Surat uz Zaariyaat

Surah: 51

Verse: 16

سورة الذاريات

اٰخِذِیۡنَ مَاۤ اٰتٰہُمۡ رَبُّہُمۡ ؕ اِنَّہُمۡ کَانُوۡا قَبۡلَ ذٰلِکَ مُحۡسِنِیۡنَ ﴿ؕ۱۶﴾

Accepting what their Lord has given them. Indeed, they were before that doers of good.

ان کے رب نے جو کچھ انہیں عطا فرمایا ہےاسے لے رہے ہونگے وہ تو اس سے پہلے ہی نیکوکار تھے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

اخِذِينَ مَا اتَاهُمْ رَبُّهُمْ ... Taking joy in the things which their Lord has given them. His statement; اخِذِينَ (Taking) describes the state of the people of Taqwa in the midst of gardens and springs. They will receive what their Lord gives them, meaning, delight, happiness and favors. Allah the Exalted and Most Honored said, ... إِنَّهُمْ كَانُوا قَبْلَ ذَلِكَ ... Verily, they were before that, (in the life of the world), ... مُحْسِنِينَ good doers, As He said: كُلُواْ وَاشْرَبُواْ هَنِييَاً بِمَأ أَسْلَفْتُمْ فِى الاٌّيَّامِ الْخَالِيَةِ Eat and drink at ease for that which you have sent on before you in days past! (69:24) Allah the Exalted described the good acts that they performed, كَانُوا قَلِيلًا مِّنَ اللَّيْلِ مَا يَهْجَعُونَ

حسن کا رکردگی کے انعامات پرہیزگار اللہ سے ڈرنے والے لوگوں کا انجام بیان ہو رہا ہے کہ یہ قیامت کے دن جنتوں میں اور نہروں میں ہوں گے بخلاف ان بد کرداروں کے جو عذاب و سزا ، طوق و زنجیر ، سختی اور مار پیٹ میں ہوں گے ۔ جو فرائض الہٰی ان کے پاس آئے تھے یہ ان کے عامل تھے اور ان سے پہلے بھی وہ اخلاص سے کام کرنے والے تھے ۔ لیکن اس تفسیر میں ذرا تامل ہے دو وجہ سے اول تو یہ کہ یہ تفسیر حضرت ابن عباس کی کہی جاتی ہے لیکن سند صحیح سے ان تک نہیں پہنچتی بلکہ اس کی یہ سند بالکل ضعیف ہے دوسرے یہ کہ ( اخذین ) کا لفظ حال ہے اگلے جملے سے تو یہ مطلب ہوا کہ متقی لوگ جنت میں اللہ کی دی ہوئی نعمتیں حاصل کر رہے ہوں گے اس سے پہلے وہ بھلائی کے کام کرنے والے تھے یعنی دنیا میں جیسے اللہ تعالیٰ جل جلالہ نے اور آیتوں میں فرمایا آیت ( كُلُوْا وَاشْرَبُوْا هَنِيْۗئًۢا بِمَآ اَسْلَفْتُمْ فِي الْاَيَّامِ الْخَالِيَةِ 24؀ ) 69- الحاقة:24 ) یعنی دار دنیا میں تم نے جو نیکیاں کی تھیں ان کے بدلے اب تم یہاں شوق سے پاکیزہ و پسندیدہ کھاتے پیتے رہو ۔ پھر اللہ تبارک وتعالیٰ ان کے عمل کے اخلاص یعنی ان کے احسان کی تفصیل بیان فرما رہا ہے کہ یہ رات کو بہت کم سویا کرتے تھے ۔ بعض مفسرین کہتے ہیں یہاں ( ما ) نافیہ ہے تو بقول حضرت ابن عباس وغیرہ یہ مطلب ہو گا کہ ان پر کوئی رات ایسی نہ گذرتی تھی جس کا کچھ حصہ یاد الٰہی میں نہ گذارتے ہوں خواہ اول وقت میں کچھ نوافل پڑھ لیں خواہ درمیان میں ۔ یعنی کچھ نہ کچھ کسی نہ کسی وقت نماز عموماً ہر رات پڑھ ہی لیا کرتے تھے ساری رات سوتے سوتے نہیں گزارتے تھے ۔ حضرت ابو العالیہ وغیرہ فرماتے ہیں یہ لوگ مغرب عشاء کے درمیان کچھ نوافل پڑھ لیا کرتے تھے ۔ امام ابو جعفر باقر فرماتے ہیں مراد یہ ہے کہ عشاء کی نماز پڑھنے سے پہلے نہیں سوتے تھے ۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ ( ما ) یہاں موصولہ ہے یعنی ان کی نیند رات کی کم تھی کچھ سوتے تھے کچھ جاگتے تھے اور اگر دل لگ گیا تو صبح ہو جاتی تھی اور پھر پچھلی رات کو جناب باری میں گڑ گڑا کر توبہ استغفار کرتے تھے حضرت احنف بن قیس اس آیت کا یہ مطلب بیان کر کے پھر فرماتے تھے افسوس مجھ میں یہ بات نہیں آپ کے شاگرد حسن بصری کا قول ہے کہ آپ اکثر فرمایا کرتے تھے جنتیوں کے جو اعمال اور جو صفات بیان ہوئے ہیں ۔ میں جب کبھی اپنے اعمال و صفات کو ان کے مقابلے میں رکھتا ہوں تو بہت کچھ فاصلہ پاتا ہوں ۔ لیکن الحمد للہ جہنمیوں کے عقائد کے بالمقابل جب میں اپنے عقائد کو لاتا ہوں تو میں دیکھتا ہوں کہ وہ لوگ تو بالکل ہی خیر سے خالی تھے وہ کتاب اللہ کے منکر ، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منکر ، وہ موت کے بعد کی زندگی کے منکر ، پس ہماری تو حالت وہی ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس قسم کے لوگوں کی بتائی ہے ( خَلَطُوْا عَمَلًا صَالِحًا وَّاٰخَرَ سَـيِّـــًٔـا ۭعَسَى اللّٰهُ اَنْ يَّتُوْبَ عَلَيْهِمْ ۭاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ ١٠٢؁ ) 9- التوبہ:102 ) یعنی نیکیاں بدیاں ملی جلی ۔ حضرت زید بن اسلم سے قبیلہ بنو تمیم کے ایک شخص نے کہا اے ابو سلمہ یہ صفت تو ہم میں نہیں پائی جاتی کہ ہم رات کو بہت کم سوتے ہوں بلکہ ہم تو بہت کم وقت عبادت اللہ میں گذارتے ہیں تو آپ نے فرمایا وہ شخص بھی بہت ہی خوش نصیب ہے جو نیند آئے تو سو جائے اور جاگے تو اللہ سے ڈرتا رہے ، حضرت عبداللہ بن سلام فرماتے ہیں جب شروع شروع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ شریف میں تشریف لائے تو لوگ آپ کی زیارت کے لئے ٹوٹ پڑے اور اس مجمع میں میں بھی تھا واللہ آپ کے مبارک چہرہ پر نظر پڑتے ہی اتنا تو میں نے یقین کر لیا کہ یہ نورانی چہرہ کسی جھوٹے انسان کا نہیں ہو سکتا ۔ سب سے پہلی بات جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی میرے کان میں پڑی یہ تھی کہ آپ نے یہ فرمایا اے لوگو کھانا کھلاتے رہو اور صلہ رحمی کرتے رہو اور سلام کیا کرو اور راتوں کو جب لوگ سوئے ہوئے ہوں نماز ادا کرو تو تم سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہو جاؤ گے ۔ مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جنت میں ایسے بالا خانے ہیں جن کے اندر کا حصہ باہر سے اور باہر کا حصہ اندر سے نظر آتا ہے یہ سن کر حضرت موسیٰ اشعری نے فرمایا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ کن کے لئے ہیں ؟ فرمایا ان کے لئے جو نرم کلام کریں اور دوسروں کو کھلاتے پلاتے رہیں اور جب لوگ سوتے ہوں یہ نمازیں پڑھتے رہیں ۔ حضرت زہری اور حضرت حسن فرماتے ہیں اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ وہ رات کا اکثر حصہ تہجد گذاری میں نکالتے ہیں حضرت ابن عباس اور حضرت ابراہیم نخعی فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ رات کا بہت کم حصہ وہ سوتے ہیں حضرت ضحاک ( کانوا قلیلا ) کو اس سے پہلے کے جملے کے ساتھ ملاتے ہیں اور ( من اللیل ) سے ابتداء بتاتے ہیں لیکن اس قول میں بہت دوری اور تکلف ہے ۔ پھر اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے سحر کے وقت وہ استغفار کرتے ہیں مجاہد وغیرہ فرماتے ہیں یعنی نماز پڑھتے ہیں اور مفسرین فرماتے ہیں راتوں کو قیام کرتے ہیں اور صبح کے ہونے کے وقت اپنے گناہوں کی معافی طلب کرتے ہیں جیسے اور جگہ فرمان باری ہے آیت ( وَالْمُسْـتَغْفِرِيْنَ بِالْاَسْحَارِ 17؀ ) 3-آل عمران:17 ) یعنی سحر کے وقت یہ لوگ استغفار کرنے لگ جاتے ہیں ۔ اگر یہ استغفار نماز میں ہی ہو تو بھی بہت اچھا ہے صحاح وغیرہ میں صحابہ کی ایک جماعت کی کئی روایتوں سے ثابت ہے کہ رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب آخری تہائی رات باقی رہ جاتی ہے اس وقت اللہ تبارک وتعالیٰ ہر رات کو آسمان دنیا کی طرف اترتا ہے اور فرماتا ہے کوئی گنہگار ہے ؟ جو توبہ کرے اور میں اس کی توبہ قبول کروں کوئی استغفار کرنے والا ہے ؟ جو استغفار کرے اور میں اسے بخشوں کوئی مانگنے والا ہے ؟ جو مانگے اور میں اسے دوں ، فجر کے طلوع ہونے تک یہی فرماتا ہے ۔ اکثر مفسرین نے فرمایا کہ نبی اللہ حضرت یقعوب نے اپنے لڑکوں سے جو فرمایا تھا کہ آیت ( سَوْفَ اَسْتَغْفِرُ لَكُمْ رَبِّيْ ۭ اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ 98؀ ) 12- یوسف:98 ) میں اب عنقریب تمہارے لئے استغفار کروں گا اس سے بھی مطلب یہی تھا کہ سحر کا وقت جب آئے گا تب استغفار کروں گا ۔ پھر ان کا یہ وصف بیان کیا جاتا ہے کہ جہاں یہ نمازی ہیں اور حق اللہ ادا کرتے ہیں وہاں لوگوں کے حق بھی نہیں بھولتے زکوٰۃ دیتے ہیں سلوک احسان اور صلہ رحمی کرتے ہیں ان کے مال میں ایک مقررہ حصہ مانگنے والوں اور ان حقداروں کا ہے جو سوال سے بچتے ہیں ۔ ابو داؤد وغیرہ میں ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں سائل کا حق ہے گو وہ گھوڑ سوار ہو ( محروم ) وہ ہے جس کا کوئی حصہ بیت المال میں نہ ہو خود اس کے پاس کوئی کام کاج نہ ہو صنعت و حرفت یاد نہ ہو جس سے روزی کما سکے ۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں اس سے مراد وہ لوگ ہیں کہ کچھ سلسلہ کمانے کا کر رکھا ہے لیکن اتنا نہیں پاتے کہ انہیں کافی ہو جائے ، حضرت ضحاک فرماتے ہیں وہ شخص جو مالدار تھا لیکن مال تباہ ہو گیا چنانچہ یمامہ میں جب پانی کی طغیانی آئی اور ایک شخص کا تمام مال اسباب بہا لے گئی تو ایک صحابی نے فرمایا یہ محروم ہے اور بزرگ مفسرین فرماتے ہیں محروم سے مراد وہ شخص ہے جو حاجت کے باوجود کسی سے سوال نہیں کرتا ۔ ایک حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں مسکین صرف وہی لوگ نہیں جو گھومتے پھرتے ہیں اور جنہیں ایک دو لقمے یا ایک دو کھجوریں تم دے دیا کرتے وہ بلکہ حقیقتًا وہ لوگ بھی مسکین ہیں جو اتنا نہیں پاتے کہ انہیں حاجت نہ رہے اپنا حال قال ایسا رکھتے ہیں کہ کسی پر ان کی حاجت و افلاس ظاہر ہو اور کوئی انہیں صدقہ دے ( بخاری و مسلم ) حضرت عمر بن عبدالعزیز مکے شریف جا رہے تھے کہ راستے میں ایک کتا پاس آکر کھڑا ہو گیا آپ نے ذبح کردہ بکری کا ایک شانہ کاٹ کر اس کی طرف ڈال دیا اور فرمایا لوگ کہتے ہیں یہ بھی محروم میں سے ہے ۔ حضرت شعبی فرماتے ہیں میں تو عاجز آگیا لیکن محروم معنی معلوم نہ کر سکا ۔ امام ابن جریر فرماتے ہیں محروم وہ ہے جس کے پاس مال نہ رہا ہو خواہ وجہ کچھ بھی ہو ۔ یعنی حاصل ہی نہ کر سکا کمانے کھانے کا سلیقہ ہی نہ ہو یا کام ہی ناچلتا ہو یا کسی آفت کے باعث جمع شدہ مال ضائع ہو گیا ہو وغیرہ ۔ ایک مرتبہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک چھوٹا سا لشکر کافروں کی سرکوبی کے لئے روانہ فرمایا اللہ نے انہیں غلبہ دیا اور مال غنیمت بھی ملا پھر کچھ لوگ آپ کے پاس وہ بھی آگئے جو غنیمت حاصل ہونے کے وقت موجود نہ تھے پس یہ آیت اتری ۔ اس کا اقتضاء تو یہ ہے کہ یہ مدنی ہو لیکن دراصل ایسا نہیں بلکہ یہ آیت مکی ہے ۔ پھر فرماتا ہے یقین رکھنے والوں کے لئے زمین میں بھی بہت سے نشانات قدرت موجود ہیں جو خالق کی عظمت و عزت ہیبت وجلالت پر دلالت کرتے ہیں دیکھو کہ کس طرح اس میں حیوانات اور نباتات کو پھیلا دیا ہے اور کس طرح اس میں پہاڑوں ، میدانوں ، سمندروں اور دریاؤں کو رواں کیا ہے ۔ پھر انسان پر نظر ڈالو ان کی زبانوں کے اختلاف کو ان کے رنگ و روپ کے اختلاف کو ان کے ارادوں اور قوتوں کے اختلاف ہو ان کی عقل و فہم کے اختلاف کو ان کی حرکات و سکنات کو ان کی نیکی بدی کو دیکھو ان کی بناوٹ پر غور کرو کہ ہر عضو کیسی مناسب جگہ ہے ۔ اسی لئے اس کے بعد ہی فرمایا خود تمہارے وجود میں ہی اس کی بہت سی نشانیاں ہیں ۔ کیا تم دیکھتے نہیں ہو ؟ حضرت قتادہ فرماتے ہیں جو شخص اپنی پیدائش میں غور کرے گا اپنے جوڑوں کی ترکیب پر نظر ڈالے گا وہ یقین کر لے گا کہ بیشک اسے اللہ نے ہی پیدا کیا اور اپنی عبادت کے لئے ہی بنایا ہے ۔ پھر فرماتا ہے آسمان میں تمہاری روزی ہے یعنی بارش اور وہ بھی جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے یعنی جنت ، حضرت واصل احدب نے اس آیت کی تلاوت کی اور فرمایا افسوس میرا رزق تو آسمانوں میں ہے اور میں اسے زمین میں تلاش کر رہا ہوں ؟ یہ کہہ کر بستی چھوڑی اجاڑ جنگل میں چلے گئے ۔ تین دن تک تو انہیں کچھ بھی نہ ملا لیکن تیسرے دن دیکھتے ہیں کہ تر کھجوروں کا ایک خوشہ ان کے پاس رکھا ہوا ہے ۔ ان کے بھائی ساتھ ہی تھے دونوں بھائی آخری دم تک اسی طرح جنگلوں میں رہے ۔ پھر اللہ کریم خود اپنی قسم کھا کر فرماتا ہے کہ میرے جو وعدے ہیں مثلا قیامت کے دن دوبارہ جلانے کا جزا سزا کا یہ یقینا سراسر سچے اور قطعًا بےشبہ ہو کر رہنے والے ہیں ، جیسے تمہاری زبان سے نکلے ہوئے الفاظ میں شک نہیں ہوتا اسی طرح تمہیں ان میں بھی کوئی شک ہرگز ہرگز نہ کرنا چاہیے ۔ حضرت معاذ جب کوئی بات کہتے تو فرماتے یہ بالکل حق ہے جیسے کہ تیرا یہاں ہونا حق ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اللہ انہیں برباد کرے جو اللہ کی قسم کو بھی نہ مانیں یہ حدیث مرسل ہے یعنی تابعی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں ۔ صحابی کا نام نہیں لیتے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٩] یعنی اللہ تعالیٰ انہیں جو بھی نعمتیں عطا فرمائے گا بخوشی انہیں قبول کرتے جائیں گے اور یہ ان کے ان نیک اعمال کا بدلہ ہوگا جو وہ دنیا میں بجا لاتے رہے۔ ان اعمال کا ذکر آئندہ آیات میں آرہا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) اخذین ما اتھم ربھم : اس کے لفظی معنی اگرچہ یہی ہیں کہ ” وہ لینے والے ہوں گے جو ان کا رب انہیں دے گا “ مگر موقع و محل کی مناسبت اور ” اتھم ربھم “ کے لفظ کے تقاضے سے ظاہر ہے کہ یہاں صرف لینا ہی مراد نہیں بلکہ مراد ان کے رب کا انھیں بےحساب دینا اور ان کا اس سے جی بھر کر خوشی خوشی لینا ہے۔ ابو سعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(ان اللہ یقول لاھل الجنۃ یا اھل الجنۃ ! فیقولون لبیک ربنا وسعدیک والخیر فی یدیک ، فیقول ھل رضیتم ؟ فیقولون وما لنا لا ترضی یا رب ! وقد اعطیتنا مالم تعط احداً من خلفک ؟ فیقول الا اعطیکم افضل من ذلک ؟ فیقولون یا رب ! وای شیء افضل من ذلک ؟ فیقول احل علیکم رضوانی فلا اسخط علیکم بعدہ ابداً ) (بخاری، التوحید، باب کلام الرب مع اھل الجنۃ :8518)” اللہ تعالیٰ اہل جنت سے کہے گا :” اے جنت والو ! “ وہ کہیں گے : وہ کہیں گے :” ہم حاضر ہیں اے ہمارے پروردگار ! ہم حاضر ہیں اور ساری خیر تیرے ہی ہاتھ میں ہے۔ “ فرمائے گا :” کیا تم راضی ہوگئے ؟ “ وہ کہیں گے :” ہمیں کیا ہے کہ ہم راضی نہ ہوں جب کہ تو نے ہمیں وہ کچھ عطا فرمایا جو اپنی مخلوق میں سے کسی کو عطا نہیں کیا۔ “ فرمائے گا :” کیا میں تمہیں اس سے بھی افضل چیز نہ دوں ؟ “ وہ کہیں گے :” اے ہمارے رب ! بھلا اس سے فاضل چیز کیا ہے ؟ “ فرمائیگا :” میں تمہیں اپنی رضا اور خوشنودی عطا کرتا ہوں، سو اس کے بعد میں کبھی تم پر ناراض نہیں ہوگا۔ “ (٢) انھم کانوا قبل ذلک محسنین :” ان “ تعلیل کے لئے ہوتا ہے، یعنی یہ نعمت انہیں اس لئے ملے گی کہ وہ اس سے پہلے دنیا میں احسان کرنے والے تھے۔ احسان کی تعریف رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ فرمائی ہے :(ان تعبد اللہ کا تک تراہ، فان لم تکن تراہ فانہ یراک) (بخاری، الایمان، باب سوال جبریل النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) …: ٥٠)” احسان یہ ہے ) کہ تو اللہ کی عبادت اس طرح کرے گویا تو اسے دیکھ رہا ہوے، سو اگر تو اسے نہیں دیکھتا تو یقینا وہ تجھے دیکھ رہا ہے ۔ “ (محسنین “ کا لفظطی معنی ” عاملین الحسنات “ ہے، یعنی وہ نیکیاں کرنے والے تھے۔ آگے ان نیکیوں کی کچھ تفصیل ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اٰخِذِيْنَ مَآ اٰتٰىہُمْ رَبُّہُمْ۝ ٠ ۭ اِنَّہُمْ كَانُوْا قَبْلَ ذٰلِكَ مُحْسِـنِيْنَ۝ ١٦ ۭ أخذ الأَخْذُ : حوز الشیء وتحصیله، وذلک تارةً بالتناول نحو : مَعاذَ اللَّهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنا مَتاعَنا عِنْدَهُ [يوسف/ 79] ، وتارةً بالقهر نحو قوله تعالی: لا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلا نَوْمٌ [ البقرة/ 255] ( اخ ذ) الاخذ ۔ کے معنی ہیں کسی چیز کو حاصل کرلینا جمع کرلینا اور احاطہ میں لے لینا اور یہ حصول کبھی کسی چیز کو پکڑلینے کی صورت میں ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ { مَعَاذَ اللهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنَا مَتَاعَنَا عِنْدَهُ } ( سورة يوسف 79) خدا پناہ میں رکھے کہ جس شخص کے پاس ہم نے اپنی چیز پائی ہے اس کے سو اہم کسی اور پکڑ لیں اور کبھی غلبہ اور قہر کی صورت میں جیسے فرمایا :۔ { لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ } ( سورة البقرة 255) نہ اس پر اونگھ غالب آسکتی اور نہ ہ نیند ۔ محاورہ ہے ۔ ما مَا في کلامهم عشرةٌ: خمسة أسماء، وخمسة حروف . فإذا کان اسما فيقال للواحد والجمع والمؤنَّث علی حدّ واحد، ويصحّ أن يعتبر في الضّمير لفظُه مفردا، وأن يعتبر معناه للجمع . فالأوّل من الأسماء بمعنی الذي نحو : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس/ 18] ثمّ قال : هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس/ 18] لمّا أراد الجمع، وقوله : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل/ 73] ، فجمع أيضا، وقوله : بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة/ 93] . الثاني : نكرة . نحو : نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء/ 58] أي : نعم شيئا يعظکم به، وقوله : فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة/ 271] فقد أجيز أن يكون ما نكرة في قوله : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها [ البقرة/ 26] ، وقد أجيز أن يكون صلة، فما بعده يكون مفعولا . تقدیره : أن يضرب مثلا بعوضة «1» . الثالث : الاستفهام، ويسأل به عن جنس ذات الشیء، ونوعه، وعن جنس صفات الشیء، ونوعه، وقد يسأل به عن الأشخاص، والأعيان في غير الناطقین . وقال بعض النحويين : وقد يعبّر به عن الأشخاص الناطقین کقوله تعالی: إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون/ 6] ، إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت/ 42] وقال الخلیل : ما استفهام . أي : أيّ شيء تدعون من دون اللہ ؟ وإنما جعله كذلك، لأنّ «ما» هذه لا تدخل إلّا في المبتدإ والاستفهام الواقع آخرا . الرّابع : الجزاء نحو : ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ الآية [ فاطر/ 2] . ونحو : ما تضرب أضرب . الخامس : التّعجّب نحو : فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة/ 175] . وأمّا الحروف : فالأوّل : أن يكون ما بعده بمنزلة المصدر كأن الناصبة للفعل المستقبَل . نحو : وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة/ 3] فإنّ «ما» مع رَزَقَ في تقدیر الرِّزْق، والدّلالة علی أنه مثل «أن» أنه لا يعود إليه ضمیر لا ملفوظ به ولا مقدّر فيه، وعلی هذا حمل قوله : بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة/ 10] ، وعلی هذا قولهم : أتاني القوم ما عدا زيدا، وعلی هذا إذا کان في تقدیر ظرف نحو : كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة/ 20] ، كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة/ 64] ، كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء/ 97] . وأما قوله : فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر/ 94] فيصحّ أن يكون مصدرا، وأن يكون بمعنی الذي «3» . واعلم أنّ «ما» إذا کان مع ما بعدها في تقدیر المصدر لم يكن إلّا حرفا، لأنه لو کان اسما لعاد إليه ضمیر، وکذلک قولک : أريد أن أخرج، فإنه لا عائد من الضمیر إلى أن، ولا ضمیر لهابعده . الثاني : للنّفي وأهل الحجاز يعملونه بشرط نحو : ما هذا بَشَراً [يوسف/ 31] «1» . الثالث : الکافّة، وهي الدّاخلة علی «أنّ» وأخواتها و «ربّ» ونحو ذلك، والفعل . نحو : إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] ، إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران/ 178] ، كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال/ 6] وعلی ذلك «ما» في قوله : رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر/ 2] ، وعلی ذلك : قَلَّمَا وطَالَمَا فيما حكي . الرابع : المُسَلِّطَة، وهي التي تجعل اللفظ متسلِّطا بالعمل، بعد أن لم يكن عاملا . نحو : «ما» في إِذْمَا، وحَيْثُمَا، لأنّك تقول : إذما تفعل أفعل، وحیثما تقعد أقعد، فإذ وحیث لا يعملان بمجرَّدهما في الشّرط، ويعملان عند دخول «ما» عليهما . الخامس : الزائدة لتوکيد اللفظ في قولهم : إذا مَا فعلت کذا، وقولهم : إمّا تخرج أخرج . قال : فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم/ 26] ، وقوله : إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما[ الإسراء/ 23] . ( ما ) یہ عربی زبان میں دو قسم پر ہے ۔ اسمی اور حر فی پھر ہر ایک پانچ قسم پر ہے لہذا کل دس قسمیں ہیں ( 1 ) ما اسمی ہو تو واحد اور تذکیر و تانیث کے لئے یکساں استعمال ہوتا ہے ۔ پھر لفظا مفرد ہونے کے لحاظ سے اس کی طرف ضمیر مفرد بھی لوٹ سکتی ہے ۔ اور معنی جمع ہونے کی صورت میں ضمیر جمع کا لانا بھی صحیح ہوتا ہے ۔ یہ ما کبھی بمعنی الذی ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس/ 18] اور یہ ( لوگ ) خدا کے سوا ایسی چیزوں کی پر ستش کرتے ہیں جو نہ ان کا کچھ بگاڑ سکتی ہیں ۔ تو یہاں ما کی طرف یضر ھم میں مفرد کی ضمیر لوٹ رہی ہے اس کے بعد معنی جمع کی مناسب سے هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس/ 18] آگیا ہے اسی طرح آیت کریمہ : ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل/ 73] اور خدا کے سوا ایسوں کو پوجتے ہیں جوان کو آسمانوں اور زمین میں روزیدینے کا ذرہ بھی اختیار نہیں رکھتے میں بھی جمع کے معنی ملحوظ ہیں اور آیت کریمہ : ۔ بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة/ 93] کہ تمہارا ایمان تم کو بری بات بتاتا ہے ۔ میں بھی جمع کے معنی مراد ہیں اور کبھی نکرہ ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء/ 58] بہت خوب نصیحت کرتا ہے ۔ تو یہاں نعما بمعنی شیئا ہے نیز فرمایا : ۔ فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة/ 271] تو وہ بھی خوب ہیں ایت کریمہ : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة/ 26] کہ مچھر یا اس سے بڑھ کر کیس چیز کی میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما نکرہ بمعنی شیاء ہو اور یہ بھی کہ ماصلہ ہو اور اس کا ما بعد یعنی بعوضۃ مفعول ہو اور نظم کلام دراصل یوں ہو أن يضرب مثلا بعوضة اور کبھی استفھا فیہ ہوتا ہے اس صورت میں کبھی کبھی چیز کی نوع یا جنس سے سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی کسی چیز کی صفات جنسیہ یا نوعیہ کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی غیر ذوی العقول اشخاص اور اعیان کے متعلق سوال کے لئے بھی آجاتا ہے ۔ بعض علمائے نحو کا قول ہے کہ کبھی اس کا اطلاق اشخاص ذوی العقول پر بھی ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون/ 6] مگر ان ہی بیویوں یا ( کنیزوں سے ) جو ان کی ملک ہوتی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت/ 42] جس چیز کو خدا کے سوا پکارتے ہیں خواہ وہ کچھ ہی ہو خدا اسے جانتا ہے ۔ میں خلیل نے کہا ہے کہ ماتدعون میں ما استفہامیہ ہے ای شئی تدعون من دون اللہ اور انہوں نے یہ تکلف اس لئے کیا ہے کہ یہ ہمیشہ ابتداء کلام میں واقع ہوتا ہے اور مابعد کے متعلق استفہام کے لئے آتا ہے ۔ جو آخر میں واقع ہوتا ہے جیسا کہ آیت : ۔ ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُالآية [ فاطر/ 2] خدا جو اپنی رحمت کا در وازہ کھول دے اور مثال ماتضرب اضرب میں ہے ۔ اور کبھی تعجب کے لئے ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة/ 175] یہ ( آتش جہنم کیسی بر داشت کرنے والے ہیں ۔ ما حرفی ہونے کی صورت میں بھی پانچ قسم پر ہے اول یہ کہ اس کا بعد بمنزلہ مصدر کے ہو جیسا کہ فعل مستقبل پر ان ناصبہ داخل ہونے کی صورت میں ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة/ 3] اور جو کچھ ہم نے انہیں عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔ تو یہاں ما رزق بمعنی رزق مصدر کے ہے اور اس ما کے بمعنی ان مصدر یہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اس کی طرف کہیں بھی لفظا ما تقدیر اضمیر نہیں لوٹتی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة/ 10] اور ان کے جھوٹ بولتے کے سبب ۔ میں بھی ما مصدر ری معنی پر محمول ہے ۔ اسی طرح اتانیالقوم ماعدا زیدا میں بھی ما مصدر یہ ہے اور تقدیر ظرف کی صورت میں بھی ما مصدر یہ ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة/ 20] جب بجلی ( چمکتی اور ) ان پر روشنی ڈالتی ہے تو اس میں چل پڑتے ہیں ۔ كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة/ 64] یہ جب لڑائی کے لئے آگ جلاتے ہیں ۔ خدا اس کو بجھا دیتا ہے ۔ كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء/ 97] جب ( اس کی آگ ) بجھنے کو ہوگی تو ہم ان کو ( عذاب دینے ) کے لئے اور بھڑ کا دیں گے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر/ 94] پس جو حکم تم کو ( خدا کی طرف سے ملا ہے وہ ( لوگوں ) کو سنا دو ۔ میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما مصدر یہ ہوا اور یہ بھی کہ ما موصولہ بمعنی الذی ہو ۔ یاد رکھو کہ ما اپنے مابعد کے ساتھ مل کر مصدری معنی میں ہونے کی صورت میں ہمیشہ حرفی ہوتا ہے کیونکہ اگر وہ اسی ہو تو اس کی طرف ضمیر کا لوٹنا ضروری ہے پس یہ ارید ان اخرک میں ان کی طرح ہوتا ہے جس طرح ان کے بعد ضمیر نہیں ہوتی جو اس کی طرف لوٹ سکے اسی طرح ما کے بعد بھی عائد ( ضمیر نہیں آتی ۔ دوم ما نافیہ ہے ۔ اہل حجاز اسے مشروط عمل دیتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ ما هذا بَشَراً [يوسف/ 31] یہ آدمی نہیں ہے تیسرا ما کا فہ ہے جو ان واخواتھا اور ( رب کے ساتھ مل کر فعل پر داخل ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں ۔ إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران/ 178] نہیں بلکہ ہم ان کو اس لئے مہلت دیتے ہیں کہ اور گناہ کرلیں ۔ كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال/ 6] گویا موت کی طرف دھکیلے جارہے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر/ 2] کسی وقت کافر لوگ آرزو کریں گے ۔ میں بھی ما کافہ ہی ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ قلما اور لما میں بھی ما کافہ ہوتا ہے ۔ چہارم ما مسلمۃ یعنی وہ ما جو کسی غیر عامل کلمہ کو عامل بنا کر مابعد پر مسلط کردیتا ہے جیسا کہ اذا ما وحیتما کا ما ہے کہ ما کے ساتھ مرکب ہونے سے قبل یہ کلمات غیر عاملہ تھے لیکن ترکیب کے بعد اسمائے شرط کا سا عمل کرتے ہیں اور فعل مضارع کو جز م دیتے ہیں جیسے حیثما نقعد اقعد وغیرہ پانچواں مازائدہ ہے جو محض پہلے لفظ کی توکید کے لئے آتا ہے جیسے اذا مافعلت کذا ( جب تم ایسا کرو ماتخرج اخرج اگر تم باہر نکلو گے تو میں بھی نکلو نگا قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم/ 26] اگر تم کسی آدمی کو دیکھوں ۔ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما [ الإسراء/ 23] اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھا پے کو پہنچ جائیں ۔ أتى الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ «5» ، وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ «6» . والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام/ 40] ، وقوله تعالی: أَتى أَمْرُ اللَّهِ [ النحل/ 1] ، وقوله : فَأَتَى اللَّهُ بُنْيانَهُمْ مِنَ الْقَواعِدِ [ النحل/ 26] ، أي : بالأمر والتدبیر، نحو : وَجاءَ رَبُّكَ [ الفجر/ 22] ، وعلی هذا النحو قول الشاعر : 5- أتيت المروءة من بابها «7» فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لا قِبَلَ لَهُمْ بِها [ النمل/ 37] ، وقوله : لا يَأْتُونَ الصَّلاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسالی [ التوبة/ 54] ، أي : لا يتعاطون، وقوله : يَأْتِينَ الْفاحِشَةَ [ النساء/ 15] ، وفي قراءة عبد اللہ : ( تأتي الفاحشة) «1» فاستعمال الإتيان منها کاستعمال المجیء في قوله : لَقَدْ جِئْتِ شَيْئاً فَرِيًّا [ مریم/ 27] . يقال : أتيته وأتوته الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی |" آنا |" ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : {إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ } [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو { أَتَى أَمْرُ اللَّهِ } [ النحل : 1] خد اکا حکم ( یعنی عذاب گویا ) آہی پہنچا۔ اور آیت کریمہ { فَأَتَى اللَّهُ بُنْيَانَهُمْ مِنَ الْقَوَاعِدِ } [ النحل : 26] میں اللہ کے آنے سے اس کے حکم کا عملا نفوذ مراد ہے جس طرح کہ آیت { وَجَاءَ رَبُّكَ } [ الفجر : 22] میں ہے اور شاعر نے کہا ہے ۔ (5) |" اتیت المروءۃ من بابھا تو جو انمروی میں اس کے دروازہ سے داخل ہوا اور آیت کریمہ ۔ { وَلَا يَأْتُونَ الصَّلَاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسَالَى } [ التوبة : 54] میں یاتون بمعنی یتعاطون ہے یعنی مشغول ہونا اور آیت کریمہ ۔ { يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ } [ النساء : 15] میں الفاحشہ ( بدکاری ) کے متعلق اتیان کا لفظ ایسے ہی استعمال ہوا ہے جس طرح کہ آیت کریمہ ۔ { لَقَدْ جِئْتِ شَيْئًا فَرِيًّا } [ مریم : 27] فری کے متعلق مجئی کا لفظ استعمال ہوا ہے ( یعنی دونوں جگہ ارتکاب کے معنی ہیں ) اور آیت ( مذکورہ ) میں ایک قرات تاتی الفاحشۃ دونوں طرح آتا ہے ۔ چناچہ ( دودھ کے ، مشکیزہ کو بلونے سے جو اس پر مکھن آجاتا ہے اسے اتوۃ کہا جاتا ہے لیکن اصل میں اتوۃ اس آنے والی چیز کو کہتے ہیں جو کسی دوسری چیز سے حاصل ہوکر آئے لہذا یہ مصدر بمعنی فاعل ہے ۔ احسان الإحسان فوق العدل، وذاک أنّ العدل هو أن يعطي ما عليه، ويأخذ أقلّ مما له، والإحسان أن يعطي أكثر مما عليه، ويأخذ أقلّ ممّا له «3» . فالإحسان زائد علی العدل، فتحرّي العدل واجب، وتحرّي الإحسان ندب وتطوّع، وعلی هذا قوله تعالی: وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء/ 125] ، وقوله عزّ وجلّ : وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة/ 178] ، ولذلک عظّم اللہ تعالیٰ ثواب المحسنین، فقال تعالی: وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت/ 69] ، وقال تعالی:إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة/ 195] ، وقال تعالی: ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة/ 91] ، لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل/ 30] . ( ح س ن ) الحسن الاحسان ( افعال ) احسان عدل سے بڑھ کر چیز ہے کیونکہ دوسرے کا حق پورا دا کرنا اور اپنا حق پورا لے لینے کا نام عدل ہے لیکن احسان یہ ہے کہ دوسروں کو ان کے حق سے زیادہ دیا جائے اور اپنے حق سے کم لیا جائے لہذا احسان کا درجہ عدل سے بڑھ کر ہے ۔ اور انسان پر عدل و انصاف سے کام لینا تو واجب اور فرض ہے مگر احسان مندوب ہے ۔ اسی بنا پر فرمایا :۔ وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء/ 125] اور اس شخص سے کس کا دین اچھا ہوسکتا ہے جس نے حکم خدا قبول کیا اور وہ نیکو کا ر بھی ہے ۔ اور فرمایا ؛ وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة/ 178] اور پسندیدہ طریق سے ( قرار داد کی ) پیروی ( یعنی مطالبہ خونہار ) کرنا ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محسنین کے لئے بہت بڑے ثواب کا وعدہ کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت/ 69] اور خدا تو نیکو کاروں کے ساتھ ہے ۔ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة/ 195] بیشک خدا نیکی کرنیوالوں کو دوست رکھتا ہے ۔ ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة/ 91] نیکو کاروں پر کسی طرح کا الزام نہیں ہے ۔ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل/ 30] جنہوں نے اس دنیا میں نیکی کی ان کے لئے بھلائی ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٦{ اٰخِذِیْنَ مَآاٰتٰٹہُمْ رَبُّہُمْط اِنَّہُمْ کَانُوْا قَبْلَ ذٰلِکَ مُحْسِنِیْنَ ۔ } ” وہ (شکریے کے ساتھ) لے رہے ہوں گے جو کچھ ان کا رب انہیں دے گا ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اس سے پہلے نیکوکار تھے۔ “ یہ لوگ دنیا کی زندگی میں اپنے نیک اعمال کی وجہ سے درجہ احسان تک پہنچے ہوئے تھے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

14 Literally: ".. shall be receiving what their Lord will have granted them", but in this context "receiving" does not merely mean "to receive" but to receive joyfully. Obviously, when a person is given something of his own choice and liking, his receiving it will naturally have the meaning of accepting and receiving it joyfully.

سورة الذّٰرِیٰت حاشیہ نمبر :14 اگرچہ اصل الفاظ ہیں اٰخِذِیْنَ مَآ اٰتٰہُمْ رَبُّھُمْ ، اور ان کا لفظی ترجمہ صرف یہ ہے کہ لے رہے ہوں گے جو کچھ ان کے رب نے ان کو دیا ہو گا ، لیکن موقع و محل کی مناسبت سے اس جگہ لینے کا مطلب محض لینا نہیں بلکہ خوشی خوشی لینا ہے ، جیسے کچھ لوگوں کو ایک سخی داتا مٹھیاں بھر بھر کر انعام دے رہا ہو اور وہ لپک لپک اسے لے رہے ہوں ۔ جب کسی شخص کو اس کی پسند کی چیز دی جائے تو اس لینے میں آپ سے آپ بخوشی قبول کرنے کا مفہوم پیدا ہو جاتا ہے ۔ قرآن مجید میں ایک جگہ فرمایا گیا ہے کہ اَلَمْ یَعْلَموٓا اَنَّ اللہَ ھُوَ یَقْبَلُ التَّوْبَۃَ عَنْ عِبَادِہٖ وَ یَأخُذُ الصَّدَقَاتِ ۔ ( التوبہ ۔ 104 ) ۔ کیا تم نہیں جانتے کہ وہ اللہ ہی ہے جو اپنے بندوں سے توبہ قبول کرتا ہے اور صدقات لیتا ہے ۔ اس جگہ صدقات لینے سے مراد محض ان کو وصول کرنا نہیں بلکہ پسندیدگی کے ساتھ ان کو قبول کرنا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(51:16) اخذین ما اتہم ربہم : جملہ حالیہ ہے درآن حالیکہ وہ لے رہے ہوں گے۔ جو ان کا پروردگار ان کو عطا کرے گا۔ اخذین اسم فاعل صیغہ جمع مذکر منصوب اخذ (باب نصر) مصدر سے۔ لینے والے۔ ما موصولہ ۔ اتہم ربہم۔ اس کا صلہ۔ موصول اور صلہ مل کر اخذین کا مفعول۔ قبل ذلک ۔ ای فی الدنیا۔ محسنین : اسم فاعل جمع مذکر، احسان (افعال) مصدر۔ فریضہ سے زیادہ ادا کرنے والے ہر قسم کی خوبی پیدا کرنے والے۔ اعمال میں احسان دو طرح کا ہوتا ہے۔ (1) کسی کو اس کے حق سے زیادہ دینا۔ اور اپنے حق سے کم لینا۔ (2) اپنے اعمال میں خوبی پیدا کرنا۔ یعنی فرض سے آگے بڑھ کر مستحبات کو بھی ادا کرنا۔ جو چیز واجب نہ ہو اور اس میں کچھ نہ کچھ شرعی خوبی ہو اس کو بھی ادا کرنا۔ احسان بمعنی (1) کے مفعول پر الی یا باء آتا ہے جیسے احسن الی زید زید سے بھلائی کر اور بالوالدین احسانا (6:151) ماں باپ سے اچھا سلوک کرو۔ اور احسان بمعنی (2) متعدی بنفسہ ہے مفعول پر کوئی حرف جر نہیں آتا۔ جیسے احسن الوضوء ۔ اچھی طرح سے وضو کر۔ (یہ آیت متقین کی صفت میں ہے) ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 یعنی دنیا میں نیک کام کرتے تھے اور برائیوں سے بچتے تھے۔ ان کی نیکو کاری کی تفصیل آگے آرہی ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : قیامت کا انکار کرنے والوں کی سزا کے ذکر کے بعد جنتیوں کا تذکرہ، قیامت پر ایمان لانے اور اس کی جوابدہی کا خوف رکھنے والوں میں یہ صفات پید اہوتی ہیں۔ قیامت پر یقین رکھنا انسان کو برائیوں سے بچاتا ہے اور نیکی کے کاموں پر آمادہ کرتا ہے، اس لیے قیامت پر یقین رکھنے والوں کی صفات کا ذکر کیا گیا ہے۔ یقیناً یہ لوگ جنتوں میں داخل کیے جائیں گے جن میں چشمے جاری ہوں گے اور اپنے رب سے جنت کی نعمتیں حاصل کریں گے۔ کیونکہ وہ دنیا میں نیکی کرنے والے تھے۔ وہ پوری رات سونے کی بجائے رات کا کچھ حصہ سویا کرتے تھے اور سحری کے وقت اپنے رب سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتے تھے اور اپنے مال سے سائل اور اس شخص کو دیتے تھے جو مستحق ہونے کے باوجود کسی سے سوال نہیں کرتا تھا۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے متقی لوگوں کی تین صفات ذکر فرمائی ہیں۔ 1 ۔ جنتی لوگ ہر حال میں اخلاص کے ساتھ نیکی کرنے والے ہوتے ہیں۔ 2 ۔ جنتی اس خیال اور نیت سے صدقہ کرتے ہیں کہ یہ ہمارا غریبوں پر احسان نہیں بلکہ ان کا حق ہی ان تک پہنچا رہے ہیں اسی لیے وہ ان غریبوں کا بھی خیال رکھتے ہیں جو اپنی حیا اور خوداری کی وجہ سے دوسروں سے نہیں مانگتے۔ 3 ۔ متقی لوگ رات بھر خراٹے لینے کی بجائے آدھی یا رات کا کچھ حصہ اپنے رب کے حضور کھڑے ہوتے ہیں۔ (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) قَالَ کَان النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اِذَا قَامَ مِنَ اللَّےْلِ ےَتَھَجَّدُ قَالَ (اَللّٰھُمَّ لَکَ الْحَمْدُ اَنْتَ قَےِّمُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَنْ فِےْھِنَّ وَلَکَ الْحَمْدُ اَنْتَ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَنْ فِےْھِنَّ وَلَکَ الْحَمْدُ اَنْتَ مٰلِکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَنْ فِےْھِنَّ وَلَکَ الْحَمْدُ اَنْتَ الْحَقُّ وَوَعْدُکَ الْحَقُّ وَ لِقَآءُکَ حَقٌّ وَقَوْلُکَ حَقٌّ وَالْجَنَّۃُ حَقٌّ وَّالنَّارُ حَقٌّ وَّالنَّبِیُّوْنَ حَقٌّ وَّمُحَمَّدٌ حَقٌّ وَّالسَّاعَۃُ حَقٌّ اَللّٰھُمَّ لَکَ اَسْلَمْتُ وَبِکَ اٰمَنْتُ وَعَلَےْکَ تَوَکَّلْتُ وَاِلَےْکَ اَنَبْتُ وَبِکَ خَاصَمْتُ وَاِلَےْکَ حَاکَمْتُ فَاغْفِرْلِیْ مَا قَدَّمْتُ وَمَآ اَخَّرْتُ وَمَآ اَسْرَرْتُ وَمَآ اَعْلَنْتُ وَمَآ اَنْتَ اَعْلَمُ بِہٖ مِنِّیْ اَنْتَ الْمُقَدِّمُ وَاَنْتَ الْمُؤَخِّرُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ وَلَآاِلٰہَ غَےْرُکَ ) (رواہ البخاری : باب التَّہَجُّدِ باللَّیْلِ ) ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رات کے وقت جب تہجد کے لیے اٹھتے تو یہ دعا پڑھتے۔ ” اے اللہ تیری ہی حمدوستائش ‘ تو ہی زمین و آسمان اور جو کچھ ان میں ہے اس کو قائم رکھنے والا ہے، تیرے لیے ہی حمد ہے اور تیری وجہ سے ہی زمین و آسمان اور ان کی ہر چیز روشن ہے، تیرے لیے ہی تعریف ہے۔ تو ہی زمین و آسمان اور ان میں ہر چیز کا مالک ہے، تیرے ہی لیے حمدوثنا ہے تو ہی حق ہے تیرے وعدے سچ ہیں۔ تجھ سے ملاقات یقینی ہے۔ تیرا فرمان سچا ہے۔ جنت، دوزخ، انبیاء، محمد، قیامت یہ سب سچ اور حق ہیں۔ الٰہی میں تیرا فرمانبردار اور تجھ پر ہی ایمان رکھتا ہوں ‘ تیری ذات پر میرا بھروسہ ہے۔ تیری طرف ہی رجوع کرتا ہوں، تیری مدد سے ہی کفار اور مشرکین سے لڑتا ہوں۔ میں سب کچھ تیرے سپرد کرتا ہوں۔ پس میرے اگلے پچھلے، پوشیدہ اور ظاہر گناہ معاف فرما۔ جن کو تو مجھ سے زیادہ جانتا ہے۔ تیری ذات ہی اول وآخر ہے۔ تو ہی الٰہ برحق ہے اور تیرے سوا کوئی معبود ومسجود نہیں۔ “ مسائل ١۔ منقی لوگ سحری کے وقت اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں۔ بالفاظ دیگر صبح کے وقت اپنا احتساب کرتے ہیں۔ ٢۔ متقی لوگوں کی یہ بھی صفت ہوتی ہے کہ وہ اپنے مال سے ان لوگوں کو دیتے ہیں جو اپنی حاجت کے لیے ان سے سوال کرتے ہیں اور ان لوگوں کو بھی دیتے ہیں جو مستحق ہونے کے باوجود نہیں مانگتے۔ اپنی حیاء کی وجہ سے کسی کے سامنے دست دراز نہیں کرتے۔ ٣۔ جنت میں چشمے جاری ہوں گے۔ ٤۔ جنتی نیک اعمال کے بدلے اپنے رب سے انعامات پائیں گے۔ ٥۔ جت میں جانے والے لوگ پوری رات سونے کی بجائے رات کا کچھ حصہ تہجد پڑھنے میں گزارتے ہیں۔ ٦۔ جنت میں جانے والے حضرات اپنے رب کے حضور صبح کے وقت استغفار کرتے ہیں۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اخذین ما اتھم ربھم (٥١ : ٦١) ” جو کچھ ان کا رب انہیں دے گا اسے خوشی خوشی لے رہے ہوں گے “ رب کے فضل ، اس کے انعامات وہ لے رہے ہوں گے ان اعمال کے بدلے جو انہوں نے حیات دنیا میں کئے۔ انہوں نے اس کی عبادت اس طرح کی گویا اسے دیکھ رہے ہیں اور یہ یقین کرتے ہوئے کہ وہ دیکھ رہا ہے اور۔ انھم کانوا قبل ذلک محسنین (٥١ : ٦١) ” وہ اس دن کے آنے سے پہلے نیکوکار تھے اور ان کی نیکی کی تصویر بھی بڑی دلکش ہے ، نہایت ہی چمکدار اور حساس :

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(16) ان کی حالت یہ ہوگی کہ جو نعمتیں اور جو ثواب ان کے پروردگار نے ان کو دیا ہوگا وہ اس کو حاصل کررہے ہوں گے کیونکہ وہ اس عالم آخرت سے پہلے نکوکار اور نیکی کرنے والے تھے۔