Surat ul Hujraat

Surah: 49

Verse: 13

سورة الحجرات

یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقۡنٰکُمۡ مِّنۡ ذَکَرٍ وَّ اُنۡثٰی وَ جَعَلۡنٰکُمۡ شُعُوۡبًا وَّ قَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوۡا ؕ اِنَّ اَکۡرَمَکُمۡ عِنۡدَ اللّٰہِ اَتۡقٰکُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیۡمٌ خَبِیۡرٌ ﴿۱۳﴾

O mankind, indeed We have created you from male and female and made you peoples and tribes that you may know one another. Indeed, the most noble of you in the sight of Allah is the most righteous of you. Indeed, Allah is Knowing and Acquainted.

اے لوگو! ہم نے تم سب کو ایک ( ہی ) مرد و عورت سے پیدا کیا ہے اور اس لئے کہ تم آپس میں ایک دوسرے کو پہچانو کنبے قبیلے بنا دیئے ہیں ، اللہ کے نزدیک تم سب میں سے با عزت وہ ہے جو سب سے زیادہ ڈرنے والا ہے یقین مانو کہ اللہ دانا اور باخبر ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

All of Mankind are the Children of `Adam and Hawwa' Allah the Exalted declares to mankind that He has created them all from a single person, Adam, and from that person He created his mate, Hawwa. From their offspring He made nations, comprised of tribe, which include sub tribes of all sizes. It was also said that `nations refers to non-Arabs, while `tribes refers to Arabs. Various statements about this were collected in an individual introduction from the book, Al-Inbah, by Abu Amr Ibn Abdul-Barr, and from the book, Al-Qasad wal-Amam fi Ma`rifah Ansab Al-Arab wal-`Ajam. Therefore, all people are the descendants of Adam and Hawwa' and share this honor equally. The only difference between them is in the religion that revolves around their obedience to Allah the Exalted and their following of His Messenger. After He forbade backbiting and belittling other people, alerting mankind that they are all equal in their humanity. Allah said, يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن ذَكَرٍ وَأُنثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَايِلَ لِتَعَارَفُوا ... O mankind! We have created you from a male and a female, and made you into nations and tribes that you may know one another. so that they get to know each other by their nation or tribe. Mujahid said that Allah's statement, لِتَعَارَفُوا (that you may know one another), refers to one's saying, "So-and-so the son of so-and-so, from the tribe of so-and-so." Sufyan Ath-Thawri said, "The Himyar (who resided in Yemen) dealt with each other according to their provinces, while the Arabs in the Hijaz (Western Arabia) dealt with each other according to their tribes." Honor is earned through Taqwa of Allah Allah the Exalted said, ... إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ ... Verily, the most honorable of you with Allah is that (believer) who has At-Taqwa. meaning, `you earn honor with Allah the Exalted on account of Taqwa, not family lineage.' There are many Hadiths from the Prophet that support this meaning. Al-Bukhari narrated that Abu Hurayrah said, "Some people asked the Prophet, `Who is the most honorable among people?' He replied, أَكْرَمُهُمْ عِنْدَ اللهِ أَتْقَاهُم The most honorable among them with Allah is the one who has the most Taqwa. They said, `We did not ask you about this.' He said, فَأَكْرَمُ النَّاسِ يُوسُفُ نَبِيُّ اللهِ ابْنُ نَبِيِّ اللهِ ابْنِ نَبِيِّ اللهِ ابْنِ خَلِيلِ الله Then the most honorable person is Yusuf, Allah's Prophet, the son of Allah's Prophet, the son of Allah's Prophet, the son of Allah's Khalil. They said, `We did not ask you about this.' He said, فَعَنْ مَعَادِنِ الْعَرَبِ تَسْأَلُونِّي Then you want to ask me about the Arab lineage? They said, `Yes.' He said, فَخِيَارُكُمْ فِي الْجَاهِلِيَّةِ خِيَارُكُمْ فِي الاِْسْلَمِ إِذَا فَقُهُوا Those among you who were best in Jahiliyyah, are the best among you in Islam, if they attain religious understanding." Al-Bukhari collected this Hadith in several places of his Sahih, An-Nasa'i did as well in the Tafsir section of his Sunan. Muslim recorded that Abu Hurayrah said that the Messenger of Allah said, إِنَّ اللهَ لاَ يَنْظُرُ إِلَى صُوَرِكُمْ وَأَمْوَالِكُمْ وَلكِنْ يَنْظُرُ إِلَى قُلُوبِكُمْ وَأَعْمَالِكُم Verily, Allah does not look at your shapes or wealth, but he looks at your hearts and actions. Ibn Majah also collected this Hadith. Ibn Abi Hatim recorded that Abdullah bin Umar said, "On the day Makkah was conquered, the Messenger of Allah performed Tawaf around the Ka`bah while riding his camel, Al-Qaswa', and was touching the corners with a stick he had in his hand. He did not find a place in the Masjid where his camel could sit and had to dismount on men's hands. He led his camel to the bottom of the valley, where he had her sit down. The Messenger of Allah later gave a speech while riding Al-Qaswa' and said, after thanking Allah the Exalted and praising Him as He should be praised, يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ اللهَ تَعَالَى قَدْ أَذْهَبَ عَنْكُمْ عُبِّيَّةَ الْجَاهِلِيَّةِ وَتَعَظُّمَهَا بِأبَايِهَا فَالنَّاسُ رَجُلَانِ رَجُلٌ بَرٌّ تَقِيٌّ كَرِيمٌ عَلَى اللهِ تَعَالَى وَرَجُلٌ فَاجِرٌ شَقِيٌّ هَيِّنٌ عَلَى اللهِ تَعَالَى إِنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ يَقُولُ O people! Allah the Exalted has removed from you the slogans of Jahiliyyah and its tradition of honoring forefathers. Men are of two types, a man who is righteous, fearful of Allah and honorable to Allah, or a man who is vicious, miserable and little to Allah the Exalted. Verily, Allah the Exalted and Most Honored said, يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن ذَكَرٍ وَأُنثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَايِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ (O mankind! We have created you from a male and a female, and made you into nations and tribes, that you may know one another. Verily, the most honorable of you with Allah is that (believer) who has At-Taqwa. Verily, Allah is All-Knowing, All-Aware.) The Prophet said, أَقُولُ قَوْلِي هذَا وَأَسْتَغْفِرُ اللهَ لِي وَلَكُم I say this and invoke Allah for forgiveness for me and for you." This was recorded by `Abd bin Humayd. Allah the Exalted said, ... إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ Verily, Allah is All-Knowing, All-Aware. means, `He is All-Knowing of you and All-Aware of all of your affairs.' Allah guides whom He wills, misguides whom He wills, grants mercy to whom He wills, torments whom He wills, elevates whom He wills above whom He wills. He is the All-Wise, the All-Knowing, the All-Aware in all this. Several scholars relied on this honorable Ayah and the honorable Hadiths we mentioned as evidence that compatibility in marriage is not a condition of marriage contracts. They said that the only condition required in this regard is the adherence to the religion, as in the statement of Allah, the Exalted, إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ (Verily, the most honorable of you with Allah is the one with the most Taqwa).

نسل انسانی کا نکتہ آغاز اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ اس نے تمام انسانوں کو ایک ہی نفس سے پیدا کیا ہے یعنی حضرت آدم سے ان ہی سے ان کی بیوی صاحبہ حضرت حوا کو پیدا کیا تھا اور پھر ان دونوں سے نسل انسانی پھیلی ۔ شعوب قبائل سے عام ہے مثال کے طور پر عرب تو شعوب میں داخل ہے پھر قریش غیر قریش پھر ان کی تقسیم میں یہ سب قبائل داخل ہے بعض کہتے ہیں شعوب سے مراد عجمی لوگ اور قبائل سے مراد عرب جماعتیں ۔ جیسے کہ بنی اسرائیل کو اسباط کہا گیا ہے میں نے ان تمام باتوں کو ایک علیحدہ مقدمہ میں لکھ دیا ہے جسے میں نے ابو عمر بن عبداللہ کی کتاب الانباہ اور کتاب القصد والامم فی معرفۃ انساب العرب والعجم سے جمع کیا ہے مقصد اس آیت مبارکہ کا یہ ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام جو مٹی سے پیدا ہوئے تھے ان کی طرف سے نسبت میں توکل جہان کے آدمی ہم مرتبہ ہیں اب جو کچھ فضیلت جس کسی کو حاصل ہو گی وہ امر دینی اطاعت اللہ اور اتباع نبوی کی وجہ سے ہو گی یہی راز ہے جو اس آیت کو غیبت کی ممانعت اور ایک دوسرے کی توہین و تذلیل سے روکنے کے بعد وارد کی کہ سب لوگ اپنی پیدائشی نسبت کے لحاظ سے بالکل یکساں ہیں کنبے قبیلے برادریاں اور جماعتیں صرف پہچان کے لئے ہیں تاکہ جتھا بندی اور ہمدردی قائم رہے ۔ فلاں بن فلاں قبیلے والا کہا جاسکے اور اس طرح ایک دوسرے کی پہچان آسان ہو جائے ورنہ بشریت کے اعتبار سے سب قومیں یکساں ہیں حضرت سفیان ثوری فرماتے ہیں قبیلہ حمیر اپنے حلفیوں کی طرف منسوب ہوتا تھا اور حجازی عرب اپنے قبیلوں کی طرف اپنی نسبت کرتے تھے ترمذی میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں نسب کا علم حاصل کرو تاکہ صلہ رحمی کر سکو صلہ رحمی سے لوگ تم سے محبت کرنے لگیں گے تمہارے مال اور تمہاری زندگی میں اللہ برکت دے گا ۔ یہ حدیث اس سند سے غریب ہے پھر فرمایا حسب نسب اللہ کے ہاں نہیں چلتا وہاں تو فضیلت ، تقویٰ اور پرہیز گاری سے ملتی ہے ۔ صحیح بخاری شریف میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ سب سے زیادہ بزرگ کون ہے ؟ آپ نے فرمایا جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہو لوگوں نے کہا ہم یہ عام بات نہیں پوچھتے فرمایا پھر سب سے زیادہ بزرگ حضرت یوسف علیہ السلام ہیں جو خود نبی تھے نبی ذادے تھے دادا بھی نبی تھے پردادا تو خلیل اللہ تھے انہوں نے کہا ہم یہ بھی نہیں پوچھتے ۔ فرمایا پھر عرب کے بارے میں پوچھتے ہو ؟ سنو ! ان کے جو لوگ جاہلیت کے زمانے میں ممتاز تھے وہی اب اسلام میں بھی پسندیدہ ہیں جب کہ وہ علم دین کی سمجھ حاصل کرلیں صحیح مسلم شریف میں ہے اللہ تمہاری صورتوں اور مالوں کو نہیں دیکھتا بلکہ تمہارے دلوں اور عملوں کو دیکھتا ہے مسند احمد میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو ذر سے فرمایا خیال رکھ کہ تو کسی سرخ و سیاہ پر کوئی فضیلت نہیں رکھتا ہاں تقویٰ میں بڑھ جا تو فضیلت ہے ۔ طبرانی میں ہے مسلمان سب آپس میں بھائی ہیں کسی کو کسی پر کوئی فضیلت نہیں مگر تقویٰ کے ساتھ ۔ مسند بزار میں ہے تم سب اولاد آدم ہو اور خود حضرت آدم مٹی سے پیدا کئے گئے ہیں لوگو اپنے باپ دادوں کے نام پر فخر کرنے سے باز آؤ ورنہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ریت کے تودوں اور آبی پرندوں سے بھی زیادہ ہلکے ہو جاؤ گے ۔ ابن ابی حاتم میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ والے دن اپنی اونٹنی قصوا پر سوار ہو کر طواف کیا اور ارکان کو آپ اپنی چھڑی سے چھو لیتے تھے ۔ پھر چونکہ مسجد میں اس کے بٹھانے کو جگہ نہ ملی تو لوگوں نے آپ کو ہاتھوں ہاتھ اتارا اور انٹنی بطن مسیل میں لے جا کر بٹھایا ۔ اس کے بعد آپ نے اپنی اونٹنی پر سوار ہو کر لوگوں کو خطبہ سنایا جس میں اللہ تعالیٰ کی پوری حمدو ثنا بیان کر کے فرمایا لوگو اللہ تعالیٰ نے تم سے جاہلیت کے اسباب اور جاہلیت کے باپ دادوں پر فخر کرنے کی رسم اب دور کر دی ہے پس انسان دو ہی قسم کے ہیں یا تو نیک پرہیزگار جو اللہ کے نزدیک بلند مرتبہ ہیں یا بدکار غیر متقی جو اللہ کی نگاہوں میں ذلیل و خوار ہیں پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی ۔ پھر فرمایا میں اپنی یہ بات کہتا ہوں اور اللہ تعالیٰ سے اپنے لئے اور تمہارے لئے استغفار کرتا ہوں ۔ مسند احمد میں ہے کہ تمہارے نسب نامے دراصل کوئی کام دینے والے نہیں تم سب بالکل برابر کے حضرت آدم کے لڑکے ہو کسی کو کسی پر فضیلت نہیں ہاں فضیلت دین و تقویٰ سے ہے انسان کو یہی برائی کافی ہے کہ وہ بدگو ، بخیل ، اور فحش کلام ہو ۔ ابن جریر کی اس روایت میں ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے حسب نسب کو قیامت کے دن نہ پوچھے گا تم سب میں سے زیادہ بزرگ اللہ کے نزدیک وہ ہیں جو تم سب سے زیادہ پرہیزگار ہوں ۔ مسند احمد میں ہے کہ حضور علیہ السلام منبر پر تھے کہ ایک شخص نے سوال کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے بہتر کون ہے ؟ آپ نے فرمایا جو سب سے زیادہ مہمان نواز سب سے زیادہ پرہیزگار سب سے زیادہ اچھی بات کا حکم دینے والا سب سے زیادہ بری بات سے روکنے والا سب سے زیادہ صلہ رحمی کرنے والا ہے ۔ مسند احمد میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا کی کوئی چیز یا کوئی شخص کبھی بھلا نہیں لگتا تھا مگر تقوے والے انسان کے اللہ تمہیں جانتا ہے اور تمہارے کاموں سے بھی خبردار ہے ہدایت کے لائق جو ہیں انہیں راہ راست دکھاتا ہے اور جو اس لائق نہیں وہ بےراہ ہو رہے ہیں ۔ رحم اور عذاب اس کی مشیت پر موقوف ہیں فضیلت اس کے ہاتھ ہے جسے چاہے جس پر چاہے بزرگی عطا فرمائے یہ تمام امور اس کے علم اور اس کی خبر پر مبنی ہیں ۔ اس آیت کریمہ اور ان احادیث شریفہ سے استدلال کر کے علماء نے فرمایا ہے کہ نکاح میں قومیت اور حسب نسب کی شرط نہیں سوائے دین کے اور کوئی شرط معتبر نہیں ۔ دوسروں نے کہا ہے کہ ہم نسبی اور قومیت بھی شرط ہے اور ان کے دلائل ان کے سوا اور ہیں جو کتب فقہ میں مذکور ہیں اور ہم بھی انہیں کتاب الاحکام میں ذکر کر چکے ہیں فالحمد اللہ ۔ طبرانی میں حضرت عبدالرحمن سے مروی ہے کہ انہوں نے بنو ہاشم میں سے ایک شخص کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہ نسبت اور تمام لوگوں کے بہت زیادہ قریب ہوں پس فرمایا تیرے سوا میں بھی بہت زیادہ قریب ہوں ان سے بہ نسبت تیرے جو تجھے آپ سے نسبت ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

13۔ 1 یعنی آدم وحوا (علیہما السلام) سے یعنی تم سب کی اصل ایک ہی ہے ایک ہی مان باپ کی اولاد ہو مطلب ہے کسی کو محض خاندان اور نسب کی بنا پر فخر کرنے کا حق نہیں ہے کیونکہ سب کا نسب حضرت آدم (علیہ السلام) سے ہی جا کر ملتا ہے۔ 13۔ 2 شعوب شعب کی جمع ہے برادری یا بڑا قبیلہ شعب کے بعد قبیلہ پھر عمارہ پھر بطن پھر فصیلہ اور پھر عشیرہ ہے (فتح القدیر) مطلب یہ ہے کہ مختلف خاندانوں برادریوں اور قبیلوں کی تقسیم محض تعارف کے لیے ہے تاکہ آپس میں صلہ رحمی کرسکو اس کا مقصد ایک دوسرے پر برتری کا اظہار نہیں ہے جیسا کہ بدقسمتی سے حسب ونسب کو برتری کی بنیاد بنا لیا گیا ہے حالانکہ اسلام نے آ کر اسے مٹایا تھا اور اسے جاہلیت سے تعبیر کیا تھا۔ 13۔ 3 یعنی اللہ کے ہاں برتری کا معیار خاندان قبیلہ اور نسل ونسب نہیں ہے جو کسی انسان کے اختیار میں ہی نہیں ہے۔ بلکہ یہ معیار تقوی ہے جس کا اختیار کرنا انسان کے ارادہ اختیار میں ہے یہی آیت ان علماء کی دلیل ہے جو نکاح میں کفائت نسب کو ضروری نہیں سمجھتے اور صرف دین کی بنیاد پر نکاح کو پسند کرتے ہیں۔ ابن کثیر۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٢] اقوام کی لڑائی جھگڑوں کی بنیاد اور ان کا سد باب :۔ موجودہ دور میں قوم، وطن، نسل، رنگ اور زبان یہ پانچ خدا یا معبود بنا لئے گئے ہیں۔ انہی میں سے کسی کو بنیاد قرار دے کر پوری انسانیت کو کئی گروہوں میں تقسیم کردیا گیا ہے۔ جو آپس میں ہر وقت متحارب اور ایک دوسرے سے لڑتے مرتے رہتے ہیں۔ کسی کو قومیت پر ناز ہے کہ وہ مثلاً جرمن یا انگریز قوم سے تعلق رکھتے ہیں۔ کوئی سفید رنگ کی نسل ہونے پر فخر کرتا ہے۔ کوئی سید اور فاروقی یا صدیقی ہونے پر ناز کرتا ہے۔ گویا ان چیزوں کو تفاخر و تنافر کا ذریعہ بنادیا گیا ہے۔ حالانکہ سب انسان ہی آدم و حوا کی اولاد ہیں۔ یہ آیت ایسے معبودوں یا بالفاظ دیگر فتنہ و فساد اور لامتناہی جنگوں کی بنیاد کو جڑ سے اکھاڑ پھینکتی ہے۔ خ برتری کی بنیاد صرف تقویٰ ہے :۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم نے تو تمہارے قبیلے اور قومیں اس لئے بنائے تھے کہ تم ایک دوسرے سے الگ الگ پہنچانے جاسکو، مثلاً دو شخصوں کا نام زید ہے اور دونوں کے باپ کا نام بکر ہے۔ تو الگ الگ قبیلہ یا برادری سے متعلق ہونے کی وجہ سے ان میں امتیاز ہوجائے، لیکن تم نے یہ کیا ظلم ڈھایا کہ ان چیزوں کو تفاخر و تنافر کا ذریعہ بنالیا۔ کوئی نسل کی بنیاد پر شریف اور اعلیٰ درجہ کا انسان بن بیٹھا اور دوسروں کو حقیر، کمینہ اور ذلیل سمجھنے لگا تو کوئی قوم اور وطن یا رنگ اور زبان کی بنیاد پر بڑا بن بیٹھا ہے۔ ان سب چیزوں کے بجائے اللہ تعالیٰ نے عزوشرف کا معیار تقویٰ قرار دیا۔ یعنی جتنا کوئی شخص گناہوں سے بچنے والا اور اللہ سے ڈرنے والا ہوگا۔ اتنا ہی وہ اللہ کے نزدیک معزز و محترم ہوگا۔ اسی مضمون کو رسول اللہ نے اپنے خطبہ حجۃ الوداع میں، جو نہایت اہم دستوری دفعات پر مشتمل تھا، یوں بیان فرمایا کہ کسی گورے کو کالے پر اور کسی کالے کو گورے پر، کسی عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت نہیں۔ فضیلت کی بنیاد صرف تقویٰ ہے۔ کیونکہ تم سبھی آدم کی اولاد ہو اور آدم مٹی سے پیدا کئے گئے تھے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) یایھا الناس انا خلقنکم من ذکر و انثی : پچھلی آیت میں جن چھ گناہوں سے منع فرمایا ان کا بنیادی سبب اپنے آپ کو اونچا اور دوسروں کو نیچا سمجھنا ہے۔ جاہلیت میں اپنے قبیلے کی خوبیوں پر فخر اور دوسروں کو حقیر سمجھنے کی بیماری عام تھی۔ اس کی وجہ سے ہر قبیلے کے شاعر اور خطیب اپنے قبیلے کی برتری ثابت کرنے کے لئے دوسرے قبیلے کو استہزاء تمسخر اور طعن و تشنیع کا نشانہ بناتے ، اس کے لئے وہ ان کے عیب تلاش کرتے، جاسوسی کرتے، غیبت، بہتان اور ہجو کا بازار گرم رکھتے تھے، حتیٰ کہ انہوں نے کئی قبیلوں کو بالکل ہی لوگوں کی نگاہوں سے گرا دیا۔ دنیا میں اپنی برتری پر فخر کا باعث کسی خاص قبیلے یا قوم میں پیدا ہونا ہی نہیں رہا، اس کے علاوہ بھی کئی چیزوں کو اپنے لئے باعث فخر اور دوسروں پر برتری کی دلیل قرار دیا گیا۔ چناچہ رنگ و نسل، وطن اور زبان کی بنا پر نوع انسان تقسیم ہوئی اور ہر طبقے نے اپنے آپ کو دوسروں سے برتر اور دوسروں کو حقیر قرار دیا، جس کے نتیجے میں بیشمار جنگیں ہوئیں اور لاکھوں کروڑوں لوگ ہلاک یا زخمی ہوئے۔ وطن سے بےوطن ہوئے، غربت، بیماری اور بےآبروئی کا نشانہ بنے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے پانچ آیات میں ” یایھا الذین امنوا “ کے ساتھ خطاب کے بعد یہاں تمام انسانوں کو مخاطب کر کے فرمایا ” یایھا الناس “ کہ اے لوگو ! ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت (آدم و حوا علیہما السلام) سے پیدا کیا ہے، اس لئے انسان ہونے میں تم سب برابر ہ۔ کسی خاص قوم، قبیلے یا ملک میں پیدا ہونے کی وجہ سے، یا کسی رنگ یا زبان کی وجہ سے کسی کو کسی پر کوئی برتری حاصل نہیں، کیونکہ اصل سب کی ایک ہے۔ پھر کسی قوم، ملک یا قیبلے میں پیدا ہونے یا کسی رنگ یا زبان والاہونے میں کسی کا اپنا کوئی دخل یا اختیار نہیں، یہ سب کچھ صرف اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ اس لئے ان میں سے کوئی چیز اللہ تعالیٰ کی نعمت یا عطیہ تو ہوسکتی ہے، جس پر اسے اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے ، مگر دوسروں پر برتری کا باعث نہیں ہوسکتی، کیونکہ برتری اس چیز میں کامیابی کی بدولت حاصل ہوتی ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے اسے اختیار دے کر دنیا میں بھیجا ہے اور وہ ہے اللہ کا تقویٰ ۔ اس لئے سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے ہاں عزت والا ہے اور اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ تقویٰ والا ہے۔ اس کے بغیر کسی عربی کو عجمی پر یا گورے کو کالے پر یا آزاد کو غلام پر کوئی برتری حاصل نہیں۔ ہاں تقویٰ کے ساتھ فضیلت کی کوئی اور جہ بھی جمع ہوجائے تو اسے برتری حاصل ہوگی، جیسے کسی کو متقی ہونے کیساتھ قریشی یا ہاشمی ہونے کا شرف بھی حاصل ہو، یا ایسی قوم کا فرد ہونے کا جو شجاعت یا ذہانت یا کسی اور خبوی میں معروف ہیں۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے دو آدمی قرآن کی قرأت میں برابر ہوں تو امامت کے وقت ان میں سے بڑی عمر والے کو جوان پر مقدم کیا جائے گا۔ (٢) وجعلنکم شعوباً و قبآئل :” شعوباً “ ” شعب “ (شین کے فتحہ کے ستاھ) کی جمع ہے، بہت بڑا قبیلہ ، جیسے ربیعہ مضر، اوس اور خزرج وغیرہ ۔ یہ ان چھ طبقوں میں سب سے پہلا طبقہ ہے جن میں عرب تقسیم ہوتے ہیں۔ وہ چھ طبقے یہ ہیں۔ (١) شعب (٢) قبیلہ (٣) عمارہ (٤) بطن (٥) فخذ (٦) فصیلہ۔ شعب میں کئی قبائل ہوتے ہیں، قبیلہ میں کئی عمائر، عمارہ میں کئی بطون، بطن میں کئی افخاذ، اور فخذ میں کئی فصائل ہوتے ہیں۔ چناچہ عرب میں خزیمہ شعب، کنانہ قبیلہ، قریش عمارہ، قصی بطن، ہاشم فخذ اور عباس فصلیہ ہیں۔ بعض اوقات ان میں سے ایک لفظ دوسرے کی جگہ بھی استعمال کرلیا جاتا ہے۔ شعب کا معنی شاخ ہے، اسے شعب اس لئے کہا جاتا ہے کہ ان سے قبائل کی شاخیں نلکتی ہیں۔ قرآن مجید میں ان چھ طبقوں میں سے تین کا ذکر آیا ہے، دو کا اس آیت میں اور ایک کا سورة معارج میں، فرمایا :(وفصیلتہ التی تسویہ) (المعارج : ١٣)” اور اپنے خاندان کو جو اسے جگہ دیا کرتا تھا۔ “ (قرطبی و شنقیطی) (٣) لتعارفوا : یعنی قوموں، قبیلوں یا خاندانوں میں تقسیم کا مطلب کسی کی برتری نہیں، بلکہ ہم نے یہ تقسیم تمہاری ایک دوسرے سے پہچان کے لئے بنائی ہے۔ مثلاً عبداللہ نا مکہ کئی آدمی ہیں، ان میں سے ایک کی تعیین قریشی، اس کے بعد ہاشمی اور اس کے بعد عباسیکے ساتھ ہوسکتی ہے۔ اس پہچان ہی کے ذریعے سے آدمی اپنی رشتہ داری سے آگاہ ہوتا ہے اور رشتہ داروں کے حقوق ادا کرتا اور صلہ رحمی کرتا ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(تعلموا من انسابکم ماتصلون بہ ارحامکم ، فان صلہ الرحیم مجۃ فی الاھل مثراۃ فی المال ، منساہ “ فی الائر) (ترمذی، البروالصلہۃ باب ماجاء فی تعلیم النسب :1989 ء عن ابی ہریرہ (رض) وقال الالبانی صحیح) (” اپنے نسب سیکھو، جن کے ذریعے سے تم اپنی رشتہ داریاں ملاؤ ، کیونکہ رشتہ داری کو ملانا رشتہ داروں میں محبت، خ مال میں ثروت اور زندگی میں اضافے کا باعث ہے۔ “ (٤) ان اکرمکم عند اللہ ا تقکم : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(ان اللہ قد اذھب عنکم عیبۃ الجاھلیۃ وفخر ھا بالاباء مومن تقی وفاجر شقی انتم بنو آدم و آدم من تراب لیدعن رجال فخرھم ب اقوام انما ھم فحم من فحم جھنم، اولیکونن اھون علی اللہ من الجعلان التی تدفع بانفھا النن) (ابو داؤد، الادب، باب فی التفاخر بالاحساب :5116، عن ابی ھریۃ (رض) وقال الالبانی صحیح)” اللہ تعالیٰ نے تم سے جاہلیت کی نخوت اور اس کے آباؤ اجداد پر فخر کو ختم کردیا ہے۔ (آدمی دو ہی قسم کے ہیں) متوقی مومن ہے یا بدبخت فاجر۔ تم سب آدم کی اولاد ہو اور آدم مٹی سے تھے۔ کچھ آدمی ایسے لوگوں پر اپنا فخر ترک کردیں گے جو جہنم کے کوئلوں میں سے محض ایک کوئلہ ہیں، یا پھر وہ (فخر کرنے والے) اللہ تعالیٰ کے سامنے پاخانے کے کیڑوں سے بھی زیادہ ذلیل ہوں گے، جو گندگی کو اپنی ناک کے ساتھ دھکیلتے رہتے ہیں۔ “ ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا گیا :(ای الناس اکرم ؟ )” لوگوں میں سب سے عزت والا کون ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(اکرمھم عند اللہ اتقاھم)” ان میں سب سے زیادہ عزت والا اللہ کے نزدیک وہ فرمایا :(فاکرم الناس یوسف نبی اللہ ابن نبی اللہ ابن نبی اللہ ابن خلیل اللہ)” تو سب سے زیادہ عزت والے یوسف (علیہ السلام) ہیں جو اللہ کے نبی ہیں، نبی کے بیٹے ہیں، دادا بھی نبی ہے اور پردادا اللہ کا خلیل ہے۔ “ انہوں نے کہا :” ہم آپ سے اس کے متعلق بھی نہیں پوچھ رہے۔ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(فعن معادن العرب تسالونی ؟ )” تو پھر تم مجھ سے عرب کے خاندانوں کے متعلق پوچھ رہے ہو ؟ ‘ ‘ انہوں نے کہا :” جی ہاں ! “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(فخیار کم فی الجھلیۃ خیرکم فی الاسلام اذا فقھوا) (بخاری، التفسیر، باب قولہ :(لقد کان فی یوسف واخوتہ…): ٧٢٨٩)” تو جاہلیت میں جو تم میں سب سے بہتر تھے وہی اسلام میں تم سب سے بہتر ہیں، جب وہ (دین کی) سمجھ حاصل کرلیں۔ “ ابو نضرہ کہتے ہیں کہ مجھے اس صحابی نے بیان کیا جس نے ایام تشریق کے درمیان والے دن میں رسول اللہ ں کا خطبہ سنا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(یا ایھا الناس ! الا ان ربکم واحد، وان اباکم واحد، الا لافضل لعربی علی اعجمی، ولا لعجمی علی عربی ، ولا لاحمر علی اسود، ولا اسود علی احمر الا بالتقویٰ ) (مسند احمد : ٥/٧١١، ح : ٢٣٣٨٩، قال شعیب الارنوط اسنادہ صحیح)” اے لوگو ! سن لو ! تمہارا رب ایک ہے اور تمہارا باپ ایک ہے۔ سن لو ! نہ کسی عربی کو کسی عجمی پر کوئی برتری حاصل ہے اور نہ کسی عجمی کو کسی عربی پر، نہ کسی سرخ کو کسی کالے پر اور نہ کسی کالے کو کسی سرخ پر ، مگر تقویٰ کی بنا پر۔ “ ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(ان اللہ لاینظر الی صورکم واموالکم ولکن ینظر الی قلوبکم واعمالکم) (مسلم البر والصلۃ، باب تحریم ظلم المسلم…: ٣٣/٢٥٦٣)” اللہ تعالیٰ تمہاری صورتوں اور تمہاری مالوں کو نہیں دیکھتا، بلکہ وہ تمہارے دلوں اور تمہارے عملوں کو دیکھتا ہے۔ “ عیاض بن حمار مجاشعی (رض) نے ایک لمبی حدیث میں بیان کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(وان اللہ اوخی الی ان تواضعوا حتی لا یفخر احد علی احد ولا یبغی احد علی احد) (مسلم، الجنۃ وصفۃ تعیمھا، باب ال صفات التی یعرف بھا…: ٦٣/٢٨٦٥)” اللہ تعالیٰ نے میری طرف وحی فرمائی کہ آپس میں تواضح اختیار کرو، حتی کہ نہ کوئی کسی پر فخر کرے اور نہ کوئی کسی پر زیادتی کرے۔ (٥) اہل علم نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ نکاح میں کفو (جوڑ) ہونے کے لئے اسلام کے علاوہ کوئی شرط معتبر نہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی پھوپھی کی بیٹی زینب بنت حجش (رض) کا نکاح اپنے آزاد کردہ غلام زید بن حارثہ (رض) سے کردیا۔ اس لیء یہ جو مشہور ہے کہ سید لڑکی کا نکاح غیر سید سے نہیں ہوسکتا، درست نہیں۔ ویسے فاطمہ (رض) کی اولاد کو لفظ ” سید “ کے ساتھ خاص کرنا بھی محض رواج ہے۔ یہاں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا چچا ہونے کے باوجود ابولہب جہنمی ہے اور غلام ہونے کے باوجود بلال (رض) کے جوتوں کی آواز جنت میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آگے (بطور خادم) سنائی دے رہی ہے اور جابر (رض) نے بیان کیا کہ عمر (رض) فرمایا کرتے تھے :(ابوبکر سیدنا، واعتق سیدنا یعنی بلالاً ) (بخاری، فضائل، اصحاب النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) باب مناقب بلال بن رباح…: ٣٨٥٣)” ابوبکر ہمارا سید ہے اور اس نے ہمارے سید بلال کو آزاد کیا۔ “ (٦) ان الہر علیم خبیر : یعنی اللہ تعالیٰ سب کچھ جاننے والا، پوری خبر رکھنے اولا ہے۔ وہی جانتا ہے کہ کس کے دل میں تقویٰ زیادہ ہے، جس کی وجہ سے اسے سب سے زیادہ معزز ہونے کا شرف حاصل ہے۔ تو جب کسی کو دلوں کا حال معلوم ہی نہیں تو کوئی کسی پر فخر کیسے کرسکتا ہے اور کسی کو حقیر کیوں جانتا ہے ! ؟

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

All of Mankind are the Children of &Adam and Hawwa& (علیہما السلام) In the preceding verses, six social evils in connection with human and Islamic rights were prohibited, and principles of good manners were laid down to be observed in social life. The current verse proceeds to set down the basis of an all-comprehensive and all-pervading principle of human equality. It has firmly laid the axe at the false and foolish notions of superiority, born of racial arrogance or national conceit. All men have been created from a single male [&Adam (علیہ السلام) ] and a single female [ Hawwa& (علیہا السلام) ] as human beings. Therefore, all people are the descendants of &Adam and Hawwa& (علیہما السلام) and have been declared equal in the sight of Allah. No one is allowed to take pride nor to degrade others on the basis of pigment of his skin, the amount of wealth he possesses or by his rank or by his social status, descent or pedigree, but by his moral uprightness and the way he discharges his obligations to Allah and man. The entire human race is but one family. Division into nations, tribes and sub-tribes of all sizes, and races is meant only to give a better identification of one another. Circumstances of Revelation This verse was revealed on the occasion of the conquest of Makkah. When it was time for prayer, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) asked Sayyidna Bilal (رض) to call the adhan. One of the pagan Quraish cynically remarked: Thank God that my father died before this happened, and he did not have to see this bad day. Harith Ibn Hisham remarked: Could Muhammad not find anyone better than this black crow to sound the adhan in the Sacred Mosque! Abu Sufyan said: I do not wish to utter anything for fear that the master of the heavens will inform him. Thus Jibra&il (علیہ السلام) came down and informed the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) about this conversation. The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) called them and asked them about it. They admitted. At this, the current verse was revealed. Taqwa of Allah is the basis of Honour This verse made it plain that human beings can earn honour on account of their faith and righteousness. The immediate application of the verse was to Sayyidna Bilal (رض) ، and therefore the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said to those people: You are empty (i.e. you have no moral leg to stand on.) Sayyidna Bilal (رض) ، on the other hand, is equipped (with high moral qualities); and he is better and more honourable than any of you.|" [ Baghawi, as cited in Mazhari ]. Sayyidna ` Abdullah Ibn ` Umar (رض) reports that on the day when Makkah was conquered, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) performed tawaf (circumambulation of Ka&bah) in the state of riding on his she-camel, [ so that all the people could see him ]. Then having completed his tawaf, he delivered a sermon in which he said: الحمد للہ اذھب عنکم عبّیۃ الجاھلیۃ تکتبّرھا۔ الناس رجلان برّ تقّی کریم علی اللہ وفاجر شقی ھین علی اللہ ثمّ تلا : یٰٓایُّھَا النَّاس اِنّا خلَقنٰکُم (ترمذی و بغوی) |"0 people! Allah has removed from you the pride of Jahiliyyah and its arrogance. People are of two types: a man who is righteous, fearful of Allah and he is honourable to Allah; or a man who is sinful, wretched, and he is disgraced and little to Allah [ Tirmidhi and Baghawi ].|" Then he recited the current verse. Sayyidna Ibn-` Abbas (رض) says: For people |"honour|" lies in wealth, whilst in the sight of Allah it lies in righteousness. Analysis of Important Words in the Verse The word Shu` ub is the plural of Sha&b which refers to a large group of persons of the same origin, (like a nation). Then it consists of clans and tribes. The largest group in this arrangement is called sa&b, and the smallest is called ` ashirah. Abu Ruwaq says that the words Shu` ub and Sha&b refer to non-Arab nations whose lineage is not preserved, whilst qabail refers to Arabs whose lineage is well-preserved. The word asbat is used to refer to the children of Israel. Lineal, National and Linguistic Division of Mankind: The Underlying Divine Wisdom is identification The Qur&an in this verse has made it clear that Allah has created all mankind from a single mother and a single father, and made them into a single brotherhood. But he has divided them into different tribes, nations, races, lineage and language-speakers/linguistic groups. The underlying Divine wisdom in such a division is mutual identification. For example, if there are two persons bearing the same name, they could be differentiated by family name. It can also show the near and remote relations. Their Shari rights can be fulfilled on the basis of near and distant lineage. It is incumbent to determine the near and remote agnate heirs when applying the law of succession or dividing the estate of a deceased. In short, reference to one&s lineage for the purpose of identification is not deemed to be pride and conceit.

خلاصہ تفسیر اے لوگو ! ہم نے (سب) کو ایک مرد اور ایک عورت (یعنی آدم و حوا) سے پیدا کیا ( اس لئے اس میں تو سب انسان برابر ہیں) اور (پھر جس بات میں فرق رکھا ہے کہ) تم کو مختلف قومیں اور (پھر ان قوموں میں) مختلف خاندان بنایا (یہ محض اس لئے) تاکہ ایک دوسرے کو شناخت کرسکو (جس میں بہت سی مصلحتیں ہیں نہ اس لئے کہ ایک دوسرے پر تفاخر کرو کیونکہ) اللہ کے نزدیک تم سب میں بڑا شریف وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہو (اور پرہیزگاری ایسی چیز ہے جس کا پورا حال کسی کو معلوم نہیں بلکہ اس کے حال کو محض) اللہ تعالیٰ خوب جاننے والا اور پورا خبردار ہے ( اس لئے کسی نسب اور قومیت پر فخر نہ کرو) معارف و مسائل اوپر کی آیات میں انسانی اور اسلامی حقوق اور آداب معاشرت کی تعلیم کے سلسلے میں چھ چیزوں کو حرام و ممنوع کیا گیا ہے جو باہمی منافرت اور عداوت کا سبب ہوتی ہیں۔ اس آیت میں ایک جامع تعلیم انسانی مساوات کی ہے کہ کوئی انسان دوسرے کو کمتر یا رذیل نہ سمجھے اور اپنے نسب اور خاندان یا مال و دولت وغیرہ کی بنا پر فخر نہ کرے کیونکہ یہ چیزیں درحقیقت تفاخر کی ہیں نہیں، پھر اس تفاخر سے باہمی منافرت اور عداوت کی بنیادیں پڑتی ہیں اس لئے فرمایا کہ تمام انسان ایک ہی ماں باپ کی اولاد ہونے کی حیثیت سے بھائی بھائی ہیں اور خاندان اور قبائل یا مال و دولت کے اعتبار سے جو فرق اللہ تعالیٰ نے رکھا ہے وہ تفاخر کے لئے نہیں بلکہ تعارف کے لئے ہے۔ شان نزول : یہ آیت فتح مکہ کے موقع پر اس وقت نازل ہوئی جبکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت بلال حبشی (رض) کو اذان کا حکم دیا تو قریش مکہ جو ابھی تک مسلمان نہیں ہوئے تھے ان میں سے ایک نے کہا کہ اللہ کا شکر ہے کہ میرے والد پہلے ہی وفات پا گئے ان کو یہ روز بد دیکھنا نہیں پڑا اور حارث بن ہشام نے کہا کہ کیا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کالے کوے کے سوا کوئی آدمی نہیں جڑا کہ جو مسجد حرام میں اذان دے۔ ابوسفیان بولے کہ میں کچھ نہیں کہتا کیونکہ مجھے خطرہ ہے کہ میں کچھ کہوں گا تو آسمانوں کا مالک ان کو خبر کر دے گا، چناچہ جبرئیل امین تشریف لائے اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس تمام گفتگو کی اطلاع دی، آپ نے ان لوگوں کو بلا کر پوچھا کہ تم نے کیا کہا تھا انہوں نے اقرار کرلیا اسی پر یہ آیت نازل ہوئی جس نے بتلایا کہ فخر و عزت کی چیز درحقیقت ایمان اور تقویٰ ہے جس سے تم لوگ خالی اور حضرت بلال آراستہ ہیں اس لئے وہ تم سب سے افضل و اشرف ہیں (مظہری عن البغوی) حضرت عبداللہ بن عمر کی روایت ہے کہ فتح مکہ کے روز رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی اونٹنی پر سوار ہو کر طواف فرمایا (تاکہ سب لوگ دیکھ سکیں) طواف سے فارغ ہو کر آپ نے یہ خطبہ دیا۔ الحمد للہ الذی اذھب عنکم عبیة الجاھلیة وتکبرھا۔ الناس رجلان بر تقی کریم علی اللہ و فاجر شقی ھین علی اللہ ثم تلا۔ يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ لآیتہ (ترمذی و بغوی) شکر ہے اللہ کا جس نے فخر جاہلیت کو اور اس کے تکبر کو تم سے دور کردیا، اب تمام انسانوں کی صرف دو قسمیں ہیں ایک نیک اور متقی وہ اللہ کے نزدیک شریف اور محترم ہے، دوسرا فاجر شقی وہ اللہ کے نزدیک ذلیل و حقیر ہے اس کے بعد اس آیت کی تلاوت فرمائی جو اوپر مذکور ہے حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ دنیا کے لوگوں کے نزدیک عزت مال و دولت کا نام ہے اور اللہ کے نزدیک تقویٰ کا۔ شُعُوْبًا وَّقَبَاۗىِٕلَ ، شعوب، شعب کی جمع ہے بہت بڑی جماعت کو شعب کہتے ہیں جو کسی ایک اصل پر مجتمع ہوں پھر ان میں مختلف قبائل اور خاندان ہوتے ہیں، پھر خاندانوں میں بھی بڑے خاندان اور اس کے مختلف حصوں کے عربی زبان میں الگ الگ نام ہیں، سب سے بڑا حصہ شعب اور سب سے چھوٹا حصہ عشیرہ کہلاتا ہے او ابورواق کا قول ہے کہ شعب اور شعوب عجمی قوموں کے لئے بولا جاتا ہے جس کے انساب محفوظ نہیں اور قبائل عرب کے لوگوں کے لئے جن کے انساب محفوظ چلے آتے ہیں اور اسباط بنی اسرائیل کے لئے۔ نسبی اور وطنی یا لسانی امتیاز میں حکمت و مصلحت تعارف کی ہے : قرآن کریم نے اس آیت میں واضح کردیا کہ حق تعالیٰ نے اگرچہ سب انسانوں کو ایک ہی باپ اور ماں سے پیدا کر کے سب کو بھائی بھائی بنادیا ہے مگر پھر اس کی تقسیم مختلف قوموں قبیلوں میں جو حق تعالیٰ ہی نے فرمائی ہے اس میں حکمت یہ ہے کہ لوگوں کا تعارف اور شناخت آسان ہوجائے مثلاً ایک نام کے دو شخص ہیں تو خاندان کے تفاوت میں ان میں امتیاز ہوسکتا ہے اور اس سے دور اور قریب کے رشتوں کا علم ہوسکتا ہے اور نسبی قرب و بعد کی مقدار پر ان کے حقوق شرعیہ ادا کئے جاتے ہیں۔ عصبات کا قرب و بعد معلوم ہوتا ہے جس کی ضرورت تقسیم میراث میں پیش آتی ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ نسبی تفاوت کو تعارف کیلئے استعمال کرو تفاخر کے لئے نہیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

يٰٓاَيُّہَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّاُنْثٰى وَجَعَلْنٰكُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَاۗىِٕلَ لِتَعَارَفُوْا۝ ٠ ۭ اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللہِ اَتْقٰىكُمْ۝ ٠ ۭ اِنَّ اللہَ عَلِيْمٌ خَبِيْرٌ۝ ١٣ نوس النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب، قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس/ 1] ( ن و س ) الناس ۔ بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس/ 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔ خلق الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] ، أي : أبدعهما، ( خ ل ق ) الخلق ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے ذَّكَرُ ( مذکر) والذَّكَرُ : ضدّ الأنثی، قال تعالی: وَلَيْسَ الذَّكَرُ كَالْأُنْثى [ آل عمران/ 36] ، وقال : آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام/ 144] ، وجمعه : ذُكُور وذُكْرَان، قال تعالی: ذُكْراناً وَإِناثاً [ الشوری/ 50] ، وجعل الذَّكَر كناية عن العضو المخصوص . والمُذْكِرُ : المرأة التي ولدت ذکرا، والمِذْكَار : التي عادتها أن تذكر، وناقة مُذَكَّرَة : تشبه الذّكر في عظم خلقها، وسیف ذو ذُكْرٍ ، ومُذَكَّر : صارم، تشبيها بالذّكر، وذُكُورُ البقل : ما غلظ منه الذکر ۔ تو یہ انثی ( مادہ ) کی ضد ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَلَيْسَ الذَّكَرُ كَالْأُنْثى [ آل عمران/ 36] اور ( نذر کے لئے ) لڑکا ( موزون تھا کہ وہ ) لڑکی کی طرح ( ناتواں ) نہیں ہوتا آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام/ 144] کہ ( خدا نے ) دونوں ( کے ) نروں کو حرام کیا ہے یا دونوں ( کی ) مادینوں کو ۔ ذکر کی جمع ذکور و ذکران آتی ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ ذُكْراناً وَإِناثاً [ الشوری/ 50] بیٹے اور بیٹیاں ۔ اور ذکر کا لفظ بطور کنایہ عضو تناسل پر بھی بولاجاتا ہے ۔ اور عورت نرینہ بچہ دے اسے مذکر کہاجاتا ہے مگر المذکار وہ ہے ۔ جس کی عادت نرینہ اولاد کی جنم دینا ہو ۔ ناقۃ مذکرۃ ۔ وہ اونٹنی جو عظمت جثہ میں اونٹ کے مشابہ ہو ۔ سیف ذوذکر ومذکر ۔ آبدار اور تیر تلوار ، صارم ذکور البقل ۔ وہ ترکاریاں جو لمبی اور سخت دلدار ہوں ۔ أنث الأنثی: خلاف الذکر، ويقالان في الأصل اعتبارا بالفرجین، قال عزّ وجلّ : وَمَنْ يَعْمَلْ مِنَ الصَّالِحاتِ مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثى [ النساء/ 124] ، ولمّا کان الأنثی في جمیع الحیوان تضعف عن الذکر اعتبر فيها الضعف، فقیل لما يضعف عمله : أنثی، ومنه قيل : حدید أنيث قال الشاعر : عندي ... جراز لا أفلّ ولا أنيث وقیل : أرض أنيث : سهل، اعتبارا بالسهولة التي في الأنثی، أو يقال ذلک اعتبارا بجودة إنباتها تشبيها بالأنثی، ولذا قال : أرض حرّة وولودة . ولمّا شبّه في حکم اللفظ بعض الأشياء بالذّكر فذكّر أحكامه، وبعضها بالأنثی فأنّث أحكامها، نحو : الید والأذن، والخصية، سمیت الخصية لتأنيث لفظ الأنثيين، وکذلک الأذن . قال الشاعر : ضربناه تحت الأنثيين علی الکرد وقال آخر : وما ذکر وإن يسمن فأنثی يعني : القراد، فإنّه يقال له إذا کبر : حلمة، فيؤنّث . وقوله تعالی: إِنْ يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ إِلَّا إِناثاً [ النساء/ 117] فمن المفسرین من اعتبر حکم اللفظ فقال : لمّا کانت أسماء معبوداتهم مؤنثة نحو : اللَّاتَ وَالْعُزَّى وَمَناةَ الثَّالِثَةَ [ النجم/ 19- 20] قال ذلک : ومنهم۔ وهو أصحّ- من اعتبر حکم المعنی، وقال : المنفعل يقال له : أنيث، ومنه قيل للحدید الليّن : أنيث، فقال : ولمّا کانت الموجودات بإضافة بعضها إلى بعض ثلاثة أضرب : - فاعلا غير منفعل، وذلک هو الباري عزّ وجلّ فقط . - ومنفعلا غير فاعل، وذلک هو الجمادات . - ومنفعلا من وجه کالملائكة والإنس والجن، وهم بالإضافة إلى اللہ تعالیٰ منفعلة، وبالإضافة إلى مصنوعاتهم فاعلة، ولمّا کانت معبوداتهم من جملة الجمادات التي هي منفعلة غير فاعلة سمّاها اللہ تعالیٰ أنثی وبكّتهم بها، ونبّههم علی جهلهم في اعتقاداتهم فيها أنها آلهة، مع أنها لا تعقل ولا تسمع ولا تبصر، بل لا تفعل فعلا بوجه، وعلی هذا قول إبراهيم عليه الصلاة والسلام : يا أَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ ما لا يَسْمَعُ وَلا يُبْصِرُ وَلا يُغْنِي عَنْكَ شَيْئاً [ مریم/ 42] . وأمّا قوله عزّ وجل : وَجَعَلُوا الْمَلائِكَةَ الَّذِينَ هُمْ عِبادُ الرَّحْمنِ إِناثاً [ الزخرف/ 19] فلزعم الذین قالوا : إنّ الملائكة بنات اللہ . ( ان ث) الانثی ( مادہ ) بہ ذکر یعنی نر کی ضد ہے اصل میں انثیٰ و ذکر عورت اور مرد کی شرمگاہوں کے نام ہیں پھر اس معنی کے لحاظ سے ( مجازا) یہ دونوں نر اور مادہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔{ وَمَنْ يَعْمَلْ مِنَ الصَّالِحَاتِ مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى } ( سورة النساء 124) ۔ جو نیک کام کریگا مرد یا عورت (4 ۔ 124) اور چونکہ تمام حیوانات میں مادہ منسلک نر کے کمزور ہوتی ہے لہذا اس میں معنی ضعف کا اعتبار کرکے ہر ضعیف الاثر چیز کو انثیٰ کہہ دیا جاتا ہے چناچہ کمزور لوہے کو حدید انیث کہا جاتا ہے شاعر نے کہا ہے ع (28) ۔۔۔۔۔ عندی ۔۔ جراز لا افل ولا انیث میرے پاس شمشیر براں ہے جو کند اور کمزور نہیں ہی ۔ اور انثی ٰ ( مادہ) کے ساتھ تشبیہ دیکر نرم اور زرخیز زمین کو بھی ارض انیث کہہ دیا جاتا ہے یہ تشبہ یا تو محض نری کے اعتبار سے ہے ۔ اور یا عمدہ اور پیداوار دینے کے اعتبار سے ہے سے اسے انیث کہا گیا ہے جیسا کہ زمین کو عمدہ اور پیداوار کے اعتبار سے حرۃ اور ولو د کہا جات ہے ۔ پھر بعض اشیاء کو لفظوں میں مذکر کے ساتھ تشبیہ دے کر اس کے لئے صیغہ مذکر استعمال کیا جاتا ہے ۔ اور بعض کو مؤنث کے ساتھ تشبیہ دے کر صیغہ تانیث استعمال کرتے ہیں جیسے ۔ ید ۔ اذن اور خصیۃ چناچہ خصیتیں پر تانیث لفظی کی وجہ سے انثیین کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( ع وافر) (29) وماذکر وان یسمن مانثی ٰاور کونسا مذکر ہے کہ اگر وہ موٹا ہوجائے تو مؤنث ہوجاتا ہے ۔ اس سے مراد قرا دیعنی چیچر ہے کہ جب وہ بڑھ کر خوب موٹا ہوجاتا ہے تو اسے حلمۃ بلفظ مونث کہا جاتا ہے اسی طرح آیت کریمہ ؛۔ { إِنْ يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ إِلَّا إِنَاثًا } ( سورة النساء 117) وہ خد ا کے سو ا جن کی بھی پرستش کرتے ہیں وہ مادہ ہیں ۔ میں اناث ، انثی ٰ کی جمع ہے ) بعض مفسرین نے احکام لفظیہ کا اعتبار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ مشرکین اپنے بتوں کو جن اسماء سے پکارتے تھے جیسے لات ، عزی ، منات الثالثہ یہ سب مؤنث ہیں اس لئے قرآن نے اناث کہہ کر پکارا ہے ۔ اور بعض نے معنٰی کا اعتبار کیا ہے اور کہا ہے کہ ہر منفعل اور ضعیف چیز کو انیث کہا جاتا ہے جیسے کمزور لوہے پر انیث کا لفظ بولتے ہیں اسکی تفصیل یہ ہے کہ موجودات کی باہمی نسبت کے اعتبار سے تین قسمیں ہیں فاعل غیر منفعل ، یہ صفت صرف ذات باری تعالیٰ کے ساتھ مختص ہے ۔ منفعل غیر فاعل یہ خاصہ جمادات کا ہے ۔ 3 ۔ ایک اعتبار سے فاعل اور دوسرے اعتبار سے منفعل جیس جن دانس اور ملائکہ کہ یہ اللہ تعالیٰ کے اعتبار سے منفعل اور اپنی مصنوعات کے لحاظ سے فاعل ہے اور چونکہ ان کے معبود جمادات کی قسم سے تھے جو منفعل محض ہے لہذا اللہ تعالیٰ نے انہیں اثاث کہہ کر پکارا ہے اور اس سے ان کی اعتقادی جہالت پر تنبیہ کی ہے کہ جنکو تم نے معبود بنا رکھا ہے ان میں نہ عقل ہے نہ سمجھ ، نہ سن سکتے ہیں اور نہ دیکھ سکتے ہیں بلکہ کسی حیثیت سے بھی کوئی کام سرانجام دینے کی صلاحیت نہیں رکھتے ۔ اسی بنا پر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے و تو حید کی طرف دعوت کے سلسلہ میں ) اپنے باپ سے کہا ۔ { يَا أَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ مَا لَا يَسْمَعُ وَلَا يُبْصِرُ وَلَا يُغْنِي عَنْكَ شَيْئًا } ( سورة مریم 42) کہ ابا آپ ایسی چیزوں کو کیوں پوجتے ہیں جو نہ سنیں اور نہ دیکھیں اور نہ آپ کے کچھ کام آسکیں لیکن آیت کریمہ ؛۔ { وَجَعَلُوا الْمَلَائِكَةَ الَّذِينَ هُمْ عِبَادُ الرَّحْمَنِ إِنَاثًا } ( سورة الزخرف 19) اور انہوں نے فرشتوں کو کہ وہ بھی خدا کے بندہ ہیں ( مادہ خدا کی بیٹیاں ) بنادیا میں ملائکہ کو اناث قرار دینے کے معنیٰ یہ ہیں کہ وہ فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں کہا کرتے تھے ۔ جعل جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها، ( ج ع ل ) جعل ( ف ) یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔ شعب الشِّعْبُ : القبیلة المتشعّبة من حيّ واحد، وجمعه : شُعُوبٌ ، قال تعالی: شُعُوباً وَقَبائِلَ [ الحجرات/ 13] ، والشِّعْبُ من الوادي : ما اجتمع منه طرف وتفرّق طرف، فإذا نظرت إليه من الجانب الذي تفرّق أخذت في وهمک واحدا يتفرّق، وإذا نظرت من جانب الاجتماع أخذت في وهمک اثنین اجتمعا، فلذلک قيل : شَعِبْتَ الشیء : إذا جمعته، وشَعِبْتُهُ إذا فرّقته وشُعَيْبٌ تصغیر شعب الذي هو مصدر، أو الذي هو اسم، أو تصغیر شعب، والشَّعِيبُ : المزادة الخلق التي قد أصلحت وجمعت . وقوله : إِلى ظِلٍّ ذِي ثَلاثِ شُعَبٍ [ المرسلات/ 30] ، يختصّ بما بعد هذا الکتاب . ( ش ع ب ) الشعب اس قبیلہ کو کہتے ہیں جو ایک قوم سے پھیلا ہو اس کی جمع شعوب آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ شُعُوباً وَقَبائِلَ [ الحجرات/ 13] قومیں اور قبیلے ( بنائے ) اشعب من الودی ۔ وادی کا وہ مقام جہاں اس کا کنارہ ملتا اور دوسرا جدا ہوتا ہو جب تم اس جگہ کو دیکھو جہاں اس کا کنارہ جدا رہا ہے تو ایسا معلوم ہو کہ ایک چیز کے ٹکڑے ہو رہے ہیں اور جب اس سرے کو دیکھو جہاں دوسرا اس سے ملتا ہے تو ایسا محسوس ہو کہ دونوں سرے ایک دوسرے سے مل رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ شعب کے معنی جمع کرنا اور متفرق کرنا دونوں آتے ہیں اور شعیب یا تو شعب کی تصغیر ہے جو مصدر یا اسم ہے اور یا شعب کی ۔ الشعیب پرانی مشک جو مرمت اور درست کی گئی ہو ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِلى ظِلٍّ ذِي ثَلاثِ شُعَبٍ [ المرسلات/ 30] اس سائے کی طرف چلو جس کی تین شاخیں ہیں ، کی تشریح اس کتاب کے بعد بیان ہوگی ۔ شعب سے قبیلے پھوٹتے ہیں پھر شاخ در شاخ سلسلہ کثرت سے قلت کی طرف چلا جاتا ہے۔ عرب میں قبیلہ کی تدریجی تقسیم کثرت سے قلت کی طرف ترتیب حسب ذیل ہے :۔ (1) پہلے شعب، (2) پھر قبیلہ (3) پھر عمارہ (4) پھر بطن (5) پھر فخد (6) پھر فیصلہ۔ ابو اسامہ نے تصریح کی ہے کہ یہ طبقے انسانی خلقت کی ترتیب پر ہیں ۔ شعب ، سب سے عظیم تر ہے۔ شعب، الراس ( جہاں دماغ کے چاروں حصے جڑ تے ہیں سے مشتق ہے پھر قبیلہ اپنے اجتماع کی بنا پر قبیلۃ الراس ( کھوپری کا وہ حصہ جو شاخ در شاخ ہوتا ہے) سے پھر عمارۃ ہے جس کے معنی سینہ کے ہیں۔ پھر بطن ( پیٹ) ہے پھر فخذ ( ران) ہے پھر فیصلہ ہے جس کے معنی پنڈلی کے ہیں۔ پھر عرب کے قبیلوں کی تقسیم یوں کی گئی ہے۔ شعب ( خزیمہ) ، قبیلہ ( کنانہ) عمارۃ ( قریش) ، بطن ( قصی) فخذ ( ہاشم) قبیلہ ( العباس) ۔ تعارف والعَارِفُ في تَعَارُفِ قومٍ : هو المختصّ بمعرفة الله، ومعرفة ملکوته، وحسن معاملته تعالی، يقال : عَرَّفَهُ كذا . قال تعالی: عَرَّفَ بَعْضَهُ وَأَعْرَضَ عَنْ بَعْضٍ [ التحریم/ 3] ، وتَعَارَفُوا : عَرَفَ بعضهم بعضا . قال : لِتَعارَفُوا[ الحجرات/ 13] ، وقال : يَتَعارَفُونَ بَيْنَهُمْ [يونس/ 45] ، وعَرَّفَهُ : جعل له عَرْفاً. أي : ريحا طيّبا . قال في الجنّة : عَرَّفَها لَهُمْ [ محمد/ 6] ، أي : طيّبها وزيّنها لهم اور ایک گروہ ( یعنی صوفیہ کرام ) کی اصطلاح میں عارف کا لفظ خاص کر اس شخص پر بولا جاتا ہے جسے عالم ملکوت اور ذات الہی اور اس کے ساتھ حسن معاملہ کے متعلق خصوصی معرفت حاصل ہو ۔ عرفہ کذا فلاں نے اسے اس چیز کا تعارف کروا دیا ۔ قرآن پاک میں ہے عَرَّفَ بَعْضَهُ وَأَعْرَضَ عَنْ بَعْضٍ [ التحریم/ 3] تو پیغمبر نے کچھ بات تو بتادی اور کچھ نہ بتائی ۔ تعارفوا انہوں نے باہم ایک دوسرے کو پہچان لیا ۔ قرآن پاک میں ہے : لِتَعارَفُوا[ الحجرات/ 13] تا کہ ایک دوسرے کو شناخت کرو ۔ يَتَعارَفُونَ بَيْنَهُمْ [يونس/ 45] آپس میں ایک دوسرے کو پٌہچان بھی لیں گے ۔ عرفہ کسی چیز کو خوشبودار کردیا معطر بنا دیا چناچہ جنت کے بارے میں عَرَّفَها لَهُمْ [ محمد/ 6] فرمایا ہے جس کے معنی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے جنت کو خوشبو سے بسادیا ہے اور ان کیلئے آراستہ کر رکھا ہے اور بعض نے اس کے معنی توصیف کرنا ، شوق دلانا اور اس کی طرف رہنمائی کرنا بھی بیان کئے ہیں كرم الكَرَمُ إذا وصف اللہ تعالیٰ به فهو اسم لإحسانه وإنعامه المتظاهر، نحو قوله : فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [ النمل/ 40] ، وإذا وصف به الإنسان فهو اسم للأخلاق والأفعال المحمودة التي تظهر منه، ولا يقال : هو كريم حتی يظهر ذلک منه . قال بعض العلماء : الكَرَمُ کالحرّيّة إلّا أنّ الحرّيّة قد تقال في المحاسن الصّغيرة والکبيرة، والکرم لا يقال إلا في المحاسن الکبيرة، كمن ينفق مالا في تجهيز جيش في سبیل الله، وتحمّل حمالة ترقئ دماء قوم، وقوله تعالی: إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقاكُمْ [ الحجرات/ 13] فإنما کان کذلک لأنّ الْكَرَمَ الأفعال المحمودة، وأكرمها وأشرفها ما يقصد به وجه اللہ تعالی، فمن قصد ذلک بمحاسن فعله فهو التّقيّ ، فإذا أكرم الناس أتقاهم، وكلّ شيء شرف في بابه فإنه يوصف بالکرم . قال تعالی: فَأَنْبَتْنا فِيها مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ [ لقمان/ 10] ، وَزُرُوعٍ وَمَقامٍ كَرِيمٍ [ الدخان/ 26] ، إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة/ 77] ، وَقُلْ لَهُما قَوْلًا كَرِيماً [ الإسراء/ 23] . والإِكْرَامُ والتَّكْرِيمُ : أن يوصل إلى الإنسان إکرام، أي : نفع لا يلحقه فيه غضاضة، أو أن يجعل ما يوصل إليه شيئا كَرِيماً ، أي : شریفا، قال : هَلْ أَتاكَ حَدِيثُ ضَيْفِ إِبْراهِيمَ الْمُكْرَمِينَ [ الذاریات/ 24] . وقوله : بَلْ عِبادٌ مُكْرَمُونَ [ الأنبیاء/ 26] أي : جعلهم کراما، قال : كِراماً كاتِبِينَ [ الانفطار/ 11] ، وقال : بِأَيْدِي سَفَرَةٍ كِرامٍ بَرَرَةٍ [ عبس/ 15 16] ، وَجَعَلَنِي مِنَ الْمُكْرَمِينَ [يس/ 27] ، وقوله : ذُو الْجَلالِ وَالْإِكْرامِ [ الرحمن/ 27] منطو علی المعنيين . ( ک ر م ) الکرم ۔ جب اللہ کی صفت ہو تو اس سے احسان وانعام مراد ہوتا ہے جو ذات باری تعالیٰ سے صادر ہوتا رہتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [ النمل/ 40] تو میر اپروردگار بےپرواہ اور کرم کرنے والا ہے ۔ اور جب انسان کی صفت ہو تو پسندیدہ اخلاق اور افعال مراد ہوتے ہیں جو کسی انسان سے ظاہر ہوتے ہیں ۔ اور کسی شخص کو اس وقت تک کریمہ نہیں کہاجاسکتا جب تک کہ اس سے کرم کا ظہور نہ ہوچکا ہو ۔ بعض نے علماء کہا ہے کہ حریت اور کرم ہم معنی ہیں لیکن حریت کا لفظ جھوٹی بڑی ہر قسم کی خوبیوں پر بولا جا تا ہے اور کرم صرف بڑے بڑے محاسن کو کہتے ہیں مثلا جہاد میں فوج کے لئے سازو سامان مہیا کرنا یا کیس ایسے بھاری تا وان کو اٹھا لینا جس سے قوم کے خون اور جان کی حفاظت ہوتی ہو ۔ اور آیت : ۔ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقاكُمْ [ الحجرات/ 13] اور خدا کے نزدیک تم میں زیادہ عزت والا ہے جو زیادہ پرہیز گار ہیں ۔ میں القی یعنی سب سے زیادہ پرہیز گا ۔ کو اکرم یعنی سب سے زیادہ عزت و تکریم کا مستحق ٹہھر انے کی وجہ یہ ہے کہ کرم بہترین صفات کو کہتے ہیں اور سب سے بہتر اور پسند یدہ کام وہی ہوسکتے ہیں جن سے رضا الہیٰ کے حصول کا قصد کیا جائے لہذا جو جس قدر زیادہ پرہیز گار ہوگا اسی قدر زیادہ واجب التکریم ہوگا ۔ نیز الکریم ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو اپنی چیز کو کہتے ہیں جو اپنی ہم نوع چیزوں میں سب سے زیادہ باشرف ہو چناچہ فرمایا : ۔ فَأَنْبَتْنا فِيها مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ [ لقمان/ 10] پھر ( اس سے ) اس میں ہر قسم کی نفیس چیزیں اگائیں ۔ وَزُرُوعٍ وَمَقامٍ كَرِيمٍ [ الدخان/ 26] اور کھیتیاں اور نفیس مکان ۔ إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة/ 77] کہ یہ بڑے رتبے کا قرآن ہے ۔ وَقُلْ لَهُما قَوْلًا كَرِيماً [ الإسراء/ 23] اور ان سے بات ادب کے ساتھ کرنا ۔ الا کرام والتکریم کے معنی ہیں کسی کو اس طرح نفع پہچانا کہ اس میں اس کی کسی طرح کی سبکی اور خفت نہ ہو یا جو نفع پہچا یا جائے وہ نہایت باشرف اور اعلٰی ہو اور المکرم کے معنی معزز اور با شرف کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ هَلْ أَتاكَ حَدِيثُ ضَيْفِ إِبْراهِيمَ الْمُكْرَمِينَ [ الذاریات/ 24] بھلا تمہارے پاس ابراہیم کے معزز مہمانوں کی خبر پہنچی ہے ؛ اور آیت کریمہ : ۔ بَلْ عِبادٌ مُكْرَمُونَ [ الأنبیاء/ 26] کے معنی یہ ہیں کہ وہ اللہ کے معزز بندے ہیں جیسے فرمایا : ۔ وَجَعَلَنِي مِنَ الْمُكْرَمِينَ [يس/ 27] اور مجھے عزت والوں میں کیا ۔ كِراماً كاتِبِينَ [ الانفطار/ 11] عالی قدر تمہاری باتوں کے لکھنے والے ۔ بِأَيْدِي سَفَرَةٍ كِرامٍ بَرَرَةٍ [ عبس/ 15 16] ( ایسے ) لکھنے والوں کے ہاتھوں میں جو سر دار اور نیوک کار ہیں ۔ اور آیت : ۔ ذُو الْجَلالِ وَالْإِكْرامِ [ الرحمن/ 27] اور جو صاحب جلال اور عظمت ہے ۔ میں اکرام کا لفظ ہر دو معنی پر مشتمل ہے ۔ یعنی اللہ تعالیٰ عزت و تکریم بھی عطا کرتا ہے اور باشرف چیزیں بھی بخشتا ہے عند عند : لفظ موضوع للقرب، فتارة يستعمل في المکان، وتارة في الاعتقاد، نحو أن يقال : عِنْدِي كذا، وتارة في الزّلفی والمنزلة، وعلی ذلک قوله : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] ، ( عند ) ظرف عند یہ کسی چیز کا قرب ظاہر کرنے کے لئے وضع کیا گیا ہے کبھی تو مکان کا قرب ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے اور کبھی اعتقاد کے معنی ظاہر کرتا ہے جیسے عندی کذا اور کبھی کسی شخص کی قرب ومنزلت کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہے ۔ تَّقْوَى والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، ثمّ يسمّى الخوف تارة تَقْوًى، والتَّقْوَى خوفاً حسب تسمية مقتضی الشیء بمقتضيه والمقتضي بمقتضاه، وصار التَّقْوَى في تعارف الشّرع حفظ النّفس عمّا يؤثم، وذلک بترک المحظور، ويتمّ ذلک بترک بعض المباحات لما روي : «الحلال بيّن، والحرام بيّن، ومن رتع حول الحمی فحقیق أن يقع فيه» قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] ، إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا [ النحل/ 128] ، وَسِيقَ الَّذِينَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ إِلَى الْجَنَّةِ زُمَراً [ الزمر/ 73] ولجعل التَّقْوَى منازل قال : وَاتَّقُوا يَوْماً تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ [ البقرة/ 281] ، واتَّقُوا رَبَّكُمُ [ النساء/ 1] ، وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَخْشَ اللَّهَ وَيَتَّقْهِ [ النور/ 52] ، وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسائَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحامَ [ النساء/ 1] ، اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقاتِهِ [ آل عمران/ 102] . و تخصیص کلّ واحد من هذه الألفاظ له ما بعد هذا الکتاب . ويقال : اتَّقَى فلانٌ بکذا : إذا جعله وِقَايَةً لنفسه، وقوله : أَفَمَنْ يَتَّقِي بِوَجْهِهِ سُوءَ الْعَذابِ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ الزمر/ 24] تنبيه علی شدّة ما ينالهم، وأنّ أجدر شيء يَتَّقُونَ به من العذاب يوم القیامة هو وجوههم، فصار ذلک کقوله : وَتَغْشى وُجُوهَهُمُ النَّارُ [إبراهيم/ 50] ، يَوْمَ يُسْحَبُونَ فِي النَّارِ عَلى وُجُوهِهِمْ [ القمر/ 48] . التقویٰ اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز سے بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ جس طرح کہ سبب بول کر مسبب اور مسبب بولکر سبب مراد لیا جاتا ہے اور اصطلاح شریعت میں نفس کو ہر اس چیز سے بچا نیکا نام تقوی ہے جو گناہوں کا موجب ہو ۔ اور یہ بات محظو رات شرعیہ کے ترک کرنے سے حاصل ہوجاتی ہے مگر اس میں درجہ کمال حاصل کرنے کے لئے بعض مباحات کو بھی ترک کرنا پڑتا ہے ۔ چناچہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے ۔ ( 149 ) الحلال بین واحرام بین ومن وقع حول الحمی فحقیق ان یقع فیہ کہ حلال بھی بین ہے اور حرام بھی بین ہے اور جو شخص چراگاہ کے اردگرد چرائے گا تو ہوسکتا ہے کہ وہ اس میں داخل ہوجائے ( یعنی مشتبہ چیزیں اگرچہ درجہ اباحت میں ہوتی ہیں لیکن ورع کا تقاضا یہ ہے کہ انہیں بھی چھوڑ دایا جائے ) قرآن پاک میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا[ النحل/ 128] کچھ شک نہیں کہ جو پرہیز گار ہیں اللہ ان کا مدد گار ہے ۔ وَسِيقَ الَّذِينَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ إِلَى الْجَنَّةِ زُمَراً [ الزمر/ 73] اور جو لوگ اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں ان کو گروہ بناکر بہشت کی طرف لے جائیں گے ۔ پھر تقویٰ کے چونکہ بہت سے مدارج ہیں اس لئے آیات وَاتَّقُوا يَوْماً تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ [ البقرة/ 281] اور اس دن سے ڈرو جب کہ تم خدا کے حضور میں لوٹ کر جاؤ گے ۔ واتَّقُوا رَبَّكُمُ [ النساء/ 1] اپنے پروردگار سے ڈرو ۔ اور اس سے ڈرے گا ۔ اور خدا سے جس کا نام کو تم اپنی حاجت برآری کا ذریعہ بناتے ہو ڈرو ۔ اور قطع مودت ارجام سے ۔ اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقاتِهِ [ آل عمران/ 102] خدا سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے ۔ میں ہر جگہ تقویٰ کا ایک خاص معنی مراد ہے جس کی تفصیل اس کتاب کے اور بعد بیان ہوگی ۔ اتقٰی فلان بکذا کے معنی کسی چیز کے ذریعہ بچاؤ حاصل کرنے کے ہیں ۔ اور آیت : ۔ أَفَمَنْ يَتَّقِي بِوَجْهِهِ سُوءَ الْعَذابِ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ الزمر/ 24] بھلا جو شخص قیامت کے دن اپنے منہ سے برے عذاب کو روکتا ہوا ۔ میں اس عذاب شدید پر تنبیہ کی ہے جو قیامت کے دن ان پر نازل ہوگا اور یہ کہ سب سے بڑی چیز جس کے ذریعہ وہ و عذاب سے بچنے کی کوشش کریں گے وہ ان کے چہرے ہی ہوں گے تو یہ ایسے ہی ہے جیسے دوسری جگہ فرمایا : وَتَغْشى وُجُوهَهُمُ النَّارُ [إبراهيم/ 50] اور ان کے مونہوں کو آگ لپٹ رہی ہوگی ۔ يَوْمَ يُسْحَبُونَ فِي النَّارِ عَلى وُجُوهِهِمْ [ القمر/ 48] اس روز منہ کے بل دوزخ میں گھسٹیے جائیں گے ۔ خبیر والخَبِيرُ : الأكّار فيه، والخبر : المزادة العظیمة، وشبّهت بها النّاقة فسمّيت خبرا، وقوله تعالی: وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِما تَعْمَلُونَ [ آل عمران/ 153] ، أي : عالم بأخبار أعمالکم، ( خ ب ر ) الخبر کسان کو ِِ ، ، خبیر ، ، کہاجاتا ہے ۔ الخبر۔ چھوٹا توشہ دان ۔ تشبیہ کے طور پر زیادہ دودھ دینے والی اونٹنی کو بھی خبر کہاجاتا ہے اور آیت کریمہ :۔ وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِما تَعْمَلُونَ [ آل عمران/ 153] اور جو کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کی حقیقت کو جانتا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

قبیلے ، برادریاں محض تعارف کے لئے ہیں قول باری ہے (انا خلقنا کم من ذکروانثیٰ وجعلناکم شعوبا و قبائل لتعارفوا ، ہم نے تم سب کو ایک مراد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے اور تم کو مختلف قومیں اور خاندان بنادیا ہے کہ ایک دوسرے کو پہچان سکو) مجاہد اور قتادہ سے مروی ہے کہ شعوب سے دور کی رشتہ داریاں مراد ہیں اور قبائل سے قریب کی رشتہ داریاں اس لئے کہا جاتا ہے ” بنو فلاں وفلاں “ (فلاں فلاں قبیلے) قول باری ہے (ان اکرمکم عند اللہ اتقاکم۔ بیشک تم میں سے پرہیزگار تر اللہ کے نزدیک معزز تر ہے) اللہ تعالیٰ نے اس سلسلہ بیان کی تخلیق انسانیت کے ذکر سے ابتدا کی اور یہ بتایا کہ پوری انسانیت کی تخلیق ایک مرد اور ایک عورت یعنی حضرت آدم اور حضرت حوا سے شروع ہوئی۔ پھر اللہ نے اولاد آدم کی مختلف قومیں بنادیں جو نسبی لحاظ سے بکھری ہوئی تھیں۔ مثلاً عربی، ایرانی ، رومی اور ہندی وغیرہ مختلف قومیں۔ پھر ان قوموں سے مختلف قبائل وجود میں آئے۔ قبیلہ کا مفہوم قوم کے مفہوم کے مقابلہ میں اخص ہے۔ جیسے عرب کے قبائل اور عجم کی برادریاں اور قومیتیں وغیرہ۔ تاکہ ان کی نسبتوں کے ذریعے لوگ ایک دوسرے کی شناخت کرسکیں۔ اللہ تعالیٰ نے اسی شناخت کی خاطر لوگوں کی شکلیں ایک دوسرے سے مختلف بنائیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہ سب کچھ بیان کرکے یہ وضاحت فرمادی کہ نسبی جہت سے کسی انسان کو کسی دوسرے انسان پر کوئی فضیلت حاصل نہیں ہے اس لئے کہ وہ سب کے سب آدم اولاد ہیں۔ ان سب کا باپ اور ان کی ماں بھی ایک ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ ایک شخص کے فعل کی بنا پر کسی دوسرے شخص کے لئے فضیلت کا استحقاق پیدا نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ وضاحت اس لئے کردی تاکہ نسب کی بنیاد پر لوگ ایک دوسرے کے مقابلہ میں فخر کا اظہار نہ کرسکیں۔ اس بات کی مزید تاکید قول باری (ان اکرمکم عند اللہ اثقاکم) کے ذریعے ہوگئی ۔ یہاں یہ بات واضح کردی گئی کہ فضیلت اور رفعت کا استحقاق صرف اور صرف اللہ کی اطاعت اور تقویٰ کی بنا پر پیدا ہوتا ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے کہ آپ نے اپنے خطبے میں ارشاد فرمایا تھا : ” لوگو ! اللہ تعالیٰ نے جاہلیت کے تکبر اور غرور نیز آباء واجداد کی عظمت پر فخر کی بات ختم کردی ہے۔ تمام انسان آدم کی اولاد ہیں اور آدم مٹی سے بنے ہیں۔ تم میں سے پرہیزگار تر اللہ کے نزدیک معزز تر ہے۔ کسی عربی کو کسی عجمی پر تقویٰ کے سوا کسی اور بات میں فضیلت حاصل نہیں ہے۔ “ حضرت ابن عباس (رض) اور عطاء کا قول ہے کہ تم میں سے پرہیزگار تر اللہ کے نزدیک معزز تر ہے سب سے اونچے گھرانے والا معزز تر نہیں ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اگلی آیت حضرت ثابت بن قیس بن شماس کے بارے میں نازل ہوئی ہے انہوں نے ایک شخص سے کہا تھا کہ تو فلاں کا لڑکا ہے اور کہا گیا ہے کہ حضرت بلال قریش کے ایک گروہ سہل بن عمرو حارث بن ہشام اور ابو سفیان بن حرب کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی، فتح مکہ کے سال ان لوگوں نے جب حضرت بلال کی اذان سنی تو یہ بولے کہ حق تعالیٰ اور اس کے رسول کو اس کے علاوہ کوئی موذن نہیں ملا، اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے لوگو ہم نے تم سب کو ایک مرد و عورت یعنی آدم و حوا سے پیدا کیا ہے، پھر تمہیں مختلف قومیں اور مختلف خاندان بنایا یا یہ کہ پھر تمہیں غلام اور آزاد بنایا صرف اس لیے تاکہ تم ایک دوسرے کو شناخت کرسکو کہ جس وقت تم سے پوچھا جائے کہ تم کون ہو تو جواب میں کہہ سکو کہ قریش سے ہوں یا کندہ وغیرہ سے۔ قیامت کے دن تو تم سب میں اللہ کے نزدیک بڑا شریف وہ ہے جو دنیا میں سب سے زیادہ پرہیزگار ہو اور وہ حضرت بلال ہیں۔ اللہ تعالیٰ تمہارے حسب و نسب کو اچھی طرح جاننے والا اور وہ وہی تمہارے اعمال اور اللہ کے نزدیک عزت والا ہونے سے پورا خبردار ہے۔ شان نزول : يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ (الخ) ابن ابی حاتم نے ابن ابی ملیکہ سے روایت کیا ہے کہ فتح مکہ کے دن حضرت بلال خانہ کعبہ کی چھت پر چڑھے اور اذان دی تو اس پر بعض لوگ کہنے لگے کیا یہ سیاہ غلام بیت اللہ کی چھت پر اذان دیتا ہے تو اس پر ان میں سے بعض نے کہا یہ اپنے علاوہ دوسرے سے اللہ تعالیٰ کو ناراض کردے گا اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی، اے لوگو ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے۔ اور ابن عساکر نے کہا ہے کہ میں نے ابن بشکوال کی تحریر میں پایا ہے کہ ابوبکر بن داؤد نے اپنی تفسیر میں روایت کیا ہے کہ یہ آیت ابی ہند کے بارے میں نازل ہوئی ہے، رسول اکرم نے بنی بیاضہ کو حکم دیا کہ اپنے میں سے کسی عورت کی ان سے شادی کردیں اس پر وہ لوگ بولے یا رسول اللہ ہم اپنی لڑکیوں کی اپنے غلاموں سے شادی کریں۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٣ { یٰٓـاَیُّہَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّاُنْثٰی } ” اے لوگو ! ہم نے تمہیں پیدا کیا ہے ایک مرد اور ایک عورت سے “ تم میں سے چاہے کوئی مومن ہے یا کوئی کافر و مشرک لیکن تم سب آدم ( علیہ السلام) اور حوا کی ہی اولاد ہو۔ { وَجَعَلْنٰکُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوْا } ” اور ہم نے تمہیں مختلف قوموں اور قبیلوں میں تقسیم کردیا ہے تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ “ ایک ماں باپ کی اولاد ہونے کی بنا پر اگر تمام انسان ایک رنگ اور ایک جیسی شکل و صورت کے حامل ہوتے تو ان کی پہچان مشکل ہوجاتی۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو دوسرے سے مختلف بنایا ہے اور پھر انہیں رنگ ‘ نسل زبان وغیرہ کی بنیاد پر مختلف قوموں اور قبیلوں میں تقسیم کردیا ہے تاکہ کروڑوں ‘ اربوں انسانوں کی پہچان اور تعارف میں کسی سطح پر کوئی مشکل پیش نہ آئے۔ یہاں دراصل اس اہم نکتے کی طرف توجہ دلانا مقصود ہے کہ انسانوں کے درمیان رنگ و نسل کا فرق اوراقوام و قبائل میں ان کی تقسیم ‘ اعلیٰ و ادنیٰ کی تمیز و تفریق کے لیے نہیں بلکہ ان کی باہمی جان پہچان اور تعارف کے لیے ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خطبہ حجۃ الوادع میں اس مضمون کی وضاحت ان الفاظ میں فرمائی : (یَا اَیُّھَا النَّاسُ ! اَلَا اِنَّ رَبَّکُمْ وَاحِدٌ وَاِنَّ اَ بَاکُمْ وَاحِدٌ‘ اَلَا لَا فَضْلَ لِعَرَبِیٍّ عَلٰی اَعْجَمِیِّ وَلَا لِعَجَمِیٍّ عَلٰی عَرَبِیٍّ وَلَا لِاَحْمَرَ عَلٰی اَسْوَدَ وَلَا اَسْوَدَ عَلٰی اَحْمَرَ اِلاَّ بِالتَّقْوٰی ) (١) ” لوگو ! آگاہ ہو جائو ‘ یقینا تمہارا رب ایک ہے اور تمہارا باپ بھی ایک ہے۔ خبردار ! نہ کسی عربی کو کسی عجمی پر کوئی فضیلت حاصل ہے اور نہ کسی عجمی کو کسی عربی پر۔ اور نہ کسی گورے کو کسی کالے پر کوئی فضیلت حاصل ہے اور نہ کسی کالے کو کسی گورے پر۔ فضیلت کی بنیاد صرف تقویٰ ہے۔ “ ایچ جی ویلز (١٨٦٦ ء۔ ١٩٤٦ ء) اپنی کتاب ” A Concise History of the World “ میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خطبہ مبارک کے یہ الفاظ نقل کرنے کے بعد گھٹنے ٹیک کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خراجِ تحسین پیش کرنے پر مجبور ہوگیا ہے۔ چناچہ عیسائی ہونے کے باوجود اس نے لکھا ہے : ” اگرچہ انسانی اخوت ‘ مساوات اور حریت کے وعظ تو دنیا میں پہلے بھی بہت کہے گئے تھے اور ایسے وعظ ہمیں مسیح ناصری کے ہاں بھی بہت ملتے ہیں ‘ لیکن یہ تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں کہ یہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی تھے جنہوں نے تاریخ انسانی میں پہلی بار ان اصولوں پر ایک معاشرہ قائم کیا۔ “ H.G.Wells کے اس تبصرے سے یہ نہ سمجھا جائے کہ وہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بہت بڑا مداح تھا ‘ بلکہ اس نے اپنی اسی کتاب میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شخصیت پر بہت رکیک حملے بھی کیے ہیں۔ اس حوالے سے اس کا انداز سلمان رشدی ملعون سے ملتا جلتا ہے ‘ لیکن اپنے تمام تر تعصب کے باوجود اسے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حوالے سے تاریخ کی یہ عظیم حقیقت تسلیم کرنا پڑی۔ مقامِ افسوس ہے کہ بعد کے ایڈیٹرز نے مصنف کے اس اعترافی بیان کو مذکورہ کتاب سے خارج کردیا ہے۔ اس لیے مذکورہ اقتباس کی تصدیق کے خواہش مند حضرات کو کسی لائبریری سے اس کتاب کا کوئی پرانا ایڈیشن تلاش کرنا پڑے گا۔ { اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقٰٹکُمْ } ” یقینا تم میں سب سے زیادہ با عزت اللہ کے ہاں وہ ہے جو تم میں سب سے بڑھ کر متقی ہے۔ “ { اِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ} ” یقینا اللہ سب کچھ جاننے والا ‘ ہرچیز سے باخبر ہے۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

28 In the preceding verses the Muslims were addressed and given necessary instructions to safeguard the Muslim community against social"evils. In this verse the whole of mankind bas been addressed to reform it of the great evil that has always been causing universal disruption in the world, that is, the prejudices due to race, colour, language, country, and nationality. On account of these prejudices man in every age has generally been discarding humanity and drawing around himself some small circles and regarding those born within those circles as his own people and those outside them as others. These circles have been drawn on the basis of accidental birth and not on rational and moral grounds. In some cases their basis is the accident of being born in a particular family, tribe, or race, and in some particular geographical region, or in a nation having a particular colour or speaking a particular language. Then the discrimination between one's own people and others is not only confide to this that those who are looked upon as one's own people are shown greater love and cooperation than others, but this discrimination has assumed the worst forms of hatred, enmity, contempt and tyranny. New philosophies have been propounded for it, new religions invented, new codes of law made and new moral principles framed; so much so that nations and empires have made this distinction a permanent way of life with them and practiced it for centuries. The Jews on this very basis regarded the children of Israel as the chosen people of God and even in the practice of their religious rites looked upon the non-Jews as inferior to the Jews in rights and rank. This very discrimination gave birth to class distinctions (varnashrama) among the Hindus according to which superiority of the Brahmins was established, all other human beings came to be regarded as inferior and unclean and the shudras cast into the depths of disgrace and degradation. Every person can see for himself even in this 20th century what atrocities have been committed against the colored people in Africa and America on account of the distinction between the white and the black. The treatment that the Europeans meted out to the Red Indian race in America and to the weak nations of Asia and Africa had the same concept underlying it. They thought that the lift and property and honor of all those who had been born outside the frontiers of their own land and nation were lawful for them and they had the right to plunder and take them as their slaves and exterminate them if need be. The worst examples of how the nationalism of the western nations has turned one nation against the others and made it their bloodthirsty enemy have been seen in the wars of the recent past and are being seen even in the present time. In particular, if what was manifested by the racism of the Nazi Germany and the concept of the superiority of the Nordic race m the last World War is kept in view. One can easily judge how stupendous and devastating is the error for whose reform this verse of the Qur'an was revealed. In this brief verse, AIlah has drawn the attention of all mankind to three cardinal truths: (1) "The origin of alI of you is one and the same: your whole species has sprung up from one man and one woman: aII your races that arc found in the world today are, in fact, the branches of one initial race that started with one mother and one father. In this process of creation there is no basis whatever for the divisions and distinctions in which you have involved yourselves because_ of your false notions. One God alone is your Creator. Different men have not been created by different Gods. You have been made from one and the same substance; it is not so that some men have been made from some pure and superior substance and some other men from some impure and inferior substance. You have been created in one and the same way; it is not also so that different men have been created in different ways. And you are the offspring of the same parents; it is not so that in the beginning there were many human couples which gave birth to different populations in the different regions of the world.' (2) "In spite of being one in origin it was natural that you should be divided into nations and tribes. Obviously,. alI the mcn on the earth could not belong to one and the same family. With the spread of the race it was inevitable that countless families should arise, and then tribes and nations should emerge from the families. Similarly, it was inevitable that after settling in different regions of the earth, there should be differences of colors, features, languages and ways of living among the people, and it was also natural that those living in the same region should be closer in affinity and those living in remote regions not so close; but this natural difference never demanded that distinctions of inequality, of high and low, of noble and mean, should be established on its basis, that one race should claim superiority over the other, the people of one color should look down upon the people of other colors, and that one nation should take preference over the ocher without any reason. The Creator had divided the human communities into nations and tribes for that was a natural way of cooperation and distinction between them. In this way alone could a fatuity, a brotherhood, a tribe and a nation combine to give birth to a common way of life and to cooperate with each other in the affairs of the world. But it was all due to satanic ignorance that the differences among mankind created by Allah to be a means of recognition, were trade a means of mutual boasting and hatred, which led mankind to every kind of injustice and tyranny. (3) The only basis of superiority and excellence that there is, or can be, between man and man is that of moral excellence. As regards birth, aII men arc equal, for their Creator is One, their substance of creation is one, and their way of creation is one, and they are descended from the same parents. Moreover, a person's being born in a particular country, nation, or clan is just accidental. Therefore, there is no rational ground on account of which one person may be regarded as superior to the other. The real thing that makes one person superior to others is that one should be more God-conscious, a greater avoider of evils, and a follower of the way of piety and righteousness. Such a man. whether he belongs to any race, any nation and any country, is valuable and worthy on account of his personal merit. And the one who is reverse of him in character is in any case an inferior person whether he is black or white, born in the east or the west. These same truths that have been stated in this beef verse of the Qur'an, have been explained in greater detail by the Holy Prophet in his addresses and traditions. In the speech that he made on the conquest of Makkah, after going round the Ka'bah, he said: 'Thank God Who has removed from you the blemish of ignorance and its arrogance. O people, men are divided into classes: the pious and righteous, who arc honorable in the sight of Allah, and the sinful and vicious, who arc contemptible in the sight of AIlah, whereas aII men are the children of Adam and Adam had been created by Allah from clay." (Baihaqi, Tirmidhi). On the occasion of the Farewell Pilgrimage, in the midst of the Tashriq days, he addressed the people, and said: 'O people, be aware: your God is One. No Arab has any superiority over a non-Arab, and no non-Arab any superiority over an Arab, and no white one has any superiority over a black one, and no black one any superiority over a white one, except on the basis of taqva (piety). The most honorable among you in the sight, of Allah is he who is the most pious and righteous of you. Say if I have conveyed the Message to you?" And the great congregation of the people responded, saying: Yes, you have, O Messenger of Allah." Thereupon the Holy Prophet said: "Then Iet the one who is present convey it to those who are absent," ( Baihaqi) In a Hadith he has said: "You are all the children of Adam, and Adam was created from the dust. Let the people give'up boasting of their ancestors, otherwise they will stand more degraded than a mean insect in the sight of Allah." ( Bazzar) In another Hadith the Holy Prophet said: "Allah will not enquire about your lineage on the Day of Resurrection. The most honourable in the sight of AIIah is he who is most pious. "(Ibn Jarir) In still another Hadith he said: "Allah dces not see your outward appearances and your possessions ,but He sees your hearts and your deeds." (Muslim, lbn Majah). These teachings have not remained confined to words only but Islam has practically established a universal brotherhood of the believers on the basis, which does not allow any distinction on account of color, race, language, country and nationality which is free from every concept of high and low, clean and unclean, mean and respectable, which admits all human beings with equal rights, whether they belong to any race and nation, any land or region. Even the opponents of Islam have had to admit that no precedent is found in any religion and any system of the success with which the principle of human equality and unity has been given practical shape in the Muslim society, nor has it ever been found. Islam is the only religion which has welded and combined innumerable races and communities scattered in all corners of the earth into one universal Ummah. In this connection, a misunderstanding also needs to be removed. In the case of marriage, the importance that Islamic law gives to kufv (likeness of status) has been taken by some people in the sense that some brotherhoods are noble and some mean, and matrimonial relations between them are objectionable. But this, in fact, is a wrong idea. According to the Islamic law, every Muslim man can marry every Muslim woman, but the success of the matrimonial life depends on maximum harmony and conformity between the spouses as regards habits, characteristics and ways of life, family traditions and economic and social status, so that they may get on well with each other. This is the real object of being equal and alike. Where there is unusual difference and disparity between the man and the woman in this regard, lifelong companionship will be difficult. That is why the Islamic law disapproves of such intermarriages, and not for the reason that one of the spouses is noble and the other mean, but for the reason that in case there is a clear and apparent difference and distention in status, there would be a greater possibility of the failure of the matrimonial life if the marriage relationship was establ ished. 29 That is, "This is only known to Allah as to who is really a ntan of high rank and who is inferior in respect of qualities and characteristics. The standards of high and low that the people have set up of their own accord, are not acceptable to and approved by AIIah. Maybe that the one who has been regarded as a man of high rank in the world is declared as the lowest of the low in the final judgment of AIIah, and maybe that the one who has been looked upon as a very low person here, attains to a very high rank there. The real importance is not of the honor and dishonor of the world but of the honor and dishonor that one will receive from Allah. Therefore, what man should. be most concerned about is that he should create in himself those real qualities and characteristics which make him worthy of honour in the sight of AIlah.

" سورة الْحُجُرٰت حاشیہ نمبر :28 پچھلی آیات میں اہل ایمان کو خطاب کر کے وہ ہدایات دی گئی تھیں جو مسلم معاشرے کو خرابیوں سے محفوظ رکھنے کے لیے ضروری ہیں ۔ اب اس آیت میں پوری نوع انسانی کو خطاب کر کے اس عظیم گمراہی کی اصلاح کی گئی ہے جو دنیا میں ہمیشہ عالمگیر فساد کی موجب بنی رہی ہے ، یعنی نسل ، رنگ ، زبان ، وطن اور قومیت کا تعصب قدیم ترین زمانے سے آج تک ہر دور میں انسان بالعموم انسانیت کو نظر انداز کر کے اپنے گرد کچھ چھوٹے چھوٹے دائرے کھینچتا رہا ہے جن کے اندر پیدا ہونے والوں کو اس نے اپنا ، اور باہر پیدا ہونے والوں کو غیر قرار دیا ہے ۔ یہ دائرے کسی عقلی اور اخلاقی بنیاد پر نہیں بلکہ اتفاقی پیدائش کی بنیاد پر کھنچے گئے ہیں ۔ کہیں ان کی بنا ایک خاندان ، قبیلے یا نسل میں پیدا ہونا ہے ، اور کہیں ایک جغرافی خطے میں یا ایک خاص رنگ والی یا ایک خاص زبان بولنے والی قوم میں پیدا ہو جانا ۔ پھر ان بنیادوں پر اپنے اور غیر کی جو تمیز قائم کی گئی ہے وہ صرف اس حد تک محدود نہیں رہی ہے کہ جنہیں اس لحاظ سے اپنا قرار دیا گیا ہو کہ ان کے ساتھ غیروں کی بہ نسبت زیادہ محبت اور زیادہ تعاون ہو ، بلکہ اس تمیز نے نفرت ، عداوت ، تحقیر و تذلیل اور ظلم و ستم کی بد ترین شکلیں اختیار کی ہیں ۔ اس کے لیے فلسفے گھڑے گئے ہیں ۔ مذہب ایجاد کیے گئے ہیں ۔ قوانین بنائے گئے ہیں ۔ اخلاقی اصول وضع کیے گئے ہیں ۔ قوموں اور سلطنتوں نے اس کو اپنا مستقل مسلک بنا کر صدیوں اس پر عمل در آمد کیا ہے ۔ یہودیوں نے اسی بنا پر بنی اسرائیل كو ‌خدا ‌كی ‌چیدا ‌مخلوق ‌ٹہرایا ‌اور ‌اپنے ‌مذہبی ‌احكام ‌تك ‌میں ‌غیر اسرائیلیوں ‌كے ‌حقوق ‌اور ‌مرتبے ‌كو بنی اسرائیلیوں سے فروتر رکھا ۔ ہندوؤں کے ہاں ورن آشرم کو اسی تمیز نے جنم دیا جس کی رو سے برہمنوں کی برتری قائم کی گئی ، اونچی ذات والوں کے مقابلے میں تمام انسان نیچ اور ناپاک ٹھہرائے گئے ، اور شودروں کو انتہائی ذلت کے گڑھے میں پھینک دیا گیا ۔ کالے اور گورے کی تمیز نے افریقہ اور امریکہ میں سیاہ فام لوگوں پر جو ظلم ڈھائے ان کو تاریخ کے صفحات میں تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ، آج اس بیسویں صدی ہی میں ہر شخص اپنی آنکھوں سے انہیں دیکھ سکتا ہے ۔ یورپ کے لوگوں نے براعظم امریکہ میں گھس کر ریڈ انڈین نسل کے ساتھ جو سلوک کیا اور ایشیا اور افریقہ کی کمزور قوموں پر اپنا تسلط قائم کر کے جو برتاؤ ان کے ساتھ کیا اسکی تہ میں بھی یہی تصور کار فرما رہا کہ اپنے وطن اور اپنی قوم کے حدود سے باہر پیدا ہونے والوں کی جان ، مال اور آبرو ان پر مباح ہے اور انہیں حق پہنچتا ہے کہ ان کو لوٹیں ، غلام بنائیں ، اور ضرورت پڑے تو صفحۂ ہستی سے مٹا دیں ۔ مغربی اقوام کی قوم پرستی نے ایک قوم کو دوسری قوموں کے لیے جس طرح درندہ بنا کر رکھ دیا ہے اس کی بد ترین مثالیں زمانہ قریب کی لڑائیوں میں دیکھی جاچکی ہیں اور آج دیکھی جا رہی ہیں ۔ خصوصیت کے ساتھ نازی جرمنی کا فلسفہ نسلیت اور نارڈک نسل کی برتری کا تصور پچھلی جنگ عظیم میں جو کرشمے دکھا چکا ہے انہیں نگاہ میں رکھا جائے تو آدمی بآسانی یہ اندازہ کر سکتا ہے کہ وہ کتنی عظیم تباہ کن گمراہی ہے جس کی اصلاح کے لیے قرآن مجید کی یہ آیت نازل ہوئی ہے ۔ اس مختصر سی آیت میں اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو مخاطب کر کے تین نہایت اہم اصولی حقیقتیں بیان فرمائی ہیں: ایک یہ کہ تم سب کی اصل ایک ہے ، ایک ہی مرد اور ایک ہی عورت سے تمہاری پوری نوع وجود میں آئی ہے ، اور آج تمہاری جتنی نسلیں بھی دنیا میں پائی جاتی ہیں وہ در حقیقت ایک ابتدائی نسل کی شاخیں ہیں جو ایک ماں اور ایک باپ سے شروع ہوئی تھی ۔ اس سلسلہ تخلیق میں کسی جگہ بھی اس تفرقے اور اونچ نیچ کے لیے کوئی بنیاد موجود نہیں ہے جس کے زعم باطل میں تم مبتلا ہو ۔ ایک ہی خدا تمہارا خالق ہے ، ایسا نہیں ہے کہ مختلف انسانوں کو مختلف خداؤں نے پیدا کیا ہو ۔ ایک ہی مادہ تخلیق سے تم بنے ہو ، ایسا بھی نہیں ہے کہ کچھ انسان کسی پاک یا بڑھیا مادے سے بنے ہوں اور کچھ دوسرے انسان کسی ناپاک یا گھٹیا مادے سے بن گئے ہوں ۔ ایک ہی طریقے سے تم پیدا ہوئے ہو ، یہ بھی نہیں ہے کہ مختلف خطوں کی آبادیاں الگ الگ پیدا ہوئی ہوں ۔ دوسرے یہ کہ اپنی اصل کے اعتبار سے ایک ہونے کے باوجود تمہارا قوموں اور قبیلوں میں تقسیم ہو جانا ایک فطری امر تھا ۔ ظاہر ہے کہ پوری روئے زمین پر سارے انسانوں کا ایک ہی خاندان تو نہیں ہو سکتا تھا ۔ نسل بڑھنے کے ساتھ ناگزیر تھا کہ بے شمار خاندان بنیں اور پھر خاندانوں سے قبائل اور اقوام وجود میں آجائیں ۔ اسی طرح زمین کے مختلف خطوں میں آباد ہونے کے بعد رنگ ، خد و خال ، زبانیں ، اور طرز بود و ماند بھی لا محالہ مختلف ہی ہو جانے تھے ، اور ایک خطے کے رہنے والوں کو باہم قریب تر اور دور دراز خطوں کے رہنے والوں کو بعید تر ہی ہونا تھا ۔ مگر اس فطری فرق و اختلاف کا تقاضا یہ ہرگز نہ تھا کہ اس کی بنیاد پر اونچ نیچ ، شریف اور کمین ، برتر اور کمتر کے امتیازات قائم کیے جائیں ، ایک نسل دوسری نسل پر اپنی فضیلت جتائے ، ایک رنگ کے لوگ دوسرے رنگ کے لوگوں کو ذلیل و حقیر جانیں ، ایک قوم دوسری قوم پر اپنا تفوّق جمائے ، اور انسانی حقوق میں ایک ایک گروہ کو دوسرے گروہ پر ترجیح حاصل ہو ۔ خالق نے جس وجہ سے انسانی گروہوں کو اقوام اور قبائل کی شکل میں مرتب کیا تھا وہ صرف یہ تھی کہ ان کے درمیان باہمی تعارف اور تعاون کی فطری صورت یہی تھی ۔ اسی طریقے سے ایک خاندان ، ایک برادری ، ایک قبیلے اور ایک قوم کے لوگ مل کر مشترک معاشرت بنا سکتے تھے اور زندگی کے معاملات میں ایک دوسرے کے مددگار بن سکتے تھے ۔ مگر یہ محض شیطانی جہالت تھی کہ جس چیز کو اللہ کی بنائی ہوئی فطرت نے تعارف کا ذریعہ بنایا تھا اسے تفاخُر اور تنافُر کا ذریعہ بنا لیا گیا اور پھر نوبت ظلم و عدو ان تک پہنچا دی گئی ۔ تیسرے یہ کہ انسان اور انسان کے درمیان فضیلت اور برتری کی بنیاد اگر کوئی ہے اور ہو سکتی ہے تو وہ صرف اخلاقی فضیلت ہے ۔ پیدائش کے اعتبار سے تمام انسان یکساں ہیں ، کیونکہ ان کا پیدا کرنے والا ایک ہے ، ان کا مادہ پیدائش اور طریق پیدائش ایک ہی ہے ، اور ان سب کا نسب ایک ہی ماں باپ تک پہنچتا ہے ۔ علاوہ بریں کسی شخص کا کسی خاص ملک قوم یا برادری میں پیدا ہونا ایک اتفاقی امر ہے جس میں اس کے اپنے ارادہ و انتخاب اور اس کی اپنی سعی و کوشش کا کوئی دخل نہیں ہے ۔ کوئی معقول وجہ نہیں کہ اس لحاظ سے کسی کو کسی پر فضیلت حاصل ہو ۔ اصل چیز جس کی بنا پر ایک شخص کو دوسروں پر فضیلت حاصل ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ وہ دوسروں سے بڑھ کر خدا سے ڈرنے والا ، برائیوں سے بچنے والا ، اور نیکی و پاکیزگی کی راہ پر چلنے والا ہو ۔ ایسا آدمی خواہ کسی نسل ، کسی قوم اور کسی ملک سے تعلق رکھتا ہو ، اپنی ذاتی خوبی کی بنا پر قابل قدر ہے ۔ اور جس کا حال اس کے برعکس ہو وہ بہرحال ایک کمتر درجے کا انسان ہے چاہے وہ کالا ہو یا گورا ، مشرق میں پیدا ہوا ہو یا مغرب میں ۔ یہی حقائق جو قرآن کی ایک مختصر سی آیت میں بیان کیے گئے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اپنے مختلف خطبات اور ارشادات میں زیادہ کھول کر بیان فرمایا ہے ۔ فتح مکہ کے موقع پر طواف کعبہ کے بعد آپ نے جو تقریر فرمائی تھی اس میں فرمایا: الحمد للہ الذی اذھب عنکم عیبۃ الجاھلیۃ و تکبرھا ۔ یاایھا الناس ، الناس رجلان ، برٌّ تقی کریمٌ علی اللہ ، و فاجر شقی ھَیِّنٌ علی اللہ ۔ الناس کلہم بنو اٰدم و خلق اللہ اٰدمَ من ترابٍ ۔ ( بیہقی فی شعب الایمان ۔ ترمذی ) شکر ہے اس خدا کا جس نے تم سے جاہلیت کا عیب اور اس کا تکبر دور کر دیا ۔ لوگو ، تمام انسان بس دو ہی حصوں میں تقسیم ہوتے ہیں ۔ ایک ، نیک اور پرہیز گار ، جو اللہ کی نگاہ میں عزت والا ہے ۔ دوسرا فاجر اور شقی ، جو اللہ کی نگاہ میں ذلیل ہے ۔ ورنہ سارے انسان آدم کی اولاد ہیں اور اللہ نے آدم کو مٹی سے پیدا کیا تھا ۔ حجۃ الوداع کے موقع پر ایام تشریق کے وسط میں آپ نے ایک تقریر کی اور اس میں فرمایا: یا ایھا الناس ، الا ان ربکم واحدٌ لا فضل لعربی علی عجمی ولا لعجمی علیٰ عربی ولا لاسود علی احمر ولا لاحمر علی اسود الا بالتقویٰ ، ان اکرمکم عند اللہ اتقٰکم ۔ الا ھل بلغتُ؟ قالوا بلیٰ یا رسول اللہ ، قال فلیبلغ الشاھد الغائب ۔ ( بیہقی ) لوگو ، خبردار رہو ، تم سب کا خدا ایک ہے ۔ کسی عرب کو کسی عجمی پر اور کسی عجمی کو کسی عرب پر اور کسی گورے کو کسی کالے پر اور کسی کالے کو گورے پر فضیلت حاصل نہیں ہے مگر تقویٰ کے اعتبار سے ۔ اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیز گار ہو ۔ بتاؤ ، میں نے تمہیں بات پہنچا دی ہے؟ لوگوں نے عرض کیا ہاں یا رسول اللہ ۔ فرمایا ، اچھا تو جو موجود ہے وہ ان لوگوں تک یہ بات پہنچا دے جو موجود نہیں ہیں ۔ ایک حدیث میں آپ کا رشاد ہے : کلکم بنو اٰدم و اٰدم خلق من تراب ولینتھینَّ قوم یفخرون بآبائِھم او لیکونن اھون علی اللہ من الجعلان ۔ ( بزار ) تم سب آدم کی اولاد ہو اور آدم مٹی سے پیدا کیے گئے تھے ۔ لوگ اپنے آباؤ اجداد پر فخر کرنا چھوڑ دیں ورنہ وہ اللہ کی نگاہ میں ایک حقیر کیڑے سے زیادہ ذلیل ہوں گے ۔ ایک اور حدیث میں آپ نے فرمایا: ان اللہ لا یسئلکم عن احسابکم ولا عن انسابکم یوم القیٰمۃ ، ان اکرمکم عنداللہ اتقٰکم ۔ ( ابن جریر ) اللہ قیامت کے روز تمہارا حسب نسب نہیں پوچھے گا ۔ اللہ کے ہاں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیز گار ہو ۔ ایک اور حدیث کے الفاظ یہ ہیں: انّ اللہ لا ینظر الیٰ صُورکم و اموالکم ولکن ینظر الیٰ قلوبکم و اعمالکم ( مسلم ۔ ابن ماجہ ) اللہ تمہاری صورتیں اور تمہارے مال نہیں دیکھتا بلکہ وہ تمہارے دلوں اور تمہارے اعمال کی طرف دیکھتا ہے ۔ یہ تعلیمات صرف الفاظ کی حد تک ہی محدود نہیں رہی ہیں بلکہ اسلام نے ان کے مطابق اہل ایمان کی ایک عالمگیر برادری عملاً قائم کر کے دکھا دی ہے جس میں رنگ ، نسل ، زبان ، وطن اور قومیت کی کوئی تمیز نہیں جس میں اونچ نیچ اور چھوت چھات اور تفریق و تعصب کا کوئی تصور نہیں ، جس میں شریک ہونے والے تمام انسان خواہ وہ کسی نسل و قوم اور ملک و وطن سے تعلق رکھتے ہوں بالکل مساویانہ حقوق کے ساتھ شریک ہو سکتے ہیں اور ہوئے ہیں ۔ اسلام کے مخالفین تک کو یہ تسلیم کرنا پڑا ہے کہ انسانی مساوات اور وحدت کے اصول کو جس کامیابی کے ساتھ مسلم معاشرے میں عملی شکل دی گئی ہے اس کی کوئی نظیر دنیا کے کسی دین اور کسی نظام میں نہیں پائی جاتی نہ کبھی پائی گئی ہے ۔ صرف اسلام ہی وہ دین ہے جس نے روئے زمین کے تمام گوشوں میں پھیلی ہوئی بے شمار نسلوں اور قوموں کو ملا کر ایک امت بنا دیا ہے ۔ اس سلسلہ میں ایک غلط فہمی کو رفع کر دینا بھی ضروری ہے ۔ شادی بیاہ کے معاملہ میں اسلامی قانون کفو کو جو اہمیت دیتا ہے اس کو بعض لوگ اس معنی میں لیتے ہیں کہ کچھ برادریاں شریف اور کچھ کمین ہیں اور ان کے درمیان مناکحت قابل اعتراض ہے ۔ لیکن دراصل یہ ایک غلط خیال ہے ۔ اسلامی قانون کی رو سے ہر مسلمان مرد کا ہر مسلمان عورت سے نکاح ہو سکتا ہے ، مگر ازدواجی زندگی کی کامیابی کا انحصار اس پر ہے کہ زوجین کے درمیان عادات ، خصائل ، طرز زندگی ، خاندانی روایات اور معاشی و معاشرتی حالات میں زیادہ سے زیادہ مطابقت ہوتا کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ اچھی طرح نباہ کر سکیں ۔ یہی کفاءت کا اصل مقصد ہے ۔ جہاں مرد اور عورت کے درمیان اس لحاظ سے بہت زیادہ بعد ہو وہاں عمر بھر کی رفاقت نبھ جانے کی کم ہی توقع ہو سکتی ہے ، اس لیے اسلامی قانون ایسے جوڑ لگانے کو ناپسند کرتا ہے ، نہ اس بنا پر کہ فریقین میں سے ایک شریف اور دوسرا کمین ہے ، بلکہ اس بنا پر کہ حالات میں زیادہ بین فرق و اختلاف ہو تو شادی بیاہ کا تعلق کرنے میں ازدواجی زندگیوں کے ناکام ہو جانے کا زیادہ امکان ہوتا ہے ۔ سورة الْحُجُرٰت حاشیہ نمبر :29 یعنی یہ بات اللہ ہی جانتا ہے کہ کون فی الواقع ایک اعلیٰ درجہ کا انسان ہے اور کون اوصاف کے لحاظ سے ادنیٰ درجے کا ہے ۔ لوگوں نے بطور خود اعلیٰ اور ادنیٰ کے جو معیار بنا رکھے ہیں یہ اللہ کے ہاں چلنے والے نہیں ہیں ۔ ہو سکتا ہے کہ جس کو دنیا میں بہت بلند مرتبے کا آدمی سمجھا گیا ہو وہ اللہ کے آخری فیصلے میں کم ترین خلائق قرار پائے ، اور ہو سکتا ہے کہ جو یہاں بہت حقیر سمجھا گیا ہو ، وہ وہاں بڑا اونچا مرتبہ پائے ۔ اصل اہمیت دنیا کی عزت و ذلت کی نہیں بلکہ اس ذلت و عزت کی ہے جو خدا کے ہاں کسی کو نصیب ہو ۔ اس لیے انسان کو ساری فکر اس امر کی ہونی چاہیے کہ وہ اپنے اندر وہ حقیقی اوصاف پیدا کرے جو اسے اللہ کی نگاہ میں عزت کے لائق بنا سکتے ہوں ۔ "

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

9: اس آیت کریمہ نے مساوات کا یہ عظیم اصول بیان فرمایا ہے کہ کسی کی عزت اور شرافت کا معیار اس کی قوم اس کا قبیلہ یا وطن نہیں ہے، بلکہ تقوی ہے۔ سب لوگ ایک مرد و عورت یعنی حضرت آدم و حواء علیہما السلام سے پیدا ہوئے ہیں، اور اللہ تعالیٰ نے مختلف قبیلے خاندان یا قومیں اس لیے نہیں بنائیں کہ وہ ایک دوسرے پر اپنی بڑائی جتائیں، بلکہ ان کا مقصد صرف یہ ہے کہ بے شمار انسانوں میں باہمی پہچان کے لیے کچھ تقسیم قائم ہوجائے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٣۔ سورة بقرہ میں گزر چکا ہے کہ اسلام سے پہلے قریش لوگ حج سے فارغ ہونے کے بعد اپنے باپ دادا کی مدح کے شعر پڑھا کرتے تھے جس طریقہ کو اسلام کے بعد اللہ تعالیٰ نے موقوف کردیا اسی طرح اور موقعوں پر بھی عرب میں شرافت خاندانی کے فخر کا بڑا دستور تھا اسی دستور کے سبب سے بعض قبیلے بعضوں کو حقیر جانتے تھے جس سے وہ باتیں پیش آتی تھیں جن کی مناہی اوپر کی آیتوں میں گزری اسی واسطے اس آیت میں فرمایا اے لوگو اللہ تعالیٰ نے تم سب کو ایک ماں باپ آدم اور حوا سے پیدا کیا اس لئے بنی آدم کو آپس میں بزرگی جتلانے کے لئے کوئی نئی بات پیدا کرنی چائے اپ یہ یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ نئی بات پرہیز گاری ہے جس ذات برادری کو تم لوگ فخر سمجھتے ہو اللہ کے نزدیک وہ فخر کی چیز نہیں ہے بلکہ وہ تو فقط اس لئے ہے کہ مثلاً بنی اسرائیل اور بن اسماعیل کے کہنے سے لوگ جدا جدا پہنچانے جائیں۔ صحیح بخاری ١ ؎ میں ابوہریرہ (رض) سے روایت ہیں جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (١ نے فرمایا جس شخص کے مزاج میں پرہیز گاری زیادہ ہے اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہی زیادہ عزت والا اور شریف ہے اس حدیث کو آیت کے ساتھ ملانے سے یہ مطلب ہوا کہ شریعت میں جن کاموں کے کرنے کا حکم ہے خالص دل سے ان کو کرنا اور جن باتوں کی مناہی ہے ان سے بچنا اسی کا نام پرہیز گاری ہے اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں یہی پرہیز گاری بڑی عزت کی چیز ہے اب پرہیز گاری میں دل کے خالص ہونے کی جو شرط ہے اس کا حال سوائے اللہ تعالیٰ کے کسی کو معلوم نہیں اس کا حال اللہ ہی کو خوف معلوم ہے کہ حقیقت میں کون شریف ہے۔ زبردستی جو لوگ اپنی شرافت کا دعویٰ کرتے ہیں وہ ایک بےسند دعویٰ ہے جو اللہ کو پسند نہیں۔ جس طرح یہاں قوم کی بڑی جماعت کو ذات اور چھوٹی کو برادری کہتے ہیں اسی طرح عرب میں بڑی جماعت کو شعوب اور چھوٹی چھوٹی کو قبائل کہتے ہیں۔ ؎ صحیح بخاری باب لقد کان فی یوسف واخوتۃ ایۃ للسائلین ص ٤٧٩ ج ١۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(49:13) من ذکر وانثی۔ ایک ہی مرد اور ایک ہی عورت سے ای من ادم وحواء (علیہما السلام) فالکل سواء فی ذلک فلاوجہ للتفاخر بالنسب یعنی سب کو آدم اور حوا سے پیدا کیا۔ اس میں سے ایک برابر ہیں اور نسب میں کسی کے لئے کوئی وجہ تفاخر نہیں وجعلنکم شعوبا و قبائل : شعوب جمع ہے۔ شعب کی۔ اور شعوب وہ الجمع العظیم ہے جن کا انستاب ایک ہی اصل کی طرف ہو۔ شعب سے قبیلے پھوٹتے ہیں پھر شاخ در شاخ سلسلہ کثرت سے قلت کی طرف چلا جاتا ہے۔ عرب میں قبیلہ کی تدریجی تقسیم کثرت سے قلت کی طرف ترتیب حسب ذیل ہے :۔ (1) پہلے شعب، (2) پھر قبیلہ (3) پھر عمارہ (4) پھر بطن (5) پھر فخد (6) پھر فیصلہ۔ ابو اسامہ نے تصریح کی ہے کہ یہ طبقے انسانی خلقت کی ترتیب پر ہیں ۔ شعب ، سب سے عظیم تر ہے۔ شعب، الراس (جہاں دماغ کے چاروں حصے جڑ تے ہیں سے مشتق ہے پھر قبیلہ اپنے اجتماع کی بنا پر قبیلۃ الراس (کھوپری کا وہ حصہ جو شاخ در شاخ ہوتا ہے) سے پھر عمارۃ ہے جس کے معنی سینہ کے ہیں۔ پھر بطن (پیٹ) ہے پھر فخذ (ران) ہے پھر فیصلہ ہے جس کے معنی پنڈلی کے ہیں۔ پھر عرب کے قبیلوں کی تقسیم یوں کی گئی ہے۔ شعب (خزیمہ) ، قبیلہ (کنانہ) عمارۃ (قریش) ، بطن (قصی) فخذ (ہاشم) فصیلہ (العباس) ۔ لتعارفوا۔ شعوب اور قبائل وغیرہ بنانے کی علت ہے۔ یہ اس لئے کہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ اکرمکم : اکرم اسم تفضیل کا صیغہ ہے مضاف۔ کم ضمیر مفعول جمع مذکر حاضر مضاف الیہ۔ تم میں سے زیادہ باعزت۔ زیادہ معزز۔ اتقکم : اتقی اسم تفضیل کا صیغہ ہے مضاف، کم مضاف الیہ۔ تم میں سے زیادہ متقی۔ ای ھو الذی اتقکم۔ جو تم میں سے زیادہ متقی ہے۔ علیم : ای بکم وباعمالکم تمہیں اور تمہارے اعمال کو جانتا ہے۔ خبیر بابطن احوالکم۔ تمہارے اندرونی حالات سے باخبر ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 9 یعنی ایک باپ اور ایک ماں کی اولاد ہونے کی بنا پر تم سب کا مرتبہ یکساں ہے۔ لہٰذا کسی کا اپنے نسب پر فخر کرنا اور دوسرے کے نسب کو ذلیل سمجھنا جہالت ہے۔ 10 یعنی اپنی اصل کے اعتبار سے ایک ہونے کے باوجود تمہارا مختلف قوموں اور قبیلوں میں تقسیم ہونا چونکہ فطری امر تھا اس لئے ہم نے تمہیں تقسیم کردیا مگر اس تقسیم کا مقصد برتر اور کمتر کا ا امتیاز قائم کرنا نہیں ہے بلکہا یک دوسرے کی پہچان ہے تاکہ باہم تعان کی فطری صورت پیدا ہو۔ 11 یعنی ترجیح اور برتری کی بنیاد نسلی امتیازات پر نہیں ہے بلکہ پرہیز گاری پر ہے۔ حجتہ الوداع کے خطبہ میں آنحضرت نے اس کی خوب وضاحت فرمائی ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن : آیت نمبر 13 : خلقنا (ہم نے پیدا کیا) ذکر (مرد) انثی (عورت) شعوب (خاندان) ‘ قبائل (قبیلے) ‘ لتعارفوا (تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو) ‘ اکرم (سب سے زیادہ عزت والا) ‘ اتقی (بہت زیادہ پرہیز گار) ۔ تشریح : آیت نمبر 13 : دنیا پرستوں نے مال و دولت کی بنیاد دیر ساری کائنات کے لوگوں کو دو حصوں میں تقسیم کررکھا ہے۔ ایک طرف تو غریب مزدور اور محت کش طبقہ ہے دوسری طرف دولت مند ‘ سرمایہ دار اور عیش پسند طبقہ ہے۔ لوگوں کے نزدیک جس کے پاس جتنی دولت ‘ سرمایا اور اونچی بلڈنگیں اور بہتریں سوراریاں ہیں اس کو عزت دار اور بڑا آدمی سمجھا جاتا ہے خواہ اس میں ہزاروں عیب کیوں نہ ہوں اس کے بر خلاف وہ آدمی جس کے پاس مال و دولت نہیں ہے محض اس کی اپنی ذاتی شرافت ہے اور دنیاوی وسائل سے وہ محروم ہے تو اس کو معاشرہ میں چھوٹا آدمی سمجھا جاتا ہے۔ اس طبقاتی تقسیم نے دنیا میں سارے فسادات اور ظلم و جبر کو جنم دیا ہے۔ اسی لئے دین اسلام نے انسانی شرافت اور بڑائی کا معیار مال و دولت اور سرمائے کو نہیں بلکہ تقویٰ اور پرہیز گاری کو قرار دیا ہے۔ وہ شخص جو اللہ سے ڈرتا ہے تقویٰ اور پرہیزگاری کی زندگی گذارتا ہے وہ اللہ کے نزدیک انتہائی معزز اور قابل احترام ہے لیکن وہ سرمایہ دار شخص جو برائیوں اور گناہوں میں مبتلا ہے ‘ اللہ کا نافرمان اور ظالم و جابر ہے وہ دنیا والوں کی نظر میں کتنا ہی باعزت اور بڑا آدمی ہو اللہ کی نظر میں اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ حضرت عبد اللہ ابن عباس (رض) نے اسی حقیقت کو بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ دنیا کے لوگوں کے نزدیک عزت و شرافت کا معیار مال و دولت ہے لیکن اللہ کے نزدیک تقویٰ ہے۔ جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے علان نبوت فرمایا اس وقت بھی رنگ و نسل ‘ زبان ‘ وطن ‘ خاندان ‘ اولاد ‘ مال و دولت اور نسبی شرافت پر فخر کیا جاتا تھا۔ لیکن نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس ادنیٰ اور اعلیٰ کے من گھڑت تصور کو بےبنیاد قرار دے کر تقویٰ و پرہیز گاری کو انسانی شرافت کا معیار قرار دیا چناچہ آ پنے اپنے آخری خطبہ میں ارشاد فرمایا کہ تمام لوگ آدم (علیہ السلام) کی اولاد ہیں جنہیں مٹی سے پیدا کیا گیا ہے نہ کسی عربی کو عجمی پر اور نہ کسی عجمی کو عربی پر نہ کسی کالے کو گورے پر اور نہ کسی سفید اور سرخ رنگ والے کو دوسروں پر سوائے تقویٰ کے کوئی بڑائی اور فضیلت حاصل نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تمام لوگوں کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ اے لوگو ! ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت (آدم ؐ و حوا (علیہ السلام) ) سے پیدا کیا ہے اور تمہیں قبیلوں اور خاندانوں میں محض ایک دوسرے کو پہچاننے کے لئے تقسیم کیا ہے۔ بیشک اللہ کو ہر بات کا پورا پورا علم ہے اور وہ ہر ایک کی خبر رکھنے والا ہے۔ صرف دین اسلام ہی وہ دین ہے جس نے ساری دنیا میں پھیلی ہوئی بیشمار مخلوق کی نسلوں اور قوموں کو ملا کر ایک بنایا ہے ورنہ دنیا پر ستوں نے تو لوگوں کو اتنے خانوں میں تقسیم کرکے رکھ دیا ہے کہ آدمیت کی شکل پہچاننا بھی مشکل ہوگیا ہے۔ انسانی شکل کا یہ بگاڑ انسان کی خود غرضی ‘ لالچ ‘ رنگ و نسل ‘ زبان ‘ وطن اور قومیت اور اس کی تقسیم سے پیدا ہوا ہے۔ یہ صرف دین اسلام ہی ہے جس نے ساری دنیا کو بتادیا کہ ذات ‘ پات ‘ چھوٹا ‘ بڑا ‘ کالا ‘ گورا ‘ عرب اور عجم ان سب کی اصل ایک ہے کیونکہ اللہ نے سب مردوں اور عورتوں کو ایک ہی ماں باپ سے وجود عطا کیا ہے۔ قبیلہ ‘ خاندان ‘ زبان اور وطن یہ ایک دوسرے کی پہچان کا ذریعہ تو ہیں لیکن ان میں فخر و غرور کی کوئی بات نہیں ہے۔ تاریخ انسانی گواہ ہے کہ قومیتوں ‘ خاندانوں اور قبیلوں پر فخر نے انسان کو اتنا نقصان پہنچایا ہے کہ آج پوری دنیا کے تمام خطوں میں شدید کرب اور اذیت میں مبتلا لوگوں کی چیخیں اور آہیں بھی گھٹ کر رہ گئی ہیں۔ نسل پرستی کے نعرے کی ابتدا یہودیوں سے ہوئی ہے جنہوں نے بنی اسرائیل کو اللہ کی منتخب اور پسندیدہ مخلوق قرار دے کر غیر اسرائیلیوں کو حقیر و ذلیل کر کے رکھ دیا ہے۔ ہندوؤں نے برہمنوں کو ساری عزت و سر بلندی کا مالک قرار دے کر شودروں اور نیچی ذات والوں کو ذلت کے گڑھے میں پھینک دیا ہے۔ افریقہ اور امریکہ میں کالے اور گورے کے فرق نے جو تباہی مچائی ہے اس سے تاریخ بھی شرماجاتی ہے۔ یورپ کے گوروں نے براعظم امریکہ میں ریڈانڈین نسل کے ساتھ جو ظالمانہ اور غیر انسانی سلوک کیا ہے اس کی داستانوں کی گونج سے آج بھی پورا امریکہ لرزرہا ہے۔ یورپ کے سرمایہ دار اگر غریب اور مزدور پر ظلم کی انتہا نہ کردیتے تو کمیونزم اور سوشلزم کا کینسر جنم نہ لیتا۔ ان ہی باتوں کا اثر ہے کہ نازی جرمنوں کے نسل پرستانہ فلسفہ اور نارڈک نسل کی برتری نے دنیا کو پہلی جنگ عظیم کے شعلوں میں دھکیل دیا جس کے نتیجے میں دوسری جنگ عظیم ہوئی۔ ہر ملک نے اپنی حفاظت کے نام پر ایسے ایسے ہتھیار بناڈالے کہ انسان کو بارود کے ڈھیر پر لاکر بٹھا دیا ہے نجانے کب کوئی پاگل اور دیوانہ سر براہ ساری دنیا کو تباہو برباد کرنے کا سبب بن جائے۔ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو متقی اور غیر متقی میں تقسیم کرکے انسانیت پر احسان عظیم کیا ہے اور یہی فلسفہ حیات اب بھی دنیا بھر کے لوگوں کو انسانیت کے اعلیٰ مقام تک پہنچا سکتا ہے۔ دنیا کے سامریوں نے سرمایہداری کے بچھڑے کو اتنا طاقت ور بنا دیا ہے کہ اس کا مقابلہ مشلک ہے لیکن اللہ کا نظام انسانوں کے ان بتوں کو توڑ نے کی طرف متوجہ ہوچکا ہے اور عجب نہیں کہ اللہ اپنے دین کو ہر نظریہ حیات اور ہر ایک دین پر غالب کرنے کے لئے سوئی ہوئی امت کو جگا کر دنیا کی باگ ڈوران کے ہاتھ میں تھمادے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ شعب خاندان کی جڑ کو کہتے ہیں اور قبیلہ اس کی شاخ کو مثلا ایک شعب ہے اور حسنی و حسینی قبائل ہیں، وعلی ھذا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اخلاقی اور لسانی عیوب سے بچنے کے لیے یہ حقیقت بتلائی اور اس کے ذریعے احساس دلایا ہے کہ تم بنیادی طور پر ایک ہی ماں، باپ کی اولاد ہو لہٰذا تمہیں بدگمانی، ایک دوسرے کا تجسس اور غیبت کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔ اے لوگو ! تمہارے رب کا فرمان ہے کہ ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے اور تمہارے خاندان اور پھر قبیلے بنائے تاکہ تمہیں ایک دوسرے کو جاننے اور پہچاننے میں آسانی ہو۔ تمہارے خاندان اور قبائل بنانے کا یہ مقصد نہیں کہ تم خاندان اور قبائل کی بنیاد پر ایک دوسرے پر فخر کرو۔ یقیناً ” اللہ “ کے نزدیک تم میں سے وہی عزت والا ہے جو تم میں سے زیادہ پرہیزگار ہے یقیناً اللہ تعالیٰ سب کچھ جاننے والا اور ہر بات سے باخبر ہے۔ ” شُعُوْبً “ شعبٌ کی جمع ہے۔ شعوب کا لفظ وسیع تر معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ عمرانیات کے ماہرین نے اس کے کئی معانی بیان کیے ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے۔ 1 ۔ لوگوں کا بڑا گروہ جو ایک باپ کی طرف منسوب ہو۔ 2 ۔ لوگوں کی ایک بڑی جماعت جو ایک سوشل نظام کے ماتحت ہو۔ 3 ۔ وہ جماعت جس کے افراد کی بودوباش اور زبان ایک ہو۔ 4 ۔ قبیلے کی جمع قبائل ہے جس کا معنٰی ایک باپ یا دادا کی طرف منسوب لوگ ہیں۔ خاندان اور قبائل بنانے کا مقصد یہ ہے کہ تمہیں ایک دوسرے کو پہچاننے میں آسانی ہو۔ قبیلہ سے مراد ایک برادری بھی ہوسکتی ہے جس طرح پاکستان میں مختلف ناموں پر برادریاں ہیں اور پھر بڑی برادریوں کے درمیان بھی برادریاں ہوتی ہے۔ پھر ان میں خاندان ہیں۔ عام طور پر ایک دادا کی اولاد کو ایک خاندان سمجھا جاتا ہے۔ (یَآ أَیُّھَا النَّاسُ ! أَلَآ إِنَّ رَبَّکُمْ وَاحِدٌ وَإِنَّ أَبَاکُمْ وَاحِدٌ أَلَا لَا فَضْلَ لِعَرَبِیٍّ عَلٰی أَعْجَمِیٍّ وَلَا لِعَجَمِیٍّ عَلٰی عَرَبِیٍّ وَلَا لِأَحْمَرَ عَلآی أَسْوَدَ وَلَا لِاَسْوَدَ عَلٰی أَحْمَرَ إِلَّا بالتَّقْوٰی) (مسند أحمد : کتاب مسند الأنصار، باب حدیث رجل من أصحاب النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ” اے لوگو ! خبردار یقیناً تمہارا رب ایک ہے اور تمہارا باپ بھی ایک ہے۔ خبردار ! کسی عربی کو کسی عجمی پر اور کسی عجمی کو کسی عربی پر، کسی سرخ کو کالے پر اور کسی کالے کو سرخ پر تقویٰ کے سوا کوئی فضیلت حاصل نہیں۔ “ (عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُوْلُ مَنْ خَرَجَ مِنَ الطَّاعَۃِ وَفَارَقَ الْجَمَاعَۃَ فَمَاتَ مَاتَ مِیْتَۃً جَاھِلِیَّۃً وَمَنْ قَاتَل تَحْتَ رَایَۃٍ عِمِّیَّۃٍ یَغْضَبُ لِعَصَبِیَّۃٍ اَوْیَدْعُوْ لِعَصَبِیَّۃٍ اَوْ یَنْصُرُ عَصَبِیَّۃً فَقُتِلَ فَقِتْلَۃٌ جَاھِلِیَّۃٌ وَمَنْ خَرَجَ عَلٰی اُمَّتِیْ بِسَیْفِہٖ یَضْرِبُ بَرَّھَا وَ فَاجِرَھَا وَلَا یَتَحَاشَ مِنْ مُؤْمِنِھَا وَلَا یَفِیْ لِذِیْ عَھْدٍ عَھْدَہٗ فَلَیْسَ مِنِّی وَلَسْتُ مِنْہُ ) (رواہ مسلم : باب الأَمْرِ بِلُزُومِ الْجَمَاعَۃِ عِنْدَ ظُہُورِ الْفِتَنِ وَتَحْذِیر الدُّعَاۃِ إِلَی الْکُفْرِ ) حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے سنا، جو اطاعت اور جماعت سے علیحدہ ہوا اور وہ اسی حالت میں فوت ہوا، تو وہ جاہلیت کی موت مرا اور جو شخص نامعلوم جھنڈے کے نیچے لڑتا رہا، عصبیت کی خاطر غیرت میں آیا اور عصبیت کی دعوت دیتا رہا، یا عصبیت کی وجہ سے مدد کرتا ہوا قتل ہوا، اس کا قتل، جہالت پر ہوگا۔ جو شخص میری امت کے خلاف تلوار سونت کر نیک و بد سب کو تہ تیغ کرتا چلا گیا اور کسی مومن کی اس نے پروا نہ کی اور نہ ہی کسی عہد والے کے عہد کا پاس کیا، وہ مجھ سے نہیں اور نہ میرا اس سے کوئی تعلق ہے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے آدم (علیہ السلام) کو پیدا کیا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک مرد اور عورت سے تخلیق فرمایا۔ ٣۔ کنبے اور قبیلے بنانے کا مقصد ایک دوسرے کی پہچان ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک عزت کا معیار تقویٰ ہے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ سب کچھ جاننے والا اور ہر چیز سے باخبر ہے۔ تفسیر بالقرآن تقویٰ کی اہمیت و فضیلت : ١۔ مصیبتوں میں صبر اختیار کرنا اور سچ بولنا تقویٰ ہے۔ (البقرۃ : ١٧٧) ٢۔ حلال روزی کھانا، اللہ پر ایمان لانا اور اس سے ڈرنا تقویٰ ہے۔ (المائدۃ : ٨٨) ٣۔ اپنے اہل و عیال کو نماز کا حکم دینا اور اس پر قائم رہنا تقویٰ ہے۔ (طٰہٰ : ١٣٢) ٤۔ شعائر اللہ کا احترام کرنا تقویٰ ہے۔ (الحج : ٣٢) ٥۔ حج کے سفر میں زاد راہ لینا تقویٰ ہے۔ (البقرۃ : ١٩٧) ٦۔ متقی کی خطائیں معاف اور ان کے لیے بڑا اجر ہوگا۔ (الطلاق : ٤ تا ٥) ٧۔ متقین کے لیے ان کے رب کے پاس نعمتوں والی جنت ہے۔ (القلم : ٣٤) ٨۔ متقین اولیاء اللہ ہیں جو قیامت کے دن بےخوف ہوں گے۔ ( یونس : ٦١ تا ٦٤)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یایھا الناس انا ۔۔۔۔ علیم خبیر (٤٩ : ١٣) “ لوگو ، ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر تمہاری قومیں اور برادریاں بنا دیں تا کہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔ درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تمہارے اندر سب سے زیادہ پرہیزگار ہے۔ یقیناً اللہ سب کچھ جاننے والا اور باخبر ہے ”۔ اے لوگو ، مختلف اقوام اور مختلف رنگ کے لوگو ! مختلف اقوام و قبائل کے لوگو ! تمہاری اصلیت تو ایک ہے۔ لہٰذا آپس میں اختلافات نہ کرو ، آپس میں جھگڑے نہ کرو اور الگ الگ راہوں پر نہ چلو۔ اے لوگو ، تمہیں جو پکار رہا ہے وہ تو وہی ہے جس نے تمہیں پیدا کیا ہے۔ تمہیں اس نے ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے۔ وہ تمہیں بتاتا ہے کہ اس نے کیوں تم کو اقوام وقبائل میں تقسیم کیا ہے ؟ یہ اس لیے نہیں کہ تم ایک دوسرے کے گلے کاٹو اور جنگیں لڑو ، یہ تو محض تعارف اور جوڑ کے لئے ہے ، رہا زبان اور رنگ کا اختلاف ، طبیعت اور مزاج کا اختلاف ، قابلیت اور استعداد کا اختلاف تو یہ ایسے اختلافات اور ایسی رنگا رنگی ہے جن کی وجہ سے نزاع اور جنگ بلا جواز ہے بلکہ ان چیزوں کو باہم ذمہ داریاں سر انجام دینے کے لئے موجب تعاون ہونا چاہئے ۔ نیز ان اختلافات کے ذریعہ سوسائٹی کی تمام ضروریات پوری ہوتی ہیں۔ اللہ کے ترازو میں تو رنگ و نسل ، زبان اور وطن کی کوئی قدرو قیمت نہیں ہے۔ اسلام میں تو واحد میزان میں تمام قدروں کو لایا جاتا ہے اور اسی کے مطابق حسن و قبح کے اصولوں کا تعین کیا جاتا ہے وہ یہ ہے۔ ان اکرمکم عند اللہ اتقکم (٤٩ : ١٣) “ تم میں سے عزت والا وہ ہے جو تمہارے اندر سب سے زیادہ پرہیزگار ہے ” ۔ اور معزز درحقیقت ہے ہی وہی شخص جو اللہ کے نزدیک معزز ہے۔ اللہ اپنے علم اور خبرداری کی بنا پر تمہارا وزن کرتا ہے۔ ان اکرمکم عند اللہ اتقکم (٤٩ : ١٣) “ تم میں سب سے عزت والا وہ ہے جو تمہارے اندر سب سے زیادہ پرہیزگار ہے ”۔ اور معزز درحقیقت ہے ہی وہی شخص جو اللہ کے نزدیک معزز ہے۔ اللہ اپنے علم اور خبرداری کی بنا پر تمہارا وزن کرتا ہے۔ ان اللہ علیم خبیر (٤٩ : ١٣) “ اے شک اللہ علیم وخبیر ہے ”۔ یوں تمام امتیازات ختم کر دئیے جاتے ہیں ، تمام جھوٹی قدریں ختم کردی جاتی ہیں۔ ایک ہی پیمانہ ایک ہی قدر کے ساتھ رہ جاتا ہے کہ انسانیت کی میزان اور خدا خوفی کی قدر اور ان کے سوا سب کچھ ہیچ۔ یوں اس کرۂ ارض پر یہ سب نزاع اور جھگڑے مٹ جاتے ہیں اور وہ تمام گھٹیا مقاصد اور اہداف ختم کر دئیے جاتے ہیں جن کے اوپر لوگ اس طرح جھپٹتے ہیں جس طرح کتے ہڈی پر۔ اس طرح لوگوں کے درمیان الفت و محبت کے اسباب پیدا ہوجاتے ہیں۔ اللہ سب کا الٰہ قرار پاتا ہے۔ تمام ایک ہی اصل سے پیدا ہوتے ہیں اور ایک ہی انسانی جھنڈا رہ جاتا ہے۔ جس کے نیچے تمام لوگ کھڑے رہ جاتے ہیں یعنی اللہ ۔۔۔۔۔ میں اور اسلام نے یہ جھنڈا واحد انسانی جھنڈا ، آج سے چودہ سو سال قبل اس لیے بلند کیا ہے تا کہ انسانیت کو رنگ ، نسل ، قوم اور وطن کے شیطانی جھنڈوں سے نجات دی جاسکے۔ رنگ کی عصبیت ، نسل کی عصبیت ، زمین کی عصبیت ، قبیلے کی عصبیت اور خاندان کی عصبیت سے نجات دی جائے۔ یہ سب عصبیتیں جاہلیت سے نکلی ہیں اور جاہلیت کے فروغ کے لئے ہیں۔ یہ مختلف رنگوں اور لباسوں میں آتی ہیں اور یہ مختلف ناموں سے آتی ہیں لیکن یہ سب ننگی جاہلیت کی اقسام ہیں۔ ان پر کوئی اسلامی لباس نہیں ہے۔ اسلام نے عصبیت جاہلیت کی تمام اقسام کے خلاف جہاد کیا تا کہ وہ اپنا عالمی انسانی نظام رب العالمین کے جھنڈے کے نیچے ، نہ نسل کے جھنڈ کے نیچے قائم کرے۔ یہ سب کھوٹے جھنڈے ہیں اسلام ان کو نہیں پہچانتا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : “ تم سب آدم کی اولاد ہو اور آدم کی تخلیق مٹی سے کی گئی ہے ، جو لوگ اپنے آباؤ اجداد پر فخر کرتے ہیں۔ وہ اس حرکت سے باز آجائیں ورنہ اللہ کے لئے یہ بات بہت آسان ہے کہ تمہیں گبریلے سے ہلکا کر دے۔ (البزار) اور عصبیت جاہلیہ کے بارے میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا “ اسے چھوڑ دو یہ گندہ ہے ”۔ (مسلم) یہ ہے وہ اصول جس پر اسلامی نظام قائم ہے جو ایک عالمی انسانی نظام ہے اور جو عالمی انسانی سوسائٹی بناتا ہے۔ اسلام نے یہ سوسائٹی اور نظام آج سے چودہ سو سال قبل قائم کیا جبکہ انسانیت ابھی تک اس کی نقل اتارنے کی کوشش کرتی ہے کیونکہ انسانیت نے ابھی تک اس معاشرے کی طرف اسلام کے صراط مستقیم سے چلنا نہیں شروع کیا۔ یعنی اللہ رب العالمین کے جھنڈے کے نیچے کھڑی ہو کر۔ یہی وہ واحد جھنڈا ہے عقیدۂ توحید کا جھنڈا جس کے نیچے پوری انسانیت کھڑی ہو سکتی ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

نویں نصیحت : اس کے بعد فرمایا کہ اے لوگو ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہارے چھوٹے بڑے قبیلے بنا دئیے تاکہ آپس میں جان پہچان ہو کہ یہ فلاں قبیلہ کا ہے اور یہ فلاں خاندان کا ہے آدمی ہونے میں برابر ہو کیونکہ سب آدم اور حواء ( علیہ السلام) کی اولاد ہو لہٰذا آدمیت میں کسی کو کسی پر کوئی فضیلت نہیں ہے اور اصل فضیلت وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک معتبر ہے اور وہ فضیلت تقویٰ سے ہے ﴿ اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْ ﴾ تم میں اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں سے زیادہ متقی اور پرہیزگار ہے۔ اس آیت کریمہ میں فضیلت اور عزت کا معیار بتادیا ہے اس کے برخلاف لوگوں کا یہ حال ہے کہ بڑے بڑے گناہوں کے مرتکب ہوتے ہیں نمازوں کے بھی تارک ہیں زکوٰتیں بھی نہیں دیتے فسق و فجور میں مبتلا ہیں حرام کھاتے اور حرام کھلاتے ہیں لیکن نسب کی بڑائی بگھارتے ہیں سید اور ہاشمی اور صدیقی اور فاروقی، عثمانی، علوی، انصاری، شیخ، ملك، چوہدری اور دیگر نسبتوں کے بغیر اپنا نام ہی نہیں بتاتے۔ آ رہے ہیں سید صاحب داڑھی مونڈی ہوئی ہے پتلون پہنے ہوئے ہیں ٹائی لگی ہوئی ہے بینک کے منیجر ہیں اپنے نانا جان سیدنا محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لائے ہوئے اعمال سے کچھ بھی نسبت نہیں، ظاہر اور باطن دشمنوں کے ہاتھ بکا ہوا ہے اور ہیں سید صاحب یہی حال دوسری نسبتیں استعمال کرنے والوں کا ہے یہ لوگ جن قوموں کو کم تر جانتے ہیں ان کے علماء، و صلحاء، نمازی اور متقی حضرات کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں کچھ لوگ سفید سرخ رنگ ہونے کی وجہ سے اور کچھ لوگ عربی ہونے کی وجہ سے اپنی فضیلت کی خام خیالی میں مبتلا ہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اِنَّك لَسْتَ بِخَیْرٍ مِنْ اَحْمَرَ وَلاَ اَسْوَدَ الاَّ أَنْ تَفَضَّلَہٗ بِتَقْوٰی (بےشک گورے اور کالے سے بہتر نہیں الاَّ یہ کہ تقویٰ میں بڑھ جائے۔ ) (رواہ احمد فی مسندہ عن ابی ذر (رض) ٥، ١٠٨) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک مرتبہ صفا پر چڑھ کر قریش سے خطاب فرمایا اور فرمایا کہ اپنی جان کو دوزخ سے بچالو میں قیامت کے دن تمہیں کچھ فائدہ نہیں پہنچا سکتا بنی کعب، بنی مرۃ، بنی عبد شمس، بنی عبد مناف، بنی ہاشم، بنی عبد المطلب، اے جماعت بنی قریش سب سے الگ الگ خطاب فرمایا اور ان سے یہی فرمایا : اَنْقَذُوْا اَنْفُسَكمْ مِّنَ النَّارِ کہ اپنی جانوں کو دوزخ سے بچاؤ اپنے چچا عباس بن مطلب اور اپنی پھوپھی صفیہ (رض) اور اپنی بیٹی فاطمہ (رض) سے بھی خاص طور سے یہ خطاب فرمایا۔ (رواہ البخاری و مسلم کما فی مشکوٰۃ المصابیح ٤٦٠) نسب کی بنیاد پر نجات نہیں ہوگی ایمان کی بنیاد پر نجات ہوگی اور اعمال صالحہ کی بنیاد پر رفع درجات ہوگا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شفاعت بھی اہل ایمان ہی کے لیے ہوگی۔ جزوی طور پر جو نسبی شرف کسی کو حاصل ہے اس کے بل بوتہ پر گناہ کرتے چلے جانا اور اپنے کو دوسری قوموں کے متقی لوگوں سے برتر سمجھنا یہ بہت بڑے دھوکہ کی بات ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تم سے جاہلیت کی نخوت (یعنی متکبرانہ مقابلہ بازی) کو اور باپوں پر فخر کرنے کو ختم کردیا ہے اب تو بس مومن متقی ہے یا فاجر شقی ہے انسان سب آدم کے بیٹے ہیں آدمی کو مٹی سے پیدا کیا گیا۔ (رواہ ابو داؤد والترمذی کما فی المشکوٰۃ ٤١٨) دسویں نصیحت : ﴿ اِنَّ اللّٰهَ عَلِيْمٌ خَبِيْرٌ٠٠١٣﴾ بیشک اللہ جاننے والا ہے باخبر ہے۔ استحضار ہے کیونکہ اللہ علیم وخبیر ہے کس کا کیا درجہ ہے کون ایمان دار ہے کون بےایمان ہے کون گناہوں میں لت پت ہے اور آخرت میں کس کا کیا انجام ہونے والا ہے اللہ تعالیٰ سب جانتا ہے سب تقویٰ اختیار کرنے کے لیے فکر مند ہوں تاکہ متقیوں میں حشر ہو اور ان کا جیسا معاملہ ہو۔ لِتَعَارَفُوْا کی تشریح کرتے ہوئے صاحب بیان القرآن فرماتے ہیں ” تعارف کی مصلحتیں متعدد ہیں مثلاً ایک نام کے دو شخص ہیں خاندان کے تفاوت سے دونوں میں تمیز ہوسکتی ہے اور یہ کہ ا سے دور کے اور نزدیک کے رشتوں کی پہچان ہوتی ہے اور بقدر قرب و بعد نسب کے ان کے حقوق شریعہ ادا کیے جاتے ہیں اور مثلاً اس سے عصبات کا قرب و بعد معلوم ہوتا ہے تو حاجب اور محجوب متعین ہوتا ہے مثلاً یہ کہ اپنا خاندان ہوگا تو اپنے کو دوسرے خاندانوں کی طرف منسوب نہ کرے گا جس کی ممانعت حدیث شریف میں وارد ہوئی ہے آیت کریمہ میں لفظ شُعُوْب اور لفظ قَبَآىِٕلَ مذکور ہے شعب خاندان کی جڑ کو یعنی اوپر والے خاندان کو اور قبیلہ اس کی شاخ کو کہتے ہیں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

12:۔ ” یا ایہا الناس۔ الایۃ “ یہ ساتواں قانون ہے۔ اس میں نسبی تفاخر سے منع فرمایا کہ اللہ کی بارگاہ میں عزت و کرام کا مدار حسب و نسب نہیں بلکہ ایمان وتقوی اور عمل صالح ہے۔ شعوب، شعب کی جمع ہے یعنی بڑا خاندان جس کے نیشے کئی چھوٹے چھوٹے قبیلے ہوں۔ قبائل، قبیلۃ کی جمع ہے یعنی بڑے خاندان کی شاخیں، کسی انسان کو کسی انسان پر آدمی اور انسان ہونے کی حیثیت سے کوئی امتیاز حاصل نہیں۔ کیونکہ سب ایک ہی ماں باپ یعنی آدم و حواء (علیہما السلام) کی اولاد ہیں باقی رہے قبیلے اور خاندان تو وہ محض اس لیے بنائے گئے ہیں تاکہ باہمی جان پہچان ہو، صلہ رحمی کا احساس ہو اور وراثت و ولدیت کا سلسلہ قائم رہے۔ اس لیے شعوب و قبائل عظمت و حقارت کا سبب نہیں ہیں اور نہ ان کی وجہ سے تفاخر کرنا چاہیے۔ ای جعلناکم کذلک لیعرف بعضکم بعضا فصلوا الارحام و تبینوا الانساب والتوارث، لا لتفاخروا بالاباء وا لقبائل (روح ج 26 ص 162) ۔ باقی رہا خدا کے یہاں شرف و کرامت اور فضل و عظمت کا مدار تو وہ خاندانی اور نسبی امتیاز پر نہیں بلکہ اللہ کی اطاعت اور ایمان وتقوی پر ہے جو سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا ہوگا وہی اس کی بارگاہ میں سب سے زیادہ مکرم و محترم ہوگا۔ اللہ تعالیٰ سب کے ظاہری اعمال اور باطنی احوال سے اچھی طرح باخبر ہے وہ خوب جانتا ہے کہ کس کا باطن ظاہر کے مطابق ہے اور صحیح معنوں میں کون متقی اور پرہیز گار ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(13) اے انسانو ! اور اے لوگو ! ہم نے تم سب کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے اور تم کو مختلف شاخیں اور مختلف قبیلے بنایا تاکہ ایک دوسرے کو شناخت کرسکو اور پہچان سکو ورنہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک تو تم سب میں بڑا شریف اور عزت والا وہ ہے جو تم سب میں بڑا پرہیزگار اور زیادہ تقویٰ والا ہے بلا شبہ اللہ تعالیٰ سب کو جانتا ہے اور سب کے حال سے باخبر ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی بڑائیاں ذات کی اور قوم کی عبث میں صفت نیک چاہیے نری ذات کس کام کی۔ خلاصہ : یہ کہ سب لوگ ایک مرد اور ایک عورت یعنی آدم وحوا سے پیدا ہوئے ہیں جس قدر اولاد بڑھی گئی ان کے شعب قبیلہ ، عمارہ ، بطن، فخذ اور فیصلہ بنتے گئے اس سے باہمی تعارف اور پہچان میں آسانی ہوتی ہے کیونکہ ایک ایک نام کے بہت سے آدمی ہوتے ہیں اس کے علاوہ بھی اور بہت سے فوائد ہیں مثلا قرب وبعد کی مناسبت سے ان کے حقوق شرعیہ رو کے جاتے ہیں حاجب اور محجوب کا پتہ چلتا ہے ایک خاندان کا آدمی دوسرے خاندان کے آدمی سے متمیزرہتا ہے۔ شعوب جمع ہے شعب کی شعب جمع کرتا ہے قبائل کو اور قبیلہ جمع کرتا ہے عمائر کو اور عمارہ جمع کرتا ہے بطون کو اور بطن جمع کرتا ہے افخاذ کو اور فخذ جمع کرتا ہے فصائل کو یہ ہم نے عربی قبائل کی اصطلاح بیان کی دوسری قوموں میں کوئی اور دستور ہوگا۔ بہرحال یہ اولاد آدمی کی تقسیم ہوتی چلی گئی مثلاً فرض کرو خزیمہ شعب ہے اور کنانہ قبیلہ اور قریش عمارہ اور قصی بطن اور ہاشم فخذ اور عباس فیصلہ یہ تمام ت قسمیں باہمی شناخت کے لئے ہیں اور کسی کو کسی پر فضیلت نہیں شرافت اور بزرگی اور عزت اللہ تعالیٰ کی نظر میں اسی کی ہے جو متقی ہو جو تقوی میں اونچا اور اعلی اور اتقیٰ ہے وہی اللہ کے نزدیک بڑاشریف اور مکرم ہے۔ اس اعلان نے نبی نوح انسان میں مساوات اور یگانگت پیدا کردی اور زمانہ جاہلیت کے خاندانی تفاخر اور بڑائی کو پارہ پارہ کردیا۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فتح مکہ کے دن کو خطبہ فرمایا اس میں اس بات کا اعلان کیا کہ اللہ تعالیٰ نے تم سے جاہلیت کی نخوت اور تکبر کو دور کردیا۔ آدمیوں کی دو ہی قسمیں ہیں مومن جو پرہیزگارہو وہ اللہ کے نزدیک عزت دار اور کریم ہے اور جو فاجر شقی ہے وہ اللہ تعالیٰ کی نظر میں ذلیل و خوار ہے پھر آپ نے یہ آیت پڑھی۔ ان اکرمکم عند اللہ اتقکم۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تمام انسان آدم (علیہ السلام) کی اولاد ہیں اور آدم (علیہ السلام) مٹی سے پیدا کیا گیا ہے نہ عربی کو عجمی پر کوئی فضیلت ہے نہ عجمی کو عربی پر کوئی بزرگی ہے نہ سرخ رنگ والے کو سفید رنگ والے پر کوئی بزرگی ہے نہ سفید رنگ والے کو سرخ رنگ والے پر کوئی فضیلت اور برائی حاصل ہے مگر تقوے اور پرہیزگاری سے پیغمبر اسلام (علیہ السلام) کا یہ بنی نوع انسان پر کتنا بڑا احسان ہے کہ تمام دنیا کے انسانوں سے نسبی تفاخر کو مٹا کر سب کو بھائی بھائی بنادیا اور صرف تقوے اور پرہیزگاری کو امتیاز کی وجہ قرار دیا۔ یعنی جو اپنے پروردگار سے ڈرتا ہے وہی بڑا ہے جس قدر تقوے میں بڑھا ہوا ہے اس قدر بزرگی میں بڑھا ہوا ہے۔ فرمایا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے من بطابہ عملہ لم یسرع بہ نسبہ۔ جو عمل میں پیچھے رہا اس کا نسب اس کو آگے نہ بڑھا سکے گا اللہ تعالیٰ علیم اور خیبر ہے یعنی ہر شخص کے نسب اور اس کے نسبی تفاخر کو بھی جانتا ہے اور ہر شخص کے تقوے سے بھی باخبر ہے۔