Surat uz Zaariyaat

Surah: 51

Verse: 30

سورة الذاريات

قَالُوۡا کَذٰلِکِ ۙ قَالَ رَبُّکِ ؕ اِنَّہٗ ہُوَ الۡحَکِیۡمُ الۡعَلِیۡمُ ﴿۳۰﴾

They said, "Thus has said your Lord; indeed, He is the Wise, the Knowing."

انہوں نے کہا ہاں تیرے پروردگار نے اسی طرح فرمایا ہے ، بیشک وہ حکیم و علیم ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

They said: "Even so says your Lord. Verily, He is the All-Wise, the All-Knower," `He is the All-Knower of the honor that you are worthy of and He is the most Wise in His statements and decisions.'

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

30۔ 1 یعنی جس طرح ہم نے تجھے کہا ہے، یہ ہم نے اپنی طرف سے نہیں کہا ہے، بلکہ تیرے رب نے اسی طرح کہا ہے جس کی ہم تجھے اطلاع دے رہے ہیں، اس لئے اس پر تعجب کی ضرورت ہے نہ کہ شک کرنے کی، اس لئے کہ اللہ جو چاہتا ہے وہ لا محالہ ہو کر رہتا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٤] فرشتوں نے کہا ہم یہ نہیں جانتے کہ کیسے ہوگا ؟ ہم تو یہ جانتے ہیں کہ چونکہ تیرے پروردگار نے ایسا کہا ہے لہذا ایسا ضرور ہوگا اور وہ اپنے کام کی حکمتوں کو خود ہی خوب جانتا ہے کہ وہ سیدنا ابراہیم پر کیسی کیسی نوازشات کرنا چاہتا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(قالوا کذلک قال ربک …: فرشتوں نے کہا بیشک آپ ایسی ہی ہیں، مگر ہم بھی اپنی طرف سے نہیں کہہ رہے بلکہ آپ کے رب کی با ت بتا رہے ہیں، اس نے ایسے فرمایا ہے، یقینا وہ کمال حکمت اور علم والا ہے، نہ اس کے علم سے کوئی چیز باہر ہے اور نہ اس کے کسیک ام میں کوئی خامی یا غلطی ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

When, in the course of the conversation, Holy Prophet Ibrahim (علیہ السلام) discovered that the guests were angels, he asked them what was their mission and they replied that they had been sent to the people of Lut (علیہ السلام) to destroy them as a punishment for their unspeakable crime. They would be stoned to death, but not with large stones.

اس گفتگو میں جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو یہ معلوم ہوگیا کہ یہ مہمان اللہ کے فرشتے ہیں تو پوچھا کہ آپ کس مہم پر تشریف لائے ہیں، انہوں نے حضرت لوط (علیہ السلام) کی قوم پر عذاب نازل کرنے کا تذکرہ کیا کہ ان کی قوم پر پتھراؤ کیا جائے گا اور پتھراؤ بھی کچھ بڑے بڑے پتھروں سے نہیں، بلکہ مٹی سے بنی ہوئ... ی کنکریوں سے ہوگا۔   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَالُوْا كَذٰلِكِ۝ ٠ ۙ قَالَ رَبُّكِ۝ ٠ ۭ اِنَّہٗ ہُوَالْحَكِيْمُ الْعَلِيْمُ۝ ٣٠ قول القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ، ( ق و ل ) القول القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خد... ا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ هذا ( ذَاكَ ذلك) وأما ( ذا) في (هذا) فإشارة إلى شيء محسوس، أو معقول، ويقال في المؤنّث : ذه وذي وتا، فيقال : هذه وهذي، وهاتا، ولا تثنّى منهنّ إلّا هاتا، فيقال : هاتان . قال تعالی: أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء/ 62] ، هذا ما تُوعَدُونَ [ ص/ 53] ، هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات/ 14] ، إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه/ 63] ، إلى غير ذلك هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور/ 14] ، هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن/ 43] ، ويقال بإزاء هذا في المستبعد بالشخص أو بالمنزلة : ( ذَاكَ ) و ( ذلك) قال تعالی: الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة/ 1- 2] ، ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف/ 17] ، ذلِكَ أَنْ لَمْ يَكُنْ رَبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرى [ الأنعام/ 131] ، إلى غير ذلك . ( ذ ا ) ہاں ھذا میں ذا کا لفظ اسم اشارہ ہے جو محسوس اور معقول چیز کی طرف اشارہ کے لئے آتا ہے ۔ چناچہ کہا جاتا ہے ۔ ھذہ وھذی وھاتا ۔ ان میں سے سرف ھاتا کا تژنیہ ھاتان آتا ہے ۔ ھذہٰ اور ھٰذی کا تثنیہ استعمال نہیں ہوتا قرآن میں ہے : أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء/ 62] کہ دیکھ تو یہی وہ ہے جسے تونے مجھ پر فضیلت دی ہے ۔ هذا ما تُوعَدُونَ [ ص/ 53] یہ وہ چیزیں ہیں جن کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا ۔ هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات/ 14] یہ وہی ہے جس کے لئے تم جلدی مچایا کرتے تھے ۔ إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه/ 63] کہ یہ دونوں جادوگر ہیں ۔ هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور/ 14] یہی وہ جہنم ہے جس کو تم جھوٹ سمجھتے تھے ۔ هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن/ 43] یہی وہ جہنم ہے جسے گنہگار لوگ جھٹلاتے تھے ۔ ھذا کے بالمقابل جو چیز اپنی ذات کے اعتبار سے دور ہو یا باعتبار مرتبہ بلند ہو ۔ اس کے لئے ذاک اور ذالک استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة/ 1- 2] یہ کتاب یہ خدا کی نشانیوں میں سے ہے ۔ ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف/ 17] یہ اس لئے کہ تمہارا پروردگار ایسا نہیں ہے کہ بستیوں کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہلاک کردے ۔ رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔ حكيم والحِكْمَةُ : إصابة الحق بالعلم والعقل، فالحکمة من اللہ تعالی: معرفة الأشياء وإيجادها علی غاية الإحكام، ومن الإنسان : معرفة الموجودات وفعل الخیرات . وهذا هو الذي وصف به لقمان في قوله عزّ وجلّ : وَلَقَدْ آتَيْنا لُقْمانَ الْحِكْمَةَ [ لقمان/ 12] ، ونبّه علی جملتها بما وصفه بها، فإذا قيل في اللہ تعالی: هو حَكِيم «2» ، فمعناه بخلاف معناه إذا وصف به غيره، ومن هذا الوجه قال اللہ تعالی: أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین/ 8] ، وإذا وصف به القرآن فلتضمنه الحکمة، نحو : الر تِلْكَ آياتُ الْكِتابِ الْحَكِيمِ [يونس/ 1] ( ح ک م ) الحکمتہ کے معنی علم وعقل کے ذریعہ حق بات دریافت کرلینے کے ہیں ۔ لہذا حکمت الہی کے معنی اشیاء کی معرفت اور پھر نہایت احکام کے ساتھ انکو موجود کرتا ہیں اور انسانی حکمت موجودات کی معرفت اور اچھے کو موں کو سرانجام دینے کا نام ہے چناچہ آیت کریمہ : وَلَقَدْ آتَيْنا لُقْمانَ الْحِكْمَةَ [ لقمان/ 12] اور ہم نے لقمان کو دانائی بخشی ۔ میں حکمت کے یہی معنی مراد ہیں جو کہ حضرت لقمان کو عطا کی گئی تھی ۔ لهذا جب اللہ تعالے کے متعلق حکیم کا لفظ بولاجاتا ہے تو اس سے وہ معنی مراد نہیں ہوتے جو کسی انسان کے حکیم ہونے کے ہوتے ہیں اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے متعلق فرمایا ہے ۔ أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین/ 8] کیا سب سے بڑا حاکم نہیں ہے ؟  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣٠{ قَالُوْا کَذٰلِکِ لا قَالَ رَبُّکِ ط } ” انہوں نے کہا : ایسا ہی فرمایا ہے آپ کے رب نے۔ “ فرشتے جو انسانی شکل میں تھے انہوں نے جواب دیا : یقینا ایسے ہی ہوگا ۔ ہم اپنی طرف سے یہ خبر نہیں دے رہے ‘ بلکہ یہ آپ کے رب کا فیصلہ ہے ۔ { اِنَّہٗ ہُوَ الْحَکِیْمُ الْعَلِیْمُ ۔ } ’ یقینا وہ سب کچھ جان... نے والا بھی ہے اور بہت حکمت والا بھی ۔ “  Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

29 The object of this story is to tell that Allah will certainly reward His servant, who did full justice to the rights of His worship in the world, in the Hereafter handsomely, but even In this world he rewarded him well by giving him children at an age when according to the common physical laws he could not beget children and his aged wife having remained childless throughout life had completely...  despaired of ever bearing children; and then He granted him such extraordinary children as have not been granted to any one else in the world. There has been no other man in history in whose line four Prophets might have been born in succession. It was the Prophet Abraham alone whose line continued to be blessed with Prophet hood for three generations, and the illustrious Prophets like Ishmael, Isaac, Jacob and Joseph (peace be upon them) emerged from his house.  Show more

سورة الذّٰرِیٰت حاشیہ نمبر :29 اس قصے سے یہ بتانا مقصود ہے کہ جس بندے نے اپنے رب کی بندگی کا حق دنیا میں ٹھیک ٹھیک ادا کیا تھا ، اس کے ساتھ عقبیٰ میں تو جو معاملہ ہوگا سو ہوگا ، اسی دنیا میں اس کے یہ انعام دیا گیا کہ عام قوانین طبیعت کی رو سے جس عمر میں اس کے ہاں اولاد پیدا نہ ہو سکتی تھی ، اور ... اس کی سن رسیدہ بیوی تمام عمر بے اولاد رہ کر اس طرف سے قطعی مایوس ہو چکی تھی ، اس وقت اللہ نے اسے نہ صرف اولاد دی بلکہ ایسی بے نظیر اولاد دی جو آج تک کسی کو نصیب نہیں ہوئی ہے ۔ دنیا میں کوئی دوسرا انسان ایسا نہیں ہے جس کی نسل میں مسلسل چار انبیاء پیدا ہوئے ہوں ۔ وہ صرف حضرت ابراہیم ہی تھے جن کے ہاں تین پشت تک نبوت چلتی رہی اور حضرت اسماعیل ، حضرت اسحاق ، حضرت یعقوب اور حضرت یوسف علیہم السلام جیسے جلیل القدر نبی ان کے گھرانے سے اٹھے ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(51:30) قالوا ۔ یعنی مہمانوں نے کہا۔ کذلک ۔ ک تشبیہ کا ذلک اسم اشارہ، مشاہ الیہ : کہ تیرے ایک بیٹا ہوگا۔ کذلک قال ربک۔ تیرے پروردگار نے ایسے ہی فرمایا تھا۔ ہم اللہ کی جانب سے تجھے خبر دے رہے ہیں ۔ الحکیم العلیم : یعنی صفت میں حکیم ہے (اس کی صنعت پر حکمت ہے ) العلیم : یعنی وہ ماضی کو بھی جانتا ... ہے اور مستقبل سے بھی واقف ہے۔ اس لئے اس کا قول سچا اور فعل محکم (ناقابل شکست ) ہے اس کے خلاف نہیں ہوسکتا) ۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 16 یعنی یہ خوش خبری ہم اپنی طرف سے نہیں دے رہے ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی بنا پردے رہے ہیں۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

6۔ یعنی فی نفسہ گو یہ بات تعجب کی ہے مگر تم کہ خاندان نبوت میں رہتی ہو اور علم و فہم سے مشرف ہو یہ معلوم کر کے کہ خدا کا ارشاد ہے تعجب نہ رہنا چاہئے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

قالوا ........ العلیم (١٥ : ٠٣) ” انہوں نے کہا ” یہی کچھ فرمایا ہے تیرے رب نے وہ حکیم ہے اور سب کچھ جانتا ہے۔ “ یعنی اللہ جس چیز کو کہہ دے کہ ہوجا تو ہوجاتی ہے اور اللہ نے ایسا کہہ دیا ہے تو اس کے بعد اب شک کی گنجائش کیا ہے۔ کسی کام کا عادی ہونا اور اس کام کا آنکھوں کے سامنے ہوتے رہنا ایسی باتیں ہیں...  جو انسانی اور اک کو بیڑیاں پہنا دیتا ہے اور اشیاء کے بارے میں انسان کا تصور محدود ہوجاتا ہے۔ پھر جب انسان اس عادی اور روٹین کے طریق کار سے کوئی مختلف بات دیکھتا ہے تو وہ ششدر رہ جاتا ہے اور وہ تعجب کرتا ہے کہ یہ کیسے ہوگیا۔ بعض اوقات پھر وہ کبر کرتے ہوئے اس کا انکار کردیتا ہے لیکن اللہ کی مشیت تو اپنی راہ لیتی ہے۔ وہ لوگوں کی مالوفات کی پابند نہیں ہے۔ انسان کا دائرہ ادراک اور اس کا دائرہ امور عادیہ بہت محدود ہے جبکہ اللہ کی قدرتیں بہت ممدود (پھیلی ہوئی) ہیں۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(30) ان مہمان فرشتوں نے کہا تیرے پروردگار نے اسی طرح فرمایا ہے بیشک وہ بڑے علم والا بڑی حکمت والا ہے۔ یعنی تعجب کی کوئی بات نہیں یہ تو اللہ کا فرمودہ ہے وہ جانتا ہے کہ کس کو اولاد دینی ہے اور کیونکر دینی ہے اور وہ بڑی حکمت والا ہے اس کی حکمت اور مصلحت کے ماتحت ہی نبوت تقسیم ہوتی ہے وہ جس خاندان میں ... چاہتا ہے علم ونبوت کا سلسلہ جاری رکھتا ہے اور جب تک چاہتا ہے اس کو قائم رکھتا ہے ۔ بہرحال اس بات کو سن کر حضرت سرا کا تعجب دور ہوگیا۔  Show more