Surat ul Maeeda

Surah: 5

Verse: 107

سورة المائدة

فَاِنۡ عُثِرَ عَلٰۤی اَنَّہُمَا اسۡتَحَقَّاۤ اِثۡمًا فَاٰخَرٰنِ یَقُوۡمٰنِ مَقَامَہُمَا مِنَ الَّذِیۡنَ اسۡتَحَقَّ عَلَیۡہِمُ الۡاَوۡلَیٰنِ فَیُقۡسِمٰنِ بِاللّٰہِ لَشَہَادَتُنَاۤ اَحَقُّ مِنۡ شَہَادَتِہِمَا وَ مَا اعۡتَدَیۡنَاۤ ۫ ۖاِنَّاۤ اِذًا لَّمِنَ الظّٰلِمِیۡنَ ﴿۱۰۷﴾

But if it is found that those two were guilty of perjury, let two others stand in their place [who are] foremost [in claim] from those who have a lawful right. And let them swear by Allah , "Our testimony is truer than their testimony, and we have not transgressed. Indeed, we would then be of the wrongdoers."

پھر اگر اس کی اطلاع ہو کہ وہ دونوں گواہ کسی گناہ کے مرتکب ہوئے ہیں تو ان لوگوں میں سے جن کے مقابلہ میں گناہ کا ارتکاب ہوا تھا اور دو شخص جو سب میں قریب تر ہیں جہاں وہ دونوں کھڑے ہوئے تھے یہ دونوں کھڑے ہوں پھر دونوں اللہ کی قسم کھائیں کہ بالیقین ہماری یہ قسم ان دونوں کی اس قسم سے زیادہ راست ہے اور ہم نے ذرا تجاوز نہیں کیا ، ہم اس حالت میں سخت ظالم ہونگے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

فَإِنْ عُثِرَ عَلَى أَنَّهُمَا اسْتَحَقَّا إِثْمًا فَأخَرَانِ يِقُومَانُ مَقَامَهُمَا مِنَ الَّذِينَ اسْتَحَقَّ عَلَيْهِمُ الاَوْلَيَانِ ... If it then becomes known that these two had been guilty of sin, let two others stand forth in their places, nearest in kin from among those who claim a lawful right. ... فَيُقْسِمَانِ بِاللّهِ لَشَهَادَتُنَا أَحَقُّ مِن شَهَادَتِهِمَا ... Let them swear by Allah (saying): "We affirm that our testimony is truer than that of both of them..." Meaning, our testimony that they have cheated is more truthful than the testimony that they have offered, ... وَمَا اعْتَدَيْنَا ... and that we have not trespassed (the truth), when we accused them of treachery, ... إِنَّا إِذًا لَّمِنَ الظَّالِمِينَ for then indeed we should be of the wrongdoers. if we had lied about them. This is the oath of the heirs, and preference is to be given to their saying. Just as in the case with the oath of relative of a murdered person if he attempts to tarnish the case of the murdered person. So his family takes an oath in defense of his honor. This is discussed in the studies of the oaths in the books of Ahkam. Allah's statement,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

107۔ 1 یعنی جھوٹی قسمیں کھائیں ہیں۔ 107۔ 2 اولیان، اولی کا تثنیہ ہے، مراد ہے میت یعنی موصی (وصیت کرنے والا) کے قریب ترین دو رشتے دار من الذین استحق علیہم کا مطلب یہ ہے جن کے مقابلے پر گناہ کا ارتکاب ہوا تھا یعنی جھوٹی قسم کا ارتکاب کر کے ان کو ملنے والا مال ہڑپ کرلیا تھا، الاولیان یہ یا تو ھما مبتدا محذوف کی خبر ہے یا یقومان یا آخران کی ضمیر سے بدل ہے۔ یعنی یہ دو قریبی رشتہ دار، ان کی جھوٹی قسموں کے مقابلے میں اپنی قسم دیں گے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٥٥] اس واقعہ اور ان آیات کا مرکزی مضمون یہ ہے کہ ہر حال میں گواہی ٹھیک ٹھیک اور سچی ہی دینا چاہیے اور یہ مضمون قرآن کریم میں بیشمار مقامات پر آیا ہے اور جھوٹی یا گول مول یا ہیرا پھیری کی شہادت کو گناہ کبیرہ قرار دیا گیا ہے۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے بھی واضح ہے۔ جھوٹی شہادت کبیرہ گناہ ہے :۔ سیدنا ابوبکر صدیق (رض) فرماتے ہیں کہ آپ نے صحابہ سے فرمایا && کیا میں تمہیں بڑے بڑے گناہوں کی خبر نہ دوں ؟ && صحابہ نے کہا : یا رسول اللہ ! ضرور بتائیے۔ آپ نے فرمایا && اللہ کے ساتھ شرک کرنا اور والدین کی نافرمانی && اس وقت آپ تکیہ لگائے ہوئے تھے۔ پھر سیدھے بیٹھ گئے اور فرمایا && خبردار ! جھوٹا قول اور جھوٹی شہادت۔ خبردار جھوٹا قول اور جھوٹی شہادت۔ آپ یہ کلمات دہراتے ہی رہے۔ میں سمجھا کہ آپ چپ ہی نہ ہوں گے۔ (بخاری کتاب الادب۔ باب عقوق الوالدین من الکبائر) (مسلم۔ کتاب الایمان۔ باب بیان الکبائر و اکبرھا)

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَاِنْ عُثِرَ عَلٰٓي اَنَّہُمَا اسْتَحَقَّآ اِثْمًا فَاٰخَرٰنِ يَقُوْمٰنِ مَقَامَہُمَا مِنَ الَّذِيْنَ اسْتَحَقَّ عَلَيْہِمُ الْاَوْلَيٰنِ فَيُقْسِمٰنِ بِاللہِ لَشَہَادَتُنَآ اَحَقُّ مِنْ شَہَادَتِہِمَا وَمَا اعْتَدَيْنَآ ۝ ٠ۡۖ اِنَّآ اِذًا لَّمِنَ الظّٰلِـمِيْنَ۝ ١٠٧ عثر عَثَرَ الرّجلُ يَعْثُرُ عِثَاراً وعُثُوراً : إذا سقط، ويتجوّز به فيمن يطّلع علی أمر من غير طلبه . قال تعالی: فَإِنْ عُثِرَ عَلى أَنَّهُمَا اسْتَحَقَّا إِثْماً [ المائدة/ 107] ، يقال : عَثَرْتُ علی كذا . قال : وَكَذلِكَ أَعْثَرْنا عَلَيْهِمْ [ الكهف/ 21] ، أي : وقّفناهم عليهم من غير أن طلبوا . ( ع ث ر ) عثر یعثر عثار وعثورا کے معنی پھسل جانے اور گر پڑنے کے ہیں مجازا عثر علٰی کٰذا کے معنی کسی بات پر بغیر قصد کے مطلع ہوجانا بھی آتے ہیں ۔ قرآن میں ہے فَإِنْ عُثِرَ عَلى أَنَّهُمَا اسْتَحَقَّا إِثْماً [ المائدة/ 107] پھر اگر معلوم ہوجائے کہ انہوں نے جرم کا ارتکاب کیا ہے ۔ ( اعثرہ علٰی کذا اس نے فلاں کو اس چیز سے باخبر کردیا چناچہ قرآن میں ہے : وَكَذلِكَ أَعْثَرْنا عَلَيْهِمْ [ الكهف/ 21] اور اس طرح ہم نے لوگوں کو ان کے حال سے باخبر کردیا یعنی لوگوں کے قصد کے بغیر ہی ہم نے ان کے حال پر مطلع کردیا ۔ مَقامُ والمَقامُ يكون مصدرا، واسم مکان القیام، وزمانه . نحو : إِنْ كانَ كَبُرَ عَلَيْكُمْ مَقامِي وَتَذْكِيرِي [يونس/ 71] ، ذلِكَ لِمَنْ خافَ مَقامِي وَخافَ وَعِيدِ [إبراهيم/ 14] ، وَلِمَنْ خافَ مَقامَ رَبِّهِ [ الرحمن/ 46] ، وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقامِ إِبْراهِيمَ مُصَلًّى [ البقرة/ 125] ، فِيهِ آياتٌ بَيِّناتٌ مَقامُ إِبْراهِيمَ [ آل عمران/ 97] ، وقوله : وَزُرُوعٍ وَمَقامٍ كَرِيمٍ [ الدخان/ 26] ، إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي مَقامٍ أَمِينٍ [ الدخان/ 51] ، خَيْرٌ مَقاماً وَأَحْسَنُ نَدِيًّا [ مریم/ 73] ، وقال : وَما مِنَّا إِلَّا لَهُ مَقامٌ مَعْلُومٌ [ الصافات/ 164] ، وقال : أَنَا آتِيكَ بِهِ قَبْلَ أَنْ تَقُومَ مِنْ مَقامِكَ [ النمل/ 39] قال الأخفش : في قوله قَبْلَ أَنْ تَقُومَ مِنْ مَقامِكَ [ النمل/ 39] : إنّ المَقَامَ المقعد، فهذا إن أراد أنّ المقام والمقعد بالذّات شيء واحد، وإنما يختلفان بنسبته إلى الفاعل کالصّعود والحدور فصحیح، وإن أراد أنّ معنی المقام معنی المقعد فذلک بعید، فإنه يسمی المکان الواحد مرّة مقاما إذا اعتبر بقیامه، ومقعدا إذا اعتبر بقعوده، وقیل : المَقَامَةُ : الجماعة، قال الشاعر : 379- وفيهم مَقَامَاتٌ حسان وجوههم «1» وإنما ذلک في الحقیقة اسم للمکان وإن جعل اسما لأصحابه . نحو قول الشاعر : 380- واستبّ بعدک يا كليب المجلس فسمّى المستبّين المجلس . المقام یہ قیام سے کبھی بطور مصدر میمی اور کبھی بطور ظرف مکان اور ظرف زمان کے استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ كانَ كَبُرَ عَلَيْكُمْ مَقامِي وَتَذْكِيرِي [يونس/ 71] اگر تم کو میرا رہنا اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نصیحت کرنا ناگوار ہو ۔ ذلِكَ لِمَنْ خافَ مَقامِي وَخافَ وَعِيدِ [إبراهيم/ 14] اس شخص کے لئے ہے جو قیامت کے روز میرے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرے ۔ وَلِمَنْ خافَ مَقامَ رَبِّهِ [ الرحمن/ 46] اور جو شخص اپنے پروردگار کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرا ۔ وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقامِ إِبْراهِيمَ مُصَلًّى [ البقرة/ 125] کی جگہ بنا لو ۔ فِيهِ آياتٌ بَيِّناتٌ مَقامُ إِبْراهِيمَ [ آل عمران/ 97] اس میں کھلی ہوئی نشانیاں ہیں جن میں سے ایک ابراھیم (علیہ السلام) کے کھڑے ہونے کی جگہ ہے ۔ وَزُرُوعٍ وَمَقامٍ كَرِيمٍ [ الدخان/ 26] اور کھیتیاں اور نفیس مکان ۔ إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي مَقامٍ أَمِينٍ [ الدخان/ 51] بیشک پرہیزگار لوگ امن کے مقام میں ہوں گے ۔ خَيْرٌ مَقاماً وَأَحْسَنُ نَدِيًّا [ مریم/ 73] مکان کس کے اچھے اور مجلس کس کی بہتر ہیں ۔ وَما مِنَّا إِلَّا لَهُ مَقامٌ مَعْلُومٌ [ الصافات/ 164] ہم میں سے ہر ایک کا ایک مقرر مقام ہے اور آیت کریمہ : ۔ أَنَا آتِيكَ بِهِ قَبْلَ أَنْ تَقُومَ مِنْ مَقامِكَ [ النمل/ 39] قبل اس کے کہ آپ اپنی جگہ سے اٹھیں میں اس کو آپ کے پاس حاضر کرتا ہوں ۔ کی تفسیر میں اخفش نے کہا ہے کہ یہاں مقام بمعنی مقعد یعنی نشستگاہ کے ہیں اگر اخفش کا مقصد اس سے یہ ہے کہ مقام اور مقصد بالزات ایک ہی چیز کے دو نام ہیں صرف نسبت ( لی ) الفاعل کے لحاظ سے دونوں میں فرق پایا جاتا ( یعنی ایک ہی جگہ کو کسی شخص کے ہاں اور بیٹھنے کے اعتبار سے مقعد کہا جاتا ہے جس طرح کہ صعود اور حدور کے الفاظ ہیں ( کہ ایک ہی جگہ کو اوپر چڑھنے کے لحاظ سے صعود اور اس سے نیچے اترنے کے لحاظ سے حدود کہا جاتا ہے ) تو بجا ہے اور اگر ان کا مقصد یہ ہے کہ لغت میں مقام بمعنی نے المقامتہ کے معنی جماعت بھی کئے ہیں ۔ چناچہ شاعر نے کہا ہے ( الطویل ) ( 322 ) ونیھم مقامات حسان وجوھم اور ان میں خوڈ لوگوں کی جماعتیں ہیں مگر یہ بھی دراصل ظرف مکان ہے اگرچہ ( مجازا ) اصھاب مقام مراد ہیں جس طرح کہ ا ( الکامل ) ؎( 327 ) واستب بعدک یاکلیب المجلس اے کلیب تیرے بعد لوگ ایک دوسرے کو گالیاں دینے لگے ہیں ۔ میں مجلس سے اہل مجلس مراد ہیں ۔ عدا والاعْتِدَاءُ : مجاوزة الحقّ. قال تعالی: وَلا تُمْسِكُوهُنَّ ضِراراً لِتَعْتَدُوا[ البقرة/ 231] ، وقال : وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَتَعَدَّ حُدُودَهُ [ النساء/ 14] ، ( ع د و ) العدو الاعتداء کے معنی حق سے تجاوز کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَلا تُمْسِكُوهُنَّ ضِراراً لِتَعْتَدُوا[ البقرة/ 231] اور اس نیت سے ان کو نکاح میں نہ رہنے دینا چاہیئے کہ انہیں تکلیف دو اور ان پر زیادتی کرو ۔ ظلم وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه، قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ: الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی، وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس، وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری/ 42] والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه، وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] ، ( ظ ل م ) ۔ الظلم اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی سب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔ ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٠٧) چناچہ قسموں کے بعد ان دونوں کی خیانت اولیاء مقتول پر ظاہر ہوگئی، چناچہ اب مقدمہ کا رخ تبدیل ہوگیا، تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جب ان دونوں نصرانیوں کی خیانت واضح ہوگئی تو ان نصرانیوں کی جگہ جن پر خیانت ثابت ہوئی تھی اولیاء میت میں سے دو میت کے قریب ترین وارث یعنی حضرت عمرو بن العاص (رض) اور مطلب بن ابی دواعتہ کھڑے ہوں اور جنہوں نے اولیاء میت سے مال چھپا لیا تھا ان کے خلاف اللہ کی قسم کھائیں کہ جو مال میت کا انہوں نے پہنچایا ہے، مال اس سے زیادہ تھا، ہمیں مسلمانوں کی شہادت ان نصرانیوں کی شہادت سے زیادہ سچی ہے، کیونکہ ہم نے اپنے دعوے میں ذرا بھی تجاوز نہیں کیا کیوں کہ اگر ہم ایسا کریں تو ہم سخت ظالم ہوں گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٠٧ (فَاِنْ عُثِرَ عَلآی اَنَّہُمَا اسْتَحَقَّآ اِثْمًا) حلفیہ بیان بھی غلط دیا ہے اور وصیّت میں ترمیم کی ہے ‘ اس کے باوجود کہ نماز کے بعد مسجد کے اندر حلف اٹھا کر بات کر رہے ہیں۔ آخر انسان ہیں اور ہر معاشرے میں ہر طرح کے انسان ہر وقت موجود رہتے ہیں۔ (فَاٰخَرٰنِ یَقُوْمٰنِ مَقَامَہُمَا) (مِنَ الَّذِیْنَ اسْتَحَقَّ عَلَیْہِمُ الْاَوْلَیٰنِ ) اب وہ کھڑے ہو کر کہیں گے کہ یہ لوگ ہمارا حق تلف کر رہے ہیں ‘ انہوں نے وصیت کے اندر خیانت کی ‘ ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

74: یہ ترجمہ امام رازی (رح) کی اختیار کردہ تفسیر پر مبنی ہے جس کی رو سے ’’ الاولیان‘‘ سے مراد پہلے دو گواہ ہیں۔ جنہوں نے خیانت کی تھی۔ وھذا التفسیر اولیٰ حسب قراءۃ ’’ استحق‘‘ علی البناء للفاعل کما ھو قراءۃ حفص، بالنظر الی اعراب الایۃ اما التفسیر الذی جعل ’’ االاولیا‘‘ صفۃ للورثۃ، فوجھہ فی الاعراب خفی جدا، لانہ لا یظھر فیھا فاعل ’’ استحق‘‘ الا بتکلف، و راجع روح المعانی و البحر المحیط و التفسیر الکبیر، نعم یظھر ذلک التفسیر فی قراءۃ ’’ استحق‘‘ علی البناء و للمفعول۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(5:107) عثر علی۔ اسے اطلاع کردی گئی۔ اسے خبر کردی گئی۔ (باب نصر، ضرب) عثور سے جس کے معنی بغیر چاہے کسی چیز پر مطلع ہوجانے کے ہیں ماضی مجہول واحد مذکر غائب۔ عثر یعثر عثارا و عثورا۔ کے معنی گر پڑنے کے ہیں اور مجازاً اس کا استعمال کسی شخص کے اچانک بلاطلب کسی بات پر مطلع ہوجانے کے لئے ہوتا ہے۔ وکذلک اعثرنا علیہم (8:21) اور اسی طرح ہم نے لوگوں کو ان کے حال سے با خبر کردیا۔ یعنی لوگوں کے قصد کے بغیر ہی ہم نے ان کے حال پر مطلع کردیا۔ استحقا۔ وہ دونوں حق دار ہوئے۔ استحقاق ماضی کا صیغہ تثنیہ غائب استحقا اثما وہ دونوں گناہ کے مرتکب ہوئے۔ یا کسی گناہ کے سزا وار ہوئے۔ گناہ کرکے مستحق سزا ہوئے۔ استحق علیہم الاولین۔ پہلے دونوں نے جن کا حق ضائع کیا تھا۔ فیقسمن۔ پس وہ دونوں قسم اٹھاویں۔ یعنی وہ دو نئے گواہ جو حقداروں میں سے لئے جاویں ۔ مضارع تثنیہ مذکر غائب اقسام (افعال) مصدر۔ لشھادتنا ۔۔ اذا لمن الظالمین۔ یہ قسم کے الفاظ وہ دو نئے گواہ کہیں گے جو کہ حق داروں میں سے لئے گئے ہیں

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 یعنی انہوں نے جھوٹی گواہی دی یا جھوٹی قسم کھائی یا خیانت کا ارتکاب کیا (شوکانی)7 مترجم لکھتے ہیں کہ یہ ترجمہ قرات حٖفص پر ہے لیکن اکثر یوں تر جمہ کیا ہے تو ان کی جگہ دو اور شخص ان لوگوں میں سے (گواہی کے لیے) کھڑے ہوں جن کا حق پہلے دو گوا ہوں نے دبایا ہے یعنی میت کے قریبی رشتہ دارْوں میں اس سے اس لیے کہ وہ گواہی دینے اور قسم کھا نے کے دواسروں کی بہ نسبت زیادہ حق دار ہیں۔ (کذافی، شوکانی) میت کے وارثوں سے قسم اس لیے گئی کہ ان کافروں نے دعوی ٰ کیا تھا کہ وہ مسروقہ پیالہ مرنے والے نے ہمارے ہاتھ بیچ ڈالا تھا اور وارث اس بیع سے انکار کرتے تھے اور مدعی کے پاس گواہ موجود نہ تھے اس لیے منکر (وارثوں) پر قسم عائد کی گئی (کبیر )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ کیونکہ پرایا مال جان بوجھ کر بلا اجازت لے لینا ظلم ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

172: اِسْتَحَقَّا اِْثْمًا یعنی وہ خیانت اور جھوٹی شہادت سے گناہ کے مستحق ہوئے۔ اَلَّذِیْنَ سے ورثاء میت مراد ہیں اور اَلْاَوْلَیَیْنِ سے وہ دونوں شخص مراد ہیں جنہوں نے میت کے مال میں خیانت کی اور پھر جھوٹی گواہی دی اور میت کے وارثوں کو نقصان پہنچایا المراد بالاولیان الوصیان اللذان اظھرت خیانتھما۔ فمعنی استحق علیھم الاولیان خان فی مالھم و جنی علیہم الوصیان اللذان عثر علی خیاتہما (روح ج 8 ص 50) ۔ حاصل یہ کہ جب بعد میں معلوم ہوجائے کہ سفر میں جن دو آدمیوں کو میت نے وصیت کی تھی وہ خیانت مجرمانہ کے مرتکب ہوئے ہیں اور انہوں نے غلط بیان کی ہے تو پھر میت کے وارثوں میں سے دو آدمیوں سے قسم لی جائے وہ اللہ کے نام کی قسم کھا کر اپنا بیان دیں کہ ان دونوں نے جھوٹ بولا ہے اور ہمارا بیان صحیح اور قابل قبول ہے اور ہم نے اپنے بیان میں حق سے تجاوز نہیں کیا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

107 پھر اگر ورثا کو یہ پتہ لگ جائے اور واقعات سے یہ معلوم ہوجائے کہ یہ دونوں شخص کسی حق کو دبا کر گناہ کے مرتکب ہوئے ہیں جیسا کہ صحابی مذکور کے واقعہ میں ایسا ہی ہوا کہ دونوں نصرانیوں نے وصیت میں خیانت کی اور مال متروکہ میں سے ایک چاندی کا پیالہ بیچ کھایا تو ایسی حالت میں جن کا حق دبایا گیا ہے اور جھوٹا بیان دے کر جن کے حق کو پامال کیا گیا ہے ان میں سے دو شخصوں کو پہلے دو شخصوں کی جگہ کھڑا کیا جائے یہ دوسرے دو شخص باعتبار میراث کے میت سے زیادہ قریب ہوں اور وہ ان کی جگہ کھڑے ہو کر اللہ کی قسم کھا کر کہیں یہ یقینا ہماری گواہی ان دونوں کی گواہی سے زیادہ سچی اور درست ہے اور ہم نے گواہی دینے میں کوئی زیادتی نہیں کی اور اگر ہم نے ایسا کیا ہو تو یقینا ہم سخت ظالم ہوں گے یعنی پہلی گواہیاں ان دو شخصوں کی تھیں جو وصیت کے گواہ تھے یا وصی تھے ان کی گواہی میں شبہ ہوا اور ان کی خیانت کا پتہ لگا تو ورثا میں سے جو میت کے قریبی رشتہ دار تھے ان کو قسم کھا کر شہادت دینے کا حکم ہوا۔