Surat ul Hujraat

Surah: 49

Verse: 15

سورة الحجرات

اِنَّمَا الۡمُؤۡمِنُوۡنَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ ثُمَّ لَمۡ یَرۡتَابُوۡا وَ جٰہَدُوۡا بِاَمۡوَالِہِمۡ وَ اَنۡفُسِہِمۡ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ؕ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الصّٰدِقُوۡنَ ﴿۱۵﴾

The believers are only the ones who have believed in Allah and His Messenger and then doubt not but strive with their properties and their lives in the cause of Allah . It is those who are the truthful.

مومن تو وہ ہیں جو اللہ پر اور اس کے رسول پر ( پکا ) ایمان لائیں پھر شک و شبہ نہ کریں اور اپنے مالوں سے اور اپنی جانوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کرتے رہیں ( اپنے دعوائے ایمان میں ) یہی سچے اور راست گو ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

إِنَّمَا الْمُوْمِنُونَ ... Only those are the believers, (i.e. who have perfect Faith), ... الَّذِينَ امَنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ ثُمَّ لَمْ يَرْتَابُوا ... who have believed in Allah and His Messenger, and afterward doubt not, They do not have doubts and their Faith was not shaken. Rather, their Faith remained on conviction, ... وَجَاهَدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ... but strive for the cause of Allah with their wealth and their lives, meaning, they gladly gave away their life and the most precious of their wealth in obedience to Allah as a means of seeking His pleasure, ... أُوْلَيِكَ هُمُ الصَّادِقُونَ Those! They are the truthful. `in their statement if they say that they are believers, unlike some Bedouins who are faithful only by words outwardly!' Allah said,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

15۔ 1 نہ کہ وہ جو صرف زبان سے اسلام کا اظہار کردیتے ہیں اور مذکورہ اعمال کا سرے سے کوئی اہتمام ہی نہیں کرتے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٥] اس آیت میں مومنوں اور منافقوں کا تقابل پیش کرکے بتایا گیا ہے کہ حقیقی مومن اللہ، اس کے وعدوں اور اس کے رسول پر پوری طرح یقین رکھتے ہیں۔ وہ مفاد پرست نہیں ہوتے لہذا جو کچھ اللہ اور اس کا رسول کہے فوراً اس کی اطاعت کرتے اور بوقت ضرورت جان و مال کی قربانیاں بھی پیش کردیتے ہیں۔ اور منافقوں کی طرح حیلوں بہانوں سے فرار کی راہ اختیار نہیں کرتے۔ ایسے ہی لوگ راستباز ہوتے ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

انما المومنون الذین امنوا باللہ و رسولہ …:” لم یرتابوا “ ” ریب “ سے باب افتعال ہے۔ اعراب (بدویوں) کے ایمان کے دعوے کی نفی کے بعد اللہ تعالیٰ نے ایمان کی ایک باطنی اور ایک ظاہری شرط بیان فرمائی ۔ چناچہ فرمایا مومن تو صرف وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے، پھر شک میں مبتلا نہیں ہوئے انہوں نے اپنے ایمان و یقین کا ثبوت مال و جان کے ساتھ اللہ کے راستے میں جہاد کرنے کے ساتھ دیا۔ یہی لوگ ہیں جو ایمان کے دعوے میں سچے ہیں۔ رہے وہ لوگ جو دعویٰ کرتے ہیں مگر جب جہاد کا موقع آتا ہے تو اس سے جان بچاتے ہیں، وہ اپنے دعویٰ میں جھوٹے ہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِاللہِ وَرَسُوْلِہٖ ثُمَّ لَمْ يَرْتَابُوْا وَجٰہَدُوْا بِاَمْوَالِہِمْ وَاَنْفُسِہِمْ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ۝ ٠ ۭ اُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الصّٰدِقُوْنَ۝ ١٥ أیمان يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ( ا م ن ) الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ { وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ } ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ ريب فَالرَّيْبُ : أن تتوهّم بالشیء أمرا مّا، فينكشف عمّا تتوهّمه، قال اللہ تعالی: يا أَيُّهَا النَّاسُ إِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِنَ الْبَعْثِ [ الحج/ 5] ، ( ر ی ب ) اور ریب کی حقیقت یہ ہے کہ کسی چیز کے متعلق کسی طرح کا وہم ہو مگر بعد میں اس تو ہم کا ازالہ ہوجائے ۔ قرآن میں ہے : وَإِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِمَّا نَزَّلْنا عَلى عَبْدِنا [ البقرة/ 23] اگر تم کو ( قیامت کے دن ) پھر جی اٹھنے میں کسی طرح کا شک ہوا ۔ جهد الجَهْدُ والجُهْد : الطاقة والمشقة، وقیل : الجَهْد بالفتح : المشقة، والجُهْد : الوسع . وقیل : الجهد للإنسان، وقال تعالی: وَالَّذِينَ لا يَجِدُونَ إِلَّا جُهْدَهُمْ [ التوبة/ 79] ، وقال تعالی: وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ النور/ 53] ، أي : حلفوا واجتهدوا في الحلف أن يأتوا به علی أبلغ ما في وسعهم . والاجتهاد : أخذ النفس ببذل الطاقة وتحمّل المشقة، يقال : جَهَدْتُ رأيي وأَجْهَدْتُهُ : أتعبته بالفکر، والجِهادُ والمجاهدة : استفراغ الوسع في مدافعة العدو، والجِهَاد ثلاثة أضرب : - مجاهدة العدو الظاهر . - ومجاهدة الشیطان . - ومجاهدة النفس . وتدخل ثلاثتها في قوله تعالی: وَجاهِدُوا فِي اللَّهِ حَقَّ جِهادِهِ [ الحج/ 78] ، وَجاهِدُوا بِأَمْوالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ التوبة/ 41] ، إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَهاجَرُوا وَجاهَدُوا بِأَمْوالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ الأنفال/ 72] ، وقال صلّى اللہ عليه وسلم : «جاهدوا أهواء کم کما تجاهدون أعداء کم» «1» . والمجاهدة تکون بالید واللسان، قال صلّى اللہ عليه وسلم «جاهدوا الکفار بأيديكم وألسنتکم» «2» . ( ج ھ د ) الجھد والجھد کے معنی وسعت و طاقت اور تکلف ومشقت کے ہیں ۔ بعض علماء کا خیال ہے کہ الجھد ( فتح جیم کے معنی مشقت کے ہیں اور الجھد ( ( بضم جیم ) طاقت اور وسعت کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ الجھد کا لفظ صرف انسان کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں وَالَّذِينَ لا يَجِدُونَ إِلَّا جُهْدَهُمْ [ التوبة/ 79] اور جنہیں اپنی محنت ومشقت ( کی کمائی ) کے سوا کچھ میسر نہیں ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ النور/ 53] کے معنی یہ ہیں کہ وہ بڑی زور زور سے قسمیں کھاکر کہتے ہیں کے وہ اس میں اپنی انتہائی کوشش صرف کریں گے الاجتھاد ( افتعال ) کے معنی کسی کام پر پوری طاقت صرف کرنے اور اس میں انتہائی مشقت اٹھانے پر طبیعت کو مجبور کرنا کے ہیں ۔ کہا جاتا ہے میں نے غور ومحکر سے اپنی رائے کو مشقت اور تعب میں ڈالا ۔ الجھاد والمجاھدۃ دشمن کے مقابلہ اور مدافعت میں اپنی انتہائی طاقت اور وسعت خرچ کرنا اور جہا دتین قسم پر ہے ( 1 ) ظاہری دشمن یعنی کفار سے جہاد کرنا ( 2 ) شیطان اور ( 3 ) نفس سے مجاہدہ کرنا اور آیت کریمہ : ۔ وَجاهِدُوا فِي اللَّهِ حَقَّ جِهادِهِ [ الحج/ 78] کہ اللہ کی راہ میں پوری طرح جہاد کرو ۔۔۔۔۔ تینوں قسم جہاد پر مشتمل ہے ۔ نیز فرمایا :۔ وَجاهِدُوا بِأَمْوالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ التوبة/ 41] کہ خدا کی راہ میں اپنے مال وجان سے جہاد کرو ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَهاجَرُوا وَجاهَدُوا بِأَمْوالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ الأنفال/ 72] جو لوگ ایمان لائے اور وطن چھوڑ گئے اور خدا کی راہ میں اپنے مال وجان سے جہاد کرتے رہے ۔ اور حدیث میں ہے (66) کہ جس طرح اپنے دشمن سے جہاد کرتے ہو اسی طرح اسی خواہشات سے بھی جہاد کیا کرو ۔ اور مجاہدہ ہاتھ اور زبان دونوں کے ساتھ ہوتا ہے چناچہ آنحضرت نے فرمایا (67) کہ کفار سے ہاتھ اور زبان دونوں کے ذریعہ جہاد کرو ۔ ميل المَيْلُ : العدول عن الوسط إلى أَحَد الجانبین، والمَالُ سُمِّي بذلک لکونه مائِلًا أبدا وزَائلا، ( م ی ل ) المیل اس کے معنی وسط سے ایک جانب مائل ہوجانے کے ہیں اور المال کو مال اس لئے کہا جاتا ہے ۔ کہ وہ ہمیشہ مائل اور زائل ہوتا رہتا ہے ۔ نفس الَّنْفُس : ذاته وقوله : وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 30] فَنَفْسُهُ : ذَاتُهُ ، ( ن ف س ) النفس کے معنی ذات ، وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 30] اور خدا تم کو اپنے ( غضب سے ڈراتا ہے ۔ میں نفس بمعنی ذات ہے سبل السَّبِيلُ : الطّريق الذي فيه سهولة، وجمعه سُبُلٌ ، قال : وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل/ 15] ( س ب ل ) السبیل ۔ اصل میں اس رستہ کو کہتے ہیں جس میں سہولت سے چلا جاسکے ، اس کی جمع سبل آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل/ 15] دریا اور راستے ۔ صدق الصِّدْقُ والکذب أصلهما في القول، ماضیا کان أو مستقبلا، وعدا کان أو غيره، ولا يکونان بالقصد الأوّل إلّا في القول، ولا يکونان في القول إلّا في الخبر دون غيره من أصناف الکلام، ولذلک قال : وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ، ( ص دق) الصدق ۔ یہ ایک الکذب کی ضد ہے اصل میں یہ دونوں قول کے متعلق استعمال ہوتے ہیں خواہ اس کا تعلق زمانہ ماضی کے ساتھ ہو یا مستقبل کے ۔ وعدہ کے قبیل سے ہو یا وعدہ کے قبیل سے نہ ہو ۔ الغرض بالذات یہ قول ہی کے متعلق استعمال ہوتے ہیں پھر قول میں بھی صرف خبر کے لئے آتے ہیں اور اس کے ماسوا دیگر اصناف کلام میں استعمال نہیں ہوتے اسی لئے ارشاد ہے ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ وہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

حقیقی مومن تو وہ ہیں جو سچائی اور خلوص کے ساتھ اللہ تعالیٰ پر اور اس کے رسول پر ایمان لائے پھر اپنے ایمان میں کبھی شک نہیں کیا اور اپنے جان و مال سے اطاعت خداوندی میں محنت اٹھائی سو یہی لوگ اپنے ایمان و اطاعت میں پورے سچے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٥ { اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ ثُمَّ لَمْ یَرْتَابُوْا } ” مومن تو بس وہی ہیں جو ایمان لائے اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ‘ پھر شک میں ہرگز نہیں پڑے “ یعنی ایسے لوگوں کا ایمان ان کے دلوں میں راسخ ہو کر یقین کی ایسی صورت اختیار کر گیا ہے کہ ان کے دلوں کے اندر شک کی کوئی گنجائش رہی ہی نہیں۔ جیسے قبل ازیں آیت ٧ میں صحابہ (رض) کے بارے میں فرمایا گیا : { وَلٰکِنَّ اللّٰہَ حَبَّبَ اِلَیْکُمُ الْاِیْمَانَ وَزَیَّنَہٗ فِیْ قُلُوْبِکُمْ } ” لیکن (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھیو ! ) اللہ نے تمہارے نزدیک ایمان کو بہت محبوب بنا دیا ہے اور اسے تمہارے دلوں کے اندر رچا بسا دیا ہے۔ “ جب تک ایمان دل میں راسخ نہیں ہوا اور ابھی صرف زبان پر ہے (آمَنْتُ بِاللّٰہِ وَمَلَائِکَتِہٖ وَکُتُبِہٖ وَرُسُلِہٖ…) تو یہ اسلام ہے۔ اسی لیے اسلام کی بنیاد جن پانچ چیزوں پر بتائی گئی ہے : ( بُنِیَ الاِْسْلَامُ عَلٰی خَمْسٍ…الحدیث) ان میں یقین قلبی شامل نہیں ہے ‘ بلکہ نظریاتی طور پر صرف توحید و رسالت کی گواہی دے کر اور اس کے بعد نماز ‘ روزہ ‘ زکوٰۃ اور حج کا التزام کر کے اسلام کا تقاضا پورا ہوجاتا ہے۔ لیکن ایمان اس سے اوپر کی منزل ہے۔ گویا مذکورہ پانچ شرائط (پہلی شرط کا تعلق نظریے سے جبکہ باقی چار کا تعلق عمل سے ہے) پوری کر کے جو شخص ” مسلمان “ ہوگیا اسے ” مومن “ بننے کے لیے کچھ اضافی شرائط بھی پوری کرنا ہوں گی اور آیت زیر مطالعہ کی رو سے یہ اضافی دو شرائط ہیں ‘ یعنی ” شہادت “ کے ساتھ یقین قلبی (لَمْ یَرْتَابُوْا) کی کیفیت کا اضافہ ہوگا اور اعمال کے ساتھ جہاد فی سبیل اللہ کا : { وَجَاہَدُوْا بِاَمْوَالِہِمْ وَاَنْفُسِہِمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ } ” اور انہوں نے جہاد کیا اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ اللہ کی راہ میں۔ “ { اُولٰٓئِکَ ہُمُ الصّٰدِقُوْنَ } ” یہی لوگ ہیں جو (اپنے دعوائے ایمان میں) سچے ہیں۔ “ گویا کسی شخص کو ” حقیقی مومن “ بننے کے لیے مذکورہ ساتوں شرائط پوری کرنا ہوں گی۔ پہلی پانچ شرائط ” اسلام “ میں داخل ہونے کے لیے جبکہ آخری دو شرائط ” ایمان “ کی منزل حاصل کرنے کے لیے۔ اسلام اور ایمان کے اس فرق کو اس طرح بھی بیان کیا جاسکتا ہے کہ ایک مومن لامحالہ ” مسلم “ تو ہوگا ہی لیکن ہر ” مسلم “ مومن نہیں ہوسکتا۔ اسلام اور ایمان کی اس بحث میں لائق توجہ نکتہ یہ ہے کہ زبان سے : ” آمَنْتُ بِاللّٰہِ وَمَلَائِکَتِہٖ وَکُتُبِہٖ وَرُسُلِہٖ…“ کا دعویٰ کرنا تو آسان ہے مگر دل میں حقیقی ایمان پیدا کرنا اور پھر اس ایمان کے تقاضے پورے کرنا انتہائی مشکل کام ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم میں سے ہر ایک اپنی ” ایمانی کیفیت “ کا جائزہ لیتا رہے۔ خصوصی طور پر اس حوالے سے یہ حقیقت تو ہمیں کسی لمحے بھی فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ ہم باطل نظام کے تحت زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اس حالت میں اگر ہم اس نظام کو ذہنی طور پر قبول کر کے اس کی چاکری کرنا شروع کردیں گے ‘ یعنی اس نظام کے تحت اپنی معیشت کی ترقی اور اپنے معیارِ زندگی کو بہتر بنانے کی فکر میں لگ جائیں گے تو ایسی صورت میں ہمیں اپنے ایمان کی خبر لینے کی ضرورت ہوگی۔ دراصل کسی ملک یا معاشرے میں غلبہ باطل کی صورت میں ایک بندہ مومن کے لیے لازم ہے کہ وہ اس نظام کے تحت حالت احتجاج میں رہتے ہوئے زندگی بسر کرے۔ اور (اَلدُّنْیَا سِجْنُ الْمُؤْمِنِ ) (١) کے مصداق باطل نظام کے تحت وہ ایسے رہے جیسے ایک قیدی جیل کے اندر رہتا ہے۔ یعنی اپنی اور اپنے اہل و عیال کی ضروریات پوری کرنے میں وہ اپنی کم سے کم توانائی صرف کرے اور ان ضروریات کو بھی کم سے کم معیار (subsistance level) پر رکھے ‘ جبکہ اپنا باقی وقت اور اپنی بہترین صلاحیتیں نظام باطل کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے اور اللہ کے دین کو غالب کرنے کی جدوجہد میں کھپا دے۔ ع ” گر یہ نہیں تو بابا پھر سب کہانیاں ہیں ! “ اگر باطل نظام کے تحت رہتے ہوئے ایک مرد مسلمان کی زندگی کے شب و روز کا نقشہ ایسا نہیں تو بیشک قانونی طور پر وہ اپنے ملک کا ایک مسلمان شہری ہے ‘ اپنے مسلمان باپ کی وراثت کا حقدار ہے ‘ مسلمان عورت سے شادی کرسکتا ہے اور اس طرح کے دوسرے تمام قانونی حقوق سے بھی مستفید ہوسکتا ہے ‘ لیکن ایسا ” مسلمان “ اللہ کے ہاں ” مومن “ شمار نہیں ہوسکتا۔ اس آیت کے بارے میں یہ نکتہ بھی اہم ہے کہ اس کا آغاز ” اِنّما “ سے ہو رہا ہے اور آخر پر ” اُولٰٓئِکَ ھُمُ الصّٰدِقُوْنَ “ کے الفاظ آئے ہیں۔ یعنی آیت کا آغاز بھی اسلوبِ حصر سے ہو رہا ہے اور اختتام پر بھی اسلوبِ حصر آیا ہے۔ اس اعتبار سے آیت کا مفہوم یوں ہوگا کہ مومن تو ہیں ہی صرف وہ لوگ جن کے دلوں میں ایمان نے ” یقین “ کی شکل اختیار کرلی اور پھر انہوں نے اپنے جان و مال کو اللہ کی راہ میں کھپا دیا۔ اور صرف یہی لوگ ہیں جو اپنے ایمان کے دعوے میں سچے ہیں۔ اَللّٰھُمَّ رَبَّنَا اجْعَلْنَا مِنْھُمْ ‘ اَللّٰھُمَّ رَبَّنَا اجْعَلْنَا مِنْھُمْ ۔ آمین ‘ ثم آمین ! آیت کے آخر میں ان مومنین کو جو سر ٹیفکیٹ (اُولٰٓئِکَ ہُمُ الصّٰدِقُوْنَ ) عطا ہوا ہے اس کی اہمیت کو سورة التوبہ کی آیت ١١٩ کی روشنی میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ سورة التوبہ کی مذکورہ آیت میں اہل ایمان کو صادقین کے ساتھ شامل ہونے (کُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ ) کا حکم دیا گیا ہے ‘ جبکہ آیت زیر مطالعہ میں یہ بتایا گیا ہے کہ ” صادقین “ کون ہیں۔ اس نکتے کو اس طرح سمجھیں کہ آیت زیر مطالعہ میں مومنین صادقین کی دو نشانیاں (ایمان حقیقی اور جہاد فی سبیل اللہ) ہماری راہنمائی کے لیے بتائی گئی ہیں کہ مسلمانو ! اٹھو ‘ اس ” چراغ “ کی روشنی میں ” مومنین ِصادقین “ کو تلاش کرو اور پھر ان کے مشن کی جدوجہد میں ان کے دست وبازو بن جائو ! حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے کہ میری امت میں سے ایک گروہ ہمیشہ حق پر قائم رہے گا۔ امیر معاویہ (رض) روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : (لاَ یَزَالُ مِنْ اُمَّتِیْ اُمَّۃٌ قَائِمَۃٌ بِاَمْرِ اللّٰہِ ، لَا یَضُرُّھُمْ مَنْ خَذَلَھُمْ وَلَا مَنْ خَالَفَھُمْ ، حَتّٰی یَاْتِیَ اَمْرُ اللّٰہِ وَھُمْ عَلٰی ذٰلِکَ ) (١) ” میری امت میں سے ایک گروہ اللہ کے حکم کو قائم کرنے والا ہمیشہ موجود رہے گا۔ ان کا ساتھ چھوڑ دینے والے اور ان کی مخالفت کرنے والے ان کا کچھ نہ بگاڑ سکیں گے ‘ یہاں تک کہ اللہ کا حکم آجائے گا ‘ اور وہ اسی پر قائم ہوں گے “۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ” مومنین صادقین “ آج بھی ہمارے درمیان موجود ہیں۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم انہیں تلاش کریں اور { کُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ } کے حکم پر لبیک کہتے ہوئے ان کے جھنڈے تلے جمع ہوجائیں تاکہ { مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِط وَالَّذِیْنَ مَعَہٗ } (الفتح : ٢٩) کی طرز پر ایک مضبوط ” حزب اللہ “ تشکیل پا سکے۔ ظاہر ہے افراد کے اتحاد کے بغیر نہ تو کوئی جمعیت وجود میں آسکتی ہے ‘ نہ اقامت دین کی جدوجہد آگے بڑھ سکتی ہے اور نہ ہی ” اظہارِ دین حق “ کی شان تکمیلی کا ظہور ممکن ہوسکتا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٥۔ اوپر کچے ایمان والوں کا ذکر فرما کر اس آیت میں پکے ایمان داروں کا ذکر فرمایا کہ یہ لوگ جس طرح زبان سے اللہ اور رسول کی فرمانبرداری کا سچا اقرار کرتے ہیں دل و زبان سے مرتے دم تک اس پر قائم اور ہر طرح جان و مال سے اسلام کی ترقی میں لگے رہتے ہیں غرض یہ سچے ایماندار کسی سختی میں اپنی حالت کو نہیں بدلتے یہ لوگ ان دیہاتی لوگوں کی طرح نہیں ہیں کہ زبان سے تو انہوں نے رسول کی فرمانبرداری کا اقرار کیا اور حدیبیہ کے سفر کے وقت اپنے اس اقرار پر قائم نہیں رہے اور رسول کی حکم عدولی کرکے گھروں میں بیٹھ رہے یا اپنی جان اپنا مال بچانے کے لئے۔ تو دائرہ اسلام میں داخل ہوئے اور اللہ کے رسول پر اپنے اس اسلام کا الٹا احسان جتلاتے ہیں۔ صحیح ٢ ؎ مسلم کے حوالہ سے سفیان (رض) بن عبد اللہ ثقفی (٢ ؎ صحیح مسلم باب جامع اوصاف الاسلام ص ٤٨ ج ١۔ ) کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے جس میں سفیان (رض) نے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا حضرت مجھ کو اسلام کی کوئی ایسی پوری بات بتا دیجئے کہ گھڑی گھڑی پوچھنے کی مجھ کو ضرورت نہ پڑے آپ نے فرمایا جن باتوں کے کرنے کا شریعت میں حکم ہے ان کے بجا لانے میں اور جن باتوں کی شریعت میں مناہی ہے ان سے بچنے میں خالص دل سے اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری قبول کر اور پھر مرتے دم تک اس پر قائم رہ یہ حدیث آیت کی گویا تفسیر ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ جو باتیں آیت میں پکے ایمان داروں کی نشانی کے طور پر بیان فرمائی ہیں یہ ایسی باتیں ہیں کہ ان پر قائم ہوجانے کے بعد آدمی کا اسلام ایسا پکا اور پورا ہوجاتا ہے کہ پھر اس کو کسی اور بات کی اسلام میں ضرورت باقی نہیں رہتی۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(49:15) ثم لم یرتابوا : ثم تراخی زمانی کے لئے ہے۔ پھر ازاں بعد لم یرتابوا۔ مضارع نفی جحد بلم۔ جمع مذکر غائب اریتاب (افتعال) مصدر۔ وہ شک میں نہ پڑے۔ جھدوا۔ ماضی جمع مذکر غائب۔ مجاھدۃ (مفاعلۃ) مصدر۔ انہوں نے جہاد کیا۔ جہاد کا مفعول مقدر ہے۔ مفعولہ مقدر۔ ای العدو او النفس والھوی۔ یعنی دشمن۔ یا نفس اور خواہشات۔ اولئک۔ اسم اشارہ۔ جمع مذکر۔ جو مذکورہ بالا اوصاف سے متصف ہیں۔ الصدقون۔ اسم فاعل کا صیغہ جمع مذکر۔ صادق کی جمع بحالت رفع۔ صدق سے۔ سچ بولنے والے۔ سچے مرد۔ دعوائے ایمان میں سچے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

انما المؤمنون الذین ۔۔۔۔۔ ھم الصدقون (٤٩ : ١٥) “ حقیقت میں مومن وہ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لائے۔ پھر انہوں نے کوئی شک نہ کیا اور اپنی جانوں اور مالوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا ، وہی سچے لوگ ہیں ”۔ ایمان کی حقیقت یہ ہے کہ اللہ اور رسول پر دل سے یقین ہوجائے۔ ایسا یقین جس کے ساتھ دل میں کوئی شک اور خلجان باقی نہ رہے۔ ایسا یقین جو مستحکم ہو ، جس کے اندر کوئی تزلزل اور اضطراب نہ ہو ، جس کے اندر کوئی خلش یا شک نہ ہو۔ جس میں قلب و شعور میں کوئی تزلزل نہ ہو ، اور جس کے نتیجے میں جہاد بالنفس اور جہاد بالمال کے اعمال پیدا ہوں ، دل جب ایمان کی شیرینی کو چکھ لے اور اس پر مطمئن اور پختہ ہوجائے ، تو اس کا اخراج اعمال وجوارح سے ہوتا ہے۔ عملی دنیا میں اس کا ظہور ہوتا ہے۔ مومن کی سعی یہ ہوتی ہے کہ وہ ایمان جو اس کے احساس و شعور کے اندر اور اس کے باطن میں بیٹھا ہے وہ انسان کے اردگرد ماحول کے معاملات میں بھی ظاہر ہو۔ ایمان کی جو حسی تصویر انسان کے قلب میں ہوتی ہے اور اس کی عملی صورت جو مومن کے ماحول میں ہوتی ہے ان کے درمیان تو فرق و امتیاز نہیں کیا جاسکتا۔ اگر ایسی صورت ہو تو پھر ایک شخص کے مومن کو ہر وقت اذیت ہوتی رہتی ہے۔ اس لئے وہ جہاد بالمال اور جہاد بالنفس کے لئے میدان میں آجاتا ہے اور یہ مومن کے انفرادی ایمان کا ظہور اور طوفان ہے جو عملی شکل اختیار کرتا ہے اس لیے کہ مومن اس طرح اپنے دین کی تصویر کو عمل میں لانا چاہتا ہے تا کہ یہ تصویر واقعی تصویر بن جائے۔ اس لیے مومن کی جنگ اس کے ماحول سے ایک مومن کا خالص ذاتی معاملہ ہے۔۔۔۔ مومن کے دین میں کچھ اور ہو اور اس کے ماحول میں کچھ اور ہو ، یہ دہری زندگی وہ برداشت نہیں کرسکتا۔ یہ بھی اس کے لئے ممکن نہیں ہوتا ہے کہ ایمان کو دل سے نکال دے اور جدھر ہوا چلتی ہے ادھر چلنے لگے۔ اس لئے ایک شخص کے مومن ہوتے ہی اس کی اس کے ماحول کے ساتھ جنگ شروع ہوجاتی ہے جسے جہاد کہا جاتا ہے۔ اور یہ جہاد اس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک مومن کے گرد پھیلی ہوئی اس جاہلیت کو ختم نہیں کردیا جاتا۔ اولئک ھم الصدقون (٤٩ : ١٥) “ ایسے ہی لوگ سچے ہیں ”۔ یہ اپنے عقیدے اور نظریہ میں سچے ہیں اگر وہ کہتے ہیں کہ ہم مومن ہیں لیکن ان کے دل کا ایمان مسلح ہو کر ان کے ماحول کے ساتھ نہیں ٹکراتا جو زندگی کی عملی صورت میں ایمان سے متضاد ہے تو سمجھو کہ ایمان نہیں ہے۔ عقیدے اور نظریات میں ایسا شخص سچا نہیں ہے۔ اس آیت میں لفظ انما کے ساتھ حصر قابل ملاحظہ ہے۔ انما المؤمنون الذین امنوا باللہ ورسولہ ثم لم یرتابوا (٤٩ : ١٥) “ حقیقت میں تو مومن وہی ہیں جو اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لائے۔ پھر انہوں نے کوئی شک نہ کیا ”۔ غرض ایمان صرف عبادت ہی نہیں ہے۔ ایمان مجرد شعوری حالت کا نام بھی نہیں ہے اور یہ اس حالت کے اندر کوئی ردو بدل بھی نہیں ہے جو نفس کے اندر ہوتی ہے۔ ایمان کے بعد لم یرتابوا (٤٩ : ١٥) “ پھر انہوں نے کوئی شک نہ کیا ”۔ اور اس کے ساتھ اس آیت کی حصر بھی درج ذیل آیت کے مشابہ ہے۔ ان الذین قالوا ربنا اللہ ثم استقاموا “ وہ لوگ جنہوں نے کہا ، ہمارا رب اللہ ہے اور اس کے بعد انہوں نے استقامت اختیار کی ”۔ یہ کہنے کے بعد کہ اللہ ہمارا رب ہے ، کوئی شک نہ کرنا اور استقامت اختیار کرنا ، اس طرف اشارہ ہے کہ بعض اوقات نفس مومن پر ، مختلف تجربات اور مختلف مشکلات کے نتیجے میں اور بعض شدید آزمائشوں کے نتیجے میں ، شکوک و اضطرابات پیدا ہوجاتے ہیں۔ زندگی کے نشیب و فراز میں بعض اوقات انسانوں پر سخت شدائد آتے ہیں لیکن ایک سچے مومن کے دل میں کوئی اضطراب اور کوئی شک پیدا نہیں ہوتا ۔ وہ ثابت قدم رہتا ہے۔ اور اس کے اندر کوئی تزلز پیدا نہیں ہوتا ۔ اس کا اپنے خدا پر پورا پورا بھروسہ ہوتا ہے اور وہ سیدھی راہ پر پوری استقامت کے ساتھ آگے بڑھتا ہے اور وہ آگے ہی بڑھتا رہتا ہے۔ اس انداز میں بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اہل ایمان کو اس بات پر متنبہ کردیا جائے کہ اس راہ میں بہت سی مشکلات ، مقامات لغزش اور مقامات خطرہ موجود ہیں تا کہ ایک مومن اپنے عزم کو پختہ کرلے ، اپنی تیاری خوب کرے اور سیدھا سیدھا چلے ۔ اور جب افق پر دھند چھا جائے تو اسے شک نہ ہونے لگے اور وہ طوفانوں اور آندھیوں کی نذر نہ ہوجائے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اس کے بعد فرمایا ﴿ اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا باللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ ﴾ (الآیۃ) اس آیت میں یہ بتایا کہ واقعی اور سچے مومن وہی ہیں جو اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان لائے یعنی انہوں نے سچے دل سے تصدیق کی ﴿ ثُمَّ لَمْ يَرْتَابُوْا ﴾ پھر انہوں نے شک نہیں کیا ﴿ وَ جٰهَدُوْا بِاَمْوَالِهِمْ وَ اَنْفُسِهِمْ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ١ؕ﴾ (اور انہوں نے اللہ کی راہ میں اپنی جانوں اور مالوں سے جہاد کیا) اس میں کافروں سے اور اپنے نفس سے جہاد کرنا اور اپنے کو غیر شرعی کاموں سے اور اپنے خاندان اور دیگر افراد کو شریعت اسلامیہ پر چلانے کے سلسلہ میں محنت اور کوشش کرنا سب داخل ہے اپنے نفس کو دینی تقاضوں پر لگانا اس بارے میں مال و جان خرچ کرنا بڑے مجاہدہ کی بات ہے نفس پر قابو پانے کے لیے فکر مند رہنا لازم ہے۔ صاحب روح المعانی لکھتے ہیں : فی سبیل اللّٰہ فی طاعة اللّٰہ عزوجل علی تکثیر فنونھا من العبادات البدنیة المحضة والمالیة الصرفة والمشتملة علیھما معًا کالحج والجھاد۔ (فی سبیل اللہ کا مطلب ہے مختلف شکلوں میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں خواہ وہ محض عبادت بدنی ہو خواہ محض مالی ہو خواہ مالی و بدنی دونوں قسم کی ہو جیسے جہاد اور حج۔ ) ﴿اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الصّٰدِقُوْنَ ٠٠١٥﴾ یہ وہ لوگ ہیں جو سچے ہیں یعنی ان کا دعویٰ ایمان سچا ہے وہ دیہاتی لوگ جنہوں نے اوپر کے دل سے دنیا سازی کے لیے اٰمَنَّا كہہ دیا یہ لوگ مومن نہیں ہیں لفظ اِنَّمَا جو حصر پر دلالت کرتا ہے اس سے یہ معنی مفہوم ہوتا ہے۔ یاد رہے کہ آیت بالا میں ان لوگوں کو مومن بتایا ہے جو اللہ پر بھی ایمان لائے اور اس کے رسولوں پر اور انہیں اپنے ایمان میں شک بھی نہ ہو اس میں واضح طور پر یہ بتادیا کہ محض اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا اور توحید کا قائل ہوجانا ایمان نہیں ہے جو اللہ کے یہاں معتبر ہے اور جس پر نجات کا وعدہ ہے مومن ہونے کے لیے محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانا بھی فرض ہے اس میں ان لوگوں کی تردید ہے جو وحدث ادیان کے قائل ہیں اور کہتے ہیں کہ بس اللہ کو مان لینا آخرت کی نجات کے لیے کافی ہے یہ ان لوگوں کی گمراہی ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

14:۔ ” انما المومنون۔ الایۃ “ ان اعراب کے ادعائے ایمان کے مقابلے میں مومنین کاملین کی صفات کا ذکر ہے۔ صرف زبانی اظہار ایمان سے آدمی مومن نہیں بن جاتا، بلکہ مؤمنین کاملین تو وہ ہیں جو دل و جان سے اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائیں اور پھر توحید و رسالت اور تمام ضروریات دین کے بارے میں ان کے دلوں میں کوئی شک و شبہ یا کھٹکا پیدا نہ ہو۔ اور جب کبھی ضرورت پیش آجائے تو اللہ کی راہ میں مال و جان سے جہاد کرنے میں پیش پیش ہوں۔ یہ لوگ ہیں حقیقت میں سچے اور پکے مومن۔ ای ھم الذین ایمانھم ایمان صدق وحق (مدارک ج 4 ص 133) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(15) کامل ایمان والے تو بس وہ لوگ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے پھر انہوں نے کبھی شک و شبہ نہیں کیا ۔ یعنی ہمیشہ ایمان پر قائم رہے اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی راہ میں مشقتیں برداشت کیں اور جہاد کیا یہی لوگ ہیں جو سچے ہیں۔ یعنی تم تو کاذب ہوکر جھوٹ بولے ایمان کا اور ایمان تھا نہیں سچے اور پورے ایماندار تو وہ لوگ ہیں جو تصدیق قلبی کے ساتھ ایمان لائیں اور زبان سے اقرار کریں اور جہاد میں اپنی جان اور مال لڑادیں تو یہ لوگ سچے اور کامل ایمان والے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ اعمال میں کچھ کوتاہی بھی ہو مگر تصدیق قلبی تو ہو جب بھی تم کو صادق کہا جاسکتا تھا لیکن یہاں تو صدق ہی مفقود ہے بلکہ جھوٹ بول کر دھوکہ دینا مقصود ہے تو تم کو مومن کس طرح کہا جاسکتا ہے اور صادقوں میں سے ہونا تو بہت اونچی چیز ہے۔