہ میں) خوب رواج دے کر عام کردو۔ جب کوئی آدمی ہر وقت دوسرے کی نجی زندگی اور اس کے حالات کی کھوج میں لگ جاتا ہے اور بد گمانیوں کے دائرے میں گھومنے لگتا ہے تو وہ اپنی اصلاح اور اپنے عیبوں پر نگاہ کرنے سے محروم ہوجاتا ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے : ” تم اپنے بھائی کے عیب کو ظاہر نہ کرو کہیں ایسا نہ ہو کہ اللہ اس کو تو معاف کر دے اور تمہیں اس (عیب) میں مبتلا کر دے۔ زیر مطالعہ آیات میں ان ہی باتوں کو بیان فرمایا گیا ہے جن کی تفصیل یہ ہے۔ (1) ۔ ایک دوسرے کا مذاق اڑانا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مرد یا عورت کسی دوسرے شخص یا کسی گروہ کا مذاق نہ اڑائے کیونکہ ممکن ہے جن لوگوں کا مذاق اڑایا جارہا ہے وہ مذاق اڑانے والوں سے بہتر ہوں۔ اصل میں کسی کا مذاق اڑانا، پھبتیاں کسنا اور جملے بازی کرنا اس کو ذلیل و رسوا کرنا اور اس کی دل شکنی کرنے کے علاوہ تکبر اور غرور کا بھی ایک انداز ہے۔ کیونکہ جب کوئی کسی کا مذاق اڑاتا ہے تو وہ اپنے آپ کو اس سے بہتر اور افضل و اعلیٰ سمجھتا ہے یعنی وہ یہ سمجھتا ہے کہ میں تو ہر عیب سے پاک ہوں سارے عیب اور خرابیاں دوسروں کے اندر موجود ہیں۔ یہ تکبر کا انداز ہے جسے اللہ تعالیٰ پسند نہیں فرماتے اور ایسے شخص یا گروہ کا اپنی ہر اصلاح سے محروم فرما دیتے ہیں کیونکہ ایمان لانے کے بعد فسق و نافرمانی کا ہر اندازا انتہائی ناپسندیدہ ہے اگر اس نے اپنی اصلاح کی فکر نہ کی تو اس کا شمار ظلموں اور بےانصافوں میں ہوگا۔ (2) ۔ بدگمانیوں سے بچنا اکثر دیکھا گیا ہے کہ اگر کسی کے دل میں کسی کی طرف سے کوئی بد گمانی اور غلط خیال قائم ہوجائے تو اس کی ہر اچھی بات بھی اس کو بری لگنے لگتی ہے۔ اس لئے ہر طرح کی بدگمانیوں سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے کیونکہ یہی بدگمانیاں بڑھتے بڑھتے بعض بناہوں کا سبب بن جاتی ہیں۔ بدگمان آدمی دوسروں پر تہمت و الزام لگانے سے بھی باز نہیں آتا۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی فرمایا ہے۔ وایا کم و الظن فان الظن اکذب الحدیث : ” یعنی تم بعض گمانوں سے بچا کرو کیونکہ گمان ایک جھوٹی بات کا نام ہے۔ “ (3) ۔ تجسس۔ جب کوئی شخص کسی کے متعلق بدگمان ہوجاتا ہے تو پھر یہ دائرہ پھیلنا شروع ہوجاتا ہے اور گمان کرنے والا دوسرے کے عیب کی جستجو اور تلاش میں لگ جاتا ہے جو کہ گناہ ہے اسی لئے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” مسلمانوں کی غیبت نہ کرو نہ کسی کے عیب تلاش کرو۔ کیونکہ جو شخص کسی مسلمان کے عیب تلاش کرتا ہے تو اللہ اس کو اس کے گھر کے اندر بھی رسوا اور ذلیل کر کے چھوڑتا ہے۔ (قرطبی) ۔ (4) ۔ غیبت غیبت در حقیقت معشرہ کی وہ خرابی ہے جو اس معاشرہ کو بد ترین نتائج سے دو چار کردیتی ہے کیونکہ غیبت اس کو کہتے ہیں کہ کسی مسلمان کے بپٹھ پیچھے ایسی بات کہی جائے کہ اگر اس شخص کے منہ پر وہی بات کہی جائے تو اس کو اذیت پہنچے۔ لیکن اگر کسی کے پیٹھ پیچھے ایسی بات کہی جائے جو اس میں نہیں ہے تو اس کو اتہام و الزام لیتے ہیں۔ غیبت اور کسی پر غلط الزام لگانا دونوں ہی سخت گناہ ہیں جس کی معافی تو بہ کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے۔ غیبت کرنے والا درحقیقت اپنے بھائی کی عزت کی دھجیاں بکھیرنے والا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ کیا تم میں سے کوئی شخص اس بات کو گوارہ کرسکتا ہے کہ وہ اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھائے۔ یقینا وہ کسی حال میں اس کو گوارا نہیں کرسکتا۔ حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا معراج کی رات میرا ایک ایسی جماعت پر گذر ہوا جن کے ناخن تانبے کے تھے اور وہ ان سے اپنے بدن کا گوشت نوچ نوچ کر کھا رہے تھے۔ میں نے پوچھا یہ کون لوگ ہیں ؟ حضرت جبرئیل (علیہ السلام) نے کہا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے بھائی کی غیبت کرتے اور اس کی آبرو سے کھیلتے تھے (بغوی) ۔ اللہ تعالیٰ نے غیبت کی بری عادت سے بچنے کی سخت تاکید کی ہے اور فرمادیا ہے کہ اگر تم نے اس بری عادت سے توبہ نہ کی تو سخت نقصان اٹھائو گے اور اگر تم نے توبہ کرلی تو اللہ تمہاری توبہ کو قبول کرنے والا مہربان ہے۔ (5) ۔ طعنے دینا۔ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو حکم دیا ہے کہ وہ ” لمز “ سے بچیں ۔ لمز کے معنی ہیں کسی کے عیب نکالنا اور اس کو طعنے دینا۔ حقیقت یہ ہے کہ جو شخص کسی کو کسی طرح سے بھی طعنے دیتا ہے یا اس کے عیب تلاش کرنے کی فکر میں لگا رہتا ہے وہ نہ صرف اس کی توہین کرتا ہے بلکہ اس کے عیب تلاش کرنے اور طعنے دینے میں اس بات کو بھول جاتا ہے کہ وہ خود کتنے عیبوں میں مبتلا ہے اس طرح وہ پنی اصلاح سے غافل ہوجاتا ہے اور خود ہی ذلیل و خوار ہو کر وہ جاتا ہے۔ اسے ہر شخص میں عیب ہی عیب نظر آتے ہیں۔ یہ بھی تکبر اور غرور کی ایک شکل ہے جو اللہ کے نزدیک سخت باپسند یدہ ہے۔ (6) ۔ برے القاب سے پکارنا۔ بعض لوگ اپنی بڑائی اور برتری ثابت کرنے کے لئے دوسرے شخص کو ایسے برے برے الفاظ اور القاب سے یاد کرتے ہیں جو اس کی توہین ہوتی ہے۔ جیسے کسی کو اندھا، لولا، لنگڑا اور کانا کہہ دیا۔ کسی کی ذات میں کیڑے نکال دیئے اسی طرح اگر کسی سے غفلت میں کوئی گناہ ہوگیا اور اس نے اللہ سے معافی بھی مانگ لی تو اب یہ اللہ اور بندے کا معاملہ ہے۔ کسی شخص کو اس بات کی اجازت نہیں ہے کہ وہ اس کے گناہ کا نام لے کر اس کو پکارے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ جو شخص کسی کو ایسے گناہ پر شرم دلائے جس سے اس نے توبہ کرلی ہے تو ہو سکتا ہے اللہ اس شرم دلانے والے کو اس گناہ میں مبتلا کر کے اسے ذلیل و رسوا کردے۔ (الحدیث) اس سے معلوم ہوا کہ برے القاب و الفاظ ہی نہیں بلکہ کسی کو اس کے گناہوں پر شرم دلانا یا اس کو ذلیل و رسوا کرنا ایک غلط حرکت ہے جس کی قطعاً اجازت نہیں ہے۔ ایک حدیث میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ ایک مومن کو دوسرے مومن پر یہ حق ہے کہ وہ اس کو ایسے نام اور لقب سے پکارے جو اسے پسند ہو۔ حضور اکر م (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سیرت پاک کے مطالعہ سے بھی یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ آپ نے دوسروں کو ایسے الفاظ سے یاد فرمایا ہے جس سے ان کی عزت میں چارچاند لگ گئے ہیں اور صحابہ کرام (رض) نے بھی ان القابات کو اپنے نام کا حصہ قرار دیا ہے جیسے ٭ صدیق ‘ فاروق ‘ غنی ‘ بوتراب ‘ اسد اللہ ‘ سیف اللہ ‘ امین الامت ‘ ابوہریرہ وغیرہ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اس مبارک سنت پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ تمسخر وہ ہنسی ہے جس سے دوسرے کی تحقیر اور دل آزاری ہو، اور جس سے دوسرے کا دل خوش ہو وہ مزاح کہلاتا ہے اور وہ جائز ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں اس لیے انہیں آپس کے اختلافات سے بچنا چاہیے یہ تبھی ممکن ہوگا جب مسلمان ایک دوسرے کی عزت کا خیال رکھیں گے اور ایسے الفاظ اور انداز سے بچیں جس سے دوسرے بھائی کی توہین کا پہلو نکلتاہو۔ مومنوں کو اللہ تعالیٰ نے اس بات سے منع کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورة الحجرات میں مسلمانوں کو تیسری مرتبہ ” اٰمَنُوْا “ کے لفظ سے مخاطب کیا ہے کہ اے ایمان والو ! کوئی قوم کسی دوسری قوم سے تمسخر نہ کرے۔ ہوسکتا ہے کہ وہ اس سے بہتر ہو اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کو مذاق کا نشانہ بنائیں ممکن ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں اور نہ ایک دوسرے کے عیب نکالا کرو اور نہ ایک دوسرے کے برے نام رکھو۔ ایمان لانے کے بعد دوسروں کے برے نام رکھنا ” اللہ تعالیٰ “ کی نافرمانی کرنا ہے جو اس کام سے باز نہ آئیں وہ لوگ ظالم ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ نے اس خطاب میں مسلمانوں کو سطحی اور گھٹیا اخلاق اور کردار سے بچانے کے لیے تین حکم دیئے ہیں۔ ١۔ کوئی قوم دوسری قوم کو اور عورتیں دوسری عورتوں کو تمسخر کا نشانہ نہ بنائیں۔ کیونکہ ہوسکتا ہے کہ وہ تمسخر کرنے والوں سے بہتر ہوں۔ اس صورت میں مذاق کرنے والی کی نہ صرف اپنی بےعزتی ہوگی بلکہ معاشرے میں اختلاف بھی پیدا ہوگا جس سے بچنا چاہیے۔ ایک دوسرے کا تمسخراڑانا منع ہے : تمسخر کا معنٰی ہے کسی کو حقیر جانتے ہوئے اس کی بےعزتی کرنا، ذلیل کرنا، مذاق اڑانا، توہین کرنا۔ عربوں میں اس بات کا عام رواج تھا کہ ایک قبیلے کا شاعر دوسرے قبیلے کی تضحیک کرتا۔ نہ صرف ان کے سر کردہ لوگوں کی تضحیک کرتا بلکہ ان کی خواتین کو بھی تضحیک کا نشانہ بناتا اور یہی عادت خواتین میں پائی جاتی تھی۔ جو قبیلہ دوسرے قبیلے کا سب سے زیادہ تمسخر اڑاتا اسے دوسروں سے برتر سمجھا جاتا تھا۔ تمسخر اڑانے والے شاعر کو خراج تحسین پیش کیا جاتا۔ دوسرے کی عزت و احترام کے ساتھ کھیلنا اور انہیں لوگوں کی نظروں میں حقیر بنانا ان کے نزدیک کوئی عیب نہیں تھا۔ اللہ تعالیٰ نے مومن مردوں اور عورتوں کو یہ کہہ کر منع کیا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ جن کو تم تمسخر کا نشانہ بناتے ہو وہ ایمان، اخلاق اور کردار کے لحاظ سے تم سے بہتر ہوں۔ ” اٰمَنُوْا “ کے لفظ میں مرد اور خواتین دونوں شامل ہیں لیکن اعلیٰ اخلاق کی ترویج اور اس کی اہمیت کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے مردوں اور خواتین کو الگ الگ مخاطب کیا اور انہیں اس بری عادت سے منع فرمایا ہے۔ یاد رہے کہ آدمی دوسرے کو اس وقت مذاق کا نشانہ بناتا ہے جب اس کے دل سے اس کا احترام اٹھ جاتا ہے جب کسی کا احترام اٹھ جائے تو پھر باہمی اخوت باقی نہیں رہتی۔ جس معاشرے اور قوم میں اخوت اور بھائی چارے کا فقدان ہو اس میں اتحاد باقی نہیں رہ سکتا۔ یہاں یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہیے کہ تمسخر اور خوش طبعی میں بڑا فرق ہے۔ خوش طبعی میں دوسرے کو خوش کرنا مقصود ہوتا ہے لیکن تمسخر میں دوسرے کی تذلیل پائی جاتی ہے۔ بیشک یہ کام زبان سے کیا جائے یا اشارے کنائے سے اس سے ہر صورتبچنا چاہیے۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَا تَحَاسَدُوا وَلَا تَنَاجَشُوا وَلَا تَبَاغَضُوا وَلَا تَدَابَرُوا وَلَا یَبِعْ بَعْضُکُمْ عَلٰی بَیْعِ بَعْضٍ وَکُونُوا عِبَاد اللّٰہِ إِخْوَانًا الْمُسْلِمُ أَخُو الْمُسْلِمِ لَا یَظْلِمُہٗ وَلَا یَخْذُلُہٗ وَلَا یَحْقِرُہٗ التَّقْوٰی ہَاہُنَا وَیُشِیرُ إِلَی صَدْرِہٖ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ ۔۔ ) (رواہ مسلم : کتاب البر والصلۃ، باب تحریم ظلم المسلم) ” حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں رسول مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا با ہم حسد نہ کرو اور ایک دوسرے پر بو لی نہ بڑھاؤ اور بغض نہ رکھو اور قطع تعلقی نہ کرو اور تم میں سے کوئی دوسرے کے سودے پر تجارت نہ کرے اللہ کے بندو بھائی بھائی بن جاؤ۔ مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ وہ اپنے بھائی پر ظلم کرتا ہے نہ اسے ذلیل کرتا ہے اور نہ ہی اسے حقیر سمجھتا ہے تقویٰ اس جگہ ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے سینے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تین مرتبہ فرمایا۔۔ “ (وَعَنْ عَبْدِاللّٰہِ ابْنِ عَمْرٍو (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اِنَّ مِنْ اَحَبِّکُمْ اِلَیَّ اَحْسَنَکُمْ اَخْلَاقًا) (رواہ البخاری : باب مَنَاقِبُ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ ) ” حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی گرامی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مجھے وہ شخص زیادہ پسند ہے، جو تم میں بہترین اخلاق والا ہے۔ “ ” عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ تم میں سے وہ بہتر ہیں، جو اخلاق کے لحاظ سے بہتر ہیں۔ “ (رواہ البخاری : باب صفۃ النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عیب جوئی سے بچنے کا حکم : دوسرا حکم یہ ہے کہ آپس میں ایک دوسرے کی عیب جوئی نہ کیا کرو۔ آپس کا لفظ استعمال فرما کر یہ سمجھایا کہ ہر ایماندار دوسرے کو اپنا بھائی جانے اور اس کی عزت کو اپنی عزت سمجھے۔ مقصود یہ ہے کہ جس طرح اپنی عزت کا خیال رکھتے ہو اسی طرح اپنے بھائی کی عزت کا خیال رکھو ! عیب جوئی کرنے والے کا مقصد ہی دوسرے کے عیب اچھالنا اور اس کو ذلیل کرنا ہوتا ہے۔ چاہے یہ کام عادت کے طور پر کیا جائے یا حسد اور مخالفت کی بنیاد پر دوسرے کی عزت اچھالنے کے سوا اس کام کی کوئی اچھی تعبیر نہیں کی جاسکتی۔ ظاہر ہے جب ایک شخص دوسرے کی عزت اچھالنے کی کوشش کرے گا۔ یا تو وہ اس سے بدلہ لے گا یا پھر اس سے نفرت کا اظہار کرے گا۔ کیونکہ اخوت اور نفرت بیک وقت جمع نہیں ہوسکتے۔ نفرت پیدا کرنے سے اجتناب کرنے کا حکم : نبی (علیہ السلام) نے باہمی نفرت سے بچنے کا اس حد تک خیال فرمایا کہ آپ جہاں بھی اپنے نمائندے بھیجتے۔ انہیں حکم دیتے کہ وعظ و نصیحت میں بھی ایسے الفاظ اور ایسا انداز اختیار نہ کیا جس سے لوگ دین سے نفرت کریں یا ان میں بلاوجہ تفریق پیدا ہوجائے۔ (عَنْ أَبِیْ مُوْسٰی (رض) قَالَ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِذَا بَعَثَ أَحَدًا مِّنْ أَصْحَابِہٖ فِیْ بَعْضِ أَمْرِہٖ قَالَ بَشِّرُوْا وَلَا تُنَفِّرُوْا وَ یَسِّرُوْا وَلَا تُعَسِّرُوْا) (رواہ البخاری : باب مَا کَان النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَتَخَوَّلُہُمْ بالْمَوْعِظَۃِ وَالْعِلْمِ کَیْ لاَ یَنْفِرُوا) ” حضرت ابو موسیٰ اشعری (رض) بیان کرتے ہیں نبی گرامی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب اپنے ساتھیوں میں سے کسی کو کسی کام کیلئے بھیجتے تو فرماتے، لوگوں کو خوش خبری دینا، انہیں تقسیم نہ کرنا۔ ان کے ساتھ نرمی کرنا، مشکل میں مبتلا نہ کرنا۔ “ (عَنْ أَنَسٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَسِّرُوْا وَلَا تُعَسِّرُوْا وَسَکِّنُوْا وَلَا تُنَفِّرُوْا) (رواہ البخاری : باب قَوْلِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَسِّرُوا، وَلاَ تُعَسِّرُوا) ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : نرمی کرو، مشکل میں نہ ڈالو، دوسرے کو سکون پہنچاؤ، اور نفرت نہ دلاؤ۔ “ غیبت سے بچنے کا حکم : ” وَلَا تَنَابَزُوْ ا “ کا دوسرا مفہوم یہ ہے کہ ایک دوسرے کی غیبت نہ کرو۔ (وَعَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ أَتَدْرُوْنَ مَاالْغِیْبَۃُ قَالُوا اللّٰہُ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَمُ قَالَ ذِکْرُکَ اَخَاکَ بِمَا یَکْرَہُ قِیْلَ أَفَرَأَیْتَ اِنْ کَانَ فِیْ أَخِیْ مَا أَقُوْلُ قَالَ اِنْ کَانَ فِیْہِ مَاتَقُوْلُ فَقَدِ اغْتَبْتَہٗ وَ اِنْ لَمْ یَکُنْ فِیْہِ مَا تَقُوْلُ فَقَدْ بَھَتَّہٗ. (رواہ مسلم : وَفِیْ رِوَایَۃٍ اِذَاقُلْتَ لِاَخِیْکَ مَا فِیْہِ فَقَدِ اغْتَبْتَہٗ وَاِذَاقُلْتَ مَا لَیْسَ فِیْہِ فَقَدْ بَھَتَّہٗ ) (رواہ مسلم : باب تحریم الغیبۃ) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کیا تم جانتے ہو کہ غیبت کیا ہے ؟ صحابہ (رض) نے عرض کیا۔ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی زیادہ جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا : تم اپنے بھائی کو ان الفاظ کے ساتھ یاد کرو جنہیں وہ ناپسند کرتا ہے۔ عرض کیا گیا، اگر کسی بھائی میں وہ ناپسندیدہ بات موجود ہو جو میں کہہ رہا ہوں تو۔ اس صورت میں آپ کا کیا ارشاد ہے ؟ آپ نے فرمایا : اگر اس میں وہ بات موجود ہے جو تو کہہ رہا ہے تو پھر تو نے اس کی غیبت کی اور اگر اس میں وہ بات موجود نہیں، جو تو نے کہی ہے پھر تو نے اس پر بہتان لگایا۔ (مسلم) دوسری روایت میں ہے۔ اگر تو نے اپنے بھائی کی وہ بات کی، جو اس میں موجود ہے تو تو نے اس کی غیبت کی۔ اگر ایسی بات کہی جو اس میں موجود نہیں ‘ تو پھر تو نے اس پر بہتان لگایا۔ “ البتہ کسی کے مشورہ طلب کرنے پر دوسرے کی کمزوری بتلانا غیبت میں شامل نہیں ہوتا۔ بشرطیکہ ضرورت کے تحت دوسرے کی کمزوری بیان کرتے ہوئے نیت، الفاظ اور انداز اچھا ہو۔ حدیث کی مقدس کتب میں اس کی مثالیں موجود ہیں۔ برے القاب رکھنا گناہ کا کام ہے : مومنوں کو تیسرا حکم یہ ہے کہ وہ ایک دوسرے کے برے نام اور القاب نہ رکھاکریں۔ یہاں مطلقاً القاب رکھنے سے منع نہیں کیا گیا۔ ” بِءْسَ الِاسْمُ “ کے الفاظ استعمال کیے ہیں کہ برے نام رکھنے سے اجتناب کرو۔ کسی کے اچھے کام اور اخلاق کی وجہ سے اسے اچھا لقب دینا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت ہے۔ بیشک یہ لقب کسی کے طبعی رجحان کی بنیاد پر دیا جائے یا اچھے کام پر۔ جس طرح ایک دن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی کو زمین پر لیٹے ہوئے دیکھا تو محبت سے اسے ” ابو تراب “ کہہ کر بلایا۔ ابوہریرہ کو بلی کے ساتھ کھیلتے ہوئے دیکھا تو اسے ابوہریرہ کے لقب کے ساتھ یاد کیا۔ صدیق اکبر کی صداقت کی وجہ سے انہیں ” اَلصِّدِیْق “ کے اعزاز سے سرفراز فرمایا۔ اس طرح حدیث میں کئی مثالیں پائی جاتی ہیں۔ لہٰذا ” بِءْسَ الِاسْمُ الْفَسُوْقُ “ کا معنٰی ہے کہ کسی کو ایسے نام یا لقب سے پکارا جائے جس میں وہ اپنی ہتک محسوس کرتاہو۔ البتہ اگر وہ کسی لقب یا نام میں اپنی تحقیر نہیں سمجھتا تو اسے اس لقب کے ساتھ پکارنے میں کئی حرج نہیں۔ حدیث میں اس کی بھی مثالیں پائی جاتی ہیں۔ ١۔” ذوالیدین “ یعنی لمبے ہاتھوں والا : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دور میں ایک صحابی کے ہاتھ دوسرے صحابہ کے ہاتھوں سے قدرے لمبے تھے۔ لوگ اسے ذوالیدین کہہ کر پکارا کرتے تھے اور وہ اسے محسوس نہیں کرتے تھے۔ ٢۔ حمار یعنی گدھا : ایک دیہاتی صحابی دوسروں سے زیادہ جفاکش اور محنتی تھا۔ زیادہ محنت کرنے کی وجہ سے لوگ اسے الحمار کہتے تھے۔ کیونکہ اس لقب سے اس کی توہین کرنا مقصود نہیں تھا بلکہ یہ لفظ اس کی جفاکشی اور محنت کا ترجمان تھا۔ اس بنا پر لوگ اسے الحمار کہہ کر پکارتے تھے۔ اسی طرح اگر کسی شعبہ میں ایک ہی نام کے کئی مشہور لوگ ہوں اور ان کی شناخت کے لیے ان کو کسی ایسے لقب سے پکارا جائے جو بات ان میں موجود ہو تو ایسا لقب استعمال کرنے کی بھی ایک حد تک اجازت ہے بشرطیکہ اس کے پیچھے اس کی تحقیر مقصود نہ ہو۔ مسائل ١۔ ایمانداروں کا فرض ہے کہ وہ ایک دوسرے کو برا مذاق نہ کریں۔ ٢۔ ایمانداروں کا فرض ہے کہ وہ ایک دوسرے کے برے القاب نہ رکھیں۔ ٣۔ ایمان لانے کے بعد برے القاب رکھنا اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرنا ہے۔ ٤۔ جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کریں گے وہ ظالم ہوں گے۔ تفسیر بالقرآن کون لوگ ظالم ہیں : ١۔ اللہ کی مساجد کو ویران کرنے والا ظالم ہے۔ (البقرۃ : ١١٤) ٢۔ اللہ کی گواہی کو چھپانے والا ظالم ہے۔ (البقرۃ : ١٤٠) ٣۔ اللہ پر جھوٹ باندھنے والا۔ (الانعام : ١٢) ٤۔ نبوت کا دعویٰ کرنے والا۔ (الانعام : ٩٣) ٥۔ اللہ کی آیات کو جھٹلانے والا۔ (الاعراف : ٣٧) ٦۔ اللہ کی آیات سن کر اعراض کرنے والا۔ (الکہف : ٥٧) ٧۔ حق بات کو جھٹلانے والا۔ (العنکبوت : ٦٨) ٨۔ سب سے بڑا ظالم وہ ہے جو اللہ پر جھوٹ بولتا ہے۔ (الکہف : ١٥) ٩۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی سے مانگنے والا۔ (یونس : ١٠٦) ١٠۔ قرآن کی نصیحت سے منہ موڑنے والا۔ (الکہف : ٥٧) ١١۔ اللہ کی آیات کو سن کر اعراض کرنے والا بڑا ظالم ہے۔ (السجدۃ : ٢٢) ١٢۔ اللہ کی آیات کو جھٹلانے اور لوگوں کو گمراہ کرنے والا بڑا ظالم ہے۔ (الانعام : ١٤٤) ١٣۔ اس سے بڑا ظالم کون ہے ؟ جو اللہ پر جھوٹ باندھتا ہے اور اس کی آیات کو جھٹلاتا ہے۔ (الانعام : ٢١)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

قرآن کریم اسلامی نظام حیات کے ذریعہ جو فاضلانہ سوسائٹی قائم کرنا چاہتا ہے اس کے اندر بہت ہی بلند معیار کے آداب و اخلاق ہوتے ہیں۔ اس میں ہر فرد کو عزت نفس حاصل ہوتی ہے اور کوئی فرد کسی فرد کی ہتک عزت نہیں کرسکتا ۔ فرد کی یہ عزت سوسائٹی کی عزت کی وجہ سے ہے۔ کیونکہ ایک فرد کی ہتک عزت پوری انسانی سوسائٹی کی ہتک عزت ہے۔ اس لئے کہ انسانی جماعت نفس واحد ہے اور اس کی عزت ایک ہی عزت ہے۔ ایک انسان کی تذلیل پوری انسانیت کی تذلیل ہے۔ اس آیت میں قرآن کریم ، انہی میٹھے بولوں سے ، مسلمانوں کو پکارتا ہے۔ “ اے لوگو ، جو ایمان لائے ہو ”۔ پھر ان کو اس بات سے منع کرتا ہے کہ کوئی گروہ دوسرے گروہ سے مزاح کرے۔ نہ مرد دوسرے مردوں سے مزاح کریں۔ ہو سکتا ہے جن سے مزاح کیا جاتا ہے وہ دوسروں سے اچھے ہوں۔ نہ عورتیں اور دوسری عورتوں سے مزاح کریں کیونکہ ہو سکتا ہے کہ جن سے مزاح کیا جا رہا ہے ، اللہ کے پیمانوں میں وہ مزاح کرنے والیوں سے بہتر ہوں۔ اس آیت میں یہ اشارہ ہے کہ دنیا کی ظاہری قدریں اور بھلائیاں اور برتریاں جو بعض مرد یا بعض عورتیں اپنے اندر رکھتے ہیں۔ یہ دراصل حقیقی برتریاں نہیں ہیں جن کے ساتھ اللہ کے ہاں لوگوں کو تولا جاتا ہے۔ اللہ کے ہاں کچھ اور قدریں ہیں اور ہو سکتا ہے کہ مزاح کرنے والوں کی نظروں سے وہ اوجھل ہوں ، صرف اللہ انہیں جانتا ہو اور ان کے ساتھ اللہ ان بندوں کا وزن مقرر کرتا ہو۔ بعض اوقات امراء فقراء سے مزاح کرتے ہیں ، ایک قوی ضعیف سے ، ایک مضبوط نوجوان ایک ضعیف سے ، ایک ذہین ایک غبی سے ، ایک صاحب اولاد بےاولاد سے ، ایک مضبوط یتیم سے ، ایک خوبصورت عورت بدصورت سے ، ایک جوان عورت بوڑھی سے ، ایک معتدل عورت بگڑی ہوئی شکل والی سے ، ایک خوبصورت عورت بد صورت سے ، ایک جوان عورت بوڑھی سے ، ایک معتدل اور عورت بگڑی ہوئی شکل والی سے ، ایک امیر عورت غریب سے ، لیکن یہ چیزیں تو اس عارضی دنیا سے تعلق رکھتی ہیں کیونکہ اللہ کے ترازو میں یہ چیزیں بالکل بےوزن ہیں۔ لیکن قرآن کریم صرف ان ہدایات و اشارات پر ہی اکتفاء نہیں کرتا۔ بلکہ ایمانی اخوت کے جذبہ کو بھی ابھارتا ہے کہ جو لوگ ایمان لے آئے ہیں وہ ایک ہی جسم و جان ہیں ، ان میں سے کوئی دوسرے پر طعن کرتا ہے تو وہ خود اپنے اوپر طعن کرتا ہے۔ ولا تلمزوا انفسکم (٤٩ : ١١) “ اور اپنے ہی نفوس پر طعن نہ کرو ”۔ لمزعیب جوئی کو کہتے ہیں لیکن لمز کے تلفظ میں ایک ترنم اور ایک رنگ ہے۔ یہ معنوی عیب جوئی نہیں بلکہ جسمانی ما رہے اور آنکھوں سے بھی اشارہ ہے۔ لوگوں کو ایسے ناموں سے پکارنا جن کو وہ پسند نہیں کرتے اور ان ناموں کے ساتھ پکارے جانے کو مزاح سمجھتے ہیں۔ اس سے بھی اسلام منع کرتا ہے۔ مومن کا مومن پر یہ حق ہے کہ وہ اسے اس نام سے نہ پکارے جسے وہ پسند نہ کرے یا اسے ہتک سمجھے۔ مومنین کے آداب میں یہ شامل ہے کہ وہ دوسرے مومنین کو ایسے ناموں سے نہ پکاریں ۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جاہلیت کے زمانے کے کئی نام اور لقب بدل دئیے تھے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے تیز احساس سے اور اپنے مہربان دل سے محسوس کیا کہ یہ لوگ ان ناموں کو پسند نہیں کرتے ، جن کے معنی خراب تھے یا جن سے مذمت نکلتی تھی۔ اس آیت نے پہلے تو یہ اشارہ کیا کہ اللہ کے ترازو میں حقیقی وزن کن باتوں کا ہے۔ اس کے بعد اسلامی اخوت کے شعور کو اجاگر کیا بلکہ اسلامی وحدت کے شعور کو جوش دلایا۔ اس کے بعد اب ایمانی شعور کو ابھارا گیا اور مومنین کو ڈرایا گیا کہ تم سے کہیں ایمان شعور گم نہ ہوجائے۔ مزاح ، طعن وتشنیع اور برے ناموں سے ایک دوسرے کو پکارنے سے تم فاسق نہ بن جاؤ۔ بئس الاسم الفسوق بعد الایمان (٤٩ : ١١) “ ایمان لانے کے بعد فسق میں نام پیدا کرنا بہت بری بات ہے ”۔ ان آداب کو ملحوظ نہ رکھنا ایک قسم کا ارتداد ہے اور یہ ظلم ہے اور ظلم شرک ایک ہی چیزہوتے ہیں۔ ومن لم یتب فاولئک ھم الظلمون (٤٩ : ١١) “ اور جو لوگ اس روش سے باز نہ آئیں وہ ظالم ہیں ”۔ یہ ہیں اسلام کے فاضلانہ معاشرے کے آداب و اخلاق اور اس کے خدو خال۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

باہم مل کر زندگی گزارنے کے چند احکام ان آیات میں اہل ایمان کو چند نصیحتیں فرمائیں اولاً تو یہ فرمایا ﴿ لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ ﴾ کہ ایک دوسرے کا مذاق نہ بنائیں اور کوئی کسی کے ساتھ تمسخر نہ کرے چونکہ مردوں کا آپس میں زیادہ ملنا جلنا رہتا ہے، اور عورتوں کا عورتوں سے زیادہ میل جول رہتا ہے اس لیے طرز خطاب یوں اختیار فرمایا کہ مرد مردوں کا مذاق نہ بنائیں اور عورتیں عورتوں کا مذاق نہ بنائیں یہ مطلب نہیں ہے کہ مردوں کو عورتوں کا اور عورتوں کو مردوں کا مذاق اڑانے کی اجازت دی گئی ہے ساتھ یہ بھی فرمایا ہے کہ ہنسی کرنے والوں کو اس کا کیا حق ہے کہ کسی کا مذاق بنائیں اصل بڑائی ایمان اور اعمال صالحہ سے اور اللہ تعالیٰ کے یہاں مقبول ہونے سے ہے کوئی شخص دوسرے آدمی کے اعمال اور باطنی جذبات اخلاص و حسن نیت کو نہیں جانتا اور یہ بھی نہیں جانتا کہ یہ شخص اللہ کے یہاں مقبول ہے یا نہیں ؟ موت کے بعد کون کس سے افضل ہوگا اس کا بھی علم نہیں ہوسکتا ہے یا جس کی مذاق بنائی جا رہی ہے وہ مذاق بنانے والے سے بہتر ہو مردوں میں بھی یہی بات ہے اور عورتوں میں بھی اگر موت کے بعد اپنے اچھے حال کا اور جس کا مذاق بنا رہے ہیں اس کی بدحالی کا یقین ہوجاتا تو تمسخر کرنے کی کوئی وجہ بھی تھی، لیکن جب اپنے ہی بارے میں علم نہیں کہ میرا کیا بنے گا تو دوسرے کا مذاق بنانے کا کیا مقام ہے ؟ کسی کا مذاق بنانے میں ایک تو تکبر ہے کیونکہ مذاق بنانے والا یہ سمجھتا ہے کہ میں ایسا نہیں ہوں جیسا وہ ہے اگر اپنے حالات کا استحضار ہو تو کبھی کسی کی برائی اور غیبت کرنے اور کسی کا مذاق بنانے کی نہ ہمت ہو نہ فرصت ملے، دوسرے کا مذاق بنانے میں ایذاء رسانی بھی ہے اس سے اس کو قلبی تکلیف ہوتی ہے جس کا مذاق بنایا گیا ایذاء دینا حرام ہے۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ تو اپنے بھائی سے جھگڑا نہ کر اور اس سے مذاق نہ کر (جس سے اسے تکلیف پہنچے) اور اس سے کوئی ایسا وعدہ نہ کر جس کی تو خلاف ورزی کرے۔ (مشکوٰۃ المصابیح ٤١٤) خوش طبعی کے طور پر جو آپس میں مذاق کیا جائے جسے عربی میں مزاح کہتے ہیں وہ درست ہے مگر جھوٹ بولنا اس میں بھی جائز نہیں ہے اور اگر مزاح سے کسی کو تکلیف ہوتی ہو وہ بھی جائز نہیں ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کبھی کبھی مزاح فرما لیتے تھے آپ نے فرمایا میں اس موقع پر بھی حق بات ہی کہتا ہوں۔ (مشکوٰۃ المصابیح ٤١٦) یاد رہے کہ یہ ضروری نہیں ہے کہ مذاق بنانا زبان سے ہی ہو، آنکھ سے یا ہاتھ سے یا سر سے اشارہ کرکے کسی کا مذاق بنانا اسے معلوم ہو یا نہ ہو یہ سب حرام ہے سورة الھمزہ میں اس پر تنبیہ فرمائی ہے۔ فقال اللّٰہ تعالیٰ ﴿وَيْلٌ لِّكُلِّ هُمَزَةٍ لُّمَزَةِۙ٠٠١﴾ دوسری نصیحت : یہ فرمایا ﴿ وَ لَا تَلْمِزُوْۤا اَنْفُسَكُمْ ﴾ (اور اپنی جانوں کو عیب نہ لگاؤ) یہ بھی بہت جامع نصیحت ہے کسی کو طعنہ دینا اس کے جسم میں، بول چال میں قد میں عیب ظاہر کرنا زبان سے ہو یا اشارہ سے خط میں لکھ کر یا مضمون شائع كركے لفظوں کے عموم میں یہ سب باتیں آگئیں اگر کسی میں کوئی عیب موجود ہو تب بھی عیب ظاہر کرنے کے طور پر بیان کرنا حرام ہے کسی دراز قد کو لمڈھیک یا لمبو یا پستہ قد کو ٹھگنا بتادیا کسی کے ہلکے پن کی نقل اتاری، جس کی چال میں فرق ہے اسے لنگڑا کہہ دینا نابینا کو اندھا کہہ کر پکارنا سیدھے آدمی کو بدھو کہنا یہ سب عیب لگانے کے زمرے میں آتا ہے، یہ سب اور اس طرح کی جو باتیں عام طور پر رواج پذیر ہیں ان باتوں سے پرہیز کرنا لازم ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواج میں حضرت صفیہ (رض) کا قد چھوٹا تھا حضرت عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ میں نے ایک مرتبہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے کہا کہ صفیہ کا قد بس اتنا سا ہے (اور یہ بطور عیب لگانے کے کہا) آپ نے فرمایا کہ تو نے ایسا کلمہ بولا ہے کہ اگر اسے سمندر میں ملا دیا جائے تو اسے بھی خراب کرکے رکھ دے۔ (مشکوٰۃ المصابیح ٤١٤) یاد رہے کہ (وَلاَ تَلْمِزُوْا غَیْرَكمْ ) نہیں فرمایا بلکہ ﴿ وَ لَا تَلْمِزُوْۤا اَنْفُسَكُمْ ﴾ فرمایا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ سب مسلمان آپس میں ایک ہی ہیں جب کسی کو کچھ کہیں گے تو وہ الٹ کر جواب دے گا اس طرح سے اپنا عمل اپنے ہی کی طرف لوٹ کر آجائے گا دوسرے کو عیب لگانے والا خود اپنی بےآبروئی کا سبب بنے گا۔ تیسری نصیحت : یہ فرمائی ﴿ وَ لَا تَنَابَزُوْا بالْاَلْقَابِ ﴾ (اور نہ ایک دوسرے کو برے لقب سے یاد کرو) ایک دوسرے کو برا لقب دینے اور برے القاب سے یاد کرنے کی ممانعت فرمائی ہے مثلاً کسی مسلمان کو فاسق یا منافق یا کافر کہنا یا اور کسی ایسے لفظ سے یاد کرنا جس سے برائی ظاہر ہوتی ہو اس سے منع فرمایا، کسی کو کتا، یا گدھا یا خنزیر کہنا کسی نو مسلم کو اس کے سابق دین کی طرف منسوب کرنا یعنی یہودی یا نصرانی کہنا یہ سب تنابز بالالقاب میں آتا ہے یہ بھی حرام ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اہلیہ حضرت صفیہ (رض) پہلے یہودی دین پر تھیں ان کا اونٹ مریض ہوگیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی دوسری اہلیہ زینب بنت جحش (رض) سے فرمایا کہ اسے ایک اونٹ دے دو ، انہوں نے کہا کیا میں اس یہودی عورت کو دے دوں ؟ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے اس جواب کی وجہ سے غصہ ہوگئے اور ذی الحج اور محرم اور کچھ ماہ صفر کا حصہ ایسا گزرا کہ آپ نے حضرت زینب (رض) سے تعلقات نہیں رکھے (رواہ ابو داؤد ص ٢٧٦) مسند احمد ٣٣٧، ٣٣٨ ج ٦ میں ہے یہ واقعہ سفر حج کا ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ آیت میں تنابز بالالقاب سے مراد یہ ہے کہ کسی شخص نے کوئی گناہ یا برا عمل کیا ہو اور پھر اس سے تائب ہوگیا اس کے بعد اس کو اس برے عمل کے عنوان سے پکارا جائے مثلاً چور یا زانی یا شرابی وغیرہ کہہ دیا جائے (معالم التنزیل) ایک حدیث میں ارشاد ہے کہ جس نے اپنے مسلمان بھائی کو کسی گناہ کی وجہ سے عیب دار بتایا یعنی عیب لگایا تو یہ شخص اس وقت تک نہیں مرے گا جب تک خود اس گناہ کو نہ کرلے۔ (مشکوٰۃ المصابیح ٤١٤) پھر فرمایا ﴿ بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوْقُ بَعْدَ الْاِيْمَانِ ﴾ (اور ایمان کے بعد گناہ کا نام لگنا برا ہے) اس کا مطلب یہ ہے کہ تم مومن ہو اگر کسی کا مذاق بناؤ گے، عیب لگاؤ گے، برے لقب سے یاد کرو گے تو یہ فسق کا کام ہوگا کہنے والے کہیں کہ دیکھو وہ آدمی فاسق ہے مسلمان ہوکر فسق اور گنہگاری کا کام کرتا ہے اپنی ذات کو برائی سے موصوف اور معروف کرنا بری بات ہے کوئی مومن ہو اور اس کی شہرت گنہگاری کے ساتھ ہو یہ بات اہل ایمان کو زیب نہیں دیتی جب اسلام کو اپنا دین بنالیا اسلام ہی کے کاموں پر چلیں اور صالحین میں شمار ہوں فاسقین کی فہرست میں کیوں شمار ہوں، تفسیر قرطبی میں ﴿ بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوْقُ ﴾ کا ایک معنی یہ لکھا ہے کہ جب کسی شخص نے گناہ کرلیا پھر توبہ کرلی تو اس کو فسق کے نام سے یاد کرنا بری بات ہے اور مثلاً نو مسلم کو کافر بتانا سابق گناہ کی وجہ سے زانی یا سارق یا چور کہنا بری بات ہے یعنی جس کے حق میں یہ بات کہہ رہے ہو اس کو برے لقب سے کیوں یاد کر رہے ہو ؟ اس کی آبرو کے خلاف لقب کیوں دے رہے ہو ؟ چوتھی نصیحت : پھر فرمایا ﴿ وَ مَنْ لَّمْ يَتُبْ فَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ ٠٠١١﴾ (اور جو گناہوں سے توبہ نہ کرے سو یہ لوگ ظلم کرنے والے ہیں) ان کا ظلم ان کی جانوں پر ہے تمام گناہوں سے توبہ کریں عموم حکم ان تینوں گمانوں سے توبہ کرنے کو بھی شامل ہے جن کا آیت بالا میں ذکر گزرا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

10:۔ ” یا ایہا الذین امنوا لایسخر۔ الایۃ “ یہ پانچواں قانون ہے جس میں معاشرت کے کئی آداب ذکر کیے گئے ہیں۔ اول یہ کہ مردوں پر لازم ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائیوں کی تحقیر و توہین نہ کریں اور ان کا مذاق نہ اڑائیں اور نہ ان کے عیوب و نقائص کو اس انداز میں بیان کریں جس سے ان کی تحقیر ہو اور وہ لوگوں کے لیے ہنسی مذاق بن جائیں۔ کیونکہ ہوسکتا ہے کہ جن کا وہ مذاق اڑائیں وہ ایمان و عمل صالح کی وجہ سے خدا کے نزدیک ان سے بہتر ہوں۔ اسی طرح عورتوں کو بھی چاہئے کہ وہ اپنی مسلمان بہنوں کا مذاق نہ اڑائیں ہوسکتا ہے کہ جن کی تحقیر کر رہی ہوں وہ اللہ کے نزدیک ان سے بہت بہتر ہوں۔ اور جو اپنے سے بہتر ہو اس کو حقیر سمجھنا بہ بڑا جرم ہے، بلکہ ایک مسلمان کی یہ شان ہی نہیں۔ دوم ” ولا تلمزوا انفسکم “ انفسکم سے مومنین مراد ہیں گویا تمام مسلمان ایک جان کی مانند ہیں اور جو شخص اپنے مسلمابھائی کو طعنہ دیتا ہے گویا وہ خود اپنی ذات کو طعنہ دے رہا ہے یعنی ایک دوسرے کو طعنے مت دو ۔ اور اگر کسی میں کوئی عیب دیکھو تو اچھے طریقے سے اس کی اصلاح کرو۔ ” لایغتب بعضکم بعضا “ او اشارۃ لان المؤمنین کنفس واحدۃ فمتی عاب المؤمن المؤمن فکانہ عاب نفسہ (روح ج 26 ص 153) ۔ سوم ” ولا تنابزوا بالالقاب “ اپنے بھائیوں کو برے ناموں سے نہ بلاؤ اور نہ ان کے ناموں کو بگاڑو کسی شخص کو ایسے لقب سے پکارنا جسے وہ ناپسند کرتا ہو یا اس کے نام کو بگاڑنا جائز اور حرام ہے۔ والنبز لقب السوء والتلقیب المنھی عنہ ھو مایتداخل المدعو بہ کراھۃ لکونہ تقصیرا بہ وذما لہ واما ما یجبہ فلا باس بہ (مدارک ج 4 ص 130) ۔ وہ لقب بہت ہی برا ہے جس سے ایک مسلمان کو یاد کیا جائے جو ایمان کے بعد قائل کے فسق کا موجب ہو یعنی جس کی وجہ سے کہنے والا فاسق ہوجائے اس لیے مسلمانوں کو اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔ اور جن لوگوں نے ان مذکورہ بالا تینوں افعال مذمومہ سے توبہ نہ کی وہ ظالم اور بےانصاف ہیں اور اپنے آپ کو عذاب خداوندی کا نشانہ بنا رہے ہیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(11) اے ایمان والو ! نہ تو مردوں کی کوئی جماعت دوسرے مردوں کی کسی جماعت سے مذاق کرے کیا عجب ہے کہ جو لوگ مذاق اڑا رہے ہیں اور سخر یہ کررہے ہیں ان سے وہ لوگ بہتر ہوں جن کا مذاق اڑایا جارہا ہے اور جن سے تمسخر کیا جارہا ہے اور نہ عورتوں کو عورتوں پر ہنسنا اور ان سے مذاق کرنا چاہیے یہ ممکن ہے کہ جو عورتیں ہنسی اڑانے والی ہیں ان سے وہ عورتیں بہتر ہوں جن کی ہنسی اڑائی جارہی ہے اور نہ آپس میں ایک دوسرے کو طعنہ دیا کرو اور نہ ایک دوسرے کو برے لقب سے پکارا کرو۔ ایمان لانے کے بعد مسلمان کے لئے فسق کا نام بہت برا ہے اور جو توبہ نہ کریں گے تو وہی لوگ ظلم کرنے والے ہوں۔ مطلب یہ ہے کہ ایسا مذاق اور تمسخر جو کسی کی تحقیر اور دل آزاری کے لئے کیا جائے وہ حرام ہے خواہ مرد کسی مرد کے ساتھ ایسا مذاق کرے یا عورت کے ساتھ ایسا مذاق کرے یا عورت مرد کے ساتھ یا مرد عورت کے ساتھ تحقیر آمیز مذاق کرے تو وہ ناجائز ہوگا باقی جس میں دوسرے کی تحقیر اور دل آزاری نہ ہو وہ مزاح اور خوش طبعی ہے اس میں مضائقہ نہیں اور مزاح جائز ہے۔ یہاں جو رجال اور نساء فرمایا ہے اس سے محض جنس مراد ہے جیسا کہ ہم نے عرض کردیا ہے یہاں یہ بحث شاید غیر ضروری ہوگی کہ قوم کا اطلاق صرف مردوں پر ہوا کرتا ہے عورتیں قوم کے لفظ میں داخل نہیں ہوتیں اور اگر ہوتی ہیں تو تبعاً مداخل ہوتی ہیں۔ اور یہ جو فرمایا کہ شاید وہ تم سے بہتر ہوں یعنی اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ شخص بہتر ہو جس کی تم تحقیر اور دل آزاری کررہے ہو یعنی اس کا خاتمہ ایمان پر مقدمہ ہو اور وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک تم سے زیادہ مقبول ہو ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کا یہ قول مشہور ہے۔ ابلاء موکل بالقول لو سخرت من کل لخشیت ان احول کلبا۔ یعنی ہر قسم کی بلا قول پر سونپی گئی ہے اکثر بلائیں زبان کی بدولت نازل ہوتی ہیں میں تو کسی کتے سے بھی مذاق نہیں کرتا اگر کتے سے بھی تحقیر آمیز مذاق کروں تو ڈرتا ہوں کہ کہیں میں کتا نہ بنادیاجائوں۔ بہرحال وہ شخص جو اپنی حقارت سے اور ذلت پر نظر رکھتا ہے وہ ہمیشہ دوسرے آدمی کو ذلیل کرنے سے احتیاط کرتا ہے۔ تلمزدا کو میم کے زیر سے اور میم کے پیش سے دونوں طرح کی قرات ہے خواہ کسی طرح پڑھیے۔ مطلب یہ ہے کہ کسی پر طعن نہ کرو اور عیب نہ لگائو۔ بعض حضرات نے فرمایا کہ ایسا کوئی فعل اختیار نہ کرو جس کی وجہ سے تم کو طعن کیا جائے۔ تنابزوا بالالقاب کا مطلب یہ کہ کسی کو برے لقب سے پکارنا جو کسی کو ناگوار گزرے یعنی ایسے لقب سے نہ پکارو جو اس کی دل آزاری کا موجب ہو جیسے کسی شخص کی کوئی چڑ بنالیتے ہیں اور پھر اس چڑ سے اس کو پکارتے ہیں۔ اور وہ ایک مومن کی ناگواری کا سبب ہوتا ہے ہاں اگر کوئی ایسا نام لیاجائے اور ایسا لقب دیا جائے جو ناگوار نہ ہو تو مضائقہ نہیں جیسا کہ بعض لوگ کسی لقب سے خوش ہوتے ہیں۔ آخر فرمایا کہ ایمان کے بعد تو مسلمان کے لئے سب سے برا نام فسق کا ہے یعنی کسی مسلمان کو یافاسق کہہ کر پکارنا جیسے بعض لوگ ان مسلمانوں کو جو یہودی سے مسلمان ہوئے تھے یا یہودی کہہ کر پکارتے تھے تو سب سے برا لقب تو ایمان لانے کے بعدفسق کا لقب ہے اس میں سب گناہ داخل ہوگئے مثلا ً کسی کو یافاسق یا زانی، یا سارق کہنا سب داخل ہوگئے۔ اور یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ دوسروں کو برا لقب دینے سے پہلے یہ تو دیکھو کہ تم ایک گناہ کرنے سے فاسق ہوجاتے ہو جو ایمان کے بعد بہت ہی برا لقب ہے یعنی دوسرے کو برا لقب دینے سے اپنا لقب فاسق ہوجاتا ہے اس لئے ایسے امور سے اجتناب کرنا چاہیے جس میں اپنا لقب فاسق ہوجائے اور جو شخص ان حرکات ناشائستہ اور ممنوعہ سے باز نہ آئے گا اور توبہ نہ کرے گا تو ایسے ہی لوگ ظالم اور ناانصاف ہوں گے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں جہاں کسی پر برانام ڈالا پہلے تو اپنا نام پڑگیا فاسق آگے تھا مومن اس پر عیب لگایا نہ لگا۔ خلاصہ : یہ کہ ایسے افعال سے بچنا چاہیے جو کسی مسلمان کی دل آزاری اور ناگواری کا موجب ہو اور بات بڑھ کر فتنہ و فساد اور قتل و قتال کی نوبت آئے اور خود فاسق قرارپائے انسان اگر اپنے آپ کو خود حقیر سمجھے تو دوسروں پر عیب لگانے کی جرات نہ کرے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یہ دعا مشہور ہے۔ اللھم اجعلنی صبورا واجعلنی شکورا وجعلنی فی عینی صغیرا وفی اعین الناس کبیرا۔ یعنی اللہ مجھ کو صبر کرنے والا اور شکر کرنے والا بنادے اور مجھے کو اپنی آنکھوں میں چھوٹا اور دوسروں کی آنکھوں میں بڑا بنادے یعنی جب میں خود اپنے پر نظرکروں تو اپنے کو چھوٹا سمجھوں اور دوسرے جب مجھ کو دیکھیں تو بڑا سمجھیں۔