Surat ul Maeeda

Surah: 5

Verse: 102

سورة المائدة

قَدۡ سَاَلَہَا قَوۡمٌ مِّنۡ قَبۡلِکُمۡ ثُمَّ اَصۡبَحُوۡا بِہَا کٰفِرِیۡنَ ﴿۱۰۲﴾

A people asked such [questions] before you; then they became thereby disbelievers.

ایسی باتیں تم سے پہلے اور لوگوں نے بھی پوچھی تھیں پھر ان باتوں کے منکر ہوگئے

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Before you, a community asked such questions, then on that account they became disbelievers. meaning, some people before your time asked such questions and they were given answers. They did not believe the answers, so they became disbelievers because of that. This occurred because these rulings were made plain to them, yet they did not benefit at all from that, for they asked about these things not to gain guidance, but only to mock and defy.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

102۔ 1 کہیں اس کوتاہی کے مرتکب تم بھی ہوجاؤ۔ جس طرح ایک مرتبہ نبی نے فرمایا اللہ نے تم پر حج فرض کیا ہے ایک شخص نے سوال کیا ' کیا ہر سال ـ' آپ خاموش رہے، اس نے تین مرتبہ سوال دہرایا پھر آپ نے فرمایا ' اگر میں ہاں کہہ دیتا تو حج ہر سال فرض ہوجاتا اور اگر ایسا ہوجاتا تو ہر سال حج کرنا تمہارے لئے ممکن نہ ہوتا ' تمہیں جن چیزوں کی بابت نہیں بتایا گیا، تم مجھ سے ان کی بابت سوال مت کرو، اس لئے کہ تم سے پہلی امتوں کی ہلاکت کا سبب ان کا کثرت سوال اور اپنے انبیاء سے اختلاف بھی تھا '۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٥٠] شریعت کے اجمالی حکم کی جزئیات کا قیاس نہ کیا جائے :۔ یہ یہود تھے جنہوں نے سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) سے سوال کر کر کے انہیں پریشان کر رکھا تھا جیسا کہ سورة بقرہ کی آیت نمبر ١٠٨ سے واضح ہوتا ہے۔ کہ جب انہیں گائے ذبح کرنے کا حکم دیا گیا تو انہوں نے پے در پے سوالات شروع کردیئے کہ ہمیں اللہ سے پوچھ کر بتاؤ کہ اس گائے کی عمر کیا ہو، اس کا رنگ کیسا ہو اس کی کیفیت کیسی ہے ؟ وغیرہ وغیرہ۔ حالانکہ اگر وہ کوئی بھی سوال نہ کرتے تو کوئی سی گائے ذبح کرنے میں آزاد تھے۔ مگر پے در پے سوال کرنے سے اپنے آپ پر پابندی ہی بڑھاتے گئے اور یہی زیادہ سوال کرنے کا نقصان ہوتا ہے۔ شریعت اگر ایک حکم اجمالاً بیان کرے تو اس کے اجمال سے فائدہ اٹھانے میں بھی مسلمانوں کے لئے آسانی ہے۔ اجتہاد و استنباط کر کے اس کی تفصیلات معین کر کے مسلمانوں کے لئے مشکلات کا یا الجھنوں کا سبب نہ بننا چاہیے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قَدْ سَاَلَهَا قَوْمٌ مِّنْ قَبْلِكُمْ ۔۔ : یہ بنی اسرائیل کی طرف اشارہ ہے، کیونکہ ان کا حال یہ تھا کہ اپنے انبیاء سے ایک چیز خواہ مخواہ کرید کرید کر دریافت کرتے اور جب وہ حرام قرار دے دی جاتی تو بجا نہ لاتے، اس طرح دونوں حالتوں میں نافرمان ٹھہرتے۔ یہ ساری آفت بلا ضرورت کثرت سوال سے پیش آتی۔ ان کی اس روش کی متعدد مثالیں سورة بقرہ میں گزر چکی ہیں۔ ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں خطبہ دیا اور فرمایا : ” لوگو ! اللہ نے تم پر حج فرض کیا ہے، لہٰذا حج کرو۔ “ تو ایک آدمی نے کہا : ” یا رسول اللہ ! کیا ہر سال ؟ “ آپ خاموش رہے، یہاں تک کہ اس نے تین بار یہی بات کہی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اگر میں ہاں کہہ دیتا تو فرض ہوجاتا اور تم نہ کرسکتے۔ “ پھر فرمایا : ” مجھے چھوڑے رکھو جب تک میں تمہیں چھوڑے رکھوں، کیونکہ تم سے پہلے لوگ اپنے سوالوں کی کثرت اور انبیاء سے اختلاف کی وجہ ہی سے ہلاک ہوئے، تو جب میں تمہیں کسی چیز کا حکم دوں تو اس میں سے جتنا کرسکو کرو اور جب میں تمہیں کسی چیز سے منع کر دوں تو اسے چھوڑ دو ۔ “ [ مسلم، الحج، باب فرض الحج مرۃ فی العمر : ١٣٣٧ ]

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَدْ سَاَلَہَا قَوْمٌ مِّنْ قَبْلِكُمْ ثُمَّ اَصْبَحُوْا بِہَا كٰفِرِيْنَ۝ ١٠٢ قوم والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] ، ( ق و م ) قيام القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] صبح الصُّبْحُ والصَّبَاحُ ، أوّل النهار، وهو وقت ما احمرّ الأفق بحاجب الشمس . قال تعالی: أَلَيْسَ الصُّبْحُ بِقَرِيبٍ [هود/ 81] ، وقال : فَساءَ صَباحُ الْمُنْذَرِينَ [ الصافات/ 177] ، والتَّصَبُّحُ : النّوم بالغداة، والصَّبُوحُ : شرب الصّباح، يقال : صَبَحْتُهُ : سقیته صبوحا، والصَّبْحَانُ : الْمُصْطَبَحُ ، والْمِصْبَاحُ : ما يسقی منه، ومن الإبل ما يبرک فلا ينهض حتی يُصْبَحَ ، وما يجعل فيه الْمِصْبَاحُ ، قال : مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكاةٍ فِيها مِصْباحٌ الْمِصْباحُ فِي زُجاجَةٍ [ النور/ 35] ، ويقال للسّراج : مِصْبَاحٌ ، والْمِصْبَاحُ : مقرّ السّراج، والْمَصَابِيحُ : أعلام الکواكب . قال تعالی: وَلَقَدْ زَيَّنَّا السَّماءَ الدُّنْيا بِمَصابِيحَ [ الملک/ 5] ، وصَبِحْتُهُمْ ماء کذا : أتيتهم به صَبَاحاً ، والصُّبْحُ : شدّة حمرة في الشّعر، تشبيها بالصّبح والصّباح، وقیل : صَبُحَ فلان أي : وَضُؤَ ( ص ب ح) الصبح والصباح دن کا ابتدائی حصہ جبکہ افق طلوع آفتاب کی وجہ سے سرخ ہو ۔ قرآن میں ہے ۔ أَلَيْسَ الصُّبْحُ بِقَرِيبٍ [هود/ 81] کیا صبح کچھ دور ہے ۔ فَساءَ صَباحُ الْمُنْذَرِينَ [ الصافات/ 177] تو جن کو ڈرسنا یا گیا ہے ۔ ان کے لئے برادن ہوگا ۔ التصبح صبح کے وقت سونا ۔ الصبوح صبح کی شراب کو کہتے ہیں اور صبحتہ کے معنی صبح کی شراب پلانے کے ہیں ۔ الصبحان صبح کے وقت شراب پینے والا ( مونث صبحیٰ ) المصباح (1) پیالہ جس میں صبوحی پی جائے (2) وہ اونٹ جو صبح تک بیٹھا رہے (3) قندیل جس میں چراغ رکھا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكاةٍ فِيها مِصْباحٌ الْمِصْباحُ فِي زُجاجَةٍ [ النور/ 35] اس کے نور کی مثال ایسی ہے گویا ایک طاق ہے جس میں چراغ اور چراغ ایک قندیل میں ہے ۔ اور چراغ کو بھی مصباح کہاجاتا ہے اور صباح کے معنی بتی کی لو کے ہیں ۔ المصا بیح چمکدار ستارے جیسے فرمایا : وَلَقَدْ زَيَّنَّا السَّماءَ الدُّنْيا بِمَصابِيحَ [ الملک/ 5] اور ہم نے قریب کے آسمان کو تاروں کے چراغوں سے زینت دی ۔ صبحتم ماء کذا میں صبح کے وقت انکے پاس فلاں پانی پر جاپہنچا اور کبھی صبیح یا صباح کی مناسبت سے بالوں کی سخت سرخی کو بھی صبح کہا جاتا ہے ۔ صبح فلان خوبصورت اور حسین ہونا ۔ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

قول باری ہے (قدسا لھا قوم من قبلکم ثم اصبحوا بھا کافرین ، تم سے پہلے ایک گروہ نے اس قسم کے سوالات کئے تھے پھر وہ لوگ ان ہی باتوں کی وجہ سے کفر میں مبتلا ہوگئے ) حضرت ابن عباس کا قول ہے کہ اس سے مراد حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی قوم ہے، انہوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے مائدہ یعنی کھانوں سے بھرے ہوئے دستر خوان کا معجزہ طلب کیا تھا پھر اس کے ظہور کے بعد اس کا انکار کر بیٹھے تھے۔ دوسرے حضرات کو قول ہے کہ اس سے حضرت صالح (علیہ السلام) کی قوم مراد ہے۔ انہوں نے اونٹنی کا معجزہ طلب کیا تھ اپھر جب اونٹنی ظاہر ہوگئی تو اسے ہلاک کردیا اور اس معجزے کا انکار کر بیٹھے۔ سدی کا قول ہے کہ یہ بات اس وقت پیش آئی جب لوگوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ عرض کیا تھا کہ کوہ صفا سونا بنادیا جائے۔ ایک قول کے مطابق اس سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے بنی سے ان جیسی چیزوں کے متعقل سوال کیا تھا جن کے بارے میں عبداللہ بن حذافہ اور اس دوسرے شخص کے سوالات تھے جس نے یہ پوچھا تھا کہ میں کہاں ہوں گا۔ ان لوگوں کو جب ان کے نبی نے وہ باتیں بتلا دیں تو انہیں بہت برا لگا اور وہ لوگ اس نبی کی تکذیب پر اتر آئے اور انہیں نبی ماننے سے انکار کردیا۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٠٢ (قَدْ سَاَلَہَا قَوْمٌ مِّنْ قَبْلِکُمْ ثُمَّ اَصْبَحُوْا بِہَا کٰفِرِیْنَ ) اب یہاں ان چار چیزوں کا ذکر آ رہا ہے جو ان کے ہاں خواہ مخواہ بہت زیادہ مقدس ہوگئی تھیں۔ یہ گویا اللہ تعالیٰ کے ان چار شعائر کے مقابلے کی چار چیزیں ہیں جن کا ذکر پیچھے آیت ٩٧ میں ہوا ہے : (جَعَلَ اللّٰہُ الْکَعْبَۃَ الْبَیْتَ الْحَرَامَ قِیٰمًا لِّلنَّاسِ وَالشَّہْرَ الْحَرَامَ وَالْہَدْیَ وَالْقَلَآءِدَ ط) وہاں ان چار چیزوں کی توثیق کی گئی تھی کہ وہ واقعتاً اللہ کی شریعت کے اجزاء ہیں ‘ ان کا احترام اور ان کی حرمت کو ملحوظ رکھنا اہل ایمان پر لازم ہے۔ لیکن یہاں توجہ دلائی جا رہی ہے کہ کچھ چیزیں تمہارے ہاں ایسی رائج ہیں جو دور جاہلیت کے مشرکانہ اوہام کی یادگاریں ہیں۔ چناچہ فرمایا :

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

117. Some people first indulged in hair-splitting arguments about their laws and dogma, and thereby wove a great web of credal elaborations and legal minutiae. Then they became enmeshed in this same web and thus became guilty of dogmatic errors and the violation of their own religious laws. The people referred to here are the Jews, and the Muslims who followed in their footsteps and left no stone unturned, despite the warnings contained in the Qur'an and in the sayings of the Prophet Muhammad (peace be on him).

سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :117 یعنی پہلے انہوں نے خود ہی عقائد اور احکام میں موشگافیاں کیں اور ایک ایک چیز کے متعلق سوال کر کر کے تفصیلات اور قیود کا ایک جال اپنے لیے تیار کرایا ، پھر خود ہی اس میں الجھ کر اعتقادی گمراہیوں اور عملی نافرمانیوں میں مبتلا ہو گئے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس گروہ سے مراد یہودی ہیں جن کے نقش قدم پر چلنے میں ، قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تنبیہات کے باوجود ، مسلمانوں نے کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

70: اس سے غالباً یہودیوں کی طرف اشارہ ہے جو شریعت کے احکام میں اسی قسم کی بال کی کھال نکالتے تھے، اور جب ان کے اس عمل کے نتیجے میں ان پر پابندیاں بڑھتی تھیں تو انہیں پورا کرنے سے عاجز ہوجاتے، اور بعض اوقات ان کی تعمیل سے صاف انکار بھی کر بیٹھتے تھے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(5:102) سئالہا۔ ھا ضمیر واحد مؤنث غائب کا مرجع اشیاء نہیں بلکہ المسئلۃ (پوچھ ۔ دریافت۔ سوال و جواب) محذوف ہے۔ یعنی ایسا ہی مسئلہ اٹھایا تھا ایک قوم نے تم سے پہلے بھی (یہاں قوم سے مراد کسی ایک خاص نبی کی قوم نہیں بلکہ سوال کرنے والوں کی ایک جماعت یعنی کئی سوال کرنے والوں نے ایسے سوال کئے تھے مثلاً حضرت صالح (علیہ السلام) کی قوم نے اونٹنی کے متعلق اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم نے اللہ تعالیٰ کو بالجہر دیکھنے کے متعلق ۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی قوم نے المائدہ کے متعلق) ثم اصبحوا بھا کفرین۔ بھا بمعنی بترکہم العمل بھا مراد ہے پھر وہ منکر ہوگئے اس وضاحت پر عدم عمل کی وجہ سے۔ پھر وہ ان احکام کا انکار کرنے والے ہوگئے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 یہ بنی اسرائیل کی طرف اشارہ ہے کیونکہ ان کا حال یہ تھا کہ اپنے انبیا سے ایک چیز خواہ مخواہ کرید کرید کر دریافت کرتے اور جب وہ حرام قرار دے دی جاتی تو اس سے باز نہ آتے اور فرض قرار دے جاتی تو یحانہ لاتے اس طرح دونوں حالتوں میں نافرمان ٹھہر تے یہ ساری آفت بلا ضرورت کثرت سوال سے آتی اس کی اس روش کی متعدد مثالیں سورة بقرہ میں گزرچکی ہیں بعض روایات میں ہے کہ جب آیت وللہ علی الناس حج البیت من استطاع الیہ سبیلا آل عمران 97) نازل ہوئی تو ایک شخص نے کھڑے ہو کر سواک کیا کہ اے اللہ کے رسول کیا حج ہر سال فرض ہے اس نے یہی سوال دو تین مرتبہ کیا مگر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کوئی جواب نہ دیا پھر فرمایا کہ اتر میں نعم (ہاں) کہہ دیتا تو ہر سال فرض ہوجاتا اور تم بجانہ لاتے تو کافر ہوجاتے اس پر یہ آیات نازل ہوئیں : یا یھا الذین امنو الا تسئلو ( ابن کثیر )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

گزشتہ قوموں نے سوال کئے پھر منکر ہو گئے پھر فرمایا (قَدْ سَاَلَھَا قَوْمٌ مِّنْ قَبْلِکُمْ ثُمَّ اصْبَحُوْا بِھَا کٰفِرِیْنَ ) کہ تم سے پہلے لوگوں نے سوال کئے تھے پھر ان کے منکر ہوگئے یعنی جب ان سوالات کا جواب دیا گیا تو ان جوابوں سے منتفع نہ ہوئے اور جو حکم ملا اس پر عمل نہ کیا۔ یہود و نصاریٰ کی ایسی عادت تھی پوچھتے تھے پر عمل نہیں کرتے تھے۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے حواریوں کا یہ سوال کرنا کہ آسمان سے مائدہ نازل ہو۔ یہ تو مشہور ہی ہے مائدہ نازل ہوا تو ان لوگوں سے کہا گیا تھا کہ جو کھا سکتے ہو کھالو۔ اس سے اٹھا کر نہ رکھنا لیکن وہ لوگ نہ مانے اور گنہگار ہوئے۔ اسی طرح قوم ثمود نے پہاڑ سے اونٹنی نکالنے کا سوال کیا پھر جب اونٹنی نکل آئی تب بھی ایمان نہ لائے اور اونٹنی کو کاٹ ڈالا۔ جو کوئی ضرورت پیش آگئی ہو اس کے بارے میں سوال کرنا درست ہے اور خواہ مخواہ بلا ضرورت سوال کرنے میں اضاعت وقت بھی ہے اور لایعنی کا ارتکاب بھی، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا مِنْ حُسْنِِ اِسْلَامِ الْمَرْءِ تَرْکُہٗ مَا لَا یَعْنِیْہِ (ترمذی) یعنی انسان کے اسلام کے ایک خوبی یہ ہے کہ لایعنی چیزکو چھوڑ دے۔ لوگوں کو دیکھا جاتا ہے کہ فرائض وواجبات تک نہیں جانتے نماز تک یاد نہیں لیکن ادھر ادھر کے سوالات کرتے رہتے ہیں۔ علامہ ابوبکر جصاص (رض) کا ارشاد علامہ ابوبکر جصاص (رض) احکام القرآن میں تحریر فرماتے ہیں کہ بعض لوگوں نے آیت بالا سے اس پر استدلال کیا ہے کہ حوادث اور نوازل کے بارے میں جواب وسوال نہ کیا جائے۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے بیان نہیں فرمائے تو ہمیں ان کی حاجت نہیں لہٰذا جو احکام غیر منصوص ہیں ان کے بارے میں غوروفکر کی ضرورت نہیں ان لوگوں کا یہ کہنا صحیح نہیں احکام غیر منصوصہ کے بارے میں سوال کرنا آیت کے مفہوم میں داخل نہیں اور اس کی دلیل یہ ہے کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ناجیہ بن جندب (رض) کو ھدی کے اونٹ حرم مکہ لے جانے کی ذمہ داری پیش کی تو انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! اگر ان میں سے کوئی جانور ہلاک ہونے لگے تو اس کا میں کیا کروں ؟ آپ نے فرمایا کہ اس کو ذبح کردینا اور اس کے جوتے کو (جو بطور نشانی کی اس کی گردن میں پڑا ہو کہ یہ ھدی کا جانور ہے) خون سے رنگ دینا۔ حضرت ناجیہ (رض) نے ایک صورت حال کے بارے میں سوال کیا جو پیش آسکتی تھی۔ آپ کو اس سوال سے بھی ناگواری نہ ہوئی اور جواب عنایت فرما دیا۔ شیخ ابوبکر جصاص (رض) نے اور دو تین روایتیں ایسی نقل کی ہیں جن میں پیش آسکنے والے واقعات کے بارے میں سوال پیش کرنے پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جواب دینے کا ذکر ہے۔ اس کے بعد لکھتے ہیں اس طرح کی بہت احادیث ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ امور غیر منصوصہ کے بارے میں سوال کرنا ممنوع نہیں پھر لکھتے ہیں کہ صحا بہ کرام (رض) مسجد میں جمع ہوتے اور نئے نئے مسائل کے بارے میں آپس میں مذاکرہ کرتے تھے اور یہی حضرات تابعین کا معمول رہا اور ان کے بعد فقہا نے اپنا معمول بنا لیا اور آج تک ایسا ہورہا ہے اس کے بعد شیخ ابوبکر جصاص (رض) لکھتے ہیں کہ امور غیر منصوصہ کے بارے میں بولنے سے اور ان کا فقہ مستنبط کرنے سے عاجز رہے۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشا ہے : ” رب حامل فقہ غیر فقیہ و رب حامل فقہ الی من ھوا فقہ منہ “ (بہت سے حامل فقہ ایسے ہیں جو خود فقیہ نہیں اور بہت سے حامل فقہ ایسے ہیں جو اپنے سے زیادہ فقیہ تک پہنچا دیتے ہیں) علامہ جصاص (رض) اس کے بعد لکھتے ہیں کہ یہ جماعت جو احکام غیر منصوصہ میں غور فکر کرنے کا انکار کرتی ہے یہ لوگ اس آیت کا مصداق ہے۔ (مَثَلُ الَّذِیْنَ حُمِّلُوْا التَّوْرَاۃَ ثُمَّ لَمْ یَحْمِلُوْھَا کَمَثَلِ الْحِمَارِ یَحْمِلُ اَسْفَارًا)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

102 بلاشبہ تم سے پہلے بھی بعض لوگوں نے اسی قسم کے بےموقعہ سوالات اپنے پیغمبروں سے کئے تھے پھر جواب ملنے پر عمل نہ کرسکے اور ان کا حق بجا لانے سے منکر ہوگئے یعنی سوال کا جب جواب دیا گای تو اس پر عمل نہ کرسکے اور منکر ہوگئے اس لئے احتیاط اسی میں ہے کہ بےموقع سوال نہ کیا کرو۔