Surat ut Toor

Surah: 52

Verse: 26

سورة الطور

قَالُوۡۤا اِنَّا کُنَّا قَبۡلُ فِیۡۤ اَہۡلِنَا مُشۡفِقِیۡنَ ﴿۲۶﴾

They will say, "Indeed, we were previously among our people fearful [of displeasing Allah ].

کہیں گے کہ اس سے پہلے ہم اپنے گھر والوں کے درمیان بہت ڈرا کرتے تھے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Saying: "Aforetime, we were afraid in the midst of our families." meaning, `in the life of world and in the midst of our families, we were afraid of our Lord and fearful of His torment and punishment,' فَمَنَّ اللَّهُ عَلَيْنَا وَوَقَانَا عَذَابَ السَّمُومِ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

26۔ 1 یعنی اللہ کے عذاب سے۔ اس لئے اس عذاب سے بچنے کا اہتمام بھی کرتے رہے، اس لئے کہ انسان کو جس چیز کا ڈر ہوتا ہے، اس سے بچنے کے لئے وہ تگ و دو کرتا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢١] یعنی دنیا میں بیتے ہوئے ایام کی یاد تازہ کرنا چاہیں گے اور کہیں گے ہمیں تو ہر وقت یہی دھڑکا لگا رہتا تھا کہ ہم سے کوئی ایسا فعل سرنہ زد ہوجائے جس کی پاداش میں اللہ کے حضور ہماری جواب طلبی اور گرفت ہوجائے۔ اور گھر والوں کا ذکر اس لیے کریں گے کہ انسان دنیا میں بہت سے گناہ کے کام محض اہل و عیال کی خاطر کرتا ہے۔ مال و دولت کی ہوس کی وجہ سے اسے مال کمانے میں حرام و حلال کی تمیز نہیں رہتی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(قالوا انا کنا قبل فی اھلنا مشفقین : یعنی وہ کہیں گے کہ ہم اس سے پہلے دنیا میں اپنے گھر والوں میں رہتے ہوئے ہر قسم کی آسائشو کے باوجود ڈرتے رہتے تھے کہ کہیں ہم سے اللہ کی نافرمانی نہ ہوجائے، ہماری نیکیاں نامقبول نہ ہوجائیں اور ہمارے اعمال کی شامت سے ہمارا خاتمہ خراب نہ ہوجائے۔” فی اھلنا “ (اپنے گھروالوں میں) کے مفہوم میں یہ بھی شامل ہے کہ ہم اپنے گھر والوں کے بارے میں ڈرتے رہتے تھے کہ وہ اللہ کے نافرمان نہ بن جائیں اور نافرمانی کے نتیجے میں جہنم کا ایندھن نہ بن جائیں، اور یہ بھی کہ ان کی وجہ سے کہیں ہم راہ راست سے نہ بھٹک جائیں، ان کی خاطر کمائی کرتے کرتے حرام کاموں کا ارتکاب نہ کر بیٹھیں ، انہیں نمازی اور رب تعالیٰ کا فرماں بردار بنانے کی کوشش میں کوتاہی نہ کر بیٹھیں اور ان کی محبت اللہ کی اطاعت پر غالب نہ آجائے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَالُوْٓا اِنَّا كُنَّا قَبْلُ فِيْٓ اَہْلِنَا مُشْفِقِيْنَ۝ ٢٦ أهل أهل الرجل : من يجمعه وإياهم نسب أو دين، أو ما يجري مجراهما من صناعة وبیت وبلد، وأهل الرجل في الأصل : من يجمعه وإياهم مسکن واحد، ثم تجوّز به فقیل : أهل الرجل لمن يجمعه وإياهم نسب، وتعورف في أسرة النبيّ عليه الصلاة والسلام مطلقا إذا قيل : أهل البیت لقوله عزّ وجلّ : إِنَّما يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ [ الأحزاب/ 33] ( ا ھ ل ) اھل الرجل ۔ ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو اس کے ہم نسب یا ہم دین ہوں اور یا کسی صنعت یامکان میں شریک ہوں یا ایک شہر میں رہتے ہوں اصل میں اھل الرجل تو وہ ہیں جو کسی کے ساتھ ایک مسکن میں رہتے ہوں پھر مجازا آدمی کے قریبی رشتہ داروں پر اہل بیت الرجل کا لفظ بولا جانے لگا ہے اور عرف میں اہل البیت کا لفظ خاص کر آنحضرت کے خاندان پر بولا جانے لگا ہے کیونکہ قرآن میں ہے :۔ { إِنَّمَا يُرِيدُ اللهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ } ( سورة الأحزاب 33) اسے پیغمبر گے اہل بیت خدا چاہتا ہے کہ تم سے ناپاکی ( کا میل کچیل ) دور کردے ۔ شفق الشَّفَقُ : اختلاط ضوء النّهار بسواد اللّيل عند غروب الشمس . قال تعالی: فَلا أُقْسِمُ بِالشَّفَقِ [ الانشقاق/ 16] ، والْإِشْفَاقُ : عناية مختلطة بخوف، لأنّ الْمُشْفِقَ يحبّ المشفق عليه ويخاف ما يلحقه، قال تعالی: وَهُمْ مِنَ السَّاعَةِ مُشْفِقُونَ [ الأنبیاء/ 49] ، فإذا عدّي ( بمن) فمعنی الخوف فيه أظهر، وإذا عدّي ب ( في) فمعنی العناية فيه أظهر . قال تعالی: إِنَّا كُنَّا قَبْلُ فِي أَهْلِنا مُشْفِقِينَ [ الطور/ 26] ، مُشْفِقُونَ مِنْها [ الشوری/ 18] ، مُشْفِقِينَ مِمَّا كَسَبُوا [ الشوری/ 22] ، أَأَشْفَقْتُمْ أَنْ تُقَدِّمُوا[ المجادلة/ 13] . ( ش ف ق ) الشفق غروب آفتاب کے وقت دن کی روشنی کے رات کی تاریکی میں مل جانے کو شفق کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : فَلا أُقْسِمُ بِالشَّفَقِ [ الانشقاق/ 16] ہمیں شام کی سرخی کی قسم ۔ الاشفاق ۔ کسی کی خیر خواہی کے ساتھ اس پر تکلیف آنے سے ڈرنا کیونکہ مشفق ہمیشہ مشفق علیہ کو محبوب سمجھتا ہے اور اسے تکلیف پہنچنے سے ڈرتا رہتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَهُمْ مِنَ السَّاعَةِ مُشْفِقُونَ [ الأنبیاء/ 49] اور وہ قیامت کا بھی خوف رکھتے ہیں ۔ اور جب یہ فعل حرف من کے واسطہ سے متعدی تو اس میں خوف کا پہلو زیادہ ہوتا ہے اور اگر بواسطہ فی کے متعدی ہو تو عنایت کے معنی نمایاں ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے إِنَّا كُنَّا قَبْلُ فِي أَهْلِنا مُشْفِقِينَ [ الطور/ 26] اس سے قبل ہم اپنے گھر میں خدا سے ڈرتے رہتے تھے ۔ مُشْفِقُونَ مِنْها [ الشوری/ 18] وہ اس سے ڈرتے ہیں ۔ مُشْفِقِينَ مِمَّا كَسَبُوا [ الشوری/ 22] وہ اپنے اعمال ( کے وبال سے ) ڈر رہے ہوں گے ۔ أَأَشْفَقْتُمْ أَنْ تُقَدِّمُوا[ المجادلة/ 13] کیا تم اس سے کہ ۔۔۔ پہلے خیرات دیا کرو ڈر گئے ہو ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور جنتی آپس میں ملاقات کے وقت دنیا کا بھی تذکرہ کریں گے اور کہیں گے کہ ہم تو جنت میں داخل ہونے سے پہلے دنیا میں اپنے گھر والوں کے ساتھ عذاب خداوندی سے بہت ڈرا کرتے تھے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٦{ قَالُوْٓا اِنَّا کُنَّا قَبْلُ فِیْٓ اَہْلِنَا مُشْفِقِیْنَ ۔ } ” وہ کہیں گے کہ ہم پہلے اپنے اہل و عیال میں ڈرتے ہوئے رہتے تھے۔ “ دنیا میں اپنے اہل و عیال اور عزیز و اقارب کے درمیان معمول کی زندگی بسر کرتے ہوئے ہمیں ہر وقت یہ دھڑکا لگا رہتا تھا کہ نہ معلوم ہمارے اعمال اللہ تعالیٰ کے ہاں شرفِ قبولیت حاصل کر بھی پائیں گے یا نہیں۔ نہ معلوم نیک اعمال کی قبولیت کے لیے مطلوبہ معیار کا اخلاص ہمارے دلوں میں ہے بھی یا نہیں۔ کہیں ہم سے کوئی ایسی غلطی سرزد نہ ہوجائے جو ہماری ساری محنت کو بھی اکارت کر دے ۔ ایسے اندیشے اور خدشے ہر لمحہ ہمیں دامن گیر رہتے تھے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

20 That is, "We were not heedless and living a care-free life of ease and comfort, but we were always on our guard lest we should commit an evil for which we may be held accountable before God." Here, the mention of "...living among our kinsfolk, in fear and dread," in particular, has been made for the reason that man commits evil mostly when he is deeply engrossed in arranging ease and comfort for his children and trying to make their future secure and happy. For the same purpose he earns forbidden things by forbidden means, usurps the rights of others and makes evil plans. That is why the dwellers of Paradise will say to one another: "That which particularly saved us from the evil of the Hereafter was that while living among our families we did not think so much of arranging the pleasures of life and a splendid future for them as for avoiding for their sake those methods and means that might ruin our life in the Hereafter and that we should not lead our children also on to the way that might make them worthy of the torment of Allah.

سورة الطُّوْر حاشیہ نمبر :20 یعنی ہم وہاں عیش میں منہمک اور اپنی دنیا میں مگن ہو کر غفلت کی زندگی نہیں گزار رہے تھے ، بلکہ ہر وقت ہمیں یہ دھڑکا لگا رہتا تھا کہ کہیں ہم سے کوئی ایسا کام نہ ہو جائے جس پر خدا کے ہاں ہماری پکڑ ہو ۔ یہاں خاص طور پر اپنے گھر والوں کے درمیان ڈرتے ہوئے زندگی بسر کرنے کا ذکر اس لیے کیا گیا ہے کہ آدمی سب سے زیادہ جس وجہ سے گناہوں میں مبتلا ہوتا ہے وہ اپنے بال بچوں کو عیش کرانے اور ان کی دنیا بنانے کی فکر ہے ۔ اسی کے لیے وہ حرام کماتا ہے ، دوسروں کے حقوق پر ڈاکے ڈالتا ہے ، اور طرح طرح کی ناجائز تدبیریں کرتا ہے ۔ اسی بنا پر اہل جنت آپس میں کہیں گے کہ خاص طور پر جس چیز نے ہمیں عاقبت کی خرابی سے بچایا وہ یہ تھی کہ اپنے بال بچوں میں زندگی بسر کرتے ہوئے ہمیں ان کو عیش کرانے اور ان کا مستقبل شاندار بنانے کی اتنی فکر نہ تھی جتنی اس بات کی تھی کہ ہم ان کی خاطر وہ طریقے نہ اختیار کر بیٹھیں جن سے ہماری آخرت برباد ہو جائے ، اور اپنی اولاد کو بھی ایسے راستے پر نہ ڈال جائیں جو ان کو عذاب الہیٰ کا مستحق بنا دے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(52:26) قالوا : ماضی بمعنی مستقل ، وہ کہیں گے۔ انا کنا قبل : اس سے پہلے دنیا میں ہم ۔ مشفقین اسم فاعل جمع مذکر منصوب بوجہ کنا کی خبر کے۔ ڈرنے والے۔ اشفاق (افعال) مصدر۔ مشفق واحد۔ باب افعال) شفق کا معنی ہے غروب آفتاب کے وقت روشنی کا تاریکی سے اختلاط۔ اسی لئے جو محنت خوف کے ساتھ مخلوط ہو اس کو شفقت کہتے ہیں۔ باب افعال سے اشفاق کا معنی ہوگا۔ ایسی محبت کرنا جس میں خوف بھی لگا ہوا ہو۔ کیونکہ مشفق ہمیشہ مشفق علیہ کو محبوب سمجھتا ہے اور اسے تکلیف نہ پہنچنے سے ڈرتا ہے۔ ماں کا بچے کی بابت ڈرتے رہنا کہیں اسے تکلیف نہ پہنچے۔ باب افعال سے اس کی دو صورتیں ہیں :۔ (1) اگر من کے واسطہ سے متعدی ہو تو اس میں کو ف کا پہلو زیادہ ہوتا ہے جیسے وہم من خشیتہ مشفقون ۔ (21:49) اور وہ قیامت کا بھی خوف رکھتے ہیں ۔ (2) اگر اس کے بعد علی یافی مذکور ہو تو محبت کے معنی کا زیادہ ظہور ہوگا۔ آیت کا ترجمہ ہوگا :۔ کہیں گے ہم بھی اس سے پہلے (دنیا میں) اپنے اہل خانہ پر (اپنے انجام کے بارے میں) سہمے رہتے تھے۔ (ضیاء القرآن)

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4” کہ دیکھو انجام کیا ہوتا ہے اور عذاب سے بچائو ہوتا ہے یا نہیں ؟ “

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

13:۔ ” انا کنا من۔ الایۃ “ یہ ماقبل کی علت ہے اور بیان توحید ہے علی سبیل الترقی از سورة سابقہ اور ثمرہ توحید۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے ہمارے گناہ معاف فرمائے اور ہمیں جہنم سے بچا لیا۔ اس لیے کہ ہم دنیا میں صرف حاجات و مصائب میں اسی کو پکارتے تھے اور اس کی پکار میں کسی کو شریک نہیں کرتے تھے۔ یہ عذاب سے محفوظ رہنا توحید پر قائم رہنے ہی کا ثمرہ و نتیجہ ہے۔ بیشک اللہ تعالیٰ بڑا ہی محسن و مہربان ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(26) دوران گفتگو میں کہیں گے ہم ا س سے پہلے اپنے گھر میں اور گھر والوں میں بہت ڈرا کرتے تھے۔ یعنی ہر وقت انجام سے ڈرا کرتے تھے دنیا میں۔