Surat Qaaf

Surah: 50

Verse: 14

سورة ق

وَّ اَصۡحٰبُ الۡاَیۡکَۃِ وَ قَوۡمُ تُبَّعٍ ؕ کُلٌّ کَذَّبَ الرُّسُلَ فَحَقَّ وَعِیۡدِ ﴿۱۴﴾

And the companions of the thicket and the people of Tubba'. All denied the messengers, so My threat was justly fulfilled.

اور ایکہ والوں نے اور تبع کی قوم نے بھی تکذیب کی تھی ۔ سب نے پیغمبروں کو جھٹلایا پس میرا وعدہ عذاب ان پر صادق آگیا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَأَصْحَابُ الاْأَيْكَةِ ... And the Dwellers of Al-Aykah, they are the nation of Shu`ayb, peace be upon him, ... وَقَوْمُ تُبَّعٍ ... and the people of Tubba`, King of Yemen; we explained his story in the Tafsir of Surah Ad-Dukhan, and therefore, we do not need to repeat it here. All praise is due to Allah. ... كُلٌّ كَذَّبَ الرُّسُلَ ... Everyone of them denied (their) Messengers, means, all of these nations and their generations belied their respective Messenger, and whoever denies even one Messenger, is as if he has denied all Messengers. Allah the Exalted and Most Honored said, كَذَّبَتْ قَوْمُ نُوحٍ الْمُرْسَلِينَ The people of Nuh denied the Messengers. (26:105) even though only one Messenger was sent to them, and indeed, if all the Messengers were sent to them, they would have disbelieved in them as well. Allah said, ... فَحَقَّ وَعِيدِ so My threat took effect. meaning, the promise of torment and punishment that Allah delivered to them on account of their denial took effect. Therefore, all those who fear suffering the same end should be warned, especially since the latter have denied their Messenger, just as the former denied their Messenger. Repeating the Creation is Easier than originating It Allah the Exalted said,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

14۔ 1 اَصْحَاب الاءَیْکَۃِ کے لئے دیکھئے سورة الشعراء (وَمَآ اَنْتَ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَا وَاِنْ نَّظُنُّكَ لَمِنَ الْكٰذِبِيْنَ 186؀ۚ ) 26 ۔ الشعراء :186) کا حاشیہ۔ 14۔ 2 قَوْمُ تُبَعِ کے لئے دیکھئے سورة الدخان، (اَهُمْ خَيْرٌ اَمْ قَوْمُ تُبَّــعٍ ۙ وَّالَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ ۭ اَهْلَكْنٰهُمْ ۡ اِنَّهُمْ كَانُوْا مُجْرِمِيْنَ 37؀) 44 ۔ الدخان :37) کا حاشیہ۔ 14۔ 3 یعنی ان میں سے ہر ایک نے اپنے اپنے پیغمبر کو جھٹلایا۔ اس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے تسلی ہے گویا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کہا جا رہا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی قوم کی طرف سے تکذیب پر غمگین نہ، اس لیے کہ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے انبیاء (علیہم السلام) کے ساتھ بھی ان کی قوموں نے یہی معاملہ کیا دوسرے اہل مکہ کو تنبیہ ہے کہ پچھلی قوموں نے انبیاء (علیہم السلام) کی تکذیب کی تو دیکھ لو ان کا انجام کیا ہوا ؟ کیا تم بھی اپنے لیے یہی انجام چاہتے ہو اگر یہ انجام پسند نہیں کرتے تو تکذیب کا راستہ چھوڑو اور پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لے آؤ۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٤] ان سب اقوام کے قصے پہلے سورة اعراف، یونس، ہود، حجر، فرقان اور دخان میں گزر چکے ہیں اور حواشی میں تفصیلات آچکی ہیں۔ وہاں ملاحظہ کر لئے جائیں۔ [١٥] اس کا یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ ان اقوام میں سے ہر قوم نے اپنے اپنے رسول کو جھٹلایا اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ہر قوم نے سارے رسولو کو جھٹلایا اس لئے کہ وہ نفس رسالت کے ہی منکر تھے۔ یعنی ان کے خیال کے مطابق کوئی انسان رسول بن کر آ ہی نہیں سکتا تھا۔ اور یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ اپنے رسول کو جھٹلانے کو تمام رسولوں کی تکذیب کے مترادف قرار دیا گیا ہو۔ کیونکہ سب رسولوں کی بنیادی تعلیم ایک جیسی ہے۔ اور رسولوں کو جھٹلانے سے مراد رسول کی تعلیم کو جھٹلانا ہے۔ [١٦] آخرت کی منکر اقوام کا انجام :۔ تمام رسولوں کی بنیادی تعلیم کا ایک اہم جز عقیدہ آخرت پر ایمان رہا ہے۔ اور جن اقوام کا اوپر ذکر ہوا ہے۔ یہ سب عقیدہ آخرت یا مر کر دوبارہ جی اٹھنے اور اللہ کے حضور پیش ہونے اور اپنے جواب ہی کے عقیدہ کی منکر تھیں۔ عقیدہ آخرت سے انکار کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ افراد اوراقوام دونوں کی زندگی کو فتنہ و فساد کی راہوں پر ڈال دیتا ہے۔ اس لئے کہ ایسے انسانوں کو اپنے محاسبہ کا کچھ خوف نہیں رہتا۔ پھر رسول آکر انہیں ان کے برے انجام سے متنبہ کرتے ہیں تو وہ اس قدر سرکش اور گناہوں پر دلیر ہوچکے ہوتے ہیں کہ وہاں سے راہ راست پر واپس آنا کسی صورت گوارا نہیں کرتے۔ الٹا رسولوں کی تکذیب اور انہیں دکھ دینا شروع کردیتے ہیں اور سرکشی اور معصیت میں آگے ہی بڑھتے چلے جاتے ہیں تاآنکہ انہیں ان کے کرتوتوں کی پاداش میں دھر لیا جاتا ہے اور صفحہ ہستی سے ان کا نام و نشان تک ختم کردیا جاتا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Dwellers of Aikah Aikah means a dense bush; wood; forest; jungle, These people resided in such a place. Holy Prophet Shu&aib (علیہ السلام) was sent to this nation. They disobeyed him and were destroyed by Divine punishment. People of Tubba& Tubba& was the title of the king of Yemen. The necessary explanation has been given in volume seven in Surah Ad-Dukhan under [ 44:37].

اَصْحٰبُ الْاَيْكَةِ : ایکہ گھنے جنگل اور بن کو کہتے ہیں، یہ لوگ ایسے ہی مقام پر آباد تھے، حضرت شعیب (علیہ السلام) ان کی طرف نبی بنا کر بھیجے گئے، انہوں نے نافرمانی کی، بالآخر عذاب الٰہی سے تباہ و برباد ہوئے۔ وَقَوْمُ تُبَّعٍ : تبع یمن کے ایک بادشاہ کا لقب ہے، جس کی ضروری تحقیق جلد ہفتم میں سورة دخان کے تحت گزر چکی ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَّاَصْحٰبُ الْاَيْكَۃِ وَقَوْمُ تُبَّعٍ۝ ٠ ۭ كُلٌّ كَذَّبَ الرُّسُلَ فَحَـــقَّ وَعِيْدِ۝ ١٤ صحب الصَّاحِبُ : الملازم إنسانا کان أو حيوانا، أو مکانا، أو زمانا . ولا فرق بين أن تکون مُصَاحَبَتُهُ بالبدن۔ وهو الأصل والأكثر۔ ، أو بالعناية والهمّة، ويقال للمالک للشیء : هو صاحبه، وکذلک لمن يملک التّصرّف فيه . قال تعالی: إِذْ يَقُولُ لِصاحِبِهِ لا تَحْزَنْ [ التوبة/ 40] ( ص ح ب ) الصاحب ۔ کے معنی ہیں ہمیشہ ساتھ رہنے والا ۔ خواہ وہ کسی انسان یا حیوان کے ساتھ رہے یا مکان یا زمان کے اور عام اس سے کہ وہ مصاحبت بدنی ہو جو کہ اصل اور اکثر ہے یا بذریعہ عنایت اور ہمت کے ہو جس کے متعلق کہ شاعر نے کہا ہے ( الطوایل ) ( اگر تو میری نظروں سے غائب ہے تو دل سے تو غائب نہیں ہے ) اور حزف میں صاحب صرف اسی کو کہا جاتا ہے جو عام طور پر ساتھ رہے اور کبھی کسی چیز کے مالک کو بھی ھو صاحبہ کہہ دیا جاتا ہے اسی طرح اس کو بھی جو کسی چیز میں تصرف کا مالک ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِذْ يَقُولُ لِصاحِبِهِ لا تَحْزَنْ [ التوبة/ 40] اس وقت پیغمبر اپنے رفیق کو تسلی دیتے تھے کہ غم نہ کرو ۔ أيك الأَيْكُ : شجر ملتف وأصحاب الأيكة قيل : نسبوا إلى غيضة کانوا يسکنونهاوقیل : هي اسم بلد . ( ای ک ) الایک ۔ درختوں کا جھنڈ ( ذوای کہ ) اور آیت ۔ وأصحاب الأيكةکی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ الایکۃ ان کے شہر اور آبادی کا نام ہے ۔ قوم والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] ، ( ق و م ) قيام القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] تُبَّعٌ وتُبَّعٌ کانوا رؤساء، سمّوا بذلک لاتباع بعضهم بعضا في الریاسة والسیاسة، وقیل : تُبَّع ملك يتبعه قومه، والجمع التَّبَابِعَة قال تعالی: أَهُمْ خَيْرٌ أَمْ قَوْمُ تُبَّعٍ [ الدخان/ 37] ، والتُّبَّعُ : الظل . تبع ۔ روساء ( یمن ) کا لقب تھا کیونکہ وہ سیاست دریاست میں ایک دوسرے کی اتباع کرتے تھے ۔ بعض نے کہا ہے کہ تبع ایک بادشاہ کا لقب ہے جس کی رعیت اس کی مطیع اور فرمانبردار تھی اس کی جمع تبابعۃ قرآن میں ہے :۔ أَهُمْ خَيْرٌ أَمْ قَوْمُ تُبَّعٍ [ الدخان/ 37] بھلا یہ اچھے ہیں یا تبع کی قوم ۔ التبع ( ایضا) سا یہ کیونکہ وہ دھوپ کے پیچھے لگا رہتا ہے ۔ كذب وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی: إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] ، ( ک ذ ب ) الکذب قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے رسل وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ، ( ر س ل ) الرسل اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ حقَ أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة . والحقّ يقال علی أوجه : الأول : يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس/ 32] . والثاني : يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] ، والثالث : في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] . والرابع : للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا : فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] ( ح ق ق) الحق ( حق ) کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔ (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔ وعید . ومن الإِيعَادِ قوله : وَلا تَقْعُدُوا بِكُلِّ صِراطٍ تُوعِدُونَ وَتَصُدُّونَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ [ الأعراف/ 86] ، وقال : ذلِكَ لِمَنْ خافَ مَقامِي وَخافَ وَعِيدِ [إبراهيم/ 14] ، فَذَكِّرْ بِالْقُرْآنِ مَنْ يَخافُ وَعِيدِ [ ق/ 45] ( وع د ) الوعید ( وعدہ کرنا ) کا لفظ خیر وشر یعنی اچھے اور برے ( وعدہ دونوں پر بولا جاتا ہے اور اس معنی میں استعمال ہوتا ہے مگر الوعید کا اور لفظ وعید کے متعلق ارشاد ہے ۔ ذلِكَ لِمَنْ خافَ مَقامِي وَخافَ وَعِيدِ [إبراهيم/ 14] یہ اس شخص کے لئے ہے جو قیامت کے روڈ میرے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرے اور میرے عذاب سے خوف کرے ۔ فَذَكِّرْ بِالْقُرْآنِ مَنْ يَخافُ وَعِيدِ [ ق/ 45] پس جو ہمارے عذاب کی وعید ست ڈرے اس کو قرآن سے نصیحت کرتے رہو ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٤{ وَّاَصْحٰبُ الْاَیْکَۃِ وَقَوْمُ تُبَّعٍ ط } ” اور بن والوں اور قومِ ُ تبع ّنے ۔ “ بن والوں سے یہاں اہل مدین مراد ہیں جن کی طرف حضرت شعیب (علیہ السلام) مبعوث ہوئے تھے۔ ” تبع “ شاہانِ یمن کا لقب تھا۔ قبل ازیں سورة الدخان کی آیت ٣٧ میں بھی ہم قوم تبع کا ذکر پڑھ آئے ہیں۔ { کُلٌّ کَذَّبَ الرُّسُلَ فَحَقَّ وَعِیْدِ ۔ } ” ان سب نے رسولوں کو جھٹلایا تو وہ مستحق ہوگئے میری وعید کے۔ “ پیغمبروں کو جھٹلا کر وہ لوگ عذاب کی وعیدوں کے مصداق بن گئے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

14 For explanation, see E.N. 37 of Surah Saba; E.N, 32 of Surah Dukhan. 15 That is, they all denied the apostleship of their Messengers as well as the news given by them that they will be raised back to life after death. 16 Although every nation denied only the Messenger who was sent to it, as it denied the news which all the Messengers have been presenting unanimously, denying one Messenger, therefore, amounted to denying all of them. Moreover, these nations did not merely deny the apostleship of the Messenger who had come to them, but they were not at all inclined to believe that a mere human could be appointed by Allah for the guidance of other men. Therefore, they denied apostleship itself, and .the crime of no one was confined to belying and rejecting any one Messenger only. 17 This is a reasoning from history for the Hereafter. In the preceding six verses, arguments were given for the possibility of the Hereafter; in these the historical end of the nations of Arabia and the adjoining lands has been presented as an argument to prove that the doctrine of the Hereafter which all the Prophets have been presenting, is the very truth, for whichever nation denied it became involved in the moral degeneration of the worst kind with the result that the torment of God descended on it and eliminated it from the world. This necessary result of the denial of the Hereafter and moral perversion which one can witness throughout history, is an express proof of the fact that man has not been created to be irresponsible in this world, but he has necessarily to render an account of his deeds as soon as the time limit for action at his disposal comes to an end. That is why whenever he works in the world irresponsibly, his whole lift pattern is set on the path of ruin. If evil and wrong results go on following a course of action successively, it is a clear proof that that course of action is in conflict with the truth.

سورة قٓ حاشیہ نمبر :14 تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد چہارم ، تفسیر سورہ سبا ، حاشیہ 37 ۔ سورہ دخان ، حاشیہ 32 ۔ سورة قٓ حاشیہ نمبر :15 یعنی ان سب نے اپنے رسولوں کی رسالت کو بھی جھٹلایا اور ان کی دی ہوئی اس خبر کو بھی جھٹلایا کہ تم مرنے کے بعد پھر اٹھائے جاؤ گے ۔ سورة قٓ حاشیہ نمبر :16 اگرچہ ہر قوم نے صرف اس رسول کو جھٹلایا جو اس کے پاس بھیجا گیا تھا ، مگر چونکہ وہ اس خبر کو جھٹلا رہی تھی جو تمام رسول بالاتفاق پیش کرتے رہے ہیں ، اس لیے ایک رسول کو جھٹلانا در حقیقت تمام رسولوں کو جھٹلا دینا تھا ۔ علاوہ بریں ان قوموں میں سے ہر ایک نے محض اپنے ہاں آنے والے رسول ہی کی رسالت کا انکار نہ کیا تھا بلکہ وہ سرے سے یہی بات ماننے کے لیے تیار نہ تھیں کہ انسانوں کی ہدایت کے لیے انسان اللہ تعالیٰ کی طرف سے مامور ہو کر آ سکتا ہے ، اس لیے نفس رسالت کی منکر تھیں اور ان میں سے کسی کا جرم بھی صرف ایک رسول کی تکذیب تک محدود نہ تھا ۔ سورة قٓ حاشیہ نمبر :17 یہ آخرت کے حق میں تاریخی استدلال ہے ۔ اس سے پہلے کی 6 آیتوں میں امکان آخرت کے دلائل دیے گئے تھے ، اور اب ان آیات میں عرب اور اس کے گرد و پیش کی قوموں کے تاریخی انجام کو اس بات کی دلیل کے طور پر پیش کیا گیا ہے کہ آخرت کا جو عقیدہ تمام انبیاء علیہم السلام پیش کرتے رہے ہیں وہی حقیقت کے عین مطابق ہے ، کیونکہ اس کا انکار جس قوم نے بھی کیا وہ شدید اخلاقی بگاڑ میں مبتلا ہو کر رہی اور آخر کار خدا کے عذاب نے آ کر اس کے وجود سے دنیا کو پاک کیا ۔ آخرت کے انکار اور اخلاق کے بگاڑ کا یہ لزوم ، جو تاریخ کے دوران میں مسلسل نظر آرہا ہے ، اس امر کا صریح ثبوت ہے کہ انسان فی الواقع اس دنیا میں غیر ذمہ دار اور غیر جواب دہ بنا کر نہیں چھوڑ دیا گیا ہے بلکہ اسے لازماً اپنی مہلت عمل ختم ہونے کے بعد اپنے اعمال کا حساب دینا ہے ۔ اسی لیے تو جب کبھی وہ اپنے آپ کو غیر ذمہ دار سمجھ کر دنیا میں کام کرتا ہے ، اس کی پوری زندگی تباہی کے راستے پر چل پڑتی ہے ۔ کسی کام سے اگر پے در پے غلط نتائج برآمد ہوتے چلے جائیں تو یہ اس بات کی کھلی علامت ہے کہ وہ کام حقیقت سے متصادم ہو رہا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(50:14) واصحب الایکۃ۔ اس کا عطف آیت نمبر 12 پر ہے۔ اور ایکہ کے رہنے والے اور قوم تبع نے بھی (حق کو) جھٹلایا۔ اصحب الایکۃ مضاف مضاف الیہ۔ ایکہ کے لوگ، ایکہ کے رہنے والے۔ یہ کم تولنے کے گناہ میں ملوث تھے اور حضرت شعیب (علیہ السلام) کے پندو نصائح کی تکذیب میں دھرلئے گئے اور ہلاک کر دئیے گئے۔ وقوم تبع : مضاف مضاف الیہ۔ اور تبع کی قوم نے بھی پیغمبروں کو جھٹلایا۔ تبع یمن کے بادشاہوں میں سے ایک خمیری بادشاہ تھا۔ یہ قوم آتش پرست تھی یہ تبع بعد میں اسلام لایا اور اپنی قوم کو بھی اسلام کی دعوت دی۔ کل۔ یعنی ہر ایک شخص نے یا ہر امت نے باب نے پیغمبروں کی تکذیب کی۔ چونکہ ایک پیغمبر کی تکذیب تمام پیغمبروں کی تکذیب ہے اس لئے کذب الرسل بصیغہ جمع فرمایا ہے یا یوں کہا جائے کہ ان میں سے کوئی بھی اللہ کی توحید پر ایمان نہیں رکھا تھا۔ سب کے سب توحید ہی کے منکر ہے اس لئے پیغمبروں کے منکر بدرجہ اولیٰ تھے۔ (نیز ملاحظہ ہو 50:8 متذکرۃ الصدر۔ کذب الرسل : کذب ماضی واحد مذکر غائب۔ تکذیب (تفعیل) مصدر جھٹلانا الرسل رسول کی جمع ہے۔ فحق : ف ترتیب کا۔ حق ماضی کا صیغہ واحد مذکر غائب ۔ حق (باب ضرب، نصر) مصدر ثابت ہونا۔ واجب ہونا۔ محقق ہونا۔ وعید : وعیدی۔ میرا عذاب ۔ میرا وعدہ عذاب۔ جس میں ان تکذیب کرنے والے کافروں کو مبتلا کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ فحق وعید۔ پس پورا ہوگیا۔ میرا عذاب کا وعدہ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 7 ہر ایک نے اگرچہ اپنے اپنے پیغمبر کو جھٹلایا لیکن چونکہ ایک پیغمبر کو جھٹلانا سبھی پیغمبروں کو جھٹلانا ہے اسی لئے ہر ایک نے گویا بھی پیغمبروں کو جھٹلایا۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ یعنی ان سب پر عذاب نازل ہوا، اسی طرح ان مکذبین پر عذاب آئے گا، خواہ دنیا میں بھی یا صرف آخرت میں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

کل کذب الرسل فحق وعید (٥٠ : ١٤) ” ہر ایک نے رسولوں کو جھٹلایا آخر کار میری وعید ان چسپاں ہوگئی “ ۔ اس سے یہ اشارہ مقصود ہے کہ رسول بھی ایک ہیں۔ ان کے منصب کی نوعیت بھی ایک ہے اور ان کا مقصد بھی ایک رہا ہے حالانکہ سب کے سب نے رسولوں کو نہ جھٹلایا تھا۔ بلکہ ایک رسول کو جھٹلایا لیکن ایک رسول کو جھٹلانا بھی دراصل سب کو جھٹلانا ہے۔ رسول سب بھائی ہیں اور رسالت ایک ہی شجرۂ نسب ہے جس کی جڑیں دور تک تاریخ میں چلی گئی ہیں اور اس شجرے کی ہر شاخ دراصل اس کی خصوصیات کی تلخیص ہے۔ اور اس کی ایک صورت ہے۔ ۔۔ جس نے ایک شاخ کو چھوڑ دیا اس نے پورے سلسلے کو پکڑ لیا۔ فحق وعید (٥٠ : ١٤) ” پس ان پر میری وعید چسپاں ہوگئی ” ۔ جس کی تفصیلات سامعین کو معلوم ہیں۔ ان اقوام پر عذاب الٰہی تکذیب کی وجہ سے آیا اور تکذیب انہوں نے قیامت کی ، کی تھی ۔ تو اللہ کا سوال۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(14) اور بن کے رہنے والے اور تبع کی قوم تکذیب کا شیوہ اختیار کرچکے ہیں ان میں سے ہر قوم نے اپنے اپنے پیغمبر کو جھٹلایا اور ہر ایک نے رسولوں کی تکذیب کی سو میرے عذاب کا وعدہ ان پر ثابت اور سچا ہوکر رہا۔ اس تہدید میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی گئی کہ جس طرح سابقہ رسولوں کی تکذیب کرنے والوں کا انجام ہوا اور ان پر میرے وعید ثابت ہوئی۔ اسی طرح آپ کی تکذیب کرنے والوں کا بھی ایسا ہی انجام ہوگا، کنویں والے وہی ہیں جن کا ذکر سورة فرقان میں گزرچکا ہے۔ کہتے ہیں عدن کی نواحی میں کوئی چھوٹی سی ریاست تھی انہوں نے اپنے بادشاہ کی پرستش شروع کردی تھی اس زمانے کے نبی نے ان کو سمجھایا لیکن وہ نہ مانے آخر وہ کنواں بھی زمین دھنس گیا اور ریاست کے لوگ بھی زمین میں دھنسا دیئے گئے نوح کی قوم اور عاد اور ثمود و مشہور قومیں ہیں فرعون بھی معروف ہے بن والے مدین والوں کو فرمایا۔ یعنی حضرت شعیب کی قوم لوط کی قوم یعنی سدوم کے رہنے والے۔ ہرچند کہ حضرت لوط مہاجر تھے اور حضرت ابراہیم کے ساتھ عراق سے شام چلے گئے تھے لیکن شاید وہاں جاکر نکاح کرلیا تھا اس لئے سسرالی رشتہ قائم ہوجانے کی وجہ سے اخوان لوط فرمایا۔ تبع کی قوم وہی جس کا ذکر سورة دخان میں گزرا ہے یعنی تبع حمیری جس کا نام اسعد اور کنیت ابوبکر ہے ایک رسول کی تکذیب کرنا ایسا ہی ہے جیسے سب رسولوں کی تکذیب اس لئے رسولوں کو جمع فرمایا کیونکہ ان قوموں نے اپنے اپنے زمانے کے پیغمبروں کی تکذیب کی تھی اس لئے ارشاد ہوا۔ کل کذب الرسل فحق وعید۔