Surat ut Toor

Surah: 52

Verse: 33

سورة الطور

اَمۡ یَقُوۡلُوۡنَ تَقَوَّلَہٗ ۚ بَلۡ لَّا یُؤۡمِنُوۡنَ ﴿ۚ۳۳﴾

Or do they say, "He has made it up"? Rather, they do not believe.

کیا یہ کہتے ہیں اس نبی نے ( قرآن ) خود گھڑ لیا ہے ، واقع یہ ہے کہ وہ ایمان نہیں لاتے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

أَمْ يَقُولُونَ تَقَوَّلَهُ ... Or do they say: "He has forged it?" They said, `he has forged this Qur'an and brought it from his own.' Allah the Exalted responded to them, ... بَل لاَّ يُوْمِنُونَ Nay! They believe not!, meaning, their disbelief drives them to utter these statements, فَلْيَأْتُوا بِحَدِيثٍ مِّثْلِهِ إِن كَانُوا صَادِقِينَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

33۔ 1 یعنی قرآن گھڑنے کے الزام پر ان کو آمادہ کرنے والا بھی ان کا کفر ہی ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٦] قرآن سے متعلق قریش کے آپ پر الزامات :۔ ان کے منجملہ الزامات سے ایک یہ بھی تھا کہ قرآن اس نے خود تصنیف کر ڈالا ہے اور پھر اسے اللہ کی طرف منسوب کردیتا ہے۔ اور کبھی یہ کہہ دیتے کہ قرآن کسی عجمی عالم سے سیکھ کر ہمیں سنا دیتا ہے اور کہہ دیتا ہے کہ یہ اللہ کا کلام ہے۔ انہیں یہ الزام لگاتے وقت اتنی بھی شرم نہ آئی کہ جس شخص نے زندگی بھر کسی سے جھوٹ نہ بولا ہو۔ کسی پر الزام نہ لگایا ہو، کسی سے فریب نہ کیا ہو، کیا وہ اللہ پر ایسا الزام لگا سکتا ہے ؟ پھر انہوں نے یہ بھی نہ سوچا کہ اس کا کلام تو ہم نبوت سے پہلے بھی سنتے رہے ہیں اور نبوت کے بعد وہ صرف اللہ کا کلام ہی نہیں سناتا اور بھی بہت سی باتیں کرتا ہے۔ تو کیا اس کے کلام میں اور اللہ کے کلام میں انہیں کچھ بھی فرق محسوس نہیں ہوتا، اصل معاملہ یہ ہے کہ ان کی عقلیں تو ٹھیک کام کرتی ہیں مگر ان کی نیتوں میں فتور ہے جس کی وجہ سے انہوں نے یہ تہیہ کر رکھا ہے کہ وہ کسی قیمت پر ایمان نہیں لائیں گے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(امن یقولون تقولہ بل لایومنون :) تقول یتقول تقولاً “ (تفعل) تکلف سے بات بنانا اور گھڑنا۔ ” فلان نقول علی فلان “ فلاں نے فلاں پر جھوٹ گھڑ دیا۔ “ یعنی یا وہ قرآن کے متعلق کہتے ہیں کہ نبی نے یہ کلام اپنے پاس سے بنا کر اللہ کے ذمے لگا دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس پر نہیں فرمایا کہ نہیں یہ نبی کا بنایا ہوا نہیں بلکہ اللہ کا کلام ہے، کیونکہ خود ان کا دل جانتا ہے کہ یہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اپنا کلام نہیں ہوسکتا۔ جو لوگ اہل زبان ہیں وہ اسے سن کر سمجھ لیتے ہیں کہ یہ انسان کا کلام نہیں ہوسکتا۔ پھر جو شخص رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جانتا ہے وہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ نبوت سے پہلے چالیس برس تک کسی انسان پر بھی جھوٹ نہ باندھنے والا شخص اللہ پر جھوٹ باندھ سکتا ہے۔ اسلئے فرمایا :(بلا لا یومنون) یعنی ان کی مخالفت کی وجہ یہ نہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ قرآن خود گھڑ لیا ہے، بلکہ اصل بات یہ ہے کہ یہ لوگ مانتے ہی نہیں، انہوں نے فیصلہ کر رکھا ہے کہ ہم کسی صورت ایمان نہیں لائیں گے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَمْ يَقُوْلُوْنَ تَـقَوَّلَہٗ۝ ٠ ۚ بَلْ لَّا يُؤْمِنُوْنَ۝ ٣٣ ۚ أَمْ»حرف إذا قوبل به ألف الاستفهام فمعناه : أي نحو : أزيد أم عمرو، أي : أيّهما، وإذا جرّد عن ذلک يقتضي معنی ألف الاستفهام مع بل، نحو : أَمْ زاغَتْ عَنْهُمُ الْأَبْصارُ [ ص/ 63] أي : بل زاغت . ( ا م حرف ) ام ۔ جب یہ ہمزہ استفہام کے بالمقابل استعمال ہو تو بمعنی اور ہوتا ہے جیسے ازید فی الدار ام عمرو ۔ یعنی ان دونوں میں سے کون ہے ؟ اور اگر ہمزہ استفہام کے بعد نہ آئے تو بمعنیٰ بل ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ { أَمْ زَاغَتْ عَنْهُمُ الْأَبْصَارُ } ( سورة ص 63) ( یا) ہماری آنکھیں ان ( کی طرف ) سے پھر گئی ہیں ۔ قول القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ، ( ق و ل ) القول القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ تقوّل ( تفعل) مصدر۔ تقول علیہ القول کسی کے خلاف جھوٹ گھڑنا۔ کسی پر جھوٹ تھوپنا۔ تقول اس نے جھوٹ گھڑ لیا ہ ضمیر مفعول واحد مذکر غائب جس کا مرجع قرآن ہے اس نے اس کو جھوٹ گھڑ لیا۔ اس نے اس کو ( خود) بنالیا۔ اور جگہ قرآن مجید میں ہے : ولو تقول علینا بعض الاقاویل (69:44) اور اگر یہ پیغمبر ہماری نسبت کوئی بات جھوٹ بنا لاتے۔ أیمان يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ( ا م ن ) الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ { وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ } ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

ہاں کیا کفار مکہ یوں بھی کہتے ہیں کہ رسول اکرم نے اس قرآن کریم کو اپنی طرف سے بنا لیا ہے بلکہ یہ لوگ رسول اکرم اور قرآن کریم کی تصدیق ہی نہیں کرتے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣٣{ اَمْ یَـقُوْلُوْنَ تَقَوَّلَـہٗ ج } ” کیا ان کا کہنا ہے کہ یہ اس (محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خود گھڑ لیا ہے ؟ “ تَقَوَّلَ باب تفعل سے ہے اور اس کے معنی تکلف کر کے کچھ کہنے کے ہیں ‘ یعنی قرآن کے بارے میں مشرکین کا یہ کہنا تھا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) محنت و ریاضت کے ذریعے یہ کلام خود ” موزوں “ کرتے ہیں۔ { بَلْ لَّا یُؤْمِنُوْنَ ۔ } ” بلکہ (اصل بات یہ ہے کہ) یہ ماننے والے نہیں ہیں۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

26 In other words, it means this: The Quraish who think that Muhammad (upon whom be peace) himself is the author of the Qur'an know it in their innermost hearts that it cannot be his word, and those others also whose mother tongue is Arabic not only clearly feel that it is far more sublime and superior to human speech but any one of them who knows Muhammad (upon whom be Allah's peace and blessings) personally cannot ever suspect that this is actually his own word and speech. Therefore, the thing plainly is that those who ascribe the authorship of the Qur'an to the Holy Prophet do not, in fact, wish to affirm faith. That is why they are inventing false excuses one of which is this excuse. (For further explanation, see E.N. 21 of Yunus, E N. 12 of Al-Furqan, E N. 64 of AlQasas, E.N.'s 88,89 of Al-Ankabut, E.N.'s 1 to 4 of As-Sajdah, E.N. 54 of Ila Mim As- Sajdah, E.N.'s 8 to 10 of Al-Ahqaf).

سورة الطُّوْر حاشیہ نمبر :26 دوسرے الفاظ میں اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ قریش کے جو لوگ قرآن کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا تصنیف کردہ کلام کہتے ہیں خود ان کا دل یہ جانتا ہے کہ یہ آپ کا کلام نہیں ہو سکتا ، اور دوسرے وہ لوگ بھی جو اہل زبان ہیں نہ صرف یہ کہ اسے سن کر صاف محسوس کر لیتے ہیں کہ یہ انسانی کلام سے بہت اعلیٰ و ارفع ہے بلکہ ان میں سے جو شخص بھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے واقف ہے وہ کبھی یہ گمان نہیں کر سکتا کہ یہ واقعی آپ ہی کا کلام ہے ۔ پس صاف اور سیدھی بات یہ ہے کہ قرآن کو آپ کی تصنیف قرار دینے والے دراصل ایمان نہیں لانا چاہتے اسلیے وہ طرح طرح کے جھوٹے بہانے گھڑ رہے ہیں جن میں سے ایک بہانہ یہ بھی ہے ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد دوم ، یونس ، حاشیہ 21 ۔ جلد سوم ، الفرقان ، حاشیہ 12 ۔ القصص ، حاشیہ 64 ۔ العنکبوت ، حاشیہ 88 ۔ 89 ۔ جلد چہارم ، السجدہ حاشیہ 1 تا 4 ۔ حٰم السجدہ ، حاشیہ ۔ 54 ۔ الاحقاف ، حاشیہ 8 تا 10 ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(52:33) ام یقولون : میں ام استفہام انکاری کے لئے ہے۔ تقولہ۔ تقول ماضی واحد مذکر غائب ، تقول (تفعل) مصدر۔ تقول علیہ القول کسی کے خلاف جھوٹ گھڑنا۔ کسی پر جھوٹ تھوپنا۔ تقول اس نے جھوٹ گھڑ لیا ہ ضمیر مفعول واحد مذکر غائب جس کا مرجع قرآن ہے اس نے اس کو جھوٹ گھڑ لیا۔ اس نے اس کو (خود) بنالیا۔ اور جگہ قرآن مجید میں ہے : ولو تقول علینا بعض الا تاویل (69:44) اور اگر یہ پیغمبر ہماری نسبت کوئی بات جھوٹ بنا لاتے۔ بل لا یؤمنون : ان کا یہ کہنا (تقولہ کہنا) صحیح نہیں بلکہ اصل بات یہ ہے کہ دشمنی اور فرط عناد کی وجہ سے یہ لوگ ایمان ہی نہیں لاتے ۔ اور اس قسم کی باتیں بناتے ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 11 یعنی کیا ان کی بےجوڑ باتوں کی وجہ یہ ہے کہ یہ قرآن کو اللہ تعالیٰ کا نہیں بلکہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اپنا تصنیف کیا ہوا سمجھتے ہیں ؟ نہیں ایسا نہیں ہوسکتا کیونکہ یہ زبان دان لوگ ہیں اور خوب سجھتے ہیں کہ کوئی انسان اس قسم کا کلام تصنیف کرنے پر قادر نہیں ہوسکتا۔ اصل بات یہ ہے کہ کفر وعناد ان کی طبیعتوں میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے اور وہ کسی طور ایمان لانے کے لئے تیار نہیں ہیں۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اہل مکہ کا چوتھا الزام اور اس کا جواب۔ فہم القرآن میں یہ بات پہلے بھی عرض ہوچکی ہے کہ جب انسان ضد اور تکبر کا شکار ہوجاتا ہے تو اسے پتہ نہیں چلتا کہ وہ اپنے مخالف کے بارے میں کیا کیا ہرزہ سرائی کررہا ہے۔ یہی حالت اہل مکہ کی تھی۔ ایک طرف آپ کو مجنون کہتے اور دوسری طرف یہ الزام دیتے تھے کہ آپ اپنی طرف سے قرآن بنا کر پیش کرتے ہیں اور اسے اللہ کا کلام قرار دیتے ہیں۔ ان کا قرآن اور نبی کی ذات پر ایمان نہیں تھا اس لیے انہیں اور پوری دنیا کے جنوں اور انسانوں کو چیلنج دیا گیا ہے کہ تم بھی ایسا کلام بنا لاؤ اگر تم اپنے الزام میں سچے ہو۔ کیونکہ نبی بھی انسان ہے اور تم بھی انسان ہو۔ پھر تم اپنے آپ کو بڑا دانشور سمجھتے ہو اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیوانہ خیال کرتے ہو۔ اس صورت میں تمہارے لیے ضروری ہوگیا ہے کہ تم اس جیسا قرآن بنا لاؤ۔ قرآن مجید نے کفار کو یہ چیلنج کئی مرتبہ دیا۔ ( وَ اِن کُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلٰی عَبْدِنَا فَاتُوْا بِسُوْرَۃٍ مِّن مِّثْلِہٖ وَادْعُوْا شُہَدَآءَکُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا وَ لَنْ تَفْعَلُوْا فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِیْ وَقُوْدُہَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَۃُ اُعِدَّتْ لِلْکٰفِرِیْنَ ) (البقرۃ : ٢٣، ٢٤) ” ہم نے جو اپنے بندے پر اتارا ہے اگر اس میں تمہیں شک ہے تو تم اس جیسی ایک سورت بنا لاؤ اگر تم سچے ہو تو ” اللہ “ کے سوا اپنے مدد گاروں کو بھی بلا لاؤ۔ اگر تم نے ایسا نہ کیا اور تم ہرگز نہیں کرسکو گے پس اس آگ سے بچو جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں جو کافروں کے لیے تیار کی گئی ہے۔ “ مسائل ١۔ کفار کا الزام تھا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی طرف سے قرآن بنا لیتے ہیں۔ ٢۔ کفار کو چیلنج دیا گیا ہے کہ اگر تم اپنے الزام میں سچے ہو تو تم بھی اس جیسا کلام بنا کرلے آؤ۔ ٣۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کفار اس لیے الزامات لگاتے تھے کیونکہ ان کا قرآن اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان نہیں تھا۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ام یقولون تقولہ (٢٥ : ٣٣) ” کیا یہ کہتے ہیں کہ اس شخص نے یہ خود گھڑ لیا ہے “ اور اس کے بعد جلد ہی اصل حقیقت بتادی جاتی ہے۔ بل لا یومنون (٢٥ : ٣٣) ” اصل بات یہ ہے کہ یہ ایمان نہیں لانا چاہتے “ ان کے دلوں کو شعور ایمان حاصل نہیں ہے۔ یہی بےشعوری ہے جو ان کے منہ سے یہ بات کہلواتی ہے اور یہ قول یہ لوگ تب ہی کہتے ہیں کہ ایمان کی نعمت سے یہ لوگ محروم ہیں۔ اگر یہ قرآن کی حقیقت کا ادراک کرلیتے تو ان کو معلوم ہوجاتا کہ یہ انسان کا بنایا ہوا کلام نہیں ہے اور اس کے حامل صادق وامین ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

16:۔ ” ام یقولون تقولہ “ یہ بھی شکوی ہے کبھی کہتے ہیں اس نے یہ قرٓان اپنے پاس سے بنا لیا ہے، یہ بات نہیں، بلکہ وہ چونکہ ایمان نہیں لانا چاہتے، اسلیے محض ضد وعناد سے ایسی باتیں کرتے ہیں۔ فلکفرہم وعنادھم یرمونہ بھذہ المطاعن مع علمہم ببطلان قولہم وانہ لیس بمتقول لعجز العرب عنہ (مدارک ج 4 ص 146) ۔ ” فلیاتوا بحدیث۔ الایۃ ‘] یہ جواب شکوی ہے۔ اگر وہ اس دعوے میں سچے ہیں کہ یہ قرآن محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے پاس سے بنایا ہے۔ تو وہ بھی ایسا ہی کلام بنا کرلے آئیں۔ اگر محمد صلی اللہ علی ہو سلم محض اہل زبان ہونے کی وجہ سے ایسا کلام بنا سکتے ہیں تو یہ بھی اہل زبان ہیں۔ ایسا کلام بنا سکتے ہیں تو یہ بھی اہل زبان ہیں۔ ایسا کلام بنا کرلے آئیں، لیکن یہ بات ان کی طاقت وقدرت سے باہر ہے جو اس بات کی واضح دلیل ہے کہ قرآن اللہ کا کلام ہے اور کسی بشر کا ساختہ نہیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(33) ہاں تو کیا وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اس نے قرآن کو ازخود گھڑ لیا اور بنا لیا ہے یہ بات نہیں بلکہ اصل بات یہ عناد اور سرکشی کی وجہ سے اس قرآن کی تصدیق نہیں کرتے اور جب ان کا مقصد ایمان نہیں ہے تو مختلف باتیں اور شاخسانے نکالتے ہیں آگے الزامی جواب ہے۔