Surat ul Maeeda

Surah: 5

Verse: 7

سورة المائدة

وَ اذۡکُرُوۡا نِعۡمَۃَ اللّٰہِ عَلَیۡکُمۡ وَ مِیۡثَاقَہُ الَّذِیۡ وَاثَقَکُمۡ بِہٖۤ ۙ اِذۡ قُلۡتُمۡ سَمِعۡنَا وَ اَطَعۡنَا ۫ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیۡمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوۡرِ ﴿۷﴾

And remember the favor of Allah upon you and His covenant with which He bound you when you said, "We hear and we obey"; and fear Allah . Indeed, Allah is Knowing of that within the breasts.

تم پر اللہ تعالٰی کی جو نعمتیں نازل ہوئی ہیں انہیں یاد رکھو اور اس کے اس عہد کو بھی جس کا تم سے معاہدہ ہوا ہے جبکہ تم نے کہا ہم نے سنا اور مانا اور اللہ تعالٰی سے ڈرتے رہو ، یقیناً اللہ تعالٰی دلوں کی باتوں کا جاننے والا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Reminding the Believers of the Bounty of the Message and Islam Allah reminds His believing servants of His bounty by legislating this glorious religion and sending them this honorable Messenger. He also reminds them of the covenant and pledges that He took from them to follow the Messenger, support and aid him, implement his Law and convey it on his behalf, while accepting it themselve... s. Allah said, وَاذْكُرُواْ نِعْمَةَ اللّهِ عَلَيْكُمْ وَمِيثَاقَهُ الَّذِي وَاثَقَكُم بِهِ إِذْ قُلْتُمْ سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا ... And remember Allah's favor upon you and His covenant with which He bound you when you said, "We hear and we obey." This is the pledge that they used to give to the Messenger of Allah when they embraced Islam. They used to say, "We gave our pledge of obedience to the Messenger of Allah to hear and obey, in times when we are active and otherwise, even if we were passed on for rights, and not to dispute leadership with its rightful people." Allah also said, وَمَا لَكُمْ لاَ تُوْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالرَّسُولُ يَدْعُوكُمْ لِتُوْمِنُوا بِرَبِّكُمْ وَقَدْ أَخَذَ مِيثَاقَكُمْ إِن كُنتُم مُّوْمِنِينَ And what is the matter with you that you believe not in Allah! While the Messenger invites you to believe in your Lord; and He has indeed taken your covenant, if you are real believers. (57:8) It was also said that this Ayah (5:7) reminds the Jews of the pledges and promises Allah took from them to follow Muhammad and adhere to his Law, as Ali bin Abi Talhah reported that Ibn Abbas stated. Allah then said, ... وَاتَّقُواْ اللّهَ ... And have Taqwa of Allah. in all times and situations. Allah says that He knows the secrets and thoughts that the hearts conceal, ... إِنَّ اللّهَ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ Verily, Allah is All-Knower of the secrets of (your) breasts. The Necessity of Observing Justice Allah said,   Show more

اسلام زبان سے عہد اور ایمان عمل سے اطاعت اس عہد کا اظہار اس دین عظیم اور اس رسول کریم کو بھیج کر جو احسان اللہ تعالیٰ نے اس امت پر کیا ہے ، اسے یاد دلا رہا ہے اور اس عہدے پر مضبوط رہنے کی ہدایت کر رہا ہے جو مسلمانوں نے اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی تابعداری اور امداد کرنے ، دین پ... ر قائم رہنے ، اسے قبول کر لینے ، اسے دوسروں تک پہنچانے کیلئے کیا ہے ، اسلام لاتے وقت انہی چیزوں کا ہر مومن اپنی بیعت میں اقرار کرتا تھا ، چنانچہ صحابہ کے الفاظ ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی کہ ہم سنتے رہیں گے اور مانتے چلے جائیں گے ، خواہ جی چاہے خواہ نہ چاہے ، خواہ دوسروں کو ہم پر ترجیح دی جائے اور کسی لائق شخص سے ہم کسی کام کو نہیں چھینیں گے ۔ باری تعالیٰ عزوجل کا ارشاد ہے کہ تم کیوں ایمان نہیں لاتے؟ حالانکہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں رب پر ایمان لانے کی دعوت دے رہے ہیں ، اگر تمہیں یقین ہو اور اس نے تم سے عہد بھی لے لیا ہے ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس آیت میں یہودیوں کو یاد دلایا جا رہا ہے کہ تم سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تابعداری کے قول قرار ہو چکے ہیں ، پھر تمہاری نافرمانی کے کیا معنی؟ یہ بھی کہا گیا ہے کہ حضرت آدم کی پیٹھ سے نکال کر جو عہد اللہ رب العزت نے بنو آدم سے لیا تھا ، اسے یاد دلایا جا رہا ہے جس میں فرمایا تھا کہ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ سب نے اقرار کیا کہ ہاں ہم اس پر گواہ ہیں ، لیکن پہلا قول زیادہ ظاہر ہے ، سدی اور ابن عباس سے وہی مروی ہے اور امان اب جریر نے بھی اسی کو مختار بتایا ہے ۔ ہر حال میں ہر حال میں انسان کو اللہ کا خوف رکھنا چاہئے ۔ دلوں اور سینوں کے بھید سے وہ واقف ہے ۔ ایمان والو لوگوں کو دکھانے کو نہیں بلکہ اللہ کی وجہ سے حق پر قائم ہو جاؤ اور عدل کے ساتھ صحیح گواہ بن جاؤ ۔ بخاری و مسلم میں حضرت نعمان بن بشیر سے روایت ہے کہ میرے باپ نے مجھے ایک عطیہ دے رکھا تھا ، میری ماں عمرہ بنت رواحہ نے کہا کہ میں تو اس وقت تک مطمئن نہیں ہونے لگی جب تک کہ تم اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گواہ نہ بنا لو ، میرے باپ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے واقعہ بیان کیا تو آپ نے دریافت فرمایا کیا اپنی دوسری اولاد کو بھی ایسا ہی عطیہ دیا ہے؟ جواب دیا کہ نہیں تو آپ نے فرمایا اللہ سے ڈرو ، اپنی اولاد میں عدل کیا کرو ، جاؤ میں کسی ظلم پر گواہ نہیں بنتا ۔ چنانچہ میرے باپ نے وہ صدقہ لوٹا لیا ، پھر فرمایا دیکھو کسی کی عداوت اور ضد میں آکر عدل سے نہ ہٹ جانا ۔ دوست ہو یا دشمن ہو ، تمہیں عدل و انصاف کا ساتھ دینا چاہئے ، تقوے سے زیادہ قریب یہی ہے ، ھو کی ضمیر کے مرجع پر دلالت فعل نے کر دی ہے جیسے کہ اس کی نظریں قرآن میں اور بھی ہے اور کلام عرب میں بھی ، جیسے اور جگہ ہے ۔ آیت ( وَاِنْ قِيْلَ لَكُمُ ارْجِعُوْا فَارْجِعُوْا هُوَ اَزْكٰى لَكُمْ ۭ وَاللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِيْمٌ ) 4 ۔ النور:28 ) یعنی اگر تم کسی مکان میں جانے کی اجازت مانگو اور نہ ملے بلکہ کہا جائے کہ واپس جاؤ تو تم واپس چلے جاؤ یہی تمہارے لئے زیادہ پاکیزگی کا باعث ہے ۔ پس یہاں ھو کی ضمیر کا مرجع مذکور نہیں ، لیکن فعل کی دلالت موجود ہے یعنی لوٹ جانا اسی طرح مندرجہ آیت میں یعنی عدل کرنا ۔ یہ بھی یاد رہے کہ یہاں پر اقرب افعل التفضیل کا صیغہ ایسے موقعہ پر ہے کہ دوسری جانب اور کوئی چیز نہیں ، جیسے اس آیت میں ہے ۔ ( اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ يَوْمَىِٕذٍ خَيْرٌ مُّسْتَــقَرًّا وَّاَحْسَنُ مَقِيْلًا ) 25 ۔ الفرقان:24 ) اور جیسے کہ کسی صحابیہ کا حضرت عمر سے کہنا کہ ۔ انت واغلظ من رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ سے ڈرو! وہ تمہارے عملوں سے باخبر ہے ، ہر خیرو شر کا پورا پورا بدلہ دے گا ۔ وہ ایمان والوں ، نیک کاروں سے ان کے گناہوں کی بخشش کا اور انہیں اجر عظیم یعنی جنت دینے کا وعدہ کر چکا ہے ۔ گو دراصل وہ اس رحمت کو صرف فعل الٰہی سے حاصل کرینگے لیکن رحمت کی توجہ کا سبب ان کے نیک اعمال بنے ۔ پس حقیقتاً ہر طرح قابل تعریف و ستائش اللہ ہی ہے اور یہ سب کچھ اس کا فضل و رحم ہے ۔ حکمت و عدل کا تقاضا یہی تھا کہ ایمانداروں اور نیک کاروں کو جنت دی جائے اور کافروں اور جھٹلانے والوں کو جہنم واصل کیا جائے چنانچہ یونہی ہوگا ۔ پھر اپنی ایک اور نعمت یاد دلاتا ہے ، جس کی تفصیل یہ ہے ، حضرت جابر فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایک منزل میں اترے ، لوگ ادھر ادھر سایہ دار درختوں کی تلاش میں لگ گئے آپ نے ہتھیار اتار کر ایک درخت پر لٹکا دئے ۔ ایک اعرابی نے آکر آپ کی تلوار اپنے ہاتھ میں لے لی اور اسے کھینچ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا اب بتا کہ مجھ سے تجھے کون بچا سکتا ہے؟ آپ نے فوراً بعد جواب دیا کہ اللہ عزوجل ، اس نے پھر یہی سوال کیا اور آپ نے پھر یہی جواب دیا ، تیسری مرتبہ کے جواب کے ساتھ ہی اس کے ہاتھ سے تلوار گر پڑی ، اب آپ نے صحابہ کو آواز دی اور جب وہ آ گئے تو ان سے سارا واقعہ کہہ دیا ، اعرابی اس وقت بھی موجود تھا ، لیکن آپ نے اس سے کوئی بدلہ نہ لیا ۔ قتادہ فرماتے ہیں کہ کچھ لوگوں نے دھوکے سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنا چاہا تھا اور انہوں نے اس اعرابی کو آپ کی گھات میں بھیجا تھا لیکن اللہ نے اسے ناکام اور نامراد رکھا فالحمدللہ ۔ اس اعرابی کا نام صحیح احادیث میں غوث بن حارث آیا ہے ۔ ابن عباس سے مروی ہے کہ یہودیوں نے آپ کو اور آپ کے صحابہ کو قتل کرنے کے ارادہ سے زہر ملا کر کھانا پکا کر دعوت کر دی ، لیکن اللہ نے آپ کو آگاہ کر دیا اور آپ بچ رہے ، یہ بھی کہا گیا ہے کہ کعب بن اشرف اور اس کے یہودی ساتھیوں نے اپنے گھر میں بلا کر آپ کو صدمہ پہنچانا چاہا تھا ۔ ابن اسحاق وغیرہ کہتے ہیں کہ اس سے مراد بنو نضیر کے وہ لوگ ہیں جنہوں نے چکی کا پاٹ قلعہ کے اوپر سے آپ کے سر پر گرانا چاہتا تھا جبکہ آپ عامری لوگوں کی دیت کے لینے کیلئے ان کے پاس گئے تھے تو ان شریروں نے عمرو بن حجاش بن کعب کو اس بات پر آمادہ کیا تھا کہ ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو نیچے کھڑا کر کے باتوں میں مشغول کرلیں گے تو اوپر سے یہ پھینک کر آپ کا کام تمام کر دینا لیکن راستے میں ہی اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی شرارت و خباثت سے آگاہ کر دیا ، آپ مع اپنے صحابہ کے وہیں سے پلٹ گئے ، اسی کا ذکر اس آیت میں ہے ، مومنوں کو اللہ تعالیٰ ہی پر بھروسہ کرنا چاہئے جو کفایت کرنے والا ، حفاظت کرنے والا ہے ۔ اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے حکم سے بنو نضیر کی طرف مع لشکر گئے ، محاصرہ کیا ، وہ ہارے اور انہیں جلا وطن کر دیا ۔   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٩] یعنی تم ایک دوسرے کے دشمن تھے۔ قبائلی عصبیتوں نے تمہیں عداوتوں اور لڑائیوں میں پھنسا کر تمہاری زندگی تم پر حرام کردی تھی اور تم ان حالات سے نجات کی راہ سوچتے تھے مگر ایسی کوئی راہ تمہیں نظر نہیں آتی تھی۔ پھر اللہ نے تم پر پے در پے کئی احسانات کیے۔ تمہیں اسلام کی توفیق بخشی پھر اسی اسلام کی وجہ...  سے تمہاری دیرینہ اور مسلسل عداوتوں کا خاتمہ کر کے تمہیں ایک دوسرے کا مونس و غمخوار اور بھائی بھائی بنادیا۔ [٣٠] بیعت عقبہ کا عہد :۔ یعنی وہ پختہ عہد جو تم نے عقبہ کی رات کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کیا تھا کہ ہم ہر حال میں آپ کی فرمانبرداری کریں گے واضح رہے کہ آپ نے بیعت عقبہ کے بعد بھی جس شخص سے بیعت لی اسی عہد پر بیعت لی۔ اور خلفائے راشدین بھی اسی عہد پر مسلمانوں سے بیعت لیتے رہے۔ امیر کی اطاعت سے ہی جماعت کا نظم و نسق اور امت میں اتحاد قائم رہ سکتا ہے اسی لیے حضور نے امیر کی اطاعت کی بہت تاکید فرمائی ہے۔ تفصیل کے لیے سورة نساء کی آیت ٥٩ کا حاشیہ نمبر ٩١ ملاحظہ فرمایا جائے۔ بیعت عقبہ کے عہد اور اس کے پس منظر کو ہم ذرا تفصیل سے بیان کرتے ہیں۔ ١٠ نبوی میں ابو طالب کی وفات ہوگئی۔ پھر اس کے چند ہی دن بعد آپ کی ہمدرد اور غمگسار بیوی سیدہ خدیجۃ الکبریٰ بھی وفات پا گئیں گھر کی دنیا میں سیدہ خدیجۃ الکبریٰ آپ کا سہارا تھیں اور باہر کی دنیا میں ابو طالب۔ چند دنوں کے وقفہ سے یہ دونوں سہارے چھن گئے۔ گویا آپ پر غم و الم ٹوٹ پڑا۔ اسی وجہ سے اس سال کا نام ہی عام الحزن پڑگیا۔ ابو طالب کی وفات کے بعد مشرکین مکہ کے حوصلے بڑھ گئے۔ اور وہ مسلمانوں پر مزید تشدد کی تجویز سوچنے لگے اور یہ بھی کہ اب پیغمبر اسلام کو ٹھکانے لگانے کا بہترین موقع میسر آگیا ہے۔ مسلمانوں کی اکثریت تو پہلے ہی حبشہ کی طرف ہجرت کرچکی تھی اور جو باقی تھے ان کی اب زندگی بھی خطرہ میں تھی۔ ان حالات میں آپ نے مناسب سمجھا کہ اب مکہ سے باہر کسی مقام پر تبلیغ کے لیے مرکز بنانا چاہیے۔ اور اس مقصد کے لیے آپ نے مکہ کے جڑواں شہر طائف کا انتخاب کیا جو ایک زرخیز اور شاداب علاقہ تھا۔ اہل مکہ کے رئیسوں کی وہاں جائیدادیں بھی تھیں اور رشتے ناطے کے علاوہ تجارتی تعلقات بھی تھے۔ آپ نے اپنے غلام زید بن حارثہ کو اپنے ہمراہ لیا اور طائف کی طرف روانہ ہوگئے۔ راستہ میں جہاں موقع میسر آتا تبلیغ کرتے جاتے تاآنکہ بیس دن کی پیدل مسافت کے بعد آپ طائف پہنچ گئے۔ طائف میں بنو ثقیف آباد تھے اور تین بھائی مسعود، حبیب اور عبد یا لیل اس شہر کے سردار اور رؤسائے مکہ کے ہمسر تھے۔ آپ نے انہیں اللہ کا پیغام سنایا اور اسلام کی دعوت دی۔ وہ اہل مکہ سے گونا گوں تعلقات کی بنا پر پہلے سے ہی مکہ اور اہل مکہ کے حالات سے واقف تھے چناچہ انہوں نے بھی قریش مکہ ہی کی روش اختیار کی اور نہ صرف یہ کہ آپ کی دعوت کو ٹھکرا دیا بلکہ بڑی بدتمیزی سے پیش آئے اور گستاخانہ جواب دیئے۔ ایک بھائی نے کہا : اگر واقعی تمہیں اللہ نے بھیجا ہے تو بس پھر وہ کعبہ کا غلاف نچوانا چاہتا ہے۔ دوسرے نے کہا : کیا اللہ میاں کو رسالت کے لیے تیرے سوا کوئی مناسب آدمی نہ مل سکا۔ تیسرا بولا : اللہ کی قسم ! میں تجھ سے بات نہیں کروں گا۔ کیونکہ اگر تم واقعی اللہ کے رسول ہو تو پھر آپ کو جواب دینا خلاف ہے اور اگر تم (نعوذ باللہ) جھوٹے ہو تو پھر اس قابل نہیں کہ تم سے بات کی جائے۔ آپ نے نہایت بردباری سے انہیں جواب دیا کہ اگر تم مجھے رسول ماننے کو تیار نہیں تو کم از کم میری راہ میں رکاوٹ نہ ڈالیں۔ چناچہ آپ نے دوسرے لوگوں کو دعوت دینا اور وعظ و نصیحت شروع کردی۔ ان بدبختوں نے اپنے غلاموں، خادموں اور شہر کے اوباش لڑکوں کو آپ کے پیچھے بھیج دیا کہ وہ آپ کو طائف سے باہر نکال دیں۔ چناچہ ان اوباشوں کا غول آپ کے پیچھے لگ گیا۔ جہاں آپ وعظ کے لیے کھڑے ہوتے تو یہ لوگ آپ کو گالیاں دیتے، شور مچاتے اور پتھر مارتے۔ جب آپ نڈھال ہوجاتے تو یہ غنڈے آپ کو بازو سے پکڑ کر اٹھا دیتے اور پھر ٹخنوں پر پتھر مارتے اور تالیاں بجا بجا کر ہنستے۔ خون بےتحاشا بہہ رہا تھا اور آپ کی جوتیاں اندر اور باہر سے لتھڑ گئیں۔ آخر آپ نے ایک باغ کے احاطہ میں پناہ لی۔ یہ باغ رئیس مکہ عتبہ بن ربیعہ اور اسکے بھائی شیبہ کا تھا۔ عتبہ ایک رحم دل انسان تھا۔ اس نے یہ حالت دیکھی تو اپنے غلام عداس کے ہاتھ ایک پلیٹ میں انگور بھجوائے۔ آپ نے انگوروں کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہی پہلے بسم اللہ پڑھا پھر انگور کھانا شروع کئے۔ عداس کہنے لگا۔ اللہ کی قسم ! یہ کلمہ یہاں کے لوگ تو کبھی نہیں کہتے۔ آپ نے اس سے پوچھا کہاں کے رہنے والے ہو اور تمہارا مذہب کیا ہے ؟ وہ بولا میں عیسائی ہوں اور نینوا کا باشندہ ہوں۔ آپ نے کہا : گویا تم مرد صالح یونس بن متیٰ کے شہر کے ہو۔ وہ میرا بھائی ہے۔ وہ بھی نبی تھا اور میں بھی نبی ہوں۔ غلام نے یہ سنا تو آپ کے سر اور ہاتھوں کو بوسہ دیا۔ عتبہ اور شیبہ نے یہ ماجرا دیکھا تو جب عداس واپس آیا تو اسے ملامت کی اور کہا کہ تم یہ کیا حرکت کر رہے تھے۔ تم نے اپنا مذہب خراب کرلیا ہے۔ عداس نے جواب دیا کہ اس شخص نے مجھے ایک ایسی بات بتائی ہے جو صرف ایک نبی ہی بتاسکتا ہے۔ اس سفر میں آپ کو جتنی اذیت اٹھانی پڑی اس کا اندازہ درج ذیل حدیث سے ہوجاتا ہے : سیدہ عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ میں نے آپ سے پوچھا آپ پر احد کے دن سے بھی زیادہ سخت دن گزرا ہے ؟ آپ نے فرمایا : عائشہ (رض) ! میں نے تیری قوم (قریش) کی طرف سے جو جو تکلیفیں اٹھائی ہیں وہ میرا ہی دل جانتا ہے۔ سب سے زیادہ سخت دن مجھ پر طائف کا دن گزرا ہے جب میں نے اپنے تئیں عبد یا لیل بن کلال پر پیش کیا۔ اس نے میری دعوت کو قبول نہ کیا تو میں افسردہ خاطر ہو کر واپس ہوا اور مجھے اس وقت قدرے افاقہ ہوا جب میں قرن ثعالب (ایک مقام کا نام) پہنچ گیا۔ میں نے اوپر سر اٹھایا تو دیکھا کہ ابر کا ایک ٹکڑا مجھ پر سایہ کئے ہوئے ہے اور اس میں جبریل موجود ہیں۔ جبریل نے مجھے پکارا اور کہا کہ تمہاری قوم نے جو تجھے جواب دیا وہ اللہ نے سن لیا۔ اب اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں کے فرشتے کو تمہارے پاس بھیجا ہے تاکہ آپ جیسا چاہیں اسے حکم دیں۔ اتنے میں پہاڑوں کے فرشتے نے مجھے سلام کہا اور کہنے لگا۔ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اگر آپ چاہیں تو میں مکہ اور طائف کے پہاڑوں کو ملا کر سب کو چکنا چور کر دوں۔ & تو نبی نے فرمایا (ایسا مت کرو) بلکہ مجھے امید ہے کہ ان کی اولاد میں سے اللہ ایسے لوگ پید اکرے گا جو صرف اکیلے اللہ کی عبادت کریں گے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں گے۔ (بخاری۔ کتاب باب اذا قال احدکم آمین والملئکۃ فی السماء۔۔ ) (مسلم۔ کتاب الجہاد والسیر۔ باب مالقی النبی من اذی المشرکین والمنافقین ) اس متفق علیہ حدیث سے معلوم ہوا کہ طائف کا دن آپ کی زندگی کا سخت اور مشکل ترین دن تھا۔ حتیٰ کہ احد کے دن جب آپ زخمی ہوگئے تھے اس سے سخت دن تھا۔ آپ نے اس موقع پر جس صبر و استقامت کا ثبوت دیا۔ اور انتقام کا اختیار مل جانے کے باوجود جس طرح آپ نے عفو و درگزر سے کام لیا وہ بلاشبہ آپ کی پیغمبرانہ عظمت کی دلیل ہے۔ آپ قریش مکہ کی طرف سے اسلام لانے سے تو مایوس ہو ہی چکے تھے اس واقعہ طائف نے آپ کے غم واندوہ میں مزید اضافہ کردیا۔ آپ مکہ واپس آئے تو دامن حرمین میں ٹھہر گئے۔ آپ کے بال بچے مکہ میں تھے اور مکہ والے آپ کے جانی دشمن تھے۔ آپ نے بنو خزاعہ کے ایک آدمی کے ہاتھ اخنس بن شریق کو پیغام بھیجا کہ وہ مکہ میں آپ کو پناہ دے۔ اخنس نے یہ کہہ کر معذرت کردی کہ میں حلیف ہوں اور حلیف پناہ نہیں دے سکتا۔ پھر آپ نے یہی پیغام سہیل بن عمرو کو بھیجا۔ اس نے بھی یہ کہہ کر معذرت کردی کہ بنو عامر کی دی ہوئی پناہ بنو کعب پر لاگو نہیں ہوتی۔ پھر آپ نے یہی پیغام مطعم بن عدی کو بھیجا۔ جس نے پناہ دینا منظور کرلیا۔ اور اپنے بیٹوں اور قوم کے لوگوں کو بلا کر کہا کہ ہتھیار بند ہو کر خانہ کعبہ کے گوشوں پر جمع ہوجاؤ۔ کیونکہ میں نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پناہ دے دی ہے۔ & اس انتظام کے بعد اس نے آپ کو پیغام بھیجا کہ آپ مکہ تشریف لاسکتے ہیں۔ & چناچہ آپ مکہ تشریف لائے اور حرم میں داخل ہوگئے۔ مطعم بن عدی نے اپنی سواری پر کھڑے ہو کر اعلان کیا کہ قریش کے لوگو ! میں نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پناہ دی ہے۔ (سیرۃ النبی ١ : ٣٥٦ بحوالہ ابن سعد ص ١٤٢) اس کے بعد آپ حجر اسود پر پہنچے۔ اسے چوما۔ نماز پڑھی۔ پھر اپنے گھر تشریف لے گئے۔ اس دوران مطعم کے بیٹوں نے ہتھیار بند ہو کر آپ کا پہرہ دیا۔ اس کے بعد مکی دور کا باقی حصہ آپ مطعم کی پناہ میں مکہ میں قیام پذیر رہے۔ آپ زندگی بھر مطعم کے اس احسان کو نہیں بھولے۔ جنگ بدر میں بہت سے مشرک قید ہوگئے تھے۔ ان میں سے بعض کی سفارش کے لیے مطعم کے بیٹے سیدنا جبیر (جو بعد میں مسلمان ہوگئے تھے) آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا اگر آج مطعم زندہ ہوتے اور ان ناپاک قیدیوں کے متعلق بات کرتے تو میں ان سب کو چھوڑ دیتا (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب غزوۃ البدر) جب آپ طائف سے مکہ واپس آئے تو حج کا موسم شروع ہوچکا تھا۔ آپ بغرض تبلیغ منیٰ تشریف لے گئے۔ اور مدینہ کے قبیلہ اوس کے آدمیوں کو اسلام کی دعوت دی۔ مدینہ میں قبیلہ اوس اور خزرج میں سال ہا سال سے خانہ جنگی چلی آ رہیتھی۔ جس سے سنجیدہ طبقہ سخت نالاں تھا لیکن اسے اس سے نجات کی کوئی راہ نظر نہیں آرہی تھی۔ یہ لوگ دراصل حج کے علاوہ اس غرض سے بھی آئے تھے کہ خزرج کے خلاف قریش مکہ کی مدد حاصل کریں جب ان لوگوں کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسلام کی دعوت دی اور اس کے احکام بتائے تو اوس کے قبیلہ کا ایک ذہین آدمی کہنے لگا۔ واللہ ! جس کام کے لیے تم آئے ہو اس سے یہ کام بہتر ہے۔ یعنی ان لوگوں کو آپ کی ذات میں وہ بات نظر آگئی جس کی انہیں مدتوں سے تلاش تھی کہ خانہ جنگیوں سے کس طرح چھٹکارا مل سکتا ہے۔ چناچہ ذی الحجہ ١٠ نبوی میں اسی مقام پر جسے عقبہ کہتے ہیں۔ پانچ اور بعض روایات کے مطابق چھ آدمیوں نے اسلام قبول کرلیا۔ یہ امید کی پہلی کرن تھی جو اس عام الحزن کے آخر میں نمودار ہوئی۔ ان آدمیوں کے ذریعہ قبیلہ خزرج میں بھی اسلام کی اشاعت ہوئی۔ یہ لوگ ایک تو باہمی خانہ جنگی سے پریشان تھے۔ کہ مدینہ کے یہودی قبائل ایک دوسرے سے حلیف بن کر انہیں لڑاتے رہتے تھے چناچہ اگلے سال یعنی ذی الحجہ ١١ ھ میں اسی مقام پر اوس اور خزرج کے بارہ آدمی آپ کی دعوت پر اسلام لے آئے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھ پر باضابطہ بیعت کی جو بیعت عقبہ اولیٰ کے نام سے مشہور ہے۔ اس کی شرائط یہ تھیں کہ ہم صرف ایک اللہ کی عبادت کریں گے اور کسی کو اس کا شریک نہیں بنائیں گے، چوری اور زنا کے مرتکب نہ ہوں گے۔ لڑکیوں کو زندہ درگور نہیں کریں گے۔ کسی پر تہمت نہیں لگائیں گے۔ کسی کی غیبت نہ کریں گے اور ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ہر حکم مانیں گے۔ یہ بیعت گئی رات نہایت خفیہ انداز میں ہوئی تھی۔ ان نو مسلم صحابہ نے آپ سے درخواست کی کہ ہمارے ساتھ کسی معلم کو بھیجا جائے۔ چناچہ آپ نے سیدنا مصعبص بن عمیر کو قرآن کے احکام سکھانے اور تبلیغ کے لیے مدینہ روانہ فرمایا۔ مصعب مدینہ میں اسعد بن زرارہ کے مکان پر قیام پذیر ہوئے جو مدینہ کے ایک معزز رئیس تھے۔ یہ وہی مصعب بن عمیر ہیں جو مکہ کے ایک امیر گھرانہ کے چشم و چراغ تھے۔ بڑے خوش شکل اور حسین نوجوان تھے اور قیمتی لباس پہنتے تھے۔ مگر جب اسلام قبول کیا تو ماں نے ان کا دانہ پانی بھی بند کردیا اور گھر سے باہر نکال دیا تھا۔ انہوں نے دین حق کی خاطر سب کو برداشت کیا اور امیری پر فقیری کو ترجیح دی۔ انہیں مدینہ میں اسلام کا پہلا داعی ہونے کا شرف حاصل ہوا۔ غزوہ بدر میں لشکر اسلام کی علمبرداری کے منصب پر فائز ہوئے اور غزوہ احد میں شہادت پائی تھی ان کی کوششوں سے مدینہ سے قبا تک گھر گھر اسلام پھیل گیا۔ قبیلہ اوس کے سردار سعد بن معاذ اور اسید بن حضیر بھی مشرف بہ اسلام ہوگئے ان دو سرداروں کے ذریعہ اسلام کی قوت میں خاصا اضافہ ہوا چناچہ اگلے سال مدینہ کے ٧٥ افراد جن میں دو عورتیں بھی شامل تھیں۔ مکہ میں حج کے موقع پر ایام تشریق میں عقبہ کے مقام پر (جو منیٰ اور مکہ کے درمیان ہے) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھ پر بیعت کر کے حلقہ بگوش اسلام ہوئے۔ یہ بیعت بھی تہائی رات گزرنے کے بعد نہایت خفیہ انداز سے ہوئی اور بیعت عقبہ ثانیہ کے نام سے مشہور ہے۔ اس بیعت کی سب سے اہم شرط جس کی طرف قرآن کریم نے توجہ دلائی ہے وہ عبادہ بن صامت کی زبانی سنیے۔ جو بیعت عقبہ اولیٰ اور ثانیہ دونوں میں شریک تھے اور انکی اس ہدایت کو بخاری اور مسلم دونوں نے ذکر کیا ہے : عبادہ بن صامت کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس بات پر بیعت کی کہ آپ ہمیں جو حکم دیں گے ہم مانیں گے۔ چاہے آسانی ہو یا تنگی ہو، خواہ وہ ہمیں اچھی لگے یا ناگوار محسوس ہو۔ خواہ آپ دوسروں کو ہم پر ترجیح دیں اور جس کو بھی آپ امیر مقرر فرمائیں گے ہم اس کا حکم مانیں گے اس سے بحث نہیں کریں گے اور ہر صورت میں حق بات ہی کہیں گے اور اس معاملہ میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈریں گے۔ & (بخاری۔ کتاب الاحکام۔ مسلم۔ کتاب الامارۃ۔ باب وجوب طاعۃ الامراء فی غیر معصیۃ۔۔ ) اور اس شرط کی اہمیت ہے کہ آپ نے ان ٧٥ آدمیوں میں سے انصار کی مرضی کے مطابق ١٢ نقیب یا امیر مقرر فرما دیئے تھے تاکہ اسلام کی انقلابی تحریک کا جو کام ہو وہ نظم و ضبط کے تحت ہو۔ اور عبادہ بن صامت خود بھی نقیب مقرر کئے گئے تھے۔ کتب سیر میں جو مزید تفصیلات ملتی ہیں وہ یہ ہیں کہ اس موقع پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مدینہ آنے کی دعوت دی تو سیدنا عباس نے ان سے کہا : اے گروہ انصار ! محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے خاندان میں معزز محترم ہیں۔ دشمنوں کے مقابلہ میں ہم ہمیشہ ان کے لیے سینہ سپر رہے۔ اب وہ تمہارے پاس جانا چاہتے ہیں۔ اگر مرتے دم تک ان کا ساتھ دے سکو تو بہتر ورنہ ابھی جواب دے دو ۔ انصار نے اس بات کا سیدنا عباس کو تو جواب نہیں دیا البتہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ آپ ہم سے جو عہد لیں ہم حاضر ہیں۔ چناچہ نبی نے فرمایا : اس بات کا عہد کرو تم دین حق کی اشاعت میں میری پوری پوری مدد کرو گے اور جب میں تمہارے ہاں آ بسوں تو تم اپنے اہل و عیال کی طرح میری اور میرے ساتھیوں کی حمایت کرو گے۔ انصار نے پوچھا کہ اس کے عوض ہمیں کیا ملے گا۔ آپ نے فرمایا & جنت & ایک انصاری ابو الہیشم نے بات کاٹ کر کہا کہ کہیں ایسا تو نہیں ہوگا کہ جب آپ کو قوت اور اقتدار حاصل ہوجائے تو آپ ہمیں چھوڑ کر اپنے وطن واپس چلے جائیں ؟ آپ نے مسکرا کر فرمایا۔ ایسا نہیں ہوگا۔ میرا مرنا اور میرا جینا تمہارے ہی ساتھ ہوگا۔ عہد وبیان کی یہ جزئیات طے ہونے کے بعد سب سے پہلے براء بن عازب بن معرور نے پھر سب ساتھیوں نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کرلی۔ یہ عہد و پیمان اگرچہ انتہائی راز داری اور خفیہ طریقہ سے طے پائے تھے۔ تاہم مشرکین مکہ کو اس کی بھنک پڑگئی۔ چناچہ کافروں کا ایک وفد قبیلہ خزرج کے ہاں پہنچ گیا۔ خزرج کے مشرکین چونکہ خود بھی اس معاہدہ کے متعلق کچھ نہیں جانتے تھے لہذا انہوں نے اس وفد کو یقین دہانی کرا دی کہ ایسا کوئی معاہدہ طے نہیں پایا۔ لہذا یہ وفد واپس لوٹ آیا۔ البتہ اس واقعہ کا یہ اثر ضرور ہوا کہ خزرج کے مسلمان چوکنے ہوگئے اور انہوں نے جھٹ مدینہ کی راہ لی۔ بعد میں مشرکین مکہ کو معلوم ہوگیا کہ معاہدہ والی بات محض افواہ نہیں بلکہ حقیقت پر مبنی تھی۔ لہذا وہ خزرج کے مسلمانوں کے تعاقب میں نکل کھڑے ہوئے۔ مگر مسلمان تیز رفتاری سے آگے جا چکے تھے۔ البتہ سعد بن عبادہ جو قبیلہ خزرج کے سردار تھے اور اسلام لا چکے تھے پکڑے گئے۔ مشرکوں نے انہیں زدوکوب کرنا چاہا تو مطعم بن عدی اور حرب بن امیہ آڑے آگئے جس کی وجہ یہ تھی کہ قریش کے تجارتی قافلے سعد بن عبادہ کی پناہ میں ہی مدینہ کے پاس سے گزرتے تھے لہذا مشرکوں کو اپنا غیظ و غضب ضبط کرنا پڑا۔ اس طرح تمام مسلمان بخیر و عافیت مدینہ پہنچ گئے۔ مصعب بن عمیر (رض) کے بعد عبداللہ ابن ام مکتوم (رض) مدینہ پہنچے۔ یہ دونوں حضرات مدینہ کے مسلمانوں کو قرآن کی تعلیم دیتے تھے۔ ان کے بعد عمار بن یاسر (رض) ، بلال بن رباح (رض) اور سعد بن ابی وقاص (رض) مدینہ پہنچے، ان کے بعد سیدنا عمر (رض) بیس مسلمانوں کے ہمراہ مکہ کے قریشیوں کو للکارتے ہوئے ہجرت کے لیے نکلے اور مدینہ پہنچے اور آخر میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور سیدنا ابوبکر صدیق (رض) اور عامر بن فہیرہ (رض) مدینہ تشریف لائے (بخاری۔ کتاب التفسیر سورة اعلیٰ بروایت براء بن عازب) اس طرح اسلام کی انقلابی تحریک کا مرکز مکہ سے مدینہ منتقل ہوگیا۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاذْكُرُوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ ۔۔ : اس آیت میں نعمت سے مراد اسلام ہے، میثاق اور اقرار سے مراد وہ عہد ہے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہر آدمی سے مسلمان ہونے پر لیا کرتے تھے، چونکہ وہ اللہ کے حکم سے تھا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی طرف منسوب فرمایا (منکرین حدیث کو غور کرنا چاہیے... ) ۔ اس سے مراد وہ عہد بھی ہوسکتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کی اولاد سے لیا تھا، جو ان کی فطرت میں داخل ہے اور یہ بھی کہ یہود کو متنبہ فرمایا ہو کہ آخری نبی کی پیروی کا جو عہد تم سے لیا گیا ہے اسے پورا کرو، مگر پہلا قول زیادہ صحیح ہے۔ (ابن کثیر، قرطبی)  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاذْكُرُوْا نِعْمَۃَ اللہِ عَلَيْكُمْ وَمِيْثَاقَہُ الَّذِيْ وَاثَقَكُمْ بِہٖٓ۝ ٠ۙ اِذْ قُلْتُمْ سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا۝ ٠ۡوَاتَّقُوا اللہَ۝ ٠ۭ اِنَّ اللہَ عَلِيْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ۝ ٧ وثق وَثِقْتُ به أَثِقُ ثِقَةً : سکنت إليه واعتمدت عليه، وأَوْثَقْتُهُ : شددته، والوَثَاقُ والوِثَاقُ : اسمان ل... ما يُوثَقُ به الشیء، والوُثْقَى: تأنيث الأَوْثَق . قال تعالی: وَلا يُوثِقُ وَثاقَهُ أَحَدٌ [ الفجر/ 26] ، حَتَّى إِذا أَثْخَنْتُمُوهُمْ فَشُدُّوا الْوَثاقَ [ محمد/ 4] والمِيثاقُ : عقد مؤكّد بيمين وعهد، قال : وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثاقَ النَّبِيِّينَ [ آل عمران/ 81] ، وَإِذْ أَخَذْنا مِنَ النَّبِيِّينَ مِيثاقَهُمْ [ الأحزاب/ 7] ، وَأَخَذْنا مِنْهُمْ مِيثاقاً غَلِيظاً [ النساء/ 154] والمَوْثِقُ الاسم منه . قال : حَتَّى تُؤْتُونِ مَوْثِقاً مِنَ اللَّهِ إلى قوله : مَوْثِقَهُمْ [يوسف/ 66] ( و ث ق ) وثقت بہ اثق ثقتہ ۔ کسی پر اعتماد کرنا اور مطمئن ہونا ۔ اوثقتہ ) افعال ) زنجیر میں جکڑنا رسی سے کس کر باندھنا ۔ اولوثاق والوثاق اس زنجیر یارسی کو کہتے ہیں جس سے کسی چیز کو کس کو باندھ دیا جائے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَلا يُوثِقُ وَثاقَهُ أَحَدٌ [ الفجر/ 26] اور نہ کوئی ایسا جکڑنا چکڑے گا ۔ حَتَّى إِذا أَثْخَنْتُمُوهُمْ فَشُدُّوا الْوَثاقَ [ محمد/ 4] یہ ان تک کہ جب ان کو خوب قتل کرچکو تو ( جو زندہ پکڑے جائیں ان کو قید کرلو ۔ المیثاق کے منیق پختہ عہدو پیمان کے ہیں جو قسموں کے ساتھ موکد کیا گیا ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثاقَ النَّبِيِّينَ [ آل عمران/ 81] اور جب ہم نے پیغمبروں سے عہد لیا ۔ وَأَخَذْنا مِنْهُمْ مِيثاقاً غَلِيظاً [ النساء/ 154] اور عہد بھی ان سے پکالیا ۔ الموثق ( اسم ) پختہ عہد و پیمان کو کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ حَتَّى تُؤْتُونِ مَوْثِقاً مِنَ اللَّهِ إلى قوله : مَوْثِقَهُمْ [يوسف/ 66] کہ جب تک تم خدا کا عہد نہ دو ۔ سمع السَّمْعُ : قوّة في الأذن به يدرک الأصوات، وفعله يقال له السَّمْعُ أيضا، وقد سمع سمعا . ويعبّر تارة بالسمّع عن الأذن نحو : خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة/ 7] ، وتارة عن فعله كَالسَّمَاعِ نحو : إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء/ 212] ، وقال تعالی: أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق/ 37] ، وتارة عن الفهم، وتارة عن الطاعة، تقول : اسْمَعْ ما أقول لك، ولم تسمع ما قلت، وتعني لم تفهم، قال تعالی: وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال/ 31] ، ( س م ع ) السمع ۔ قوت سامعہ ۔ کا ن میں ایک حاسہ کا نام ہے جس کے ذریعہ آوازوں کا اور اک ہوتا ہے اداس کے معنی سننا ( مصدر ) بھی آتے ہیں اور کبھی اس سے خود کان مراد لیا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة/ 7] خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا رکھی ہے ۔ اور کبھی لفظ سماع کی طرح اس سے مصدر ی معنی مراد ہوتے ہیں ( یعنی سننا ) چناچہ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء/ 212] وہ ( آسمائی باتوں کے ) سننے ( کے مقامات ) سے الگ کردیئے گئے ہیں ۔ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق/ 37] یا دل سے متوجہ ہو کر سنتا ہے ۔ اور کبھی سمع کے معنی فہم و تدبر اور کبھی طاعت بھی آجاتے ہیں مثلا تم کہو ۔ اسمع ما اقول لک میری بات کو سمجھنے کی کوشش کرو لم تسمع ماقلت لک تم نے میری بات سمجھی نہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال/ 31] اور جب ان کو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو کہتے ہیں ( یہ کلام ) ہم نے سن لیا ہے اگر چاہیں تو اسی طرح کا ( کلام ) ہم بھی کہدیں ۔ طوع الطَّوْعُ : الانقیادُ ، ويضادّه الكره قال عزّ وجلّ : ائْتِيا طَوْعاً أَوْ كَرْهاً [ فصلت/ 11] ، وَلَهُ أَسْلَمَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً [ آل عمران/ 83] ، والطَّاعَةُ مثله لکن أكثر ما تقال في الائتمار لما أمر، والارتسام فيما رسم . قال تعالی: وَيَقُولُونَ طاعَةٌ [ النساء/ 81] ، طاعَةٌ وَقَوْلٌ مَعْرُوفٌ [ محمد/ 21] ، أي : أَطِيعُوا، وقد طَاعَ له يَطُوعُ ، وأَطَاعَهُ يُطِيعُهُ قال تعالی: وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ التغابن/ 12] ، مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطاعَ اللَّهَ [ النساء/ 80] ، وَلا تُطِعِ الْكافِرِينَ [ الأحزاب/ 48] ، وقوله في صفة جبریل عليه السلام : مُطاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ [ التکوير/ 21] ، والتَّطَوُّعُ في الأصل : تكلُّفُ الطَّاعَةِ ، وهو في التّعارف التّبرّع بما لا يلزم کالتّنفّل، قال : فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْراً فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ [ البقرة/ 184] ، وقرئ :( ومن يَطَّوَّعْ خيراً ) ( ط و ع ) الطوع کے معنی ( بطیب خاطر ) تابعدار ہوجانا کے ہیں اس کے بالمقابل کرھ ہے جس کے منعی ہیں کسی کام کو ناگواری اور دل کی کراہت سے سر انجام دینا ۔ قرآن میں ہے : ۔ ائْتِيا طَوْعاً أَوْ كَرْهاً [ فصلت/ 11] آسمان و زمین سے فرمایا دونوں آؤ دل کی خوشی سے یا ناگواري سے وَلَهُ أَسْلَمَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً [ آل عمران/ 83] حالانکہ سب اہل آسمان و زمین بطبیب خاطر یا دل کے جبر سے خدا کے فرمانبردار ہیں ۔ یہی معنی الطاعۃ کے ہیں لیکن عام طور طاعۃ کا لفظ کسی حکم کے بجا لانے پر آجاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَيَقُولُونَ طاعَةٌ [ النساء/ 81] اور یہ لوگ منہ سے تو کہتے ہیں کہ ہم دل سے آپ کے فرمانبردار ہیں ۔ طاعَةٌ وَقَوْلٌ مَعْرُوفٌ [ محمد/ 21]( خوب بات ) فرمانبردار ی اور پسندیدہ بات کہنا ہے ۔ کسی کی فرمانبرداری کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ التغابن/ 12] اور اس کے رسول کی فر مانبردار ی کرو ۔ مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطاعَ اللَّهَ [ النساء/ 80] جو شخص رسول کی فرمانبردار ی کرے گا بیشک اس نے خدا کی فرمانبرداری کی ۔ وَلا تُطِعِ الْكافِرِينَ [ الأحزاب/ 48] اور کافروں کا کہا نہ مانو ۔ اور حضرت جبریل (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : ۔ مُطاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ [ التکوير/ 21] سردار اور امانتدار ہے ۔ التوطوع ( تفعل اس کے اصل معنی تو تکلیف اٹھاکر حکم بجالا نا کے ہیں ۔ مگر عرف میں نوافل کے بجا لانے کو تطوع کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْراً فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ [ البقرة/ 184] اور جو کوئی شوق سے نیکی کرے تو اس کے حق میں زیادہ اچھا ہے ۔ ایک قرات میں ومن یطوع خیرا ہے تقوي والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] التقویٰ اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔ صدر الصَّدْرُ : الجارحة . قال تعالی: رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي [ طه/ 25] ، وجمعه : صُدُورٌ. قال : وَحُصِّلَ ما فِي الصُّدُورِ [ العادیات/ 10] ( ص در ) الصدر سینہ کو کہتے ہیں قرآن میں ہے ۔ رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي [ طه/ 25] میرے پروردگار اس کا م کے لئے میرا سینہ کھول دے ۔ اس کی جمع صدور آتی ہے جیسے فرمایا : وَحُصِّلَ ما فِي الصُّدُورِ [ العادیات/ 10] اور جو بھید دلوں میں وہ ظاہر کردیئے جائیں گے  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

(آیت 6 کی بقیہ تفسیر) جو لوگ سارے سر کے مسح کے قائل ہیں وہ اس روایت سے استدلال کرتے ہیں جس میں مذکور ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سر کے اگلے اور پچھلے دونوں حصوں کا مسح کیا تھا۔ اگر سر کے ایک حصے کا مسح فرض ہوتا تو آپ سارے سر کا مسح نہ فرماتے اور سارے سر کا مسح کرنے والا لازمی طور پر حد س... ے تجاوز کرنے والا کہلاتا کیونکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے منقول ہے کہ آپ نے وضو کے اعضاء تین تین دفعہ دھوئے اور فرمایا (من زاد فقد اھتدیٰ و ظلم جو شخص اس سے زائد دفعہ دھوئے گا وہ حد سے تجاوز کرے گا اور ظالم قرار پائے گا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اس میں کوئی امتناع نہیں کہ سر کے بعض حصے کا مسخ تو فرض ہو اور سارے سر کا مسح مسنون ہو۔ جس طرح اعضاء وضو کو ایک دفعہ دھونا فرض ہے اور تین تین دفعہ دھونا مسنون ہے۔ اس لئے فرض کی مقدار سے زائد مرتبہ اعضاء دھونے والا حد سے تجاوز کرنے والا نہیں کہلائے گا بشرطیکہ وہ اس کے ذریعے سنت کو اپنا لے۔ جس طرح موزوں کے بالائی حصوں کے بعض جزو کا مسح تو فرض ہے لیکن اگر کوئی شخص ان کے ظاہر اور باطن یعنی بالائی اور زیریں دونوں حصوں کا مسح کرلے تو وہ حد سے تجاوز کرنے والا قرار نہیں پائے گا۔ یا جس طرح نماز میں ہمارے نزدیک ایک آیت کی قرأت فرض ہے اور ہمارے مخالفین کے نزدیک سورة فاتحہ فرض ہے لیکن سب کے نزدیک سورة فاتحہ کے ساتھ کچھ اور قرأت مسنون ہے یا جس طرح غسل وجہ میں ظاہری چہرے کا دھونا فرض ہے لیکن اس کے ساتھ کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈالنا مسنون ہے ۔ سر کچا مسح فرض ہے لیکن اس کے ساتھ کانوں کا مسح مسنون ہے یا جس طرح ہمارے مخالفین کا قول ہے کہ سر کے اکثر حصے کا مسح فرض ہے اور تھوڑا سا حصہ چھوڑ دینا جائز ہے۔ اگر کوئی شخص سارے سر کا مسح کرلے تو وہ حد سے تجاوز کرنے والا نہیں کہلائے گا، بلکہ درست کام کرنے والا قرار پائے گا۔ اسی طرح ہم یہ کہتے ہیں کہ سر کے بعض حصے کا مسح فرض ہے اور پورے سر کا مسح مسنون ہے۔ ہمارے اصحاب نے یہ کہا ہے کہ ین انگلیوں کی مقدار مسح فرض ہے۔ یہ اصل یعنی مبسوط کی روایت ہے، حسن بن زیاد کی روایت ک مطابق اس کی مقدار چوتھائی سر ہے۔ تین انگلیوں کی یہ مقدار مقرر کرنے کی وجہ یہ ہے کہ جب ہمارے گزشتہ بیان کی روشنی میں سر کے بعض حصے کے مسح کی فرضیت ثابت ہوگئی اور آیت میں اس بعض کا مقدار کا ذکر نہیں ہے تو ہمیں اس کی مقدار معلوم کرنے کے لئے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بیان کی ضرورت پیش آ گئی۔ جب آپ سے روایت کی گئی کہ آپ نے پیشانی کا مسح کیا تھا تو آپ کا یہ عمل بیان کے طور پر وارد ہوا۔ جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کوئی عمل بیان کے طور پر وارد ہو تو اسے وجوب پر محمول کیا جاتا ہے جس طرح رکعتوں کی تعداد اور اس کے افعال کے سلسلے میں آپ کا عمل بیان کے طور پر وارد وہا اور اسے وجوب پر محمول کیا گیا۔ چناچہ ہمارے اصحاب نے پیشانی کی مقدار تین انگلیاں مقرر کیں۔ حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ آپ نے پیشانی اور سر کے کنارے کے درمیان مسح کیا۔ اگر یہ کہا جائے کہ یہ روایت بھی موجود ہے کہ آپ نے دونوں ہاتھوں سے سر کا مسح کیا۔ آپ پہلے دونوں ہتھیلیوں کو سامنے کی طرف لے آئے اور پھر پیچھے یک طرف لے گئے۔ اس لئے یہی واجب وہنا چاہیے اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ بات واضح ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مفروض عمل کو ترک نہیں کرتے تھے اور اس بات کی گنجائش ہے کہ آپ نے غیرمفروض عمل اس بنا پر کیا ہو کہ یہ مسنون ہے۔ جب آپ سے یہ مروی ہے کہ آپ نے ایک حالت میں صرف پیشانی کے مسح پر اقتصار کیا اور دوسری حالت میں پورے سر کا احاطہ کرلیا تو ہم دونں روایتوں پر عمل کریں گے، پیشانی کی مقدار کو فرض قرار دیں گے کیونکہ آپ سے یہ مروی نہیں کہ آپ نے کبھی پیشانی سے کم مقدار کا مسح کیا تھا اور پیشانی سے زائد مقدار کو مسنون کہیں گے۔ نیز اگر پیشانی سے کم مقدار کا مسح فرض ہوتا تو آپ کسی نہ کسی حالت میں اس پر ہی اقتصار کرتے تاکہ اس کے ذریعے مفروض مقدار بیان ہوجاتی جس طرح آپ نے بعض احوال میں پیشانی کی مقدار پر اقتصار کیا تھا۔ جب آپ سے اس سے کم مقدار کا مسح مروی نہیں ہے تو یہ اس پر دلالت کرتا ہے کہ پیشانی کی جگہ کی مقدار فرض ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا عمل اگر بیان کے طور پر وارد ہوتا تو پھر پیشانی کی جگہ پر فرض مسح ضروری ہوتا۔ سر کے کسی اور حصے میں اس کی ادائیگی نہ ہوتی۔ جس طرح آپ نے پیشانی کی جگہ کو مقدار کے لئے بیان قرار دیا کہ اس سے کم کی مقدار جائز نہیں۔ لیکن دوسری طرف جب سر کے بعض حصے کے مسح کی فرضیت کے قائلین اس بات پر متفق ہوگئے کہ پیشانی کے مسح کو ترک کر کے سر کے کسی اور حصے کا مسح کیا جاسکتا ہے تو اس سے یہ دلالت حاصل ہوئی کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ عمل پیشانی کی مقدار مسح کا موجب نہیں ہے۔ اس اعتراض کے جواب میں یہ کہا جائے گا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ظہر عمل اسی بات کا متقاضی ہوتا اگر یہ دلالت قائم نہ ہوجاتی کہ پیشانی کو چھوڑ کر سر کے کسی حصے کا مسح پیشانی کے مسح کے قائم مقام ہے اس لئے پیشانی کے مسح کے اندر فرض کی تعیین واجب نہیں ہوئی اور مسح کی مقدار کے بارے میں آپ کے عمل کا حکم اسی طرح باقی رہا جس طرح عمل کے ذریعے آپ کا ظاہر بیان متقاضی تھا۔ اگر یہ کہا جائے کہ جب قول باری (وامسحوا برئوسکم) سر کے بعض حصے کے مسح کا مقتضی تھا تو ظاہر آیت کے رو سے سر کے جس حصے کا بھی مسح ہوجاتا وہ کافی ہوتا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ جب سر کا بعض محصہ مجہول تھا تو یہ مجمل کے حکم میں ہوگیا اور معترض کی بیان کردہ توجیہ سے یہ اجمال کے حکم سے خارج نہیں ہوسکا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ قول باری (خدمن اموالھم صدقۃ) اور (وآلوالزکوۃ) نیز (یکترون المذہب والفضۃ ولا ینفقونھا فی سبیل اللہ) میں سب فقرے مجمل ہیں اس لئے کہ جب ان کا ورود ہوا تھا اس وقت ان کی مقداریں مجہول تھیں۔ اب کسی کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ ان مقادیر پر واقع ہونے والے اس کا اپنی طرف سے اعتبار کرلے، ٹھیک اسی طرح قول باری (برئوسکم) اگرچہ سر کے بعض حصے کے مسح کا متقاضی ہے لیکن یہ بعض حصہ چونکہ ہمارے لئے مجہول تھا اس لئے اسے مجمل قرار دینا اور اس کے حکم کو شریعت کی طرف سے وارد ہونے والے بیان پر موقوف رکھنا واجب ہوگیا۔ اس بنا پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف اس سلسلے میں جو عمل وارد ہوا وہ اللہ تعالیٰ کی اس سے مراد کا بیان بن گیا۔ اس کی ایک اور دلیل بھی ہے وہ یہ کہ تمام اعضائے وضو میں جب مفروض حصوں کی مقداروں کا تعین کردیا گیا تو اس سے لازم ہوگیا سر کے مسح کی مقدار کا بھی تعین ہوجائے کیونکہ سر بھی اعضائے وضو میں داخل ہے۔ اس دلیل کے ذریعے امام مالک اور امام شافعی کے خلاف حجت قائم کی جاسکتی ہے اس لئے کہ امام مالک سر کے اکثر حصے کا مسح واجب قرار دیتے ہیں اور قلیل حصے کے ترک کو جائز سمجھتے ہیں جس یک بنا پر مفروض حصے کا مقدار کے لحاظ سے مجہول ہونا لازم آتا ہے جبکہ امام شافعی اس بات کے قائل ہیں کہ ہر وہ مقدار جائز ہے جس پر مسح کے اسم کا اطلاق ہوسکتا ہو۔ اس قول سے بھی مقدار کا مجہول ہونا لازم آتا ہے۔ دوسری طرف ہمارے اصحاب نے تین انگلیوں کی جو مقدار مقرر کی ہے وہ مجہول نہیں بلکہ معلوم ہے اسی طح ایک اور روایت کے مطابق چوتھائی سر کی مقدار کی بھی یہی کیفیت ہے۔ ہمارا یہ موقف اعضائے وضو کے حکم کے عین مطابق ہے جس کی رو سے ان اعضاء میں مفروض مقدار مجہول نہیں بلکہ معلوم ہے جبکہ ہمارے مخالفین کا قول اعضائے وضو کے مفروض حکم کے خلاف ہے۔ اس کی بھی گنجائش ہے زیر بحث مسئلہ میں ہماری ذکر کردہ بات کو دلیل کی ابتدا تسلیم کرلی جائے اور اس میں پیشانی کی مقدار کا اعتبار نہ کیا جائے اور ہم یوں کہیں کہ جب دو سے تمام اضعائے وضو کا اعتبار کرتے ہوئے مسح کی مفروض مقدار کا تعین بھی ضروری ہوگیا، لیکن ہمارے سوا کسی نے اس کا تعین نہیں کیا اور ہم نے اس کی مقدار تین انگلیاں یا چوتھائی سر مقرر کی تو اسی مقدار کا مفروض ہونا ضروری قرار پایا۔ اگر یہ کہا جائے کہ آپ کو اس بات سے کیوں انکار ہے کہ اس کی مقدار تین بال ہو تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ بات محال ہے اس لئے کہ تین بالوں کا مسح ممکن ہی نہیں ہے بجز اس کے کہ دوسرے بال بھی اس کی زد میں آ جائیں، اور یہ بات تو درست ہی نہیں کہ مفروض مقدار ایسی ہو جس پر اقتصار ممکن ہی نہ ہو۔ نیز تین انگلیوں کی مقدار کو موزوں کے مسح پر قیاس کیا گیا ہے۔ موزوں پر مسح کی مقدار کا تعین انگلیوں کے ذریعے ہوا ہے اور سنت کا ورود بھی اسی کے ساتھ ہوا ہے اور یہ مسح بھی پانی کے ذریعے ہوا ہے ان باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ ضروری ہوگیا سر کے مسح کی بھی یہی کیفیت ہو۔ چوتھائی سر کے مسح کی روایت کی توجیہ یہ ہے کہ جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ مفروض مسح سر کے بعض حصے کا ہوتا ہے اور ایک بال کا مسح اس کے لئے کافی نہیں ہوتا تو اس صورت میں اس مقدار کا اعتبار کرنا واجب ہوگیا جسے اسم کا اطلاق شامل ہوتا ہے جب اسے شخص کی نسبت سے دیکھا جائے، یہ مقدار ربع عنی چوتھائی ہے اس لئے کہ آپ کہتے ہیں ” رایت فلانا ‘ ( میں نے فلاں شخص کو دیکھا) وہ حصہ جو آپ سے متصل ہوتا ہے اور آپ کی روایت کے ذیل میں آتا ہے چوتھائی ہوتا ہے۔ اور اس پر فلاں کے اسم کا اطلاق کیا جاتا ہے اسی لئے فقہاء نے چوتھائی کا اعتبار کیا۔ سر مونڈنے کے مسئلے میں بھی فقاء نے چوتھائی سر کا اعتبار کیا ہے۔ اگر احرام والا شخص چوتھائی سر مونڈ لے تو اس کا احرام کھل جاتا ہے اور اس میں کسی کا بھی اختلاف نہیں ہے۔ ہمارے اصحاب کے نزدیک چوتھائی سے کم مونڈنے پر احرام نہیں کھلتا۔ اسی بنا پر اگر کسی شخص نے حالت احرام میں یہ حرکت کی تو ہمارے اصحاب اس پر دم یعنی جرمانہ کے طور پر قربانی دینا لازم قرار دیتے ہیں۔ ایک انگلی سے سر کے مسح کے متعلق فقہاء میں اختلاف رائے ہے۔ امام ابو حنیفہ، امام ابو یوسف امام محمد کچا قولے کہ تین انگلیوں سے کم کے ساتھ مسح درست نہیں ہوتا۔ خواہ وہ ایک انگلی کے ساتھ مسح کرے یا دو انگلیوں کے ساتھ اور انہیں سر پر اس طرح کھینچے کہ وہ چوتھائی سر پر پھرجائیں۔ یہ مسح جائز نہیں ہوگا۔ سفیان ثوری، زفر اور امام شافعی کا قول ہے کہ ایسا مسح جائز ہے تاہم زفر کے نزدیک چوتھائی سر کچا اعتبار ہے کہ اس سے کم کا مسح درست نہیں ہوتا۔ اس مسئلے کی بنیاد یہ ہے کہ مسح کی فرضیت کی ادائیگی میں پانی کو ایک حصے سے دوسرے حصے کی طرف منتقل کرنا جائز نہیں ہوتا۔ اس لئے کہ اس میں مسح والے حصے کو پانی کے ساتھ مسح کرنا مقصود ہوتا ہے اس پر پانی گزارنا مقصود نہیں ہوتا۔ اس لئے جب مسح کرنے والا اپنی ایک انگلی یا دو انگلیاں مسح کے مقام پر رکھتا ہے تو اس کی انگلیوں میں لگے ہوئے پانی سے اس مقام پر لگانا درست نہیں رہتا اس لئے پانی تو پہلے ہی مقام کے اندر استعمال میں لایا جا چکا تھا۔ دھوئے جانے والے اعضاء میں ایسی بات نہیں ہوتی۔ اس لئے کہ ان اعضاء کو اگر وہ پانی کے ساتھ مس کر دے گا اور اس پر پانی نہیں گزارے گا تو اس کا یہ عمل درست نہیں ہوگا۔ اس پر دھونے کا مفہوم اسی وقت وجود میں آئے گا جب اس عضو پر پانی گزرے اور اس کے ایک حصے سے دوسرے حصے کی طرف منتقل ہوجائے۔ اسی لئے عضو کے ایک حصے سے دوسرے حصے کی طرف انتقال کی صورت میں وہ پانی مستعمل نہیں کہلاتا۔ مسح کی صورت میں اگر موضع مسح کو پانی کے ساتھ مس کرنے پر اقتصار کرلیا جاتا اور اسے گزارا نہ جاتا تو یہ عمل جائز ہوجاتا۔ جب ادائے فرض کی صحت کے سلسلے میں مسح کے عضو پر پانی گزارنے کی ضرورت نہیں ہوتی اس لئے اس پانی کو عضو کے ایک حصے سے دوسرے حصے کی طرف منتقل کرنا جائز نہیں ہوا۔ اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ ایک شخص اگر اپنے سر پر اس طرح پانی بہائے کہ وہ پانی تین انگلیوں کی مقدار سر کے حصے سے گزر جائے تو اس کا یہ عمل مسح کے لئے کافی ہوجائے گا حالانکہ اس صورت میں پانی مسح کے عضو کے ایک حصے سے دوسرے حصے کی طرف منتقل ہوا۔ جب آپ کے نزدیک یہ صورت درست ہے تو آپ اس صورت کو کیوں درست قرار نہیں دیتے جس میں مسح کرنے والا اپنی ایک انگلی کو چوتھائی سر پر گزار کر مسح کرلیتا ہے۔ اس کے جواب میں کا ہ جائے گا کہ یہ صورت اس لئے جائز نہیں کہ پانی انڈیلنے اور بہانے کو دھونا کہتے ہیں اسے مسح نہیں کہتے۔ دھونے کے اندر پانی کا ایک حصے سے دوسرے حصے کی طرف منتقل ہونا درست ہوتا ہے یکن اگر کوئی شخص ایک حصے پر اپنی انگلی رکھ دیتا ہے تو یہ مسح کہلائے گا اب اس کے لئے اسی انگلی سے دوسرے حصے کے مسح کا جواز باقی نہیں رہے گا۔ ایک اور جہت سے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ پانی انڈیلنے اور پانی سے دھونے کی صورت میں بہنے والا پانی عضو کے اس پورے حصے میں پھیل جاتا ہے جس کا دھونا فرض ہوتا ہے مسح کی صورت میں ایک انگلی پر لگے ہوئے پانی میں مسح والے عضو کے پورے حصے میں پھیلنے کی گنجائش نہیں ہوتی۔ اس میں صرف ایک انگلی کی مقدار کا پانی لگا ہوتا ہے۔ جب مسح کرنے والا اس انگلی کو ایک حصے سے دوسرے حصے کی طرف منتقل کرے گا تو وہ مستعمل پانی کو دوسر یجگہ استعمال کرنے والا قرار پائے گا اس بنا پر اس کے لئے ایسا کرنا جائز نہیں ہوگا۔ پائوں دھونے کا بیان قول باری ہے (وامسحوا بروئسکم وارجلکم الی الکعبین۔ اپنے سروں کا مسح کرو اور ٹخنوں تک اپنے پیر دھو لو) ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ حضرت ابن عباس (رض) ، حسن، عکرمہ حمزہ اور ابن کثیر نے قول باری (وارجلکم) کو مجرور پڑھا ہے اور اسے پیروں کے مسح پر محمول کیا ہے۔ حضرت علی (رض) ، حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) اور ایک روایت کے مطابق حضرت ابن عباس (رض) ، ابراہیم، ضحاک، نافع، ابن عامر، کسائی اور عاصم نے بروایت حفص اسے منصوب پڑھا ہے۔ ان حضرات کے نزدیک پیروں کو دھونا فرض ہے۔ حسن بصری سے مسح کی روایت میں مستند بات یہ ہے کہ مسح کے ساتھ پورے پیروں کا احاطہ کرلیا جائے۔ سلف میں جو حضرات پیروں پر مسح کے قائل ہیں ان میں سے مجھے ایک بھی ایسا یاد نہیں جس نے حسن بصری کی طرح پورے پیروں یا اس کے بعض حصوں کے مسح کی شرط لگائی ہو۔ البتہ کچھ لوگوں کا یہ قول ضرور ہے کہ پیروں کے بعض حصوں کا مسح بھی جائز ہے۔ فقائے امصار کے مابین اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ آیت میں پیروں کا دھونا مراد ہے۔ مجرور اور منصوب کی یہ دونوں قرائین قرآن میں نازل ہوئیں اور امت نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے انہیں حاصل کر کے آنے والے لوگوں کی طرف منتقل کردیا۔ اہل لغت کا بھی اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ دونوں قرأتوں میں سے ہر ایک کے اندر مسح کا احتمال بھی ہے جبکہ اسے (بروسکم) پر عطف کردیا جائے اور یہ بھی احتمال ہے کہ اس اعضاء پر جن کے دھونے کا حکم آیا ہے اسے عطف کر کے اس پر بھی دھونے کا حکم عائد کردیا جائے۔ وہ اس طرح کہ قول باری (وارجلکم) کو اگر منصوب پڑھا جائے تو اس صورت میں یہ مراد لینا جائز ہے کہ ” اپنے پیر دھو لو “ اور یہ بھی جائز ہے کہ اسے (بروسکم) پر عطف کر کے اس سے مسح مراد لیا جائے اگرچہ یہ خود منصوب پڑھا جائے اس صورت میں لفظ پر اس کا عطف نہیں ہوگا معنی پر ہوگا اس لئے کہ جس چیز کا مسح کیا جائے گا وہ مفعول بہ قرار پائے گا۔ جس طرح شاعر کا قول ہے : معایو اتنا بشر فاسجح فلسنا بالجبال ولا الحدیدا اے معاویہ ! ہم بھی انسان ہیں اس لئے ہمارے ساتھ گفتگو کا لہجہ ذرا نرم رکھو، ہم کوئی پہاڑ یا لوہا نہیں ہیں کہ تمہاری گرمی سردی برداشت کرتے رہیں۔ شعر میں حدید کا لفظ منصوب ہے اور معنی کے لحاظ سے لفظ الجبال پر معطوف ہے۔ قول باری (و ارجلکم) کی مجرور قرأت کی صورت میں یہ احتمال ہے کہ اس کا ما قبل (بروسکم) پر عطف ہو اوار اس سے مسح مراد لیا جائے۔ اس میں یہ بھی احتمال ہے کہ غسل یعنی دھونے کے مفہوم پر عطف ہو۔ اس صورت میں یہ مجاورت یعنی پڑوس کی بنا پر مجرور کردیا جبکہ معنی کے لحاظ سے اس کا لفظ الولدان پر عطف ہے۔ اس لئے کہ حوریں چکر لگانے والی ہوں گی، ان کے گرد چکر نہیں لگایا جائے گا۔ یا جس طرح شاعر کا یہ شعر ہے : فھل انت ان ماتت اتانک راکب الی بسطام بن قیس فخاطب اگر تمہاری بیوی مرجائے تو کیا تم اپنی گدھی پر سوار ہو کر بسطام بن قیس کے خاندان میں پہنچ جائو گے اور پیغام نکاح دوگے ؟ یہاں شاعر نے لفظ خاطب کو مجاورت کی بنا پر مجرور کردیا جبکہ یہ راکب جو مرفوع ہے، اس پر معطوف ہے اور پوری نظم کا قافیہ مجرور ہے۔ اس کے اگلے شعر کو دیکھئے : فتل مثلھا فی مثلھم او فلمھم علی دارمی بین لیلی و غالب اور پھر ان جیسے لوگوں میں اس جیسی خاتون سے نکاح کرے یا میہ (عورت کا نام) کے گھر میں بیٹھ کر جو لیلیٰ اور غالب کے گھروں کے درمیان ہے، انہیں برا بھلا کہہ۔ ہماری درج بالا وضاحت کی روشنی میں یہ بات ثابت ہوگئی کہ دونوں قرأتوں میں سے ہر ایک کے اندر مسح کرنے اور دھونے کا احتمال موجود ہے۔ اس لئے یہاں تین صورتوں میں سے ایک صورت ضرور تسلیم کرنی ہوگی۔ یا تو آیت زیربحث میں مسح اور غسل دونوں مراد ہیں اس صورت میں وضو کرنے والے پر مسح کرنا اور دھونا دونوں باتیں لازم آئیں گی یا پھر ان دونوں میں سے ایک مرد ہو اور وضو کرنے والے کو ان میں سے سکی پر عمل کرنے کا اختیار دے دیا جائے چاہے تو مسح کرلے اور چاہے تو پائوں دھو لے، وہ جو بھی کرے گا اس سے وضو کے اندر مفروض حکم پر عمل ہوجائے گا یا یہ کہ ان دونوں میں ایک بعینہ مراد ہو، اختیار نہ ہو۔ اب پہلی صورت تو درست نہیں ہوسکتی اس لئے کہ سب کا اس کے خلاف اتفاق ہے دوسری صورت بھی جائز نہیں ہے۔ اس لئے کہ آیت میں تخییر کا ذکر نہیں ہے اور نہ ہی اس پر کوئی دلالت موجود ہے۔ اس کے باوجود بھی اگر تخییر کا اثبات جائز ہوتا تو اس میں لفظ جمع مذکور نہ ہونے کے باوجود جمع کا اثبات بھی جائز ہوجاتا۔ اس وضاحت سے تخییر کا بطلان ثابت ہوگیا۔ جب مذکورہ بالا دونوں ورتیں منتفی ہوگئیں تو اب تیسری صورت ہی باقی رہ گئی یعنی مسح اور غسل میں سے ایک بعینہ مراد ہے۔ ان میں تخییر نہیں ہے۔ اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان میں سے کونسا مراد ہے تو اسے معلوم کرنے کے لئے ہمیں دلیل تلاش کرنے کی ضرورت پڑگئی۔ ان میں سے غسل لینا مراد ہے مسح مراد نہیں ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ سب کا اس پر اتفاق ہے کہ وضو کرنے والا جب پائوں دھو لے گا تو فرضیت بجا لائے گا اور معنی مراد پر عمل کرلے گا، نیز یہ کہ ترک مسح پر وہ ملامت کا نشانہ نہیں بنے گا، اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ آیت میں غسل یعنی دھونا مراد ہے۔ ایک اور جہت سے اس پر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ لفظ ترکیب کلام میں اس طرح واقع ہے کہ اس میں دونوں معنوں میں سے ہر ایک کا احتمال ہے اور ساتھ ساتھ اس پر بھی اتفاق ہے کہ دونوں معنی مراد نہیں ہوسکتے، صرف ایک معنی مراد لیا جاسکتا ہے۔ اس صورت حال کے تحت یہ لفظ مجمل کے حکم میں ہوجائے گا جسے بیان اور تفصیل کی ضرورت پیش آئے گی۔ اس لئے جب کبھی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے قول یا فعل کی شکل میں اس کا بیان وارد ہوجائے گا تو ہمیں اس سے معلوم ہوجائے گا کہ اللہ کے نزدیک بھی یہی معنی اور صورت مراد ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے قولاً و فعلاً غسل یعنی پیر دھونے کا بیان وارد ہوچکا ہے، آپ سے فعلاً اس کا دورود ان روایات کے ذریعے ہوا ہے جن کا درجہ مستفیض اور متواتر روایت کے برابر ہے وہ یہ کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وضو میں اپنے پیر دھوئے ہیں۔ اور امت کے اندر بھی اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ اس طرح آپ کا یہ عمل بیان کے طور پر وارد ہوا ہے اور آپ کا کوئی عمل جب بیان کے طور پر وارد ہو تو اسے وجوب پر محمول کیا جاتا ہے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ آیت زیربحث میں پیر دھونا ہی اللہ کی مراد ہے۔ قولی طور پر اس کا وود اس حدیث کے ذریعے ہوا ہے جس کے راوی حضرت جابر (رض) ، حضرت ابوہریرہ (رض) حضرت عائشہ (رض) اور حضرت عبداللہ بن عمر (رض) وغیرہم ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چند لوگوں کو دیکھ کر آپ نے فرمایا (ویل للاعقاب من النساء، ان ایڑیوں کے لئے جہنم کی آگ کی وجہ سے بربادی ہے) نیز فرمایا (اسبغوا الوضوء، پوری طرح وضو کرو) اسی طرح روایت ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وضو فرمایا تو اعضاء وضو کو ایک ایک مرتبہ دھویا اور پائوں دھونے کے بعد فرمایا (ہذا وضوء من لا یقبل الہ لہ صلوۃ الابہ۔ یہ شخص کا وضو ہے جس کی نماز اللہ تعالیٰ اس کے بغیر قبول نہیں کرے گا) پہلی حدیث میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا قول (ویل للاعقاب من النساء) ایسی وعید ہے جس کا مستحق صرف وہی شخص ہوسکتا ہے جس نے فرض ترک کردیا ہو۔ یہ بات پورے پیر کو دھونے کی موجب ہے اور اس سے ان لوگوں کا قول باطل ہوجاتا ہے جو پیر کے ایک حصے کی طہارت ک جوار کے قاتل ہیں۔ اسی طرح آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد (اسبغوا الوضوء) اور پیر دھو لینے کے بعد آپ کچا قول (ھذا وضوء من لا یقبل اللہ لہ صلوۃ الایۃ) دونوں پیروں کو پورے طور پر دھونے کے موجب ہیں اس لئے کہ وضو غسل یعنی دھونے کے لئے اسم ہے جو وضو والے عضو سے پانی گزارنے کا مقتضی ہے۔ لیکن مسح اس کا مقتضی نہیں ہوتا۔ دوسری روایت میں یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسی نماز کو قبول نہیں کرتا جو وضو میں پیر دھوئے بغیر پڑھی گئی ہو۔ اگر اس صورت میں مسح کا جواز بھی ہوتا تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسے بیان کئے بغیر نہ رہتے کیونکہ مسح بھی اللہ کے نزدیک اسی طرح مراد ہوتا ہے جس طرح غسل مراد ہے۔ اس لئے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مسح کرنا آپ کے پیر دھونے کے ہم پلہ ہوتا ہے لیکن جب آپ سے مسح کا عمل پیر دھونے کے عمل کی طرح منقول نہیں ہے تو اس سے یہ ثابت ہوا کہ اللہ کے ہاں مسح مراد نہیں ہے۔ ایک اور جہت سے دیکھئے، دونوں قراتین دو آیتوں کی طرح ہیں کہ ایک میں مسح کا حکم ہے اور دوسری میں دھونے کا حکم۔ اس لئے کہ دونوں قراتیں ان دونوں باتوں کی متحمل ہیں۔ اس لئے اگر دو آیتیں اس طرح وارد ہوتیں کہ ایک مسح کو واجب کرتی اور دوسری غسل کو تو بھی غسل کو چھوڑ کر مسح کو اختیار کرنا جائز نہ ہوتا۔ اس لئے کہ غسل کی صورت میں زیادہ کام سرانجام دیا جاتا جس کی غسل والی آیت مقتضی ہے۔ اس صورت حال کے تحت ان دو باتوں میں سے ایک بات پر عمل واجب ہوتا جس کا فائدہ زیادہ ہوتا اور جس کا حکم زیاہ عام ہوتا اور ظاہر ہے کہ یہب ات غسل یعنی پیر دھونے کی صورت میں پائی جاتی ہے اس لئے کہ پیر دھونا مسح کو بھی شامل ہے لیکن مسح میں دھونا نہیں پایاجاتا۔ نیز جب اللہ تعالیٰ نے اپنے قول (وارجلکم الی الکعبین) کے ذریعے پیروں کی تحدید کردی جس طرح (وایدیکم الی الموافق) کے ذریعے بازوئوں کی تحدید کردی تو اس سے پیروں اور بازوئوں دونوں کے استیعاب یعنی حکم کے اندر پوری طرح سمیٹ لینے پر اسی طرح دلالت حاصل ہوئی جس طرح کہنیوں تک بازوئوں کے ذکر سے دونوں بازوئوں کو دھونے کے حکم میں احاطہ کرنے پر دلالت حاصل ہوئی۔ اگر یہ کہا جائے کہ حضرت علی (رض) اور حضرت ابن عباس (رض) دونوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ آپ نے وضو فرمایا اور اپنے قدموں اور جوتوں پر مسح کیا تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ دو وجوہ کی بناء پر اس بارے میں اخبار آحاد کو قبول کرنا جائز نہیں ہے : ایک وجہ تو یہ ہے کہ اس سے آیت کے موجب یعنی غسل کے حکم میں اعتراض کی صورت پیدا ہوتی ہے، جیسا کہ ہم پہلے دلائل کے ساتھ وضاحت کر آئے ہیں کہ آیت میں اللہ کی مراد غسل یعنی پیروں کا دھونا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ اس جیسے مسئلے میں اخبار آحاد قابل قبول نہیں ہیں اس لئے کہ لوگوں کو کثرت سے اس مسئلے کی ضرورت پیش آتی ہوگی جس یک بنا پر اس بارے میں کثرت سے روایت ہونی چاہیے۔ حضرت علی سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے قول باری (وارجلکم) کی نصب کیس اتھ قرات کی تھی اور یہ فرمایا تھا کہ اس سے پیروں کا دھونا مراد ہے۔ اگر آپ کو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مسح کے جواز اور مسح پر اقتصاد کی بات پہنچی ہوتی تو آپ ہرگز یہ نہ کہتے کہ اللہ کی مراد پیروں کا دھونا ہے۔ نیز حضرت علی (رض) کی جس روایت میں مسح کا ذکر ہے اس میں آپ نے حضور صلی اللہ علیہ وستم سے یہ فقرہ نقل کیا تھا کہ (ہذا وضوء من لم یحدث یہ اس شخص کا وضو ہ جس حدث لاحق نہ ہوا ہو) یہ شعبہ کی روایت ہے جو انہوں نے عبدالملک بن میسرہ سے کی ہے۔ انہوں نے نزال بن سبرہ سے کہ حضرت علی (رض) نے اپنی بیٹھک یا گھر کے صحن کی مسجد میں ظہر کی نماز ادا کی۔ پھر جب عصر کا وقت آٰ گیا تو آپ نے پانی کا کوزہ منگوا کر دونوں ہاتھ، چہرہ اور بازو دھوئے اور پھر سر اور پیروں پر مسح کیا اور فرمایا : ” میں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی اسی طرح وضو کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس وقت یہ فرمایا تھا (ھذا وضوء من لم یعد ثم جس شخص کو حدث لاحق نہ ہو وہ اگر پیروں پر مسح کرے تو اس کے جواز میں کسی کو اختلاف نہیں ہے نیز آیت زیربحث میں جب غسل اور مسح دونوں کا احتمال ہے تو ہم نے و حالتوں کے اندر اس پر بطور وجوب عمل کیا۔ جب پیروں میں موزے ہوں تو اس حالت میں مسح پر عمل کیا اور جب پیر موزوں کے بغیر ہوں تو اس حالت میں غسل یعنی دھونے پر عمل کیا۔ اگر یہ کہا جائے کہ تیمم کی صورت میں سر کے مسح کی فرضیت کی طرح پیروں کی فرضیت بھی ساقط ہوجاتی ہے اس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ سر کی طرح پیر بھی مسح کے تحت آتے ہیں، دھونے کے حکم کے تحت نہیں آتے، اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اگر یہ بات تسلیم کرلی جائے تو اس سے لازم آئے گا کہ آیت میں دھونا مراد ہی نہ ہو۔ حالانکہ اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ وضو کرنے والے نے اگر پیر دھو لئے تو اس نے فرض پر عمل کرلیا۔ اس کے ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پیروں کو دھونے کی روایات کے اندر امت میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ اسے ایک اور پہلو سے دیکھا جائے وہ یہ کہ جنابت کی حالت میں پانی نہ ملنے پر تیمم کرنے کی صور ت میں پورے جسم کو دھونے کا حکم ساقط ہوجاتا ہے اور صرف دو عضو پر تیمم کا عمل جسم کے تمام اعضاء کو دھونے کے قائم مقام ہوجاتا ہے۔ اسی طرح یہ جائز ہے کہ تیمم کا عمل دونوں پیروں کو دھونے کے قائم مقام بن جائے اگرچہ ان پر تیمم واجب نہیں ہوتا۔ فصل کعبین یعنی ٹخنوں پر تحقیق کعبین یعنی ٹخنوں کے بارے میں اختلاف رائے ہے۔ ہمارے جمہور اصحاب اور اہل علم کا قول ہے کہ قدم اور پنڈلی کے جوڑ رپ دونوں ابھری ہوئی ہڈیوں کو ٹخنے کہا جاتا ہے۔ ہشام امام محمد سے نقل کیا ہے کہ ٹخنہ پائوں کے اس جوڑ کو کہتے ہیں جو قدم کی پشت کی طرف تسمہ باندھنے کی جگہ ہوتا ہے۔ لیکن پہلی بات درست ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا (وارجلکم الی الکعبین) یہ قول باری اس پر دلالت کرتا ہے کہ ہر ٹانگ میں دو ٹخنے ہوتے ہیں۔ اگر ہر ٹانگ میں ایک ٹخنہ ہوتا تو قول باری میں کعبین یعنی تثفیہ کی بجائے کعاب یعنی جمع کا لفظ استعمال ہوتا۔ جس طرح یہ قول باری ہے (ان تتو با الی اللہ فقد صغت قلوبکما۔ اے دونوں (بیویو) اگر تم اللہ کے سامنے توبہ کرلو تو تمہارے دل (اسی طرف) مائل ہو رہے ہیں) چونکہ ہر ایک کے اندر ایک دل تھا اس لئے جمع کے لفظ کے ساتھ دلوں کی اضافت ان دونوں کی طرف کردی۔ جب اللہ تعالیٰ نے تثنیہ کے لفظ کے ساتھ دونوں ٹخنوں کی اضافت ٹانگوں کی طرف کی تو اس سے یہ دلالت حاصل ہوئی کہ ہر ٹانگ میں دو ٹخنے ہوتے ہیں۔ اس پر وہ روایت بھی دلالت کرتی ہے جو ہمیں ایک ثقہ راوی نے سنائی، انہیں عبداللہ بن محمد شیرویہ نے، انہیں اسحاق بن راہویہ نے، انہیں الفضل بن موسیٰ نے یزید بن زیاد با ابی الجعد سے، انہوں نے جامع بن شداد سے اور انوں نے طارق بن عبداللہ المحاربی سے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ذی المجاز کے بازار میں دیکھا تھا۔ اس وقت آپ نے سرخ جبہ پہن رکھا تھا اور یہ فرما رہے تھے (ایھا الناس قولوا لا الہ الا اللہ تفلحوا۔ اے لوگو ! اللہ کی وحدانیت اور اس کی معبودیت کا اقرار کرلو فلاح پا جائو گے) میں نے ایک شخص کو آپ کے پیچھے چلتا وہا دیکھا جو آپ کو پتھروں سے مار را تھا جس کی وجہ سے آپ ک دونوں ٹخنے اور ایڑی کے اوپر کے دونوں پٹھے خون آلود ہوگئے تھے، وہ شخص ساتھ ساتھ یہ کہتا جاتا تھا کہ ” لوگو ! اس کی بات نہ مانو، یہ (نعوذ باللہ) جھوٹا ہے “۔ میں نے لوگوں سے پوچھا یہ شخص کون ہے ؟ لوگوں نے کہا کہ یہ عبدالمطلب کے بیٹے ہیں۔ پھر میں نے پوچھا یہ شخص جو ان کے پیچھے پیچھے جا رہا ہے اور پتھر مار رہا ہے، کون ہے ؟ لوگوں نے بتایا کہ یہ عبدالعزیٰ ابولہب ہے۔ یہ روایت اس پر دلالت کرتی ہے کہ ٹخنہ اس ہڈی کا نام ہے جو قدم کی جانب میں ابھری ہوئی ہوتی ہے اس لئے کہ اگر چلنے والے کے پیچھے پتھر مارے جائیں تو وہ قدم کی پشت پر نہیں لگیں گے۔ جماعت میں ٹخنے سے ٹخنہ اور کندھے سے کندھا ملانا ثقہ راوی نے بیان کیا کہ ہمیں عبداللہ بن محمد بن شیرویہ نے روایت بیان کی، انہیں اسحاق نے، انہیں وکیع نے، انہیں زکریا بن ابی زائدہ نے قاسم الجدلی سے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت نعمان بن بشیر کو یہ کہتے ہوئے سنا تھا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تھا (لستو ون صفوفکم اولیخالفن اللہ بین قلوبکم او وجوھکم تم ضرور اپنی صفیں سیدھی کرلو ورنہ اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں میں (یا یہ فرمایا تمہارے چہروں میں) عدم توازن پیدا کر دے گا) حضرت نعمان (رض) مزید فرماتے ہیں کہ اس کے بعد میں نے لوگوں کو دیکھا کہ ہر شخص اپنے ساتھ کھڑے ہوئے دوسرے شخص کے ٹخنے سے ٹخنا اور کندھے سے کندھا ملا کر کھڑا ہوتا ۔ یہ روایت اس پر دلالت کرتی ہے کہ ٹخنے کے وہی معنی ہیں جو ہم نے بیان کئے ہیں۔ واللہ اعلم ! موزوں پر مسح کرنے کے بارے میں اختلاف کا ذکر ہمارے اصحاب، سفیان ثوری حسن بن صالح، اوزاعی اور امام شافعی کا قول ہے کہ مقیم ایک دن ایک رات اور مسافر تین دن تین رات موزوں پر مسح کرے گا۔ امام مالک اور لیث بن سعد سے مروی ہے کہ اس کے لئے کوئی وقت مقرر نیں ہے۔ ایک شخص جب وضو کی حالت میں موزے پہن لے تو جب تک اس کی مرضی ہو مسح کرتا رہے۔ امام مالک کا قول ہے کہ اس معاملے میں مقیم اور مسافر دونوں یکساں ہیں۔ اصحاب مالک کا قول ہے کہ ان کا صحیح مسلک یہی ہے۔ ابن القاسم نے امام مالک سے بھی روایت کی ہے کہ مسافر مسح کرے گا اور مقیم مسح نہیں کرے گا۔ ابن القاسم نے امام مالک سے یہ بھی روایت کی ہے کہ انہوں نے موزوں پر مسح کی تضعیف کی ہے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے موزوں پر مسح کی بات ایسی روایات سے ثابت ہوچکی ہے جو تواتر اور استفاضہ کی حد تک پہنچ چکی ہیں اور ان کی حیثیت یہ ہے کہ یہ علم کی موجب ہیں۔ اسی بناء پر امام ابو یوسف کا قول ہے کہ سنت کے ذریے قرآن کا حکم صرف اسی صورت میں منسوخ ہوسکتا ہے اگر اس سنت کا ورود اسی طرح ہوا ہو جس طرح موزوں پر مسح کی سنت استفاضہ کی شکل میں وارد ہوئی ہے۔ جہاں تک ہمیں معلوم ہے کسی صحابی نے موزوں پر مسح کی بات رد نہیں کی اور نہ ہی کسی کو اس بارے میں کوئی شک تھا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے موزوں پر مسح کیا تھا۔ البتہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مسح کے وقت کے متعلق اختلاف تھا کہ آیا یہ سورة مائدہ کے نزول سے قبل شروع ہوا یا اس کے نزول کے بعد۔ مقیم کے لئے ایک دن ایک رات اور مسافر کے لئے تین دن ین رات کی تحدید کے ساتھ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مسح کی روایت کرنے والوں میں حضرت عمر (رض) ، حضرت علی (رض) ، صفوان (رض) بن عسال، خزیمہ بن ثابت (رض) ، عوف بن مالک (رض) حضرت ابن عباس (رض) اور حضرت عائشہ (رض) شامل ہیں۔ وقت کی تحدید کے بغیر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مسح کی روایت کرنے والوں میں حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) ، حضرت جریر بن عبداللہ البجلی (رض) ، حضرت حذیفہ بن الیمان (رض) ، حضرت مغیرہ بن شعبہ (رض) ، حضرت ابو ایوب انصاری (رض) ، حضرت سہل بن سعد (رض) ، حضرت انس بن مالک (رض) اور حضرت ثوبان (رض) شامل ہیں، ان کے علاوہ عمرو بن امیہ نے اپنے والد سے، اور سلیمان بنبریدہ نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کی روایت کی ہے۔ اعمش نے ابراہیم سے، انہوں نے ہتمام سے، انہوں نے حضرت جریر بن عبداللہ سے روایت کی ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو وضو کرتے وقت موزوں پر مسح کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ اعمش کہتے ہیں کہ ابراہیم کہا کرتے تھے کہ لوگ حضرت جریر (رض) کی اس روایت کو بہت پسند کرتے تھے اس لئے کہ حضر تجریر (رض) سورة مائدہ کے نزول کے بعد اسلام لائے تھے۔ چونکہ موزوں پر مسح کی روایتیں استفاضہ کی صورت میں وارد ہوئی ہیں اور راویوں کی تعداد ! اس قدر زیادہ ہے کہ اتنی بڑی تعداد کا جھوٹ پر متفق ہوجانا، یا سہو اور غفلت کا شکار ہوجانا ممتنع ہے اس لئے آیت کے حکم کے ساتھ ساتھ ان روایتوں پر عمل کرنا بھی واجب ہے۔ ہم پہلے بیان کر آئے ہیں کہ آیت وضو میں پیروں کے مسح کا بھی احتمال موجود ہے اس لئے ہم نے پیروں پر مسح کے حکم پر اس حالت میں عمل کیا جب پیروں میں موزے ہوں اور پیر دھونے کے حکم پر اس حالت میں عمل کیا جب پیروں میں موزے نہ ہوں۔ اس لئے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سورة مائدہ کے نزول سے پہلے یا نزول کے بعد مسح کیا تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر آپ نے آیت وضو کے نزول سے پہلے مسح کیا تھا تو آیت مسح کے حکم پر مرتب قرار پائے گی اور اس حکم کو منسوخ نہیں کرے گی۔ اس لئے کہ آیت میں اس معنی کا بھی احتمال ہے جو موزے پہننے کی حالت میں مسح کے حکم کی موافقت کو واجب کردیتا ہے۔ نیز یہ کہ اگر آیت میں حدیث کی موافقت کا احتمال موجود نہ بھی ہوتا تو اس حدیث کی بنا پر آیت کے حکم کا مخصوص ہوجانا بھی جائز ہوتا اور اس طرح پیروں کو دھونے کا حکم اس حالت کے ساتھ خاص ہوجاتا جب پیروں میں موزے نہ ہوتے، موزے ہونے کی صورت کے ساتھ اس حکم کا کوئی تعلق نہ ہوتا۔ اگر آیت مسح پر مقدم ہوتی تو مسح کا جواز صرف اس بنا پر باقی رہتا کہ یہ اس معنی کے موافق ہے جس کا آیت کے اندر احتمال موجود ہے۔ یہ بات نسخ قرار نہیں دی جاتی بلکہ آیت کی مراد کے لئے بیان ثابت ہوتی۔ اگرچہ اس جیسی روایت کے ذریعے آیت کا نسخ بھی جائز ہے کیونکہ اس کے اندر تواتر کی صفت پائی جاتی ہے اور لوگوں کے درمیان اس کی اشاعت بھی ہوچکی تھی جب موزوں پر مسح کا ثبوت ہوگیا تو مقیم اور مسافر کیلئے اس کے وقت کی اس طرح تحدید بھی ثابت ہوگئی جس طرح ہم سابقہ سطور میں بیان کر آئے ہیں اس لئے کہ ان احادیث سے بھی توقیت یعنی مدت اور وقت کی تحدید ثابت ہوگئی ہے جو مسح علی الخفین کے متعلق علی الاطلاق وارد ہوئی ہیں۔ اگر توقیت باطل ہوجائے تو مسح بھی باطل ہوجائے گا اور اگر مسح ثابت ہوجائے تو توقیت بھی ثابت ہوجائے گی۔ اگر ہمارے مسلک کے مخالفین اس سلسلے میں حضر عمر (رض) کی اس روایت سے استدلال کریں جس میں ذکر ہے کہ عقبہ بن عامر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آء تو انہیں موزوں پر مسح کرتے ہوئے ایک جمعہ گزر چکا تھا، آپ نے اس موقع پر ان سے فرمایا کہ ایسا کر کے تم نے سنت کو پا لیا ہے “۔ اسی طرح وہ روایت بھی ہے جس کے راوی حماد بن زید ہیں، انہوں نے کثیر بن شنظیر سے اور انہوں نے حسن بصری سے کہ کسی نے ان سے سفر میں موزوں پر مسح کے متعلق سوال کیا تو وہ فرمانے لگے ” ہم لوگ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کے ساتھ سفر کیا کرتے تھے۔ یہ حضرات موزوں پر مسح کی توقیت نہیں کرتے “۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ سعید بن المسیب نے حضرت عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ آپ نے اپنے بیٹے حضرت عبداللہ کو، جب انہوں نے موزوں پر مسیح کے سلسلے میں حضرت سعد (رض) پر اعتراض کیا تھا، یہ فرمایا تھا، یہ فرمایا تھا۔ ’ دبیٹے ! تمہارے چچا یعنی حضرت سعد (رض) تم سے بڑھ کر دین کی سمجھ رکھتے ہیں۔ مقیم کے لئے ایک دن ایک رات اور مسافر کے لئے تین دن تین رات تک مسح ہے۔ “ اسی طرح سوید بن غفلہ نے حضرت عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ مسافر کے لئے تین دن تین رات اور مقیم کے لئے ایک دن ایک رات تک کا مسح ہے۔ حضرت عمر (رح) سے ہماری ذکر کردہ توقیت کے مطابق وقت کی تحدید ثابت ہوچکی ہے۔ اس لئے حضرت عقبہ بن عامر (رض) کو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ فرمانا کہ ” تم نے ایسا کر کے سنت کو پا لیا ہے “۔ اس میں احتمال ہے کہ آپ کی مراد اس سے یہ ہو کہ ’ دتم نے مسح کرنے میں سنت پر عمل کیا ہے “۔ حضرت عمر (رض) کا یہ کہنا کہ عقبہ (رض) نے ای جمعہ مسح کیا تھا یہ اس پر محمول ہے کہ انہوں نے جائز طریقے پر ایک جمعہ مسح کیا تھا جس پر کوئی شخص یہ کہے کہ ” میں ایک ماہ تک موزوں پر مسح کرتا رہا “ تو اس سے اس کی مراد یہ ہوتی ہے کہ ” میں ایک ماہ تک جائز طریقے سے موزوں پر مسح کرتا رہا۔ “ اس لئے حضرت عمر (رح) کی روایت میں یہ بات واضح ہے کہ اس سے یہ مفہوم مراد نہیں ہے کہ عقبہ (رض) نے ہمیشہ جمعہ ا جمعہ موزوں پر مسح کیا تھا اور کبھی ناغہ نہیں کرتے تھے بلکہ اس سے یہ مراد ہے کہ وہ اس وقت مسح کرتے تھے جب انہیں مسح کرنے کی ضرورت پیش آتی تھی۔ اسی طرح انہوں نے اس سے وہ وقت مراد لیا ہے جس میں مسح جائز ہوتا ہے۔ جس طرح آپ کہتے ہیں ” میں نے مکہ مکرمہ میں ایک ماہ تک جمعہ کی نمازیں پڑھی ہیں۔ “ تو اس سے آپ کی مراد یہ ہوگی کہ ان اوقات میں پڑھی ہیں جن میں جمعہ کی نماز ادا کرنا جائز ہوتا۔ حسن بصری کا یہ قول کہ انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کیس اتھ سفر کیا تھا اور یہ حضرات موزوں پر مسح کے لئے کسی وقت کی پابندی نہیں کرتے تھے۔ اس سے ان کی مراد… واللہ اعلم… یہ ہوسکتی ہے کہ یہ حضرات بعض دفعہ دو یا تین دنوں کے درمیان موزے اتار دیتے تھے اور مسلسل تین دنوں تک ان پر مسح نہیں کرتے تھے۔ جس طرح لوگوں کی عادت تھی کہ وہ اپنے اپنے موزے تین دنوں تک اتارے بغیر رہنے نہیں دیتے تھے اس لئے اس روایت میں ایسی کوئی دلالت موجود نہیں ہے جس سے یہ معلوم ہو کہ یہ حضرات تین دن سے زائد مدت تک موزوں پر مسح کرتے تھے۔ اگر کوئی یہ کہے کہ حضرت خزیمہ بن ثابت (رض) نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جو روایت کی ہے اس میں آپ نے فرمایا ” مسافر تین دن تین رات اور مقیم ایک دن ایک رات تک موزوں پر مسح کرے گا۔ “ راوی کہتے ہیں ” اگر ہم حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس مدت میں اضافہ کے طلب گار ہوتے تو آپ اضافہ کردیتے۔ “ اسی طرح حضرت ابوعمارہ کی روایت میں ہے کہ انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا : ” اللہ کے رسول ! میں موزوں پر مسح کرلوں ؟ “ آپ نے اثبات میں جواب دیا، پھر عرض کیا : ” ایک دن تک “ آپ نے فرمایا : ” بیشک دو دنوں تک کرتے رہو “۔ پھر عرض کیا : تین دنوں تک کرلوں ؟ “ تو آپ نے فرمایا : ہاں، بلکہ جب تک چاہو “۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ نے مدت بڑھاتے بڑھاتے سات دن تک انہیں مسح کرنے کی اجازت دے دی۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ حضرت خزیر (رض) کی روایت کے یہ الفاظ کہ اگر ہم حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس مدت میں اضافہ کے طلب گار ہوتے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اضافہ کردیتے “ دراصل راوی کا اپنا گمان اور خیال ہے جبکہ گمان کی بنا پر کوئی مسئلہ ثابت نہیں ہوتا۔ حضرت ابوعمارہ (رض) کی روایت کے متعلق کہا گیا ہے کہ یہ قوی نہیں بلکہ ضعیف روایت ہے۔ اس کی سند میں اختلاف ہے۔ اگر یہحدیث ثابت بھی ہوجائے تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قول بلکہ جب تک چاہو “ کا یہ مفہوم لیا جائے گا وہ تین دنوں تک جتنی دفعہ چاہیں مسح کرسکتے ہیں۔ نیز توقیت کے بارے میں دوسری قوی روایات پر اس جیسی شاذ روایات کے ذریعے اعتراض نہیں کیا جاسکتا جس میں کئی معانی کا احتمال موجود ہے اور دوسری طرف کثرت سے ایسی روایات موجود ہیں جو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی توقیت کو ثابت کرتی ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ جب موزوں پر مسح کچا جواز ثابت ہو یگا تو قیاس اور نظر کا تقاضا ہے کہ سر کے مسح کی طرح یہ بھی غیر موقت ہو۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ جس کسی مسئلے کے متعلق اثر یعنی روایت موجود ہو تو اس میں نظر اور قیاس کی کوئی مداخلت نہیں ہوتی اور نہ ہی اس کی کوئی گنجائش ہی ہوتی ہے۔ اگر توقیت پر مشتمل روایات ثابت ہیں تو ان کے ہوتے ہوئے نظر ساقط ہے اور اگر یہ روایات ثابت نہیں تو پھر ان ک یاثبات پر گفتگو ہونی چاہیے۔ دوسری طرف روایات مستفیضہ کی بنا پر توقیت کا ثبوت ہوچکا ہے اور اسے رد کرنا ممکن نہیں رہا ہے۔ عقلی طور پر بھی سر کے مسح اور موزوں پر مسح کے درمیان فرق واضح ہے وہ یہ کہ سر کا مسح فی نفسہ فرض ہے اور کسی غیر کا بدل نہیں۔ اس کے برعکس مسح علی الخفین غسل الرجلین کا بدل ہے جبکہ اصل کی بھی گنجائش ہوتی ہے اور بدل کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس لئے اس کا صرف اسی مقدار کا بدل ہونا جائز ہوگا جس کا تعین توقیت کی شکل میں کردیا گیا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ جبیرہ پر مسح کا جواز توقیت کے بغیر ہوا ہے جبکہ یہ مسح غسل یعنی دھونے کے عمل کا بدل ہے تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ امام ابوحنیفہ کے مسلک کے مطابق یہ سوال ساقط ہے۔ اس لئے کہ وہ جبیرہ پر مسح کو واجب قرار نہیں دیتے بلکہ ترک مسح ان کے نزدیک مستجب ہے اور اس سے وضو میں کوئی نقص پیدا نہیں ہوتا۔ امام ابو یوسف اور اماممحمد کے قول پر بھی یہ اعتراض لازم نہیں ہوتا کیونکہ ان کے نزدیک یہ مسح ضرورت کے تحت یکا جاتا ہے۔ جس طرح تیمم ضرورت کے وقت کیا جاتا ہے جبکہ مسح علی الحخفین بلا ضرورت بھی جائز ہے اس لئے مسح کی دونوں صورتیں ایک دوسرے سے مختلف ہوگئیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ آپ کو اس پر کیا اعتراض ہوسکتا ہے اگر موزوں پر مسح کا جواز صرف سفر کی حالت تک محدود رکھا جائے اس لئے کہ اس بارے میں منقول روایات کا تعلق سفر کی حالت سے ہے اس لئے سفر کی حالت میں اس کا جواز نہیں ہونا چاہیے۔ کیونکہ ایک روایت کے مطابق حضرت عائشہ (رض) سے جب حضر کی حالت میں موزوں پر مسح کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ نے کہا کہ یہ مسئلہ علی (رض) سے جا کر پوچھو کیونکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ سفر میں یہ رہا کرتے تھے۔ یہ روایت اس پر دلالت کرتی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضر کی حالت میں موزوں پر مسح نہیں کیا کیونکہ اگر آپ ایسا کرتے تو حضرت عائشہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ بات پوشیدہ نہ رہ سکتی۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اسی روایت میں یہ احتمال ہے کہ حضرت عائشہ (رض) سے مسافر کے لئے مسح کی توقیت کے متعلق پوچھا گیا ہو اور آپ نے یہ کہہ کر سائل کو حضرت علی (رض) کی طرف بھیج دیا ہو کہ ان سے جا کر پوچھ لو کیونکہ اکثر سفروں میں وہی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ رہے تھے۔ نیز حضرت عائشہ (رض) ان راویوں سے ایک ہیں جنہوں نے مسافر اور مقیم دونوں کے مسح کی توقیت کی روایت کی ہے۔ نیز وہ روایات جن میں مسافر کے لئے مسح کی توقیت کا ذکر ہے ان میں مقیم کے لئے بھی توقیت مذکور ہے۔ اس لئے اگر توقیت مسافر کے لئے ثابت ہوگی تو مقیم کے لئے بھی ثابت ہوجائے گی۔ اگر یہ کہا جائے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے تواتر کے ساتھ حفہ کی حالت میں پائوں دھونا ثابت ہے۔ اسی طرح آپ کا یہ ارشاد بھی ہے (ویل للاعقاب من النار خشک رہ جانے والی ایڑیوں کے لئے جہنم کی آگ کی بنا پر بربادی ہے) تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ان تمام روایات کو اس صورت پر محمول کیا جائے گا جب پیروں میں موزے نہ ہوں۔ اگر یہ کہا جائے کہ ہوسکتا ہے تخفیف کا یہ حکم سفر کی حالت کے ساتھ مخلوص ہو۔ حضر کے ساتھ اس کا تعلق نہ ہو جس رطح نماز میں قصر کرنے، روزہ رکھنے اور تیمم کرلینے کے احکامات تخفیف کے طور پر سفر کی حالت کے ساتھ مختص ہیں۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ہم نے مقیم یا مسافر کے لئے قیاس کے طور پر مسح کی اباحت نہیں کی ہے بلکہ آثار و روایات کی بنا پر ہم اس کی اباحت کے قائل ہوئے ہیں۔ یہ آثار و روایات سفر اور حضر دونوں میں یکساں طور پر مسح علی الخفین کی متقاضی ہیں۔ اس لئے اس بارے میں قیاس سے کام لینے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ مسح علی الخفین کے سلسلے میں ایک اور جہت سے بھی اختلاف رائے ہے۔ ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ جب کوئی شخص پائوں دھو کر موزے پہن لے اور حدث لاحق ہونے سے قبل وضو کی تکمیل کرے تو اس کے لئے حدث کی صورت میں ان موزوں پر مسح جائز ہوگا۔ سفیان ثودی کا بھی یہی قول ہے۔ امام مالک سے بھی یہی قول منقول ہے۔ طحاوی نے امام مالک اور امام شافعی کا یہ قول نقل کیا ہے کہ وضو کی تکیمل کے بعد اگر موزے پہن لے گا تو ان پر مسح کرسکتا ہے ورنہ نہیں۔ ہمارے اصحاب کی دلیل حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس ارشاد کا مفہوم ہے کہ یمسح المقیم یوما و لیلۃ والمسافر ثلاثۃ ایام ولیا لیھا) آپ نے وضو کی تکیمل سے قبل اور تکمیل کے بعد موزے پہن لینے میں کوئی فرق نہیں کیا۔ شعبی نے حضرت مغیرہ بن شعبہ سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وضو کیا میں آپ کے موزے اتارنے کے لئے جھکا، آپ نے فرمایا (مہ، فانی ادخلت القدمین الخفین و ھما طاہرتان، رکوخ میں نے پیروں میں یہ موزے اس وقت ڈالے ہیں جب پائوں پاک تھے) اس کے بعد آپ نے موزوں پر مسح کرلیا۔ حضرت عمر (رض) سے مروی ہے کہ ” جب تم ایسی حالت میں موزے پہنوجب پائوں پاک ہوں تو ان پر مسح کرلو۔ “ جو شخص اپنے پائوں دھو لے گا تو دوسرے تمام اعضا کی طہارت کی تکمیل سے پہلے اس کے دونوں پائوں پاک ہوجائیں گے جس طرح کہا جاتا ہے۔ ” فلاں نے اپنے دونوں پائوں دھو لئے ‘ٔ‘ یا جس طرح کہا جاتا ہے ” فلاح شخص نے ایک رکعت پڑھ لی۔ “ ابھی اس کی نماز مکمل نہ ہوئی ہو۔ نیز جو حضرات اس صورت کو جائز قرار نہیں دیتے وہ وضو کرنے والے ک موزے اتارنے اور پھر پہننے کا حکم دیں گے۔ اگر مسح تک یہ موزے اس کے پیروں میں رہیں تو اس کا بھی یہی حکم ہونا چاہیے۔ اس لئے کہ مسلسل پہنے رہنے کی وہی حیثیت ہے جو ابتدائی طور پر پہننے کی ہے۔ جرابوں پر مسح کرنے پر اختلاف ائمہ جرابوں پر مسح کے متعلق فقہاء میں اختلاف رائے ہے۔ امام ابوحنیفہ اور امام شافعی نے اسے جائز قرار نہیں دیا البتہ اگر مجلد ہوں یعنی ان پر چمڑا چڑھا ہو تو پھر ان پر مسح جائز ہوگا۔ طحاوی نے امام مالک سے یہ نقل کیا ہے کہ جرا اگر مجلد ہوں یعنی ان پر چمڑا چڑھا ہو تو پھر ان پر مسح جائز ہوگا۔ طحاوی نے امام مالک سے یہ نقل کیا ہے کہ جراب اگر مجلد بھی ہوں ان پر مسح کرنا جائز نہیں ہے۔ امام مالک کے بعض اصحاب نے یہ روایت نقل کی ہے کہ اگر جراب موزوں کی طرح مجلد ہوں تو ان پر مسح کرنا درست ہوگا۔ سفیان ثوری، امام ابو یوسف، امام محمد اور حسن بن صالح کا قول ہے کہ اگر جراب موٹے ہوں تو مجلد نہ وہنے کے باوجود بھی ان پر مسح کرنا جائز ہوگا۔ اس مسئلے کی بنیاد یہ ہے کہ ہمارے سابقہ بیانات کی روشنی میں یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ آیت وضو میں پائوں دھونا مراد ہے۔ اگر موزوں پر مسح کے سلسلے میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے تواتر کے ساتھ روایات منقول نہ ہوتیں تو ہم مسح کے جواز کے قائل نہ ہوتے۔ جب اس بارے میں صحیح روایات منقول ہوئیں اور آیت کے ساتھ ساتھ ان روایات پر عم ل کرنے کی بھی ہمیں ضرورت پیش آ گئی تو ہم نے ان پر اس طریقے سے عم لکیا جو اس پہلو سے آیت کے مطابق تھا کہ آیت میں بھی مسح کا احتمال موجود ہے۔ اور باقی صورتوں کو آیت کے مقتضی اور اس کی مراد پر چھوڑ دیا چونکہ جرابوں پر مسح کے جواز کے بارے میں اس پیمانے پر روایات منقول نہیں ہوئیں جس پیمانے پر موزوں پر مسح کے سلسلے میں منقول ہوئیں تو ہم نے آیت کی مراد میں پائوں دھونے کے حکم کو باقی رکھا اور اس حکم کو وہاں سے منتقل نہیں کیا۔ اگر یہ کہا جائے کہ حضرت مغیرہ بن شعبہ (رض) اور حضرت ابو موسیٰ (رض) اشعری نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ نقل کیا ہے کہ آپ نے اپنی جرابوں اور جوتوں پر مسح کیا تھا تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اس میں احتمال ہے کہ شاید جرابیں مجلد تھیں، اس بنا پر اختلافی نکتے کے بارے میں اس روایت کے اندر کوئی دلالت موجود نہیں ہے۔ کیونکہ اس میں لفظ کا عموم نہیں ہے بلکہ یہ ایک عمل کی حکایت ہے جس کی حالت کا ہمیں صحیح علم نہیں ہے۔ نیز یہ بھی احتمال ہے کہ آ پنے یہ وضو حدث لاحق ہونے کی بنا پر نہ کیا ہو بلکہ وضو پر وضو کیا ہو جس طرح آپ نے ایک دفعہ پیروں پر مسح کرنے کے بعد فرمایا تھا (یہ اس شخص کا وضو ہے جسے حدث لاحق نہ ہوا ہو) عقلی اور قیاسی طور پر اگر دیکھا جائے تو سب کا اس پر اتفاق ہے کہ پائوں کو اگر کس یچیز سے لپیٹ دیا جائے اور لفافے کی شکل بن جائے تو اس پر مسح کا جواز ممتنع ہوتا ہے۔ اس لئے کہ عادۃ لوگ اس طرح لپٹی ہوئی چیز کے ساتھ چلتے پھرتے نہیں ہیں۔ جرابوں کی بھی یہی کیفیت ہے کہ انہیں پہن کر لوگ چلتے پھرتے نہیں۔ اس لئے ان پر مسح کا جواز بھی ممتنع ہے۔ لیکن اگر یہ مجلد ہوں تو ان کی حیثیت موزوں کی طرح ہوتی ہے اور انہیں پہن کر چلا پھرا جاسکتا ہے اور یہ جرموق کی طرح ہوتی ہیں جسے موزے کے اوپر اس کی حفاظت کے لئے پہنتے ہیں (عوام اپنی زبان میں اسے کالوش کہتے ہیں) آپ دیکھ سکتے ہیں کہ جراب جب مکمل طور پر مجلد ہو تو اس پر مسح کے جواز کے بارے میں سب کا اتفاق ہے۔ اگر جراب چلنے پھرنے اور دوسرے تصرف کے اندر موزوں کی طرح ہوں تو خواہ یہ مکمل طور پر مجلد ہوں یا ان کا بعض حصہ مجلد ہو تو اس سے مسح کے حکم پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ پگڑی پر مسح عمامہ یعنی پگڑی پر مسح کے بارے میں فقاء کا اختلاف ہے۔ ہمارے اصحاب، امام مالک حسن بن صالح اور امام شافعی کا قول ہے کہ پگڑی پر مسح جائز نہیں ہے اور نہ ہی دوپٹے پر۔ سفیان ثوری اور اوزاعی کا قول ہے کہ پگڑی پر مسح جائز ہے۔ پہلے قول کی صحت کی دلیل قول باری (وامسحوا بو وسکم) ہے اس کے حقیقی معنی یہ ہیں کہ سر کے ساتھ پانی لگایا جائے، اب جو شخص پگڑی پر مسح کرے گا وہ اپنے سر کا مسح کرنے والا نہیں کہلائے گا۔ اس لئے اس مسح کے ساتھ اس کی نماز جائز نہیں ہوگی۔ نیز سر کے مسح کے متعلق تواتر کے ساتھ آثار مروی ہیں۔ اگر عمامہ پر مسح کا جواز ہوتا تو اس کے متعلق بھی اسی پیمانے پر آثار منقول ہوتے جس پیمانے پر مسح علی الخفین کے متعلق منقول ہیں۔ جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے تواتر کے ساتھ عمامہ پر مسح کی روایات منقول بنیں تو دو وجوہ سے اس پر مسح جائز نہیں ہوگا۔ ایک وجہ تو یہ ہے کہ آیت سر کے مسح کی مقتضی ہے اس سے ہٹنا صرف اسی صور ت میں جائز ہوسکتا ہے جب اس کے متعلق ایسی روایات موجود ہوں جو علم کی موجب بنتی ہوں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ لوگوں کو پگڑی پر مسح کی عام ضرورت تھی۔ اس لئے اس کے جواز کے لئے صرف متواتر روایات قابل قبول ہوں گی۔ نیز حضرت ابن عمر (رض) نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ روایت کی ہے کہ آپ نے وضو کرتے ہوئے اعضاء وضو ایک ایک دفعہ دھو کر فرمایا (ھذا وضو من لا یقبل اللہ لہ صلوۃ الایہ یہ اس شخص کا وضو ہے جس کے بغیر اللہ تعالیٰ اس کی کوئی نماز قبول نہیں کرتا) یہ بات معلو ہے کہ آپ نے سر کا مسح کیا تھا اس لئے کہ عمامہ پر مسح کو وضو نہیں کہا جاتا۔ پھر آپ نے نماز کے جواز کی نفی کردی الا یہ کہ اس طرح وضو کیا گیا ہو۔ حضرت عائشہ (رض) کی روایت بھی ہے جس کا ہم پہلے ذکر کر آئے ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وضو کرتے ہوئے اعضاء وضو ایک ایک مرتبہ دھو کر اور سر کا مسح کرنے کے بعد فرمایا (نذا الوضوء الذی افترض اللہ علینا یہ وہ وضو ہے جسے اللہ نے ہم پر فرض کردیا ہے) اس ارشاد کے ذریعے آپ نے یہ بتادیا کہ پانی کے ساتھ سر کا مسح کرنا ہم پر فرض کردیا گیا ہے اس لئے اس ک یبغی رنماز درست نہیں ہوگی۔ اگر پگڑی پر مسح کے جواز کے قائلین اس روایت سے استدلال کریں جو حضرت بلال (رض) اور حضرت مغیرہ بن شعبہ (رض) نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کی ہے کہ آ پنے موزوں اور پگڑی پر مسح کیا تھا، اسی طرح راشد بن سعد نے حضرت ثوبان (رض) سے نقل کیا ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک جنگی مہم روانہ کی۔ اس میں شریک مجاہدین کو سردی لگ گئی جب یہ لوگ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس واپس آئے تو آپ نے انہیں پگڑیوں اور سر پر بندھی ہوئی ٹوپیوں پر مسح کرنے کا حکم دیا۔ اس کے جوا ب میں کہا جائے گا کہ ان روایات کی اسانید میں اضطراب ہے۔ ان کے راویوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جو مجہول الحال ہیں۔ اگر ان کی اسانید اضطراب سے پاک بھی ہوتیں تو بھی ان جیسی روایات کو آیت کے مقابلہ میں پیش کرنا جائز نہ ہوتا۔ ہم نے مغیرہ بن شعبہ (رض) کی روایت میں یہ واضح کردیا ہے کہ اس کے بعض طرق میں یہ الفاظ ہیں کہ ” آپ نے اپنی پیشانی اور پگڑی کا مسح کیا۔ “ بعض میں ہے کہ ” آپ نے اپنی پگڑی کے کنارے کا مسح کیا۔ “ اور بعض میں یہ ہے کہ آپ نے عمامہ پر اپنا ہاتھ رکھا۔ “ اس طرح حضرت مغیرہ نے بتایا کہ آپ نے پیشانی پر مسح کر کے فرضیت کی ادائیگی کرلی اور پگڑی کا بھی مسح کرلیا، ہمارے نزدیک یہ صورت جائز ہے۔ ایک احتمال یہ بھ ی ہے کہ جس بات کی حضرت بلال (رض) نے روایت کی ہے وہ حضرت مغیرہ (رض) کی روایت میں واضح کردی گئی ہے رہ گئی حضرت ثوبان (رض) کی روایت تو اسے بھی حضرت مغیرہ (رض) کی روایت کے معنی پر محمول کیا جائے گا کہ لوگوں نے دراصل سر کے بعض حصوں اور پگڑی کا مسح کیا تھا۔ واللہ اعلم ! وضو میں اعضائے وضو کو ایک ایک مرتبہ دھونا قول باری ہے (فاغسلوا وجوھکم) تاآخر آیت، اس کا ظاہر لفظ ان اعضاء کو ایک دفعہ دھونے کا مقتضی ہے کیونکہ اس میں تعداد کا ذکر نہیں ہے۔ اس لئے یہ تکرار فعل کا موج ب نہیں ہوگا۔ اس بنا پر جو شخص ان اعضاء کو ایک مرتبہ دھو لے گا وہ فرض ادا کرلے گا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھی ان ہ ی معنوں میں روایات منقول ہیں۔ ان میں سے ایک روایت حضرت ابن عمر کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نی ایک ایک مرتبہ اعضائے وضو کو دھونے کے بعد فرمایا (ھذا الوضوء الذی افترض اللہ علینا یہ وہ وضو ہے جسے اللہ تعالیٰ نے ہم پر فرض کردیا ہے) حضرت ابن عباس (رض) اور حضرت جابر (رض) نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ آپ نے ایک ایک مرتبہ یہ اعضاء دھونے، حضرت ابو رافع (رض) نے فرمایا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تین تین مرتبہ بھی اعضائے وضو دھوئے ہیں اور ایک ایک مرتبہ بھی۔ ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے نقاً جو کچھ بیان کیا ہے وہ فرض وضو ہے جیسا کہ ہم پہلے بیان کر آئے ہیں۔ وضو میں بہت سے افعال مسنون بھی ہیں جنہیں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جاری کیا ہے۔ ہمیں عبداللہ بن الحسن نے روایت بیان کی، انہیں ابو مسلم نے، انہیں ابوالولید نے، انہیں زائدہ نے، انہیں خالد بن علقمہ نے عبدالخیر سے کہ حضرت علی (رض) فجر کی نماز پڑھنے صحن یا بیٹھک میں آ گئے پھر آپ نے غلام سے پانی لانے کے لئے کہا، غلام ایک برتن اور ایک طشت لے آیا عبدالخیر کہتے ہیں کہ ہم بیٹھے ہوئے آپ کی طرف دیکھ رہے تھے، آپ نے اپنے دائیں ہاتھ میں پانی کا برتن پکڑا اور بائیں ہاتھ پر جھکا دیا پھر دونوں کف دست دھو لئے پھر دائیں ہاتھ سے برتن پکڑ کر بائیں ہاتھ پر انڈیلا اور ونوں کف دست دھو لئے، اس طرح تین دفعہ اپنی دونوں ہتھیلیاں دھو لیں۔ پھر اپنا دایاں ہاتھ برتن میں ڈال کر چلو بھر لیا اور کلی کی نیز ناک میں بھی پانی ڈالا اور بائیں ہاتھ سے ناک صاف کی، تین مرتبہ ایسا ہی کیا، پھر تین مرتبہ اپنا چہرہ دھویا، پھر دایاں ہاتھ کہنی سمیت تین مرتبہ دھویا، پھر بایاں ہاتھ کہنی سمیت تین مرتبہ دھویا، پھر دونوں ہاتھ برتن میں ڈال کر انہیں پوری طرح تر کرلیا، پھر برتن سے ہاتھ نکال کر لگتے ہوئے پانی سمیت دونوں ہاتھوں سے سر کا مسح کیا، پھر دائیں ہاتھ سے دائیں قدم پر پانی ڈا لکر اسے بائیں ہاتھ سے تین مرتبہ دھویا، پھر دائیں ہاتھ سے بائیں قدم پر پانی ڈال کر بائیں ہاتھ سے اسے تین مرتبہ دھویا، پھر ایک چلو بھر ک رنوش جان کرلیا اور فرمایا : جو شخص حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا وضو دیکھنا پسند کرتا ہو وہ اس وضو کو دیکھ لے۔ یہی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا وضو تھا۔ حضرت علی (رض) نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وضو کی جو کیفیت بیان کی یہی ہماے اصحاب کا بھی مسلک ہے۔ اس روایت میں یہ ذکر ہے کہ حضرت علی (رض) نے سب سے پہلے برتن میں پانی انڈیل کر اپنے دونوں ہاتھ تین مرتبہ دھو لئے، ہمارے اصحاب اور دوسرے تمام فقاء کے نزدیک یہ مستجب ہے، واج ب نہیں ہے۔ اگر کوئی شخص ہاتھ دھوئے بغیر لگی ہو۔ حسن بصری سے منقول ہے کہ اگر کوئی شخص ہاتھ دھوئے بغیر پانی کے برتن میں ہاتھ ڈال دے گا تو وہ اس پانی کو بہا دے گا اور اس سے وضو نہیں کرے گا، حسن کے اس قول کی کچھ لوگوں کے متابعت کی ہے جو لائق اعتناء نہیں ہیں۔ بعض اصحاب حدیث سے یہ بات نقل کی جاتی ہے کہ انہوں نے دن کی نیند اور رات کی نیند میں فرق کیا ہے، اس لئے کہ رات کی نیند کے دوران بعض دفعہ جسم سے کپڑا ہٹ جاتا ہے اور ہاتھ کا استنجا کی جگہ پڑجانے کا اندیشہ ہوتا ہے لیکن دن کی نیند کے دوران جسم سے کپڑا نہیں ہٹتا اور جسم برہنہ ہونے کا اندیشہ نہیں ہوتا۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ حضرت علی (رض) کی روایت میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جس طرح کیفیت بیان کی گئی ہے اس کی بناء پر دن اور رات کی نیند کے فرق کا اعتبار ساقط ہوجاتا ہے۔ یہ روایت اس بات کی متقضی ہے کہ پہلے دونوں ہاتھ دھو لینا وضو کی سنت ہے۔ اس لئے کہ حرت علی (رض) نے فجر کی نماز ادا کرنے کے بعد حاضرین کی تعلیم کی خاطر وضو کیا تھا اور ہاتھوں کو برتن میں ڈالنے سے پہلے انہیں دھو لیا تھا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ روایت بھی ہے کہ آپ نے فرمایا (اذا اسققظ احدکم من منامہ فلیفل یدیہ قبل ان یدخلھما الا ناء ثلاثا فانہ لا یدری این باتت یدہ۔ تم میں سے کوئی جب نیند سے بیدار ہو تو پانی کے برتن میں ہاتھ ڈالنے سے پہلے اسے تین مرتبہ دھو لے کیونکہ وہ نہیں جانتا کہ اس کے ہاتھ نے رات کہاں گزاری ہے) محمد بن الحسن نے کہا ہے کہ لوگ پتھروں کے ٹکڑوں سے استنجا کرتے تھے۔ اس لئے کسی کو اس بات کا اطمینان نہیں ہوتا تھا کہ نیند کے دوران اس کا ہاتھ استنجا کی جگہ نہ پڑگیا ہو اور پسینے وغیرہ کی تری اس کے ہاتھ کو نہ لگ گئی ہو۔ اس لئے اس نجاست سے احتیاط کرنے کا حکم دیا گیا جو ممکن ہے کہ استنجا کی جگہ سے اس کے ہاتھ لگ گئی ہو۔ تاہم فقاء کا اس پر اتفاق ہے کہ یہ ایک مستجب حکم ہے۔ حسن بصر یکا جو قول ہم نے نقل کیا ہے وہ ایک شاذ قول ہے اور ظاہر آیت اس کے ایجاب کی نفی کرتا ہے۔ قول باری ہے (اذ اقمتم الی الصلوۃ فاغسلوا وجوھکم و ایدیکم الی المرافق) ظاہر آیت پانی کے برتن میں ہاتھ داخل کرنے کے بعد دونوں ہاتھوں اور چہرے کو دھونے کے وجوب کا مقتضی ہے۔ لیک جو شخص پہلے دونوں کف دست کو دھو لینے کے وجو بکا قائل ہے وہ آیت میں ایسے مفہوم کا اضافہ کر رہا ہے جو آیت کا جز نہیں ہے۔ یہ اقدام صرف اس وقت درست ہوتا ہے جب اس جیسا کوئی نص موجود ہو یا اس پر امت کا اتفاق ہو۔ آیت میں ان تمام لوگوں کے لئے عموم ہے جو نیند سے بیدار ہوئے ہوں یا پہلے ہی سے بیدار ہوں۔ اس کے ساتھ یہ روایت بھی ہے کہ آیت کا نزول ان لوگوں کے بارے میں ہوا تھا جو نیند سے بیدار ہوئے تھے، تاہم آیت کا تمام صورتوں میں اعضائے وضو کو دھونے کے جواز پر اطلاق ہوا ہے اور اس میں کسی صورت کے اندر پہلے دونوں ہتھیلیوں کو دھونے کی قید نہیں ہے عطاء بن یسار نے حضرت ابن عباس (رض) سے یہ نقل کیا ہے کہ آپ نے لوگوں سے فرمایا : ” کیا تم یہ بات پسند کرو گے میں تمہیں دکھائوں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کس طرح وضو کرتے تھے ؟ “ لوگوں نے اثبات میں جواب دیا، اس پر آپ نے برتن میں پانی منگوایا اور دائیں ہاتھ سے چلو بھر کر کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا۔ پھر ایک چلو پانی لے کر دایاں ہاتھ دھو لیا پھر ایک چلو لے کر بایاں ہاتھ دھولیا (تا آخر حدیث) اس روایت کے مطابق حضرت ابن عباس (رض) نے دونوں ہاتھ دھونے سے پہلے انہیں برتن میں داخل کردیا۔ یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ برتن میں ہاتھ داخل کرنے سے پہلے انہیں دھولینا مستحب ہے۔ واجب نہیں ہے حضرت علی (رض) اور حضرت ابوہریرہ (رض) کی روایتوں میں ہاتھ پہلے دھونے کا جو ذکر ہے وہ استحباب پر محمول ہے بلکہ حضرت ابوہریرہ (رض) کی روایت تو واضح طور سے اس پر دلالت کرتی ہے کہ اس سے ایجاب مراد نہیں ہے۔ صرف اس بات سے احتیاط کا ارادہ کیا گیا تھا کہ کہیں اس کا ہاتھ استنجا کی جگہ پر نہ پڑگیا ہو۔ یہ چیز حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس قول سے واضح ہے کہ (فانہ لایدری این باتت یدہ) (a) اس میں آپ نے یہ بتایا کہ نجاست کا ہاتھ میں لگ جانا کوئی یقینی امر نہیں ہے۔ یہ بات تو معلوم ہی ہے کہ نیند سے پہلے اس کا ہاتھ پاک تھا۔ اس لئے اسے اس کے اصل پر رکھتے ہوئے پاک تسلیم کیا جائے گا جس طرح اس شخص کو باوضو تسلیم کیا ج اتا ہے جسے اپنے وضو کے ہونے کا یقین ہوتا ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے یہ حکم دیا کہ شک پیدا ہوجانے کی صورت میں طہارت کے یقینی امر پر بنا کرے اور شک کا انعاء کردے۔ یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ نیند سے بیدار ہوکر برتن میں ہاتھ ڈالنے سے پہلے ہاتھ دھولینے کا حکم آپ نے استحباب کے طور پر دیا تھا۔ یہ حکم وجوب کے طور پر نہیں تھا۔ ابراہیم نخعی نے بیان کیا ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کے رفقاء کے سامنے جب حضرت ابوہریرہ (رض) کی یہ روایت بیان ہوتی، یعنی ایک شخص جب نیند سے بیدار ہو تو برتن میں اپنا ہاتھ ڈالنے سے پہلے اسے دھولے، تو وہ کہتے ابوہریرہ (رض) تو بہت زیادہ باتونی تھے وہ اوکھلی (پتھ کا بنا ہوا برتن جس کے اندرکافی پانی کی گنجائش ہوتی ہے) کی صورت میں کیا کرتے ہوں گے (یعنی اوکھلی کو جھکا کر پانی انڈیلنا تو ناممکن تھا پھر وہ پہلے ہاتھ کیسے دھوتے ہوں گے) اشجعی نے بھی حضرت ابوہریرہ (رض) سے یہ بات پوچھی تھی کہ حضرت ! اوکھلی کی صورت میں آپ کیا کریں گے ؟ ” تو انہوں نے جواب میں فرمایا تھا : ” میں جال اور پھندے سے اللہ کی پناہ میں آتا ہوں۔ “ حضرت ابن مسعود (رض) کے رفقاء نے حضرت ابوہریرہ (رض) کی جس بات کو ناپسند کیا تھا وہ ان کا یہ عقیدہ تھا کہ وضو شروع کرنے سے پہلے اور برتن میں ہاتھ ڈالنے سے قبل ہاتھ دھونا واجب ہے۔ اس لئے کہ یہ بات سب کو معلوم تھی کہ مدینہ منورہ میں جو اوکھلی یا بطائولی تھی اس سے سب لوگ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں اور آپ کے بعد بھی وضو کرتے تھے لیکن کسی شخص نے وہاں وضو کرنے سے منع نہیں کیا جبکہ اس سے وضو ہاتھ ڈال کر ہی کیا جاسکتا تھا۔ اس لئے حضرت عبداللہ (رض) کے رفقاء نے اس اعتقاد کو ناپسند کیا کہ پہلے ہاتھ دھونا واجب ہے حالانکہ لوگ اس اوکھلی میں ہاتھ ڈال ڈا لکر چلو بھرتے تھے اور کوئی کسی کو اس سے روکتا نہیں تھا۔ حضرت عبداللہ (رض) کے رفقاء نے ہمارے خیال کے مطابق روایت کا انکار نہیں کیا تھا صرف وجوب کے اعتقاد کو ناپسند کیا تھا۔ کانوں کا مسح دونوں کان کے مسح کے بارے میں اختلاف رائے ہے۔ ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ کانوں کا تعلق سر کے ساتھ ہے اس لئے سر کے مسح کے ساتھ ان دونوں کا بھی مسح کیا جائے گا۔ امام مالک، ثوری (رح) اور اوزاعی کا بھی یہی قول ہے۔ امام مالک سے اشہب نے یہ روایت کی ہے۔ ابن القاسم نے بھی امام مالک سے یہی روایت کی ہے لیکن اس میں یہ اضافہ کیا ہے کہ ان دونوں کا نئے پانی سے مسح کیا جائے گا۔ حسن بن صالح نے کہا ہے کہ کانوں کا نچلا حصہ چہرے کے ساتھ دھویا جائے گا اور اوپر کے حصے کا سر کے ساتھ مسح کیا جائے گا۔ امام شافعی کا قول ہے کہ نئے پانی کے ساتھ ان دونوں کا مسح کیا جائے گا۔ ان دونوں کا مسح الگ سنت کے طور پر مستقلاً کیا جائے گا۔ ان کا تعلق نہ تو چہرے کے ساتھ ہے اور نہ ہی سر کے ساتھ۔ اس بات کی دلیل کہ دونوں کانوں کا سر کے ساتھ تعلق ہے اور سر کے مسح کے ساتھ ان کا بھی مسح کیا جائے گا۔ وہ روایت ہے جو ہمیں عبید اللہ بن الحسین نے بیان کی ہے۔ انہیں ابو مسلمہ نے، انہیں ابو عمر نے حماد بن یزید سے، انہوں نے سنان بن ربیعہ سے، انہوں نے شہر بن حوشب سے، انہوں نے حضرت ابو امامہ (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وضو کیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تین دفعہ اپنے کف دست دھوئے، پھر اپنا چہرہ مبارک اور اپنے بازو تین تین دفعہ دھوئے پھر سر اور کانوں کا مسح کیا اور فرمایا (الا ذنان من الراس (a) دونوں کانوں کا سر کے ساتھ تعلق ہے۔ ہمیں عبدالباقی بن قانع نے حدیث سنائی۔ انہیں احمد بن النفر بن بحر نے، انہیں عامر بن سنان نے، انہیں زیاد بن علاقہ نے عبدالحکم سے، انہوں نے حضرت انس بن مالک سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (الاذنان من الراس ما اقبل منھما وما ادبر۔ (a) دونوں کانوں کا سر کے ساتھ تعلق ہے ان کے سامنے کا حصہ بھی اور ان کا پچھلا حصہ بھی) حضرت ابن عباس (رض) اور حضرت ابوہریرہ (رض) نے بھی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہی روایت کی ہے پہلی حدیث ہمارے اصحاب کے قول پر دو وجوہ سے دلالت کرتی ہے۔ پہلی وجہ تو یہ ہے کہ حضرت ابو امامہ (رض) نے یہ بیان کیا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے سر اور کانوں کا مسح کیا۔ یہ اس بات کی مقتضی ہے کہ آپ نے ایک ہی پانی سے دونوں کا مسح کیا تھا اس لئے کسی روایت کے بغیر نئے پانی کے اثبات کا کوئی جواز نہیں ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (الاذنان من الراس) (a) اس ارشاد سے آپ کی مراد یا تو یہ تھی کہ آپ ہمیں سر کے ساتھ لگے ہوئے کانوں کا موقع و محل بتانا چاہتے تھے یا آپ کی مراد یہ تھی کہ کان سر کے تابع ہیں اور سر کے ساتھ ان کا بھی مسح کیا جاتا ہے۔ پہلی صورت تو اس لئے درست نہیں ہے کہ یہ بات واضح اور بین ہے اور مشاہدہ کی بنا پر سب کو معلوم ہے۔ دوسری طرف حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کلام فائدے سے خالی نہیں ہوتا اور ظاہر ہے کہ ایک معلوم اور واضح چیز کا موقع و محل بتانا بےفائدہ ہوتا ہے۔ اس لئے یہ بات ثابت ہوگئی کہ دوسری صورت مراد ہے۔ اگریہ کہا جائے کہ ممکن ہے کہ آپ یہ بتانا چاہتے ہوں کہ سر کی طرح کانوں کا مسح کیا جاتا ہے تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ بات درست نہیں ہے اس لئے کہ سر اور کان دونوں کو ایک حکم کے تحت اکٹھا کردینا اس حکم کے اطلاق کا موجب نہیں ہے کہ یہ دونوں سر کا حصہ ہیں۔ آپ نہیں دیکھتے کہ یہ کہنا درست نہیں ہے ٹانگیں چہرے کا حصہ ہیں اس لئے کہ ان دونوں کو بھی چہرے کی طرح دھویا جاتا ہے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ آپ کے ارشاد (الاذنان من الراس) (a) سے مراد یہ ہے کہ کان سر کے جز کی طرح ہیں اور اس کے تابع ہیں۔ اسے ایک اور جہت سے دیکھا جائے۔ وہ یہ کہ حرف ’ من ‘ (a) تبعیض کے لئے آتا ہے الا (a) یہ کہ کسی اور معنی کے لئے کوئی دلالت قائم ہوجائے۔ اس بنا پر آپ کے ارشاد (الاذنان من الرأس) (a) کے حقیقی معنی یہ ہوں گے کہ دنوں سر کا بعض یعنی حصہ ہیں۔ اگر یہ بات اس طرح ہوجائے تو یہ واجب ہوگا کہ سر کے ساتھ ان دونوں کا ایک ہی پانی سے مسح کیا جائے گا جس طرح سر کے تمام ابعاض یعنی حصوں کا ایک ہی پانی سے مسح کیا جاتا ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ مروی ہے کہ آپ نے فرمایا (اذا مسح المتوضی برأسہ خرجت خطایاہ من رأسہ حتی تخرج من تحت اذنیہ۔ واذا غسل وجھہ خرجت خطایاہ من تحت اشفار عینیہ۔ (a) جب وضو کرنے والا اسے سر کا مسح کرتا ہے تو اس کے گناہ سر سے نکل کر اس کے کانوں کے نیچے سے جھڑ جاتے ہیں اور جب وہ اپنا چہرہ دھوتا ہے تو اس کے گناہ اس کی آنکھوں کی پلکوں کے نیچے سے خارج ہوجاتے ہیں) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دونوں کانوں کی سر کی طرف اضافت کی جس طرح آنکھوں کو چہرے کا حصہ قرار دیا۔ اگر یہ کہا جائے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا : ” دس باتیں فطرت یعنی سنت سے تعلق رکھتی ہیں، ان میں سے پانچ سر کے اندر ہیں۔ “ آپ نے اس ضمن میں مضمضہ اور استنشاق کا ذکر فرمایا لیکن اس سے یہ دلالت حاصل نہیں ہوئی کہ یہ دونوں باتیں سر کے حکم میں داخل ہیں۔ یہی بات آپ کے ارشاد (الاذنان من الرأس) (a) کے اندر بھی پائی جاتی ہے اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ نہیں فرمایا کہ منہ اور ناک سر میں سے ہیں۔ بلکہ صرف یہ فرمایا : ” پانچ باتیں سر کے اندر ہیں۔ “ اور پھر سر کے اندر کی جانے والی ان پانچ باتوں کو بیان کردیا۔ ہم یہ کہتے ہیں ان سب کا مجموعہ سر کہلاتا ہے اور ہمارا قول ہے کہ آنکھیں بھی سر کے اندر ہیں۔ اسی طرح منہ اور ناک بھی سر کے اندر ہیں۔ ارشاد باری ہے (لووا رئوسھم۔ (a) اپنے سر پھیر لیتے ہیں) اس سے مراد ان تمام کا مجموعہ ہے۔ علاوہ ازیں معترض نے جو نکتہ اٹھایا ہے وہ ہمارے حق میں جاتا ہے اس لئے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب اس عضو کو سرکا نام دیا جو اس مجموعے پر مشتمل ہے تو کانوں کا سر میں سے ہونا ضروری ہوگیا۔ کیونکہ یہ مجموعہ دونوں کانوں پر بھی مشتمل ہے اور یہ کہ دلالت کے بغیر اس مجموعے میں سے کوئی چیز خارج نہیں کی جاسکتی۔ جب اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا (وامسحو برئوسکم) (a) اور یہ بات معلوم تھی کہ اس سے چہرہ مراد نہیں ہے اگرچہ وہ سر کے اندر ہے بلکہ اس سے مراد صرف وہ حصہ ہے جو کانوں سے اوپر اوپر ہے۔ پھر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (الاذنان من الرأس) (a) اس ارشاد کے ذریعے یہ بات بتلادی گئی کہ کانوں کا اس سر سے تعلق ہے جس کا مسح کیا جاتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے کہ آپ نے کانوں کے مسح کے لئے نیا پانی لیا تھا۔ الربیع بنت معوذ (رض) نے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سر اور کنپٹیوں کا مسح کیا۔ یہ چیز کانوں کے مسح کے لئے نیا پانی لینے کی مقتضی ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ معترض کا یہ کہنا کہ آپ نے کانوں کے لئے نیا پانی لیا ہوگا تو یہ ایسی بات ہے جس کے متعلق ہمیں یہ معلوم نہیں ہے کہ کسی قابل اعتماد ذریعے سے مروی ہوئی ہو۔ اگر یہ بات درست بھی تسلیم کرلی جائے تو معترض کے قول پر اس کی دلالت نہیں ہوسکتی اس لئے کہ اگر کانوں کا سر کے ساتھ تعلق ہے تو آپ نے نئے سرے سے جو پانی لیا تھا یہ وہی پانی ہوسکتا ہے جو آپ نے سارے سر کے مسح کے لئے لیا ہوگا۔ اس صورت میں کہنے والے کے ان دونوں قول میں کوئی فرق نہیں ہوگا کہ آپ نے دونوں کانوں کے لئے نیا پانی لیا تھا اور آپ نے سر کے لئے نیا پانی لیا تھا جبکہ دونوں کانوں کا سر کے ساتھ تعلق ہے اور سر کے لئے لیا ہوا پانی کانوں کے لئے بھی کافی ہو۔۔ الربیع بنت معوذ کے اس قول میں کہ آپ نے سر کا مسح کیا پھر کانوں کا مسح کیا۔ اس بات پر کوئی دلالت نہیں ہے کہ آپ نے کانوں کے لئے نئے سرے سے پانی لیا تھا اس لئے کہ مسح کا ذکر کانوں کے لئے پانی کی تجدید کا مقتضی نہیں ہے کیونکہ مسح کا اسم پانی نہ ہونے کی صورت میں بھی اس عمل پر واقع ہوتا ہے۔ یہ روایت اس روایت کی طرح ہے جس میں یہ ذکر ہے کہ آپ نے دو دفعہ ایک ہی پانی سے سر کا اس طرح مسح کیا کہ دونوں ہتھیلیوں کو پیچھے سے آگے کی طرف لے آئے اور پھر انہیں پیچھے کی طرف لے گئے۔ اس سے ہمیں یہ معلوم ہوگیا کہ آپ ہتھیلیوں کو آگے کی طرف اور پھر پیچھے کی طرف لے گئے اور اس عمل سے پانی کی تجدید واجب نہیں ہوئی۔ اسی طرح کانوں کا معاملہ تھا کیونکہ بیک وقت سر کے ساتھ کانوں کا مسح ممکن نہیں ہے۔ جس طرح سر کے اگلے اور پچھلے حصوں کا بیک وقت مسح ممکن نہیں۔ اس لئے سر کے مسح کے بعد کانوں کے مسح کے ذکر کی اس بات پر کوئی دلالت نہیں ہے کہ ان کے لئے نیا پانی لیا گیا ہوگا اور سر اس میں شامل نہیں ہوا ہوگا۔ اگر مخالفین حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اس روایت سے استدلال کریں جس کے مطابق سجدے کی حالت میں یہ فرمایا کرتے تھے (سجدو جھی للذی خلقہ وشق سمعہ وبصرہ (a) میرا چہرہ اس ذات کے سامنے سجدہ ریز ہوگیا جس نے اسے پیدا کیا اور اس میں سمع و بصہ یعنی سننے اور دیکھنے کی راہیں پیدا کیں) آپ نے سمع کو چہرے میں سے قرار دیا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وجہ سے وہ عضو مراد نہیں لیا جو اس نام سے موسوم ہے بلکہ آپ کی مراد یہ ہے کہ انسان کا سراپا اللہ کے آگے سجدہ ریز ہوتا ہے صرف چہرہ نہیں۔ جس طرح یہ ارشاد باری ہے (کل شیء ھالک الا وجھہ (a) ہر چیز ہلاک ہونے والی ہے مگر اس کا چہرہ) اس سے مراد ذات باری ہے۔ نیز حدیث میں سمع کا ذکر ہے اور کان سمع نہیں ہیں اس لئے اس میں کانوں کے حکم پر کوئی دلالت نہیں ہے۔ شاعر کا قول ہے : الی ھامۃ قد وقر الضرب سمعھا ولیست کا خری سمعھالم یوقر (a) ایسی کھوپڑی کی طرف جس کی سماعت کو ضرب نے بوجھل یا بہرا کردیا ہے اور یہ کھوپڑی کسی اور کھوپڑی کی طرح نہیں ہے جس کی سماعت کو بوجھل یا بہرا نہ کردیا گیا ہو۔ شاعر نے سمع کی اضافت کھوپڑی کی طرف کی ہے۔ سر کے ساتھ کانوں کا مسح تابع کے طور پر کیا جاتا ہے۔ اس پر یہ بات دلالت کرتی ہے کہ اصول کے لحاظ سے جو بھی مسنون ہوتا ہے وہ فرض مسح کے تابع کے طور پر کیا جاتا ہے۔ آپ دیکھتے نہیں کہ موزوں پر مسح کا سنت طریقہ یہ ہے کہ پائوں کی انگلیوں کے کناروں سے پنڈلی کی جڑ کی طرف مسح کیا جائے حالانکہ فرض مسح صرف اس کے ایک حصے کا ہوتا ہے یعنی ہمارے قول کے مطابق تین انگلیوں کی مقدار اور مخالفین کے قول کے مطابق اتنا حصہ جس پر مسح کے اسم کا اطلاق ہوسکتا ہو۔ عبد خیر نے حضرت علی (رض) سے روایت کی ہے آپ نے سر کے اگلے اور پچھلے حصے کا مسح کیا پھر فرمایا کہ تمہارے سامنے میں نے وضو کیا ہے یہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا وضو ہے۔ عبداللہ بن زید المازنی اور مقدام بن معدیکرب نے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دونوں ہاتھوں سے سر کا مسح کیا تھا۔ دونوں ہاتھوں کو آگے پیچھے لے گئے تھے۔ سر کے اگلے حصے سے ابتدا کی اور پھر دونوں ہاتھوں کو سر کے پچھلے حصے یعنی گدی تک لے گئے پھر انہیں اسی جگہ پر واپس لے آئے جہاں سے مسح کی ابتدا کی تھی۔ یہ بات تو معلوم ہے کہ قفا یعنی گدی فرض مسح کی جگہ نہیں ہے اس لئے کہ کانوں سے نیچے کی جانب کے مسح سے فرضیت کی ادائیگی نہیں ہوتی۔ آپ نے صرف فرض مسح کے تابع کے طور پر اس مقام کا مسح کیا تھا۔ اگر یہ کہا جائے کہ جب کان فرض مسح کی جگہیں نہیں ہیں تو منہ اور ناک کے اندرونی حصوں کے ساتھ ان کی مشابہت ہوگئی۔ اس لئے مضمضہ اور استنشاق کی طرح ان کے لئے بھی نیا پانی لیا جائے گا۔ اس لئے ان کا مسح مستقلاً الگ سنت کے طور پر ہوگا۔ گدی سر کے تابع ہے فرض مسح کی جگہ نہیں ہے اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ بات غلط ہے۔ اس لئے کہ گدی فرض مسح کی جگہ نہیں ہے لیکن حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تابع کے طور پر سر کے ساتھ اس کا بھی مسح کیا ہے۔ کانوں کا معاملہ بھی اسی طرح ہے۔ رہ گیا مضمضہ اور استنشاق تو ان میں سے ہر ایک اپنی جگہ سنت ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ منہ اور ناک کے اندرونی حصے کسی بھی صورت میں چہرے کا جز نہیں بنتے اس لئے یہ اس کے تابع نہیں قرار دیئے جائیں گے۔ اس لئے ان کی خاطر نئے سرے سے پانی لیا گیا۔ لیکن کان اور گدی چونکہ سب کے سب سر سے تعلق رکھتے ہیں اگر فرض مسح کے مواقع نہیں ہیں۔ اس لئے مسح کے اندر وہ سر کے تابع قرار پائے۔ اگر یہ کہا جائے کہ کانوں کا تعلق اگر سر کے ساتھ ہوتا تو احرام باندھنے والا شخص ان کا حلق کر ا کے احرام کھول دیتا نیز جب محرم احلال کے ارادے سے حلق کراتا تو سر کے ساتھ ان کا حلق بھی مسنون ہوتا اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ کانوں کا مونڈنا مسنون قرار نہیں دیا گیا اور انہیں مونڈنے پر احرام نہیں کھلتا۔ اس لئے کہ عادۃً کانوں میں بال نہیں ہوتے۔ حلق سر میں مسنون ہے جہاں عادۃً بال موجود ہوتے ہیں۔ چونکہ کانوں میں بال کا وجود شاذو نادر ہی ہوتا ہے اس لئے کانوں کے حلق کا حکم ساقط ہوگیا لیکن مسح کے سلسلے میں حکم ساقط نہیں ہوا نیز ہم تو اس بات کے قائل ہیں کہ کان سر کے تابع ہیں اصل اور مستقل نہیں ہیں جیسا کہ ہم پچھلے سطور میں بیان کر آئے ہیں۔ آپ نہیں دیکھتے کہ ہم سر کے بغیر صرف ان دونوں کے مسح کو جائز قرار نہیں دیتے۔ تو پھر ہم پر یہ کیسے لازم آسکتا ہے کہ ہم حلق کے اندر انہیں اصل اور مستقل قرار دیں۔ حسن بن صالح کا یہ قول کہ کانوں کے نچلے حصے چہرے کے ساتھ دھوئے جائیں گے اور اوپر والے حصوں کا سر کے ساتھ مسح کیا جائے گا ایک بلا وجہ بات ہے۔ اس لئے کہ اگر ان کے نچلے حصے غسل کے تحت آتے تو ان کا چہرے کے ساتھ تعلق ہوتا۔ پھر ان کا دھونا واجب ہوتا۔ پھر جب حسن بن صالح کانوں کے اوپر والے حصوں کا سر کے ساتھ مسح کے سلسلے میں ہمارے موافق ہیں تو اس سے یہ دلالت حاصل ہوئی کہ ان کا تعلق سر کے ساتھ ہے۔ نیز ہمیں کوئی عضو ایسا نہیں ملا کہ اس کا ایک حصہ چہرے کے ساتھ تعلق رکھتا ہو اور دوسرا حصہ سر کے ساتھ۔ ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے کانوں سے نچلے حصوں کا مسح کرے گا تو اس کا فرض مسح پورا نہیں ہوگا۔ اس لئے کہ یہ گدی سے تعلق رکھتے ہیں اور فرض مسح کے مقامات سے ان کا تعلق نہیں ہے۔ اس لئے ان کا مسح کافی نہیں ہوگا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اگر کسی شخص کے سر کے بال بڑھ کر کندھوں پر پڑ رہے ہوں اور وہ شخص سر کی بجائے ان بالوں کا مسح کرلے تو اس کا یہ مسح درست نہیں ہوگا اور سر کے مسح کی کفایت نہیں کرے گا۔ وضو کے عمل میں تفریق کرنے یعنی وقفہ ڈال کر ایک وضو مکمل کرنے کے متعلق فقہاء میں اختالاف رائے ہے۔ امام ابو حنیفہ، امام ابو یوسف، امام محمد، زفر، اوزاعی اور امام شافعی کا قول ہے کہ تفریق جائز ہے۔ ابن ابی لیلیٰ ، امام مالک، اور لیث بن سعد کا قول ہے کہ اگر اس نے وضو کی تکمیل میں طوالت اختیار کرلی یا وضو کے دوران کسی اور کام میں مشغول ہوگیا تو نئے سرے سے وضو شرع کرے گا۔ ہمارے قول کی صحت کی دلیل یہ قول باری ہے (فاغسلوا وجوھکم) (a) تا آخر آیت۔ آیت کی رو سے کوئی شخص اعضائے وضو کو دھونے کا عمل چاہے جس طرح بھی کرلے وہ فرض سے سبکدوش ہوجائے ا۔ اگر ہم پے در پے ادائیگی اور ترک تفریق کی شرط عائد کریں گے تو اس سے نص کے مفہوم میں اضافے کا اثبات لازم آئے گا جو اس کے نسخ کا باعث بنے گا۔ اس پر قول باری (ما یرید اللہ لیجعل علیکم من حرج ولکن یرید لیطھرکم (a) اللہ تعالیٰ نہیں چاہتا کہ تمہارے لئے کوئی تنگی پیدا ہوجائے لیکن وہ تمہیں پاک کرنا چاہتا ہے) حرج تنگی کو کہتے ہیں اللہ تعالیٰ نے یہ بتادیا کہ اس کا مقصد طہارت کا حصول اور تنگی کی نفی ہے۔ ہمارے مخالفین کے قول کے نتیجے میں حرج کا اثبات ہوتا ہے جو آیت میں مذکور طہارت کے وقوع پذیر ہونے کی صورت میں پیدا ہوجاتا ہے۔ اس پر قول باری (وینزل علیکم من السمآء ماء لیطھرکم (a) اور اللہ تعالیٰ تم پر آسمان سے پانی اتارتا ہے تاکہ وہ تمہیں پاک کردے) اس آیت میں یہ بتایا گیا کہ پانی کے ذریعے تطہیر ہوجاتی ہے۔ اس میں موالات کی کوئی شرط عائد نہیں کی گئی۔ اس لئے ظاہر آیت کی رو سے جس صورت میں بھی اسے استعمال کیا جائے گا یہ مطہر یعنی پاک کردینے والا بن جائے گا۔ (آیت نمبر 6 کی بقیہ تفسیر اگلی آیت کے ذیل میں ملاحظہ فرمائیں)  Show more

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٧) اللہ تعالیٰ اس احسان کو جو ایمان کے ذریعے تم پر ہوا ہے اور عہد کو جو میثاق کے دن تم سے لیا ہے محفوظ رکھو اور جن کاموں کا اللہ تعالیٰ نے تمہیں حکم دیا اور جن باتوں سے منع کیا ہے اس کی بجا آوری میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو۔ دلوں میں جو کچھ ہے، اس سے وہ بخوبی واقف ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٧ (وَاذْکُرُوْا نِعْمَۃَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ وَمِیْثَاقَہُ الَّذِیْ وَاثَقَکُمْ بِہٖٓ) ایک میثاق وہ تھا جو بنی اسرائیل سے لیا گیا تھا ‘ اب ایک میثاق یہ ہے جو اہل ایمان سے ہو رہا ہے۔ چونکہ یہ سورة شروع ہوئی تھی یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْآسے ‘ یعنی اہل ایمان سے خطاب ہے ‘ لہٰذا اس میثاق میں ب... ھی اہل ایمان ہی مخاطب ہیں۔ (اِذْ قُلْتُمْ سَمِعْنَا وَاَطَعْنَاز) سورۃ البقرۃ کی (آخری آیت سے پہلے والی آیت میں اہل ایمان کا یہ اقرار موجود ہے : (سَمِعْنَا وَاَطَعْنَاز غُفْرَانَکَ رَبَّنَا وَاِلَیْکَ الْمَصِیْرُ ) ۔ اب جو مسلمان بھی سَمِعْنَا وَاَطَعْنَاکہتا ہے وہ گویا ایک میثاق اور ایک ‘ بہت مضبوط معاہدے کے اندر اللہ تعالیٰ کے ساتھ بندھ جاتا ہے۔ یعنی اب اسے اللہ کی شریعت کی پابندی کرنی ہے۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

28. The 'favour' mentioned here denotes illuminating the Straight Way, and entrusting to the believers the task of guidance and leadership of the whole world.

سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :28 یعنی یہ نعمت کہ زندگی کی شاہراہ مستقیم تمہارے لیے روشن کر دی اور دنیا کی ہدایت و رہنمائی کی منصب پر تمہیں سرفراز کیا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

) 7 ۔ 10) ۔ اوپر تیمم کے حکم کو قابل شکر ایک نعمت فرما کر ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے اپنی عام نعمتوں اور احسانوں کو یاد دلایا ہے اور ان نعمتوں اور احسانوں کے شکریہ کا طریقہ بھی جتلایا ہے کہ ان نعمتوں اور احسانوں کے یاد کرنے کے وقت اس عہد کو یاد کیا کرو جو اللہ کے رسول کی معرفت تم نے اللہ تعالیٰ سے ... ٹھیرا کر اس عہد کو پورا کرنے کا پھر اقرار کیا ہے یہ عہد وہی بیعت اسلام کا معاہدہ ہے جو ہر مرد و عورت سے اسلام کے قبول کرنے کے وقت اللہ کے حکم سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ٹھیرایا کرتے تھے۔ شریعت میں جن باتوں کا حکم ہے رنج و خوشی ہر حال میں ان کے موافق عمل کرنے کا اور جان باتوں کی مناہی ہے ان سے بچنے کا یہ معاہدہ بیعت اسلام کے وقت ٹھیرایا جاتا تھا۔ صحیح بخاری و مسلم میں عبادہ بن صامت (رض) کی ایک بڑی حدیث ہے ١ ؎ جس میں اس معاہدہ کا تفصیل سے ذکر ہے۔ اگرچہ بعض مفسروں نے اس معاہدہ کی اور تفسیر بھی کی ہے لکنا جو تفسیر اوپر بیان کی گئی ہے وہ امام المفسرین حضرت عبد داللہ بن عباس (رض) کے قول کے موافق ہے ٢ ؎۔ اور حافظ ابو جعفر ابن جریر نے اسی تفسیر کو اور تفسیروں پر ترجیح دی ہے ٣ ؎۔ اس معاہدہ کے یاد لانے کے بعد فرمایا کہ اس معاہدہ پر قائم رہنے اور عہد شکنی کی نوبت نہ آنے دینے میں ہر ایمان دار کو چاہیے کہ اللہ سے ڈرتا رہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کو لوگوں کے دل تک کے بھید معلوم ہیں اس لئے معاہدہ پر قائم رہنے والوں کا عہد شکنی کی نوبت کو روانہ رکھنے والوں کا کوئی حال اس غیب دان سے چھپ نہیں سکتا۔ اسی معاہدہ کی تاکید میں فرمایا کہ شریعت میں اللہ اور اللہ کی مخلوق کے جو حقوق ٹھیرا چکے ہیں انصاف سے ادا کرنے میں ہر ایماندار کو ثابت قدم اور وقت پر تیار اور کھڑا ہونا چاہیے کہ یہی معاہدہ کے پورا کرنے کی باتیں ہیں۔ یہ بھی فرمایا کہ فتح مکہ سے پہلے اگرچہ کچھ لوگ ایسے بھی تھے کہ وہ تمام ایمان داروں کے دشمن تھے لیکن فتح مکہ کے بعد جب وہ بھی اسلام میں داخل ہوگئے تو اب اس پہلی دشمنی کا کچھ خیال دل میں نہ کھنا چاہیے بلکہ اب ان سے بھی ان کے موافق یا مخالف گواہی اور ان کے ہر ایک معاملہ میں وہی انصاف کا طریقہ برتنا چاہیے جو ایک مسلمان دوسرے مسلمان سے برتا کرتا ہے۔ کیونکہ یہی انصاف کا طریقہ متقی بننے کا ایک قریب تر راستہ ہے اس لئے اس طریقہ کے برخلاف کوئی راستہ اختیار کرنے سے خدا کا خوف کرنا چاہیے کہ وہ ہر شخص کے نیک و بد سب کاموں سے واقف ہے۔ صحح مسلم میں حضرت جابر (رض) کی ایک بہت بڑی حدیث ہے ١ ؎۔ جس میں حجۃ الوداع کے وقت مقام عرفات پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خطبہ کے ذکر میں یہ ہے کہ آپ نے فرمایا اہل مکہ کے اسلام کے بعد اسلام کے پہلے کے سب جھگڑے میں نے اپنے قدموں کے نیچے مل ڈالے جس کا مطلب یہ ہے کہ اسلام کے بعد اسلام سے پہلے کا کوئی جھگڑا کسی مسلمان کو نہ نکالنا چاہیے بلکہ اسلام کے بعد سب مسلم ان ایک دل ہو کرمیل جول سے رہیں۔ اب آگے نیکی کی جزا اور بدی کی سزا کا ذکر فرمایا تاکہ اس عہد پر قائم رہنے کی رغبت اور عہد شکنی کا خوف ہر ایمان دار شخص کے دل میں پیدا ہوجائے۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

میثاق۔ عہد۔ واثقکم بہ (جس کے پورا کرنے کے لئے) اس نے تم کو پابند کیا تھا۔ واثق مواثقۃ ووثاقا۔ کسی کو کسی معاہدہ کا پابند کرنا۔ وثاق۔ وثاق۔ جمع وثق۔ رسی۔ زنجیر۔ بندش ۔ اخلاقی بندش اس سے وثیقہ (اقرار نامہ۔ تحریری معاہدہ وغیرہ) اور وثیقہ نویس ہے

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

5۔ اس لیے جو کام کرو اس میں اخلاص و اعتقاد بھی ہونا چاہیے صرف منافقانہ امتثال کافی نہیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : دین اسلام کی تکمیل، حلال چیزوں کی فہرست میں وسعت و کشادگی، پاکیزگی کے احکامات، نعمتوں کی یاد دہانی کے بعد وہ عہد یاد کروایا ہے جو انسانیت نے اللہ تعالیٰ کی جناب میں اپنی تخلیق کے وقت کیا تھا، کلمۂ طیبہ اس عہد کی تائید ہے کیونکہ انسان اس میں یہ اقرار کرتا ہے کہ میں اللہ تعالیٰ ... کے سوا کسی کو اس کی عبادت اور اس کے حکم میں شریک نہیں کروں گا۔ وہی عبادت کے لائق اور احکم الحاکمین ہے بندہ اس میں یہ بھی اقرار کرتا ہے کہ میرے قائد اور پیشوا حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔ میں انہی کے فرمان اور طریقہ کے مطابق اللہ تعالیٰ کی عبادت اور زندگی کے تمام معاملات طے کرتا رہوں گا۔ مفسرین نے اس عہد سے مرادصحابہ کا صلح حدیبیہ کا عہد بھی لیا ہے۔ انسان جو بھی اللہ تعالیٰ سے عہد کرتا ہے اسے ہر حال میں پورا کرنا اور اس پر سختی کے ساتھ کاربند رہنا چاہیے۔ عہد کی پاسداری کے لیے یہاں دو چیزیں بیان کی گئی ہیں ایک اللہ تعالیٰ کا خوف اس کے بغیر صحیح معنوں میں نہ آدمی صالح کردار ہوسکتا ہے اور نہ ہی کسی عہد کی پاسداری کرسکتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ فرمایا یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ دلوں میں پیدا ہونے والے خیالات سے پوری طرح واقف ہے جس کا معنی یہ ہے کہ تمہارا ظاہر اور باطن ایسا ہونا چاہیے کہ جس پر خدا خوفی کے اثرات نمایاں طور پر دکھائی دیں۔ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو یاد رکھنے والا اور اس کا تقوٰی اختیار کرنے والا ہی اپنے عہد کی پاسداری کیا کرتا ہے۔ (عَنْ عُبَادَۃَ بْنَ الصَّامِتِ (رض) یَقُولُ قَالَ لَنَا رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وَنَحْنُ فِی مَجْلِسٍ تُبَایِعُونِی عَلٰی أَنْ لَا تُشْرِکُوا باللّٰہِ شَیْءًا وَلَا تَسْرِقُوا وَلَا تَزْنُوا وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَکُمْ وَلَا تَأْتُوا بِبُہْتَانٍ تَفْتَرُونَہُ بَیْنَ أَیْدِیکُمْ وَأَرْجُلِکُمْ وَلَا تَعْصُوا فِی مَعْرُوفٍ فَمَنْ وَفٰی مِنْکُمْ فَأَجْرُہُ عَلَی اللّٰہِ وَمَنْ أَصَابَ مِنْ ذٰلِکَ شَیْءًا فَعُوقِبَ فِی الدُّنْیَا فَہُوَ کَفَّارَۃٌ لَہُ وَمَنْ أَصَابَ مِنْ ذٰلِکَ شَیْءًا فَسَتَرَہُ اللّٰہُ فَأَمْرُہُ إِلَی اللّٰہِ إِنْ شَاءَ عَاقَبَہُ وَإِنْ شَاءَ عَفَا عَنْہُ فَبَایَعْنَاہُ عَلٰی ذٰلِکَ )[ رواہ البخاری : باب بَیْعَۃِ النِّسَاءِ ] ” حضرت عبادہ بن صامت (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں ایک مجلس کے دوران فرمایا کہ تم ان باتوں پر میری بیعت کرو کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور نہ تم چوری اور نہ ہی زنا کرو۔ اور اپنی اولاد کو قتل نہ کرو اور تم کسی پر من گھڑت بہتان نہ باندھو۔ اور نہ ہی نیکی کے کاموں میں نافرمانی کرو۔ جس نے اس بیعت کی پاسداری کی اس کا اجر اللہ تعالیٰ کے ذمّہ ہے جس کسی نے ان باتوں کا ارتکاب کیا اللہ تعالیٰ اس کو دنیا میں سزا دے گا جو اس کے لیے کفارہ ہوگا۔ جس نے ان گناہوں کا ارتکاب کیا اور اللہ تعالیٰ نے اس کے گناہوں پر پردہ ڈال دیا تو اس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے چاہے سزا دے اور چاہے تو اس سے درگزر فرمائے۔ ہم سب نے اس پر بیعت کی۔ “ جب رسول محترم گفتگو فرماتے تو وہ خاموشی کے ساتھ سنتے۔ اور تعظیم کی بنا پر آپ کی طرف نظر اٹھا کر نہ بات کرتے۔ مکہ والوں کا نمائندہ عروہ بن مسعود اپنے ساتھیوں کی طرف پلٹا تو کہا اے میری قوم میں وفود کے ساتھ بادشاہوں کے پاس گیا۔ مجھے قیصر و کسریٰ اور نجاشی کے دربار میں بھی جانے کا موقع ملا مگر اللہ کی قسم جتنی عزت و تعظیم محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھی اس کی کرتے ہیں کسی بادشاہ کی رعایا اتنی تعظیم اس کی نہیں کرتی۔ اللہ کی قسم وہ تھوک نہیں پھینکتے مگر وہ اس کے ساتھیوں کے ہتھیلیوں میں گرتی ہے اور وہ اسے اپنے چہروں اور جسم کے ساتھ مل لیتے اور جب وہ کسی کام کا حکم دیتے ہیں تو وہ اس کی تعمیل میں جلدی کرتے ہیں اور جب وہ وضو کرتے ہیں تو قریب ہے کہ اس کے ساتھی اس کے وضو کے پانی پر لڑ پڑیں اور جب وہ کلام کرتا ہے تو وہ اپنی آوازوں کو پست کرلیتے ہیں اور آپ کی طرف آپ کی عظمت کی وجہ سے نگاہ نہیں اٹھاتے اور تحقیق اس نے تمہارے سامنے ایک عظیم چیز پیش کی ہے اسے قبول کرلو۔ “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کی نعمتیں ہر وقت یاد رکھنی چاہییں۔ ٢۔ وعدوں کی پاسداری کرنی چاہیے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ دلوں کے بھید جانتا ہے تفسیر بالقرآن تقویٰ کیا ہے ؟ ١۔ جنگ اور مصیبتوں میں صبر اختیار کرنا سچ بولنا تقوٰی ہے۔ (البقرۃ : ١٧٧) ٢۔ حلال روزی کھانا، اللہ پر ایمان لانا اور اس سے ڈرنا تقوٰی ہے۔ (المائدۃ : ٨٨) ٣۔ اپنے اہل و عیال کو نماز کا حکم دینا اور اس پر قائم رہنا تقوٰی ہے۔ (طٰہٰ : ١٣٢) ٤۔ شعائر اللہ کا احترام کرنا تقویٰ ہے۔ (الحج : ٣٢) ٥۔ حج کے سفر میں زاد راہ لینا تقوٰی ہے۔ (البقرۃ : ١٩٧)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(آیت) ” نمبر ٧۔ جن لوگوں کو سب سے پہلے قرآن نے خطاب کیا تھا وہ اس دین کی قدروقیمت کو اچھی طرح جانتے تھے جیسا کہ اس سے پہلے ہم کہہ آئے ہیں اس لئے کہ وہ اس دین کی حقیقت اپنی ذات اور شخصیت کے اندر زندہ طور پر دیکھ رہے تھے ۔ یہ دین ان کی زندگی ‘ ان کی سوسائٹی اور ان کے اردگرد پوری بشریت میں اس کے مقام ... کے حوالے سے ان کی آنکھوں کے سامنے تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ اس قسمت کی طرف صرف اشارہ ہی ان کے لئے کافی تھا ۔ جس کی وجہ سے وہ بسہولت اس عظیم حقیقت کی طرف متوجہ ہو سکتے تھے جو ان کی زندگی اور ماحول میں موجود تھی ۔ اسی طرح اس میں اس میثاق کی طرف اشارہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے ان سے لیا تھا ۔ اور یہاں اس کی طرف اس لئے اشارہ کیا گیا کہ یہ بھی ایک واضح حقیقت تھی جسے وہ جانتے تھے اور اس پر وہ بہت فخر کرتے تھے ۔ اس معاہدے کا فریق اول اللہ تھا ۔ اور فریق دوئم وہ تھے اور یہ بات ان کے لئے نہایت ہی قابل قدر اور قابل عزت تھی ‘ اور یہ بات نہایت عظیم تھی اور وہ اس کی اہمیت اور حقیقت سے اچھی طرح واقف تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو خدا ترسی کے حوالے کرتے ہیں اور دل کے اندر اللہ کے خوف کا احساس کرنے اور خفیہ خطرات کے مقابلے میں ان کو بیدار کیا جاتا ہے ۔ (آیت) ” واتقوا اللہ ان اللہ خبیر بما تعملون “ (اللہ سے ڈرو ‘ اللہ ان باتوں سے خبردار ہے جو تم کرتے ہو) انداز تعبیر (آیت) ” بذات الصدور “۔ (٥ : ٧) باتصویر اور مفہوم کو تیزی سے منتقل کرنے والی ہے ۔ مناسب ہوگا کہ اس میں جو خوبصورتی ‘ معنی خیزی اور گہرائی ہے اس کی طرف اشارہ کیا جائے ۔ ذات الصدور کا مفہوم عربی میں ” دلوں کی مالکہ “ جو دلوں میں چسپاں ہو ‘ کنایتہ مراد وہ خفیہ جذبات ہیں جو دلوں میں پوشیدہ ہوتے ہیں ۔ پوشیدہ میلانات ‘ دلوں کے خلجان ‘ خفیہ راز ایسے راز جو دلوں کے ساتھ چسپاں ہیں۔ یہ خفیہ راز بھی اللہ کے سامنے بالکل کھلے ہیں ۔ اس لئے کہ وہ دلوں میں چھپی باتوں کا بھی جاننے والا ہے ۔ وہ عہد جو اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ سے لیا ہے ‘ اس میں یہ بات بھی ہے کہ یہ امت پوری انسانیت کے لئے عدل و انصاف کی نگران ہوگی ۔ ایسا انصاف کہ اس کے ترازو کا کوئی پلڑا دوستی اور دشمنی کی وجہ سے جھک نہ جائے ، اس پر رشتہ داری اور خواہشات نفسانیہ کے اثرات بھی نہ ہوں اور نہ وہ کسی مصلحت سے متاثر ہو ۔ یہ عدل صرف ذات باری کی رضا کے لئے ہو اور اس میں انصاف کرنے والا موثرات دنیا میں سے کسی موثر سے اثر نہ لے اور یہ انصاف اس شعور کے تحت ہو کہ اللہ رقیب اور نگہبان ہے اور خفیہ ترین گوشوں سے باخبر ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ کی پکار یہ ہے ۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اللہ کی نعمتوں کو یاد کرو پھر فرمایا (وَ اذْکُرُوْا نِعْمَۃَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ ) کہ اللہ کی نعمتوں کو یاد کرو جن سے اس نے تمہیں نوازا ہے یہ نعمتیں ظاہری بھی ہیں اور باطنی بھی، جسمانی بھی ہیں اور روحانی بھی، مزید فرمایا (وَ مِیْثَاقَہُ الَّذِیْ وَاثَقَکُمْ بِہٖٓ) کہ اللہ کے عہد کو یاد کرو جو تم نے ... مضبوطی کے ساتھ عہد کیا جب تم سے عہد لیا تو تم نے (سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا) کہہ کر پکا اور مضبوط عہد کرلیا۔ صاحب روح المعانی ج ٦ ص ٨ لکھتے ہیں اس سے وہ عہد مراد ہے جو ١٣ نبوی میں لیلتہ العقبہ کے موقع پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لیا تھا جو حضرت عبادہ بن صامت (رض) کی روایت میں مذکور ہے حضرت عبادہ بن صامت (رض) نے بیان فرمایا کہ ہم نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس پر بیعت کی کہ ہم بات سنیں گے اور فرماں برداری کریں گے۔ آسانی میں بھی اور سختی میں بھی، خوشی میں بھی اور ناگواری میں بھی (یعنی کوئی حکم نفسوں کو نا گوار ہوگا تب بھی عمل کریں گے) ۔ (اخرجہ مسلم ج ٢ ص ١٢٥) اس کے بعد صاحب روح المعانی لکھتے ہیں کہ میثاق مذکور سے بیعت رضوان بھی مراد ہوسکتی ہے جو حدیبیہ کے موقع پر ہوئی تھی (جس کا ذکر سورة فتح کے تیسرے رکوع کے شروع میں ہے) پھر لکھتے ہیں کہ چونکہ یہ بیعت اللہ کی طرف سے تھی اگرچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھ پر تھی اس لئے اس میثاق کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف فرمائی کمابہ نطق قولہ تعالیٰ (اِنَّ الَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَکَ اِنَّمَا یُبَایِعُوْنَ اللّٰہَ ) چونکہ ہر مسلمان جب توحید اور رسالت پر ایمان لانے کا اقرار کرتا ہے تو ہر بات کے ماننے اور حکم کے تسلیم کرنے کا اعلان کردیتا ہے۔ اس لیے میثاق مذکور سے تمام مسلمانوں کا توحید و رسالت کا اقرار اور اعلان مراد لینا مناسب ہے اور یہ اقرار ہی پختہ عہد ہے لہٰذا لیلتہ العقبتہ یا حدیبیہ کے موقع پر بیعت مراد لینے لی ضرورت نہیں ہے۔ آخر میں فرمایا کہ (وَ اتَّقُوا اللّٰہ) کہ (اللہ سے ڈرو) اس کی نعمتوں کو نہ بھول جاؤ اور اس سے جو پختہ عہد کیا ہے اسے نہ توڑو۔ (اِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ بِذَات الصُّدُوْرِ ) (بلاشبہ اللہ تعالیٰ سینوں کی اندر کی چیزوں کو جانتا ہے) اسے ظاہری اعمال کا بھی علم ہے اور دلوں کے ارادوں اور نیتوں کی بھی اسے خبر ہے وہ حساب لے گا اور بدلہ دے گا۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

29 امر مصلح کے بعد سورت کے ابتدائی مضمون یعنی اَوْفُوْا بِالْعُقُوْدِ کا اعادہ فرمایا پہلے بطور تمہید اپنی نعمت کی یاد دہانی کرائی۔ نعمت سے نعمت اسلام مراد ہے۔ وھی نعمۃ الاسلام (روح ج 6 ص 82 ابو السعود ج 3 ص 530) اسلام اللہ کی سب سے بڑی نعمت ہے کیونکہ تمام بنی آدم کی دینی اور دنیوی بہبود اور بہتری ا... سی سے وابستہ ہے وَمِیْثَاقَہ الخ اس سے وہی عہد و میثاق مراد ہے جو ہر مسلمان اللہ کے حدود و احکام اس کے فرائض و واجبات اور اس کے حلال و حرام کو بجا لانے کے لیے اللہ سے باندھتا ہے۔ یہ آیت قرینہ کہ اَوْفُوْا بِالْعُقُوْدِ سے تمام احکام و حدود کی پابندی مراد ہے۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 2 اور تم لوگ اللہ تعالیٰ کے ان احسانات کو یاد کرو جو اس نے تم پر کئے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے اس عہد کو بھی یاد کرو جس کا اس نے تم سے اس وقت پختہ قول لیا تھا جب کہ تم نے کہا تھا ہم نے سنا اور مان لیا اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ دل کی پوشیدہ باتوں تک سے بخوبی واقف ہے (تیسیر) اللہ تع... الیٰ کے بیشمار احسانات اور اس کی بےانتہا نعمتیں ہیں انہی نعمتوں میں سے یہ نعمت بھی ہے کہ اس نے تمہارے شرعی احکام کی تکمیل کردی تمہارے دین میں آسانیاں رکھیں دینی اور دنیوی فلاح و بہبود کے طریقے تعلیم کئے اور دنیا کی ہدایت و رہنمائی کے منصب پر تم کو فائز کیا عہد جس کا تم سے پختہ قول لیا یا تو وہی فطری عہد ہے جس کو ہم بار ہا کہہ چکے ہیں اور جس کو محسن کی اطاعت و فرمانبرداری کا عہد ہم نے بتایا ہے خواہ کوئی عہد نامہ لکھا جائے یا نہ لکھا جائے اور اقرار لیا جائے یا نہ لیا جائے اور خواہ سمعنا اور اطعنا کے الفاظ کہے جائیں یا نہ کہے جائیں کیوں کہ جب کوئی شخص کسی جہت سے بھی فرماں برداری کا ذمہ دار بن جائے تو التزاماً اس کا اقرار ہوجاتا ہے کہ اس نے سمع و اطاعت کا قول کرلیا اور ہوسکتا ہے کہ اس میثاق سے مراد عہد الست ہو اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اسلام لاتے وقت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سیبیعت کرنے کو عہد فرمایا ہو کیونکہ اسلام پر بیعت کرنا تمام احکام شرعیہ پر سمع و اطاعت ہوتا ہے اور ہوسکتا ہے کہ لیلتہ عقبہ کا عہد مراد ہو اور ہوسکتا ہے کہ بیعت رضوان کی جانب اشارہ ہو جو حدیبیہ میں لی گئی تھی لیلتہ عقبہ میں چونکہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیعت لیتے وقت سمع و اطاعت کے الفاظ فرمائے تھے اور یہ اشارہ فرمایا تھ کہ ہر مصیبت و راحت میں سمع و اطاعت کا پابند رہنا ہوگا۔ اس لئے عام مفسرین کا رجحان یہی ہے کہ اس عہد سے لیلتہ عقبہ کا عہد مراد ہے جس کی تفصیل بخاری و مسلم میں مذکور ہے ۔ (واللہ اعلم) بہرحال ! عہد کی پابندی سے مقصد لے کر احکام شرعیہ کی تعمیل کرو اور امتثال امر بجا لائو واتقوا اللہ کا مطلب یہ کہ اللہ تعالیٰ کی مخالفت سے بچتے رہو یعنی پہلے جملے میں او امر کی تعمیل اور دوسرے جملے میں نواہی سے اجتناب کا حکم ہے۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ اہل کتاب کو یاد دلایا کرتا ہے کہ میرے عہد پر قائم رہو اس طرح ہم کو تقیید فرمایا کہ عہد یا د رکھو وہ عہد یہ ہے کہ جب لوگ مسلمان ہوتے تو حضرت سے بیعت کرتے یعنی ہاتھ پکڑ کر قول دیتے بہت چیزیں کرنے کا جیسے پانچ نمازیں اور روزہ رمضان اور زکوۃ اور حج اور خیر خواہی ہر مسلمان کی اور بہت چیزیں چھوڑنے پر جیسے خون اور زنا اور چوری اور تہمت لگانی بےگناہ کو اور سردار سے مخالفت کرنی اسی عہد پر فرمایا کہ قائم رہو۔ (موضح القرآن) غرض ! آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی جو نعمتیں تم پر ہوتی ہیں ان کو یاد کرو اور جن باتوں کا اس نے تم سے پختہ عہد لیا ہے اس پختہ عہد کو بھی یاد کرو کیونکہ تم ان باتوں کے متعلق التزامی طور پر سمعنا وا طعنا کہہ چکے ہو اور جب سمع و اطاعت کہہ چکے ہو تو اس عہد کو پورا کرو اور اللہ تعالیٰ کی مخالفت سے ڈرتے رہو کیونکہ وہ ایسا باخبر اور واقف ہے کہ سینوں کے بھید اور دلوں کی پوشیدہ باتوں تک کو جانتا ہے اور جو حاکم ایسا باخبر ہو کہ اس سے کوئی راز پوشیدہ نہ ہو اس سے ہر وقت ڈرتے ہی رہنا چاہئے۔ اب آگے پھر بعض حکام کے بجا لانے کی تاکید ہے چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ (تسہیل)  Show more