Surat Qaaf

Surah: 50

Verse: 24

سورة ق

اَلۡقِیَا فِیۡ جَہَنَّمَ کُلَّ کَفَّارٍ عَنِیۡدٍ ﴿ۙ۲۴﴾

[ Allah will say], "Throw into Hell every obstinate disbeliever,

ڈال دو جہنم میں ہر کافر سرکش کو ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Both of you throw into Hell every stubborn disbeliever. It appears that Allah will say these words to the Sa'iq and Shahid angels; the Sa'iq drove him to the grounds where Reckoning is held and the Shahid testified. Allah the Exalted will order them to throw him in the fire of Jahannam, and worse it is as a destination, أَلْقِيَا فِي جَهَنَّمَ كُلَّ كَفَّارٍ عَنِيدٍ Both of you throw into Hell every stubborn disbeliever. meaning, whose disbelief and denial of truth was horrendous, who used to stubbornly reject the truth, knowingly contradicting it with falsehood,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٨] یعنی وہ خود ہی کفر کے جرم کا مرتکب نہ تھا۔ بلکہ رسولوں کی تعلیم سے عناد بھی رکھتا تھا۔ اور اسلام کی راہ روکنے کے لئے معاندانہ سرگرمیوں میں بھی مصروف رہتا تھا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

القیافی جھنم کل کفار عبید…: اللہ تعالیٰ ان دونوں فرشتوں سے فرمائے گا کہ ہر ایسے شخص کو جہنم میں پھینک دو جو سخت نا شکرا ، بہت عناد رکھنے والا، خیر کو بہت روکنے والا، حد سے گزرنے والا اور شک کرنے والا ہے جس نے اللہ کے ساتھ اور معبود بنا رکھا تھا، سو اسے شدید عذاب میں پھینک دو ۔ اس میں اسے جہنم میں پھینکنے کے فیصلے کے ساتھ اس فیصلے کی وجہ اور اس کے دلائل بھی بیان فرما دیئے ہیں اور یہ بھی کہ صرف ایک کو نہیں بلکہ ان جرائم کے مرتکب تمام مجرموں کو جہنم میں پھینک دو ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

أَلْقِيَا فِي جَهَنَّمَ كُلَّ كَفَّارٍ‌ عَنِيدٍ (Cast, both of you [ 0 angels,] into Jahannam every stubborn disbeliever.... 50:24]. The verb alqiya is grammatically dual in number, that is, addressed to two persons. It appears that Allah will say these words to the Sa&iq and Shahid angels; Allah will order them to throw him in the fire of Hell. Some other scholars explain it differently (Ibn Kathir).

(آیت) اَلْقِيَا فِيْ جَهَنَّمَ كُلَّ كَفَّارٍ عَنِيْدٍ ، لفظ القیا تثنیہ کا صیغہ ہے جو دو شخصوں کے لئے بولا جاتا ہے اس آیت میں جن دو فرشتوں کو خطاب ہے وہ کون ہیں، ظاہر یہ ہے کہ یہی دو فرشتے جن کو پہلے سائق اور شہید کہا گیا ہے اس کے مخاطب ہیں، بعض حضرات مفسرین نے دوسری توجیہات بھی لکھی ہیں ( از ابن کثیر)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَلْقِيَا فِيْ جَہَنَّمَ كُلَّ كَفَّارٍ عَنِيْدٍ۝ ٢٤ ۙ لقی( افعال) والإِلْقَاءُ : طرح الشیء حيث تلقاه، أي : تراه، ثم صار في التّعارف اسما لكلّ طرح . قال : فَكَذلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُ [ طه/ 87] ، قالُوا يا مُوسی إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ [ الأعراف/ 115] ، ( ل ق ی ) لقیہ ( س) الالقآء ( افعال) کے معنی کسی چیز کو اس طرح ڈال دیناکے ہیں کہ وہ دوسرے کو سمانے نظر آئے پھر عرف میں مطلق کس چیز کو پھینک دینے پر القاء کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَكَذلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُ [ طه/ 87] اور اسی طرح سامری نے ڈال دیا ۔ قالُوا يا مُوسی إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ [ الأعراف/ 115] تو جادو گروں نے کہا کہ موسیٰ یا تو تم جادو کی چیز ڈالو یا ہم ڈالتے ہیں ۔ موسیٰ نے کہا تم ہی ڈالو۔ جهنم جَهَنَّم اسم لنار اللہ الموقدة، قيل : وأصلها فارسيّ معرّب جهنام وقال أبو مسلم : كهنّام ( ج ھ ن م ) جھنم ۔ دوزخ کا نام ہے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ اصل فارسی لفظ جنام سے معرب ہی واللہ علم ۔ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ عَنِيدُ : المعجب بما عنده، والمُعَانِدُ : المباهي بما عنده . قال : كُلَّ كَفَّارٍ عَنِيدٍ [ ق/ 24] ، إِنَّهُ كانَ لِآياتِنا عَنِيداً [ المدثر/ 16] ، والْعَنُودُ قيل مثله، قال : لکن بينهما فرق، لأنّ العَنِيدَ الذي يُعَانِدُ ويخالف، والْعَنُودُ الذي يَعْنُدُ عن القصد، قال : ويقال : بعیر عَنُودٌ ولا يقال عَنِيدٌ. وأما العُنَّدُ فجمعُ عَانِدٍ ، وجمع الْعَنُودِ : عَنَدَةٌ ، وجمعُ الْعَنِيدِ : عِنَدٌ. وقال بعضهم : العُنُودُ : هو العدول عن الطریق لکن العَنُودُ خصّ بالعادل عن الطریق المحسوس، والعَنِيدُ بالعادل عن الطریق في الحکم، وعَنَدَ عن الطریق : عدل عنه، وقیل : عَانَدَ لَازَمَ ، وعَانَدَ : فارَقَ ، وکلاهما من عَنَدَ لکن باعتبارین مختلفین کقولهم : البین، في الوصل والهجر باعتبارین مختلفین . ( ع ن د ) العنید کے معنی المعجب بما عندہ کے معنی جو کچھ اس کے پا س ہے اس پر اترانے والا ۔ اور معاند اسے کہتے ہیں جسے جو کچھ اس کے پا س ہے اس پر فخر ہو ۔ قرآن پاک میں ہے : كُلَّ كَفَّارٍ عَنِيدٍ [ ق/ 24] ہر سرکش ناشکرے کو ۔ إِنَّهُ كانَ لِآياتِنا عَنِيداً [ المدثر/ 16] یہ ہماری آیتوں کا دشمن رہا ہے ۔ بعض کے نزدیک العنود کے بھی یہی معنی ہیں صرف ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ عنید اسے کہتے ہیں جود حق سے ) عناد رکھے اور اس کی ) مخالفت کرے اور عنود وہ ہے جو صحیح راہ سے ہٹ جائے اس لئے بعیر عنود ( وہ اونٹ جو صحیح راہ سے ہٹ کر چلے ) تو بولتے ہیں مگر عنید نہیں کہتے اور عند عاند کی جمع ہے اور عنود کی جمع عندۃ اور عنید کی جمع عند آتی ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ العنود کے معنی راستہ سے ایک جانب مائل ہوجانے کے ہیں ۔ لیکن عنود خاص کر اس شخص کو کہا جاتا ہے جو حسی راستہ سے ہٹ جائے اور عنید وہ ہے جو حکمی راہ سے ہٹا ہوا ہو عند عن الطریق اس نے راستہ سے عدول کیا ۔ بعض نے کہا ہے کہ عاند کے معنی کسی کو لازم پکڑتابھی آتے ہیں اور اس سے الگ ہونا بھی اور یہ دونوں دو مختلف اعتبار سے مشتق ہیں جیسا کہ البین کا لفظ دو مختلف اعتباروں سے وصل کے معنی بھی دیتا ہے اور جب جدائی کے بھی ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٤۔ ٢٦) حکم الہی ہوگا ہر ایسے شخص مثلا ولید بن مغیرہ مخزومی کو دوزخ میں ڈال دو جو کہ کفر کرنے والا اور ایمان سے اعراض کرنے والا ہو اور اپنی اولاد در اولاد اور رشتہ داروں کو ایمان لانے سے روکتا ہو دھوکا باز اور ظالم ہو شبہ پیدا کرنے والا ہو اللہ تعالیٰ پر بہتان لگانے والا ہو جس نے معاذ اللہ اللہ کے لیے اولاد اور شریک تجویز کیا ہو پھر اس کاتب اعمال کو حکم ہوگا کہ ایسے شخص کو سخت عذاب میں ڈال دو ۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٤{ اَلْقِیَا فِیْ جَہَنَّمَ کُلَّ کَفَّارٍ عَنِیْدٍ ۔ } ” (اللہ تعالیٰ فرمائے گا) جھونک دو جہنم میں ہر ناشکرے سرکش کو۔ “ یہ حکم گویا اس انسان اور اس کے ساتھی شیطان دونوں کے لیے ہوگا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

28 As the context shows this command will be given to the two angels who had taken the culprit into their custody as soon as he had risen from the grave, and then brought him before the Court. " 29 The word kaffar" as used in the Text means an ungrateful person as well as a denier of the truth.

سورة قٓ حاشیہ نمبر :28 اصل الفاظ میں اَلْقِیَا فِیْ جَھَنَّمَ ، پھینک دو جہنم میں تم دونوں ۔ سلسلہ کلام خود بتا رہا ہے کہ یہ حکم ان دونوں فرشتوں کو دیا جائے گا جنہوں نے مرقد سے اٹھتے ہی مجرم کو گرفتار کیا تھا اور لا کر عدالت میں حاضر کر دیا تھا ۔ سورة قٓ حاشیہ نمبر :29 اصل میں لفظ کَفَّار استعمال ہوا ہے جس کے دو معنی ہیں ۔ ایک ، سخت ناشکرا ۔ دوسرے سخت منکر حق ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

9: یعنی ان دونوں فرشتوں سے کہا جائے گا جو اس کے ساتھ آئے تھے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(50:24) القیانی جھنم کل کفار عنید : ای قیل القیافی ۔۔ الخ۔ القیا فعل امر حاضر تثنیہ مذکر۔ القاء (افعال) مصدر۔ تم دونوں ڈال دو ۔ کل مضاف کفار عنید موصوف و صفت مل کر مضاف الیہ۔ مضاف مضاف الیہ مل کر مفعول القیا کا۔ کفار مبالغہ کا صیغہ، بڑا کافر۔ عنید عناد رکھنے والا ۔ مخالف۔ ضدی۔ علامہ ناصر بن عبد السید مطرزی نے لکھے ہیں کہ : عنید اس شخص کو کہتے ہیں جو حق کو جانتے پہچانتے ٹکرائے۔ یہ عنود سے ہے جس کے معنی راستہ سے ادھر ادھر ہٹ جانے کے ہیں بروزن فعیل بمعنی فاعل صفت مشبہ کا صیغہ ہے اس کی جمع عند ہے۔ آیت کا ترجمہ ہوگا :۔ (اور حکم ہوگا) ہر کافر ضد رکھنے والے کو تم دونوں جہنم میں ڈال دو ۔ القاء امر کا صیغہ تثنیہ مذکر حاضر کے بارے میں مختلف اقوال ہیں :۔ (1) خلیل اور اخفش کہتے ہیں کہ فصحاء عرب واحد کے لئے بھی بسا اوقات تثنیہ کا صیغہ استعمال کرلیتے ہیں جس طرح ایک دوست کے لئے خلیلی (تثنیہ) عام مروج ہے۔ امرؤ القیس اپنے ایک رفیق سفر کو مخاطب کرکے کہتا ہے :۔ قفانبک من ذکر حبیب ومنزل اے میرے دوست ذرا ٹھہرو تاکہ ہم اپنے محبوب اور اس کی منزل کو یاد کرکے آہستہ بنالیں۔ یہاں قف کی بجائے قفا تثنیہ کا صیغہ استعمال ہوا ہے۔ (2) بعض نے کہا ہے کہ القیا تثنیہ کا صیغہ نہیں بلکہ اصل میں امر تاکید بانون خفیفہ تھا (القین) اب یہ نون بدل کر الف ہوگیا۔ (3) یہ خطاب صرف اس قرین سے نہیں جس نے آیت سابقہ میں ھذا ما لدی عتید کہا تھا بلکہ یہ حکم ان دونوں فرشتوں کے لئے ہے (سائق وشھید) جو مجرم کو عدالت میں لاکر پیش کریں گے لہٰذا تثنیہ کا صیغہ قاعدہ کے مطابق ہے۔ یا یہ فرشتے جہنم کے داروغہ فرشتوں میں سے کوئی دو ہیں جن کو یہ حکم دیا جائے گا۔ (4) مخاطب حقیقت میں کوئی ایک فرشتہ ہے لیکن بصیغہ تثنیہ ذکر کرنے سے تثنیہ فعل مراد ہے اور تکرار فعل برائے تاکید ہوتی ہے لہٰذا تکرار واحد یعنی مخاطب واحد کو بصیغہ تثنیہ ذکر کرنے سے بھی تاکید فعل ہوگئی۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 8 یہ حکم ہے جو اس روز اللہ تعالیٰ ہانکنے والے اور گواہی دینے والے فرشتے کو دے گا۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : جو شخص تابعدار نہ بنا اور اس نے اللہ تعالیٰ کے فرامین اور اس کی قدرت کی نشانیوں کو بصیرت کی آنکھ سے نہ دیکھا اور اپنے اعمال کی درستگی نہ کی اسے جہنم میں دھکیل دیا جائے گا۔ قیامت کے دن رب ذوالجلال کے حضور ہر شخص کو اس کے اعمال نامے کے ساتھ پیش کیا جائے گا۔ مجرم اپنے اعمال نامے کا انکار کریں گے اس پر گواہ پیش کیے جائیں گے۔ یہاں تک کہ انبیائے کرام (علیہ السلام) بھی اپنی امتوں کے بارے میں گواہی دیں گے لیکن مجرم نہ صرف اپنے اعمال نامے کا انکار کریں گے بلکہ انبیائے کرام (علیہ السلام) کی گواہی کو بھی مسترد کردیں گے۔ جس پر حکم ہوگا کہ ان کے مونہوں پر مہریں ثبت کردی جائیں۔ اس کے بعد ان کے اعضاء کو بولنے کا حکم ہوگا۔ (یٰس : ٦٥) مجرموں کے اعضاء اللہ کے حضور ان کے خلاف گو اہی دیں گے۔ (حمٓ السجدۃ : ٢٠ تا ٢٢) تب حکم ہوگا کہ ہر ناشکرے اور نافرمان کو جہنم میں پھینک دیاجائے۔ جو مال میں بخل کرنے والا، حد سے بڑھنے والا اور قیامت کے بارے میں شک میں پڑنے والا تھا۔ اس نے اللہ کے ساتھ اور بھی معبود بنا لیے تھے۔ ان جرائم کی وجہ سے انہیں شدید عذاب میں ڈال دیا جائے گا۔ اس مقام پر جہنمیوں کے چھ جرائم کا ذکر کیا گیا ہے۔ ١۔ کَفَّار : اس شخص کو کہتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی ناشکری کرے۔ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سب سے بڑی نعمت دین کی سمجھ ہے۔ دین کی بنیاد توحید پر قائم ہے۔ جو شخص صحیح معنوں میں توحید کو تسلیم نہیں کرتا وہ پرلے درجے کا ناشکرا ہے، اس کی سزا جہنم ہوگی۔ ٢۔ عَنِیْد ” نافرمان “: اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کے احکام کا انکار کرنے والا شخص نافرمان ہوتا ہے۔ ہر نافرمان کو جہنم میں داخل کیا جائے گا۔ ٣۔ مَنَّاعٍ لِّلْخَیْرِ : خیر سے مراد مال ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مال داروں پر غریبوں کے کچھ حقوق رکھے ہیں، جو مال دار غریبوں کا حق بالخصوص زکوٰۃ ادا نہیں کرتا وہ بھی جہنم میں داخل کیا جائے گا۔ ٤۔ مُعْتَدٍ : ” مُعْتَدٍ “ کا معنٰی ہے ظلم کرنے والا، حق چھپانے والا اور حد سے بڑھ جانے والا۔ (المنجد) اللہ تعالیٰ نے انسان کو زندگی گزارنے کے لیے کچھ حدود وقیود کا پابند کیا ہے۔ جو شخص ان حدود وقیود کی پرواہ نہیں کرتا وہ اللہ تعالیٰ کی حدود توڑنے اور پھلانگنے والا ہے۔ جو بھی اللہ تعالیٰ کی حدود توڑے گا وہ جہنم میں داخل کیا جائے گا۔ ظلم سے مراد شرک بھی ہے اور عام زیادتی بھی۔ ٥۔ مُرِیْبٍ : ” مُرِیْبٍ “ کا معنٰی ہے شک کرنے والا، بدگمانی کرنے والا، تہمت لگانے والا، شک میں ڈالنے والا۔ ( المنجد) جو دین کے بارے میں شک کرنے والا ہوگا اسے بھی جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ ٦۔ اللہ کے ساتھ شرک کرنا : جو شخص اللہ کی ذات، اس کی صفات اور اس کے حکم میں دوسروں کو شریک کرتا ہے وہ مشرک ہوتا ہے۔ اگر شرک کرنے والا توبہ کیے بغیر مرجائے تو وہ ہمیشہ ہمیش کے لیے شدید ترین عذاب میں ڈالا جائے گا۔ مسائل ١۔ جس شخص میں مندرجہ بالا جرائم ہوں گے وہ جہنم کے شدید ترین عذاب میں مبتلا کیا جائے گا۔ تفسیر بالقرآن جہنم میں داخل ہونے والوں کے بڑے بڑے جرائم : ١۔ وہ لوگ جو ہماری آیات کے ساتھ کفر کرتے ہیں اور ان کی تکذیب کرتے ہیں وہ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔ (البقرۃ : ٣٩) ٢۔ تکبر کرنے والے جہنم میں جائیں گے۔ (المؤمن : ٧٦) ٣۔ منافق ہمیشہ جہنم میں رہیں گے اور ان پر اللہ تعالیٰ کی لعنت و پھٹکار پڑتی رہے گی۔ (التوبہ : ٦٨) ٤۔ جو شخص اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرتا ہے وہ دور کی گمراہی میں مبتلا ہوگیا۔ (النساء : ١١٦) ٥۔ اللہ کے ساتھ کوئی دوسرا لٰہ نہ بنانا وگرنہ دھتکار کر جہنم میں داخل کردیا جائے گا۔ (بنی اسرائیل : ٣٩)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

القیا فی جھنم کل کفار عنید (٥٠ : ٢٤) مناع اللخیر معتد مریب (٥٠ : ٢٥) الذی جعل ۔۔۔۔ العذاب الشدید ۔ (٥٠ : ٢٦) ” حکم دیا گیا ، پھینک دو جہنم میں ہر کٹے کافر کو جو حق سے عناد رکھتا تھا ۔ خیر کو روکنے والا اور حد سے تجاوز کرنے والا ، شک میں پڑا ہوا تھا اور اللہ کے سوا کسی دوسرے کو خدا بنائے بیٹھا تھا ، ڈال دو اسے سخت عذاب میں “۔ ان صفات کے ذکر سے ، اس مشکل وقت کی مشکلات میں گرفتار لوگوں کے خوف و ہراس میں اور اضافہ ہوجاتا ہے۔ کیونکہ پہلے سے مشکل میں گرفتار مجرموں پر اللہ جبار وقہار کے غضب کا ڈر پیدا ہوجاتا ہے۔ کیونکہ یہ تمام صفات اس بات کی مستحق ہیں کہ مجرم کو زیادہ سے زیادہ سزا دی جائے۔ سخت کافر ، عناد رکھنے والا ہر بھلائی سے روکنے والا ، ہر معاملے میں حد سے گزرنے والا اور غایب درجے کا شکی جس نے اللہ کے ساتھ دوسرے الٰہ بنا رکھے ہیں اور ان صفات کو گنوانے کے بعد پھر تاکید امر فالقیہ فی العذاب الشدید (٥٠ : ٢٦) ” ڈال دو اسے سخت عذاب میں “ یعنی جہنم کے عذاب میں جو شدید ہی ہوگا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

ہر ضدی کافر کو دوزخ میں ڈال دو : مزید ارشاد فرمایا ﴿ اَلْقِيَا فِيْ جَهَنَّمَ كُلَّ كَفَّارٍ عَنِيْدٍۙ٠٠٢٤ مَّنَّاعٍ لِّلْخَيْرِ مُعْتَدٍ مُّرِيْبِۙ٠٠٢٥ ا۟لَّذِيْ جَعَلَ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَ ﴾ یعنی ہر کافر کو ضرور دوزخ میں ڈال دو جو حق کو قبول نہیں کرتا تھا خیر کو روکنے والا تھا (یعنی دوسرے لوگوں کو اسلام لانے سے روکتا تھا اور بعض حضرات نے فرمایا کہ اس سے مراد یہ ہے کہ زکوٰۃ نہیں دیتا تھا) حد سے بڑھ جانے والا تھا شک میں ڈالنے والا تھا اللہ تعالیٰ کی ذات کے بارے میں اور اس کے دین کے بارے میں اور قیامت واقع ہونے کے بارے میں لوگوں کو شک میں ڈالتا تھا اور مشرک بھی تھا۔ جس نے اللہ کے ساتھ دوسروں کو معبود اور شریک ٹھہرا رکھا تھا۔ ﴿ فَاَلْقِيٰهُ فِي الْعَذَاب الشَّدِيْدِ ٠٠٢٦﴾ (سو اسے ضرور ضرور سخت عذاب میں ڈال دو ) ۔ قال صاحب الروح : خطاب من اللہ تعالیٰ للسائق والشھید بناء علی انھما اثنان لا واحد جامع للوصفین او للملکین من خزنة النار، او لواحد علی ان الالف بدل من نون التوکید علی اجراء الوصل مجری الوقف واید بقرأة الحسن (القین) بنون التوکید الخفیفة، وقیل ان العرب کثیرا ما یرافق الرجل منھم اثنین فکثر علی السنتھم ان یقولوا خلیلی وصاحبی قفا واسعدا حتی خاطبوا الواحد خطاب الاثنین، وما فی الاٰیة محمول علی ذلک کما حکی عن الفراء او علی تنزیل تثنیة الفاعل منزلة تثنیة الفعل بان یکون اصلہ الق الق ثم حذف الفعل الثانی وابقی ضمیرہ مع الفعل الاول فثنی الضمیر للدلالة علی ما ذكر۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(24) فرشتوں کو حکم ہوگا تم دونوں ہر ایسے شخص کو جہنم میں جھونک دو اور ڈال دو جو ناسپاس سرکش ہو۔