Surat uz Zaariyaat

Surah: 51

Verse: 46

سورة الذاريات

وَ قَوۡمَ نُوۡحٍ مِّنۡ قَبۡلُ ؕ اِنَّہُمۡ کَانُوۡا قَوۡمًا فٰسِقِیۡنَ ﴿۴۶﴾٪  1

And [We destroyed] the people of Noah before; indeed, they were a people defiantly disobedient.

اور نوح ( علیہ السلام ) کی قوم کا بھی اس سے پہلے ( یہی حال ہو چکا تھا ) وہ بھی بڑے نافرمان لوگ تھے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَقَوْمَ نُوحٍ مِّن قَبْلُ ... (So were) the people of Nuh before them. meaning, `We destroyed the people of Nuh before these people (Fir`awn, `Ad and Thamud).' ... إِنَّهُمْ كَانُوا قَوْمًا فَاسِقِينَ Verily, they were a people who were rebellious. We mentioned these stories in details before in the Tafsir of several other Surahs.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

46۔ 1 قوم نوح، عاد، فرعون اور ثمود وغیرہ بہت پہلے گزر چکی ہے اس نے بھی اطاعت الٰہی کی بجائے اسکی بغاوت کا راستہ اختیار کیا تھا۔ بالآخر اسے طوفان میں ڈبو دیا گیا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤٠] ذکر قوم نوح :۔ سیدنا نوح اور ان کی قوم کا ذکر نہایت اختصار کے ساتھ صرف ایک آیت میں پیش کردیا گیا ہے۔ اس میں اس قوم کے جرم اور اس کی سزا دونوں کا ذکر آیا ہے۔ سابقہ آیات میں چند تاریخی شواہد پیش کرکے یہ ثابت کیا جارہا ہے کہ مکافات عمل کا قانون اس کائنات میں جاری وساری ہے۔ خ سب قوموں کے ایک جیسے جرم اور انجام سے سبق :۔ جس قوم نے بھی اللہ تعالیٰ کے حکم سے سرتابی کی اور اکڑ دکھائی اس کا انجام یہی ہوا کہ وہ تباہ و برباد ہو کے رہی۔ اور یہ عذاب محض ان کی گرفتاری کے حکم کا درجہ رکھتا تھا تاکہ وہ مزید جرائم نہ کرسکیں اور دوسرے لوگ ان کے مظالم سے بچ جائیں۔ رہی ان کے جرائم کی اصل سزا تو وہ قیامت کے دن مقدمہ، شہادتوں اور ثبوت جرم کے بعد دی جائے گی۔ اور یہ تاریخی واقعات، ان کا سبب اور ان کا نتیجہ سب کچھ کفار کو سنائے جارہے ہیں تاکہ وہ خود ہی سمجھ جائیں کہ اگر وہ لوگ بھی حق کی مخالفت سے باز نہ آئے تو ان کا بھی ایسا ہی انجام ہوسکتا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(وقوم نوح من قبل …: رازی نے یہاں ایک نکتہ بیان فرمایا ہے کہ ان پانچ اقوام کے ذکر میں اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں انھی چیزوں کے ساتھ عذاب دیا جو ان کے وجود اورق یام کا باعث تھیں۔ وہ چار چیزیں ہیں، مٹی، پانی ، ہوا اور آگ۔ قوم لوط کھنگر مٹی کے پتھروں کے ساتھ ہلاک ہوئی، فرعون اور قوم نوح پانی کے ساتھ، عاد ہوا کے ساتھ اور ثمود آگ کے ساتھ تباہ برباد کئے گئے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَقَوْمَ نُوْحٍ مِّنْ قَبْلُ۝ ٠ ۭ اِنَّہُمْ كَانُوْا قَوْمًا فٰسِقِيْنَ۝ ٤٦ ۧ قوم والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] ، ( ق و م ) قيام القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] نوح نوح اسم نبيّ ، والنَّوْح : مصدر ناح أي : صاح بعویل، يقال : ناحت الحمامة نَوْحاً وأصل النَّوْح : اجتماع النّساء في المَنَاحَة، وهو من التّناوح . أي : التّقابل، يقال : جبلان يتناوحان، وریحان يتناوحان، وهذه الرّيح نَيْحَة تلك . أي : مقابلتها، والنَّوَائِح : النّساء، والمَنُوح : المجلس . ( ن و ح ) نوح ۔ یہ ایک نبی کا نام ہے دراصل یہ ناح ینوح کا مصدر ہے جس کے معنی بلند آواز کے ساتھ گریہ کرنے کے ہیں ۔ محاورہ ہے ناحت الحمامۃ نوحا فاختہ کا نوحہ کرنا نوح کے اصل معنی عورتوں کے ماتم کدہ میں جمع ہونے کے ہیں اور یہ تناوح سے مشتق ہے جس کے معنی ثقابل کے ہیں جیسے بجلان متنا وحان دو متقابل پہاڑ ۔ ریحان یتنا وحان وہ متقابل ہوائیں ۔ النوائع نوحہ گر عورتیں ۔ المنوح ۔ مجلس گریہ ۔ فسق فَسَقَ فلان : خرج عن حجر الشّرع، وذلک من قولهم : فَسَقَ الرُّطَبُ ، إذا خرج عن قشره «3» ، وهو أعمّ من الکفر . والفِسْقُ يقع بالقلیل من الذّنوب وبالکثير، لکن تعورف فيما کان کثيرا، وأكثر ما يقال الفَاسِقُ لمن التزم حکم الشّرع وأقرّ به، ( ف س ق ) فسق فسق فلان کے معنی کسی شخص کے دائر ہ شریعت سے نکل جانے کے ہیں یہ فسق الرطب کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی گدری کھجور کے اپنے چھلکے سے باہر نکل آنا کے ہیں ( شرعا فسق کا مفہوم کفر سے اعم ہے کیونکہ فسق کا لفظ چھوٹے اور بڑے ہر قسم کے گناہ کے ارتکاب پر بولا جاتا ہے اگر چہ عرف میں بڑے گناہوں کے ارتکاب پر بولا جاتا ہے اور عام طور پر فاسق کا لفظ اس شخص کے متعلق استعمال ہوتا ہے جو احکام شریعت کا التزام اور اقرار کر نیکے بعد تمام یا بعض احکام کی خلاف ورزی کرے۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤٦{ وَقَوْمَ نُوْحٍ مِّنْ قَـبْلُ ط } ” اور قوم نوح کو بھی اس سے پہلے (ہم نے پکڑا) ۔ “ { اِنَّـہُمْ کَانُوْا قَوْمًا فٰسِقِیْنَ ۔ } ” یقینا وہ بھی بڑے ہی نافرمان لوگ تھے۔ “ نوٹ کیجیے یہاں حضرت شعیب (علیہ السلام) کے سوا ان سب پیغمبروں کا ذکر آگیا ہے جن کے حالات طویل مکی سورتوں میں تفصیل سے بیان ہوئے ہیں۔ یعنی سورة الاعراف اور سورة ہود میں ایک ایک پیغمبر کا واقعہ عموماً ایک ایک رکوع میں بیان ہوا ہے لیکن یہاں ان کا ذکر ایک ایک دو دو آیات میں آیا ہے۔ گویا بعد میں نازل ہونے والی طویل مکی سورتوں میں انباء الرسل کی تفصیل بیان ہوئی ہے جبکہ زیر مطالعہ مکی سورتوں میں ان پیغمبروں کا ذکر انتہائی مختصر انداز میں آیا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

15: ان کا تفصیلی واقعہ سورۃ ہود : 25 تا 48 میں گذر چکا ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(51:46) وقوم نوح من قبل : واؤ عاطفہ اور قوم نوح کا عطف فاخذتہم یا فنبذنھم کی ضمیر پر ہے ای واہلکنا قوم نوح۔ من قبل : قبل بعد کی ضد ہے یہ اسم ظرف زمان بھی استعمال ہوتا ہے اور اسم ظرف مکان بھی۔ قبل کو بعد میں طرح اضافت لازمی ہے، جب بغیر اضافت کے آئیگا تو ضمہ پر مبنی ہوگا۔ جیسا کہ آیت میں ۔ اور اضافت کے ساتھ جیسے کہ من قبلہم : من قبل ای من قبل ھؤلاء المہلکن ان ہلاک ہونے والوں سے پہلے۔ یعنی فرعون ، عاد، ثمود کی قوموں سے پہلے ہم نے قوم نوح کو ان کی سرکشی، کفر و فسق کی وجہ سے ہلاک کیا۔ انھم کانوا قوما فسقین۔ یہ علت ہے قوم نوح کی ہلاکت کی۔ قوما فسقین موصوف وصفت مل کر کانوا کی خبر ہے۔ فسقین اسم فاعل جمع مذکر ، بحالت نصب۔ فاسق کی جمع ۔ بمعنی شریعت کی حدود سے نکل جانے والے۔ کافر اور نافرمان لوگ۔ فائدہ : آخرت کے بارے میں تاریخی دلائل پیش کرنے کے بعد اب پھر اس کے ثبوت میں آفاقی دلائل پیش کئے جا رہے ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : قوم ثمود کے بعد قوم نوح کا ذکر۔ تاریخی اعتبار سے قوم نوح قوم عاد، ثمود اور آل فرعون سے پہلے گزری ہے اس لیے ارشاد ہوا کہ ان اقوام سے پہلے قوم نوح کا واقعہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح (علیہ السلام) کو ان کی قوم میں اس وقت نبوت سے سرفراز فرمایا جب ان کی قوم نافرمان ہوچکی تھی قوم نوح کا سب سے بڑا گناہ شرک تھا یہ لوگ مجسموں کے پجاری بن چکے تھے ان کے بارے میں حضرت عبداللہ بن عباس (رض) نے فرمایا کہ جب نوح (علیہ السلام) کی قوم کے نیک لوگ فوت ہوگئے تو شیطان نے ان کی اولاد کے دل میں یہ خیال ڈالا کہ جہاں تمہارے بزرگ بیٹھا کرتے تھے وہاں ان کے مجسمے تراش کر رکھ دیے جائیں تاکہ ان کا نام اور عقیدت باقی رہے۔ اس طرح ” اللہ “ کی عبادت یکسوئی کے ساتھ ہو پائے گی، چناچہ انھوں نے ایسا کیا جب یہ کام کرنے والے لوگ فوت ہوگئے تو ان کے بعد آنے والے لوگوں نے ان مجسموں کو اللہ تعالیٰ کی قربت کا وسیلہ بناناشروع کردیا اور پھر ان کے حضور سجدے، رکوع اور نذرانے پیش کیے جانے لگے۔ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ سورة نوح میں ودّ ، سواع، یغوث اور یعوق کے نام پر جن بتوں کا تذکرہ پایا جاتا ہے وہ نوح (علیہ السلام) کی قوم کے صالح لوگوں کے نام ہیں۔ (رواہ البخاری : کتاب التفسیر، طبری تفسیر سورة نوح، آیت : ٢٣، ٢٤) سورۃ العنکبوت آیت ١٤ میں بیان ہوا ہے کہ جناب نوح (علیہ السلام) نے ساڑھے نو سو سال قوم کی اصلاح کرنے میں صرف فرمائے۔ قرآن مجید نے یہ وضاحت بھی فرمائی ہے کہ انھوں نے اللہ تعالیٰ سے یہ فریاد کی کہ میرے رب میں نے اپنی قوم کو رات اور دن، انفرادی اور اجتماعی طور پر سمجھانے کی کوشش کی لیکن میری شب و روز کی کوشش کے باوجود قوم شرک اور برائی میں بڑھتی ہی چلی گئی۔ (نوح : ٢٤) قوم نہ صرف جرائم میں آگے برھتی گئی بلکہ الٹا انھوں نے نوح (علیہ السلام) کے بارے میں کہا کہ یہ تو گمراہ ہوگیا ہے اور پھر بار بار مطالبہ کیا کہ اے نوح ! اگر تو واقعی اللہ کا سچا نبی ہے تو ہمارے لیے عبرت ناک عذاب کی بددعا کرو۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے نہایت ہی مجبور ہو کر ان کے لیے بد دعا کی۔ ” اے میرے رب میں ان کے مقابلے میں بالکل بےبس اور مغلوب ہوچکا ہوں بس تو میری مدد فرما۔ “ (القمر : ١٠) اللہ تعالیٰ نے نوح (علیہ السلام) کی بد دعا قبول کرتے ہوئے انھیں حکم دیا کہ آپ میرے سامنے ایک کشتی بنائیں جب نوح (علیہ السلام) کشتی بنا رہے تھے تو ان کی قوم نے ان کو بار بار تمسخر کا نشانہ بنایا۔ جس کے جواب میں نوح (علیہ السلام) انھیں فرماتے کہ آج تم مجھے استہزاء کا نشانہ بنا رہے ہو کل تم ہمیشہ کے لیے مذاق اور عبرت کا نشان بن جاؤ گے۔ (ھود آیت ٣٧ تا ٣٩) حضرت نوح (علیہ السلام) کا خطاب : اے میری قوم مجھے اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے نوازا ہے اور میں اپنے رب کی طرف سے دلیل پر ہوں۔ تم ہدایت کو پسند نہیں کرتے تو میں تم پر ہدایت کس طرح مسلط کرسکتا ہوں۔ میں تم سے تبلیغ کا اجر نہیں مانگتا نہ میں ایمان والوں کو اپنے آپ سے دھتکارنے والا ہوں۔ ہوش کرو اگر میں انھیں دھتکاردوں تو اللہ کے ہاں میری کون مدد کرے گا ؟ میں غیب دان ہونے کا دعوی نہیں کرتا۔ نہ میں اپنے آپ کو فرشتہ کہتا ہوں نہ میں کہتا ہوں جنھیں تم حقیر سمجھتے ہو اللہ انھیں بھلائی سے نہیں نوازے گا۔ اگر ایسی باتیں کہوں تو میں ظالموں میں شمار ہوں گا۔ (ھود : ١٢٣) قوم کا جواب : تم ہماری طرح کے انسان ہو لیکن ہم پر برتری چاہتے ہو۔ ہم نے یہ باتیں باپ دادا سے کبھی نہیں سنیں۔ نوح دیوانہ ہوگیا ہے۔ بس انتظار کرو ختم ہوجائے گا۔ (المؤمنوں : ٢٤، ٢٥) ہم تجھ پر ایمان نہیں لائیں گے کیونکہ تجھے ماننے والے گھٹیا لوگ ہیں۔ (الشعراء : ١١٢) ہم اپنے معبودوں اور ودّ ، سواع، یعوق اور نسر کو نہیں چھوڑ سکتے۔ “ (نوح : ٢٤) ہم تجھے سنگسار کردیں گے۔ (الشعراء : ١١٦) قوم کا عذاب الٰہی کو چیلنج کرنا : ” اے نوح تم نے ہم سے بہت زیادہ بحث و تکرار اور جھگڑا کرلیا ہے۔ اب اس کی انتہا ہوگئی ہے بس ہمارے پاس اللہ کا عذاب لے آ اگر واقعی تو سچے لوگوں میں ہے۔ “ ( ھود : ٣٢) حضرت نوح (علیہ السلام) کا جواب : ” اگر ” اللہ “ نے چاہا تو تم پر عذاب ضرور آئے گا اور تم اسے ہرگز نہیں ٹال سکو گے۔ “ (ھود : ٣٣) نوح (علیہ السلام) کی فریاد اور بد دعا : ” میرے رب میں نے اپنی قوم کو دن اور رات خفیہ اور اعلانیہ، انفرادی اور اجتماعی طور پر سمجھایا میں نے جب بھی انھیں دعوت دی تو انھوں نے اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لی۔ اپنے چہرے چھپا لیے اور تکبر کرنے کی انتہا کردی۔ میرے رب انھوں نے میری ہر بات کو ٹھکرایا اور نافرمانی کی۔ ان کی اولاد اور مال نے انہیں تیری نافرمانی میں بہت زیادہ بڑھایا دیا ہے انھوں نے زبردست قسم کی سازشیں کیں۔ “ (نوح : ٥ تا ٩) ” حضرت نوح نے اپنے رب سے فریاد کی اے میرے رب میں ان کے مقابلے میں انتہائی کمزور اور بےبس ہوچکا ہوں بس تو میری مدد فرما۔ “ (القمر : ١٠) ” اے میرے رب اب زمین پر کفار کا ایک گھر بھی باقی نہیں رہنا چاہیے۔ اگر تو نے انھیں چھوڑ دیا تو وہ تیرے بندوں کو گمراہ کرتے رہیں گے۔ اب ان میں سے جو بھی پیدا ہوگا وہ نافرمان اور ناشکرگزار ہوگا۔ “ (نوح : ٢٥، ١٠، ٢٧) عذاب کی کیفیت : قوم نوح پر چالیس دن مسلسل دن رات بےانتہا بارش برستی رہی یہاں تک کہ جگہ جگہ زمین سے چشمے پھوٹ پڑے۔ حتی کہ تنور پھٹ پڑا اللہ تعالیٰ نے طوفان کے آغاز میں حضرت نوح (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ وہ اللہ کا نام لے کر کشتی میں سوار ہوجائیں اور اپنے ساتھ ہر جاندار کا جوڑا جوڑا یعنی نر اور مادہ دو دو کشتی میں اپنے ساتھ سوار کرلیں۔ البتہ کسی کافر اور مشرک کو کشتی میں سوار نہ کیا جائے۔ (ہود : ٤٠ تا ٤٢) عذاب کی ہو لناکیاں : (فَفَتَحْنَا اَبْوَاب السَّمَآءِ بِمَاءٍ مُّنْہَمِر وَفَجَّرْنَا الْاَرْضَ عُیُوْنًا فَالْتَقَی الْمَاءُ عَلٰی اَمْرٍ قَدْ قُدِرَ ) (القمر : ١١، ١٢) ” ہم نے موسلا دھار بارش کے لیے آسمان کے دروازے کھول دیے۔ اور ہم نے زمین سے ابلتے چشمے جا ری کیے۔ “ (فَاِِذَا جَآءَ اَمْرُنَا وَفَارَالتَّنُّوْرُ ) (المومنون : ٢٧) ” جب ہمارا حکم صادر ہوا تو تنور جوش مارنے لگا۔ “ قوم نوح پر اللہ تعالیٰ نے پانی کا ایسا عذاب نازل فرمایا کہ جس کے بارے میں سورة القمر آیت ١١، ١٢ اور سورة المؤمنون، آیت ٢٧ میں بیان ہوا ہے کہ آسمان کے دروازے کھول دئیے گئے زمین سے چشمے پھوٹ نکلے یہاں تک کہ تنور پھٹ پڑا۔ نوح (علیہ السلام) کے نافرمان بیٹے سمیت ان کی قوم کو پانی میں ڈبکیاں دے دے کر ختم کردیا گیا۔ مفسرین نے لکھا ہے جس کی تائید موجودہ دور کے آثار قدیمہ کے ماہرین بھی کرتے ہیں کہ طوفان نوح نے فلک بوس پہاڑوں کی چوٹیوں کو بھی ڈھانپ لیا تھا۔ بائبل میں لکھا ہے کہ سیلاب بلند ترین پہاڑوں کی چوٹیوں سے ١٥ فٹ اوپر بہہ رہا تھا۔ تفسیر بالقرآن حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم کا انجام : ١۔ قوم نوح طوفان کے ذریعے ہلاک ہوئی۔ (الفرقان : ٣٧) ٢۔ حضرت نوح نے اپنے بیٹے سے فرمایا آج کے دن اللہ کے عذاب سے کوئی بچانے والا نہیں۔ (ہود : ٤٣) ٣۔ نوح نے بدعا کی کہ الٰہی زمین پر ایک بھی کافر نہ چھوڑیے۔ (نوح : ٢٦) ٤۔ حضرت نوح کا بیٹا بھی غرق ہوا۔ (ہود : ٤٣)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

والسماء بنیناھا کو اس پر عطف کیا گیا ہے تو قوم نوح کی نشانی ایک تاریخی نشانی ہے اور آسمان کی نشانی تکوینی نشانی ہے۔ یہاں دونوں کو باہم حرف عطف کے ذریعے مربوط کردیا گیا اور ان دونوں کے ذریعے اس پیراگراف کو اس سورة کے تیسرے پیراگراف سے مربوط کردیا گیا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اس کے بعد ثمود کی بربادی کا ذکر فرمایا ان کی طرف حضرت صالح (علیہ السلام) مبعوث ہوئے تھے انہوں نے انہیں توحید کی دعوت دی سمجھایا بجھایا لیکن یہ لوگ اپنی ضد پر اڑے رہے ان کا تذکرہ بھی ان سورتوں میں گزر چکا ہے جن کا حوالہ اوپر دیا گیا۔ بطور معجزہ اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے پہاڑ سے اونٹنی برآمد فرمائی تھی اور ان لوگوں کو بتادیا کہ یہ اونٹنی ایک دن تمہارے کنویں کا پانی پیئے گی اور ایک دن تمہارے مویشی پئیں گے، یہ بات ان لوگوں کو ناگوار ہوئی اور اونٹنی کو قتل کرنے کا مشورہ کیا حضرت صالح (علیہ السلام) نے فرمایا ﴿ تَمَتَّعُوْا فِيْ دَارِكُمْ ثَلٰثَةَ اَيَّامٍ﴾ (تم اپنے گھروں میں تین دن تک نفع اٹھا لو) یعنی زندہ رہ لو اور کھا پی لو، اس کے بعد تمہاری بربادی اور ہلاکت ہے۔ ﴿ ذٰلِكَ وَعْدٌ غَيْرُ مَكْذُوْبٍ ٠٠٦٥﴾ (یہ وعدہ ہے جو جھوٹا نہیں ہے بالکل سچا ہے) چناچہ ان پر عذاب آیا اور انہیں ہلاک کر کے رکھ دیا اس عذاب کو یہاں الصاعقہ فرمایا اور سورة ٴ حم سجدہ میں ﴿ صٰعِقَةُ الْعَذَابِ الْهُوْنِ﴾ سے تعبیر فرمایا ہے۔ بعض مفسرین نے فرمایا ہے کہ صاعقہ ہر عذاب کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور اس کا اصل لغوی معنی وہ عذاب ہے جو بجلی کے گرنے یا بادلوں کے گرجنے سے ہو، سورة ٴ ہود اور سورة ٴ قمر میں ان کے عذاب کو صیحۃ سے تعبیر فرمایا ہے وہ چیخ کے معنی میں ہے۔ بہرحال ان لوگوں پر تین دن بعد عذاب آیا اور یہ لوگ دیکھتے ہی رہ گئے۔ اسی کو فرمایا ﴿ فَاَخَذَتْهُمُ الصّٰعِقَةُ وَ هُمْ يَنْظُرُوْنَ ٠٠٤٤﴾ سورة ٴ ہود میں فرمایا ﴿فَاَصْبَحُوْا فِيْ دِيَارِهِمْ جٰثِمِيْنَۙ٠٠٦٧ كَاَنْ لَّمْ يَغْنَوْا فِيْهَا ١ؕ﴾ کہ وہ گھٹنوں کے بل اپنے گھروں میں ایسے گرے کہ گویا کہ وہ ان گھروں میں رہے ہی نہیں تھے۔ اللہ تعالیٰ کا عذاب آیا تو عذاب کو دفع نہیں کرسکے، کسی سے مدد نہیں لے سکے، اللہ تعالیٰ سے انتقام نہیں لے سکے۔ وما کانوا منتصرین میں اسی کو بیان فرمایا ہے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم کی ہلاکت : اس کے بعد حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم کی بربادی کا تذکرہ فرمایا یعنی ان لوگوں سے پہلے قوم نوح بھی عذاب میں گرفتار ہوچکی ہے۔ یہ لوگ بھی فاسق یعنی نافرمان تھے۔ قال فی معالم التنزیل : ﴿وَ قَوْمَ نُوْحٍ ﴾ قرا ابو عمرو وحمزہ والکسائی ﴿وقومْ ﴾ بجر المیم ای وفی قوم نوح وقرا الاخرون بنصبھا بالحمل علی المعنی وھو ان قولہ ﴿ فَاَخَذْنٰهُ وَ جُنُوْدَهٗ فَنَبَذْنٰهُمْ فِي الْيَمِّ﴾ معناہ اغرقناھم کانہ۔ واغرقنا قوم نوح ﴿مِّنْ قَبْلُ﴾ ای من قبل ھٰولاء وھم عاد وثمود و قوم فرعون۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

15:۔ ” وقوم نوح۔ الایۃ “ یہ تخویف دنیوی کا پانچواں نمونہ ہے۔ ” قوم نوح “ فعل مقدر کا مفعول ہے۔ ای واھلکنا قوم نوح۔ (مظہری ج 9 ص 89) ۔ اور ان تمام سرکش قوموں سے پہلے قوم نوح کو ہلاک کیا وہ لوگ بھی سرکش اور خدا کے باغی اور نافرمان تھے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(46) اور ہم نے ان مذکورہ قوموں سے پہلے نوح (علیہ السلام) کی قوم کو ہلاک کیا کیونکہ وہ بھی بڑے ہی نافرمان اور بےحکم لوگ تھے۔ یعنی عادو ثمود وغیرہ کی قوموں سے پہلے نوح (علیہ السلام) کی قوم بھی ہلاک کرچکے ہیں کیونکہ وہ نوح (علیہ السلام) کی قوم کے لوگ بڑے نافرمان اور بدکار تھے۔