Surat ul Maeeda

Surah: 5

Verse: 67

سورة المائدة

یٰۤاَیُّہَا الرَّسُوۡلُ بَلِّغۡ مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ مِنۡ رَّبِّکَ ؕ وَ اِنۡ لَّمۡ تَفۡعَلۡ فَمَا بَلَّغۡتَ رِسَالَتَہٗ ؕ وَ اللّٰہُ یَعۡصِمُکَ مِنَ النَّاسِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الۡکٰفِرِیۡنَ ﴿۶۷﴾

O Messenger, announce that which has been revealed to you from your Lord, and if you do not, then you have not conveyed His message. And Allah will protect you from the people. Indeed, Allah does not guide the disbelieving people.

اے رسول جو کچھ بھی آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے پہنچا دیجئے ۔ اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو آپ نے اللہ کی رسالت ادا نہیں کی اور آپ کو اللہ تعالٰی لوگوں سے بچا لے گا بے شک اللہ تعالٰی کافر لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Commanding the Prophet to Convey the Message; Promising Him Immunity and Protection Allah says; يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ ... O Messenger! Convey what has been sent down to you from your Lord. Allah addresses His servant and Messenger Muhammad by the title `Messenger' and commands him to convey all that He has sent him, a command that the Prophet has fulfilled in the best manner. Al-Bukhari recorded that Aishah said, "Whoever says to you that Muhammad hid any part of what Allah revealed to him, then he is uttering a lie. Allah said, يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ (O Messenger! Convey what has been sent down to you from your Lord)." Al-Bukhari collected the short form of this story here, but mentioned the full narration in another part of his book. Muslim in the Book of Iman, At-Tirmidhi, and An-Nasa'i in the Book of Tafsir of their Sunans also collected this Hadith. In is recorded in the Two Sahihs that Aishah said, "If Muhammad hid anything from the Qur'an, he would have hidden this Ayah, وَتُخْفِى فِى نِفْسِكَ مَا اللَّهُ مُبْدِيهِ وَتَخْشَى النَّاسَ وَاللَّهُ أَحَقُّ أَن تَخْشَـهُ But you did hide in yourself that which Allah will make manifest, you did fear the people while Allah had a better right that you should fear Him." (33:37) Al-Bukhari recorded that Az-Zuhri said, "From Allah comes the Message, for the Messenger is its deliverance and for us is submission to it." The Ummah of Muhammad has testified that he has delivered the Message and fulfilled the trust, when he asked them during the biggest gathering in his speech during the Farewell Hajj. At that time, there were over forty thousand of his Companions. Muslim recorded that Jabir bin Abdullah said that the Messenger of Allah said in his speech on that day, أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّكُمْ مَسْوُولُونَ عَنِّي فَمَا أَنْتُمْ قَايِلُونَ O people! You shall be asked about me, so what are you going to reply? They said, "We bear witness that you have conveyed (the Message), fulfilled (the trust) and offered sincere advice." The Prophet kept raising his finger towards the sky and then pointing at them, saying, اللَّهُمَّ هَلْ بَلَّغْتُ اللَّهُمَّ هَلْ بَلَّغْتُ O Allah! Did I convey? O Allah! Did I convey? Allah's statement, ... وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ ... And if you do not, then you have not conveyed His Message. meaning: If you do not convey to the people what I sent to you, then you have not conveyed My Message. Meaning, the Prophet knows the consequences of this failure. Ali bin Abi Talhah reported that Ibn Abbas commented on the Ayah, "It means, if you hide only one Ayah that was revealed to you from your Lord, then you have not conveyed His Message." Allah's statement, ... وَاللّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ ... Allah will protect you from mankind. means, you convey My Message and I will protect, aid and support you over your enemies and will grant you victory over them. Therefore, do not have any fear or sadness, for none of them will be able to touch you with harm. Before this Ayah was revealed, the Prophet was being guarded, as Imam Ahmad recorded that; Aishah said that the Prophet was vigilant one night when she was next to him; she asked him, "What is the matter, O Allah's Messenger?" He said, لَيْتَ رَجُلً صَالِحًا مِنْ أَصْحَابِي يَحْرُسُنِي اللَّيْلَة Would that a pious man from my companions guard me tonight! She said, "Suddenly we heard the clatter of arms. The Prophet said, مَنْ هَذَا Who is that?" He (the new comer) replied, "I am Sa`d bin Malik (Sa`d bin Abi Waqqas)." The Prophet asked, مَا جَاءَ بِكَ What brought you here? He said, "I have come to guard you, Allah's O Messenger." Aishah said, "So, the Prophet slept (that night) and I heard the noise of sleep coming from him." This Hadith is recorded in Two Sahihs. Another narration for this Hadith reads, "The Messenger of Allah was vigilant one night, after he came to Al-Madinah...", meaning, after the Hijrah and after the Prophet consummated his marriage to Aishah in the second year of Hijrah. Ibn Abi Hatim recorded that Aishah said, "The Prophet was being guarded until this Ayah, وَاللّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ (Allah will protect you from mankind) was revealed." She added; "The Prophet raised his head from the room and said; يَا أَيُّهَا النَّاسُ انْصَرِفُوا فَقَدْ عَصَمَنِي اللهُ عَزَّ وَجَل O people! Go away, for Allah will protect me."' At-Tirmidhi recorded it and said, "This Hadith is Gharib." It was also recorded by Ibn Jarir, and Al-Hakim in his Mustadrak, where he said, "Its chain is Sahih, but they did not record it." Allah's statement, ... إِنَّ اللّهَ لاَ يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ Verily, Allah guides not those who disbelieve. means, O Muhammad, you convey, and Allah guides whom He wills, and misguides whom He wills. In other Ayat, Allah said, لَّيْسَ عَلَيْكَ هُدَاهُمْ وَلَـكِنَّ اللَّهَ يَهْدِى مَن يَشَأءُ Not upon you is their guidance, but Allah guides whom He wills. (2:272) and, فَإِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلَـغُ وَعَلَيْنَا الْحِسَابُ Your duty is only to convey and on Us is the reckoning. (13:40)

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے کسی حکم کو چھپایا نہیں اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول کے پیارے خطاب سے آواز دے کر اللہ تعالیٰ حکم دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے کل احکام لوگوں کو پہنچا دو ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایسا ہی کیا ۔ صحیح بخاری میں ہے حضرت عائشہ فرماتی ہیں جو تجھ سے کہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ کسی حکم کو چھپا لیا تو جان لو کہ وہ جھوٹا ہے ، اللہ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حکم دیا ہے پھر اس آیت کی تلاوت آپ نے کی ۔ یہ حدیث یہاں مختصر ہے اور جگہ پر مطول بھی ہے ۔ بخاری و مسلم میں ہے اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے کسی فرمان کو چھپانے والے ہوتے تو اس آیت کو چھپا لیتے ۔ آیت ( وَتُخْــفِيْ فِيْ نَفْسِكَ مَا اللّٰهُ مُبْدِيْهِ وَتَخْشَى النَّاسَ ۚ وَاللّٰهُ اَحَقُّ اَنْ تَخْشٰـىهُ ) 33 ۔ الاحزاب:37 ) ۔ یعنی تو اپنے دل میں وہ چھپاتا تھا جسے اللہ ظاہر کرنے والا تھا اور لوگوں سے جھینپ رہا تھا حالانکہ اللہ زیادہ حقدار ہے کہ تو اس سے ڈرے ۔ ابن عباس سے کسی نے کہا کہ لوگوں میں یہ چرچا ہو رہا ہے کہ تمہیں کچھ باتیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی بتائی ہیں جو اور لوگوں سے چھپائی جاتی تھیں تو آپ نے یہی آیت پڑھی اور فرمایا قسم اللہ کی ہمیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی ایسی مخصوص چیز کا وارث نہیں بنایا ( ابن ابی حاتم ) صحیح بخاری شریف میں ہے کہ حضرت علی سے ایک شخص نے پوچھا کیا تمہارے پاس قرآن کے علاوہ کچھ اور وحی بھی ہے؟ آپ نے فرمایا اس اللہ کی قسم جس نے دانے کو اگایا ہے اور جانوروں کو پیدا کیا ہے کہ کچ نہیں بجز اس فہم و روایت کے جو اللہ کسی شخص کو دے اور جو کچھ اس صحیفے میں ہے ، اس نے پوچھا صحیفے میں کیا ہے؟ فرمایا دیت کے مسائل ہیں ، قیدیوں کو چھوڑ دینے کے احکام ہیں اور یہ ہے کہ مسلمان کافر کے بدلے قصاصاً قتل نہ کیا جائے ۔ صحیح بخاری شریف میں حضرت زہری کا فرمان ہے کہ اللہ کی طرف سے رسالت ہے اور پیغمبر کے ذمے تبلیغ ہے اور ہمارے ذمہ قبول کرنا اور تابع فرمان ہونا ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی سب باتیں پہنچا دیں ، اس کی گواہ آپ کی تمام امت ہے کہ فی الواقع آپ نے امانت کی پوری ادائیگی کی اور سب سے بڑی مجلس جو تھی ، اس میں سب نے اس کا اقرار کیا یعنی حجتہ الوداع خطبے میں ، جس وقت آپ کے سامنے چالیس ہزار صحابہ کا گروہ عظیم تھا ۔ صحیح مسلم میں ہے کہ آپ نے اس خطبے میں لوگوں سے فرمایا تم میرے بارے میں اللہ کے ہاں پوچھے جاؤ گے تو بتاؤ کیا جواب دو گے؟ سب نے کہا ہماری گواہی ہے کہ آپ نے تبلیغ کر دی اور حق رسالت ادا کر دیا اور ہماری پوری خیر خواہی کی ، آپ نے سر آسمان کی طرف اٹھا کر فرمایا اے اللہ! کیا میں نے تیرے تمام احکامات کو پہنچا دیا ، اے اللہ! کیا میں نے پہنچا دیا ؟ مسند احمد میں یہ بھی ہے کہ آپ نے اس خطبے میں پوچھا کہ لوگو یہ کونسا دن ہے؟ سب نے کہا حرمت والا ، پوچھا یہ کونسا شہر ہے ، جواب دیا ، حرمت والا ۔ فرمایا یہ کونسا مہینہ ہے؟ جواب ملا ، حرمت والا ، فرمایا پس تمہارے مال اور خون و آبرو آپس میں ایک دوسرے پر ایسی ہی حرمت والے ہیں جیسے اس دن کی اس شہر میں اور اس مہینے میں حرمت ہے ۔ پھر بار بار اسی کو دوہرایا ۔ پھر اپنی انگلی آسمان کی طرف اٹھا کر فرمایا اے اللہ! کیا میں نے پہنچا دیا ۔ ابن عباس فرماتے ہیں اللہ کی قسم یہ آپ کے رب کی طرف آپ کی وصیت تھی ۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دیکھو ہر حاضر شخص غیر حاضر کو یہ بات پہنچا دے ۔ دیکھو میرے فرمان میرے بندوں تک نہ پہنچائے تو تو نے حق رسالت ادا نہیں کیا ، پھر اس کی جو سزا ہے وہ ظاہر ہے ، اگر ایک آیت بھی چھپا لی تو حق رسالت ادا نہ ہوا ۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں جب یہ حکم نازل ہوا کہ جو کچھ اترا ہے سب پہنچا دو تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ میں اکیلا ہوں اور یہ سب مل کر مجھ پر چڑھ دوڑتے ہیں ، میں کس طرح کروں تو دوسرا جملہ اترا کہ اگر تو نے نہ کیا تو تو نے رسالت کا حق ادا نہیں کیا ۔ پھر فرمایا تجھے لوگوں سے بچا لینا میرے ذمہ ہے ۔ تیرا حافظ و ناصر میں ہوں ، بےخطر رہئیے وہ کوئی تیرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے ، اس آیت سے پہلے حضور صلی اللہ علیہ وسلم چوکنے رہتے تھے ، لوگ نگہبانی پر مقرر رہتے تھے ۔ چنانچہ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ ایک رات کو حضور بیدار تھے انہیں نیند نہیں آ رہی تھی میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آج کیا بات ہے؟ فرمایا کاش کہ میرا کوئی نیک بخت صحابی آج پہرہ دیتا ، یہ بات ہو ہی رہی تھی کہ میرے کانوں میں ہتھیار کی آواز آئی آپ نے فرمایا کون ہے؟ جواب ملا کہ میں سعد بن مالک ہوں ، فرمایا کیسے آئے؟ جواب دیا اس لئے کہ رات بھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی چوکیداری کروں ۔ اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم باآرام سو گئے ، یہاں تک کہ خراٹوں کی آواز آنے لگی ( بخاری و مسلم ) ایک روایت میں ہے کہ یہ واقعہ سنہ ٢ھ کا ہے ۔ اس آیت کے نازل ہوتے ہی آپ نے خیمے سے سر نکال کر چوکیداروں سے فرمایا ، جاؤ اب میں اللہ کی پناہ میں آ گیا ، تمہاری چوکیداری کی ضرورت نہیں رہی ۔ ایک روایت میں ہے کہ ابو طالب آپ کے ساتھ ساتھ کسی نہ کسی آدمی کو رکھتے ، جب یہ آیت اتری تو آپ نے فرمایا بس چچا! اب میرے ساتھ کسی کے بھیجنے کی ضرورت نہیں ، میں اللہ کے بچاؤ میں آ گیا ہوں ۔ لیکن یہ روایت غریب اور منکر ہے یہ واقعہ ہو تو مکہ کا ہو اور یہ آیت تو مدنی ہے ، مدینہ کی بھی آخری مدت کی آیت ہے ، اس میں شک نہیں کہ مکے میں بھی اللہ کی حفاظت اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہی باوجود دشمن جاں ہونے کے اور ہر ہر اسباب اور سامان سے لیس ہونے کے سردار ان مکہ اور اہل مکہ آپ کا بال تک بیکا نہ کر سکے ، ابتداء رسالت کے زمانہ میں اپنے چچا ابو طالب کی وجہ سے جو کہ قریشیوں کے سردار اور بارسوخ شخص تھے ، آپ کی حفاظت ہوتی رہی ، ان کے دل میں اللہ نے آپ کی محبت اور عزت ڈال دی ، یہ محبت اور عزت ڈال دی ، یہ محبت طبعی تھی شرعی نہ تھی ۔ اگر شرعی ہوتی تو قریش حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہی ان کی بھی جان کے خواہاں ہو جاتے ۔ ان کے انتقال کے بعد اللہ تعالیٰ نے انصار کے دلوں میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شرعی محبت پیدا کر دی اور آپ انہی کے ہاں چلے گئے ۔ اب تو مشرکین بھی اور یہود بھی مل ملا کر نکل کھڑے ہوئے ، بڑے بڑے سازو سامان لشکر لے کر چڑھ دوڑے ، لیکن بار بار کی ناکامیوں نے ان کی امیدوں پر پانی پھیر دیا ۔ اسی طرح خفیہ سازشیں بھی جتنی کیں ، قدرت نے وہ بھی انہی پر الٹ دیں ۔ ادھر وہ جادو کرتے ہیں ، ادھر سورہ معوذتین نازل ہوتی ہے اور ان کا جادو اتر جاتا ہے ۔ ادھر ہزاروں جتن کر کے بکری کے شانے میں زہر ملا کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کر کے آپ کے سامنے رکھتے ہیں ، ادھر اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی دھوکہ دہی سے آگاہ فرما دیتا ہے اور یہ ہاتھ کاٹتے رہ جاتے ہیں اور بھی ایسے واقعات آپ کی زندگی میں بہت سارے نظر آتے ہیں ۔ ابن جریر میں ہے کہ ایک سفر میں آپ ایک درخت تلے ، جو صحابہ اپنی عادت کے مطابق ہر منزل میں تلاش کر کے آپ کیلئے چھوڑ دیتے تھے ، دوپہر کے وقت قیولہ کر رہے تھے تو ایک اعرابی اچانک آ نکلا ، آپ کی تلوار جو اسی درخت میں لٹک رہی تھی ، اتار لی اور میان سے باہر نکال لی اور ڈانٹ کر آپ سے کہنے لگا ، اب بتا کون ہے جو تجھے بچا لے؟ آپ نے فرمایا اللہ مجھے بچائے گا ، اسی وقت اس اعرابی کا ہاتھ کانپنے لگتا ہے اور تلوار اس کے ہاتھ سے گر جاتی ہے اور وہ درخت سے ٹکراتا ہے ، جس سے اس کا دماغ پاش پاش ہو جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ یہ آیت اتارتا ہے ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو نجار سے غزوہ کیا ذات الرقاع کھجور کے باغ میں آپ ایک کنوئیں میں پیر لٹکائے بیٹھے تھے ، جو بنو نجار کے ایک شخص وارث نامی نے کہا دیکھو میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرتا ہوں ۔ لوگوں نے کہا کیسے؟ کہا میں کسی حیلے سے آپ کی تلوار لے لوں گا اور پھر ایک ہی وار کر کے پار کر دوں گا ۔ یہ آپ کے پاس آیا اور ادھر ادھر کی باتیں بنا کر آپ سے تلوار دیکھنے کو مانگی ، آپ نے اسے دے دی لیکن تلوار کے ہاتھ میں آتے ہی اس پر اس بلا کا لرزہ چڑھا کہ آخر تلوار سنبھل نہ سکی اور ہاتھ سے گر پڑی تو آپ نے فرمایا تیرے اور تیرے بد ارادے کے درمیان اللہ حائل ہو گیا اور یہ آیت اتری ۔ حویرث بن حارث کا بھی ایسا قصہ مشہور ہے ۔ ابن مردویہ میں ہے کہ صحابہ کی عادت تھی کہ سفر میں جس جگہ ٹھہرتے ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے گھنا سایہ دار بڑا درخت چھوڑ دیتے کہ آپ اسی کیلئے تلے آرام فرمائیں ، ایک دن آپ اسی طرح ایسے درخت تلے سو گئے اور آپ کی تلوار اس درخت میں لٹک رہی تھی ، ایک شخص آ گیا اور تلوار ہاتھ میں لے کر کہنے لگا ، اب بتا کہ میرے ہاتھ سے تجھے کون بچائے گا ؟ آپ نے فرمایا اللہ بچائے گا ، تلوار رکھ دے اور وہ اس قدر ہیبت میں آ گیا کہ تعمیل حکم کرنا ہی پڑی اور تلوار آپ کے سامنے ڈال دی ۔ اور اللہ نے یہ آیت اتاری کہ ( ۭوَاللّٰهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ ) 5 ۔ المائدہ:67 ) مسند میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موٹے آدمی کے پیٹ کی طرف اشارہ کر کے فرمایا اگر یہ اس کے سوا میں ہوتا تو تیرے لئے بہتر تھا ۔ ایک شخص کو صحابہ پکڑ کر آپ کے پاس لائے اور کہا یہ آپ کے قتل کا ارادہ کر رہا تھا ، وہ کانپنے لگا ، آپ نے فرمایا گھبرا نہیں چاہے تو ارادہ کرے لیکن اللہ اسے پورا نہیں ہونے دے گا ۔ پھر فرماتا ہے تیرے ذمہ صرف تبلیغ ہے ، ہدایت اللہ کے ہاتھ ہے ، وہ کافروں کو ہدایت نہیں دے گا ۔ تو پہنچا دے ، حساب کا لینے والا اللہ تعالیٰ ہی ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

67۔ 1 اس حکم کا مفاد یہ ہے کہ جو کچھ آپ پر نازل کیا گیا ہے، بلا کم وکاست اور بلا خوف ملامت۔ اور حجۃ الوداع کے موقع پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کے ایک لاکھ یا ایک لاکھ چالیس ہزار کے جم غفیر میں فرمایا ـ' تم میرے بارے میں کیا کہو گے ؟ انہوں نے کہا (ہم گواہی دیں گے کہ آپ نے اللہ کا پیغام دیا اور ادا کردیا اور خیر خواہی فرما دی۔ آپ نے آسمان کی طرف انگلی کا اشارہ کرتے ہوئے فرمایا اللّھُمّ ھَلْ بَلّغتُ (تین مرتبہ) یا اللّھُم ّفَاشْھَدُ (تین مرتبہ) صحیح مسلم کتاب حج ' یعنی اے اللہ ! میں نے تیرا پیغام پہنچا دیا، تو گواہ رہ، تو گواہ رہ، تو گواہ رہ۔ ' 67۔ 2 یہ حفاظت اللہ تعالیٰ نے معجزانہ طریقہ پر بھی فرمائی اور دنیاوی اسباب کے تحت بھی دنیاوی اسباب کے تحت اس آیت کے نزول سے بہت قبل اللہ تعالیٰ نے پہلے آپ کے چچا ابو طالب کے دل میں آپ کی طبعی محبت ڈال دی اور وہ آپ کی حفاظت کرتے رہے، ان کا کفر پر قائم رہنا بھی شاید انہی اسباب کا ایک حصہ معلوم ہوتا ہے۔ کیونکہ اگر وہ مسلمان ہوجاتے تو شاید سرداران قریش کے دل میں ان کی ہیبت و عظمت نہ رہتی جو ان کے ہم مذہب ہونے کی صورت میں آخر وقت تک رہی۔ پھر ان کی وفات کے بعد اللہ تعالیٰ نے بعض سرداران قریش کے ذریعے سے اللہ نے وقتًا فوقتًا یہودیوں کے مکر و کید سے مطلع فرما کر خاص خطرے کے مواقع پر بچایا اور گھمسان کی جنگوں میں کفار کے انتہائی پر خطرناک حملوں سے بھی آپ کو محفوظ رکھا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١١٢] تمام رسولوں کی چار اہم ذمہ داریوں کا ذکر قرآن کریم میں متعدد بار آیا ہے۔ ان میں سب سے پہلی اور اہم ذمہ داری تبلیغ رسالت ہے۔ اور آپ نے سب سے زیادہ توجہ اس طرف دی ہے۔ کفار کی ایذا رسانیوں کو سہہ سہہ کر اور پر مشقت سفر کر کرکے آپ انفرادی اور اجتماعی طور پر لوگوں سے ملتے اور انکے کڑوے کسیلے جواب سننے کے باوجود آپ نے پوری ذمہ داری سے یہ فریضہ انجام دیا۔ پھر زندگی آخری دور میں تین مختلف اوقات میں ہزاروں صحابہ کرام (رض) کے مجمع میں ان سے گواہی لی۔ کہ آیا میں نے تبلیغ رسالت کا پیغام تمہیں پہنچا دیا ؟ پھر جب انھوں نے اثبات میں جواب دیاتو آپ نے بآواز بلند فرمایا & یا اللہ گواہ رہنا &۔ نیز آپ نے صحابہ کرام (رض) کو تاکیداً فرمایا کہ وہ ان لوگوں کو رسالت کا پیغام پہنچا دیں جن تک یہ پیغام نہیں پہنچا۔ جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہوتا ہے۔ ١۔ تبلیغ رسالت کا فریضہ :۔ سیدنا (رض) بن عبداللہ کہتے ہیں کہ (حجۃ الوداع کے موقع پر) خطبہ دینے کے بعد آپ نے فرمایا۔ & تم سے میرے بارے میں سوال کیا جائے گا تو تم کیا کہو گے ؟ & صحابہ نے عرض کیا & ہم گواہی دیں گے کہ آپ نے ہمیں اللہ کا پیغام پہنچا دیا اور (حق تبلیغ) ادا کردیا اور خوب نصیحت و خیر خواہی کی۔ & آپ نے اپنی شہادت کی انگلی آسمان کی طرف اٹھائی اور لوگوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تین بار فرمایا & اے اللہ ! گواہ رہنا۔ & (مسلم کتاب الحج۔ باب حجۃ النبی ) ٢۔ سیدنا ابوبکر صدیق (رض) کہتے ہیں آپ نے خطبہ حجۃ الوداع میں تمام مسلمانوں کو حکم دیا کہ سن لو ! تم میں سے جو لوگ موجود ہیں وہ ان لوگوں کو (اس خطبہ کے ارشادات) پہنچا دیں جو یہاں موجود نہیں۔ & (بخاری۔ کتاب العلم۔ باب لیبلغ العلم الشاھد الغائب) کیونکہ حاضر شاید ایسے غیر موجود شخص کو خبر دے جو اس بات کو اس سے زیادہ یاد رکھنے والا ہو۔ & (بخاری۔ کتاب العلم۔ باب قول النبی رب مبلغ اوعی من سامع ) ٣۔ سیدہ عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ (ایک دفعہ نماز کسوف کے بعد) آپ نے لوگوں کو خطبہ دیا اور اللہ کی حمد وثناء بیان کرنے کے بعد فرمایا & یہ سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کی نشانیاں ہیں۔ انہیں نہ کسی کی موت کی وجہ سے گہن لگتا ہے اور نہ کسی کی پیدائش کی وجہ سے۔ (خطبہ ختم کرنے کے بعد) آپ نے دونوں ہاتھ اوپر اٹھا کر فرمایا & اے اللہ ! میں نے یقینا تیرا پیغام پہنچا دیا۔ & (مسلم۔ کتاب الکسوف پہلی حدیث) ہوا یہ تھا کہ جس دن رسول اللہ کے صاحبزادے ابراہیم کا انتقال ہوا تھا اسی دن سورج کو بھی اتفاق سے گہن لگ گیا۔ قدیم عرب کا اعتقاد تھا کہ چاند گرہن اور سورج گرہن کسی بڑے آدمی کی موت سے لگا کرتا ہے۔ اس واقعہ پر کچھ مسلمان بھی یہ کہنے لگے کہ سورج ابراہیم کی موت کی وجہ سے گہنا گیا اور یہ دن ٢٩ شوال ١٠ ھ روز دو شنبہ بمطابق ٢٧ جنوری ٦٣٢ ء کا دن تھا۔ جب سورج کو گہن لگنا شروع ہوا تو آپ نے صحابہ کرام کو دو رکعت طویل نماز پڑھائی جس میں چار رکوع اور چار سجدے کئے۔ اور صحابہ کو حکم دیا کہ جب سورج کو گرہن یا چاند گرہن لگے تو نماز پڑھا کرو۔ نماز کے بعد آپ نے طویل خطبہ دیا جس میں اس جاہلی عقیدہ کا بھرپور رد کیا کہ سورج اور چاند تو اللہ کی نشانیاں ہیں۔ کسی بھی شخص کی موت یا زندگی سے انہیں گرہن نہیں لگا کرتا۔ طویل خطبہ کے بعد آپ نے صحابہ کرام (رض) کو مخاطب کر کے پوچھا کہ آیا میں نے تمہیں اللہ کا پیغام پہنچا دیا ؟ صحابہ نے اثبات میں جواب دیا تو آپ نے دونوں ہاتھوں کو اوپر اٹھا کر فرمایا۔ اے اللہ ! گواہ رہنا۔ میں نے تیرا پیغام پہنچا دیا۔ (بخاری۔ ابو اب الکسوف، مسلم۔ کتاب الکسوف) ٤۔ سیدنا عبداللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں۔ آپ نے اپنی مرض الموت میں اپنے سر سے کپڑا ہٹایا، اس وقت آپ کے سر پر پٹی بندھی ہوئی تھی (اس حال میں) آپ نے تین بار یہ الفاظ دہرائے & اے اللہ ! یقینا میں نے تیرا پیغام پہنچا دیا۔ & (مسلم کتاب الصلٰوۃ۔ باب نہی عن قراءۃ القرآن فی الرکوع والسجود ) اور تبلیغ کے لیے آپ جس بات کو زیادہ تر ملحوظ رکھتے تھے وہ درج ذیل احادیث سے ظاہر ہے : ٥۔ وعظ کے آداب :۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ آپ ہمیں نصیحت کرنے کے لیے وقت اور موقع کی رعایت فرماتے آپ اس کو برا سمجھتے کہ ہم اکتا جائیں۔ & (بخاری۔ کتاب العلم۔ باب ماکان النبی یتخولھم بالموعظۃ والعلم کی لاینفروا ) ٦۔ ابو وائل کہتے ہیں کہ عبداللہ بن مسعود (رض) ہر جمعرات کو لوگوں کو وعظ کرتے۔ ایک شخص نے ان سے کہا۔ & ابو عبدالرحمن ! میں چاہتا ہوں کہ آپ ہمیں ہر روز وعظ سنایا کریں۔ & انہوں نے کہا & یہ میں اس لیے نہیں کرتا کہ تمہیں اکتا دینا مجھے اچھا معلوم نہیں ہوتا اور میں وقت اور موقع دیکھ کر تمہیں وعظ سناتا ہوں جیسے رسول اللہ ہمارا وقت اور موقع دیکھ کر ہمیں نصیحت فرماتے تھے آپ کو یہی ڈر تھا کہ ہم اکتا نہ جائیں۔ (بخاری۔ کتاب العلم۔ باب ماکان النبی یتخولھم، بالموعظہ والعلم کی لاینفروا) مردوں کے علاوہ آپ عورتوں کے لئے کبھی کبھی بالخصوص الگ اہتمام فرماتے تھے جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہے : ٧۔ سیدنا ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ آپ (عیدالفطر کا خطبہ دے کر) مردوں کی صف سے نکلے اور آپ کے ساتھ بلال (رض) تھے۔ آپ کو خیال ہوا کہ شاید عورتوں تک میری آواز نہیں پہنچی۔ پھر آپ نے عورتوں کو نصیحت کی اور انہیں خیرات کرنے کا حکم دیا۔ کوئی عورت اپنی بالی پھینکنے لگی، کوئی انگوٹھی اور بلال (رض) نے اپنے کپڑے کے کونے میں یہ (صدقہ) لینا شروع کیا۔ (بخاری۔ کتاب العلم۔ باب عظۃ الامام النساء وتعلیمھن ) ٨۔ سیدنا ابو سعید خدری کہتے ہیں کہ ایک دفعہ عورتوں نے آپ سے عرض کیا کہ مرد آپ کے پاس آنے میں ہم پر غالب ہوئے۔ لہذا آپ خود ہمارے لیے ایک دن مقرر کر دیجئے۔ چناچہ آپ نے ان سے وعدہ فرما لیا۔ اس دن آپ نے انہیں وعظ فرمایا اور انہیں احکام شرع بتائے اور احکام میں سے ایک یہ بھی تھا جس عورت کے تین چھوٹے بچے فوت ہوجائیں (اور وہ صبر کرے) تو وہ ان کے لیے دوزخ سے آڑ بن جائیں گے کسی عورت نے کہا & اور اگر دو ہوں تو ؟ & آپ نے فرمایا & اور دو بھی (& بخاری۔ کتاب العلم۔ ھل یجعل للنساء یوما علی حدۃ فی العلم ) [١١٣] نبی اور رسول میں فرق :۔ علماء نے ایک نبی اور ایک رسول میں جو فرق بیان کیے ہیں وہ یہ ہیں : (١) آنے والے رسول کی بشارت پہلے ہی کتاب اللہ میں دے دی جاتی ہے جبکہ نبی کے لیے یہ بات ضروری نہیں ہوتی۔ (٢) رسول پر اللہ کی کتاب یا صحیفے نازل ہوتے ہیں اور وہ الگ سے اپنی امت تشکیل دیتا ہے جبکہ نبی اپنے سے پہلی کتاب ہی کی اتباع کرتا اور کرواتا ہے۔ (٣) رسول کی جان کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ خود لے لیتا ہے جبکہ انبیاء ناحق بھی سرکش کافروں کے ہاتھوں قتل ہوتے رہے۔ اور رسول اللہ چونکہ تمام دنیا کے لیے اور قیامت تک کے لیے رسول ہیں۔ لہذا دوسروں کی نسبت آپ کی یہ ذمہ داری بھی زیادہ تھی۔ اسی لیے بطور خاص اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرما کر آپ کو اطمینان دلایا۔ یہ آیت جنگ احد میں آپ کے زخمی ہونے کے بہت بعد نازل ہوئی۔ اس سے پہلے بعض دفعہ ایسے ہنگامی حالات پیش آجاتے تھے کہ آپ پہرہ کے بغیر رات کو سو بھی نہ سکتے تھے۔ اس آیت کے نزول کے بعد آپ نے پھر کبھی پہرہ نہیں بٹھایا۔ تبلیغ رسالت کی وجہ سے آپ کو اپنی جان کا کس قدر خطرہ تھا ؟ اس کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ آپ پر قریش مکہ، یہود اور منافقوں کی طرف سے تقریباً سترہ بار قاتلانہ حملے ہوئے اور ہر بار اللہ تعالیٰ نے آپ کی حفاظت فرمائی اور ایسے کافروں کو ذلیل و رسوا کیا۔ ان حملوں کا اجمالی ذکر درج ذیل ہے : آپ کا زمانہ نبوت ٢٣ سال ہے۔ ابتدائی تین سال تو انتہائی خفیہ تبلیغ کے ہیں۔ باقی بیس سال کے عرصہ میں آپ پر سترہ بار قاتلانہ حملے یا آپ کو قتل کردینے کی سازشیں تیار ہوئیں۔ ان میں سے ٩ حملے تو قریش مکہ کی طرف سے ہوئے، تین یہود سے، تین بدوی قبائل سے ایک منافقین سے اور ایک شاہ ایران خسرو پرویز سے اور غالباً اس دنیا میں کسی بھی دوسرے شخص پر اتنی بار قاتلانہ حملے نہیں ہوئے اور ہر بار اللہ تعالیٰ نے آپ کو بذریعہ وحی مطلع کر کے یا مدد کر کے آپ کو دشمنوں سے بچا کر اپنا وعدہ پورا کردیا۔ اب ہم ان قاتلانہ حملوں کے واقعات کو زمانی ترتیب کے ساتھ مختصراً ہدیہ قارئین کرتے ہیں۔ ١۔ آپ کی جان بچانے والے کی شہادت : کوہ صفا پر اپنے اقربین کو دعوت دینے کے بعد جب آیت (فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ وَاَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِيْنَ 94؀) 15 ۔ الحجر :94) نازل ہوئی تو آپ نے حرم کعبہ میں جا کر توحید کا اعلان فرمایا۔ آپ کا یہ اعلان مشرکین مکہ کی سب سے بڑی توہین کے مترادف تھا۔ چناچہ دفعتاً ایک ہنگامہ بپا ہوگیا اور ہر طرف سے لوگ آپ پر پل پڑے۔ آپ کے ربیب (سیدہ خدیجہ کے پہلے خاوند سے بیٹے) حارث بن ابی ہالہ گھر میں موجود تھے انہیں خبر ہوئی تو دوڑتے ہوئے آئے اور آپ کو بچانا چاہا۔ اب ہر طرف سے ان پر تلواریں پڑنے لگیں اور وہ شہید ہوگئے۔ اسلام کی راہ میں یہ پہلا خون تھا جو بہایا گیا (الاصابہ فی تمییز الصحابہ ذکر حارث بن ابی ہالہ بحوالہ سیرت النبی ج ١ ص ٣١٤) ٢۔ ابو جہل کا ارادہ قتل : ایک دن ابو جہل نے اپنے ساتھیوں سے کہا & میں نے اللہ سے یہ عہد کر رکھا ہے کہ کسی وقت جب محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سجدہ میں جائیں تو بھاری پتھر سے ان کا سر کچل دوں تاکہ یہ روز روز کا جھگڑا ختم ہو۔ اس کے بعد چاہے تو تم لوگ مجھے بالکل بےیارو مددگار چھوڑ دو کہ بنو عبد مناف مجھ سے جیسا چاہے سلوک کریں اور چاہے تو میری حفاظت کرو۔ & اس کے ساتھیوں نے کہا & واللہ ! تمہیں بےیارومددگار نہ چھوڑیں گے۔ لہذا تمہارا جو جی چاہے کر گزرو۔ & اس تجویز کے مطابق ابو جہل ایک بھاری پتھر لے کر کعبہ میں پہنچا اور مناسب موقع کا انتظار کرنے لگا۔ چناچہ جب آپ سجدہ میں گئے تو ابو جہل پتھر لے کر آپ کے قریب پہنچا مگر یکدم خوفزدہ ہو کر پیچھے ہٹنے لگا اس کا رنگ اڑا ہوا تھا اور پتھر کو بھی مشکل سے نیچے رکھ سکا۔ اس کے ساتھی بڑے متعجب تھے کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ انہوں نے پوچھا & ابو الحکم ! یہ کیا ماجرا ہے ؟ & وہ کہنے لگا & میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف بڑھ رہا تھا تو ایک مہیب شکل کا اونٹ مجھے نظر آیا۔ بخدا میں نے کسی اونٹ کی ایسی ڈراؤنی کھوپڑی، گردن اور ایسے ڈراؤنے دانت کبھی نہیں دیکھے۔ وہ اونٹ مجھے کھا جانا چاہتا تھا اور میں نے مشکل سے پیچھے ہٹ کر اپنی جان بچائی تھی۔ & (ابن ہشام ١ : ٢٩٨-٢٩٩ بحوالہ الرحیق المختوم ص ١٥١) ٣۔ عقبہ بن ابی معیط کا ارادہ قتل : عقبہ ہر وقت اس تاک میں رہتا تھا کہ آپ کا گلا گھونٹ کر آپ کا کام تمام کر دے۔ اور ایسا موقع مشرکین کو اس وقت میسر آتا تھا جب آپ کعبہ میں نماز ادا کر رہے ہوتے تھے۔ چناچہ سیدنا عروہ بن زبیر کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن عمرو بن عاص سے پوچھا کہ & مشرکین مکہ نے جو رسول اللہ کو سب سے سخت ایذا پہنچائی وہ کیا تھی ؟ & تو انہوں نے اپنا چشم دید واقعہ یوں بیان کیا کہ & آپ کعبہ میں نماز ادا کر رہے تھے۔ عقبہ بن ابی معیط آیا اور اپنی چادر آپ کے گلے میں ڈال کر اسے اس قدر بل دیئے کہ آپ کا گلا گھٹنا شروع ہوگیا۔ آنکھیں باہر نکل آئیں اور قریب تھا کہ آپ کا کام تمام ہوجاتا۔ اتنے میں سیدنا ابوبکر صدیق (رض) آن پہنچے۔ انہوں نے زور سے عقبہ کو پرے دھکیل کر آپ کو چھڑایا اور فرمایا & کیا تم اس شخص کو صرف اس لیے مار ڈالنا چاہتے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ میرا پروردگار اللہ ہے۔ حالانکہ وہ تمہارے پروردگار کی طرف سے تمہاری طرف واضح نشانیاں بھی لے کر آیا ہے ؟ & (٤٠: ٢٨) (بخاری۔ کتاب المناقب۔ باب فضل ابی بکر بعدالنبی کتاب التفسیر سورة مومن) اور سیدہ اسماء کی روایت میں مزید تفصیل یہ ہے کہ جب عقبہ نے آپ کی گردن میں چادر ڈال کر زور سے گھونٹا تو آپ کی چیخ نکل گئی کہ & اپنے ساتھی کو بچاؤ & آپ کی یہ چیخ سن کر ہی سیدنا ابوبکر صدیق (رض) آپ کی مدد کے لیے آئے تھے اور جب سیدنا ابوبکر صدیق (رض) نے عقبہ کو دھکیل کر پرے ہٹا دیا تو مشرکین سیدنا ابوبکر صدیق (رض) پر حملہ آور ہوئے اور جب وہ واپس لوٹے تو ان کی اپنی یہ کیفیت تھی کہ ہم ان کی چوٹی کا جو بال بھی چھوتے تھے وہ ہماری چٹکی کے ساتھ چلا آتا تھا۔ & (مختصر سیرۃ الرسول ص ١٣ بحوالہ الرحیق المختوم ٨ ص ١٥٣) ٤۔ سیدنا عمر کا اسلام لانے سے قبل آپ کو قتل کرنے کا ارادہ : ایک دفعہ مشرکین مکہ کعبہ میں بیٹھ کر پیغمبر اسلام کی لائی ہوئی افتاد سے نجات حاصل کرنے کے سلسلہ میں غور و فکر کر رہے تھے۔ سیدنا عمر جوش میں آ کر کہنے لگے کہ میں ابھی جا کر یہ جھنجھٹ ختم کیے دیتا ہوں اور ننگی تلوار لے کر اس ارادہ سے نکل کھڑے ہوئے راہ میں ایک مسلمان نعیم بن عبداللہ ملے اور پوچھا & عمر ! آج کیا ارادے ہیں ؟ & کہنے لگے & تمہارے پیغمبر کا کام تمام کرنے جارہا ہوں & نعیم کہنے لگے & پہلے اپنے گھر کی تو خبر لو۔ تمہاری بہن اور بہنوئی دونوں مسلمان ہوچکے ہیں۔ & سیدنا عمر نے اسی غصہ کی حالت میں ان کے گھر کا رخ کیا۔ دروازہ بند تھا۔ اندر سے قرآن پڑھنے کی آواز آرہی تھی اور خباب بن الارت ص انہیں قرآن کی تعلیم دے رہے تھے۔ سیدنا عمر نے زور سے دروازہ کھٹکھٹایا۔ انہوں نے دروازہ کھولا تو سیدنا عمر نے اپنے بہنوئی کو بےتحاشہ پیٹنا شروع کردیا۔ ان کی بہن فاطمہ آڑے آئیں تو انہیں بھی لہولہان کردیا۔ فاطمہ کہنے لگیں & عمر ! تم ہمیں مار بھی ڈالو تب بھی ہم اسلام کو چھوڑ نہیں سکتے۔ بہن کی اس بات پر آپ کا دل پسیج گیا۔ کہنے لگے اچھا مجھے بھی یہ کلام سناؤ۔ قرآن نے مزید دل کو متاثر کیا اور آپ کے دل کی دنیا ہی بدل گئی۔ وہاں سے اٹھے اور سیدھے دارارقم کی طرف ہو لیے۔ تلوار اسی طرح ہاتھ میں تھی مگر اب ارادہ یکسر بدل چکا تھا۔ دارارقم پہنچ کر دروازہ کھٹکھٹایا۔ مسلمانوں نے دراڑ سے دیکھا کہ عمر ننگی تلوار لیے دروازہ پر کھڑے ہیں۔ مسلمان سہم سے گئے۔ سیدنا حمزہ بھی وہاں موجود تھے کہنے لگے، دروازہ کھول دو ۔ اگر عمر کسی برے ارادہ سے آیا ہے تو اسی کی تلوار سے اس کا سر قلم کر دوں گا۔ دروازہ کھولا گیا تو رسول اللہ خود آگے بڑھے اور عمر کا دامن کھینچ کر پوچھا & عمر کس ارادہ سے آئے ہو ؟ & سیدنا عمر نے بڑے ادب سے کہا & اسلام لانے کے لیے حاضر ہوا ہوں & چناچہ سب کے سامنے آپ نے کلمہ شہادت پڑھا جس پر سب مسلمانوں نے نعرہ تکبیر بلند کیا۔ گویا سیدنا عمر کا ارادہ قتل ہی آپ کے اسلام لانے کا سبب بن گیا۔ (سیرۃ النبی شبلی نعمانی ج ١ ص ٢٢٨ بحوالہ طبقات ابن سعد و ابن عساکر و کامل لابن الاثیر) ٥۔ قتل کے ارادہ سے ابو طالب سے سودا بازی : جب قریشی سرداروں کو یقین ہوگیا کہ ابو طالب اپنے بھتیجے کی حمایت سے کسی صورت بھی دستبردار ہونے کو تیار نہیں تو انہوں نے ایک نہایت گھناؤنی سازش سے ابو طالب کو فریب دے کر رسول اللہ کے قتل کی سکیم تیار کی۔ چند قریشی سردار مکہ کے رئیس اعظم ولید بن مغیرہ کے بیٹے عمارہ کو ہمراہ لے کر ابو طالب کے پاس آئے اور کہا & یہ قریش کا سب سے بانکا اور خوبصورت نوجوان ہے آپ اسے اپنی کفالت میں لے لیں اور اپنا متبنیٰ بنالیں۔ اس کی دیت اور نصرت کے آپ حقدار ہوں گے اور اس کے عوض آپ اپنے بھتیجے کو ہمارے حوالہ کردیں جو ہمارے آباؤ اجداد کے دین کا مخالف ہے اور انہیں احمق قرار دیتا ہے اور قوم کا شیرازہ منتشر کر رہا ہے ہم اسے قتل کرنا چاہتے ہیں اور یہ ایک آدمی کے بدلے ایک آدمی کا حساب ہے۔ & ابو طالب کہنے لگے۔ واللہ ! یہ کتنا برا سودا ہے جس کی تم مجھے ترغیب دینے آئے ہو۔ تم چاہتے ہو کہ میں تو تمہارے بیٹے کو کھلاؤں پلاؤں اور پالوں پوسوں اور اس کے عوض تم میرا بیٹا مجھ سے لے کر اسے قتل کردو۔ واللہ ! یہ ناممکن ہے۔ & اس پر مطعم بن عدی ابو طالب سے کہنے لگا & بخدا ! تم سے تمہاری قوم نے انصاف کی بات کہی ہے۔ مگر تم تو کسی بات کو قبول ہی نہیں کرتے۔ & ابو طالب کہنے لگے & بخدا ! یہ انصاف کی بات نہیں ہے بلکہ مجھے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ تم بھی میرا ساتھ چھوڑ کر مخالفوں سے مل گئے ہو۔ اگر ایسی ہی بات ہے تو ٹھیک ہے جو چاہو کرو۔ & (ابن ہشام ١ : ٢٦٦، ٢٦٧ بحوالہ الرحیق المختوم ص ١٤٥) ابو طالب کے اس جواب سے مایوس ہو کر قریش کا یہ مجمع منتشر ہو کر چلا گیا۔ ٦۔ وہ مشورہ قتل جو آپ کی ہجرت کا سبب بنا : یہ واقعہ سورة انفال کی آیت نمبر ٣٠ میں مذکور ہے اور حاشیہ میں اس کی پوری تفصیل آگئی ہے وہاں سے ملاحظہ کرلیا جائے۔ مختصراً یہ کہ اس مجلس مشاورت میں ابلیس خود بھی شامل ہوا تھا اور بالآخر طے یہ پایا تھا کہ مختلف قبائل کے گیارہ آدمی فلاں رات کو آپ کے گھر کا محاصرہ کیے رہیں اور جب آپ علی الصبح گھر سے نکلیں تو سب آدمی یکبارگی حملہ کر کے آپ کا کام تمام کردیں۔ اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی آپ کو مشرکوں کی اس سازش کی اطلاع بھی دے دی۔ اور ہجرت کی اجازت بھی دے دی۔ چناچہ نہایت خفیہ طور پر ہجرت کر کے آپ ان مشرکین و کفار کے شر سے بال بال بچ گئے۔ اور کافروں کا یہ منصوبہ بھی بری طرح ناکام ہوگیا۔ ٧۔ ہجرت کے بعد آپ کی گرفتاری یا قتل پر سو اونٹ انعام کی پیش کش : اس بھاری انعام کے لالچ میں لوگ فرداً فرداً بھی اور ٹولیاں بن کر بھی آپ کی تلاش اور تعاقب میں نکل کھڑے ہوئے اور ایک گروہ تو نقوش پا کا سراغ لگاتے لگاتے غار ثور کے دھانہ تک پہنچ بھی گیا۔ یہ لوگ غار کے منہ کے اس قدر قریب ہوگئے تھے کہ اگر وہ اپنے پاؤں کی طرف دیکھتے تو آپ اور سیدنا ابوبکر صدیق (رض) پر نظر پڑ سکتی تھی۔ اس موقعہ پر بھی صبر و استقامت کے اس پیکر اعظم میں ذرہ بھر بھی لغزش نہ آئی۔ اور سیدنا ابوبکر صدیق (رض) کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا & غم نہ کرو اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ & (٩ : ٤٠) یہ واقعہ بھی سورة توبہ آیت نمبر ٤٠ میں مذکور ہے وہاں حاشیہ دیکھ لیا جائے۔ انفرادی تعاقب کرنے والوں میں سراقہ بن مالک کا واقعہ خاص طور پر قابل ذکر ہے جو فی الواقع آپ کے سر پر جا پہنچا تھا مگر اس کے گھوڑے نے یک لخت ٹھوکر کھائی تو وہ گرپڑا۔ پھر سوار ہوا تو پھر گھوڑے نے دوسری بار ٹھوکر کھائی۔ پھر گرا۔ پھر سوار ہوا تو گھوڑے نے تیسری بار ٹھوکر کھائی۔ اب وہ سمجھ گیا کہ اس کی خیر اسی میں ہے کہ وہ ان کے قریب تک نہ جائے۔ رسول اللہ نے مڑ کر جو سراقہ کو دیکھا تو دعا کی & اے اللہ اسے گرا دے & چناچہ اس کا گھوڑا گھٹنوں تک زمین میں دھنس گیا۔ (بخاری۔ کتاب الانبیائ۔ باب ہجرۃ النبی واصحابہ الی المدینۃ) مزید تفصیل سورة توبہ کی آیت نمبر ٤٠ کے حاشیہ یعنی واقعہ ہجرت میں آئے گی۔ ٨۔ عمیر بن وہب جمحی کا ارادہ قتل ٢ ھ : عمیر بھی آپ کے صف اول کے دشمنوں میں سے تھا۔ جنگ بدر میں اس کا بیٹا گرفتار ہو کر مسلمانوں کی قید میں چلا گیا تو یہ شخص غصہ سے بےتاب ہوگیا اور انتقام لینے کا تہیہ کرلیا۔ ایک دن عمیر نے حطیم میں بیٹھ کر صفوان بن امیہ کے سامنے بدر کے کنوئیں میں پھینکے جانے والے مقتولین کا ذکر کیا تو صفوان کہنے لگا & واللہ ! اب تو جینے کا کچھ مزا نہیں۔ & عمیر کہنے لگا & اگر میرے سر پر قرض نہ ہوتا اور میرے اہل و عیال نہ ہوتے تو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جا کر اسے قتل کر ڈالتا۔ & صفوان کہنے لگا & تمہارے قرض کی ادائیگی میرے ذمہ رہی اور بال بچوں کی نگہداشت بھی۔ اگر میرے پاس کچھ کھانے کو ہوگا تو انہیں بھی ضرور ملے گا۔ & عمیر نے کہا & ٹھیک ہے مگر اب اس بات کو اپنی ذات تک محدود رکھنا۔ & اور صفوان نے اس بات کا اقرار کرلیا۔ اب عمیر نے اپنی تلوار کو زہر آلود کرایا اور مدینہ جا کر مسجد نبوی میں پہنچ گیا۔ سیدنا عمر نے آپ کو اطلاع دی کہ آپ کا دشمن عمیر بن وہب گلے میں تلوار حمائل کیے آیا ہے اور آپ سے ملاقات کی اجازت چاہتا ہے۔ آپ نے فرمایا & اسے آنے دو & تاہم سیدنا عمر نے ازراہ احتیاط اس کی تلوار کا پر تلا لپیٹ کر پکڑ لیا۔ آپ نے سیدنا عمر سے کہا & اس کی تلوار کو چھوڑ دو & پھر عمیر سے پوچھا & بتاؤ کیسے آنا ہوا ؟ & عمیر کہنے لگا & میرا بیٹا آپ کی قید میں ہے آپ احسان فرما دیجئے۔ & آپ نے فرمایا & اگر یہی بات ہے تو پھر تلوار کیوں حمائل کر رکھی ہے۔ & کہنے لگا & یہ تلواریں بھلا پہلے کس کام آئیں ؟ & آپ نے فرمایا & ٹھیک ٹھیک بات بتاؤ۔ ادھر ادھر کی مت ہانکو۔ & اور جب عمیر نے پھر وہی پہلی بات دہرا دی تو آپ نے فرمایا & بات یوں نہیں۔ بلکہ تم مجھے قتل کرنے کے ارادہ سے آئے ہو۔ تم نے اور صفوان بن امیہ نے حطیم میں بیٹھ کر یہ مشورہ کیا۔ صفوان نے تمہارے قرض اور بال بچوں کی نگہداشت کی ذمہ داری قبول کی اور تم مجھے قتل کرنے یہاں آگئے۔ لیکن یاد رکھو اللہ میرے اور تمہارے درمیان حائل ہے۔ & عمیر نے خیال کیا کہ یہ معاملہ ایسا تھا جس کا صفوان کے علاوہ کسی کو بھی علم نہ تھا اسے کس نے بتایا ؟ یقینا یہ نبی ہی ہوسکتا ہے اور ہم ہی غلطی پر ہیں۔ اس خیال کے آتے ہی اس نے آپ کے سامنے کلمہ شہادت کا اقرار کیا اور مسلمان ہوگیا۔ آپ نے صحابہ سے فرمایا : اپنے بھائی کو دین سمجھاؤ، قرآن پڑھاؤ اور اس کے بیٹے کو آزاد کردو۔ & ادھر صفوان نے مکہ میں مشہور کر رکھا تھا کہ میں عنقریب تم لوگوں کو ایک خوشخبری سناؤں گا مگر اس کے بجائے جب اسے عمیر کے مسلمان ہوجانے کی اطلاع ملی تو غصہ سے جل بھن گیا اور اس نے قسم کھالی کہ آئندہ عمیر سے بات تک نہ کروں گا اور نہ ہی اسے کسی قسم کا نفع پہنچاؤں گا۔ عمیر اسلام سیکھ کر چند دن بعد مکہ آیا۔ اور یہاں آ کر دعوت کا کام شروع کردیا اور اس کے ذریعہ بہت سے لوگ مسلمان ہوئے۔ (ابن ہشام ١ : ٦٦١ تا ٦٦٣ بحوالہ الرحیق المختوم ص ٣٧٢) (٩) یہود کا منصوبہ قتل ٤ ھ بئر معونہ کے واقعہ نے ایک دفعہ پھر غزوہ احد کے چرکہ کی یاد تازہ کردی۔ ستر قاریوں میں سے صرف عمرو بن امیہ ضمری بچے جنہیں کافروں نے گرفتار کرلیا۔ (بخاری۔ کتاب المغازی۔ غزوۃ الرجیع و بئرمعونہ) مگر آپ ان کی قید سے نکل بھاگے اور مدینہ پہنچ کر اس دردناک واقعہ کی آپ کو اطلاع دی۔ راستہ میں عمرو بن امیہ نے غلطی سے دو آدمیوں کو دشمن سمجھ کر ان کا صفایا کردیا حالانکہ وہ معاہد تھے۔ جب آپ کو یہ بات معلوم ہوئی تو آپ کو بہت دکھ ہوا اور فرمایا کہ & اب ہمیں ان دو آدمیوں کی دیت ادا کرنا ہوگی۔ & چناچہ اس رقم کی فراہمی میں مشغول ہوگئے۔ میثاق مدینہ کی رو سے یہود بھی اس طرح کی دیت میں برابر کے شریک قرار دیئے گئے تھے۔ چناچہ آپ چند صحابہ کو ساتھ لے کر بنو نضیر کے ہاں تشریف لے گئے۔ ان لوگوں نے آپ کو ایک مکان کے صحن میں بٹھایا آپ ایک دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئے اور یہود وہاں سے اس بہانہ سے اٹھ کر چلے آئے کہ ہم جا کر رقم اکٹھی کرتے ہیں۔ وہاں سے باہر آ کر آپ کو قتل کے مشورے ہونے لگے۔ ایک یہودی کہنے لگا & کون ہے جو مکان کی چھت پر جا کر اوپر سے چکی کا پاٹ گرا کر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر گرا کر اسے کچل ڈالے ؟ & ایک دوسرا بدبخت فوراً اس کام کے لیے تیار ہوگیا۔ ان لوگوں کے اس ارادہ کی آپ کو بذریعہ وحی خبر ہوگئی۔ آپ فوراً وہاں سے اٹھے اور مسجد کی طرف روانہ ہوگئے۔ صحابہ کو بھی آپ نے راہ ہی میں یہود کے اس مذموم ارادہ سے مطلع فرمایا۔ یہود کی یہی غداری غزوہ بنو نضیر کا فوری سبب بن گئی اور بالآخر انہیں جلاوطن ہونا پڑا۔ (الرحیق المختوم ص ٤٦٢) (١٠) ثمامہ بن اثال کا ارادہ قتل ٦ ھ : سنہ ٦ ہجری میں مسلمانوں کا ایک چھوٹا سا لشکر محمد بن مسلمہ کی سر کردگی میں یمنی قبیلوں کی سیاسی صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے بھیجا گیا۔ یہ لشکر قبیلہ بنو حنیفہ کے سردار ثمامہ بن اثال حنفی کو گرفتار کر کے مدینہ آپ کے پاس لے آیا۔ ثمامہ مسیلمہ کذاب کے حکم سے بھیس بدل کر نبی کو قتل کرنے کے ارادہ سے نکلا تھا کہ مسلمانوں کے اس لشکر کے ہتھے چڑھ گیا اور مسلمانوں نے اسے گرفتار کرلیا تھا۔ آپ نے اسے مسجد نبوی کے ایک ستون سے باندھ دینے کا حکم دیا اور پوچھا & ثمامہ ! کیا صورت حال ہے ؟ & ثمامہ کہنے لگا & اگر مجھے قتل کردو گے تو میرا قصاص لیا جائے گا اور اگر معاف کردو گے تو ایک قدردان کو معاف کرو گے اور مال چاہتے ہو تو جتنا چاہو مل جائے گا۔ & آپ ثمامہ کا یہ جواب سن کر واپس چلے گئے اور کوئی جواب نہ دیا۔ دوسرے دن آپ پھر تشریف لائے اور وہی پہلا سا سوال کیا۔ جواب میں ثمامہ نے بھی وہی پہلی باتیں دہرا دیں۔ آپ واپس چلے آئے اور کوئی جواب نہ دیا۔ تیسرے دن پھر ایسا ہی سوال و جواب ہوا۔ آپ نے ثمامہ کا وہی پہلا جواب سن کر صحابہ سے فرمایا کہ & اسے رہا کردو۔ & رہائی کے بعد ثمامہ نے ایک باغ میں جا کر غسل کیا پھر آپ کے پاس واپس آ کر اسلام قبول کرلیا۔ اور کہنے لگا & واللہ ! آج سے پہلے مجھے آپ کا چہرہ سب سے زیادہ ناپسند تھا مگر آج سب سے زیادہ محبوب ہے اور آپ کا دین سب ادیان سے زیادہ ناپسند تھا مگر آج یہی دین سب سے زیادہ محبوب ہے میں عمرہ کا ارادہ کر رہا تھا کہ آپ کے ساتھیوں نے مجھے پکڑ لیا۔ آپ نے اسے بشارت دی اور عمرہ کرنے کی ہدایت فرمائی۔ چناچہ جب ثمامہ عمرہ کرنے کی غرض سے مکہ آئے تو مشرکین مکہ کہنے لگے & ثمامہ بےدین ہوگیا ہے & ثمامہ نے کہا & نہیں بلکہ میں تو مسلمان ہوا ہوں اور دیکھو ! آئندہ تمہیں یمن سے گندم کا ایک دانہ بھی نہ پہنچے گا تاآنکہ رسول اللہ مجھے اس بات کا حکم نہ دیں۔ چناچہ بعد میں واقعتاً بھی یہی کچھ ہوا۔ ثمامہ بن اثال کا واقعہ صحیحین میں کئی مقامات پر مذکور ہے مگر ان میں یہ صراحت نہیں کہ ثمامہ جب گرفتار ہوئے تو اس مسیلمہ کذاب کے حکم کے مطابق آپ کو قتل کے ارادہ سے نکلے تھے اس بات کی وضاحت سیرۃ طیبہ میں موجود ہے (سیرۃ طیبہ ٢ : ٢٩٧ بحوالہ الرحیق المختوم ص ٥٠٦) ١١۔ زہر آلود بکری کے گوشت سے آپ کے قتل کی یہودی سازش ٧ ھ : خیبر کے فتح ہونے اور یہود سے مزارعت کا معاملہ طے ہوجانے کے بعد آپ نے چند دن خیبر میں قیام فرمایا۔ غدار اور مکار شکست خوردہ یہود نے ان ایام میں آپ کو ہلاک کرنے کی ایک سازش تیار کی۔ سلام بن مشکم کی بیوی کو، جو یہودی سردار مرحب کی بیٹی تھی اس کام کے لیے آلہ کار کے طور پر استعمال کیا گیا۔ زینب نے آپ کو دعوت کا پیغام بھیجا جسے آپ نے ازراہ کرم قبول کرلیا۔ آپ سے پوچھ لیا گیا کہ آپ کونسا گوشت کھانا پسند فرماتے ہیں ؟ آپ نے جواب دیا & دستی کا & اس دعوت میں آپ چند صحابہ سمیت وقت معینہ پر پہنچ گئے۔ آپ نے کھانا شروع کیا تو پہلا نوالہ منہ میں ڈالتے ہی آپ کو زہر کا اثر محسوس ہونے لگا۔ آپ نے فوراً کھانے سے ہاتھ کھینچ لیا۔ لیکن سیدنا بشر بن براء نے چند ایک لقمے کھا لیے تھے لہذا وہ اس زہر کے اثر سے ایک دو دن بعد شہید ہوگئے۔ آپ نے زینب کو بلا کر پوچھا تو اس نے اعتراف جرم کرلیا اور یہ بھی بتادیا کہ اس سازش میں پوری یہودی قوم شریک تھی۔ آپ نے یہودیوں سے پوچھا کہ & تم نے یہ کام کیوں کیا ؟ & وہ کہنے لگے کہ & ہمارا خیال تھا کہ اگر آپ سچے نبی ہیں تو آپ پر زہر اثر نہیں کرے گا اور اگر جھوٹے ہیں تو ہمیں آپ سے نجات مل جائے گی۔ & (بخاری کتاب الطب۔ باب مایذکر فی سم النبی۔۔ ) آپ نے اپنی طرف سے تو زینب اور یہود کو معاف فرما دیا لیکن سیدنا بشر کے قصاص میں زینب کے قتل کا حکم دے دیا (ابن ہشام ٢ : ٢٣٥ تا ٢٣٧ بحوالہ الرحیق المختوم ص ٥٩٨) آپ نے اپنی مرض الموت میں سیدہ عائشہ (رض) سے فرمایا & عائشہ (رض) ! اب مجھے معلوم ہوا کہ جو لقمہ میں نے خیبر میں کھایا تھا اس کے زہر کے اثر سے میری رگ جان کٹ گئی (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب مرض النبی۔۔ ) ١٢۔ خسرو پرویز شاہ ایران کا ارادہ قتل ٧ ھ : صلح حدیبیہ کے بعد آپ نے شاہان عجم کے نام دعوت نامے بھیجے۔ شاہ ایران کو جب یہ دعوت نامہ پہنچا تو غصہ سے خط پھاڑ دیا اور کہنے لگا : میرا غلام ہو کر ایسا خط لکھتا ہے ؟ & آپ کو جب یہ بات معلوم ہوئی تو آپ نے دعا فرمائی کہ & اے اللہ ان لوگوں کو بھی ہلاک کر دے (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب کتاب النبی الی کسریٰ و قیصر) پھر اس نے حاکم یمن باذان کو حکم بھیجا کہ وہ کسی آدمی کو بھیج کر اس مدعی نبوت کو گرفتار کرکے ہمارے حضور پیش کرے۔ باذان نے دو آدمی اس غرض سے مدینہ بھیجے۔ انہوں نے مدینہ پہنچ کر عرض کی کہ شہنشاہ عالم کسریٰ نے تم کو بلایا ہے اگر اس کے حکم کی تعمیل نہ کرو گے تو وہ تمہیں اور تمہارے ملک کو تباہ و برباد کر دے گا۔ & آپ نے ان سے کہا & اچھا تم کل آنا۔ & دوسرے دن جب وہ حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا & تمہارے شہنشاہ عالم کو آج رات اس کے بیٹے نے قتل کر ڈالا ہے۔ تم واپس چلے جاؤ اور اسے کہہ دینا کہ اسلام کی حکومت ایران کے پایہ تخت تک پہنچے گی۔ & وہ آدمی جب یمن واپس آئے تو خسرو کے قتل کی خبر وہاں پہنچ چکی تھی۔ یہ ماجرا دیکھ کر وہ لوگ مسلمان ہوگئے۔ (سیرۃ النبی۔ شبلی نعمانی ج ١ ص ٤٨٢) ١٣۔ جادو کے ذریعہ آپ کو ہلاک کرنے کی یہودی سازش : زہر آلود بکری کے گوشت کے واقعہ کے بعد یہود نے آپ کو ہلاک کرنے کا ایک نیا منصوبہ بنایا۔ اپنے حلیف لبید بن اعصم سے جو بڑا ماہر جادوگر تھا۔ آپ پر ایسا خطرناک جادو کرنے کی درخواست کی جو آپ کو جلد از جلد ہلاک کر ڈالے۔ لبید نے اس سلسلہ میں اپنی دو لڑکیوں کو ذریعہ بنایا جنہوں نے کسی نہ کسی طرح آپ کے سر کے کچھ بال حاصل کرلیے۔ ان بالوں پر منتر پڑھے گئے پھر ان میں گانٹھیں دے کر پھونکیں ماری گئیں۔ پھر انہیں کھجوروں کے خوشوں کے غلاف میں چھپا کر ذروان نامی کنوئیں کی تہہ میں ایک پتھر کے نیچے دبا دیا گیا۔ یہ جادو اتنا تیز اور سخت تھا کہ اس کے اثر سے اس کنوئیں کے پانی کا رنگ اتنا سرخ اور خونیں ہوگیا جیسے اس میں مہندی ڈال دی گئی ہو اور اس کنوئیں پر واقع درختوں کے خوشے یوں لگتے تھے جیسے سانپوں کے پھن ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو خواب میں فرشتے بھیج کر اس کی حقیقت بتلا دی اور اس طرح اللہ نے آپ کو اس شر سے بھی محفوظ کرلیا۔ (تفصیل کے لیے دیکھئے بخاری۔ کتاب بدء الخلق باب صفۃ ابلیس و جنودہ۔ نیز کتاب الادب۔ باب ( اِنَّ اللّٰهَ يَاْمُرُ بالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ 90؀) 16 ۔ النحل :90) اور سورة فلق کا حاشیہ نمبر ٥ ١٤۔ دشمن قبیلہ کے ایک بدوی کا ارادہ قتل : غزوہ ذات الرقاع سے واپسی پر اسلامی لشکر نے ایک مقام پر پڑاؤ کیا۔ صحابہ کرام (رض) الگ الگ درختوں کے نیچے آرام کرنے لگے۔ آپ بھی ایک درخت کے نیچے جا بیٹھے تلوار درخت سے لٹکائی اور لیٹتے ہی نیند غالب آگئی۔ اتنے میں دشمن قبیلہ کا ایک بدو وہاں پہنچ گیا۔ اس نے آپ کو قتل کرنے کے لیے اس موقعہ کو نہایت غنیمت سمجھا اور بڑھ کر تلوار درخت سے اتارنے لگا۔ وہ تلوار کو اتار ہی رہا تھا کہ آپ کو جاگ آگئی۔ بدو تلوار ہاتھ میں پکڑ کر کہنے لگا۔ & اب بتلاؤ ! تمہیں مجھ سے کون بچا سکتا ہے ؟ آپ نے نہایت اطمینان سے جواب دیا & میرا اللہ & یہ الفاظ آپ نے اس قدر بےباکی سے کہے کہ بدو سخت مرعوب ہوگیا اور کانپنے لگا۔ تلوار اس کے ہاتھ سے گرگئی۔ آپ نے اپنی تلوار سنبھال لی۔ پھر جب آپ نے اس پر قابو پا لیا تو صحابہ کو بلا کر اس ماجرا سے آگاہ کیا۔ بعد میں آپ نے اس بدو کو معاف کردیا (بخاری۔ کتاب الجہاد، باب من علق سیفہ بالشجرۃ فی السفر عند القائلۃ) واضح رہے کہ یہ بدوی اسی قبیلہ سے تھا جس کی سرکوبی کے لیے آپ نکلے ہوئے تھے۔ ١٥۔ فضالہ بن عمیر کا ارادہ قتل ٨ ھ : یہ فضالہ اسی عمیر بن وہب کا بیٹا تھا جو صفوان بن امیہ سے مشورہ کے بعد آپ کو قتل کرنے کے لیے مدینہ پہنچا تھا اور نتیجتاً اسلام لا کر واپس مکہ جا کر مقیم ہوگیا تھا۔ اس کا بیٹا فضالہ ابھی تک مشرک ہی تھا۔ فتح مکہ کے بعد آپ کعبہ کا طواف فرما رہے تھے کہ فضالہ کو بھی آپ کے قتل کی سوجھی۔ جب وہ اس ارادہ سے آپ کے قریب آیا تو آپ نے خود اسے اس کے ارادہ سے مطلع کردیا۔ جس پر وہ اپنے باپ کی طرح مسلمان ہوگیا (الرحیق المختوم ص ٦٤٨) ١٦۔ منافقوں کی آپ کو قتل کرنے کی سازش ٩ ھ : غزوہ تبوک سے واپسی پر تقریباً چودہ یا پندرہ منافقوں نے یہ سازش تیار کی کہ آپ کی کھلے راستہ کے بجائے گھاٹی والے راستہ کی طرف رہنمائی کی جائے اور جب آپ وہاں پہنچ جائیں تو آپ کو سواری سے اٹھا کر نیچے گھاٹی میں پھینک کر ہلاک کردیا جائے اسی سازش کے تحت آپ کی سواری کو اس راہ پر ڈال دیا گیا۔ حذیفہ بن یمان آپ کے ہمراہ تھے۔ جب گھاٹی قریب آنے کو تھی تو چند منافق منہ پر ڈھاٹے باندھے رات کی تاریکی میں آپ کی طرف بڑھنے لگے۔ دریں اثنا آپ کو وحی کے ذریعہ منافقوں کے اس مذموم ارادہ کی اطلاع مل گئی تھی۔ آپ نے حذیفہ بن یمان کو حکم دیا کہ ان منافقوں کی سواریوں کے چہروں پر مار مار کر انہیں تتر بتر کردیں۔ اس کام سے منافقوں کو بھی شبہ ہوگیا کہ رسول اللہ ان کے مذموم ارادہ سے مطلع ہوچکے ہیں۔ لہذا اب انہیں اپنی جانیں بچانے کی فکر دامن گیر ہوئی اور انہوں نے راہ فرار اختیار کی۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے منافقوں کا یہ منصوبہ قتل بھی ناکام بنادیا۔ (الرحیق المختوم ص ٦٨٦) آپ نے سیدنا حذیفہ بن یمان کو ان منافقوں کے نام معہ ولدیت بتلا دیئے تھے اور سیدنا حذیفہ ان کو پہنچانتے بھی تھے۔ تاہم رسول اللہ نے انہیں یہ ہدایت کردی تھی کہ عام مسلمانوں میں انہیں مشہور نہ کیا جائے۔ یہ سازشی منافق بعد میں اہل عقبہ کے نام سے مشہور ہوئے اور ان کا ذکر مسلم، کتاب صفۃ المنافقین میں بھی مجملاً مذکور ہے۔ نیز دیکھئے ( سورة حجرات کا حاشیہ نمبر ٣٤) ١٧۔ عامر بن طفیل اور اربد کی سازش قتل ١٠ ھ : ١٠ ھ میں مدینہ میں جو وفود آئے ان میں سے ایک وفد عامر بن صعصعہ کا بھی تھا۔ یہ وفد رشد و ہدایت کی غرض سے نہیں بلکہ آپ کے قتل کے ناپاک ارادہ سے آیا تھا۔ ایک وفد میں ایک تو عامر بن طفیل تھا اور یہ وہی شخص ہے جس نے فریب کاری سے بئرمعونہ کے ستر قاریوں کو شہید کردیا تھا۔ دوسرا اربد بن قیس۔ تیسرا خالد بن جعفر اور چوتھا جبار بن اسلم تھا۔ یہ سب کے سب قوم کے سردار اور شیطان صفت انسان تھے۔ عامر اور اربد نے راستہ ہی میں یہ سازش تیار کی کہ دھوکہ دے کر محمد کو قتل کردیں گے چناچہ جب یہ وفد مدینہ پہنچا تو عامر نے گفتگو کا آغاز کیا تاکہ آپ کو دھیان لگائے رکھے۔ اتنے میں اربد گھوم کر آپ کے پیچھے پہنچ گیا۔ وہ میان سے تلوار نکال ہی رہا تھا کہ اللہ نے اس کے ہاتھ کی حرکت بند کردی اور وہ اسے بےنیام بھی نہ کرسکا اور ان کی یہ سازش دھری کی دھری رہ گئی اور ان کے عزائم طشت ازبام ہوگئے۔ آپ نے ان دونوں پر بددعا کی۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں کیا۔ چناچہ واپسی پر اربد اور اس کے اونٹ پر بجلی گری جس سے وہ جل کر مرگیا۔ رہا عامر تو واپسی کے سفر کے دوران اس کی گردن پر ایک ایسی گلٹی نکلی جس نے اسے موت سے دوچار کردیا۔ مرتے وقت اس کی زبان پر یہ الفاظ تھے & آہ : اونٹ کی گلٹی جیسی گلٹی اور ایک فلاں خاندان کی عورت کے گھر میں موت۔ صحیح بخاری کی روایت کے مطابق عامر نے اپنی گفتگو کا جو آغاز کیا وہ یوں تھا & میں آپ کو تین باتوں کا اختیار دیتا ہوں۔ (١) دیہاتی آبادی کے حاکم آپ ہوں اور شہری آبادی کا حاکم میں ہوں گا۔ (٢) یا آپ کے بعد آپ کا خلیفہ میں بنوں گا اور (٣) اگر یہ دونوں باتیں نامنظور ہوں تو میں غطفان کے ایک ہزار گھوڑوں اور ایک ہزار گھوڑیوں کو آپ پر چڑھا لاؤں گا (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب غزوۃ الرجیع و رعل و ذکوان) اس واقعہ کے بعد وہ ایک عورت کے گھر میں طاعون کا شکار ہوگیا اور مرتے وقت اس کی زبان پر یہ الفاظ تھے & اونٹ کی گلٹی جیسی گلٹی اور وہ بھی بنی فلاں کی ایک عورت کے گھر میں۔ میرے پاس میرا گھوڑا لاؤ۔ & چناچہ وہ گھوڑے پر سوار ہوا اور اسی حالت میں اسے موت نے آلیا۔ (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب غزوۃ الرجیع و رعل و ذکوان) سو یہ ہے ان قاتلانہ حملوں اور سازشوں کی مختصر داستان جن میں بالخصوص اس محسن اعظم کو صفحہ ہستی سے نیست و نابود کرنے کے منصوبے تیار کیے گئے تھے اس محسن انسانیت کے لیے جو دنیا بھر کے لوگوں کی اصلاح و فلاح کا یکساں درد رکھتا تھا اور اللہ تعالیٰ نے ایسی تمام سازشوں اور حملوں کو ناکام بنا کر (وَاللّٰهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ 67؀) 5 ۔ المآئدہ :67) کا وعدہ پورا کردیا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهٗ ۭ: یعنی اللہ تعالیٰ کے پیغام میں سے اگر کچھ بھی چھپالیا، یا پہنچانے میں سستی کی تو گویا سرے سے اس کا پیغام پہنچایا ہی نہیں، خصوصاً یہود و نصاریٰ سے متعلق اعلانات۔ اس آیت میں ان لوگوں کی تردید ہے جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق کہتے ہیں کہ آپ نے قرآن کی بعض آیات مسلمانوں تک نہیں پہنچائیں، بلکہ صرف علی (رض) اور اہل بیت کو بتائیں۔ خود علی (رض) نے ان کے اس باطل عقیدے کی تردید فرمائی، چناچہ ابو جحیفہ (رض) نے علی (رض) سے پوچھا : ” کیا آپ ( اہل بیت) کے پاس کوئی اور کتاب ہے ؟ “ تو انھوں نے فرمایا : ” نہیں، مگر اللہ کی کتاب یا کتاب اللہ کی وہ سمجھ ہے جو کسی مسلمان آدمی کو عطا کی جائے، یا جو اس صحیفے میں ہے۔ “ میں نے پوچھا : ” اس صحیفے میں کیا ہے ؟ “ فرمایا : ” دیت اور قیدیوں کو چھڑانے سے متعلق احادیث اور یہ کہ مسلمان کو کافر کے بدلے قتل نہ کیا جائے۔ “ [ بخاری، العلم، باب کتابۃ العلم : ١١١ ] عائشہ (رض) فرماتی ہیں : جو شخص یہ کہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس میں سے کوئی چیز چھپالی تھی جو اللہ تعالیٰ نے آپ پر نازل فرمائی تو یقیناً اس نے جھوٹ بولا، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : ( يٰٓاَيُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّــغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ ۭ )” اے رسول ! پہنچا دے جو کچھ تیری طرف تیرے رب کی جانب سے اتارا گیا ہے۔ “ [ بخاری، التفسیر، باب : ( یأیھا الرسول بلغ ما أنزل إلیک من ربک ) : ٤٦١٢ ] جابر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ( حجۃ الوداع کے دن) اپنے خطبہ میں ارشاد فرمایا : ” تم سے میرے بارے میں پوچھا جائے گا تو کیا جواب دو گے ؟ “ صحابہ کرام (رض) نے کہا : ” ہم سب یہ گواہی دیں گے کہ بیشک آپ نے پیغام رسالت کو پہنچا دیا اور (پہنچانے کا) حق ادا کردیا اور یہ کہ آپ نے خیر خواہی فرمائی۔ “ اس پر آپ نے اپنی انگلی آسمان کی طرف اٹھاتے ہوئے اور صحابہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : ” اے اللہ ! تو گواہ ہوجا، اے اللہ ! تو گواہ ہوجا۔ “ [ مسلم، الحج، باب حجۃ النبی : ١٢١٨۔ بخاری : ١٧٤١ ] وَاللّٰهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ ۭ: اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خاص حفاظت میں لے لیا اور فرمایا کہ تم میرا پیغام پہنچاؤ، میں خود تمہیں لوگوں سے بچاؤں گا۔ اس آیت کے اترنے سے پہلے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا پہرا دیا جاتا تھا، عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ ایک رات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سو نہیں رہے تھے، میں بھی آپ کے پاس ہی لیٹی ہوئی تھی، میں نے عرض کی : ” اے اللہ کے رسول ! کیا بات ہے ؟ “ آپ نے فرمایا : ” کاش ! کوئی نیک آدمی میرا پہرا دیتا۔ “ تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ میں نے ہتھیاروں کی جھنکار سنی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا : ” کون ہے ؟ “ آنے والے نے کہا : ” سعد بن ابی وقاص ہوں۔ “ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” کیسے آنا ہوا ؟ “ انھوں نے کہا : ” اے اللہ کے رسول ! میں آیا ہوں کہ ( آج رات) آپ کا پہرا دوں۔ “ عائشہ (رض) فرماتی ہیں : ” اس کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آرام سے سو گئے، حتیٰ کہ میں نے آپ کے خراٹوں کی آواز سنی۔ “ [ بخاری، الجہاد والسیر، باب الحراسۃ فی الغزو فی سبیل اللہ : ٢٨٨٥۔ مسلم : ٢٤١٠ ] عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے پہرے کا انتظام کیا جاتا تھا، یہاں تک کہ جب یہ آیت اتری : (وَاللّٰهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ ) تو آپ نے خیمے سے سر نکال کر فرمایا : ” لوگو ! تم چلے جاؤ، اللہ تعالیٰ مجھے ( دشمن سے ) بچائے گا۔ “ [ ترمذی، تفسیر القرآن، باب ومن سورة المائدۃ : ٣٠٤٦ ] اس کی ایک مثال وہ اعرابی بھی ہے جس نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سوتے ہوئے آپ کی تلوار پکڑ کر کہا تھا کہ تمہیں مجھ سے کون بچائے گا ؟ آپ نے فرمایا : ” اللہ ! “ اِنَّ اللّٰهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكٰفِرِيْنَ : یعنی اللہ تعالیٰ کفار کو ان کے ارادوں میں کامیاب نہیں ہونے دے گا۔ (کبیر) شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں، یعنی اگرچہ وہ دشمن ہوں تم بےفکر یہ پیغام پہنچاؤ اور خطرہ نہ کرو۔ (موضح) یا مطلب یہ ہے کہ ہدایت و گمراہی اللہ کے ہاتھ میں ہے، اس لیے اگر یہ لوگ ایمان نہیں لاتے تو فکر نہ کرو۔ (ابن کثیر)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Emphasis on Tabligh and Comfort for the Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) In the present verses as well as throughout the previous two sec¬tions, there has been a continued description of the crookedness, way¬wardness, obstinacy and anti-Islam mechanizations of Jews and Christians. One natural effect it could have on the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) was that he, being human, could feel disappointed or compelled by circumstances and, as a result of which, the process of Tabligh or the very mission of prophethood might slow down or left lacking somewhere. The second effect could be that in the event he elected to devote single-mindedly to his call and mission as a prophet without car¬ing for any hostility, enmity, harm or hurt, there was every likelihood that it could result in the worst of hardships at the hands of his adver¬saries. Therefore, in the last verse (67), the Holy Prophet صلی اللہ علیہ وسلم was, on the one hand, emphatically commanded to convey everything revealed to him by Allah, all of it, without any hesitation, to the peo¬ple. That someone likes or dislikes it, takes or rejects it, should not worry him in his mission. Then, on the other hand, by giving the Holy Prophet صلی اللہ علیہ وسلم the good news that all those disbelievers will be unable to bring any harm to him in his mission as a prophet for Allah will Himself protect him. The sentence: وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِ‌سَالَتَهُ And if you do not, then, you have not conveyed His message [ at all ] & in this verse is worth pondering. This address to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) here means that if he failed to convey even one Divine command to the Muslim Ummah, he would not find himself absolved of the responsibility of prophethood. This was the reason why the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) strived with his full courage and strength all his life to fulfill this heavy obligation placed on his shoulders. Muslims are familiar with the renowned Khutbah of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) during his Last Hajj, the great address which was not only the Constitution of Islam but also the last will and testament of an elementally lenient and merciful prophet who was far more affectionate and caring than a father and mother could ever be. The parting will of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) on the occasion of the Last Hajj In this Khutbah before a huge gathering of his noble Sahabah, after he had given important instructions to them, he asked the audience: اَلَا بَلَّغتُ (Listen: Have I conveyed your religion to you?). The Sababah confirmed that he certainly had. Thereupon, he said: You be a witness on this. And along with it, he also said: فَلیُبَلِّغِ اشَّاھِد ( الغای (علیہ السلام) بَ (that is, those present in this gathering should convey my message to those who are not here). Included among the absent are those who were present in the world at that time but were not present in the gathering itself - and also included are those who were yet to be born. The method of conveying the message to them was the spreading of the knowledge of the دین Din of Allah, a duty which was fulfilled by great efforts made by the Sahabah and the Tabi&in. It was under the direct influence of this parting advice that the no¬ble Companions, may Allah be pleased with them all, took the words and deeds of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) as a weighty trust of Allah and did their best to ensure that not a single sentence uttered by his blessed tongue should remain un-conveyed to his Ummah. This holds true under all normal conditions. However, if someone did not narrate a particular Hadith before people for a special reason or compulsion, he made it a point to do that before his death by reciting it to at least some people around so that they could be relieved of the burden of trust they have been carrying on their shoulders. A similar event about a Hadith from Sayyidna Mu&adh (رض) has been reported in the Sahih of al-Bukhari, that is, اَخبر بہ معاذ عند موتہ تاثما that is, Sayyidna Mu` adh recited this Hadith at the time of his death so that he would not become a sinner because of his failure to convey this trust with him to others. The Protection of Allah In the second sentence of the last verse: وَاللَّـهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ (And Allah shall protect you from the people), good news has been given to him that his enemies would remain unable to do anything harmful against him despite their myriad demonstrations of animosity. It appears in Hadith that, before the revelation of this verse, some Companions (رض) generally used to stay around him in order to protect him. They guarded him wherever he was, in the city or in travel. After the revelation of this verse, he relieved them all as no security arrange¬ments were needed anymore. Allah had Himself taken that responsibility. In a Hadith narrated by Sayyidna Hasan, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has been reported to have said: When I was charged with the duty of conveying the message of Allah as His prophet, the charge appeared to be very frightening because people around me were bound to falsify and oppose me. Then, as this verse was revealed, I was at peace. (Tafsir Kabir) Thus, after the revelation of this verse, no one dared to harm the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) during his efforts to spread the message of Islam as a prophet of Allah. Any casual injury received in Jihad bat¬tles is not contrary to this.

تبلیغ کی تاکید اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی اس کا ایک اثر طبعی طور پر بتقاضائے بشریت یہ بھی ہوسکتا تھا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مایوس ہو کر یا مجبور ہو کر تبلیغ و رسالت میں کچھ کمی ہوجائے اور دوسرا اثر یہ بھی ہوسکتا تھا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مخالفت اور دشمنی اور ایذاء رسانی کی پرواہ کئے بغیر تبلیغ رسالت میں لگے رہیں، اور اس کے نتیجہ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دشمنوں کے ہاتھ سے تکالیف و مصائب کا سامنا ہو۔ اس لئے تیسری آیت میں ایک طرف تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ تاکیدی حکم دے دیا گیا کہ جو کچھ آپ پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کیا جائے وہ سب کا سب بغیر کسی جھجک کے آپ لوگوں کو پہنچا دیں، کوئی برا مانے یا بھلا۔ اور مخالفت کرے یا قبول کرے، اور دوسری طرف رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ خوشخبری دے کر مطمئن بھی کردیا گیا کہ تبلیغ رسالت کے سلسلہ میں یہ کفار آپ کا کچھ نہ بگاڑ سکیں گے۔ اللہ تعالیٰ خود آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حفاظت فرمائیں گے۔ اس آیت میں ایک جملہ تو یہ قابل غور ہے کہ وَاِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهٗ ، مراد اس کی یہ ہے کہ اگر کوئی ایک حکم خداوندی بھی آپ نے امت کو نہ پہنچایا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے فرض پیغمبری سے سبکدوش نہیں ہوں گے، یہی وجہ تھی کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمام عمر اس فریضہ کی ادائیگی میں اپنی پوری ہمت و قوت صرف فرمائی اور حجة الوداع کا مشہور خطبہ جو ایک حیثیت سے اسلام کا آئین اور دستور تھا اور دوسری حیثیت سے ایک رؤف و رحیم اور ماں باپ سے زیادہ شفیق پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آخری وصیت تھی۔ حجة الوداع کے موقع پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایک نصیحت اس خطبہ میں آپ نے صحابہ کرام کے ایک عظیم مجمع کے سامنے اہم ہدایات فرمانے کے بعد مجمع سے سوال فرمایا : الا ھل بلغت۔ دیکھو ! کیا میں نے آپ کو دین پہنچا دیا ؟ صحابہ کرام نے اقرار فرمایا کہ ضرور پہنچایا۔ اس پر ارشاد فرمایا کہ آپ اس پر گواہ رہو، اسی کے ساتھ یہ بھی ارشاد فرمایا کہ فلیبلغ الشاھد الغائب، ” یعنی جو لوگ اس مجمع میں حاضر ہیں وہ غائبوں تک میری بات پہنچا دیں “۔ غائبین میں وہ لوگ بھی داخل ہیں جو اس وقت دنیا میں موجود تھے، مگر مجمع میں حاضر نہ تھے۔ اور وہ لوگ بھی داخل ہیں جو ابھی پیدا نہیں ہوئے، ان کو پیغام پہنچانے کا طریقہ علم دین کی نشر و اشاعت تھی جس کو حضرات صحابہ (رض) وتابعین رحمة اللہ علیہم نے پوری کوشش سے انجام دیا۔ اسی کا یہ اثر تھا کہ عام حالات میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشادات و کلمات کو اللہ کی ایک بھاری امانت کی طرح محسوس فرمایا، اور مقدور بھر اس کی کوشش کی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان مبارک سے سنا ہوا کوئی جملہ ایسا نہ رہ جائے جو امت کو نہ پہنچے۔ اگر کسی خاص سبب یا مجبوری سے کسی نے کسی خاص حدیث کو لوگوں سے بیان نہیں کیا تو اپنی موت سے پہلے دو چار آدمیوں کو ضرور سنا دیا، تاکہ وہ اس امانت سے سبکدوش ہوجائیں۔ صحیح بخاری میں حضرت معاذ (رض) کی ایک حدیث اپنی موت کے وقت بیان فرمائی، تاکہ اس امانت کے نہ پہنچانے کی وجہ سے گنہگار نہ ہوجائیں۔ آیت کے دوسرے جملہ واللّٰهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ ، میں بشارت دی گئی ہے کہ ہزاروں مخالفتوں کے باوجود دشمن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کچھ نہ بگاڑ سکیں گے۔ حدیث میں ہے کہ اس آیت کے نازل ہونے سے پہلے چند صحابہ کرام آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حفاظت کے لئے عام طور پر ساتھ لگے رہتے تھے۔ اور سفر و حضر میں آپ کی حفاظت کرتے تھے۔ اس آیت کے نزول کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سب کو رخصت کردیا کہ اب کسی پہرہ اور حفاظت کی ضرورت نہیں رہی۔ اللہ تعالیٰ نے یہ کام خود اپنے ذمہ لے لیا ہے۔ ایک حدیث میں حضرت حسن (رض) سے روایت ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جب مجھے تبلیغ و رسالت کے احکام ملے تو میرے دل میں اس کی بڑی ہیبت تھی، کہ ہر طرف سے لوگ میری تکذیب اور مخالفت کریں گے، پھر جب یہ آیت نازل ہوئی تو سکون و اطمینان حاصل ہوگیا۔ (تفسیر کبیر) چناچہ اس آیت کے نزول کے بعد کسی کی مجال نہیں ہوئی کہ تبلیغ و رسالت کے مقابلہ میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کوئی گزند پہنچا سکے۔ جنگ و جہاد میں عارضی طور سے کوئی تکلیف پہنچ جانا اس کے منافی نہیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

يٰٓاَيُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّــغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ۝ ٠ۭ وَاِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہٗ۝ ٠ۭ وَاللہُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ۝ ٠ۭ اِنَّ اللہَ لَا يَہْدِي الْقَوْمَ الْكٰفِرِيْنَ۝ ٦٧ رسل أصل الرِّسْلِ : الانبعاث علی التّؤدة وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ومن الأنبیاء قوله : وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ [ آل عمران/ 144] ( ر س ل ) الرسل الرسل ۔ اصل میں اس کے معنی آہستہ اور نرمی کے ساتھ چل پڑنے کے ہیں۔ اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھیجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ اور کبھی اس سے مراد انبیا (علیہ السلام) ہوتے ہیں جیسے فرماٰیا وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ [ آل عمران/ 144] اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے بڑھ کر اور کیا کہ ایک رسول ہے اور بس نزل النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ. يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] ( ن ز ل ) النزول ( ض ) اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا عصم العَصْمُ : الإمساکُ ، والاعْتِصَامُ : الاستمساک . قال تعالی: لا عاصِمَ الْيَوْمَ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ [هود/ 43] ، أي : لا شيء يَعْصِمُ منه، والاعْتِصَامُ : التّمسّك بالشیء، قال : وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعاً [ آل عمران/ 103] ( ع ص م ) العصم کے معنی روکنے کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ لا عاصِمَ الْيَوْمَ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ [هود/ 43] آج خدا کے عذاب سے کوئی بچانے والا نہیں ۔ بعض نے لاعاصم کے معنی کا معصوم بھی کئے ہیں یعنی آج اللہ کے حکم سے کوئی بیچ نہیں سکے گا۔ الاعتصام کسی چیز کو پکڑ کر مظبوطی سے تھام لینا قرآن میں ہے ۔ وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعاً [ آل عمران/ 103] هدى الهداية دلالة بلطف، وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه : الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل، والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه/ 50] . الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء، وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا [ الأنبیاء/ 73] . الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی، وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن/ 11] الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43]. ( ھ د ی ) الھدایتہ کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه/ 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء/ 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ ( 3 ) سوم بمعنی توفیق خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔ ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43] میں فرمایا ۔ قوم والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] ، ( ق و م ) قيام القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

قول باری ہے یا یھا الرسول بلغ ما انزل الیک من ربک اے پیغمبر ! جو کچھ تمہارے رب کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا وہ لوگوں تک پہنچا دو آیت میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ حکم دیا گیا ہے اللہ نے آپکے ذریعے لوگوں کی طرف جو کتاب بھیجی ہے اور جو احکام نازل کیے ہیں آپ انہیں بےکم و کاست لوگوں تک پہنچا دیں اور کسی سے ڈر کر یا کسی کے ساتھ نرمی برتنے کی خاطر کوئی بات چھپا کر نہ رکھیں ۔ اور یہ بتادیا کہ اگر آپ نے ان میں سے کوئی بات لوگوں تک پہنچانے میں کوتاہی کی تو آپ کی حیثیت اس شخص کی طرح ہوگی جس نے گویا کوئی بات پہنچائی ہی نہیں چناچہ ارشاد باری ہے وان لم تعفل فما بغلت رسالتہ اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اس کی پیغمبر ی کا حق ادا نہ کیا ۔ پھر آپ انبیاء کے درجے اور مرتبے کے مستحق نہیں قرار پائیں گے جنہوں نے اللہ کا پیغام اور اس کے احکام لوگوں تک پہنچانے میں دن رات ایک کردیئے تھے نیز اللہ تعالیٰ نے یہ اطلاع بھی دے دی وہ لوگوں کے شر سے آپ کو بچا لے گا ۔ آپ کے دشمن نہ آپ کی جان پر ہاتھ ڈال سکیں گے نہ آپ کو مغلوب کرسکیں گے اور نہ محصور چناچہ ارشاد ہوا واللہ یعصمک من الناس اور تم کو لوگوں کے شر سے بچانے والا ہے آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ آپ نے اللہ کی نازل کردہ تمام باتوں کو لوگوں تک پہنچانے میں کوئی تقیہ نہیں کیا ۔ کوئی بات پوشدہ نہیں رکھی۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تقیہ نہیں کیا اس میں روافض اور اہل تشیع کے اس دعوے کے بطلان پر دلالت موجود ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خوف کی بنا پر تقیہ کے طور پر لوگوں سیب بعض باتیں چھپالی تھیں اور انہیں لوگوں تک نہیں پہنچایا تھا۔ یہ دعویٰ اس لیے باطل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو تبلیغ یعنی لوگوں تک اللہ کی نازل کردہ تمام باتیں پہنچانے کا حکم دیا تھا اور آپ کو یہ بتادیا کہ آپ کو تقیہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے جیسا کہ قول باری واللہ یعصمک من الناس سے ظاہر ہے۔ آیت میں اس بات پر بھی دلالت موجود ہے کہ ایسے تمام احکام جن کی لوگوں کو عام طور پر ضرورت تھی آپ نے انہیں تمام لوگوں تک پہنچا دیا ہے۔ نیز یہ کہ امت کے لیے ان احکام کا ورد و تواتر کے ساتھ ہونا چاہیے مثلاً مس ذکر یا مس مرأۃ یا آگ پر پکی ہوئی چیز کھانے کی بنا پر وضو کرنے کا حکم اور اس جیسے دوسرے احکام ۔ اس لیے کہ ان جیسے امور سے لوگوں کے دن رات سابقہ پڑتا تھا۔ اس بنا پر اگر اس قسم کا کوئی حکم تواتر کے ساتھ وارد نہ ہو تو اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوجاتی ہے کہ یا تو اصل کے اعتبار سے یہ حکم ثابت ہی نہیں ہے یا اس کی توجیہ اور اسکے معنی وہ نہیں ہیں جن کا ظاہر حدیث مقتضی ہے ، مثلاً وضو کے معنی ہاتھ دھونے کے لیے جائیں ، حدث لا حق ہونے کی بنا پر وضو کرنے کے نہ لیے جائیں ۔ قول باری واللہ یغصمک من الناس حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کی صحت پر دلالت کرتا ہے کیونکہ آیت میں غیب کی ان باتوں میں ایک بات خبر دی گئی ہے جو بعد میں پیش آنے والے واقعات کے عین مطابق ثابت ہوئیں اس لیے کہ واقعاتی طور پر یہ بات ثابت ہے کہ کسی کو آپ کی جان پر ہاتھ ڈالنے ، آپ پر غلبہ پانے یا قید و بند میں ڈالنے کا خدا کی طرف سے موقعہ ہی نہیں دیا گیا ۔ گزند پہنچانے والے وہ دشمنان رسول جنہیں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک رسائی نصیب نہ ہوسکی جبکہ ایسے دشمنوں کی کوئی کمی نہیں تھی جو آپ کے خون کے پیاسے تھے ، آپ سے ٹکر لینے کو ہمہ وقت تیار تھے اور ہمیشہ آپ کی تاک میں رہتے تھے مثلاً عامر بن الطفیل اور اربد ، نے مل کر آپ کے خلاف سازش کی لیکن آپ تک پہنچنے میں کامیاب نہیں ہو سکے یا جس طرح عمیر بن وہب اور صفوان بن امیہ نے آپ کو دھوکے سے قتل کردینے کا منصوبہ بنایا تھا، اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس منصوبے کی قبل از وقت اطلاع دے دی ۔ آپ نے عمیر بن وہب کو اس کے منصوبے سے آگاہ کردیا جو اس نے صفوان بن امیہ کے ساتھ مل کر بنایا تھا ، جبکہ یہ دونوں ابھی آپ سے بہت دور ہجر کے مقام پر تھے۔ اس کے نتیجے میں عمیر مسلمان ہوگئے اور اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس بات کی اطلاع اللہ کے سوا اور کسی کی طرف سے نہیں دی جاسکتی کیونکہ وہی عالم الغیب و الشہادہ ہے۔ اگر آپ کو اللہ کی طرف سے اس بات کی اطلاع نہ دی جاتی تو آپ لوگوں کو ہرگز اس سے آگاہ نہ کرسکتے۔ نہ ہی آپ یہ دعویٰ کرتے کہ دشمن آپ کی جان پر ہاتھ نہیں ڈال سکتے ہیں اور نہ ہیں آپ کو مغلوب کرسکتے ہیں اگر آپ اپنی طرف سے ایسی باتیں کہتے تو آپ کو ہر وقت یہ خطرہ لا حق رہتا کہ کہیں واقعاتی طور پر یہ باتیں غلط ثابت نہ ہوجائیں اور لوگوں کو آپ پر کذب بیانی کی تہمت لگانے کا موقع ہاتھ نہ آ جائے۔ علاوہ ازیں آپ کو اپنی طرف سے ایسی باتیں کہنے کی قطعا ً ضرورت بھی نہیں تھی ۔ ایک اور پہلو سے اس پر نظر ڈال لی جائے وہ یہ کہ اگر آپ کی بتائی ہوئی یہ باتیں اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتیں تو واقعاتی طور پر ان سب کا ظہور میں آ جانا اور آپ کی اطلاع کے عین مطابق ہونانیز کسی ایک واقعہ کا اس نہج سے ہٹ کر وقوع پذیر نہ ہونا ممکن نہ ہوتا ۔ اس لیے کہ آج تک ایسا اتفاق پیش نہیں آیا کہ لوگوں نے اپنی دانائی وزیر کی اور ظن و نخمین نیز علم نجوم، فال اور جفر کی بنیادپر جتنی باتیں کی ہوں وہ سب کی سب واقعاتی طور پر درست بھی ثابت ہوئی ہوں لیکن جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مستقبل کے بارے میں پیشینگوئیاں ہو بہو درست ثابت ہوگئیں اور ایک بھی پیشینگوئی خلاف واقعہ ثابت نہیں ہوئی تو اس سے میں یہ بات معلوم ہوگئی کہ یہ تمام کی تمام باتیں اللہ کی طرف سے تھیں جسے ماضی کے پیش آمدہ واقعات کا بھی علم ہے اور مستقبل میں رونما ہونے والے واقعات کی بھی پہلے سے خبر ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٦٧) یعنی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے بتوں کا انکار کیجیے اور ان کے دین کو دلائل کے ساتھ غلط ثابت کیجیے اور آخری درجہ میں ان کے ساتھ قتال کیجیے اور جو قبول حق پر آمادہ ہوں انھیں اسلام کی دعوت دیجیے اور اگر آپ حکم الہی کی بجاآوری نہیں کریں گے تو آپ نے ایک پیغام بھی نہیں پہنچایا اور یہود وغیرہ سے اللہ تعالیٰ آپ کو محفوظ رکھے گا اور جو دین خداوندی کا اہل نہیں ہوتا، اسے اللہ وہ راستہ نہیں دیکھاتا۔ شان نزول : (آیت) ” یایہا الرسول بلغ ماانزل الیک “۔ (الخ) ابوالشیخ نے حسن (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ نے مجھے رسالت سے مشرف فرمایا تو میرے دل میں پریشانی ہوئی اور میں نے یہ سمجھ لیا کہ لوگ ضرور میری تکذیب کریں گے تو مجھے اس چیز کا ڈر ہوا کہ میں تمام احکام کی تبلیغ کردوں، ورنہ مجھے عذاب دیا جائے گا۔ تو اس کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی اور ابن ابی حاتم (رح) نے مجاہد سے روایت کیا ہے کہ جس وقت یہ آیت نازل ہوئی تو آپ نے عرض کیا کہ اے میرے پروردگار، کس طرح تبلیغ کروں میں اکیلا ہوں اور سب مل کر مجھ پر ہجوم کرجائیں گے تو اس وقت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جملہ نازل ہوا، (آیت) ” وان لم تفعل فما بلغت رسلتہ “۔ اور حاکم (رح) وترمذی (رح) نے حضرت عائشہ (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا پہرہ دیا جاتا تھا یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی، (آیت ) ” واللہ یعصمک من الناس “۔ تو آپ نے خیمہ سے سرنکالا اور فرمایا کہ لوگو واپس چلے جاؤ اللہ تعالیٰ نے میری حفاظت کا وعدہ فرمایا ہے۔ نیز طبرانی (رح) نے ابوسعید خدری (رض) سے روایت کیا ہے کہ حضرت عباس (رض) رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عم محترم ان حضرات میں سے تھے جو آپ کا پہرہ دیا کرتے تھے، جب یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی، کہ اللہ تعالیٰ آپ کو لوگوں سے محفوظ رکھے گا تو انہوں نے پہرہ دینا چھوڑ دیا۔ نیز عصمۃ بن مالک (رض) سے روایت کیا ہے کہ ہم رات کو رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا پہرہ دیا کرتے تھے، جب یہ آیت نازل ہوئی کہ اللہ تعالیٰ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو لوگوں سے محفوظ رکھے گا تو پہرہ دینا چھوڑ دیا گیا۔ اور ابن حبان نے اپنی صحیح میں ابوہریرہ (رض) سے روایت کیا ہے، فرماتے ہیں کہ جب ہم اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی سفر میں ہوتے تو ہم آپکے لیے سب سے بڑا اور سب سے زیادہ سایہ دار درخت چھوڑ دیتے تھے جس کے نیچے آپ اتر کر آرام فرماتے، چناچہ ایک دن ایسے ہی ایک درخت کے نیچے آپ نے آرام فرمایا اور اپنی تلوار درخت پر لٹکا دی تو ایک شخص نے آکر وہ تلوار اتارلی اور کہا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہیں مجھ سے کون بچا سکتا ہے، آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ بچا سکتا ہے تلوار رکھ دے اس نے تلوار رکھ دی، تب یہ آیت نازل ہوئی (آیت) ” واللہ یعصمک من الناس “۔ اور ابن ابی حاتم (رح) اور ابن مردویہ نے جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غزوہ بنی انمار کیا تو مقام ذات الرقیع میں ایک کھجوروں کے بلند باغ پر پڑاؤ کیا، رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کنوئیں کی منڈیر پر بیٹھے ہوئے تھے اور پیر کنوئیں میں لٹکا رکھے تھے۔ تو بنی نجار میں سے وارث نامی ایک شخص کہنے لگا کہ العیاذ باللہ میں ضرور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قتل کروں گا، تو اس کے ساتھیوں نے اس سے کہا کہ کس طرح قتل کرے گا وہ کہنے لگا میں آپ سے آپ کی تلوار مانگوں گا، جب آپ اپنی تلوار دے دیں گے تو میں آپ کو قتل کردوں گا، چناچہ وہ آیا اور کہا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ذرا اپنی تلوار تو دیجیے، میں سونگھتا ہوں، آپ نے تلوار دے دی تو اس کا ہاتھ کانپنے لگا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، اللہ تعالیٰ تیرے اور تیرے ارادہ کے درمیان حائل ہوگیا۔ تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ (آیت) ” یایھا الرسول بلغ ما ان (الخ) اور ابن مردویہ (رح) اور طبرانی (رح) نے ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حفاظت کی جاتی تھی اور ابوطالب بنی ہاشم میں سے کچھ لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حفاظت کے لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ بھیجنے کا ارادہ فرمایا، تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا عم محترم اللہ تعالیٰ نے جن وانس سب سے میری حفاظت کا وعدہ فرمالیا ہے۔ نیز ابن مردویہ نے جابر بن عبداللہ (رض) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے اور اس سے اس چیز کا امکان پیدا ہوتا ہے کہ یہ آیت مکی ہے مگر ظاہر اس کا مخالف ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٦٧ (یٰٓاَیُّہَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ ط) (وَاِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہٗ ط) اپنے مضمون کے اعتبار سے یہ بہت سخت آیت ہے۔ اس سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ اگر وحی میں کہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر تنقید نازل ہوئی ہے تو وہ بھی قرآن میں جوں کی توں موجود ہے۔ ایسا ہرگز نہیں کہ ایسی چیزوں کو چھپالیا گیا ہو۔ تیسویں پارے میں سورة عبس کی ابتدائی آیات (عَبَسَ وَتَوَلّٰیٓ۔ اَنْ جَآءَ ہُ الْاَعْمٰی۔ ) بھی ویسے ہی موجود ہیں جیسے نازل ہوئی تھیں۔ سورة آل عمران میں بھی ہم پڑھ کر آئے ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کرکے فرمایا گیا : (لَیْسَ لَکَ مِنَ الْاَمْرِشَیْءٌ۔۔ ) (آیت ١٢٨) ۔ اس طرح کی آیات اپنی جگہ پر من وعن موجود ہیں ‘ اور یہ قرآن کے محفوظ من اللہ ہونے پر حجت ہیں۔ آیت زیر نظر میں تنبیہہ کی جا رہی ہے کہ وحئ الٰہی میں سے کوئی چیز کسی وجہ سے پہنچنے سے رہ نہ جائے۔ لوگوں کے خوف سے یا اپنی کسی مصلحت کی وجہ سے بالفرض اگر ایسا ہوا تو گویا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فریضۂ رسالت کی ادائیگی میں کوتاہی کا ثبوت دیں گے۔ اَلْعَبْدُ عَبْدٌ وَاِنْ تَرَقّٰی ‘ وَالرَّبُّ رَبٌّ وَاِنْ تَنَزَّل ! (وَاللّٰہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ ط) آپ کو لوگوں سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

ترمذی حاکم مسند امام احمد اور طبرانی وغیرہ میں جو اس آیت کی شان نزول لکھی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ پہلے تبلیغ حکم کی غرض سے اللہ تعالیٰ نے اوپر کا ٹکڑا آیت کا نازل فرمایا آنحضرت کو یہ تامل ہوا کہ لوگ آپ کو جھٹلاویں گے اس پر اللہ تعالیٰ نے دوسرا ٹکڑا نازل فرمایا۔ جب آپ نے بیدھڑک اللہ کا پیغام پہنچانا شروع کردیا جس پیغام میں اکثر باتیں اہل کتاب و منافقین اور کفارہ کی مرضی کے مخالف بلکہ ان کی مذمت کی ہوتی تھیں تو اس خوف سے کہ موقع پا کر یہ مخالف لوگ آپ پر حملہ نہ کر بیٹھیں کچھ صحابہ کو آپ اپنی حفاظت کے لئے رات کو تعینات فرمایا کرتے تھے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ تیسرا ٹکڑا آیت کا نازل فرمایا ١ ؎ جس رات کو یہ تیسرا ٹکڑا آیت کا نازل ہوا اسی وقت سے آپ نے حجرہ کی کھڑکی سے منہ نکال کر حفاظت والے صحابہ سے فرما دیا کہ تم لوگ اپنے اپنے گھر چل جاؤ۔ اب حفاظت کی ضرورت نہیں اللہ تعالیٰ نے میری حفاظت خود اپنے ذمے لے لی ہے یا ایھا النبی تو قرآن میں کئی جگہ ہے مگر یا ایھا الرسول اسی سورت میں دو جگہ ہے اور کہیں قرآن شریف بھر میں نہیں ہے۔ بعض مفسرین نے اس آیت کی شان نزول میں یہ جو لکھا ہے کہ ابو طالب کچھ لوگ مقرر کر کے آنحضرت کی حفاظت کردیا کرتے تھے اس پر یہ آیت نازل ہوئی ہے یہ صحیح نہیں کیونکہ اس مضمون کی ایک روایت حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) کی طبرانی میں جو ہے اس کی سند میں ایک راوی نضر بن عبد الرحمن ضعیف ہے علاوہ اس کے یہ آیت مدنی ہے اور ابو طالب کا قصہ مکہ ہے ٢ ؎۔ بخاری اور مسلم میں روایت ہے کہ حضرت عائشہ فرمایا کرتی تھیں جو شخص یہ خیال کرے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کبھی کسی مصلحت سے کوئی اللہ کا حکم لوگوں پر ظاہر نہیں کیا اس کے خیال کو اس آیت کے مضمون سے جھٹلانا چاہیے ٣ ؎۔ اس حکم الٰہی کی تعمیل میں اللہ کے رسول آخر عمر تک ہمہ تن مصروف رہے چناچہ صحیح بخاری و مسلم میں ابی بکرہ (رض) کی حدیث ہے جس میں آپ نے آخری عمر میں حجۃ الوداع کے وقت سب لوگوں سے یہ پوچھا ہے کہ میں نے تم کو وقت بوقت اللہ کے احکام پہنچاوے جب ان لوگوں نے اس کا اقرار کیا تو آپ نے اللہ تعالیٰ کو ان کے اس اقرار کا گواہ قرار دیا ١ ؎۔ اس باب میں اور بھی بہت سی حدیثیں ہیں۔ آخر کو فرمایا کہ اے رسول اللہ کے تمہارے احکام قرآن پہنچادینے کے بعد جو لوگ ان احکام کو دل سے نہ سنیں اور راہ ِ راست پر نہ آویں تو اس سے کچھ دل تنگ اور آزردہ خاطر نہ ہونا چاہیے کیونکہ دنیا کے پیدا ہونے سے پہلے اللہ کے علم میں جو لوگ بد قرار پاچکے ہیں وہ خود تو کسی نصیحت سے بھی راہ راست پر آنے والے نہیں اور مجبور کر کے ان کو راہ ِراست پر لانا انتظام الٰہی کے برخلاف ہے کس لئے کہ انتظام الٰہی کے موافق دنیا نیک و بد کے امتحان کے لئے پیدا کی گئی ہے کسی کے مجبور کرنے کے لئے نہیں پیدا کی گئی۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(5:67) فما بلغت رسالتہ۔ تو تونے اس کی رسالت یا پیغام بری کا حق ادا نہیں کیا۔ یعصمک۔ مضارع جمع مذکر غائب۔ عصمۃ مصدر (باب ضرب) ک ضمیر مفعول واحد مذکر حاضر۔ وہ تم کو بچا لیگا۔ ان اللہ لا یھدی القوم الکافرین۔ ای لا یمکنہم مما یردون بک۔ جو گزند تم کو پہنچانے کے ارادے رکھتے ہیں ۔ ان کی ان کو توفیق نہ دے گا۔ کافروں کو تمہارے مقابلہ میں کامیابی کی راہ ہرگز نہ دکھائے گا (تفہیم القرآن)

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 یعنی اللہ تعالیٰ کے پیغام میں سے اگر کچھ چھپا لیاتو گویا سرے سے اس کا پیغام ہی نہیں پہنچا یا خصو صا یہود و نصاری اور منافقین کے متعلق اعلانات اس آیت ان لوگوں کی تردید ہے جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق یہ کہتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قرآن کی بعض آیات عام مسلمانوں تک نہیں پہنچائیں بلکہ صرف علی (رض) اور اہل بیت کو بتائیں۔ حضرت علی (رض) نے ان کے اس خیال کی تردید فرمائی ہے چناچہ مروی ہے کہ ابو حجیفہ نے حضرت علی (رض) سے دریافت کیا کہ آپ اہل بیت کے پاس کچھ اور آیتیں ایسی ہیں جو اس قرآن میں نہیں ہیں انہوں نے جواب دیا۔ نہیں ہر گر نہیں اس ذات کی قسم جس نے دانے پھاڑ کر اگایا اور جان کو پید کیا البتہ فہم ہے جو اللہ تعالیٰ کسی کو قرآن کو بارے میں عطا فرماتا ہے (بخاری) حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ ج شخص یہ کہتا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وحی کا کچھ حصہ چھپالیا وہ جھوٹا ہے۔ ( بخاری۔ مسلم) مام زہری (رح) فرماتے ہیں کہ حجتہ الوداع کے موقع پر چالیس ہزار کے مجمع نے ابلاغ رسالت اور ادا مانت کی شہادت دی ہے اور آنحضر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے خطبہ میں دریافت فرمایا تم سے میرے متعلق پوچھا جائے گا تو تم اللہ تعالیٰ کے سامنے کیا جواب دو گے سب نے بیک وقت کہا ہم گو اہی دیتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پہنچا دیا اور اللہ کی امانت کا) حق ادا کردیا اور امت کی پوری خیر خواہی کی اس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا الھم ھل بلغت کہ اے اللہ 1 میں پہنچا دیا کہ ایک روایت میں ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا الھم اشھد اے اللہ ( گواہ ہیو) ابن کثیر۔ کبیر)6 اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنی خاص نگرانی میں لے لیا ہے چناچہ حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رات کا پہرہ موقوف فرمادیا (حاکم بہیقی) اور اور یہی بات دوسرے متعدد صحابہ (رض) سے بھی مروی ہے (ابن کثیر)3 یعنی اللہ تعالیٰ کفار کو ان کے ارادوں میں کامیاب نہیں ہونے دیگا (کبیر) حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ یعنی اگر وے (وہ) دشمن ہوں تو تم بےفکر پہنچا و اور خطرہ نہ کرو (نوضح) یا مطلب یہ ہے کہ ہدایت و گمراہی اللہ کے ہاتھ میں ہے اس لیے اگر یہ لوگ ایمان نہیں لاتے تو غم نہ کرو ( ابن کثیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

رکوع نمبر 10 ۔ آیات 67 تا 77 ۔ اسرار و معارف : یہ بیان ایک عجیب تر بات سے شروع ہوتا ہے اور یہ دلیل نبوت بھی ہے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا معجزہ بھی کہ اللہ کی طرف سے ارشاد ہوتا ہے کہ اے رسول ! یعنی خطاب ہی ایسے اسم گرامی سے ہے فرض منصبی کی نشاندہی کرتا ہے کہ رسول کا فرض ہی اللہ کے بندوں تک اللہ کی بات کا پہنچانا ہے سو یہاں یہود کی سازشوں ، اہل مکہ کے حملوں اور کفار کی دوسری مخالفانہ کوششوں کے جواب میں ارشاد ہوتا ہے۔ آپ پر اللہ کریم کی طرف سے جو نازل ہوتا ہے وہ پہنچانا ہی اس کی رسالت کا فریضہ ہے اب یہود حضرت عزیر (علیہ السلام) کو اور عیسائی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو خدا کا بیٹا ثابت کرنے پر زور لگا رہے ہیں ادھر مشرکین عرب کے لاتعداد خدا اسلام کی توحید پرستی کی زد پر ہیں پھر اقوام عالم میں کہیں آگ کی پوجا ہے کہیں سورج کی پرستش کہیں بتوں کی خدائی اور کہیں خود انسانوں ہی کو پوجا جا رہا ہے ایسی حالت میں کس کس سے بگاڑی جائے اور کس کو بعد میں اور کس کو پہلے رکھا جائے یہ بہت نازک فیصلہ تھا اسلام کی ایک چھوٹی سی ریاست منصہ شہود پہ آ رہی تھی ادھر مکہ مکرمہ والوں سے دشمنی ہے تو کیا ایسی بات نہ کی جائے جس سے یہود و نصاری خفا ہوتے ہوں یا ان سب کی پرواہ تو نہ کی جائے مگر قیصر و کسری کے مذاہب یا مذہب کے نام پر جاری رسومات کو تو فی الحال نہ چھیڑا جائے۔ مبادا اس چھوٹی سی سلطنت پہ وہ چڑھ دوڑیں تو ارشاد ہوا میرے حبیب ! یہ فیصلہ کرنا اللہ کا کام ہے کہ کس وقت کیا کہنا ہے اور کیا بات کرنی چاہئے یا کس چیز کا اعلان کیا جائے آپ اس کا غم نہ کریں ہاں جو کچھ اللہ کی طرف سے نازل ہو وہ لوگوں تک پہنچا دیں کہ اس میں سے اگر تھوڑی سی بات بھی رہ گئی تو سارا پیغام بےمعنی ہو کر رہ جائے گا گویا آپ نے حق رسالت ادا نہ فرمای ارہی لوگوں کی دشمنی جو یقینی ہے مشرکین بھی یہود و نصاری بھی اور دنیا کے دوسرے کفار بھی تڑپ اٹھیں گے مگر انسانوں سے آپ کی حفاظت کرنا یہ اللہ کی ذمہ داری ہے وہ جس کا پیغام آپ پہنچا رہے ہیں وہی آپ کی حفاظت فرمائے گا اور پھر چشم فلک نے دیکھا کہ سارا کفر مل کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کچھ نہ بگاڑ سکا بلکہ روز بروز اسلام پھیلتا چلا گیا حتی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حج پر تشریف لے گئے۔ یہی حجۃ الوداع کہلاتا ہے اور یہی حج اکبر بھی کہ اس روز جمعہ تھا اور آپ نے تاریخی خطبہ ارشاد فرمایا جسے منشور انسانیت کہا جاتا ہے اور واقعی انسانی حقوق اور انسان کے اپنے رب سے تعلقات دنیا و آخرت ، عقائد اور اعمال مختصر ترین الفاظ میں جواہرات اور ہیروں کا ہار ہے جو لسان نبوت نے پرودیا اور اس کے آخر میں ارشاد فرمایا۔ الا ھل بلغت۔ لوگو ! کیا میں نے بات پہنچانے کا حق ادا کردیا ؟ سب نے عرض کیا بیشک یا رسول اللہ ! تو آسمان کی طرف انگلی مبارک اٹھا کر تین بار فرمایا۔ اللھم اشہد۔ اے اللہ ! گواہ رہنا اور فرمایا اب جو حاضر ہیں وہ ان تک پہنچا دیں جو یہاں حاضر نہیں ہیں جس سے مراد وہ لوگ بھی تھے جو اس دور میں تھے مگر اس وقت میدان عرفات میں نہ تھے وہاں بھی تقریباً ایک لاکھ چالیس ہزار صحابہ موجود تھے اور وہ لوگ بھی جو اکناف و اطراف عالم میں تھے جہاں ابھی اسلام نہیں پہنچا تھا اور وہ بھی جو ابھی دنیا میں نہیں آئے تھے سو پہلا کام صحابہ کرام نے یوں کر دکھایا کہ انہی کا حصہ ہے۔ آپ حج سے واپسی پر تقریبا اسی روز اس دنیا میں رہے پھر وصال فرمایا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وصال سے ربع صدی کے اندر اندر دنیا کا کوئی گوشہ ایسا نہ تھا جہاں اللہ کے بندوں نے اللہ کا پیغام پہنچا نہ دیا ہو ذرا تفصیل سے اس لیے لکھ دیا کہ شیعہ اس آیت کا نزول حج سے واپسی پہ بتاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے راستے میں واپسی پر جب یہ آیت نازل ہوئی تو حضرت علی کی خلافت کا اعلان کیا اور جو صحابہ ساتھ تھے سب سے بیعت لی۔ علی الحائر مشہور شیعہ عالم نے اس موضوع پہ رسالہ لکھا کہ اڑھائی لاکھ صحابہ سے ایک ایک کرکے بیعت لی گئی۔ اگر خیمہ میں آنے جانے بیعت کرنے پہ ایک ایک منٹ لگا کر تین منٹ فی آدمی اڑھائی لاکھ آدمیوں کو وقت دیا جائے تو وہ غالبا ڈیڑھ سال کے قریب عرصہ بنتا ہے جبکہ آپ صرف اسی یوم دار فانی میں رہے اور وصال فرمایا نیز تبلیغ کی تصدیق بندوں سے کرائی شہادت اللہ سے لی وہاں اللہ بھی گواہ بن گیا پھر خیال آیا کہ نہیں یار ! ایک بات خلافت والی رہ گئی اور پھر بتانے سے کیا حاصل جب بعد میں تو ان میں سے کسی نے بات تک نہ کی اور ابوبکر صدیق کی بیعت کرلی خود حضرت علی نے کرلی تو کوئی کیا کرتا مگر اس تحریک فاسدہ کا مقصد تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کو ناکام بنانا ہے ان کے منہ میں خاک آپ کی رسالت کی کامیابی یہ تو ارض و سماء رات دن اور بہار و خزاں تک گواہ موجود ہیں لہذا آپ اللہ کا پیغام پہنچاتے رہے ظاہر ہے جو آپ نے یوم عرفہ سے پہلے پہنچا دیا تھا کہ پھر وہاں تکمیل دین کی آیہ کریمہ نازل ہوئی اور جب تک کفر یعنی انکار یا اکڑ باقی ہے ان کو اللہ تعالیٰ ہدایت نصیب نہیں فرماتا۔ اور ان یہود و نصاری کو واضح کردیجئے کہ ان کے تو صرف نام ہیں اصل میں یہ کچھ بھی تو نہیں نہ یہودی نہ نصرانی کہ نہ عقائد اس مذہب کے مطابق ہیں اور نہ اعمال تو کم از کم اگر یہودی رہنا ہے تو تورات پر عمل کرو نصرانی رہنا ہے تو انجیل کو تو اپناؤ ۔ اب دونوں کتابوں میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ذکر بھی ہے ایمان لانے کا حکم بھی ہے اور نزول قرآن کی خبر بھی۔ اب ان کتابوں کو اپنانے کا مطلب بھی یہ ہوگا کہ قرآن پہ ایمان لے آئیں مگر یہ انکار کیے جا رہے ہیں اور ان میں اکثر کافر تو پہلے بھی تھے کہ نام فرقوں کے تھے عقیدہ و عمل کچھ بھی نہ تھا پھر قرآن کا انکار انہیں اس دلدل میں مزید گہرا دھکیل گیا اور مزید سخت ہوگئے عملاً سرکشی میں بھی اور عقیدۃ انکار میں بھی سو ایسے کفار پر آپ دکھ محسوس نہ کیا کریں۔ کہ یہ راستہ ان کی اپنی پسند ہے کسی نے ان پر ٹھونسا نہیں ہے نہ مسلط کیا ہے اگر وہ باختیار خود اس طرف جانا چاہتے ہیں تو آپ رنج نہ کریں۔ ہاں جو لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لے آئے ہیں اور اسلام اور ضروریات دین کا اقرار کرلیا ہے وہ ہوں یا یہود ، وہ قوم جس پر کبھی تورات نازل کی گئی تھی یا صابی علماء کے نزدیک (یہ ایک ستارہ پرست قوم تھی) لیکن اپنے آپ کو حضرت داود (علیہ السلام) اور زبور کا پیروکار بتاتے تھے یا نصرانی جن پر انجیل نازل کی گئی اب سب کے لیے ایک ہی راتہ ہے کہ اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لے آئیں یعنی وہ ایمان جس کی دعوت حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دے رہے ہیں ماجاء بہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ورنہ مسلمان کہلانے والا بھی اگر نام سے مسلمان کہلاتا رہے اور عقائد میں نئی راہ تلاش کرلے تو اس کے گمراہ ہونے میں بھی کوئی شبہ نہیں اور یہ دوسرے سب لوگ اپنی کتابوں سے تو پہلے منحرف ہوچکے بلکہ خود کتابوں میں تحریف کرچکے اب اگر یہ ایمان اور عقیدہ درست کرلیں اور خلوص کے ساتھ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیروی اختیار کریں عملی زندگی میں اطاعت کا ثبوت فراہم کریں۔ تو اللہ کی رحمت آج بھی ان کا ہاتھ تھام لینے کو تیار کھڑی ہے اور آخرت میں بھی انہیں نہ ڈر ہوگا آئندہ سے اور نہ گذشتہ پہ رنج کہ سب کچھ کا حاصل ، اللہ کی رضا انہیں نصیب ہوجائے گی۔ بعض منکرین حدیث نے اس آیہ کریمہ سے یہ ثابت کرنا چاہا ہے کہ یہودی نصرانی صابی ہندو وغیرہ اپنے مذہب پر رہ کر نیکی کریں تو نجات ہوسکتی ہے ان ظالموں کو یہ خبر نہیں کہ خود مسلمان کہلا کر نجات سے محروم ہو رہے ہیں اس نئی بات کی ایجاد انہیں اسلام سے خارج کردے گی کہ ایمان اور عمل صالح دونوں اپنی جگہ رسالت مآب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی سند ہیں اور ان کے بغیر صحت کا کوئی ثبوت ہی نہیں نہ ایمان کی درستی کا اور نہ عمل کی درستی کا کوئی ثبوت ہے سوائے اس کے کہ کہا جائے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کا حکم دیا ہے پھر آپ کے بغیر گذارہ کیسے ؟ بنی اسرائیل سے تو عہد لیے جاتے رہے یہ وعدے کرتے رہے اور توڑتے بھی رہے ہم نے ان سے عہد لیا کہ انبیاء و رسل کی اطاعت کروگے پھر ان کی طرف رسول بھیجے جب تعلیم رسالت ان کی خواہشات نفس کے خلاف پڑی تو یہ لوگ بدل گئے بعض انبیاء و رسل کا انکار کیا اور بعض کو تو ظلماً قتل کردیا اور لطف کی بات یہ کہ اتنا بڑا ظلم کرنے کے بعد انہیں کوئی فکر بھی لاحق نہ ہوئی اور ایک طرح سے خوش ہوگئے کہ شاید ہم نے بہت بڑا کام کیا ہے اب ہمیں کوئی روکنے والا ہی نہیں لیکن خدا کی گرفت سے نہ بچ سکے بخت نصر ہی ان پر عذاب بن کر ٹوٹا اور انہیں تباہ کردیا جو زندہ بچے قید کرکے لے گیا پھر انہیں خدا یاد آیا اور اللہ کا کرم دیکھو انہوں نے معافی چاہی پھر عطا کردی مگر یہ ایسی بدبخت اور بدنصیب قوم تھی کہ پھر اللہ کے احکام سے اندھے اور بہرے بن گئے۔ اور انبیاء کے قتل سے ہاتھ رنگے حتی کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کے قتل پر بھی تیار ہوگئے بلکہ اپنی طرف سے تو کرچکے ہیں اور انہی میں کا ایک گروہ اس بات پہ مبتلائے کفر ہوا کہ اس نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو خدا تسلیم کرلیا اور معبود مان لیا اور انہیں عبادت کا حقدار ثابت کرنے لگے حالانکہ خود عیسیٰ (علیہ السلام) کی تعلیم یہ تھی کہ اے بنی اسرائیل ! اللہ کی بندگی اور عبادت کرو اور اس لیے کرو کہ وہ میرا بھی اور تمہارا بھی پروردگار یعنی پالنے والا ہے جو شخص پیدا ہوتا ہے اور موت سے ہمکنار ہوسکتا ہے جو کھانے کی احتیاج رکھتا ہے اسے پینے کی ضرورت ہے ہوا کی ضرورت ہے غذا کی ضرورت ہے اور سلسلہ ضروریات اور اس کے نتائج اتنے لمبے ہیں کہ پھر نیند کی ضرورت پیدا ہوتی ہے جو زندہ انسان کو مردہ بنا دیتی ہے کیا ایسا ہی معبود ہوا کرتا ہے حالانکہ حق یہ ہے کہ نہ کھانے والے بھی محتاج ہیں مثلاً فرشتے وہ بھی معبود نہیں بندے ہیں مگر غذا کی محتاجی تو ایسی ہے کہ ہر کس و ناکس کے سامنے کھلی کتاب کی طرح موجود ہے اور خود عیسیٰ (علیہ السلام) کی تعلیمات میں ہے اللہ میرا رب ہے اور تم سب کا بھی اور یہ بھی انہوں نے واضح کردیا تھا کہ جو بھی اللہ سے شرک کرے گا اللہ نے اس پر جنت حرام کردی ہے اور جنت ہی اللہ کی رضامندی اور خوشنودی کی دلیل ہے لیکن شرک کرنے والے کا ٹھکانا تو دوزخ ہوگا جو اللہ کے غضب اور غصے ناراضگی کے اظہار پہ دلالت کرتی ہے اور ایسے ظالموں کا جو شرک جیسے قبیح فعل میں مبتلاء ہوئے کوئی مددگار بھی نہیں ہوگا اگر توبہ کے بغیر موت ہوگئی تو آخرت میں کوئی ان کی دوستی کو نہیں بڑھے گا۔ اور یہ تو کھلا کفر ہے کبھی کہتے ہیں ایک میں تین ہیں کبھی تین میں ایک ہے۔ کبھی بیٹا ہونا قرار دیا اور کبھی خود خدا ہونے کا اقرار کرلیا یہ سب دھوکہ ہے اور بغیر اللہ کے کوئی دوسرا عبادت کا استحقاق نہیں رکھتا اکیلا اللہ عبادت کا مستحق ہے اور بس اگر یہ ان کلمات کفر سے باز نہ آئے اور توبہ نہ کی تو اس کفر پہ ان کو بہت دردناک سزا ہوگی یہ کیوں اللہ سے رجوع نہیں کرتے اور ایسی الٹی سیدھی باتوں سے کیوں باز نہیں آتے اور اللہ سے کیوں بخششیں طلب نہیں کرتے اگر یہ ایسا کرتے تو اللہ تو معاف کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے دیکھئے اس کی رحمت عامہ اگر کافر کی منتظر ہے کہ کفر سے توبہ کرے تو اسے ڈھانپ لوں بھلا مومن کو کب محروم کرے گی اگر گناہ سے باز آجائے اور اللہ سے ہدایت اور نیکی کا طالب ہو اور بخشش و رحمت کے لیے جھولی پھیلا دے۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ کے رسول ہیں اور ہر رسول کے پاس معجزات بطور ثبوت نبوت ہوتے ہیں اگر خود ان کی پیدائش عجیب ہے تو معجزہ ہے جو ان سے پہلے گذرنے والے رسولوں سے بھی صادر ہوتے رہے ہیں یعنی رسول اور نبی سے معجزے کا اظہار کیا اسے الہ یا معبود بنا دے گا ؟ یا اس کی نبوت کا گواہ ہوتا ہے اور وہ خود اللہ کی الوہیت کی طرف دعوت دیتا ہے ایسے ہی اس کی والدہ محترمہ و ڈیقہ تھیں سبحان اللہ ! یعنی نبی نہ تھیں ورنہ ان کی بھی نبوت کا تذکرہہوتا ہے مگر صدیقہ تھیں جو بعد نبوت ولایت کا بلند ترین منصب ہے اور اعلی ترین مقام بھی ہے آخری دائرہ راہ سلوک کا بھی دائرہ صدیقیت ہے اس کے بعد کچھ دوائر ہیں جو اس کے اندر ایک طرف ہیں اس سے نیچے ہر اوپر والا دائرہ نیچے والے دائرے کو محیط ہے لیکن صدیقیت ایک منصب بھی ہے اور بطور منصب کے بھی ولایت کے آخری مناصب کا بھی سردار اور انتہا ہے۔ سو حضرت مریم صدیقہ تھیں اور مقام صدیقیت دیکھو ! فرشتوں سے ہم کلامی کا شرف اظہار کرامات اور اللہ سے بات کرنے کا اعزاز دنیا میں نصیب ہوا لیکن ان سب عطمتوں کے ساتھ وہ انسان تھے کھانا کھاتے تھے اور صرف کھانے کا تجزیہ کیا جائے تو ایک کھانے سے سینکڑوں قسم کی احتیاج لازم آجاتی ہے دیکھو ! ہم نے کس قدر وضاحت سے ان کے حالا بیان کردئیے کہ انہیں غلط فہمی نہ رہے مگر ان کی غلط روش کو دیکھیں کہ گمراہی میں ہی بڑھے جا رہے ہیں۔ ان سے کہیے کہ اللہ کے سوا جس کی چاہو عبادت کرو وہ تمہیں نہ نفع دے سکتا ہے نہ نقصان سے بچا سکتا ہے اس لیے کہ خود اپنے نفع نقصان پہ اس کا اختیار نہیں تمہیں کیا دے گا ؟ خود محتاج ہے اپنی ضرورتوں میں اپنے نفع نقصان میں اپنے وجود اپنی بقاء میں تو وہ تمہیں کیا دے گا ؟ ہاں ! اللہ کی عبادت کرو ، اسے سزاوار ہے اس سے مانگو کہ سب کی سن رہا ہے سن سکتا ہے اور ہر ایک کے حال سے واقف ہے۔ اے اہل کتاب ! اپنے مذہب میں حد سے آگے مت بڑھو کہ بندوں کو خدا ثابت کرنے لگو یعنی یا تو اس قدر مخالفت کی کہ انبیاء کو قتل تک کرنے سے گریز نہ کیا اور اتنا ظلم ڈھایا کہ زمین کانپ اٹھی یا یہ عقیدت کہ نبی کو خدا ثابت کرنے پہ تلے کھڑے ہیں یہ دونوں انتہائیں غلط ہیں اور دین اعتدال کا نام ہے ہر رسم اور ہر رواج دین نہیں ہوتا نہ انسان اپنی پسند سے اس میں گھٹا بڑھا سکتا ہے بلکہ دین انبیاء کی تعلیم کا نام ہے جس قدر بات نبی سے ثابت ہو وہ دین ہے۔ جو اپنی پسند سے لوگ اپنا لیں وہ دین نہیں بن سکتی وہ گمراہی بدعت اور زیادتی ہے اگر محض رسم سمجھ کر عمل کریں تو صرف گناہ ہے اگر ثواب سمجھ کر عمل کریں تو بدعت ہے جو گناہ کے ساتھ عقیدے اور ایمان کو بھی خراب کرتی ہے سو ایسے لوگوں کی خرافات پہ مت چلو جو ان کے اپنے نفس کی ایجاد تھیں جیسے ہمارے ہاں پیروں نے مختلف رسومات اپنا لی ہیں پھر بعض پر تو انٹرنیشنل پیر برادری کا اتفاق ہے مثلا عرس شریف ، حالانکہ اس کا کوئی ثبوت بندہ کی نظر سے نہیں گذرا ایسے ہی گیارھویں شریف پھر بڑی گیارھویں شریف اور چھوٹی گیارھوی شریف اور ان سب رسومات کے ساتھ نہ صرف دنیا کی کامیابی وابستہ ہے بلکہ اللہ کی رضامندی اور اولیاء اللہ کی تائید کے جھوٹے وعدے بھی کئے جاتے ہیں سو ایسے گمراہ لوگوں کو پیچھے مت چلو جو نہ صرف خود گمراہ ہوئے بہت سوں کو گمراہ کرگئے اور سیدھے راستے سے نہ صرف خود بھٹکے بلکہ ایک کثیر مخلوق کو بھٹکانے کا باعث بن گئے۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

آیت نمبر 67 تا 69 لغات القرآن : بلغ (پہنچا دے) ۔ لم یفعل (تو نے نہ کیا) ۔ ما بلغت (تو نے تمہیں پہنچایا) ۔ رسالتہ (اس کا پیغام) ۔ یعصمک (وہ تیری حفاظت کرے گا۔ تجھے بچائے گا) ۔ لیزیدون (البتہ وہ ضرور بڑھا دے گا) ۔ الصابئون (صابی۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) کو ماننے والے لوگ) ۔ تشریح : ان آیات میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایک خاص حکم دیا گیا ہے کہ جو کچھ وحی جلی یا وحی خفی آپ پر قرآن و سنت کی شکل میں نازل ہو ہو رہی ہے اسے تمام و کمال لوگوں تک پہنچا دیجئے اگرچہ یہ خطرہ ضرور ہے کہ نئے نئے احکام پاکر دشمنوں میں کھلبی زیادہ مچ جائے گی اور ہوسکتا ہے کہ وہ آپ پر حملہ کریں یا فساد کریں یا سازس کریں۔ مگر ڈرنے کی کوئی بات نہیں۔ اللہ آپ کا محافظ ہے۔ اور آپ کے دشمن خواہ کچھ کریں، اللہ ان کے لئے کامیابی کا راستہ کھولنے والا نہیں ہے۔ آپ تبلیغ کئے جائیے۔ اللہ کی باتیں دور و نزدیک پہنچا دیجئے اور دشمنوں کی دشمنی کی پرواہ نہ کیجئے۔ آپ کی تبلیغ سے فائدہ ضرور ہوگا۔ کچھ اور لوگ ایمان لائیں گے اور جو کوئی بھی ایمان لائے گا اور صالح عمل کرے گا، خواہ وہ مسلمان ہو، یہودی ہو ، صابی ہو، ی انصرانی ہو، اسے نہ قبر کا ڈر ہوگا نہ قیامت کا نہ دوزخ کا۔ وہ دنیا میں بھی خوش و خرم رہے گا اور آخرت میں بھی۔ یہاں پر چند جملوں کی تشریح ضروری ہے۔ یہ جو کہا گیا ہے کہ ” اہل کتاب ! تمہاری کوئی بنیاد نہیں ہے “ ۔ اس کے معنی یہ بھی ہیں کہ تمہاری تحریف شدہ تعلیمات میں کوئی پکی بات نہیں ہے۔ کوئی ٹھوس اصول نہیں ہے۔ یہ وقت کے ساتھ ڈھلکتی ڈولتی دھوپ چھاؤں ہے جدھر نفع نظر آیا ادھر ساتھ دے دیا۔ دوسرے معنی یہ بھی بنتے ہیں کہ تمہاری سیاسی اور اقتصادی بنیاد نہیں ہے۔ بہت جلد تم اکھڑ جاؤ گے ۔ اس لئے اپنی طاقت اور دولت پر غرور نہ کرو۔ یہ بنیاد اسی وقت پکی ہوگی جب تم توریت ، انجیل اور جو کچھ تم لوگوں پر تمہارے رب کی طرف سے نازل ہوا ہے اور ہو رہا ہے ، وہ تمام تعلیمات قائم نہ کرودو۔ ” قائم کر دینے “ کے معنی یہ نہیں ہیں کہ صرف روزہ نماز تم اپنے ذات پر نافذ کرلو بلکہ اس کے ساتھ تبلیغ اور جہاد کے ذریعہ قوم سے بھی عمل کراؤ۔ ان کے تمام سیاسی، جنگی، مالی، اخلاقی، عائلی ، تعلیمی، سماجی، قومی اور بین الاقوامی پہلو ہیں ان کو عالمی پیمانہ پر نافذ کرو۔ ” جو کچھ تم لوگوں پر تمہارے رب کی طرف سے نازل ہوا ہے اور ہو رہا ہے “ ۔ یہاں پر ایک مختصر لفظ قرآن کہنے کے عوض اتنا لمبا جملہ لایا ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ جو کچھ پہلے نازل ہوا ہے وہ سب کا سب اس میں شامل ہے اور جواب نازل ہو رہا ہے وہ بھی شامل ہے۔ ” خواہ مسلمان ہوں یہودی ہوں صابی ہوں یا نصاریٰ ہوں “ ۔ (اس میں مسلمانوں کا لفظ تاکیداً ہے) ایمان لانے کے بعد یہودی، صابی، نصاریٰ ، ہنود، بدھ سب لفظ & مسلم & کے تحت آجاتے ہیں اور ان کی انفرادی مذہبیت ختم ہوجاتی ہے۔ صالح اعمال کی کڑی شرط بھی لگی ہوئی ہے۔ ایمان اور صالح اعمال جس شخص میں جمع ہوجائیں گے۔ اسے اپنی عاقبت کی کوئی فکر نہ ہوگی۔ ایسے لوگوں کے لئے اللہ کی طرف سے جنت کی بشارت ہے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ چونکہ مجموعہ کا پہنچانا فرض ہے اس لیے جیسا کل کے اخفاء سے یہ فرض فوت ہوتا ہے اسی طرح کے اخفاء سے بھی یہ فرض فوت ہوجاتا ہے 3۔ چناچہ یہ وعدہ اسی طرح صادق ہوگیا گوبعض غزوات میں آپ زخمی بھی ہوئے اور یہود نے نامردوں کی طرح آپ کو زہر بھی دیا مگر مجمع و مقاتل ہو کر کوئی قتل وہلاک نہ کرسکا اور اس پیشن گوئی کا واقع ہونا آپ کا معجزہ دلیل نبوت ہے اور ترمذی میں ہے کہ پہلے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس پہرہ دیا جاتا تھا جب یہ آیت نازل ہوئی تو آپ نے فرمایا کہ چلے جاو اللہ نے میری حفاظت کی ذمہ لے لی یہ بھی دلیل نبوت ہے کیونکہ ایسا اعتماد بدون وحی کے نہیں ہوسکتا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اس سے پہلے آیت ٥٨ میں مسلمانوں کی طرف یہود ونصارٰی کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ تم ہماری اس لیے مخالفت کرتے ہو کہ ہم اپنے رب پر کامل ایمان رکھتے ہیں۔ پھر یہو دو نصارٰی کی با ہمی دشمنی کا ذکر کیا ہے اور سمجھایا ہے کہ اگر یہ لوگ اپنے زمانے میں تورات اور انجیل پر عمل کرتے تو دنیا اور آخرت کی نعمتوں سے ہم کنار ہوتے۔ اب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرمایا جارہا ہے کہ آپ ان کی پرواہ کیے بغیر اپنا کام جاری رکھیں اللہ تعالیٰ آپ کی حفاظت فرمائے گا۔ الرّسول سے مراد سرور دوعالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات اقدس ہے یہاں لفظ الرّسول استعمال فرما کر آپ کو باور کروایا گیا ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کے رسول یعنی اس کی طرف سے پیغام رساں ہیں، لہٰذا حالات جیسے بھی ہوں اور دشمن کتنا ہی طاقتور اور مخالف کیوں نہ ہو آپ کو ہر حال میں لوگوں تک اپنے رب کا پیغام من وعن پہنچانا ہے۔ اگر آپ نے اس میں ذرہ برابر کوتاہی کی تو اس کا یہ معنی ہوگا کہ آپ نے رسالت کا حق ادا نہیں کیا۔ یہ آیت مبارکہ اعلان نبوت کے پندرہ سال بعد غزوۂ احد کے معرکہ کے بعد نازل ہوئی۔ اس سے پہلے آپ قدم بقدم رسالت کا فریضہ سرانجام دیتے ہوئے بڑے بڑے مصائب کا مقابلہ کرتے رہے۔ یہاں تک کہ آپ مدینہ طیبہ میں تشریف لائے یہاں کے حالات کے پیش نظر آپ کے ساتھ مسلح پہرے دار موجود ہوتے تھے جب تک اللہ تعالیٰ نے واضح اعلان نہیں فرمایا اس وقت تک یہ سلسلہ جاری رہا جب آپ کی حفاظت کا فرمان نازل ہوا تو آپ نے اپنا پہرہ ہٹاتے ہوئے فرمایا کہ اب مجھے پہرہ کی ضرورت نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے میری حفاظت کا ذمہ لیا ہے۔ حدیث کی مقدس دستاویزات اور سیرت طیبہ سے سے پتہ چلتا ہے کہ کیسے کٹھن حالات میں آپ نے لوگوں کی اصلاح اور فلاح کے لیے کام کیا اور جتنے آپ پر شب خون مارے گئے اور حملے کیے گئے شاید ہی دنیا کے کسی مصلح پر اتنے حملے کیے گئے ہوں۔ مفسر قرآن مولانا عبدالرحمن کیلانی نے اپنی تفسیر میں اسی آیت کے ضمن میں جن المناک واقعات کا تفصیلی احاطہ کیا ہے ان کا خلاصہ پیش خدمت ہے۔ ١۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات اقدس پر پہلا حملہ اس وقت ہوا جب آپ نے حرم کعبہ میں جا کر توحید کا اعلان کیا جس سے مکہ میں ہلچل پیدا ہوئی اور لوگ آپ پر حملہ آور ہوئے حضرت خدیجہ (رض) کے پہلے خاوند سے بیٹے حارث بن ابی حالہ آپ کا دفاع کرتے ہوئے شہید ہوگئے یہ اسلام کے پہلے شہید تھے۔ (الاصابہ فی تمیز الصحابہ ) ٢۔ ابوجہل نے پتھر سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا سر مبارک کچلنے کی کوشش کی حالانکہ آپ بارگاہ ایزدی میں سجدہ ریز تھے جو نہی وہ آگے بڑھا تو ایک خونخوار اونٹ اس کو دبوچنے کے لیے دوڑا آرہا تھا ابو جہل گھبرا کر پیچھے کی طرف بھاگا۔ اپنے ساتھیوں کے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ اگر میں ایک قدم اور آگے بڑھتا تو اونٹ مجھے کھا جاتا۔ میں نے اتنا خوفناک اونٹ آج تک نہیں دیکھا (ابن ہشام۔ الرحیق المختوم ) ٣۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیت اللہ میں کھڑے ہو کر توحید کا پیغام سنا رہے تھے کہ مشرکین آپ پر ٹوٹ پڑے جن میں عقبہ بن ابی معیط نے آپ کے گلے میں کپڑا ڈال کر اتنے بل دیے کہ آپ کا چہرہ مبارک خون سے سرخ ہوگیا اور بےساختہ آواز نکل گئی اس موقع پر اچانک حضرت ابوبکر صدیق (رض) آن پہنچے۔ انہوں نے آپ کو چھڑانے کی کوشش کی جس پہ ان کو اس قدر پیٹا گیا کہ وہ کئی دن تک اٹھنے کے قابل نہ رہے۔ (رواہ البخاری : کتاب المناقب فضائل ابو بکر) ٤۔ جناب عمر (رض) کا مشہور واقعہ کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قتل کرنے کے ارادے سے باہر نکلے۔ راستے میں انہیں بتایا گیا کہ تمہاری بہن اور بہنوئی مسلمان ہوچکے ہیں جسے سنتے ہی عمر اپنی بہن کے گھر گئے اور بہن اور بہنوئی کو پیٹنا شروع کردیا۔ ٥۔ آپ کی عظیم جدوجہد سے مجبور ہو کر مکہ کے زعماء ابوطالب کے پاس جا کر پیشکش کرتے ہیں کہ آپ مکہ کے نامور سردار ولید بن مغیرہ کے بیٹے عمارہ کو قبول فرمائیں اور اس کے بدلے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہمارے حوالے کردیں۔ ان کا مقصد رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قتل کرنا تھا۔ (ابن ہشام، الرحیق المختوم) ٦۔ ہجرت سے پہلے رات کے وقت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گھر کا گھیراؤ کرنا تاکہ آپ صبح کے وقت نکلیں تو یکبارگی حملہ کرکے آپ کا کام تمام کردیا جائے (الانفال آیت ٣٠ کی تفسیر دیکھئے) ٧۔ ہجرت کے دوران ١٠٠ اونٹ کے لالچ میں سراقہ بن مالک کا پیچھا کرنا تاکہ زندہ یا قتل کرنے کی صورت میں انعام حاصل کیا جائے (بخاری کتاب الانبیاء باب ہجرت النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ٨۔ غزوۂ بدر کے بعد صفوان بن امیہ کا عمیر بن وہب کو قتل کے ارادے سے مدینہ بھیجناعمیر جب آپ کے پاس پہنچا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بذریعہ وحی اسے پوری بات بتلائی کہ صفوان بن امیہ نے تیرا قرض چکانے اور اہل و عیال کی ذمہ داری اٹھائی ہے تاکہ تو مجھے قتل کردے یہ سن کر عمیر بن وہب ششدر رہ گیا۔ اس نے اس بات کا اقرار کیا اور ساتھ ہی مسلمان ہونے کا اعلان کیا۔ تفصیل جاننے کے لیے ابن ہشام اور الرحیق المختوم کی طرف رجوع کریں۔ ٩۔ ثمامہ بن اثال کی گرفتاری کا مشہور واقعہ ہے جس کی تفصیل میں الرحیق کے مصنف لکھتے ہیں کہ یہ بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قتل کرنے کے ارادے سے نکلا تھا لیکن گرفتار ہوگیا اور آپ کا حسن اخلاق دیکھ کر مسلمان ہوگیا۔ ١٠۔ مدینہ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک قضیہ کے تصفیہ کے لیے یہودیوں کے محلے میں تشریف لے گئے آپ کی گفتگو کے دوران یہودیوں نے ایک آدمی کی ڈیوٹی لگائی کہ وہ چپکے سے مکان پر چڑھ کر بھاری پتھر لڑھکائے جس سے آپ جانبر نہ ہوسکیں لیکن بذریعہ وحی آپ کو خبر ہوئی آپ اس سے پہلے ہی اٹھ کر چلے آئے۔ (الرحیق المختوم) ١١۔ خیبر کے موقع پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ختم کرنے کے لیے یہودی عورت کا آپ کی دعوت کرنا جس میں زہر ملا دیا گیا تھا لیکن لقمہ منہ میں ڈالتے ہی آپ کو احساس ہوا جس سے آپ نے کھانا چھوڑ دیا تاہم یہ زہر اس قدر ہلاکت انگیز تھا کہ وفات کے وقت بھی آپ نے اس کے زہریلے اثرات بڑی شدت کے ساتھ محسوس فرمائے۔ (بخاری کتاب الطب) ١٢۔ صلح حدیبیہ کے بعد اشاعت دین کے لیے رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مختلف حکمرانوں کو مراسلات لکھے جن میں ایران کے فرما نروا خسرو پرویز کو بھی خط لکھا اس نے نہ صرف آپ کا نامہ مبارک پھاڑ دیا بلکہ یمن کے گورنر کو حکم دیا کہ نبوت کے دعویدار کو گرفتار کرکے میرے پاس بھیجا جائے تب یمن کے اہلکاروں نے آپ کے پاس آکر خسروپرویز کا حکم نامہ سناتے ہوئے کہا کہ اگر آپ نے گرفتاری پیش نہ کی تو آپ کے علاقے کو تہس نہس کردیا جائے گا۔ (ابن ہشام، بخاری) ١٣۔ یہود کی تمام سازشیں اور شرارتیں ناکام ہوگئیں تو انہوں نے ایک بہت بڑے جادوگر کے ذریعے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جادو کا ایسا وار کیا جس سے کئی ہفتے آپ کی طبیعت انتہائی پریشان، مضمحل اور بےچین رہی، رات کی نینداڑ گئی اور دن کا چین جاتارہا اس حالت میں جبریل امین تشریف لائے اور انہوں نے جادو کا علاج بتلاتے ہوئے اس کنویں کی نشاندہی فرمائی جہاں آپ کا مجسمہ بنا کر آپ کے بالوں کو گرہیں دیتے ہوئے جادو کیا گیا تھا۔ تفصیل جاننے کے لیے (رواہ البخاری : کتاب بدء الخلق، کتاب الادب) (میری کتاب جادو کی تباہ کاریاں اور ان کا شرعی حل) ١٤۔ غزوہ ذات الرقاع سے واپسی پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسلحہ اتار کر ایک درخت کے نیچے آرام فرما تھے کہ ایک دشمن قبیلے کا آدمی موقعہ پاکر آپ کی تلوار لہراتے ہوئے کہتا ہے کہ اب تجھے مجھ سے کون بچا سکتا ہے ؟ آپ نے کسی مرعوبیت کے بغیر فرمایا اللہ ہی مجھے بچانے والا ہے یہ سنتے ہی اس کے ہاتھ سے تلوار چھوٹ گئی وہ معافی کا خواستگار ہوا آپ نے اسے معاف کردیا بعض روایات کے مطابق وہ شخص آپ کا حسن اخلاق دیکھ کر مسلمان ہوگیا۔ (رواہ البخاری : کتاب الجہاد) ١٥۔ عمیر بن وہب کا واقعہ نمبر ٨ گزر چکا ہے اس کا بیٹا فضالہ فتح مکہ کے موقع پر کافر تھا فتح کے بعد جب آپ بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے تو اس نے آپ کو قتل کرنے کا ارادہ کیا جسے آپ بھانپ گئے آپ نے اسے قریب بلاکر اس کے مذموم ارادے سے متنبہ فرمایا تو وہ فوراً مسلمان ہوگیا۔ (الرحیق المختوم ) ١٦۔ اسلام کا پیغام حجاز کی سرزمین سے گزر کر روم کی سرحدات میں پہنچ چکا تھا جس وجہ سے روم کے حکمران اپنے لیے خطرہ محسوس کر رہے تھے انہوں نے حفظ ما تقدم کے طور پر اپنی افواج کو پیش قدمی کے لیے تیار کیا اس صورت حال کو دبانے کے لیے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ٣٠٠٠٠ ہزار مجاہدین لے کر روم کے دروازے پر دستک دی آپ کا جرأتمندانہ اقدام دیکھ کر رومی سامنے آنے کی تاب نہ لاسکے۔ کچھ دن قیام کرنے کے بعد آپ مدینہ واپس آرہے تھے کہ رات کی تاریکی میں منافقوں نے آپ کو شہید کرنے کا منصوبہ بنایا کہ جب آپ کسی تنگ گزرگاہ کے درمیان پہنچیں تو آپ پر یکبارگی حملہ کردیا جائے منافقوں کے جتھے نے چہرے چھپائے ہوئے تھے تاہم وحی کے ذریعے آپ کو اطلاع ہوئی تو آپ نے حذیفہ بن یمان کو حکم دیا کہ منافقوں کی سواریوں کو دور ہانک دیاجائے۔ اس کے ساتھ ہی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں منافقوں کے نام بتائے اور کریمانہ اخلاق کا مظاہرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ان کے نام کسی اور کو نہ بتلائے جائیں۔ (رواہ مسلم : کتاب صفۃ المنافقین، ابن ہشام، الرحیق المختوم) ١٧۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف آخری سازش عامر بن طفیل نے تیار کی جس نے بئر معونہ کے مقام پر ستر قرّاء کو شہید کر وایا یہ ایک وفد لے کر مدینہ آیا اور منصوبے کے تحت آپ سے گفتگو کر رہا تھا کہ اس کے ایک ساتھی نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے ہو کر تلوار کا وار کرنا چاہا جس کی بذریعہ وحی آپ کو خبر ہوگئی آپ نے ان کی سازش کو بےنقاب کرتے ہوئے درگزر سے کام لیا تاہم اس کے لیے بددعا کی جس کی وجہ سے وہ ذلیل ہو کر مرا۔ (رواہ البخاری : کتاب المغازی) مسائل ١۔ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو من وعن شریعت پہنچانے کا حکم دیا گیا تھا۔ ٣۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حفاظت کا اللہ تعالیٰ نے اعلان فرمادیا تھا۔ ٤۔ شریعت کا انکار کرنے والوں کو ہدایت نہیں دی جاتی۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(آیت) ” نمبر ٦٧ تا ٦٨۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے قطعی حکم یہ ہے کہ آپ تمام پیغام کی جو اللہ نے نازل کیا ہے پوری پوری تبلیغ کریں ‘ دنیا کے اندر پائے جانے والے حالات میں سے کسی حال کو بھی کوئی اہمیت نہ دیں اور اپنی دعوت کو بالکل کھل کر صاف بیان کردیں ۔ یہ آپ کا فریضہ رسالت ہے اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو گویا آپ نے فریضہ رسالت کا حق ادا نہ کیا اور اپنے فرائض پوری طرح سرانجام نہ دیئے رہی بات کہ دشمن تمہارا کچھ بگاڑ لیں گے تو یقین رکھو کہ اللہ آپ کو لوگوں سے بچائے گا اور جس کو بچانے کا ذمہ اللہ لے لے تو لوگ اللہ کے مقابلے میں حیثیت کیا رکھتے ہیں کہ اس کو کوئی نقصان پہنچا سکیں گے ۔ سچائی کے حاملین کو شف شف کرنا مناسب نہیں ہے ۔ انہیں چاہئے کہ صاف صاف اور دو ٹوک بات کریں ۔ رہے اہل باطل اور مخالفین حق تو وہ جو چاہیں کہیں جو چاہیں کرلیں ۔ اس لئے کہ سچوں کو لوگوں کی خواہشات کا لحاظ رکھتے ہوئے نرم بات نہیں کرنا چاہئے اور نہ اس سلسلے میں لوگوں کی خواہش کا لحاظ رکھنا چاہئے ۔ سچی بات کو نہایت ہی قوت اور زور دار طریقے سے کہنا چاہئے تاکہ وہ سیدھی لوگوں کے قلوب کے اندر اتر جائے ۔ حاملین حق جب اپنی بات زور دار زور دار طریقے سے کہنا چاہئے تاکہ وہ سیدھی لوگوں کے قلوب کرنے کی ذرا سی استعداد بھی ہوتی ہے تو وہ بات ان تک پہنچ جاتی ہے ۔ اور اگر سچائی کو دو ٹوک الفاظ میں پیش کیا جائے تو اس کے لئے وہ دل نرم نہیں ہوتے جن میں قبول حق کی استعداد نہیں ہوتی اور یہ اس قسم کے لوگ ہوتے ہیں کہ ان کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ داعی ان کے ساتھ نرمی کرے اور کچھ مطالبات واپس لے لے تب وہ دعوت کو قبول کریں گے ۔ وہ اپنی طرف سے شرائط عائد کرتے ہیں ۔ (آیت) ” ان اللہ لا یھدی القوم الکفرین “۔ (٥ : ٦٧) ” اللہ کافروں کو ہدایت کی راہ دکھانے والا نہیں ہے ۔ “ لہذا آپ سچائی کو دو ٹوک الفاظ میں بیان کریں ‘ جامع اور مانع الفاظ میں بیان کریں ۔ رہی یہ بات کہ کون مانتا ہے اور کون مانتا ‘ یہ موقوف اس امر پر ہے کہ سننے والے کے اندر قبول حق کی استعداد ہے یا نہیں یا یہ کہ اس کا دل اس سچائی کے لئے کھلا ہے یا نہیں ۔ مداہنت اور لحاظ وملاحظہ کرنے اور سچ بات پوری طرح نہ کہنے پر ہدایت کا دارومدار نہیں ہے نہ اس سے کچھ فائدہ ہوتا ہے ۔ نظریاتی اعتبار سے فیصلہ کن بات کرنے کا مقصد یہ بھی نہیں ہے کہ انسانی نہایت خشک اور سخت لہجے میں بات کرے ۔ اللہ نے حضرت نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ حکم بھی دیا ہے کہ آپ نہایت ہی حکمت اور اچھے انداز میں نصیحت فرمائیں ۔ اس لئے قرآنی ہدایت میں کوئی تعارض نہیں ہے یعنی کلمہ حکمت اور موعظہ حسنہ اور دو ٹوک اور فیصلہ کن بات کے درمیان کوئی تضاد نہیں ہے ۔ ایک تو نفس بات ہے یہ کسی بات کے عناصر ترکیبی ہیں اور دوسرا وہ انداز ہے جس انداز میں اس بات کو لوگوں تک پہنچانا مطلوب ہے ۔ جہاں تک نفس بات اور پیغام حق کا تعلق ہے وہ بےکم وکاست پہنچایا جائے ۔ پوری پوری بات پہنچائی جائے اور اس میں کچھ لو اور کچھ دو کی پالیسی اختیار نہ کی جائے ۔ اس لئے کہ عقیدہ اور نظریہ ایک ایسی حقیقت ہوتی ہے جس کے اجزاء نہیں ہو سکتے ۔ ہاں بات کے پہنچانے کے انداز میں نرمی ہو سکتی ہے ۔ ابتدائے بعثت سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نہایت ہی حکمت سے وعظ فرماتے تھے اور بات نہایت ہی اچھے انداز سے کرتے تھے لیکن بات دو ٹوک ہوتی تھی ۔ آپ اللہ کے حکم سے اس طرح فرمایا کرتے تھے ”۔ اے لوگو ! جنہوں نے کفر کیا ہے ‘ میں ان بتوں کی بندگی نہیں کرتا جن کی بندگی تم کرتے ہو۔ “ آپ صاف کہتے کہ تم کافر ہو ‘ اور بات بھی صاف کہتے کہ میں تمہارے معبودوں کی بندگی نہیں کرتا اور نہ ہی آپ نے وہ مصالحتی کوششیں منظور کیں جن کا مقصد یہ تھا کہ کچھ لو اور کچھ دو ‘ نہ آپ نے کبھی مداہنت کی حالانکہ وہ تمنائیں کرتے تھے کہ آپ ایسا کریں ۔ آپ نے کبھی کفار سے یہ نہ کہا کہ تم جس نظام پر عامل ہو ‘ میں تو اس میں چند معمولی تبدیلیاں لاتا ہوں بلکہ آپ یہ فرماتے کہ تم لوگ سراسر باطل پر ہو اور یہ کہ وہ کامل سچائی لے کر آئے ہیں۔ آپ سچائی کی بات نہایت ہی زور سے کرتے ‘ پوری پوری کرتے لیکن ایسے انداز میں کرتے کہ اس میں کرختگی نہ ہوتی اور نہ سخت مزاجی ہوتی ۔ قول لین ہوتا ۔ یہاں اس سورة میں آپ کو حکم یہ دیا جاتا ہے ۔ (آیت) ” یَا أَیُّہَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَیْْکَ مِن رَّبِّکَ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہُ وَاللّہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ إِنَّ اللّہَ لاَ یَہْدِیْ الْقَوْمَ الْکَافِرِیْنَ (67) ” اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو کچھ تمہارے رب کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے وہ لوگوں تک پہنچا دو ‘ اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اس کی پیغمبری کا حق ادا نہ کیا ‘ اللہ تم کو لوگوں کے شر سے بچانے والا ہے ، یقین رکھو کہ وہ کافروں کو ہدایت کی راہ ہرگز نہ دکھائے گا ۔ یہاں اس آیت سے پہلے اور بعد میں آنے والی آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں مقصد یہ ہے کہ اہل کتاب کو واضح الفاظ میں اور دوٹوک انداز میں بتایاجائے کہ وہ جس موقف پر جمے ہوئے ہیں اس کی حقیقت کیا ہے ۔ اور یہ بتا دیا جائے کہ ان کا موقف حقیقت سے دور کا واسطہ بھی نہیں رکھتا ۔ نہ ان کا دین ‘ دین ہے نہ ان کا عقیدہ صحیح عقیدہ اور نہ ان کا ایمان مقبول ہے ۔ اس لئے کہ ان کی یہ چیزیں خود تورات اور انجیل کے مطابق نہیں ہیں ۔ نہ ربانی ہدایات کے مطابق ہیں ۔ اس لئے ان کے یہ دعاوی سراسر باطل ہیں کہ وہ اہل کتاب ہیں یا یہ کہ وہ کوئی نظریہ رکھتے ہیں یا یہ کہ وہ دیندار ہیں اور دین سماوی کے پیروکار ہیں ۔ (آیت) ” قُلْ یَا أَہْلَ الْکِتَابِ لَسْتُمْ عَلَی شَیْْء ٍ حَتَّیَ تُقِیْمُواْ التَّوْرَاۃَ وَالإِنجِیْلَ وَمَا أُنزِلَ إِلَیْْکُم مِّن رَّبِّکُمْ (٥ : ٦٨) ” صاف کہہ دو کہ ” اے اہل کتاب ‘ تم ہر گز کسی اصل پر نہیں ہو جب تک کہ تورات اور انجیل اور ان دوسری کتابوں کو قائم نہ کرو جو تمہاری طرف تمہارے رب کی طرف سے نازل کی گئی ہیں ۔ جس وقت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اہل کتاب کے سامنے ان کے دین ‘ ان کے عقیدے اور ان کے ایمان کے بارے میں یہ حقیقت واشگاف الفاظ میں بیان کریں کہ ان کی کوئی حقیقت نہیں ہے اور نہ وہ کسی ٹھوس حقیقت پر مبنی ہیں ‘ تو اس وقت وہ اپنی کتابیں باقاعدہ پڑھتے تھے ۔ وہ اپنے آپ کو یہودی اور نصرانی کہتے تھے ۔ ان کا دعوے یہ تھا کہ وہ اہل ایمان ہیں لیکن رسول اللہ خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان کے موقف پر جو فیصلہ کن تبصرہ کرنے کو کہا گیا اس میں یہ اعلان مضمر تھا کہ اپنے بارے میں ان کے تمام دعاوی غلط ہیں ‘ اس لئے کہ ” دین “ صرف الفاظ کا نام نہیں ہے جسے کوئی زبان سے ادا کر دے ۔ نہ دین کتابوں کا نام ہے جنہیں ترتیل اور خوش الحانی سے پڑھ لیا جائے ۔ نہ دین کوئی صفت ہے جو موروثی طور پر مل جاتی ہو۔ بلکہ دین تو ایک نظام زندگی ہوتا ہے اور دین کے اجزاء میں وہ عقیدہ اور نظریہ بھی شامل ہوتا ہے جو دلوں کے اندر ہوتا ہے ‘ وہ عبادات بھی ہوتی ہیں جو مراسم عبودیت کی شکل میں ادا ہوتی ہیں ۔ اس میں وہ نظام بندگی بھی ہوتا ہے جس پر ایک مکمل نظام زندگی استوار ہوتا ہے ۔ جب تک وہ اس پورے نظام تورات کو قائم نہیں کرتے تو ان کی حیثیت یہ ہوگی کہ وہ سرے سے دین پر نہیں ہیں ۔ نہ اہل کتاب میں اور نہ اہل دین و عقیدہ میں اور یہی اعلان رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کرنے کا حکم دیا گیا کہ ان سے کہہ دیں کہ وہ اپنے لئے ان چیزوں میں سے کسی شے کو (ClAirn) نہ کریں ۔ اقامت تورات کا پہلا تقاضا یہ ہے کہ اہل کتاب حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لائے ہوئے دین پر عمل کریں اس لئے کہ ان سے اللہ تعالیٰ نے یہ عہد لیا تھا کہ وہ تمام رسولوں پر ایمان لائیں اور جو رسول بھی آیا ‘ اس کی نصرت کریں گے اور مدد دین گے ۔ ان کے ہاں تورات اور انجیل میں حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صفت واضح طور پر موجود ہے ‘ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے خود قرآن کریم کے اندر اس کا تذکرہ فرمایا ۔ نیز ان کو حکم بھی دیا گیا تھا کہ وہ تورات ‘ انجیل اور اس کلام پہ ایمان لائیں جو اللہ نے نازل کیا ہے (چاہے اس ماانزل اللہ سے مراد قرآن ہو یا دوسری کتب ہوں مثلا زبور داؤد وغیرہ) ہم یہ کہتے ہیں کہ یہ لوگ تورات اور انجیل کو قائم نہیں کرتے ۔ اب ان کو اس نئے دین میں داخل ہوجانا چاہیے اس لئے کہ یہ دین تورات وانجیل کی تصدیق کرتا ہے اور اس کے اندر تورات وانجیل کی اصل تعلیمات محفوظ کردی گئی ہیں ۔ اگر یہ دین اسلام میں داخل نہ ہوں گے تو ان کی کوئی دینی حیثیت نہ ہوگی ‘ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ حکم دیا کہ وہ ایسا اعلان کردیں ورنہ سمجھا جائے گا کہ آپ نے تبلیغ کا حق ادا نہیں کیا اور یہ ایک شدید تہدید ہے جو حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دی گئی ۔ اللہ تعالیٰ کو اس بات کا علم تھا کہ جب اہل کتاب کی دینی حیثیت کو ان فیصلہ کن اور دو ٹوک الفاظ میں چیلنج کیا جائے گا تو وہ کفر و طغیان میں مزید آگے بڑھیں گے ۔ وہ مزید عناد میں مبتلا ہوں گے اور کج بحثیاں کریں گے ۔ لیکن ان خطرات کے باوجود حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا گیا کہ بس وہ یہ اعلان کر ہی دیں اور اس اعلان کے نتیجے میں ہونے والے کفر وسرکشی ‘ گمراہی اور بغاوت کی کوئی پرواہ نہ کریں اور مایوس نہ ہوں کیونکہ حکمت الہی کا تقاضا یہ ہے کہ حق کا اعلان ببانگ دہل کیا جائے اور اس پر جو نتائج مرتب ہونا ہیں وہ ہوجائیں ۔ جو شخص راہ ہدایت کو اختیار کرلیتا ہے وہ کھل کر راہ ہدایت پر آجائے اور جو راہ ضلالت کا انتخاب کرتا ہے وہ کھل کر راہ ضلالت اختیار کرے ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ تعالیٰ کا حکم کہ جو کچھ نازل کیا گیا ہے سب کچھ پہنچا دو ، اللہ تعالیٰ آپ کی حفاظت فرمائیگا اس آیت شریفہ میں اللہ جل شانہ نے حضرت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تبلیغ کا حکم دیا اور فرمایا کہ جو کچھ آپ کی طرف نازل کیا گیا اس کو پہنچا دیں، حضرت حسن (رض) سے روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب اپنے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مبعوث فرمایا تو آپ کے دل میں کچھ گھبراہٹ سی ہوئی اور یہ خیال ہوا کہ لوگ تکذیب کرینگے اس پر آیت بالانازل ہوئی۔ معالم التنزیل ص ٥١ ج ١ اور لباب النقول ص ٩٤ میں حضرت مجاہد تابعی (رح) سے نقل کیا ہے کہ جب (یٰٓاَیُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ ) نازل ہوئی تو آپ نے عرض کیا کہ اے رب ! میں یہ کام کیسے کروں گا میں تنہا ہوں لوگ میرے خلاف جمع ہوجائیں گے۔ اس پر (فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہٗ ) نازل ہوئی مزید فرمایا (وَ اللّٰہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ ) (اور اللہ لوگوں سے آپ کی حفاظت فرمائے گا) ۔ حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے منقول ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو جو حضرات صحابہ (رض) آپ کی حفاظت کیا کرتے تھے ان سے آپ نے فرما دیا کہ آپ لوگ چلے جائیں اللہ نے میری حفاظت کا وعدہ فرما لیا ہے۔ حفاظت کرنے والوں میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چچا حضرت عباس (رض) بھی تھے جب آیت نازل ہوئی تو انہوں نے پہرہ دینا چھوڑ دیا (لباب النقول ص ٩٤) آخر میں فرمایا (اِنَّ اللّٰہَ لَا یَھْدِی الْقَوْمَ الْکٰفِرِیْنَ ) یعنی اللہ تعالیٰ کافروں کو اس کی راہ نہ دکھائے گا کہ وہ قتل کرنے کے لئے آپ تک پہنچیں۔ قال صاحب الروح وفیہ اقامۃ الظاھر مقام المضمر ای لانّ اللّٰہ تعالیٰ لا یھد یھم الی امنیتھم فیک (ج) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ذرا سی بھی کوئی بات نہیں چھپائی اللہ تعالیٰ جل شانہ نے جو کچھ نازل فرمایا وہ سب امت تک پہنچایا۔ حضرت عائشہ صدیقہ (رض) نے فرمایا کہ جو کوئی شخص تم میں سے یہ بیان کرے کہ سیدنا محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ کے نازل فرمودہ امور سے کچھ بھی چھپایا تو وہ جھوٹا ہے۔ (معالم التنزیل ج ٢ ص ٥١) منیٰ اور عرفات میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حاضرین سے سوال آنحضرت سرور عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حجتہ الوداع کے موقع پر جو عرفات میں خطبہ دیا اس میں بہت سی باتیں بیان فرمائیں اور حاضرین سے فرمایا وانتم تسئلون عنی فما انتم قائلون (تم سے میرے بارے میں سوال کیا جائے گا سو تم کیا جواب دو گے) حاضرین نے عرض کیا۔ نَشْھَدُ اَنَّکَ قَدْ بَلَّغْتَ وَ أَدَّیْتَ وَ نَصَحْتَ (کہ ہم گواہی دیں گے کہ بلاشبہ آپ نے پہنچایا اور اپنی ذمہ داری کو پورا فرمایا اور امت کی خیر خواہی کی) آپ نے آسمان کی طرف نظر اٹھائی پھر لوگوں کی طرف جھکائی اور تین بار اللہ پاک کے حضور میں عرض کیا اللّٰھُمَّ اشْھَدْ (کہ اللہ ! تو گواہ ہوجا ! ) (صحیح مسلم ج ١ ص ٣٩٧) پھر دسویں تاریخ کو منی میں آپ نے خطبہ دیا اور حاضرین سے پھر وہی سوال فرمایا الاَھَلْ بَلَّغْتُخبردار ! ٹھیک بتاؤ کیا میں نے پہنچا دیا ! حاضرین نے کہا کہ نَعَمْ (ہاں آپ نے پہنچا یا) پھر آپ نے اللہ پاک کو حضور میں عرض کیا اللّٰھُمَّ اشْھَدْ (اے اللہ ! تو گواہ ہوجا) پھر ساتھ ہی فرمایا فَلْیُبَلِّغِ الشَّاھِدُ الْغَاءِبَ (جو حاضر ہو وہ غائب کو پہنچا دے ) ۔ (رواہ البخاری ج ١ ص ٢٣٥) قرآن مجید کی تصریح سے معلوم ہوا کہ اللہ جل شانہ نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم فرمایا کہ اللہ نے جو بھی کچھ آپ کی طرف نازل فرمایا ہے وہ سب پہنچا دیجئے۔ سورة حجر میں ارشاد ہے (فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ ) کہ آپ خوب کھول کر واضح طور پر بیان فرما دیجئے آپ نے زندگی بھر اس پر عمل کیا اور حج کے موقعہ پر صحابہ (رض) سے دریافت فرمایا کہ میں نے پہنچا دیا سب نے ایک زبان ہو کر جواب دیا کہ ہاں آپ نے پہنچا یا اور سب نے وعدہ کیا کہ اللہ کے حضور میں ہم گواہی دینگے اور عرض کردیں گے کہ آپ نے سب کچھ پہنچا دیا۔ روافض کا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر تہمت لگانا یہ تو قرآن و حدیث کی تصریحا ہیں لیکن کچھ لوگ ایسے ہیں جن کا یہ جاہلانہ اور کافرانہ عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا تھا کہ اپنے بعد حضرت علی (رض) کی خلافت کا اعلان فرما دیں لیکن آپ نے حضرت ابوبکر اور حضرت عمر (رض) کے ڈر سے اعلان نہیں فرمایا، ان لوگوں کا جھوٹا دعویٰ ہے کہ انہیں حضرات اہل بیت سے محبت ہے۔ جھوٹا اس لئے ہے کہ اہل بیت سے تو محبت کا دعویٰ ہے اور صاحب اہل بیت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ انہوں نے اللہ کا حکم نہیں پہنچایا یہ لوگ با ستثناء تین چار پانچ حضرات کے تمام اصحابہ (رض) کو کافر کہتے ہیں۔ قرآن مجید کی تحریف کا بھی عقیدہ رکھتے ہیں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی علم چھپانے کا مجرم بتاتے ہیں، یہ محبت عجیب قسم کی ہے کہ اہل بیت سے محبت ہو اور جس ذات والا صفات کی وجہ سے اہل بیت سے محبت ہوئی۔ اس کے بارے میں یہ عقیدہ رکھیں کہ منصب رسالت کی ذمہ داری پوری نہیں کی (العیاذ باللہ من ہذہ الخرافات و الہفوات ) جب اللہ کا نبی ہی مخلوق سے ڈر جائے اور احکام الہٰیہ کو چھپائے اور (فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ ) کی خلاف ورزی کرے تو پھر کون حق قائم کرے گا ؟ حیرت ہے ان لوگوں پر کہ جس رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حفاظت کا اللہ نے وعدہ فرمایا اور (وَ اللّٰہُ یعْصِمُکَ ) فرما کر حفاظت کی ضمانت دے دی اس رسول کے بارے میں وہ یہ کہتے ہیں کہ حضرت ابوبکر و عمر (رض) کے ڈر سے اللہ کا حکم چھپالیا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے جو آپ کی حفاظت کا وعدہ فرمایا اس وعدہ پر آپ کو بھروسہ نہیں تھا (والعیاذباللہ) ایک ادنی مومن بھی اللہ پر بھروسہ رکھتا ہے کیا یہ ہوسکتا ہے کہ اللہ کے رسول کو اللہ پر بھروسہ نہ ہو اور اللہ کے وعدہ کو سچ نہ سمجھا ہو ؟ پھر یہ عجیب بات ہے کہ جس کی خلافت بلافصل کے یہ لوگ مدعی ہیں جب چھبیس سال کے بعد انہیں خلافت ملی تو انہوں نے تو یہ نہ کہا کہ میں خلیفہ بلا فضل تھا مجھ سے خلافت چھین لی گئی تھی یہ انکے خواہ مخواہ کے حمایتی ان کو بھی مطعون کرتے ہیں کہ باوجود شجاع اور بہادر ہونے کے حضرت ابوبکر و عمر و عثمان (رض) سے ڈرتے رہے اور ان کے پیچھے نمازیں پڑھتے رہے اور ان کے مشوروں میں شریک ہوتے رہے۔ اللہ جل شانہ ان جھوٹے حمایتیوں کے عقائد اور مکائد اور خیالات اور خرافات سے محفوظ رکھے۔ ولقدصَدَق اللّٰہ تعالیٰ حیث قالَ (اِنَّ اللّٰہَ لاَ یَھْدِیْ الْقَوْمِ الْکٰفِرِیْن)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

118 دوسرا حصہ۔ 1 ۔ نفی شرک فی التصرف۔ اور 2 ۔ نفی شرک فعلی۔ پہلا جز۔ نفی شرک فی التصرف۔ پہلے حصے میں شرک فعلی کی نفی کا بیان تھا اور اس کے بعد شرک فی التصرف کی نفی مذکور تھی اس کے بعد آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے تسلیہ اور اہل کتاب اور منافقین پر زجریں مذکور تھیں۔ اب یہاں سے سورت کا دوسرا حصہ شروع ہوتا ہے اس میں ان دونوں مضمونوں (نفی شرک فی التصرف اور نفی شرک فعلی) کا لف و نشر غیر مرتب کے طور پر اعادہ کیا گیا ہے۔ 119 مَا موصولہ ہے جو عموم کے لیے ہے اور اس سے وہ تمام احکام مراد ہیں جو وحی جلی یا وحی خفی کے ذریعے آپ پر نازل ہوئے۔ یہاں مَا اُنْزِلَ سے چار چیزیں ذکر کی گئی ہیں جو آگے آرہی ہیں۔ وَ اِنْ لَّمْ تَفْعَلْ الخ اگر آپ نے ایک چیز کا بھی اخفا کیا اور اس کی تبلیغ نہ کی تو آپ نے حق تبلیغ ادا نہیں کیا۔ اسی طرح آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جانشین علماء و صوفیا کا بھی فرض ہے کہ وہ قرآن و سنت کے تمام احکام کی تبلیغ و اشاعت کریں اگر انہوں نے ایسا نہ کیا بلکہ بعض قرآنی احکام کو بعض دنیوی مصلحتوں اور ذاتی اغراض کی وجہ سے بیان نہ کیا مثلاً شرک و بدعت کا رد نہ کیا اور غیر اللہ کی نذر و نیاز کا مسئلہ بیان نہ کیا تو انہوں نے حق تبلیغ ادا نہیں کیا اور ان کی باقی احکام کی تبلیغ بھی اللہ کے یہاں مقبول نہیں ہوگی۔ 120: یعنی آپ اللہ کے تمام احکام کی تبلیغ کیے جائیں۔ اور مشرکین کی مخالفت، طعن وتشنیع اور ملامت کی پرواہ نہ کریں اللہ آپ کو ان کے شر سے محفوظ رکھے گا۔ اِنَّ اللہَ لَایَھْدِیْ الخ آپ تبلیغ کیے جائیں اگر کچھ لوگ آپ کی تبلیغ سے متاثر نہیں ہوتے اور ہدایت قبول نہیں کرتے تو آپ اس کا غم نہ کریں جو لوگ ایمان نہیں لاتے وہ معاندین ہیں اور معاندین کے دلوں پر ان کی ضد وعناد کی وجہ سے مہر جباریت لگ جاتی ہے اور ان کو اللہ کی طرف سے ہدایت کی توفیق نہیں ملتی۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 1 اے پیغمبر جو کچھ آپ کے پروردگار کی طرف سے آپ پر نازل کیا گیا آپ لوگوں کو وہ سب پہنچا دیجیے اور اگر آپ نے خدانخواستہ بفرض محال ایسا نہ کیا یعنی کچھ حصہ پہنچایا اور کچھ نہیں پہونچا یا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ آپ نے خدا کا کوئی پیغام بھی نہیں پہونچایا اور اللہ تعالیٰ آپ کو دشمنوں سے محفوظ رکھے گا یقین رکھیے کہ اللہ تعالیٰ اس گروہ منکرین کو ایسا موقع نہیں دے گا اور ان کی رہنمائی نہیں فرمائے گا۔ (تیسیر) خلاصہ یہ ہے کہ منکرین اسلام کی کوشش یہ ہے کہ وہ آپ کے تبلیغی کاموں میں رکاوٹ پیدا کریں وہ آپ کو قتل کی دھمکیاں دیتے ہیں تو آپ اس قسم کی قتل آمیز دھمکیوں کی پروا نہ کیجیے اور تمام احکام کی تبلیغ کرتے رہئے اس مجموعہ فرض کو بجا لائیے اگر خدانخواستہ کسیا یک حصہ کو بھی ترک کیا تو مجموعہ فرض بیکار ہوگیا۔ جیسے ارکان صلوۃ یا ارکان حج کہ ایک رکن کے ترک سے تمام نماز اور پورا حج اکارت ہوجاتا ہے اسی طرح یہ فریضہ تبلیغ ہے ایک حصہ ترک ہو تو پورا فریضہ ترک ہو۔ باقی ان قتلک ی دھمکیوں سے بےنیاز رہو ہم تم کو ان اعدائے اسلام سے محفوظ و مصئون رکھنے کی ذمہ داری کا اعلان کرتے ہیں اور تم کو یقین دلاتے ہیں کہ ہم اس گروہ کافرین کی اس بارے میں کہ یہ تم کو قتل کر ڈالیں اور ہلاک کردیں کوئی رہنمائی نہیں کریں گے مفسرین نے شان نزول کے سلسلے میں بہت سے واقعات ذکر کئے ہیں ابن مردویہ اور طبرانی نے ابن عباس (رض) سے نقل کیا ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حفاظت کے لئے کچھ پہرہ دار مقرر تھے جو باری باری پہر ہ دیتے تھے لیکن جب یہ آیت نازل ہوئی تو آپ نے کھڑکی میں سے آواز دے کر سب کو بھیج دیا اور فرمایا کہ تم جائو اب حفاظت کی ضرورت نہیں یہ شبہ نہ کیا جائے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کئی بار حملے کئے گئے آپ کو زہر دیا گیا غزوئہ احد میں آپ کو گزند پہنچا لیکن جس طرح ہم نے تفسیر کی ہے اس پر یہ شبہ نہیں ہو ہوسکتا کیونکہ وعدہ قتل سے محفوظ رکھنے کا تھا اور یہ وعدہ پورا کیا گیا۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اعتقاد اور اعتماد کا یہ حال تھا کہ آیت کے نازل ہوتے ہی چوکیداروں اور پہریداروں کو رخصت کردیا۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں یعنی یہ اگلی بات کہ صاف اہل کتاب کو گمراہ کہو جب تک وہ کلام اللہ کا قبول نہ کریں گرچہ دے دشمن ہوں تو تم بےفکر پہنچائو اور خطرہ نہ کرو۔ (موضح القرآن) شاہ صاحب نے خوب بات فرمائی اس تقدیر پر ربط آیات پر کچھ کہنے کی گنجائش نہیں اور نہ کسی نئی توجیہہ کی ضرورت ہے جیسا کہ بعض حضرات نے ایک نئی الجھن اختیار کی ہے بات یہ ہے کہ یہود کے تذکرے میں تبلیغ کی آیت کچھ بےجوڑ سی معلوم ہوتی تھی لوگوں نے ربط پیدا کرنے کی کوشش کی لیکن شاہ صاحب نے جو طریقہ اختیار کیا وہ بہت ہی بہتر اور بہت ہی محفوظ ہے تمام بحث کے لئے تفسیر مظہری کی طرف رجوع کرنا چاہئے تب شاہ صاحب کے کمال کا اندازہ ہو سکے گا اب آگے وہ مضمون ہے جس کی تبلغی کا نڈر ہو کر حکم دیا گیا ہے۔ چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ (تسہیل)