Surat uz Zaariyaat
Surah: 51
Verse: 6
سورة الذاريات
وَّ اِنَّ الدِّیۡنَ لَوَاقِعٌ ؕ﴿۶﴾
And indeed, the recompense is to occur.
اور بیشک انصاف ہونے والا ہے ۔
وَّ اِنَّ الدِّیۡنَ لَوَاقِعٌ ؕ﴿۶﴾
And indeed, the recompense is to occur.
اور بیشک انصاف ہونے والا ہے ۔
وَإِنَّ الدِّينَ ... And verily, Ad-Din, (the Recompense), ... لَوَاقِعٌ will occur, (it will surely come to pass). Then Allah the Exalted said, وَالسَّمَاء ذَاتِ الْحُبُكِ
وَّاِنَّ الدِّيْنَ لَوَاقِــعٌ ٦ ۭ دين والدِّينُ يقال للطاعة والجزاء، واستعیر للشریعة، والدِّينُ کالملّة، لكنّه يقال اعتبارا بالطاعة والانقیاد للشریعة، قال إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ [ آل عمران/ 19] ( د ی ن ) دين الدین کے معنی طاعت اور جزا کے کے آتے ہیں اور دین ملت کی طرح ہے لیکن شریعت کی طاعت اور فرمانبردار ی کے لحاظ سے اسے دین کہا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ [ آل عمران/ 19] دین تو خدا کے نزدیک اسلام ہے ۔ وقع الوُقُوعُ : ثبوتُ الشیءِ وسقوطُهُ. يقال : وَقَعَ الطائرُ وُقُوعاً ، والوَاقِعَةُ لا تقال إلّا في الشّدّة والمکروه، وأكثر ما جاء في القرآن من لفظ «وَقَعَ» جاء في العذاب والشّدائد نحو : إِذا وَقَعَتِ الْواقِعَةُ لَيْسَ لِوَقْعَتِها كاذِبَةٌ [ الواقعة/ 1- 2] ، ( و ق ع ) الوقوع کے معنی کیس چیز کے ثابت ہونے اور نیچے گر نے کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ وقع الطیر وقوعا پر ندا نیچے گر پڑا ۔ الواقعۃ اس واقعہ کو کہتے ہیں جس میں سختی ہو اور قرآن پاک میں اس مادہ سے جس قدر مشتقات استعمال ہوئے ہیں وہ زیادہ تر عذاب اور شدائد کے واقع ہونے کے متعلق استعمال ہوئے ہیں چناچہ فرمایا ۔ إِذا وَقَعَتِ الْواقِعَةُ لَيْسَ لِوَقْعَتِها كاذِبَةٌ [ الواقعة/ 1- 2] جب واقع ہونے والی واقع ہوجائے اس کے واقع ہونے میں کچھ جھوٹ نہیں ۔
4 This is the thing for which the oath has been sworn. The oath implies this: The unique order and regularity with which the wonderful system of the rain is functioning before your eyes, and the wisdom and good reasons which clearly underlie it, testify to the reality that this world is not a meaningless and useless toy-house where the great drama of life is being presented at random since millions and millions of years. Hut, it is, in fact, a wise system of the highest order in which everything that happens has a purpose and reason behind it. In this system it is not possible that n creature like man should have been given intellect, sense and the powers to exploit _ things to advantage, should have been granted moral sense to distinguish the good and evil, right and wrong deeds and then might have ban left alone foolishly and meaninglessly in the world to behave as he pleased, and that he should never be questioned as to how he had used and employed the powers of the heart and mind and body, the vast means placed at his disposal w work in the world, and the power and authority granted to him to employ the countless creatures of God to advantage. In this system of the Universe where everything is purposeful, how can the creation of a unique being like man only be purposeless? In a system where everything is based on wisdom, how can the creation of man only be useless and futile? The purpose of the creation of those things which do not possess consciousness and intellect is fulfilled in this very physical world. Therefore, it would be right and reasonable if they were destroyed after they had reached the end of their life term, for they have not been granted any powers and authority for which they might have to be called to account. But a creature which possesses intellect and consciousness and authority, whose activities are not confined only to the physical world, but are also moral in nature, and whose actions entailing moral consequences do not take place only till the end of life, but continue to register their moral effects on it even after death, cannot be destroyed like plants and animals just after it has fulfilled the function of its physical existence. Whatever good or evil act he has committed by his own will and choice, he must get the reward 'or suffer the punishment for it justly and equitably, for this is the basic requirement of the factor under which, contrary to other creatures, he has been endowed with the freedom of choice and will. If he is not held accountable, if he is not rewarded or punished according to his moral acts, and if he also is destroyed at the conclusion of his physical life like the creatures which have been given no freedom of will and choice, his creation would inevitably be altogether futile, and a Wise Being cannot be expected to indulge in a futile exercise. Besides, there is also another reason for swearing an oath by these four phenomena of the Universe regarding the occurrence of the Hereafter and the meting out of rewards and punishments. The ground on which the deniers of the Hereafter regard the life after death as impossible is this: When we are mixed up with dust after death and our particles have scattered away in the earth, how can it be possible that all these scattered particles of the body are reassembled and we are made to rise up again? The error of this apprehension is by itself removed when we consider deeply the four phenomena of the Universe, which have been presented as an argument for the Hereafter. The rays of the sun have their effect on aII the collections of water on the surface of the earth, where their heat reaches. In this process countless drops of water evaporate from the collection, but they do not become extinct, and every drop remains preserved in the air as vapors. When Allah commands the same wind gathers the same vapors of the drops together, combines them into thick clouds, spreads those clouds on different parts of the earth and precisely at the time appointed by Allah causes each single drop to fall back to the earth in the form as it was in the beginning. This phenomenon that is occurring before the eyes of man daily testifies that the particles of the bodies of the dead men can also gather together at one command by Allah and the men can be raised up in the shape in which they lived before. Whether these particles are in the dust, or in the water, or in the air, in any case they remain preserved in this very earth and its atmosphere. Why should it be difficult for the God Who gathers together the vapors of water after they had dispersed in the air, by means of the same air, and then causes them to rain as water, to gather together the scattered particles of the human bodies from the air, water and earth and then combine them in their original form and shape?
سورة الذّٰرِیٰت حاشیہ نمبر :4 یہ ہے وہ بات جس پر قسم کھائی گئی ہے ۔ اس قسم کا مطلب یہ ہے کہ جس بے نظیر نظم اور باقاعدگی کے ساتھ بارش کا یہ عظیم الشان ضابطہ تمہاری آنکھوں کے سامنے چل رہا ہے ، اور جو حکمت اور مصلحتیں اس میں صریح طور پر کار فرما نظر آتی ہیں ، وہ اس بات پر گواہی دے رہی ہیں کہ یہ دنیا کوئی بے مقصد اور بے معنی گھروندا نہیں ہے جس میں لاکھوں کروڑوں برس سے ایک بہت بڑا کھیل بس یونہی الل ٹپ ہوئے جا رہا ہو ، بلکہ یہ در حقیقت ایک کمال درجے کا حکیمانہ نظام ہے جس میں ہر کام کسی مقصد اور کسی مصلحت کے لیے ہو رہا ہے ۔ اس نظام میں یہ کسی طرح ممکن نہیں ہے کہ یہاں انسان جیسی ایک مخلوق کو عقل ، شعور ، تمیز اور تصرف کے اختیارات دے کر ، اس میں نیکی و بدی کی اخلاقی حس پیدا کر کے ، اور اسے ہر طرح کے اچھے اور برے ، صحیح اور غلط کاموں کے مواقع دے کر ، زمین میں تُرکتازیاں کرنے کے لیے محض فضول اور لایعنی طریقے سے چھوڑ دیا جائے ، اور اس سے کبھی یہ باز پرس نہ ہو کہ دل و دماغ اور جسم کی جو قوتیں اس کو دی گئی تھیں ، دنیا میں کام کرنے کے لیے جو وسیع ذرائع اس کے حوالے کیے گئے تھے ، اور خدا کی بے شمار مخلوقات پر تصرف کے جو اختیارات اسے دیے گئے تھے ، انکو اس نے کس طرح استعمال کیا ۔ جس نظام کائنات میں سب کچھ با مقصد ہے ، اس میں صرف انسان جیسی عظیم مخلوق کی تخلیق کیسے بے مقصد ہو سکتی ہے ! جس نظام میں ہر چیز مبنی بر حکمت ہے اس میں تنہا ایک انسان ہی کی تخلیق کیسے فضول اور عبث ہو سکتی ہے؟ مخلوقات کی جو اقسام عقل و شعور نہیں رکھتیں ان کی تخلیق کی مصلحت تواسی عالم طبعی میں پوری ہو جاتی ہے ۔ اس لیے اگر وہ اپنی مدت عمر ختم ہونے کے بعد ضائع کر دی جائیں تو یہ عین معقول بات ہے ، کیونکہ انہیں کوئی اختیارات دیے ہی نہیں گئے ہیں کہ ان سے محاسبے کا کوئی سوال پیدا ہو ۔ مگر عقل و شعور اور اختیارات رکھنے والی مخلوق ، جس کے افعال محض عالم طبیعت تک محدود نہیں ہیں بلکہ اخلاقی نوعیت بھی رکھتے ہیں ، اور جس کے اخلاقی نتائج پیدا کرنے والے اعمال کا سلسلہ محض زندگی کی آخری ساعت تک ہی نہیں چلتا بلکہ مرنے کے بعد بھی اس پر اخلاقی نتائج مترتب ہوتے رہتے ہیں ، اسے صرف اس کا طبعی کام ختم ہو جانے کے بعد نباتات و حیوانات کی طرح کیسے ضائع کیا جا سکتا ہے؟ اس نے تو اپنے اختیار و ارادہ سے جو نیکی یا بدی بھی کی ہے اس کی ٹھیک ٹھیک بمعنی و انصاف جزاء اس کو لازماً ملنی ہی چاہیے ، کیونکہ یہ اس مصلحت کا بنیادی تقاضا ہے جس کے تحت دوسری مخلوقات کے برعکس اسکو ایک ذی اختیار مخلوق بنایا گیا ہے ۔ اس سے محاسبہ نہ ہو ، اس کے اخلاقی اعمال پر جزاء و سزا نہ ہو ، اور اس کو بھی بے اختیار مخلوقات کی طرح عمر طبعی ختم ہونے پر ضائع کر دیا جائے ، تو لامحالہ اس کی تخلیق سراسر عبث ہو گی ، اور ایک حکیم سے فعل عبث کی توقع نہیں کی جا سکتی ۔ اس کے علاوہ آخرت اور جزاء و سزا کے وقوع پر ان چار مظاہر کائنات کی قسم کھانے کی ایک اور وجہ بھی ہے ۔ منکرین آخرت زندگی بعد موت کو جس بنا پر غیر ممکن سمجھتے ہیں وہ یہ ہے کہ ہم جب مر کر خاک میں رل مل جائیں گے اور ہمارا ذرہ ذرہ جب زمین میں منتشر ہو جائے گا تو کیسے ممکن ہے کہ سارے منتشر اجزائے جسم پھر اکٹھے ہو جائیں اور ہمیں دوبارہ بنا کر کھڑا کیا جائے ۔ اس شبہ کی غلطی ان چاروں مظاہر کائنات پر غور کرنے سے خود بخود رفع ہو جاتی ہے جنیہں آخرت کے لیے دلیل کے طور پر پیش کیا گیا ہے ۔ سورج کی شعاعیں روئے زمین کے ان تمام ذخائر آب پر اثر انداز ہوتی ہیں جن تک ان کی حرارت پہنچتی ہے ۔ اس عمل سے پانی کے بے حد و حساب قطرے اڑ جاتے ہیں اور اپنے مخزن میں باقی نہیں رہتے ۔ مگر وہ فنا نہیں ہو جاتے بلکہ بھاپ بن کر ایک ایک قطرہ ہوا میں محفوظ رہتا ہے ۔ پھر جب خدا کا حکم ہوتا ہے تو یہ ہوا ان قطروں کی بھاپ کو سمیٹ لاتی ہے ، اس کو کثیف بادلوں کی شکل میں جمع کرتی ہے ، ان بادلوں کو لے کر روئے زمین کے مختلف حصوں میں پھیل جاتی ہے ، اور خدا کی طرف سے جو وقت مقرر ہے ٹھیک اسی وقت ایک ایک قطرے کو اسی شکل میں جس میں وہ پہلے تھا ، زمین پر واپس پہنچا دیتی ہے ۔ یہ منظر جو آئے دن انسان کی آنکھوں کے سامنے گزر رہا ہے ، اس بات کی شہادت دیتا ہے کہ مرے ہوئے انسانوں کے اجزائے جسم بھی اللہ تعالیٰ کے ایک اشارے پر جمع ہو سکتے ہیں اور ان انسانوں کو اسی شکل میں پھر اٹھا کھڑا کیا جا سکتا ہے جس میں وہ پہلے موجود تھے ۔ یہ اجزا خواہ مٹی میں ہوں ، یا پانی میں ، یا ہوا میں ، بہرحال رہتے اسی زمین اور اس کے ماحول ہی میں ہیں ۔ جو خدا پانی کے بخارات کو ہوا میں منتشر ہو جانے کے بعد پھر اسی ہوا کے ذریعہ سے سمیٹ لاتا ہے اور انہیں پھر پانی کی شکل میں برسا دیتا ہے ، اس کے لیے انسانی جسموں کے بکھرے ہوئے اجزاء کو ہوا ، پانی اور مٹی میں سے سمیٹ لانا اور پھر سابق شکلوں میں جمع کر دینا آخر کیوں مشکل ہو؟
(51:6) وان الدین لواقع۔ ان حرف مشبہ بالفعل الدین اسم ان ۔ لواقع ان کی خبر، الدین منصوب بوجہ اسم ان ۔ دان یدین (باب ضرب) کا مصدر ہے۔ بمعنی جزاء وسزا شریعت ۔ حکم ماننا۔ اطاعت کرنا۔ مگر اس کا استعمال اطاعت اور شریعت کی پابندی کے معنی میں ہوتا ہے۔ اور بیشک اعمال کی جزاء سزا واقع ہو کر رہے گی۔
6۔ ان قسموں میں اشارہ ہے استدلال کی طرف، یعنی یہ سب تصرفات عجیبہ قدرت الہیہ سے ہونا دلیل ہے عظمت قدرت کی، پھر ایسے عظیم القدرت کو قیامت کا واقع کرنا کیا مشکل ہے۔
اور یہی مفہوم اور مقصد ہے دوسری قسم کا : والسمائ ........ من افک یہاں اللہ آسمان کی قسم اٹھاتا ہے جس کی بناوٹ محکم اور مرتب ہے۔ اس طرح جس طرح زرہ کے حلقے نہایت ترتیب سے بنے ہوئے ہوتے ہیں بعض اوقات آسمانوں میں بادلوں کی یہی صورت ہوتی ہے کہ یہ بادل زرہ کی طرح بنے ہوئے نظر آتے ہیں اس طرح پیچدار نظر آتے ہیں جس طرح پانی کی لہریں جن پر ہوا ایک ہی رفتار سے چل رہی ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ آسمانوں کے اندر جتنے مدار ہیں وہ مراد ہوں کیونکہ یہ مدار ایسے ہیں کہ اگر ان کو رنگ دار لکیروں سے ظاہر کیا جائے تو وہ زرہ کے حلقوں کی طرح نظر آئیں۔ اس نہایت ہی اچھے طریقے سے بنے ہوئے آسمان کی قسم اٹھا کر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ قیامت کے بارے میں تمہاری باتیں یکساں نہیں۔ تمہارے دلائل میں اضطراب ہے۔ ان میں نہ مضبوطی ہے اور نہ قرار ہے بلکہ یہ تمہاری باتیں حیرانی اور پریشانی کی عکاسی کرتی ہیں جو چاہے ان باتوں سے بھر جائے اور جو چاہے ان پر جما رہے۔ نہ صرف یہ کہ ان میں کوئی قرار وثبات نہیں بلکہ ہمیشہ حیرت اور قلق اور بےیقینی پر مشتمل باتیں ہیں اور باطل موقف ہمیشہ ایسا ہی ہوتا ہے۔ متزلزل اور متغیر اور آئے دن بدلنے والا۔ باطل ہمیشہ سرگرداں رہتا ہے۔ اس کے سامنے نہ نشانات راہ ہوتے ہیں اور نہ روشنی ہوتی ہے جس میں وہ راہ پر صحیح طرح چل سکے۔ پھر باطل کا کوئی اصول بھی نہیں ہوتا۔ وہ ڈولتا ہے کیونکہ اس کی کوئی مضبوط اساس نہیں ہوتی اور نہ اس کا کوئی متعین پیمانہ ہوتا ہے۔ اگر اہل باطل کبھی کسی بات پر مجتمع ہوجائیں تو بھی ایک عرصے کے بعد وہ باہم لڑپڑتے ہیں اور ان کے درمیان اختلافات اور دشمنیاں قائم رہتی ہیں۔ اہل باطل کا اضطراب ، ان کا اختلاف اور ان کے متذبذب خیالات اس وقت اور اچھی طرح ہوجاتے ہیں جب ان کو نظام سماوی کے رنگ میں دیکھا جائے جو نہایت ہی مضبوط ہے اور جس کے حلقے ایک دوسرے سے پیوست ہیں اور مرتب ہیں۔ یہی بیان آگے جاری ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ لوگ محض ظن وتخمین بلکہ وہم کی دنیا میں بستے ہیں۔ آخرت کے بارے میں ان کے خیالات حق ویقین سے ماخوذ نہیں ہیں۔ حق تو بالکل عیاں ہے لین اس موضوع پر ان کے افکار پریشاں ہیں۔ اس کے بعد ان کے افکار پریشان کا ایک ایسا منظر پیش کیا جاتا ہے جسے آنکھیں اس طرح دیکھ رہی ہیں جس طرح اسکرین پر چل رہا ہو۔
(6) اور یقینا اعمال کی جزا ضرور ملنے والی ہے۔ یعنی بارش سے پہلے جو بادلوں کو ابھارنے کے لئے تیز ہوا چلتی ہے جس سے خاک اور غبار اڑتا ہے اس کی قسم پھر جب پانی سے بھرے ہوئے بادل اٹھ آتے ہیں ان بدلیوں کی قسم، اور سازگاری ہوا کے ساتھ جو نرم رفتار کے ساتھ کشتیاں چلتی ہیں ان کی قسم اور ان فرشتوں کی قسم جو ارزاق وغیرہ کی تقسیم پر موکل ہیں یا اللہ تعالیٰ کے حکم کے موافق مختلف علاقوں میں بارش کی تقسیم کرتے ہیں اور ہوسکتا ہے کہ یہ چاروں قسمیں ہوا کی ہوں۔ مثلاً یوں ترجمہ کیا جائے قسم ہے ان ہوائوں کی جو اڑا کر بکھیرتی ہیں جن سے غبار اور خاک وغیرہ اڑتی ہے۔ پھر وہ ہوائیں جو بادلوں کو اٹھا لاتی ہیں اور بدلیوں کی حامل ہوتی ہیں پھر وہ نرم رفتار ہوائیں جو بارش سے پہلے آہستہ اور سبک خرام ہوتی ہیں پھر ان ہوائوں کی قسم جو حکم الٰہی کے موافق پانی کو بانٹتی اور تقسیم کرتی ہیں ان تمام قسموں کا جواب قسم یہ ہے۔ انما توعدون لصادق وان الدین لواقح یعنی جس قیامت کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے اور جس بعث بعد الموت کا تم کو وعدہ دیاجارہا ہے وہ بالکل سچ ہے اور اعمال کی جزا ضرور واقع ہونے والی ہے اور حساب اعمال کا ضرور ہونے والا ہے قیامت کے صدق پر ان چیزوں کی قسم کھائی۔ مناسبت ظاہر ہے کہ قیامت تمام عالم کو درہم برہم کردے گی خواہ وہ عالم علوی ہو یا عالم سفلی ہو، یا خلا اور جو ہو، فرشتے عالم علوی کے، کشتیاں عالم سفلی کی، ہوا اور بادل خلا اور جو کے اور یہ تو ظاہر ہی ہے کہ حضرت حق تعالیٰ جوان سب چیزوں پر قدرت رکھتا ہے اور جس نے یہ نظام ہوائوں کا اور بدلیوں کا اور تقسیم امور کا قائم کیا ہے وہ اس سب کو فنا کرنے کی بھی طاقت اور قدرت رکھتا ہے اور ختم کرنے کے بعد پھر انسان کو دوبارہ پیدا بھی کرسکتا ہے۔ بعض علماء نے جاریات کا ترجمہ بجائے کشتیوں کے ستارے کیا ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یہ قسم ہے بادوں کی اول آندھی چلتی ہے غبار اڑاتا ہے اور بادل بنتے ہیں پھر ان میں پانی بنتا ہے اس بوجھ کو لئے پھر تیاں ہیں پھر برسنے کے قریب رم بائو چلتی ہے پھر ہانک کر اور جگہ کا حصہ پہنچاتی ہیں موافق حکم کے۔ خلاصہ : یہ کہ حضرت شاہ صاحب (رح) کے نزدیک یہ چاروں قسمیں ہوائوں کی ہیں اس لئے ان کے منہیہ میں فرشتوں کا اور کشتیوں کا ذکر نہیں ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) کے نزدیک ذاریات ، حاملات، جاریات مقسمات یہ سب ہوائیں ہیں۔