Surat uz Zaariyaat

Surah: 51

Verse: 13

سورة الذاريات

یَوۡمَ ہُمۡ عَلَی النَّارِ یُفۡتَنُوۡنَ ﴿۱۳﴾

[It is] the Day they will be tormented over the Fire

ہاں یہ وہ دن ہے کہ یہ آگ پر تپائے جائیں گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

(It will be) a Day when they will be Yuftanun in the Fire! Ibn Abbas, Mujahid, Al-Hasan and several others said, "Yuftanun means punished." Mujahid said: "Just as gold is forged in the fire." A group of others also including Mujahid, Ikrimah, Ibrahim An-Nakha`i, Zayd bin Aslam, and Sufyan Ath-Thawri said, "They will be burnt."

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

13۔ 1 یفتنون کے معنی ہیں یحرقون ویعذبون جس طرح سونے کو آگ میں ڈال کر پرکھا جاتا ہے، اسی طرح یہ ڈالے جائیں گے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

یوم ھم علی النار یفتنون :” فتن یفتن “ (ن، ض) کا معنی آزمانا بھی ہے اور جلانا بھی۔ کھرے یا کھوٹے کی پہچان کے لئے سونے کو آگ میں پگھلایا جائے تو کہتے ہیں :” فتنت الذھب، “ فرمایا، وہ روز جزا اس دن ہوگا جب انہیں آگ پر رکھ کر تپایا اور جلایا جائے گا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

يَوْمَ ہُمْ عَلَي النَّارِ يُفْتَنُوْنَ۝ ١٣ نار والنَّارُ تقال للهيب الذي يبدو للحاسّة، قال : أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة/ 71] ، ( ن و ر ) نار اس شعلہ کو کہتے ہیں جو آنکھوں کے سامنے ظاہر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة/ 71] بھلا دیکھو کہ جو آگ تم در خت سے نکالتے ہو ۔ فتن أصل الفَتْنِ : إدخال الذّهب النار لتظهر جو دته من رداء ته، واستعمل في إدخال الإنسان النار . قال تعالی: يَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ يُفْتَنُونَ [ الذاریات/ 13] ( ف ت ن ) الفتن دراصل فتن کے معنی سونے کو آگ میں گلانے کے ہیں تاکہ اس کا کھرا کھوٹا ہونا ہوجائے اس لحاظ سے کسی انسان کو آگ میں ڈالنے کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ يَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ يُفْتَنُونَ [ الذاریات/ 13] جب ان کو آگ میں عذاب دیا جائے گا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٣{ یَوْمَ ہُمْ عَلَی النَّارِ یُفْتَنُوْنَ ۔ } ” جس دن یہ لوگ آگ پر سینکے جائیں گے۔ “ چونکہ مشرکین یہ سوال غیر سنجیدہ انداز میں کرتے تھے اس لیے جواب میں ان کے لیے ڈانٹ کا انداز پایاجاتا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

10 The disbelievers did not ask the question: When will Resurrection be? for the sake of seeking knowledge but for the purpose of taunt and ridicule. That is why they have been given such an answer. It is just like the taunting reaction of the wicked person who is admonished to desist from his immoral deeds, otherwise he would meet with the evil consequences of those deeds one day, and he asks in jest: When will that day be? Obviously, such a question is not asked to know the date of the occurrence of the evil end but to make fun of the admonition. Therefore, its right answer is that it will occur when the evildoers will meet with their doom. Besides, one should also understand well that if a denier of the Hereafter is discussing the question of the Hereafter sensibly, he can dispute the arguments in favor and against it, but he can never ask the question: On what date will the Hereafter occur? unless he has lost all reason. Whenever he puts such a question, it will only be as a taunt and ridicule. For it does not at all affect the real discussion whether the date of the occurrence of the Hereafter is stated or not. No one can deny the Hereafter only because the year and the month and the day of its occurrence have not been given, nor can one believe in it on hearing that it will occur on such and such a day of such and such a month and year. The date is no argument that may cause a denier to be convinced of its coming, for after that the question will arise: How can One believe whether on that particular day the Hereafter will actually occur?

سورة الذّٰرِیٰت حاشیہ نمبر :10 کفار کا یہ سوال کہ روز جزاء کب آئے گا ، علم حاصل کرنے کے لیے نہ تھا بلکہ طعن اور استہزاء کے طور پر تھا ، اس لیے ان کو جواب اس اندازے سے دیا گیا ۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے آپ کسی شخص کو بد کرداریوں سے باز نہ آنے کی نصیحت کرتے ہوئے اس سے کہیں کہ ایک روز ان حرکات کا برا نتیجہ دیکھو گے ، اور وہ اس پر ایک ٹھٹھا مار کر آپ سے پوچھے کہ حضرت ، آخر وہ دن کب آئے گا ؟ ظاہر ہے کہ اس کا یہ سوال اس برے انجام کی تاریخ معلوم کرنے کے لیے نہیں بلکہ آپ کی نصیحتوں کا مذاق اڑانے کے لیے ہو گا ۔ اس لیے اس کا صحیح جواب یہی ہے کہ وہ اس روز آئے گا جب تمہاری شامت آئے گی ۔ اس کے ساتھ یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ آخرت کے مسئلے پر اگر کوئی منکر آخرت سنجیدگی کے ساتھ بحث کر رہا ہو تو وہ اس کے موافق و مخالف دلائل پر تو بات کر سکتا ہے ، مگر جب تک اس کا دماغ بالکل ہی خراب نہ ہو چکا ہو ، یہ سوال وہ کبھی نہیں کر سکتا کہ بتاؤ ، وہ آخرت کس تاریخ کو آئے گی ۔ اس کی طرف سے یہ سوال جب بھی ہو گا طنز اور تمسخر کے طور پر ہی ہو گا ۔ اس لیے کہ آخرت کے آنے کی تاریخ بیان کرنے اور نہ کرنے کا کوئی اثر بھی اصل بحث پر نہیں پڑتا ۔ کوئی شخص نہ اس بنا پر آخرت کا انکار کرتا ہے کہ اس کی آمد کا سال ، مہینہ اور دن نہیں بتایا گیا ہے ، اور نہ یہ سن کر اس کی آمد کو مان سکتا ہے کہ وہ فلاں سال فلاں مہینے کی فلاں تاریخ کو آئے گی ۔ تاریخ کا تعین سے کوئی دلیل ہی نہیں ہے کہ وہ کسی منکر کو اقرار پر آمادہ کر دے ، کیونکہ اس کے بعد پھر یہ سوال پیدا ہو جاتا ہے کہ وہ دن آنے سے پہلے آخر کیسے یہ یقین کر لیا جائے کہ اس روز واقعی آخرت برپا ہو جائے گی ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(51:13) یوم ہم علی النار یفتنون۔ ای قیل لہم جوابا یقع یوم الدین یوم ہم علی النار یفتنون : جواباً ان سے کہا جائے گا۔ یوم الدین (روز جزا) اس دن واقع ہوگا (یا وہ دن ہوگا) جس دن وہ آگ پر تپائے جائیں گے۔ یوم بوجہ مفعول فیہ منصوب ہے۔ یفتنون : مضارع مجہول جمع مذکر غائب فتن (باب ضرب) مصدر۔ بمعنی عذاب دینا دکھ دینا۔ آزمائش میں ڈالنا۔ عرب کہتے ہیں فتنت الذھب ای احرقتہ لتختبرہ یعنی جب تو سونے کو پرکھنے کے لئے آگ میں جلائے تو کہا جاتا ہے فتنت الذھب ۔ آیت میں یفتنون اسی معنی میں مستعمل ہے یعنی جس روز انہیں آگ میں تپایا جائے گا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یوم ھم علی النار یفتنون (٥١ : ٣١) ” جب یہ لوگ آگ پر تپائے جائیں گے “ اور پھر اس منظر ہی میں انہیں شرمندہ بھی کیا جاتا ہے جس سے ان کے رنج میں اضافہ ہوتا ہے جبکہ وہ تو پہلے سے مشکل میں ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(13) وہ اس دن ہوگا جس دن یہ لوگ آگ پر تپائے جائیں گے۔