Surat Qaaf

Surah: 50

Verse: 28

سورة ق

قَالَ لَا تَخۡتَصِمُوۡا لَدَیَّ وَ قَدۡ قَدَّمۡتُ اِلَیۡکُمۡ بِالۡوَعِیۡدِ ﴿۲۸﴾

[ Allah ] will say, "Do not dispute before Me, while I had already presented to you the warning.

حق تعالٰی فرمائے گا بس میرے سامنے جھگڑے کی بات مت کرو میں تو پہلے ہی تمہاری طرف وعید ( وعدۂ عذاب ) بھیج چکا تھا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

قَالَ لاَا تَخْتَصِمُوا لَدَيَّ ... ... وَقَدْ قَدَّمْتُ إِلَيْكُم بِالْوَعِيدِ (Allah) will say: "Dispute not in front of Me." The Lord, the Exalted and Most Honored will say this to the man and his devil companion, who will be disputing before Him. The man will say, "O, Lord! This devil has misguided me away from the Remembrance after it came to me," while the devil will declare, رَبَّنَا مَا أَطْغَيْتُهُ وَلَكِن كَانَ فِي ضَلَلٍ بَعِيدٍ (Our Lord! I did not push him to transgression, but he was himself in error far astray). from the path of truth. The Lord, the Exalted and Most Honored will say to them, لاَا تَخْتَصِمُوا لَدَيَّ (Dispute not in front of Me), or `before Me,' وَقَدْ قَدَّمْتُ إِلَيْكُم بِالْوَعِيدِ (I had already in advance sent you the threat). `I have given you sufficient proof by the words of the Messengers, and I have sent down the Divine Books; the evidences, signs and proofs have thus been established against you,'

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

28۔ 1 یعنی اللہ تعالیٰ کافروں اور ان کے ہم نشین شیطانوں کو کہے گا کہ یہاں موقف حساب یا عدالت انصاف میں لڑنے جھگڑنے کی ضرورت نہیں نہ اس کا کوئی فائدہ ہی ہے، میں نے پہلے ہی رسولوں اور کتابوں کے ذریعے سے وعیدوں سے تم کو آگاہ کردیا تھا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(قال لاتختصموا لدی و قد قدمت الیکم بالوعید : اللہ تعالیٰ ان کا جھگڑا سن کر فرمائے گا، اب یہاں میرے پاس مت جھگڑو، اس جھگڑے سے تمہیں کچھ حاصل نہیں ہوگا، کیونکہ میں نے تو تمہیں پہلے ہی رسول بھیج کر نافرمانی کی سزا سے آگاہ کردیا تھا مگر تم نے پروا نہیں کی، اب اپنے کفر و عناد کی سزا بھگتو ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

لَا تَخْتَصِمُوا لَدَيَّ وَقَدْ قَدَّمْتُ إِلَيْكُم بِالْوَعِيدِ (|"Do not quarrel before Me, while I had sent to you My threat well in advance.... 50:28) It means: |"I have given you sufficient proof by the words of the past Messengers, and I have sent down the Divine Books; the evidences, signs and proofs have thus been established against you; your flimsy excuses, arguments and disputes will not work today.&

(آیت) لَا تَخْتَصِمُوْا لَدَيَّ وَقَدْ قَدَّمْتُ اِلَيْكُمْ بالْوَعِيْدِ ،” یعنی میرے سامنے جھگڑا نہ کرو، میں تو پہلے ہی انبیاء (علیہم السلام) کے ذریعہ تمہارے فضول عذر کا جواب دے چکا ہوں اور آسمانی کتابوں کے ذریعہ دلائل واضح کرچکا ہوں، یہ فضول عذر تراشی اور جھگڑا آج نہ چلے گا “۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَالَ لَا تَخْتَصِمُوْا لَدَيَّ وَقَدْ قَدَّمْتُ اِلَيْكُمْ بِالْوَعِيْدِ۝ ٢٨ لا «لَا» يستعمل للعدم المحض . نحو : زيد لا عالم، وذلک يدلّ علی كونه جاهلا، وذلک يكون للنّفي، ويستعمل في الأزمنة الثّلاثة، ومع الاسم والفعل غير أنه إذا نفي به الماضي، فإمّا أن لا يؤتی بعده بالفعل، نحو أن يقال لك : هل خرجت ؟ فتقول : لَا، وتقدیره : لا خرجت . ويكون قلّما يذكر بعده الفعل الماضي إلا إذا فصل بينهما بشیء . نحو : لا رجلا ضربت ولا امرأة، أو يكون عطفا . نحو : لا خرجت ولَا رکبت، أو عند تكريره . نحو : فَلا صَدَّقَ وَلا صَلَّى [ القیامة/ 31] أو عند الدّعاء . نحو قولهم : لا کان، ولا أفلح، ونحو ذلك . فممّا نفي به المستقبل قوله : لا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقالُ ذَرَّةٍ [ سبأ/ 3] وفي أخری: وَما يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا فِي السَّماءِ [يونس/ 61] وقد يجيء «لَا» داخلا علی کلام مثبت، ويكون هو نافیا لکلام محذوف وقد حمل علی ذلک قوله : لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ [ القیامة/ 1] ، فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ [ المعارج/ 40] ، فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة/ 75] ، فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ [ النساء/ 65] لا وأبيك ابنة العامريّ «1» وقد حمل علی ذلک قول عمر رضي اللہ عنه۔ وقد أفطر يوما في رمضان فظنّ أنّ الشمس قد غربت ثم طلعت۔: لا، نقضيه ما تجانفنا لإثم فيه، وذلک أنّ قائلا قال له قد أثمنا فقال لا، نقضيه . فقوله : «لَا» ردّ لکلامه قد أثمنا، ثم استأنف فقال : نقضيه «2» . وقد يكون لَا للنّهي نحو : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ [ الحجرات/ 11] ، وَلا تَنابَزُوا بِالْأَلْقابِ [ الحجرات/ 11] ، وعلی هذا النّحو : يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف/ 27] ، وعلی ذلك : لا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمانُ وَجُنُودُهُ [ النمل/ 18] ، وقوله : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَ بَنِي إِسْرائِيلَ لا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ [ البقرة/ 83] فنفي قيل تقدیره : إنهم لا يعبدون، وعلی هذا : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَكُمْ لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة/ 84] وقوله : ما لَكُمْ لا تقاتلُونَ [ النساء/ 75] يصحّ أن يكون «لا تقاتلون» في موضع الحال «3» : ما لکم غير مقاتلین . ويجعل «لَا» مبنيّا مع النّكرة بعده فيقصد به النّفي . نحو : فَلا رَفَثَ وَلا فُسُوقَ [ البقرة/ 197] ، [ وقد يكرّر الکلام في المتضادّين ويراد إثبات الأمر فيهما جمیعا . نحو أن يقال : ليس زيد بمقیم ولا ظاعن . أي : يكون تارة كذا وتارة كذا، وقد يقال ذلک ويراد إثبات حالة بينهما . نحو أن يقال : ليس بأبيض ولا أسود ] «4» ، وإنما يراد إثبات حالة أخری له، وقوله : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور/ 35] . فقد قيل معناه : إنها شرقيّة وغربيّة «5» . وقیل معناه : مصونة عن الإفراط والتّفریط . وقد يذكر «لَا» ويراد به سلب المعنی دون إثبات شيء، ويقال له الاسم غير المحصّل . نحو : لا إنسان، إذا قصدت سلب الإنسانيّة، وعلی هذا قول العامّة : لا حدّ. أي : لا أحد . ( لا ) حرف ) لا ۔ یہ کبھی عدم محض کے لئے آتا ہے ۔ جیسے : زید عالم یعنی جاہل ہے اور کبھی نفی کے لئے ہوتا ہے ۔ اور اسم و فعل دونوں کے ساتھ ازمنہ ثلاثہ میں نفی کے معنی دیتا ہے لیکن جب زمانہ ماضی میں نفی کے لئے ہو تو یا تو اس کے بعد فعل کو ذکر ہی نہیں کیا جاتا مثلا اگر کوئی ھل خرجت کہے تو اس کے جواب میں صرف ، ، لا ، ، کہ دنیا کافی ہے یعنی لاخرجت اور اگر نفی فعل مذکور بھی ہوتا ہے تو شاذو نا در اور وہ بھی اس وقت (11) جب لا اور فعل کے درمیان کوئی فاعل آجائے ۔ جیسے لارجل ضربت ولا امرءۃ (2) جب اس پر دوسرے فعل کا عطف ہو جیسے ۔ لا خرجت ولاضربت اور یا (3) لا مکرر ہو جیسے ؛فَلا صَدَّقَ وَلا صَلَّى [ القیامة/ 31] اس ناعاقبت اندیش نے نہ تو کلام خدا کی نعمتوں کی تصدیق کی اور نہ نماز پڑھی ۔ اور یا (4) جملہ دعائیہ میں جیسے لا کان ( خدا کرے ایسا نہ ہو ) لا افلح ( وہ کامیاب نہ ہوا وغیرہ ۔ اور زمانہ مستقبل میں نفی کے متعلق فرمایا : لا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقالُ ذَرَّةٍ [ سبأ/ 3] ذرہ پھر چیز بھی اس سے پوشیدہ نہیں ۔ اور کبھی ، ، لا ، ، کلام مثبت پر داخل ہوتا ہے اور کلام محذوف کی نفی کے لئے آتا ہے ۔ جسیے فرمایا : وَما يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا فِي السَّماءِ [يونس/ 61] اور تمہارے پروردگار سے ذرہ برابر بھی کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے نہ زمین میں اور نہ آسمان میں ۔۔۔ اور مندرجہ ذیل آیات میں بھی بعض نے لا کو اسی معنی پر حمل کیا ہے ۔ لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ [ القیامة/ 1] ہم کو روز قیامت کی قسم ۔ فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ [ المعارج/ 40] میں مشرقوں اور مغربوں کے مالک کی قسم کھاتا ہوں ۔ فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ [ النساء/ 65] تمہارے پروردگار کی قسم یہ مومن نہیں ہوں گے ۔ فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة/ 75] ہمیں تاروں کی منزلوں کی قسم ۔ اور اسی معنی میں شاعر نے کہا ہے ( المتقارب ) (388) لاوابیک ابتہ العامری نہیں تیرے باپ کی قسم اسے عامری کی بیٹی ۔ اور مروی ہے (105) کہ ا یک مرتبہ حضرت عمر نے یہ سمجھ کر کہ سورج غروب ہوگیا ہے روزہ افطار کردیا اس کے بعد سورج نکل آیا تو آپ نے فرمایا : لانقضیہ ماتجالفنا الاثم فیہ اس میں بھی لا کلام محذوف کی نفی کے لئے ہے یعنی اس غلطی پر جب لوگوں نے کہا کہ آپ نے گناہ کا ارتکاب کیا تو اس کی نفی کے لئے انہوں نے لا فرمایا ۔ یعنی ہم گنہگار نہیں ہیں ۔ اس کے بعد تفضیہ سے از سر نو جملہ شروع کیا ہے ۔ اور کبھی یہ لا نہی کے لئے آتا ہے جیسے فرمایا : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ [ الحجرات/ 11] کوئی قوم کسی قوم سے تمسخرنہ کرے ولا تَنابَزُوا بِالْأَلْقابِ [ الحجرات/ 11] اور نہ ایک دوسرے کا برنام رکھو ۔ اور آیت ؛ يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف/ 27] اے بنی آدم دیکھنا کہیں شیطان تمہیں بہکادے ۔ اور نیزلا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمانُ وَجُنُودُهُ [ النمل/ 18] ایسانہ ہو ک سلمان اور اس کے لشکر تم کو کچل ڈالیں ۔۔۔ میں بھی لا نہی کے لئے ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَ بَنِي إِسْرائِيلَ لا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ [ البقرة/ 83] اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ خدا کے سو اکسی کی عبادت نہ کرنا ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ لانا فیہ یعنی خبر ہے یعنی وہ اللہ کے سو ا کسی کی عبادت نہیں کریں گے ۔ اسی طرح آیت کریمہ : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَكُمْ لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة/ 84] اور جب ہم نے تم سے عہد لیا ک تم آپس میں کشت وخون نہیں کروگے ۔ میں بھی لانفی پر محمول ہے اور فرمان باری تعالیٰ ما لَكُمْ لا تقاتلُونَ [ النساء/ 75] تمہیں کیا ہوا کہ خدا کی راہ میں نہیں لڑتے ۔ میں ہوسکتا ہے کہ لاتقاتلو ن موضع حال میں ہو ۔ اور معنی ی ہو مالکم غیر مقاتلین یعنی تمہیں کیا ہوا اور آنحالیکہ لڑنے والے نہیں ہو ۔ اور لا کے بعد اسم نکرہ آجائے تو وہ مبنی بر فتحہ ہوتا ہے اور لا لفی کے مبنی دیتا ہے جیسے فرمایا : نہ عورتوں سے اختلاط کرے نہ کوئی برا کام کرے ۔ فَلا رَفَثَ وَلا فُسُوقَ [ البقرة/ 197] اور کبھی دو متضادمعنوں کے درمیان لا مکرر آجاتا ہے ۔ اور دونوں کا اثبات مقصود ہوتا ہے جیسے : لا زید بمقیم ولا ظاعن نہ زید مقیم ہے اور نہ ہی مسافر یعن کبھی مقیم ہے اور کبھی سفر پر اور کبھی متضاد مقصود ہوتا ہے جیسے ۔ لیس ابیض ولااسود سے مراد ہے کہ وہ ان دونوں رنگوں کے درمیان ہے یا پھر یہ بھی ہوسکتا ہے ہے کہ ان دونوں کے علاوہ کوئی تیسرا رنگ ہو چناچہ آیت کریمہ : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور/ 35] یعنی زیتون کی نہ مشرق کی طرف منسوب اور نہ مغرب کیطر کے بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ وہ بیک وقت مشرقی بھی ہے اور غربی بھی ۔ اور بعض نے اس کا افراط اور تفریط سے محفوظ ہونا مراد لیا ہے ۔ کبھی لا محض سلب کے لئے استعمال ہوتا ہے اور اس سے ایک شے کی نفی کرکے دوسری کا اثبات مقصود نہیں ہوتا مثلا لا انسان کہہ کہ صرف انسانیت کی نفی کا قصد کیا جائے اور عامی محاورہ لاحد بھی اسی معنی پر محمول ہے ۔ خصم الخَصْمُ مصدر خَصَمْتُهُ ، أي : نازعته خَصْماً ، يقال : خاصمته وخَصَمْتُهُ مُخَاصَمَةً وخِصَاماً ، قال تعالی: وَهُوَ أَلَدُّ الْخِصامِ [ البقرة/ 204] ، وَهُوَ فِي الْخِصامِ غَيْرُ مُبِينٍ [ الزخرف/ 18] ، ثم سمّي المُخَاصِم خصما، واستعمل للواحد والجمع، وربّما ثنّي، وأصل المُخَاصَمَة : أن يتعلّق كلّ واحد بخصم الآخر، أي جانبه وأن يجذب کلّ واحد خصم الجوالق من جانب، وروي : ( نسیته في خصم فراشي) «1» والجمع خُصُوم وأخصام، وقوله : خَصْمانِ اخْتَصَمُوا [ الحج/ 19] ، أي : فریقان، ولذلک قال : اخْتَصَمُوا وقال : لا تَخْتَصِمُوا لَدَيَّ [ ق/ 28] ، وقال : وَهُمْ فِيها يَخْتَصِمُونَ [ الشعراء/ 96] ، والخَصِيمُ : الكثير المخاصمة، قال : هُوَ خَصِيمٌ مُبِينٌ [ النحل/ 4] ، والخَصِمُ : المختصّ بالخصومة، قال : بَلْ هُمْ قَوْمٌ خَصِمُونَ [ الزخرف/ 58] . ( خ ص م ) الخصم ۔ یہ خصمتہ کا مصدر ہے جس کے معنی جھگڑنے کے ہیں کہاجاتا ہے خصمتہ وخاصمتہ مخاصمۃ وخصاما کسی سے جھگڑا کر نا قرآن میں ہے :۔ وَهُوَ أَلَدُّ الْخِصامِ [ البقرة/ 204] اور وہ حالانکہ سخت جھگڑا لو ہے ۔ وَهُوَ فِي الْخِصامِ غَيْرُ مُبِينٍ [ الزخرف/ 18] اور جھگڑنے کے وقت بات نہ کرسکے ۔ اور مخاصم کو خصم کہا جات ہے ، اور خصم کا لفظ واحد جمع دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے مگر کبھی تثنیہ بھی آجاتا ہے۔ اصل میں خصم کے معنی کنارہ کے ہیں ۔ اور مخاصمت کے معنی ایک دوسرے سے کو کنارہ سے پکڑنے کے ہیں ۔ اور بوری کو کونے سے پکڑکر کھینچنے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے ۔ ایک حدیث میں ہے :۔ (114) نسی تھا فی خصم فراشی کہ میں اسے اپنے بسترہ کے کونے میں بھول آیا ہوں خصم کی جمع خصوم واخصام آتی ہے اور آیت کریمہ ؛۔ اخْتَصَمُوا[ الحج/ 19] دوفریق جھگڑتے ہیں ۔ میں خصما ن سے دو فریق مراد ہیں اسی لئے اختصموا آیا ہے ۔ الاختصام ( افتعال ) ایک دوسرے سے جھگڑنا ۔ قرآن میں ہے :۔ لا تَخْتَصِمُوا لَدَيَّ [ ق/ 28] ہمارے حضور رد کد نہ کرو ۔ وَهُمْ فِيها يَخْتَصِمُونَ [ الشعراء/ 96] ۔۔۔۔ وہ آپس میں جھگڑیں گے ۔ الخصیم ۔ جھگڑا لو بہت زیادہ جھگڑا کرنے والا جیسے فرمایا :۔ هُوَ خَصِيمٌ مُبِينٌ [ النحل/ 4] مگر وہ ( اس بارے میں ) علانیہ جھگڑنے لگا ۔ الخصم سخٹ جھگڑالو جس کا شیوہ ہ جھگڑنا ہو ۔ قرآن میں ہے :َ بَلْ هُمْ قَوْمٌ خَصِمُونَ [ الزخرف/ 58] حقیقت یہ ہے ۔ یہ لوگ ہیں ہی جھگڑا لو، لو ۔ لدی لَدَى يقارب لدن . قال تعالی: وَأَلْفَيا سَيِّدَها لَدَى الْبابِ [يوسف/ 25] . ( ل د ی ) لدی یہ تقریبا لدن کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَأَلْفَيا سَيِّدَها لَدَى الْبابِ [يوسف/ 25] اور دونوں کو دروازے کے پاس عورت کا خاوند مل گیا قدم وأكثر ما يستعمل القدیم باعتبار الزمان نحو : كَالْعُرْجُونِ الْقَدِيمِ [يس/ 39] ، وقوله : قَدَمَ صِدْقٍ عِنْدَ رَبِّهِمْ [يونس/ 2] ، أي : سابقة فضیلة، وهو اسم مصدر، وقَدَّمْتُ كذا، قال : أَأَشْفَقْتُمْ أَنْ تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيْ نَجْواكُمْ صَدَقاتٍ [ المجادلة/ 13] وقوله : لا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ [ الحجرات/ 1] ، قيل : معناه لا تَتَقَدَّمُوهُ. وتحقیقه : لا تسبقوه بالقول والحکم بل افعلوا ما يرسمه لکم كما يفعله العباد المکرمون، وهم الملائكة حيث قال : لا يَسْبِقُونَهُ بِالْقَوْلِ [ الأنبیاء/ 27] ( ق د م ) القدم عموما القدیم کا لفظ قدم باعتبار زمانہ یعنی پرانی چیز کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : كَالْعُرْجُونِ الْقَدِيمِ [يس/ 39] کھجور کی پرانی شاخ کی طرح ۔ اور آیت کریمہ : قَدَمَ صِدْقٍ عِنْدَ رَبِّهِمْ [يونس/ 2] ان کے پروردگار کے ہاں ان کا سچا درجہ ہے ۔ میں قدم صدق سے سابقہ فضیلت مراد ہے ۔ اور یہ اسم مصدر ہے اور قدمت کذا کے معنی پہلے کسی کوئی کام کرچکنے یا بھیجنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : أَأَشْفَقْتُمْ أَنْ تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيْ نَجْواكُمْ صَدَقاتٍ [ المجادلة/ 13] کیا تم اس سے کہ پیغمبر کے کان میں کوئی بات کہنے سے پہلے خیرات دیا کرو، ڈرگئے ہو اور آیت کریمہ : لا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ [ الحجرات/ 1] خدا اور اس کے رسول سے پہلے نہ بول اٹھا کرو ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ لاتقدموا بمعنی لاتتقدموا کے ہے اور اس کے اصل معنی یہ ہیں ۔ کہ قول وحکم میں پیغمبر سے سبقت نہ کرو بلکہ وہی کام کرو جس کا تمہیں حکم دیتے ہیں ۔ جیسا کہ اللہ کے مکرم بندوں یعنی فرشتوں کا کردار بیان کرتے ہوئے فرمایا : لا يَسْبِقُونَهُ بِالْقَوْلِ [ الأنبیاء/ 27] اس کے آگے بڑھ کر بول نہیں سکتے۔ وعید . ومن الإِيعَادِ قوله : وَلا تَقْعُدُوا بِكُلِّ صِراطٍ تُوعِدُونَ وَتَصُدُّونَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ [ الأعراف/ 86] ، وقال : ذلِكَ لِمَنْ خافَ مَقامِي وَخافَ وَعِيدِ [إبراهيم/ 14] ، فَذَكِّرْ بِالْقُرْآنِ مَنْ يَخافُ وَعِيدِ [ ق/ 45] ( وع د ) الوعید ( وعدہ کرنا ) کا لفظ خیر وشر یعنی اچھے اور برے ( وعدہ دونوں پر بولا جاتا ہے اور اس معنی میں استعمال ہوتا ہے مگر الوعید کا اور لفظ وعید کے متعلق ارشاد ہے ۔ ذلِكَ لِمَنْ خافَ مَقامِي وَخافَ وَعِيدِ [إبراهيم/ 14] یہ اس شخص کے لئے ہے جو قیامت کے روڈ میرے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرے اور میرے عذاب سے خوف کرے ۔ فَذَكِّرْ بِالْقُرْآنِ مَنْ يَخافُ وَعِيدِ [ ق/ 45] پس جو ہمارے عذاب کی وعید ست ڈرے اس کو قرآن سے نصیحت کرتے رہو ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٨۔ ٢٩) اللہ تعالیٰ ان سے فرمائے کہ میرے سامنے جھگڑے والی باتیں مت کرو میں تو پہلے ہی سے کتاب میں بذریعہ رسول تمہیں اس دن سے ڈرا چکا تھا میرے یہاں ان جھوٹی باتوں سے یہ وعید نہیں بدلی جائے گی یا یہ کہ آج کے دن میں اپنے بندوں پر جو فیصلہ کرچکا ہوں اس میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں کی جائے گی یا یہ کہ میرے سامنے بار بار بات نہیں ہوگی اور بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ہوں کہ بغیر جرم کے ان کی گرفت کروں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٨{ قَالَ لَا تَخْتَصِمُوْا لَدَیَّ وَقَدْ قَدَّمْتُ اِلَـیْکُمْ بِالْوَعِیْدِ ۔ } ” (اللہ فرمائے گا : ) اب میرے سامنے جھگڑ ١ مت کرو ‘ جبکہ میں پہلے ہی تمہاری طرف وعید بھیج چکا ہوں۔ “ کہ میں نے تو جن و انس پر ’ ’ انذار “ کے حوالے سے اتمامِ حجت کردیا تھا۔ سورة الاحقاف میں ان جنات کے بارے میں ہم پڑھ آئے ہیں جو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے قرآن سن کر ایمان لائے اور پھر داعیانِ حق بن کر اپنی قوم کو خبردار کرنے کے لیے نکل کھڑے ہوئے۔ گویا قرآن کا پیغام اور انذار جنات تک بھی پہنچا دیا گیا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

35 That is, "I had warned both of you as to what punishment will be given to the one who beguiles and what punishment will be suffered by him who is beguiled. In spite of this warning when you did not desist from committing your Respective crimes, there is no use quarreling now. Both the one who beguiled and the one who was beguiled have to be punished for the crimes committed by them. "

سورة قٓ حاشیہ نمبر :35 یعنی تم دونوں ہی کو میں نے متنبہ کر دیا تھا کہ تم میں سے جو بہکائے گا وہ کیا سزا پائے گا اور جو بہکے گا اسے کیا خمیازہ بھگتنا پڑے گا ۔ میری اس تنبیہ کے باوجود جب تم دونوں اپنے اپنے حصے کا جرم کرنے سے باز نہ آئے تو اب جھگڑا کرنے سے حاصل کیا ہے ۔ بہلنے والے کو بہکنے کی اور بہکانے والے کو بہکانے کی سزا تو اب لازماً ملنی ہی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(50:28) قال : ای قال اللّٰہ۔ اللہ کہے گا۔ لا تختصموا : فعل نہی جمع مذکر حاضر اختصام (افتعال) مصدر۔ تم جھگڑا مت کرو۔ لدی : لدی اسم ظرف مضاف ی ضمیر واحد متکلم مضاف الیہ ۔ میرے سامنے ، میرے روبرو۔ وقد قدمت الیکم بالوعید واؤ حالیہ اور جملہ حالیہ ہے اور جھگڑا کرنے کی ممانعت کی علت ہے۔ قد : ماضی سے پہلے تحقیق کا معنی دیتا ہے اور زمانہ کو ماضی قریب کردیتا ہے۔ قدمت ماضی کا صیغہ واحد متکلم تقدیم (تفعیل) مصدر۔ اگر تقدیم کے بعد باء آجائے تو وقئت سے پہلے کسی کام کا حکم دیے یا وقت سے پہلے اطلاع دینے کے معنی ہوتے ہیں تاکہ وقت آنے سے پہلے اطلاع پانے والا کام کرے۔ آیت ہذا میں بھی یہی مراد ہے کہ میں نے یوم جزاء آنے سے پہلے دنیا میں ہی پیغمبروں کی زبانی اور کتابوں میں خوف آگیں اطلاع بھیج دی تھی اور پہلے ہی حکم دیدیا تھا کہ تیاری کرلو۔ ترجمہ :۔ میں پہلے ہی تمہارے پاس وعید عذاب بھیج چکا تھا۔ اگر تقدیم کے بعد باء نہ آئے تو پہلے سے کرنے ، پہلے سے بھیجنے، پیش کرنے اور پہلے زمانے میں کر چکنے کے معنی ہوتے ہیں۔ مثلا یلیتنی قدمت لحیاتی (89:34) کاش میں نے اپنی زندگی (جاہ دانی) کے لئے کچھ پہلے ہی بھیج دیا ہوتا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہوگا ﴿ لَا تَخْتَصِمُوْا لَدَيَّ ﴾ (میرے سامنے جھگڑا نہ کرو) ﴿ وَ قَدْ قَدَّمْتُ اِلَيْكُمْ بالْوَعِيْدِ ٠٠٢٨﴾ (اور میں نے تو پہلے ہی ہر کافر اور کافر گر کے بارے میں وعید بھیج دی تھی کہ یہ سب دوزخ کے مستحق ہیں، ابلیس کو خطاب کر کے اعلان کردیا تھا ﴿لَاَمْلَـَٔنَّ جَهَنَّمَ مِنْكَ وَ مِمَّنْ تَبِعَكَ مِنْهُمْ اَجْمَعِيْنَ ٠٠٨٥﴾ (میں ضرور ضرور تجھ سے اور تیرا اتباع کرنے والے سے دوزخ کو بھر دوں گا) ۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

15:۔ ” قال لا تختصموا حکم ہوگا اب مت جھگڑو، اب جھگڑنے سے کوئی فائدہ نہیں، میں تم سب کیلئے دنیا ہی میں عذاب کا فیصلہ کرچکا ہوں۔ اس سے لاملئن جہنم منک وممن تبعک منہم اجمعین (سورۃ ص) مراد ہے (خازن، روح) ۔ اس لیے تم سب تابع و متبوع جہنم میں جاؤ گے۔ ” مایبدل القول لدی۔ الایۃ “ میرے یہاں فیصلے تبدیل نہیں ہوا کرتے۔ میں فیصلہ کرچکا ہوں کہ ابلیس کی پیروی کرنے والوں کو جہنم کا ایندھن بناؤں گا اور میں بندوں پر ظلم بھی نہیں کرتا اور کسی کو ناکردہ گناہ کی سزا نہیں دیتا ہوں۔ حضرت شیخ (رح) تعالیٰ فرماتے ہیں ” القول “ میں الف لام عہد خارجی کے لیے ہے اور اس سے ” القیا فی جہنم الخ “ والا قول مراد ہے یعنی میں ان مجرموں کو جہنم میں ڈالنے کا حکم دے چکا ہوں اور اب اس میں تبدیلی نہیں ہوسکتی۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(28) ارشاد ہوگا میرے سامنے جھگڑے کی باتیں نہ کرو اور میرے روبرو جھگڑا نہ کرو اور میں تمہاری طرف پہلے ہی عذاب کا وعدہ بھیج چکا تھا۔