Surat ul Maeeda

Surah: 5

Verse: 13

سورة المائدة

فَبِمَا نَقۡضِہِمۡ مِّیۡثَاقَہُمۡ لَعَنّٰہُمۡ وَ جَعَلۡنَا قُلُوۡبَہُمۡ قٰسِیَۃً ۚ یُحَرِّفُوۡنَ الۡکَلِمَ عَنۡ مَّوَاضِعِہٖ ۙ وَ نَسُوۡا حَظًّا مِّمَّا ذُکِّرُوۡا بِہٖ ۚ وَ لَا تَزَالُ تَطَّلِعُ عَلٰی خَآئِنَۃٍ مِّنۡہُمۡ اِلَّا قَلِیۡلًا مِّنۡہُمۡ فَاعۡفُ عَنۡہُمۡ وَ اصۡفَحۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الۡمُحۡسِنِیۡنَ ﴿۱۳﴾

So for their breaking of the covenant We cursed them and made their hearts hard. They distort words from their [proper] usages and have forgotten a portion of that of which they were reminded. And you will still observe deceit among them, except a few of them. But pardon them and overlook [their misdeeds]. Indeed, Allah loves the doers of good.

پھر ان کی عہد شکنی کی وجہ سے ہم نے ان پر اپنی لعنت نازل فرما دی اور ان کے دل سخت کر دیئے کہ وہ کلام کو اسکی جگہ سے بدل ڈالتے ہیں اور جو کچھ نصیحت انہیں کی گئی تھی اس کا بہت بڑا حصہ بھلا بیٹھے ان کی ایک نہ ایک خیانت پر تجھے اطلاع ملتی رہے گی ہاں تھوڑے سے ایسے نہیں بھی ہیں پس تو انہیں معاف کرتا جا اور درگزر کرتا رہ بیشک اللہ تعالٰی احسان کرنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

فَبِمَا نَقْضِهِم مِّيثَاقَهُمْ لَعنَّاهُمْ ... So because of their breach of their covenant, We cursed them..., Allah states, because of their breaking the promise that We took from them, We cursed them, deviated them away from the truth, and expelled them from guidance, ... وَجَعَلْنَا قُلُوبَهُمْ قَاسِيَةً ... and made their hearts grow hard..., and they do not heed any word of advice that they hear, because of the hardness of their hearts. ... يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَن مَّوَاضِعِهِ ... They change the words from their (right) places..., Since their comprehension became corrupt, they behaved treacherously with Allah's Ayat, altering His Book from its apparent meanings which He sent down, and distorting its indications. They attributed to Allah what He did not say, and we seek refuge with Allah from such behavior. ... وَنَسُواْ حَظًّا مِّمَّا ذُكِّرُواْ بِهِ ... and have abandoned a good part of the Message that was sent to them. by not implementing it and by ignoring it. Allah said next, ... وَلاَ تَزَالُ تَطَّلِعُ عَلَىَ خَأيِنَةٍ مِّنْهُمْ إِلاَّ قَلِيلً مِّنْهُمُ ... And you will not cease to discover deceit in them, except a few of them. such as their plots and treachery against you, O Muhammad, and your Companions. Mujahid said that; this Ayah refers to their plot to kill the Messenger of Allah. ... فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاصْفَحْ ... But forgive them, and overlook (their misdeeds). This, indeed, is the ultimate victory and triumph. Some of the Salaf said, "You would never treat those who disobey Allah with you better than obeying Allah with them." This way, their hearts will gather around the truth and Allah might lead them to the right guidance. This is why Allah said, ... إِنَّ اللّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ Verily, Allah loves the doers of good. Therefore, forgive those who err against you. Qatadah said that; this Ayah was abrogated with Allah's statement, قَاتِلُواْ الَّذِينَ لاَ يُوْمِنُونَ بِاللّهِ وَلاَ بِالْيَوْمِ الاخِرِ Fight against those who believe not in Allah, nor in the Last Day. (9:29) The Christians Also Broke their Covenant with Allah and the Repercussion of this Behavior Allah said,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

13۔ 1 یعنی اتنے انتظامات عہد موعید کے باوجود بنو اسرائیل نے عہد شکنی کی کہ جس کی بنا پر کہ وہ لعنت الٰہی کے موجب بنے، اس لعنت کے دینوی نتائج یہ سامنے آئے کہ ایک، ان کے دل سخت کردیئے گئے جس سے ان کے دل اثر پزیری سے محروم ہوگئے اور انبیاء کے وعظ و نصیحت ان کے لیے بےکار ہوگئے، دوسرے یہ کہ وہ کلمات الٰہی میں تحریف کرنے لگ گئے۔ اسی طرح اپنی بدعلت، خود ساختہ مزعومات اور اپنے تاویلات باطلہ کے اثبات کے لیے کلام الٰہی میں تحریف کر ڈالتے ہیں۔ 13۔ 2 یہ تیسرا نتیجہ ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ احکام الٰہی پر عمل کرنے میں انہیں کوئی رغبت اور دلچسپی نہیں رہی بلکہ بےعملی اور بدعملی ان کا شعار بن گئی اور وہ پستی کے اس مقام پر پہنچ گئے کہ ان کے دل ٹھیک رہے اور نہ ان کی فطرت مستقیم۔ 13۔ 3 یعنی شذر خیانت اور مکر ان کے کردار جزو بن گیا ہے جس کے نمونے ہر وقت آپ کے سامنے آتے رہیں گے۔ 13۔ 4 یہ تھوڑے سے لوگ وہی ہیں جو یہودیوں میں سے مسلمان ہوگئے تھے اور ان کی تعداد دس سے بھی کم تھی۔ 13۔ 5 عفو و درگزر کا یہ حکم اس وقت دیا گیا جب لڑنے کی اجازت نہیں تھی۔ بعد میں اس کی جگہ حکم دیا گیا (قَاتِلُوا الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ باللّٰهِ وَلَا بالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ) 009:029 ان لوگوں سے جنگ کرو جو اللہ پر اور یوم آخر پر ایمان نہیں رکھتے ' بعض کے نزدیک عفو و درگزر کا یہ حکم منسوخ نہیں ہے۔ ' یہ بجائے خود ایک اہم حکم ہے، حالات کے مطابق اسے بھی اختیار کیا جاسکتا ہے اور اس کے بھی بعض دفعہ وہ نتائج حاصل ہوجاتے ہیں جن کے لئے قتال کا حکم ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٧] بنی اسرائیل کی اپنے عہد کی ایک ایک شق کی خلاف ورزی :۔ بنی اسرائیل نے اپنے اس مضبوط عہد کی چنداں پروا نہ کی۔ قیام صلٰوۃ اور ایتائے زکوٰۃ میں غفلت برتی۔ زکوٰۃ کے بجائے بخل کی راہ اختیار کی اور قرضہ حسنہ دینے کی بجائے سود خوری اور حرام خوری شروع کردی۔ اللہ کے رسولوں پر ایمان لانا تو درکنار، جی بھر کر ان کی مخالفت کی اور بعض انبیاء کو ناحق قتل بھی کرتے رہے غرض یہ کہ اس عہد کی ایک ایک شق کو توڑنے میں کوئی کمی نہ چھوڑی جس کے عوض ہم نے ان پر لعنت کی اور انہیں اپنی رحمت سے دور کردیا اور دوسری سزا یہ دی کہ ان کے دل سخت بنا دیئے جس کی وجہ سے ایک تو راہ حق قبول کرنے سے قاصر ہوگئے دوسرے آپس میں الفت و موانست کے جذبات کے بجائے ان میں خود غرضی، سنگدلی اور باہمی منافرت نے راہ پا لی۔ [٣٨] ان دونوں سزاؤں کے مزید نتائج یہ نکلے کہ ان لوگوں نے کتاب اللہ میں تحریف شروع کردی۔ فلسفیانہ موشگافیاں اور خود غرضانہ تاویلات کے ذریعہ کتاب کی اکثر آیات کا مفہوم ہی بدل ڈالا اور اسے کچھ کا کچھ بنادیا اور دوسرا نتیجہ یہ نکلا کہ انہیں کہا تو یہ گیا تھا کہ وہ کتاب اللہ سے نصیحت اور عبرت حاصل کریں۔ یہ بات تو انہوں نے یکسر چھوڑ ہی دی اور اسکے بجائے اپنا سارا زور الفاظ کی گتھیوں کو سلجھانے میں صرف کرنے لگے اور ایسا مطلب اخذ کرنا شروع کیا جو انکی خواہش کے مطابق ہو (نیز دیکھئے سورة نساء کا حاشیہ نمبر ٧٧۔ ا) [٣٩] یہ چند آدمی عبداللہ بن سلام اور انہی کا سا راست باز ذہن رکھنے والے کچھ ساتھی تھے۔ ان کے علاوہ جتنے بھی یہودی تھے سب سازشیقسم کے لوگ، بدعہد اور خائن تھے اور موقع بہ موقع مسلمانوں کو ان کی سازشوں، کرتوتوں، بدعہدیوں اور خیانتوں کا از خود ہی پتا چلتا رہتا تھا۔ پھر چونکہ یہودیوں کی اکثریت ایسے ہی بدعہد اور خائن قسم کے لوگوں پر مشتمل تھی لہذا اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی سے فرمایا کہ آپ ان کی ہر قابل گرفت بات سے دل گرفتہ ہوں گے تو آپ کو یہ ایک الگ پریشانی لاحق ہوجائے گی لہذا ان کی باتوں کو درخور اعتناء سمجھنا چھوڑ دیجئے اور جن جن خیانتوں پر آپ مطلع ہوتے رہتے ہیں ان سے محاسبہ نہ کیجئے۔ اللہ خود ان سے نمٹ لے گا۔ آپ درگرز اور احسان کی راہ اختیار کیجئے۔ کیونکہ یہی راہ اللہ کو پسند ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَبِمَا نَقْضِهِمْ مِّيْثَاقَهُمْ لَعَنّٰهُمْ ۔۔ : یعنی انھوں نے اپنے عہد و میثاق کی پاس داری کے بجائے سمع و طاعت کا وہ عہد توڑ دیا، نماز کو ضائع کرنا شروع کردیا اور خواہشات کے پیچھے لگ گئے۔ ( دیکھیے مریم : ٥٩ ) زکوٰۃ اور قرض حسنہ ( صدقہ وغیرہ) کے بجائے بخل اور کمینگی کی انتہا کو پہنچ گئے اور سود لینا شروع کردیا، رسولوں اور ان کی کتابوں پر ایمان لانے۔ بنی إسرائیل : ١٠٧ اور جہاد کے ساتھ انھیں قوت دینے کے بجائے کتابوں میں تحریف کی اور جہاد میں جانے ہی سے صاف انکار کردیا، تورات کے بہت سے حصے پر عمل ترک کردیا، جس کے نتیجے میں اللہ نے ان پر لعنت کی اور ان کے دلوں میں نفاق بھر گیا۔ ” قَسِیَّۃٌ“ یا ” قَاسِیَۃ “ اصل میں اس سکے کو کہتے ہیں جس میں ملاوٹ ہو، یہ ” قَسْوَۃٌ“ سے ہے جس کا معنی شدت اور سختی ہے۔ خالص سونا اور چاندی نرم ہوتے ہیں اور ان میں جتنی ملاوٹ زیادہ ہو اتنا ہی وہ زیادہ سخت ہوجاتے ہیں، اس تشبیہ کی رعایت سے انھیں ” قَاسِیَۃٌ“ فرمایا۔ يُحَرِّفُوْنَ الْكَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِهٖ ۙ : یعنی ایک لفظ کی جگہ دوسرا لفظ رکھ دیتے، یا اس کے اصل مفہوم کے بجائے کوئی غلط مفہوم نکال لیتے جسے تاویل باطل کہتے ہیں، اپنی اسی خست کی وجہ سے ہیرا پھیری کر کے انھوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ان صفات کو بدل ڈالا جو تورات میں مذکور تھیں۔ (قرطبی) وَنَسُوْا حَظًّا مِّمَّا ذُكِّرُوْا بِهٖ : یعنی انھوں نے تورات کے بہت سے حصے پر عمل ترک کردیا، جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانا، زانی کو سنگسار کرنا، سود کو حرام سمجھنا وغیرہ۔ افسوس اہل کتاب کی طرح مسلمانوں کی اکثریت نے بھی سمع و طاعت کو چھوڑا، نمازیں ضائع کیں، سود کھانے لگے، جہاد چھوڑ بیٹھے، باہمی فرقوں میں بٹ کر اللہ کی کتاب میں تحریف کی حد تک تاویلیں کرنے لگے، تو نتیجہ بھی وہی ہے جو پہلوں کا تھا، مگر امید افزا بات یہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرمان کے مطابق امت مسلمہ میں ایسے لوگ قیامت تک رہیں گے جو حق پر قائم رہیں گے اور حق کی خاطر لڑتے رہیں گے، انھی کو ” عَلَی الْحَقِّ مَنْصُوْرِیْنَ “ کہا گیا ہے۔ [ مسلم، الإمارۃ، باب قولہ لا تزال طائفۃ۔۔ : ١٠٣٧، بعد ح : ١٩٢٣۔ ابن ماجہ : ١٠ ] خَاۗىِٕنَةٍ ’ مصدر ہے بر وزن ” عَافِیَۃٌ“ بمعنی خیانت یعنی ان سے آئے دن کسی نہ کسی خیانت اور بد عہدی کا ظہور ہوتا رہے گا، یا اسم فاعل ہے کہ خیانت کرنے والی جماعت یا شخصیت یعنی ان میں ہمیشہ ایسے لوگ موجود رہیں گے جو خیانت اور بدعہدی کا ارتکاب کرتے رہیں گے اور آپ کو ہرگز ان کی طرف سے امن نصیب نہیں ہوگا۔ ” اِلَّا قَلِيْلًا مِّنْهُمْ “ یعنی ان میں سے چند لوگ ایسے ہیں جو کسی خیانت و بد عہدی کا مظاہرہ نہیں کریں گے۔ ان سے خاص کر عبداللہ بن سلام (رض) اور ان کے ساتھی مراد ہیں، یا وہ لوگ جنھوں نے کفر کے باوجود کسی قسم کی خیانت اور بد عہدی نہیں کی۔ (کبیر) فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاصْفَحْ ۭ: یعنی ان کی انفرادی خیانتوں اور بد عہدیوں سے درگزر کیجیے نہ کہ ان بد عہدیوں سے جو اجتماعی (یا اجتماعی کے حکم میں) ہوں، کیونکہ اس صورت میں تو وہ واضح حربی ( جو حالت جنگ میں ہوں) قرار پائیں گے، جن کی سرکوبی بہرحال کی جائے گی۔ (المنار) یا یہ کہ جو ان میں سے خیانت کا ارتکاب نہیں کرتے اور اپنے عہد پر قائم ہیں، ان کی دوسری لغزشوں سے در گزر فرمائیں۔ (رازی) ان دونوں صورتوں میں یہ آیت محکم رہے گی، ورنہ اسے قتال ( لڑائی) کے حکم والی آیت سے منسوخ سمجھا جائے گا۔ دیکھیے سورة توبہ (٢٩) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary The first verse is telling us that Bani Isra&il were heedless to clear instructions given to them. Then, they broke the pledge for which they were punished. There were two kinds of punishment which visited Bani Isra&il because of their misdeeds and contumacy: 1. Manifest and perceptible, like the hail of stones and rocks or the overturning of land mass, which find mention in several verses of the Qur&an. 2. Intellectual and spiritual, as if their very minds and hearts were transformed in punishment for their contumacy which made them incapable of thinking and feeling and they went on sinking deeper in the curse of their sins. The verse opens with the words: فَبِمَا نَقْضِهِم مِّيثَاقَهُمْ لَعَنَّاهُمْ وَجَعَلْنَا قُلُوبَهُمْ قَاسِيَةً. It means that it was because of their contravention of the solemn pledge that Allah made them far-removed from His mercy (that is, from its effects, which is the reality of &La` nah& or curse - Hadrat Thanavi) and made their hearts hardened against any penetration of truth. This re¬moval from mercy and the hardening of hearts has been likened to |"Ra-&n |" (stain or rust) by the Holy Qur&an in Surah al-Mutaffifin: كَلَّا ۖ بَلْ ۜ رَ‌انَ عَلَىٰ قُلُوبِهِم مَّا كَانُوا يَكْسِبُونَ. It means that the reason why they reject open verses of the Qur&an and all too manifest signs is that the stain of sins has settled down on their hearts. In a hadith, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ` said: When someone commits a sin for the first time, a black dot gets stamped on the heart. He feels the pinch of this evil presence all the time. It is like a black stain on a white cloth which is a constant sore of the eye. Now, if he gets chastened, repents and resolves not to do it again, that dot is erased; and should he become care-free and start a spree of other sins, a black dot for each subsequent sin will keep add¬ing up, so much so, that the clean slate of his heart will turn jet black with these dots of stain. At that stage, the state of his heart will be-come very much like a pot placed upside down in which nothing goes in but to come out instantly. Therefore, nothing good settles down in his heart for he has fallen into a state of moral inertia - to him nothing good is good and no evil is evil. Rather, the opposite becomes his more likely approach - he starts taking defect as merit, vice as virtue and sin as reward. Thus armed with his crooked thinking, he goes on rid¬ing high in his rebellion and contumacy. This is a cash and spot pun¬ishment of his sin which he gets right here in this mortal world. Some respected elders have said: اِن من جزاء الحسنۃ الحسنۃ بعدھا وان من جزاء السیٔۃ السیٔۃ بعدھا ، that is, the cash reward of a good deed is that one gets the Taufiq (the ability given by Allah) of doing another good deed. Simi¬larly, the cash reward of a sin is that one&s heart starts being attracted by other sins soon after the first. Thus, obedience and disobedience both have a pull of their own - one good invites another good and one evil attracts other evils and sins. Referring back to the breach of trust committed by the Bani Isra&il, it can be said that the cash punishment due against it was that they were removed from Divine mercy - which is the greatest medium of salvation. And their hearts became so hardened that they stooped to the level of &moving words away from their places& which means that they alter the Word of God - in words or meanings or recitation - all of which have been described in the Holy Qur&an and the books of Alha¬dith, some of which have been acknowledged by European Christians as well (Tafsir Usmni). The result of the intellectual and spiritual punishment mentioned above was that they forgot to take advantage of the good counsel given to them: فَنَسُوا حَظًّا مِّمَّا ذُكِّرُ‌وا بِهِ. Then, this punishment stuck glued to them: وَلَا تَزَالُ تَطَّلِعُ عَلَىٰ خَائِنَةٍ مِّنْهُمْ إِلَّا قَلِيلًا مِّنْهُمْ ۖ that is, the Prophet of Islam would keep knowing about one or the other breaches, deceptions and treacheries committed by them. The exception is indicated in: إِلَّا قَلِيلًا مِّنْهُمْ (but a few) which re¬fers to people like Sayyidna ` Abdullah ibn Sal-am and others who were followers of the faith of the People of the Book before they became true Muslims. Upto this point, the description of the misconduct of the Ban& Isra&il was obviously demanding enough that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) should hold them in contempt and never allow them to come to him. Therefore, in the last sentence of this verse, the instruction given to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) was فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاصْفَحْ ۚ إِنَّ اللَّـهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ (So for-give them and forego. Indeed, Allah loves the good-in-deed). It means that, despite their peculiar condition being what it is, it is better that the Prophet of Islam abstains from doing what is otherwise quite natu¬ral. In other words, he should not treat them with contempt or hatred because after knowing what they are - hardhearted and cold - the chances that any good counsel would affect them are very remote. Granted. But, toleration and civility of morals are wonder virtues which could probe out some sense and sensibility from out of such in-sensate people. Even if this effort to drive some sense into them fails, something worth doing still remains - keeping one&s own matters and morals correct is, after all, quite necessary. Allah Almighty likes what is done with good grace - and it will definitely bring Muslims closer to Him.

خلاصہ تفسیر (لیکن بنی اسرائیل نے عہد مذکورہ کو توڑا ڈالا، اور توڑنے کے بعد طرح طرح کے عقوبات میں جیسے مسخ اور ذلت وغیرہ گرفتار ہوئے۔ پس یہ جو ان کو عنایت و الطاف الہیہ سے بعد ہوا) تو صرف ان کی عہد شکنی کی وجہ سے ہم نے ان کو اپنی رحمت (یعنی اس کے آثار) سے دور کردیا (اور یہی حقیقت ہے لعنت کی) اور (اسی لعنت کے آثار سے یہ ہے کہ) ہم نے ان کے قلوب کو سخت کردیا (کہ حق بات کا ان پر اثر ہی نہیں ہوتا اور اس سخت دلی کے آثار سے یہ ہے کہ) وہ لوگ (یعنی ان میں کے علماء) کلام (الہٰی یعنی توریت) کو اس کے (الفاظ یا مطالب کے) مواقع سے بدلتے ہیں (یعنی تحریف لفظی یا تحریک معنوی کرتے ہیں) اور (اس تحریف کا اثر یہ ہوا کہ) وہ لوگ جو کچھ ان کو (توریت میں) نصیحت کی گئی تھی اس میں سے اپنا ایک بڑا حصہ (نفع کا جو کہ ان کو عمل کرنے سے نصیب ہوتا) فوت کر بیٹھے (کیونکہ زیادہ مشق ان کی اس تحریف کے مضامین متعلقہ بتصدیق رسالت محمدیہ میں ہوتی تھی، اور ظاہر ہے کہ ایمان سے زیادہ بڑا حصہ کیا ہوگا۔ غرض نقض میثاق پر لعنت مرتب ہوئی اور لعنت پر قساوت وغیرہ اور قساوت پر تحریف اور تحریف پر فوت حظ عظیم اور وجہ ترتیب ظاہر ہے) اور (پھر یہ بھی کہ جتنا کرچکے اس پر بس کریں بلکہ حالت یہ ہے کہ) آپ کو آئے دن (یعنی ہمیشہ دین کے باب میں) کسی نہ کسی (نئی) خیانت کی اطلاع ہوتی رہتی ہے جو ان سے صادر ہوتی رہتی ہے بجز ان کے معدو دے چند شخصوں کے (جو کہ مسلمان ہوگئے تھے) سو آپ ان کو معاف کیجئے اور ان سے درگزر کیجئے (یعنی جب تک شرعی ضرورت نہ ہو۔ ان کی خیانتوں کا اظہار اور ان کو فضیحت نہ کیجئے) بلاشبہ اللہ تعالیٰ خوش معاملہ لوگوں سے محبت کرتا ہے (اور بلا ضرورت فضیحت نہ کرنا خوشی معاملگی ہے) اور جو لوگ (نصرت دین کے دعوے سے) کہتے ہیں کہ ہم نصاریٰ ہیں۔ ہم نے ان سے بھی ان کا عہد (مثل عہد یہود کے) لیا تھا، سو وہ بھی جو کچھ ان کو (انجیل وغیرہ میں) نصیحت کی گئی تھی اس میں سے اپنا ایک بڑا حصہ (نفع کا جو کہ ان کو عمل کرنے سے نصیب ہوتا) فوت کر بیٹھے (کیونکہ وہ امر جس کو فوت کر بیٹھے توحید ہے اور ایمان ہے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جس کا حکم ان کو بھی ہوا تھا اور اس کا حظ عظیم ہونا ظاہر ہے جب توحید کو چھوڑ بیٹھے) تو ہم نے ان میں باہم قیامت تک کے لئے بغض و عداوت ڈال دیا (یہ تو دنیوی عقوبت ہوئی) اور عنقریب (آخرت میں) کہ وہ بھی قریب ہی ہے، ان کو اللہ تعالیٰ ان کا کیا ہوا جتلا دیں گے (پھر سزا دیں گے) ۔ معارف و مسائل آیت میں یہ بتلایا گیا ہے کہ بنی اسرائیل نے اپنی بدبختی سے ان واضح ہدایات پر کان نہ دھرے اور میثاق کی مخالفت کی تو اللہ تعالیٰ نے ان کو طرح طرح کے عذابوں میں مبتلا کردیا۔ بنی اسرائیل پر ان کی بدعملی اور سرکشی کی سزا میں دو طرح کے عذاب آئے۔ ایک ظاہری اور محسوس جیسے پتھراؤ یا زمین کا تختہ الٹ دینا وغیرہ۔ جن کا ذکر قرآن کریم کی آیات میں مختلف مقامات پر آیا ہے۔ دوسری قسم عذاب کی معنوی اور روحانی ہے کہ سرکشی کی سزا میں ان کے دل و دماغ مسخ ہوگئے۔ ان میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت نہ رہی۔ وہ اپنے گناہوں کے وبال میں مزید گناہوں میں مبتلا ہوتے چلے گئے۔ ارشاد ہے : فَبِمَا نَقْضِهِمْ مِّيْثَاقَهُمْ لَعَنّٰهُمْ وَجَعَلْنَا قُلُوْبَهُمْ قٰسِـيَةً ۚ۔ یعنی ہم نے ان کے بدعہدی اور میثاق کی خلاف ورزی کی سزا میں ان کو اپنی رحمت سے دور کردیا، اور ان کے دلوں کو سخت کردیا کہ اب ان میں کسی چیز کی گنجائش نہ رہی۔ اسی رحمت سے دوری اور دلوں کی سختی کو قرآن کریم نے سورة مطففین میں ران کے لفظ سے تعبیر فرمایا ہے : کلا بل ران علی قلوبھم ماکانوا یکسبون یعنی قرآنی آیات بینات اور کھلی ہوئی نشانیوں سے انکار کی وجہ یہ ہے کہ ان کے دلوں پر ان کے گناہوں کی وجہ سے زنگ بیٹھ گیا ہے۔ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث میں ارشاد فرمایا کہ ‘ انسان جب اول کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ نقطہ لگ جاتا ہے، جس کی برائی کو وہ ہر وقت ایسا محسوس کرتا ہے جیسے کسی صاف سفید کپڑے پر ایک سیاہ داغ لگ جائے وہ ہر وقت نظر کو تکلیف دیتا ہے۔ پھر اگر اس نے متنبہ ہو کر توبہ کرلی اور آئندہ گناہ سے باز آگیا تو وہ نقطہ مٹا دیا جاتا ہے۔ اور اگر اس نے پرواہ نہ کی بلکہ دوسرے گناہوں میں مبتلا ہوتا چلا گیا تو ہر گناہ پر ایک نقطہ سیاہ کا اضافہ ہوتا رہے گا۔ یہاں تک کہ اس کا صفحہ قلب ان نقطوں سے بالکل سیاہ ہوجائے گا۔ اس وقت اس کے قلب کی یہ حالت ہوجائے گی۔ جیسے کوئی برتن اوندھا رکھا ہو کہ اس میں کوئی چیز ڈالی جائے تو فوراً باہر آجاتی ہے، اس لئے کوئی خیر اور نیکی کی بات اس کے دل میں نہیں جمتی، اس وقت اس کے دل کی یہ کیفیت ہوجاتی ہے کہ لا یعرف معروفا ولا ینکر منکرا۔ یعنی اب نہ وہ کسی نیکی کو نیکی سمجھتا ہے نہ برائی کو برائی بلکہ معاملہ برعکس ہونے لگتا ہے کہ عیب کو ہنر، بدی کو نیکی، گناہ کو ثواب سمجھنے لگتا ہے۔ اور اپنی طغیانی اور سرکشی میں بڑھتا چلا جاتا ہے۔ یہ اس کے گناہ کی نقد سزا ہے جو اس کو دنیا ہی میں مل جاتی ہے۔ بعض اکابر نے فرمایا ہے : ان من جزاء الحسنة الحسنة بعدھا وان من جزاء السئیۃ السیئۃ بعدھا۔ یعنی نیکی کی ایک نقد جزاء یہ ہے کہ اس کے بعد اس کو دوسری نیکی کی توفیق ہوتی ہے۔ اسی طرح گناہ کی نقد سزا یہ ہے کہ ایک گناہ کے بعد اس کا دل دوسرے گناہوں کی طرف مائل ہونے لگتا ہے۔ معلوم ہوا کہ طاعات اور معاصی میں تجاذب ہے کہ زر زر کشد در جہاں گنج گنج ایک نیکی دوسری نیکی کو دعوت دیتی ہے اور ایک بدی دوسری بدی کو اور گناہ کو ساتھ لے آتی ہے۔ بنی اسرائیل کو عہد شکنی کی نقد سزا حسب ضابطہ ان کو یہ ملی کہ وہ رحمت خداوندی سے دور ہوگئے، جو سب سے بڑا وسیلہ نجات ہے اور ان کے دل سخت ہوگئے جس کی نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ : (آیت) يُحَرِّفُوْنَ الْكَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِه۔ یعنی یہ لوگ کلام الہٰی کو اس کے ٹھکانے سے پھیر دیتے ہیں۔ یعنی خدا کے کلام میں تحریف کرتے ہیں۔ کبھی اس کے الفاظ میں اور کبھی معنی میں، کبھی تلاوت میں، تحریف کی یہ سب اقسام قرآن کریم اور کتب حدیث میں بیان کی گئی ہیں۔ جس کا قدرے اعتراف آج کل بعض یورپین عیسائیوں کو بھی کرنا پڑا ہے۔ (تفسیر عثمانی) اس معنوی سزا کا یہ نتیجہ ہوا کہ (آیت) وَنَسُوْا حَظًّا مِّمَّا ذُكِّرُوْا بِهٖ ۔ یعنی نصیحت جو ان کو کی گئی تھی کہ اس سے نفع اٹھانا بھول گئے۔ اور پھر فرمایا کہ ان کی یہ سزا ایسی ان کے گلے کا ہار بن گئی : (آیت) وَلَا تَزَالُ تَطَّلِعُ عَلٰي خَاۗىِٕنَةٍ مِّنْهُمْ ۔ یعنی آپ ہمیشہ ان کی کسی دغا فریب پر مطلع ہوتے رہیں گے۔ (آیت) اِلَّا قَلِيْلًا مِّنْهُمْ ۔ بجز تھوڑے لوگوں کے جیسے حضرت عبداللہ بن سلام (رض) وغیرہ جو پہلے اہل کتاب کے دین پر تھے پھر سچے مسلمان ہوگئے۔ یہاں تک کہ بنی اسرائیل کی بداعمالیوں اور بداخلاقیوں کا جو بیان آیا بظاہر اس کا مقتضٰی یہ تھا کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے انتہائی نفرت اور حقارت کا معاملہ کریں، ان کو پاس نہ آنے دیں۔ اس لئے آیت کے آخری جملہ میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ ہدایت دی گئی کہ (آیت) فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاصْفَحْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِيْنَ ۔ یعنی آپ ان کو معاف کریں اور ان کی بدعملی سے درگزر کریں۔ ان سے منافرت کی صورت نہ رکھیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔۔ مطلب یہ ہے کہ ان کے ایسے حالات کے باوجود اپنے طبعی تقاضے پر عمل نہ کریں یعنی منافرت کا برتاؤ نہ کریں۔ کیونکہ ان کی سخت دلی اور بےحسی کے بعد اگرچہ کسی وعظ وپند کا ان کے لئے مؤ ثر ہونا مستبعد ہے۔ لیکن رواداری اور حسن خلق کا معاملہ ایسا کیمیا ہے کہ اس کے ذریعہ ان بےحسوں میں بھی حس پیدا ہو سکتی ہے۔ اور ان میں حس پیدا ہو یا نہ ہو، بہر حال اپنے اخلاق و معاملات کو درست رکھنا تو ضروری ہے، احسان کا معاملہ اللہ تعالیٰ کو پسند ہے۔ اس کے ذریعہ مسلمانوں کو تو اللہ تعالیٰ کا اور قرب حاصل ہو ہی جائے گا۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَبِمَا نَقْضِہِمْ مِّيْثَاقَہُمْ لَعَنّٰہُمْ وَجَعَلْنَا قُلُوْبَہُمْ قٰسِـيَۃً۝ ٠ۚ يُحَرِّفُوْنَ الْكَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِہٖ۝ ٠ۙ وَنَسُوْا حَظًّا مِّمَّا ذُكِّرُوْا بِہٖ۝ ٠ۚ وَلَا تَزَالُ تَطَّلِعُ عَلٰي خَاۗىِٕنَۃٍ مِّنْہُمْ اِلَّا قَلِيْلًا مِّنْہُمْ فَاعْفُ عَنْہُمْ وَاصْفَحْ۝ ٠ۭ اِنَّ اللہَ يُحِبُّ الْمُحْسِـنِيْنَ۝ ١٣ نقض النَّقْضُ : انْتِثَارُ العَقْدِ مِنَ البِنَاءِ والحَبْلِ ، والعِقْدِ ، وهو ضِدُّ الإِبْرَامِ ، يقال : نَقَضْتُ البِنَاءَ والحَبْلَ والعِقْدَ ، وقد انْتَقَضَ انْتِقَاضاً ، والنِّقْضُ المَنْقُوضُ ، وذلک في الشِّعْر أكثرُ ، والنَّقْضُ كَذَلِكَ ، وذلک في البِنَاء أكثرُ «2» ، ومنه قيل للبعیر المهزول : نِقْضٌ ، ومُنْتَقِض الأَرْضِ من الكَمْأَةِ نِقْضٌ ، ومن نَقْضِ الحَبْل والعِقْد استُعِيرَ نَقْضُ العَهْدِ. قال تعالی: الَّذِينَ عاهَدْتَ مِنْهُمْ ثُمَّ يَنْقُضُونَ عَهْدَهُمْ [ الأنفال/ 56] ، الَّذِينَ يَنْقُضُونَ عَهْدَ اللَّهِ [ البقرة/ 27] ، ( ن ق ض ) النقض یہ ابرام کی ضد ہے اور اس کے معنی کسی چیز کا شیزازہ بکھیرنے کے ہیں جیسے نقضت البناء عمارت کو ڈھانا الحبل رسی کے بل اتارنا العقد گرہ کھولنا النقج والنقض یہ دونوں بمعنی منقوض آتے ہیں لیکن بکسر النون زیادہ تر عمارت کے لئے آتا ہے اور بفتح النون کا عام استعمال اشعار کے متعلق ہوتا ہے اسی سے دبلے اونٹ اور زمین کی پرت کو جو کھمبی وغیرہ کے نکلنے سے پھٹ جاتی ہے نقض کہا جاتا ہے پھر نقض الحبل والعقد سے استعارہ کے طور پر عہد شکنی کے لئے بھی نقض کا لفظ استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ ہر بار اپنے عہد کو توڑ ڈالتے ہیں ۔ الَّذِينَ يَنْقُضُونَ عَهْدَ اللَّهِ [ البقرة/ 27] جو خدا کے اقرار کو ۔۔۔۔ توڑ دیتے ہیں ۔ اور جب پکی قسمیں کھاؤ تو ان کو نہ توڑو ۔ وَلا تَنْقُضُوا الْأَيْمانَ بَعْدَ تَوْكِيدِها[ النحل/ 91] لعن اللَّعْنُ : الطّرد والإبعاد علی سبیل السّخط، وذلک من اللہ تعالیٰ في الآخرة عقوبة، وفي الدّنيا انقطاع من قبول رحمته وتوفیقه، ومن الإنسان دعاء علی غيره . قال تعالی: أَلا لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الظَّالِمِينَ [هود/ 18] ( ل ع ن ) اللعن ۔ کسی کو ناراضگی کی بنا پر اپنے سے دور کردینا اور دھتکار دینا ۔ خدا کی طرف سے کسی شخص پر لعنت سے مراد ہوتی ہے کہ وہ دنیا میں تو اللہ کی رحمت اور توفیق سے اثر پذیر ہونے محروم ہوجائے اور آخرت عقوبت کا مستحق قرار پائے اور انسان کی طرف سے کسی پر لعنت بھیجنے کے معنی بد دعا کے ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : أَلا لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الظَّالِمِينَ [هود/ 18] سن رکھو کہ ظالموں پر خدا کی لعنت ہے ۔ قلب قَلْبُ الشیء : تصریفه وصرفه عن وجه إلى وجه، کقلب الثّوب، وقلب الإنسان، أي : صرفه عن طریقته . قال تعالی: وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت/ 21] . ( ق ل ب ) قلب الشئی کے معنی کسی چیز کو پھیر نے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹنے کے ہیں جیسے قلب الثوب ( کپڑے کو الٹنا ) اور قلب الانسان کے معنی انسان کو اس کے راستہ سے پھیر دینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت/ 21] اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے ۔ قسو القَسْوَةُ : غلظ القلب، وأصله من : حجر قَاسٍ ، والْمُقَاسَاةُ : معالجة ذلك . قال تعالی: ثُمَّ قَسَتْ قُلُوبُكُمْ [ البقرة/ 74] ، فَوَيْلٌ لِلْقاسِيَةِ قُلُوبُهُمْ مِنْ ذِكْرِ اللَّهِ [ الزمر/ 22] ، وقال : وَالْقاسِيَةِ قُلُوبُهُمْ [ الحج/ 53] ، وَجَعَلْنا قُلُوبَهُمْ قاسِيَةً [ المائدة/ 13] ، وقرئ : قَسِيَّةً «3» أي : ليست قلوبهم بخالصة، من قولهم : درهم قَسِيٌّ ، وهو جنس من الفضّة المغشوشة، فيه قَسَاوَةٌ ، أي : صلابة، قال الشاعر : صاح القَسِيَّاتُ في أيدي الصيّاریف ( ق س د ) القسوۃ کے معنی سنگ دل ہونے کے ہیں یہ اصل میں حجر قاس سے ہے جس کے معنی سخت پتھر کے ہیں ۔ المقاساۃ سختی جھیلنا ۔ قرآن میں ہے : ثُمَّ قَسَتْ قُلُوبُكُمْ [ البقرة/ 74] پھر ۔۔۔ تمہارے دل سخت ہوگئے ۔ فَوَيْلٌ لِلْقاسِيَةِ قُلُوبُهُمْ مِنْ ذِكْرِ اللَّهِ [ الزمر/ 22] پس ان پر افسوس ہے جن کے دل خدا کی یاد سے سخت ہورہے ہیں ۔ وَالْقاسِيَةِ قُلُوبُهُمْ [ الحج/ 53] اور جن کے دل سخت ہیں ۔ وَجَعَلْنا قُلُوبَهُمْ قاسِيَةً [ المائدة/ 13] اور ان کے دلوں کو سخت کردیا ۔ ایک قرات میں قسیۃ ہے یعنی ان کے دل خالص نہیں ہیں یہ درھم قسی سے مشتق ہے جس کے معنی کھوٹے درہم کے ہیں جس میں ( سکہ ) کی ملاوٹ کی وجہ سے صلابت پائی جائے ۔ شاعر نے کہا ہے ( 354) صاح القسیات فی ایدی الصیاریف کھوٹے درہم صرافوں کے ہاتھ میں آواز دیتے ہیں ۔ تحریف الکلام : أن تجعله علی حرف من الاحتمال يمكن حمله علی الوجهين، قال عزّ وجلّ : يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَنْ مَواضِعِهِ [ النساء/ 46] ، ويُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ مِنْ بَعْدِ مَواضِعِهِ [ المائدة/ 41] ، وَقَدْ كانَ فَرِيقٌ مِنْهُمْ يَسْمَعُونَ كَلامَ اللَّهِ ثُمَّ يُحَرِّفُونَهُ مِنْ بَعْدِ ما عَقَلُوهُ [ البقرة/ 75] ، والحِرْف : ما فيه حرارة ولذع، كأنّه محرّف عن الحلاوة والحرارة، وطعام حِرِّيف، وروي عنه صلّى اللہ عليه وسلم : «نزل القرآن علی سبعة أحرف» «1» وذلک مذکور علی التحقیق في «الرّسالة المنبّهة علی فوائد القرآن» «2» . التحریف الشئ ) کے معنی ہیں کسی چیز کو ایک جانب مائل کردینا ۔ جیسے تحریف القم قلم کو ٹیڑھا لگانا ۔ اور تحریف الکلام کے معنی ہیں کلام کو اس کے موقع و محل سے پھیر دینا کہ اس میں دو احتمال پیدا ہوجائیں ۔ قرآن میں ہے :۔ يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَنْ مَواضِعِهِ [ النساء/ 46] یہ لوگ کلمات ( کتاب) کو اپنے مقامات سے بدل دیتے ہیں ۔ اور دوسرے مقام پر ويُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ مِنْ بَعْدِ مَواضِعِهِ [ المائدة/ 41] ہے یعنی ان کے محل اور صحیح مقام پر ہونے کے بعد ۔ مِنْهُمْ يَسْمَعُونَ كَلامَ اللَّهِ ثُمَّ يُحَرِّفُونَهُ مِنْ بَعْدِ ما عَقَلُوهُ [ البقرة/ 75]( حالانکہ ) ان میں سے کچھ لوگ کلام خد ( یعنی تو رات ) کو سنتے پھر اس کے کچھ لینے کے بعد اس کو ( جان بوجھ کر ) بدل دیتے رہے ہیں ۔ الحرف ۔ وہ چیز جس میں تلخی اور حرارت ہوگو یا وہ حلاوت اور حرارت سے پھیر دی گئی ہے ۔ طعام حزیف چر چراہٹ ( الاکھانا ) ایک روایت میں ہے ۔ (76) کہ قرآن سات حروف پر نازل ہوا ہے ۔ اس کی تحقیق ہمارے رسالہ المنبھۃ علی فوائد القرآن میں ملے گی ۔ كلم الكلْمُ : التأثير المدرک بإحدی الحاسّتين، فَالْكَلَامُ : مدرک بحاسّة السّمع، والْكَلْمُ : بحاسّة البصر، وكَلَّمْتُهُ : جرحته جراحة بَانَ تأثيرُها، ( ک ل م ) الکلم ۔ یہ اصل میں اس تاثیر کو کہتے ہیں جس کا ادراک دو حاسوں میں سے کسی ایک کے ساتھ ہوسکے چناچہ کلام کا ادراک قوت سامعہ کیساتھ ہوتا ہے ۔ اور کلم ( زخم ) کا ادراک قوت بصر کے ساتھ ۔ محاورہ ہے ۔ کلمتہ ۔ میں نے اسے ایسا زخم لگایا ۔ جس کا نشان ظاہر ہوا اور چونکہ یہ دونوں ( یعنی کلام اور کلم ) معنی تاثیر میں مشترک ہیں ۔ وضع الوَضْعُ أعمّ من الحطّ ، ومنه : المَوْضِعُ. قال تعالی: يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَنْ مَواضِعِهِ [ النساء/ 46] ويقال ذلک في الحمل والحمل، ويقال : وَضَعَتِ الحملَ فهو مَوْضُوعٌ. قال تعالی: وَأَكْوابٌ مَوْضُوعَةٌ [ الغاشية/ 14] ، وَالْأَرْضَ وَضَعَها لِلْأَنامِ [ الرحمن/ 10] فهذا الوَضْعُ عبارة عن الإيجاد والخلق، ووَضَعَتِ المرأةُ الحمل وَضْعاً. قال تعالی: فَلَمَّا وَضَعَتْها قالَتْ رَبِّ إِنِّي وَضَعْتُها أُنْثى وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِما وَضَعَتْ [ آل عمران/ 36] فأما الوُضْعُ والتُّضْعُ فأن تحمل في آخر طهرها في مقبل الحیض . ووَضْعُ البیتِ : بناؤُهُ. قال اللہ تعالی: إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ [ آل عمران/ 96] ، وَوُضِعَ الْكِتابُ [ الكهف/ 49] هو إبراز أعمال العباد نحو قوله : وَنُخْرِجُ لَهُ يَوْمَ الْقِيامَةِ كِتاباً يَلْقاهُ مَنْشُوراً [ الإسراء/ 13] ووَضَعَتِ الدابَّةُ تَضَعُ في سيرها وَضْعاً : أسرعت، ودابّة حسنةُ المَوْضُوعِ ، وأَوْضَعْتُهَا : حملتها علی الإسراع . قال اللہ عزّ وجلّ : وَلَأَوْضَعُوا خِلالَكُمْ [ التوبة/ 47] والوَضْعُ في السیر استعارة کقولهم : ألقی باعه وثقله، ونحو ذلك، والوَضِيعَةُ : الحطیطةُ من رأس المال، وقد وُضِعَ الرّجلُ في تجارته يُوضَعُ : إذا خسر، ورجل وَضِيعٌ بيّن الضعَةِ في مقابلة رفیع بيّن الرّفعة . ( و ض ع ) الواضع ( نیچے رکھ دینا ) یہ حطه سے عام ہے ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَأَكْوابٌ مَوْضُوعَةٌ [ الغاشية/ 14] اور آبخورے ( قرینے سے ) رکھے ہوئے ۔ اور اسی سے موضع ہے جس کی جمع مواضع آتی ہے جس کے معنی ہیں جگہیں یا موقعے جیسے فرمایا : ۔ يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَنْ مَواضِعِهِ [ النساء/ 46] یہ لوگ کلمات ( کتاب ) کو ان کے مقامات سے بدل دیتے ۔ اور وضع کا لفظ وضع حمل اور بوجھ اتارنے کے معنی میں آتا ہے چناچہ محاورہ ہے وضعت لمرءۃ الحمل وضعا عورت نے بچہ جنا ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ فَلَمَّا وَضَعَتْها قالَتْ رَبِّ إِنِّي وَضَعْتُها أُنْثى وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِما وَضَعَتْ [ آل عمران/ 36] جب ان کے ہاں بچہ پیدا ہوا اور جو کچھ ان کے ہاں پیدا ہوا تھا خدا کو خوب معلوم تھا تو کہنے لگیں کہ پروردگار میرے تو لڑکی ہوئی ہے ۔ لیکن الوضع والتضع کے معنی عورت کے آخر طہر میں حاملہ ہونے کے ہیں ۔ وضعت الحمل میں نے بوجھ اتار دیا اور اتارے ہوئے بوجھ کو موضوع کہا جاتا ہے اور آیت : ۔ وَالْأَرْضَ وَضَعَها لِلْأَنامِ [ الرحمن/ 10] اور اسی نے خلقت کے لئے زمین بچھائی ۔ میں وضع سے مراد خلق وایجا د ( یعنی پیدا کرنا ) ہے اور وضع البیت کے معنی مکان بنانے کے آتے ہیں چناچہ قرآن پا ک میں ہے : ۔ إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ [ آل عمران/ 96] پہلا گھر جو لوگوں کے عبادت کرنے کیلئے بنایا کیا گیا تھا ۔ اور آیت کریمہ : وَوُضِعَ الْكِتابُ [ الكهف/ 49] اور عملوں کی کتاب کھول کر رکھی جائے گی ۔ میں وضع کتاب سے قیامت کے دن اعمال کے دفتر کھولنا اور ان کی جزا دینا مراد ہے ۔ جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : ۔ وَنُخْرِجُ لَهُ يَوْمَ الْقِيامَةِ كِتاباً يَلْقاهُ مَنْشُوراً [ الإسراء/ 13] اور قیامت کے دن وہ کتاب اسے نکال دکھائیں گے جسے وہ کھلا ہوا دیکھے گا ۔ وضعت ( ف ) الدابۃ فی سیر ھا : سواری تیز رفتاری سے چلی اور تیز رفتار سواری کو حسنتہ المواضع ( وحسن المواضع کہا جاتا ہے ۔ اوضع تھا میں نے اسے دوڑایا قرآن پاک میں ہے : ۔ وَلَأَوْضَعُوا خِلالَكُمْ [ التوبة/ 47] اور تم میں ( فساد دلوانے کی غرض ) سے دوڑے دوڑے پھرتے ۔ اور وضع کا لفظ سیر یعنی چلنے کے معنی میں بطور استعارہ استعمال ہوتا ہے جیسا کہ القی باعہ وثقلہ : میں قیام کرنے سے کنایہ ہوتا ہے ۔ الوضیعۃ :( رعایت ) کمی جو اصل قمیت میں کی جائے اس نے تجارت میں نقصان اٹھایا رجل وضیع : نہایت خسیس آدمی ( باب کرم ) یہ رفیع کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے جس کے معنی بلند قدر کے ہیں ۔ نسی النِّسْيَانُ : تَرْكُ الإنسانِ ضبطَ ما استودِعَ ، إمَّا لضَعْفِ قلبِهِ ، وإمَّا عن غفْلةٍ ، وإمَّا عن قصْدٍ حتی يَنْحَذِفَ عن القلبِ ذِكْرُهُ ، يقال : نَسِيتُهُ نِسْيَاناً. قال تعالی: وَلَقَدْ عَهِدْنا إِلى آدَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْماً [ طه/ 115] ( ن س ی ) النسیان یہ سنیتہ نسیانا کا مصدر ہے اور اس کے معنی کسی چیز کو ضبط میں نہ رکھنے کے ہیں خواہ یہ ترک ضبط ضعف قلب کی وجہ سے ہو یا ازارہ غفلت ہو یا قصدا کسی چیز کی یاد بھلا دی جائے حتیٰ کہ وہ دل سے محو ہوجائے قرآن میں ہے : ۔ وَلَقَدْ عَهِدْنا إِلى آدَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْماً [ طه/ 115] ہم نے پہلے آدم (علیہ السلام) سے عہد لیا تھا مگر وہ اسے بھول گئے اور ہم نے ان میں صبر وثبات نہ دیکھا حظَّ الحَظُّ : النصیب المقدّر، وقد حَظِظْتُ وحُظِظْتُ فأنا مَحْظُوظ، وقیل في جمعه : أَحَاظّ وأُحُظّ ، قال اللہ تعالی: فَنَسُوا حَظًّا مِمَّا ذُكِّرُوا بِهِ [ المائدة/ 14] ، وقال تعالی: لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ [ النساء/ 11] . ( ح ظ ظ ) الحظ کے معنی معین حصہ کے ہیں ۔ کہا جاتا ہے ۔ حظظ واحظ فھو محظوظ ۔ حط کی جمع احاظ و احظ آتی ہے قرآن میں ہے ۔ فَنَسُوا حَظًّا مِمَّا ذُكِّرُوا بِهِ [ المائدة/ 14] مگر انہوں نے بھی اس نصیحت کا جوان کو کی گئی تھی ایک حصہ فراموش کردیا (5 ۔ 14) لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ [ النساء/ 11] کہ ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہے ۔ زال ( لایزال) مَا زَالَ ولا يزال خصّا بالعبارة، وأجریا مجری کان في رفع الاسم ونصب الخبر، وأصله من الیاء، لقولهم : زَيَّلْتُ ، ومعناه معنی ما برحت، وعلی ذلك : وَلا يَزالُونَ مُخْتَلِفِينَ [هود/ 118] ، وقوله : لا يَزالُ بُنْيانُهُمُ [ التوبة/ 110] ، وَلا يَزالُ الَّذِينَ كَفَرُوا [ الرعد/ 31] ، فَما زِلْتُمْ فِي شَكٍّ [ غافر/ 34] ، ولا يصحّ أن يقال : ما زال زيد إلّا منطلقا، كما يقال : ما کان زيد إلّا منطلقا، وذلک أنّ زَالَ يقتضي معنی النّفي، إذ هو ضدّ الثّبات، وما ولا : يقتضیان النّفي، والنّفيان إذا اجتمعا اقتضیا الإثبات، فصار قولهم : ما زَالَ يجري مجری (کان) في كونه إثباتا فکما لا يقال : کان زيد إلا منطلقا لا يقال : ما زال زيد إلا منطلقا . ( زی ل ) زالہ یزیلہ زیلا اور مازال اور لایزال ہمیشہ حرف نفی کے ساتھ استعمال ہوتا ہے اور یہ کان فعل ناقص کی طرح اپنے اسم کی رفع اور خبر کو نصب دیتے ہیں اور اصل میں یہ اجوف یائی ہیں کیونکہ عربی زبان میں زیلت ( تفعیل ) یاء کے ساتھ استعمال ہوتا ہے اور مازال کے معنی ہیں مابرح یعنی وہ ہمیشہ ایسا کرتا رہا ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَلا يَزالُونَ مُخْتَلِفِينَ [هود/ 118] وہ ہمیشہ اختلاف کرتے رہیں گے ۔ لا يَزالُ بُنْيانُهُمُ [ التوبة/ 110] وہ عمارت ہمیشہ ( ان کے دلوں میں باعث اضطراب بنی ) رہیگی ۔ وَلا يَزالُ الَّذِينَ كَفَرُوا [ الرعد/ 31] کافر لوگ ہمیشہ ۔۔۔ رہیں گے ۔ فَما زِلْتُمْ فِي شَكٍّ [ غافر/ 34] تم برابر شبہ میں رہے ۔ اور محاورہ میں مازال زید الا منطلقا کہنا صحیح نہیں ہے جیسا کہ ماکان زید الا منطلقا کہاجاتا ہے کیونکہ زال میں ثبت گی ضد ہونے کی وجہ نفی کے معنی پائے جاتے ہیں اور ، ، ما ، ، و ، ، لا ، ، بھی حروف نفی سے ہیں اور نفی کی نفی اثبات ہوتا ہے لہذا مازال مثبت ہونے میں گان کیطرح ہے تو جس طرح کان زید الا منطلقا کی ترکیب صحیح نہیں ہے اس طرح مازال زید الا منطلقا بھی صحیح نہیں ہوگا ۔ طَلَعَ طَلَعَ الشمسُ طُلُوعاً ومَطْلَعاً. قال تعالی: وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ [ طه/ 130] ، حَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ [ القدر/ 5] ، والمَطْلِعُ : موضعُ الطُّلُوعِ ، حَتَّى إِذا بَلَغَ مَطْلِعَ الشَّمْسِ وَجَدَها تَطْلُعُ عَلى قَوْمٍ [ الكهف/ 90] ، وعنه استعیر : طَلَعَ علینا فلانٌ ، واطَّلَعَ. قال تعالی: هَلْ أَنْتُمْ مُطَّلِعُونَ [ الصافات/ 54] ، فَاطَّلَعَ [ الصافات/ 55] ، قال : فَأَطَّلِعَ إِلى إِلهِ مُوسی[ غافر/ 37] ، وقال : أَطَّلَعَ الْغَيْبَ [ مریم/ 78] ، لَعَلِّي أَطَّلِعُ إِلى إِلهِ مُوسی[ القصص/ 38] ، واسْتَطْلَعْتُ رأيَهُ ، وأَطْلَعْتُكَ علی كذا، وطَلَعْتُ عنه : غبت، والطِّلاعُ : ما طَلَعَتْ عليه الشمسُ والإنسان، وطَلِيعَةُ الجیشِ : أوّل من يَطْلُعُ ، وامرأةٌ طُلَعَةٌ قُبَعَةٌ «1» : تُظْهِرُ رأسَها مرّةً وتستر أخری، وتشبيها بالطُّلُوعِ قيل : طَلْعُ النَّخْلِ. لَها طَلْعٌ نَضِيدٌ [ ق/ 10] ، طَلْعُها كَأَنَّهُ رُؤُسُ الشَّياطِينِ [ الصافات/ 65] ، أي : ما طَلَعَ منها، وَنَخْلٍ طَلْعُها هَضِيمٌ [ الشعراء/ 148] ، وقد أَطْلَعَتِ النّخلُ ، وقوسٌ طِلَاعُ الكفِّ : ملءُ الكفِّ. ( ط ل ع ) طلع ( ن ) الشمس طلوعا ومطلعا کے معنی آفتاب طلوع ہونے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ [ طه/ 130] اور سورج کے نکلنے سے پہلے ۔۔۔۔۔ تسبیح وتحمید کیا کرو ۔ حَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ [ القدر/ 5] طلوع صبح تک ۔ اور مطلع کے معنی ہیں طلوع ہونیکی جگہ قرآن میں ہے : ۔ حَتَّى إِذا بَلَغَ مَطْلِعَ الشَّمْسِ وَجَدَها تَطْلُعُ عَلى قَوْمٍ [ الكهف/ 90] یہاں تک کہ سورج کے طلوع ہونے کے مقام پر پہنچا تو دیکھا کہ وہ ایسے لوگوں پر طلوع کرتا ہے ۔۔۔۔۔ اسی سے استعارہ کے طور طلع علینا فلان واطلع کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی ہیں کسی کے سامنے ظاہر ہونا اور اوپر پہنچ کر نیچے کی طرف جھانکنا قرآن میں ہے : ۔ هَلْ أَنْتُمْ مُطَّلِعُونَ [ الصافات/ 54] بھلا تم اسے جھانک کر دیکھنا چاہتے ہو اتنے میں وہ خود جھانکے گا ۔ فَاطَّلَعَ [ الصافات/ 55] پھر اوپر جاکر موسیٰ (علیہ السلام) کے خدا کو دیکھ لوں ۔ أَطَّلَعَ الْغَيْبَ [ مریم/ 78] کیا اس نے غیب کی خبر پالی ۔ لَعَلِّي أَطَّلِعُ إِلى إِلهِ مُوسی[ القصص/ 38] تاکہ میں موسیٰ (علیہ السلام) کے خدا کی طرف چڑھ جاؤں ۔ استطعت ( میں نے اس کی رائے معلوم کی ۔ اطلعت علٰی کذا میں نے تمہیں فلان معاملہ سے آگاہ کردیا طلعت عنہ میں اس سے پنہاں ہوگیا ( اضداد الطلاع ہر وہ چیز جس پر سورج طلوع کرتا ہو یا ( 2 ) انسان اس پر اطلاع پائے طلعیۃ الجیش ہر اول دستہ امرء ۃ طلعۃ قبعۃ وہ عورت جو بار بار ظاہر اور پوشیدہ ہو اور طلوع آفتاب کی مناسبت سے طلع النخل کا محاورہ استعمال ہوتا ہے اور اس کے معنی درخت خرما کے غلاف کے ہیں جس کے اندر اس کا خوشہ ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ لَها طَلْعٌ نَضِيدٌ [ ق/ 10] جن کا گا بھاتہ بتہ ہوتا ہے طَلْعُها كَأَنَّهُ رُؤُسُ الشَّياطِينِ [ الصافات/ 65] ان کے شگوفے ایسے ہوں گے جیسے شیطانوں کے سر ۔ وَنَخْلٍ طَلْعُها هَضِيمٌ [ الشعراء/ 148] اور کھجوریں جن کے شگوفے لطیف ونازک ہوتے ہیں ۔ الطلعت النخل کھجور کا شگوفے دار ہونا ۔ قو س طلاع الکھف کمان جس سے مٹھی بھر جائے ۔ خون الخِيَانَة والنّفاق واحد، إلا أنّ الخیانة تقال اعتبارا بالعهد والأمانة، والنّفاق يقال اعتبارا بالدّين، ثم يتداخلان، فالخیانة : مخالفة الحقّ بنقض العهد في السّرّ. ونقیض الخیانة : الأمانة وعلی ذلک قوله : لا تَخُونُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ وَتَخُونُوا أَماناتِكُمْ [ الأنفال/ 27] ، ( خ و ن ) الخیانۃ خیانت اور نفاق دونوں ہم معنی ہیں مگر خیانت کا لفظ عہد اور امانت کا پاس نہ کرنے پر بولا جاتا ہے اور نفاق دین کے متعلق بولا جاتا ہے پھر ان میں تداخل ہوجاتا ہے پس خیانت کے معنی خفیہ طور پر عہد شکنی کرکے حق کی مخالفت کے آتے ہیں اس کا ضد امانت ہے ۔ اور محاورہ میں دونوں طرح بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ لا تَخُونُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ وَتَخُونُوا أَماناتِكُمْ [ الأنفال/ 27] نہ تو خدا اور رسول کی امانت میں خیانت کرو اور نہ اپنی امانتوں میں خیانت کرو ۔ قل القِلَّةُ والکثرة يستعملان في الأعداد، كما أنّ العظم والصّغر يستعملان في الأجسام، ثم يستعار کلّ واحد من الکثرة والعظم، ومن القلّة والصّغر للآخر . وقوله تعالی: ثُمَّ لا يُجاوِرُونَكَ فِيها إِلَّا قَلِيلًا[ الأحزاب/ 60] ( ق ل ل ) القلۃ والکثرۃ بلحاظ اصل وضع کے صفات عدد سے ہیں جیسا کہ عظم اور صغر صفات اجسام سے ہیں بعد کثرت وقلت اور عظم وصغڑ میں سے ہر ایک دوسرے کی جگہ بطور استعارہ استعمال ہونے لگا ہے اور آیت کریمہ ؛ثُمَّ لا يُجاوِرُونَكَ فِيها إِلَّا قَلِيلًا[ الأحزاب/ 60] پھر وہاں تمہارے پڑوس میں نہیں رہ سکیں گے مگر تھوڑے دن ۔ میں قلیلا سے عرصہ قلیل مراد ہے ۔ عفو فالعَفْوُ : هو التّجافي عن الذّنب . قال تعالی: فَمَنْ عَفا وَأَصْلَحَ [ الشوری/ 40] وَأَنْ تَعْفُوا أَقْرَبُ لِلتَّقْوى [ البقرة/ 237] ( ع ف و ) عفوت عنہ کے معنی ہیں میں نے اس سے درگزر کرتے ہوئے اس کا گناہ متادینے کا قصد کیا ز لہذا یہاں اصل میں اس کا مفعول ترک کردیا گیا ہے اور عن کا متعلق مخذوف ہی یا قصدت ازالتہ ذنبہ سار فا عنہ پس عفو کے معنی گناہ سے درگزر کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ فَمَنْ عَفا وَأَصْلَحَ [ الشوری/ 40] مگر جو درگزر کرے اور معاملہ کو درست کرلے وَأَنْ تَعْفُوا أَقْرَبُ لِلتَّقْوى [ البقرة/ 237] اور اگر تم ہی اپنا حق چھوڑ دو تو یہ پرہیز گاری کی بات ہے ۔ صفح صَفْحُ الشیءِ : عرضه وجانبه، كَصَفْحَةِ الوجهِ ، وصَفْحَةِ السّيفِ ، وصَفْحَةِ الحَجَرِ. والصَّفْحُ : تركُ التّثریب، وهو أبلغ من العفو، ولذلک قال : فَاعْفُوا وَاصْفَحُوا حَتَّى يَأْتِيَ اللَّهُ بِأَمْرِهِ [ البقرة/ 109] ، وقد يعفو الإنسان ولا يَصْفَحُ. قال : فَاصْفَحْ عَنْهُمْ وَقُلْ سَلامٌ [ الزخرف/ 89] ، فَاصْفَحِ الصَّفْحَ الْجَمِيلَ [ الحجر/ 85] ، أَفَنَضْرِبُ عَنْكُمُ الذِّكْرَ صَفْحاً [ الزخرف/ 5] ، وصَفَحْتُ عنه : أولیته مني صَفْحَةٍ جمیلةٍ معرضا عن ذنبه، أو لقیت صَفْحَتَهُ متجافیا عنه، أو تجاوزت الصَّفْحَةَ التي أثبتّ فيها ذنبه من الکتاب إلى غيرها، من قولک : تَصَفَّحْتُ الکتابَ ، وقوله : إِنَّ السَّاعَةَ لَآتِيَةٌ فَاصْفَحِ الصَّفْحَ الْجَمِيلَ [ الحجر/ 85] ، فأمر له عليه السلام أن يخفّف کفر من کفر کما قال : وَلا تَحْزَنْ عَلَيْهِمْ وَلا تَكُ فِي ضَيْقٍ مِمَّا يَمْكُرُونَ [ النحل/ 127] ، والمُصَافَحَةُ : الإفضاء بِصَفْحَةِ الیدِ. ( ص ف ح ) صفح ۔ کے معنی ہر چیز کا چوڑا پہلو یا جانب کے مثلا صفحۃ السیف ( تلوار کا چوڑا پہلو ) صفحتہ الحجر ( پتھر کی چوڑی جانب وغیرہ ۔ الصفح ۔ ( مصدر ) کے معنی ترک ملامت اور عفو کے ہیں مگر یہ عفو سے زیادہ بلیغ ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آیت کریمہ : فَاعْفُوا وَاصْفَحُوا حَتَّى يَأْتِيَ اللَّهُ بِأَمْرِهِ [ البقرة/ 109] تو تم معاف کرو داور درگزر کرو یہاں تک کہ خدا اپنا دوسرا حکم بھیجے ۔ میں عفو کے بعد صفح کا حکم دیا گیا ہے کیونکہ بعض اوقات انسان عفو یعنی درگزر تو کرلیتا ہے لیکن صفح سے کا م نہیں لیتا یعنی کسی سے اس قدر درگزر کرنا کہ اسے مجرم ہی نہ گروانا جائزنیز فرمایا : فَاصْفَحْ عَنْهُمْ وَقُلْ سَلامٌ [ الزخرف/ 89] اس لئے درگذر کرو اور اسلام کہہ دو ۔ فَاصْفَحِ الصَّفْحَ الْجَمِيلَ [ الحجر/ 85] تو تم ان سے اچھی طرح درگزر کرو ۔ أَفَنَضْرِبُ عَنْكُمُ الذِّكْرَ صَفْحاً [ الزخرف/ 5] بھلا اس لئے کہ تم حد سے نکلے ہوئے لوگ ہو ہم تم کو نصیحت کرنے سے باز رہیں گے ۔ صفحت عنہ (1) میں نے اس سے درگذر کرتے ہوئے اسے صفح جمیل کا والی بنایا یعنی اسکے جرم سے کلیۃ اعراض برتا (2) اس سے دور ہوتے ہوئے ایک جانب سے ملا (3) میں نے کتاب کے اس صفحہ سے تجاوز کیا جس میں اس کا جرم لکھ رکھا تھا ۔ اس صورت میں یہ تصفحت الکتاب سے ماخوذ ہوگا ۔ جس کے معنی کتاب کے صفحات کو الٹ پلٹ کردیکھنے کے ہیں قرآن میں ہے : إِنَّ السَّاعَةَ لَآتِيَةٌ فَاصْفَحِ الصَّفْحَ الْجَمِيلَ [ الحجر/ 85] اور قیامت توضرور آکر رہے گی لہذا تم ( ان سے ) ا چھی طرح سے درگذر کرو ۔ اس آیت میں آنحضرت کو حکم دیا گیا ہے کہ ان کے کفر کی وجہ سے غم کھانے کی ضرورت نہیں ہے ۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر فرمایا : وَلا تَحْزَنْ عَلَيْهِمْ وَلا تَكُ فِي ضَيْقٍ مِمَّا يَمْكُرُونَ [ النحل/ 127] اور ان کے بارے میں غم نہ کرو اور جو یہ بد اندیش کر رہے ہیں اس سے تنگ دل نہ ہو ۔ المصافحۃ مصافحہ کرنا ۔ ہاتھ ملانا ۔ حب والمحبَّة : إرادة ما تراه أو تظنّه خيرا، وهي علی ثلاثة أوجه : - محبّة للّذة، کمحبّة الرجل المرأة، ومنه : وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان/ 8] . - ومحبّة للنفع، کمحبة شيء ينتفع به، ومنه : وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13] . - ومحبّة للفضل، کمحبّة أهل العلم بعضهم لبعض لأجل العلم . ( ح ب ب ) الحب والحبۃ المحبۃ کے معنی کسی چیز کو اچھا سمجھ کر اس کا ارادہ کرنے اور چاہنے کے ہیں اور محبت تین قسم پر ہے : ۔ ( 1) محض لذت اندوزی کے لئے جیسے مرد کسی عورت سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ آیت : ۔ وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان/ 8] میں اسی نوع کی محبت کی طرف اشارہ ہے ۔ ( 2 ) محبت نفع اندوزی کی خاطر جیسا کہ انسان کسی نفع بخش اور مفید شے سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13 اور ایک چیز کو تم بہت چاہتے ہو یعنی تمہیں خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح حاصل ہوگی ۔ ( 3 ) کبھی یہ محبت یہ محض فضل وشرف کی وجہ سے ہوتی ہے جیسا کہ اہل علم وفضل آپس میں ایک دوسرے سے محض علم کی خاطر محبت کرتے ہیں ۔ احسان الإحسان فوق العدل، وذاک أنّ العدل هو أن يعطي ما عليه، ويأخذ أقلّ مما له، والإحسان أن يعطي أكثر مما عليه، ويأخذ أقلّ ممّا له «3» . فالإحسان زائد علی العدل، فتحرّي العدل واجب، وتحرّي الإحسان ندب وتطوّع، وعلی هذا قوله تعالی: وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء/ 125] ، وقوله عزّ وجلّ : وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة/ 178] ، ولذلک عظّم اللہ تعالیٰ ثواب المحسنین، فقال تعالی: وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت/ 69] ، وقال تعالی:إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة/ 195] ، وقال تعالی: ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة/ 91] ، لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل/ 30] . ( ح س ن ) الحسن الاحسان ( افعال ) احسان عدل سے بڑھ کر چیز ہے کیونکہ دوسرے کا حق پورا دا کرنا اور اپنا حق پورا لے لینے کا نام عدل ہے لیکن احسان یہ ہے کہ دوسروں کو ان کے حق سے زیادہ دیا جائے اور اپنے حق سے کم لیا جائے لہذا احسان کا درجہ عدل سے بڑھ کر ہے ۔ اور انسان پر عدل و انصاف سے کام لینا تو واجب اور فرض ہے مگر احسان مندوب ہے ۔ اسی بنا پر فرمایا :۔ وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء/ 125] اور اس شخص سے کس کا دین اچھا ہوسکتا ہے جس نے حکم خدا قبول کیا اور وہ نیکو کا ر بھی ہے ۔ اور فرمایا ؛ وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة/ 178] اور پسندیدہ طریق سے ( قرار داد کی ) پیروی ( یعنی مطالبہ خونہار ) کرنا ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محسنین کے لئے بہت بڑے ثواب کا وعدہ کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت/ 69] اور خدا تو نیکو کاروں کے ساتھ ہے ۔ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة/ 195] بیشک خدا نیکی کرنیوالوں کو دوست رکھتا ہے ۔ ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة/ 91] نیکو کاروں پر کسی طرح کا الزام نہیں ہے ۔ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل/ 30] جنہوں نے اس دنیا میں نیکی کی ان کے لئے بھلائی ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

قول باری ہے (یحرفون الکلم عن مواضعہ اور ان کا حال یہ ہے کہ الفاظ کا الٹ پھیر کر کے بات کو کہیں سے کہیں لے جاتے ہیں) وہ دو طرح سے کلام اللہ کی تحریف کرتے تھے۔ ایک تو غلط تاویل کر کے اور غلط مفہوم لے کر اور دوسری الفاظ میں الٹ پھیر کر کے، جو چیز کلام یا کتاب کی صورت میں لوگوں کے اندر عام ہوجانے اور لوگوں کے ہاتھوں میں پہنچ جائے اس کے الفاظ میں الٹ پھیرنا ممکن ہوجاتا ہے۔ اس لئے کہ ایسی بات پر تمام لوگوں کا متفق ہوجانا ممتنع ہوتا ہے۔ لیکن جس کتاب کی لوگوں کے درمیان اشاعت نہ ہوئی ہو بلکہ اس کا علم صرف ایک خاص طبقے تک محدود ہو جس سے الٹ پھیر اور تغیر و تبدل متوقع بھی ہو اس صورت میں ایسی کتاب کے الفاظ اور معانی میں الٹ پھیر کا پورا امکان ہوتا ہے اور یہ بھی ممکن ہوتا ہے کہ اصل الفاظ کی جگہ اپنے الفاظ نہ رکھ دیئے گئے ہوں۔ لیکن ایسی کتاب جو عام لوگوں کے ہاتھوں میں ہو اور لوگوں میں اس کی اشاعت بھی ہوئی ہو اس میں غلط تاویلات کے ذریعے ہی تحریف ہوسکتی ہے جس طرح فرقہ جبریہ اور فرقہ قدریہ نے متشابہ آیات کے وہ معنی پہنائے جن سے ان کے باطل عقائد کی تائید ہوتی تھی اور ان سے ایسے مفاہیم اخذ کرنے کا دعویٰ کیا جو ان کے اعتقادات کے مطابق ہوتے انہوں نے متشابہ آیات کو محکم آیات کے معانی پر محمول کرنے کی کوشش نہیں کی۔ ہم نے جو یہ کہا ہے کہ جو کتاب عام لوگوں تک پہنچ گئی ہو اور عوام الناس کے درمیان پھیل گئی ہو اس کے الفاظ میں الٹ پھیر کے ذریعے تحریف واقع ہونا ممکن نہیں ہوتا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ تحریف صرف اسی صورت میں واقع ہوسکتی ہے جب سب لوگ اس پر متفق ہوجائیں۔ لیکن لوگوں کا ایسی بات پر متفق ہوجانا جبکہ ان کے خیالات ایک دوسرے سے مختلف اور ان کے علاقے ایک دوسرے سے دور ہوں، ناممکن ہوتا ہے جس طرح تمام مسلمانوں کا قرآن کے الفاظ میں کسی قسم کے الٹ پھیر پر متفق ہوجانا ناممکن ہے۔ اگر یہ بات ممکن ہوتی تو پھر جھوٹی احادیث اور بےبنیاد روایات گھڑنے پر بھی ان کا اتفاق ہوسکتا تھا اور اگر ایسا ہوجاتا تو احادیث و روایات کے ذریعے دین کی کسی بات کا بھی صحیح علم ہم تک نہ پہنچ سکتا۔ اس اضطرار کی بنا پر اس قول کا بطلان سب کے علم میں ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٣) عہد شکنی کرنے والوں کی سزا کا ذکر فرماتے ہیں کہ ہم نے اس عہد شکنی کی بنا پر ان پر جزیہ کی سزا مسلط کردی اور ان کے کے دلوں کو اتنا سخت کردیا کہ ان میں نور ایمان ہی نہ رہا۔ چناچہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نعت وصفت اور آیت رجم کا توریت میں ذکر ہونے کے باوجود وہ اس میں تبدیلی کرنے لگے اور توریت میں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیروی اور نعت وصفت کے اظہار کا جو حکم دیا گیا تھا اس حصہ کو بالکل بھلا دیا گیا۔ اے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ بنی قریظہ والے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ جو خیانت کرتے اور آپ کی نافرمانی کرتے رہتے ہیں اس کی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اطلاع ہوتی رہتی ہے، ماسوا عبداللہ بن سلام (رض) اور ان کے ساتھیوں کے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے درگزر کیجیے اور کسی قسم کی کوئی سختی نہ فرمائیے، (اللہ تعالیٰ ان سے خود ہی نمٹ لے گا )

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٣ (فَبِمَا نَقْضِہِمْ مِّیْثَاقَہُمْ لَعَنّٰہُمْ ) میں نے سورة النساء آیت ١٥٥ میں لَعَنّٰہُمْ محذوف قرار دیا تھا ‘ لیکن یہاں پر یہ واضح ہو کر آگیا ہے کہ ہم نے ان کے اس میثاق کو توڑنے کی پاداش میں ان پر لعنت فرمائی۔ (وَجَعَلْنَا قُلُوْبَہُمْ قٰسِیَۃًج ) ۔ جیسے سورة البقرہ (آیت ٧٤) میں فرمایا : (ثُمَّ قَسَتْ قُلُوبُکُمْ مِّنْم بَعْدِ ذٰلِکَ فَہِیَ کَالْحِجَارَۃِ اَوْ اَشَدُّ قَسْوَۃً ط) پھر تمہارے دل سخت ہوگئے اس کے بعد ‘ پتھروں کی طرح بلکہ پتھروں سے بھی بڑھ کر سخت۔ یہاں پر وہی بات دہرائی گئی ہے۔ (یُحَرِّفُوْنَ الْکَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِہٖ لا) ‘ (وَنَسُوْا حَظًّا مِّمَّا ذُکِّرُوْا بِہٖ ج) اور انہوں نے اس سے فائدہ اٹھانا چھوڑ دیا۔ (وَلاَ تَزَالُ تَطَّلِِعُ عَلٰی خَآءِنَۃٍ مِّنْہُمْ ) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جیسے ہی مدینہ پہنچے تھے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس نئی جگہ پر اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کے لیے پہلے چھ مہینوں میں جو تین کام کیے ان میں سے ایک یہ بھی تھا کہ یہود کے تینوں قبیلوں سے مدینہ کے مشترکہ دفاع کے معاہدے کرلیے کہ اگر مدینے پر حملہ ہوگا تو سب مل کر اس کا دفاع کریں گے ‘ لیکن بعد میں ان میں سے ہر قبیلے نے ایک ایک کرکے غداری کی۔ چناچہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا جا رہا ہے کہ ان کی طرف سے مسلسل خیانتیں ہوتی رہیں گی ‘ لہٰذا آپ کو ان کی طرف سے ہوشیار رہنا چاہیے اور ان کا توڑ کرنے کے لیے پہلے سے تیار رہنا چاہیے۔ (اِلاَّ قَلِیْلاً مِّنْہُمْ ) ان میں سے بہت تھوڑے لوگ اس سے مستثنیٰ ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

15: یعنی اس قسم کی شرارتیں توان کی پرانی عادت ہے ؛ لیکن آپ کو فی الحال سارے بنی اسرائیل کو کوئی اجتماعی سزا دینے کا حکم نہیں ہے جب وقت آئے گا اللہ تعالیٰ خود سزا دے گا۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(5:13) فبما میں ب سببیہ ہے اور ما الفظا زائد اور معنا کلام میں قوت و زور پیدا کرنے کے لئے ہے۔ نقضہم ان کا (عہد شکنی کرنا) نقض مصدر۔ نقض ینقض (نصر) توڑ دینا۔ لعنھم۔ ماضی جمع متکلم ۔ ھم ضمیر مفو ول جمع مذکر غائب لعن مصدر (باب فتح) ہم نے لعنت کی ہم نے رحمت سے دور کردیا۔ اللعن الابعاد من الرحمۃ۔ لعنت رحمت سے دور کرنے کو کہتے ہیں۔ قسیۃ۔ اسم فاعل واحد مؤنث۔ سخت سل۔ سنگدل۔ ایسے کو ایمان کے لئے نرم نہیں پڑتے۔ حائنۃ اس کی مندرجہ ذیل ہوسکتی ہیں (1) یہ مصدر ہے بمعنی خیانت ، دغاء ۔ اس صورت میں ترجمہ ہوگا۔ تمہیں متواتران کی طرف سے خیانت کے ارتکاب کی اطلاد ہتی رہیگی (2) یہ اسم فاعل ہے اصل میں خائن تھا۔ ۃ مبالغہ کے لئے آئی ہے۔ اس صورت میں معنی ہوں گے تمہیں ہمیشہ ان میں سے کسی بڑے خائن کا علم ہوتا رہے گا۔ (3) خائنۃ صفت ہے اور اس کا موصوف محذوف ہے گویا آیت کی تقدیر یوں ہے۔ ولا تزال تطلع علی فرقۃ خائنۃ منہم۔ اور آپ کو اکثر ان میں سے کسی نہ کسی خیانت کرنے والی جماعت کی اطلاع ملتی رہیگی۔ لاتزال۔ افعال ناقص میں سے ہے۔ تو ہمیشہ رہیگا۔ فاعل کے ساتھ استمرار فعل کے معنی دیتا ہے۔ تطلع۔ تو خبردار ہوگا۔ تو اطلاع پائے گا۔ لاتزال تطلع۔ تو ہمیشہ اطلاع پاتا رہیگا۔ تجھے متواتر اطلاع ملتی رہیگی۔ واصفح۔ تو درگزر کر۔ صفح (باب فتح) سے امر کا صیغہ واحد مذکر حاضر۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 یعنی اس کی راہ میں خرچ کرتے رہو گے، جو شخص اللہ تعالیٰ کی راہ میں مال خرچ کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ چونکہ اس کا کئی گنا بدلہ عنایت فرمائے گا اس لیے قرآن کی متعدد آیات میں اس مال خرچ کرنے کو قرض کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے یہ خطاب یا تو بنی اسرائیل سے ہے اور یا اس کے مخاطب صرف نقبا ہیں (کبیر)2 یعنی ان کے دلوں میں نفاق بھر گیا ہے قسیتہ یا قا سیتہ اصل میں اس سکے کو کہتے ہیں جس میں ملاوٹ ہو، یہ قسوۃ سے جس کے معنی شدت اوسختی کے ہیں خالص سونا اور چاندی نرم ہوتے ہیں اور جتنی ان میں ملاوٹ زیادہ ہو اتنا ہی وہ زیادہ سخت ہوجاتے ہیں اس تشبیہ کی رعایت سے ان کے دلوں کو جن میں نفاق بھرا ہوتا ہے قاسیتہ فرمایا ہے (قرطبی۔ کبیر) یعنی ایک لفظ کی بجائے دوسرالفظ رکھ دیتے یا اس کی غلط تاویل کرتے اور اپنے ہی کرتب سے انہوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ان صفات کو بد ڈالا تھا جو تورات میں مذکورتھیں (قرطبی)4 یعنی تورات کے بہت سے حصہ پر عمل تر کردیا جیساک آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانا اور زانی کو سنگسار کرنا وغیرہ (کبیرہ۔ ابن کثیر)5 خاتنتہ بمعنی مصدر ای الخیانتہ اور صفتہ ای علی ٰ فرقتہ خائنتہ (کبیر) یعنی ان سے آئے سن کسی ہ کسی خیانت اور بد عہد ی کا ظہو رہوتا رہے گا یا ان میں ہمیشہ ایسے لوگ موجود رہیں گے جو خیا نت اور بد عہد ی کا ارتکاب کرتے رہنیگے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہرگز ان کی طرف سے امن نصیب نہ ہوگا۔6 یعنی ان میں چند لوگو ایسے ہیں جو کسی خیانت وبد عہدی کا مظاہرہ نہیں کرینگے ان سے خا ص کر عبد اللہ بن سلام اور ان کے ساتھ مراد ہیں یا پھر تمام وہ تمام لوگ جنہوں نے کفر کے باوجود کسی قسم کی خیانت یا بد عہدی نہیں کی (کبیر)7 یعنی ان کی انفرادی خیانتوں اوابدعہد یوں سے نہ کر ان بد عہد یوں سے جو اجتماعی طور پر ہو کرتے ہیں۔ کیونکہ اس صورت میں تو وہ واضع طورپ حربی قرار پائیں گے جن کی سرکوبی بہر حال کی جائے گی (المنار) یا یہ کہ نوجوان میں سے خیانت کا ارتکاب نہیں کرتے اور اپنے عہد پر قائم ہیں ان کی دوسری لغزشوں سے درگزر فرمائیں (کبیر) ان دونوں صورتوں میں یہ آیت محکم رہے گی ورنہ اسے آیت قتال سے منسوخ کہا جائے گا۔ (کبیر )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ یعنی تحریف لفظی یاتحریف معنوی کرتے ہیں۔ 4۔ نئی خیانت یہ کہ ایک بار مثلا رجم کے حکم کو چھپالیا ایک بار نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دریافت فرمانے پر تورات کا ایک مضموں غلط بیان کردیا جس پر آیت لاتحسبن الذین نازل ہوئی تھی اور جیسے تحریم طیبات کے قدیم ہونے کا ایک بار غلط دعوی کیا تھا جس پر شروع پارہ لن تنالوا میں آیت قل فاتو بالتوراة نازل ہوئی۔ اور تمام تر وہ غلط بیانیاں جن کی حکایت مع ان کے ابطال کے قرآن مجید میں جابجا مذکور ہے اس میں داخل ہیں جیسے لن تمسناالنار اور لن یدخل الجنةالخ اور نحن ابناء اللہ واحباوہ و مثال ذالک۔ 5۔ اوپر یہود کا ذکر تھا آگے کچھ نصاری کا حال بیان فرما رہے ہیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ۔ بار بار عہد لینے، اور بارہ نگران مقرر کرنے کے باوجود بنی اسرائیل کو جو نہی کچھ ڈھیل حاصل ہوتی تو یہ لوگ اللہ تعالیٰ سے کیے ہوئے عہد کی ایک ایک شق کو نہ صرف ٹھکراتے بلکہ اس کے مفہوم کو بدل دیتے یہاں تک کہ الفاظ بھی تبدیل کرکے ہر نصیحت اور سرزنش کو فراموش کردیتے۔ جس کا بنیادی سبب ان کی مسلسل نافرمانیوں کی وجہ سے ان کے دلوں پر پڑنے والی لعنت اور پھٹکار تھی۔ لعنت کا معنی اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دور اور محروم ہونا ہے۔ جو شخص یا قوم اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دور ہوجائے ان کے دل سخت ہوجاتے ہیں۔ جس کے سبب اپنے آپ کو بدلنے کی بجائے وہ اللہ تعالیٰ کے احکام کو بدلنے کے درپے رہتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی یہ عادت خبیثہ اور فطرت ثانیہ بن جاتی ہے، جس وجہ سے ان کی اکثریت ہر قسم کی خیانت کو جائز سمجھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اہل یہود کی تاریخ عہد شکنی، مالی اور اخلاقی خیانت سے بھرپور ہے۔ یہاں پھر اس بات کی وضاحت کردی گئی کہ ان میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو خیانت کے حوالے سے مستثنیٰ قرار دیے جاسکتے ہیں۔ آیت کے آخر میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ تعلیم دی گئی ہے اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان سے الجھنے کی بجائے معاف کریں یا درگزر فرمائیں کیونکہ اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) عَنْ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِنَّ الْعَبْدَ إِذَا أَخْطَأَ خَطِیءَۃً نُکِتَتْ فِی قَلْبِہٖ نُکْتَۃٌ سَوْدَاءُ فَإِذَا ہُوَ نَزَعَ وَاسْتَغْفَرَ وَتَابَ سُقِلَ قَلْبُہُ وَإِنْ عَاد زیدَ فیہَا حَتَّی تَعْلُوَ قَلْبَہُ وَہُوَ الرَّانُ الَّذِی ذَکَرَ اللّٰہُ کَلَّا بَلْ رَانَ عَلَی قُلُوبِہِمْ مَا کَانُوا یَکْسِبُونَ قَالَ ہَذَا حَدِیثٌ حَسَنٌ صَحِیحٌ )[ رواہ الترمذی : کتاب تفسیر القرآن، باب ومن سورة ویل للمطفین ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا بلاشبہ جب بندہ ایک غلطی کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ نکتہ لگا دیا جاتا ہے جب وہ توبہ استغفار کرتا ہے تو اس کا دل صاف کردیا جاتا ہے اور اگر وہ اس غلطی کا اعادہ کرتے ہوئے مزید گناہ کرے تو اس سیاہ نکتے میں اضافہ کردیا جاتا ہے حتیٰ کہ وہ پورے دل کو لپیٹ میں لے لیتا ہے اور وہ زنگ ہے جس کا تذکرہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے : ہرگز نہیں بلکہ ان کے دلوں پر ان کے اعمال کی وجہ سے زنگ لگا دیا گیا ہے۔ “ (عَنِ ابْنِ عُمَرَ (رض) قَالَ سَمِعْتُ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُولُ لِکُلِّ غَادِرٍ لِوَاءٌ یُنْصَبُ لِغَدْرَتِہِ ) [ رواہ البخاری : باب إِثْمِ الْغَادِرِ لِلْبَرِّ وَالْفَاجِرِ ] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا آپ فرما رہے تھے کہ ہر بد عہد کے لیے جھنڈا ہوگا جو اس کی بد عہدی کے مطابق نمایاں ہوگا۔ “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ وعدہ پورا نہ کرنے والوں پر لعنت کرتا ہے۔ ٢۔ وعدہ پورا نہ کرنے کی و جہ سے دل سخت ہوجاتے ہیں۔ ٣۔ نیکی کرنے والوں سے اللہ تعالیٰ محبت کرتا ہے۔ تفسیر بالقرآن یہودیوں پر لعنت کے اسباب : ١۔ اللہ تعالیٰ کے کلام کو بدلنے کی وجہ سے یہودیوں پر لعنت کی گئی۔ (النساء : ٤٦) ٢۔ بنی اسرائیل کی ایک جماعت کے کفر کی وجہ سے حضرت داؤد اور عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) نے لعنت کی۔ (المائدۃ : ٧٨) ٣۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کیے ہوئے میثاق کو توڑنے پر لعنت ہوئی۔ (الرعد : ٢٥) ٤۔ اللہ تعالیٰ کی آیات کو چھپانے کی وجہ سے لعنت کی گئی۔ (البقرۃ : ١٥٩) ٥۔ اللہ تعالیٰ پر الزام لگانے کی وجہ سے ان پر لعنت ہوئی۔ (ھود : ١٨)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(آیت) ” فَبِمَا نَقْضِہِم مِّیْثَاقَہُمْ لَعنَّاہُمْ وَجَعَلْنَا قُلُوبَہُمْ قَاسِیَۃً یُحَرِّفُونَ الْکَلِمَ عَن مَّوَاضِعِہِ وَنَسُواْ حَظّاً مِّمَّا ذُکِّرُواْ بِہِ ۔ ” پھر یہ انکو اپنے عہد کو توڑ ڈالنا تھا جس کی وجہ سے ہم نے ان کو اپنی رحمت سے دور پھینک دیا اور انکے دل کو سخت کردیا ، اب ان کا حال یہ ہے کہ الفاظ کا الٹ پھیر کر کے بات کو کہیں سے کہیں لے جاتے ہیں ۔ جو تعلیم انہیں دی گئی تھی اس کا بڑا حصہ بھول چکے ہیں ‘ ‘ اللہ کا فرمان کس قدر سچا ہے ۔ آج بھی یہودیوں کی خصوصیات یہی ہیں ۔ یہ وہ لعنت ہے جو ان کے ماتھے سے ہو ہر وقت عیاں ہے ۔ اس سے ان کی اصل فطرت اور جبلت ظاہر ہوتی ہے ۔ جس پر خدا کی لعنت ہے وہ درگاہ ہدایت سے راندہ ہے ۔ ان کے خدوخال میں بدبختی چمکتی ہے ۔ ان کے چہرے پر اللہ کی رحمت کا نشان نہیں ہوتا ہے ۔ ان کے معاملات انسانی جذبات سے خالی ہوتے ہیں ‘ اگرچہ وہ مکاری سے یا خوف کی وجہ سے زبردستی اپنے چہروں پر مسکراہٹ لائیں اور بات میں نرمی پیدا کریں اور باہم ملاقات میں نہایت فطرت اور جبلت ظاہر ہوتی ہے ۔ جس پر خدا کی لعنت ہے وہ درگاہ ہدایت سے راندہ ہے ۔ ان کے خدوخال میں بدبختی چمکتی ہے ۔ ان کے چہرے پر اللہ کی رحمت کا نشان نہیں ہوتا ہے ۔ ان کے معاملات انسانی جذبات سے خالی ہوتے ہیں ‘ اگرچہ وہ مکاری سے یا خوف کی وجہ سے زبردستی اپنے چہروں پر مسکراہٹ لائیں اور بات میں نرمی پیدا کریں اور باہم ملاقات میں نہایت شرافت سے کام لیں ۔ اس لئے کہ چہرے مہرے کی سختی اور خدوخال میں خشکی اس بات کا اظہار کرتی ہے کہ اس شخص کا دل خشک اور اس کا مزاج کرخت ہے ۔ اس کے علاوہ ان کی اصل خصوصیت یہ ہے کل وہ بات کو اپنی جگہ سے ہٹاتے ہیں ۔ انہوں نے پہلے اپنی کتاب تورات میں تحریف کی اور اس کی وہ شکل بگاڑ دی جس پر وہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر نازل فرمائی تھی ۔ یہ تحریف یا تو اس طرح کی گئی کہ انہوں نے اس کتاب میں اپنی مرضی کی چیزوں کا اضافہ کردیا اور یہ ظاہر کیا کہ یہ سب کچھ اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہے اور یا یہ تحریف اس طرح ہوئی کہ آیات تو اصلی ہی باقی رہیں لیکن انہوں نے ان کا مفہوم اپنی مرضی کے ساتھ بدل دیا اور اپنے گھٹیا مقاصد کے حصول کے لئے ان آیات کے مفہوم کے اندر زبردست تبدیلی کردی اور اس طرح انہوں نے اللہ پر افتراء باندھا ، یا تحریف اس طرح کی کہ انہوں نے اللہ کے احکام کو بھلا دیا ‘ اسلامی نظام حیات اور شریعت کو موقوف کردیا اور اپنی زندگیوں میں شریعت عمل کرنا بند کردیا اپنے معاشرے کو آزاد کردیا اس لئے کہ اسلامی نظام کے نفاذ کے بعد ان کو اللہ تعالیٰ کے اس پاک وصاف اور سیدھے دین کے مطابق سیدھا طرز عمل اختیار کرنا پڑتا تھا ۔ جس کے وہ عادی نہ تھے ۔ (آیت) ” ولا تزال تطلع علی خائنۃ منھم الا قلیلا منھم “۔ (٥ : ١٣) (اور آئے دن تمہیں ان کی کسی نہ کسی خیانت کا پتہ چلتا رہتا ہے ان میں سے بہت کم لوگ اس عیب سے بچے ہوئے ہیں۔ ) یہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب ہے ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بتایا جاتا ہے کہ مدینہ کے اسلامی معاشرے میں یہودیوں کے حالات کیا ہیں۔ وہ ہمیشہ خائن رہیں گے اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ خیانت سے کبھی بھی باز نہ آئیں گے ۔ وہ بارہا عملا خیانت کا ارتکاب کرتے رہے ۔ جب تک وہ مدینہ میں رہے وہ آئے دن کچھ نہ کچھ کرتے رہے۔ اس کے بعد وہ جزیرۃ العرب میں جب تک رہے ان کی سازشیں جاری رہیں ۔ اور اس کے بعد پوری تاریخ میں اسلامی معاشرہ کے ساتھ یہودی اسی خیانت پر گامزن رہے حالانکہ اسلامی معاشرہ وہ واحد معاشرہ تھا جس نے ان کو پناہ دی ۔ اور ان کو دوسرے کے مظالم سے نجات دی ‘ ان کے ساتھ حسن سلوک کیا اور اسلامی معاشرے میں وہ ہمیشہ خوشحالی کی زندگی گزارتے رہے ۔ لیکن انہوں نے ہمیشہ بعینہ انہی خطوط پر جن پر وہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ معاملے کرتے رہے ‘ وہی معاملہ اسلامی معاشرے کے ساتھ کیا بچھوؤں ‘ سانپوں ‘ بھیڑیوں اور گیدڑوں کی طرف وہ مسلمانوں کے خلاف سازش اور ان کے ساتھ خیانت کرتے رہے اور آج بھی وہ اسی مکاری و فریب کاری میں مصروف ہیں ۔ جب بھی کبھی انہیں قوت نصیب ہوئی انہوں نے مسلمانوں سے سخت انتقام لیا ۔ ان کے لئے پھندے رکھے ‘ اور ان کے خلاف سازشیں کیں ‘ اور مسلمانوں کے ہر دشمن کے وہ دوست بن گئے ، جہاں بھی انہیں فرصت ملی اور موقعہ ملا انہوں نے مسلمانوں پر وار کیا ۔ نہایت سنگدل اور نہایت ہی بےرحم واقع ہوئے ہیں وہ مسلمانوں کے حوالے سے ۔ کبھی بھی انہوں نے مسلمانوں پر رحم نہ کیا اور مسلمانوں کے بارے میں انہوں نے ہمیشہ اپنے عہد اور ذمہ داری کو بھلا دیا ۔ ان کی اکثریت ایسی ہی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں ان کے بارے میں کہا ہے ۔ اور جس طرح ان کی اس جبلت سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ہمیشہ عہد شکن رہے ہیں اور قدیم الایام سے ان کا یہ وطیرہ ہے ۔ انداز بیان ایسا ہے کہ حضور کو خطاب کرتے ہوئے یہ فرمایا گیا ہے کہ آپ ان کو ایسا پائیں گے ۔ مدینہ کے حوالے سے ۔ (آیت) ” ولا تزال تطلع علی خائنۃ منھم الا قلیلا منھم “۔ (٥ : ١٣) ” آپ ہمیشہ ان میں سے خائن لوگوں پر مطلع ہوتے رہیں گے الا یہ کہ ان میں سے کم لوگ ایسے نہ ہوں گے ۔ “ ان کے افعال خیانت کارانہ ہوں گے ‘ ان کی نیت میں فتور ہوگا ‘ ان کی بات مکارانہ ہوگی اور ان کی نظر میں خائن ہوگی ۔ یہاں آیت میں موصوف کو حذف کر کے اس کی جگہ صفت کو رکھ دیا یعنی (خائنہ) اور اس سے اس کے مفہوم میں عمومیت پیدا ہوگئی ، مجرد خیانت ‘ خیانت سے بھرپور فضاء اور خیانت کا سایہ ان پر ہر وقت چھایا ہوا ہوگا ۔ ان کی جبلت کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ خائن ہیں ۔ یہ ان کے موقف کا جوہر ہے اور رسول اللہ اور جماعت مسلمہ کے ساتھ انکا یہی برتاؤ رہا ہے ۔ خائن ۔۔۔۔۔ خائن ۔۔۔۔۔ خائن۔ یہ قرآن اس امت کا معلم ‘ مرشد ‘ راہنما اور زندگی کی راہوں کے نشیب و فراز میں اس کا حدی خواں ہے ۔ وہ امت کو اس کے دشمنوں کے حالات بتاتا ہے اور دشمنوں کے مزاج اور ان کی تاریخ بھی امت کے سامنے رکھتا ہے اس کے ساتھ ساتھ اسلامی ہدایات بھی دیتا ہے ۔ اگر یہ امت اپنے قرآن سے مشورہ کرتی رہے ‘ قرآن کی ہدایات پر کان دھرے اور اپنی زندگی میں قرآنی اصولوں اور قوانین کو عملا نافذ کرے تو اس کے دشمن کبھی بھی اس کا کچھ نہ بگار سکیں ۔ لیکن جب امت مسلمہ نے خود اپنے اس عہد کو توڑ دیا جو اس نے اپنے رب کے ساتھ کیا تھا اور جب اس نے قرآن کریم کو پس پشت ڈال دیا تو اسے اس صورت حال سے دو چار ہونا پڑا جس میں وہ بالفعل ہے ‘ اگرچہ یہ امت قرآن کریم کو نہایت ہی ترنم اور وجد انگیز انداز میں پڑھتی ہے ۔ اس سے تعویذ اور گنڈے بھی بناتی ہے اور اسے دم اور جھاڑ کے لئے استعمال بھی کرتی ہے ۔ بنی اسرائیل پر جو گزری اس کی پوری داستاں اللہ تعالیٰ نے امت کو سنائی ۔ کس طرح وہ معلون ہوئے ‘ رائندہ درگاہ ہوئے ‘ سنگ دل بن گئے اور انہوں نے کتاب اللہ میں کیا کیا تحریفیں کیں ‘ انہوں نے اللہ کے ساتھ اپنے عہد و پیمان توڑے ۔ یہ سب داستان اس لئے بیان ہوئی کہ یہ امت اللہ کے ساتھ کئے ہوئے عہد و پیمان کو نہ توڑے تاکہ اس کا انجام بھی وہ نہ ہوجائے جو اللہ کے ساتھ کئے ہوئے عہد و پیمان کے ہر توڑنے والے کا ہوتا ہے ۔ ہر اس شخص کا ہوتا ہے جو اپنی بات سے پھرجاتا ہے ۔ لیکن جب ان قرآنی تنبیہات سے امت مسلمہ نے غفلت برتی اور صحیح راستے کو چھوڑ کر غلط راستے پر پڑگئی تو اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ سے انسانیت کی قیادت کا مقام منصب ضبط کرلیا اور قافلہ انسانیت میں یہ امت پیچھے چلنے والوں کی صف میں چلی گئی ۔ جب تک یہ امت اپنے رب کی طرف رجوع نہ کرے گی ‘ جب تک یہ اپنے عہد و پیمان پر پختگی سے قائم نہ ہوگی ٗاور جب تک معاہدے کی شرائط کو پورا نہ کرے گی ‘ اس وقت تک اللہ کا وعدہ ان کے حق میں معطل رہے گا ۔ اگر وہ شرائط پوری کردے تو اللہ تعالیٰ از سر نو اس امت کو تمکن فی الارض عطا کرے گا ۔ وہ پوری انسانیت کی قائد ہوجائے گی اور تب وہ لوگوں پر شاہد حق ہوگی ۔ اگر وہ یہ شرائط پوری نہ کرے گی تو وہ قافلہ انسانیت میں پیچھے چلنے والوں ہی میں رہے گی ، یہ اللہ کا وعدہ ہے اور اللہ اپنے وعدے کے خلاف کبھی نہیں کرتا ۔ اس وقت جب یہ آیات نازل ہوئیں اللہ کی جانب سے اس کے نبی کے لئے درج ذیل ہدایات تھیں : (آیت) ” فاعف عنھم واصفح ، ان اللہ یحب المحسنین “۔ (٥ : ١٣) (پس جب یہ اس حال کو پہنچ چکے ہیں تو جو شرارتیں بھی یہ کریں وہ ان سے عین متوقع ہیں) لہذا انہیں معاف کرو اور ان کی حرکات سے چشم پوشی کرتے رہو ۔ اللہ ان لوگوں کو پسند کرتا ہے جو احسان کی روش رکھتے ہیں یعنی آپ ان لوگوں کے ان تمام برے افعال کو معاف کردیں ۔ یہ طریقہ احسان ہے ۔ وہ جو خیانتیں کرتے ہیں ان سے بھی صرف نظر کریں اور یہ بھی احسان ہے ۔ یہ تو اس وقت کی بات تھی جب یہ سورت نازل ہو رہی تھی ‘ بعد کے ادوار میں حالات ایسے ہوگئے کہ عفو و درگزر کی گنجائش ہی انہوں نے نہ چھوڑی اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو مدینہ سے جلا وطن کردیا اور اس کے بعد خلافت راشدہ کے دور میں ان کو پورے جزیرۃ العرب سے جلا وطن کردیا گیا ۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ جماعت مسلمہ کو یہ بتاتے ہیں کہ عیسائیوں سے بھی اس نے عہد لیا تھا ۔ انہوں نے بھی اس عہد کو توڑ دیا ۔ اور نتیجۃ انکو بھی اس نقص عہد کی سزا بھگتنی پڑی ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

بنی اسرائیل کی عہد شکنی کا وبال : پھر بنی اسرائیل کی عہد شکنی اور اس کے وبال کا تذکرہ فرمایا (فَبِمَا نَقْضِھِمْ مِّیْثَاقَھُمْ لَعَنّٰھُمْ وَ جَعَلْنَا قُلُوْبَھُمْ قٰسِیَۃً ) یعنی چونکہ انہوں نے عہد کو توڑ دیا اس لئے ہم نے ان پر لعنت کردی یعنی اپنی رحمت سے دور کردیا اور ہم نے ان کے دلوں کو سخت کردیا جن میں حق ماننے اور حق کی طرف متوجہ ہونے اور حق قبول کرنے کی صلاحیت ہی نہ رہی، اس ملعونیت اور قساوت قلب کی وجہ سے وہ حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) کی تکذیب بھی کرتے تھے اور انہیں قتل بھی کرتے تھے، اپنی اسی عادت کے مطابق انہوں نے خاتم النبیین ( علیہ السلام) کی بھی تکذیب کی اور یہ جانتے ہوئے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں حضرت کے منکر ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا (بَلْ لَِّعَنَھُمُ اللّٰہُ بِکُفْرِ ھِمْ فَقَلِیْلاً مَّا یُؤْمِنُوْنَ ) (بلکہ اللہ نے ان کے کفر کی وجہ سے ان پر لعنت کردی سو ان میں کم ہیں جو مومن ہوں گے) ان کی قسادت قلبی کا ذکر فرماتے ہوئے سورة بقرہ میں فرمایا (ثُمَّ قَسَتْ قُلُوْبُکُمْ مِّنْ بَعْدِ ذٰلِکَ فَھِیَ کَالْحِجَارَۃٍ اَوْ اَشَدُّ قَسْوَۃُ ) (اور پھر تمہارے دل سخت ہوگئے سو وہ پتھروں کی طرح ہیں یا ان سے بھی زیادہ سخت ہیں) جب انسان باربار گناہ پر گناہ کرتا رہے تو اس میں سرکشی کی شان پیدا ہوجاتی ہے اور اس سر کشی سے دل میں قساوت اور سختی آجاتی ہے جس کی وجہ سے توبہ کی طرف توجہ نہیں ہوتی اور موعظت اور نصیحت کی بات بھی بری لگتی ہے اللہ پاک نے اہل ایمان کو توجہ دلاتے ہوئے ارشاد فرمایا (اَلَمْ یَأْنِ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُھُمْ لِذِکْرِ اللّٰہِ وَ مَا نَزَلَ مِنَ الْحَقِّ وَ لاَ یَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ اُوتُو الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلُ فَطَالَ عَلَیْھِمُ الْاَمَدُ فَقَسَتْ قُلُوْبُھُمَ وَکَثِیْرٌ مِّنْھُمْ فٰسِقُوْنَ ) (کیا ایمان والوں کے لئے اس کا وقت نہیں آیا کہ ان کے دل اللہ کی نصیحت کے لئے اور جو دین حق نازل ہوا ہے اس کے سامنے جھک جائیں اور ان لوگوں کی طرح نہ ہوجائیں جن کو ان سے پہلے کتاب ملی تھی پھر ان پر ایک زمانہ دراز گزر گیا پھر ان کے دل سخت ہوگئے اور بہت سے آدمی ان میں سے فاسق ہیں) یہودیوں کا توریت شریف میں تحریف کرنا مزید یہود کی شناعت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا (یُحَرِّفُوْنَ الْکَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِہٖ وَ نَسُوْا حَظّاً ذُکِّرُوْا بِہٖ ) (یہ لوگ کلمات کو بدلتے ہیں ان کو مواقع سے اور انہوں نے ایک بڑا حصہ چھوڑ دیا جس کے ذریعہ انہیں نصیحت کی گئی) اس میں یہودیوں کی قسادت قلبی اور سخت دلی کا بیان فرمایا کہ ان کے دل ایسے سخت ہوگئے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے کلام کو بدل دیا۔ ان کے علماء توریت شریف کو بدلتے تھے اور جو کچھ اپنے پاس سے بناتے اور لکھتے تھے اپنی عوام سے کہتے تھے کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے۔ عوام کو راضی رکھ کر ان سے پیسے لے لینا اور علم کی بجائے ان کو جہل میں مبتلا کردینا اور ہدایت کی بجائے انہیں گمراہی پر ڈالنا اور اللہ سے ڈرنا آخرت کے حساب و کتاب سے بےپرواہ ہوجانا کتنی بڑی قسادت ہے لیکن انہیں اس کا کچھ احساس نہیں۔ جب تحریف کرلی تو توریت شریف کا بہت بڑا حصہ ان کے حافظہ سے نکل گیا جو شخص اپنی تحریف کو اصل میں ملانے کی کوشش کرتا ہے تو وہ اصل کتاب کے الفاظ و معانی سے محروم ہوجاتا ہے۔ یہود کی خیانتیں پھر فرمایا (وَ لَا تَزَالُ تَطَّلِعُ عَلٰی خَآءِنَۃٍ مِّنْھُمْ اِلَّا قَلِیْلًا مِّنْھُمْ ) (اور آپ ہمیشہ ان کی طرف سے کسی نہ کسی خیانت پر مطلع ہوتے رہیں گے۔ سوائے تھوڑے سے لوگوں کے) اس میں یہود کی خیانت بیان فرمائی اور ارشاد فرمایا کہ یہ برابر یہ خیانتیں کرتے رہیں گے اور آپ کی ان کی خیانتوں کا علم ہوتا رہے گا خیانت ان کے مزاج میں داخل ہوگئی ہے ان کے اسلاف نے خیانتیں کیں۔ حدیہ کہ اللہ کی کتاب میں بھی تحریف کر بیٹھے جو بہت بڑی خیانت ہے۔ ان کے اخلاف (موجودہ یہودی) اس عادت کو چھوڑیں گے نہیں ہاں ان میں سے چند لوگ جو مسلمان ہوگئے ہیں (حضرت عبداللہ بن سلام وغیرہ) یہ حضرات خیانت سے دور ہوگئے اور صفت ایمان نے ان کو امانت دار بنا دیا۔ (فَاعْفُ عَنْھُمْ وَ اصْفَحْ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ ) (آپ ان کو معاف کیجئے اور ان سے درگزر کیجئے بلاشبہ اللہ تعالیٰ خوبی کا معاملہ کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے) صاحب روح المعانی ج ٦ ص ٩٠ پر اسکی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں اَیْ اِذَا تَابُوْ ا اَوْبذلوا الجذیۃ۔ یعنی جب وہ توبہ کرلیں (اسلام قبول کرلیں اور خیانت سے باز آجائیں) یا جزیہ دے کر عہد کی پابندی کرتے رہیں تو ان کو معاف کیجئے درگزر کیجئے اگر یہ معنی لئے جائیں تو آیت میں کوئی نسخ نہیں ہے۔ اس کے بعد صاحب روح المعانی نے علامہ طبری سے یہ نقل کیا ہے کہ معافی اور درگزر کرنے کا حکم پہلے تھا جب کافروں سے جنگ کرنے کا حکم آگیا تو منسوخ ہوگیا۔ صاحب بیان القرآن اس کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ جب تک شرعی ضرورت نہ ہو ان کی خیانتوں کا اظہار اور ن ان کی فضیحت نہ کیجئے یہ معنی (یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ ) سے قریب تر ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

36 اس سے پہلے نقضو محذوف ہے ای فنقضوا عہد اللہ من بعد میثاقہ۔ یعنی یہود نے اللہ سے پختہ عہد کرنیکے بعد اسے توڑ دیا تو اللہ تعالیٰ نے محض نقض عہد کیوجہ سے ان کو حسب ذیل سزائیں دیں۔ لعَنّٰھُمْ ہم نے ان کو اپنی رحمت سے دور کر کے ذلیل و خوار کردیا۔ وَجَعلْنَا قُلُوْبَھُمْ قٰسِیَۃً اور ان کے دلوں سخت کردیا یہاں تک کہ ان سے قبول حق کی استعداد سلب کرلی کہ وہ حق بات کے لیے نرم نہ ہوسکیں۔ یُحَرِّفُوْنَ الْکَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعہٖ ۔ یہ ما قبل کے لیے صفت کا شفہ ہے استئناف لبیان مرتبۃ قساوۃ قلوبھم فانہ لا مرتبۃ اعظم ما ینشا عنہ الاجتراء علی تحریف کلام رب العلمین والافتراء علیہ عز و جل (روح ج 6 ص 89) ان کے دلوں کی سیاہی اور سختی اس حد تک پہنچ گئی کہ وہ رب العلمین کے کلام میں تحریف کرنے لگے اور اس پر بہتان باندھنے لگے۔ وَ نَسُوْا حَظًّا الخ نَسوْا بمعنی ترکوا ہے یعنی تورات میں جن احکام کی ان کو نصیحت کی گئی تھی ان کے معتد بہ حصے پر انہوں نے عمل کرنا چھوڑ دیا یہ نقض عہد ہی کا وبال تھا کہ ان کے عوام و خواص میں بد عملی پھیل گئی اور دین کی دولت بھی ہاتھ سے جاتی رہی۔ وَ لَا تَزَالُ تَطَّلِعُ عَلیٰ خَآئِنَۃٍ مِّنْھُمْ ۔ خائنۃ بمعنی خیانت ہے یہ بھی نقض عہد ہی کا نتیجہ ہے کہ وہ ہر وقت دین میں خیانت اور غدر پر کمر بستہ نظر آتے ہیں۔ اور خیانت و بد عہدی ان کی عادت مستمرہ بن چکی ہے اور وہ اس کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ غدر اور خیانت میں وہ بالکل اپنے اسلاف کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔ والمعنی ان الغدر والخیانۃ عادۃ مستمرۃ لھم ولاسلافہم کما یعلم من وصفھم بالتحریف و ما معہ الخ (روح ج 6 ص 90) ای ھذہ عادتہم و دیدنہم معک وھم علی مکان اسلافہم من خیانۃ الرسل و قتلھم الانبیاء فھم لا یزالون یخونونک و ینکثون عھودک و یظاھرون علیک اعدائک و یھمون بالفتک بک (بحر ج 3 ص 446) موجودہ زمانہ کے علماء سوء میں مذکورہ بالا چاروں باتیں بطور اتم موجود ہیں۔ ٖ 37 یہ ماقبل سے استثناء ہے اور اس سے وہ لوگ مراد ہیں جو ان میں سے اسلام لے آئے اور اپنے سابقہ گناہوں تحریف اور خیانت و غدر وغیرہ سے تائب ہوگئے وھم عبداللہ بن سلام و اصحابہ الذین اسلموا من اھل الکتاب (خازن جلد 2 ص 23) فَاعْفُ عَنْھُمْ الخ عنھم کی ضمیر سے وہی لوگ مراد ہیں جنہیں ما قبل سے مستثنی کیا گیا ہے یعنی مومنین اہل کتاب فرمایا ان سے در گذر کرو اور ان کے گذشتہ گناہوں اور ان کی سابقہ خیانت و بد عہدی سے ان پر مواخذہ نہ کرو۔ فاعف عن مؤمنیھم ولا تؤاخذھم بما لسف منھم (مدارک ج 1 ص 214، بحر) اِنَّ اللہَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ یہ جملہ ما قبل کے لیے بمنزلہ تعلیل ہے۔ اللہ تعالیٰ احسان کرنیوالوں کو دوست رکھتا ہے اس لیے آپ ان سے احسان اور حسن سلوک کا معاملہ فرمائیں۔ یہ نقض عہد کی سزا کا پہلا نمونہ تھا جس سے اہل اسلام کی تنبیہ مقصود ہے۔ یعنی جس طرح یہود کو عہد توڑنے اور ہمارے احکام و حدود کو پامال کرنے کی وجہ سے ہم نے ذلیل کردیا یہاں تک کہ ان کا دین بھی ان کے ہاتھ سے جاتا رہا اگر تم بھی نقض عہد کرو گے تو تمہارے بھی یہی سلوک کیا جائے گا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 2 ان بنی اسرائیل نے اس عد مذکور کو توڑ ڈالا پھر ان لوگوں کے اس اپنے عہد کو توڑ دینے اور ان کی عہد شکنی کی وجہ سے ہم نے ان پر لعنت کی اور ان کو اپنی رحمت سے دور کردیا اور ان کے دلوں کو سخت کردیا اور اس سنگدلی کا اثر یہ ہے کہ یہ لوگ کلام الٰہی یعنی توریت کو اس کے حقیقی مواقع سے بدل دیتے ہیں یعنی کبھی الفاظ اور کبھی مطلب بدلتے رہتے ہیں اور اس تحریف کا اثر یہ ہے کہ جو نصیحت ان کو توریت میں کی گئی تھی اس کا ایک بڑا حصہ یہ لوگ فراموش کر بیٹھے اور بھول چکے ہیں اور ان کی حالت یہ ہے کہ ان میں سے سوائے چند آدمیوں کے جو مسلمان ہوچکے ہیں۔ اے پیغمبر ! (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کو روز مرہ ان کی کسی نہ کسی خیانت کا پتہ لگتا رہتا ہے جو ان سے ظہور پذیر ہوتی رہتی ہے۔ بہرحال ! آپ ان کو معاف فرمائیے اور ان کو در گذر فرماتے رہیے اور یقین کیجیے کہ اللہ تعالیٰ نیک روش اختیار کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے اور خوش معاملہ لوگوں سے محبت رکھتا ہے۔ (تیسیر) شاید یاد ہوگا ہم کئی بار عرض کرچکے ہیں کہ ایک گناہ دوسرے گناہوں کا موجب ہوتا ہے اور ایک نیکی سے دوسری نیکیوں کی توفیق عطا ہوتی ہے اسی طرح گناہ کا اثر انسانی قلب پر اور انسان کی روحانیت پر بہت برا ہوتا ہے اور روحانی قوت اور نیک اعمال کی توفیق سلب ہوجاتی ہے۔ اسی مضمون کو اس آیت میں بیان فرمایا ہے چناچہ نقض عہد اور عہد شکنی کے خوگر تھے عام طور پر نقض عہد کیا کرتے تھے حتی کہ وہ یہودی جو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں تھے ان کی بھی خیانت اور عذر کا حال آئے دن معلوم ہوتا رہتا تھا اس لئے نقض عہد کی وجہ سے ان پر مختلف طریقوں سے عذاب نازل ہوا۔ اور صرف اس نقض عہد کا یہ اثر ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنی رحمت سے دور کردیا جب کہ اس کا قاعدہ ہے جب اس کی درگاہ سے معلون قرار دیئے گئے تو اس کا اثر یہ ہوا کہ ان کے دل سخت ہوگئے اور یہ سب اثرات اگرچہ بد پرہیزی سے ہوا کرتے ہیں لیکن ان کی مشیت اور ارادے کے ماتحت ہوتے ہیں اس لئے لعنت اور قسادت کو اپنی طرف منسوب کرتے ہوئے فرمایا کہ ہم نے ان کے عہد توڑنے کی وجہ سے ان پر لعنت کی اور ہم نے ان کے قلوب کو سخت بنادیا اور اب ان کی حالت یہ ہے کہ توریت میں تحریف کرتے ہیں اور توریت کے الفاظ کو یا الفاظ کے مطالب اور معانی کو بدل دیتے ہیں اور کلام کو اس کے مواقع اور اس کے موضوع سے بدل کر بیان کرتے ہیں اور ظاہر ہے کہ یہ کام ان کے علماء کرتے ہوں گے اور چونکہ عوام کی خواہش کے خیال سے کرتے ہوں گے اس لئے سب ہی تحریف کے گناہ میں مبتلا تھے اور اس تحریف و تبدیلی کا اثر یہ ہوا کہ جو کچھ ان کو نصیحت کی گئی تھی اس کا بہت بڑا حصہ بھلا بیٹھے یعنی ان کے علم کا اکثر حصہ ان کے سینے سے نکل گیا جیسا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) نے فرمایا ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس نصیحت کا ایک بہت بڑا حصہ جو عمل کرنے سے ان کو حاصل ہوتا اس کو فوت اور ضائع کر بیٹھے اور یہ لوگ اس قدر ان جرائم کے خوگر ہوگئے کہ آپ ان کے مکرو فریب اور خیانت و عذر کی روز مرہ کچھ نہ کچھ حالات سے واقف ہوتے رہتے ہیں مگر ہاں ! ان میں سے معدودے چند لوگ ان باتوں سے مستثنا ہیں اگر ان قلیل سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے والے مراد ہوں تب تو یہ مطلب ہے کہ آپ آئے دن ان کی کسی نہ کسی خیانت سے آگاہ ہوتے رہتے ہیں۔ جیسے معاہدے کر کے توڑنا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قتل کی سازش کرنا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف کافروں سے ساز باز کرنا وغیرہ مگر ہاں ! جو لوگ مسلمان ہوگئے۔ جیسے عبداللہ ابن اسلام اور ان کے ساتھی وہ اس قسم کی باتوں سے مستثنا ہیں۔ یہ وہ معنی ہیں جن کو ہم نے اختیار کیا ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ منھم سے پہلے اور پچھلے سب یہود مراد ہوں تو پھر مطلب یہ ہوگا کہ آپ کو بذریعہ وحی آئے دن ان لوگوں کی کوئی نہ کوئی خیانت معلوم ہوتی رہتی ہے اور آپ خود بھی آئے دن ان کی کسی نہ کسی خیانت کا مشاہدہ کرتے رہتے ہیں مگر ان میں سے معدودے چند لوگ مستثنا ہیں۔ جیسے حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے زمانے کے نیک مسلمان اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دور میں عبد اللہ بن سلام اور ان کے ساتھی۔ آخر میں ان کے ساتھ عفو و در گذر کے برتائو کا ذکر فرمایا جس کا مطلب یہ ہے کہ اگرچہ یہ لوگ اپنی ناشائستہ حرکات کے باعث سزا کے متحق ہیں۔ لیکن آپ کو اسلامی تعلیم کا لحاظ رکھنا چاہئے اور اپنے اخلاق کی بزرگی اور برتری کے اعتبار سے ان کے ساتھ اچھا برتائو کرنا چاہئے اور سیاسی مصالح کو پیش نظر رکھنا چاہئے جس کا مقتضایہ ہے کہ آپ ان کو معاف فرما دیں اور چشم پوشی کا برتائو کریں کیونکہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو پسند کرتا ہے جو برائی کے بدلے میں بھلائی کرنے کے خوگر ہیں۔ یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ یہود عام طور پے عہد شکنی کے عادی تھے اور ہمیشہ مختلف سزائوں اور بلائوں میں مبتلا کئے جاتے تھے لیکن یہاں جو سزا بیان کی گئی ہے وہ صرف اس نقض عہد کی ہے جو عہد مذکور ہے۔ جیسا کہ فبما نقضھم سے مفہوم ہوتا ہے وسعت کلام کی وجہ سے چونکہ مفسرین کے اقوال مختلف ہوتے ہیں مگر ہم اس کی کوشش کرتے ہیں کہ سب کے اقوال تیسیر اور تسہیل کا مطالعہ کرنے والوں کے سامنے آجائیں اگرچہ ان مختلف اقوال کی وجہ سے کوئی بڑا فرق نہیں پڑتا۔ اس آیت سے وہ بات بھی معلوم ہوگئی جو ہم نے عرض کی تھی یعنی جب کوئی بندہ نافرمانی کر کے شرمند نہیں ہوتا تو وہ نافرمانی بہت سی نافرمانیوں اور توفیق الٰہی سے محرومیوں کا موجب ہوجایا کرتی ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ یہود کی صرف اس عہد شکنی کے باعث کہ انہوں نے اپنے عہد کو توڑ دیا ہم نے ان کو اپنی رحمت سے دور کردیا اور ان کے دلوں میں قسادت اور سختی پیدا کردیا ور سا لعنت اور قسادت کا یہ اثر ہے کہ وہ اللہ کے کلام کو اس کے صحیح اور حقیقی مواقع سے بدل ڈالتے ہیں ان کے بعض اہل علم تو جرأت کر کے الفاظ بھی بدل دیتے ہیں اور بعض معانی اور مطالبہ بیان کرنے میں تحریف کرتے ہیں اور کلام کا مطلب گھڑ کر کچھ کا کچھ بیان کردیتے ہیں اور کلام کو اپنے مطلب کے سانچے میں ڈھال دیتے ہیں اس قسم کی جرأت و بےباکی کا اثر یہ ہے کہ اس نصیحت میں سے جو ان کو کی گئی تھی بڑا حصہ فراموش کرچکے ہیں یا عمل سے جو نفع حاصل ہوتا اس کو فوت کرچکے ہیں یعنی نافرمانیوں کے باعث علم کا حصہ بھی سینے سے نکل گیا اور بےعملی کے باعث ثواب بھی فوت ہوگیا اور آئے دن ان کی جانب سے جو ایک نہ ایک خیانت ظاہر اور صادر ہوتی رہتی ہے اس سے تو آپ واقف ہی ہوتے رہتے ہیں۔ مثلاً کبھی کوئی توریت کا حکم چھپالیا کبھی کوئی غلط دعویٰ کردیا اور ان کے بڑے جو خیانتیں کرچکے ہیں ان کا بھی علم آپ کو ہماری وحی سے ہوتا رہتا ہے مگر ہاں کچھ تھوڑے لوگ اس قسم کی خیانت سے محفوظ ہیں اور نیک وہی لوگ تھے جو موسیٰ پر اور عیسیٰ پر ایمان رکھتے تھے اور نبی آخر الزماں کی بعثت کے بعد اس آخری نبی پر بھی ایمان لے آئے یہود کی مذمت اور ان کی اخلاقی خرابیاں کرنے کے بعد اپنے نبی کو عفو کرنے اور مواخذہ نہ کرنے کا حکم دیا اور آخر میں اپنی محبت کا نیک لوگوں کے ساتھ اظہار فرما دیا۔ اور یہ بات کئی مرتبہ معلوم ہوچکی ہے کہ احسان کا مفہوم بہت وسیع ہے ہر قسم کی نیکی اور بھلائی پر اس لفظ کا اطلاق ہوسکتا ہے یہاں کلام کی ظاہری مناسبت سے ہم نے برائی کرنے والوں کے ساتھ بھلائی کرنا ترجمہ کردیا ہے اور محسن کا ترجمہ اور مفہوم مذکورہ الفاظ سے ظاہر کیا ہے۔ حدیث شریف میں بھی آتا ہے واحسن الی من اساء الیک یعنی جو شخص تیرے ساتھ برائی کرے تو اس کے ساتھ بھلا کر آیت کا یہ آخری ٹکڑا عفو اور صفح کی تعلیل بھی ہے اور اس امر پر تنبیہ بھی ہے کہ جب کافر خائن کے ساتھ عفو و صفح کا حکم ہے تو دوسروں کے ساتھ یعنی جو خائن کافر نہ ہو اس کے ساتھ اس سے بھی بہتر سلوک ہونا چاہئے۔ مزید تفصیل تفسیر مظہری سے معلوم کرنی چاہئے اب اگٓے نصاریٰ کی عہد شکنی اور ان کی سزا کا ذکر ہے۔ چناچہ ارشاد ہتا ہے۔ (تسہیل)