Surat uz Zaariyaat

Surah: 51

Verse: 52

سورة الذاريات

کَذٰلِکَ مَاۤ اَتَی الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ مِّنۡ رَّسُوۡلٍ اِلَّا قَالُوۡا سَاحِرٌ اَوۡ مَجۡنُوۡنٌ ﴿ۚ۵۲﴾

Similarly, there came not to those before them any messenger except that they said, "A magician or a madman."

اس طرح جو لوگ ان سے پہلے گزرے ہیں ان کے پاس جو بھی رسول آیا انہوں نے کہہ دیا کہ یا تو یہ جادوگر ہے یا دیوانہ ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

All Messengers met the Same Type of Denial from Their Nations Allah comforts His Prophet by saying to Him, `just as these idolators denied you, the disbelievers of old used the same words with their Messengers,' كَذَلِكَ مَا أَتَى الَّذِينَ مِن قَبْلِهِم مِّن رَّسُولٍ إِلاَّ قَالُوا سَاحِرٌ أَوْ مَجْنُونٌ Likewise, no Messenger came to those before them but they said: "A sorcerer or a madman!" Allah the Exalted and Most Honored said,

تبلیغ میں صبرو ضبط کی اہمیت اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دیتے ہوئے فرماتا ہے کہ کفار جو آپ کو کہتے ہیں وہ کوئی نئی بات نہیں ان سے پہلے کا کافروں نے بھی اپنے اپنے زمانہ کے رسولوں سے یہی کہا ہے ، کافروں کا یہ قول سلسلہ بہ سلسلہ یونہی چلا آیا ہے جیسے آپس میں ایک دوسرے کو وصیت کر کے جاتا ہو سچ تو یہ ہے کہ سرکشی اور سرتابی میں یہ سب یکساں ہیں اس لئے جو بات پہلے والوں کے منہ سے نکلی وہی ان کی زبان سے نکلتی ہے کیونکہ سخت دلی میں سب ایک سے ہیں پس آپ چشم پوشی کیجئے یہ مجنون کہیں جادوگر کہیں آپ صبر و ضبط سے سن لیں ہاں نصیحت کی تبلیغ نہ چھوڑئیے اللہ کی باتیں پہچانتے چلے جائیے ۔ جن دلوں میں ایمان کی قبولیت کا مادہ ہے وہ ایک نہ ایک روز راہ پر لگ جائیں گے ۔ پھر اللہ تعالیٰ جل جلالہ کا فرمان ہے کہ میں نے انسانوں اور جنوں کو کسی اپنی ضرورت کے لئے نہیں پیدا کیا بلکہ صرف اس لئے کہ میں انہیں ان کے نفع کے لئے اپنی عبادت کا حکم دوں وہ خوشی ناخوشی میرے معبود برحق ہونے کا اقرار کریں مجھے پہچانیں حضرت سدی فرماتے ہیں بعض عبادتیں نفع دیتی ہیں اور بعض عبادتیں بالکل نفع نہیں پہنچاتیں جیسے قرآن میں ایک جگہ ہے کہ اگر تم ان کافروں سے پوچھو کہ آسمان و زمین کو کس نے پیدا کیا ہے ؟ تو یہ جواب دیں گے کہ اللہ تعالیٰ نے تو گو یہ بھی عبادت ہے مگر مشرکوں کو کام نہ آئے گی غرض عابد سب ہیں خواہ عبادت ان کے لئے نافع ہو یا نہ ہو ، اور حضرت ضحاک فرماتے ہیں اس سے مراد مسلمان انسان اور ایمان والے جنات ہیں مسند احمد کی حدیث میں ہے حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں پڑھایا ہے حدیث ( اِنَّ اللّٰهَ هُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّةِ الْمَتِيْنُ 58؀ ) 51- الذاريات:58 ) یہ حدیث ابو داؤد ترمذی اور نسائی میں بھی ہے امام ترمذی اسے حسن صحیح بتاتے ہیں ۔ غرض اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو بندگی کیلئے پیدا کیا ہے اب اس کی عبادت یکسوئی کے ساتھ جو بجا لائے گا کسی کو اس کا شریک نہ کرے گا وہ اسے پوری پوری جزا عنایت فرمائے گا اور جو اس کی نافرمانی کرے گا اور اس کے ساتھ کسی کو شریک کرے گا وہ بدترین سزائیں بھگتے گا اللہ کسی کا محتاج نہیں بلکہ کل مخلوق ہر حال اور ہر وقت میں اس کی پوری محتاج ہے بلکہ محض بےدست و پا اور سراسر فقیر ہے خالق رزاق اکیلا اللہ تعالیٰ ہی ہے ، مسند احمد میں حدیث قدسی ہے کہ اے ابن آدم میری عبادت کے لئے فارغ ہو جا میں تیرا سینہ تونگری اور بےنیازی سے پر کر دونگا اور تیری فقیری روک دوں گا اور اگر تو نے ایسا نہ کیا تو میں تیرے سینے کو اشغال سے بھر دوں گا اور تیری فقیری کو ہرگز بند نہ کروں گا ترمذی اور ابن ماجہ میں بھی یہ حدیث شریف ہے ، امام ترمذی اسے حسن غریب کہتے ہیں خالد کے دونوں لڑکے حضرت حبہ اور حضرت سواء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اس وقت آپ کسی کام میں مشغول تھے یا کوئی دیوار بنا رہے تھے یا کسی چیز کو درست کر رہے تھے ہم بھی اسی کام میں لگ گئے جب کام ختم ہوا تو آپ نے ہمیں دعا دی اور فرمایا سر ہل جانے تک روزی سے مایوس نہ ہونا دیکھو انسان جب پیدا ہوتا ہے ایک سرخ بوٹی ہوتا ہے بدن پر ایک چھلکا بھی نہیں ہوتا پھر اللہ تعالیٰ اسے سب کچھ دیتا ہے ( مسند احمد ) بعض آسمانی کتابوں میں ہے اے ابن آدم میں نے تجھے اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے اس لئے تو اس سے غفلت نہ کر تیرے رزق کا میں ضامن ہوں تو اس میں بےجا تکلیف نہ کر مجھے ڈھونڈ تاکہ مجھے پا لے جب تو نے مجھے پا لیا تو یقین مان کہ تو نے سب کچھ پا لیا اور اگر میں تجھے نہ ملا تو سمجھ لے کہ تمام بھلائیاں تو کھو چکا سن تمام چیزوں سے زیادہ محبت تیرے دل میں میری ہونی چاہیے ۔ پھر فرماتا ہے یہ کافر میرے عذاب کو جلدی کیوں مانگ رہے ہیں ؟ وہ عذاب تو انہیں اپنے وقت پر پہنچ کر ہی رہیں گے جیسے ان سے پہلے کا کافروں کو پہنچے قیامت کے دن جس دن کا ان سے وعدہ ہے انہیں بڑی خرابی ہو گی الحمد اللہ سورہ ذاریات کی تفسیر ختم ہوئی ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤٥] ہر نبی کو ساحر اور دیوانہ کہا جاتا رہا ہے :۔ یعنی یہ ساحر اور دیوانہ کا جو لقب کفار مکہ کی طرف سے آپ کو دیا گیا ہے۔ تو آپ اس لقب میں منفرد نہیں بلکہ پہلی قوموں نے اپنے اپنے رسولوں کو انہی القاب سے نوازا تھا۔ کفار رسولوں کو ساحر تو اس لحاظ سے کہتے تھے کہ بعض کفار کے مطالبہ پر اور بعض دفعہ مطالبہ کے بغیر ان پیغمبروں سے ایسے واقعات کا ظہور یا صدور ہوتا تھا جو خرق عادت ہوتے تھے۔ جنہیں معجزات بھی کہا جاتا ہے اور مجنوں اس لحاظ سے کہتے تھے کہ پیغمبر جو دعوت پیش کرتا ہے وہ ساری قوم کے مزاج اور اعتقاد کے خلاف ہوتی تھی اور رسول یہ دعوت پیش کرکے ساری قوم کی مخالفت مول لے لیتا تھا۔ اور یہی بات ان لوگوں کی نگاہ میں دیوانگی تھی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(کذلک ما اتی الذین من قبلھم من رسول …: اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ یہ معاملہ آپ ہی کے ساتھ پیش نہیں آیا کہ توحید اور آخرت کی دعوت سن کر جھٹلایا گیا ہو اور جادوگر یا دیوانہ کہا گیا ہو، بلکہ آپ سے پہلے جس قوم کے پاس بھی کوئی رسول آیا اس کے جاہلوں نے یہی کہا کہ جادوگر دیوانہ کہا گیا ہو، بلکہ آپ سے پہلے جس قوم کے پاس بھی کوئی رسول آیا اس کے اجہلوں نے یہی کہا کہ یہ جادوگر ہے یا دیوانہ ہے۔ وہ سب جب معجزوں کیساتھ لاجواب ہوتے تو انہیں جادو کہہ کر جھٹلا دیتے، جب رسول کے کلام کی بےپناہ تاثیر دیکھتے تو اسے جادوگر کہہ کر لوگوں کو اس سے دور رکھنے کی کوشش کرتے اور جب دیکھتے کہ اکیلا شخص پوری قوم کے خلاف توحید اور آخرت کی بات کر رہا ہے، نہ اپنے کسی دنیوی مفاد کی پروا کرتا ہے اور نہ ساری قوم کی مخالفت ، استہزا اور اذیت رسانی کے باوجود اپنی دعوت سے باز آتا ہے تو اسے دیوانہ قرار دیتے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

كَذٰلِكَ مَآ اَتَى الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ مِّنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا قَالُوْا سَاحِرٌ اَوْ مَجْنُوْنٌ۝ ٥٢ ۚ هذا ( ذَاكَ ذلك) وأما ( ذا) في (هذا) فإشارة إلى شيء محسوس، أو معقول، ويقال في المؤنّث : ذه وذي وتا، فيقال : هذه وهذي، وهاتا، ولا تثنّى منهنّ إلّا هاتا، فيقال : هاتان . قال تعالی: أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء/ 62] ، هذا ما تُوعَدُونَ [ ص/ 53] ، هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات/ 14] ، إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه/ 63] ، إلى غير ذلك هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور/ 14] ، هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن/ 43] ، ويقال بإزاء هذا في المستبعد بالشخص أو بالمنزلة : ( ذَاكَ ) و ( ذلك) قال تعالی: الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة/ 1- 2] ، ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف/ 17] ، ذلِكَ أَنْ لَمْ يَكُنْ رَبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرى [ الأنعام/ 131] ، إلى غير ذلك . ( ذ ا ) ہاں ھذا میں ذا کا لفظ اسم اشارہ ہے جو محسوس اور معقول چیز کی طرف اشارہ کے لئے آتا ہے ۔ چناچہ کہا جاتا ہے ۔ ھذہ وھذی وھاتا ۔ ان میں سے سرف ھاتا کا تژنیہ ھاتان آتا ہے ۔ ھذہٰ اور ھٰذی کا تثنیہ استعمال نہیں ہوتا قرآن میں ہے : أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء/ 62] کہ دیکھ تو یہی وہ ہے جسے تونے مجھ پر فضیلت دی ہے ۔ هذا ما تُوعَدُونَ [ ص/ 53] یہ وہ چیزیں ہیں جن کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا ۔ هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات/ 14] یہ وہی ہے جس کے لئے تم جلدی مچایا کرتے تھے ۔ إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه/ 63] کہ یہ دونوں جادوگر ہیں ۔ هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور/ 14] یہی وہ جہنم ہے جس کو تم جھوٹ سمجھتے تھے ۔ هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن/ 43] یہی وہ جہنم ہے جسے گنہگار لوگ جھٹلاتے تھے ۔ ھذا کے بالمقابل جو چیز اپنی ذات کے اعتبار سے دور ہو یا باعتبار مرتبہ بلند ہو ۔ اس کے لئے ذاک اور ذالک استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة/ 1- 2] یہ کتاب یہ خدا کی نشانیوں میں سے ہے ۔ ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف/ 17] یہ اس لئے کہ تمہارا پروردگار ایسا نہیں ہے کہ بستیوں کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہلاک کردے ۔ أتى الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ «5» ، وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ «6» . والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام/ 40] ، وقوله تعالی: أَتى أَمْرُ اللَّهِ [ النحل/ 1] ، وقوله : فَأَتَى اللَّهُ بُنْيانَهُمْ مِنَ الْقَواعِدِ [ النحل/ 26] ، أي : بالأمر والتدبیر، نحو : وَجاءَ رَبُّكَ [ الفجر/ 22] ، وعلی هذا النحو قول الشاعر : 5- أتيت المروءة من بابها «7» فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لا قِبَلَ لَهُمْ بِها [ النمل/ 37] ، وقوله : لا يَأْتُونَ الصَّلاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسالی [ التوبة/ 54] ، أي : لا يتعاطون، وقوله : يَأْتِينَ الْفاحِشَةَ [ النساء/ 15] ، وفي قراءة عبد اللہ : ( تأتي الفاحشة) «1» فاستعمال الإتيان منها کاستعمال المجیء في قوله : لَقَدْ جِئْتِ شَيْئاً فَرِيًّا [ مریم/ 27] . يقال : أتيته وأتوته الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی |" آنا |" ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : {إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ } [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو { أَتَى أَمْرُ اللَّهِ } [ النحل : 1] خد اکا حکم ( یعنی عذاب گویا ) آہی پہنچا۔ اور آیت کریمہ { فَأَتَى اللَّهُ بُنْيَانَهُمْ مِنَ الْقَوَاعِدِ } [ النحل : 26] میں اللہ کے آنے سے اس کے حکم کا عملا نفوذ مراد ہے جس طرح کہ آیت { وَجَاءَ رَبُّكَ } [ الفجر : 22] میں ہے اور شاعر نے کہا ہے ۔ (5) |" اتیت المروءۃ من بابھا تو جو انمروی میں اس کے دروازہ سے داخل ہوا اور آیت کریمہ ۔ { وَلَا يَأْتُونَ الصَّلَاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسَالَى } [ التوبة : 54] میں یاتون بمعنی یتعاطون ہے یعنی مشغول ہونا اور آیت کریمہ ۔ { يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ } [ النساء : 15] میں الفاحشہ ( بدکاری ) کے متعلق اتیان کا لفظ ایسے ہی استعمال ہوا ہے جس طرح کہ آیت کریمہ ۔ { لَقَدْ جِئْتِ شَيْئًا فَرِيًّا } [ مریم : 27] فری کے متعلق مجئی کا لفظ استعمال ہوا ہے ( یعنی دونوں جگہ ارتکاب کے معنی ہیں ) اور آیت ( مذکورہ ) میں ایک قرات تاتی الفاحشۃ دونوں طرح آتا ہے ۔ چناچہ ( دودھ کے ، مشکیزہ کو بلونے سے جو اس پر مکھن آجاتا ہے اسے اتوۃ کہا جاتا ہے لیکن اصل میں اتوۃ اس آنے والی چیز کو کہتے ہیں جو کسی دوسری چیز سے حاصل ہوکر آئے لہذا یہ مصدر بمعنی فاعل ہے ۔ رسل وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ، ( ر س ل ) الرسل اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ سحر والسِّحْرُ يقال علی معان : الأوّل : الخداع وتخييلات لا حقیقة لها، نحو ما يفعله المشعبذ بصرف الأبصار عمّا يفعله لخفّة يد، وما يفعله النمّام بقول مزخرف عائق للأسماع، وعلی ذلک قوله تعالی: سَحَرُوا أَعْيُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْهَبُوهُمْ [ الأعراف/ 116] والثاني : استجلاب معاونة الشّيطان بضرب من التّقرّب إليه، کقوله تعالی: هَلْ أُنَبِّئُكُمْ عَلى مَنْ تَنَزَّلُ الشَّياطِينُ تَنَزَّلُ عَلى كُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ [ الشعراء/ 221- 222] ، والثالث : ما يذهب إليه الأغتام «1» ، وهو اسم لفعل يزعمون أنه من قوّته يغيّر الصّور والطّبائع، فيجعل الإنسان حمارا، ولا حقیقة لذلک عند المحصّلين . وقد تصوّر من السّحر تارة حسنه، فقیل : «إنّ من البیان لسحرا» «2» ، وتارة دقّة فعله حتی قالت الأطباء : الطّبيعية ساحرة، وسمّوا الغذاء سِحْراً من حيث إنه يدقّ ويلطف تأثيره، قال تعالی: بَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَسْحُورُونَ [ الحجر/ 15] ، ( س ح ر) السحر اور سحر کا لفظ مختلف معانی میں استعمال ہوتا ہے اول دھوکا اور بےحقیقت تخیلات پر بولاجاتا ہے جیسا کہ شعبدہ باز اپنے ہاتھ کی صفائی سے نظرون کو حقیقت سے پھیر دیتا ہے یانمام ملمع سازی کی باتین کرکے کانو کو صحیح بات سننے سے روک دیتا ہے چناچہ آیات :۔ سَحَرُوا أَعْيُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْهَبُوهُمْ [ الأعراف/ 116] تو انہوں نے جادو کے زور سے لوگوں کی نظر بندی کردی اور ان سب کو دہشت میں ڈال دیا ۔ دوم شیطان سے کسی طرح کا تقرب حاصل کرکے اس سے مدد چاہنا جیسا کہ قرآن میں ہے : هَلْ أُنَبِّئُكُمْ عَلى مَنْ تَنَزَّلُ الشَّياطِينُ تَنَزَّلُ عَلى كُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ [ الشعراء/ 221- 222] ( کہ ) کیا تمہیں بتاؤں گس پر شیطان اترا کرتے ہیں ( ہاں تو وہ اترا کرتے ہیں ہر جھوٹے بدکردار پر ۔ اور اس کے تیسرے معنی وہ ہیں جو عوام مراد لیتے ہیں یعنی سحر وہ علم ہے جس کی قوت سے صور اور طبائع کو بدلا جاسکتا ہے ( مثلا ) انسان کو گدھا بنا دیا جاتا ہے ۔ لیکن حقیقت شناس علماء کے نزدیک ایسے علم کی کچھ حقیقت نہیں ہے ۔ پھر کسی چیز کو سحر کہنے سے کبھی اس شے کی تعریف مقصود ہوتی ہے جیسے کہا گیا ہے (174) ان من البیان لسحرا ( کہ بعض بیان جادو اثر ہوتا ہے ) اور کبھی اس کے عمل کی لطافت مراد ہوتی ہے چناچہ اطباء طبیعت کو ، ، ساحرۃ کہتے ہیں اور غذا کو سحر سے موسوم کرتے ہیں کیونکہ اس کی تاثیر نہایت ہی لطیف ادرباریک ہوتی ہے ۔ قرآن میں ہے : بَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَسْحُورُونَ [ الحجر/ 15]( یا ) یہ تو نہیں کہ ہم پر کسی نے جادو کردیا ہے ۔ یعنی سحر کے ذریعہ ہمیں اس کی معرفت سے پھیر دیا گیا ہے ۔ جُنون : حائل بين النفس والعقل، وجُنَّ فلان قيل : أصابه الجن، وبني فعله کبناء الأدواء نحو : زکم ولقي «1» وحمّ ، وقیل : أصيب جنانه، وقیل : حيل بين نفسه وعقله، فجن عقله بذلک وقوله تعالی: مُعَلَّمٌ مَجْنُونٌ [ الدخان/ 14] ، أي : ضامّة من يعلمه من الجن، وکذلک قوله تعالی: أَإِنَّا لَتارِكُوا آلِهَتِنا لِشاعِرٍ مَجْنُونٍ [ الصافات/ 36] جنون ( ایضا ) جنوں ۔ دیونگی ۔ قرآن میں سے : ما بصاحبِكُمْ مِنْ جِنَّةٍ [ سبأ/ 46] کہ ان کے رفیق محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کسی طرح کا بھی ) جنون ۔۔ نہیں ہے ۔ اور دیوانگی کو جنون اس لئے کہا جاتا ہے کہ یہ انسان کے دل اور عقل کے درمیان حائل ہوجاتا ہے ۔ جن فلان ۔ اسے جن لگ گیا ۔ امراض کے معانی میں دوسرے افعال کی طرح یہ بھی فعل مجہول ہی استعمال ہوتا ہے جیسے زکم ( اسے زکام ہوگیا ) لقی ( اے لقوہ ہوگیا ) حم ( اے بخار ہوگیا ) وغیرہ ۔ بعض نے کہا ہے جن فلان کے معنی ہیں ۔ اس کے قلب کو عارضہ ہوگیا اور بعض نے کہا کہ دیوانگی نے اس کی عقل کو چھپالیا اور آیت کریمہ :۔ مُعَلَّمٌ مَجْنُونٌ [ الدخان/ 14] کے معنی ہیں کہ اسے وہ جن چمٹا ہوا ہے جو اسے تعلیم دیتا ہے اور یہی معنی آیت :۔ أَإِنَّا لَتارِكُوا آلِهَتِنا لِشاعِرٍ مَجْنُونٍ [ الصافات/ 36] کو بھلاک ایک دیوانے شاعر کے کہنے سے کہیں اپنے معبودوں کو چھوڑ دینے والے ہیں ۔ میں شاعر مجنون کے ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٥٢۔ ٥٣) اور جیسا کہ آپ کی قوم آپ کو جادوگر یا مجنوں کہتی ہے اسی طرح جو کافر لوگ آپ کی قوم سے پہلے گزرے ہیں ان کے پاس کوئی پیغمبر ایسا نہیں آیا جس کو انہوں نے جادوگر یا مجنوں نہ کہا ہو کیا ہر ایک قوم اس بات میں ایک دوسرے کی موافقت کرتی چلی آرہی ہے کہ اپنے اپنے رسولوں کو ان ہی الفاظ کے ساتھ یاد کریں بلکہ یہ سب کے سب کافر ہیں۔ شان نزول : فَتَوَلَّ عَنْهُمْ ۔ وَّذَكِّرْ فَاِنَّ الذِّكْرٰى تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِيْنَ (الخ) ابن منبع اور ابن راہویہ اور ہثیم بن کلیب نے اپنی مسانید میں بواسطہ مجاہد حضرت علی سے روایت کیا ہے کہ جس وقت یہ آیت نازل ہوئی فَتَوَلَّ عَنْهُمْ فَمَآ اَنْتَ بِمَلُوْمٍ تو ہم میں سے کوئی شخص ایسا باقی نہیں رہا جسے اپنی ہلاکت کا یقین نہ ہوگیا ہو کیونکہ رسول اکرم کو ہم سے عدم التفات کا حکم ہوگیا تھا اس کے بعد یہ آیت نازل ہوئی وَّذَكِّرْ فَاِنَّ الذِّكْرٰى تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِيْنَ جس سے ہمارے دلوں کو اطمینان اور خوشی ہوئی۔ اور ابن جریر نے قتادہ سے روایت کیا ہے کہ ہم سے ذکر کیا گیا کہ جس وقت یہ آیت نازل ہوئی فَتَوَلَّ عَنْهُمْ (الخ) تو یہ آیت صحابہ کرام کے لیے بہت سخت پریشانی کا باعث ہوئی اور وہ سمجھے کہ اب وحی منقطع ہوجائے گی اور عذاب نازل ہوگا تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت مبارکہ نازل فرمائی۔ وَّذَكِّرْ فَاِنَّ الذِّكْرٰى تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِيْنَ ۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥٢{ کَذٰلِکَ مَآ اَتَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ مِّنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا قَالُوْا سَاحِرٌ اَوْ مَجْنُوْنٌ ۔ } ” اسی طرح (ہوتا آیا ہے کہ) نہیں آیا تھا ان سے پہلے لوگوں کے پاس کوئی رسول مگر انہوں نے یہی کہا تھا کہ یہ ساحر ہے یا مجنون ہے۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

49 That is, °This has not happened for the first time that the people are calling the Messenger sent by Allah a sorcerer and a madman when they heard the news of the Hereafter and the invitation to the Oneness of Allah from him. The whole history of Apostleship bears evidence that ever since the Messengers started coming for the guidance of mankind, ignorant people have been repeating the same folly in the same manner. Whichever Messenger came and gave them the warning that they were not the servants of many gods but One God alone is their Creator and Deity and Master of their destinies, ignorant people said that he was a sorcerer, who wanted to beguile and misguide them by his sorcery. Whichever Messenger came and warned them that they had not been created and left irresponsible in the world, but that at the conclusion of their life-work they would have to present themselves before their Creator and Master and render an account of their deeds and in consequence thereof they will be rewarded or punished accordingly, the foolish people cried out that he was a madman and had lost his reason because no one could be resurrected after death. "

سورة الذّٰرِیٰت حاشیہ نمبر :49 یعنی آج پہلی مرتبہ ہی یہ واقعہ پیش نہیں آیا ہے کہ اللہ کے بھیجے ہوئے رسول کی زبان سے آخرت کی خبر اور توحید کی دعوت سن کر لوگ اسے ساحر اور مجنون کہہ رہے ہیں ۔ رسالت کی پوری تاریخ گواہ ہے کہ جب سے نوع انسانی کی ہدایت کے لیے رسول آنے شروع ہوئے ہیں ، آج تک جاہل لوگ اسی ایک حماقت کا پوری یکسانی کے ساتھ اعادہ کیے چلے جا رہے ہیں ۔ جس رسول نے بھی آ کر خبردار کیا کہ تم بہت سے خداؤں کے بندے نہیں ہو بلکہ صرف ایک ہی خدا تمہارا خالق و معبود اور تمہاری قسمتوں کا مالک و مختار ہے ، جاہلوں نے شور مچا دیا کہ یہ جادوگر ہے جو اپنے افسوں سے ہماری عقلوں کو بگاڑنا چاہتا ہے ۔ جس رسول نے بھی آ کر خبردار کیا کہ تم غیر ذمہ دار بنا کر دنیا میں نہیں چھوڑ دیے گئے ہو بلکہ اپنا کارنامۂ حیات ختم کرنے کے بعد تمہیں اپنے خالق و مالک کے سامنے حاضر ہو کر اپنا حساب دینا ہے اور اس حساب کے نتیجہ میں اپنے اعمال کی جزا و سزا پانی ہے ، نادان لوگ چیخ اٹھے کہ یہ پاگل ہے ، اس کی عقل ماری گئی ہے ، بھلا مرنے کے بعد ہم کہیں دوبارہ بھی زندہ ہو سکتے ہیں؟

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٥٢۔ ٥٥۔ حاصل یہ ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) سے صاحب شریعت نبیوں کا سلسلہ دنیا میں شروع ہو کر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وہ سلسلہ ختم ہوا۔ اور حضرت نوح ‘ حضرت ہود ‘ حضرت صالح ‘ حضرت لوط ‘ حضرت شعیب کو جس طرح ان کی قوموں نے اور حضرت موسیٰ کو فرعون اور اس کی قوم نے اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو یہود نے جھٹلایا اور دیوانہ جادوگر بتایا اس کا ذکر جگہ جگہ قرآن شریف میں گزر چکا ہے۔ اسی واسطے جب قریش نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو طرح طرح کی ایذا دی اور جھٹلایا اور جادوگر دیوانہ اور قرآن شریف اور معجزوں کو جادو کہنا شروع کیا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وصیت کے طور پر جس طرح بڑے چھوٹوں کو ایک بات کہہ دیتے ہیں وہی حال ان نبیوں کے جھٹلانے والی قوموں کا ہے کہ ایک زبان ہو کر سب کے سب ایک ہی بات کہتے ہیں پھر فرمایا کہ وصیت تو ایک دوسرے کو کیا کریں گے ایک قوم عذاب الٰہی سے جب اجڑ چکی ہے جو اس کے بعد دوسری قوم پیدا ہوئی بلکہ ایک زبان ہو کر یہ سب کے سب اس لئے ایک ہی بات کہتے ہیں کہ یہ سرکش لوگ ہیں اور ان سب کا بہکانے والا شیطان ایک ہی ہے اس لئے وہ اگلے پچھلے سب کے کانوں میں ایک ہی بات پھونکتا ہے اور یہ سب ایک زبان ہو کر ایک ہی بات کہتے ہیں تو ہٹ آ ‘ ان کی طرف سے تجھ پر نہیں اولاہنا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب باوجود ہر وقت کی نصیحت کے یہ لوگ راہ راست پر نہیں آتے تو اے رسول اللہ کے ان کی گمراہی کا تم پر کچھ الزام نہیں ہے اللہ کو معلوم ہے کہ تم نے ان کو پوری نصیحت کردی ‘ اب تم زیادہ ان کے درپے نہ ہو ‘ اللہ ان سے خود سمجھ لے گا۔ مفسرین ١ ؎ نے کہا کہ جب آیت کا یہ ٹکڑا نازل ہوا تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کو بڑا رنج ہوا کیونکہ انہوں نے جانا شاید اب عذاب آئے گا لیکن آئندہ کی آیت میں وعظ نصیحت کا حکم نازل ہوجانے سے پھر سب کی تسکین ہوگئی۔ مسند ٢ ؎ امام احمد کی حضرت ابوامامہ (رض) کی حدیث اوپر گزر چکی ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ ایمان دار آدمی کی نشانی یہ ہے کہ اس کو دین کی اور نصیحت کی بات اچھی معلوم ہوتی ہے اور جو باتیں دین میں منع ہیں ان سے اس کا دل گھبرانے لگتا ہے۔ اسی واسطے اللہ تعالیٰ نے ان آیتوں میں فرمایا کہ اللہ کے رسول کی نصیحت سے فائدہ ایمان والوں کو ہی ہے یہ حدیث آیت کے اس ٹکڑے کی گویا تفسیر ہے کیونکہ جس چیز کو جو شخص اچھا جانے گا وہی اس سے فائدہ اٹھائے گا ایک شخص ایک چیز کو اچھا ہی نہیں جانتا تو وہ اس چیز کو کلام میں کیا لائے گا اور اس سے فائدہ کیا اٹھائے گا۔ (١ ؎ تفسیر الدر المنثور ص ١١٦ ج ٦۔ ) (٢ ؎ مشکوٰۃ شریف کتاب الایمان فصل ثالث )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(51:52) کذلک : ای الامر مثل ذلک۔ وذلک اشارۃ الی تکذیبھم الرسول وتسمیتہ ساحرا اور مجنونا۔ ثم فسر ما اجمل بقولہ : ما اتی الذین من قبلہم ۔۔ الخ۔ بات اس طرح ہے ذلک کا اشارہ (گذشتہ رسولوں کی قوموں کا ) اپنے رسول کی تکذیب اور اسء ساحر یا مجنون کا نام دینے کی طرف ہے۔ پھر اس اجمال کی تفسیر ارشاد باری تعالیٰ ما اتی الذین ۔۔ میں آتی ہے۔ ما اتی الذین من قبلہم من رسول : ما نافیہ ہے الذین اسم موصول جمع مذکر۔ من قبلہم اس کا صلہ۔ ہم ضمیر جمع مذکر غائب قریش مکہ کی طرف راجع ہے۔ ترجمہ ہوگا :۔ نہیں آیا ان سے پہلے لوگوں کے پاس کوئی رسول۔ الا حرف اسثتناء ۔ مگر۔ قالوا ساحر او مجنون : ای قالوا ھو ساحر او مجنون : مگر انہوں نے (یہی) کہا کہ یہ جادو گر ہے یا پاگل۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 کہ شرک بری بلا ہے تم تباہ ہوجائو گے۔ 5 اس سے مقصود آنحضرت کو تسلی دینا ہے کہ اس طرح کی مخالفت سے پہلے تمام پیغمبروں کو بھی سابقہ پیش آتا رہا ہے اس لئے آپ پوری ہمت اور صبر و استقال سے دعوت کا کام جاری رکھئے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

کذلک ما ........ بملوم (٢٥) وذکر ........ المؤمنین (٥٥) (١٥ : ٢٥ تا ٥٥) ” یونہی ہوتا رہا ہے ان سے پہلے کی قوموں کے پاس بھی کوئی رسول ایسا نہیں آیا جسے انہوں نے یہ نہ کہا ہو کہ یہ ساحر ہے یا مجنون۔ کیا ان سب نے آپس میں اس پر کوئی سمجھوتہ کرلیا ہے ؟ نہیں بلکہ یہ سب سرکش لوگ ہیں۔ پس اے نبی ان سے رخ پھیر لو تم پر کچھ ملامت نہیں۔ البتہ نصیحت کرتے رہو کیونکہ نصیحت ایمان لانے والوں کے لئے نافع ہے “۔ تمام رسولوں کے مخالفین اور مکذبین کی فطرت ایک ہی رہی ہے۔ گمراہوں نے ہمیشہ رسولوں کی دعوت کے مقابلے میں یکساں رد عمل کا اظہار کیا۔ کذلک ........ او مجنون (١٥ : ٢٥) ” یونہی ہوتا رہا ہے ان سے پہلے کی قوموں کے پاس بھی کوئی رسول ایسا نہیں آیا جسے انہوں نے یہ نہ کہا ہو کہ یہ ساحر ہے یا مجنون “۔ جس طرح مشرکین مکہ کہہ رہے ہیں۔ گویا اگلے پچھلے کافروں نے آپس میں مشورہ کرلیا ہو۔ انہوں نے آپس میں مشورہ تو نہیں کیا مگر سرکشی ، گمراہی ، ظلم کا مزاج ہی ایک ہوتا ہے۔ اس لئے اگلے پچھلے اس روش پر جمع ہوگئے ہیں۔ منکرین کے مسلسل ایک ہی موقف سے جو نتیجہ نکلتا ہے وہ یہی ہے کہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان لوگوں کی تکذیب کی کوئی پرواہ نہ کریں۔ ان لوگوں نے اس رویہ پر گویا اتفاق کرلیا ہے لہٰذا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس پر ملامت زدہ نہیں ہیں۔ ان کو چاہئے کہ کوئی پرواہ نہ کریں۔ وہ تو محض یاد دہانی کرانے والے ہیں اور یاد دہانی وہ جاری رکھیں۔ اگرچہ لوگ اعتراض کریں اور منہ موڑیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

﴿ كَذٰلِكَ مَاۤ اَتَى الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ مِّنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا قَالُوْا سَاحِرٌ اَوْ مَجْنُوْنٌۚ٠٠٥٢﴾ (اسی طرح ان سے پہلے ان لوگوں کے پاس جو بھی کوئی رسول آیا اس کے بارے میں انہوں نے یہ ضرور کہا کہ یہ جادوگر ہے یا دیوانہ ہے (جس طرح ان حضرات نے صبر کیا آپ بھی صبر کریں) ۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

18:۔ ” کذلک ما اتی “ یہ مشرکین پر شکوی اور آنحضرت کیلئے تسلیہ ہے۔ مشرکین کا ہمیشہ سے یہی طریقہ رہا ہے کہ جب بھی ان کے پاس کوئی پیغمبر آیا اسے جادوگر اور دیوانہ کہنے لگے۔ ” اتواصوا بہ۔ الایۃ “ کیا پہلے زمانے کے مشرکین اپنی نسلوں کو وصیت کر گئے ہیں کہ وہ ہر پیغمبر کو انہی القاب سے یاد کریں ؟ نہیں، بلکہ یہ پچھلی نسلیں خود ہی سرکش اور باغی ہیں اور خود ہی خبث باطن کی وجہ سے ایسی بےہودہ باتیں کر رہے ہیں۔ ” فتول عنہم “ آپ ان کی باتوں کی پروا نہ کریں اور ان سے اعراض فرمائیں۔ آپ پر کوئی طعن و ملامت نہیں، کیونکہ آپ نے افہام و تفہیم اور وعظ و تبلیغ کا حق ادا کردیا ہے اور ان پر حجت خداوندی قائم کردی ہے البتہ مومنوں کو وعظ و تذکیر فرماتے رہا کریں، کیونکہ اس سے ان کو بہت فائدہ ہوتا ہے اس سے ان کا ایمان تازہ اور یقین محکم ہوجاتا ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(52) جس طرح یہ لوگ آپ کو کہتے ہیں اسی طرح جو منکران سے پہلے ہو گزرے ہیں ان کے پاس کوئی ایسا رسول نہیں آیا جس کو انہوں نے جادوگر یا دیوانہ نہ کہا ہو، یعنی اگر یہ لوگ آپ کی بات نہیں مانتے اور آپ پر طرح طرح کے الزام لگا رہے ہیں اسی طرح وہ کافر جوان سے پہلے ہو گزرے ہیں ان کا حال تھا کہ کوئی رسول ان کے پاس نہیں آیا مگر یہ کہ انہوں نے اس کا ساحر یا مجنون نہ کہا جیسا کہ ابھی موسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں فرعون کا قول گزر چکا ہے۔