Surat ul Maeeda

Surah: 5

Verse: 35

سورة المائدة

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ ابۡتَغُوۡۤا اِلَیۡہِ الۡوَسِیۡلَۃَ وَ جَاہِدُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِہٖ لَعَلَّکُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ ﴿۳۵﴾

O you who have believed, fear Allah and seek the means [of nearness] to Him and strive in His cause that you may succeed.

مسلمانو! اللہ تعالٰی سے ڈرتے رہو اور اس کا قرب تلاش کرو اور اس کی راہ میں جہاد کرو تاکہ تمہارا بھلا ہو ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Commanding Taqwa, Wasilah, and Jihad Allah commands; يَا أَيُّهَا الَّذِينَ امَنُواْ اتَّقُواْ اللّهَ ... O you who believe! Have Taqwa of Allah, Allah commands His faithful servants to fear Him in Taqwa, which if mentioned along with acts of obedience, it means to refrain from the prohibitions and the prohibited matters. Allah said next, ... وَابْتَغُوا... ْ إِلَيهِ الْوَسِيلَةَ ... and seek the Wasilah to Him. Sufyan Ath-Thawri said that Talhah said that Ata said that Ibn Abbas said that; Wasilah means `the means of approach'. Mujahid, Abu Wa'il, Al-Hasan, Qatadah, Abdullah bin Kathir, As-Suddi, Ibn Zayd and others gave the same meaning for Wasilah. Qatadah said that the Ayah means, "Seek the means of approach to Him by obeying Him and performing the acts that please Him." أُولَـيِكَ الَّذِينَ يَدْعُونَ يَبْتَغُونَ إِلَى رَبِّهِمُ الْوَسِيلَةَ Those whom they call upon seek a means of access to their Lord (Allah). (17:57) Wasilah is a means of approach to achieve something, and it is also used to refer to the highest grade in Paradise, and it is the grade of the Messenger of Allah, his residence and the nearest grade in Paradise to Allah's Throne. Al-Bukhari recorded that Jabir bin Abdullah said that the Messenger of Allah said, مَنْ قَالَ حِينَ يَسْمَعُ النِّدَاءَ Whoever, after hearing to the Adhan says, اللَّهُمَّ رَبَّ هذِهِ الدَّعْوَةِ التَّامَّةِ وَالصَّلَةِ الْقَايِمَةِ اتِ مُحَمَّدًا الْوَسِيلَةَ وَالْفَضِيلَةَ وَابْعَثْهُ مَقَامًا مَحْمُودًا الَّذِي وَعَدْتَهُ "O Allah! Lord of this perfect call and of the regular prayer which is going to be established! Grant Muhammad the Wasilah and superiority and send him (on the Day of Judgment) to the praiseworthy station which You have promised him," إِلاَّ حَلَّتْ لَهُ الشَّفَاعَةُ يَوْمَ الْقِيَامَة then intercession from me will be permitted for him on the Day of Resurrection. Muslim recorded that Abdullah bin `Amr bin Al-`As said that he heard the Prophet saying, إِذَا سَمِعْتُمُ الْمُوَذِّنَ فَقُولُوا مِثْلَ مَا يَقُولُ ثُمَّ صَلُّوا عَلَيَّ فَإِنَّهُ مَنْ صَلَّى عَلَيَّ صَلَةً صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ عَشْرًا ثُمَّ سَلُوا لِيَ الْوَسِيلَةَ فَإِنَّهَا مَنْزِلَةٌ فِي الْجَنَّةِ لاَ تَنْبَغِي إِلاَّ لِعَبْدٍ مِنْ عِبَادِ اللهِ وَأَرْجُو أَنْ أَكُونَ أَنَا هُوَ فَمَنْ سَأَلَ لِيَ الْوَسِيلَةَ حَلَّتْ عَلَيْهِ الشَّفَاعَة When you hear the Mu'adhdhin, repeat what he says, and then ask for Salah (blessing, mercy from Allah) for me. Verily, whoever asks for Salah for me, then Allah will grant ten Salah to him. Then, ask for the Wasilah for me, for it is a grade in Paradise that only one servant of Allah deserves, and I hope that I am that servant. Verily, whoever asks (Allah) for Wasilah for me, he will earn the right of my intercession. Allah said, ... وَجَاهِدُواْ فِي سَبِيلِهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ and strive hard in His cause as much as you can. So that you may be successful. After Allah commanded Muslims to avoid the prohibitions and to work towards obedience, He commanded them to fight against their enemies, the disbelievers and idolators who have deviated from the straight path and abandoned the correct religion. Allah encouraged the believers by reminding them of the unending success and great happiness that He prepared for them for the Day of Resurrection, which will never change or decrease for those who join Jihad in His cause. They will remain in the lofty rooms of Paradise that are safe and beautiful. Those who live in these dwellings will always be comfortable and will never be miserable, living, never dying, and their clothes will never grow thin, nor will their youth ever end. No Amount of Ransom Shall Be Accepted from the Disbelievers on the Day of the Judgment and They Will Remain in the Fire Allah then describes the painful torment and punishment that He has prepared for His disbelieving enemies for the Day of Resurrection. Allah said, إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُواْ لَوْ أَنَّ لَهُم مَّا فِي الاَرْضِ جَمِيعًا وَمِثْلَهُ مَعَهُ لِيَفْتَدُواْ بِهِ مِنْ عَذَابِ يَوْمِ الْقِيَامَةِ مَا تُقُبِّلَ مِنْهُمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ   Show more

تقویٰ قربت الٰہی کی بنیاد ہے تقوے کا حکم ہو رہا ہے اور وہ بھی اطاعت سے ملا ہوا ۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ کے منع کردہ کاموں سے جو شخص رکا رہے ، اس کی طرف قربت یعنی نزدیکی تلاش کرے ۔ وسیلے کے یہی معنی حضرت ابن عباس سے منقول ہیں ۔ حضرت مجاہد ، حضرت وائل ، حضرت حسن ، حضرت ابن زید اور بہت سے مفسر... ین سے بھی مروی ہے ۔ قتادہ فرماتے ہیں اللہ کی اطاعت اور اس کی مرضی کے اعمال کرنے سے اس سے قریب ہوتے جاؤ ۔ ابن زید نے یہ آیت بھی پڑھی ( اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ يَبْتَغُوْنَ اِلٰى رَبِّهِمُ الْوَسِـيْلَةَ اَيُّهُمْ اَقْرَبُ وَيَرْجُوْنَ رَحْمَتَهٗ وَيَخَافُوْنَ عَذَابَهٗ ۭ اِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ كَانَ مَحْذُوْرًا ) 17 ۔ الاسراء:57 ) جنہیں یہ پکارتے ہیں وہ تو خود ہی اپنے رب کی نزدیکی کی جستجو میں لگے ہوئے ہیں ۔ ان ائمہ نے وسیلے کے جو معنی اس آیت میں کئے ہیں اس پر سب مفسرین کا اجماع ہے ، اس میں کسی ایک کو بھی اختلاف نہیں ۔ امام جریر نے اس پر ایک عربی شعر بھی وارد کیا ہے ، جس میں وسیلہ معنی قربت اور نزدیک کے مستعمل ہوا ہے ۔ وسیلے کے معنی اس چیز کے ہیں جس سے مقصود کے حاصل کرنے کی طرف پہنچا جائے اور وسیلہ جنت کی اس اعلیٰ اور بہترین منزل کا نام ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جگہ ہے ۔ عرش سے بہت زیادہ قریب یہی درجہ ہے ۔ صحیح بخاری شریف کی حدیث میں ہے جو شخص اذان سن کر دعا ( اللھم رب ھذہ الدعوۃ التامتہ ) الخ ، پڑھے اس کیلئے میری شفاعت حلال ہو جاتی ہے ۔ مسلم کی حدیث میں ہے جب تم اذان سنو تو جو مؤذن کہہ رہا ہو ، وہی تم بھی کہو ، پھر مجھ پر درود بھیجو ، ایک درود کے بدلے تم پر اللہ تعالیٰ دس رحمتیں نازل فرمائے گا ۔ پھر میرے لئے اللہ تعالیٰ سے وسیلہ طلب کرو ، وہ جنت کا ایک درجہ ہے ، جسے صرف ایک ہی بندہ پائے گا ، مجھے امید ہے کہ وہ بندہ میں ہی ہوں ۔ پس جس نے میرے لئے وسیلہ طلب کیا ، اس کیلئے میری شفاعت واجب ہو گئی ۔ مسند احمد میں ہے جب تم مجھ پر درود پڑھو تو میرے لئے وسیلہ مانگو ، پوچھا گیا کہ وسیلہ کیا ہے؟ فرمایا جنت کا سب سے بلند درجہ جسے صرف ایک شخص ہی پائے گا اور مجھے امید ہے کہ وہ شخص میں ہوں ۔ طبرانی میں ہے تم اللہ سے دعا کرو کہ اللہ مجھے وسیلہ عطا فرمائے جو شخص دنیا میں میرے لئے یہ دعا کرے گا ، میں اس پر گواہ یا اس کا سفارشی قیامت کے دن بن جاؤں گا ۔ اور حدیث میں ہے وسیلے سے بڑا درجہ جنت میں کوئی نہیں ۔ لہذا تم اللہ تعالیٰ سے میرے لئے وسیلے کے ملنے کی دعا کرو ۔ ایک غریب اور منکر حدیث میں اتنی زیادتی بھی ہے کہ لوگوں نے آپ سے پوچھا کہ وسیلے میں آپ کے ساتھ اور کون ہوں گے؟ تو آپ نے حضرت فاطمہ اور حسن حسین کا نام لیا ۔ ایک اور بہت غریب روایت میں ہے کہ حضرت علی نے کوفہ کے منبر پر فرمایا کہ جنت میں دو موتی ہیں ، ایک سفید ایک زرد ، زرد تو عرش تلے ہے اور مقام محمود سفید موتی کا ہے ، جس میں ستر ہزار بالا خانے ہیں ، جن میں سے ہر ہر گھر تین میل کا ہے ۔ اس کے دریچے دروازہ تخت وغیرہ سب کے سب گویا ایک ہی جڑ سے ہیں ۔ اسی کا نام وسیلہ ہے ، یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی اہل بیت کیلئے ہے ۔ تقویٰ کا یعنی ممنوعات سے رکنے کا اور حکم احکام کے بجا لانے کا حکم دے کر پھر فرمایا کہ اس کی راہ میں جہاد کرو ، مشرکین و کفار کو جو اس کے دشمن ہیں اس کے دین سے الگ ہیں ، اس کی سیدھی راہ سے بھٹک گئے ہیں ، انہیں قتل کرو ۔ ایسے مجاہدین بامراد ہیں ، فلاح و صلاح سعادت و شرافت انہی کیلئے ہیں ، جنت کے بلند بالا خانے اور اللہ کی بیشمار نعمتیں انہی کیلئے ہیں ، یہ اس جنت میں پہنچائے جائیں گے ، جہاں موت و فوت نہیں ، جہاں کمی اور نقصان نہیں ، جہاں ہمیشگی کی جوانی اور ابدی صحت اور دوامی عیش و عشرت ہے ۔ اپنے دوستوں کا نیک انجام بیان فرما کر اب اپنے دشمنوں کا برا نتیجہ ظاہر فرماتا ہے کہ ایسے سخت اور بڑے عذاب انہیں ہو رہے ہوں گے کہک اگر اس وقت روئے زمین کے مالک ہوں بلکہ اتنا ہی اور بھی ہو تو ان عذابوں سے بچنے کیلئے بطور بدلے کے سب دے ڈالیں لیکن اگر ایسا ہو بھی جائے تو بھی ان سے اب فدیہ قبول نہیں بلکہ جو عذاب ان پر ہیں ، وہ دائمی اور ابدی اور دوامی ہیں ۔ جیسے اور جگہ ہے کہ جہنمی جب جہنم میں سے نکلنا چاہئیں گے تو پھر دوبارہ اسی میں لوٹا دیئے جائیں گے ۔ بھڑکتی ہوئی آگ کے شعلوں کے ساتھ اوپر آ جائیں گے کہ داروغے انہیں لوہے کے ہتھوڑے مار مار کر پھر قعر جہنم میں گرا دیں گے ۔ غرض ان دائمی عذابوں سے چھٹکارا محال ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ایک جہنمی کو لایا جائے گا پھر اس سے پوچھا جائے گا کہ اے ابن آدم کہو تمہاری جگہ کیسی ہے؟ وہ کہے گا بدترین اور سخت ترین ۔ اس سے پوچھا جائے گا کہ اس سے چھوٹنے کیلئے تو کیا کچھ خرچ کر دینے پر راضی ہے؟ وہ کہے گا ساری زمین بھر کا سونا دے کر بھی میں یہاں سے چھوٹوں تو بھی سستا چھوٹا ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا جھوٹا ہے میں نے تو تجھ سے اس سے بہت ہی کم مانگا تھا لیکن تو نے کچھ بھی نہ کیا ۔ پھر حکم دیا جائے گا اور اسے جہنم میں ڈال دیا جائے گا ( مسلم ) ایک مرتبہ حضرت جابر نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان بیان کیا کہ ایک قوم جہنم میں سے نکال کر جنت میں پہنچائی جائے گی ۔ اس پر ان کے شاگرد حضرت یزید فقیر نے پوچھا کہ پھر اس آیت قرآنی کا کیا مطلب ہے؟ کہ آت ( يُرِيْدُوْنَ اَنْ يَّخْرُجُوْا مِنَ النَّارِ وَمَا هُمْ بِخٰرِجِيْنَ مِنْهَا ۡ وَلَهُمْ عَذَابٌ مُّقِيْمٌ ) 5 ۔ المائدہ:37 ) یعنی وہ جہنم سے آزاد ہونا چاہیں گے لیکن وہ آزاد ہونے والے نہیں تو آپ نے فرمایا اس سے پہلے کی آیت ( ان الذین کفروا ) الخ ، پڑھو جس سے صاف ہو جاتا ہے کہ یہ کافر لوگ ہیں یہ کبھی نہ نکلیں گے ( مسند وغیرہ ) دوسری روایت میں ہے کہ یزید کا خیال یہی تھا کہ جہنم میں سے کوئی بھی نہ نکلے گا اس لئے یہ سن کر انہوں نے حضرت جابر سے کہا کہ مجھے اور لوگوں پر تو افسوس نہیں ہاں آپ صحابیوں پر افسوس ہے کہ آپ بھی قرآن کے الٹ کہتے ہیں اس وقت مجھے بھی غصہ آ گیا تھا اس پر ان کے ساتھیوں نے مجھے ڈانٹا لیکن حضرت جابر بہت ہی حلیم الطبع تھے انہوں نے سب کو روک دیا اور سمجھے سمجھایا کہ قرآن میں جن کا جہنم سے نہ نکلنے کا ذکر ہے وہ کفار ہیں ۔ تم نے قرآن نہیں پڑھا ؟ میں نے کہا ہاں مجھے سارا قرآن یاد ہے؟ کہاں پھر کیا یہ آیت قرآن میں نہیں ہے؟ آیت ( وَمِنَ الَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهٖ نَافِلَةً لَّكَ ڰ عَسٰٓي اَنْ يَّبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا ) 17 ۔ الاسراء:79 ) اس میں مقام محمود کا ذکر ہے یہی مقام شفاعت ہے ۔ اللہ تعالیٰ بعض لوگوں کو جہنم میں ان کی خطاؤں کی وجہ سے ڈالے گا اور جب تک چاہے انہیں جہنم میں ہی رکھے گا پھر جب چاہے گا انہیں اس سے آزاد کر دے گا ۔ حضرت یزید فرماتے ہیں کہ اس کے بعد سے میرا خیال ٹھیک ہو گیا ۔ حضرت طلق بن حبیب کہتے ہیں میں بھی منکر شفاعت تھا یہاں تک کہ حضرت جابر سے ملا اور اپنے دعوے کے ثبوت میں جن جن آیتوں میں جہنم کے ہمیشہ رہنے والوں کا ذکر ہے سب پڑھ ڈالیں تو آپ نے سن کر فرمایا! اے طلق کیا تم اپنے تئیں کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علم میں مجھ سے افضل جانتے ہو؟ سنو جتنی آیتیں تم نے پڑھی ہیں وہ سب اہل جہنم کے بارے میں ہیں یعنی مشرکوں کیلئے ۔ لیکن وہ لوگ نکلیں گے یہ وہ لوگ ہیں جو مشرک نہ تھے لیکن گہنگار تھے گناہوں کے بدلے سزا بھگت لی پھر جہنم سے نکال دیئے گئے ۔ حضرت جابر نے یہ سب فرما کر اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنے دونوں کانوں کی طرف اشارہ کر کے فرمایا یہ دونوں بہرے ہو جائیں اگر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ نہ سنا ہو کہ جہنم میں داخل ہونے بعد بھی لوگ اس میں سے نکالے جائیں گے اور وہ جہنم سے آزاد کر دیئے جائیں گے قرآن کی یہ آیتیں جس طرح تم پڑھتے ہو ہم بھی پڑھتے ہی ہیں ۔   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

35۔ 1 وسیلہ کے معنی ایسی چیز کے ہیں جو کسی مقصود کے حصول یا اس کے قرب کا ذریعہ ہو۔ ' اللہ تعالیٰ کی طرف وسیلہ تلاش کرو ' کا مطلب ہوگا ایسے اعمال اختیار کرو جس سے تمہیں اللہ کی رضا اور اس کا قرب حاصل ہوجائے۔ امام شوکانی فرماتے ہیں ' وسیلہ جو قربت کے معنی میں ہے تقویٰ اور دیگر خصال خیر پر صادق آتا ہے ... جن کے ذریعے سے بندے اپنے رب کا قرب حاصل کرتے ہیں، اسی طرح جن باتوں سے روکا گیا ہو ان کا ترک بھی قرب الٰہی کا وسیلہ ہے۔ البتہ حدیث میں اس مقام محمود کو بھی وسیلہ کہا گیا ہے جو جنت میں نبی کو عطا فرمایا جائے گا۔ اسی لئے آپ نے فرمایا جو اذان کے بعد میرے لئے یہ دعائے وسیلہ کرے گا وہ میری شفاعت کا مستحق ہوگا۔ (صحیح بخاری)  Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦٨] وسیلہ کی تعریف اور اس کی تلاش :۔ جو بھی ذریعہ یا سبب اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے لیے اختیار کیا جائے اسے وسیلہ کہتے ہیں اور وسیلہ کی دو ہی جائز صورتیں ہیں ایک یہ کہ کسی زندہ شخص کو اپنی دعا کی قبولیت کے لیے وسیلہ بنایا جائے اور اس کی دلیل درج ذیل حدیث ہے۔ سیدنا انس بن مالک (رض) فرماتے ہیں ... کہ سیدنا عمر کے زمانہ میں جب قحط پڑتا تو سیدنا عباس کے وسیلے سے دعا کرتے اور کہتے : یا اللہ پہلے ہم تیرے پاس اپنے پیغمبر کا وسیلہ لایا کرتے تو تو پانی برساتا تھا۔ اب اپنے پیغمبر کے چچا کا وسیلہ لائے ہیں، ہم پر بارش برسا۔ راوی کہتا ہے کہ پھر بارش ہوجاتی (بخاری کتاب الاستسقائ۔ باب سوال الناس الامام) اور دوسری صورت اپنے ہی نیک اعمال کو وسیلہ بنانا ہے۔ اور اس کی دلیل وہ طویل حدیث ہے جو بخاری میں بھی متعدد مقامات پر مذکور ہوئی ہے کہ بنی اسرائیل کے تین شخص ایک دفعہ سفر میں جاتے ہوئے طوفان باد و باراں میں گھر گئے تو ایک غار میں جا کر پناہ لی۔ اتفاق سے ایک بڑا پتھر پہاڑ کے اوپر سے لڑھکتا آیا جس نے غار کا منہ بند کردیا اور اب وہ تینوں اپنی زندگی سے مایوس ہوگئے۔ انہوں نے سوچا کہ اس وقت صرف اللہ سے دعا ہی کام آسکتی ہے لہذا ہم میں سے ہر شخص اپنے کسی ایسے نیک عمل کا واسطہ دے کر اللہ سے دعا کرے جو اس نے خالصتہ اللہ کی رضامندی کے لئے کیا ہو۔ چناچہ پہلے شخص نے اپنے عمل کا واسطہ دے کر دعا کی تو تیسرا حصہ پتھر غار کے منہ سے سرک گیا۔ پھر دوسرے نے دعا کی تو پتھر مزید تیسرا حصہ سرک گیا۔ پھر تیسرے نے اپنے عمل کے وسیلہ سے دعا کی تو سارا پتھر غار کے منہ سے ہٹ گیا اور وہ باہر نکل آئے۔۔ (بخاری۔ کتاب البیوع۔ باب من اشتری شیا لغیرہ نیز کتاب الاجارات۔ باب من استاجرا جیرا۔ نیز کتاب ابو اب الحرث والمزارعۃ وما جاء فیہ باب اذا زرع بمال قوما بغیر اذنھم) مگر ہمارے ہاں وسیلہ پکڑنے کا بہت غلط مفہوم رائج ہوچکا ہے تفصیل کے لئے دیکھئے سورة بنی اسرائیل کا حاشیہ نمبر ٧٠ اور سورة زمر کا حاشیہ نمبر ٩٤۔ ) نیز وسیلہ جنت میں عرش رحمان کے نزدیک ایک مقام کا نام بھی ہے۔ اذان کے بعد جو دعا سکھائی گئی ہے اس میں ہر مسلمان رسول اللہ کے لیے دعا مانگتا ہے کہ یا اللہ آپ کو وسیلہ عطا فرما۔ نیز آپ نے فرمایا جو شخص میرے لیے وسیلہ کی دعا کرے گا میں اس کی شفاعت کروں گا۔ (بخاری۔ کتاب الاذان۔ باب الدعاء عندالنداء ) [٦٩] اصل وسیلہ اللہ کی راہ میں جہاد ہے :۔ یعنی اخروی کامیابی کے لیے بہترین وسیلہ تو جہاد ہے اور یہ بھی دوسری صورت ہی کی ایک قسم ہے جہاد کی سب سے اعلیٰ قسم قتال فی سبیل اللہ ہے تاہم جہاد انسان کی ہر اس کوشش کو بھی کہہ سکتے ہیں جو اسلام کی اشاعت اور اسلامی نظام کے قیام میں ممد و معاون ثابت ہو سکے یا اس راہ کی رکاوٹوں کو دور کرنے والی ہو خواہ یہ زبان سے ہو، تحریری ہو یا ہاتھ سے کی جائے۔ جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہے۔ خ منکرات کے خلاف جہاد :۔ آپ نے فرمایا اللہ نے جس نبی کو بھی اس کی امت میں مبعوث فرمایا تو اس کے کچھ حواری اور اصحاب ہوتے جو اس کی سنت پر کاربند اور اس کے حکم پر چلتے تھے۔ پھر ان کے بعد ایسے ناخلف آتے کہ جو کچھ وہ کہتے تھے کرتے نہیں تھے اور ایسے کام کرتے جن کا انہیں حکم نہیں دیا گیا تھا۔ اب جو کوئی ایسے لوگوں سے ہاتھ سے جہاد کرے، وہ مومن ہے اور جو زبان سے جہاد کرے وہ بھی مومن ہے اور جو دل سے جہاد کرے (برا سمجھے) وہ بھی مومن ہے اور اس کے بعد رائی کے دانہ برابر بھی ایمان نہیں۔ & (مسلم کتاب الایمان) جہاد کا ہدف سب سے پہلے اپنا نفس ہونا چاہیے پھر اقرباء پھر درجہ بدرجہ دوسرے لوگ۔ چناچہ آپ نے فرمایا & تم میں سے کوئی شخص جب کوئی برا کام ہوتے دیکھے تو اسے چاہیے کہ بزور بازو اس میں تبدیلی لائے۔ اور اگر ایسا نہ کرسکے تو پھر زبان سے (تقریر سے یا تحریر سے) اس میں تبدیلی لائے اور اگر یہ بھی نہ کرسکے تو پھر کم از کم دل ہی میں برا سمجھے اور یہ ایمان کا کمزور تر درجہ ہے۔ & (مسلم۔ حوالہ ایضاً )   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ ۔۔ : یعنی رسول کی اطاعت میں جو نیکی کرو وہ قبول ہے ( کیونکہ اللہ کے قرب کے حصول کے لیے اب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کے سوا کوئی وسیلہ نہیں) اور بغیر اس کے عقل سے کرو سو ( وہ) قبول نہیں۔ (موضح) لفظ ” الوَسِیْلَۃٌ“ یہ ” تَوَسَّلْتُ إِ... لَیْہِ “ سے ” فَعِیْلَۃٌ“ کے وزن پر ہے۔ اس کی جمع ” وَسَاءِلُ “ آتی ہے، اس کا لفظی معنی قرب ہے، مراد ہر وہ چیز ہے جس سے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہو۔ اس آیت میں اللہ کے تقوے کا اور اس کا قرب حاصل کرنے کا حکم دینے کے بعد جہاد کا حکم دیا، معلوم ہوا کہ اللہ کا تقویٰ اور اس کا قرب حاصل کرنے کا ذریعہ اس کی راہ میں جہاد ( سرتوڑ کوشش خصوصاً قتال) ہے۔ اس مقصد کے لیے کسی زندہ شخص سے دعا کروانا بھی جائز ہے، مگر کسی زندہ یا مردہ کا نام لے کر کہنا کہ یا اللہ ! فلاں کے وسیلے یا طفیل ہماری دعا قبول فرما، نہ قرآن سے ثابت ہے نہ صحیح حدیث سے، ہاں اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات کا واسطہ دے کر یا اپنا کوئی خالص عمل پیش کر کے دعا کرسکتا ہے، یہ قرآن و سنت سے ثابت ہے۔ وسیلہ ایک مقام کا نام بھی ہے، اس میں بھی قرب کا معنی ہی ملحوظ ہے۔ عمرو بن عاص (رض) بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا : ” جب تم مؤذن کو سنو تو اسی طرح کہو جس طرح وہ کہتا ہے، پھر مجھ پر درود بھیجو، جس نے مجھ پر ایک بار درود پڑھا اللہ تعالیٰ اس پر دس بار رحمت نازل فرمائے گا، پھر میرے لیے وسیلے کی دعا کرو، وسیلہ جنت کا وہ مقام ہے جو اللہ کے بندوں میں سے صرف ایک ہی کو نصیب ہوگا اور مجھے امید ہے کہ وہ بندہ میں ہوں گا، لہٰذا جس نے میرے لیے وسیلے کی دعا کی تو اس کے لیے میری شفاعت واجب ہوجائے گی۔ “ [ مسلم، الصلاۃ، باب استحباب القول مثل قول المؤذن۔۔ : ٣٨٤ ] اللہ کا قرب (وسیلہ) اتنی بڑی نعمت ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کے جتنا قریب ہے اس سے مزید قرب کی دعا اور کوشش کرتا ہے۔ دیکھیے بنی اسرائیل (٥٧) ۔ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ : یہود کو اپنے نسب پر فخر تھا اور وہ اسی خوش فہمی میں ہر قسم کے جرائم کا ارتکاب کرتے رہتے تھے اور اپنے آپ کو اللہ کا محبوب سمجھتے تھے، جیسا کہ اوپر کی آیات میں گزر چکا ہے۔ اب اس آیت میں مسلمانوں کو تعلیم دی ہے کہ تم اگرچہ بہتر امت ہو اور تمہارا نبی بھی سب سے افضل ہے، مگر تمہیں چاہیے کہ نیک اعمال کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کرو اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرو، تاکہ آخرت میں فلاح حاصل کرسکو، یعنی یہود کی طرح بد عمل نہ بنو۔ (کبیر)  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary In verses previous to those cited above, the Islamic Prescribed Pun¬ishment of robbery and rebellion, as well as the details of injunctions relating to them, were mentioned while the Prescribed Punishment for theft is coming up after three verses later. The three verses which ap¬pear in between talk about Taqwa (the fear of Allah), obedience to and the worship of Allah, inducement to Ji... had (fighting or struggling in the way of Allah ) as well as the ruinous effects of disbelief, rejection, obstinacy and disobedience. A deeper look into this particular style of the Qur&an would reveal that its oft-recurring approach is not simply to state the letter of the law of penalty and punishment as some cold and coercive command from the law giver and just leave it at that, instead, by taking the approach of an affectionate nourisher and nurturer, it also smooths out the edges of the human mind to prepare it for its ultimate abstention from crimes. And when it awakens the human minds to the awaiting realities of the fear of Allah and the Akhirah (Hereafter) and when it makes the everlasting blessing and bliss of Paradise appear almost in sight, it goes on to change hearts replacing their chronic taste for crime with instant distaste. This is the reason why words similar to: اِتَّقُوا اللہِ (fear Allah) are repeated after stated laws of crime and punishment. Here too, three things have been commanded: 1. The first one is : اِتَّقُوا اللہِ , that is, ` fear Allah&, for it is the fear of Al¬lah alone which can really stop human beings from committing crimes openly and secretly. 2. The second one is that is, ` seek the nearness of Al¬lah.& The word, وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ : wasilah, left untranslated, is a derivation from the verbal noun, ` waslun&, which means to make effort to become close to someone. This word, whether spelt with the letter, sin سین : وسیلہ) or sad (وصیلہ : صاد), is used almost in the same sense. The only difference is that waslun spelt with the letter, Sad (صاد) refers to becoming close in the absolute sense, while, waslun spelt with the letter, sin, is used to denote seeking to gain nearness with longing and love. Related details appear in the Sihah of Jauhari and in the Mufradat of Raghib al-Isfahani. So, wuslah (وصلہ) or wasilah (وصیلہ) spelt with the letter, Sad, refer to something which brings about nearness or conjunction between two things, whether that nearness comes to be through longing and love, or in some other form. As for the word, wasilah (وسیلہ) spelt with the letter, sin, it means that which brings someone closer to some-one else through liking and love. (Lisan al-` Arab, Mufradat al-Qur&an) The act of seeking to gain access to Allah - that is,` wasilah& to Allah, to be precise - is anything which brings a servant of Allah nearer to his or her sole object of worship with all longing and love. Therefore, the righteous elders, the Sahabah and Tabi` in have explained the word, ` wasilah&, to mean obedience, nearness, faith and righteous conduct. Sayyidna 1Iudhayfah, as reported by Hakim, said : ` Wasilah& means nearness and obedience, and Ibn Jarir has reported the same on the authority of ` Ata&, Mujahid and Hasan al-Basri, may the mercy of Allah be upon them all. Also, Ibn Jarir and others have reported from Qatadah a Tafsir of this verse which is : تَقَرَّبُوا الیہِ بطاعتہِ والعَمَل ھِما یُرضیِیہ . It means: Seek nearness to Him by obedience to Him and by doing deeds which please Him. Therefore, the gist of the explanation of this verse is that one should seek the nearness of Allah through &lman (faith) and Amal (good deeds). Appearing in the Musnad of Ahmad, there is a sound (Sahih) hadith in which the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has been reported to have said: ` Wasilah& is a high rank of Paradise, above which there is no rank. You pray to Almighty Allah that He gives me that rank. Again, in a narration from Sahih Muslim, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has been reported to have said: When the Mu&adhdhin مؤذَّن): Muezzin) calls the Adhan, you keep saying what he says. Then, recite Durud on me and pray that I be blessed with ` Wasilah.& These ahadith tell us that ` Wasilah& is a special rank of Jannah (Paradise) which is identified particularly with the Holy Prophet . As for the command to seek and find ` Wasilah& given to every believer, it seems to be, on the surface, contrary to this particularity. But, the answer is fairly clear that the way the highest station of guidance is special to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) who always prayed for it, but, its elementary and intermediary ranks of guidance are common and open to all Muslims - similarly, the high rank of ` Wasilah& is particular to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and all ranks after it are open and common to all believers through the linkage of their love for him. In his Letters, the famous renovator of the second millennium of Islam in India, Mujaddid Alf-Thani, and Qadi Thana&ullah of Panipat, in his Tafsir Mazhari, have both warned that the sense of longing and love embedded in the word, ` Wasilah&, clearly shows that advancement in the ranks of ` Wasilah& depends on the love for Almighty Allah and His Messenger (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - and love comes through the following of Sunnah, the words and deeds of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . This is because Al mighty Allah says: فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّـهُ (Say [ 0 Prophet ], |"If you do love Al¬lah, follow me; Allah shall love you ...|"- 3:31). Therefore, the more par¬ticular one is in following the Sunnah of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) in acts of worship, transactions, dealings, morals, social living, practically in all departments of life, the more beloved of Allah one shall be, and the more widening becomes the gyre of this love, the closer and nearer to Allah one shall be. Now, after this lexical explanation of the word, ` Wasilah,& and the exegetical notes from the Sahabah and Tabi` in, we do know how every-thing which becomes the means of achieving the pleasure and near¬ness of Allah is, for a human being, the ` Wasilah& of becoming close to Allah. As included in it are faith (&Iman) and good deeds (al-a` mal al¬salih الاعمال اصالح), so included therein are the company and the love of prophets and righteous people as well, for that too is one of the causes of the pleasure of Allah - and so, praying to Allah Almighty by making them a Wasllah& should be correct, as was done by Sayyidna ` Umar (رض) ، when he, at the time of a famine, making Sayyidna ` Abbas (رض) ` Wasilah,& made a prayer for rains before Almighty Allah. The prayer was answered. It is reported that the Holy Prophet صلی اللہ علیہ وسلم had himself taught a blind Sahabi to pray with the words which are as follows : اَللَّھُمَّ اِنِّی اَسأَلُک وَ اَتَوَجَّہُ اِلَیکَ بِنَبِیِّکَ مُحَمَّدِ نَبِیِّ الرَّحمَۃِ ; ( O Allah, I seek from You, and I ask for Your attention with (the Wasilah of) Your Prophet, Muhammad, the Prophet of Mercy. (Manar) 3. Before taking up the third command, that of Jihad, in this verse (35), it will be useful to recollect the first command, that of Taqwa, then the command to seek nearness to Allah through faith and good deeds, and now in the end it was said: وَجَاهِدُوا فِي سَبِيلِهِ (and carry out Jihad in His way). Though Jihad was included under ` good deeds& yet it was to spell out the higher status of Jihad among ` good deeds& that Jihad was mentioned separately and distinctly - as confirmed by a saying of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) which is: وَ ذِروَۃُ سَنَامِہِ الجِھَادُ that is, Jihad is the highest peak of Islam. Moreover, there is yet another element of wisdom why Jihad has been mentioned distinctly at this place. It will be recalled that the unlawfulness of spreading disorder on the earth, alongwith its worldly and other-worldly punishment, was mentioned in previous verses (32, 33). Since Jihad too, given a surface view of it (or, as those allergic to it would love to believe), appears to be some form of disorder on the earth (al-fasad fi al-ard), therefore, it was possible that someone ignorant could just fail to understand the difference between Jihad (fighting in the way of Allah) and Fasad (spreading disorder). To offset this possibility, the spreading of disorder on the earth was for-bidden first and it was after that that the command of Jihad was men¬tioned distinctly and the difference between the two was pointed out by the addition of the words : فِي سَبِيلِهِ (in His way). This is because the killing and plundering of the property of people in robberies and rebel-lions is for the sole purpose of personal aggrandizement and other ne¬farious objectives while, should it ever come to happen in a Jihad, it will still be for the initial purpose of upraising the Word of Allah and eliminating oppression and tyranny. There is a world of difference between the two. Moving on to the second (36) and the third (37) verses, one notices the manner in which the grave curse of Kufr (disbelief), Shirk (the as¬sociating of partners in the Divinity of Allah) and sin has been pointed out. It is so poignant that even a little reflection on it could bring an instant revolution in the lives of men and women of such persuasion compelling them to abandon all Kufr and Shirk and sin. To explain the curse of sinful living a little further, it can be said that sins in which one gets involved usually is because of personal desires and needs or for the desires and needs of family and children. Since their Fulfillment comes through an increase in wealth and property, one goes after amassing wealth and property without making any distinc-tion between what is Halal (lawful) and what is Haram (unlawful) in it. In these verses, Almighty Allah has censured the acquisition mania of such people which will prove to be futile in the ultimate analysis because its cure lies in realizing that things of comfort collected to satisfy a short lived span of life by working hard day and night still remain unattained. More and more stays to be the order of every other day in life. What begins must end and this race of gold and greed will also end when the punishment of the Doomsday will appear in sight and, at that time, if these people were to offer all they had collected in the mortal world, wealth and property, things and things of comfort, taste and value, offer all of it in return for their release from the punish¬ment, then, this would not be possible anymore. Even if the wager is increased higher, suppose everything of value were to be owned by one person, nay, let us say twice as much, and if he were to offer all of it to have his release from the punishment, still then, nothing would be ac¬cepted from him and he will not have his deliverance from the punish¬ment of the Hereafter.  Show more

خلاصہ تفسیر اے ایمان والو اللہ تعالیٰ (کے احکام کی مخالفت) سے ڈرو (یعنی معاصی چھوڑدو) اور (اطاعت کے ذریعہ) خدا تعالیٰ کا قرب ڈھونڈو (یعنی اطاعات ضروریہ کے پابند رہو) اور تم (پورے) کامیاب ہوجاؤ گے (اور کامیابی اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کا حاصل ہونا اور دوزخ سے نجات ہے) یقینا جو لوگ کافر ہیں اگر (بالف... رض) ان (میں سے ہر ایک) کے پاس دنیا بھر کی تمام چیزیں ہوں (جس میں تمام دفائن و خزائن بھی آگئے) اور (انہی چیزوں پر کیا منحصر ہے بلکہ) ان چیزوں کے ساتھ اتنی ہی چیزیں اور بھی ہوں تاکہ وہ اس کو دے کر روز قیامت کے عذاب سے چھوٹ جاویں تب بھی وہ چیزیں ہرگز ان سے قبول نہ کی جاویں گی (اور عذاب سے نہ بچیں گے بلکہ) ان کو دردناک عذاب ہوگا (پھر بعد عذاب میں داخل ہوجانے کے) اس بات کی خواہش (و تمنا) کریں گے کہ دوزخ سے (کسی طرح) نکل آویں اور (یہ خواہش کبھی پوری نہ ہوگی اور) وہ اس سے کبھی نہ نکلیں گے اور ان کو عذاب دائمی ہوگا (یعنی کسی تدبیر سے نہ سزا ٹلے گی نہ دوام سزا ٹلے گا) ۔ اور جو مرد چوری کرے اور (اسی طرح) جو عورت چوری کرے سو (ان کا حکم یہ ہے کہ اے حکام) ان دونوں کے داہنے ہاتھ (گٹے پر) سے کاٹ ڈالو ان کے (اس) کردار کے عوض میں (اور یہ عوض) بطور سزا کے (ہے) اللہ کی طرف سے، اور اللہ تعالیٰ بڑی قوت والے ہیں، (جو سزا چاہیں مقرر فرما دیں اور) بڑی حکمت والے ہیں (کہ مناسب ہی سزا مقرر فرماتے ہیں) پھر جو شخص (موافق قاعدہ شرعیہ کے) توبہ کرلے اپنی اس زیادتی (یعنی چوری) کرنے کے بعد اور (آئندہ کے لئے) اعمال کی درستگی رکھے (یعنی چوری وغیرہ نہ کرے، اپنی توبہ پر قائم رہے) تو بیشک اللہ تعالیٰ اس (کے حال) پر (رحمت کے ساتھ) توجہ فرماویں (کہ توبہ سے پچھلا گناہ معاف فرما دیں گے، اور استقامت علی التوبہ سے مزید عنایت فرمادیں گے) بیشک خدا تعالیٰ بڑی مغفرت والے ہیں (کہ اس کا گناہ معاف کردیا) بڑی رحمت والے ہیں (کہ آئندہ بھی مزید عنایت کی اے مخاطب) کیا تم نہیں جانتے (یعنی سب جانتے ہیں) کہ اللہ ہی کے لئے ثابت ہے حکومت سب آسمانوں کی اور زمین کی وہ جس کو چاہیں سزا دیں اور جس کو چاہیں معاف کردیں، اور اللہ تعالیٰ کو ہر چیز پر پوری قدرت ہے۔ معارف و مسائل آیات متذکرہ سے پہلی آیات میں ڈاکو اور بغاوت کی شرعی سزا اور اس کے احکام کی تفصیل مذکور تھی، اور آگے تین آیتوں کے بعد چوری کی شرعی سزا کا بیان آنے والا ہے، اس کے درمیان تیں آیتوں میں تقویٰ ، اطاعت و عبادت، جہاد کی ترغیب اور کفر وعناد اور معصیت کی تباہ کاری کا بیان فرمایا گیا ہے، قرآن کریم کے اس طرز خاص میں غور کرو تو معلوم ہوگا کہ قرآن کریم کا عام اسلوب یہ ہے کہ وہ محض حاکمانہ طور پر تعزیر و سزا کا قانون بیان کرکے نہیں چھوڑ دیتا، بلکہ مربّیانہ انداز میں ذہنوں کو جرائم سے باز رہنے کے لئے ہموار بھی کرتا ہے، خدا تعالیٰ اور آخرت کے خوف اور جنت کی دائمی نعمتوں اور راحتوں کو مستحضر کرکے ان کے قلوب کو جرم سے متنفر بناتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اکثر قانون جرم و سزا کے پیچھے اتَّقُوا اللّٰهَ وغیرہ کا اعادہ کیا جاتا ہے، یہاں بھی پہلی آیت میں تین چیزوں کا حکم دیا گیا ہے : اول اتَّقُوا اللّٰهَ ۔ یعنی اللہ تعالیٰ سے ڈرو، کیونکہ خوف خدا وہی چیز ہے جو انسان کو حقیقی طور پر خفیہ و اعلانیہ جرائم سے روک سکتی ہے۔ دوسرا ارشاد ہے وابْتَغُوْٓا اِلَيْهِ الْوَسِيْلَةَ یعنی اللہ کا قرب تلاش کرو، لفظ وسیلہ وسل مصدر سے مشتق ہے، جس کے معنی ملنے اور جڑنے کے ہیں، یہ لفظ سین اور صاد دونوں سے تقریباً ایک ہی معنی میں آتا ہے، فرق اتنا ہے کہ وصل بالصاد مطلقاً ملنے اور جوڑنے کے معنی میں ہے اور وسل بالسین رغبت و محبت کے ساتھ ملنے کے لئے مستعمل ہوتا ہے۔ صحاح جوہری اور مفردات القرآن راغب اصفہانی میں اس کی تصریح ہے، اس لئے صاد کے ساتھ وصلہ اور وصیلہ ہر اس چیز کو کہا جاتا ہے جو دو چیزوں کے درمیان میل اور جوڑ پیدا کردے۔ خواہ وہ میل اور جوڑ رغبت و محبت سے ہو یا کسی دوسری صورت سے، اور سین کے ساتھ لفظ وسیلہ کے معنی اس چیز کے ہیں جو کسی کو کسی دوسرے سے محبت ورغبت کے ساتھ ملا دے۔ (لسان العرب، مفردات، راغب) اللہ تعالیٰ کی طرف وسیلہ ہر وہ چیز ہے جو بندہ کو رغبت و محبت کے ساتھ اپنے معبود کے قریب کر دے، اس لئے سلف صالحین وتابعین نے اس آیت میں وسیلہ کی تفسیر اطاعت و قربت اور ایمان و عمل صالح سے کی ہے، بروایت حاکم حضرت حذیفہ (رض) نے فرمایا کہ وسیلہ سے مراد قربت و اطاعت ہے اور ابن جریر رحمة اللہ علیہ نے حضرت عطا رحمة اللہ علیہ اور مجاہد رحمة اللہ علیہ اور حسن بصری رحمة اللہ علیہ سے بھی یہی نقل کیا ہے۔ اور ابن جریر رحمة اللہ علیہ وغیرہ نے حضرت قتادہ رحمة اللہ علیہ سے اس آیت کی تفسیر یہ نقل کی ہے : تقربوا الیہ بطاعتہ والعمل بما یرضیہ یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف تقرب حاصل کرو، اس کی فرمانبرداری اور رضامندی کے کام کرکے، اس لئے آیت کی تفسیر کا خلاصہ یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ کا قرب تلاش کرو، بذریعہ ایمان اور عمل صالح کے۔ اور مسند احمد رحمة اللہ علیہ کی ایک صحیح حدیث میں ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ وسیلہ ایک اعلیٰ درجہ ہے جنت کا جس کے اوپر کوئی درجہ نہیں ہے، تم اللہ تعالیٰ سے دعاء کرو کہ وہ درجہ مجھے عطا فرما دے۔ اور صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جب مؤ ذن اذان کہے تو تم بھی وہی کلمات کہتے رہو جو مؤ ذن کہتا ہے، اس کے بعد مجھ پر درود پڑھو اور میرے لئے وسیلہ کی دعا کرو۔ ان احادیث سے معلوم ہوا کہ وسیلہ ایک خاص درجہ ہے جنت کا، جو رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مخصوص ہے، اور آیت مذکورہ میں ہر مومن کو وسیلہ طلب کرنے اور ڈھونڈنے کا حکم بظاہر اس خصوصیت کے منافی ہے، مگر جواب واضح ہے کہ جس طرح ہدایت کا اعلیٰ مقام رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے مخصوص ہے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیشہ اس کے لئے دعا کیا کرتے تھے، مگر اس کے ابتدائی اور متوسط درجات تمام مؤمنین کے لئے عام ہیں، اسی طرح وسیلہ کا اعلیٰ درجہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے مخصوص ہے، اور اس کے نیچے کے درجات سب مؤمنین کے لئے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی کے واسطہ اور ذریعہ سے عام ہیں۔ حضرت مجدّد الف ثانی رحمة اللہ علیہ نے اپنے مکتوبات میں اور قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمة اللہ علیہ نے تفسیر مظہری میں اس پر متنبہ فرمایا ہے کہ لفظ وسیلہ میں محبت ورغبت کا مفہوم شامل ہونے سے اس طرف اشارہ ہے کہ وسیلہ کے درجات میں ترقی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی محبت پر موقوف ہے، اور محبت پیدا ہوتی ہے اتباع سنت سے، کیونکہ حق تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) فاتبعونی یحببکم اللّٰہ، اس لئے جتنا کوئی اپنی عبادات، معاملات، اخلاق، معاشرت اور زندگی کے تمام شعبوں میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت کا اتباع کرے گا اتنا ہی اللہ تعالیٰ کی محبت اس کو حاصل ہوگی، اور وہ خود اللہ تعالیٰ کے نزدیک محبوب ہوجائے گا، اور جتنی زیادہ محبت بڑھے گی اتنا ہی اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہوگا۔ لفظ وسیلہ کی لغوی تشریح اور صحابہ وتابعین کی تفسیر سے جب یہ معلوم ہوگیا کہ ہر وہ چیز جو اللہ تعالیٰ کی رضا اور قرب کا ذریعہ بنے وہ انسان کے لئے اللہ تعالیٰ کے قرب ہونے کا وسیلہ ہے، اس میں جس طرح ایمان اور عمل صالح داخل ہیں اسی طرح انبیاء و صالحین کی صحبت و محبت بھی داخل ہے کہ وہ بھی رضائے الہٰی کے اسباب میں سے ہے، اور اسی لئے ان کو وسیلہ بنا کر اللہ تعالیٰ سے دعا کرنا درست ہوا، جیسا کہ حضرت عمر (رض) نے قحط کے زمانہ میں حضرت عباس (رض) کو وسیلہ بنا کر اللہ تعالیٰ سے بارش کی دعا مانگی، اللہ تعالیٰ نے قبول فرمائی۔ اور ایک روایت میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خود ایک نابینا صحابی کو اس طرح دعا مانگنے کی تلقین فرمائی اللہم انی اسئالک واتوجہ الیک بنبیک محمد نبی الرحمة (منار) ۔ آیت مذکورہ میں اول تقویٰ کی ہدایت فرمائی گئی، پھر اللہ تعالیٰ سے ایمان اور اعمال صالحہ کے ذریعہ تقرب حاصل کرنے کی، آخر میں ارشاد فرمایا : وَجَاهِدُوْا فِيْ سَبِيْلِهٖ ، یعنی جہاد کرو اللہ کی راہ میں، اگرچہ اعمال صالحہ میں جہاد بھی داخل تھا، لیکن اعمال صالحہ میں جہاد کا اعلیٰ مقام بتلانے کے لئے اس کو علیحدہ کرکے بیان فرما دیا گیا۔ جیسا کہ حدیث میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے : وذروة سنامہ الجھاد، یعنی اسلام کا اعلیٰ مقام جہاد ہے دوسرے اس جگہ جہاد کو اہمیت کے ساتھ ذکر کرنے کی یہ حکمت بھی ہے کہ پچھلی آیتوں میں فساد فی الارض کا حرم و ناجائز ہونا اور اس کی دینوی اخروی سزاؤں کا بیان آیا تھا، جہاد بھی ظاہر کے اعتبار سے فساد فی الارض کی صورت معلوم ہوتی ہے، اس لئے ممکن تھا کہ کوئی ناواقف جہاد اور فساد میں فرق نہ سمجھے، اس لئے فساد فی الارض کی ممانعت کے بعد جہاد کا حکم اہمیت کے ساتھ ذکر کرکے دونوں کے فرق کی طرف لفظ فی سبیلہ سے اشارہ فرما دیا۔ کیونکہ ڈاکہ، بغاوت وغیرہ میں جو قتل قتال اور مال لوٹا جاتا ہے وہ محض اپنی ذاتی اغراض و خواہشات اور ذلیل مقاصد کے لئے ہوتا ہے، اور جہاد میں اگر اس کی نوبت آئے بھی تو محض اللہ کا کلمہ بلند کرنے اور ظلم و جور کو مٹانے کے لئے ہے جن میں زمین آسمان کا فرق ہے، دوسری اور تیسری آیت میں کفر و شرک اور معصیت کا وبال عظیم ایسے انداز میں بتلایا گیا ہے کہ اس پر ذرا بھی غور کیا جائے تو وہ انسان کی زندگی میں ایک انقلاب عظیم پیدا کر دے، اور کفر و شرک اور معصیت سب کو چھوڑنے پر مجبور کر دے۔ وہ یہ ہے کہ عام طور پر انسان جن گناہوں میں مبتلا ہوتا ہے وہ اپنی خواہشات ضروریات یا اہل و عیال کی خواہشات کے لئے ہوتا ہے، اور ان سب کا حصول مال و دولت جمع کرنے سے ہوتا ہے، اس لئے مال و دولت جمع کرنے میں حلال و حرام کی تمیز کئے بغیر لگ جاتا ہے اس آیت میں اللہ جل شانہ نے ان کی اس بدمستی کے علاج کے لئے فرمایا کہ آج چند روزہ زندگی اور اس کی راحت کے لئے جن چیزوں کو تم ہزاروں محنتوں کوششوں کے ذریعہ جمع کرتے ہو اور پھر بھی سب جمع نہیں ہوتیں، اس ناجائز ہوس کا انجام یہ ہے کہ قیامت کا عذاب جب سامنے آئے گا تو اس وقت اگر یہ لوگ چاہیں کہ دنیا میں حاصل کئے مال و دولت اور ساز و سامان سب کو فدیہ دے کر اپنے آپ کو عذاب سے بچالیں تو یہ ناممکن ہے۔ بلکہ فرض کرلو کہ ساری دنیا کا مال و دولت اور پورا سامان اسی ایک شخص کو مل جائے، اور پھر اسی پر بس نہیں، اتنا ہی اور بھی مل جائے اور یہ سب کو اپنے عذاب سے بچنے کے لئے فدیہ بنانا چاہیے تو کوئی چیز قبول نہ ہوگی۔ اور اس کو عذاب آخرت سے نجات نہ ہوگی۔   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَابْتَغُوْٓا اِلَيْہِ الْوَسِيْلَۃَ وَجَاہِدُوْا فِيْ سَبِيْلِہٖ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ۝ ٣٥ أیمان يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به ك... لّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ( ا م ن ) الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ تقوي والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] التقویٰ اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔ وأمّا الابتغاء فقد خصّ بالاجتهاد في الطلب، فمتی کان الطلب لشیء محمود فالابتغاء فيه محمود نحو : ابْتِغاءَ رَحْمَةٍ مِنْ رَبِّكَ [ الإسراء/ 28] ، وابْتِغاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلى [ اللیل/ 20] ( ب غ ی ) البغی الا بتغاء یہ خاص کر کوشش کے ساتھ کسی چیز کو طلب کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ اگر اچھی چیز کی طلب ہو تو یہ کوشش بھی محمود ہوگی ( ورنہ مذموم ) چناچہ فرمایا : ۔ { ابْتِغَاءَ رَحْمَةٍ مِنْ رَبِّكَ } ( سورة الإسراء 28) اپنے پروردگار کی رحمت ( یعنی فراخ دستی ) کے انتظار میں ۔ وابْتِغاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلى [ اللیل/ 20] بلکہ اپنے خدا وندی اعلیٰ کی رضامندی حاصل کرنے کے لئے دیتا ہے ۔ وسل الوَسِيلَةُ : التّوصّل إلى الشیء برغبة وهي أخصّ من الوصیلة، لتضمّنها لمعنی الرّغبة . قال تعالی: وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ [ المائدة/ 35] وحقیقةُ الوَسِيلَةِ إلى اللہ تعالی: مراعاة سبیله بالعلم والعبادة، وتحرّي مکارم الشّريعة، وهي کالقربة، والوَاسِلُ : الرّاغب إلى اللہ تعالی، ويقال إنّ التَّوَسُّلَ في غير هذا : السّرقة، يقال : أخذ فلان إبل فلان تَوَسُّلًا . أي : سرقة . ( و س ل ) الوسیلۃ کے معنی کسی چیز کی طرف رغبت کے ساتھ پہنچنے کے ہیں چناچہ معنی رغبت کو متضمن ہونے کی وجہ سے یہ وصیلۃ سے اخص ہے ۔ وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ [ المائدة/ 35] اور اس کا قرب حاصل کرنے کا ذریعہ تلاش کرو ۔ در حقیقت توسل الی اللہ علم و عبادت اور مکارم شریعت کی بجا آوری سے طریق الہی ٰ کی محافظت کرنے کا نام ہے اور یہی منعی تقرب الی اللہ کے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف رغبت کرنے والے کو واسل کہا جاتا ہے بعض نے کہا ہے کہ اس کے علاوہ توسل کے معنی چوری کرنا بھی آتے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ اخذا فلان ابل فلان توسلا اس نے فلا کے اونٹ چوری جهد الجَهْدُ والجُهْد : الطاقة والمشقة، وقیل : الجَهْد بالفتح : المشقة، والجُهْد : الوسع . وقیل : الجهد للإنسان، وقال تعالی: وَالَّذِينَ لا يَجِدُونَ إِلَّا جُهْدَهُمْ [ التوبة/ 79] ، وقال تعالی: وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ النور/ 53] ، أي : حلفوا واجتهدوا في الحلف أن يأتوا به علی أبلغ ما في وسعهم . والاجتهاد : أخذ النفس ببذل الطاقة وتحمّل المشقة، يقال : جَهَدْتُ رأيي وأَجْهَدْتُهُ : أتعبته بالفکر، والجِهادُ والمجاهدة : استفراغ الوسع في مدافعة العدو، والجِهَاد ثلاثة أضرب : - مجاهدة العدو الظاهر . - ومجاهدة الشیطان . - ومجاهدة النفس . وتدخل ثلاثتها في قوله تعالی: وَجاهِدُوا فِي اللَّهِ حَقَّ جِهادِهِ [ الحج/ 78] ، وَجاهِدُوا بِأَمْوالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ التوبة/ 41] ، إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَهاجَرُوا وَجاهَدُوا بِأَمْوالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ الأنفال/ 72] ، وقال صلّى اللہ عليه وسلم : «جاهدوا أهواء کم کما تجاهدون أعداء کم» والمجاهدة تکون بالید واللسان، قال صلّى اللہ عليه وسلم «جاهدوا الکفار بأيديكم وألسنتکم» ( ج ھ د ) الجھد والجھد کے معنی وسعت و طاقت اور تکلف ومشقت کے ہیں ۔ بعض علماء کا خیال ہے کہ الجھد ( فتح جیم کے معنی مشقت کے ہیں اور الجھد ( ( بضم جیم ) طاقت اور وسعت کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ الجھد کا لفظ صرف انسان کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں وَالَّذِينَ لا يَجِدُونَ إِلَّا جُهْدَهُمْ [ التوبة/ 79] اور جنہیں اپنی محنت ومشقت ( کی کمائی ) کے سوا کچھ میسر نہیں ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ النور/ 53] کے معنی یہ ہیں کہ وہ بڑی زور زور سے قسمیں کھاکر کہتے ہیں کے وہ اس میں اپنی انتہائی کوشش صرف کریں گے الاجتھاد ( افتعال ) کے معنی کسی کام پر پوری طاقت صرف کرنے اور اس میں انتہائی مشقت اٹھانے پر طبیعت کو مجبور کرنا کے ہیں ۔ کہا جاتا ہے میں نے غور ومحکر سے اپنی رائے کو مشقت اور تعب میں ڈالا ۔ الجھاد والمجاھدۃ دشمن کے مقابلہ اور مدافعت میں اپنی انتہائی طاقت اور وسعت خرچ کرنا اور جہا دتین قسم پر ہے ( 1 ) ظاہری دشمن یعنی کفار سے جہاد کرنا ( 2 ) شیطان اور ( 3 ) نفس سے مجاہدہ کرنا اور آیت کریمہ : ۔ وَجاهِدُوا فِي اللَّهِ حَقَّ جِهادِهِ [ الحج/ 78] کہ اللہ کی راہ میں پوری طرح جہاد کرو ۔۔۔۔۔ تینوں قسم جہاد پر مشتمل ہے ۔ نیز فرمایا :۔ وَجاهِدُوا بِأَمْوالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ التوبة/ 41] کہ خدا کی راہ میں اپنے مال وجان سے جہاد کرو ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَهاجَرُوا وَجاهَدُوا بِأَمْوالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ الأنفال/ 72] جو لوگ ایمان لائے اور وطن چھوڑ گئے اور خدا کی راہ میں اپنے مال وجان سے جہاد کرتے رہے ۔ اور حدیث میں ہے (66) کہ جس طرح اپنے دشمن سے جہاد کرتے ہو اسی طرح اسی خواہشات سے بھی جہاد کیا کرو ۔ اور مجاہدہ ہاتھ اور زبان دونوں کے ساتھ ہوتا ہے چناچہ آنحضرت نے فرمایا (67) کہ کفار سے ہاتھ اور زبان دونوں کے ذریعہ جہاد کرو ۔ سبل السَّبِيلُ : الطّريق الذي فيه سهولة، وجمعه سُبُلٌ ، قال : وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل/ 15] ( س ب ل ) السبیل ۔ اصل میں اس رستہ کو کہتے ہیں جس میں سہولت سے چلا جاسکے ، اس کی جمع سبل آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل/ 15] دریا اور راستے ۔ لعل لَعَلَّ : طمع وإشفاق، وذکر بعض المفسّرين أنّ «لَعَلَّ» من اللہ واجب، وفسّر في كثير من المواضع ب «كي» ، وقالوا : إنّ الطّمع والإشفاق لا يصحّ علی اللہ تعالی، و «لعلّ» وإن کان طمعا فإن ذلك يقتضي في کلامهم تارة طمع المخاطب، وتارة طمع غيرهما . فقوله تعالیٰ فيما ذکر عن قوم فرعون : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء/ 40] ( لعل ) لعل ( حرف ) یہ طمع اور اشفاق ( دڑتے ہوئے چاہنے ) کے معنی ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے ۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ اپنے لئے استعمال کرے تو اس کے معنی میں قطیعت آجاتی ہے اس بنا پر بہت سی آیات میں لفظ کی سے اس کی تفسیر کی گئی ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ کے حق میں توقع اور اندیشے کے معنی صحیح نہیں ہیں ۔ اور گو لعل کے معنی توقع اور امید کے ہوتے ہیں مگر کبھی اس کا تعلق مخاطب سے ہوتا ہے اور کبھی متکلم سے اور کبھی ان دونوں کے علاوہ کسی تیسرے شخص سے ہوتا ہے ۔ لہذا آیت کریمہ : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء/ 40] تاکہ ہم ان جادو گروں کے پیرو ہوجائیں ۔ میں توقع کا تعلق قوم فرعون سے ہے ۔ فلح والفَلَاحُ : الظَّفَرُ وإدراک بغية، وذلک ضربان : دنیويّ وأخرويّ ، فالدّنيويّ : الظّفر بالسّعادات التي تطیب بها حياة الدّنيا، وهو البقاء والغنی والعزّ ، وإيّاه قصد الشاعر بقوله : أَفْلِحْ بما شئت فقد يدرک بال ... ضعف وقد يخدّع الأريب وفَلَاحٌ أخرويّ ، وذلک أربعة أشياء : بقاء بلا فناء، وغنی بلا فقر، وعزّ بلا ذلّ ، وعلم بلا جهل . ولذلک قيل : «لا عيش إلّا عيش الآخرة» وقال تعالی: وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت/ 64] ( ف ل ح ) الفلاح فلاح کے معنی کامیابی اور مطلب وری کے ہیں اور یہ دو قسم پر ہے دینوی اور اخروی ۔ فلاح دنیوی ان سعادتوں کو حاصل کرلینے کا نام ہے جن سے دنیوی زندگی خوشگوار بنتی ہو یعنی بقاء لمال اور عزت و دولت ۔ چناچہ شاعر نے اسی معنی کے مدنظر کہا ہے ( نحلع البسیط) (344) افلح بماشئت فقد یدرک بالضد عف وقد یخدع الاریب جس طریقہ سے چاہو خوش عیشی کرو کبھی کمزور کامیاب ہوجاتا ہے اور چالاک دہو کا کھانا جاتا ہے ۔ اور فلاح اخروی چار چیزوں کے حاصل ہوجانے کا نام ہے بقابلا فناء غنا بلا فقر، عزت بلا ذلت ، علم بلا جہلاسی لئے کہا گیا ہے (75) لاعیش الاعیش الاخرۃ کہ آخرت کی زندگی ہی حقیقی زندگی ہے اور اسی فلاح کے متعلق فرمایا : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت/ 64] اور زندگی کا مقام تو آخرت کا گھر ہے ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٣٥) رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم پر ایمان رکھنے والو اوامر خداوندی میں اس سے ڈرو اور اعلی درجات کو طلب کرو یا یہ کہ اعمال صالحہ کے ذریعے قرب خداوندی طلب کرو تاکہ اللہ تعالیٰ کے غصہ اور عذاب سے نجات حاصل پاؤ اور مطمئن ہو۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣٥ (یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَابْتَغُوْٓا اِلَیْہِ الْوَسِیْلَۃَ ) یہاں لفظ وسیلہ قابل غور ہے اور اس لفظ نے کافی لوگوں کو پریشان بھی کیا ہے۔ لفظ وسیلہ اردو میں تو ذریعہ کے معنی میں آتا ہے ‘ یعنی کسی تک پہنچنے کا کوئی ذریعہ بنا لینا ‘ سفارش کے لیے کسی کو وسیلہ بنا لینا۔...  لیکن عربی زبان میں وسیلہ کے معنی ہیں قرب۔ بعض الفاظ ایسے ہیں جن کا عربی میں مفہوم کچھ اور ہے جبکہ اردو میں کچھ اور ہے۔ جیسے لفظ ذلیل ہے ‘ عربی میں اس کے معنی کمزور جبکہ اردو میں کمینے کے ہیں۔ جیسا کہ ہم پڑھ آئے ہیں : (وَلَقَدْ نَصَرَکُمُ اللّٰہُ بِبَدْرٍ وَّاَنْتُمْ اَذِلَّۃٌ ج) (آل عمران : ١٢٣) یعنی اے مسلمانو ! یاد کرو اللہ نے تمہاری مدد کی تھی بدر میں جب کہ تم بہت کمزور تھے۔ اب اگر یہاں ذلیل کا ترجمہ اردو والا کردیا جائے تو ہمارے ایمان کے لالے پڑجائیں گے۔ اسی طرح عربی میں جہل کے معنی جذباتی ہونا ہے ‘ اَن پڑھ ہونا نہیں۔ ایک پڑھا لکھا شخص بھی جاہل یعنی جذباتی ‘ اکھڑ مزاج ہوسکتا ہے لیکن اردو میں جاہل عالم کا متضاد ہے ‘ یعنی جو اَن پڑھ ہو۔ اسی طرح کا معاملہ لفظ وسیلہ کا ہے۔ اس کا اصل مفہوم قرب ہے اور یہاں بھی یہی مراد لیا جائے گا۔ یہاں ارشاد ہوا ہے : اے ایمان والو ‘ اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور (آگے بڑھ کر) اس کا قرب تلاش کرو تقویٰ کے معنی ہیں اللہ کے غضب سے ‘ اللہ کی ناراضگی سے اور اللہ کے احکام توڑنے سے بچنا۔ یہ ایک منفی محرک ہے ‘ جبکہ قرب الٰہی کی طلب ایک مثبت محرک ہے کہ اللہ کے نزدیک سے نزدیک تر ہوتے چلے جاؤ۔ لیکن اس کے قرب کا ذریعہ کیا ہوگا ؟ (وَجَاہِدُوْا فِیْ سَبِیْلِہٖ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ ) ۔ اس سے بات بالکل واضح ہوگئی کہ تقرّب الی اللہ کے لیے جہاد کرو۔ تقویٰ شرط لازم ہے۔ یعنی پہلے جو حرام چیزیں ہیں ان سے اپنے آپ کو بچاؤ ‘ جن چیزوں سے روک دیا گیا ہے ان سے رک جاؤ اور اللہ کی نافرمانی سے باز آجاؤ۔ اور پھر اس کا تقرب حاصل کرنا چاہتے ہو تو اس کی راہ میں جدوجہد کرو۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

58. People are urged to solicit all means which might bring them close to God and enable them to please Him. 59. The English imperative 'strive hard' does not do full justice to the actual word used in the Qur'an: jahidu. The verbal form mujahadah signifies and carries the nuance of doing something in defiance of, or in opposition to someone. The true sense of the Qur'anic injunction 'strive hard... ' in the way of Allah is that the Muslims ought to use all their strength and engage in vigorous struggle against those forces which either forcefully prevent them from living in obedience to God or force them to live in obedience to others than God. It is this struggle which is likely to lead man to his true success and bring him to a close relationship with God. This verse directs the believer to engage in a ceaseless, multifrontal struggle. On one side is the accursed Satan with his horde. Then comes the animal spirit of man, with its defiant and refractory desires. Then there are many men who have turned away from God, but with whom one is linked by social, cultural and economic ties. Then there are false religious, cultural and social systems which rest on rebellion against God and which force man to worship falsehood rather than Truth. These rebellious forces use different means to achieve their end, but those ends are always the same - to make men serve them rather than God. But man's true progress and his attainment of close communion with God depends entirely on his total obedience to God, on his serving God unreservedly in the inner as well as in the external aspects of his life. He cannot achieve this objective without engaging in simultaneous combat with all the forces which are defiant and rebellious towards God, carrying on an unceasing struggle against them and trampling down all obstructions to his advancement along God's path.  Show more

سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :58 یعنی ہر اس ذریعہ کے طالب اور جویاں رہوں جس سے تم اللہ کا تقرب حاصل کر سکو اور اس کی رضا کو پہنچ سکو ۔ سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :59 اصل میں لفظ جَاھِدُوْ استعمال فرمایا گیا ہے جس کا مفہوم محض ”جدوجہد“ سے پوری طرح واضح نہیں ہوتا ۔ مجاہدہ کا لفظ مقابلہ کا مقت... ضی ہے اور اس کا صحیح مفہوم یہ ہے کہ جو قوتیں اللہ کی راہ میں مزاحم ہیں ، جو تم کو خدا کی مرضی کے مطابق چلنے سے روکتی اور اس کی راہ سے ہٹانے کی کوشش کرتی ہیں ، جو تم کو پوری طرح خدا کی بندہ بن کر نہیں رہنے دیتیں اور تمیں اپنا یا کسی غیر اللہ کا بندہ بننے پر مجبور کرتی ہیں ، ان کے خلاف اپنی تمام امکانی طاقتوں سے کشمکش اور جدوجہد کرو ۔ اسی جدوجہد پر تمہاری فلاح و کامیابی کا اور خدا سے تمہارے تقرب کا انحصار ہے ۔ اس طرح یہ آیت بندہ مومن کو ہر محاذ پر چومکھی لڑائی لڑنے کی ہدایت کرتی ہے ۔ ایک طرف ابلیس لعین اور اس کا شیطانی لشکر ہے ۔ دوسری طرف آدمی کا اپنا نفس اور اس کی سرکش خواہشات ہیں ۔ تیسری طرف خدا سے پھرے ہوئے بہت سے انسان ہیں جن کے ساتھ آدمی ہر قسم کے معاشرتی ، تمدنی اور معاشی تعلقات میں بندھا ہوا ہے ۔ چوتھی طرف وہ غلط مذہبی ، تمدنی اور سیاسی نظام ہیں جو خدا سے بغاوت پر قائم ہوئے ہیں اور بندگی حق کے بجائے بندگی باطل پر انسان کو مجبور کرتے ہیں ۔ ان سب کے حربے مختلف ہیں مگر سب کی ایک ہی کوشش ہے کہ آدمی کو خدا کے بجائے اپنا مطیع بنائیں ۔ بخلاف اس کے آدمی کی ترقی کا اور تقرب خداوندی کے مقام تک اس کے عروج کا انحصار بالکلیہ اس پر ہے کہ وہ سراسر خدا کا مطیع اور باطن سے لے کر ظاہر تک خالصتًہ اس کا بندہ بن جائے ۔ لہٰذا اپنے مقصود تک اس کا پہنچنا بغیر اس کے ممکن نہیں ہے کہ وہ ان تمام مانع و مزاحم قوتوں کے خلاف بیک وقت جنگ آزما ہو ، ہر وقت ہر حال میں ان سے کشمکش کرتا رہے اور ان ساری رکاوٹوں کو پامال کرتا ہوا خدا کی راہ میں بڑھتا چلا جائے ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

29: وسیلہ سے یہاں مراد ہر وہ نیک عمل ہے جو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کا ذریعہ بن سکے اور مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے لئے نیک اعمال کو وسیلہ بناؤ۔ 30: جہاد کے لفظی معنی کوشش اور محنت کرنے کے ہیں، قرآنی اصطلاح میں اس کے معنی عام طور سے اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لئے دشمنوں سے لڑنے کے...  آتے ہیں ؛ لیکن بعض مرتبہ دین پر عمل کرنے کے لئے ہر قسم کی کوشش کو بھی جہاد کہا جاتا ہے، یہاں دونوں معنی مراد ہوسکتے ہیں۔   Show more

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(35 ۔ 37) ۔ اوپر ان لوگوں کا ذکر تھا جو دنیا کے تھوڑے سے مال و متاع کے لالچ میں پھنس کر مرتد ہوگئے تھے اور راہزنی کرنے لگے تھے۔ اسی ذیل میں مسلمانوں کو ان آیتوں میں اس طرح کے خیالات سے روکا اور فرمایا کہ ہر ایمان دار کو اس طرح کی باتوں سے ہمیشہ پرہیز لازم ہے اور یہ بھی لازم ہے کہ ہر ایمان دار شخص ہا... تھ سے پیر سے جان سے مال سے زبان سے غرض جس طرح ہو سکے خالص راہ خدا کے نیک کاموں میں لگا رہے تاکہ وہ نیک کام اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کے حاصل کرنے کا ذریعہ قرار ٢ ؎ پا سکیں پھر فرمایا کہ یہ باتیں جو بتائی گئیں ہیں یہی باتیں ایسی ہیں جن سے عقبیٰ میں انسان کی بہتری اور کامیابی کی صورت نکل سکتی ہے فِیْ سَبِیْلِہٖ کا یہ مطلب ہے کہ جو نیک کام خالص راہ خدا کی نیت سے نہ کیا جاوے گا بلکہ اس میں ریا کاری یا دنیا کے کسی اور مقصد کا دخل ہوگا ایسا کام نہ بار گاہ ِ الٰہی میں مقبول ہوسکتا ہے نہ وہ اللہ تعالیٰ کی رضامندی کے حاصل کرنے کا ذریعہ قرار پاسکتا ہے ابو داؤد اور نسائی میں ابی امامہ کی صحیح حدیث ہے جو اوپر گزرچکی ہے ٣ ؎۔ اس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو کام خالص راہ خدا کی نیت سے نہ کیا جاوے گا وہ رائیگاں ہے بارگاہ ِ الٰہی میں اس طرح کا نیک کام ہرگز قبول نہیں ہوسکتا ٤ ؎۔ یہ حدیث فِیْ سَبِیْلِہٖ کی گوتفسیر ہے جن لوگوں کا اوپر ذکر تھا آگے اس ذکر کو پورا کیا کہ وہ لوگ بڑے نادان ہیں جو دنیا کے تھوڑے سے مال و متاع کے لئے ایسے کام کرتے ہیں جس سے وہ عقبیٰ کو ہاتھ سے دے کر وہاں کا ہمیشہ کا عذاب اپنے سر پر لیتے ہیں کیونکہ دنیا کے تھوڑے مال و متاع کی تو کیا حقیقت ہے جو وہ عذاب کا معاوضہ قرار پاسکتے وہ عذاب تو ایسا بھاری اور لازمی ہے کہ تمام دنیا کے مال و متاع کو ایک جگہ کیا جا کر اسی قدر مال و متاع اس میں اور ملا یا جاوے تو یہ سب کچھ اس عذاب کا معاوضہ نہ ہو سکے گا قَدْ اَفْلَحَ الْمُوْمِنُوْنَ میں آوے گا کہ جب اس طرح کے دوزخی لوگ دوزخ سے نکالے جانے کی التجا اللہ تعالیٰ کی جناب میں پیش کریں گے تو اللہ تعالیٰ ان کو اس طرح دھتکار دے گا جس طرح کوئی کتے کو دھتکار دیتا ہے اور سورة زخرف میں آوے گا کہ عذاب کی سختی سے تنگ آن کر جب اس طرح کے دوزخی موت کی التجا اللہ تعالیٰ کی جناب میں پیش کریں تو یہ جواب ملے گا کہ دوزخ میں موت نہیں ہے تم کو ہمیشہ اسی حال میں رہناپڑے گا۔ یہ آیتیں آیت یریدون ان یخرجوا من النار وما ھم بخارجین منہا ولھم عذاب مقیم کی گویا تفسیر ہیں۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 8 یعنی رسول کی اطاعت میں جو نیکی کرو وہ قبول ہے اور بغیر اس کے عقل سے کرو سو وہ قبول نہیں (موضح) لفظ وسیلتہ توست الیہ سے فعیلتہ کے وزن پر ہے اس کی جمع ہے رسائل آتی ہے اس سے مراد ہر وہ نیکی یا عبارت ہے جس سے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہو اور وسیلتہ جنت میں ایک بلند درجہ بھی ہے جو نبی (صلی اللہ علیہ وآ... لہ وسلم) کے لے مخصوص ہے حدیث میں ہے یہ جس نے میری لیے وسلیہ کی دعا کی اس کے لیے میری شفاعت حلال ہوگئی (قرطبی) یہود کو اپنے نسب پر فخر تھا اور اس خوشی فہمی میں ہر قسم کے جرائم کا ارتکاب کرتے رہتے تھے اور اپنا آپ کو اللہ تعالیٰ کا محبوب سمجھتے تھے جیسا کہ اوپر کی آیات میں گزرچکا ہے اب اس آیت میں مسلمانوں کو تعلیم دی ہے کہ تم اگرچہ بہتر امت ہو اور تمہارا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی سب سے افضل ہے مگر تمہیں چاہیے کہ نیک اعما کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کوشش کرو اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرو تاکہ آخرت میں فلاح حاصل کرسکو یعنی یہود کی طرح بدعمل نہ بنو (کبیر)  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

رکوع نمبر 6 ۔ آیات نمبر 35 تا 43 ۔ اسرار و معارف : ان لوگوں سے بات چل رہی ہے جنہیں اپنے ایمان کا دعوی ہے اور بڑا لطف آتا ہے جب قرآن حکیم بڑے پیار بھرے انداز میں فرماتا ہے اے ایمان والو ! ایک شفقت کا پہلو ، ایک محبت کا انداز ، ایک ناصحانہ رنگ لے کر یہ خطاب فرماتا ہے کہ گناہ چھوڑ دو اللہ کی نافرمانی ... نہ کرو اور ایمان لا کر جو تعلق اللہ سے قائم کرلیا ہے اسے کمزور نہ پڑنے دو بلکہ اس کی مزید ترقی کے لیے کوشش کرتے رہو۔ وسیلہ کی تحقیق : اس کے لیے وسیلہ تلاش کرو۔ وسیلہ کا معنی علماء نے محبت سے یا پیار سے جڑنا لکھا ہے اگر یہ س سے لکھا جائے جیسا کہ یہاں ہے اور اگر ص سے لکھا جائے تو مطلقا جڑنا مراد ہوگا اس میں کسی کیفیت کا ہونا مراد نہ ہوگا یعنی ایسے کام کرو جن سے محبت الہی دلوں میں بڑھے یا جن کی برکت سے اللہ تمہیں اپنا محبوب بنا دے اور تم سے محبت کرنے لگے جیسے قرآن کریم میں ہی ارشاد ہے : فاتبعونی یحببکم اللہ میری پیرو کرلو ! اللہ تم سے محبت کرنے لگیں گے۔ تم فرائض دا کرو اور معاصی اور گناہ سے رک جاؤ کہ یہ ہمارے نبی کا حکم ہے اللہ تم سے محبت کرنے لگیں گے تم اس پر اضافہ کرو سنتیں اور نوافل اپنا لو کہ یہ ہمارے نبی کا کردار ہے اللہ کریم تم سے زیادہ محبت کرنے لگیں گے پھر باری آجاتی ہے مباحات کی یعنی ایسے کام جن میں کوئی طریقہ مقرر نہیں ہے ہے یا جن کے کرنے کی اجازت ہے مگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ساری زندگی وہ کام نہیں کیا یا لباس میں مطابقت وغیرہ ذلک مثلاً ایک بار سیدنا عمر فاروق (رض) کا نیا کرتہ آیا تو بازو اتفاقاً ذرا لمبا تھا چھری منگوائی ایک طرف سے پکڑا اور بیٹے سے فرمایا یہاں سے کاٹ دو اتنا زیادہ ہے اس نے عرض کیا ٹھہرئیے ! میں قینچی لاتا ہوں فرمایا نہیں چھری سے کاٹو۔ ایک بار نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کرتے کا بازو لمبا تھا تو آپ نے چھری سے کاٹ دیا تھا۔ اب ممکن ہے اس وقت قینچی میسر ہی نہ ہو اور یہ مباح تھا کاٹتے نہ کاٹتے مگر یہاں بھی اتباع نبوت کس قدر عزیز تھا۔ حضرت ابن عمر (رض) بوڑھے ہوچکے تھے حج پر جا رہے تھے اونٹ پر بیٹھے ہوئے راستے میں ایک جگہ جھک گئے اور پالان کے ساتھ لگ گئے پھر سیدھے ہوگئے احباب نے وجہ پوچھی تو کہنے لگے یہاں ایک بڑا درخت ہوتا تھا جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہاں سے گذرے تھے تو ناقہ مبارک پر اسی طرح جھک گئے تھے کہ شاخیں لگ نہ جائیں۔ تو کہا اب تو درخت نہیں ہے۔ فرمایا درخت تو نہیں ہے مگر آپ کی ادائیں تو باقی ہیں ہمیں درخت سے کیا لینا۔ سو اس طرح مباحات میں بھی اگر غلامی اپنا لو تو اور زیادہ محبت نصیب ہوجائے گی۔ اللہ کی طرف سے اور محبت الہی کا یہ خاصہ ہے کہ جب نصیب ہوتی ہے تو بندے کو بھی جوابا اللہ سے محبت ہوجاتی ہے ویسے بھی عام زندگی میں کسی سے محبت رکھو وہ تم سے محبت سے پیش آئے گا نفرت کرو منہ سے ایک لفظ نہ کہو وہ بھی نفرت کرنا شروع کردے گا یہ ہے حقیقت وسیلہ۔ اب اس ضمن میں جو عمل معاون ہو وہ بھی وسیلہ کہلاتا ہے اور جو انسان اس راہ میں معاون ہو وہ بھی وسیلہ کہلائے گا جیسے انبیاء ، صحابہ ، اولیاء اللہ اور نیک لوگ۔ علماء حق وغیرہ۔ یہ بھی ظاہر ہے کہ اعمال کے وسیلے سے دعا کرنا درست ہے تو اعمال بھی مخلوق ہیں سو نیک بندوں کے وسیلے سے بھی دعا کرنا درست ہے مگر آدمی وک اپنے مقصد کی اصلاح کرلینا ضروری ہے ایسا نہ ہو کہ انبیاء و صلحاء کے اسمائے گرامی جمع کرکے معمولی سی دنیاوی لذت پہ بیچ کھائے بلکہ وسیلہ اللہ کے لیے تلاش کرے یعنی اس کی بدولت اللہ کا قرب اور اس کی رضا تلاش کرے اور اس کی راہ میں جہاد کرو یا مجاہدہ کرو دونوں معنی درست ہیں کہ وسیلہ موجود ہو مگر مجاہدہ نہ کیا جائے تو کماحقہ فائدہ ممکن نہیں اور میرے خیال میں یہ تجربہ ایسے لوگوں سے پوچھنا چاہئے جن کو کسی صاحب حال کی مجلس نصیب تھی پھر کسی وجہ سے نہ رہی یا درمیان میں ملاقات کا عرصہ لمبا ہوگیا تو کیفیات کمزور پڑنا شروع ہوجاتی ہیں سو اس وسیلے سے فائدہ حاصل کرنے کے لیے خواہ وہ عمل ہو یا کوئی نیک انسان اپنی محنت بھی تو شرط ہے کہ جہاد جو تلوار سے ہوگا اس کی ضرورت تو وقت کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ فرض عین بھی ہوسکتا ہے فرض کفایہ بھی۔ مگر جو جہاد اپنے ساتھ اپنے نفس کے ساتھ برائی سے بچنے کے لیے یا نیکی پہ عمل کرنے کے لیے کرنا پڑتا ہے یہ جہد مسلسل ہے جس میں چھٹی کا کوئی تصور نہیں لہذا اس اللہ کی راہ میں مجاہدہ کرو اور پوری پوری محنت کرو کہ تم فلاح یعنی ہر دو جہاں کی کامیابی سے ہمکنار ہوسکو۔ قرآن حکیم جب فلاح کی خوشخبری دیتا ہے تو یہ فرد کی ذات زندگی سے شروع ہو کر خاندانی اور قومی ملکی زندگی پھر زندگی موت مابعد الموت اور میدان حشر تک کی کامیابی کو محیط ہوتی ہے لہذا اس کے مقابلے میں دولت دنیا کوئی شے نہیں نہ اس کی کوئی حیثیت ہے کہ اول تو ساری دولت کے مقابلے میں دولت دنیا کوئی شے نہیں نہ اس کی کوئی حیثیت ہے کہ اول تو ساری دولت ایک شخص کو مل جائے یہ عقلاً محال ہے دوسرے نہ صرف یہ کہ جو کچھ دنیا میں ہے وہ مل جائے بلکہ اتنا ہی اور مل جائے یعنی اس قدر دولت سونا چاندی جواہرات ہر چیز اور بھی مل جائے اور کفار یہ چاہیں کہ روز حشر کو عذاب کے بدلہ میں یہ دولت دے کر جان بچا سکیں گے تو اللہ کریم قبول نہیں فرمائیں گے کہ یہ سب کچھ بھی تو انہی کا ہے پھر بدلہ کیسا ؟ کوئی ذاتی چیز تھوڑی دے رہا ہے نیز کفر پر عذاب ہونا کفر کا منطقی انجام ہے اگرچہ یہ حسرت کافروں کو ہمیشہ تڑپاتی رہے گی کہ کاش ہم دوزخ سے نکل سکیں مگر ایسا کبھی نہیں ہوگا اور وہ کبھی نکلنے کا کوئی راستہ نہ پائینگے۔ بلکہ انہیں عذاب ہی ایسا دیا جائے گا جو دائمی اور ابدی ہوگا جس سے کبھی چھٹکارا پانے کی امید نہ رکھنی چاہئے اس لیے اول تو برائی سے اجتناب ضروری ہے۔ اور نہ صرف اللہ کی اطاعت بلکہ اللہ سے محبت کرو اور اللہ کی محبت کو جیتو۔ اس کام پر جان لڑا دو ، یہ معمولی کام نہیں ہے دولت دنیا معمولی شے ہے کہ آخرت کی گرفت سے بچا نہ سکے گی جبکہ یہ محبت وہاں سزوار دیدار کریگی اور سرفراز مکالمہ کرے گی۔ بہ بیں تفاوت راہ از کجاست تا بہ کجا۔ قانون کی نگاہ میں عورت اور مرد برابر ہیں : اور اگر مرد چوری کرے اور ثابت ہوجائے یا عورت چوری کرے اور پایہ ثبوت کو پہنچ جائے تو ان کے ہاتھ یعنی ایک بار میں ایک ہاتھ کاٹ دو کہ یہ ان کے کرتوت کی سزا بھی ہے اور اللہ کریم کی طرف سے عبرت بھی کہ جس سے دوسرے عبرت حاصل کریں اور معاشرہ سدھرا رہے انصاف قائم رہے یہ تب تک ہی ممکن ہے جب اللہ کا خوف رکھتے ہوئے اللہ سے محبت کرتے ہوئے اللہ کی اطاعت کرتے ہوئے ، صحیح انصاف کیا جائے ورنہ اللہ خود ہر چیز پہ غالب ہے اور یہ اس کی حکمت ہے کہ انسان کو آزمائش میں ڈال دیا اور ایک پرکھ قائم کردی۔ توبہ کا دروازہ پھر بھی کھلا ہے سزا تو معاف نہ ہوگی ہاں اللہ کا قرب حاصل کرنے کے لیے اخروی رسوائی سے بچنے کے لیے اگر کسی بڑے سے بڑے گناہگار نے بھی توبہ کرلی اور اپنی اصلاح کرلی کہ توبہ کی حقیقت تو اصلاح احوال ہے اصل بات تو یہ ہے کہ اپنی اصلاح بھی کرے۔ صرف زبانی توبہ توبہ کہنے سے تو مقصد حاصل نہ ہوگا۔ تو اللہ یقیناً توبہ قبول فرماتا ہے اور وہ تو بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہی ہے یہی اس کی شان اور اس کی عظمت ہے۔ ورنہ اے مخاطب ! کیا تو نہیں جانتا کہ ارض و سما کی اصل حکومت تو اس کے دست قدرت میں ہے جسے چاہے عذاب کرے جب چاہے پکڑے جو چاہے سزا دے اور جسے چاہے معاف فرما دے مگر وہ کس قدر حلیم ہے بردبار ہے اور برداشت کرتا ہے لوگوں کو بےبس انسانوں کو جو تھوڑی تھوڑی حیثیت تھوڑے سے وقت کے لیے حاصل کرلیتے ہیں پھر اسے بھول جاتے ہیں اور اس کی زمین پر اس کے ملک میں اس کا رزق کھا کر اسی کی نافرمانی بھی کرتے ہیں۔ حالانکہ وہ ایسا قادر ہے کہ جو چاہے کرسکتا ہے جب چاہے کرسکتا ہے نہ کسی سے اجازت طلب کرنے کی ضرورت ہے اسے نہ کسی کی مدد درکار ہے مگر عفو و درگذر سے کام لیتا ہے ایسے آخرت میں بھی تو اس کی رحمت کے کرشمے سے دیکھے گا ہاں ، اگر کوئی بدنصیب بالکل ہی بغیر توبہ کے گذر گیا تو یہ اس نے اپنے ساتھ خود زیادتی کی کفر پر مرا تو ہمیشہ جہنم اس کا مقدر ہے اور اگر گناہ پر موت آئی تو پھر بھی امید مغفرت ہے کہ اس کی رحمت بہت وسیع ہے۔ سبحان اللہ ! کیا انداز تخاطب ہے ایمان والوں کے ساتھ کتنا شفقت بھرا بیان تھا اور پھر یہاں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ کس قدر پیار بھرا انداز ہے ! فرمایا اے رسول ! یہ بدنصیب جو ترا دامن رحمت تھامنے کی بجائے بھاگ بھاگ کر کفر میں گرتے ہیں آپ ان کا غم نہ کیا کریں۔ میری مراد منافقین سے ہے جن کی زبانیں کلمہ پڑھتی ہیں۔ مگر دل ایمان نہیں لاتے یا یہود میں سے ہوں کہ یہ لوگ بھی بدبختی میں کم نہیں تو رحمت عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چونکہ ساری کائنات کے لیے اللہ کی رحمت ہیں اس لیے آپ کو تو انسانیت کے ایک ایک فرد کے ضائع ہونے پر رنج کا پہنچنا قدرتی بات تھی مگر یہ بات امید افزا تو ان گناہگاروں کے لیے ہے جو لاکھ گناہگار سہی مگر ہیں تو مسلمان اور آپ کی غلامی کی ترپ رکھتے ہیں ایسے لوگوں کو نہ اللہ محروم فرماتے ہیں نہ شفقت نبوی دوسری بات کہ اصل ایمان دل کا ایمان ہے اور تمام اعمال کی اصل قلب کے خلوص پر ہے کہ وہ کس درجہ کا ہے اسی کے مطابق اجر وثواب ہوگا اسی لیے تمام سلاسل تصوف ذکر قلبی پہ زیادہ زور دیتے ہیں کہ جب دل روشن ہوجائے تو باقی کام آسان ہوجاتا ہے اور اگر دل ہی روشن نہ ہو تو باقی کیا کرایا بھی تباہ ہوجاتا ہے۔ رہے یہودی ، فرمایا یہ ایسے بدبخت ہیں کہ جھوٹ سننے کی عادت ہوچکی ہے ان کے دل اس قدر سیاہ ہوچکے ہیں کہ حق کے مقابلے میں انہیں ان کے اپنے عالم جو غلط سلط اور جھوٹ سناتے ہیں۔ وہ پسند ہے اور اچھا لگتا ہے جبھی تو آپ پر ایمان نہیں لاتے یہاں یہ تنبیہ موجود ہے کہ کوئی مولوی ہو یا پیر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشادات اور سنت کے خلاف بدعات کو رواج دینے لگے تو اس کی پرواہ نہ کرنا چاہئے بلکہ اس کا رد کرنا ضروری ہے وہ کم از کم خود تو علیحدہ ہوجائے دوسری بری عادت یہودیوں میں لگائی بجھائی کرنے اور جاسوسی کرنے کی ہے اور یہ دوسروں کو جا کر بتانے کے لیے حضور کی مجلس میں آ کر سنتے ہیں اور پھر ایسے بدبخت ہیں ان سے بھی سچ نہیں بولتے سنتے کچھ ہیں بیان کچھ اور جا کر کرتے ہیں مدینہ منورہ میں تو براہ راست واسطہ آگیا مکی زندگی میں بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے رکاوٹ بننا یہ یہود کی زندگی کا مقصد رہا ہے اور اہل مکہ کو یوہد کے علماء مدینہ سے اعتراض سکھا کر بھیجا کرتے تھے کہ یہ جا کر کہو وہ جا کر کہو جن میں سے بعض کا تذکرہ قرآن کریم میں موجود ہے پھر مدینہ منورہ میں بار بار اہل مکہ کو حملہ کرنے پر اکسانے کے لیے انہوں نے بڑی محنت کی پھر قیصر و کسری کو اسلام کے مقابل لائے ان کی تباہی کے بعد مسلمانوں کے اندر خلاف اسلام کام کرنے والی تحریک شیعہ نام سے ترتیب دی جو اگرچہ اپنی تیاری میں بڑا لمبا عرصہ لے گئی اور جس کی بنیادی کتب عموماً تیسری اور چوتھی صدی کی ہیں مگر آج تک اسلام ان کے دل میں کانٹے کی طرح پیوست ہے خدا ان کے شر سے اسلام اور مسلمان دونوں کو پناہ دے۔ (آمین) تو وہاں یہود میں ایک قتل کا واقعہ ہوا جس کے بارے ان کے ہاں امیر اور غریب کیلئے جداگانہ قانون تھا کہ اگر بنو قریظہ جو یہود مدینہ کا اقیک قبیلہ تھا یہود ہی کے دوسرے قبیلے بنونضیر کا آدمی قتل کردے تو دو آدمی بدلے میں قتل کئے جائیں گے اور دگنا خون بہا بھی لیا جائے گا لیکن بنو نضیر چونکہ امیر تھے اگر ان کا آدمی بنو قریظہ کا بندہ قتل کرے تو صرف خون بہا دیا جائے گا دگنا بھی نہ ہوگا۔ ایسے ہی خیبر میں ایک شہزادے نے زنا کا ارتکاب کیا نہوں نے ملامت کرکے چھوڑ دیا غریب آدمی سے صادر ہو تو حد جاری کرتے۔ اس پر شور ہوا تو اگرچہ یہ ساری ناانصافی خود ان کی اپنی کتاب کے بھی خلاف تھی مگر انہوں نے چاہا کہ یہ مقدمے حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں پیش کریں اگر تو فیصلہ اپنی پسند کا ہوا جس کے لیے کچھ منافقین کی خدمات حاصل کی گئیں کچھ یہودیوں نے حاضر ہونا چاہا اور ارادہ یہی تھا کہ باتوں باتوں میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذہن عالی کو ایس ابنایا جائے کہ ہماری خواہش کے مطابق فیصلہ ہوجائے اور اگر ایسا نہ ہو تو مانیں گے یہاں ایسے ہی دو گروہوں کا ذکر ہورہا ہے اللہ کریم نے بذریعہ وحی اطلاع کردی کہ ایک گروہ ان میں سے منافق ہے دل سے مسلمان ہی نہیں اور دوسرا بظاہر بھی یہودی۔ سیاہ قلب اور برے اعمال رکھنے والے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں ایسے لوگوں کو جب اللہ مبتلائے فتنہ کرتا ہے تو آپ بھی ان کے لیے کچھ نہیں کرسکتے کہ انہوں نے خود اس قدر زہر پی لیا ہوتا ہے کہ ڈاکٹر کے بس سے بات نکل چکی ہوتی ہے اور ایسے ہی لوگ ہیں جن کے قلوب کو پاک کرنے کا کبھی ارادہ بھی نہیں کیا جاتا یعنی اللہ کریم اس طرح کے اعمال سے اس قدر ناراض ہوتے ہیں کہ پھر ایسے قلوب کبھی اپنے لیے اپنی یاد کے لیے اپنی تجلیات کے لیے پسند ہی نہیں فرماتے کہ انہیں توبہ کی توفیق نصہب ہو ایسے لوگوں کے لیے دنیا میں ذلت اور آخرت میں بہت بڑا عذاب ہے کہ یہ جھوٹ سننے کے اور حرام کھانے کے عادی ہوچکے ہیں جھوٹ سننے کی اصل تو یہ ہے کہ حق کو چھوڑ کر محض رسومات کو بدعات اور رواجات کو دین سمجھ لیا جائے مگر ہر جھوٹ کا سننا اپنا ایک اثر ضرور چھوڑتا ہے پہلے کا بہت زیادہ ہوتا ہے فوری ہوتا ہے اور زیادہ نقصان دہ دوسرے عام زندگی میں جو ہوتا ہے اس کا اثر اس کی نسبت ذرا کم نقصان دہ مگر فائدہ تو وہ بھی نہیں دیتا جھوٹ بولنا کس قدر نقصان دیتا ہوگا۔ اس کی نسبت جب سننے سے یہ حال ہوتا ہے اور حرام کھانا بھی دل کو سیاہ کردیتا ہے اور اعمال کی توفیق سلب کرلیتا ہے منافقانہ طور پر دکھاوے کے لیے کچھ رہ بھی جائے تو کیا ؟ در اصل کچھ نہیں بچتا۔ مولانا مفتی محمد شفیع مرحوم (رح) نے لکھا ہے کہ سحت سے مراد وہ اجرت ہے جو کوئی آدمی اس کام پر لیتا ہے جس کی اسے تنخواہ دی جاتی ہے جیسے دفاتر کے کلرک آفیسرز پولیس یا مختلف محکمے جو ان کے فرائض میں داخل ہے کرکے اس پر پیسے لیتے ہیں تو یہ سحت ہے اور اگر پیسے لے کر ناجائز کرتے ہیں تو یہ رشوت ہے اس میں لینے والا اور دینے والا دونوں برابر گناہگار ہیں۔ یہ تو ہے ان کا حال ظاہر کا بھی اور ان کے دلوں کا بھی ، اب یہ نہ آپ کے زیر نگیں اسلامی ریاست میں ہیں اور نہ فی الحال کوئی معاہدہ ہے لہذا اگر آئیں تو آپ پسند فرمائیں تو فیصلہ کردیں نہ پسند فرمائیں نہ کریں کہ آپ کی ذمہ داری میں داخل نہیں ہاں ! اگر فیصلہ کریں تو پھر پورے انصاف سے کیجئے گا کہ اللہ انصاف کرنے والوں ہی کو دوست رکھتا ہے اور اسلام انصاف کے معاملہ میں دوستی دشمنی کا قائل نہیں حق و ناحق کا قائل ہے اور حق پر فیصلہ دیا جائے یہ اللہ کو پسند ہے خواہ حق کافر کا بنتا ہو اور جب خود ان کے پاس اللہ کی کتاب موجود ہے تو یہ آپ سے فیصلہ کیوں چاہتے ہیں ؟ کیا وہاں فیصلہ موجود نہیں ہے اس سے کیوں بھاگتے ہیں ؟ چناچہ آپ نے دونوں کا فیصلہ حق کے مطابق کردی اتو یہودی چیخ اٹھے فرمایا اپنے سب سے بڑے عالم کو لاؤ ! چناچہ ابن صوریابہت بڑا فاضل تھا وہ لایا گیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تجھے تورات ہی کی قسم دی جاتی ہے۔ بتا زانی کی سزا تورات میں کیا ہے ؟ کہنے لگا اصل میں ہم میں سے ایک شہزادے سے جرم سرزد ہوا بجائے سنگسار کرنے کے ملامت کرکے چھوڑ دیا اس طرح وہ قانون بن گئے غریبوں کے لیے اور قانون ، امیروں کے لیے دوسرا قانون ، ورنہ فو فیصلہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دیا ہے وہی پہلے سے ہمارے ہاں تورات میں موجود ہے سو جب پہلے سے اللہ کی کتاب کو نہ مان کر کافر ہو رہے تھے پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مبعوث ہونے کا انکار کردیا مزید کفر میں دھنس گئے۔ ایسے لوگ کیا مان کے مریں گے۔  Show more

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

آیت نمبر 35 لغات القرآن : ابتغوا (تم تلاش کرو) ۔ الوسیلۃ (وسیلہ ۔ نزدیکی ) وسیلہ جنت کا ایک مقام بھی ہے ) ۔ جاھدوا (تم جہاد کرو۔ کوشش کرو) ۔ تشریح : ایمان والوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ تم اللہ سے ڈرو اس کے بعد جرائم چھوڑ کر وہ طریقے اختیار کرو جن سے اللہ خوش ہو اور اس تک قربت حاصل کرنے کا ذریعہ ... ڈھونڈوجن میں سب سے بڑا ذریعہ جہاد ہے ۔ جہاد کروگے تو دین ودنیا میں فلاح پاؤ گے ۔” اللہ کا تقویٰ اختیار کرو “ سورة مائدہ کی پچھلی آیات میں مسلسل آرہا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ کتنا اہم ہے ۔” اس تک پہنچنے کا وسیلہ ڈھونڈو “ ۔ یہاں وسیلہ سین سے ہے صاد سے نہیں ۔ ص سے وصیلہ کے معنی ہیں کوئی چیز بھی جو جوڑتی ہو لیکن ” سین “ سے وسیلہ کے معنی ہیں ہر وہ چیز جو بندہ کور غیب و محبت کے ساتھ اپنے معبود سے قریب کردے ۔ سلف صالحین نے اس آیت میں وسیلہ کی تفسیر اطاعت ، قربت اور ایمان وعمل صالح سے کی ہے ۔ یہ بھی بتادیا ہے کہ سب سے اہم وسیلہ کون سا ہے وہ جہادفی سبیل اللہ ہے ۔ یہی ہے جس سے دین ودنیا کی فلاح وابستہ ہے ۔ فرمایا گیا جو صلاحیتیں تم جرائم میں صرف کررہے ہو جس میں دین ودنیا کے نقصان کے سوا کچھ نہیں ہے ۔ ان صلا حیتیوں کو جہاد میں لگا دو ۔ جہاد نام ہے نظام اسلام نافذ کرنے کے لئے سر توڑ کوشش کرنا۔ تنظیم ، تدبیر اور تدبر کر ساتھ ایک جماعت حقہ میں شامل ہونا ۔ حضور ہر نور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی تنہا جہاد نہیں کیا ہے بلکہ ایک جماعت حقہ کو ساتھ لیا ہے ۔ جہاد کے لئے تنظیم ضروری ہے اور تنظیم کے لئے تبلیغ۔ جہاد وہ واحد عبادت ہے جس میں تمام عبادتیں جمع ہوجاتی ہیں ۔ گویا تمام عبادتوں کے مجموع کا نام جہاد ہے۔ جہاد کے معنی ہیں جدوجہد یعنی سرتوڑ کوشش۔ دامے ، درمے ، قدمے ، سخت ، لیکن ایک تنظیم کے اندر آکر۔ جہاد انفرادی نہیں ہے بلکہ اجتماعی ہے ۔ یہاں پر یہ بھی معنی ہیں کہ جہاد کے بغیر اسلامی ریاست قائم نہیں ہوسکتی ۔ اگر قائم ہے تو قائم رہ نہیں سکتی۔ اور اسلامی ریاست کے بغیر جرائم وسزا کی اسلامی عدالت قائم نہیں ہوسکتی ۔  Show more

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

6۔ وہ کامیابی اللہ کی رضامندی کا حاصل ہونا اور دوزخ سے نجات ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : یہود و نصاریٰ کی طرح خدا کی نافرمانی اور اس سے دور ہونے کی بجائے اس کی قربت تلاش کرو۔ زمین میں دنگا فساد کرنے کی بجائے جہاد فی سبیل اللہ کے لیے اپنی قوت و طاقت استعمال کرو اس طرح تم کامیاب ہو گے۔ وسیلہ کی حقیقت : اردو میں وسیلہ کا معنی ہے ذریعہ اور واسطہ جس سے بیشمار مسلمانوں...  کو قرآن کے لفظ وسیلہ کے بارے میں غلط فہمی ہوئی ہے جبکہ قرآن مجید میں اس کا معنی اللہ تعالیٰ کا قرب چاہنا ہے۔ ادھر ادھر کے واسطوں کے ذریعے نہیں بلکہ تقوٰی اور نیکی کے کاموں کے ذریعے اللہ تعالیٰ کے قریب ہونے کی کوشش کرو۔ حدیث میں وسیلہ کا معنی مقام علیا ہے جس پر فائز ہو کر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قیامت کے دن رب کریم کے حضور سجدہ ریز ہو کر امت کی سفارش کریں گے اس کا تذکرہ اذان کے بعد کی دعا میں موجود ہے۔ آپ نے اسی مقام کے لیے دعا کرنے کی تلقین کی ہے۔ یہ دنیا عالم اسباب ہے اس کا پورا نظام اسباب اور وسائل پر چل رہا ہے جب تک وسائل کو بروئے کار نہیں لایا جائے گا اس وقت تک دنیا کے معاملات صحیح سمت پر چلنے تو درکنار زندگی کا باقی رہنا ناممکن ہے۔ ایک شخص کتنا ہی متوکل علی اللہ کیوں نہ ہوا گر پیاس کے وقت پانی نہیں پیتا اور بھوک کے وقت کھانا نہیں کھاتا تو موت کا لقمہ بن جائے گا۔ بیمار کے لیے پرہیز اور دوائی لازم ہے۔ بغیر اسباب کے کسی چیز کو باقی رکھنا یہ صرف خالق کائنات کی قدرت کا کرشمہ ہے۔ لہٰذا شریعت نے کمزور کے ساتھ تعاون اور بےسہارا کو سہارا دینا اور بےوسیلہ کا وسیلہ بننے کا حکم دیا ہے۔ اس وسیلہ اور اسباب کو اللہ تعالیٰ کی ذات اور اختیارات کے بارے میں دلیل نہیں بنایا جاسکتا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کو کسی وسیلہ اور واسطہ کی ضرورت نہیں وہ مسبب الاسباب اور انسان کی شہ رگ سے زیادہ قریب اور دلوں کی دھڑکنوں کو جاننے والا ہے۔ توہین آمیز اور مضحکہ خیزمثال : لیکن آج کا خطیب وسیلے کے جواز کے لیے یہ کہتا سنائی دیتا ہے کہ پھر ایک دوسرے کی مدد کرنا ٗگاڑی استعمال کرنا اور عینک لگانا بھی شرک ہے۔ وہ جانتے ہوئے اس بات کو فراموش کردیتا ہے کہ دنیا کے معاملات میں اسباب اختیار کرنے کا شریعت میں حکم ہے۔ واعظ کا یہ بھی فرمان ہے کہ چھت پر چڑھنے کے لیے سیڑھی کی ضرورت ہے۔ اور افسر کو ملنے کے لیے کسی سفارش کا ہونا ضروری ہے۔ ذرا سوچئے چھت تو جامد اور ساکت ہے وہ اوپر سے نیچے نہیں آسکتی اور نہ ہی آدمی چھلانگ لگا کر چھت پر چڑھ سکتا ہے اس لیے سیڑھی کی ضرورت ہے۔ ایسے ہی افسر تو انسان ہے جب تک اسے معاملہ بتلایا نہ جائے۔ وہ نہیں جان سکتا یہاں تک کہ اس کے لیے سفارش ڈھونڈنے کا تعلق ہے وہ بھی ایک طرح کی کمزوری ہے۔ اللہ تعالیٰ تو ہر قسم کی کمزوریوں سے پاک ہے۔ اس کی قدرت وسطوت تو ہر جگہ موجود ہے وہ دلوں کی دھڑکنوں کو جانتا ہے یہاں تو وسیلے و سفارش اور سیڑھی کا تصور ہی نہیں کیا جاسکتا۔ لہٰذا آدمی کو کسی اعتبار سے بھی اس ذات کبریا کو اپنے آپ پر قیاس نہیں کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کو چھت اور انسان کے ساتھ مشابہ قرار دینا ناقابل معافی گناہ ہی نہیں بلکہ ذات کبریا کی شان میں پرلے درجے کی گستاخی ہے۔ وسیلہ کی گنجائش ہی نہیں : (وَلَقَدْ خَلَقْنَا الإِْنْسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِہٖ نَفْسُہٗ وَنَحْنُ اَقْرَبُ إِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ )[ ق : ١٦] ” اور بلاشبہ ہم نے ہی انسان کو پیدا کیا ہے اور ہم جانتے ہیں اس کا نفس جو وسوسے ڈالتا ہے اور ہم اس سے شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں۔ “ (اِنَّہُ عَلِیْمٌ بِذَات الصُّدُوْرِ ) [ الملک : ١٣]” بیشک وہ خوب جاننے والا ہے جو کچھ سینوں میں ہے۔ “ ذات کبریا کا احترام کرو : (فَلاَ تَضْرِبُوْا لِلّٰہِ الْاَمْثَالَ )[ النحل : ٧٤]” اللہ کے لیے ایسی مثالیں بیان نہ کیا کرو۔ “ (وَمَا قَدَرُوا اللّٰہَ حَقَّ قَدْرِہٖ )[ الزمر : ٦٧] ” اور نہ قدر پہچانی انھوں نے اللہ تعالیٰ کی جس طرح قدر پہچاننے کا حق تھا۔ “ اس عقیدہ کے اخلاقی اور دینی نقصانات : * انسان خود نیکی کرنے کی بجائے دوسرے کی نیکی پر بھروسہ کرتا ہے۔ * انسان توبہ کے ذریعے اللہ تعالیٰ کے قریب ہونے کے بجائے پہلے کی طرح دور رہتا ہے۔ * وسیلہ کی آڑ میں جعلی پیر لوگوں کی عزت اور مال لوٹتے ہیں۔ * اللہ تعالیٰ اپنے بارے میں وسیلہ اور واسطے کو پسند نہیں کرتا۔ * وسیلہ کے عقیدہ سے اللہ تعالیٰ کی توہین کا پہلو نکلتا ہے۔ * یہ طریقہ ہندوؤں اور غیر مسلموں کے مشابہ ہے۔ اخلاص اور انصاف کے ساتھ فیصلہ کیجیے : ١۔ فوت ہونے والے بزرگ بیمار ہوئے، ہزار دعاؤں اور دواؤں کے باوجود صحت یاب نہ ہو سکے۔ ٢۔ فوت ہوئے تو گھر میں میت ہونے کے باوجود روتی ہوئی بیٹیوں، تڑپتی ہوئی والدہ، بلکتی ہوئی بیوی، سسکتے ہوئے بیٹے اور آہ و بکا کرنے والے مریدوں کو تسلی نہ دے سکے۔ ٣۔ شرم و حیا کے پیکر ہونے کے باوجود اپنے آپ استنجا کرسکے نہ غسل۔ ٤۔ زندگی میں خود اپنی قبر بنوانے والے بھی اپنے پاؤں پر چل کر قبر تک نہ پہنچ سکے۔ ٥۔ جو زندگی میں صرف پنجابی یا کوئی ایک زبان جانتے تھے فوت ہونے کے بعد قبر پر آنے والوں اور دوسری زبانوں میں فریاد کرنے والوں کی زبان سے کس طرح واقف ہوگئے ؟ ( ٦۔ جو خوداولاد سے محروم تھے دوسرے کو کس طرح اولاد عطا کرسکتے ہیں ؟ ٧۔ جو خراٹے لینے والی نیند یا کسی وجہ سے بےہوشی کے عالم میں دیکھ اور سن نہیں سکتے اب موت کے بعد کس طرح سننے اور دیکھنے کے قابل ہوئے ؟ ٨۔ جو زندگی میں دیوار کی دوسری طرف نہیں دیکھ سکتے تھے اب قبر کی منوں مٹی اور مضبوط پتھروں کے درمیان کس طرح دیکھ سکتے ہیں ؟ ٩۔ جو اپنی حالت سے کسی کو آگاہ نہیں کرسکتے۔ دوسرے کی حالت رب کے حضور کس طرح پیش کرسکتے ہیں ؟ ١٠۔ جو زندگی میں بیک وقت ایک یا دو ‘ تین آدمیوں سے زیادہ کی بات سن اور سمجھ نہیں سکتے تھے اب بیک وقت سینکڑوں، ہزاروں آدمیوں کی فریاد کس طرح سن سکتے ہیں ؟ وسیلے تو خود اللہ تعالیٰ کے محتاج ہیں : (یَٓایُّھَا النَّاسُ ضُرِبَ مَثَلٌ فَاسْتَمِعُوْا لَہٗ إِنَّ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ لَنْ یَّخْلُقُوْا ذُبَابًا وَّلَوِاجْتَمَعُوْا لَہٗ وَإِنْ یَّسْلُبْھُمُ الذُّبَابُ شَیْءًا لَّا یَسْتَنْقِذُوْہُ مِنْہُ ضَعُفَ الطَّالِبُ وَالْمَطْلُوْبُ ) [ الحج : ٧٣] ” اے لوگو ! ایک مثال بیان کی جارہی ہے پس غور سے سنو اسے ! بیشک جن معبودوں کو تم پکارتے ہو اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر یہ تو مکھی بھی پیدا نہیں کرسکتے اگرچہ وہ سب جمع ہوجائیں اس (معمولی سے) کام کے لیے اور اگر چھین لے ان سے مکھی بھی کوئی چیز تو وہ نہیں چھڑا سکتے اسے اس مکھی سے (آہ ! ) کتنا بےبس ہے ایسا طالب اور کتنا بےبس ہے ایسا مطلوب۔ “ (تفسیر ضیاء القرآن) اللہ تعالیٰ کے اسماء اور صفات کو وسیلہ بنائیں : سمع اطاعت کا تقاضا یہ ہے کہ بندۂ مسلم اللہ تعالیٰ کے حضور وہی واسطہ اور وسیلہ پیش کرے جس کی ذات کبریا نے اجازت دے رکھی ہے۔ ایک احمق ترین شخص بھی جان بوجھ کر یہ حرکت نہیں کرسکتا کہ جس سے وہ کچھ مانگنا چاہتا ہے وہ اپنے محسن کے سامنے ایسا طریقہ اختیار کرے کہ جس سے وہ عطا کرنا تو درکنار الٹا ناراض ہوجائے۔ لہٰذا دانش مندی کا تقاضا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق اس کے اسمائے مبارکہ اور صفات مقدسہ کو وسیلہ بنایا جائے۔ سرور دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی شخصیت کے واسطے ‘ حرمت ‘ صدقے اور طفیل کی بجائے اللہ کی صفات کے واسطے سے دعا کیا کرتے تھے۔ (وَلِلّٰہِ الْاَسْمَاءُ الْحُسْنٰی فَادْعُوْہُ بِھَا) [ الأعراف : ١٨] ” اللہ تعالیٰ کے نہایت ہی خوبصورت نام ہیں انہی ناموں سے دعا کیا کرو۔ “ (اَللّٰہُمَ بَدِیْعُ السَّمٰوٰتِ وَالْأَرْضِ ذُوْالْجَلاَلِ وَالإِْکْرَامِ وَالْعِزَّۃِ الَّتِی لاَ تَرَامُ أَسْأَلُکَ یَااَللّٰہُ یَارَحْمٰنُ بِجَلاَلِکَ وَنُوْرِ وَجْہِکَ ) [ رواہ الترمذی : باب فی دعاء الحفظ ] ” اے زمین و آسمان کو ابتداء سے پیدا کرنے والے ‘ اے ذوالجلال والاکرام تیری عزت کو پانے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا اے اللہ ‘ اے رحمٰن تیرے جلال اور تیرے چہرے کے جمال کے واسطے سے ہم تجھ سے مانگتے ہیں۔ “ (یَا رَبِّ لَکَ الْحَمْدُ کَمَا یَنْبَغِی لِجَلَالِ وَجْہِکَ وَلِعَظِیمِ سُلْطَانِکَ ) [ رواہ ابن ماجۃ : کتاب الاداب، باب فضل الحامدین ] ” اے اللہ ! تیرے لیے تمام تعریفات ہیں جس طرح تیرے چہرے کی جلالت اور عظیم با دشاہی کے لائق ہے۔ “ (عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ أَنَّہُ سَمِعَ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُولُ إِذَا سَمِعْتُمْ الْمُؤَذِّنَ فَقُولُوا مِثْلَ مَا یَقُولُ ثُمَّ صَلُّوا عَلَیَّ فَإِنَّہُ مَنْ صَلّٰی عَلَیَّ صَلَاۃً صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ بِہَا عَشْرًا ثُمَّ سَلُوا اللّٰہَ لِی الْوَسِیلَۃَ فَإِنَّہَا مَنْزِلَۃٌ فِی الْجَنَّۃِ لَا تَنْبَغِی إِلَّا لِعَبْدٍ مِنْ عِبَاد اللّٰہِ وَأَرْجُو أَنْ أَکُونَ أَنَا ہُوَ فَمَنْ سَأَلَ لِی الْوَسِیلَۃَ حَلَّتْ لَہُ الشَّفَاعَۃُ )[ رواہ مسلم : کتاب الصلوۃ، باب اسْتِحْبَابِ الْقَوْلِ مِثْلَ قَوْلِ الْمُؤَذِّنِ ] ” حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص (رض) بیان کرتے ہیں بلاشبہ انہوں نے نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب تم مؤذن کی اذان سنوتو اس کے ساتھ وہی کلمات دہراتے چلے جاؤ پھر مجھ پر درود پڑھو۔ اذان کے بعد جس نے مجھ پر درود پڑھا۔ اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں نازل فرمائے گا۔ اس کے بعد میرے لیے اللہ تعالیٰ سے وسیلہ طلب کرو بلاشبہ وہ جنت کا بلند ترین مقام ہے۔ جو اللہ کے بندوں میں سے ایک بندے کو نصیب ہوگا مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے ہی وہ عطا کرے گا۔ جس مسلمان نے میرے لیے اس مقام کی دعا کی میری سفارش اس پر واجب ہوگی۔ “ مسائل ١۔ ایمان والوں کو اللہ تعالیٰ سے ڈرنا چاہیے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کا قرب تلاش کرنا چاہیے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کے راستہ میں جہاد کرنا چاہیے۔ ٤۔ کافر زمین و آسمان کے خزانے خرچ کرکے بھی اللہ کے عذاب سے نہیں بچ سکتے ٥۔ کفار کے لیے المناک عذاب ہوگا۔ تفسیر بالقرآن وسیلہ کی حیثیت : ١۔ اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اس کی طرف وسیلہ تلاش کرو۔ (المائدۃ : ٣٥) ٢۔ جن کو یہ لوگ پکارتے ہیں وہ خود اللہ کا قرب تلاش کرتے ہیں۔ (الاسراء : ٥٧) ٣۔ وسیلہ کی ضرورت نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ بندے کے قریب تر ہے۔ (البقرۃ : ١٨٦) ٤۔ وسیلہ کی ضرورت نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ انسان کی شہ رگ سے زیادہ قریب ہے۔ (ق : ١٦)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(آیت) ” نمبر ٣٥ تا ٣٧۔ اسلامی نظام نفس انسانی کی اصلاح کے لیے ہر ذریعہ استعمال کرتا ہے اور اسے ہر پہلو سے گھیرتا ہے ۔ اسلامی نظام انسانی شخصیت کے باطن کی اصلاح بھی ضروری سمجھتا ہے ۔ وہ تمام ذرائع استعمال کرکے اسے اللہ کی اطاعت پر آمادہ کرتا ہے اور معصیت کردگار سے روکتا ہے ۔ اسلامی نظام زندگی کا مقص... د اولیں اصلاح فرد ہے اور ایک فرد کو ہر قسم کے انحراف سے بچانا مطلوب ہے ۔ اور سزا دہی کا نظام بھی ایک فرد بشر کی اصلاح ہی کا ایک ذریعہ ہے ۔ سزا دہی اصل مقصد ہے ہی نہیں ۔ ذرا اس سبق پر غور کیجئے کہ یہ حضرت آدم (علیہ السلام) کے دو بیٹوں کے واقعہ سے شروع ہوتا ہے ۔ اس سبق میں جا بجا اشارات ہیں ۔ اس کے بعد اس میں سزا کا اعلان کیا جاتا ہے تاکہ دلوں کو اس کی طرف جانے سے روکا جائے ۔ پھر خدا خوفی کی دعوت دی جاتی ہے اور خدا کے عذاب آخرت سے ڈرایا جاتا ہے اور سزا کی اس خوفناک تصویر کشی کے ساتھ ساتھ کہا جاتا ہے ۔ (آیت) ” یایھا الذین امنوا اتقوا اللہ “ (٥ : ٣٥) (اے لوگو جو ایمان لائے ہو اللہ سے ڈور) یعنی مناسب یہی ہے کہ اصل خوف اللہ کا خوف ہے ‘ اور انسان جو اکرم المخلوقات ہے ‘ اس کے شایان شان بھی یہ ہے کہ وہ خدا سے ڈرے ۔ کوڑے اور تلوار اور ڈنڈے سے ڈرنا تو ایک گرا ہوا مقام ہے اور ڈنڈے کے ذریعے اصلاح کی تو صرف ان لوگوں کو ضرورت ہوتی ہے تو لوگ گرے ہوئے ہوتے ہیں ۔ خدا ترسی تو ایک بہتر ‘ پاکیزہ تر اور شریفانہ مقام ہے ۔ پھر خدا ترسی ایک ایسا چوکیدار ہے جو دلوں میں بیٹھا ہوتا ہے جو اعلانیہ اور خفیہ دونوں حالتوں میں سر پر بیٹھا ہوتا ہے ۔ جن حالات میں انسان لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہوتا ہے ۔ اس وقت بھی تقوی اس کا نگران ہوتا ہے ۔ ایسے معاملات میں صرف تقوی ہی بدی اور شر سے روکتا ہے ‘ جن میں انسان قانون کی گرفت سے دور ہوتا ہے ۔ یہ بات اچھی طرح یاد رکھنے کے لائق ہے کہ تقوی کے بغیر قانون کی گرفت ڈھیلی ہوتی ہے ‘ کیونکہ جو مجرم قانون کی گرفت سے بچ نکلتے ہیں ان کی تعداد ان لوگوں سے کئی گنا زیادہ ہوتی ہے جو قانون کی گرفت میں آجاتے ہیں ۔ جو معاشرہ صرف قانون پر قائم ہوتا ہے اس میں نہ کسی فرد کی اصلاح ہوتی ہے اور نہ اس معاشرے کی اصلاح ہوتی ہے ۔ قانون کے پیچھے ایک پوشیدہ چوکیدار کا ہونا ضروری ہے اور یہ چوکیدار صرف خدا خوفی کا چوکیدار ہوتا ہے جو ہر دل میں بوجہ خدا ترسی اور تقوی بیٹھا ہوتا ہے ۔ (آیت) ” وابتغوا الیہ الوسلۃ “۔ (٥ : ٣٥) (اور اس کی جناب میں باریابی کا ذریعہ تلاش کرو) اللہ سے ڈرو اور اس تک جانے کا وسیلہ تلاش کرو ‘ اور ان اسباب کی تلاش کرو جو تمہیں اللہ کے ساتھ جوڑتے ہیں ۔ حضرت ابن عباس (رض) سے ایک روایت ہے (آیت) ” وابتغوا الیہ الوسلۃ “۔ (٥ : ٣٥) (یعنی اس سے اپنی حاجات طلب کرو) کا مطلب یہ ہے کہ انسان جب اللہ کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں اور پھر اپنی حاجات اللہ سے طلب کرتے ہیں تو وہ اس وقت بندگی کی صحیح پوزیشن میں ہوتے ہیں ۔ اس وقت اللہ کی ربوبیت پر انہیں پورا پورا یقین ہوجاتا ہے اور ایسے حالات میں وہ اصلاح اور فلاح دونوں کے قریب تر پہنچ جاتے ہیں ۔ یہ دونوں تفسیریں اس آیت کے الفاظ کے ساتھ لگا کھاتی ہے ۔ دونوں کے ذریعے دل کی دنیا کی اصلاح ‘ ضمیر اور روح کی زندگی اور وہ فلاح اخروی حاصل ہوتی ہے جو ہمارا نصب العین ہے ۔ (آیت) ” وجاھدوا فی سبیلہ لعلکم تفلحون “۔ (٥ : ٣٥) (اور اس کی راہ میں جدوجہد کرو ‘ شاید کہ تمہیں کامیابی نصیب ہوجائے) اس کے مقابلے میں کفار کا منظر آتا ہے ‘ جو اللہ سے نہیں ڈرتے اور جو اللہ تک پہنچنے کے لئے ذریعے کی تلاش نہیں کرتے ۔ اور آخرت میں کامیاب نہیں ہوتے ۔ یہ زندہ اور متحرک منظر ہے ‘ نظروں کے بالکل سامنے ۔ قرآن ‘ اس آیت کے بیان میں بیانیہ اور احکام قانون کا انداز اختیار نہیں کرتا بلکہ ان کے بارے میں حرکات اور تاثراقت پیش کئے جاتے ہیں ۔ شاید قیامت کے بیان میں قرآن کریم کا یہ ایک خاص اسلوب ہے اور اس سے بیان کے تمام اغراض ومقاصد حاصل ہوجاتے ہیں ۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل کرنے اور اس کی راہ میں جہاد کرنے کا حکم ان آیات میں اول اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کا اور اللہ تعالیٰ کا قرب تلاش کرنے کا حکم دیا ہے تمام طاعات فرائض، واجبات، سنن و نوافل یہ سب اللہ تعالیٰ کے قرب کا ذریعہ ہیں۔ قال النبی ان اللّہ قال من اٰذی لی ولیا فقد اٰذنتہ بالحرب وما تقرب الی ... عبدی بشی احب الی مما افتر ضتہ والا یزال عبدی یتقرب الی بالنو افل حتی احببتہ (الحدیث) (صحیح بخاری ص ٩٦٣) پھر اللہ کی راہ میں جہاد کرنے کا حکم دیا اور اس سب کو ذریعہ کامیابی بتایا۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

62 یَا اَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا الخ یعنی اللہ سے ڈرو اور نیک اعمال سے اس کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کرو اور جہاد کرو اور اللہ کی حدود قائم رکھو یہ کام تقرب خداوندی کا بہت بڑا ذریعہ ہیں۔ اَلْوَسِیْلۃَ یہ فَعِیْلَۃٌ کے وزن پر ہے اور اس سے مراد ہر وہ عبادت و قربت ہے جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ کا تقرب ح... اصل ہوسکے خواہ وہ نماز روزہ ہو یا زکوۃ و حج یا جہاد و اقامت حدود، ابو وائل، حسن، مجاہد، قتادہ، عطاء، سدی، ابن زید اور عبداللہ ابن کثیر فرماتے ہیں۔ الوسیلۃ ھی القربۃ (قرطبی ج 6 ص 159) ۔ یعنی وسیلہ کے معنی عبادت کے ہیں۔ علامہ آلوسی فرماتے ہیں۔ ھی فعیلۃ بمعنی ما یتوسل بہ و یتقرب الی اللہ عز و جل من فعل الطاعات و ترک المعاصی (روح ج 6 ص 124) امام نسفی فرماتے ہیں ھی کل ما یتوسل بہ فاستعیرت لما یتوسل بہ الی اللہ تعالیٰ من فعل الطاعت وترک السیئات (مدارک ج 1 ص 219) حاصل یہ ہے کہ وسیلہ سے مراد نیک عمل ہے خواہ وہ عمل صالح کی بجا آوری ہو یا گناہ کا ترک ہو وسیلہ کی پوری تحقیق سورة بنی اسرائیل کی تفسیر میں آئے گی انشاء اللہ تعالی۔ تو یہاں فرمایا کہ اللہ سے ڈرو اور نیک اعمال بجا لاؤ جہاد کرو اور اللہ کی حدیں قائم کرو ڈاکؤوں اور چوروں پر مقررہ حدیں جاری کرو۔ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ ۔ اس میں بشارت اخروی کی طرف اشار ہے۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 1 اے ایمان والو ! اللہ تعالیٰ کے احکام کی مخالفت سے ڈرتے رہو یعنی معاصی اور گناہ ترک کرو اور اس کی جناب میں قرب حاصل کرنے کا ذریعہ تلاش کرو یعنی اس کے احکام اور طاعات ضروریہ بجا لائو اور ان طاعات ضروریہ میں سے خاص طور پر اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کیا کرو توقع ہے کہ تم کامیاب ہو گے یعنی دنیا میں ... بھی سربلند اور ذی اقتدار ہو گے اور آخرت میں بھی اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور اس کا قرب حاصل کرو گے اور دوزخ سے بچ جائو گے۔ (تیسیر) حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں یعنی رسول کی اطاعت میں جو نیکی کرو وہ قبول ہے اور بغیر اس کے عقل سے کرو سو قبول نہیں (موضح القرآن) وسیلہ حصول مطلوب کے ذریعہ کو کہتے ہیں یہاں تقرب کے ساتھ سلف نے تفسیر کی ہے اور ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کا تقرب طاعات ہی سے حاصل ہوسکتا ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ وسیلہ ایک درجہ اور مرتبہ ہے اس سے اونچا کوئی درجہ اور مرتبہ نہیں ہے تم اللہ تعالیٰ سے میرے لئے وسیلہ طلب کیا کرو۔ بخارینے جابر بن عبد اللہ (رض) سے روایت کی ہے جو شخص اذان سن کر یوں کہتا ہے ۔ اللھم رب ھذہ الدعوۃ التآمۃ والصلوۃ القآئمۃ اب محمد الوسیلۃ والفضیلتہ وابعثہ مقاماً محمود الذی وعدثہ تو ایسے شخص کے لئے قیامت کے دن میری شفاعت حلال ہوجاتی ہے ۔ مسلم نے حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) سے روایت کی ہے کہ جب تم موذن کی اذان سنو تو مئوذن جس طرح کہتا ہے اسی طرح تم بھی کہو پھر مجھ پر درود پڑھو جو شخص مجھ پر درود پڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے پھر میرے لئے اللہ تعالیٰ سے وسیلہ طلب کرو یہ وسیلہ جنت میں ایک درجہ ہے جو اللہ کے نیک بندوں میں سوائے ایک بندے کے اور کسی کو نصیب نہ ہوگا اور مجھ کو یہ امید ہے کہ وہ بندہ میں ہوں تم میں سے جو شخص میرے لئے اللہ تعالیٰ سے وسیلہ طلب کرے گا تو اس کے لئے میری شفاعت حلال ہوگی۔ اس تفسیر پر اگر یہ شبہ کیا جائے کہ جب یہ درجہ جس کو وسیلہ کہا گیا ہے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مخصوص تو اس کو عام مسلمان کس طرح طلب کرسکتے ہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ اصل کے اعتبار سے تو یہ درجہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی کے ساتھ مخصوص ہے لیکن تبعاً امت کے دوسرے افراد بھی مستفید ہوسکتے ہیں اور یہ جواب بھی ہوسکتا ہے کہ وسیلہ سے قریب کے عام درجات مراد ہوں جن میں سے خاص درجہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے مخصوص ہو باقی دوسرے کاملین کو حسب مراتب عطا کئے جائیں۔ (واللہ اعلم) سلف سے جو تفسیر منقول ہے اس کی بنا پر ہم نے تیسیر میں خلاصہ کردیا ہے اور اسی وجہ سے طاعات میں جہاد کا ذکر کرتے ہوئے خاص طور کا لفظ رکھا ہے تاکہ یہ بات معلوم ہوجائے کہ جس قدر طاعت میں کلفت اور محنت ہوگی اسی قدر تقرب اور قربت حاصل ہوگی اور شاید اس موقعہ پر جہاد کا ذکر اس لئے بھی فرمایا ہو کہ اوپر قتل و لوٹ سے منع کیا تھا اور چونکہ بظاہر جہاد میں ب ھی یہی ہوتا ہے۔ اس لئے فرمایا کہ جہاد رہزنی اور ڈکیتی کا نام نہیں ہے دونوں میں بڑا فرق ہے اگرچہ صورتاً یکساں معلوم ہوتے ہیں، اسی لئے شاہ صاحب نے بھی اپنے فائدے میں فرمایا کہ اللہ رسول کی اطاعت سے کسی کام کو بجا لانا مقبول ہے اور اپنی عقل سے کسی کا م کو کرنا بےسود اور مردود ہے۔ بہرحال ! مطلب ی ہے کہ جو جنگ اور لوٹ مار اللہ تعالیٰ کی بات کو اونچا کرنے اور دنیا میں امن قائم کرنے کی غرض سے کی جائے وہ موجب اجر وثواب ہے اور جو جنگ بدامنی اور رہزنی کی غرض سے کی جائیتو وہ دنیا و آخرت میں رسوائی اور عذاب کا موجب ہے بہرحال ! زیر بحث آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے ایمان والو ! اللہ تعالیٰ کے کے احکام کی مخالفت سے بچتے رہو اور تمام منہیات شرعیہ سے بچتے رہو اللہ تعالیٰ کی جناب میں تقرب کا ذریعہ تلاش کردار چونکہ حضرت حق کی جناب میں تقرب نیک اعمال سے ہی ہوسکتا ہے اس لئے نیک اعمال کرتے رہو اور منجملہ دوسرے نیک اعمال کے خاص طور پر مجاہدانہ زندگی اختیار کرو تاکہ تم دین و دنیا دونوں میں اپنے مقصد اور اپنی مراد سے ہم آغوش ہو سکو، اب آگے کفر کی مذمت ہے کیونکہ نیک اعمال میں سب سے بڑھ کر ایمان اور معاصی میں سب سے بڑھ کر کفر ہے ، لہٰذا کفر کی مذمت ایمان کی مدح کو مستلزم ہے نیز اس لئے کہ نجات کا وسیلہ اور تقرب کا ذریعہ ایمان اور اعمال صالحہ ہی ہوسکتے ہیں اگر کسی بدنصیب کے پاس ایمان نہ ہو تو پھر ساری دنیا کی دولت بھی ہیچ ہے اور تمام دنیا کی دولت بھی عذاب سے نجات کا ذریعہ نہیں ہوسکتی چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ (تسہیل)  Show more