Surat Qaaf

Surah: 50

Verse: 45

سورة ق

نَحۡنُ اَعۡلَمُ بِمَا یَقُوۡلُوۡنَ وَ مَاۤ اَنۡتَ عَلَیۡہِمۡ بِجَبَّارٍ ۟ فَذَکِّرۡ بِالۡقُرۡاٰنِ مَنۡ یَّخَافُ وَعِیۡدِ ﴿۴۵﴾٪  17

We are most knowing of what they say, and you are not over them a tyrant. But remind by the Qur'an whoever fears My threat.

یہ جو کچھ کہہ رہے ہیں ہم بخوبی جانتے ہیں اور آپ ان پر جبر کرنے والے نہیں ، تو آپ قرآن کے ذریعے انہیں سمجھاتے رہیں جو میرے وعید ( ڈراوے کے وعدوں ) سے ڈرتے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

نَحْنُ أَعْلَمُ بِمَا يَقُولُونَ ... We know best what they say. means, `Our knowledge is all encompassing of the denial that the idolators are confronting you with, so do not be concerned.' In similar Ayat, Allah said, وَلَقَدْ نَعْلَمُ أَنَّكَ يَضِيقُ صَدْرُكَ بِمَا يَقُولُونَ فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَكُنْ مِّنَ السَّـجِدِينَ وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتَّى يَأْتِيَكَ الْيَقِينُ Indeed, We know that your breast is straitened at what they say. So glorify the praises of your Lord and be of those who prostrate themselves (to Him). And worship your Lord until there comes unto you the certainty (i.e., death). (15:97-99) Allah's statement, ... وَمَا أَنتَ عَلَيْهِم بِجَبَّارٍ ... And you are not the one to force them. says, `it is not you who forces them to accept the guidance; this is not a part of your mission.' Allah the Exalted and Most Honored said, ... فَذَكِّرْ بِالْقُرْانِ مَن يَخَافُ وَعِيدِ But warn by the Qur'an; him who fears My threat. meaning, `convey the Message of your Lord, for only those who fear Allah and dread His torment, and hope in His promise will remember and heed,' فَإِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلَـغُ وَعَلَيْنَا الْحِسَابُ Your duty is only to convey (the Message) and on Us is the reckoning. (13:40), فَذَكِّرْ إِنَّمَأ أَنتَ مُذَكِّرٌ لَّسْتَ عَلَيْهِم بِمُسَيْطِرٍ So remind them -- you are only one who reminds. You are not a dictator over them. (88:21-22) لَّيْسَ عَلَيْكَ هُدَاهُمْ وَلَـكِنَّ اللَّهَ يَهْدِى مَن يَشَأءُ Not upon you is their guidance, but Allah guides whom He wills. (2:272) and, إِنَّكَ لاَ تَهْدِى مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَـكِنَّ اللَّهَ يَهْدِى مَن يَشَأءُ Verily, you guide not whom you like, but Allah guides whom He wills. (28:56) Allah's statement here, وَمَا أَنتَ عَلَيْهِم بِجَبَّارٍ فَذَكِّرْ بِالْقُرْانِ مَن يَخَافُ وَعِيدِ (And you are not the one to force them. But warn by the Qur'an; him who fears My threat). Qatadah used to invoke Allah by saying, "O Allah! Make us among those who fear Your threat and hope for Your promise, O Barr (Subtle, Kind, Courteous, and Generous), O Rahim (the Most Merciful." This is the end of the Tafsir of Surah Qaf. All praise is due to Allah, He is for us, the most excellent Trustee.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

45۔ 1 یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس بات کے مکلف نہیں ہیں کہ ایمان لانے پر مجبور کریں بلکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کام صرف تبلیغ و دعوت ہے، وہ کرتے رہیں۔ 45۔ 2 یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت ذکر سے وہی نصیحت حاصل کرے گا جو اللہ سے اور اس کی سزا کی دھمکیوں سے ڈرتا اور اس کے وعدوں پر یقین رکھتا ہوگا اسی لئے حضرت قتادہ یہ دعا فرماتے ' اے اللہ ہمیں ان لوگوں میں سے کر جو تیری وعیدوں سے ڈرتے اور تیرے وعدوں کی امید رکھتے ہیں۔ اے احسان کرنے والے رحم فرمانے والے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥٢] اس جملہ میں آپ کے لئے تسلی بھی ہے اور کفار مکہ کے لئے وعید اور دھمکی بھی۔ [٥٣] یعنی آپ کی یہ ذمہ داری نہیں کہ زور اور زبردستی سے کسی کو ایمان لانے پر مجبور کردیں۔ آپ کا کام اتنا ہی ہے کہ لوگوں کو یہ قرآن سنا سنا کر نصیحت کیا کیجئے پھر جس کے دل میں ذرا بھی اللہ کا خوف ہوگا وہ تو یقیناً اس نصیحت کو قبول کرلے گا اور جو لوگ قرآن سننا بھی گوارا نہ کریں تو ان کا معاملہ اللہ کے سپرد اور آپ پر کوئی ذمہ داری نہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) نحن اعلم بما یقولون : یہ جملہ کافر کے لئے وعید اور دھمکی ہے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے تسلی و تشفی کا باعث ہے۔ (٢) وما انت علیھم بجبار : یعنی آپ کا کام یہ نہیں کہ انہیں زبردستی مسلمان بنالیں، آپ کا کام صرف پیغام پہنچانا ہے۔ جیسا کہ فرمایا :(انما انت مذکر، لست علیھم بمصیطر) (الغاشیۃ : ٢١، ٢٢)” تو صرف نصیحت کرنے والا ہے۔ تو ہرگز ان پر کوئی مسلط کیا ہوا نہیں ہے۔ “ (٣) فذکر بالقرآن من یخاف وعید :” وعید “ اصلمیں ” وعیدی “ ہے، میری وعید۔ اس کا مططل یہ نہیں کہ آپ دوسروں کو صنیحت نہ کریں، بلکہ مطلب یہ ہے ہ آپ کی نصیحت سے فائدہ وہی اٹھائے گا جو میری وعید سے ڈرتا ہے، جیسا کہ فرمایا :(انما تنذر الذین یخشون ربھم بالغیب و اقاموا الصلوۃ) (فاطر : ١٨)” تو تو صرف ان لوگوں کو ڈراتا ہے۔ جو دیکھے بغیر اپنے رب سے ڈرتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

فَذَكِّرْ‌ بِالْقُرْ‌آنِ مَن يَخَافُ وَعِيدِ (So give advice, through the Qur&an, to the one who fears My warning... 50:45). This means that the message of the Qur&an is to be conveyed to the entire mankind, to all and sundry. However, only those who fear Allah and dread His torment will remember and heed. Qatadah used to recite this verse and supplicate in the following words: اَللّٰھُمَّ اجعَلنَا مِمَّن یَّخَافُ وَعِیدَکَ وَ یَرجُوا مَوعوُدَکَ یَا بَارُّ یَا رَحِیمُ |"0 Allah! Make us among those who fear Your threat, and hope for Your promise, 0 the One who fulfills His promise, 0 Rahim [ the Most Merciful ].|" Alhamdulillah The Commentary on Surah Qaf Ends here

(آیت) فَذَكِّرْ بالْقُرْاٰنِ مَنْ يَّخَافُ وَعِيْدِ (یعنی آپ تذکیر و نصیحت فرمایئے قرآن سے اس شخص کو جو میری وعید سے ڈرتا ہے) مطلب یہ ہے کہ آپ کی تبلیغ اور وعظ و نصیحت اگرچہ عام ہی ہوگی سبہی مخلوق اس کی مخاطب اور مکلف ہوگی، مگر اس کا اثر قبول وہی کرے گا جو اللہ کے عذاب اور وعید سے ڈرتا ہے۔ حضرت قتادہ اس آیت کو پڑھ کر یہ دعا مانگتے تھے اللھم اجعلنا ممن یخاف و عیدک ویرجوا موعودک یا بار یا رحیم ” یعنی یا اللہ ہمیں ان لوگوں میں داخل فرما دیئے جو آپ کی وعید عذاب سے ڈرتے ہیں اور آپ کے وعدے کے امیدوار ہیں، اے وعدہ پورے کرنے والے اے رحمت والے “ تمت سورة ق بعون اللہ سبحانہ فی ستة ایام من ثانی عشر ربیع الاول الیٰ سابع عشر ربیع الاول یوم الخمسیس وللہ الحمد و ھو المستعان فی تکمیل الباقی و ما ذلک علی اللہ بحزیز

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

نَحْنُ اَعْلَمُ بِمَا يَقُوْلُوْنَ وَمَآ اَنْتَ عَلَيْہِمْ بِجَبَّارٍ۝ ٠ ۣ فَذَكِّرْ بِالْقُرْاٰنِ مَنْ يَّخَافُ وَعِيْدِ۝ ٤٥ ۧ علم العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، ( ع ل م ) العلم کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا قول القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ، ( ق و ل ) القول القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ جبر أصل الجَبْر : إصلاح الشیء بضرب من القهر، والجبّار في صفة الإنسان يقال لمن يجبر نقیصته بادّعاء منزلة من التعالي لا يستحقها، وهذا لا يقال إلا علی طریق الذم، کقوله عزّ وجل : وَخابَ كُلُّ جَبَّارٍ عَنِيدٍ [إبراهيم/ 15] ( ج ب ر ) الجبر اصل میں جبر کے معنی زبردستی اور دباؤ سے کسی چیز کی اصلاح کرنے کے ہیں ۔ الجبار انسان کی صفت ہو تو اس کے معنی ہوتے ہیں ناجائز تعلی سے اپنے نقص کو چھپانے کی کوشش کرنا ۔ بدیں معنی اس کا استعمال بطور مذمت ہی ہوتا ہے ۔ جیسے قران میں ہے : ۔ وَخابَ كُلُّ جَبَّارٍ عَنِيدٍ [إبراهيم/ 15] تو ہر سرکش ضدی نامراد ہ گیا ۔ ذكر ( نصیحت) وذَكَّرْتُهُ كذا، قال تعالی: وَذَكِّرْهُمْ بِأَيَّامِ اللَّهِ [إبراهيم/ 5] ، وقوله : فَتُذَكِّرَ إِحْداهُمَا الْأُخْرى [ البقرة/ 282] ، قيل : معناه تعید ذكره، وقد قيل : تجعلها ذکرا في الحکم «1» . قال بعض العلماء «2» في الفرق بين قوله : فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ [ البقرة/ 152] ، وبین قوله : اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ [ البقرة/ 40] : إنّ قوله : فَاذْكُرُونِي مخاطبة لأصحاب النبي صلّى اللہ عليه وسلم الذین حصل لهم فضل قوّة بمعرفته تعالی، فأمرهم بأن يذكروه بغیر واسطة، وقوله تعالی: اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ مخاطبة لبني إسرائيل الذین لم يعرفوا اللہ إلّا بآلائه، فأمرهم أن يتبصّروا نعمته، فيتوصّلوا بها إلى معرفته . الذکریٰ ۔ کثرت سے ذکر الہی کرنا اس میں ، الذکر ، ، سے زیادہ مبالغہ ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ ذَكَّرْتُهُ كذا قرآن میں ہے :۔ وَذَكِّرْهُمْ بِأَيَّامِ اللَّهِ [إبراهيم/ 5] اور ان کو خدا کے دن یاد دلاؤ ۔ اور آیت کریمہ ؛فَتُذَكِّرَ إِحْداهُمَا الْأُخْرى [ البقرة/ 282] تو دوسری اسے یاد دلا دے گی ۔ کے بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ اسے دوبارہ یاد دلاوے ۔ اور بعض نے یہ معنی کئے ہیں وہ حکم لگانے میں دوسری کو ذکر بنادے گی ۔ بعض علماء نے آیت کریمہ ؛۔ فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ [ البقرة/ 152] سو تم مجھے یاد کیا کر میں تمہیں یاد کروں گا ۔ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ [ البقرة/ 40] اور میری وہ احسان یاد کرو ۔ میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ کے مخاطب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب ہیں جنہیں معرفت الہی میں فوقیت حاصل تھی اس لئے انہیں براہ راست اللہ تعالیٰ کو یاد کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ اور دوسری آیت کے مخاطب بنی اسرائیل ہیں جو اللہ تعالیٰ کو اس نے انعامات کے ذریعہ سے پہچانتے تھے ۔ اس بنا پر انہیں حکم ہوا کہ انعامات الہی میں غور فکر کرتے رہو حتی کہ اس ذریعہ سے تم کو اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل ہوجائے ۔ قرآن والْقُرْآنُ في الأصل مصدر، نحو : کفران ورجحان . قال تعالی:إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة/ 17- 18] قال ابن عباس : إذا جمعناه وأثبتناه في صدرک فاعمل به، وقد خصّ بالکتاب المنزّل علی محمد صلّى اللہ عليه وسلم، فصار له کالعلم کما أنّ التّوراة لما أنزل علی موسی، والإنجیل علی عيسى صلّى اللہ عليهما وسلم . قال بعض العلماء : ( تسمية هذا الکتاب قُرْآناً من بين كتب اللہ لکونه جامعا لثمرة كتبه) بل لجمعه ثمرة جمیع العلوم، كما أشار تعالیٰ إليه بقوله : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف/ 111] ، وقوله : تِبْياناً لِكُلِّ شَيْءٍ [ النحل/ 89] ، قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر/ 28] ، وَقُرْآناً فَرَقْناهُ لِتَقْرَأَهُ [ الإسراء/ 106] ، فِي هذَا الْقُرْآنِ [ الروم/ 58] ، وَقُرْآنَ الْفَجْرِ؂[ الإسراء/ 78] أي : قراء ته، لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة/ 77] ( ق ر ء) قرآن القرآن ۔ یہ اصل میں کفران ورحجان کی طرف مصدر ہے چناچہ فرمایا :إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة/ 17- 18] اس کا جمع کرنا اور پڑھوانا ہمارے ذمہ جب ہم وحی پڑھا کریں تو تم ( اس کو سننا کرو ) اور پھر اسی طرح پڑھا کرو ۔ حضرت ابن عباس نے اس کا یہ ترجمہ کیا ہے کہ جب ہم قرآن تیرے سینہ میں جمع کردیں تو اس پر عمل کرو لیکن عرف میں یہ اس کتاب الہی کا نام ہے جو آنحضرت پر نازل ہوگئی ا وریہ اس کتاب کے لئے منزلہ علم بن چکا ہے جیسا کہ توراۃ اس کتاب الہی کو کہاجاتا ہے جو حضرت موسیٰ ٰ (علیہ السلام) پر نازل ہوئی ۔ اور انجیل اس کتاب کو کہا جاتا ہے جو حضرت عیسیٰ پر نازل کی گئی ۔ بعض علماء نے قرآن کی وجہ تسمیہ یہ بھی بیان کی ہے کہ قرآن چونکہ تمام کتب سماویہ کے ثمرہ کو اپنے اندر جمع کئے ہوئے ہے بلکہ تمام علوم کے ماحصل کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے اس لئے اس کا نام قرآن رکھا گیا ہے جیسا کہ آیت : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف/ 111] اور ہر چیز کی تفصیل کرنے والا ۔ اور آیت کریمہ : تِبْياناً لِكُلِّ شَيْءٍ [ النحل/ 89] کہ اس میں ہر چیز کا بیان مفصل ہے ۔ میں اس کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے ۔ مزید فرمایا : قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر/ 28] یہ قرآن عربی ہے جس میں کوئی عیب ( اور اختلاف ) نہیں ۔ وَقُرْآناً فَرَقْناهُ لِتَقْرَأَهُ [ الإسراء/ 106] اور ہم نے قرآن کو جزو جزو کرکے نازل کیا تاکہ تم لوگوں کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھ کر سناؤ ۔ فِي هذَا الْقُرْآنِ [ الروم/ 58] اس قرآن اور آیت کریمہ : وَقُرْآنَ الْفَجْرِ [ الإسراء/ 78] اور صبح کو قرآن پڑھا کرو میں قرآت کے معنی تلاوت قرآن کے ہیں ۔ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة/ 77] یہ بڑے رتبے کا قرآن ہے ۔ خوف الخَوْف : توقّع مکروه عن أمارة مظنونة، أو معلومة، كما أنّ الرّجاء والطمع توقّع محبوب عن أمارة مظنونة، أو معلومة، ويضادّ الخوف الأمن، ويستعمل ذلک في الأمور الدنیوية والأخروية . قال تعالی: وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء/ 57] ( خ و ف ) الخوف ( س ) کے معنی ہیں قرآن دشواہد سے کسی آنے والے کا خطرہ کا اندیشہ کرنا ۔ جیسا کہ کا لفظ قرائن دشواہد کی بنا پر کسی فائدہ کی توقع پر بولا جاتا ہے ۔ خوف کی ضد امن آتی ہے ۔ اور یہ امور دنیوی اور آخروی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے : قرآن میں ہے : ۔ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء/ 57] اور اس کی رحمت کے امید وار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں ۔ وعید . ومن الإِيعَادِ قوله : وَلا تَقْعُدُوا بِكُلِّ صِراطٍ تُوعِدُونَ وَتَصُدُّونَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ [ الأعراف/ 86] ، وقال : ذلِكَ لِمَنْ خافَ مَقامِي وَخافَ وَعِيدِ [إبراهيم/ 14] ، فَذَكِّرْ بِالْقُرْآنِ مَنْ يَخافُ وَعِيدِ [ ق/ 45] ( وع د ) الوعید ( وعدہ کرنا ) کا لفظ خیر وشر یعنی اچھے اور برے ( وعدہ دونوں پر بولا جاتا ہے اور اس معنی میں استعمال ہوتا ہے مگر الوعید کا اور لفظ وعید کے متعلق ارشاد ہے ۔ ذلِكَ لِمَنْ خافَ مَقامِي وَخافَ وَعِيدِ [إبراهيم/ 14] یہ اس شخص کے لئے ہے جو قیامت کے روڈ میرے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرے اور میرے عذاب سے خوف کرے ۔ فَذَكِّرْ بِالْقُرْآنِ مَنْ يَخافُ وَعِيدِ [ ق/ 45] پس جو ہمارے عذاب کی وعید ست ڈرے اس کو قرآن سے نصیحت کرتے رہو ۔ ركوع نمبر 18 سورة الذریات پاره 26

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

جو کچھ یہ لوگ حیات بعد الموت کے بارے میں یا یہ کہ دنیا میں کرتے ہیں ہم اس کو خوب جانتے ہیں اور آپ ان پر ایمان لانے پر جبر کرنے والے نہیں بھیجے گئے اب اس کے بعد کفار سے قتال کا حکم دیا ہے کہ آپ قرآن کریم کے ذریعے سے ایسے شخص کو جو میری وعید سے ڈرتا ہو اور جو نہ ڈرتا ہو نصیحت کرتے رہیے کیونکہ آپ کی نصیحت ایسا ہی شخص قبول کرے گا جو آخرت کے عذاب سے ڈرتا ہو۔ شان نزول : فَذَكِّرْ بالْقُرْاٰنِ مَنْ يَّخَافُ وَعِيْدِ (الخ) اور ابن جریر نے عمرو بن قیس کے واسطہ سے حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے کہ آپ سے عرض کیا یا رسول اللہ کچھ ہمیں آخرت سے ڈراتے اس پر یہ آیت نازل ہوئی نیز عمرو سے مرسلا اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤٥{ نَحْنُ اَعْلَمُ بِمَا یَـقُوْلُوْنَ } ” (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ) ہم خوب جانتے ہیں جو کچھ یہ لوگ کہہ رہے ہیں “ { وَمَآ اَنْتَ عَلَیْہِمْ بِجَبَّارٍقف } ” اور آپ ان پر کوئی زبردستی کرنے والے نہیں ہیں۔ “ آپ کا کام ان سے جبراً بات منوانا نہیں ہے۔ ہم نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس اختیار کے ساتھ نہیں بھیجا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انہیں زبردستی حق کی طرف لے آئیں۔ { فَذَکِّرْ بِالْقُرْاٰنِ مَنْ یَّخَافُ وَعِیْدِ ۔ } ” پس آپ تذکیر کرتے رہیے اس قرآن کے ذریعے سے ہر اس شخص کو جو میری وعید سے ڈرتا ہے۔ “ جس شخص کی روح مردہ نہ ہوچکی ہوگی اور اس میں تھوڑی سی بھی جان ہوگی اور جس کے اندر اخلاقی حس دم نہ توڑ چکی ہوگی اور بھلائی کی معمولی سی رمق بھی باقی ہوگی وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی باتیں سن کر قرآن کی تذکیر اور یاد دہانی سے ضرور فائدہ اٹھائے گا۔ یہاں پر { فَذَکِّرْ بِالْقُرْاٰنِ } کے الفاظ میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خصوصی طور پر ہدایت دی جا رہی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تبلیغ و تذکیر ‘ انذار وتبشیر اور لوگوں کے تزکیہ نفس کا ذریعہ قرآن ہی کو بنائیں۔ اس حکم کے مقابلے میں آج امت ِمسلمہ کی مجموعی حالت یہ ہے کہ مسلمانوں نے خود کو قرآن سے بالکل ہی بےنیاز کرلیا ہے اور دعوت و تبلیغ ‘ وعظ و نصیحت اور تربیت و تزکیہ کے دیگر ذرائع اختیار کرلیے ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

55 In this sentence there is consolation for the Holy Prophet as well as a threat for the disbelievers. Addressing the Holy Prophet it has been said: "Do not care at aII about what these foolish people utter about you: We are hearing everything and it is for Us to deal with it. " The disbelievers are being warned to the effect: "The taunting remarks that you are passing against Our Prophet, will cost you dearly. We Our self are hearing everything that you utter and you will have to suffer for its consequences." 56 This does not mean that the Holy Prophet wanted to compel the people into believing and AIlah stopped him from this, but, in fact, although the Holy Prophet has Been addressed the disbelievers are being warned, as if to say, 'Our Prophet has not been sent as a dictator over you. He is not there to compel you to become believers even if you did not wish to believe. His only responsibility is that he should recite the Qur'an and make the truth plain to the one who would take the warning. Now, if you do not accept his invitation, We Our self will deal with you, not he."

سورة قٓ حاشیہ نمبر :55 اس فقرے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تسلی بھی ہے اور کفار کے لیے دھمکی بھی ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے فرمایا جا رہا ہے کہ تم پر جو باتیں یہ لوگ بنا رہے ہیں ان کی قطعاً پروانہ کرو ، ہم سب کچھ سن رہے ہیں اور ان سے نمٹنا ہمارا کام ہے ۔ کفار کو متنبہ کیا جا رہا ہے کہ ہمارے نبی پر جو فقرے تم کس رہے ہو وہ تمہیں بہت مہنگے پڑیں گے ۔ ہم خود ایک ایک بات سن رہے ہیں اور اس کا خمیازہ تمہیں بھگتنا پڑے گا ۔ سورة قٓ حاشیہ نمبر :56 اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جبراً لوگوں سے اپنی بات منوانا چاہتے تھے اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس سے روک دیا ۔ بلکہ در اصل یہ بات حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے کفار کو سنائی جا رہی ہے ۔ گویا ان سے یہ کہا جا رہا ہے کہ ہمارا نبی تم پر جبار بنا کر نہیں بھیجا گیا ہے ۔ اس کا کام زبردستی تمہیں مومن بنانا نہیں کہ تم نہ ماننا چاہو اور وہ جبراً تم سے منوائے ۔ اس کی ذمہ داری تو بس اتنی ہے کہ جو متنبہ کرنے سے ہوش میں آ جائے اسے قرآن سنا کر حقیقت سمجھا دے ۔ اب اگر تم نہیں مانتے تو نبی تم سے نہیں نمٹے گا بلکہ ہم تم سے نمٹیں گے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

20: حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی جا رہی ہے کہ آپ کی ذمہ داری یہ نہیں ہے کہ آپ لوگوں کو زبردستی ایمان لانے پر مجبور کریں۔ آپ کا فریضہ صرف یہ ہے کہ نصیحت کا پیغام لوگوں تک پہنچاتے رہیں۔ جس کے دل میں کچھ خدا کا خوف ہوگا، وہ آپ کی بات مان لے گا، اور جو نہ مانے، اس کی کوئی ذمہ داری آپ پر نہیں ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٤٥۔ شریعت میں جن باتوں کے کرنے کا حکم ہے ان باتو کو معروف کہتے ہیں اور جن باتوں کی شریعت میں ممانعت ہے ان باتوں کو منکر کہتے ہیں صاحب شریعت انبیاء کا یہی کام ہے کہ وہ شریعت کی معروف باتوں کے کرنے اور منکر باتوں سے بچنے کو امت کے لوگوں میں پھیلاتے ہیں اور شریعت میں اللہ کی مرضی اور نامرضی کی جو باتیں ہیں وہ اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام میں ظاہر فرما دی ہیں۔ اسی واسطے فرمایا کہ جن لوگوں کے دل میں حشر اور اللہ کے سامنے کھڑے ہونے اور عقبیٰ کی باتوں کا خوف ہے اے رسول اللہ کے ایسے لوگوں کو قرآن کی آیتوں کے مضمون کے موافق نصیحت کر دینی چاہئے تاکہ تم کو نصیحت کرنے کا اور امت کے جو لوگ نصحیت مانیں ان کو نصیحت کے ماننے کا اجر عقبیٰ میں حاصل ہو۔ اب انبیاء کے بعد امت میں جن علماء نے انبیاء کے اس طریقہ کو اختیار کیا ہے کہ لوگوں کو وعظ نصیحت کرکے شریعت کی معروف باتوں کو لوگوں میں پھیلاتے اور منکر باتوں کو لوگوں سے چھڑواتے ہیں اور خود اپنی ذات سے شریعت کے پابند ہیں ایسے علماء کو صاحب شریعت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انبیاء کا وارث فرمایا ہے۔ ترمذی ١ ؎‘ مسند امام احمد ‘ ابو داؤود ‘ ابن ماجہ ‘ دارمی میں حضرت ابو داؤود کی ایک بڑی حدیث ہے جس کے ایک ٹکڑے کا حاصل یہ ہے کہ علماء انبیاء کے وارث ہیں کیونکہ انبیاء نے اپنی وفات کے وقت کچھ روپیہ پہ سے دنیا میں نہیں چھوڑا ہے جس نے یہ علم شریعت دنیا کی چیزوں میں سے پایا وہی انبیاء کا وارث ہے اور اس نے بھ یدنیا میں گویا ایک بڑی دولت پائی۔ اگرچہ ترمذی نے اس حدیث کی سند میں کلام کیا ہے لیکن اس کے بعض طریقے صحیح ہیں۔ صحیح مسلم ٢ ؎ میں حضرت ابو سعید خدری سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میری امت میں سے جو شخص کوئی ایسی بات دیکھے جس کی شریعت میں ممانعت ہے تو ہاتھ سے زبان سے دل سے جس طرح ہو سکے اس کو مٹا دے۔ دل سے اس بری بات کا مٹانا یہ ہے کہ دل سے اس بری بات کو برا جانے اور خود بروں میں شریک نہ ہو او یہ ایمان داری کا ایک ادنیٰ درجہ ہے اور جو لوگ فقط ریا کاری کی نیت سے علم دین پڑھتے ہیں کہ جاہل لوگ ان کو بڑا عالم کہیں ‘ یا جو علم دین پڑھ کر اوروں کو تو نصیحت کرتے ہیں اور خود عمل نہیں کرتے۔ وہ انبیاء کے وارثوں میں داخل نہیں ہیں بلکہ صحیح حدیثوں میں ان کے حق میں سخت وعید۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(50:45) اعلم خوب جاننے والا۔ علم نے افعل التفضیل کا صیغہ ہے۔ جبار۔ سرکش، جبر کرنے والا۔ زبردست دباؤ والا۔ جبر سے مبالغہ کا صیغہ خدا تعالیٰ کے اسماء حسنی میں سے ہے۔ ما انت علیہم بجبار۔ آپ ان پر جبر کرنے والے نہیں ہیں۔ فذکر : امر کا صیغہ واحد مذکر حاضر۔ تذکیر (تفعیل) مصدر۔ تو یاد لا۔ تو سمجھا ۔ تو نصیحت کر۔ بالقران قرآن کے ذریعے سے۔ من یخاف وعید : من موصولہ یخاف وعید صلہ۔ موصول اپنے صلہ کے ساتھ مل کر مفعول ذکر کا۔ یخاف مضارع واحد مذکر غائب خوف باب فتح مصدر۔ ڈرتا ہے۔ وعید مصدر، مضاف مجرور۔ اصل میں وعیدی تھا۔ میرا عذاب۔ میری طرف سے ڈراوا۔ ترجمہ :۔ آپ نصیحت کرتے رہئے اس قرآن سے ہر اس شخص کو جو میرے عذاب سے ڈرتا ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 مراد یہ ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جھٹلانا اور آخرت اور توحید وغیرہ سے انکار کرنا۔ 2 یعنی آپ کا کام انہیں زبردستی مسلمان بنا لینا نہیں ہے۔ آپ کے ذمہصرف ان تک ہمارا پیغام پہنچا دینا ہے۔ اس کے بعد یہ مانیں تو اپنا بھلا کریں گے اور نہیں مانیں گیتو اپنی شامت خود بلائیں گے …اس آیت سے مقصود ایکطرف آنحضرت کو تشقی دینا ہے اور دوسری طرف کافروں کو وعید سنانا ہے۔ 3 باقی رہے وہ لوگ جن کے دلوں میں ڈر نہیں ہے تو ان کے سمجھانے میں وقت لگانا بیکار ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : جس رب کے لیے لوگوں کو زندہ کرنا اور محشر کے دن اکٹھا کرنا مشکل نہیں اس کے لیے لوگوں کو ایمان لانے پر مجبور کرنا بھی مشکل نہیں لیکن وہ اپنی حکمت کے تحت لوگوں کو مہلت دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں سینکڑوں دلائل اور کئی انبیائے کرام (علیہ السلام) کو مشاہدے کروا کر ثابت کیا ہے کہ قیامت کے دن ہر صورت مردوں کو زندہ کیا جائے گا اور قیامت برپا ہو کر رہے گی۔ اس کے باوجود اہل مکہ نہ صرف قیامت کا انکار کرتے تھے بلکہ اس کا مذاق بھی اڑاتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس پر ایک طرف نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی ہے اور دوسری طرف کفار کو تنبیہ کی ہے کہ جو تم ہرزہ سرائی کرتے ہو اس کا ایک ایک لفظ ہمارے علم میں ہے۔ ہم چاہیں تو سب کچھ تم سے منوا سکتے ہیں۔ لیکن ہمارا اصول یہ ہے کہ کسی کو جبر کے ذریعے ایمان لانے پر مجبور نہ کیا جائے نہ ہی اس نے اپنے نبی کو جبر کرنے والا نہیں بنایا۔ اس لیے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ارشاد ہوا کہ آپ قرآن مجید کے ذریعے لوگوں کو نصیحت کریں اور ہمارے عذاب سے ڈرائیں۔ یہاں قرآن مجید کو ذکر قرار دیا گیا ہے ذکر کا ایک معنٰی نصیحت بھی ہے۔ قرآن مجید سے بڑھ کر کوئی نصیحت بہتر اور مؤثر نہیں ہوسکتی۔ اس لیے ہر مبلغ کو اپنے وعظ اور خطاب میں قرآن مجید زیادہ سے زیادہ پڑھنا چاہیے، اور لوگوں کو قصے، کہانیاں، شعر سنانے کی بجائے قرآن کے ذریعے نصیحت کرنی چاہیے۔ (لَآ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ قَدْتَّبَیَّنَ الرُّشْدُمِنَ الْغَیِّ فَمَنْ یَّکْفُرْ بالطَّاغُوْتِ وَ یُؤْمِنْ باللّٰہِ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بالْعُرْوَۃِ الْوُثْقٰی لَا انْفِصَامَ لَہَا وَ اللّٰہُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ) (البقرۃ : ٢٥٦) ” دین میں کوئی زبردستی نہیں ہدایت گمراہی سے واضح ہوچکی ہے اس لیے جو شخص باطل معبودوں کا انکار کر کے اور اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے اس نے مضبوط کڑے کو تھام لیا جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں ہے اور اللہ تعالیٰ خوب سننے، جاننے والا ہے۔ “ (عَنْ أَبِیْ مُوْسٰی (رض) قَالَ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِذَا بَعَثَ أَحَدًا مِّنْ أَصْحَابِہٖ فِیْ بَعْضِ أَمْرِہٖ قَالَ بَشِّرُوْا وَلَا تُنَفِّرُوْا وَ یَسِّرُوْا وَلَا تُعَسِّرُوْا) (رواہ البخاری : باب مَا کَان النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَتَخَوَّلُہُمْ بالْمَوْعِظَۃِ وَالْعِلْمِ کَیْ لاَ یَنْفِرُوا) ” حضرت ابو موسیٰ اشعری (رض) بیان کرتے ہیں نبی گرامی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب اپنے ساتھیوں میں سے کسی کو اپنے کسی کام کیلئے بھیجتے تو فرماتے، لوگوں کو خوش خبری دینا، ان کو متنفر نہ کرنا۔ ان کے ساتھ نرمی کرنا، مشکل میں نہ ڈالنا۔ “ (عَنْ عَاءِشَۃَ (رض) أَنَّھَا قَالَتْ مَاخُیِّرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بَیْنَ أَمْرَیْنِ إِلَّا أَخَذَ أَیْسَرَھُمَا مَالَمْ یَکُنْ إِثْمًا فَإِنْ کَانَ إِثْمًا کَانَ أَبْعَدَ النَّاسِ مِنْہُ وَمَا انْتَقَمَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لِنَفْسِہٖٓ إِلَّا أَنْ تُنْتَھَکَ حُرْمَۃُ اللّٰہِ فَیَنْتَقِمُ لِلّٰہِ بِھَا) (رواہ البخاری : کتاب المناقب، باب صفۃ النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دو کاموں میں اختیار دیا جاتا تو آپ دونوں میں سے آسان کام کو اختیار کرتے بشرطیکہ وہ گناہ کا کام نہ ہوتا۔ اگر کام گناہ کا ہوتا تو آپ سب سے زیادہ اس سے دور رہتے۔ آپ نے اپنی ذات کے لیے کسی سے انتقام نہ لیا البتہ جب اللہ کی حرمتوں کو پامال کیا جاتا تو اللہ کے لیے انتقام لیتے۔ “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کی ہر بات کو جانتا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جبر کرنے والا بنا کر مبعوث نہیں کیا۔ ٣۔ لوگوں کو قرآن مجید کے ساتھ نصیحت کرنی چاہیے۔ ٤۔ لوگوں کو اللہ کے عذاب سے ڈرانا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن قرآن مجید جامع اور مؤثر ترین نصیحت ہے : ١۔ ہم نے قرآن مجید کو کھول کر بیان کیا ہے تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں۔ (بنی اسرئیل : ٤١) ٢۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو نصیحت کے لیے نازل فرمایا ہے۔ (صٓ: ٢٩) ٣۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں مثالیں بیان کرتا ہے تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں۔ (الزمر : ٢٧) ٤۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کے لیے اپنی آیات کھول کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔ (البقرۃ : ٢٢١) اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جبر کرنے والا بناکر نہیں بھیجا : ١۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مومنوں کے ساتھ شفیق و مہربان ہیں۔ (التوبہ : ١٢٨) ٢۔ ہم نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جہان والوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔ (الانبیاء : ١٠٧) ٣۔ ہم نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جہان والوں کے لیے بشیر اور نذیر بنا کر بھیجا ہے۔ (سبا : ٢٨) ٤۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کتاب و حکمت کی تعلیم دینے کے لیے بھیجا گیا۔ (الجمعہ : ٢) (الاحزاب : ٤٦) ٥۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں کے بوجھ اتارنے اور غلامی سے چھڑانے کیلئے تشریف لائے۔ (الاعراف : ١٥٧) ٦۔ بنی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مبعوث کرنا اللہ تعالیٰ کا مومنوں پر احسان عظیم ہے۔ (آل عمران : ١٦٤) (الاحزاب : ٤٥)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اسی منظر کے زیر سایہ حضرت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہدایت دی جاتی ہے کہ آپ ثابت قدمی سے اپنے کام کو جاری رکھیں۔ ان کے جدال اور جھگڑوں ، ہٹ دھرمی اور جھٹلانے کی پرواہ نہ کریں۔ جو حقیقت ان کے سامنے پیش کی جارہی ہے ، وہ واضح ہے اور اگر چشم بصیرت ہو تو دیکھی جاسکتی ہے۔ نحن اعلم بما ۔۔۔۔۔۔۔۔ یخاف وعید (٥٠ : ٤٥) ” اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو باتیں یہ لوگ بنا رہے ہیں انہیں ہم خوب جانتے ہیں ، اور تمہارا کام ان سے جبراً بات منوانا نہیں ہے۔ بس تم اس قرآن کے ذریعہ سے ہر اس شخص کو نصیحت کردو جو میری تنبیہہ سے ڈرے “۔ جو باتیں یہ بنا رہے ہیں ہم ان کو خوب جانتے ہیں اور تمہاری تسلی کے لئے بس یہی کافی ہے کہ ہم جانتے ہیں اور ہمارے جاننے کے کچھ نتائج بھی ہوں گے۔ یہ بہت ہی خوفناک دھمکی ہے۔ وما انت علیھم بجبار (٥٠ : ٤٥) ” تمہارا کام ان سے جبراً بات منوانا نہیں ہے “۔ کہ آپ ایمان اور تصدیق پر کسی کو مجبور کردیں ۔ اس میں آپ کا کوئی اختیار نہیں ہے “۔ اختیارات ہمارے پاس ہیں ۔ ہم نگرانی کر رہے اور ان کے ذمہ دار ہیں۔ فذکر با القرآن من یخاف وعید (٥٠ : ٤٥) ” پس تم اس قرآن کے ذریعے ہر اس شخص کو نصیحت کرو ، جو میری تنبیہہ سے ڈرے “۔ قرآن بذات خود ایک عظیم قوت ہے۔ یہ دلوں کو ہلا مارتا ہے۔ ذہنی دنیا میں زلزلہ برپا کردیتا ہے۔ اس کے سامنے سنگ دل سے سنگدل شخص نہیں ٹھہر سکتا۔ قرآن کے حقائق کا سامنا کرنا بڑے دل گردے کا کام ہے۔ قرآن عجیب انداز میں اثر انداز ہوتا ہے۔ جب ایسی سورتیں لوگوں پر پڑھنے کے لئے اور پیش کرنے کے لئے موجود ہیں تو کسی جبار کی کیا ضرورت ہے جو لوگوں کی گردنیں مروڑ کر مسلمان بنائے۔ قرآن کے اندر وہ قوت ہے جو بڑے بڑے جباروں کے اندر نہیں ہے۔ اس کے ذریعہ دلوں پر وہ ضربات لگ سکتی ہیں ، جو ڈکٹیٹروں اور جباروں کے کوڑوں کے ذریعہ نہیں لگائی جاسکتی (۔۔۔۔ العظیم) نوٹ :۔ پارہ ٢٦ کی نظر ثانی رہ گئی تھی۔ یہ نظر ثانی آج مورخہ ٣٠ نومبر ١٩٩٦ ء بوقت ٥٢۔ ٤ شب ختم ہوئی ، اس طرح تقریباً بتیس سال کے عرصے میں یہ کام ختم ہوا۔ اے اللہ اسے اپنے دین کی سر بلندی کے لئے مفید بنا دے اور میرے لیے موجب اجر بنا دے۔ آمین ۔ سید معروف شاہ شیرازی

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

25:۔ ” نحن اعلم۔ الایۃ “ یہ بھی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیلئے تسلی ہے۔ معاندین کی باتوں سے ہم بخوبی آگاہ ہیں ان کی طرف سے توحید و رسالت اور بعث و نشور کا انکار ہم سے پوشیدہ نہیں، اس کی سزا دینا ہمارا کام ہے اور آپ ان پر جبر کر کے تو ان کو منوا نہیں سکتے کیونکہ آپ جبار نہیں ہیں، بلکہ مبلغ و ناصح ہیں اس لیے جو لوگ ہمارے عذاب سے ڈرتے ہیں یعنی مومنین آپ ان کو قرآن سناتے رہیں اور پند و نصیحت فرماتے رہیں۔ معاندین نہیں مانیں گے، تو ایمان والوں کو تو اس سے ضرور فائدہ پہنچے گا۔ ” فذکر فان الذکری تنفع المومنین “ قرآن جو جلال و عظمت اور شوکت وہیبت سے لبریز اللہ کا کلام ہے اور توحید و رسالت اور حشر و نشر پر شاہد ہے آپ اس کی تبلیغ میں مصروف رہیں ل۔ جو لوگ خداوند تعالیٰ سے ڈرنے والے ہیں وہ اس سے مستفید ہوں گے اور اس سے نصیحت حاصل کریں گے۔ واخر دعوانا ان الحمد للہ رب العلمین۔ سورة ق میں آیت توحید : ” الذی جعل مع اللہ الھا اخر “ نفی شرک ہر قسم۔ سورة ق ختم ہوئی

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(45) یہ دن حق کے منکرجو کچھ قیامت اور بعث بعدالموت کے متعلق کہتے ہیں وہ سب ہم جانتے ہیں اور آپ ان پر زور اور جبر کرنے والے نہیں ہیں پس آپ اس قرآن کے ذریعہ سے اس شخص کو نصیحت کرتے رہیے جو میرے عذاب اور میری سزا کے وعدے سے ڈرتا ہے اور جو میرے ڈر سے ڈرتا ہے قرآن میں کئی جگہ یہ بات فرمائی ہے کہ آپ ان پر داروغہ یا وکیل بنا کر نہیں بھیجے گئے۔ یہ منکر عقائد اسلامیہ کے متعلق جو کچھ کہتے ہیں اس سب کا ہم کو علم ہے ۔ آپ کا کام تو یہ ہے کہ آپ قرآن کے ذریعہ تبلیغ وعظ وپند کرتے رہیے آپ ان کو زور زبردستی سے مسلمان نہیں بناسکتے نہ زور زبردستی سے مسلمان بنانا کوئی مفید اور سود مند ہوسکتا ہے بلکہ قرآن کے ذریعے نصیحت کرتے رہیے اور ان کو سناتے رہیے جو میری وعید سے ڈرتے ہیں یعنی وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کی سزا اور اس کی گرفت سے ڈرنے والے ہیں ان پر نصیحت اور قرآنی موعظت کا ثر ضرور ہوتا ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جمعہ کے خطبے میں عام طور سے سورة ق ٓ پڑھا کرتے تھے اور عیدین میں بھی ق ٓ اور سورة قمر اکثر پڑھا کرتے تھے۔ تم تفسیر سورة ق ٓ