2 "Your Companion" implies the Holy Messenger of Allah (upon whom be peace) and the addressees are the Quraish. The word Sahib as used in the original means a friend, a companion, a close associate. Here, making mention of the Holy Prophet by the word Sahib-u-kum (yew Companion) instead of "Our Messenger" is very meaningful. This is meant to make the people of the Quraish realize: "The person being mentioned is no stranger to you: he is not an outsider whom you may not be knowing or recognizing already. He is a man of your own clan and tribe; he lives and moves among you; even your children know who and what he is, what is his character, what are his dealings, what are his ways and habits and characteristics, and how he has passed his life among you so far. If same one of you were to say an improbable thing about him, there would be a thousand men among you who knew him, who could see for themselves whether what was said actually applied to him or not. "
3 This is the thing for which an oath has been sworn by the setting star or stars. "Going astray" means a person's adopting a wrong way being unaware of the right way, and "being deluded" means his adopting the wrong way knowingly and consciously. The verse means: "Muhammad (upon whom be Allah's peace and blessings) is a well-known man among you. Your accusation that he has gone astray, or is misguided, is utterly wrong. In fact, he is neither gone astray nor misguided." Here, the propriety of swearing by the setting stars is that in the darkness of the starry night a person cannot see the things of his surroundings clearly, and from their vague appearances can form wrong judgments about them, e.g.. he may take a tra for a ghost in the dark, a string for a snake, a rock in the sand for a beast of prey. But when the stars have set and the day has dawned, everything appears before man in its real form and shape, and there remains no doubt whatever about the reality of anything. The same is the case also of Muhammad (upon whom be Allah's peace and blessings) among you. His life and personality is. not hidden in darkness, but is manifest like the bright dawn. You are aware that this "companion of yours" is a right-minded, wise and sagacious man. How can somebody from among the Quraish have the misunderstanding that he has gone astray? You also know how well-intentioned and honest and righteous person he is. How can one of you form the view that he has knowingly adopted a crooked way not only for himself but has started inviting others also to the same falsehood?
سورة النَّجْم حاشیہ نمبر :2
مراد ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مخاطب ہیں قریش کے لوگ ۔ اصل الفاظ استعمال کیے گئے ہیں ۔ صَاحِبُکُمْ ( تمہارا صاحب ) ۔ صاحب عربی زبان میں دوست ، رفیق ، ساتھی ، پاس رہنے والے اور ساتھ اٹھنے بیٹھنے والے کو ہوتے ہیں ۔ اس مقام پر آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کا نام لینے یا ہمارا رسول کہنے کے بجائے تمہارا صاحب کہہ کر آپ کا ذکر کرنے میں بڑی گہری معنویت ہے ۔ اس سے قریش کے لوگوں کو یہ احساس دلانا مقصود ہے کہ جس شخص کا تم سے ذکر کیا جا رہا ہے وہ تمہارے ہاں باہر سے آیا ہوا کوئی اجنبی آدمی نہیں ہے اس سے تمہاری پہلے کی کوئی جان پہچان نہ ہو ۔ تمہاری اپنی قوم کا آدمی ہے ۔ تمہارے ساتھ ہی رہتا بستا ہے ۔ تمہارا بچہ بچہ جانتا ہے کہ وہ کون ہے ، کیا ہے ، کس سیرت و کردار کا انسان ہے ، کیسے اس کے معاملات ہیں ، کیسے اس کی عادات و خصائل ہیں ، اور آج تک تمہارے درمیان اس کی زندگی کیسی رہی ہے ۔ اسے بارے میں منہ پھاڑ کر کوئی کچھ کہہ دے تو تمہارے اندر ہزاروں آدمی اس کے جاننے والے موجود ہیں جو خود دیکھ سکتے ہیں کہ یہ بات اس شخص پر چسپاں ہوتی بھی ہے یا نہیں ۔
سورة النَّجْم حاشیہ نمبر :3
یہ ہے وہ اصل بات جس پر غروب ہونے والے تارے یا تاروں کی قَسم کھائی گئی ہے ۔ بھٹکنے سے مراد ہے کسی شخص کا راستہ نہ جاننے کی وجہ سے کسی غلط راستے پر چل پڑنا اور بہکنے سے مراد ہے کسی شخص کا جان بوجھ کر غلط راستہ اختیار کر لینا ۔ ارشاد الہٰی کا مطلب یہ ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم جو تمہارے جانے پہچانے آدمی ہیں ، ان پر تم لوگوں کا یہ الزام بالکل غلط ہے کہ وہ گمراہ یا بد راہ ہو گئے ہیں ۔ در حقیقت وہ نہ بھٹکے ہیں نہ بہکے ہیں ۔ اس بات پر تاروں کے غروب ہونے کی قَسم جس مناسبت سے کھائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ رات کی تاریکی میں جب تارے نکلے ہوئے ہوں ، ایک شخص اپنے گردو پیش کی اشیاء کو صاف نہیں دیکھ سکتا اور مختلف اشیاء کی دھندلی شکلیں دیکھ کر ان کے بارے میں غلط اندازے کر سکتا ہے ۔ مثلاً اندھیرے میں دور سے کسی درخت کو دیکھ اسے بھوت سمجھ سکتا ہے ۔ کوئی رسی پڑی دیکھ کر اسے سانپ سمجھ سکتا ہے ۔ ریت سے کوئی چٹان ابھری دیکھ کر یہ خیال کر سکتا ہے کہ کوئی درندہ بیٹھا ہے ۔ لیکن جب تارے ڈوب جائیں اور صبح روشن نمودار ہو جائے تو ہر چیز اپنی اصلی شکل میں آدمی کے سامنے آجاتی ہے ۔ اس وقت کسی چیز کی اصلیت کے بارے میں کوئی اشتباہ پیش نہیں آتا ۔ ایسا ہی معاملہ تمہارے ہاں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی ہے کہ ان کی زندگی اور شخصیت تاریکی میں چھپی ہوئی نہیں ہے بلکہ صبح روشن کی طرح عیاں ہے ۔ تم جانتے ہو کہ تمہارا یہ صاحب ایک نہایت سلیم الطبع اور دانا و فرزانہ آدمی ہے ۔ اس کے بارے میں قریش کے کسی شخص کو یہ غلط فہمی کیسے لاحق ہو سکتی ہے کہ وہ گمراہ ہو گیا ہے ۔ تم یہ بھی جانتے ہو کہ وہ کمال درجہ کا نیک نیت اور راستباز انسان ہے ۔ اس کے متعلق تم میں سے کوئی شخص کیسے یہ رائے قائم کر سکتا ہے کہ وہ جان بوجھ کر نہ صرف خود ٹیڑھی راہ اختیار کر بیٹھا ہے بلکہ دوسروں کو بھی اسی ٹیڑھے راستے کی طرف دعوت دینے کے لیے کھڑا ہو گیا ہے ۔