Surat ul Maeeda

Surah: 5

Verse: 97

سورة المائدة

جَعَلَ اللّٰہُ الۡکَعۡبَۃَ الۡبَیۡتَ الۡحَرَامَ قِیٰمًا لِّلنَّاسِ وَ الشَّہۡرَ الۡحَرَامَ وَ الۡہَدۡیَ وَ الۡقَلَآئِدَ ؕ ذٰلِکَ لِتَعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اللّٰہَ یَعۡلَمُ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ وَ اَنَّ اللّٰہَ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمٌ ﴿۹۷﴾

Allah has made the Ka'bah, the Sacred House, standing for the people and [has sanctified] the sacred months and the sacrificial animals and the garlands [by which they are identified]. That is so you may know that Allah knows what is in the heavens and what is in the earth and that Allah is Knowing of all things.

اللہ نے کعبہ کو جو کہ ادب کا مکان ہے لوگوں کے قائم رہنے کا سبب قرار دے دیا اور عزت والے مہینہ کو بھی اور حرم میں قربانی ہونے والے جانور کو بھی اور ان جانوروں کو بھی جن کے گلے میں پٹے ہوں یہ اس لئے تاکہ تم اس بات کا یقین کر لو کہ بے شک اللہ تعالٰی تمام آسمانوں اور زمین کے اندر کی چیزوں کا علم رکھتا ہے اور بے شک اللہ سب چیزوں کو خوب جانتا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

جَعَلَ اللّهُ الْكَعْبَةَ الْبَيْتَ الْحَرَامَ قِيَامًا لِّلنَّاسِ ... Allah has made the Ka`bah, the Sacred House, an asylum of security and benefits for mankind, Allah says, Allah made the Ka`bah, the Sacred House, an asylum of safety for the people who have no chief to prevent the strong from transgressing against the weak, the evil from the good-doers, and the oppressors from the oppressed. ... وَالشَّهْرَ الْحَرَامَ وَالْهَدْيَ وَالْقَلَيِدَ ... And also the Sacred Month and the animals of offerings and the garlanded. Allah says that He made these symbols an asylum of safety for the people, just as He made the Ka`bah an asylum of safety for them, so that He distinguishes them from each other, for this is their asylum and symbol for their livelihood and religion. Allah made the Ka`bah, the Sacred Month, the Hady, the garlanded animals and people an asylum of safety for the Arabs who used to consider these symbols sacred. Thus, these symbols were just like the chief who is obeyed by his followers, and who upholds harmony and public safety. As for the Ka`bah, it includes the entire sacred boundary. Allah termed it "Haram" because He prohibited hunting its game and cutting its trees or grass. Similarly, the Ka`bah, the Sacred Month, the animals of offerings and the garlands were the landmarks of existing Arabs. These symbols were sacred during the time of Jahiliyyah and the people's affairs were guided and protected by them. With Islam they became the symbols of their Hajj, their rituals, and the direction of the prayer, i.e., the Ka`bah in Makkah. ... ذَلِكَ لِتَعْلَمُواْ أَنَّ اللّهَ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الاَرْضِ وَأَنَّ اللّهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ that you may know that Allah has knowledge of all that is in the heavens and all that is in the earth, and that Allah is the All-Knower of each and everything. Allah says; O people, I made these symbols an asylum for you, so that you know that He Who made these symbols that benefit your life and provide you with security, also knows everything in the heavens and earth that brings about your immediate or eventual benefit. Know that He has perfect knowledge of everything and that none of your deeds or affairs ever escapes His observation; and He will count them for you so that He rewards those who do good with the same and those who do evil in kind. اعْلَمُواْ أَنَّ اللّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ وَأَنَّ اللّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

97۔ 1 کعبہ کو البیت الحرام اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس کی حدود میں شکار کرنا، درخت کاٹنا وغیرہ حرام ہیں۔ اسی طرح اس میں اگر باپ کے قاتل سے بھی سامنا ہوجاتا تو اس سے بھی تعرض نہیں کیا جاتا تھا۔ اسے قیاما للناس (لوگوں کے قیام اور گزران کا باعث) قرار دیا گیا ہے جس کا مطلب ہے کہ اس کے ذریعے سے اہل مکہ کا نظم و انصرام بھی صحیح ہے اور ان کی ضروریات کی فراہمی کا ذریعہ بھی۔ اسی طرح حرمت والے مہینے (رجب، ذوالحجہ اور محرم) اور حرم میں جانے والے جانور ہیں کہ تمام چیزوں سے بھی اہل مکہ مزکورہ فوائد حاصل ہوتے تھے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٤٥] اس آیت میں قِیَاماً للنَّاسِ کے تین الگ الگ مطلب لیے جاسکتے ہیں اور وہ تینوں ہی درست ہیں۔ (١) الناس سے مراد اس دور کے اور اس سے پہلے اور پچھلے قیامت تک کے سب لوگ مراد لیے جائیں۔ اس صورت میں معنیٰ یہ ہوگا کہ کعبہ کا وجود کل عالم کے قیام اور بقا کا باعث ہے اور دنیا کا وجود اسی وقت تک ہے جب تک خانہ کعبہ اور اس کا احترام کرنے والی مخلوق موجود ہے۔ جب اللہ کو یہ منظور ہوگا کہ یہ کارخانہ عالم ختم کردیا جائے تو اس وقت بیت اللہ کو اٹھا لیا جائے گا جیسا کہ سب سے پہلے اس زمین پر یہ مکان بنایا گیا تھا امام بخاری نے اس معنیٰ کو ترجیح دی ہے اور اسی آیت کے تحت درج ذیل حدیث لائے ہیں۔ سیدنا ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ (قیامت کے قریب) ایک چھوٹی پنڈلیوں والا (حقیر) حبشی کعبہ کو ویران کرے گا (بخاری۔ کتاب المناسک۔ باب قول اللہ تعالیٰ جعل اللّٰہ الکعبۃ البیت الحرام قیاماً للناس۔۔ ) اس حدیث سے ضمناً دوسری بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ اس سے پہلے کوئی مضبوط سے مضبوط اور طاقتور دشمن کعبہ کو منہدم کرنے کے ناپاک عزائم میں کامیاب نہ ہو سکے گا۔ اور اللہ تعالیٰ نے جس طرح اصحاب الفیل (ابرہہ) کو ذلیل اور ناکام بنادیا تھا ایسے ہی ہر اس شخص کو یا قوم یا حکومت کو ہلاک کر دے گا جو کعبہ کی تخریب کی مذموم حرکت کرے گی۔ (٢) الناس سے مراد صرف عرب کے لوگ لیے جائیں۔ جو حرمت والے مہینوں میں بڑی آزادی سے سفر کرتے تھے بالخصوص جب وہ قربانی کے پٹہ والے جانور بھی بغرض قربانی ساتھ جا رہے ہوں۔ کیونکہ سب قبائل عرب ایسے جانوروں کا احترام کرتے تھے اور یہ سب کچھ کعبہ کے تقدس کی بنا پر ہوتا تھا۔ حج وعمرہ کرنے والے اور تجارتی قافلے تہائی سال نہایت اطمینان سے سفر کرتے۔ اس طرح کعبہ پورے ملک کی تمدنی اور معاشی زندگی کا سہارا بنا ہوا تھا۔ (٣) الناس سے مراد مکہ اور اس کے ارد گرد کے لوگ لیے جائیں۔ اس صورت میں معنیٰ یہ ہوگا کہ بےآب وگیاہ وادی میں کعبہ کا وجود مکہ اور آس پاس کے تمام لوگوں کی معاش کا ذریعہ ہے۔ اقصائے عالم سے حج وعمرہ کے لیے آنے والے لوگوں کو قیام و طعام اور نقل و حرکت کی خدمات مہیا کرنے کے عوض ان لوگون کو اتنی آمدنی حاصل ہوجاتی ہے جس سے وہ سال بھر گزارہ کرسکیں بلکہ اس سے بہت زیادہ بھی۔ نیز انہیں دوسرے بھی بہت سے معاشرتی اور سیاسی فوائد حاصل ہو رہے ہیں۔ [١٤٦] قربانی اور پٹے والے جانوروں کے لیے دیکھئے سورة مائدہ کی آیت نمبر ٢ کا حاشیہ نمبر ٧۔ [١٤٧] شرعی احکام لوگوں کے مصالح پر مبنی ہیں :۔ یعنی اس بےآب وگیاہ وادی میں بسنے والی مخلوق کی ضروریات سے اور مصالح سے وہ خوب واقف ہے اس نے اپنے گھر کو قابل احترام خطہ قرار دے کر اور اسے تمام دنیا کے مسلمانوں کے لیے ایک مرکز قرار دے کر ان کی جملہ ضروریات کا سامان بہم پہنچا دیا ہے کہ انہیں کھانے کے لیے رزق کی جملہ انواع کھچ کھچ کر وہاں پہنچ جاتی ہیں۔ صرف ایک اسی بات میں غور کیا جائے تو معلوم ہوجاتا ہے کہ اللہ کا ایک ایک حکم انسان ہی کے مصالح پر مبنی ہے خواہ وہ مصالح دینی ہوں یا دنیوی ہوں۔ پھر یہ بات صرف اسی خطہ تک محدود نہیں بلکہ وہ سب لوگوں کے حالات، ضروریات اور مصالح سے پوری طرح واقف ہے اور اسی کے مطابق حکم دیتا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

جَعَلَ اللّٰهُ الْكَعْبَةَ الْبَيْتَ الْحَرَامَ ۔۔ : اوپر کی آیت میں محرم کے لیے شکار کو حرام قرار دیا، اب اس آیت میں بتایا کہ جس طرح حرم کو اللہ تعالیٰ نے وحشی جانوروں اور پرندوں کے لیے سبب امن قرار دیا ہے اسی طرح اسے لوگوں کے لیے بھی جائے امن بنادیا ہے اور دنیوی اور اخروی سعادتیں حاصل کرنے کا ذریعہ بنایا ہے۔ (کبیر) دیکھیے سورة آل عمران (٩٧) ، سورة قصص (٥٧) اور سورة بقرہ (١٢٥) یعنی اہل مکہ کی معاش ( روزی) کا مدار اسی پر ہے کہ لوگ دور دراز سے حج اور تجارت کے ارادے سے یہاں پہنچتے ہیں اور ہر قسم کی ضروریات ساتھ لاتے ہیں، جس سے اہل مکہ رزق حاصل کرتے ہیں اور لوگ یہاں پہنچ کر امن و امان پاتے ہیں، حتیٰ کہ زمانۂ جاہلیت میں بھی حرم کے اندر کوئی شخص اپنے باپ یا بیٹے کے قاتل تک کو کچھ نہیں کہتا تھا اور عبادت و ثواب کے اعتبار سے یہ بہترین جگہ ہے۔ الغرض ! یہ تمام چیزیں لوگوں کے قیام کا باعث ہیں۔ (کبیر، فتح القدیر) کعبۃ اللہ لوگوں کے قائم رہنے کا ایک ذریعہ ہے، کیونکہ قیامت کے قریب جب ایک حبشی کعبۃ اللہ کو گرا دے گا تو اس کے بعد بہت جلد قیامت آجائے گی، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” کعبہ کو دو پتلی پنڈلیوں والا حبشی گرائے گا۔ “ [ بخاری، الحج، باب ہدم الکعبۃ : ١٥٩٦۔ مسلم : ٢٩٠٩ ] وَالشَّهْرَ الْحَرَامَ : حرمت والے مہینے چار ہیں، ذوالقعدہ، ذوالحجہ، محرم اور رجب۔ ان چار مہینوں میں لوگ امن سے سفر اور تجارت کرتے اور سال بھر کی ضروریات جمع کرلیتے تھے، اس اعتبار سے یہ مہینے بھی گویا لوگوں کی زندگی قائم رہنے کا ذریعہ ہیں۔ وَالْهَدْيَ وَالْقَلَاۗىِٕدَ : ان کا لوگوں کے لیے قیام کا سبب ہونا اس اعتبار سے ہے کہ ہدی (قربانی) کا گوشت مکہ کے فقراء میں تقسیم ہوتا اور ہدی اور قلادہ والے جانور کوئی شخص لے کر چلتا تو اس کا تمام عرب احترام کرتے۔ مقصد کعبہ کی عظمت کو بیان کرنا تھا، اس کے ساتھ ان چیزوں کا بھی ذکر کردیا، کیونکہ ان کا تعلق بھی بیت اللہ سے ہے۔ (کبیر) ذٰلِكَ لِتَعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ ۔۔ : ”ۭذٰلِكَ “ (یہ) یعنی اللہ تعالیٰ کا ان چیزوں کو لوگوں کے قیام کا باعث بنانا اس لیے ہے کہ تم جان لو کہ اللہ تعالیٰ تمام معاملات کی تفصیل جانتا ہے اور اس نے اپنے علم کے مطابق لوگوں کے قیام اور فائدے کے لیے یہ احکام جاری فرمائے ہیں۔ ( وَاَنَّ اللّٰهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ ) یعنی اللہ تعالیٰ زمین و آسمان کی تمام تفصیلات جانتا ہے اور اسے خوب معلوم ہے کہ تمہاری دینی اور معاشی بہتری کس چیز میں ہے اور کس چیز میں نہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary Four Sources of Tranquility The first verse (97) mentions four things as the cause of constancy, survival and tranquility for people. The first is the Ka&bah. In Arabic, Ka&bah is the name of a place which is square. Another house made by the Arab tribe of Khath&am carried the same name, that is, al-ka&bah-al-Yamaniyah, to be exact. Therefore, to distinguish the Baytullah (House of Allah) from this place, the words: الْبَيْتَ الْحَرَ‌امَ (Al-Baytul-Haram: The Sacred House) were added to the name of the Ka&bah. The word |"Qiyam|" and Qiwam are verbal nouns. They refer to that on which the stability and survival of something depends. Therefore, |" قِيَامًا لِّلنَّاسِ |" in the text comes to mean that the Ka&bah and its adjuncts are the cause and source of the stability and survival of people. Lexically, the word: النَّاسِ (annas) is used for people in general. At this place, because of the topical context, they could mean the people of Makkah proper, or the people of Arabia and the peoples of the world as well. Obviously, it includes human beings of the whole world - howev¬er, the people of Makkah and the people of Arabia do have a unique status. Therefore, the sense of the verse would be that Allah Ta` ala has made Ka&batullah کعبۃُ اللہ (The Ka&bah of Allah) and what is mentioned later, the source of stability, survival and tranquility for people. As long as people of the world from each country, each region and each di¬rection keep turning their orientation towards Baytullah to say their Salah, and the Hajj of Baytullah continues to be performed by those on whom its performance has become obligatory (fard) - until then, this whole world will keep going and stay safe. And if, there ever comes that fatal year when no one makes Hajj, or no one turns towards Bay¬tullah to offer Salah, then, the whole world will be overtaken by mass Punishment. Baytullah is the Mainstay of the Universe The respected master of Tafsir, &Ata& has stated the subject in the words which follow: لَو ترکوہ عامًا واحدا لم ینظروا یؤخروا (Al-Bahr Al-Mubit). This tells us that, significance-wise, Baytullah is the pillar of this whole world. As long as people keep turning towards it and Hajj keeps being performed, the world will stay. And if, this reverence of Baytullah were to terminate at some time, the world will also be terminated. Howev¬er, there remains the question: What is the connection and linkage be¬tween the universal system and Baytullah? But then, knowing its re¬ality is not necessary - who knows the reality behind the mutual connection of magnet and iron and lightening and straw? But, it is a reality proved through observation. It cannot be rejected. The comprehension of the reality of the mutual linkage between Baytullah and the universal system is also not within the reach and control of mortal man. That can be known only when the Creator of the universe tells us about it. That Baytullah is the cause of the survival of the whole universe is a thing of the spirit. Physical insight or formal research cannot reach it. But, its being the cause of peace and tranquility for Arabia and the people of Makkah stands proved by long experiences and observations. Baytullah : Symbol and Substance of Peace Peace is generally maintained in the world through government laws and its implementation. That is why robbers, thiefs, killers and plunderers do not dare. But, during the Arab Jahiliyyah, there was no formal government nor was there some general law to maintain public peace. Whatever political system there was, it was based on tribal con-siderations. One tribe could attack the life, property and honour of another tribe anytime at its choice. Therefore, no tribe had the occasion to enjoy peace and tranquility any time. Allah Almighty, with His per¬fect power, made the Baytullah in Makkah al-Mukarramah stand as a regular government ushering peace and tranquility. As anyone in his right frame of mind would not dare breaking the law of a strong gov¬ernment in our day, so it was, even during those days of ignorance, that Allah Almighty had impinged the reverence of the Baytullah on the hearts of common people in a manner that they would throw all their personal desires and emotions behind their backs when it came to upholding its honour and station. So, this was Arab Jahiliyyah, the so called Age of Ignorance, pro¬verbial for tribal prejudices and long drawn wars. But, such was the reverence for Baytullah and its adjuncts which Allah had placed in their hearts that they would say just nothing to even their sworn ene¬my despite their anger and chagrin - if the enemy had entered the Haram. A son who met the killer of his father in the Haram would lower his gaze and walk away from him. Similarly, as much respect was also given to a person who had embarked on his Hajj and ` Umrah or who had been carrying animals for sacrifice in the Haram. The result was that even the worst person around would not hurt him in anyway - to the limit that they would say nothing to even a sworn enemy if he was in a condition when signs of his being on Hajj and ` Umrah, such as the garments of Ihram or garlands, were all too visible. Take an example. The year was Hijrah 6. The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) accompanied by a group of his Sahabah entered into the Ihram of ` Umrah and started for his journey towards Baytullah. He stopped at Hudaybiyah close to the Haram limits and sent Sayyidna ` Uthman al-Ghani (رض) to Makkah along with some colleagues so that they can tell the chiefs of Makkah that Muslims have come at this time not for fighting but for performing ` Umrah, therefore, they should not be ob¬structed. It was after a good deal of debate that they sent a representative of theirs to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . When he saw him, he said: This person is an upholder of the sanctities of Baytullah, therefore, the sacrificial animals marked for sacrifice should be brought before him. When the representative saw these sacrificial animals, he conceded that such people should never be stopped from going to Baytullah. So, as said earlier, Allah Almighty had placed such awe of the ven¬erated Haram - even during the days of Jahiliyyah - that it became the very cause and source of peace and tranquility. As a direct result of this reverence, only those who either went in and out of Haram, or those who came for their Hajj and ` Umrah with some sign of the intended pilgrimage on them, were the ones who remained protected - outsiders did not benefit from this peace and tranquility. But, in Ara¬bia itself, the way they honoured the site of Baytullah and its environs universally, they would also give equal respect to the months of Hajj. They called these, the Sacred Months. Some had included the month of Rajab along with them. During these months, fighting and killing - even outside the Haram - was considered by the whole Arabia as pro¬hibited, from which they would abstain. 1. Therefore, the Holy Qur&an has included three more things as being قِيَامًا لِّلنَّاسِ (stability for people) along with the Ka&bah. The first is: الشَّهْرَ‌ الْحَرَ‌امَ , that is, the Sacred Month. Since the word, شَّهْرَ‌ (shahr: month) has been placed here in its singular form, most commentators say that it means the month of Dhul-Hijjah at this place, the month during which the rites of Hajj are performed. Some commentators have said that, though the word used is singular, but it signifies category where-by all Sacred Months are included here. 2. Mentioned secondly is |"al-hady|" الْهَدْيَ which refers to an animal sacri¬ficed in Haram. It was common Arab practice not to check and ob¬struct anyone carrying such sacrificial animals who could travel on in peace and be able to do what he intended to do. Thus, ` sacrificial ani¬mals& also became a cause of the establishment of peace. 3. The third thing is الْقَلَائِدَ |"Al-Qala&id.|" The word is the plural form of Qiladah. It means a garland. There was a custom in the age of Arab Jahiliyyah that a person who went out for Hajj would put a garland round his (sacrificial animal) neck as a sign so that people may know that here was someone going for Hajj and that he should not be molested. Similarly, they would put garlands round the necks of their sacrificial animals too. These were also known as the قَلَائِدَ Qala&id. So, the Qala&id also became a source of peace and tranquility. A little thought will show that ` the sacred month,|"the sacrificial animal,& and ` the Qala&id& are all adjuncts or auxiliaries of the Baytul¬lah. Reverence for them is part of the reverence of Baytullah. Allah Ta` ala has made the combination of these a source of stability (even constancy and resilience) in all matters relating to the worldly and otherworldly life of the people of Arabia, and that of the people of Mak¬kah particularly - as well as, for all humanity in general. While explaining the expression: قِيَامًا لِّلنَّاسِ (stability for people), some commentators have said that it means that the Baytullah and the Sacred Haram around it has been made a place of peace for everyone. Others have said that it refers to the extended means of sustenance for the people of Makkah, for what is not grown or made there indigenous¬ly keeps reaching them from all over the world by the grace of Allah Ta` ala. Still some others have said that people of Makkah known as the custodians of Baytullah were held in great esteem as special peo¬ple serving the House of Allah, therefore, it is the particular distinc-tion of these people which has been identified in the Qur&anic expres¬sion translated as ` stability for people.& Imam al-Razi has said that there is no contradiction in all these sayings which are included within the sense of قِيَامًا لِّلنَّاسِ (stability for people) since Allah Ta` ala has made Baytullah the source of better¬ment, prosperity and success (both materially and spiritually) for the stay, survival, stability, sustenance and return (to it, as well as, through it to the final destination of the Hereafter) for all peoples. And as for the people of Arabia, particularly those of Makkah, they have been blessed by Allah with its outward and inward blessings. At the end of the verse, it was said: ذَٰلِكَ لِتَعْلَمُوا أَنَّ اللَّـهَ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْ‌ضِ وَأَنَّ اللَّـهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ (All this so that you may learn that Allah knows what is in the heavens and what is in the earth, and that Allah is All-Knowing in respect of everything). It means that Allah has made Bay¬tullah and its adjuncts the source of stability, survival, peace and tranquility for people, something the people of Arabia keep witnessing par¬ticularly. This has been said so that everyone should know that Allah Ta` ala knows everything in the earth and the heavens and He alone is capable of managing and administering it.

خلاصہ تفسیر خدا تعالیٰ نے کعبہ کو جو کہ ادب کا مکان ہے، لوگوں (کی مصلحتوں) کے قائم رہنے کا سبب قرار دے دیا ہے اور (اسی طرح) عزت والے مہینہ کو بھی اور (اسی طرح) حرم میں قربانی ہونے والے جانور کو بھی اور (اسی طرح) ان جانوروں کو بھی جن کے گلے میں (اس نشانی کے لئے) پٹے ہوں (کہ یہ اللہ کی نیاز ہیں حرم میں ذبح ہوں گے) یہ (قرارداد علاوہ اور دنیوی مصلحتوں کے) اس (دینی مصلحت کے) لئے (بھی) ہے تاکہ (تمہارا اعتقاد درست اور پختہ ہو اس طرح سے کہ تم ان مصالح سے استدلال کرکے) اس بات کا یقین (ابتدائً یا کمالاً ) کرلو کہ بیشک اللہ تعالیٰ تمام آسمانوں اور زمین کے اندر کی چیزوں کا علم (کامل) رکھتے ہیں (کیونکہ ایسا حکم مقرر کرنا جس میں آئندہ کے ایسے مصالح مرعی ہوں کہ عقول بشریہ ان کو نہ سوچ سکیں دلیل ہے کمال صفت علمیہ کی) اور (ان معلومات مذکورہ کے ساتھ تعلق علم کامل سے استدلال کرکے یقین کر لو کہ) بیشک اللہ تعالیٰ سب چیزوں کو خوب جانتے ہیں، (کیونکہ ان معلومات کے علم پر کسی چیز نے مطلع نہیں کیا، معلوم ہوا کہ علم ذاتی کی نسبت جمیع معلوم کے ساتھ یکساں ہوتی ہے) تم یقین سے جان لو کہ اللہ تعالیٰ سزا بھی سخت دینے والے ہیں اور اللہ تعالیٰ بڑی مغفرت اور رحمت والے بھی ہیں (تو ان کے احکام کی خلاف مت کیا کرو اور جو احیاناً ہوگیا ہو، موافق قواعد شرعیہ کے توبہ کرلو) رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذمہ تو صرف پہنچانا ہے، (سو وہ خوب پہنچا چکے اب تمہارے پاس کوئی عذر و حیلہ نہیں رہا) اور اللہ تعالیٰ سب جانتے ہیں جو کچھ تم (زبان یا جوارح سے) ظاہر کرتے ہو اور جو کچھ (دل میں) پوشیدہ رکھتے ہو (سو تم کو چاہیے کہ اطاعت ظاہر و باطن دونوں سے کرو) آپ (اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے یہ بھی) فرما دیجئے کہ ناپاک اور پاک (یعنی گناہ اور اطاعت یا گناہ کرنے والا اور اطاعت کرنے والا) برابر نہیں، (بلکہ خبیث مبغوض ہے اور طیب مقبول ہے، پس اطاعت کرکے مقبول بننا چاہئے، معصیت کرکے مبغوض نہ ہونا چاہئے، اگرچہ اے دیکھنے والے) تجھ کو ناپاک کی کثرت (جیسا اکثر دنیا میں یہی واقع ہوتا ہے) تعجب میں ڈالتی ہو (کہ باوجود ناپسندیدہ ہونے کے یہ کثیر کیوں ہے، مگر یہ سمجھ لو کہ کثرت جو کسی حکمت سے ہے دلیل محمود ہونے کی نہیں، جب کثرت پر مدار نہیں یا یہ کہ جب اللہ تعالیٰ کے علم و عقاب پر بھی مطلع ہوگئے) تو (اس کو مت دیکھو بلکہ) خدا تعالیٰ (کے خلاف حکم کرنے) سے ڈرتے رہو تاکہ تم (پورے طور سے) کامیاب ہو (کہ وہ جنت اور رضائے حق ہے) معارف و مسائل امن و اطمینان کے چار ذرائع پہلی آیت میں حق تعالیٰ نے چار چیزوں کو لوگوں کے قیام وبقاء اور امن و اطمینان کا سبب بتلایا ہے۔ اول کعبہ، لفظ کعبہ عربی زبان میں ایسے مکان کو کہتے ہیں جو مربع یعنی چوکور ہو، عرب میں قبیلہ خثعم کا بنایا ہوا ایک اور مکان بھی اسی نام سے موسوم تھا، جس کو کعبہ یمانیہ کہا جاتا تھا، اسی لئے بیت اللہ کو اس کعبہ سے ممتاز کرنے کے لئے لفظ کعبہ کے ساتھ البیت الحرام کا لفظ بڑھایا گیا۔ لفظ قیام اور قوام اسم مصدر ہے، اس چیز کو کہا جاتا ہے جس پر کسی چیز کا قیام وبقاء موقوف ہو، اس لئے قیمٰاً للناس کے معنے یہ ہوئے کہ کعبہ اور اس کے متعلقات لوگوں کے قیام وبقاء کا سبب اور ذریعہ ہیں۔ اور لفظ ناس لغت میں عام انسانوں کے لئے بولا جاتا ہے، اس جگہ قرینہ مقام کی وجہ سے خاص مکہ والے یا اہل عرب بھی مراد ہوسکتے ہیں اور عام دنیا کے انسان بھی، اور ظاہر یہی ہے کہ پورے عالم کے انسان اس میں داخل ہیں، البتہ مکہ اور عرب والے ایک خاص خصوصیت رکھتے ہیں، اس لئے مطلب آیت کا یہ ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ نے کعبہ بیت اللہ اور جن چیزوں کا ذکر آگے آتا ہے، ان کو پورے عالم انسانیت کے لئے قیام وبقاء اور امن و سکون کا ذریعہ بنادیا ہے، جب تک دنیا کا ہر ملک، ہر خطہ اور ہر سمت کے لوگ اس بیت اللہ کی طرف متوجہ ہو کر نماز ادا کرتے رہیں اور بیت اللہ کا حج ہوتا رہے یعنی جن پر حج فرض ہو وہ حج ادا کرتے رہیں اس وقت تک یہ پوری دنیا قائم اور محفوظ رہے گی۔ اور اگر ایک سال بھی ایسا ہوجائے کہ کوئی حج نہ کرے یا کوئی شخص بیت اللہ کی طرف متوجہ ہو کر نماز ادا نہ کرے تو پوری دنیا پر عذاب عام آجائے گا۔ بیت اللہ پورے عالم کا عمود ہے اسی مضمون کو امام تفسیر حضرت عطار رحمة اللہ علیہ نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے : لو ترکزہ عاماً واحدا لم ینظروا ولم یؤ خروا (بحر محیط) اس سے معلوم ہوا کہ معنوی طور پر بیت اللہ اس پورے عالم کا عمود ہے، جب تک اس کا استقبال اور حج ہوتا رہے گا دنیا قائم رہے گی، اور اگر کسی وقت بیت اللہ کا یہ احترام ختم ہوا تو دنیا بھی ختم کردی جائے گی، رہا یہ معاملہ کہ نظام عالم اور بیت اللہ میں جوڑ اور ربط کیا ہے ؟ سو اس کی حقیقت معلوم ہونا ضروری نہیں، جس طرح مقناطیس اور لوہے اور کہربا اور تنکے کے ربط باہمی کی حقیقت کسی کو معلوم نہیں، مگر وہ ایک ایسی حقیقت ہے جو مشاہدہ میں آتی ہے اس کا کوئی انکار نہیں کرسکتا، بیت اللہ اور نظام عالم کے باہمی ربط کی حقیقت کا ادراک بھی انسان کے قبضہ میں نہیں، وہ خالق کائنات کے بتلانے ہی سے معلوم ہوسکتا ہے، بیت اللہ کا پورے عالم کی بقاء کے لئے سبب ہونا تو ایک معنوی چیز ہے ظاہری نظریں اس کو نہیں پاسکتیں، لیکن عرب اور اہل مکہ کے لئے اس کا موجب امن و سلامتی ہونا طویل تجربات اور مشاہدات سے ثابت ہے۔ بیت اللہ کا وجود امن عالم کا سبب ہے عام دنیا میں قیام امن کی صورت حکومتوں کے قوانین اور ان کی گرفت ہوتی ہے، اس کی وجہ سے ڈاکو، چور، قتل و غارت گری کرنے والے کی جرأت نہیں ہوتی، لیکن جاہلیت عرب میں نہ کوئی باقاعدہ حکومت قائم تھی، اور نہ امن عامہّ کے لئے کوئی قانون عام تھا، سیاسی نظام محض قبائلی بنیادوں پر قائم تھا۔ ایک قبیلہ دوسرے قبیلہ کی جان و مال عزت و آبرو سب ہی چیزوں پر جب چاہے حملہ کرسکتا تھا، اس لئے کسی قبیلہ کے لئے کسی وقت امن و اطمینان کا موقع نہ تھا، اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ سے مکہ مکرمہ میں بیت اللہ کو حکومت کے قائم مقام ذریعہ امن بنادیا جس طرح حکومت کے قانون کی خلاف ورزی کرنے کی جرأت کوئی سمجھدار انسان نہیں کرسکتا، اسی طرح بیت اللہ شریف کی حرمت و تعظیم حق تعالیٰ نے زمانہ جاہلیت میں بھی عام لوگوں کے دلوں میں اس طرح پیوست کردی تھی کہ اس کے احترام کے لئے اپنے سارے جذبات و خواہشات کو پیچھے ڈال دیتے تھے۔ عرب جاہلیت جو اپنی جنگ جوئی اور قبائلی تعصب میں پوری دنیا میں ضرب المثل تھی اللہ تعالیٰ نے بیت اللہ اور اس کے متعلقات کی اتنی حرمت و تعظیم ان کے دلوں میں پیوست کردی تھی کہ ان کا کیسا بھی جانی دشمن یا سخت سے سخت مجرم ہو اگر وہ حرم شریف میں داخل ہوجائے تو انتہائی غم و غصہ کے باوجود اس کو کچھ نہ کہتے، باپ کا قاتل حرم میں بیٹے کو ملتا تو بیٹا نیچے نظریں کرکے گزر جاتا تھا۔ اسی طرح جو شخص حج وعمرہ کے لئے نکلا ہو یا جو جانور حرم شریف میں قربانی کے لئے لایا گیا ہو اس کا بھی اتنا احترام عرب میں عام تھا کہ کوئی برے سے برا شخص بھی اس کو کوئی گزند نہ پہنچاتا تھا، اور اگر وہ جانی دشمن بھی ہے تو ایسی حالت میں جبکہ اس نے حج وعمرہ کی کوئی علامت احرام یا قلادہ باندھا ہوا ہو اس کو قطعاً کچھ نہ کہتے تھے۔ سنہ ٦ ہجری یعنی جب رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صحابہ کرام کی ایک خاص جماعت کے ساتھ عمرہ کا احرام باندھ کر بقصد بیت اللہ روانہ ہوئے اور حدود حرم کے قریب مقام حدیبیہ پر قیام فرما کر حضرت عثمان غنی (رض) کو چند رفیقوں کے ساتھ مکہ بھیجا کہ مکہ کے سرداروں سے کہہ دیں کہ مسلمان اس وقت کسی جنگ کی نیت سے نہیں بلکہ عمرہ ادا کرنے کے لئے آئے ہیں اس لئے ان کی راہ میں کوئی مزاحمت نہ ہونی چاہئے۔ قریشی سرداروں نے بہت سے بحث و مباحثہ کے بعد اپنا ایک نمائندہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں بھیجا، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو دیکھا تو فرمایا کہ یہ شخص حرمات بیت اللہ کا خاص لحاظ رکھنے والا ہے، اس لئے اپنے قربانی کے جانور جن پر قربانی کا نشان کیا ہوا ہے اس کے سامنے کردو، اس نے جب یہ ہدایا (قربانی کے جانور) دیکھے تو اقرار کیا کہ بیشک ان لوگوں کو بیت اللہ سے ہرگز نہیں روکنا چاہئے۔ خلاصہ یہ ہے کہ حرم محترم کا احترام زمانہ جاہلیت میں بھی اللہ تعالیٰ نے ان کے قلوب میں ایسا رکھ دیا تھا کہ اس کی وجہ سے امن وامان قائم رہتا تھا، اس احترام کے نتیجہ میں صرف حرم شریف کے اندر آنے جانے والے اور وہ لوگ مامون ہوجاتے تھے جو حج وعمرہ کے لئے نکلے ہیں، اور حج کی کوئی علامت ان پر موجود ہے، اطراف عالم کے لوگوں کو اس سے کوئی نفع امن و اطمینان کا حاصل نہ ہوتا تھا، لیکن عرب میں جس طرح بیت اللہ کے مکان اور اس کے گردوپیش کے حرم محترم کا احترام عام تھا اسی طرح حج کے مہینوں کا بھی خاص احترام تھا کہ ان مہینوں کو اشہر حرم کہتے تھے، ان کے ساتھ رجب کو بھی بعض نے شامل کرلیا تھا، ان مہینوں میں حرم سے باہر بھی قتل و قتال کو تمام عرب حرام سمجھتا اور پرہیز کرتا تھا۔ اسی لئے قرآن کریم نے قیما للناس ہونے میں کعبہ کے ساتھ تین اور چیزوں کو شامل فرمایا ہے، اول اشھر الحرام یعنی عزت و عظمت کا مہینہ، یہاں چونکہ لفظ شھر مفرد لایا گیا ہے، اس لئے عام مفسرین نے فرمایا ہے کہ اس جگہ ” شہر حرام “ سے مراد ماہ ذی الحجہ ہے، جس میں حج کے ارکان و اعمال ادا کئے جاتے ہیں، اور بعض نے فرمایا کہ لفظ اگرچہ مفرد ہے مگر مراد اس سے جنس ہے، اس لئے سب ہی اشہر حرم (عزت کے مہینے) اس میں داخل ہیں۔ دوسری چیز ھدی، ہے، ھدی اس جانور کا کہا جاتا ہے جس کی قربانی حرم شریف میں کی جائے، ایسے جانور جس شخص کے ساتھ ہوں عام عرب کا معمول تھا کہ اس کو کچھ نہ کہتے تھے، وہ امن و اطمینان کے ساتھ سفر کرتا اور اپنا مقصد پورا کرسکتا تھا، اس لئے ھدی بھی قیام امن کا ایک سبب ہوئی۔ تیسری چیز قلائد ہیں، قلائد قلادہ کی جمع ہے، گلے کے ہار کو کہا جاتا ہے۔ جاہلیت عرب کی رسم یہ تھی کہ جو شخص حج کے لئے نکلتا تو اپنے گلے میں ایک ہار بطور علامت کے ڈال لیتا تھا، تاکہ اس کو دیکھ کر لوگ سمجھ لیں کہ یہ حج کے لئے جارہا ہے کوئی تکلیف نہ پہنچائیں، اسی طرح قربانی کے جانوروں کے گلے میں بھی اس طرح کے ہار ڈالے جاتے تھے۔ ان کو بھی قلائد کہتے ہیں، اس لئے قلائد بھی قیام امن و سکون کا ایک ذریعہ بن گئے۔ اور اگر غور کیا جائے تو یہ تینوں چیزیں شہر حرام، ھدی اور قلائد سب کے سب بیت اللہ کے متعلقات میں سے ہیں، ان کا احترام بھی بیت اللہ ہی کے احترام کا ایک شعبہ ہے، خلاصہ یہ ہے کہ بیت اللہ اور اس کے متعلقات کو اللہ تعالیٰ نے پورے عالم انسانیت کے لئے عموماً اور عرب اور اہل مکہ کے لئے خصوصاً ان کے تمام امور دین و دنیا دونوں کے لئے قیام و قوام بنادیا ہے۔ قیماً للناس کی تفسیر میں بعض مفسرین نے فرمایا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ بیت اللہ اور حرم محترم سب کے لئے جائے امن بنایا گیا ہے، بعض نے فرمایا کہ اس سے مراد اہل مکہ کے لئے وسعت رزق ہے، کہ باوجود اس کے کہ اس زمین میں کوئی چیز پیدا نہیں ہوتی، مگر اللہ تعالیٰ دنیا بھر کی چیزیں وہاں پہنچاتے رہتے ہیں۔ بعض نے کہا کہ اہل مکہ جو کہ بیت اللہ کے خادم اور محافظ کہلاتے تھے ان کو لوگ اللہ والے سمجھ کر ہمیشہ ان کیساتھ تعظیم کا معاملہ کرتے تھے، قیما للناس سے ان کا یہ خاص اعزاز مراد ہے۔ امام عبداللہ رازی رحمة اللہ علیہ نے فرمایا کہ ان سب اقوال میں کوئی اختلاف نہیں لفظ قیماً للناس کے مفہوم میں یہ سب چیزیں داخل ہیں، کہ اللہ تعالیٰ کو سب لوگوں کے بقاء و قیام اور معاش و معاد کی صلاح و فلاح کا ذریعہ بنایا ہے، اور اہل عرب اور اہل مکہ کو خصوصیت کے ساتھ اس کی برکات ظاہرہ اور باطنہ سے نوازا ہے۔ آخر آیت میں ارشاد فرمایا ذٰلِكَ لِتَعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ ، یعنی ہم نے بیت اللہ کو اور اس کے متعلقات کو لوگوں کے لئے ذریعہ امن وامان اور قیام وبقاء بنادیا ہے، جس کا مشاہدہ اہل عرب خصوصیت کے ساتھ کرتے رہتے ہیں، یہ اس لئے کہا گیا کہ سب لوگ یہ جان لیں کہ اللہ تعالیٰ زمین و آسمان کی ہر چیز کو پورا پورا جانتے ہیں، اور وہی اس کا انتظام کرسکتے ہیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

جَعَلَ اللہُ الْكَعْبَۃَ الْبَيْتَ الْحَرَامَ قِــيٰمًا لِّلنَّاسِ وَالشَّہْرَ الْحَرَامَ وَالْہَدْيَ وَالْقَلَاۗىِٕدَ۝ ٠ۭ ذٰلِكَ لِتَعْلَمُوْٓا اَنَّ اللہَ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ وَاَنَّ اللہَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ۝ ٩٧ جعل جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها، ( ج ع ل ) جعل ( ف ) یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔ كعب كَعْبُ الرّجل : العظم الذي عند ملتقی القدم والساق . قال : وَأَرْجُلَكُمْ إِلَى الْكَعْبَيْنِ [ المائدة/ 6] . والکَعْبَةُ : كلّ بيت علی هيئته في التّربیع، وبها سمّيت الكَعْبَةُ. قال تعالی: جَعَلَ اللَّهُ الْكَعْبَةَ الْبَيْتَ الْحَرامَ قِياماً لِلنَّاسِ [ المائدة/ 97] . وذو الكَعْبَاتِ : بيت کان في الجاهلية لبني ربیعة، وفلان جالس في كَعْبَتِهِ ، أي : غرفته وبیته علی تلک الهيئة، وامرأة كاعِبٌ: تَكَعَّبَ ثدیاها، وقد كَعبَتْ كِعَابَةً ، والجمع كَوَاعِبُ ، قال : وَكَواعِبَ أَتْراباً [ النبأ/ 33] وقد يقال : كَعَبَ الثّدي كَعْباً ، وكَعَّبَ تَكْعِيباً وثوب مُكَعَّبٌ: مطويّ شدید الإدراج، وكلّ ما بين العقدتین من القصب والرّمح يقال له : كَعْبٌ ، تشبيها بالکعب في الفصل بين العقدتین، کفصل الکعب بين السّاق والقدم . ( ک ع ب ) کعب الرجل ( ٹخنہ ) اس ہڈی کو کہتے ہیں ۔ جو پاؤں اور پنڈلی کے جوڑ پر ہوتی ہے قرآن میں ہے : ۔ وَأَرْجُلَكُمْ إِلَى الْكَعْبَيْنِ [ المائدة/ 6] اور تختوں تک پاؤں دھو لیا کرو ۔ الکعبۃ اصل میں ہر اس مکان کو کہتے ہیں جو ٹخنے کی شکل پر چو کو بنا ہوا ہو اسی سے بیت الحرام کو الکعبۃ کے نام سے پکارا گیا ہے قرآن میں ہے : ۔ جَعَلَ اللَّهُ الْكَعْبَةَ الْبَيْتَ الْحَرامَ قِياماً لِلنَّاسِ [ المائدة/ 97] خدا نے عزت کے گھر ( یعنی ) کعبے کہ لوگوں کے لئے ہو جب امن قرار فرمایا : ۔ ذو الکعبات بنوریہ کی عبادت گاہ کا نام جو انہوں نے جاہلیت میں بنائی تھی ۔ محاورہ ہے فلان حابسفی کعبتہ یعنی فلاں اپنے کمرہ میں بیٹھا ہوا ہے کو مکعب شکل پر بنا ہوا ہے ۔ امراۃ کا عب ابھرے ہوئے پستانوں دالی لڑکی اور یہ کعا بۃ سے ماخوذ ہے جس کے معنی عورت کی چھاتی ابھر نے کے ہیں ۔ اور کا عب کی جمع کوا عب آتی ہے چناچہ قرآن پا ک میں ہے : ۔ وَكَواعِبَ أَتْراباً [ النبأ/ 33] اور ہم نے نو جوان عورتیں ( لڑکی کی ) چھاتی کا ابھر نا آنا ۔ ژوب مکعب لپیٹا ہوا کپڑا جس کی تہ سخت اور اور اٹھی ہوئی ہو ۔ اور سر کنڈے یا نیز کی دو گرہوں کے درمیان کے حصہ کو بھی تشبیہ کے طور پر کعب ( پو ر) کہا جاتا ہے ۔ کیونکہ جس طرح ٹخنہ پنڈلی اور پاؤں کے درمیان فاصل ہوتا ہے اس طرح یہ بھی دو گر ہوں کے در میان فاصل ہوتی ہے ۔ بيت أصل البیت : مأوى الإنسان باللیل، قال عزّ وجلّ : فَتِلْكَ بُيُوتُهُمْ خاوِيَةً بِما ظَلَمُوا [ النمل/ 52] ، ( ب ی ت ) البیت اصل میں بیت کے معنی انسان کے رات کے ٹھکانہ کے ہیں ۔ کیونکہ بات کا لفظ رات کو کسی جگہ اقامت کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ فَتِلْكَ بُيُوتُهُمْ خاوِيَةً بِما ظَلَمُوا [ النمل/ 52] یہ ان کے گھر ان کے ظلم کے سبب خالی پڑے ہیں ۔ حَرَمُ ( محترم) والحَرَمُ : سمّي بذلک لتحریم اللہ تعالیٰ فيه كثيرا مما ليس بمحرّم في غيره من المواضع وکذلک الشهر الحرام، قيام والْقِيَامُ علی أضرب : قيام بالشّخص، إمّا بتسخیر أو اختیار، و قیام للشیء هو المراعاة للشیء والحفظ له، و قیام هو علی العزم علی الشیء، فمن القِيَامِ بالتّسخیر قوله تعالی: مِنْها قائِمٌ وَحَصِيدٌ [هود/ 100] ، وقوله : ما قَطَعْتُمْ مِنْ لِينَةٍ أَوْ تَرَكْتُمُوها قائِمَةً عَلى أُصُولِها [ الحشر/ 5] ، ومن القِيَامِ الذي هو بالاختیار قوله تعالی: أَمَّنْ هُوَ قانِتٌ آناءَ اللَّيْلِ ساجِداً وَقائِماً [ الزمر/ 9] . وقوله : الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِياماً وَقُعُوداً وَعَلى جُنُوبِهِمْ [ آل عمران/ 191] ، وقوله : الرِّجالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّساءِ [ النساء/ 34] ، وقوله : وَالَّذِينَ يَبِيتُونَ لِرَبِّهِمْ سُجَّداً وَقِياماً [ الفرقان/ 64] . والقِيَامُ في الآیتین جمع قائم . ومن المراعاة للشیء قوله : كُونُوا قَوَّامِينَ لِلَّهِ شُهَداءَ بِالْقِسْطِ [ المائدة/ 8] ، قائِماً بِالْقِسْطِ [ آل عمران/ 18] ، وقوله : أَفَمَنْ هُوَ قائِمٌ عَلى كُلِّ نَفْسٍ بِما كَسَبَتْ [ الرعد/ 33] أي : حافظ لها . وقوله تعالی: لَيْسُوا سَواءً مِنْ أَهْلِ الْكِتابِ أُمَّةٌ قائِمَةٌ [ آل عمران/ 113] ، وقوله : إِلَّا ما دُمْتَ عَلَيْهِ قائِماً [ آل عمران/ 75] أي : ثابتا علی طلبه . ومن القِيَامِ الذي هو العزم قوله : يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلاةِ [ المائدة/ 6] ، وقوله : يُقِيمُونَ الصَّلاةَ [ المائدة/ 55] أي : يديمون فعلها ويحافظون عليها . والقِيَامُ والقِوَامُ : اسم لما يقوم به الشیء . أي : يثبت، کالعماد والسّناد : لما يعمد ويسند به، کقوله : وَلا تُؤْتُوا السُّفَهاءَ أَمْوالَكُمُ الَّتِي جَعَلَ اللَّهُ لَكُمْ قِياماً [ النساء/ 5] ، أي : جعلها ممّا يمسككم . قيام اور قیام کا لفظ مختلف معانی میں استعمال ہوتا ہے :( 1 ) کسی شخص کا تسخیری طور پر یا اپنے ارادے سے کھڑا ہونا ۔ ( 2 ) قیام للشئی : یعنی شے کی حفاظت اور نگہبانی کرنا ۔ ( 3 ) کسی کام کا پختہ ارادہ کرلینا ۔ تسخیری طور کھڑا ہونے کے معنی میں فرمایا : ۔ مِنْها قائِمٌ وَحَصِيدٌ [هود/ 100] ان میں سے بعض تو باقی ہیں اور بعض تہس نہس ہوگئے ہیں ۔ ما قَطَعْتُمْ مِنْ لِينَةٍ أَوْ تَرَكْتُمُوها قائِمَةً عَلى أُصُولِها [ الحشر/ 5] کجھور کے جو درخت تم نے کاٹے یا ان کو اپنی جڑوں پر کھڑا رہنے دیا سو خدا کے حکم سے تھا ۔ اور قیام اختیاری کے معنی میں فرمایا : ۔ أَمَّنْ هُوَ قانِتٌ آناءَ اللَّيْلِ ساجِداً وَقائِماً [ الزمر/ 9] یا وہ جو رات کے وقتوں میں زمین پیشانی رکھ کر اور کھڑے ہوکر عبادت کرتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِياماً وَقُعُوداً وَعَلى جُنُوبِهِمْ [ آل عمران/ 191] اور جو کھڑے اور بیٹھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہر حال میں خدا کو یاد کرتے ہیں ۔ اور نیز ایت : ۔ وَالَّذِينَ يَبِيتُونَ لِرَبِّهِمْ سُجَّداً وَقِياماً [ الفرقان/ 64] اور وہ لوگ اپنے پروردگار کے آگے سجدہ کر کے ( عجز وادب سے ) کھڑے رہکر راتیں بسر کرتے ہیں ۔ میں قیام قائم کی جمع ہے اور کسی چیز کی حفاظت اور مراعات کے معنی میں فرمایا : ۔ الرِّجالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّساءِ [ النساء/ 34] مرد عورتوں پر راعی اور محافظ ہیں ۔ كُونُوا قَوَّامِينَ لِلَّهِ شُهَداءَ بِالْقِسْطِ [ المائدة/ 8] انصاف پر قائم رہو اور خدا کے لئے سچی گواہی دو ۔ قائِماً بِالْقِسْطِ [ آل عمران/ 18] جو انصافپر قائم ہیں ۔ أَفَمَنْ هُوَ قائِمٌ عَلى كُلِّ نَفْسٍ بِما كَسَبَتْ [ الرعد/ 33] تو کیا جو خدا ہر متنفس کے اعمال کا نگہبان ہے ۔ یہاں بھی قائم بمعنی حافظ ہے ۔ نیز فرمایا ؛ لَيْسُوا سَواءً مِنْ أَهْلِ الْكِتابِ أُمَّةٌ قائِمَةٌ [ آل عمران/ 113] یہ بھی سب ایک جیسے نہیں ہیں ۔ ان اہل کتاب میں کچھ لوگ حکم خدا پر قائم بھی رہیں ۔ اور آیت کریمہ : إِلَّا ما دُمْتَ عَلَيْهِ قائِماً [ آل عمران/ 75] تو جب تک اس کے سر پر ہر وقت کھڑے نہ رہو ۔ میں قائما کے معنی برابر مطالبہ کرنے والے کے ہیں اور قیام بمعنی عزم کے متعلق فرمایا : يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلاةِ [ المائدة/ 6] مومنو جب تم نماز پڑھنے کا قصد کیا کرو اور آیت کریمہ : ۔ يُقِيمُونَ الصَّلاةَ [ المائدة/ 55] اور آداب کے ساتھ نماز پڑھتے ۔۔۔۔۔۔۔۔ ہیں ۔ میں یقیمون کے معنی نماز پر دوام اور راس کے ارکان کی حفاطت کرنے کے ہیں ۔ اور قیام دقوام اس چیز کو بھی کہتے ہیں جس کے سہارے کوئی چیز قائم رہ سکے جس طرح کہ عماد اور سناد اس چیز کو کہتے ہیں جس سے کسی چیز کو سہارا لگا دیا جائے ۔ قرآن پاک میں ہے ۔ وَلا تُؤْتُوا السُّفَهاءَ أَمْوالَكُمُ الَّتِي جَعَلَ اللَّهُ لَكُمْ قِياماً [ النساء/ 5] اور بےعقلوں کو ان کا مال جسے خدا نے تم لوگوں کے لئے سبب معشیتبنایا مت دو ۔ یعنی ان کو تمہاری بقا کا سبب بنایا قلد الْقَلْدُ : الفتل . يقال قَلَدْتُ الحبل فهو قَلِيدٌ ومَقْلُودٌ ، والْقِلَادَةُ : المفتولة التي تجعل في العنق من خيط وفضّة وغیرهما، وبها شبّه كلّ ما يتطوّق، وكلّ ما يحيط بشیء . يقال : تَقَلَّدَ سيفه تشبيها بالقِلادة، کقوله : توشّح به تشبيها بالوشاح، وقَلَّدْتُهُ سيفا يقال تارة إذا وشّحته به، وتارة إذا ضربت عنقه . وقَلَّدْتُهُ عملا : ألزمته . وقَلَّدْتُهُ هجاء : ألزمته، وقوله : لَهُ مَقالِيدُ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الزمر/ 63] أي : ما يحيط بها، وقیل : خزائنها، وقیل : مفاتحها والإشارة بكلّها إلى معنی واحد، وهو قدرته تعالیٰ عليها وحفظه لها . ( ق ل د ) القلد کے معنی رسی وغیرہ کو بل دینے کے ہیں ۔ جیسے قلدت الحبل ( میں نے رسی بٹی ) اور بٹی ہوئی رسی کو قلید یامقلود کہاجاتا ہے اور قلاوۃ اس بٹی ہوئی چیز کو کہتے ہیں جو گردن میں ڈالی جاتی ہے جیسے ڈور اور چاندی وغیرہ کی زنجیر اور مجازا تشبیہ کے طور پر ہر اس چیز کو جو گردن میں ڈال جائے یا کسی چیز کا احاطہ کرے قلاوۃ کہاجاتا ہے اور اسی تقلد سیفہ کا محاورہ ہے ۔ کیونکہ وہ بھی قلاوۃ کی طرح گردن میں ڈال کر لٹکائی جاتی ہے ۔ جیسے وشاح ( ہار) سے توشح بہ کا محاورہ استعمال ہوتا ہے اور قلدتہ سیفا کے معنی کسی کی گردن میں تلوار یا باندھنے باتلوار سے اس کی گردن مارنے کے ہیں ۔ قلدتہ عملا کوئی کام کسی کے ذمہ لگا دینا ؛ قلدتہ ھجاء کسی پر ہجوم کو لازم کردینا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لَهُ مَقالِيدُ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الزمر/ 63] اس کے پاس آسمانوں اور زمین کی کنجیاں ہیں ۔ میں مقالید سے مراد وہ چیز ہے جو ساری کائنات کا احاطہ کئے ہوئے ہے ۔ بعض نے اس سے خزانے اور بعض نے کنجیاں مراد لی ہیں لیکن ان سب سے اللہ تعالیٰ کی اس قدرت اور حفاظت کی طرف اشارہ ہے جو تمام کائنات پر محیط ہے ۔ أرض الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . ( ا رض ) الارض ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ شيء الشَّيْءُ قيل : هو الذي يصحّ أن يعلم ويخبر عنه، وعند کثير من المتکلّمين هو اسم مشترک المعنی إذ استعمل في اللہ وفي غيره، ويقع علی الموجود والمعدوم . ( ش ی ء ) الشئی بعض کے نزدیک شی وہ ہوتی ہے جس کا علم ہوسکے اور اس کے متعلق خبر دی جاسکے اور اس کے متعلق خبر دی جا سکے اور اکثر متکلمین کے نزدیک یہ اسم مشترکہ ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے ماسواپر بھی بولا جاتا ہے ۔ اور موجود ات اور معدہ سب کو شے کہہ دیتے ہیں ،

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

قول باری ہے (جعل اللہ الکعبۃ المبیت الحرام قیاماً للناس۔ ہم نے مکان محترم کعبہ کو لوگوں کے لئے (اجتماعی زندگی کے) قیام کا ذریعہ بنایا) تا آخرت آیت ایک قول ہے کہ اللہ کی مراد اس سے یہ ہے کہ اس نے کعبہ کو لوگوں کی معیشت کا سہارا اور ستون بنادیا۔ جس طرح یہ محاورہ ہے ۔” ھو قوام الامرو ملا کہ “ (وہ اس معاملہ کا سہارا اور بنیاد ہے) یعنی اس کی ذات کے سہارے یہ معامل ہٹھیک ٹھاک رہتا ہے۔ کبعہ بھی لوگوں کے دین اور دنیا دونوں کی درست رکھنے کا ذریعہ ہے ۔ سعید بن جبیر کا یہ قول منقول ہے کہ یہ لوگوں کے لئے سہارا اور ان کی بھلائی کا ذریعہ ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ یہ لوگوں کے قیام کا ذریعہ ہے یعنی اس کے ذریعے لوگوں کے جسم قائم رہتے ہیں۔ اس لئے کہ کعبہ کی وجہ سے وہ امن و امان میں رہتے اور ہلاکت سے محفوظ ہوتے ہیں اور پوری دل جمعی کے ساتھ زندگی کے گذر ان کے ذرائع تلاش کرتے ہیں۔ کعبہ ان کے دین کے لئے بھی قوام اور درست رکھنے کا ذریعہ ہے اس لئے کہ مناسک حج میں اعمال قبیحہ سے دور رکھنے اور نیکی کی طرف ہلانے کا سامان موجود ہوتا ہے۔ نیز حرم اور حرمت کے مہینوں میں امن و امان ہوتا ہے نیز حج اور مناسک کی ادائیگی کے مواقع پر لوگوں کا اجتماع ہوتا ہے۔ دنیا کے کونے کونے سے لوگ جمع ہوتے ہیں جس کی وجہ سے لوگوں کی معیشت بھی درست ہوجاتی ہے اور معاشی حالات پر بھی اچھا اثر پڑتا ہے۔ اسی طرح ہدی اور قلائد بھی امن و امان کا ذریعہ ہیں۔ جب انسان قربانی کے جانور کے گلے میں پٹہ ڈال کر سفر کرتا ہے تو کوئی شخص اس سے کسی قسم کا کوئی تعرض نہیں کرتا۔ ایک قول یہ ہے کہ جب کوئی شخص احرام باندھنے کا ارادہ کرتا تو وہ حرم کے درختوں کی چھال اپنے گلے میں ڈال لیتا اور اس طرح محفوظ ہوجاتا۔ حسن نے قلائد کی تفسیر میں کہا ہے کہ اس سے مراد اونٹوں اور گایوں کے گلے میں جوتے اور موزے وغیرہ لٹکانا ہے۔ یہ کام دین میں عبادت گذاری کو درست رکھنے کے لئے کیا جاتا ہے۔ یہ امر اس پر دلالت کرتا ہے کہ قربانی کے اونٹوں کو پٹے پہنانا عبادت ہے اسی طرح قربانی کے جانور بانک کرلے جانا بھی تقرب الٰہی کا ذریعہ ہے۔ کعبہ حرمت والے گھر کا نام ہے۔ مجاہد اور عکرمہ کا قول ہے کہ کعبہ کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ وہ مربع شکل کا ہے۔ اہل لغت کا قول ہے کہ اضافت کی صورت میں ” کعبۃ البیت “ اس لئے کہا گیا کہ بیت اللہ کی چوکور کرسی اسے اوپر کی طرف مربع شکل میں بلند کرتی ہے۔ یہ لفظ کعوبۃ سے نکلا ہے جس کے معنی ابھار کے ہیں۔ تربیع یعنی چوکور بنانے کو کعبہ اس لئے کہا جاتا ہے کہ مربع کے زاویے اور گوشے ابھرے ہوئے ہوتے ہیں۔ اس سے یہ محاورہ ہے۔ ” کعب ثدی الحباریہ “ (لڑکی کے پستان میں ابھار پیدا گیا) اسی سے ” کعب الانسان “ بھی ہے یعنی انسان کا ٹخنہ ، اس لئے کہ اس میں ابھار ہوتا ہے ۔ یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ وضو میں پائوں دھونے کی انتہا جس حصے پر ہوتی ہے وہ یہی ٹخنے ہیں جو پنڈلی کی جڑ میں دونوں طرف ابھرے ہوئے ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے بیت کو حرم یعنی محترم کے نام سے موسوم کیا اس لئے کہ اس سے سارا حرم مراد ہے یہاں شکار پکڑنا، گھاس وغیرہ اکھاڑنا، یہاں آ کر پناہ لینے والے کو قتل کرنا سب حرام ہے۔ اس کی مثال یہ قول باری ہے (ھدیا بانع الکعبۃ) اس سے مراد حرم ہے۔ قول باری ہے (والشھر الحرام اور ماہ حرام کو بھی (اس کام میں معاون بنایا ) حسن سے مروی ہے کہ اس سے مراد حرمت والے مہینے ہیں۔ یہاں ان مہینوں کو واحد کی شک ل میں بیان کیا گیا ہے۔ اس لئے جنس ماہ حرام مراد ہے۔ یہ چار مہینے ہیں۔ ان میں تین لگاتار ہیں یعنی ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم ایک مہینہ تنہا ہے اور وہ رجب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا کہ اس نے ماہ حرام کو لوگں کے قیام کا ذریعہ بنادیا ہے اس لئے کہ لوگوں کو ان مہینوں کے دوران امن و امان حاصل ہوجاتا تھا اور لوگ اطمینان کے ساتھ اپنے گذران کے ذرائع اور معاش کے وسائل کی تلاش میں ایک جگہ سے دوسری جگہ آ جاسکتے تھے۔ اس طرح ان مہینوں میں انہیں سہارا حاصل ہوجاتا۔ اللہ تعالیٰ نے مناسک حج ، حرم، حرمت کے مہینوں ، ہدی اور قلائد کو لوگوں کے قوام اور سہارے کے طور پر ذکر کیا ہے، اس کا سب کو علم تھا اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے زمانے سے حج کی ابتداء کے وقت سے لے کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے تک بلکہ رہتی دنیا تک لوگ اس کا مشاہدہ کرتے چلے آ رہے اور کرتے رہیں گے۔ ایمان کے بعد لوگوں کے معاش و معاد کی صلاح و فلاح کا جس قدر حج کے ساتھ تعلق ہے آپ کو دین و دنیا کی کسی اور چیز کے ساتھ یہ تعلق نہیں آئے گا۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ حج کے اجتماعات میں آنے والے حاجیوں کے منافع اور فوائد کس قدر زیادہ ہیں جو دنیا کے تمام ملکوں اور شہروں سے آ کر ان اجتماعات میں شریک ہوتے ہیں اور حج کے بعد اپنے گھروں کو واپسی تک مکہ مکرمہ اور منیٰ کی سر زمین سے گذرتے اور آتے جاتے رہتے ہیں۔ اسی دوران لوگوں کو ان سے منتفع ہونے اور اپنے معاش اور تجارت کو فروغ دینے کے کثیر مواقع ہاتھ آ جاتے ہیں پھر حج کے اندر دینی منافع ان کے علاوہ ہیں۔ حج کے سفر کی تیاری گناہوں سے توبہ، زاد راہ کے طور پر پاکیز ترین نیز حلال ترین مال کا استعمال، سفر کی مشقتوں کی برداشت بیت اللہ تک کے لئے خطرات کا مقابلہ چوروں اور ٹھگوں کے ہاتھوں پہنچنے والے نقصانات کی فراموشی پھر احرام باندھ کر ہر طرف سے فراغت حاصل کر کے اللہ کے لئے یکسو ہوجانا۔ نیز قیامت کے دن اپنی قبروں سے نکل کر عرصہ محشر میں پہنچنے والوں کے ساتھ مشابہت اختیار کرلینا، تلبیہ کے ذریعے کثرت سے اللہ کو یاد کرنا، اس کے سامنے گڑ گڑانا، بیت اللہ کے پاس اخلاص نیت کا اظہار کرنا، نیز اس یقین کے ساتھ بیت اللہ کے پردوں سے لپٹ جانا جس طرح ڈوبتا ہوا انسان بچائو کے ذریعے سے لپٹ جاتا ہے کہ اللہ کی ذات کے سوا کوئی اور جائے پناہ نہیں۔ نیز یہ کہ اس کی ذات کا سہارا لئے بغیر نجات کا کوئی اور راستہ نہیں۔ پھر اللہ کی رسی یعنی شریعت پر ثابت قدمی کا اظہار … یقینا جو شخص اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لے گا وہ نجات پا جائے گا اور جو چھوڑ دے گا وہ ہلاک ہوجائے گا پھر میدان عرفات میں پہنچنا اور دنیا کی ہر چیز سے کنارہ کش ہو کر، مال و دولت اور اہل و عیال کو فراموش کر کے اہل محشر کی طرح قدموں کے بل کھڑے ہو کر اللہ سے گڑ گڑا کر دعائیں مانگنا، اس کی رحمت اور اس کے فضل سے آس لگانا۔ یہ سب ایسے امور ہیں جن سے حاصل ہونے والے بیشمار دینی منافع و فوائد سے کوئی شخص انکار نہیں کرسکتا۔ مناسک حج کی ادائیگی کے دوران اللہ کے ذکر کی کثرت، اس کے سامنے عجز و نیاز مندی نیز اطاعت و فرمانبرداری کے بار بار اظہار پر غور کیجیے، پھر یہ بھی دیکھیے کہ نماز، روزہ، زکوۃ اور صدقات و خیرات کی صورت میں نیکیوں کی جتنی شکلیں ہیں وہ سب کی سب مناسک حج کے اندر موجود ہیں۔ علاوہ ازیں بیت اللہ کے طواف نیز ذکر جہری اور ذکر سری یا ذکر لسانی اور ذکر قلب سے تقویت الٰہی کے جو مواقع ہاتھ آتے ہیں انہیں بھی دھیان میں رکھیے تو آپ اس نتیجے پر پہنچیں کے ان تمام سے ایک انسان کو بیشمار دینی اور دنیوی منافع و فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ اگر ہم ان امور پر تفصیل سے روشنی ڈالتے تو یقینا گفتگو بڑی طویل ہوجاتی، اس لئے اس پر ہی اکتفا کرتے ہیں۔ قول باری ہے (ذلک لتعلموا ان اللہ یعلم ما فی السموات وما فی الارض تاکہ تمہیں معلوم ہوجائے کہ اللہ آسمانوں اور زمین کے سب حالات سے باخبر ہے) اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ حج کی مشروعیت سے حاصل ہونے والے دنیوی و اخروی فوائد و منافع سے اللہ باخبر تھا۔ چنانچہ اس نے اس کا ایسا لاجواب نظام قائم کردیا جس میں پہلی امت سے لے کر آخری امت تک کے لئے قیامت تک انسانوں کی صلاح و فلاح کی تمام صورتیں سمٹ کر آ گئیں۔ اگر اللہ تعالیٰ عالم الغیب نہ ہوتا اور اسے تمام اشیاء کے وجود میں آنے سے پہلے ان کی خبر نہ ہوتی تو ان امور کے بارے میں اس کی تدبیر و تصرف کے وہ نتائج برآمد نہ ہوتے جو بندوں کے دین و دنیا کی صلاح و فلاح کی صورت میں برآمد ہوئے ہیں۔ اس لئے کہ جس ذات کو ایک چیز کے وجود میں آنے سے پہلے اس کا علم نہ ہو اس سے اس قدر محکم اور پختہ انداز میں ایک اچھوتے نظام و تربیت کے ساتھ فعل کا صدور نہیں ہوسکتا جس کا فائدہ پوری امت کے دین و دنیا دونوں پر محیط نظر آتا۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٩٧) کعبہ کو عبادت خداوندی میں امن اور لوگوں کی مصلحتوں کے قائم رہنے کا سبب قرار دیا ہے اور اسی طرح عزت والے مہینے کو اور اسی طرح حرم میں قربانی ہونے والے جانور کو اسی طرح ان جانوروں کو جن کے گلوں میں حرم کے درختوں کے پٹے پڑے ہوئے ہوں، ان ساتھیوں کے لیے جو کہ اس میں ہوتے ہیں، باعث امت قرار دیا ہے، یہ تمام احکام اس لیے بیان کیے ہیں تاکہ تمہیں معلوم ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ زمین و آسمان اور ان کے رہنے والوں کی اصلاح سے بخوبی واقف ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٩٧ (جَعَلَ اللّٰہُ الْکَعْبَۃَ الْبَیْتَ الْحَرَامَ قِیٰمًا لِّلنَّاسِ ) (وَالشَّہْرَ الْحَرَامَ وَالْہَدْیَ وَالْقَلَآءِدَ ط) یہ سب اللہ تعالیٰ کے شعائر ہیں اور اسی کے معیّن کردہ ہیں۔ سورة کے شروع میں بھی ان کا ذکر آچکا ہے۔ یہاں در اصل تو ثیق ہو رہی ہے کہ یہ سب چیزیں زمانہ جاہلیت کی روایات نہیں ہیں بلکہ خانہ کعبہ کی حرمت اور عظمت کی علامت ہیں۔ ئ (ذٰلِکَ لِتَعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ یَعْلَمُ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ ) (وَاَنَّ اللّٰہَ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ ) آگے چل کر ان چیزوں کے مقابلے میں ان چار چیزوں کا ذکر آئے گا جو اہل عرب کے ہاں بغیر کسی سند کے حرام کرلی گئی تھیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

113. In Arabia, the Ka'bah was not merely a sacred place of worship. Thanks to its central position and its sanctity, it nurtured the economic and cultural life of the whole peninsula. Since the entire populace was drawn towards the Ka'bah for the performance of Hajj and 'Umrah, their coming together brought about a measure of unity in the life of the Arabs which was otherwise rent with disunity. This enabled the people of various regions and tribes to establish social and cultural ties among themselves. Moreover, the security which reigned in the vicinity of the Ka'bah provided an impetus to creative literary activity, with the result that in the fairs held in the sacred territory, poets placed their poetic compositions before the audience, trying to excel one another. This led to the growth and flowering of their language and literature. Thanks, again, to the peace and security which reigned in the sacred territory, it became a major centre of trade and commerce. Moreover, since certain months of the year were regarded as sacred months in which there could be no bloodshed, the Arabs enjoyed peace and security for about a quarter of the year. It was during this period that caravans moved in freedom and with ease from one end of the peninsula to the other. The custom of consecrating animals for sacrifice, marked off from others by the collars around their necks, also facilitated the movement of caravans, for whenever the Arabs saw those animals with their collars signifying consecration for sacrifice, they-bent their heads in reverence and no predatory tribe had the courage to molest them. 114. Were they to consider even the social and economic aspects of the life of their people, the existing arrangements would provide them with clear testimony to the fact that God has deep and thorough knowledge of the interests and requirements of His creatures, and that He can ensure immensely beneficial effects on many sectors of human life by just one single commandment. During the several centuries of anarchy and disorder which preceded the advent of the Prophet (peace be on him), the Arabs were themselves unaware of their own interests and seemed bent upon self-destruction. God, however, was aware of their needs and requirements and by merely investing the Ka'bah with a central position in Arabia He ensured their national survival. Even if they disregarded innumerable other facts and reflected on this alone they would become convinced that the injunctions revealed by God were conducive to their well-being, and that underlying them were a great many benefits and advantages for them which they themselves could neither have grasped nor achieved by their own contriving.

سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :113 عرب میں کعبہ کی حیثیت محض ایک مقدس عبادت گاہ ہی کی نہ تھی بلکہ اپنی مرکزیت اور اپنے تقدس کی وجہ سے وہی پورے ملک کی معاشی و تمدنی زندگی کا سہارا بنا ہوا تھا ۔ حج اور عمرے کے لیے سارا ملک اس کی طرف کھنچ کر آتا تھا اور اس اجتماع کی بدولت انتشار کے مارے ہوئے عربوں میں وحدت کا ایک رشتہ پیدا ہوتا ، مختلف علاقوں اور قبیلوں کے لوگ باہم تمدنی روابط قائم کرتے ، شاعری کے مقابلوں سے ان کی زبان اور ادب کو ترقی نصیب ہوتی ، اور تجارتی لین دین سے سارے ملک کی معاشی ضروریات پوری ہوتیں ۔ حرام مہینوں کی بدولت عربوں کو سال کا پورا ایک تہائی زمانہ امن کا نصیب ہو جاتا تھا ۔ بس یہی زمانہ ایسا تھا جس میں ان کے قافلے ملک کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک بسہولت آتے جاتے تھے ۔ قربانی کے جانوروں اور قلادوں کی موجودگی سے بھی اس نقل و حرکت میں بڑی مدد ملتی تھی ، کیونکہ نذر کی علامت کے طور پر جن جانوروں کی گردن میں پٹے پڑے ہوتے انہیں دیکھ کر عربوں کی گردنیں احترام سے جھک جاتیں اور کسی غارت گر قبیلے کو ان پر ہاتھ ڈالنے کی جرأت نہ ہوتی ۔ سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :114 یعنی اگر تم اس انتظام پر غور کرو تو تمہیں خود اپنے ملک کی تمدنی و معاشی زندگی ہی میں اس امر کی ایک بین شہادت مل جائے کہ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کے مصالح اور ان کی ضروریات کا کیسا مکمل اور گہرا علم رکھتا ہے اور اپنے ایک ایک حکم کے ذریعہ سے انسانی زندگی کے کتنے کتنے شعبوں کو فائدہ پہنچا دیتا ہے ۔ بد امنی کے یہ سینکڑوں برس جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم عربی کے ظہور سے پہلے گزرے ہیں ، ان میں تم لوگ خود اپنے مفاد سے ناواقف تھے اور اپنے آپ کو تباہ کرنے پر تلے ہوئے تھے ، مگر اللہ تمہاری ضرورتوں کو جانتا تھا اور اس نے صرف ایک کعبہ کی مرکزیت قائم کر کے تمہارے لیے وہ انتظام کر دیا تھا جس کی بدولت تمہاری قومی زندگی برقرار رہ سکی ۔ دوسری بے شمار باتوں کو چھوڑ کر اگر صرف اسی بات پر دھیان کرو تو تمہیں یقین حاصل ہو جائے کہ اللہ نے جو احکام تمہیں دیے ہیں ان کی پابندی میں تمہاری اپنی بھلائی ہے اور ان میں تمہارے لیے وہ وہ مصلحتیں پوشیدہ ہیں جن کو نہ تم خود سمجھ سکتے ہو اور نہ اپنی تدبیروں سے پورا کر سکتے ہو ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

67: کعبے شریف اور حرمت والے مہینے کا باعث امن ہونا تو ظاہر ہے کہ اس میں جنگ کرنا حرام ہے، اس کے علاوہ جو جانور نذرانے کے طور پر حرم لے جائے جاتے تھے ان کے گلے میں پٹے ڈال دئے جاتے تھے تاکہ ہر دیکھنے والے کو پتہ چل جائے کہ یہ جانور حرم جارہے ہیں ؛ چنانچہ کافر، مشرک، ڈاکو بھی ان کو چھیڑتے نہیں تھے، کعبے کے قیام امن کا باعث ہونے کے ایک معنی کچھ مفسرین نے یہ بھی بیان فرمائے ہیں کہ جب تک کعبہ شریف قائم رہے گا قیامت نہیں آئے گی، قیامت اس وقت آئے گی جب اسے اٹھالیا جائے گا۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(5:97) الکعبۃ۔ چوکور مکعب شکل کا مکان جس کی ہر جانب مربع ہو۔ یعنی چھت ، فرش، چاروں اطراف، جو بیرونی سطح سے اونچا ہو۔ یعنی کرسی پر بنا ہوا ہو۔ مراد مسلمانوں کا قبلہ۔ اس کو کعبہ اسی لئے کہتے ہیں کہ اول تو ملحقہ سطح سے اونچا بنا ہوا ہے یعنی کرسی ملحقہ سطح سے اونچی ہے۔ اور دوسرے قریباً قریباً مربع الجوانب مکعب شکل کا ہے۔ اصل میں اس کا کوئی ضلع بھی دوسرے کے برابر نہیں ہے موقع پر اس کی پیمائش یوں ہے۔ شرقی دیوار کا طول 11 میٹر 58 سینٹی میٹر مغربی دیوار کا طول 11 میٹر 93 سینٹی میٹر (شمالی) شامی جانب کی دیوار کو طول 10 میٹر 22 سینٹی میٹر (جنوبی) یمنی جانب کی دیوار کا طول 10 میٹر 13 سینٹی میٹر (رکن یمانی اور حجر اسود کے درمیان) کعبہ کی سطح زمین سے بلندی 15 میٹر دیوار شرقی سے مقام ابراہیم تک فاصلہ 11 میٹر 10 سینٹی میٹر (الحرم المکی۔ الحاج عباس کرارۃ) القاہرہ البیت الحرام۔ عزت والا گھر۔ حرمت والا گھر۔ الشھر الحرام۔ عزت و حرمت والا مہینہ۔ یا گر الشھر کو اسم جنس لیا جاوے تو اس کے معنی اشھر الحرم ہوں گے۔ عزت و حرمت والے مہینے۔ یعنی ذوالقعدہ۔ ذوالحجہ۔ محرم اور رجب المرجب الھدی والقلاید۔ کے لئے دیکھو 5:2 ۔ قربانی کے جانور اور وہ جانور جن کے گلے میں پٹے پڑے ہوئے ہوں۔ قیاما للناس۔ قیام وقوام۔ اس چیز کو کہتے ہیں جس سے کسی چیز کو سہارا لگا دیا جائے چناچہ قرآن مجید میں ہے :۔ ولا تؤتوا السفھاء اموالکم التی جعل اللہ لکم قیاما (4:5) اور بےعقلوں کو ان کا مال جسے خدا نے تم لوگوں کے لئے سبب معیشت بنایا ہے۔ مت دو ۔ اسی طرح آیت ہذا میں ہے کہ :۔ اللہ تعالیٰ نے کعبہ کو جو عزت والا گھر ہے لوگوں کے لئے بقاء کا باعث بنایا ہے۔ البیت الحرام۔ کعبہ کی صفت ہے۔ الشھر الحرام ۔ الھدی۔ القلائدسب کا عطف الکعبۃ پر ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے ان سب کو لوگوں کی بقاء اور ان کی اجتماعی زندگی کے قیام کا ذریعہ بنایا ہے۔ قیاما۔ جعل کا مفعول ثانی ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 11 اوپر کی آیت میں محرم کے لیے شکار کو حرام قرار دیا اب اس آیت میں بتایا کہ جس طرح حرم کو اللہ تعالیٰ نے وحشی جانوروں اور پرندوں کے لیے سبب امن قرار دیا ہے اسی طرح اسے لوگوں کے لیے جائے امن بنادیا ہے اور دینوی اور اخروی سعادتوں کے حصول کا ذریعہ بنایا ہے (کبیر) یعنی اہل مکہ کی معاش کا مدار اسی پر ہے کہ لوگ دور دراز سے حج اور تجارت کے ارادے سے یہاں پہنچے ہیں اور ہر قسم کی ضروریات ساتھ لاتے ہیں جس سے اہل مکہ رزق حاصل کرتے ہیں او لوگ یہاں پہنچ کر امن وامان پاتے ہیں حتی کہ جاہلیت میں بھی حرم کے اندر کوئی شخص اپنے باپ یا بیٹے کے قاتل تک کو کچھ نہ کہتا تھا اور عبادت وثواب کے اعتبار سے بہترین جگہ ہے الٖغرض یہ تمام چیزیں لوگوں کے قیام کا سبب ہیں (کبیر۔ فتح القدیر 912 ادب والے مہینے چاہیں ذولقعدہ، ذوالحج، محرم اور رجب ان چار مہینوں میں لوگ امن سے سفر اور تجارت کرتے اور اپنے لی سال بھر کا آذوقہ جمع کرلیتے اس اعتبار سے یہ مہینے بھی گویا لوگوں کی زندگی قائم رہنے کا ذریعہ ہیں۔ (کبیر)13 ان کو لوگوں کے لیے قیام کا سبب ہوتا اس اعتبار سے کہ ہدی کا گوشت مکہ کے فقرا میں تقسیم ہوتا او ہدی اور قلا دہ والے جانور کوئی شخص لے کر چلتا تو اس کا تمام عرب احترام کرتے۔ مقصد کعبہ کی عظت کو بیان کرنا تھا اس کے با لتبع ان چیزوں کا بھی ذکر کردیا کیونکہ ان کا تعلق بھی بیت اللہ کعبہ۔ سے ہے (کبیر)14 یعنی یہ کہ اس نے ان چیزوں کو قیام کا سبب بنایا ہے۔15 یعنی اللہ تعالیٰ زمین و آسمان کی تمام تفصیلات جاننا ہے اور اسے خوب معلوم ہے کہ تمہاری دینی ومعاشی مصلحتیں کس چیز میں اور کسی چیز میں نہیں۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

آیت نمبر 97 تا 100 لغات القرآن : قیما (قائم رہنے (کا سبب) ۔ القلائد (قلادۃ) ۔ پٹے (جو جانور کے گلے میں ڈالے جاتے ہیں) ۔ تبدون (تم ظاہر کرتے ہو) ۔ تکتمون (تم چھپاتے ہو) ۔ لایستوی (برابر نہیں ہیں) ۔ الخبیث (گندگی۔ برائی) ۔ الطیب (پاکیزگی۔ نیکی) ۔ اعجبک (تجھے بہتر لگے۔ اچھی لگے) ۔ کثرۃ الخبیت (گندگی کی کثرت) ۔ اولو الالباب (لب) عقل۔ سمجھ۔ عقلوں والے) ۔ تشریح : جب سے کعبہ بنا ہے انبیاء اسی کی طرف رخ کرکے نمازیں پڑھتے رہے ہیں اور ہر سال اس کا حج بھی کرتے رہے ہیں۔ دنیا میں کوئی دوسرا ایسا گھر نہ کبھی بنا اور نہ بنے گا۔ ابرہہ نے اس کے مدمقابل جب کلیس بنایا تو جس طرح وہ اپنی فوج کے ساتھ تباہ و برباد ہوا اسے سب نے دیکھا۔ اور اب کسی کی ہمت نہیں ہے کہ اس کے مدمقابل کوئی دوسرا مرکز حج یا قبلہ نماز بنا سکے۔ دنیا یا خود عرب کے حالات خواہ کیسے ہی برے کیوں نہ ہوں، کعبہ کی مرکزیت قائم ہے۔ حج کی بدولت سال میں چار مہینے امن کے مل جاتے ہیں۔ ذوالقعدہ، ذی الحجہ، محرم اور رجب۔ ان امن کے مہینوں میں تمام عرب لڑائی بھڑائی اور لوٹ مار ختم کردیتے ہیں۔ تمام دنیا سے لوگ حج کو آتے۔ مکہ میں رہتے اور واپس چلے جاتے تھے۔ اس حج کی وجہ سے سفر ہوتا ہے۔ قربانی کے جانوروں کی تجارت ہوتی ہے۔ میزبان خانے قائم ہوتے ہیں۔ لوگ ایک دوسرے سے ملتے جلتے اور تعلقات قائم کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ ۔ اس طرح حج نہ صرف دینی بلکہ دنیاوی فوائد اپنے ساتھ لاتا ہے۔ اسی حج کی بدولت عرب کی قومی زندگی باقی رہ گئی ورنہ آپس کے کشت و خون نے عربوں کو آگ کے گڑھے کے کنارے لاکھڑا کردیا تھا۔ عالمی مرکزیت کی اہمیت کو اللہ جانتا تھا۔ لوگ نہیں جانتے تھے۔ اسی لئے کعبہ بنایا گیا۔ اسے بیت الحرام یعنی امن اور عزت کی جگہ مقرر فرمایا۔ حج کا سلسلہ قائم کیا اور حج کی بدولت حرمت کے مہینوں ، قربانی کے جانوروں ، بطور نشان دہی ان جانوروں کے گلے کے پٹوں کو شعائر اللہ قرار دیا اور تمام لوگوں کے دلوں میں ان شعائر اللہ کی عزت اور عظمت قائم کی تاکہ لوٹ مار، فساد اور حملہ سے محفوظ رہیں۔ اسی حج کی بدولت مکہ وہ شہر بنا جہاں لوگ دورو نزدیک سے آتے۔ قیام کرتے، تجارت کرتے، کھاتے پیتے اور ایک نئی فضا پاتے ہیں ، کیونکہ مکہ خود ایک وادی غیر ذی زرع تھا (جہاں کوئی کاشت نہ ہوتی ہو ایسی وادی) ۔ مکہ کو بستی بنانے والا، وہاں خوردونوش اور دیگر ضروریات زندگی مہیا کرنے والا ، وہاں کعبہ بنوا کر حج کا اور نماز کا ادارہ قائم کرنے والا، امن وامان اور عالمی مرکزیت بخشنے والا کوئی انسان نہ تھا بلکہ اللہ واحد کی ذات تھی جو عالم الغیب بھی ہے اور منتظم سمٰوت والارض بھی ہے اور جسے خوب خبر تھی کہ انسان ، خصوصاً مسلمان کی ضرورت کیا ہے اور حل کیا ہے۔ اس لئے فرمایا کہ اے سننے والو ! دل کے کانوں سے سن لو کہ جو شخص نماز اور حج کو خراب کرے گا، اسے سخت سزا دی جائے گی۔ اور جو شخص نماز اور حج کو قائم کرے گا اور قائم کرنے میں ایک دوسرے کی مدد دے گا، اسے مغفرت اور رحمت نصیب ہوگی۔ فرمایا تمہیں کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا ہے، یعنی شریعت اور اس کے اوامرو نواہی کیا ہیں، اس کی تعلیمات اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دے رہے ہیں ۔ سنو اور بجالاؤ۔ رسول کا کام اس سے زیادہ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکام لوگوں تک پہنچا دے۔ اب ماننا نہ ماننا ان کا کام ہے۔ جب بات فرماں برداری اور نافرمانوں پر آگئی ہے تو نافرمانوں کے پاس مال و دولت حشمت و اقتدار کی کثرت دیکھ کر کوئی ادھر دوڑ نہ پڑے۔ نافرمانوں کو دنیا کی نعمتوں کی کثرت اللہ نے اپنی مصلحت سے دی ہے۔ پاک اور حلال کمائی ہوئی آمدنی خواہ قلیل ہو اس آمدنی سے ہزار درجہ بہتر ہے جو رشوت ، سود، ظلم، دھوکہ، بےایمانی، خیانت ، غضب ، چوری، ڈاکہ، اسمگلنگ وغیرہ سے حاصل کی گئی ہو۔ فرمایا گیا کہ ناپاک مال کی کثرت تمہیں حیرانی میں نہ ڈال دے۔ یہ محض چند دنوں کی رونق ہوتی ہے۔ فرمایا گیا کہ اگر تم عقل رکھتے ہو اور تمہیں آخرت کا یقین ہے تو نہ صرف مسلم بنو بلکہ متقی بنو اور حرام کی طرف بری نظر اٹھا کر بھی نہ دیکھو۔ جو کچھ تم کھلم کھلا کرتے ہو اور جو کچھ تم دنیا کی نظر سے بچا کر کرتے ہو اسے اللہ دیکھ رہا ہے۔ اور اس سے اچھی طرح واقف ہے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ کعبہ کے مصالح و برکات دنیویہ میں بعض یہ ہیں اس کا جائے امن ہونا وہاں ہر سال مجمع ہونا جس میں مالی ترقی اور قومی اتحاد بہت سہولت سے میسر ہوسکتا ہے اس کے بقا تک عالم کا باقی رہنا حتی کہ جب کفار اس کو منہدم کردیں گے تو قریب ہی قیامت آجائے گی۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : احرام کی حالت میں تمہیں شکار سے اس لیے منع کیا گیا ہے کہ اللہ کے گھر کا مقام اور احترام کا یہی تقاضا ہے جس کا تمہیں خیال رکھنا چاہیے۔ کیونکہ اللہ نے اسے امن و سکون کا گہوارا بنایا ہے۔ لفظ کعبہ کا معنی بیان کرتے ہوئے معارف القرآن کے مؤلف مفتی شفیع مرحوم لکھتے ہیں کہ عربی میں کعبہ ایسی عمارت کو کہتے ہیں جو چوکور ہو یعنی جو چار کونوں پر استوار اور اونچی جگہ پر ہو پھر ان کا بیان ہے کہ عرب میں کعبہ کے نام پر خشعم قبیلہ کی ایک عمارت تھی جسے کعبہ یمانیہ کہا جاتا تھا۔ قرآن مجید نے اس مغالطے سے بچانے کے لیے کعبہ کے ساتھ بیت الحرام کی تخصیص فرمائی ہے جو لوگوں کے لیے باعث قیام ٹھہرایا گیا ہے۔ بیت اللہ لوگوں کے لیے باعث قیام اس لیے ہے کہ جب تک لوگ اس کا احترام اور اس جانب منہ کرکے نماز پڑھتے رہیں گے اسی وقت تک ہی یہ دنیا قائم رہے گی۔ جب لوگ کعبہ کی طرف منہ کرکے اللہ تعالیٰ کی عبادت چھوڑ دیں گے تو دنیا کو نیست و نابود کردیا جائے گا۔ ” اَلنَّاسْ “ کے مفسرین نے تین مفہوم بیان کیے ہیں : ١۔ مکہ معظمہ اور اس کے آس پاس میں رہنے والے لوگ۔ ٢۔ حج اور عمرہ کے لیے بیت اللہ تک پہنچنے والے زائرین۔ ٣۔ پوری دنیا کے لوگ۔ اس آیت میں بیت اللہ کے ساتھ چار حرمت والے مہینے یعنی ذوالقعدہ، ذوالحجہ، محرم اور رجب اور حج وعمرہ کے موقع پر کی جانے والی قربانیاں اور اس کے علاوہ وہ جانور بھی محترم قرار دیے گئے ہیں جنھیں عرب بیت اللہ کے لیے وقف کرتے ہوئے ان کے گلے میں کسی قسم کا ہار ڈال دیا کرتے تھے۔ بعض مفسرین نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ کچھ لوگ بیت اللہ کی زیارت کا سفر باندھتے تو اپنے گلے میں کوئی ہار ڈال لیا کرتے تھے تاکہ ہر قسم کی زیادتی سے مامون ہوجائیں۔ بیت اللہ کی حرمت و برکت کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے یہ ارشاد فرمایا کہ یہ محرمات اس لیے مقرر کیے گئے ہیں تاکہ تم جان لو کہ اللہ تعالیٰ نے بیت اللہ کی وجہ سے تمہیں کس قدر عزت و تکریم اور اپنی نعمتوں سے نوازا ہے۔ جس طرح اللہ تعالیٰ نے تمہاری ضروریات کا خیال رکھا ہے۔ اس کا تمہیں احساس ہونا چاہیے کہ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اسے خوب جانتا ہے کیونکہ وہ زمین و آسمان کے چپے چپے اور ذرّے ذرّے سے واقف ہے اور تمہیں یہ بھی اچھی طرح معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نافرمانوں کو شدید ترین عذاب دینے والا اور تابع فرمان لوگوں کی کوتاہیوں کو معاف کرنے والا اور ان پر رحم کرنے والا ہے۔ ” حضرت انس (رض) فرماتے ہیں بیشک رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک زمین میں اللہ اللہ کہنے والے لوگ ہیں۔ “ [ رواہ مسلم : کتاب الایمان ] قرآن مجید نے سورة آل عمران آیت ٩٦ میں بیان کیا ہے کہ سب سے پہلے جو گھر معرض وجود میں آیا وہ بیت اللہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے لیے مبارک اور ہدایت کا مرکز قرار دیا ہے۔ نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ قیامت کے قریب حبشہ کا ایک آدمی جس کی پنڈلیاں عام لوگوں سے لمبی ہوں گی بیت اللہ کو شہید کرے گا۔ اس سے ثابت ہوا کہ جب تک بیت اللہ ہے اس وقت دنیا قائم رہے گی۔ بیت اللہ کا لوگوں کے لیے باعث قیام ہونے کا یہ مفہوم بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے گھر کی برکت کی وجہ سے اس کی زیارت کرنے والوں کو حفظ وامان سے نوازا ہے اور بےآب وگیاہ سر زمین میں اللہ تعالیٰ اس کے زائرین اور اس کے گرد و پیش رہنے والوں کو انواع و اقسام کے کھانوں، پھلوں اور نعمتوں سے نوازرہا ہے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے کعبہ تمام لوگوں کے لیے قیام کا باعث بنایا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ زمین و آسمان کی ہر چیز کو جانتا ہے۔ ٣۔ اللہ نافرمانوں کو سخت سزا دینے والا ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ فرمانبرداروں پر بہت رحمت کرنے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ زمین و آسمان کی ہر چیز کو جانتا ہے : ١۔ اللہ تعالیٰ جانتا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے۔ (الحجرات : ١٦) ٢۔ وہ جانتا ہے جو کچھ زمین میں داخل ہوتا اور جو کچھ اس سے نکلتا ہے۔ (الحدید : ٤) ٣۔ کیا انسان کو معلوم نہیں کہ اللہ جانتا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے۔ (المجادلۃ : ٧) ٤۔ اللہ جانتا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے۔ (التغابن : ٤) ٥۔ اللہ ہی کے پاس غیب کی چابیاں ہیں جنھیں اس کے سوا کوئی نہیں جانتا وہ بحر و برّ کی ہر چیز کو جانتا ہے۔ (الانعام : ٥٩)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(آیت) ” جَعَلَ اللّہُ الْکَعْبَۃَ الْبَیْْتَ الْحَرَامَ قِیَاماً لِّلنَّاسِ وَالشَّہْرَ الْحَرَامَ وَالْہَدْیَ وَالْقَلاَئِدَ ذَلِکَ لِتَعْلَمُواْ أَنَّ اللّہَ یَعْلَمُ مَا فِیْ السَّمَاوَاتِ وَمَا فِیْ الأَرْضِ وَأَنَّ اللّہَ بِکُلِّ شَیْْء ٍ عَلِیْمٌ(97) اعْلَمُواْ أَنَّ اللّہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ وَأَنَّ اللّہَ غَفُورٌ رَّحِیْمٌ(98) مَّا عَلَی الرَّسُولِ إِلاَّ الْبَلاَغُ وَاللّہُ یَعْلَمُ مَا تُبْدُونَ وَمَا تَکْتُمُونَ (99) ” اللہ نے مکان محترم کعبہ کو لوگوں کے لئے (اجتماعی زندگی کے) قیام کا ذریعہ بنایا اور ماہ حرام اور قربانی کے جانوروں اور قلادوں کو بھی (اس کام میں معاون بنادیا) تاکہ تمہیں معلوم ہوجائے کہ اللہ آسمانوں اور زمین کے سب حالات سے باخبر ہے اور اسے ہر چیز کا علم ہے ۔ خبردار ہوجاؤ ۔ ! اللہ سزادینے میں بھی سخت ہے اور اسکے ساتھ بہت درگزر اور رحم بھی کرنے والا ہے ۔ رسول پر تو پیغام پہنچا دینے کی ذمہ داری ہے ‘ آگے تمہارے کھلے اور چھپے سب حالات کا جاننے والا ہے ۔ بیت الحرام کے اندر یہ حرمتیں اس قدر وسیع ہیں کہ ان کے دائرے میں انسان ‘ پرندے ‘ حیوان اور حشرات الارض سب آتے ہیں اور اگر کوئی احرام کی حالت میں حرم کے حدود میں پہنچا ہو ‘ تب بھی اس کے لئے یہ سب چیزیں ممنوع ہیں۔ اس کے علاوہ چار مہینوں کو بھی اشہر حرام قرار دیا گیا ہے ۔ ان میں قتل و قتال سخت ممنوع ہے ۔ یہ چار مہینے ذوالقعدہ ‘ ذوالحجہ ‘ محرم اور رجب ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے عربوں کے دل میں ان چار مہینوں کا احترام بٹھا دیا تھا ‘ یہاں تک کہ ہو دور جاہلیت میں بھی ان مہینوں کا احترام کرتے تھے ۔ ان مہینوں میں وہ کسی نفس کا ڈراتے دھمکاتے بھی نہ تھے ۔ ان مہینوں میں وہ خون کا بدلہ بھی نہ لیتے تھے اور نہ ہی ان میں کوئی شخص انتقام کی توقع کرتا تھا یہاں تک کہ ایک شخص اپنے باپ بیٹے اور بھائی کے قاتل کو پاتا مگر اسے کوئی اذیت نہ دیتا ۔ چناچہ اس عرصے میں لوگ کھلے بندوں پھرتے اور تجارتی سفر کرتے اور رزق حلال تلاش کرتے ۔ یہ امن کے احکامات اللہ نے اس لئے بھی جاری کئے کہ اللہ تعالیٰ خانہ کعبہ کو خطہ امن وسلامتی قرار دینا چاہتے تھے جہاں لوگوں کے اندر ٹھہراؤ پیدا ہو اور کوئی خوف اور بےچینی نہ ہو ۔ کعبے کی طرح ان چار مہینوں کو اللہ نے زمانہ امن قرار دیا تھا جس طرح کعبہ مقام امن تھا ۔ اس کے بعد اس امن کی حدود کے اندر مزید توسیع کردی گئی اور اس ہدی کو بھی مامون اور محفوظ کردیا گیا ہے جسے خانہ کعبہ کی طرف روانہ کردیا گیا ہو ۔ یہ جانور حج اور عمرہ کے موقع پر چلائے جاتے تھے ۔ چناچہ دور جاہلیت میں بھی ان جانوروں کو نہ چھیڑا جاتا تاھ ۔ اسی طرح اس شخص کو بھی ماموں قرار دے دیا گیا جو خانہ کعبہ میں پناہ لے لیتا ہے اور اپنے گلے میں بیت الحرام کے درختوں کا ہار ڈالتا ہے ۔ خانہ کعبہ کے لئے اللہ تعالیٰ نے یہ حرمت حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے ہاتھوں اس کے تعمیر کے وقت ہی سے رکھی تھی اور اللہ نے اس وقت سے خانہ کعبہ کو لوگوں کے آنے جانے کی جگہ قرار دے دیا تھا ۔ یہ اللہ کا وہ عظیم فضل و احسان تھا ‘ جس کی یاد دہانی اللہ نے مشرکین کو بھی کرائی اس لئے کہ ان کے لئے بھی بیت اللہ گھومنے پھرنے اور امن کی جگہ تھا ۔ اس کے اردگرد بسنے والے لوگوں کی حالت یہ تھی کہ وہ اچک لئے جاتے تھے جبکہ مشرکین یہاں نہایت ہی امن سے رہتے تھے لیکن اس کے باوجود وہ اللہ کا شکریہ ادا نہ کرتے تھے ۔ اس خانہ توحید میں الہ واحد کی بندگی نہ کرتے تھے اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ کہتے تھے کہ اگر ہم عقیدہ توحید کو اپنائیں تو ہمیں اپنی جا اور جاگیر چھوڑنی پڑے گی ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی یہ بات نقل کر کے اس کی تردید کی اور انہیں بتایا کہ امن اور خوف ہوتا کیا ہے ۔ (آیت) ” وقالوا ان نتبع الھدی معک نتخطف من ارضنا اولم نمکن لھم حرما امنا یجبی الیہ ثمرت کل شیء رزقا من لدنا ولکن اکثرھم لا یعلمون “۔ (٢٨ : ٥٧) ” وہ کہتے ہیں ‘ اگر ہم تمہارے ساتھ اس ہدایت کی پیروی اختیار کرلیں تو اپنی زمین سے اچک لئے جائیں گے ۔ کیا یہ واقعہ نہیں ہے کہ ہم نے ایک پرامن حرم کو انکے لئے جائے قیام بنادیا جس کی طرف ہر طرف کے ثمرات کھنچے چلے آتے ہیں ‘ ہماری طرف سے رزق کے طور پر مگر ان میں سے اکثر لوگ جانتے نہیں ۔ “ صحیحین میں حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فتح مکہ کے دن یہ فرمایا ” یہ شہر حرام ہے ‘ اس کے درخت نہ کاٹے جائیں گے ‘ اور یہاں کے سبزے کو بھی خراب نہ کیا جائے گا ‘ یہاں کے شکار کو نہ بھگایا جائے گا اور یہاں کی گمشدہ چیز کو نہ اٹھایا جائے گا مگر وہ شخص جو اعلان کرنا چاہے ۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حرم میں محرم کے لئے زندہ چیزوں میں سے صرف کوے ‘ چیل ‘ بچھو ‘ چوہے اور کاٹنے والے کتے کو مستثی فرمایا ۔ حضرت عائشہ (رض) کی حدیث میں ہے ” حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پانچ چیزوں کے قتل کا حکم دیا ۔ یہ مضر چیزیں ہیں اور حالت حلت اور احرام دونوں میں یہ حکم دیا ۔ کوا چیل ‘ بچھو ‘ چوہا اور کاٹنے والاکتا۔ صحیحین میں حضرت ابن عمر (رض) سے سانپ کا اضافہ آیا ہے ۔ حضرت علی (رض) کی روایت کی رو سے یہی حرمت مدینہ کے لئے بھی عائد ہے ۔ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ” عیر “ سے لے کر ” ثور “ مدینہ کو حرم قرار دیا ہے ۔ اور صحیحن ہی میں ایک دوسری روایت ہے ۔ یہ حضرت عبادہ ابن تمیم سے وارد ہوئی ہے۔ کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ” حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے مکہ کو حرم قرار دیا اور اس کے لئے دعا فرمائی اور میں نے مدینہ کو اسی طرح حرم کردیا ہے جس طرح ابراہیم (علیہ السلام) نے مکہ کو حرم قرار دیا تھا ۔ “ اس کے علاوہ مزید یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ یہ علاقہ اور یہ مہینے ہی صرف امن کے لئے مخصوص نہیں اور صرف یہ بات نہیں ہے کہ اس امن وامان کا دائرہ صرف انسان اور حیوان تک ہی محدود ہے بلکہ اس امن اور سکون کا دائرہ انسانی ضمیر تک وسیع ہوجاتا ہے اس لئے کہ انسانی ضمیر انسانی نفس کی گہرائیوں کے اندر ایک معرکہ کار زار ہے ۔ ضمیر کے اندر جنگ کے شعلے بھڑکتے ہیں تو اس کے شعلے اور اس کا دھواں زمان ومکان کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے ۔ پھر تمام انسان اور حیوان اس کی زد میں آجاتے ہیں حرمین اس اندرونی معرکہ کار زار میں بھی امن کا سامان پیدا کردیتے ہیں اور جب ضمیر کے اندر امن و سکون پیدا ہوجاتا ہے تو ایک محرم کسی جاندار کی طرف ہاتھ بڑھانے میں بھی حرج محسوس کردیتے ہیں اور جب ضمیر کے اندر امن و سکون پیدا ہوجاتا ہے تو ایک محرم کسی جاندار کی طرف ہاتھ بڑھانے میں بھی حرج محسوس کرتا ہے اگرچہ یہ شکار حرم سے باہر ہو ۔ یہ عرصہ نفس انسانی کی تربیت کا عرصہ ہے تاکہ وہ صاف و شفاف ہوجائے ۔ وہ ہلکا ہوجائے اور بلند ہو کر ملاء اعلی سے واصل ہوجائے اور ملاء اعلی کے ساتھ معاملہ کرنے کے لئے تیار ہوجائے ۔ یہ انسانیت ‘ یہ خوفزدہ ‘ مصیبت زدہ ‘ پسی ہوئی انسانیت کس قدر محتاج ہے ‘ اس علاقہ امن کی ۔ وہ منطقہ امن جس کو اللہ نے اس دین کے پیروکاروں کے لئے بنایا ہے ‘ اور جس کا اعلان عام قرآن کریم کے اندر کردیا گیا ۔ (آیت) ” ذَلِکَ لِتَعْلَمُواْ أَنَّ اللّہَ یَعْلَمُ مَا فِیْ السَّمَاوَاتِ وَمَا فِیْ الأَرْضِ وَأَنَّ اللّہَ بِکُلِّ شَیْْء ٍ عَلِیْمٌ(97) ” تاکہ تمہیں معلوم ہوجائے کہ اللہ آسمانوں اور زمین کے سب حالات سے باخبر ہے اور اسے ہر چیز کا علم ہے۔ اس جگہ یہ عجیب اختتامیہ ہے ۔ یہ بات معلوم ہے کہ اللہ جو شریعت مقرر کرتا ہے اور لوگوں کے لئے یہ جائے امن جو قرار دیتا ہے ‘ یہ اس لئے بتاتا ہے کہ لوگوں کو معلوم ہو کہ اللہ ان تمام حالات سے باخبر ہے جو آسمانوں اور زمینوں کے اندر ہے اور اسے ہر چیز کا علم ہے ‘ تاکہ انہیں معلوم ہو کہ اللہ انسانوں کے مزاج سے باخبر ہے ‘ وہ انکی خفیہ نفسیات سے بھی خبردار ہے ۔ وہ انکی روح کی پکار کو سنتا ہے اور وہ ایسا قانون بناتا ہے جس کے ذریعے ان کے مزاج کے تقاضے ‘ انکی ضروریات اور ان کے میلانات پورے ہوتے ہیں ۔ جب لوگ یہ محسوس کریں گے کہ قانون سازی میں اللہ نہایت ہی شفیق ورحیم ہے ۔ اور جب لوگوں کے دلوں نے اس شریعت اور ان کی فطرت کے درمیان پوری ہم آہنگی کا مزہ چکھا تو انکو معلوم ہوجائے گا کہ اللہ ان تمام امور کو جانتا ہے جو آسمانوں اور زمینوں کے اندر ہیں اور اسے ہر چیز کا علم ہے ۔ دین اسلام انسانی فطرت اور اس کے میلانات اور خواہشات کے پورے پورے تقاضے ملحوظ رکھنے میں بہت ہی عجیب ہے ۔ وہ انسانوں کی تمام ضروریات کا لحاظ رکھتا ہے ۔ اسلامی شریعت کی اسکیم انسانی فطرت کی اسکیم کے عین مطابق ہے ۔ شریعت کی تشکیل اور انسان کی فطرت کے اندر مکمل ہم آہنگی ہے ۔ جب انسان کو اس دین کے بارے میں شرح صدر ہوجاتا ہے تو پھر وہ جس قدر غور کرتا ہے اسے کمال و جمال ہی نظر آتا ہے ‘ پھر اسے انس و محبت ہی نظر آتی ہے اور اسے وہ سکون ملتا ہے جس کا تصور وہ شخص نہیں کرسکتا جس کو شریعت پر شرح صدر حاصل نہ ہو ۔ اب حالت احرام اور حالت غیر احرام میں جائز وناجائز امور کا خاتمہ اس بات پر ہوتا ہے کہ اللہ کا عذاب سخت ہے اور دوسری جانب وہ غفور ورحیم بھی ہے ۔ (آیت) ” اعْلَمُواْ أَنَّ اللّہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ وَأَنَّ اللّہَ غَفُورٌ رَّحِیْمٌ(98) خبردار ہوجاؤ ۔ ! اللہ سزادینے میں بھی سخت ہے اور اسکے ساتھ بہت درگزر اور رحم بھی کرنے والا ہے ۔ “ اور اس ڈراوے کے ساتھ ساتھ بتا دیا جاتا ہے کہ اپنے کئے کی ذمہ داری ہر شخص کے کاندھوں پر ہے اور جو راہ راست پر نہ ہو وہ خود اپنی گمراہی کا ذمہ دار ہے ۔ (آیت) ” مَّا عَلَی الرَّسُولِ إِلاَّ الْبَلاَغُ وَاللّہُ یَعْلَمُ مَا تُبْدُونَ وَمَا تَکْتُمُونَ (99) ” رسول پر تو پیغام پہنچا دینے کی ذمہ داری ہے ‘ آگے تمہارے کھلے اور چھپے سب حالات کا جاننے والا ہے ۔ اب یہ مضمون ایک عام پیمانے اور اصول پر ختم ہوتا ہے اور یہ پیمانہ تمام اصول واقدار کے وزن کے لئے ایک ترازو ہے ۔ اس کے مطابق ایک مسلم فیصلے کرتا ہے اس میزان میں طیب بھاری رہتا ہے ۔ اور خبیث ہلکا ہوجاتا ہے تاکہ خبیث اپنی ظاہری اور جسمانی کثرت کی وجہ سے کسی مسلم کو کسی بھی وقت متاثر نہ کرسکے ۔ (آیت) ” قُل لاَّ یَسْتَوِیْ الْخَبِیْثُ وَالطَّیِّبُ وَلَوْ أَعْجَبَکَ کَثْرَۃُ الْخَبِیْثِ فَاتَّقُواْ اللّہَ یَا أُوْلِیْ الأَلْبَابِ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُونَ (100) ” اے پیغمبر ان سے کہہ دو کہ پاک اور ناپاک بہرحال یکساں نہیں ہیں ‘ خواہ ناپاک کی بہتات تمہیں کتنا ہی فریفتہ کرنے والی ہو ‘ پس اے لوگو جو عقل رکھتے ہو ‘ اللہ کی نافرمانی سے بچتے رہو ‘ امید ہے کہ تمہیں فلاح نصیب ہوگی ۔ یہاں پاک وناپاک کے ذکر کی مناسبت یہ ہے کہ اس سے پہلے حلال و حرام اور جائز وناجائز کا مضمون چل رہا تھا ‘ شکار میں سے حلال و حرام کا ذکر ظاہر ہے ۔ کہ حلال طیب ہوتا ہے اور حرام خبیث ہوتا ہے ۔ طیب اور خبیث برابر نہیں ہو سکتے اگرچہ خبیث اپنی کثرت کی وجہ سے انسان کو دھوکے میں ڈالتا ہے اور عجیب معلوم ہوتا ہے ‘ لیکن طیب نہایت ہی خوشگوار ہوتا ہے اور اس کے نتائج بھی اچھے نکلتے ہیں ۔ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی ۔ اس کے نتیجے میں امراض اور آلام سے بھی زیادہ لذت ہوتی ہے اور طیب کا انجام دنیا وآخرت میں اچھا ہوتا ہے ۔ جب نفس انسانی خواہشات نفسانیہ سے آزاد ہوجاتا ہے اور نفس پر تقوی اور دل کی نگرانی قائم ہوجاتی ہے تو وہ خبیث کے مقابلے میں طیب کو اختیار کرتا ہے اور اس طرح وہ دنیا وآخرت میں کامیاب رہتا ہے ۔ (آیت) ” فَاتَّقُواْ اللّہَ یَا أُوْلِیْ الأَلْبَابِ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُونَ (100) ” پس اے صاحبان عقل وخرد اللہ ہی سے ڈرو ‘ امید ہے کہ تم فلاح پاؤ گے) یہ تو تھی ظاہری مناسبت لیکن اس آیت کا افق اور مطالب اس سے بھی زیادہ وسیع ہیں ۔ یہ تمام زندگی کو اپنے دائرے میں لیتی ہے اور اس کے مفہوم کو تصدیق مختلف مقامات پر ہوتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ اس امت کو میدان میں لایا اور اسے خیر امت قرار دیا ۔ اللہ تعالیٰ کی اسکیم یہ تھی کہ اسے ایک عظیم امر کے لئے تیار کیا جائے ۔ یہ عظیم امر یہ تھا کہ یہ امت اس کرہ ارض پر اسلامی نظام کی امانت کی حامل ہوگی ۔ وہ اسلامی نظام حیات پر اس طرح قائم ہو کہ اس سے پہلے کوئی امت اس طرح قائم نہ ہوئی ہو ۔ وہ اس نظام کو لوگوں کی زندگیوں میں اس طرح قائم کرے کہ کبھی کسی دوسری امت کے اندر یہ نظام اس طرح قائم نہ کیا جاسکا ہو ۔ اس عظیم مقصد کے حصول کے لئے اس بات کی ضرورت تھی کہ اس امت کو اس قدر طویل تربیت دی جائے کہ اس سے پہلے کسی امت کو نہ دی گئی ہو ۔ پہلی تربیت یہ ہو کہ اسے آثار جاہلیت سے مکمل طور پر نکال دیا جائے اور اسے جاہلیت کی گراٹوں سے اٹھا کر سیدھا اعلی منزل مقصود تک بلند کردیا جائے ۔ یہاں تک کہ وہ اسلام کی بلند ترین چوٹی پر فائز ہوجائے ، اس کے بعد یہ امت اپنے تصورات و افکار کو درست کرے ‘ اور اپنی عادات ‘ اپنے شعور اور اپنے افکار کو جاہلیت کے آثار اور آلودگیوں سے پاک کرے ۔ اس کے بعد اس کے اندر اس قدر عزم پیدا کردیا جائے کہ وہ اس سچائی قبول کرلے اور پھر اس قبولیت کے نتیجے میں آنے والی ابتلاؤں کو برداشت کرے ۔ اس کے بعد وہ پوری زندگی کو اسلامی اقدار اور پیمانوں کے مطابق استوار کرے یہاں تک کہ یہ ایک ربانی امت بن جائے اور اس کی انسانیت اعلی مدارج انسانیت تک بلند ہوجائے جب یہاں تک اس کی تربیت ہوجائے تو پھر اس کی نظروں میں اچھا اور برا برابر نہ ہوں گے ۔ اگرچہ خبیث وناپاک زیادہ اور آنکھوں کو خیرہ کردینے والا ہو اور آنکھوں کو چکا چوند کردینے والا ہو ۔ لیکن جب انسان طیب اور خبیث میں فرق کرلیتا ہے اور اشیاء کو الہی میزان میں تولتا ہے تو اس وقت باوجود کثرت اور حجم کے خبیث کا وزن طیب کے مقابلے میں کم ہوتا ہے اور طیب کا پلڑا باوجود قلت کے بہت بھاری ہوتا ہے ۔ اس مقام پر آکر یہ امت امین اور امانت دار بن جاتی ہے ۔ وہ درست اور قابل اعتماد ہوتی ہے ۔ اب وہ تمام انسانیت کی نگہبان ہوتی ہے ۔ اب وہ لوگوں کے لئے اللہ کا ترازو استعمال کرتی ہے اور اللہ کی قدر کے ساتھ اقدار کا تعین کرتی ہے ‘ وہ طیب کو اختیار کرتی ہے اور اس کی آنکھیں خبیث کو دیکھ کر خیرہ نہیں ہوتیں ۔ بعض اوقات ایسے مواقع بھی آتے ہیں کہ ان میں یہ میزان نہایت ہی مفید ہوتا ہے ۔ ایسے حالات میں کہ جب باطل پھولا ہوا ہو ‘ اور انسان یہ سمجھتا ہو کہ شاید یہ ترقی کر رہا ہے آنکھیں صرف یہ دیکھتی ہیں کہ بظاہر وہ پر قوت اور صاحب کثرت ہے ۔ ایک مومن اس پھولے ہوئے باطل کو اللہ کے ترازو میں تولتا ہے ۔ اس طرح اس کے ہاتھ مضطرب نہیں ہوتے ‘ نہ اس کی آنکھیں خیرہ ہوتی ہیں ‘ نہ اس کا معیار خراب ہوتا ہے چناچہ وہ اس باطل کے مقابلے میں سچائی کو اختیار کرتا ہے جس میں کوئی جھاگ اور کوئی سو جن نہیں ہے ۔ نہ اس کے اردگرد کوئی زاد وعتاد ہے ۔ بس وہ تو فقط حق ہے ۔ وہ مجرد حق ہے اور اس کے سوا اس کے ساتھ کوئی غرض نہیں ہے ۔ اللہ کے ترازو میں اس کا وزن زیادہ ہے اور ذاتی طور پر وہ حسین و جمیل ہے ۔ اس کی ذات کے اندر ایک قوت ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اس امت کی تربیت عین قرآنی منہاج کے مطابق کی ۔ اور امت پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قیم اور نگران مقرر کیا ۔ پھر وہ اس سطح پر پہنچی کہ وہ اللہ کے دین پر ایمان لانے والی تھی ۔ محض نفسیاتی ایمان نہیں اور نہ دل کے اندر کا ایمان بلکہ اپنی عملی زندگی میں ایمان اور اس کرہ ارض پر اپنی تمام سرگرمیوں کے اندر ایمان ۔ زندگی کے تمام اضطرابات میں ‘ تمام خواہشات اور امیدوں میں ‘ تمام رغبتوں اور مسلکوں میں ‘ تمام مفادات اور مصالح میں اور افراد اور گروہوں کی تمام کشمکشوں میں ایمان ‘ غرض اس کا ایمان اس طرح ہو کہ وہ اس پوری کائنات کے اوپر نگہبانی میں بھی ایماندار ہو ‘ اور اس زندگی کے اتھاہ سمندر میں اپنی عظیم ذمہ داریوں کے اندر بھی وہ ایماندار ہو۔ اللہ تعالیٰ نے اس امت کو مختلف ہدایات ‘ مختلف موثرات ‘ مختلف آزمائشوں اور مختلف ضابطہ بندیوں کے ذریعے تربیت دی اور ان تمام امور کو ایک ہی مجموعی شکل میں ایک گٹھڑی کی طرح ایک نظام بنا دیا جس کے آخری مقاصد ایک ہی تھے ۔ یعنی اس امت کو اپنے عقائد و تصورات ‘ اپنے شعور اور میلانات اپنے طرز عمل اور اخلاق اور اپنی شریعت اور نظام اس طرح تیار کرنے چاہئیں کہ وہ اللہ کے دین کے اوپر قائم ہو ‘ وہ اس پوری انسانیت پر نگران ہو ‘ اور یہ اللہ کا حق ہے کہ وہ اپنے بندوں سے جو کام لینا چاہے وہ لے ۔ اللہ اپنے معاملات میں خود مختار ہے ۔ چناچہ اس کرہ ارض پر اسی روشن شکل میں اللہ کا دین چمکتا ہوا قائم ہوا۔ ہو ایک تصور تھا جس نے زندگی میں واقعیت اختیار کی اور یہ رسم ڈالی گئی کہ جب بھی اس دین کے قیام کے لئے یہ امت جہاد کرے گی اللہ کی مدد اسے حاصل ہوگی ۔ اس کے بعد جماعت مسلمہ کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حوالے سے بعض آداب سکھائے جاتے ہیں ۔ بتایا جاتا ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو کچھ نہیں بتایا اس کے بارے میں آپ سے سوالات نہ کئے جائیں ۔ ہوسکتا ہے کہ اگر آپ سوال کریں اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جواب دیں تو آپ لوگوں کو وہ جواب پسند نہ آئے اور یاحرج واقعہ ہوجائے اور جواب کے ذریعے ایسے فرائض عائد ہوجائیں جن پر عمل کرنا ممکن نہ ہو۔ یا یہ ہو کہ کسی معاملے میں اللہ تعالیٰ نے وسعت کی تھی اور سوال کی وجہ سے تنگی ہوجائے کیونکہ اللہ تعالیٰ بندوں پر رحم کرتے ہوئے انہیں زیادہ سے زیادہ آزاری دیتے ہیں ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

کعبہ شریف لوگوں کے قائم رہنے کا سبب ہے کعبہ (جس کے حروف اصلی ک، ع، ب ہیں) عربی زبان میں اوپر کو اٹھے ہوئے چو کور گھر کو کہتے ہیں۔ کعبہ شریف کی جگہ نشیب میں ہے اور کعبہ شریف دور سے اٹھا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ جب کعبہ شریف بنایا گیا تھا اس وقت اس کے چاروں طرف مسجد حرام بنی ہوئی نہیں تھی اس لئے دور سے اٹھا ہوا اور زمین سے ابھرا ہوا نظر آتا تھا اس ارتقاع کی وجہ سے اس کا نام ” کعبہ “ رکھا گیا۔ لفظ ” الکعبہ “ کے بعد ” البیت الحرام “ بھی فرمایا یعنی بہت محترم گھر اللہ تعالیٰ نے اس کو محترم قرار دیا۔ اس کی حرمت ہمیشہ سے ہے اس کا طواف بھی حرمت کی وجہ سے کیا جاتا ہے۔ مکہ معظمہ کے چاروں طرف جو حرم ہے وہ بھی اسی کعبہ شریف کی وجہ سے محترم ہے اور اسی احترام کی وجہ سے حرم میں شکار کرنا اور اس کی گھاس اور درخت کا ٹنا ممنوع ہے حرم میں قتل و قتال بھی ممنوع ہے قتل و قتال کی ممانعت کا عقیدہ زمانہ جاہلیت میں بھی تھا۔ تفسیر در منثور میں ہے کہ زمانہ جاہلیت میں کوئی شخص جرم کر کے حرم میں پناہ لے لیتا تھا تو اسے قتل نہیں کرتے تھے۔ آیت بالا میں ارشاد فرمایا کہ کعبہ جو بیت محترم ہے اللہ تعالیٰ نے اسے لوگوں کے قائم رہنے اور امن وامان کا ذریعہ بنایا جو بہت سے لوگوں کی معیشت کا ذریعہ بنا ہوا ہے زمین کے دور دراز گوشوں سے لوگ حج وعمرہ کی ادائیگی کے لئے مکہ معظمہ آتے ہیں شہر مکہ میں رہتے ہیں منیٰ میں قیام کرتے ہیں عرفات مزدلفہ میں وقوف کرتے ہیں ان سب کے آنے اور رہنے اور ضرورت کی اشیاء خریدنے کے باعث اہل عرب اور خاص کر اہل مکہ کی معیشت بنی رہتی ہے۔ اور اس خریداری کے اثرات پورے عالم کی فیکٹریوں اور کمپنیوں پر پڑتے ہیں۔ اہل مکہ کے لئے تو کعبتہ اللہ ذریعہ قیام اور بقاء ہے ہی بعض اعتبار سے پورے عالم کی بقاء کا ذریعہ ہے بحری جہازوں سے لوگوں کی آمد ہوائی جہازوں کی اڑان کروڑوں روپے کے کرائے اور بسوں اور کاروں کے سفر ان سب کے ذریعہ جو عرب و عجم میں مالی آمدنی ہے پورے عالم کو اس کا اقتصادی فائدہ پہنچتا ہے۔ سورة قصص میں فرمایا (اَوَ لَمْ نُمَکِّنْ لَّھُمْ حَرَمًا اٰمِنًا یُّجْبٰٓی اِلَیْہِ ثَمَرٰتُ کُلِّ شَیْءٍ رِّزْقًا مِّنْ لَّدُنَّا وَ لٰکِنَّ اَکْثَرَھُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ ) (کیا ہم نے ان کو امن وامان والے گھر میں جگہ نہیں دی۔ جہاں ہر قسم کے پھل کھچے چلے آتے جو ہمارے پاس سے بطور رزق ان کو ملتے ہیں لیکن ان میں سے بہت سے لوگ نہیں جانتے) پھر چونکہ حج ایک عظیم عبادت ہے جو سراپا اللہ کے ذکر سے معمور ہے۔ اور اللہ کا ذکر ہی اس عالم کی روح ہے اس لئے بھی کعبہ شریف سارے عالم کی بقاء کا ذریعہ ہے۔ فرمایا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کہ قیامت قائم نہیں ہوگی جب تک دنیا میں ایک مرتبہ بھی اللہ اللہ کہا جاتا رہے گا۔ (رواہ مسلم ص ٨٤ جلد نمبر ١) جب دنیا میں کوئی بھی ایمان والا نہ رہے گا تو کعبہ شریف کا حج بھی ختم ہوگا۔ کعبہ شریف کا ختم ہوجانا بھی دنیا کی بربادی کا ذریعہ ہے۔ بعض حضرات نے ” قِیاماً “ کا ترجمہ ” اَمْنًا “ سے بھی کیا۔ بلا شبہ حرم مکہ زمانہ قدیم سے مَا مَنْ یعنی امن کی جگہ ہے سورة بقرہ میں فرمایا (وَ اِذْ جَعَلْنَا الْبَیْتَ مَثَابَۃً لِّلنَّاسِ وَ اَمْنًا) (اور جب ہم نے کعبہ لوگوں کے جمع ہونے کی جگہ اور امن کی جگہ بنایا) اور سورة عنکبوب میں فرمایا (اَوَلَمْ یَرَوْا اَنَّا جَعَلْنَا حَرَمًا اٰمِنًا وَّ یُتَخَطَّفُ النَّاسُ مِنْ حَوْلِھِمْ ) (کیا انہیں معلوم نہیں کہ ہم نے حرم کو امن کی جگہ بنا دیا اور ان کے گرد و پیش سے لوگوں کو اچک لیا جاتا ہے) بلاشبہ عبادات اور مالیات اور امن وامان یہ سب انسانوں کے قیام اور بقا کا ذریعہ ہے۔ ھدی کے جانور ھدی وہ جانور ہے جو بطور نیاز کعبہ شریف کی طرف بھیجا جائے، ہدی واجب بھی ہوتی ہے اور مستحب بھی، اور دم جنایات جو واجب ہیں حرم ہی میں ان کو ذبح کیا جاتا ہے۔ دم تمتع اور دم قرآن بھی حرم ہی کے اند رذبح کرنا لازم ہے اور شکار کے بدلے جو جانور ذبح کیا جائے اس کے بارے میں بھی (ھَدْیًا بالِغَ الْکَعْبَۃِ ) فرمایا ہے۔ ھدی کے جانوروں کا حدود حرم میں ذبح کرنا لازم ہے آجکل ھدی کے جانور منیٰ میں ہی مل جاتے ہیں۔ زمانہ قدیم میں ھدی کے جانور اپنے وطن سے ساتھ لایا کرتے تھے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عمرہ حدیبیہ کے موقعہ پر اور حجتہ الوداع کے موقع پر ھدی کے جانور ساتھ لے گئے تھے۔ ا ورعام طور سے ھدی کے جانور ساتھ لانے کا دستور تھا۔ القلائد : صاحب روح المعانی نے ج ٧ ص ٣٦ لکھا ہے کہ ” القلائد “ سے ذوات القلائد مراد ہیں۔ اونٹوں کے گلوں میں قلائد یعنی پٹے ڈال دیا کرتے تھے ھدی کے ذکر کے بعدا ونٹوں کا ذکر مستقل طریقہ پر کیا کیونکہ ان کے ذبح کرنے میں ثواب زیادہ ہے۔ ١ ھ خلاصہ یہ ہے کہ کعبہ شریف اور اس سے متعلقہ چیزیں جن میں شہر حرام اور ھدی کے چھوٹے بڑے جانور بھی ہیں انکو لوگوں کے قیام اور بقا کا ذریعہ بنایا۔ اہل عرب شہر حرام میں امن وامان سے رہتے تھے۔ بےتکلف حج بھی کرتے تھے اور دوسری اغراض دنیویہ کے لئے بھی نکلتے تھے اور جن قبیلوں میں آپس میں دشمنی ہوتی تھی وہ بھی ایک دوسرے پر حملہ نہیں کرتے تھے اور ھدی کے جانوروں کا گوشت کھانا بھی معمول تھا۔ پھر ان جانوروں کی خریدو فروخت بھی ہوتی تھی اور اب بھی یہ سلسلہ جاری ہے ان سب وجوہ سے کعبہ اور شہر حرام اور ھدی کے جانور یہ سب لوگوں کے قیام یعنی بقاء کا ذریعہ ہیں۔ قال الجصاص فی احکام القرن ص ٤٨٢ ج ٢ وھذا الذی ذکرہ اللہ تعالیٰ من قوام الناس بمناسک الحج والحرام والا شھر الحرم والھدی والقلائد معلوم مشاھد فلانریٰ شیئامن امر الدین والدنیا تعلق بہ من صلاح المعاش والمعاد بعد الایمان ما تعلق بالحج الاتری الی کثرۃ منافع الحاج فی المواسم التی یردن علیھا من سائر البلدان التی یجتازون بمنی و بمکۃ الی ان یرجعو الیٰ اھالیھم وانتفاع الناس بھم وکثرۃ معایشھم وتجارتھم معھم (الی اخر ماقال) ۔ پھر فرمایا (ذٰلِکَ لِتَعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ یَعْلَمُ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ وَ اَنَّ اللّٰہَ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِِیْمٌ) (اور یہ اس لئے کہ تم جان لو کہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ جانتا ہے جو آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے اور بیشک اللہ ہر چیز کا جاننے والا ہے) شیخ ابوبکر جصاص لکھتے ہیں کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے علم کے بارے میں خبر دی ہے کہ اس کا علم ہر چیز کو محیط ہے۔ اس نے دین و دنیا کے منافع حج میں رکھ دئے۔ یہ تدبیر ایسی عجیب ہے کہ جس میں امت کے لئے اول سے لیکر آخر تک یعنی قیامت کے دن آنے تک سب کی صلاح کا انتظام ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ عالم الغیب نہ ہوتا اور تمام اشیاء کو انکے وجود سے پہلے نہ جانتا تو ایسی تدبیر نہیں ہوسکتی تھی جس میں بندوں کی دین و دنیا کی صلاح ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

161 یہ چوتھا مسئلہ یعنی اللہ کی نذروں کا بیان ہے۔ اَلْبَیْتَ الْحَرَامَ ۔ الکعبۃ سے بدل یا عطف بیان ہے۔ قِیٰمًا جَعَلَ کا مفعول ثانی ہے اور قیام بمعنی قوام ہے یعنی ان کے امور دین و دنیا کے قائم اور راست ہونے کا ذریعہ وھو ما یقوم بہ امر دینھم و دنیا ھم (مظھری ج 3 ص 205) ۔ بیت اللہ سے امور دین کا قوام اس طرح ہے کہ حج وعمرہ اور ہدایا کا تعلق اس سے اور امور دنیا کا اس طرح کہ اہل حرم قتل و غارت وغیرہ سے محفوظ رہتے ہیں۔ یا مطلب یہ ہے کہ بیت اللہ کی بدولت تمام دنیا کے لوگوں کی زندگی محفوظ ہے اور یہ اس وقت تک ہے جب تک دنیا کے لوگوں کی زندگی محفوظ ہے اور یہ اس وقت تک ہے جب تک دنیا کے مسلمان وہاں حاضر ہو کر حج وعمرہ بجا لاتے رہیں گے اگر لوگ حج کرنا چھوڑ دیں یہاں تک کہ ایک متنفس بھی حج نہ کرے تو اللہ تعالیٰ فوراً دنیا کو تباہ کرے دے۔ قیل لو ترکوہ عاما لم ینظروا ولم یوخر وا (مدارک ص 235 ج 1) 162 یہ الکعبۃ پر معطوف ہے اور الف لام جنس کا ہے مراد رجب، ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم ہے ان عزت والے مہینوں میں بھی لوگ قتال سے محفوظ رہتے ہیں۔ وَالْھَدْیَ وَالْقَلَائِدَ یہ بھی الکعبۃ پر معطوف ہیں ھدی اور قلائد کی تفسیر حاشیہ ( ) میں گذر چکی ہے۔ دونوں سے مراد وہ چوپائے ہیں جو بیت اللہ کی نذر ہوں اور محض اللہ کی رضا جوئی کی خاطر حدود حرم میں ذبح کے لیے لے جائے جائیں۔ بیت اللہ کی نذر و منت کے جانور بھی لوگوں کے لیے باعث امن و سلامتی ہیں کیونکہ ان کی وجہ سے راستے میں کوئی چور یا ڈاکو ان سے کسی قسم کی چھیڑ چھاڑ نہیں کرتا۔ یا مطلب یہ ہے کہ جب تک لوگ اللہ کے نام کی نذریں نیازیں دیتے رہیں گے اس وقت اللہ تعالیٰ ان کو ہر بلا سے امن میں رکھے گا۔ 163 یہ ما قبل کی علت ہے یعنی چونکہ تمام ما فی السموات والارض کا غیب اللہ ہی جانتا ہے۔ اس لیے نیازیں بھی اسی کے نام کی دو اس سے معلوم ہوا کہ جب اللہ کے سوا کوئی غیب دان نہیں تو اس کے سوا نذر و نیاز کے لائق بھی کوئی نہیں۔ صنعۃ احتیاک۔ یَا اَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُحَرِّمُوْا طَیِّبٰتِ مَا اَحَلَّ اللہُ لَکُمْ (ع 12) میں تحریمات غیر اللہ کا مسئلہ بیان کیا گیا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ دلیل مذکور نہیں ہے۔ اس کے بعد یا ایہا الذین ایمنوا انما الخمر والمیسر والانصاب والازلام جس میں غیر اللہ کی نیازوں کا مسئلہ مذکور ہے۔ مگر اس کے ساتھ اس کی دلیل مذکور نہیں۔ پھر یَا اَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَیَبْلُوَنَّکُمُ اللہُ (ع 13) میں تحریمات اللہ کا بیان ہے اور اس کے ساتھ لِیَعْلَمَ اللہُ مَنْ یَّخَافُہٗ بِالْغَیْبِ سے اس کی دلیل بھی بیان کی گئی ہے۔ اس کے بعد جَعَلَ اللہُ الْکَعْبَۃَ الْبَیْتَ الْحَرَامَ الخ میں اللہ کی نیازوں کا مسئلہ بیان کیا گیا ہے اور ساتھ ہی ذ َالِکَ لِتَعْلَمُوْا اَنَّ اللہَ یَعْلَمُ مَا فِی السَّمٰوٰت وَ مَا فِی الْاَرضِ الخ سے اس کی دلیل بھی مذکور ہے یہاں صنعت احتیاک ہے۔ یعنی جن مسائل کے ساتھ ان کی دلیل مذکور نہیں ان کی دلیل بھی وہی ہے جو دوسرے مسائل کے ساتھ ذکر کی گئی ہے حاصل یہ ہے کہ جب آسمان و زمین کے تمام غیبوں کو جاننے والا اور ہر جگہ حاضر و ناظر صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ اس لیے نیازیں بھی اسی کے نام کی دو اور تحری میں بھی اسی کی باقی رکھو۔ چونکہ اللہ کے سوا کوئی نبی یا ولی، کوئی فرشتہ یا جن غیب دان اور حاضر و ناظر نہیں۔ اس لیے اللہ کے سوا کسی کی نیازیں نہ دو اور نہ کسی کے لیے تحری میں کرو

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

97 اللہ تعالیٰ نے کعبہ کو جو خدا تعالیٰ کا محترم مکان ہے اور حرمت والے مہینوں کو یعنی ذوالعقدہ ذوالحجہ محرم اور رجب کو اور حج کے موسم میں حرم کی طرف جانے والی قربانیوں کو اور ان قربانیوں کو جن کے گلے میں لٹکن اور قلاوہ پڑا ہوا ہوتا ہے اور جن کو حاجی لوگ اپنے ہمراہ حرم کی طرف لے جاتے ہیں ان سب کو اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے قیام مصالح مثلاً ام نو اطمینان کے قائم رکھنے کا سبب اور موجب کردیا ہے یہ اس لئے کیا تاکہ اس بات کو اچھی طرح جان لو اور سمجھ لو کہ جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے ان سب کو اللہ تعالیٰ جانتا ہے اور بلاشبہ اللہ تعالیٰ ہر چیز سے خوب واقف ہے یعنی اگر وہ واقف نہ ہوتا تو اپنے بندوں کی مصلحتوں کا کیسے انتظام کرتا اور ان کی رعایت کس طرح کرتا۔