Surat un Najam

Surah: 53

Verse: 19

سورة النجم

اَفَرَءَیۡتُمُ اللّٰتَ وَ الۡعُزّٰی ﴿ۙ۱۹﴾

So have you considered al-Lat and al-'Uzza?

کیا تم نے لات اور عزیٰ کو دیکھا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Refuting Idolatry, Al-Lat and Al-`Uzza Allah the Exalted rebukes the idolators for worshipping idols and taking rivals to Him. They built houses for their idols to resemble the Ka`bah built by Prophet Ibrahim, Allah's Khalil. أَفَرَأَيْتُمُ اللَّتَ .... Have you then considered Al-Lat, Al-Lat was a white stone with inscriptions on. There was a house built around Al-Lat in At-Ta'if with curtains, servants and a sacred courtyard around it. The people of At-Ta'if, the tribe of Thaqif and their allies, worshipped Al-Lat. They would boast to Arabs, except the Quraysh, that they had Al-Lat. Ibn Jarir said, "They derived Al-Lat's name from Allah's Name, and made it feminine. Allah is far removed from what they ascribe to Him. " It was reported that Al-Lat is pronounced Al-Lat because, according to Abdullah bin Abbas, Mujahid, and Ar-Rabi` bin Anas, Al-Lat was a man who used to mix Sawiq (a kind of barley mash) with water for the pilgrims during the time of Jahiliyyah. When he died, they remained next to his grave and worshipped him." Al-Bukhari recorded that Ibn Abbas said about Allah's statement, ... اللَّتَ وَالْعُزَّى Al-Lat, and Al-`Uzza. "Al-Lat was a man who used to mix Sawiq for the pilgrims." Ibn Jarir said, "They also derived the name for their idol Al-`Uzza from Allah's Name Al-`Aziz. Al-`Uzza was a tree on which the idolators placed a monument and curtains, in the area of Nakhlah, between Makkah and At-Ta'if. The Quraysh revered Al-`Uzza." During the battle of Uhud, Abu Sufyan said, "We have Al-`Uzza, but you do not have Al-`Uzza." Allah's Messenger replied, قُولُوا اللهُ مَوْلاَنَا وَلاَ مَوْلَى لَكُم Say, "Allah is Our Supporter, but you have no support." Manat was another idol in the area of Mushallal near Qudayd, between Makkah and Al-Madinah. The tribes of Khuza`ah, Aws and Khazraj used to revere Manat during the time of Jahiliyyah. They used to announce Hajj to the Ka`bah from next to Manat. Al-Bukhari collected a statement from A'ishah with this meaning. There were other idols in the Arabian Peninsula that the Arabs revered just as they revered the Ka`bah, besides the three idols that Allah mentioned in His Glorious Book. Allah mentioned these three here because they were more famous than the others. An-Nasa'i recorded that Abu At-Tufayl said, "When the Messenger of Allah conquered Makkah, he sent Khalid bin Al-Walid to the area of Nakhlah where the idol of Al-`Uzza was erected on three trees of a forest. Khalid cut the three trees and approached the house built around it and destroyed it. When he went back to the Prophet and informed him of the story, the Prophet said to him, ارْجِعْ فَإِنَّكَ لَمْ تَصْنَعْ شَيْيًا Go back and finish your mission, for you have not finished it. Khalid went back and when the custodians who were also its servants of Al-`Uzza saw him, they started invoking by calling Al-`Uzza! When Khalid approached it, he found a naked woman whose hair was untidy and who was throwing sand on her head. Khalid killed her with the sword and went back to the Messenger of Allah , who said to him, تِلْكَ الْعُزَّى That was Al-`Uzza!" Muhammad bin Ishaq narrated, "Al-Lat belonged to the tribe of Thaqif in the area of At-Ta'if. Banu Mu`attib were the custodians of Al-Lat and its servants." I say that the Prophet sent Al-Mughirah bin Shu`bah and Abu Sufyan Sakhr bin Harb to destroy Al-Lat. They carried out the Prophet's command and built a Masjid in its place in the city of At-Ta'if. Muhammad bin Ishaq said that Manat used to be the idol of the Aws and Khazraj tribes and those who followed their religion in Yathrib (Al-Madinah). Manat was near the coast, close to the area of Mushallal in Qudayd. The Prophet sent Abu Sufyan Sakhr bin Harb or `Ali bin Abi Talib to demolish it. Ibn Ishaq said that Dhul-Khalasah was the idol of the tribes of Daws, Khath`am and Bajilah, and the Arabs who resided in the area of Tabalah. I say that Dhul-Khalasah was called the Southern Ka`bah, and the Ka`bah in Makkah was called the Northern Ka`bah. The Messenger of Allah sent Jarir bin Abdullah Al-Bajali to Dhul-Khalasah and he destroyed it. Ibn Ishaq said that Fals was the idol of Tay' and the neighboring tribes in the Mount of Tay', such as Salma and Ajja. Ibn Hisham said that some scholars of knowledge told him that the Messenger of Allah sent Ali bin Abi Talib to Fals and he destroyed it and found two swords in its treasure, which the Prophet then gave to Ali as war spoils. Muhammad bin Ishaq also said that the tribes of Himyar, and Yemen in general, had a house of worship in San`a' called Riyam. He mentioned that there was a black dog in it and that the religious men who went with Tubba` removed it, killed it and demolished the building. Ibn Ishaq said that Ruda' was a structure of Bani Rabi`ah bin Ka`b bin Sa`d bin Zayd Manat bin Tamim, which Al-Mustawghir bin Rabi`ah bin Ka`b bin Sa`d demolished after Islam. In Sindad there was Dhul-Ka`bat, the idol of the tribes of Bakr and Taghlib, the sons of the Wa'il, and also the Iyad tribes. Refuting the Idolators Who appoint Rivals to Allah and claim that the Angels were Females Allah the Exalted said, أَفَرَأَيْتُمُ اللَّتَ اللَّتَ وَالْعُزَّى وَمَنَاةَ الثَّالِثَةَ الاُْخْرَى

بتکدے کیا تھے؟ ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ مشرکین کو ڈانٹ رہا ہے کہ وہ بتوں کی اور اللہ کے سوا دوسروں کی پرستش کرتے ہیں اور جس طرح خلیل اللہ نے بحکم اللہ بیت اللہ بنایا ہے یہ لوگ اپنے اپنے معبودان باطل کے پرستش کدے بنا رہے ہیں ۔ لات ایک سفید پتھر منقش تھا جس پر قبہ بنا رکھا تھا غلاف چڑھائے جاتے تھے مجاور محافظ اور جاروب کش مقرر تھے اس کے آس پاس کی جگہ مثل حرم کی حرمت و بزرگی والی جانتے تھے اہل طائف کا یہ بت کدہ تھا قبیلہ ثقیف اس کا پجاری اور اس کا متولی تھا ۔ قریش کے سوا باقی اور سب پر یہ لوگ اپنا فخر جتایا کرتے تھے ۔ ابن جریر فرماتے ہیں ان لوگوں نے لفظ اللہ سے لفظ لات بنایا تھا گویا اس کا مؤنث بنایا تھا اللہ کی ذات تمام شریکوں سے پاک ہے ایک قرأت میں لفظ لات تاکہ تشدید کے ساتھ ہے یعنی گھولنے والا اسے لات اس معنی میں اس لئے کہتے تھے کہ یہ ایک نیک شخص تھا موسم حج میں حاجیوں کو ستو گھول گھول کر پلاتا تھا اس کے انتقال کے بعد لوگوں نے اس کی قبر پر مجاورت شروع کر دی رفتہ رفتہ اسی کی عبادت کرنے لگے ۔ اسی طرح لفظ عزیٰ لفظ عزیر سے لیا گیا ہے مکے اور طائف کے درمیان نخلہ میں یہ ایک درخت تھا اس پر بھی قبہ بنا ہوا تھا چادریں چڑھی ہوئی تھیں قریش اس کی عظمت کرتے تھے ۔ ابو سفیان نے احد والے دن بھی کہا تھا ہمارا عزیٰ ہے اور تمہارا نہیں جس کے جواب میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کہلوایا تھا اللہ ہمارا والی ہے اور تمہاری کوئی نہیں صحیح بخاری میں ہے جو شخص لات عزیٰ کی قسم کھابیٹھے اسے چاہیے کہ فورا لا الہ الا للہ کہہ لے اور جو اپنے ساتھی سے کہہ دے کہ آ جوا کھیلیں اسے صدقہ کرنا چاہیے ، مطلب یہ ہے کہ جاہلیت کے زمانہ میں چونکہ اسی کی قسم کھائی جاتی تھی تو اب اسلام کے بعد اگر کسی کی زبان سے اگلی عادت کے موافق یہ الفاظ نکل جائیں تو اسے کلمہ پڑھ لینا چاہیے حضرت سعد بن وقاص ایک مرتبہ اسی طرح لات و عزیٰ کی قسم کھا بیٹھے جس پر لوگوں نے انہیں متنبہ کیا یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے آپ نے فرمایا دعا ( لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ لہ الملک ولہ الحمد وھو علی کل شئی قدیر ) پڑھ لو اور تین مرتبہ اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم پڑھ کر اپنی بائیں جانب تھوک دو اور آئندہ سے ایسا نہ کرنا مکے اور مدینے کے درمیان قدید کے پاس مثلل میں مناۃ تھا ۔ قبیلہ خزاعہ ، اوس ، اور خزرج جاہلیت میں اس کی بہت عظمت کرتے تھے یہیں سے احرام باندھ کر وہ حج کعبہ کے لئے جاتے تھے اسی طرح ان تین کی شہرت بہت زیادہ تھی اس لئے یہاں صرف ان تین کا ہی بیان فرمایا ۔ ان مقامات کا یہ لوگ طواف بھی کرتے تھے قربانیوں کے جانور وہاں لے جاتے تھے ان کے نام پر جانور چڑھائے جاتے تھے باوجود اس کے یہ سب لوگ کعبہ کی حرمت و عظمت کے قائل تھے اسے مسجد ابراہیم مانتے تھے اور اس کی خاطر خواہ توقیر کرتے تھے ۔ سیرۃ ابن اسحاق میں ہے کہ قریش اور بنو کنانہ عزیٰ کے پجاری تھے جو نخلہ میں تھا ۔ اس کا نگہبان اور متولی قبیلہ بنو شیبان تھا جو قبیلہ سلیم کی شاخ تھا اور بنو ہاشم کے ساتھ ان کا بھائی چارہ تھا اس بت کے توڑنے کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے بعد حضرت خالد بن ولید کو بھیجا تھا جنہوں نے اسے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور کہتے جاتے تھے یا عزی کفرانک لا سبحانک انی رایت اللہ قد اھانک اے عزیٰ میں تیرا منکر ہوں تیری پاکی بیان کرنے والا نہیں ہوں میرا ایمان ہے کہ تیری عزت کو اللہ نے خاک میں ملا دیا ۔ یہ ببول کے تین درختوں پر تھا کاٹ ڈالے گئے اور قبہ ڈھا دیا اور واپس آ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دی آپ نے فرمایا تم نے کچھ نہیں کیا لوٹ کر پھر دوبارہ جاؤ حضرت خالد کے دوبارہ تشریف لے جانے پر وہاں کے محافظ اور خدام نے بڑے بڑے مکرو فریب کئے اور خوب غل مچا مچا کر یا عزیٰ یا عزیٰ کے نعرے لگائے حضرت خالد نے جو دیکھا تو معلوم ہوا کہ ایک ننگی عورت ہے جس کے بال بکھرے ہوئے ہیں اور اپنے سر پر مٹی ڈال رہی ہے آپ نے تلوار کے ایک ہی وار میں اس کا کام تمام کیا اور واپس آکر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی آپ نے فرمایا عزیٰ یہی تھی ۔ لات قبیلہ ثقیف کا بت تھا جو طائف میں تھا ۔ اس کی تولیت اور مجاورت بنو معتب میں تھی یہاں اس کے ڈھانے کے لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت مغیرہ بن شعبہ اور حضرت ابو سفیان صخر بن حرب کو بھیجا تھا جنہوں نے اسے معدوم کر کے اس کی جگہ مسجد بنا دی ، مناۃ اوس و خزرج اور اس کے ہم خیال لوگوں کا بت تھا یہ مثلل کی طرف سے سمندر کے کنارے قدید میں تھا یہاں بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو سفیان کو بھیجا اور آپ نے اس کے ریزے ریزے کر دئیے ۔ بعض کا قول ہے کہ حضرت علی کے ہاتھوں یہ کفرستان فنا ہوا ۔ ذوالخعلہ نامی بت خانہ دوس اور خشعم اور بجیلہ کا تھا اور جو لوگ اس کے ہم وطن تھے یہ تبالہ میں تھا اور اسے یہ لوگ کعبہ یمانیہ کہتے تھے اور مکہ کے کعبہ کو کعبہ شامیہ کہتے تھے یہ حضرت جریر بن عبداللہ کے ہاتھوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے فنا ہوا فلس نامی بت خانہ قبیلہ طے اور ان کے آس پاس کے عربوں کا تھا یہ جبل طے میں سلمیٰ اور اجا کے درمیان تھا اس کے توڑنے پر حضرت علی مامور ہوئے تھے آپ نے اسے توڑ دیا اور یہاں سے دو تلواریں لے گئے تھے ایک رسوب دوسری مخزم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دونوں تلواریں انہی کو دے دیں ، قبیلہ حمیر اہل یمن نے اپنا بت خانہ صنعاء میں ریام نامی بنا رکھا تھا مذکور ہے کہ اس میں ایک سیاہ کتا تھا اور وہ دو حمیری جو تبع کے ساتھ نکلے تھے انہوں نے اسے نکال کر قتل کر دیا اور اس بت خانہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور رضا نامی بت کدہ بنو ربیعہ بن سعد کا تھا اس کو مستوغر بن ربیعہ بن کعب بن اسد نے اسلام میں ڈھایا ۔ ابن ہشام فرماتے ہیں کہ ان کی عمر تین سو تیس سال کی ہوئی تھی جس کا بیان خود انہوں نے اپنے اشعار میں کیا ہے ذوالکعبات نامی صنم خانہ بکر تغلب اور یاد قبیلے کا سنداد میں تھا پھر فرماتا ہے کہ تمہارے لئے لڑکے ہوں اور اللہ کی لڑکیاں ہوں ؟ کیونکہ مشرکین اپنے زعم باطل میں فرشتوں کو اللہ کی لڑکیاں سمجھتے تھے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اگر تم آپس میں تقسیم کرو اور کسی کو صرف لڑکیاں اور کسی کو صرف لڑکے دو تو وہ بھی راضی نہ ہوگا اور یہ تقسیم نامنصفی کی سمجھی جائے گی چہ جائیکہ تم اللہ کے لئے لڑکیاں ثابت کرو اور خود تم اپنے لئے لڑکے پسند کرو پھر فرماتا ہے ان کو تم نے اپنی طرف سے بغیر کسی دلیل کے مضبوط ٹھہرا کر جا چاہا نام گھڑ لیا ہے ورنہ نہ وہ معبود ہیں نہ کسی ایسے پاک نام کے مستحق ہیں خود یہ لوگ بھی ان کی پوجا پاٹ پر کوئی دلیل پیش نہیں کر سکتے صرف اپنے بڑوں پر حسن ظن رکھ کر جو انہوں نے کیا تھا یہ بھی کر رہے ہیں مکھی پر مکھی مارتے چلے جاتے ہیں مصیبت تو یہ ہے کہ دلیل آجانے اللہ کی باتیں واضح ہو جانے کے باوجود بھی باپ دادا کی غلط راہ کو نہیں چھوڑتے ۔ پھر فرماتا ہے کیا ہر انسان تمنا پر تمہارے لئے کیا لکھا جائے گا ؟ تمام امور کا مالک اللہ تعالیٰ ہے دنیا اور آخرت میں تصرف اسی کا ہے جو اس نے جو چاہا ہو رہا ہے اور جو چاہے گا ہو گا ۔ پھر فرماتا ہے کہ اللہ کی اجازت کے بغیر کوئی بڑے سے بڑا فرشتہ بھی کسی کے لئے سفارش کا لفظ بھی نہیں نکال سکتا ۔ جیسے فرمایا آیت ( مَنْ ذَا الَّذِيْ يُقْرِضُ اللّٰهَ قَرْضًا حَسَنًا فَيُضٰعِفَهٗ لَهٗ وَلَهٗٓ اَجْرٌ كَرِيْمٌ 11۝ۚ ) 57- الحديد:11 ) کون ہے جو اس کے پاس اس کی اجازت کے بغیر سفارش پیش کر سکے اس کے فرمان کے بغیر کسی کو کسی کی سفارش نفع نہیں دے سکتی ۔ جبکہ بڑے بڑے قریبی فرشتوں کا یہ حال ہے تو پھر اے ناوافقو ! تمہارے یہ بت اور تھان کیا نفع پہنچا دیں گے ؟ ان کی پرستش سے اللہ روک رہا ہے تمام رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور کل آسمانی کتابیں اللہ کے سوا اوروں کی عبادت سے روکنا اپنا عظیم الشان مقصد بتاتی ہیں پھر تم ان کو اپنا سفارشی سمجھ رہے ہو کس قدر غلط راہ ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(افرء یتم اللت والعزی …: گزشتہ آیات میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صراط مستقیم پر استقامت اور آپ کی ہر بات اللہ تعالیٰ کی وحی پر موقوف ہونے کا ذکر ہوا، اس کے ساتھ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تعلیم دینے والے فرشتے کی قوت و عظمت کا ذکر ہوا، اس کے زمین پر اور آسمانوں پر سدرۃ المنتہی کے پاس نزول اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بالکل قریب آکر وحی پہنچانے کا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اسے اور اللہ تعالیٰ کی دوسری بڑی بڑی نشانیوں کو دیکھنے کا ذکر ہوا۔ ان سب باتوں سے اللہ تعالیٰ کی عظمت و قدرت، اس کا جلال اور اس کی وحدانیت خود بخود ظاہر ہو رہی ہے کہ جب اس کے رسول کا، فرشتوں کا اور اس کی زمین و آسمان پر بیشمار نشانیوں کی عظمت کا یہ عالم ہے تو وہ خود کتنی قدرتوں کا مالک ہوگا۔ اس لئے ساتھ ہی اپنی توحید کی طرف توجہ دلانے اور مشرکین کو ان کی حماقت پر متنبہ کرنے کے لئے فرمایا ج کہ جب تم میری قدرتوں کو سن اور دیکھ چکے تو پھر کیا تم نے لات اور عزیٰ کو بھی دیکھا ہے ؟ کیا سوچا بھی جاسکتا ہے کہ یہ معبود ہیں یا اس عظیم الشان کائنات میں ان کا کوئی دخل ہے ؟ یہ انداز بیان ان باتوں کی انتہائی تحقیر اور ان پر طنز کا اظہار ہے، جیسے کوئی انتہائی کمزور اور ہاتھ پاؤں سے معذور شخص بادشاہ ہونے کا دعویٰ کر دے تو سبھی کہیں گے، اسے دیکھو یہ بادشاہ سلامت ہے۔ (٢) طبری نے فرمایا :” مشرکین نے اپنے بتوں اور آستانوں کے نام اللہ تعالیٰ کے ناموں کی مونث بنا کر رکھے ہوئے تھے۔ چناچہ انہوں نے لفظ ” اللہ “ کے ساتھ تائے تانیث ملا کر ” اللات “ بنا لیا، جیسے ” عمرو “ مذکر کے لئے ” عمرۃ “ مونث اور ” عباس “ مذکر کے لئے ” عباسۃ “ مونث بنا لیتے ہیں اور ” عزیز “ سے ” غزی “ بنا لیا (جو ” اعزع “ اسم تفصیل کی مونث ہے۔ “ یہاں ایک سوال ہے کہ لفظ ” اللہ “ کا مونث ” اللات “ کیسے بن گیا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ لفظ اللہ اصل میں ” الا لہ “ ہے، مونث اس کا ” الالھۃ “ بنے گا، مگر انہوں نے تخفیف کے لئے اسے ” اللاث “ بنال یا اور معلوم ہے کہ تخفیف کا کوئی طے شدہ قاعدہ نہیں۔ شیخ عبدالرحمٰن سعدی لکھتے ہیں :” مناۃ “” منان “ کی مونث بنا لی گئی ہے۔ “ ظاہر ہے یہاں بھی تخفیف قاعدہ ہی اسعتمال ہوا ہے۔ طبری نے فرمایا : ” مشرکین نے اپنے اوثان کے نام اللہ تعالیٰ کے نام کی مونث بنا کر رکھے ہوئے تھے اور دعویٰ یہ کرتے تھے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ہیں۔ (اللہ تعالیٰ ان کے اس بہتان سے بہت بلند ہے) تو اللہ جل ثناء ہ نے انہیں مخاطب کر کے فرمایا کہ لات و عزیٰ اور تیسرے ایک اور منتا کو اللہ کی بیٹیاں کہنے والو !” الکم الذکر “ کیا تم اپنے لئے اولاد لڑکے پسند اور لڑکیاں ناپسند کرتے ہو اور ” ولہ الانثی “ اس کے لئے لڑکیاں قرار دیتے ہو جنہیں اپنے لئے کسی صورت پسند نہیں کرتے، بلکہ ان سے اتنی شدید نفرت رکھتخ ہو کہ انہیں زندہ درگور کردیتے ہو۔ “ (٣)” اللت “ کی قرأت میں اختلاف ہے۔ اکثر قراء اسے ” تائ “ کی تشدید کے بغیر پڑھتے ہیں، اس مفہم کے مطابق جس کا اوپر ذکر ہوا ہے اور بعض اسے ” اللاث “ (تاء کی تشدید کے ساتھ) پڑھتے ہیں، جو ” لت یلث “ (ن) سے اسم فاعل ہے، جس کا معنی بلونا اور لت پت کرنا ہے۔ ابن عباس (رض) نے فرمایا :(کان اللات رجلا یلث سویق الحاج) (بخاری، التفسیر، سورة النجم : ٣٨٥٩)” لات ایک مرد تھا جو ستوبلو کر حاجیوں کپو لاتا تھا۔ “ پہلی قرأت اس لئے راجح ہے کہ اکثر قراء نے ایسے ہی پڑھا ہے اور اس لئے بھی کہ نص نے مشرکین کو اس بات پر جھڑکا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ ک ے لئے بیٹیاں قرار دیتے ہیں، جبکہ دوسری قرأت کے مطابق ” لات “ ایک مرد تھا۔” لات “ کے مونث ہونے کی ایک دلیل صحیح بخاری (٢٧٣١، ٢٧٣٢) میں مذکور صلح حدیبیہ والی طوییل حدیث ہے، جس میں ہے کہ جب کفار کے نمائندے سہیل بن عمرو نے کہا کہ تم مختلف لوگ اکٹھے ہوگئے ہو ، جنگ ہوئی تو بھاگ جاؤ گے، تو ابوبکر (رض) نے فرمایا :(امصص بظر اللات انحن نفر عنہ) (” لات کی شرم گاہ کو چوس، کیا ہم آپ (ﷺ) کو چھوڑ کر بھاگ جائیں گے ؟ “ واضح رہے ” بظر “ عورت کی شرم گاہ کو کہا جاتا ہے۔ (٤) عرب میں بتوں کے بیشمار آستانے تھے، اللہ تعالیٰ نے ان میں سے ان تین کا ذکر اس لئے فرمایا کہ یہ ان کے سب سے مشہور اور بڑے بت تھے۔ مکہ، طائف ، مدینہ اور حجاز کے اکثر علاقوں کے لوگ انہیں سب سے زیادہ پوجتے تھے۔ لات طائف میں تھا، بنو ثقیف اس کے پجاری اور متولی تھے۔ عزیٰ قریش کی خاص دیوی تھی جس کا استہان مکہ اور طائف کے درمیان مقام نخلہ پر تھا۔ وہاں عمارت کے علاوہ درخت بھی تھے جن کی پوجا ہوتی تھی۔ قریش کے ہاں اس کی تعظیم کا اندازہ صحیح بخاری کی اس حدیث سے ہوتا ہے جس میں ہے کہ جنگ اد کے موقع پر جب کفار سملمانوں کو کچھ نقصان پہنچانے میں کامیاب ہوئے تو پہاڑ پر چڑھ کر باوسفیان نے فخر سے کہا :” لنا العزی ولا عزی لکم “ (ہمارے پاس عزی ہے تمہارے پاس کوئی عزی نہیں) تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، اسے جواب دو :(اللہ مولانا ولا مولی لکم)” اللہ ہمارا مولیٰ ہے تمہارا کوئی مولیٰ نہیں ۔ “ (بخاری، الجھاد والسیر، باب ما یکرہ من التنازع…: ٣٠٢٩) منات کا مندر مکہ اور مدینہ کے درمیان بحر احمر کے کنارے مشلل کے قریب قدید کے مقام پر تھا۔ (دیکھیے بخاری، التفسیر، سورة النجم :3861) مدینہ کے اوس و خزرج اور ان کے ہمونوا اس کی پوجا کرتے تھے۔ ان تمام بتوں کے مندر تھے اور ان کے باقاعدہ پروہتا اور پجاری بھی تھے۔ کعبہ کی طرح ان پر بھی جانور لا کر قربان کئے جاتے تھے۔ ابن کثیر نے اس مقام پر سیرت ابن اسحاق سے عرب کے بتوں کا تذکرہ تفصیل سے نقل کیا ہے کہ وہ کہاں کہاں تھے، ان کی شکل کیا تھی اور کون کون سے صحابہ نے انہیں منہدم کیا۔ یہ تفصیل ان کی تفسیر میں ملاحظہ فرمائیں۔ (٥) ومنوہ الثالثۃ الاخری : یہاں ایک سوال ہے کہ ” الثالثۃ “ (تیسرا) کہنے کے بعد ” الاخری “ (ایک اور یا بعد والا) کہنے کی کیا ضرورت تھی ؟ جواب اس کا یہ ہے کہ مشرکین کے ہاں بتوں اور دیویوں کے بھی درجے ہیں، لات اور عزیٰ کو جو مقام حاصل تھا وہ منات کو حاصل نہ تھا۔ اس کا تذکرہ ان الفاظ میں یہ ظاہر کرنے کے لئے فرمایا ہ اس کا نمبر تمہارے ہاں بھی تیسرا اور دونوں کے بعد ہے۔ یہ بھی شرک پر بہت بڑی چوٹ ہے کہ وہ معبود ہی کیا ہوا جو دوسرے معبود کو بردشات کرتا ہے اور متعدد معبود اپنی اپنی حیثیت پر قناعت کرتے اور خوش رہتے ہیں، بھلا معبود برحق ایسا ہونا چاہیے ؟ ابراہیم (علیہ السلام) کے زمانے کے بتوں میں بھی یہ تقسیم موجود تھی، جیسا کہ فرمایا :(فجعلھم جذذاء الا کبیرا لھم) (الانبیائ : ٥٨)” پس اس نے انہیں ٹکڑے ٹکڑے کردیا، سوائے ان کے ایک بڑے کے۔ “ (٦) اس مقام پر بعض مفسرین نے ایک روایت بیان کی ہے کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس آیت پر پہنچے تو شیطان نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان پر یہ کلمات جایر کردیئے : ” تلک الغرانیق العلی و ان شفاعتھن لترتجی “ اس روایت کی حقیقت کے لئے دیکھیے سورة حج کی آیت (٥٢) کی تفسیر۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Refuting Idolatry The preceding verses declared the Glory of Allah, His Majesty and Dignity. They further confirmed and verified in the fullest details the Prophet-hood and messenger-ship of Muhammad (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، and the preservation of his revelation. The present two verses imply a subtle rebuke to the Makkah pagans. The purport of the verses is to say to them that without any proof, instead of adoring such a Mighty and Powerful Creator and Lord, they stoop so low as to worship gods made of wood and stone. They allege that the angels are the daughters of God. According to other narratives, they also alleged that these idols are the daughters of God. Pagans of Arabia had countless idols that they worshipped. However, there were three of them that were most popular, and they were worshipped by strong and powerful tribes of Arabia. The three idols were Lat, ` Uzza and Manat. Lat was the idol of the tribe of Thaqif or of the residents of Ta&if , ` Uzza was the idol of Quraish, and Manat was the idol of Banu Hilal. They built houses for their idols to resemble the Ka&bah. After the conquest of Makkah, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) demolished them. (Qurtubi)

خلاصہ تفسیر (اے مشرکو بعد اس کے کہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ناطق بالحق و متبع للوحی ہونا ثابت ہوگیا اور آپ اس وحی سے توحید کا حکم فرماتے ہیں، جو کہ دلائل عقلیہ سے بھی ثابت ہے، اور تم پھر بھی بتوں کی پرستش کرتے ہو تو) بھلا تم نے (کبھی ان بتوں کے مثلاً ) لات اور عزی اور ایک تیسرے منات کے حال میں غور بھی کیا ہے (تاکہ تم کو معلوم ہوتا کہ وہ قابل پرستش ہیں یا نہیں، پس کلمہ فاء سے یہ فائدہ ہوا کہ آپ کی تنبیہ کے بعد متنبہ ہونا چاہئے تھا اور توحید کے متعلق ایک اور بات قابل غور ہے کہ تم جو ملائکہ کو خدا کی بیٹیاں قرار دے کر معبود کہتے ہو تو) کیا تمہارے لئے تو بیٹے (تجویز) ہوں اور خدا کے لئے بیٹیاں ( تجویز ہوں یعنی جن لڑکیوں کو تم عار و ننگ و قابل نفرت سمجھتے ہو وہ خدا کی طرف نسبت کی جاویں) اس حالت میں تو یہ بہت بےڈھنگی تقسیم ہوئی ( کہ اچھی چیز تمہارے حصے میں اور بری چیز خدا کے حصہ میں، نعوذ باللہ منہ، یہ بنا علی العرف فرمایا اور نہ خدا تعالیٰ کے لئے بیٹا تجویز کرنا بھی بےڈھنگی بات ہے) یہ (معبودات مذکورہ اصنام و ملائکہ بعقیدہ مذکورہ) نرے نام ہی نام ہیں ، (یعنی یہ مسمیات خدا ہونے کی حیثیت سے کوئی موجود چیز ہی نہیں بلکہ مثل ان اسماء کے ہیں جن کا کہیں کوئی مصداق نہ ہو) جن کو تم نے اور تمہارے باپ دادوں نے (آپ ہی) ٹھہرا لیا ہے، خدا تعالیٰ نے تو ان (کے معبود ہونے) کی کوئی دلیل (عقلی یا نقلی) بھیجی نہیں (بلکہ) یہ لوگ (اس اعتقاد الوہیتہ غیر اللہ میں) صرف بےاصل خیالات پر اور اپنے نفس کی خواہش پر (جو کہ ان بےاصل خیالات سے پیدا ہوتی ہے) چل رہے ہیں (دونوں میں فرق یہ ہوا کہ ہر عمل سے پہلے ایک عقیدہ ہوتا ہے، اور ایک عزم و ارادہ جو عمل کے لئے محرک ہوتا ہے، پس دونوں سے دونوں کی طرف اشارہ ہے) حالانکہ ان کے پاس ان کے رب کی جانب سے (بواسطہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جو حق گو اور وحی الٰہی کے پیرو ہیں آپ سے) ہدایت (امر واقعی کی) آ چکی ہے (یعنی خود اپنے دعوے پر تو کوئی دلیل نہیں رکھتے، اور اس دعوت کی تفصیل پر رسول کے ذریعہ سے دلیل سنتے ہیں، اور پھر نہیں مانتے، یہ گفتگو تھی اللہ کے سوا کسی کے معبود ہونے کے ابطال میں، آگے اس کا بیان ہے کہ تم نے جو بتوں کو اس غرض سے معبود مانا ہے کہ یہ اللہ کے پاس تمہاری شفاعت کریں گے یہ غرض بھی محض دھوکہ اور باطل ہے، سوچو کہ) کیا انسان کو اس کی ہر تمنا مل جاتی ہے (واقعہ ایسا نہیں ہے، کیونکہ ہر تمنا) سو خدا ہی کے اختیار میں ہیں، آخرت (کی بھی) اور دنیا (کی بھی پس وہ جس کو چاہیں پورا فرما دیں، اور نص قطعی میں یہ بتلا دیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی اس تمنائے باطل کو پورا کرنا نہیں چاہیں گے نہ دنیا میں ان کی دنیوی حاجات میں شفاعت کریں نہ آخرت میں کہ وہاں عذاب سے نجات کی شفاعت کریں اس لئے یقینا وہ پوری نہ ہوگی) اور (بیچارے بت تو کیا شفاعت کرتے کہ ان میں خود اہلیت ہی شفاعت کی نہیں، اس دربار میں تو جو لوگ اہل ہیں ان کی بھی بلا اجازت حق کچھ نہیں چلتی چنانچہ) بہت سے فرشتے آسمانوں میں موجود ہیں (شاید اس میں اشارہ ہو علو شان کی طرف مگر باوجود اس علو شان کے) ان کی سفارش ذرا بھی کام نہیں آسکتی (بلکہ خود شفاعت ہی نہیں پائی جاسکتی) مگر بعد اس کے کہ اللہ تعالیٰ ٰجس کے لئے چاہیں اجازت دیدیں اور ( اس کے لئے شفاعت کرنے سے) راضی ہوں (یرضیٰ اس لئے بڑھایا تاکہ کبھی مخلوق کا اذن بلا رضا بھی کسی دباؤ یا مصلحت سے ہوجاتا ہے، اللہ جل شانہ کے معاملہ میں اس کا بھی دور کا کوئی احتمال نہیں کہ وہ کسی دباؤ سے مجبور ہو کر راضی ہوجاویں، آگے اس کا بیان ہے کہ فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کی اولاد قرار دیدینا کفر ہے کہ) جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ( بلکہ اس کے انکار کی وجہ سے کافر ہیں) وہ فرشتوں کو (خدا کی) بیٹی کے نام سے نامزد کرتے ہیں ( ان کی تعبیر بالکفر میں آخرت کی تخصیص سے شاید اس طرف اشارہ ہو کہ یہ سب ضلالتیں آخرت کی بےفکری سے پیدا ہوئی ہیں، ورنہ معتقد آخرت کو اپنی نجات کی ضرور فکر رہتی ہے اور یہاں انثیٰ بمعنے دختر کے ہیں، کما فی قولہ تعالیٰ وَاِذَا بُشِّرَ اَحَدُهُمْ بالْاُنْثٰى، اور جب ملائکہ کو خدا کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے کفر ہونے کی تصریح فرما دی تو بتوں کے شریک ٹھہرانے کا کفر ہونا بدرجہ اولیٰ ثابت ہوگیا اس لئے صرف اسی پر اکتفا کیا گیا، آگے اس کا بیان ہے کہ فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کی لڑکیاں قرار دینے کا عقیدہ باطل ہے) حالانکہ ان کے پاس اس پر کوئی دلیل نہیں صرف بےاصل خیالات پر چل رہے ہیں، اور یقینا بےاصل خیالات امر حق (کے اثبات) میں ذرا بھی مفید نہیں ہوتے۔ معارف و مسائل سابقہ آیات میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت و رسالت اور آپ کی وحی کے محفوظ ہونے کے دلائل کا تفصیلی ذکر تھا، ان آیات میں اس کے بالمقابل مشرکین عرب کے اس فعل کی مذمت ہے کہ انہوں نے بغیر کسی دلیل کے مختلف بتوں کو اپنا معبود و کارساز بنا رکھا ہے اور فرشتوں کو خدا تعالیٰ کی بیٹیاں کہتے ہیں اور بعض روایات میں ہے کہ ان بتوں کو بھی وہ خدا تعالیٰ کی بیٹیاں کہا کرتے تھے۔ مشرکین عرب کے بت جن کی وہ پرستش کرتے تھے بیشمار ہیں، مگر ان میں سے تین زیادہ مشہور ہیں، اور ان کی عبادت پر عرب کے بڑے بڑے قبائل لگے ہوئے تھے، لات، عزی، منات، لات قبیلہ ثقیف ( اہل طائف) کا بت تھا، عزی قریش کا اور منات بنی ہلال کا، ان بتوں کے مقامات پر مشرکین نے بڑے بڑے شاندار مکانات بنا رکھے تھے، جن کو کعبہ کی حیثیت دیتے تھے، فتح مکہ کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سب کو منہدم کرا دیا (قرطبی ملخصاً )

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَفَرَءَيْتُمُ اللّٰتَ وَالْعُزّٰى۝ ١٩ ۙ الف ( ا) الألفات التي تدخل لمعنی علی ثلاثة أنواع : - نوع في صدر الکلام . - ونوع في وسطه . - ونوع في آخره . فالذي في صدر الکلام أضرب : - الأوّل : ألف الاستخبار، وتفسیره بالاستخبار أولی من تفسیر ه بالاستفهام، إذ کان ذلک يعمّه وغیره نحو : الإنكار والتبکيت والنفي والتسوية . فالاستفهام نحو قوله تعالی: أَتَجْعَلُ فِيها مَنْ يُفْسِدُ فِيها [ البقرة/ 30] ، والتبکيت إمّا للمخاطب أو لغیره نحو : أَذْهَبْتُمْ طَيِّباتِكُمْ [ الأحقاف/ 20] ، أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْداً [ البقرة/ 80] ، آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس/ 91] ، أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران/ 144] ، أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخالِدُونَ [ الأنبیاء/ 34] ، أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً [يونس/ 2] ، آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام/ 144] . والتسوية نحو : سَواءٌ عَلَيْنا أَجَزِعْنا أَمْ صَبَرْنا [إبراهيم/ 21] ، سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لا يُؤْمِنُونَ [ البقرة/ 6] «1» ، وهذه الألف متی دخلت علی الإثبات تجعله نفیا، نحو : أخرج ؟ هذا اللفظ ينفي الخروج، فلهذا سأل عن إثباته نحو ما تقدّم . وإذا دخلت علی نفي تجعله إثباتا، لأنه يصير معها نفیا يحصل منهما إثبات، نحو : أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ [ الأعراف/ 172] «2» ، أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین/ 8] ، أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ [ الرعد/ 41] ، أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَةُ [ طه/ 133] أَوَلا يَرَوْنَ [ التوبة : 126] ، أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ [ فاطر/ 37] . - الثاني : ألف المخبر عن نفسه نحو : أسمع وأبصر . - الثالث : ألف الأمر، قطعا کان أو وصلا، نحو : أَنْزِلْ عَلَيْنا مائِدَةً مِنَ السَّماءِ [ المائدة/ 114] ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتاً فِي الْجَنَّةِ [ التحریم/ 11] ونحوهما . - الرابع : الألف مع لام التعریف «4» ، نحو : العالمین . - الخامس : ألف النداء، نحو : أزيد، أي : يا زيد . والنوع الذي في الوسط : الألف التي للتثنية، والألف في بعض الجموع في نحو : مسلمات ونحو مساکين . والنوع الذي في آخره : ألف التأنيث في حبلی وبیضاء «5» ، وألف الضمیر في التثنية، نحو : اذهبا . والذي في أواخر الآیات الجارية مجری أواخر الأبيات، نحو : وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا [ الأحزاب/ 10] ، فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا [ الأحزاب/ 67] ، لکن هذه الألف لا تثبت معنی، وإنما ذلک لإصلاح اللفظ . ا : الف با معنی کی تین قسمیں ہیں ۔ ایک وہ جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ دوسرا وہ جو وسط کلام میں واقع ہو ۔ تیسرا وہ جو آخر کلام میں آئے ۔ ( ا) وہ الف جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ اس کی چند قسمیں ہیں : ۔ (1) الف الاستخبار اسے ہمزہ استفہام کہنے کے بجائے الف استخبار کہنا زیادہ صحیح ہوگا ۔ کیونکہ اس میں عمومیت ہے جو استفہام و انکار نفی تبکیت پر زجرو تو بیخ ) تسویہ سب پر حاوی ہے۔ چناچہ معنی استفہام میں فرمایا ۔ { أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ } [ البقرة : 30]( انہوں نے کہا ) کیا تو اس میں ایسے شخص کو نائب بنانا چاہتا ہے جو خرابیاں کرے اور کشت و خون کرتا پھرے اور تبکیت یعنی سرزنش کبھی مخاطب کو ہوتی ہے اور کبھی غیر کو چناچہ ( قسم اول کے متعلق ) فرمایا :۔ (1){ أَذْهَبْتُمْ طَيِّبَاتِكُم } [ الأحقاف : 20] تم اپنی لذتیں حاصل کرچکے ۔ (2) { أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْدًا } [ البقرة : 80] کیا تم نے خدا سے اقرار لے رکھا ہے ؟ (3) { آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ } [يونس : 91] کیا اب ( ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ؟ اور غیر مخاظب کے متعلق فرمایا :۔ (4) { أَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا } [يونس : 2] کیا لوگوں کے لئے تعجب خیز ہے ؟ (5) { أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِل } [ آل عمران : 144] تو کیا اگر یہ مرجائیں یا مارے جائیں ؟ (6) { أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ } [ الأنبیاء : 34] بھلا اگر تم مرگئے تو کیا یہ لوگ ہمیشہ رہیں گے ؟ (7) { آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ } [ الأنعام : 143] بتاؤ تو ( خدا نے ) دونوں نروں کو حرام کیا ہے ۔ یا دونوں ماديؤں کو ۔ اور معنی تسویہ میں فرمایا ، { سَوَاءٌ عَلَيْنَا أَجَزِعْنَا أَمْ صَبَرْنَا } [إبراهيم : 21] اب ہم گهبرائیں یا صبر کریں ہمارے حق میں برابر ہے ۔ { سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ } ( سورة البقرة 6) تم خواہ انہیں نصیحت کردیا نہ کرو ان کے لئے برابر ہے ، وہ ایمان نہیں لانے کے ۔ اور یہ الف ( استخبار ) کلام مثبت پر داخل ہو تو اسے نفی میں تبدیل کردیتا ہے ۔ جیسے اخرج ( وہ باہر نہیں نکلا ) کہ اس میں نفی خروج کے معنی پائے جائے ہیں ۔ اس لئے کہ اگر نفی کے معنی نہ ہوتے تو اس کے اثبات کے متعلق سوال نہ ہوتا ۔ اور جب کلام منفی پر داخل ہو تو اسے مثبت بنا دیتا ہے ۔ کیونکہ کلام منفی پر داخل ہونے سے نفی کی نفی ہوئی ۔ اور اس طرح اثبات پیدا ہوجاتا ہے چناچہ فرمایا :۔ { أَلَسْتُ بِرَبِّكُم } [ الأعراف : 172] کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں ( یعنی ضرور ہوں ) { أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ } [ التین : 8] کیا اللہ سب سے بڑا حاکم نہیں ہے یعنی ضرور ہے ۔ { أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ } [ الرعد : 41] کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم زمین کا بندوبست کرتے ہیں ۔ { أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَة } [ طه : 133] کیا ان کے پاس کھلی نشانی نہیں آئی ۔ { أَوَلَا يَرَوْنَ } [ التوبة : 126] اور کیا یہ نہیں دیکھتے { أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُم } [ فاطر : 37] اور کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی ۔ (2) الف جو مضارع کے صیغہ واحد متکلم کے شروع میں آتا ہے اور میں |" کے معنی رکھتا ہے جیسے اسمع و ابصر یعنی میں سنتاہوں اور میں دیکھتا ہوں (3) ہمزہ فعل امر خواہ قطعی ہو یا وصلي جیسے فرمایا :۔ { أَنْزِلْ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِنَ السَّمَاءِ } [ المائدة : 114] ہم پر آسمان سے خوان نازل فرما ۔ { رَبِّ ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ } [ التحریم : 11] اے میرے پروردگار میرے لئے بہشت میں اپنے پاس ایک گھر بنا ۔ (4) الف جو لام کے ساتھ معرفہ بنانے کے لئے آیا ہے جیسے فرمایا { الْعَالَمِينَ } [ الفاتحة : 2] تمام جہانوں (5) الف نداء جیسے ازید ( اے زید ) ( ب) وہ الف جو وسط کلمہ میں آتا ہے اس کی پہلی قسم الف تثنیہ ہے ( مثلا رجلان ) اور دوسری وہ جو بعض اوزان جمع میں پائی جاتی ہے مثلا مسلمات و مساکین ۔ ( ج) اب رہا وہ الف جو کلمہ کے آخر میں آتا ہے ۔ وہ یا تو تانیث کے لئے ہوتا ہے جیسے حبلیٰ اور بَيْضَاءُمیں آخری الف یا پھر تثنیہ میں ضمیر کے لئے جیسا کہ { اذْهَبَا } [ الفرقان : 36] میں آخر کا الف ہے ۔ وہ الف جو آیات قرآنی کے آخر میں کہیں بڑھا دیا جاتا ہے جیسے { وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا } [ الأحزاب : 10] { فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا } [ الأحزاب : 67] تو یہ کوئی معنوی اضافہ نہیں کرتا بلکہ محض لفظی اصلاح ( اور صوتی ہم آہنگی ) کے لئے آخر میں بڑھا دیا جاتا ہے ( جیسا کہ ابیات کے اواخر میں الف |" اشباع پڑھاد یتے ہیں ) لات اللَّاتُ والعزّى صنمان، وأصل اللّات اللاه، فحذفوا منه الهاء، وأدخلوا التاء فيه، وأنّثوه تنبيها علی قصوره عن اللہ تعالی، وجعلوه مختصّا بما يتقرّب به إلى اللہ تعالیٰ في زعمهم، وقوله تعالی: وَلاتَ حِينَ مَناصٍ [ ص/ 3] قال الفرّاء : تقدیره : لا حين، والتاء زائدة فيه كما زيدت في ثمّت وربّت . وقال بعض البصريّين : معناه ليس، وقال أبو بکر العلّاف : أصله ليس، فقلبت الیاء ألفا وأبدل من السین تاء، كما قالوا : نات في ناس . وقال بعضهم : أصله لا، وزید فيه تاء التأنيث تنبيها علی الساعة أو المدّة كأنه قيل : ليست الساعة أو المدّة حين مناص . ( اللات ) اللات اور العذیٰ ۔ وہ بتوں کے نام ہیں ۔ اللات اصل میں اللہ ہے ۔ ہاء کو حذف کرکے اس کے عوض تاء تانیث لائی گئی ہے ۔ اور اس تانیث سے اللہ تعالیٰ کے مرتبہ سے کم ہونے پر تنبیہ کرنا مقصود ہے اور یہ کہ وہ اس کے اپنے زعم میں قرب الہی حاصل کرنے کا خاص ذریعہ سمجھتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : وَلاتَ حِينَ مَناصٍ [ ص/ 3] اور وہ رہائی کا وقت نہیں تھا ۔ میں فراء کے نزدیک لات اصل میں لاحین ہے اور اس میں تاء زائدہ ہے جیسا کہ ثمت اور ربت میں لائی جاتی ہے ۔ بعض نے اہل بصرہ نے کہا ہے ولات بمعنی لیس ہے ۔ ابوبکر العلا کا قول ہے کہ یہ اصل میں لیس ہے یا الف سے اور سین تاء سے تبدیل ہوکر لات بن گیا ہے ۔ جیسا کہ ناس میں ایک لغت نات بھی ہے بعض کا قول ہے کہ لات اصل میں لا ہی ہے ۔ اس میں تاء تانیث کا اضافہ کرکے ایک ساعت یا مدت کے معنی پر تنبیہ کی گئ ہے اور پوری بات یوں ہے ؛لیست الساعۃ اوالمدۃ حین مناص ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٩۔ ٢٢) بھلا اے مکہ والو تم نے لات و عزی اور تیسرے منات بت کی حالت میں بھی غور کیا ہے کہ یہ تمہارے آخرت میں کام آسکتے ہیں ہرگز نہیں قیامت کے دن یہ تمہیں فائدہ نہیں پہنچا سکتے۔ لات، طائف میں قبیلہ ثقیف کا بت تھا وہ اس کو پوجتے تھے اور عزی بطن نخلہ میں غطفان کا ایک درخت تھا وہ اس کی پوجا کرتے تھے اور مناۃ مکہ مکرمہ میں قبیلہ ہزیل اور خزاعہ کا بت تھا وہ اللہ کے علاوہ اس کو پوجا کرتے تھے۔ مکہ والو تم اپنے لیے بیٹے تجویز کرو اور اللہ کے لیے بیٹیاں تجویز ہوں حالانکہ تم بیٹیوں کو برا سمجھتے ہو اور اپنے لیے ان کا ہونا ناگوار نہیں کرتے یہ تو بہت ہی جاہلانہ نازیبا تقسیم ہوئی۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٩{ اَفَرَئَ یْتُمُ اللّٰتَ وَالْعُزّٰی ۔ } ” تو کیا تم لوگوں نے لات اور عزیٰ کے بارے میں غور کیا ہے ؟ “ اب یہاں سے مکی سورتوں کے عمومی مضامین کا آغاز ہو رہا ہے ۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(53:19) افرایتم۔ علامہ پانی پتی (رح) رقمطراز ہیں :۔ افرایتم میں استفہام انکاری ہے اور ثبنیہی ہے اور محذوف جملہ پر اس کا عطف ہے۔ اصل کلام اس طرح تھا ۔ کیا تم نے اپنے معبودوں کو دیکھا اور کیا لات اور عزی اور تیسری ایک اور دیوی منات کا غور سے مشاہدہ کیا۔ (بھلا اللہ تعالیٰ کی عظمت و جبروت اور اس کی زمین و آسمان میں سلطنت وسطوت کے سامنے ان حقیر و ذلیل بتوں کی بھی کوئی حیثیت ہے۔ لات، عزی، منات کے متعلق صاحب ضیاء القرآن لکھتے ہیں :۔ لات ، قتادہ کہتے ہیں کہ یہ قبیلہ ثقیف کا بت تھا۔ جس کا استھان طائف میں تھا۔ بنو ثقیف اس کے بڑے معتقد تھے۔ جب ابراہہ کا لشکر کعبے کو گرانے کے قصد سے مکہ جاتے ہوئے طائف سے گزرا تو انہوں نے اسے رہبر مہیا کئے اور دیگر سہولتیں بہم پہنچائیں تاکہ وہ ان کے معبود لات کے استہان کو منہدم نہ کر دے۔ عزی : اس کا ماخذ عزت ہے یہ اعزی کی تانیث ہے سوق عکاظ کے قریب وادی نخلہ میں خراض نامی ایک بستی تھی ، عزی کا مندر اس جگہ تھا۔ بنو غطفان اس کی پوجا کیا کرتے تھے۔ بعض کے نزدیک یہ بنی شیبان کی دیوی تھی۔ جو بنی ہاشم کے حلیف تھے۔ قریش اور دوسرے قبائل اس کی زیارت کو آتے تھے قربانی کے جانور یہاں لاکر ذبح کیا کرتے تھے اور نذرانہ چڑھاتے تھے۔ تمام دوسرے بتوں سے اس کی تکریم و عزت کیا کرتے تھے۔ منوۃ۔ اس کا مندر قدید کے مقام پر تھا جو کہ مکہ اور مدینہ کے درمیان بحر احمر کے کنارے ایک آبادی ہے یثرب کے اوس اور خزرج کے علاوہ بنو خزاعہ بھی اس کے معتقد تھے۔ کعبہ کی طرح اس کا حج بھی کیا جاتا قربانی کے جانور بھی اس کے لئے ذبح کئے جاتے۔ حج کعبہ سے فارغ ہونے کے بعد لوگ اس کا حج کرنا چاہتے وہ وہیں سے لبیک لبیک کے نعرے لگاتے ہوئے قدید کی طرف چل پڑتے۔ اگرچہ ان بتوں کے مخصوص مندر مختلف مقامات پر تھے جیسا کہ آپ پڑھ آئے ہیں۔ لیکن ابو عبیدہ کہتے ہیں کہ انہی ناموں کے بت کعبے میں بھی رکھے ہوئے تھے۔ اور دوسرے بتوں کے ساتھ ساتھ ان کی بھی وہاں پوجا پاٹ کی جاتی تھی۔ علامہ ابو جان اندلسی (رح) نے بحر محیط میں اسی رائے کو ترجیح دی ہے اور دلیل یہ پیش کی ہے کہ احد کے میدان میں ابو سفیان نے بڑے فخر و ناز سے کہا تھا کہ : ۔ لنا العزی ولا عزی لکم : کہ ہمارے پاس تو عزی دیوی ہے اور تمہارے پاس کوئی عزی نہیں۔ نیز افرایتم میں خطاب کی ضمیر کا مرجع قریش مکہ ہیں۔ ان بتوں کی پوجا کرنے والوں کا یہ عقیدہ تھا کہ فرشتے (معاذ اللہ) اللہ کی بیٹیاں ہیں۔ اور یہ بت جنیات کا مسکن ہیں اور یہ جنیات بھی اللہ کی بیٹیاں ہیں۔ بعض کا یہ خیال تھا کہ یہ بت فرشتوں کے ہیکل ہیں اور فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں (نعوذ باللہ من ذلک)

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 19 تا 28 ضیزی ظالمانہ۔ ٹیڑھی چیز۔ یرضی وہ پسند کرتا ہے۔ یسمون وہ نام رکھتے ہیں۔ تشریح : آیت نمبر 19 تا 27 قریش مکہ اور آس پاس کے قبائل نے ” بیت اللہ “ کو اپین جہالت اور نادانی میں بتوں کی گندگی سے بھر دیا تھا۔ تین سو ساٹھ بتوں میں سے طائف، مکہ، مدینہ اور حجاز کے اردگرد کے لوگ لات، عزی اور منات کو بہت مانتے تھے۔ قدیم عرب کے یہ تین مشہور بت تھے جن سے انہوں نے اپنی آرزوئیں اور تمنائیں وابستہ کر رکھی تھیں۔ لات ۔ طائف والوں کا بت تھا جس کو بنو ثقیف بہت زیادہ مانتے تھے۔ عزی۔ مکہ کے قریب وادی نخلہ میں حراض کے مقام پر قریش اور بنو کنانہ کا بت تھا۔ منات۔ مدینہ کے اوس و خزرج کا وہ بت جو قدید کے مقام پر نصب تھا۔ اوس و خزرج کے قبائل اس کا بہت احترام کرتے تھے اور ایسی ایسی کہانیاں مشہور کر رکھی تھیں کہ بنو قریش بھی اس کے آگے جھکنے کو بڑی نیکی سمجھتے تھے چناچہ قریش اور دوسرے قبیلوں کے لوگ حج کے بعد منات کی زیارت کے لئے جاتے۔ قربانی کے جانور لے جاتے اور نذریں چڑھاتے۔ لبیک، لبیک صحاضر ہوں میں حاضر ہوں) کی صدائیں بلند کرتے جاتے۔ منات کے احترام کا یہ حال تھا کہ اس کی زیارت کے مقابلے میں صفا مروہ کی سعی تک کو غیر ضروری سمجھ کر چھوڑ دیتے تھے۔ لات عزی اور منات یہ بت سب کے سب مونث تھے۔ وہ یہ سمجھتے تھے کہ نعوذ باللہ یہ اللہ کی بیٹیاں ہیں۔ اسی طرح وہ فرشتوں کو بھی اللہ کی بیٹیاں قرار دیتے تھے۔ انہوں نے بغیر کسی سند اور دلیل کے یہ سمجھ رکھا تھا کہ یہ بت اور فرشتے جو اللہ کی بیٹیاں ہیں جب وہ قیامت میں ہماری سفارش کریں گی تو اللہ کی سفارش کو رد نہیں کرے گا کیونکہ بیٹیوں کی بات عام طور پر باپ مان ہی لیتے ہیں۔ (نعوذد باللہ) اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ بیٹے ہوں یا بیٹیاں یہ سب اللہ کی مخلوق ہیں اس کے نزدیک تو بیٹا، بیٹی یکساں ہیں۔ اللہ نے سوال کیا ہے کہ تمہارے نزدیک تو سب مخلوق میں سب سے زیادہ بری چیز لڑکیاں ہیں۔ تمہارے ہاں نرینہ اولاد ہوتی ہے تو تم خوشی سے دیوانے ہوجاتے ہو اور اگر لڑکیاں ہوجائیں تو غم اور شرمندگی کے مارے تمہارے چہرے سیاہ پڑجاتے ہیں ڈ۔ یہ کیسا انصاف ہے کہ اپنے لئے تم لڑکیوں کی پیدائش تک کو توہین سمجھتے ہو اور اللہ کے فرشتوں تک کو اللہ کی بیٹیاں قرار دیتے ہو۔ اس سے زیادہ جہالت، نادانی اور بےانصافی کی بات اور کیا ہوگی ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم لوگوں اور تمہارے باپ دادا نے جو طرح طرح کے نام رکھ کر بت بنا رکھے ہیں یہ سب من گھڑت باتیں ہیں جن کی نہ تو کوئی دلیل ہے اور نہ سند ہے۔ دراصل یہ محض ان کی خواہشیں ہیں جن کو انہوں نے مختلف نام دے رکھے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس دنیا میں اور آخرت میں سارا اختیار صرف ایک اللہ کے ہاتھ میں ہے وہ جس کو جو چاہے گا بخشے گا اور جس کو چاہے گا عذاب دے گا۔ اس کے سامنے اس وقت تک کسی کو سفارش کرنے کا اختیار نہیں ہیجب تک وہ اجازت نہ دیدے۔ اللہ تعالیٰ نے صاف صاف فرما دیا ہے کہ جو لوگ اپنی نفسانی خواہشات کے پیچھے چل کر حق و صداقت کو جھٹلاتے ہیں ان کے بےبنیاد خیالات اور من گھڑت تصورات دنیا اور آخرت میں ان کے کسی کام نہ آسکیں گے اور جب وہ قیامت کے دن اللہ کے سامنے حاضر ہوں گے تو ان کے یہ بت اپنی عاجزی اور بےبسی کا اظہار کرتے ہوئے سارا الزام بت پرستوں اور خواہشات نفس کے پیچھے چلنے والوں پر ڈال دیں گے۔ اس وقت حسرت اور فاسوس بھی کسی کے کام نہ آسکے گا۔ اللہ نے ایک چبھتا ہوا سوال کیا ہے۔ یہ بتائو کیا انسان کی ہر خواہش اور تمنا اس کی مرضی کے مطابق پوری ہوتی ہے ؟ اگر ایسا نہیں ہے تو بےبنیاد تمناؤں سے کیا فائدہ جن کا فائدہ نہ اس دنیا میں ملے گا اور نہ آخرت میں۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : رب کبریا کو چھوڑ کر لات عزّٰی اور منات وغیرہ کی عبادت کرنے والوں کی مذمت۔ اللہ تعالیٰ نے ڈوبتے ہوئے ستارے کی قسم کھا کر ارشاد فرمایا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نہ بہکے ہیں اور نہ ہی صحیح عقیدہ اور صراط مستقیم سے بھٹکے ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو کچھ فرماتے ہیں اللہ کی وحی کے مطابق ارشاد فرماتے ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وحی لانے والا جبریل امین بڑا طاقتور، نہایت سمجھدار، باصلاحیت اور بہت ہی خوبصورت ہے۔ آپ نے اسے اس کی اصلی حالت میں دو مرتبہ دیکھا ہے۔ دوسری مرتبہ سدرۃ المنتہیٰ کے پاس دو کمانوں سے بھی قریب تردیکھا۔ نہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آنکھ چندھائی اور نہ ہی آپ نے ادھر ادھر دیکھا۔ وہاں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے رب کی نشانیوں کو براہ راست دیکھا اور واپس آکر مِن وعن بیان فرمایا جس کا مرکزی نقطہ یہ ہے کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا جائے لیکن اس کے باوجود اے اہل مکہ تم لات، عزّٰی اور منات کی عبادت کرتے ہو۔ ظلم کی حد یہ ہے کہ تم اپنے لیے بیٹے پسند کرتے ہو اور فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دیتے ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ تم نے اپنے معبودوں کے نام لات، منات اور عزیٰ رکھ لیے ہیں۔ جنہیں داتا، دستگیر، لجپال اور مشکل کشا سمجھتے ہو۔ اس کی تمہارے اور تمہارے آباء و اجداد کے پاس کوئی دلیل نہیں۔ محض اپنے خیالات اور جذبات کی پیروی کرتے ہو۔ حالانکہ تمہارے رب کی طرف سے اس کی توحید کے اثبات اور بتوں کی تردید کے لیے واضح دلائل آچکے ہیں۔ ١۔ لات : ” لات “ لفظ اللہ کی تانیث یعنی مؤنث ہے۔ یہ بت طائف میں رکھا گیا تھا۔ اہل طائف اور دوسرے مشرکین کو اس کے ساتھ اتنی عقیدت تھی جب ابرہہ نے بیت اللہ پر حملہ کیا تو طائف والوں نے لات کے دربار کو بچانے کے لیے ابرہہ کی مدد کی۔ لوگ اس بت کے سامنے رکوع و سجود اور نذرونیاز پیش کرتے تھے۔ اللہ کے رسول نے مکہ اور حنین فتح کرنے کے بعد طائف کا محاصرہ کیا تو طائف والوں نے ایک مہینہ تک اپنا دفاع کیا۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے محسوس کیا کہ طائف کے لوگ تھک چکے ہیں مگر اپنی ضد کی بنا پر ہتھیار پھنکنے اور مسلمان ہونے کے لیے تیار نہیں۔ آپ نے ان کے لیے دعا کی ” اَللّٰھُمَّ اھْدِوَأْتِ بِھِمْ “ الٰہی ! انہیں ہدایت دے تاکہ یہ خود ہی میرے پاس آجائیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعا کا اثر تھا کہ تھوڑی ہی مدت بعد طائف کا وہ سردار جس نے آپ پر پتھراؤ کرایا تھا بھاری بھرکم وفد لے کر مدینہ میں حاضرہوا اس کا نام عبدیالیل تھا۔ اس نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مذاکرات کیے اور اسلام لانے کے لیے دیگر شرائط کے ساتھ یہ شرط رکھی۔ ١۔ ہمیں نماز سے مستثنیٰ قراردیا جائے۔ ٢۔ لات کو یوں کا توں رہنے دیا جائے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ شرط قبول نہ کی۔ سردار عبد یا لیل نے کہا کہ کم از کم اسے چھ مہینے تک رہنے دیا جائے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس بات کو بھی قبول نہ کیا۔ بالآخر اس نے یہ درخواست کی کہ ہمارے واپس جانے کے بعد اس کو مسمار کرنے کے لیے آدمی بھیجیں، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ شرط قبول فرمالی۔ جب آپ نے کچھ صحابہ کو طائف بھیجا تو وہ لات کی عمارت کو گرانے لگے تو مجاوروں نے کہا خبردار ! آگے نہ بڑھنا ہماری دیوتی تمہیں تباہ کردے گی۔ صحابہ (رض) نے اسے بنیادوں سے اکھاڑ پھینکا تب جاکر لوگوں کو یقین ہوا کہ بت نہ کچھ بگاڑ سکتے ہیں اور نہ سنوار سکتے ہیں۔ ٢۔ العزّٰی : العزّٰی کا معنٰی ہے عزت والی۔ مشرک بالخصوص اس سے عزت طلب کیا کرتے تھے۔ عزّٰی کا بت مکہ اور طائف کے درمیان نصب تھا۔ لوگ اس کے سامنے بھی رکوع و سجود کرتے اور اس کے سامنے نذرونیاز پیش کرتے تھے۔ ٣۔ منات : اس کا مجسّمہ مکہ اور مدینہ کے درمیان بحر احمر کے کنارے قدید کے مقام پر رکھا ہوا تھا۔ عرب کے بعض قبائل حج سے فارغ ہو کر سیدھے منات کے مندر پر جاتے اور عرفات سے ہی لبیک یامنات کہنا شروع کردیتے اور وہاں پہنچ کر منات کا طواف کرتے۔ قرآن مجیدنے منات کو تیسرے نمبر پر شمار کیا ہے اور اس کے لیے ” اَ لْاُخْریٰ “ کا لفظ استعمال کیا ہے جس سے واضح کیا گیا ہے کہ یہ مشرکین کا تیسرا بڑا بت تھا۔ اس کا احترام لات اور عزّٰی سے نسبتاً کم تھا۔ لیکن اس کے باوجود ان کے نزدیک اس کا دیدار حج کے بعد دوسرے حج کا درجہ رکھتا تھا۔ ٤۔ ہُبل : ہُبل کو بیت اللہ کی کی چھت پر رکھا گیا تھا۔ مشرک اسے رب الارباب کا درجہ دیتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اُ حد کے میدان میں جب مکہ والوں کو جزوی طور پر فتح حاصل ہوئی تو ابو سفیان نے اُعْلو ہبل کا نعرہ لگایا جس کا صحابہ (رض) نے ” اَللّٰہُ اَعْلیٰ وَ اَجَلْ “ کے نعرے سے جواب دیا۔ قرآن مجید نے تین بڑے بتوں کا نام لیا ہے۔ تینوں کے نام ہی مؤنث ہیں اور آج بھی چین، جاپان، برما اور ہندوستان کے اکثر بتوں کے نام عورتوں کے نام پر اور ان کی شکلیں بھی عورتوں جیسی بنائی گئی ہیں۔ جو نہایت خوبصورت اور پرکشش ہوتی ہیں۔ جس طرح مکہ والوں کا عقیدہ تھا کہ ملائکہ ” اللہ “ کی بیٹیاں ہیں اسی طرح جاپان، چین اور دیگر ممالک کے کروڑوں لوگوں کا عقیدہ ہے کہ ملائکہ اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ہیں۔ مشرکین کی سوئی ہوئی فطرت کو بیدار کرنے کے لیے سوالیہ انداز میں سمجھایا ہے کہ اپنے لیے بیٹے پسند کرتے ہو اور ” اللہ “ کے لیے بیٹیاں ؟ حالانکہ نہ اس کے بیٹے ہیں اور نہ بیٹیاں۔” یہ کہتے ہیں کہ اللہ کی اولاد ہے وہ تو اس سے پاک ہے۔ زمین و آسمان کی تمام مخلوق اس کی ملکیت ہے، اور ہر کوئی اس کا تابعدار ہے۔ وہ زمین و آسمانوں کو ابتداً پیدا کرنے والا ہے۔ جو کام کرنا چاہتا ہے تو صرف حکم دیتا ہے کہ ہوجا وہ ہوجاتا ہے۔ “ (البقرۃ : ١١٦، ١١٧) کتنی بری تقسیم ہے۔ سوچو اور غور کرو کہ کس طرح گناہ در گناہ کا ارتکاب کیے جاتے ہو۔ پہلاتمہارا گناہ یہ ہے کہ اللہ کی بیوی نہیں اور دوسرا گناہ یہ ہے کہ اس کی اولاد نہیں تم کہتے ہو کہ اس کی اولاد ہے۔ (مریم : ٩١، ٩٢) کسی کو اللہ کی اولاد کہنا بہت بڑا گناہ ہے : (وَ قَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَدًا۔ لَقَدْ جِءْتُمْ شَیْءًا اِدًّا۔ تَکَاد السَّمٰوٰتُ یَتَفَطَّرْنَ مِنْہُ وَ تَنْشَقُّ الْاَرْضُ وَ تَخِرُّ الْجِبَالُ ہَدًّا۔ اَنْ دَعَوْا للرَّحْمٰنِ وَلَدًا۔ وَ مَا یَنْبَغِیْ للرَّحْمٰنِ اَنْ یَّتَّخِذَ وَلَدًا) (مریم : ٨٨ تا ٩٢) ” کہتے ہیں کہ رحمٰن کی اولاد ہے۔ بہت ہی بیہودہ بات ہے جو تم کہہ رہے ہو۔ قریب ہے کہ آسمان پھٹ جائیں اور زمین شق ہوجائے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہوجائیں۔ اس بات پر کہ انہوں نے الرحمان کی اولاد ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ الرحمان کی شان نہیں کہ وہ کسی کو اولاد بنائے۔ “ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أُرَاہُ یَقُول اللَّہُ شَتَمَنِی ابْنُ آدَمَ وَمَا یَنْبَغِی لَہُ أَنْ یَشْتِمَنِی، وَتَکَذَّبَنِی وَمَا یَنْبَغِی لَہُ ، أَمَّا شَتْمُہُ فَقَوْلُہُ إِنَّ لِی وَلَدًا وَأَمَّا تَکْذِیبُہُ فَقَوْلُہُ لَیْسَ یُعِیدُنِی کَمَا بَدَأَنِی) (رواہ البخاری : باب مَا جَاءَ فِی قَوْلِ اللَّہِ تَعَالَی (وَہُوَ الَّذِی یَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیدُہُ ) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میرا خیال ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا آدم کا بیٹا مجھے گالیاں دیتا ہے اور یہ اس کے لیے لائق نہیں اور وہ میری تکذیب کرتا ہے اور وہ بھی اس کے لیے لائق نہیں اس کا مجھے گالی دینا یہ ہے کہ میں نے اولاد پکڑی ہے اور مجھے جھٹلانا اس کا یہ ہے کہ وہ کہتا ہے کہ مجھے دوبارہ نہیں لوٹایا جائے گا جس طرح مجھے پہلی بار پیدا کیا گیا۔ “ مسائل ١۔ مشرکین کے اکثر بتوں کے نام مونث ہوتے ہیں۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کے نہ بیٹے ہیں اور نہ بیٹیاں۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کے بارے میں مشرکین ہمیشہ غلط باتیں کرتے ہیں۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

لات ایک سفید پتھر تھا جس پر نقش ونگار تھے۔ طائف میں اس کے اوپر ایک مکان اور درگاہ بنی ہوئی تھی جو طائف میں تھی اور اس کے اوپر پجاری متعین تھے۔ اس درگاہ کے اردگرد ایک بڑی چار دیواری تھی اور اہل طائف اس کا بہت احترام کرتے تھے یعنی فخر کرتے تھے ماسوائے قریش کے کہ ان کے پاس کعبہ تھا جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے تعمیر کیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ لات کا لفظ مونث ہے اللہ کا جو اس سے پاک ہے۔ اور عزی ایک درخت تھا جس کے اوپر بھی ایک عبادت گاہ بنی ہوئی تھی اور پردے تھے اور یہ نخلہ کے مقام پر تھی جو مکہ اور طائف کے درمیان تھی۔ اس کی تعظیم قریشی بھی کرتے تھے جس طرح احد کے دن ابوسفیان نے کہا۔ لنا العزی ولا عزی لکم ” ہمارا عزی ہے اور تمہارا کوئی عزی نہیں “ تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہ جواب دو ۔ اللہ مولنا ولا مولی لکم ” اللہ ہمارا مولیٰ ہے اور تمہارا کوئی مولیٰ نہیں ہے “ اور العزی عزیز کی مونث بتلائی جاتی ہے۔ مناة کا بت قدید کے قریب مشلل میں تھا جو مکہ اور مدینہ کے درمیان ہے۔ خزاعہ ، اوس اور حزرج اس کی تعظیم کرتے تھے اور قدید یا مشلل سے مکہ کے لئے احرام باندھتے تھے۔ مناة کے احترام میں۔ ان کے علاوہ اور بھی بہت بت تھے جن کو عرب میں پوجا جاتا تھا مگر یہ تین بڑے آستانے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ تینوں نام تین ملائکہ کے نام تھے جنہیں عرب اللہ کی بیٹیاں کہتے تھے اور اسی وجہ سے یہ ان کی عبادت کرتے تھے اور جس طرح اصول ہے کہ چلتے چلتے یہ تینوں بذات خود معبود ہوگئے اور جمہور عوام نے اللہ کو بھلا کر ان بتوں کو بذات خود معبود مطلق سمجھ کر پوجنا شروع کردیا۔ کم ہی لوگ اس قسم کے تھے جو یہ سمجھتے تھے کہ ان کی عبادت اس وجہ سے ہے کہ یہ اللہ کی بیٹیاں ہیں۔ ان معبودوں کا ذکر اللہ تعالیٰ نے نہایت ہی تعجب انگیز انداز میں کیا جس طرح کہ عبارت سے اچھی طرح واضح ہوتا ہے۔ افرءیتم ........ الاخری (٣٥ : ٠٢) ” اب ذرا بتاؤ تم نے کبھی اس لات اور اس عزی اور تیسری ایک دیوی مناة کی حقیقت پر غور کیا ہے ؟ “ تعجب لفظ افرءیتم (ذرا بتاؤ کیا تم نے سو چاہے ؟ ) سے واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے اس فعل کو نہایت ہی مضحکہ خیز سمجھتا ہے لیکن اس تعجب کے اظہار کے بعد ان پر یہ تنقید کی جاتی ہے کہ یہ اللہ کے لئے بیٹیاں تجویز کرتے ہیں اور اپنے لئے بیٹے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

مشرکین عرب کی بت پرستی، لات، عزیٰ اور منات کی عبادت اور ان کے توڑ پھوڑ کا تذکرہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے پہلے اہل عرب مشرک تھے اور اہل مکہ بھی شرک اختیار کیے ہوئے تھے حالانکہ یہ حضرت ابراہیم واسماعیل علیہما الصلوٰۃ والسلام کی اولاد تھے جنہوں نے توحید کی دعوت دی اور مکہ معظمہ میں کعبہ شریف بنایا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے دعا کی ﴿ وَّ اجْنُبْنِيْ وَ بَنِيَّ اَنْ نَّعْبُدَ الْاَصْنَامَؕ٠٠٣٥﴾ (اے رب مجھے اور میری اولاد کو بتوں کی عبادت سے بچانا) ان کی اولاد میں ایک عرصہ تک موحدین مخلصین کا وجود رہا پھر شدہ شدہ عرب کے دیگر قبائل سے متاثر ہو کر اہل مکہ مشرک ہوگئے، اہل عرب نے بہت سے بتوں کو معبود بنا رکھا تھا خود ہی تراشتے تھے پھر انہیں معبود بنا لیتے تھے ان بتوں میں تین بت زیادہ معروف تھے جن کا آیت بالا میں تذکرہ ہے ایک کا نام لات تھا اور ایک کا نام عزیٰ تھا اور ایک کا نام منات تھا۔ لات و منات اور عزیٰ کیا تھے فتح الباری میں حضرت ابن عباس (رض) سے نقل کیا ہے کہ لات طائف میں تھا اور اسی کو اصح بتایا ہے اور ایک قول یہ ہے کہ مقام نخلہ میں اور ایک قول کے مطابق عکاظ میں تھا نیز فتح الباری میں یہ بھی لکھا ہے کہ لات لَتَّ یَلُتُّ سے اسم فاعل کا صیغہ ہے ایک شخص طائف کے آس پاس رہتا تھا اس کی بکریاں تھیں آنے جانے والوں کو ان کے دودھ کا حریرہ بنا کر کھلاتا تھا اور ستوگھول کر پلاتا تھا اس وجہ سے اسے لات کہا جاتا تھا کثرت استعمال کی وجہ سے تاء کی تشدید ختم ہوگئی، کہا جاتا ہے کہ اس کا نام عامر بن ظرب تھا اور یہ اہل عرب کے درمیان فیصلے کیا کرتا تھا جس شخص کو حریرہ پلا دیتا تھا وہ موٹا ہوجاتا تھا جب وہ مرگیا تو عمرو بن لحی نے لوگوں سے کہا کہ وہ مرا نہیں ہے پتھر کے اندر داخل ہوگیا ہے لہٰذا لوگ اس کی عبادت کرنے لگے اور اس کے اوپر ایک گھر بنا لیا۔ (فتح الباری صفحہ ٦١٢ ج ٨) علامہ قرطبی (رض) نے عزّٰی کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ سفید پتھر تھا، اس کی جگہ بطن نخلہ بتائی ہے ظالم بن اسعدنے اس کی عبادت کا سلسلہ شروع کیا اس پر لوگوں نے گھر بنا لیا تھا اس میں سے آواز آیا کرتی تھی اور حضرت ابن عباس (رض) سے نقل کیا ہے کہ عزّٰی ایک شیطان عورت تھی وہ بطن نخلہ میں ببول کے تین درختوں کے پاس آتی جاتی تھی۔ مشرکین مکہ کا ایک بت ہبل بھی تھا ان کے یہاں اس کی بہت بڑی اہمیت تھی غزوہ احد میں جب مسلمانوں کو ظاہری شکست ہوگئی تو ان کے لشکر کے سردار ابوسفیان نے پکار کر جیکارہ (نعرہ) لگایا : اعلی ھبل (اے ہبل ! تو اونچا ہوجا) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ سے فرمایا کہ اس کا جواب دو عرض کیا کیا جواب دیں فرمایا یوں کہو اللہ : اعلٰی واجل (کہ اللہ سب سے بلند ہے اور سب سے بڑا ہے) ابوسفیان نے کہا : لنا العزی ولا عزی لکم (ہمارے لیے عزّٰی ہے تمہارے لیے کوئی عزّٰی نہیں) شرک نے ان کا ایسا ناس کھویا تھا کہ خالص موحدین جب اللہ کی عظمت بیان کرتے تھے تو اس کے مقابلہ میں یہ لوگ اپنے بتوں کی دہائی دیتے تھے۔ (تفسیر قرطبی صفحہ ٩٩، ١٠٠: ج ١٧) تیسرا بت (جس کا آیت بالا میں تذکرہ فرمایا) منات تھا یہ بھی عرب کے مشہور بتوں میں تھا۔ تفسیر قرطبی میں لکھا ہے کہ اس کا نام منات اس لیے رکھا گیا کہ تقریب حاصل کرنے کے لیے اس کے پاس کثرت سے خون بہائے جاتے تھے یہ بت بنی ہذیل اور بنی خزاعہ کا تھا۔ اور اس کے نام کی دہائی دیتے تھے مقام مشلل میں اس کی عبادت کرتے تھے، مشلل قدید کے قریب ایک جگہ ہے (جو آج کل مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کے درمیان راستہ میں واقع ہے بنسبت مدینہ منورہ کے مکہ معظمہ کے قریب ہے) نیز فتح الباری میں لکھا ہے کہ عرو بن لحی نے منات کو ساحل سمندر پر قدید کے قریب نصب کردیا تھا قبیلہ ازد اور غسان اس کا حج کرتے تھے اور اس کی تعظیم کرتے تھے۔ جب بیت اللہ شریف کا طواف کرلیتے اور عرفات سے واپس آجاتے اور منیٰ کے کاموں سے فارغ ہوجاتے تو منات کے لیے احرام باندھتے تھے۔ مذکورہ تینوں بتوں کی عرب قبائل میں بڑی اہمیت اور شہرت تھی اللہ تعالیٰ نے فرمایا ﴿اَفَرَئَ یْتُمُ اللّٰتَ وَالْعُزّٰی وَمَنَاۃَ الثَّالِثَۃَ الْاُخْرٰی﴾ (کیا تم نے لات اور عزی اور تیسرے نمبر کے منات کو دیکھا) یعنی تم نے غور کیا تو کیا سمجھ میں آیا ؟ کیا انہوں نے کوئی نفع دیا یا ضرردیا ؟ جب ایسا نہیں ہے تو وہ شریک فی العبادۃ کیسے ہوگئے اور تم ان کی عبادت کیسے کرنے لگے، جب اسلام کا زمانہ آیا تو ان تینوں کا ناس کھو دیا گیا۔ لات کی بربادی جیسا کہ پہلے معلوم ہوا کہ لات طائف میں تھا وہاں بنی ثقیف رہتا تھا اس قبیلے کے افراد مدینہ منورہ میں آئے اور مشرف باسلام ہوگئے۔ وہ لوگ نئے نئے مسلمان ہوئے تھے انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ ہمارا سب سے بڑا بت یعنی لات تین سال تک باقی رہنے دیا جائے آپ نے انکار کردیا اور حضرت ابوسفیان بن حرب اور مغیرہ بن شعبہ (رض) کو بھیج دیا انہوں نے اس بت کو گرا دیا اور توڑتاڑ کے رکھ دیا، بنی ثقیف کے لوگوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ بھی کہا تھا کہ ہم بتوں کو اپنے ہاتھوں سے نہیں توڑیں گے اور ہم سے نماز پڑھنے کے لیے بھی نہ کہا جائے آپ نے فرمایا کہ بتوں کو تم اپنے ہاتھوں سے نہ توڑو یہ بات تو ہم مان لیتے ہیں، رہی نماز تو (وہ تو پڑھنی ہی پڑے گی) اس دین میں کوئی خیر نہیں جس میں نماز نہیں۔ (سیرت ابن ہشام، ذکر وفد ثقیف واسلامھا) ۔ عزیٰ کی کاٹ پیٹ اور توڑ پھوڑ عزیٰ کے بارے میں فتح الباری صفحہ ٦١٢ ج ٨ میں لکھا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عام الفتح یعنی فتح مکہ کے سال حضرت خالد بن ولید (رض) کو بھیجا انہوں نے اسے گرا دیا۔ تفسیر قرطبی میں لکھا کہ عزیٰ ایک شیطان (جننی) عورت تھی بطن نخلہ میں تین ببول کے درختوں کے پاس آتی جاتی تھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت خالد بن ولید (رض) کو بھیجا اور بتلایا کہ بطن نخلہ میں جاؤوہاں ببول کے تین درخت ہیں پہلے درخت کو کاٹ دو انہوں نے اس کو کاٹ دیا جب واپس آئے تو آپ نے فرمایا کہ تم نے کچھ دیکھا عرض کیا کہ میں نے تو کچھ نہیں دیکھا فرمایا اب دوسرے درخت کو کاٹ دو وہ واپس گئے اور دوسرے درخت کو کاٹ دیا پھر حاضر خدمت ہوئے تو آپ نے پھر وہی سوال فرمایا، عرض کیا میں نے تو اب بھی کچھ نہیں دیکھا فرمایا جاؤ تیسرے کو بھی کاٹ دو ۔ جب وہ تیسرے درخت کے پاس آئے اور اسے کاٹ دیا تو ایک حبشی عورت کو دیکھا جو اپنے بال پھیلائے ہوئے تھی اور اپنے ہاتھوں کو مونڈھے پر رکھے ہوئے تھی اور اپنے لمبے لمبے دانتوں کو گھما رہی تھی اس کے پیچھے اس کا مجاور بھی تھا جس کا نام دبیہ تھا۔ حضرت خالد (رض) نے اس شیطان عورت کے سر پر ضرب ماری اور اس کا سر پھاڑ دیا اور مجاور کو قتل کردیا۔ واپس آکر پورا واقعہ عرض کردیا آپ نے فرمایا یہی عورت عزیٰ تھی آج کے بعد کبھی بھی اس کی عبادت نہیں کی جائے گی۔ (تفسیر قرطبی صفحہ ١٠٠، ج ٩) البدایہ والنہایہ (صفحہ ٣١٦ ج ٤) میں ہے کہ جب حضرت خالد بن ولید (رض) وہاں پہنچے تو دیکھا کہ ایک ننگی عورت بال پھیلائے ہوئے بیٹھی ہے اپنے چہرے اور سر پر مٹی ڈال رہی ہے اسے انہوں نے تلوار سے قتل کردیا پھر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آکر قصہ سنایا تو آپ نے فرمایا، یہ عورت عزیٰ تھی۔ یہ جو اشکال ہوتا ہے کہ پہلے تو عزیٰ کو سفید پتھر بتایا تھا اور اس روایت سے ثابت ہوا کہ یہ جنی عورت تھی ؟ اس اشکال کا جواب یہ ہے کہ جنات مشرکین کے پاس آتے اور اب بھی آتے ہیں بری بری ڈراؤنی صورتیں لے کر لوگوں کے پاس پہنچتے ہیں وہ ان کی صورتوں کے مطابق بت بناتے ہیں پھر ان کی پوجا کرتے ہیں۔ جنات اسے اپنی عبادت سمجھ لیتے ہیں۔ بت خانوں میں اور مشرکین کے استہانوں میں ان کا رہنا سہنا آنا جانا ہوتا ہے اور مشرکین کو بیداری میں اور خواب میں نظر آتے ہیں۔ منات کی بربادی اور تباہی اب رہی یہ بات کے منات کا انجام کیا ہوا تو اس کے بارے میں تفسیر ابن کثیر صفحہ ٤٥٤: ج ٤ میں لکھا ہے کہ اس کے توڑنے کے لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابوسفیان (رض) کو بھیجا تھا۔ جنہوں نے اس کا تیاپانچا کردیا اور ایک قول یہ ہے کہ اس کام کے لیے حضرت علی (رض) بن ابی طالب کو بھیجا تھا اہل عرب کے اور بھی بہت سارے بت تھے ان میں ایک ذی الخلصہ تھا یہ قبیلہ دوس اور خثعم کا بت تھا اس کو کعبہ یمانیہ کہتے تھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے منہدم کرنے کے لیے حضرت جریر بن عبداللہ بجلی کو روانہ فرمایا جنہوں نے اسے توڑ پھوڑ کر رکھ دیا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

9:۔ ” افرایتم “ تمہید کے بعد سورت کے پہلے دعوے کا ذکر ہے یعنی حاجات و مصائب میں ان خود ساختہ معبودوں کو غائبانہ مت پکارو۔ جب ثابت ہوگیا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے سچے رسول ہیں اور آپ پر وحی آتی ہے تو اس وحی ربانی کو مانو جو یہ کہتی ہے کہ مصائب و حاجات میں معبودانِ باطلہ کو مت پکارو۔ اللات، اس میں دو قراءتیں ہیں۔ اول بتخفیف تاء۔ دوم، بتشدید تاء، پہلی صورت میں یہ ” لوی “ سے مشتق ہے جس کے معنی لپٹنے اور گھومنے کے ہیں۔ مشرکین اس بات کے پاس عبادت کے لیے اعتکاف کرتے اور اس کا طواف کرتے تھے اس لیے وہ اس نام سے موسم کیا گیا۔ والاصل لویۃ بزنۃ فعلۃ من لوی لانھم کانوا یلوون علیہ و یعتکفون للعبادۃ، او یلتون علیہ ای یطوفون مخفف بحذف الیاء وبدالت واوہ الفا، وعوض عوض عن لالیاء تاء فصارت کتاء اخت وبنت (روح ج 27 ص 55) ۔ دوسری قراءت کے مطابق یہ لَتَّ یَلُتُّ کا اسم فاعل ہوگا اور اس کے معنی ہوں گے گھولنے والا۔ عرب میں ایک آدمی تھا حج کے موسم میں حاجیوں کو گھی میں ستو ملا کر کھلاتا تھا اور اللات اس لیے لوگ اس کو اچھا سمجھتے تھے جب وہ فوت ہوگیا تو اس کی شکل کا بت بنا کر اس کی پوجا پاٹ شروع کردی اور اسے پکارنے لگے۔ اللات بالتشدید علی انہ سمی بہ لانہ صورۃ رجل کان یلت السویق بالسمن ویطعم الحاج (بیضاوی) ۔ ” العزی “ یہ ایک شیطانہ (مادہ جن) تھی جو وادی نخلہ میں واقع کی کر کے تین درختوں میں رہتی تھی، وہاں مشرکین نے ایک عبادت گاہ بھی بنا رکھی تھی اور عزی کے نام پر کئی بت بھی تراش کر مختلف جگہوں میں رکھ لیے تھے۔ مشرکین جب وادی نخلہ میں عزی کی عبادت گاہ میں اس کی عبادت اور پکار کے لیے آتے تو وہ شیطانہ ان سے باتیں بھی کرتی تھی۔ وکانت بوادی نخلۃ الشامیۃ فوق ذات عرق فبنوا علیہا بیتا وکانوا یسمعون منہا الصوت۔ عن ابن عباس کانت العزی شیطانۃ تاتی ثلاث سمرات ببطن نخلۃ (قرطبی ج 17 ص 99) ۔ فتح مکہ کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت خالد بن ولید کو حکم دیا کہ وہ ان تینوں درختوں کو کاٹ ڈالیں چناچہ جب وہ دو درختوں کو کاٹ کر تیسرے کو کاٹنے لگے تو اس سے ایک ڈائن نمودار ہوئی جس کے بال پراگندہ تھے اور واویلا کرنے لگی۔ حضرت خالد بن ولید نے اسے قتل کردیا۔ (روح، خازن، قرطبی) ۔ ” مناۃ “ یہ ایک بت تھا جس کا استھان مکہ اور مدینہ کے درمیان واقع تھا۔ مشرکین اس کی قربان گاہ پر اس کا قرب حاصل کرنے کے لیے قربانیاں دیتے اور اس کی برکت سے بارش طلب کرتے تھے۔ کانوا یریقون عندہ الدماء یتقربون بذلک الیہ (قرطبی ج 17 ص 101) ۔ ایک قراءت میں مناءۃ ہے۔ ومناءۃ مکی مفعلۃ من النوء کانہم کانوا یستمطرون عندھا الانواء تبرکا بھا (مدارک ج 4 ص 149) ۔ ” افرایتم “ بمعنی اخبرونی ہے یعنی مجھے بتاؤ تو سہی یہ لات و عزی اور منات جن کو تم پکارتے ہو کیا وہ تمہارے نفع نقصان کا اختیار کر کھتے ہیں ؟ کیا وہ قادر و متصرف ہیں ؟ کہ تم نے ان کو عبادت اور پکار میں خدا کا شریک بنا رکھا ہے۔ افرایتم ھذہ الالہۃ ھل نفعت او ضرت حتی کون شرکاء للہ (قرطبی ج 17 ص 102) ۔ اخبرونی عن الھتکم ھل لہا شیء من القدرۃ والعظمۃ التی وصف بہا رب العزۃ فی الای السابقۃ وقیل المعنی اظننتم ان ھذہ الاصنام التی تعبدونہا تنفعکم (روح ج 27 ص 56) ۔ استفہام انکاری ہے یعنی وہ نہ قادر و متصرف ہیں نہ نفع و نقصان کے مختار، اس لیے مصائب و حاجات میں ان کو مت پکارو۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(19) پس اے دین حق کے منکرو ! تم نے لات اور عزیٰ کے حال پر۔