Surat uz Zaariyaat

Surah: 51

Verse: 37

سورة الذاريات

وَ تَرَکۡنَا فِیۡہَاۤ اٰیَۃً لِّلَّذِیۡنَ یَخَافُوۡنَ الۡعَذَابَ الۡاَلِیۡمَ ﴿ؕ۳۷﴾

And We left therein a sign for those who fear the painful punishment.

اور ہم نے ان کے لئے جو دردناک عذاب کا ڈر رکھتے ہیں ایک ( کامل ) علامت چھوڑی ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And We have left there a sign for those who fear the painful torment. meaning, `We left a proof of the punishment, torment and stones made of Sijjil (baked clay) that We sent on them; We made their dwelling place a putrid, evil, dead sea. This should provide a lesson for the believers,' لِّلَّذِينَ يَخَافُونَ الْعَذَابَ الاَْلِيمَ (for those who fear the painful torment).

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

37۔ 1 یہ آیت یا کامل علامت وہ آثار عذاب ہیں جو ان ہلاک شدہ بستیوں میں ایک عرصے تک باقی رہے۔ اور یہ علامت بھی انہی کے لئے ہے جو عذاب الٰہی سے ڈرنے والے ہیں، کیونکہ وعظ و نصیحت کا اثر بھی وہی قبول کرتے ہیں اور آیات میں غور و فکر بھی وہی کرتے ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣١] لوگوں کے لئے نشانی بحیرہ مردار :۔ وہ نشانی یہ تھی کہ جب فرشتوں نے اس پورے خطہ زمین کو اٹھا کر اور بلندی پر لے جاکر پھر اس کو الٹا کر زمین پردے مارا تو یہ پورا خطہ زمین کے اندر دھنس گیا اور سطح سمندر سے چار سو کلومیٹر نیچے چلا گیا اور اس کے اوپر کالا پانی چڑھ آیا۔ جو ایک سمندر کی شکل اختیار کرگیا۔ پانی کے اس ذخیرہ کو بحر میت یا بحیرہ مردار یا غرقاب لوطی کہا جاتا ہے۔ اس بحیرہ مردار (Dead Sea) کا جنوبی علاقہ آج بھی عظیم الشان تباہی کے آثار پیش کر رہا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(وترکنا فیھا ایۃ للذین یخافون العذاب الالیم : اس بستی کو عذاب الیم سے ڈرنے والوں کے لئے نشانی اس لئے قرار دیا کہ وہی اس سے عبرت حاصل کرتے اور فائدہ اٹھاتے ہیں۔ رہے وہ لوگ جو ڈرنے کے بجائے سرکشی اختیار کرتے اور خواہش نفس کے پیچھے چلت یہیں ان کے لئے ہر نشانی کفر اور سرکشی میں اضافے کا باعث ہی بنتی ہے۔ مزید دیکھیے سورة حجر (٧٥ تا ٧٧) اور سورة عنکبوت (٣٥) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَتَرَكْنَا فِيْہَآ اٰيَۃً لِّلَّذِيْنَ يَخَافُوْنَ الْعَذَابَ الْاَلِيْمَ۝ ٣٧ ۭ ترك تَرْكُ الشیء : رفضه قصدا واختیارا، أو قهرا واضطرارا، فمن الأول : وَتَرَكْنا بَعْضَهُمْ يَوْمَئِذٍ يَمُوجُ فِي بَعْضٍ [ الكهف/ 99] ، وقوله : وَاتْرُكِ الْبَحْرَ رَهْواً [ الدخان/ 24] ، ومن الثاني : كَمْ تَرَكُوا مِنْ جَنَّاتٍ [ الدخان/ 25] ( ت ر ک) ترک الشیئء کے معنی کسی چیز کو چھوڑ دینا کے ہیں خواہ وہ چھوڑنا ارادہ اختیار سے ہو اور خواہ مجبورا چناچہ ارادۃ اور اختیار کے ساتھ چھوڑنے کے متعلق فرمایا : ۔ وَتَرَكْنا بَعْضَهُمْ يَوْمَئِذٍ يَمُوجُ فِي بَعْضٍ [ الكهف/ 99] اس روز ہم ان کو چھوڑ دیں گے کہ ور وئے زمین پر پھل کر ( ایک دوسری میں گھسن جائیں وَاتْرُكِ الْبَحْرَ رَهْواً [ الدخان/ 24] اور دریا سے ( کہ ) خشک ( ہورہا ہوگا ) پاور ہوجاؤ ۔ اور بحالت مجبوری چھوڑ نے کے متعلق فرمایا : كَمْ تَرَكُوا مِنْ جَنَّاتٍ [ الدخان/ 25] وہ لوگ بہت سے جب باغ چھوڑ گئے ۔ الآية والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع . الایۃ ۔ اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔ خوف الخَوْف : توقّع مکروه عن أمارة مظنونة، أو معلومة، كما أنّ الرّجاء والطمع توقّع محبوب عن أمارة مظنونة، أو معلومة، ويضادّ الخوف الأمن، ويستعمل ذلک في الأمور الدنیوية والأخروية . قال تعالی: وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء/ 57] ، وحقیقته : وإن وقع لکم خوف من ذلک لمعرفتکم . والخوف من اللہ لا يراد به ما يخطر بالبال من الرّعب، کاستشعار الخوف من الأسد، بل إنما يراد به الكفّ عن المعاصي واختیار الطّاعات، ولذلک قيل : لا يعدّ خائفا من لم يكن للذنوب تارکا . والتَّخویفُ من اللہ تعالی: هو الحثّ علی التّحرّز، وعلی ذلک قوله تعالی: ذلِكَ يُخَوِّفُ اللَّهُ بِهِ عِبادَهُ [ الزمر/ 16] ، ( خ و ف ) الخوف ( س ) کے معنی ہیں قرآن دشواہد سے کسی آنے والے کا خطرہ کا اندیشہ کرنا ۔ جیسا کہ کا لفظ قرائن دشواہد کی بنا پر کسی فائدہ کی توقع پر بولا جاتا ہے ۔ خوف کی ضد امن آتی ہے ۔ اور یہ امور دنیوی اور آخروی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے : قرآن میں ہے : ۔ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء/ 57] اور اس کی رحمت کے امید وار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں ۔ اس کے اصل معنی یہ ہیں کہ اگر حالات سے واقفیت کی بنا پر تمہیں اندیشہ ہو کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے ) کے یہ معنی نہیں ہوتے کہ جس طرح انسان شیر کے دیکھنے سے ڈر محسوس کرتا ہے ۔ اسی قسم کا رعب اللہ تعالیٰ کے تصور سے انسان کے قلب پر طاری ہوجائے بلکہ خوف الہیٰ کے معنی یہ ہیں کہ انسان گناہوں سے بچتا رہے ۔ اور طاعات کو اختیار کرے ۔ اسی بنا پر کہا گیا ہے کہ جو شخص گناہ ترک نہیں کرتا وہ خائف یعنی اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والا نہیں ہوسکتا ۔ الخویف ( تفعیل ) ڈرانا ) اللہ تعالیٰ کے لوگوں کو ڈرانے کے معنی یہ ہیں کہ وہ لوگوں کو برے کاموں سے بچتے رہنے کی ترغیب دیتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ ذلِكَ يُخَوِّفُ اللَّهُ بِهِ عِبادَهُ [ الزمر/ 16] بھی اسی معنی پر محمول ہے اور باری تعالےٰ نے شیطان سے ڈرنے اور اس کی تخویف کی پرواہ کرنے سے منع فرمایا ہے ۔ عذب والعَذَابُ : هو الإيجاع الشّديد، وقد عَذَّبَهُ تَعْذِيباً : أكثر حبسه في العَذَابِ. قال : لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل/ 21] واختلف في أصله، فقال بعضهم : هو من قولهم : عَذَبَ الرّجلُ : إذا ترک المأكل والنّوم فهو عَاذِبٌ وعَذُوبٌ ، فَالتَّعْذِيبُ في الأصل هو حمل الإنسان أن يُعَذَّبَ ، أي : يجوع ويسهر، ( ع ذ ب ) العذاب سخت تکلیف دینا عذبہ تعذیبا اسے عرصہ دراز تک عذاب میں مبتلا رکھا ۔ قرآن میں ہے ۔ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل/ 21] میں اسے سخت عذاب دوں گا ۔ لفظ عذاب کی اصل میں اختلاف پا یا جاتا ہے ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عذب ( ض ) الرجل کے محاورہ سے مشتق ہے یعنی اس نے ( پیاس کی شدت کی وجہ سے ) کھانا اور نیند چھوڑدی اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب وعذوب کہا جاتا ہے لہذا تعذیب کے اصل معنی ہیں کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر اکسانا ألم الأَلَمُ الوجع الشدید، يقال : أَلَمَ يَأْلَمُ أَلَماً فهو آلِمٌ. قال تعالی: فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَما تَأْلَمُونَ [ النساء/ 104] ، وقد آلمت فلانا، و عذاب أليم، أي : مؤلم . وقوله : لَمْ يَأْتِكُمْ [ الأنعام/ 130] فهو ألف الاستفهام، وقد دخل علی «لم» . ( ا ل م ) الالم کے معنی سخت درد کے ہیں کہا جاتا ہے الم یالم ( س) أَلَمَ يَأْلَمُ أَلَماً فهو آلِمٌ. قرآن میں ہے :۔ { فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَمَا تَأْلَمُونَ } ( سورة النساء 104) تو جس طرح تم شدید درد پاتے ہو اسی طرح وہ بھی شدید درد پاتے ہیں ۔ اٰلمت فلانا میں نے فلاں کو سخت تکلیف پہنچائی ۔ اور آیت کریمہ :۔ { وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ } ( سورة البقرة 10 - 174) میں الیم بمعنی مؤلم ہے یعنی دردناک ۔ دکھ دینے والا ۔ اور آیت :۔ اَلَم یَاتِکُم (64 ۔ 5) کیا تم کو ۔۔ نہیں پہنچی ۔ میں الف استفہام کا ہے جو لم پر داخل ہوا ہے ( یعنی اس مادہ سے نہیں ہے )

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور وہ گھر لوط اور ان کی دونوں صاحبزادیوں زاعورا اور زنتا کا تھا اور ہم نے قوم لوط کی بستیوں کی ہلاکت میں ایسے لوگوں کے لیے ایک عبرت رہنے دی جو آخرت میں دردناک عذاب سے ڈرتے ہیں اور ان کے افعال کی پیروی نہیں کرتے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣٧{ وَتَرَکْنَا فِیْہَآ اٰیَۃً لِّلَّذِیْنَ یَخَافُوْنَ الْعَذَابَ الْاَلِیْمَ ۔ } ” اور ہم نے اس میں ایک نشانی چھوڑ دی ان لوگوں کے لیے جو ڈرتے ہوں دردناک عذاب سے۔ “ قومِ لوط کی بستیاں (سدوم اور عامورہ) سمندر کے کنارے پر آباد تھیں ‘ جو اب بحیرئہ مردار (Dead Sea) کہلاتا ہے۔ ان بستیوں کے بارے میں یہی اندازہ تھا کہ جب زلزلے سے یہ علاقہ تلپٹ ہوا ہوگا تو یہ بستیاں سمندر میں غرق ہوگئی ہوں گی۔ اب اس کی تصدیق بھی ہوگئی ہے اور بحیرئہ مردار کی تہہ میں ان شہروں کے کھنڈرات کو دریافت بھی کرلیا گیا ہے۔ یہاں نشانی سے مراد یہی کھنڈرات ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے رہتی دنیا تک لوگوں کی عبرت کے لیے ظاہر فرما دیا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

35 One sign": the Dead Sea, southern part of which still presents the signs of a great disaster. The archaeologists have expressed the opinion that the principal cities of the people of Lot were probably sunk underground and the waters of the Dead Sea spread over them. For that part of this sea which is situated to the south of the small peninsula called "AI-Lisan" clearly seems to be a later development, and the signs of the ruins of the Dead Sea found to the north of this peninsula are very different from those found in the south. From this it is concluded that the southern part was once higher than the sea level. At some later time it sank and went under water. The period of its sinking also seems to be about 2000 B.C. and the same precisely is the time of the Prophets Abraham and Lot historically. In 1965 an American archaeological research party discovered a large grave-yard at Al-Lisan which contains more than twenty thousand graves. From this one is led to think that nearby it there must have existed a large city. But no nuns of any such city arc found in the adjoining area, which might have given rise to such a big grave-yard. This fact also strengthens the doubt that the city whose grave-yard it was has sunk under the sea. The area to the south of the sea still abounds in the ruins and the underground stocks of sulphur, resin, tar and natural gas found in this area lead one to believe that hell must have been let loose at this place at Borne time by the eruption of lava and the play of lightning. (For further explanation, see E.N. 114 of Ash-Shu'ara').

سورة الذّٰرِیٰت حاشیہ نمبر :35 اس نشانی سے مراد بحیرۂ مردار ( Dead Sea ) ہے جس کا جنوبی علاقہ آج بھی ایک عظیم الشان تباہی کے آثار پیش کر رہا ہے ۔ ماہرین آثار قدیمہ کا اندازہ ہے کہ قوم لوط کے بڑے شہر غالباً شدید زلزلے سے زمین کے اندر دھنس گئے تھے اور ان کے اوپر بحیرۂ مردار کا پانی پھیل گیا تھا ، کیونکہ اس بحیرے کا وہ حصہ جو للِّسان نامی چھوٹے سے جزیرہ نما کے جنوب میں واقع ہے ، صاف طور پر بعد کی پیداوار معلوم ہوتا ہے اور قدیم بحیرۂ مردار کے جو آثار اس جزیرہ نما کے شمال تک نظر آتے ہیں وہ جنوب میں پائے جانے والے آثار سے بہت مختلف ہیں ۔ اس سے یہ قیاس کیا جاتا ہے کہ جنوب کا حصہ پہلے اس بحیرے کی سطح سے بلند تھا ، بعد میں کسی وقت دھنس کر اس کے نیچے چلا گیا ۔ اس کے دھنسنے کا زمانہ بھی دو ہزار برس قبل مسیح کے لگ بھگ معلوم ہوتا ہے ، اور یہی تاریخی طور پر حضرت ابراہیم اور حضرت لوط کا زمانہ ہے ۔ 1965 میں آثار قدیمہ کی تلاش کرنے والی ایک امریکی جماعت کو للسان پر ایک بہت بڑا قبرستان ملا ہے جس میں 20 ہزار سے زیادہ قبریں ہیں ۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ قریب میں کوئی بڑا شہر ضرور آباد ہو گا ۔ مگر کسی ایسے شہر کے آثار آس پاس کہیں موجود نہیں ہیں جس سے متصل اتنا بڑا قبرستان بن سکتا ہو ۔ اس سے بھی یہ شبہ تقویت پاتا ہے کہ جس شہر کا یہ قبرستان تھا وہ بحیرے میں غرق ہو چکا ہے ۔ بحیرے کے جنوب میں جو علاقہ ہے اس میں اب بھی ہر طرف تباہی کے آثار موجود ہیں اور زمین میں گندھک ، رال ، کول تار اور قدرتی گیس کے اتنے ذخائر پائے جاتے ہیں جنہیں دیکھ کر گمان ہوتا ہے کہ کسی وقت بجلیوں کے گرنے سے یا زلزلے کا لاوا نکلنے سے یہاں ایک جہنم پھٹ پڑی ہوگی ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد سوم ، الشعراء ، حاشیہ 114 ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(51:37) وترکنا فیہا ایۃ : واؤ عاطفہ، ترکنا ماضی جمع متکلم۔ ترک (بابا نصر) مصدر، ہم نے چھوڑا۔ فیہا ای فی القری (ان) بستیوں میں ۔ ایۃ : منصوب بوجہ مفعول فعل ترکنا کے (نشانی) ترجمہ : پھر ہم نے ان (بستیوں) میں ایک نشانی چھوڑی (جو دردناک عذاب سے ڈرتے ہوں) نشانی سے مراد بحیرۃ مردار ہے جس کا کنوبی علاقہ آج بھی ایک تباہی کے آثار پیش کر رہا ہے۔ العذاب الالیم۔ موصوف و صفت مل کر مفعول یخافون کا۔ دردناک عذاب ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 نشانی سے مراد عذاب کے آثار میں یعنی سیاہ اینٹیں گھروں کے کھنڈر اور وہ ” بحر مردار “ جو اس علاقہ میں ہے اور جس کے اردگرد زمین اس قدر دھسنی ہوئی ہے کہ اس کی سطح سطح سمندر سے تیرہ سو فٹ نیچی ہے۔ ماہرین آثار قدیمہ کا اندازہ ہے کہ قوم لوط کا مرزی شہر سدوم اسی بحر مردار کے جنوبی حصہ میں ڈوبا ہوا ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

وترکنا ........ الالیم (١٥ : ٧٣) ” اس کے بعد ہم نے وہاں بس ایک نشانی ان لوگوں کے لئے چھوڑ دی جو درد ناک عذاب سے ڈرتے تھے “ جو لوگ عذاب سے ڈرتے ہیں وہی نشانیاں بھی دیکھ سکتے ہیں اور ان کو سمجھ سکتے ہیں اور فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ رہے دوسرے لوگ تو وہ اندھے ہوتے ہیں۔ ان کو اس پوری کائنات میں اللہ کی نشانیاں نہیں آتیں نہ زمین میں نہ ان کے نفوس میں اور نہ تاریخ میں۔ اب دوسری نشانی قصہ حضرت موسیٰ میں۔ اس قصے کی طرف بھی ایک سر سری اشارہ ہے کیونکہ یہاں انبیاء کی تاریخ سے نشانات راہ گنوا کر بتاتے ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

بعض مفسرین نے فرمایا ہے کہ جو لوگ اس علاقہ میں موجود تھے ان کو چیخ نے بھی پکڑا اور زمین کا تختہ بھی الٹ دیا گیا اور جو لوگ ادھر ادھر باہر نکلے ہوئے تھے وہ انہیں پتھروں کی بارش سے ہلاک ہوگئے۔ آخر میں فرمایا ﴿ وَ تَرَكْنَا فِيْهَاۤ اٰيَةً لِّلَّذِيْنَ يَخَافُوْنَ الْعَذَابَ الْاَلِيْمَؕ٠٠٣٧﴾ (اور ہم نے اس واقعہ میں ایسے لوگوں کے لیے عبرت رہنے دی جو درد ناک عذاب سے ڈرتے ہیں) واقعہ کا تذکرہ عبرت دلانے کے لیے ہے لیکن لوگوں نے ان کی ہلاک شدہ بستیوں کو سیر و سیاحت کی جگہ بنا رکھا ہے۔ ان بستیوں کی جگہ بحرمیت کھڑا ہے، لوگ تفریح کے طور پر سفر کرتے ہیں عبرت حاصل نہیں کرتے۔ سارے انسانوں پر لازم ہے کہ سابقہ امتوں کے واقعات سے عبرت لیں اور نصیحت حاصل کریں۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کی قوم کی ہلاکت کا واقعہ سورة ٴ انعام (١٠ ع) میں سورة ٴ ھود (٧ ع) میں اور سورة ٴ الحجر (٤ ع، ٥ ع) اور سورة النمل (٥ ع) اور سورة الانبیاء (٥ ع) اور سورة ٴ الشعراء (٩ ع) اور سورة العنکبوت (٣ ع، ٤ ع) میں بھی مذکور ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(37) اور ہم نے ان تباہ شدہ بستیوں میں ایسے لوگوں کے لئے ایک سبق آموز نشان باقی رکھا جو درد ناک عذاب سے ڈرتے اور خوف کھاتے ہیں۔ یعنی عذاب الیم سے جو لوگ ڈرتے ہیں ان کے لئے اب تک وہ الٹی ہوئی بستیاں پڑی ہیں اور مکان الٹے پڑے ہیں اور وہاں سڑا ہوا بدبودار پانی بہتا ہے۔