Commentary The first verse is telling us that Bani Isra&il were heedless to clear instructions given to them. Then, they broke the pledge for which they were punished. There were two kinds of punishment which visited Bani Isra&il because of their misdeeds and contumacy: 1. Manifest and perceptible, like the hail of stones and rocks or the overturning of land mass, which find mention in several verses of the Qur&an. 2. Intellectual and spiritual, as if their very minds and hearts were transformed in punishment for their contumacy which made them incapable of thinking and feeling and they went on sinking deeper in the curse of their sins. The verse opens with the words: فَبِمَا نَقْضِهِم مِّيثَاقَهُمْ لَعَنَّاهُمْ وَجَعَلْنَا قُلُوبَهُمْ قَاسِيَةً. It means that it was because of their contravention of the solemn pledge that Allah made them far-removed from His mercy (that is, from its effects, which is the reality of &La` nah& or curse - Hadrat Thanavi) and made their hearts hardened against any penetration of truth. This re¬moval from mercy and the hardening of hearts has been likened to |"Ra-&n |" (stain or rust) by the Holy Qur&an in Surah al-Mutaffifin: كَلَّا ۖ بَلْ ۜ رَانَ عَلَىٰ قُلُوبِهِم مَّا كَانُوا يَكْسِبُونَ. It means that the reason why they reject open verses of the Qur&an and all too manifest signs is that the stain of sins has settled down on their hearts. In a hadith, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ` said: When someone commits a sin for the first time, a black dot gets stamped on the heart. He feels the pinch of this evil presence all the time. It is like a black stain on a white cloth which is a constant sore of the eye. Now, if he gets chastened, repents and resolves not to do it again, that dot is erased; and should he become care-free and start a spree of other sins, a black dot for each subsequent sin will keep add¬ing up, so much so, that the clean slate of his heart will turn jet black with these dots of stain. At that stage, the state of his heart will be-come very much like a pot placed upside down in which nothing goes in but to come out instantly. Therefore, nothing good settles down in his heart for he has fallen into a state of moral inertia - to him nothing good is good and no evil is evil. Rather, the opposite becomes his more likely approach - he starts taking defect as merit, vice as virtue and sin as reward. Thus armed with his crooked thinking, he goes on rid¬ing high in his rebellion and contumacy. This is a cash and spot pun¬ishment of his sin which he gets right here in this mortal world. Some respected elders have said: اِن من جزاء الحسنۃ الحسنۃ بعدھا وان من جزاء السیٔۃ السیٔۃ بعدھا ، that is, the cash reward of a good deed is that one gets the Taufiq (the ability given by Allah) of doing another good deed. Simi¬larly, the cash reward of a sin is that one&s heart starts being attracted by other sins soon after the first. Thus, obedience and disobedience both have a pull of their own - one good invites another good and one evil attracts other evils and sins. Referring back to the breach of trust committed by the Bani Isra&il, it can be said that the cash punishment due against it was that they were removed from Divine mercy - which is the greatest medium of salvation. And their hearts became so hardened that they stooped to the level of &moving words away from their places& which means that they alter the Word of God - in words or meanings or recitation - all of which have been described in the Holy Qur&an and the books of Alha¬dith, some of which have been acknowledged by European Christians as well (Tafsir Usmni). The result of the intellectual and spiritual punishment mentioned above was that they forgot to take advantage of the good counsel given to them: فَنَسُوا حَظًّا مِّمَّا ذُكِّرُوا بِهِ. Then, this punishment stuck glued to them: وَلَا تَزَالُ تَطَّلِعُ عَلَىٰ خَائِنَةٍ مِّنْهُمْ إِلَّا قَلِيلًا مِّنْهُمْ ۖ that is, the Prophet of Islam would keep knowing about one or the other breaches, deceptions and treacheries committed by them. The exception is indicated in: إِلَّا قَلِيلًا مِّنْهُمْ (but a few) which re¬fers to people like Sayyidna ` Abdullah ibn Sal-am and others who were followers of the faith of the People of the Book before they became true Muslims. Upto this point, the description of the misconduct of the Ban& Isra&il was obviously demanding enough that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) should hold them in contempt and never allow them to come to him. Therefore, in the last sentence of this verse, the instruction given to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) was فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاصْفَحْ ۚ إِنَّ اللَّـهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ (So for-give them and forego. Indeed, Allah loves the good-in-deed). It means that, despite their peculiar condition being what it is, it is better that the Prophet of Islam abstains from doing what is otherwise quite natu¬ral. In other words, he should not treat them with contempt or hatred because after knowing what they are - hardhearted and cold - the chances that any good counsel would affect them are very remote. Granted. But, toleration and civility of morals are wonder virtues which could probe out some sense and sensibility from out of such in-sensate people. Even if this effort to drive some sense into them fails, something worth doing still remains - keeping one&s own matters and morals correct is, after all, quite necessary. Allah Almighty likes what is done with good grace - and it will definitely bring Muslims closer to Him.
خلاصہ تفسیر (لیکن بنی اسرائیل نے عہد مذکورہ کو توڑا ڈالا، اور توڑنے کے بعد طرح طرح کے عقوبات میں جیسے مسخ اور ذلت وغیرہ گرفتار ہوئے۔ پس یہ جو ان کو عنایت و الطاف الہیہ سے بعد ہوا) تو صرف ان کی عہد شکنی کی وجہ سے ہم نے ان کو اپنی رحمت (یعنی اس کے آثار) سے دور کردیا (اور یہی حقیقت ہے لعنت کی) اور (اسی لعنت کے آثار سے یہ ہے کہ) ہم نے ان کے قلوب کو سخت کردیا (کہ حق بات کا ان پر اثر ہی نہیں ہوتا اور اس سخت دلی کے آثار سے یہ ہے کہ) وہ لوگ (یعنی ان میں کے علماء) کلام (الہٰی یعنی توریت) کو اس کے (الفاظ یا مطالب کے) مواقع سے بدلتے ہیں (یعنی تحریف لفظی یا تحریک معنوی کرتے ہیں) اور (اس تحریف کا اثر یہ ہوا کہ) وہ لوگ جو کچھ ان کو (توریت میں) نصیحت کی گئی تھی اس میں سے اپنا ایک بڑا حصہ (نفع کا جو کہ ان کو عمل کرنے سے نصیب ہوتا) فوت کر بیٹھے (کیونکہ زیادہ مشق ان کی اس تحریف کے مضامین متعلقہ بتصدیق رسالت محمدیہ میں ہوتی تھی، اور ظاہر ہے کہ ایمان سے زیادہ بڑا حصہ کیا ہوگا۔ غرض نقض میثاق پر لعنت مرتب ہوئی اور لعنت پر قساوت وغیرہ اور قساوت پر تحریف اور تحریف پر فوت حظ عظیم اور وجہ ترتیب ظاہر ہے) اور (پھر یہ بھی کہ جتنا کرچکے اس پر بس کریں بلکہ حالت یہ ہے کہ) آپ کو آئے دن (یعنی ہمیشہ دین کے باب میں) کسی نہ کسی (نئی) خیانت کی اطلاع ہوتی رہتی ہے جو ان سے صادر ہوتی رہتی ہے بجز ان کے معدو دے چند شخصوں کے (جو کہ مسلمان ہوگئے تھے) سو آپ ان کو معاف کیجئے اور ان سے درگزر کیجئے (یعنی جب تک شرعی ضرورت نہ ہو۔ ان کی خیانتوں کا اظہار اور ان کو فضیحت نہ کیجئے) بلاشبہ اللہ تعالیٰ خوش معاملہ لوگوں سے محبت کرتا ہے (اور بلا ضرورت فضیحت نہ کرنا خوشی معاملگی ہے) اور جو لوگ (نصرت دین کے دعوے سے) کہتے ہیں کہ ہم نصاریٰ ہیں۔ ہم نے ان سے بھی ان کا عہد (مثل عہد یہود کے) لیا تھا، سو وہ بھی جو کچھ ان کو (انجیل وغیرہ میں) نصیحت کی گئی تھی اس میں سے اپنا ایک بڑا حصہ (نفع کا جو کہ ان کو عمل کرنے سے نصیب ہوتا) فوت کر بیٹھے (کیونکہ وہ امر جس کو فوت کر بیٹھے توحید ہے اور ایمان ہے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جس کا حکم ان کو بھی ہوا تھا اور اس کا حظ عظیم ہونا ظاہر ہے جب توحید کو چھوڑ بیٹھے) تو ہم نے ان میں باہم قیامت تک کے لئے بغض و عداوت ڈال دیا (یہ تو دنیوی عقوبت ہوئی) اور عنقریب (آخرت میں) کہ وہ بھی قریب ہی ہے، ان کو اللہ تعالیٰ ان کا کیا ہوا جتلا دیں گے (پھر سزا دیں گے) ۔ معارف و مسائل آیت میں یہ بتلایا گیا ہے کہ بنی اسرائیل نے اپنی بدبختی سے ان واضح ہدایات پر کان نہ دھرے اور میثاق کی مخالفت کی تو اللہ تعالیٰ نے ان کو طرح طرح کے عذابوں میں مبتلا کردیا۔ بنی اسرائیل پر ان کی بدعملی اور سرکشی کی سزا میں دو طرح کے عذاب آئے۔ ایک ظاہری اور محسوس جیسے پتھراؤ یا زمین کا تختہ الٹ دینا وغیرہ۔ جن کا ذکر قرآن کریم کی آیات میں مختلف مقامات پر آیا ہے۔ دوسری قسم عذاب کی معنوی اور روحانی ہے کہ سرکشی کی سزا میں ان کے دل و دماغ مسخ ہوگئے۔ ان میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت نہ رہی۔ وہ اپنے گناہوں کے وبال میں مزید گناہوں میں مبتلا ہوتے چلے گئے۔ ارشاد ہے : فَبِمَا نَقْضِهِمْ مِّيْثَاقَهُمْ لَعَنّٰهُمْ وَجَعَلْنَا قُلُوْبَهُمْ قٰسِـيَةً ۚ۔ یعنی ہم نے ان کے بدعہدی اور میثاق کی خلاف ورزی کی سزا میں ان کو اپنی رحمت سے دور کردیا، اور ان کے دلوں کو سخت کردیا کہ اب ان میں کسی چیز کی گنجائش نہ رہی۔ اسی رحمت سے دوری اور دلوں کی سختی کو قرآن کریم نے سورة مطففین میں ران کے لفظ سے تعبیر فرمایا ہے : کلا بل ران علی قلوبھم ماکانوا یکسبون یعنی قرآنی آیات بینات اور کھلی ہوئی نشانیوں سے انکار کی وجہ یہ ہے کہ ان کے دلوں پر ان کے گناہوں کی وجہ سے زنگ بیٹھ گیا ہے۔ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث میں ارشاد فرمایا کہ ‘ انسان جب اول کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ نقطہ لگ جاتا ہے، جس کی برائی کو وہ ہر وقت ایسا محسوس کرتا ہے جیسے کسی صاف سفید کپڑے پر ایک سیاہ داغ لگ جائے وہ ہر وقت نظر کو تکلیف دیتا ہے۔ پھر اگر اس نے متنبہ ہو کر توبہ کرلی اور آئندہ گناہ سے باز آگیا تو وہ نقطہ مٹا دیا جاتا ہے۔ اور اگر اس نے پرواہ نہ کی بلکہ دوسرے گناہوں میں مبتلا ہوتا چلا گیا تو ہر گناہ پر ایک نقطہ سیاہ کا اضافہ ہوتا رہے گا۔ یہاں تک کہ اس کا صفحہ قلب ان نقطوں سے بالکل سیاہ ہوجائے گا۔ اس وقت اس کے قلب کی یہ حالت ہوجائے گی۔ جیسے کوئی برتن اوندھا رکھا ہو کہ اس میں کوئی چیز ڈالی جائے تو فوراً باہر آجاتی ہے، اس لئے کوئی خیر اور نیکی کی بات اس کے دل میں نہیں جمتی، اس وقت اس کے دل کی یہ کیفیت ہوجاتی ہے کہ لا یعرف معروفا ولا ینکر منکرا۔ یعنی اب نہ وہ کسی نیکی کو نیکی سمجھتا ہے نہ برائی کو برائی بلکہ معاملہ برعکس ہونے لگتا ہے کہ عیب کو ہنر، بدی کو نیکی، گناہ کو ثواب سمجھنے لگتا ہے۔ اور اپنی طغیانی اور سرکشی میں بڑھتا چلا جاتا ہے۔ یہ اس کے گناہ کی نقد سزا ہے جو اس کو دنیا ہی میں مل جاتی ہے۔ بعض اکابر نے فرمایا ہے : ان من جزاء الحسنة الحسنة بعدھا وان من جزاء السئیۃ السیئۃ بعدھا۔ یعنی نیکی کی ایک نقد جزاء یہ ہے کہ اس کے بعد اس کو دوسری نیکی کی توفیق ہوتی ہے۔ اسی طرح گناہ کی نقد سزا یہ ہے کہ ایک گناہ کے بعد اس کا دل دوسرے گناہوں کی طرف مائل ہونے لگتا ہے۔ معلوم ہوا کہ طاعات اور معاصی میں تجاذب ہے کہ زر زر کشد در جہاں گنج گنج ایک نیکی دوسری نیکی کو دعوت دیتی ہے اور ایک بدی دوسری بدی کو اور گناہ کو ساتھ لے آتی ہے۔ بنی اسرائیل کو عہد شکنی کی نقد سزا حسب ضابطہ ان کو یہ ملی کہ وہ رحمت خداوندی سے دور ہوگئے، جو سب سے بڑا وسیلہ نجات ہے اور ان کے دل سخت ہوگئے جس کی نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ : (آیت) يُحَرِّفُوْنَ الْكَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِه۔ یعنی یہ لوگ کلام الہٰی کو اس کے ٹھکانے سے پھیر دیتے ہیں۔ یعنی خدا کے کلام میں تحریف کرتے ہیں۔ کبھی اس کے الفاظ میں اور کبھی معنی میں، کبھی تلاوت میں، تحریف کی یہ سب اقسام قرآن کریم اور کتب حدیث میں بیان کی گئی ہیں۔ جس کا قدرے اعتراف آج کل بعض یورپین عیسائیوں کو بھی کرنا پڑا ہے۔ (تفسیر عثمانی) اس معنوی سزا کا یہ نتیجہ ہوا کہ (آیت) وَنَسُوْا حَظًّا مِّمَّا ذُكِّرُوْا بِهٖ ۔ یعنی نصیحت جو ان کو کی گئی تھی کہ اس سے نفع اٹھانا بھول گئے۔ اور پھر فرمایا کہ ان کی یہ سزا ایسی ان کے گلے کا ہار بن گئی : (آیت) وَلَا تَزَالُ تَطَّلِعُ عَلٰي خَاۗىِٕنَةٍ مِّنْهُمْ ۔ یعنی آپ ہمیشہ ان کی کسی دغا فریب پر مطلع ہوتے رہیں گے۔ (آیت) اِلَّا قَلِيْلًا مِّنْهُمْ ۔ بجز تھوڑے لوگوں کے جیسے حضرت عبداللہ بن سلام (رض) وغیرہ جو پہلے اہل کتاب کے دین پر تھے پھر سچے مسلمان ہوگئے۔ یہاں تک کہ بنی اسرائیل کی بداعمالیوں اور بداخلاقیوں کا جو بیان آیا بظاہر اس کا مقتضٰی یہ تھا کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے انتہائی نفرت اور حقارت کا معاملہ کریں، ان کو پاس نہ آنے دیں۔ اس لئے آیت کے آخری جملہ میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ ہدایت دی گئی کہ (آیت) فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاصْفَحْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِيْنَ ۔ یعنی آپ ان کو معاف کریں اور ان کی بدعملی سے درگزر کریں۔ ان سے منافرت کی صورت نہ رکھیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔۔ مطلب یہ ہے کہ ان کے ایسے حالات کے باوجود اپنے طبعی تقاضے پر عمل نہ کریں یعنی منافرت کا برتاؤ نہ کریں۔ کیونکہ ان کی سخت دلی اور بےحسی کے بعد اگرچہ کسی وعظ وپند کا ان کے لئے مؤ ثر ہونا مستبعد ہے۔ لیکن رواداری اور حسن خلق کا معاملہ ایسا کیمیا ہے کہ اس کے ذریعہ ان بےحسوں میں بھی حس پیدا ہو سکتی ہے۔ اور ان میں حس پیدا ہو یا نہ ہو، بہر حال اپنے اخلاق و معاملات کو درست رکھنا تو ضروری ہے، احسان کا معاملہ اللہ تعالیٰ کو پسند ہے۔ اس کے ذریعہ مسلمانوں کو تو اللہ تعالیٰ کا اور قرب حاصل ہو ہی جائے گا۔