Surat uz Zaariyaat

Surah: 51

Verse: 15

سورة الذاريات

اِنَّ الۡمُتَّقِیۡنَ فِیۡ جَنّٰتٍ وَّ عُیُوۡنٍ ﴿ۙ۱۵﴾

Indeed, the righteous will be among gardens and springs,

بیشک تقوٰی والے لوگ بہشتوں اور چشموں میں ہونگے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Qualities of Those Who have Taqwa and Their Reward Allah the Exalted says, إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ Verily, those who have Taqwa will be in the midst of Gardens and Springs, Allah the Exalted informs about those who have Taqwa, that on the Day of their Return they will be amidst gardens and springs. To the contrary the miserable ones will be amidst torment, punishment, fire and chains. Allah said,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

ان المتقین فی جنت وعیون : مکذبین کے عبد متقین کا ذکر فرمایا۔ اس کی تفسیر کیلئے دیکھیے سورة حجر کی آیت (٤٥) کی تفسیر۔ آیت کے الفاظ بتا رہے ہیں کہ جنتوں میں داخلے کا سبب تقویٰ ہے، جیسا کہ فرمایا :(تلک الجنۃ التی نورث من عبادنا من کان تقیاً ) (مریم : ٦٣)” یہ ہے وہ جنت جس کا وارث ہم اپنے بندوں میں سے اسے بناتے ہیں جو بہت بچنے والا ہو۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنَّ الْمُتَّقِيْنَ فِيْ جَنّٰتٍ وَّعُيُوْنٍ۝ ١٥ ۙ تَّقْوَى والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، ثمّ يسمّى الخوف تارة تَقْوًى، والتَّقْوَى خوفاً حسب تسمية مقتضی الشیء بمقتضيه والمقتضي بمقتضاه، وصار التَّقْوَى في تعارف الشّرع حفظ النّفس عمّا يؤثم، وذلک بترک المحظور، ويتمّ ذلک بترک بعض المباحات لما روي : «الحلال بيّن، والحرام بيّن، ومن رتع حول الحمی فحقیق أن يقع فيه» قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] ، إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا [ النحل/ 128] ، وَسِيقَ الَّذِينَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ إِلَى الْجَنَّةِ زُمَراً [ الزمر/ 73] ولجعل التَّقْوَى منازل قال : وَاتَّقُوا يَوْماً تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ [ البقرة/ 281] ، واتَّقُوا رَبَّكُمُ [ النساء/ 1] ، وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَخْشَ اللَّهَ وَيَتَّقْهِ [ النور/ 52] ، وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسائَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحامَ [ النساء/ 1] ، اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقاتِهِ [ آل عمران/ 102] . و تخصیص کلّ واحد من هذه الألفاظ له ما بعد هذا الکتاب . ويقال : اتَّقَى فلانٌ بکذا : إذا جعله وِقَايَةً لنفسه، وقوله : أَفَمَنْ يَتَّقِي بِوَجْهِهِ سُوءَ الْعَذابِ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ الزمر/ 24] تنبيه علی شدّة ما ينالهم، وأنّ أجدر شيء يَتَّقُونَ به من العذاب يوم القیامة هو وجوههم، فصار ذلک کقوله : وَتَغْشى وُجُوهَهُمُ النَّارُ [إبراهيم/ 50] ، يَوْمَ يُسْحَبُونَ فِي النَّارِ عَلى وُجُوهِهِمْ [ القمر/ 48] . التقویٰ اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز سے بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ جس طرح کہ سبب بول کر مسبب اور مسبب بولکر سبب مراد لیا جاتا ہے اور اصطلاح شریعت میں نفس کو ہر اس چیز سے بچا نیکا نام تقوی ہے جو گناہوں کا موجب ہو ۔ اور یہ بات محظو رات شرعیہ کے ترک کرنے سے حاصل ہوجاتی ہے مگر اس میں درجہ کمال حاصل کرنے کے لئے بعض مباحات کو بھی ترک کرنا پڑتا ہے ۔ چناچہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے ۔ ( 149 ) الحلال بین واحرام بین ومن وقع حول الحمی فحقیق ان یقع فیہ کہ حلال بھی بین ہے اور حرام بھی بین ہے اور جو شخص چراگاہ کے اردگرد چرائے گا تو ہوسکتا ہے کہ وہ اس میں داخل ہوجائے ( یعنی مشتبہ چیزیں اگرچہ درجہ اباحت میں ہوتی ہیں لیکن ورع کا تقاضا یہ ہے کہ انہیں بھی چھوڑ دایا جائے ) قرآن پاک میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا[ النحل/ 128] کچھ شک نہیں کہ جو پرہیز گار ہیں اللہ ان کا مدد گار ہے ۔ وَسِيقَ الَّذِينَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ إِلَى الْجَنَّةِ زُمَراً [ الزمر/ 73] اور جو لوگ اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں ان کو گروہ بناکر بہشت کی طرف لے جائیں گے ۔ پھر تقویٰ کے چونکہ بہت سے مدارج ہیں اس لئے آیات وَاتَّقُوا يَوْماً تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ [ البقرة/ 281] اور اس دن سے ڈرو جب کہ تم خدا کے حضور میں لوٹ کر جاؤ گے ۔ واتَّقُوا رَبَّكُمُ [ النساء/ 1] اپنے پروردگار سے ڈرو ۔ اور اس سے ڈرے گا ۔ اور خدا سے جس کا نام کو تم اپنی حاجت برآری کا ذریعہ بناتے ہو ڈرو ۔ اور قطع مودت ارجام سے ۔ اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقاتِهِ [ آل عمران/ 102] خدا سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے ۔ میں ہر جگہ تقویٰ کا ایک خاص معنی مراد ہے جس کی تفصیل اس کتاب کے اور بعد بیان ہوگی ۔ اتقٰی فلان بکذا کے معنی کسی چیز کے ذریعہ بچاؤ حاصل کرنے کے ہیں ۔ اور آیت : ۔ أَفَمَنْ يَتَّقِي بِوَجْهِهِ سُوءَ الْعَذابِ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ الزمر/ 24] بھلا جو شخص قیامت کے دن اپنے منہ سے برے عذاب کو روکتا ہوا ۔ میں اس عذاب شدید پر تنبیہ کی ہے جو قیامت کے دن ان پر نازل ہوگا اور یہ کہ سب سے بڑی چیز جس کے ذریعہ وہ و عذاب سے بچنے کی کوشش کریں گے وہ ان کے چہرے ہی ہوں گے تو یہ ایسے ہی ہے جیسے دوسری جگہ فرمایا : وَتَغْشى وُجُوهَهُمُ النَّارُ [إبراهيم/ 50] اور ان کے مونہوں کو آگ لپٹ رہی ہوگی ۔ يَوْمَ يُسْحَبُونَ فِي النَّارِ عَلى وُجُوهِهِمْ [ القمر/ 48] اس روز منہ کے بل دوزخ میں گھسٹیے جائیں گے ۔ جَنَّةُ : كلّ بستان ذي شجر يستر بأشجاره الأرض، قال عزّ وجل : لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ/ 15] الجنۃ ہر وہ باغ جس کی زمین درختوں کیوجہ سے نظر نہ آئے جنت کہلاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ/ 15]( اہل ) سبا کے لئے ان کے مقام بود باش میں ایک نشانی تھی ( یعنی دو باغ ایک دائیں طرف اور ایک ) بائیں طرف ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جنات جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ بہشت سات ہیں ۔ (1) جنۃ الفردوس (2) جنۃ عدن (3) جنۃ النعیم (4) دار الخلد (5) جنۃ المآوٰی (6) دار السلام (7) علیین ۔ عين ويقال لذي العَيْنِ : عَيْنٌ «3» ، وللمراعي للشیء عَيْنٌ ، وفلان بِعَيْنِي، أي : أحفظه وأراعيه، کقولک : هو بمرأى منّي ومسمع، قال : فَإِنَّكَ بِأَعْيُنِنا[ الطور/ 48] ، وقال : تَجْرِي بِأَعْيُنِنا [ القمر/ 14] ، وَاصْنَعِ الْفُلْكَ بِأَعْيُنِنا[هود/ 37] ، أي : بحیث نریونحفظ . وَلِتُصْنَعَ عَلى عَيْنِي[ طه/ 39] ، أي : بکلاء تي وحفظي . ومنه : عَيْنُ اللہ عليك أي : كنت في حفظ اللہ ورعایته، وقیل : جعل ذلک حفظته وجنوده الذین يحفظونه، وجمعه : أَعْيُنٌ وعُيُونٌ. قال تعالی: وَلا أَقُولُ لِلَّذِينَ تَزْدَرِي أَعْيُنُكُمْ [هود/ 31] ، رَبَّنا هَبْ لَنا مِنْ أَزْواجِنا وَذُرِّيَّاتِنا قُرَّةَ أَعْيُنٍ [ الفرقان/ 74] . ويستعار الْعَيْنُ لمعان هي موجودة في الجارحة بنظرات مختلفة، واستعیر للثّقب في المزادة تشبيها بها في الهيئة، وفي سيلان الماء منها فاشتقّ منها : سقاء عَيِّنٌ ومُتَعَيِّنٌ: إذا سال منها الماء، وقولهم : عَيِّنْ قربتک «1» ، أي : صبّ فيها ما ينسدّ بسیلانه آثار خرزه، وقیل للمتجسّس : عَيْنٌ تشبيها بها في نظرها، وذلک کما تسمّى المرأة فرجا، والمرکوب ظهرا، فيقال : فلان يملك كذا فرجا وکذا ظهرا لمّا کان المقصود منهما العضوین، وقیل للذّهب : عَيْنٌ تشبيها بها في كونها أفضل الجواهر، كما أنّ هذه الجارحة أفضل الجوارح ومنه قيل : أَعْيَانُ القوم لأفاضلهم، وأَعْيَانُ الإخوة : لنبي أب وأمّ ، قال بعضهم : الْعَيْنُ إذا استعمل في معنی ذات الشیء فيقال : كلّ ماله عَيْنٌ ، فکاستعمال الرّقبة في المماليك، وتسمية النّساء بالفرج من حيث إنه هو المقصود منهنّ ، ويقال لمنبع الماء : عَيْنٌ تشبيها بها لما فيها من الماء، ومن عَيْنِ الماء اشتقّ : ماء مَعِينٌ. أي : ظاهر للعیون، وعَيِّنٌ أي : سائل . قال تعالی: عَيْناً فِيها تُسَمَّى سَلْسَبِيلًا[ الإنسان/ 18] ، وَفَجَّرْنَا الْأَرْضَ عُيُوناً [ القمر/ 12] ، فِيهِما عَيْنانِ تَجْرِيانِ [ الرحمن/ 50] ، يْنانِ نَضَّاخَتانِ [ الرحمن/ 66] ، وَأَسَلْنا لَهُ عَيْنَ الْقِطْرِ [ سبأ/ 12] ، فِي جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ [ الحجر/ 45] ، مِنْ جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ [ الشعراء/ 57] ، وجَنَّاتٍ وَعُيُونٍ وَزُرُوعٍ [ الدخان/ 25- 26] . وعِنْتُ الرّجل : أصبت عَيْنَهُ ، نحو : رأسته وفأدته، وعِنْتُهُ : أصبته بعیني نحو سفته : أصبته بسیفي، وذلک أنه يجعل تارة من الجارحة المضروبة نحو : رأسته وفأدته، وتارة من الجارحة التي هي آلة في الضّرب فيجري مجری سفته ورمحته، وعلی نحوه في المعنيين قولهم : يديت، فإنه يقال : إذا أصبت يده، وإذا أصبته بيدك، وتقول : عِنْتُ البئر أثرت عَيْنَ مائها، قال :إِلى رَبْوَةٍ ذاتِ قَرارٍ وَمَعِينٍ [ المؤمنون/ 50] ، فَمَنْ يَأْتِيكُمْ بِماءٍ مَعِينٍ [ الملک/ 30] . وقیل : المیم فيه أصليّة، وإنما هو من : معنت «2» . وتستعار العَيْنُ للمیل في المیزان ويقال لبقر الوحش : أَعْيَنُ وعَيْنَاءُ لحسن عينه، وجمعها : عِينٌ ، وبها شبّه النّساء . قال تعالی: قاصِراتُ الطَّرْفِ عِينٌ [ الصافات/ 48] ، وَحُورٌ عِينٌ [ الواقعة/ 22] . ( ع ی ن ) العین اور عین کے معنی شخص اور کسی چیز کا محافظ کے بھی آتے ہیں اور فلان بعینی کے معنی ہیں ۔ فلاں میری حفاظت اور نگہبانی میں ہے جیسا کہ ھو بمر ا ئ منی ومسمع کا محاورہ ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِنَّكَ بِأَعْيُنِنا[ الطور/ 48] تم تو ہماری آنکھوں کے سامنے ہو ۔ وہ ہماری آنکھوں کے سامنے چلتی تھی ۔ وَلِتُصْنَعَ عَلى عَيْنِي[ طه/ 39] اور اس لئے کہ تم میرے سامنے پر دریش پاؤ ۔ اور اسی سے عین اللہ علیک ہے جس کے معنی ہیں اللہ تعالیٰ تمہاری حفاظت اور نگہداشت فرمائے یا اللہ تعالیٰ تم پر اپنے نگہبان فرشتے مقرر کرے جو تمہاری حفاظت کریں اور اعین وعیون دونوں عین کی جمع ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَلا أَقُولُ لِلَّذِينَ تَزْدَرِي أَعْيُنُكُمْ [هود/ 31] ، اور نہ ان کی نسبت جن کو تم حقارت کی نظر سے دیکھتے ہو یہ کہتا ہوں کہ ۔ رَبَّنا هَبْ لَنا مِنْ أَزْواجِنا وَذُرِّيَّاتِنا قُرَّةَ أَعْيُنٍ [ الفرقان/ 74] اے ہمارے پروردگار ہم کو ہماری بیویوں کی طرف سے آ نکھ کی ٹھنڈک عطا فرما ۔ اور استعارہ کے طور پر عین کا لفظ کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے جو مختلف اعتبارات سے آنکھ میں پائے جاتے ہیں ۔ مشکیزہ کے سوراخ کو عین کہا جاتا ہے کیونکہ وہ ہیئت اور اس سے پانی بہنے کے اعتبار سے آنکھ کے مشابہ ہوتا ہے ۔ پھر اس سے اشتقاق کے ساتھ کہا جاتا ہے ۔ سقاء عین ومعین پانی کی مشک جس سے پانی ٹپکتا ہو عین قر بتک اپنی نئی مشک میں پانی ڈالواتا کہ تر ہو کر اس میں سلائی کے سوراخ بھر جائیں ، جاسوس کو عین کہا جاتا ہے کیونکہ وہ دشمن پر آنکھ لگائے رہتا ہے جس طرح کو عورت کو فرج اور سواری کو ظھر کہا جاتا ہے کیونکہ ان دونوں سے مقصود یہی دو چیزیں ہوتی ہیں چناچنہ محاورہ ہے فلان یملک کذا فرجا وکذا ظھرا ( فلاں کے پاس اس قدر لونڈ یاں اور اتنی سواریاں ہیں ۔ (3) عین بمعنی سونا بھی آتا ہے کیونکہ جو جواہر میں افضل سمجھا جاتا ہے جیسا کہ اعضاء میں آنکھ سب سے افضل ہوتی ہے اور ماں باپ دونوں کی طرف سے حقیقی بھائیوں کو اعیان الاخوۃ کہاجاتا ہے ۔ (4) بعض نے کہا ہے کہ عین کا لفظ جب ذات شے کے معنی میں استعمال ہوجی سے کل مالہ عین تو یہ معنی مجاز ہی ہوگا جیسا کہ غلام کو رقبۃ ( گردن ) کہہ دیا جاتا ہے اور عورت کو فرج ( شرمگاہ ) کہہ دیتے ہیں کیونکہ عورت سے مقصود ہی یہی جگہ ہوتی ہے ۔ (5) پانی کے چشمہ کو بھی عین کہاجاتا ہے ۔ کیونکہ اس سے پانی ابلتا ہے جس طرح کہ آنکھ سے آنسو جاری ہوتے ہیں اور عین الماء سے ماء معین کا محاورہ لیا گیا ہے جس کے معنی جاری پانی کے میں جو صاف طور پر چلتا ہوا دکھائی دے ۔ اور عین کے معنی جاری چشمہ کے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : عَيْناً فِيها تُسَمَّى سَلْسَبِيلًا[ الإنسان/ 18] یہ بہشت میں ایک چشمہ ہے جس کا نام سلسبیل ہے ۔ وَفَجَّرْنَا الْأَرْضَ عُيُوناً [ القمر/ 12] اور زمین میں چشمے جاری کردیئے ۔ فِيهِما عَيْنانِ تَجْرِيانِ [ الرحمن/ 50] ان میں دو چشمے بہ رہے ہیں ۔ يْنانِ نَضَّاخَتانِ [ الرحمن/ 66] دو چشمے ابل رہے ہیں ۔ وَأَسَلْنا لَهُ عَيْنَ الْقِطْرِ [ سبأ/ 12] اور ان کیلئے ہم نے تانبے کا چشمہ بہا دیا تھا ۔ فِي جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ [ الحجر/ 45] باغ اور چشموں میں ۔ مِنْ جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ [ الشعراء/ 57] باغ اور چشمے اور کھیتیاں ۔ عنت الرجل کے معنی ہیں میں نے اس کی آنکھ پر مارا جیسے راستہ کے معنی ہوتے ہیں میں نے اس کے سر پر مارا فادتہ میں نے اس کے دل پر مارا نیز عنتہ کے معنی ہیں میں نے اسے نظر بد لگادی جیسے سفتہ کے معنی ہیں میں نے اسے تلوار سے مارا یہ اس لئے کہ اہل عرب کبھی تو اس عضو سے فعل مشتق کرتے ہیں جس پر مارا جاتا ہے اور کبھی اس چیز سے جو مار نے کا آلہ ہوتی ہے جیسے سفتہ ورمحتہ چناچہ یدیتہ کا لفظ ان ہر دومعنی میں استعمال ہوتا ہے یعنی میں نے اسے ہاتھ سے مارا یا اس کے ہاتھ پر مارا اور عنت البئر کے معنی ہیں کنواں کھودتے کھودتے اس کے چشمہ تک پہنچ گیا قرآن پاک میں ہے :إِلى رَبْوَةٍ ذاتِ قَرارٍ وَمَعِينٍ [ المؤمنون/ 50] ایک اونچی جگہ پر جو رہنے کے لائق تھی اور ہوا پانی جاری تھا ۔ فَمَنْ يَأْتِيكُمْ بِماءٍ مَعِينٍ [ الملک/ 30] تو ( سوائے خدا کے ) کون ہے جو تمہارے لئے شیریں پال کا چشمہ بہالائے ۔ بعض نے کہا ہے کہ معین میں لفظ میم حروف اصلیہ سے ہے اور یہ معنت سے مشتق ہے جسکے معنی ہیں کسی چیز کا سہولت سے چلنا یا بہنا اور پر بھی بولا جاتا ہے اور وحشی گائے کو آنکھ کی خوب صورتی کہ وجہ سے اعین دعیناء کہاجاتا ہے اس کی جمع عین سے پھر گاواں وحشی کے ساتھ تشبیہ دے کر خوبصورت عورتوں کو بھی عین کہاجاتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : قاصِراتُ الطَّرْفِ عِينٌ [ الصافات/ 48] جو نگاہیں نیچی رکھتی ہوں ( اور ) آنکھیں بڑی بڑی ۔ وَحُورٌ عِينٌ [ الواقعة/ 22] اور بڑی بڑی آنکھوں والی حوریں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٥۔ ١٨) اب اللہ تعالیٰ اہل ایمان یعنی حضرت ابوبکر صدیق اور ان کے ساتھیوں کا مقام بیان فرمتا ہے کہ کفر و شرک اور برائیوں سے بچنے والے باغوں اور پاکیزہ پانی کے چشموں میں ہوں گے اور جنت میں ان کے پروردگار نے جو انہیں اجر وثواب عطا کیا ہوگا اس سے لطف اندوز ہورہے ہوں گے یا یہ کہ دنیا میں ان کے پروردگار نے جو ان کو حکم دیا تھا اس کی کمال کے ساتھ تعمیل کرنے والے ہوں گے اور کیوں نہ ہوں وہ اس ثواب اور درجات کی بلندی سے پہلے بھی دنیا میں قول فعل سے نیکوکار تھے، رات کو بہت کم سوتے تھے اور آخر شب میں خوب نمازیں پڑھا کرتے تھے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٥{ اِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ جَنّٰتٍ وَّعُیُوْنٍ ۔ } ” یقینا اہل تقویٰ باغات اور چشموں کے اندر ہوں گے۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

13 In this context the word muttaqi (the righteous) clearly implies those people who believed in the Hereafter when they were given the news of it by the Book of Allah and His Messenger, and adopted the attitude and way of life that they were taught for success in the life hereafter, and refrained from the way about which they had been told that it would involve man in the torment of God.

سورة الذّٰرِیٰت حاشیہ نمبر :13 اس سیاق و سباق میں لفظ متقی صاف طور پر یہ معنی دے رہا ہے کہ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے خدا کی کتاب اور اس کے رسول کی دی ہوئی خبر پر یقین لا کر آخرت کو مان لیا ، اور وہ رویہ اختیار کر لیا جو حیات اخروی کی کامیابی کے لیے انہیں بتایا گیا تھا ، اور اس روش سے اجتناب کیا جس کے متعلق انہیں بتا دیا گیا تھا کہ یہ خدا کے عذاب میں مبتلا کرنے والی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٥۔ ٢٣۔ اوپر اہل دوزخ کا ذکر فرما کر ان آیتوں میں اہل جنت کا ذکر فرمایا ادنیٰ درجہ کا متقی وہ ہے جو شرک اور ریاکاری سے باز رہے اب اس کے بعد اللہ تعالیٰ کے امر و نہی کا جو شخص جس قدر پابند ہوگا اسی قدر اس کا مرتبہ متقیوں میں ہوگا پاتے ہیں جو دیا ان کو ان کے رب نے کا مطلب یہ ہے کہ ان کے نیک عملوں کی جزا میں اللہ تعالیٰ نے جو بےحساب جنت کی نعمتیں ان کو عنایت فرمائیں وہ انہوں نے بھر پائیں اور وہ لوگ ان نعمتوں سے خوش اور راضی ہیں۔ صحیح ١ ؎ بخاری ‘ مسلم اور ترمذی کی ابو سعید کی حدیث ایک جگہ ذکر کی جا چکی ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اہل جنت سے پوچھے گا کہ تمہارے عملوں کی جزا سے بڑھ کر اپنی رحمت سے جو نعمتیں میں نے تم کو دیں ان سے تم خوش ہو وہ کہیں گے کہ یا اللہ ہم بہت خوش ہیں۔ یہ ٹکڑا اس حدیث کا آیت کے ٹکڑے کی پوری تفسیر ہے۔ بعض مفسروں نے آیت کے اس ٹکڑے کے اور معنی بھی بیان کئے ہیں لیکن صحیح حدیث کے موافق صحیح معنی آیت کے یہی ہیں جو بیان کئے گئے ہیں وہ تھے اس سے پہلے نیکی والے کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں یہ لوگ ریا کاری سے بچ کر خالص عقبیٰ کے ثواب کی نیت سے نیک عمل کیا کرتے تھے اس کے بدلے میں ان کو جنت ملی ہے۔ صحیح ٢ ؎ مسلم کی حضرت عمر کی حدیث مشہور ہے جس میں حضرت جبرئیل (علیہ السلام) نے سائل بن کر چند مسئلے پوچھے ہیں اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے جوابات میں احسان کے یہ معنی بتائے ہیں کہ عبادت کے وقت یا تو آدمی یہ خیال کر ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کو دیکھ رہا ہے ورنہ کم سے کم اتنا خیال تو چاہئے کہ اللہ اس کو دیکھ رہا ہے اسی لئے آیت میں محسنین کا لفظ فرمایا تاکہ معلوم ہوجائے کہ قابل قبول عبادت میں بغیر ریا کاری کے خالص عقبیٰ کے ثواب کی نیت ضروری ہے۔ ابو دائود ٣ ؎ اور نسائی میں معتبر سند سے ابو امام کی حدیث ہے۔ جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ بغیر عقبیٰ کے ثواب کی خالص نیت کے کوئی عمل اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قبول نہیں ہوتا۔ وہ تھے رات کو تھوڑا سوتے کا مطلب یہ کہ رات کو سونا کم اور عبادت بہت یہ ان لوگوں کی دنیا میں عادت تھی صحیح ٤ ؎ بخاری و مسلم و نسائی اور ابو داؤود میں عمرو بن العاص سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ کو دائود (علیہ السلام) کی عبادت کا طریقہ بہت پسند تھا۔ پھر فرمایا۔ دائود (علیہ السلام) رات کا چوتھائی حصہ عبادت میں گزار کرتے تھے مسلم ٥ ؎ کی روایت میں یہ بھی ہے کہ عبد اللہ بن عمرو بن العاص نے دائود (علیہ السلام) کی عبادت کا حال آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سن کر یہ کہا کہ مجھ میں اس سے افضل عبادت ادا کرنے کی طاقت ہے ‘ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا نہیں اس سے افضل طریقہ عبادت کا اللہ تعالیٰ کے نزدیک نہیں ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ جس شخص نے چوتھائی حصہ رات کا عبادت میں گزارا تو اس کے حق میں یہ کہا جائے گا کہ وہ رات کو سویا کم اور افضل مرتبہ عبادت کا اس نے ادا کرلیا۔ صبح کے وقتوں میں معافی مانگنے کا مطلب یہ ہے کہ پچھلی رات سے لے کر صبح صادق تک خاص طور پر قبولیت کے وقت میں یہ لوگ اپنے گناہوں کی معافی دنیا میں اللہ تعالیٰ سے مانگا کرتے تھے اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کے گناہوں کو معاف کردیا۔ صحیح بخاری ١ ؎ و مسلم میں ابوہریرہ سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب تیسرا حصہ رات کا باقی رہتا ہے تو ہر رات کو اللہ تعالیٰ اول آسمان پر نزول فرما کر ارشاد فرماتا ہے کون توبہ استفغار کرتا ہے تاکہ میں اس کی مغفرت کروں۔ اس حدیث کا یہ ٹکڑا آیت کے اس ٹکڑے کی تفسر ہے کیونکہ آیت میں صبح کی استغفار کی تعریف کی گی ہے اور حدیث میں اس تعریف کا سبب سمجھایا گیا ہے ان کے مال میں حصہ تھا مانگتے اور ہارے کا اس کا مطلب یہ ہے کہ سوا عبادت بدنی کے مالی عبادت بھی ان لوگوں کی عادت تھی۔ یہ نفلی صدقہ کا ذکر ہے کیونکہ یہ سورة مکی ہے اور زکوٰۃ اکثر سلف کے نزدیک مدینہ میں فرض ہوئی ہے۔ طبرانی کبیر ٢ ؎ میں معتبر سند سے ابو امامہ کی حدیث ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا چھپا کر صدقہ خیرات کا کرنا ‘ اللہ تعالیٰ کے غصہ کو ٹھنڈا کرتا ہے سائل وہ ہے جو سوال کرے اور محروم وہ ہے جو باوجود تنگ دست ہونے کے لحاظ کے مارے کسی سے سوال نہ کرے۔ اوپر سے حشر کا جو ذکر تھا اب آگے اس سلسلہ کو پورا کرنے کے لئے فرمایا کہ جو صاحب قدرت آسمان سے مینہ برسا کر زمین سے مثلاً ایک اناج کے دانے سے ہزاروں دانے اور ایک میوے کی گٹھلی سے ہزاروں میوے کی چیزیں پیدا کرتا ہے اور جس نے خلاف عقل ایک بوند پانی سے انسان کو پیدا کرکے بچہ سے بڑھاپے تک اس میں طرح طرح کے نمونے رکھے جو سب کی آنکھوں کے سامنے ہیں۔ یہ سب باتیں ایسے لوگوں کے لئے پوری حشر کی نشانیاں ہیں جو علم ازلی الٰہی میں حق بات پر یقین لانے والے ٹھہرے ہیں۔ ہاں علم ازل الٰہی میں جو گمراہ قرار پا چکے ہیں وہ ان سب نشانیوں کو آنکھوں سے دیکھ دیکھ کر بھی طرح طرح کے شک و شبہ میں رہیں گے اور اسی حالت میں مر کر آخر کو دوزخی ہو کر اٹھیں گے۔ معتبر سند سے مسند ٣ ؎ امام احمد میں حضرت عائشہ (رض) کی حدیث منکر نکیر کے سوال و جواب کے ذکر میں ہے جس کے ایک ٹکڑے کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قبر میں جو نیک شخص اللہ کے فرشتوں کے سوال کا اچھی طرح جواب ادا کردیتا ہے تو وہ فرشتے اس شخص سے کہتے ہیں اے شخص تو دنیا میں دین کی باتوں کو یقین جان کر اپنی زندگی بستر کرتا تھا جس یقین کے سبب سے تو دین کی باتوں سے غافل نہیں رہا اور اسی یقین کی حالت پر تو مرا۔ اب انشاء اللہ تعالیٰ اسی حالت پر تو قیامت کے دن قبر سے اٹھے گا جو شخص ان فرشتوں کا جواب اچھی طرح نہیں دیتا اس سے وہ فرشتے ہیں تو شک کی حالت میں جیا اور مرا ‘ اور اسی حالت میں تو قیامت کے دن قبر سے اٹھے گا۔ جن اہل یقین کا آیت میں ذکر وے ان کی حالت کی اور ان کے مقابل اہل شک کی حدیث کے اس ٹکڑے میں تفسیر ہے۔ پھر قسم کھا کر فرمایا کہ جس طرح تم لوگ آپس میں بات چیت وعدہ و عید کرتے ہو اور اس پر دنیا کے ہر طرح کے معاملات چلاتے ہو۔ اللہ تعالیٰ نے جو جزا و سزا کا وعدہ تم سے کیا ہے اس پر اگر تم اپنی آپس کی باتوں کے برابر بھی بھروسا کرو گے تو عقبیٰ کی طرف سے یہ غفلت جو تمہارے دل پر چھائی ہوئی ہے وہ جاتی رہے گی اور عقبیٰ کے درست کرنے کا خیال تمہارے دل میں جم جائے گا اور اللہ کے ساتھ تمہارا معاملہ اچھا ہوجائے گا۔ ورنہ مرنے کے بعد وہ تکلیف اٹھانی پڑے گی جو بیان سے باہر ہے ترمذی ١ ؎ وغیرہ میں ابی بکرہ سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ ایک شخص نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا کہ حضرت نیک آدمی کی کیا علامت ہے آپ نے فرمایا جس کی عمر بڑی ہو اور نیک کاموں میں مشغول رہے اور بد آدمی وہ ہے جو اس حالت کے برخلاف ہو۔ ترمذی نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے۔ (١ ؎ صحیح مسلم باب الجنۃ وصفۃ نعیمھا و اھلھا ص ٣٧٨ ج ٢ و صحیح بخاری باب صفۃ الجنۃ والنار ص ٩٦٩ ج ٢۔ ) (٢ ؎ صحیح مسلم کتاب الایمان ص ٢٧ ج ٢۔ ) (٣ ؎ الترغیب والترہیب باب اترغیب فی الاخلاص والصدق الخ ص ٣٦ ج ١۔ ) (٤ ؎ صحیح بخاری باب احب الصلوٰۃ الی اللہ صلوٰۃ دائود ص ٤٨٦ ج ١۔ ) (٥ ؎ صحیح مسلم باب نھی عن صوم الدھر الخ ص ٣٦٥ ج ١۔ ) (١ ؎ صحیح مسلم باب صلوۃ اللیل الخ ص ٢٥٨ ج ١ و صحیح بخاری باب الدعاء والصلوٰۃ اخر اللیل الخ ص ١٥٣ ج ١۔ ) (٢ ؎ الترغیب والترہیب باب الرغیب فی صدقۃ السر ص ٣٩ ج ٢۔ ) (٣ ؎ الترغیب والترہیب باب ما جاء فی عذاب القبر و نعیمہ الخ ص ٦٩٨ ج ٤۔ ) (١ ؎ جامع ترمذی باب ماجاء فی طول العمر للمومن ص ٦٨ ج ٢۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(51:15) اوپر منکرین کا مال بیان ہوا اب مومنین کے انعام و اکرام کا ذکر ہے۔ عیون : جمع ہے عین کی، بمعنی چشم یا چشمہ۔ قرآن مجید میں اس لفظ کا استعمال انہی دو معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ گو وہ بہت سے مختلف معانی میں مستعمل ہے۔ امام راغب (رح) کے نزدیک اس کے اصل معنی آنکھ کے ہیں۔ اور دیگر معانی میں اس کا استعمال بطور استعارہ ہے چناچہ ان کے خیال میں چشمہ کو جو عین کہتے ہیں وہ اسی تشبیہ کی بناء پر کہتے ہیں کہ جس طرح آنکھ سے قطرات اشک ابلتے ہیں اسی طرح چشمہ سے پانی ابلتا ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یہ گروہ گروہ متقین ہے۔ یہ جاگنے والے ہیں۔ یہ شدید احساس رکھتے ہیں کہ اللہ دیکھ رہا ہے۔ وہ اپنے نفس کے بارے میں بھی حساس ہیں۔ یہ لوگ۔ فی جنت وعیون (١٥ : ١٥) ” باغوں اور چشموں میں ہوں گے “ اور۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

متقی بندوں کے انعامات کا اور دنیا میں اعمال صالحہ میں مشغول رہنے کا تذکرہ مکذبین کی سزا بتانے کے بعد مومنین متقین کا انعام بتایا اور فرمایا کہ متقی لوگ باغوں میں چشموں میں ہوں گے ان کے رب کی طرف سے انہیں وہاں جو کچھ دیا جائے گا اسے (بڑی خوشی سے) لینے والے ہوں گے، دنیا میں یہ حضرات گناہوں سے تو بچتے ہی تھے جس کی وجہ سے انہیں متقین کے لقب سے سرفراز فرمایا، اعمال صالحہ بھی بڑی خوبی کے ساتھ انجام دیتے تھے اور اس کی وجہ سے انہیں محسنین کے لقب سے ملقب فرمایا ان کے نیک کاموں میں ایک بڑا قیمتی عمل یہ تھا کہ رات کو بہت کم سوتے تھے نمازیں پڑھتے رہتے تھے دنیا سوتی رہتی اور یہ لوگ جاگتے رہتے تھے۔ اللہ تعالیٰ سے لو لگاتے تھے۔ قال صاحب الروح : ناقلاً عن الحسن : کا بدوا قیام اللیل لا ینامون منہ الا قلیلا، وعن عبداللّٰہ بن رواحة رضی اللّٰہ عنہ ھجعوا قلیلاً ثم قاموا۔ یہ لوگ راتوں کو نماز پڑھتے اور راتوں کے آخری حصہ میں استغفار کرتے تھے انہیں راتوں رات نماز پڑھنے پر غرور نہیں تھا اپنے اعمال کو بارگاہ خداوندی میں پیش کرنے کے لائق نہیں سمجھتے تھے کوتاہیوں کی وجہ سے استغفار کرتے تھے۔ اہل ایمان کا یہ طریقہ ہے کہ نیکی بھی کریں اور استغفار بھی کریں تاکہ کوتاہی کی تلافی ہوجائے۔ ان حضرات کی جسمانی عبادت کا تذکرہ فرما کر ان کے انفاق مالی کا تذکرہ فرمایا کہ ان کے مالوں میں حق ہے سوال کرنے والوں کے لیے اور محروم کے لیے یعنی اپنے مالوں کا جو حصہ اہل حاجت کو دیتے ہیں اس کے دینے کا ایسا اہتمام کرتے ہیں جیسے ان کے ذمہ واجب ہو اس لیے اسے حق سے تعبیر فرمایا۔ لفظ سائل کا ترجمہ تو معلوم ہے محروم کا کیا مطلب ہے ؟ مفسرین نے اس کے کئی معنی لکھے ہیں بعض حضرات نے فرمایا کہ سائل کے مقابلہ میں ہے یعنی جو شخص سوال نہیں کرتا وہ محروم ہے جو سوال نہیں کرتا اس لیے محروم رہ جاتا ہے کہ لوگ اس کا حال جانتے نہیں اور وہ خود بتاتا نہیں لہٰذا دینے والے اس کی طرف دھیان نہیں کرتے۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ مسکین وہ نہیں ہے جسے ایک لقمہ اور دو لقمہ اور ایک کھجور اور دو کھجور لیے لیے پھرتے ہوں لیکن مسکین وہ ہے جس کے پاس حاجت پوری کرنے کے لیے کچھ بھی نہ ہو اور لوگوں کو اس کا پتہ بھی نہ چلے (پتہ چل جاتا تو صدقہ کردیتے) اور وہ سوال کرنے کیلئے کھڑا بھی نہیں ہوتا۔ (رواہ البخاری جلد ١) یعنی وہ اسی طرح اپنی حاجت دبائے ہوئے وقت گزار دیتا ہے، صاحب روح المعانی نے حضرت ابن عباس (رض) سے محروم کا یہ معنی لکھا ہے کہ وہ کمانے کی تدبیریں تو کرتا ہے لیکن دنیا اس سے پشت پھیر لیتی ہے اور وہ لوگوں سے سوال بھی نہیں کرتا۔ پھر حضرت زید بن اسلم (رض) سے نقل کیا ہے کہ محروم وہ ہے جس کے باغوں کا پھل ہلاک ہوجائے اور ایک قول یہ لکھا ہے کہ جس کے مویشی ختم ہوجائیں جن سے اس کا گزارا تھا۔ واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

6:۔ ” ان المتقین۔ تا۔ والمحروم “ یہ بشارت اخرویہ ہے اور رفع عذاب کے لیے امور ثلاثہ کا بیان ہے یعنی شرک نہ کرو، ظلم نہ کرو اور احسان کرو۔ المتقین، شرک سے بچنے والے۔ یہ امر اول کا بیان ہے۔ یہ لوگ جنت کے باغوں اور چشموں میں ہوں گے اور وہاں اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کو حاصل کریں گے اور ان سے متمتع ہوں گے۔ ” انہم کانوا قبل ذلک محسنین “ یہ امر دوم کا بیان ہے یعنی وہ اس سے پہلے دنیا میں ظلم نہیں کرتے تھے۔ ” کانوقا قلیلا۔ الایۃ “ ” ما “ زائدہ ہے وہ رات کو اللہ کی عبادت میں مصروف رہتے اور نیند کم کیا کرتے تھے۔ ” وباالاسحار۔ الایۃ “ اور بوقت سحر اٹھ اٹھ کر خدا سے اپنے گناہوں کی معافی مانگا کرتے تھے۔ ” وفی اموالہم ا۔ الایۃ “ اور ان کے مال میں ہر سائل اور سوال نہ کرنے والے پر محتاج کا حصہ تھا یعنی محتاجوں اور مسکینوں پر احسان کیا کرتے تھے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(15) البتہ پرہیزگار اور ڈرنے والے لوگ باغوں میں اور چشموں میں ہوں گے۔