Surat ut Toor

Surah: 52

Verse: 45

سورة الطور

فَذَرۡہُمۡ حَتّٰی یُلٰقُوۡا یَوۡمَہُمُ الَّذِیۡ فِیۡہِ یُصۡعَقُوۡنَ ﴿ۙ۴۵﴾

So leave them until they meet their Day in which they will be struck insensible -

تو انہیں چھوڑ دے یہاں تک کہ انہیں اس دن سے سابقہ پڑے جس میں یہ بے ہوش کر دیئے جائیں گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

فَذَرْهُمْ ... So leave them alone, (`O Muhammad,') ... حَتَّى يُلَقُوا يَوْمَهُمُ الَّذِي فِيهِ يُصْعَقُونَ till they meet their Day, in which they will sink into a fainting. (on the Day of Resurrection),

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٨] اس سے مراد نفخہ صور اول ہے۔ یعنی ان لوگوں یا ان جیسے ہٹ دھرم لوگوں کی بدبختی کا یہ عالم ہے کہ اگر انہیں قیامت تک زندگی مل جائے تو بھی ایمان نہیں لائیں گے۔ انہیں ان باتوں کا یقین تب ہی آئے گا جب عذاب خود ان پر واقع ہوجائے گا۔ لہذا آپ ایسے لوگوں کے پیچھے نہ پڑیں۔ بس اپنا کام کرتے جائیے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(فذرھم حتی یلقوا یومھم الذی فیہ یصعقون…: اس دن سے مراد قیامت کا دن ہے جب صورت میں پھونک کے ساتھ سب لوگ بےہوش ہو کر مرجائیں گے۔ (دیکھیے سورة زمر : ٦٨) میزید دیکھیے سورة زخرف (٨٣) اور سورة معارج (٤٢، ٤٣) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَذَرْہُمْ حَتّٰى يُلٰقُوْا يَوْمَہُمُ الَّذِيْ فِيْہِ يُصْعَقُوْنَ۝ ٤٥ ۙ وذر [يقال : فلان يَذَرُ الشیءَ. أي : يقذفه لقلّة اعتداده به ] ، ولم يستعمل ماضيه . قال تعالی: قالُوا أَجِئْتَنا لِنَعْبُدَ اللَّهَ وَحْدَهُ وَنَذَرَ ما کانَ يَعْبُدُ آباؤُنا[ الأعراف/ 70] ، وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف/ 127] ، فَذَرْهُمْ وَما يَفْتَرُونَ [ الأنعام/ 112] ، وَذَرُوا ما بَقِيَ مِنَ الرِّبا[ البقرة/ 278] إلى أمثاله وتخصیصه في قوله : وَيَذَرُونَ أَزْواجاً [ البقرة/ 234] ، ولم يقل : يترکون ويخلّفون، فإنه يذكر فيما بعد هذا الکتاب إن شاء اللہ . [ والوَذَرَةُ : قطعة من اللّحم، وتسمیتها بذلک لقلة الاعتداد بها نحو قولهم فيما لا يعتدّ به : هو لحم علی وضم ] «1» . ( و ذ ر ) یذر الشئی کے معنی کسی چیز کو قلت اعتداد کی وجہ سے پھینک دینے کے ہیں ( پھر صرف چھوڑ دینا کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ اس کا فعل ماضی استعمال نہیں ہوتا چناچہ فرمایا : ۔ قالُوا أَجِئْتَنا لِنَعْبُدَ اللَّهَ وَحْدَهُ وَنَذَرَ ما کانَ يَعْبُدُ آباؤُنا[ الأعراف/ 70] وہ کہنے لگے کیا تم ہمارے پاس اس لئے آئے ہو کہ ہم اکیلے خدا ہی کی عبادت کریں اور جن اور جن کو ہمارے باپ دادا پوجتے چلے آئے ہیں ان کو چھوڑ دیں ۔ ؟ ، وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف/ 127] اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ فَذَرْهُمْ وَما يَفْتَرُونَ [ الأنعام/ 112] تو ان کو چھوڑ دو کہ وہ جانیں اور انکا جھوٹ ۔ وَذَرُوا ما بَقِيَ مِنَ الرِّبا[ البقرة/ 278] تو جتنا سو د باقی رہ گیا ہے اس کو چھوڑ دو ۔ ان کے علاوہ اور بھی بہت سی آیات ہیں جن میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے اور آیت : ۔ وَيَذَرُونَ أَزْواجاً [ البقرة/ 234] اور عورتیں چھوڑ جائیں ۔ میں یترکون یا یخلفون کی بجائے یذرون کا صیغہ اختیار میں جو خوبی ہے وہ اس کے بعد دوسری کتاب میں بیان کریں گے ۔ الو ذرۃ : گوشت کی چھوٹی سی بوٹی کو کہتے ہیں اور قلت اعتناء کے سبب اسے اس نام سے پکارتے ہیں جیسا کہ حقیر شخص کے متعلق ھو لحم علیٰ وضمی ( یعنی وہ ذلیل ہے ) کا محاورہ استعمال ہوتا ہے ۔ حَتَّى حَتَّى حرف يجرّ به تارة كإلى، لکن يدخل الحدّ المذکور بعده في حکم ما قبله، ويعطف به تارة، ويستأنف به تارة، نحو : أكلت السمکة حتی رأسها، ورأسها، ورأسها، قال تعالی: لَيَسْجُنُنَّهُ حَتَّى حِينٍ [يوسف/ 35] ، وحَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ [ القدر/ 5] . ويدخل علی الفعل المضارع فينصب ويرفع، وفي كلّ واحد وجهان : فأحد وجهي النصب : إلى أن . والثاني : كي . وأحد وجهي الرفع أن يكون الفعل قبله ماضیا، نحو : مشیت حتی أدخل البصرة، أي : مشیت فدخلت البصرة . والثاني : يكون ما بعده حالا، نحو : مرض حتی لا يرجونه، وقد قرئ : حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ [ البقرة/ 214] ، بالنصب والرفع «1» ، وحمل في كلّ واحدة من القراء تین علی الوجهين . وقیل : إنّ ما بعد «حتی» يقتضي أن يكون بخلاف ما قبله، نحو قوله تعالی: وَلا جُنُباً إِلَّا عابِرِي سَبِيلٍ حَتَّى تَغْتَسِلُوا [ النساء/ 43] ، وقد يجيء ولا يكون کذلک نحو ما روي : «إنّ اللہ تعالیٰ لا يملّ حتی تملّوا» «2» لم يقصد أن يثبت ملالا لله تعالیٰ بعد ملالهم حتی ٰ ( حرف ) کبھی تو الیٰ کی طرح یہ حرف جر کے طور پر استعمال ہوتا ہے لیکن اس کے مابعد غایت ماقبل کے حکم میں داخل ہوتا ہے اور کبھی عاطفہ ہوتا ہے اور کبھی استیناف کا فائدہ دیتا ہے ۔ جیسے اکلت السملۃ حتی ٰ راسھا ( عاطفہ ) راسھا ( جارہ ) راسھا ( مستانفہ قرآن میں ہے ليَسْجُنُنَّهُ حَتَّى حِينٍ [يوسف/ 35] کچھ عرصہ کے لئے نہیں قید ہی کردیں ۔ وحَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ [ القدر/ 5] طلوع صبح تک ۔۔۔۔ جب یہ فعل مضارع پر داخل ہو تو اس پر رفع اور نصب دونوں جائز ہوتے ہیں اور ان میں ہر ایک کی دو وجہ ہوسکتی ہیں نصب کی صورت میں حتی بمعنی (1) الی آن یا (2) گی ہوتا ہے اور مضارع کے مرفوع ہونے ایک صورت تو یہ ہے کہ حتی سے پہلے فعل ماضی آجائے جیسے ؛۔ مشیت حتی ادخل ۔ البصرۃ ( یعنی میں چلا حتی کہ بصرہ میں داخل ہوا ) دوسری صورت یہ ہے کہ حتیٰ کا مابعد حال واقع ہو جیسے مرض حتی لایرجون و دو بیمار ہوا اس حال میں کہ سب اس سے ناامید ہوگئے ) اور آیت کریمۃ ؛۔ حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ [ البقرة/ 214] یہاں تک کہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پکار اٹھے ۔ میں یقول پر رفع اور نصب دونوں منقول ہیں اور ان ہر دو قرآت میں دونوں معنی بیان کئے گئے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ حتیٰ کا مابعد اس کے ماقبل کے خلاف ہوتا ہے ۔ جیسا ک قرآن میں ہے : وَلا جُنُباً إِلَّا عابِرِي سَبِيلٍ حَتَّى تَغْتَسِلُوا [ النساء/ 43] ۔ اور جنابت کی حالت میں بھی نماز کے پاس نہ جاؤ ) جب تک کہ غسل ( نہ ) کرو ۔ ہاں اگر بحالت سفر رستے چلے جارہے ہو اور غسل نہ کرسکو تو تیمم سے نماز پڑھ لو ۔ مگر کبھی اس طرح نہیں بھی ہوتا جیسے مروی ہے ۔ اللہ تعالیٰ لاتمل حتی تملو ا ۔ پس اس حدیث کے یہ معنی نہیں ہیں کہ تمہارے تھک جانے کے بعد ذات باری تعالیٰ بھی تھک جاتی ہے ۔ بلکہ معنی یہ ہیں کہ ذات باری تعالیٰ کو کبھی ملال لاحق نہیں ہوتا ۔ لقی اللِّقَاءُ : مقابلة الشیء ومصادفته معا، وقد يعبّر به عن کلّ واحد منهما، يقال : لَقِيَهُ يَلْقَاهُ لِقَاءً ولُقِيّاً ولُقْيَةً ، ويقال ذلک في الإدراک بالحسّ ، وبالبصر، وبالبصیرة . قال : لَقَدْ كُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَلْقَوْهُ [ آل عمران/ 143] ، وقال : لَقَدْ لَقِينا مِنْ سَفَرِنا هذا نَصَباً [ الكهف/ 62] . ومُلَاقَاةُ اللہ عز وجل عبارة عن القیامة، وعن المصیر إليه . قال تعالی: وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ مُلاقُوهُ [ البقرة/ 223] ( ل ق ی ) لقیہ ( س) یلقاہ لقاء کے معنی کسی کے سامنے آنے اور اسے پالینے کے ہیں اور ان دونوں معنی میں سے ہر ایک الگ الگ بھی بولاجاتا ہے اور کسی چیز کا حس اور بصیرت سے ادراک کرلینے کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : لَقَدْ كُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَلْقَوْهُ [ آل عمران/ 143] اور تم موت ( شہادت ) آنے سے پہلے اس کی تمنا کیا کرتے تھے اور ملاقات الہی سے مراد قیامت کا بپا ہونا اور اللہ تعالیٰ کے پاس چلے جانا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ مُلاقُوهُ [ البقرة/ 223] اور جان رکھو کہ ایک دن تمہیں اس کے دوبرو حاضر ہونا ہے ۔ صعق الصَّاعِقَةُ والصّاقعة يتقاربان، وهما الهدّة الكبيرة، إلّا أن الصّقع يقال في الأجسام الأرضيّة، والصَّعْقَ في الأجسام العلويَّةِ. قال بعض أهل اللّغة : الصَّاعِقَةُ علی ثلاثة أوجه : 1- الموت، کقوله : فَصَعِقَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَمَنْ فِي الْأَرْضِ [ الزمر/ 68] ، وقوله : فَأَخَذَتْهُمُ الصَّاعِقَةُ [ النساء/ 153] . 2- والعذاب، کقوله : أَنْذَرْتُكُمْ صاعِقَةً مِثْلَ صاعِقَةِ عادٍ وَثَمُودَ [ فصلت/ 13] . 3- والنار، کقوله : وَيُرْسِلُ الصَّواعِقَ فَيُصِيبُ بِها مَنْ يَشاءُ [ الرعد/ 13] . وما ذكره فهو أشياء حاصلة من الصَّاعِقَةِ ، فإنّ الصَّاعِقَةَ هي الصّوت الشّديد من الجوّ ، ثم يكون منها نار فقط، أو عذاب، أو موت، وهي في ذاتها شيء واحد، وهذه الأشياء تأثيرات منها . ( ص ع ق ) الصاعقۃ اور صاقعۃ دونوں کے تقریبا ایک ہی معنی ہیں یعنی ہو لناک دھماکہ ۔ لیکن صقع کا لفظ اجسام ارضی کے متعلق استعمال ہوتا ہے اور صعق اجسام علوی کے بارے میں بعض اہل لغت نے کہا ہے کہ صاعقۃ تین قسم پر ہے اول بمعنی موت اور ہلاکت جیسے فرمایا : ۔ فَصَعِقَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَمَنْ فِي الْأَرْضِ [ الزمر/ 68] تو جو لوگ آسمان میں ہیں اور جو زمین میں ہیں سب کے سب مرجائیں گے ۔ فَأَخَذَتْهُمُ الصَّاعِقَةُ [ النساء/ 153] سو تم کو موت نے آپکڑا ۔ دوم بمعنی عذاب جیسے فرمایا : ۔ أَنْذَرْتُكُمْ صاعِقَةً مِثْلَ صاعِقَةِ عادٍ وَثَمُودَ [ فصلت/ 13] میں تم کو مہلک عذاب سے آگاہ کرتا ہوں جیسے عاد اور ثمود پر وہ ( عذاب ) آیا تھا ۔ سوم بمعنی آگ ( اور بجلی کی کڑک ) جیسے فرمایا : ۔ وَيُرْسِلُ الصَّواعِقَ فَيُصِيبُ بِها مَنْ يَشاءُ [ الرعد/ 13] اور وہی بجلیاں بھیجتا ہے پھو حس پر چاہتا ہے گرا بھی دیتا ہے ۔ لیکن یہ تینوں چیزیں دراصل صاعقہ کے آثار سے ہیں کیونکہ اس کے اصل معنی تو قضا میں سخت آواز کے ہیں پھر کبھی تو اس آواز سے صرف آگ ہی پیدا ہوتی ہے اور کبھی وہ آواز عذاب اور کبھی موت کا سبب بن جاتی ہے یعنی دراصل وہ ایک ہی چیز ہے اور یہ سب چیزیں اس کے آثار سے ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٤٥۔ ٤٦) اے محمد آپ ان کو چھوڑیے یہاں تک کہ ان کو اپنے اس دن سے سابقہ پڑے جس میں یہ مریں گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤٥{ فَذَرْہُمْ حَتّٰی یُلٰقُوْا یَوْمَہُمُ الَّذِیْ فِیْہِ یُصْعَقُوْنََ ۔ } ” تو (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ) چھوڑے رکھیے ان کو ‘ یہاں تک کہ وہ اپنے اس دن سے دوچار ہوں جس میں ان پر بجلی کی کڑک گرے گی۔ “ ” چھوڑ دینے “ کے مفہوم میں یہ حکم ابتدائی زمانے کی سورتوں میں تکرار کے ساتھ آیا ہے۔ جیسے سورة المعارج میں فرمایا گیا : { فَذَرْھُمْ یَخُوْضُوْا وَیَلْعَبُوْا حَتّٰی یُلٰـقُوْا یَوْمَھُمُ الَّذِیْ یُوْعَدُوْنَ ۔ } ” تو (اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ) ان کو باطل میں پڑے رہنے اور کھیل لینے دو یہاں تک کہ جس دن کا ان سے وعدہ کیا جاتا ہے وہ ان کے سامنے آموجود ہو “۔ سورة القلم میں فرمایا گیا : { فَذَرْنِیْ وَمَنْ یُّـکَذِّبُ بِھٰذَا الْحَدِیْثِط سَنَسْتَدْرِجُھُمْ مِنْ حَیْثُ لاَ یَعْلَمُوْنَ ۔ } ” تو آپ مجھ کو اس کلام کے جھٹلانے والوں سے سمجھ لینے دیں۔ ہم ان کو آہستہ آہستہ ایسے طریق سے پکڑیں گے کہ ان کو خبر بھی نہ ہوگی “۔ اس حکم کے تکرار کا مطلب یہی ہے کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ ان لوگوں کے تمسخر ‘ استہزاء اور دیگر مخالفانہ ہتھکنڈوں کو بالکل خاطر میں نہ لائیں اور تبلیغ و تذکیر کے حوالے سے اپنا مشن جاری رکھیں ۔ ان لوگوں کے معاملے کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھ پر چھوڑ دیں ‘ ان سے میں خود نمٹ لوں گا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(52:45) ذرھم۔ ذر : امر واحد مذکر حاضر۔ وذر (باب سمع، فتح) مصدر بمعنی چھوڑنا۔ اس کا صرف مضارع یا امر استعمال ہوتا ہے ہم ضمیر مفعول جمع مذکر غائب تو ان کو چھوڑ۔ پس ان کو چھوڑ دو ۔ قرآن مجید میں اور جگہ آیا ہے ویذرہم فی طغیانھم یعمھون (7:186) اور وہ ان (گمراہوں) کو چھوڑے رکھتا ہے کہ وہ اپنی سرکشی میں پڑے جھٹکتے رہیں۔ حتی یلقوا : حتی وقت کی انتہا کے اظہار کے لئے ہے ۔ یہاں تک۔ یلقوا مضارع منصوب بوجہ عمل حتی۔ جمع مذکر غائب، ملاقاۃ (مفاعلۃ) مصدر (حتی کہ) وہ پالیں ۔ وہ مل جائیں۔ لقی مادہ۔ اور جگہ قرآن مجید میں ہے حتی یلج الجمل فی سم الخیاط (7:40) یہاں تک کہ اونٹ سوئی کے ناکے میں سے نہ نکل جائے۔ یومہم۔ مضاف مضاف الیہ۔ مل کر یلقوا کا مفعول۔ الذی فیہ یصعقون : متعلق یوم : فیہ میں ضمیر واحد مذکر غائب کا مرجع یوم ہے ۔ یصعقون : مضارع مجہول جمع مذکر غائب۔ صعق (باب سمع) مصدر۔ صاعقہ کے اصل معنی فضا میں سخت آواز کے ہیں۔ پھر کبھی (1) اس آواز سے صرف آگ ہی پیدا ہوتی ہے۔ جیسے قرآن مجید میں ارشاد ہے ویرسل الصواعق فیصیب بھا من یشاء (13:13) اور وہی بجلیاں بھیجتا ہے پھر جس پر چاہتا ہے گرا بھی دیتا ہے۔ (2) اور کبھی یہ عذاب کا باعث بنتی ہے۔ مثلاً قرآن مجید میں ہے فقل انذرتکم صاعقۃ مثل صعقۃ عاد وثمود (41:13) کبھی یہ موت اور ہلاکت کا سبب بنتی ہے جیسا کہ فرمایا فصعق عاد وثمود (41:13) میں تم کو مہلک عذاب سے آگاہ کرتا ہوں جیسے عاد اور ثمود پر وہ عذاب آیا تھا۔ اور (3) کبھی یہ موت اور ہلاکت کا سبب بنتی ہے جیسا کہ فرمایا فصعق من فی السموات ومن فی الارض (39:68) تو جو لوگ آسمانوں میں ہیں اور جو زمین میں ہیں سب کے سب مرجائیں گے۔ اور جگہ آیا ہے فاخذتکم الصعقۃ (51:44) سو تم کو موت نے آپکڑا۔ گویا صاعقہ (فضا میں ہولناک آواز) کبھی صرف آگ ہی پیدا کرتی ہے (بجلی کو کوند کی صورت میں) اور کبھی وہ آواز عذاب اور موت کا سبب بن جاتی ہے۔ اکثر علماء کے نزدیک یصعقون بمعنی یمرتون ہے ترجمہ آیت کا یوں ہوگا :۔ پس اے نبی انہیں ان کے حال پر چھوڑ دو ۔ یہاں تک کہ یہ اپنے اس دن کو پہنچ جائیں جس میں یہ مار گرائے جائیں گے۔ (ترجمہ مودودی) الیسر التفاسیر میں ہے وھو یوم مرتھم یہ ان کی موت کا دن ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ مراد قیامت کا دن ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یہ مخالفین پر ایک نیا تنقیدی حملہ ہے۔ اس کا آغاز ایک شدید دھمکی اور تہدید سے ہوتا ہے کہ جب صور پھونکا جائے گا تو یہ سب لوگ مار گرائے جائیں گے اور یہ واقعہ حشر ونشر اور قیامت میں اٹھانے سے قدرے پہلے ہوگا۔ اس دن ان کی کوئی تدبیر ان کے کام نہ آئے گی۔ آج تو یہ لوگ تحریک اسلامی کے خلاف کچھ نہ کچھ تدابیر کرتے ہیں لیکن اس دن کوئی تدبیر ان کے کام نہ آئے گی۔ قیامت سے پہلے بھی ان پر عذاب آنے والا ہے لیکن ان کو پتہ نہیں ہے۔ اس آخری دھمکی کے بعد مکذبین کے معاملے میں یہ حملہ فارغ ہوجاتا ہے۔ اس سے قبل اس سورت نے ان کا خوب تعاقب کیا اور سخت حملے ان پر کئے اور آخر میں کہہ دیا کہ قریبی عذاب بھی ان کے انتظار میں ہے اور دور کا عذاب بھی ان کے انتظار میں ہے۔ اب روئے سخن نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف ہے جن پر زیادتیاں کرنے والے زیادتی کرکے طرح طرح کی باتیں آپ کے خلاف بناتے تھے۔ آپ کو ہدایت کی جاتی ہے کہ آپ صبر کریں۔ یہ مشکلات دور ہونے والی ہیں۔ یہ مکذبین خود عذاب سے دو چار ہونے والے ہیں دعوت کا راستہ دشوار گزار ہے اور طویل ہے اور اس پر صبر ہی کرنا طریقہ دعوت ہے۔ انجام اللہ پر چھوڑ دیا جائے۔ فیصلہ اسی نے کرنا ہوتا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اس کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ارشاد فرمایا ﴿ فَذَرْهُمْ حَتّٰى يُلٰقُوْا يَوْمَهُمُ الَّذِيْ فِيْهِ يُصْعَقُوْنَۙ٠٠٤٥﴾ (آپ ان کو چھوڑیں ان کی طرف التفات نہ فرمائیں یہاں تک کہ وہ دن آجائے جس میں یہ لوگ بےہوش ہوجائیں گے) بعض حضرات نے فرمایا کہ اس سے یوم بدر مراد ہے اور بعض حضرات نے فرمایا کہ نفخہ اولیٰ مراد ہے (یعنی جب صور پھونکا جائے گا اس میں بےہوشی ہوگی، اس دن تک انہیں چھوڑے ركھئے)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

22:۔ ” فذرھم “۔ یومہم سے نفخہ اولی کا دن مراد ہے جس سن کر سب پر بےہوشی طاری ہوجائے گی (مدارک) ۔ آپ ان سے اعراض فرمائیں اور اس دن کا انتظار فرمائیں۔ جب دہشت و خوف سے ان پر حقیقت طاری ہوگی اس دن ان پر حقیقت حال واضح ہوجائے گی لیکن اب اس سے ان کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ اس دن عذاب الٰہی سے بچنے کے لیے ان کا کوئی حیلہ کامیاب نہ ہوسکے گا اور نہ ان کو اپنے خود ساختہ معبودوں، گمراہ کرنے والے پیشواؤں اور دیگر سفارشیوں کی طرف ہی سے کچھ مدد مل سکے گی اور وہ کسی بھی طرح سے خدا کے عذاب سے نہیں بچ سکیں گے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(45) پس اے پیغمبر آپ ان کو ان کے حال پر چھوڑئیے یہاں تک کہ یہ اپنے اس دن سے ملاقات کریں اور مشاہدہ کرلیں جس دن میں ان کے ہوش گم کردیئے جائیں گے۔