Surat Qaaf

Surah: 50

Verse: 12

سورة ق

کَذَّبَتۡ قَبۡلَہُمۡ قَوۡمُ نُوۡحٍ وَّ اَصۡحٰبُ الرَّسِّ وَ ثَمُوۡدُ ﴿ۙ۱۲﴾

The people of Noah denied before them, and the companions of the well and Thamud

ان سے پہلے نوح کی قوم نے اور رس والوں نے اور ثمود نے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Reminding the Quraysh of the Destruction of earlier Disbelieving Nations Allah the Exalted warns, كَذَّبَتْ قَبْلَهُمْ قَوْمُ نُوحٍ وَأَصْحَابُ الرَّسِّ ... Denied before them the people of Nuh, and the Dwellers of Rass, Allah the Exalted warns the disbelievers of Quraysh and reminds them of the punishment and painful torment that He sent in this life on their likes, who disbelieved before them. For instance, Allah the Exalted punished the people of Nuh by drowning them in the encompassing flood that touched all the people of earth. There is also the end that struck the people of Ar-Rass, and we mentioned their story before in Surah Al-Furqan, ... وَثَمُودُ وَعَادٌ وَفِرْعَوْنُ وَإِخْوَانُ لُوطٍ

ان کو شامت اعمال ہی شد تھی اللہ تعالیٰ اہل مکہ کو ان عذابوں سے ڈرا رہا ہے جو ان جیسے جھٹلانے والوں پر ان سے پہلے آچکے ہیں جیسے کہ نوح کی قوم جنہیں اللہ تعالیٰ نے پانی میں غرق کر دیا اور اصحاب رس جن کا پورا قصہ سورہ فرقان کی تفسیر میں گذر چکا ہے اور ثمود اور عاد اور امت لوط جسے زمین میں دھنسا دیا اور اس زمین کو سڑا ہوا دلدل بنا دیا یہ سب کیا تھا ؟ ان کے کفر ، ان کی سرکشی ، اور مخالفت حق کا نتیجہ تھا اصحاب ایکہ سے مراد قوم شعیب ہے علیہ الصلوۃ والسلام اور قوم تبع سے مراد یمانی ہیں ، سورہ دخان میں ان کا واقعہ بھی گزر چکا ہے اور وہیں اس کی پوری تفسیر ہے یہاں دوہرانے کی ضرورت نہیں فالحمد للہ ۔ ان تمام امتوں نے اپنے رسولوں کی تکذیب کی تھی اور عذاب اللہ سے ہلاک کر دئیے گئے یہی اللہ کا اصول جاری ہے ۔ یہ یاد رہے کہ ایک رسول کا جھٹلانے والا تمام رسولوں کا منکر ہے جیسے اللہ عزوجل و علا کا فرمان ہے آیت ( كَذَّبَتْ قَوْمُ نُوْحِۨ الْمُرْسَلِيْنَ ١٠٥؁ښ ) 26- الشعراء:105 ) قوم نوح نے رسولوں کا انکار کیا حالانکہ ان کے پاس صرف نوح علیہ السلام ہی آئے تھے پس دراصل یہ تھے ایسے کہ اگر ان کے پاس تمام رسول آجاتے تو یہ سب کو جھٹلاتے ایک کو بھی نہ مانتے سب کی تکذیب کرتے ایک کی بھی تصدیق نہ کرتے ان سب پر اللہ کے عذاب کا وعدہ ان کے کرتوتوں کی وجہ سے ثابت ہو گیا اور صادق آگیا ۔ پس اہل مکہ اور دیگر مخاطب لوگوں کو بھی اس بدخصلت سے پرہیز کرنا چاہیے کہیں ایسا نہ ہو کہ عذاب کا کوڑا ان پر بھی برس پڑے کیا جب یہ کچھ نہ تھے ان کا بسانا ہم پر بھاری پڑا تھا ؟ جو اب دوبارہ پیدا کرنے کے منکر ہو رہے ہیں ابتداء سے تو اعادہ بہت ہی آسان ہوا کرتا ہے جیسے فرمان ہے آیت ( وَهُوَ الَّذِيْ يَبْدَؤُا الْخَــلْقَ ثُمَّ يُعِيْدُهٗ وَهُوَ اَهْوَنُ عَلَيْهِ ۭ وَلَهُ الْمَثَلُ الْاَعْلٰى فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۚ وَهُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ 27؀ۧ ) 30- الروم:27 ) یعنی بتداءً اسی نے پیدا کیا ہے اور دوبارہ بھی وہی اعادہ کرے گا اور یہ اس پر بہت آسان ہے سورہ یٰسین میں فرمان الہٰی جل جلالہ گذر چکا کہ آیت ( وَضَرَبَ لَنَا مَثَلًا وَّنَسِيَ خَلْقَهٗ ۭ قَالَ مَنْ يُّـحْيِ الْعِظَامَ وَهِىَ رَمِيْمٌ 78؀ ) 36-يس:78 ) ، یعنی اپنی پیدائش کو بھول کر ہمارے سامنے مثالیں بیان کرنے لگا اور کہنے لگا بوسیدہ سڑی گلی ہڈیوں کو کون زندہ کرے گا ؟ ان کو تو جواب دے کہ وہ جس نے انہیں پہلی بار پیدا کیا اور تمام خلق کو جانتا ہے صحیح حدیث میں ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مجھے بنی آدم ایذاء دیتا ہے جب یہ کہتا ہے کہ اللہ مجھے دوبارہ پیدا نہیں کر سکتا حالانکہ پہلی دفعہ پیدا کرنا دوبارہ پیدا کرنے سے کچھ آسان نہیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

12۔ 1 اصحاب الرس کی تعیین میں مفسرین کے درمیان بہت اختلاف ہے۔ امام ابن جریر طبری نے اس قول کو ترجیح دی ہے جس میں انہیں اصحاب اخدود قرار دیا گیا ہے، جس کا ذکر سورة بروج میں ہے۔ (تفصیل کے لئے دیکھئے ابن کثیر و فتح القدیر، (وَّعَادًا وَّثَمُــوْدَا۟ وَاَصْحٰبَ الرَّسِّ وَقُرُوْنًــۢا بَيْنَ ذٰلِكَ كَثِيْرًا) 25 ۔ الفرقان :38)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) کذبت قبلھم قوم نوح …: یعنی یہ آپ کو جھٹلانے والے پہلے لوگ نہیں جنہوں نے ہمارے کسی رسول کو جھٹلایا ہو، بلکہ اس سے پہلے کئی اقوام نے ہمارے رسولوں کو جھٹلایا اور ہمارے عذاب کا نشانہ بنے۔ اس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے تسلی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جھٹلانے والوں کے لئے تنبیہ ہے۔ آیت میں مذکور اکثر اقوام کا ذکر متعدد مقامات پر گزر چکا ہے۔ اصحاب الرس کا ذکر سورة فرقان (٣٨) میں، اصحاب الایکہ کا ذکر سورة حجر (٧٨) اور سورة شعراء (١٧٦) میں اور قوم تتبع کا ذکر سورة دخان (٣٧) میں دیکھیے۔ (٢) کل کذب الرسل : ان سب قوموں نے تمام رسولوں کو جھٹلا دیا، کیونکہ یہ سب نہ اپنی طرح کے کسی انسان کو رسول ماننے کے لئے تیار تھے اور نہ دوبارہ زندہ ہو کر اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش ہونے کو۔ اس لئے ان میں سے ہر ایک کو تمام رسولوں کو جھٹلانے والا قرار دیا۔ (٢) فحق و عید : ” اصل میں ” وعیدی “ ہے۔ آیات کے فواصل کی مطابقت کے لئے یاء کو حذف کردیا، دال پر کسرہ یاء کے حذف ہونے کی دلیل ہے، ورنہ ” حق “ کا فاعل ہونے کی وجہ سے ” وعید “ کے دال پر ضمہ ہونا چائے۔ تھا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Consoling the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) كَذَّبَتْ قَبْلَهُمْ قَوْمُ نُوحٍ وَأَصْحَابُ الرَّ‌سِّ وَثَمُودُ (It [ resurrection ] was rejected prior to them by the people of Nuh, and the people of Rass - 50:12). It was mentioned in the preceding verses that the infidels rejected the Prophethood of Sayyidna Muhammad (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and the Hereafter. This obviously perturbed and upset him. In this verse Allah comforts him by narrating the stories of the previous prophets and their communities. Every community in the past persecuted their respective prophets. This was the behavior pattern of all disbelieving nations against their prophets throughout history. Thus the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) is consoled that he should not be disheartened by this behavior. The story of the people of Nuh (علیہ السلام) is repeated several times in the Qur&an in that the Holy Prophet Nuh (علیہ السلام) preached to his people for 950 years but in response they not only rejected him but also subjected him to various hardships. Who are people of Rass? Lexically, the word rass in Arabic has several meanings. Most prominently it refers to a well that has not been built by bricks or stones. People of Rass were the remnants of Thamud who had remained alive after the punishment. Dahhak (رض) and other commentators narrate their story that follows. When the people of Salih (علیہ السلام) were destroyed by Allah&s punishment, a remnant [ about 4000] of them escaped it, because they had reposed faith in him and obeyed him. They left their original place and took shelter in Hadramaut (a city in Yemen). Holy Prophet Salih (علیہ السلام) was with them. They went to a well and stayed there. Salih passed away here; therefore this place is called Hadara Maut [ death overcame ] and the people settled there permanently. Later their descendants took to idol-worship, to whom a prophet was sent to preach and reform, but they killed him. The community was annihilated by Divine punishment. Their well, on which their lives depended, was rendered useless; and their buildings and dwellings were desolated. The Qur&an has described it in the following words, فَهِيَ خَاوِيَةٌ عَلَىٰ عُرُ‌وشِهَا وَبِئْرٍ‌ |"So, there they are, fallen down on heir roofs, and Chow many a deserted well ane well-built castle!|" (22:45). For discerning eyes the abandoned well and desolate lofty palaces are sufficient to judge and decide on the consequences of one&s deeds. Thamud These are the people of the Prophet Salih (علیہ السلام) whose story has been repeated several times in the Qur&an.

(آیت) كَذَّبَتْ قَبْلَهُمْ قَوْمُ نُوْحٍ ۔ سابقہ آیات میں کفار کی تکذیب رسالت و آخرت کا ذکر تھا، جس سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایذا پہنچنا ظاہر ہے، اس آیت میں حق تعالیٰ نے آپ کی تسلی کے لئے پچھلے انبیاء اور ان کی امتوں کے حالات بتلائے ہیں کہ ہر پیغمبر کو منکرین و کفار کی طرف سے ایسی ایذائیں پیش آتی ہی ہیں، یہ سنت انبیاء ہے، اس سے آپ شکستہ خاطر نہ ہوں، قوم نوح (علیہ السلام) کا قصہ قرآن میں بار بار آیا ہے کہ ساڑھے نو سو برس نوح (علیہ السلام) ان کی اصلاح کی کوشش کرتے رہے مگر ان کی طرف سے نہ صرف انکار بلکہ طرح طرح کی ایذائیں پہنچتی رہیں اصحاب الرس کون لوگ ہیں ؟ اَصْحٰبُ الرَّسِّ ، لفظ رس عربی زبان میں مختلف معنی کے لئے آتا ہے، مشہور معنی یہ ہیں کہ کچے کنویں کو رس کہا جاتا ہے، جو اینٹ پتھر وغیرہ سے پختہ نہ کیا گیا ہو، اصحاب الرس سے مراد قوم ثمود کے باقی ماندہ لوگ ہیں جو عذاب کے بعد باقی رہے، ضحاک وغیرہ مفسرین نے ان کا قصہ یہ لکھا ہے کہ جب حضرت صالح (علیہ السلام) کی قوم (ثمود) پر عذاب آیا تو ان میں سے چار ہزار آدمی جو حضرت صالح (علیہ السلام) پر ایمان لا چکے تھے وہ عذاب سے محفوظ رہے، یہ لوگ اپنے مقام سے منتقل ہو کر حضرموت میں جا کر مقیم ہوگئے، حضرت صالح (علیہ السلام) بھی ان کے ساتھ تھے، ایک کنویں پر جا کر یہ لوگ ٹھہر گئے اور حضرت صالح (علیہ السلام) کی وفات ہوگئی، اسی لئے اس جگہ کا نام حضرموت (یعنی موت حاضر ہوگئی) ہے، یہ لوگ یہیں رہ پڑے، پھر ان کی نسل میں بت پرستی شروع ہوگئی، ان کی اصلاح کے لئے حق تعالیٰ نے ایک نبی کو بھیجا، جس کو انہوں نے قتل کر ڈالا، ان پر خدا تعالیٰ کا عذاب آیا، ان کا کنواں جس پر ان کی زندگی کا انحصار تھا وہ بیکار ہوگیا اور عمارتیں ویران ہوگئیں، قرآن کریم نے اسی کا ذکر اس آیت میں فرمایا ہے : (آیت) وبئر معطلة و قصر مشید، یعنی چشم عبرت والوں کے لئے ان کا بیکار پڑا ہوا کنواں اور پختہ بنے ہوئے محلات ویران پڑے ہوئے عبرت کے لئے کافی ہیں۔ ثمود : حضرت صالح (علیہ السلام) کی امت ہیں ان کا واقعہ قرآن میں بار بار پہلے گزر چکا ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

كَذَّبَتْ قَبْلَہُمْ قَوْمُ نُوْحٍ وَّاَصْحٰبُ الرَّسِّ وَثَمُوْدُ۝ ١٢ ۙ كذب وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی: إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] ، ( ک ذ ب ) الکذب قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے قوم والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] ، ( ق و م ) قيام القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] نوح نوح اسم نبيّ ، والنَّوْح : مصدر ناح أي : صاح بعویل، يقال : ناحت الحمامة نَوْحاً وأصل النَّوْح : اجتماع النّساء في المَنَاحَة، وهو من التّناوح . أي : التّقابل، يقال : جبلان يتناوحان، وریحان يتناوحان، وهذه الرّيح نَيْحَة تلك . أي : مقابلتها، والنَّوَائِح : النّساء، والمَنُوح : المجلس . ( ن و ح ) نوح ۔ یہ ایک نبی کا نام ہے دراصل یہ ناح ینوح کا مصدر ہے جس کے معنی بلند آواز کے ساتھ گریہ کرنے کے ہیں ۔ محاورہ ہے ناحت الحمامۃ نوحا فاختہ کا نوحہ کرنا نوح کے اصل معنی عورتوں کے ماتم کدہ میں جمع ہونے کے ہیں اور یہ تناوح سے مشتق ہے جس کے معنی ثقابل کے ہیں جیسے بجلان متنا وحان دو متقابل پہاڑ ۔ ریحان یتنا وحان وہ متقابل ہوائیں ۔ النوائع نوحہ گر عورتیں ۔ المنوح ۔ مجلس گریہ ۔ صحب الصَّاحِبُ : الملازم إنسانا کان أو حيوانا، أو مکانا، أو زمانا . ولا فرق بين أن تکون مُصَاحَبَتُهُ بالبدن۔ وهو الأصل والأكثر۔ ، أو بالعناية والهمّة، ويقال للمالک للشیء : هو صاحبه، وکذلک لمن يملک التّصرّف فيه . قال تعالی: إِذْ يَقُولُ لِصاحِبِهِ لا تَحْزَنْ [ التوبة/ 40] ( ص ح ب ) الصاحب ۔ کے معنی ہیں ہمیشہ ساتھ رہنے والا ۔ خواہ وہ کسی انسان یا حیوان کے ساتھ رہے یا مکان یا زمان کے اور عام اس سے کہ وہ مصاحبت بدنی ہو جو کہ اصل اور اکثر ہے یا بذریعہ عنایت اور ہمت کے ہو جس کے متعلق کہ شاعر نے کہا ہے ( الطوایل ) ( اگر تو میری نظروں سے غائب ہے تو دل سے تو غائب نہیں ہے ) اور حزف میں صاحب صرف اسی کو کہا جاتا ہے جو عام طور پر ساتھ رہے اور کبھی کسی چیز کے مالک کو بھی ھو صاحبہ کہہ دیا جاتا ہے اسی طرح اس کو بھی جو کسی چیز میں تصرف کا مالک ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِذْ يَقُولُ لِصاحِبِهِ لا تَحْزَنْ [ التوبة/ 40] اس وقت پیغمبر اپنے رفیق کو تسلی دیتے تھے کہ غم نہ کرو ۔ رس أَصْحابَ الرَّسِ قيل : هو واد، قال الشاعر : وهنّ لوادي الرَّسِّ کالید للفم وأصل الرَّسِّ : الأثر القلیل الموجود في الشیء، يقال : سمعت رَسّاً من خبر ورَسُّ الحدیث في نفسي، ووجد رَسّاً من حمّى ورُسَّ الميّتُ : دفن وجعل أثرا بعد عين . ( ر س س ) وأَصْحابَ الرَّسِ اور رس کے رہنے والوں نے ۔ بعض نے کہا ہے کہ رس ایک وادی کا نام ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ( الطویل ) وھن لوادی الرس کالید للفم ۔ اور وہ وادی رس کے لئے جیسے ہاتھ منہ کیطرف ۔ اصل میں رس کسی چیز کے تھوڑے سے نشان کو کہا جاتا ہے ۔ عام محاورہ ہے :۔ سمعت رسا من خبر : میں نے کچھ یوں ہی سی خبر سنی ۔ رس الحدیث فی نفسی میرے دل میں تمہاری بات کا تھوڑا سا اثر ہوا ۔ وجد رسا من حمی ۔ اس نے بخار کا تھوڑا سا اثر محسوس کیا ۔ رس المیت ۔ میت دفن ہوگئی اور اس کی شخصیت کے بعد اب اس کے آثار باقی رہے ۔ ثمد ثَمُود قيل : هو أعجمي، وقیل : هو عربيّ ، وترک صرفه لکونه اسم قبیلة، أو أرض، ومن صرفه جعله اسم حيّ أو أب، لأنه يذكر فعول من الثَّمَد، وهو الماء القلیل الذي لا مادّة له، ومنه قيل : فلان مَثْمُود، ثَمَدَتْهُ النساء أي : قطعن مادّة مائه لکثرة غشیانه لهنّ ، ومَثْمُود : إذا کثر عليه السّؤال حتی فقد مادة ماله . ( ث م د ) ثمود ( حضرت صالح کی قوم کا نام ) بعض اسے معرب بتاتے ہیں اور قوم کا علم ہونے کی ہوجہ سے غیر منصرف ہے اور بعض کے نزدیک عربی ہے اور ثمد سے مشتق سے ( بروزن فعول ) اور ثمد ( بارش) کے تھوڑے سے پانی کو کہتے ہیں جو جاری نہ ہو ۔ اسی سے رجل مثمود کا محاورہ ہے یعنی وہ آدمی جس میں عورتوں سے کثرت جماع کے سبب مادہ منویہ باقی نہ رہے ۔ نیز مثمود اس شخص کو بھی کہا جاتا ہے جسے سوال کرنے والوں نے مفلس کردیا ہو ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٢۔ ١٤) اے محمد آپ کی قوم سے پہلے قوم نوح کی اور اصحاب الرس رس یمانہ کے قریب ایک کنواں ہے یعنی قوم شعیب، شعیب کی اور ثمود حضرت صالح کی اور عاد حضرت ہود کی اور فرعون اور اس کی قوم موسیٰ کی اور قوم لوط حضرت لوط کی اور اصحاب ایکہ بھی شعیب کی اور قوم تبع تکذیب کرچکے ہیں۔ تبع حمیر کے بادشاہ کا نم ہے ان کا نام اسعد اور کنیت ابو کرب ہے یہ مرد مسلم تھے ان کے پیرو کی کثرت کی وجہ سے ان کا یہ نام پڑا۔ جیسا کہ آپ کی قوم قریش آپ کی تکذیب کرتی ہے ان سب نے پیغمبروں کو جھٹلایا لہذا اس تکذیب کی وجہ سے ان سب پر میری سزا محقق ہوگئی اور ان پر عذاب نازل ہوا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٢{ کَذَّبَتْ قَبْلَہُمْ قَوْمُ نُوْحٍ وَّاَصْحٰبُ الرَّسِّ وَثَمُوْدُ ۔ } ” جھٹلایا تھا ان سے پہلے بھی نوح (علیہ السلام) کی قوم نے ‘ کنویں والوں نے اور قوم ثمود نے ۔ “ یہ انباء الرسل کا تذکرہ ہے لیکن انتہائی مختصر انداز میں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

12 Before this the people of Rass (Ashab ar-Rass) have been mentioned in Surah AI-Furqan: 38 above, and now here, but at both places they have been only referred to as of those nations who rejected the Prophets. No other detail about them has been given. In the traditions of Arabia two places are well known by the name of ar-Rass, one in the Najd and the other in northern Hejaz. Of these ar-Rass of the Najd is better known and has been referred to more often in the pre-Islamic poetry of Arabia. Now it is difficult to detetmine which of these was the home of the Ashab ar-Rass. No reliable detail of their story is found in any tradition either. The most that one can say with certainty is that it was a nation which had thrown its Prophet into a well. But from the mere allusion that has been made to them in the Qur'an one is led to think that in the time of the revelation of the Qur'an the Arabs were generally aware of this nation and its history, but the traditions about them could not be preserved in historic records.

سورة قٓ حاشیہ نمبر :12 اس سے پہلے سورہ فرقان ، آیت 28 میں اصحاب الرس کا ذکر گزر چکا ہے ، اور دوسری مرتبہ اب یہاں ان کا ذکر ہو رہا ہے ۔ مگر دونوں جگہ انبیاء کو جھٹلانے والی قوموں کے سلسلے میں صرف ان کا نام ہی لیا گیا ہے ، کوئی تفصیل ان کے قصے کی بیان نہیں کی گئی ہے ۔ عرب کی روایات میں الرس کے نام سے دو مقام معروف ہیں ، ایک نجد میں ، دوسرا شمالی حجاز میں ۔ ان میں نجد کا الرس زیادہ مشہور ہے اور اشعار جاہلیت میں زیادہ تر اسی کا ذکر سنا ہے ۔ اب یہ تعین کرنا مشکل ہے کہ اصحاب الرس ان دونوں میں سے کس جگہ کے رہنے والے تھے ۔ ان کے قصے کی بھی کوئی قابل اعتماد تفصیل کسی روایت میں نہیں ملتی ۔ زیادہ سے زیادہ بس اتنی بات صحت کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ یہ کوئی ایسی قوم تھی جس نے اپنے نبی کو کنوئیں میں پھینک دیا تھا ۔ لیکن قرآن مجید میں جس طرح ان کی طرف محض ایک اشارہ کر کے چھوڑ دیا گیا ہے اس سے خیال ہوتا ہے کہ نزول قرآن کے زمانے میں اہل عرب بالعموم اس قوم اور اس کے قصے سے واقف تھے اور بعد میں یہ روایات تاریخ میں محفوظ نہ رہ سکیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٢۔ ١٥۔ اہل مکہ نے حشر اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کا جو انکار کیا تھا اوپر اس کا ذکر تھا ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں کی تسکین فرمائی کہ سرکش لوگوں کا انبیاء کو جھٹلانا حشر کی باتوں کو مسخرا پن ٹھہرانا سب نبیوں کے زمانہ میں تھا تمہارے زمانہ میں یہ بات کچھ نئی نہیں ہے۔ پھر فرمایا جیسا ان لوگوں نے کیا ویسا پایا کہ آخر کو سب طرح طرح کے عذابوں سے ہلاک ہوگئے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر یہ لوگ اپنی سرکشی سے باز نہ آئیں گے تو وہی نتیجہ ان کا ہوگا پھر فرمایا ہر کام کا پہلے پہل کرنا مشکل ہوتا ہے بغیر کسی نمونہ کے جب ایک دفعہ اللہ تعالیٰ نے سب عالم کو پیدا کردیا تو پھر اسی نمونہ پر انسان کو دوبارہ پیدا کرنا عقل سے بعید نہیں ہے بلکہ دوبارہ پیدا ہونے سے ان کا انکار شیطانی دھوکا ہے جس میں یہ پڑے ہوئے ہیں۔ خاکی انسان تو اپنی اصلی مادہ خاک سے ہی دوبارہ پیدا کیا جائے گا جس نے لکڑی سے سانپ کو پتھر سے اونٹی کو ‘ پانی سے انسان کو پیدا کردیا۔ اس کی قدرت سے یہ کیا بعید ہے کہ خاک سے خاکی انسان کو دوبارہ پیدا کر دے۔ اوپر ابوہریرہ (رض) کی روایت سے صحیحین ١ ؎ کی حدیث قدسی گزر چکی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا انسان نے مجھ کو جھٹلا یا جو ایک دفعہ کی اپنی پیدائش کو دیکھ کر پھر اس نے اپنی دوبارہ پیدائش کا انکار کیا۔ صحیح ٢ ؎ مسلم میں ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قیامت کے دن جزاء سزا کے منکروں کو اللہ تعالیٰ اپنے رو برو کھڑا کرکے ان کی وہ نعمتیں یاد دلائے گا جو انہیں دنیا میں دی گئی تھیں۔ جب وہ ان نعمتوں کا اقرار کریں گے تو ان سے پوچھے گا کہ باوجود ان نعمتوں کے تم کو نیکی و بدی کی جزا و سزا کے لئے میرے رو برو کھڑے ہونے کا بھی کبھی خیال آیا تھا وہ کہیں گے نہیں۔ اس پر فرمائے گا کہ اچھا جس طرح دنیا میں تم نے مجھ کو بھلا رکھا تھا اسی طرح میں نے بھی تم کو اپنی رحمت کی نظر سے آج دور ڈال دیا۔ اب یہ تو ظاہر ہے کہ جس کو اللہ تعالیٰ اپنی نظر رحمت سے اس دن دور ڈال دے گا اس دن سوائے دوزخ کے اس کا اور کون سا ٹھکانا ہوسکتا ہے۔ جسمانی حشر اور جسمانی جزا و سزا کے اکثر فلسفی حکماء بھی قائل نہیں ہیں اور نہ شرعی تفصیل کے موافق جنت و دوزخ کو وہ مانتے ہیں بلکہ ان کا عقیدہ یہ ہے کہ مرنے کے بعد نفس ہیشہ کے لئے زندہ رہے گا اور اچھا نفس نیکیوں کے تصور سے ایک خوشی میں ‘ اور برا نفس بدیوں کے تصور سے ایک طرح کے رنج میں رہے گا۔ یہ عقیدہ آسمانی کتابوں اور انبیاء کی تعلیم کے برخلاف اور مواخذہ اخروی کے قابل ہے۔ کنوئیں والوں کا تفصیلی قصہ سورة فرقان ١ ؎ میں اور قوم تبع کا قصہ سورة دخان ٢ ؎ میں گزر چکا ہے۔ یہاں حاصل اسی قدر ہے کہ یہ دونوں قومیں بھی ہلاک شدہ لوگوں میں سے ہیں۔ (١ ؎ صحیح بخاری تفسیر سورة اخلاص ص ٧٤٣ ج ٢) (٢ ؎ صحیح مسلم باب کتاب الزہد ص ٤٠٩ ج ٢۔ ) (١ ؎ تفسیر ہذا جلد ٤ ص ٣٨٣۔ ) (٢ ؎ تفسیر ہذا جلد ٥ ص ١٩١۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(50:12) قبلہم : ای قبل قریش۔ قریش کفار مکہ سے قبل۔ (اضواء البیان) اصحب الرس۔ مضاف مضاف الیہ۔ الرس ایک کنویں کا نام ہے جو مدین کے قریب ہے یہ کنویں والے کون تھے۔ اس کے متعلق مختلف مگر مستند روایات ہیں خلاصہ ان سب کا یہ ہے کہ یہ ایک قوم تھی جس کو اللہ تعالیٰ بےاپنے پیغمبر کی تکذیب کی پاداش میں ہلاک کردیا تھا۔ ثمود : ای قوم ثمود۔ اس قوم نے بھی پیغمبروں کی تکذیب کی۔ حضرت صالح اور ان کی اونٹنی کا حال قرآن مجید میں تفصیلا مذکور ہے قوم نے حضرت صالح کے سمجھانے کے باوجود اونٹنی کی کونچیں کاٹ دیں اور اس طرح عذاب الٰہی کے مستوجب ہوئے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 اصحاب الرس کا ذکر سورة فرقان میں گزر چکا ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اس سے پہلی آیت میں بارش کا ذکر کرنے کے بعد بتلایا ہے کہ جس طرح بارش کے بعد زمین سے بیج نکلتے ہیں۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ تمہیں قیامت کے دن زمین سے نکال لے گا اور تمہیں اپنی بارگاہ میں پیش کرے گا۔ یہ اتنی واضح حقیقت ہونے کے باوجود افراد ہی نہیں بلکہ بڑی بڑی اقوام نے قیامت کے دن کا انکار کیا جس وجہ سے ان کا دنیا میں بھی برا انجام ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے قیامت کے دلائل دیتے ہوئے انسان کو باربار سمجھایا ہے کہ اے انسان ! تو نے مرنے کے بعد ہر صورت زندہ ہو کر میری بارگاہ میں پیش ہونا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش ہونا اور اپنے اعمال کا جواب دینے کا عقیدہ ہی انسان کو درست رکھتا ہے۔ جب آخرت کا عقیدہ کمزور ہوجائے تو افراد ہی نہیں بڑی بڑی اقوام بھی مجرم اور ظالم بن جاتی ہیں۔ جن اقوام نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور ایک دوسرے کے لیے ظالمانہ رویہ اختیار کیا ان میں سرفہرست قوم نوح، کنویں والے، قوم ثمود، قوم عاد، فرعون اور اس کے ساتھی، اخوان لوط اور قوم تبع ہے۔ جس وجہ سے ان پر عذاب نازل ہوا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے انبیاء کے ذریعے کیا ہوا عذاب کا وعدہ پورا فرمایا۔ قیامت کا انکار کرنے والوں کو سوچنا چاہیے کہ کیا اللہ تعالیٰ پہلی مرتبہ پیدا کرکے تھک گیا ہے کہ وہ لوگوں کو دوبارہ پیدا نہیں کرسکتا ؟ ظاہر بات ہے کہ جب انسان کوئی چیز پہلی مرتبہ بناتا ہے تو اس کے لیے اسے بنانا آسان ہوتا ہے غور کریں کہ خالق کائنات کے لیے لوگوں کو دوبارہ پیدا کرنا کس طرح مشکل ہوگا ؟ جس بنا پر لوگ قیامت کے دن زندہ ہونے کا انکار کرتے ہیں۔ جو لوگ قیامت کے دن زندہ ہونے کا انکار کرتے ہیں وہ شک میں مبتلا ہیں ان کے پاس شک کے سوا کوئی دلیل نہیں۔ (قُلْ کُوْنُوْا حِجَارَۃً اَوْ حَدِیْدًا) (بنی اسرائیل : ٥٠) ” فرما دیں کہ تم پتھر بن جاؤ یا لوہا۔ “ علامہ طبری (رض) فرماتے ہیں کہ کنویں والوں سے مراد اصحاب الاخدود ہیں جن کا ذکر سورة بروج میں ہوا ہے۔ (ابن کثیر، شوکانی) تبع سے مراد یمن کی قوم سبا ہے جن کی تباہی کا منظر سورة سبا میں گزر چکا ہے۔ اور اصحاب الایکہ سے مراد حضرت شعیب (علیہ السلام) کی قوم ہے جن کو مدین والے بھی کہا گیا ہے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو پہلی مرتبہ پیدا کیا ہے اور وہی دوسری مرتبہ پیدا کرے گا۔ ٢۔ قیامت کا انکار کرنے والوں کے پاس کوئی ٹھوس دلیل نہیں ہے۔ ٣۔ قیامت کا انکار کرنے والے صرف شک کی بنیاد پر انکار کرتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن اقوام کی تباہی کا ایک منظر : ١۔ اللہ تعالیٰ نے بہت سی اقوام کو تباہ کیا۔ (الانعام : ٦) ٢۔ تم سے پہلے لوگوں نے ظلم کیا تو ہم نے ان کو تباہ کردیا۔ (یونس : ١٣) ٣۔ قوم نوح طوفان کے ذریعے ہلاک ہوئی۔ (الاعراف : ١٣٦) ٤۔ ثمود زوردار آواز کے ساتھ ہلاک کیے گئے۔ (الحاقہ : ٥) ٥۔ عاد زبر دست آندھی کے ذریعے ہلاک ہوئے۔ (الحاقہ : ٦) ٦۔ آل فرعون کو سمند میں ڈبو دیا گیا۔ ( ٍیونس : ٩٠) ٧۔ قوم لوط کی بستی کو الٹ کر ان پر پتھروں کی بارش برسائی گئی۔ (الحجر : ٧٤) ٨۔ ہم نے اوپر والی سطح کو نیچے کردیا اور ہم نے ان پر پتھروں کی بارش برسا دی جو تہہ بہ تہہ تھے خاص نشان لگے ہوئے۔ (ھود : ٨٢) ٩۔ قوم لوط کو ایک سخت آواز نے پکڑ لیا۔ (الحجر : ٧٣) ١٠۔ ہم نے قوم لوط پر پتھروں کی بارش نازل کی دیکھیے مجرموں کا انجام کیسے ہوا۔ (الاعراف : ٨٤)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اب انسانی تاریخ کے طویل ریکارڈ سے کچھ عبرتیں اور نصیحتیں ، اس سے قبل پورے دلائل دئیے گئے تھے وہ اس کائنات کی کھلی کتاب سے تھے۔ اب کتاب تاریخ کے اوراق الٹئے ! اور دیکھئے کہ جن لوگوں نے آخرت کی جوابدہی کا انکار کیا ان کا انجام کیا ہوا۔ اپنے رویے پر ذرا غور کرو۔ انہوں نے بھی اسی طرح تکذیب کی جس طرح تم کر رہے ہو اور ان پر جو عذاب آیا کیا تم پر ایسا عذاب نہیں آسکتا ؟ کذبت قبلھم ۔۔۔ وثمود (١٢) وعاد وفرعون واخوان لوط (١٣) واصحب الایکۃ ۔۔۔۔۔۔ فحق وعید (١٤) افعیینا بالحلق ۔۔۔۔۔ جدید (٥٠ : ١٢ تا ١٤) ” ان سے پہلے نوح کی قوم ، اور اصحاب الرس اور ثمود اور عاد ، اور فرعون ، اور لوط کے بھائی ، اور ایکہ والے اور تبع کی قوم کے لوگ بھی جھٹلا چکے ہیں۔ ہر ایک نے رسولوں کو جھٹلایا اور آخر کار میری وعید ان پر چسپاں ہوگئی۔ کیا پہلی بات کی تخلیق سے ہم عاجز تھے ؟ مگر ایک نئی تخلیق کی طرف سے یہ لوگ شک میں پڑے ہوئے ہیں “۔ اس کے معنی ہیں کنواں ، وہ کنواں جس کا من پتھروں سے بنا ہوا ہو ، اور ایکہ کے معنی ہیں درختوں کا جھنڈ۔ اصحاب الایکہ غالبا قوم شعیب ہے۔ اصحاب الراس کی تفصیلات قرآن میں وارد نہیں ہیں۔ تبع حمیری بادشاہوں کا لقب ہے۔ اور باقی اقوام جن کی طرف اشارہ کیا ہے وہ مشہور ہیں۔ یہ بات واضح ہے کہ یہاں اس سرسری اشارے سے مقصد ان اقوام کی تفصیلات دینا نہیں ہے۔ بلکہ صرف یہ بیان کرنا ہے کہ ان کو ہلاک کیا گیا۔ جب انہوں نے رب العالمین کے رسولوں کی تکذیب کی۔ قابل توجہ یہ فقرہ ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اقوام سابقہ ہالکہ کے واقعات سے عبرت حاصل کریں ان آیات میں قرآن کریم کے مخاطبین کو تنبیہ فرمائی ہے اور انہیں بتایا ہے کہ اپنے کفر اور تکذیب کے باوجود یہ لوگ مطمئن ہیں اور یہ سمجھ رہے ہیں کہ ہم صحیح راہ پر ہیں اور ہمارا مواخذہ نہ ہوگا یہ ان لوگوں کی غلطی ہے ان سے پہلے کتنی قومیں گزر چکی ہیں۔ جنہوں نے رسولوں کو جھٹلایا (جس میں وقوع قیامت کا انکار بھی تھا لہٰذا یہ لوگ ہلاک کردیئے گئے) جن لوگوں کی ہلاکت و بربادی کا اجمالی تذکرہ فرمایا ہے ان کی ہلاکت کے تفصیلی حالات متعدد سورتوں میں گزر چکے ہیں۔ اصحاب الرس کا تزکرہ سورة ٴ فرقان میں اور اصحابہ الایکہ کا تذکرہ سورة ٴ الشعراء میں اور قوم تبع کا ذکر سورة ٴ الدخان میں گزر چکا ہے ارشاد فرمایا ﴿ كَذَّبَ الرُّسُلَ فَحَقَّ وَعِيْدِ ٠٠١٤﴾ (ان لوگوں نے نبیوں کو جھٹلایا لہٰذا ان پر میری وعید ثابت ہوگئی) یعنی ان کو جو پیشگی متنبہ کردیا گیا تھا کہ ایمان نہ لانے پر مبتلائے عذاب ہوں گے اس وعید کے مطابق ان کو ہلاک کردیا گیا۔ یہ لوگ جو کہتے تھے کہ ہم مر کھپ جائیں گے اور ہماری ہڈیاں اور گوشت پوست مٹی بن جائے گا تو پھر کیسے زندہ ہوں گے ان کے تعجب کو دفع کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ﴿ اَفَعَيِيْنَا بالْخَلْقِ الْاَوَّلِ ١ؕ﴾ (کیا ہم پہلی بار پیدا کرنے سے تھک گئے) مطلب یہ ہے کہ جس نے تمہیں اور دوسری مخلوقات کو پیدا کیا جس میں زمین و آسمان بھی ہیں وہ قادر مطلق کیا پہلی بار پیدا کرنے سے تھک گیا ہے ؟ ہرگز نہیں وہ ہرگز نہیں تھکا، اسے ہمیشہ پوری پوری قدرت ہے جس نے پہلی بار پیدا فرمایا وہی دوبارہ بھی پیدا فرما دے گا ﴿بَلْ هُمْ فِيْ لَبْسٍ مِّنْ خَلْقٍ جَدِيْدٍ (رح) ٠٠١٥﴾ (بلکہ بات یہ ہے کہ یہ لوگ نئی پیدائش کی طرف سے شبہ میں ہیں) ۔ دلائل عقلیہ تو ان کے پاس ہیں نہیں جن کی بنیاد پر دوبارہ پیدا کرنے کے عدم وقوع کو ثابت کرسکیں، ان کے پاس بس شبہ ہی شبہ ہے اسی شبہ کو بنیاد بنا کر انکار کرتے رہتے ہیں جس کا ازالہ بار بار کیا جا چکا ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

8:۔ ” کذبت قبلھم۔ تا۔ فحق وعید “ یہ تخویف دنیوی ہے برائے مکذبین رسل و منکرین قیامت۔ اور یہ ” بل کذبوا بالحق “ سے متعلق ہے یعنی اقوام گذشتہ کی طرح کفار قریش بھی قیامت اور حشر و نشر کا انکار کر رہے ہیں۔ جس طرح ان سرکش قوموں پر اللہ کا عذاب آیا۔ اسی طرح کفار قریش پر بھی آئے گا۔ ” اصحاب الرس “ یہ لوگ ایک کنوئیں پر آباد تھے اور بت پرستی کرتے تھے۔ ان کی طرح حضرت حنظلہ بن صفوان (علیہ السلام) مبعوث ہوئے (بیضاوی، روح) ۔ اصحاب الایکۃ، ان کی طرف حضرت شعیب (علیہ السلام) مبعوث ہوئے۔ ” قوم تبع “ تبع حمیری مراد ہے جو ایمان لا چکا تھا، لیکن اس کی دعوت اور کوشش کے باوجود اس کی قوم ایمان نہ لائی۔ ” کل کذب الرسل الخ “ ان میں سے ہر قوم نے اپنے اپنے پیغمبر کو جھٹلایا اور ان کے آوردہ پیغام توحید اور حشر و نشر وغیرہ کا انکار کیا تو وعدہ عذاب ان پر ثابت ہوگیا اور ان کو مختلف انواع عذاب سے دنیا میں تباہ وبرباد کردیا گیا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(12) ان کفار قریش سے پہلے نوح (علیہ السلام) کی قوم اور کنویں والے اور ثمود۔