Surat un Najam

Surah: 53

Verse: 2

سورة النجم

مَا ضَلَّ صَاحِبُکُمۡ وَ مَا غَوٰی ۚ﴿۲﴾

Your companion [Muhammad] has not strayed, nor has he erred,

کہ تمہارے ساتھی نے نہ راہ گم کی ہے اور نہ وہ ٹیڑھی راہ پر ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Your companion has neither gone astray nor has erred. This contains the subject of the oath. This part of the Ayah is the witness that the Messenger of Allah is sane and a follower of Truth. He is neither led astray, such as in the case of the ignorant who does not proceed on any path with knowledge, nor is he one who erred, such as in the case of the knowledgeable, who knows the Truth, yet deviates from it intentionally to something else. Therefore, Allah exonerated His Messenger and his Message from being similar to the misguided ways of the Christians and the erroneous paths of the Jews, such as knowing the Truth and hiding it, while abiding by falsehood. Rather, he, may Allah's peace and blessings be on him, and his glorious Message that Allah has sent him with, are on the perfect straight path, following guidance and what is correct. Muhammad was sent as a Mercy for all that exists; He does not speak of His Desire Allah said, وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَى

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

2۔ 1 یہ جواب قسم ہے۔ صَاحِبِکُمْ (تمہارا ساتھی) کہہ کر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صداقت کو واضح تر کیا گیا ہے کہ نبوت سے پہلے چالیس سال اس نے تمہارے ساتھ اور تمہارے درمیان گزارے ہیں، اس کے شب و روز کے تمام معمولات تمہارے سامنے ہیں، اس کا اخلاق و کردار تمہارا جانا پہچانا ہے۔ راست بازی اور امانت داری کے سوا تم نے اس کے کردار میں کبھی کچھ اور بھی دیکھا ؟ اب چالیس سال کے بعد جو وہ نبوت کا دعوی کر رہا ہے تو ذرا سوچو، وہ کس طرح جھوٹ ہوسکتا ہے ؟ چناچہ واقعہ یہ کہ وہ نہ گمراہ ہوا ہے نہ بہکا ہے۔ ضلالت، راہ حق سے وہ انحراف ہے جو جہالت اور لاعلمی سے ہو اور غوابت، وہ کجی ہے جو جانتے بوجھتے حق کو چھوڑ کر اختیار کی جائے۔ اللہ تعالیٰ نے دونوں قسم کی گمراہیوں سے اپنے پیغمبر کی تنزیہ بیان فرمائی۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢] روئے سخن کفار مکہ کی طرف ہے اور رفیق سے مراد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں جن کی سیرت و کردار سے کفار مکہ بچپن سے واقف تھے۔ انہیں قسم دے کر بتایا جارہا ہے کہ تمہارے یہ رفیق تاریکی میں نہیں بلکہ دن کی روشنی میں ٹھیک صراط مستقیم پر چل رہے ہیں نہ وہ راستہ بھولے ہیں کہ ادھر ادھر پھرتے رہیں اور نہ ہی راستہ سے بہکے ہوئے ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) ماضل صاحبکم وما غوی :)” ضلالت “ (راہ بھولنے) سے مراد یہ ہے کہ کوئی شخص لاعلمی کی وجہ سے غلط راستے پر چل پڑے یا اسے سیدھا سمجھ لے اور ” غوایت “ کا مطلب یہ ہے کہ کوئی شخص جان بوجھ کر سیدھے راستے سے ہٹ جائے۔ اللہ ت عالیٰ نے قسم اٹھا کر فرمایا کہ تمہارا ساتھی نہ لاعلمی میں غلط راستے پر چل رہا ہے اور نہ جان بوجھ کر سیدھے راستے سے ہٹا ہوا ہے۔ اتنی تاکید کیساتھ نفی اس لئے فرمائی کہ مشرکین آپ کے متعلق یہ بات کہتے تھے۔ (٢) ” صلحبکم “ (تمہارا ساتھی) کہہ کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صدق و امانت کی صفات کی طرف توجہ دلائی ہے، جو کفار کے ہاں بھی مسلم تھیں کہ نبوت سے پہلے چالیس سال اس نے تمہارے ساتھ اور تمہارے درمیان گزارے ہیں، اس کے شب و روز کے معمولات اور اخلاق و عادات تمہارے سامنے ہیں۔ جس شخص نے کبھی کسی آدمی پر جھوٹ نہیں بولا اور اللہ تعالیٰ پر جھوٹ کیسے باندھ سکتا ہے ؟ مزید دیکھیے سورة یونس (١٦) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَمَا غَوَىٰ (your companion [ the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ] has neither missed the way, nor did he deviate. [ 53:2] Verse [ 1] was قَسَم qasam or oath and verse [ 2] is jawab-ul-qasam or the subject for which oath is sworn. The verse means that the path towards which the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) is calling the people is the perfectly straight path leading to the desired goal of Allah&s good pleasure. He is following the right guidance and has not deviated from the path of righteousness. The Reason for Describing the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) as &your companion& The Qur&an on this occasion, when referring to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، does not refer to him by his blessed name or refer to him as a Messenger or a Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . In fact, it refers to him as Sahibukum or |"your companion|". In this there seems to be a subtle rebuke to the pagans of Makkah, telling them in effect that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) is not an outsider, nor a stranger to them. He was their constant companion. He was born amongst them, he spent his childhood amongst them, and he grew up as a youth amongst them. He has lived among them a whole life-time, and they had always looked upon him as a paragon of honesty, integrity and truthfulness calling him اَمِین (The Honest One). But now - after his claim of Prophethood - they dare impute to him such a heinous sin as forging lies against Allah. A man who withheld himself from telling lies about men, how could he possibly forge lies against Allah? How inconsistent is their attitude?

مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَمَا غَوٰى، یہ جواب قسم ہے یعنی وہ مضمون ہے جس کے لئے قسم کھائی گئی ہے معنی اس کے یہ ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جس راستے کی طرف لوگوں کو دعوت دیتے ہیں وہ صراط مستقیم اور منزل مقصود یعنی رضائے الٰہی کا صحیح راستہ ہے نہ آپ راستہ بھولے ہیں اور نہ غلط راستہ پر چلتے ہیں۔ آنحضرت کو لفظ صاحبکم سے تعبیر کرنے کی حکمت : اس جگہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نام مبارک یا لفظ رسول و نبی ذکر کرنے کے بجائے آپ کی ذات کو لفظ صاحبکم سے تعبیر کرنے میں اشارہ اس طرف ہے کہ محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہیں باہر سے نہیں آئے، کوئی اجنبی شخص نہیں ہیں جن کے صدق و کذب میں تمہیں اشتباہ رہے بلکہ وہ تمہارے ہر وقت کے ساتھ ہیں، تمہارے وطن میں پیدا ہوئے ہیں یہیں بچپن گزارا، یہیں جوان ہوئے ان کی زندگی کا کوئی گوشہ تم سے مخفی نہیں اور تم نے تجربہ کرلیا ہے کہ انہوں نے کبھی جھوٹ نہیں بولا، کسی غلط اور برے کام میں تم نے ان کو بچپن میں بھی نہیں دیکھا، ان کے اخلاق و عادات، ان کی امانت و دیانت پر تم سب کو اتنا اعتماد تھا کہ پورے مکہ والے آپ کو امین کہا کرتے تھے، اب دعوائے نبوت کے وقت تم ان کی طرف جھوٹ کی نسبت کرنے لگے، جس نے انسانوں کے معاملہ میں کبھی جھوٹ نہ بولا ہو، غضب ہے کہ اس پر یہ الزام لگانے لگے کہ اس نے خدا تعالیٰ کے معاملہ میں جھوٹ بولا ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَمَا غَوٰى۝ ٢ ۚ ما مَا في کلامهم عشرةٌ: خمسة أسماء، وخمسة حروف . فإذا کان اسما فيقال للواحد والجمع والمؤنَّث علی حدّ واحد، ويصحّ أن يعتبر في الضّمير لفظُه مفردا، وأن يعتبر معناه للجمع . فالأوّل من الأسماء بمعنی الذي نحو : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس/ 18] ثمّ قال : هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس/ 18] لمّا أراد الجمع، وقوله : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل/ 73] ، فجمع أيضا، وقوله : بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة/ 93] . الثاني : نكرة . نحو : نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء/ 58] أي : نعم شيئا يعظکم به، وقوله : فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة/ 271] فقد أجيز أن يكون ما نكرة في قوله : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها [ البقرة/ 26] ، وقد أجيز أن يكون صلة، فما بعده يكون مفعولا . تقدیره : أن يضرب مثلا بعوضة «1» . الثالث : الاستفهام، ويسأل به عن جنس ذات الشیء، ونوعه، وعن جنس صفات الشیء، ونوعه، وقد يسأل به عن الأشخاص، والأعيان في غير الناطقین . وقال بعض النحويين : وقد يعبّر به عن الأشخاص الناطقین کقوله تعالی: إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون/ 6] ، إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت/ 42] وقال الخلیل : ما استفهام . أي : أيّ شيء تدعون من دون اللہ ؟ وإنما جعله كذلك، لأنّ «ما» هذه لا تدخل إلّا في المبتدإ والاستفهام الواقع آخرا . الرّابع : الجزاء نحو : ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ الآية [ فاطر/ 2] . ونحو : ما تضرب أضرب . الخامس : التّعجّب نحو : فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة/ 175] . وأمّا الحروف : فالأوّل : أن يكون ما بعده بمنزلة المصدر كأن الناصبة للفعل المستقبَل . نحو : وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة/ 3] فإنّ «ما» مع رَزَقَ في تقدیر الرِّزْق، والدّلالة علی أنه مثل «أن» أنه لا يعود إليه ضمیر لا ملفوظ به ولا مقدّر فيه، وعلی هذا حمل قوله : بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة/ 10] ، وعلی هذا قولهم : أتاني القوم ما عدا زيدا، وعلی هذا إذا کان في تقدیر ظرف نحو : كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة/ 20] ، كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة/ 64] ، كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء/ 97] . وأما قوله : فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر/ 94] فيصحّ أن يكون مصدرا، وأن يكون بمعنی الذي «3» . واعلم أنّ «ما» إذا کان مع ما بعدها في تقدیر المصدر لم يكن إلّا حرفا، لأنه لو کان اسما لعاد إليه ضمیر، وکذلک قولک : أريد أن أخرج، فإنه لا عائد من الضمیر إلى أن، ولا ضمیر لهابعده . الثاني : للنّفي وأهل الحجاز يعملونه بشرط نحو : ما هذا بَشَراً [يوسف/ 31] «1» . الثالث : الکافّة، وهي الدّاخلة علی «أنّ» وأخواتها و «ربّ» ونحو ذلك، والفعل . نحو : إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] ، إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران/ 178] ، كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال/ 6] وعلی ذلك «ما» في قوله : رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر/ 2] ، وعلی ذلك : قَلَّمَا وطَالَمَا فيما حكي . الرابع : المُسَلِّطَة، وهي التي تجعل اللفظ متسلِّطا بالعمل، بعد أن لم يكن عاملا . نحو : «ما» في إِذْمَا، وحَيْثُمَا، لأنّك تقول : إذما تفعل أفعل، وحیثما تقعد أقعد، فإذ وحیث لا يعملان بمجرَّدهما في الشّرط، ويعملان عند دخول «ما» عليهما . الخامس : الزائدة لتوکيد اللفظ في قولهم : إذا مَا فعلت کذا، وقولهم : إمّا تخرج أخرج . قال : فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم/ 26] ، وقوله : إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما[ الإسراء/ 23] . ( ما ) یہ عربی زبان میں دو قسم پر ہے ۔ اسمی اور حر فی پھر ہر ایک پانچ قسم پر ہے لہذا کل دس قسمیں ہیں ( 1 ) ما اسمی ہو تو واحد اور تذکیر و تانیث کے لئے یکساں استعمال ہوتا ہے ۔ پھر لفظا مفرد ہونے کے لحاظ سے اس کی طرف ضمیر مفرد بھی لوٹ سکتی ہے ۔ اور معنی جمع ہونے کی صورت میں ضمیر جمع کا لانا بھی صحیح ہوتا ہے ۔ یہ ما کبھی بمعنی الذی ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس/ 18] اور یہ ( لوگ ) خدا کے سوا ایسی چیزوں کی پر ستش کرتے ہیں جو نہ ان کا کچھ بگاڑ سکتی ہیں ۔ تو یہاں ما کی طرف یضر ھم میں مفرد کی ضمیر لوٹ رہی ہے اس کے بعد معنی جمع کی مناسب سے هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس/ 18] آگیا ہے اسی طرح آیت کریمہ : ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل/ 73] اور خدا کے سوا ایسوں کو پوجتے ہیں جوان کو آسمانوں اور زمین میں روزیدینے کا ذرہ بھی اختیار نہیں رکھتے میں بھی جمع کے معنی ملحوظ ہیں اور آیت کریمہ : ۔ بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة/ 93] کہ تمہارا ایمان تم کو بری بات بتاتا ہے ۔ میں بھی جمع کے معنی مراد ہیں اور کبھی نکرہ ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء/ 58] بہت خوب نصیحت کرتا ہے ۔ تو یہاں نعما بمعنی شیئا ہے نیز فرمایا : ۔ فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة/ 271] تو وہ بھی خوب ہیں ایت کریمہ : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة/ 26] کہ مچھر یا اس سے بڑھ کر کیس چیز کی میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما نکرہ بمعنی شیاء ہو اور یہ بھی کہ ماصلہ ہو اور اس کا ما بعد یعنی بعوضۃ مفعول ہو اور نظم کلام دراصل یوں ہو أن يضرب مثلا بعوضة اور کبھی استفھا فیہ ہوتا ہے اس صورت میں کبھی کبھی چیز کی نوع یا جنس سے سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی کسی چیز کی صفات جنسیہ یا نوعیہ کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی غیر ذوی العقول اشخاص اور اعیان کے متعلق سوال کے لئے بھی آجاتا ہے ۔ بعض علمائے نحو کا قول ہے کہ کبھی اس کا اطلاق اشخاص ذوی العقول پر بھی ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون/ 6] مگر ان ہی بیویوں یا ( کنیزوں سے ) جو ان کی ملک ہوتی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت/ 42] جس چیز کو خدا کے سوا پکارتے ہیں خواہ وہ کچھ ہی ہو خدا اسے جانتا ہے ۔ میں خلیل نے کہا ہے کہ ماتدعون میں ما استفہامیہ ہے ای شئی تدعون من دون اللہ اور انہوں نے یہ تکلف اس لئے کیا ہے کہ یہ ہمیشہ ابتداء کلام میں واقع ہوتا ہے اور مابعد کے متعلق استفہام کے لئے آتا ہے ۔ جو آخر میں واقع ہوتا ہے جیسا کہ آیت : ۔ ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُالآية [ فاطر/ 2] خدا جو اپنی رحمت کا در وازہ کھول دے اور مثال ماتضرب اضرب میں ہے ۔ اور کبھی تعجب کے لئے ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة/ 175] یہ ( آتش جہنم کیسی بر داشت کرنے والے ہیں ۔ ما حرفی ہونے کی صورت میں بھی پانچ قسم پر ہے اول یہ کہ اس کا بعد بمنزلہ مصدر کے ہو جیسا کہ فعل مستقبل پر ان ناصبہ داخل ہونے کی صورت میں ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة/ 3] اور جو کچھ ہم نے انہیں عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔ تو یہاں ما رزق بمعنی رزق مصدر کے ہے اور اس ما کے بمعنی ان مصدر یہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اس کی طرف کہیں بھی لفظا ما تقدیر اضمیر نہیں لوٹتی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة/ 10] اور ان کے جھوٹ بولتے کے سبب ۔ میں بھی ما مصدر ری معنی پر محمول ہے ۔ اسی طرح اتانیالقوم ماعدا زیدا میں بھی ما مصدر یہ ہے اور تقدیر ظرف کی صورت میں بھی ما مصدر یہ ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة/ 20] جب بجلی ( چمکتی اور ) ان پر روشنی ڈالتی ہے تو اس میں چل پڑتے ہیں ۔ كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة/ 64] یہ جب لڑائی کے لئے آگ جلاتے ہیں ۔ خدا اس کو بجھا دیتا ہے ۔ كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء/ 97] جب ( اس کی آگ ) بجھنے کو ہوگی تو ہم ان کو ( عذاب دینے ) کے لئے اور بھڑ کا دیں گے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر/ 94] پس جو حکم تم کو ( خدا کی طرف سے ملا ہے وہ ( لوگوں ) کو سنا دو ۔ میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما مصدر یہ ہوا اور یہ بھی کہ ما موصولہ بمعنی الذی ہو ۔ یاد رکھو کہ ما اپنے مابعد کے ساتھ مل کر مصدری معنی میں ہونے کی صورت میں ہمیشہ حرفی ہوتا ہے کیونکہ اگر وہ اسی ہو تو اس کی طرف ضمیر کا لوٹنا ضروری ہے پس یہ ارید ان اخرک میں ان کی طرح ہوتا ہے جس طرح ان کے بعد ضمیر نہیں ہوتی جو اس کی طرف لوٹ سکے اسی طرح ما کے بعد بھی عائد ( ضمیر نہیں آتی ۔ دوم ما نافیہ ہے ۔ اہل حجاز اسے مشروط عمل دیتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ ما هذا بَشَراً [يوسف/ 31] یہ آدمی نہیں ہے تیسرا ما کا فہ ہے جو ان واخواتھا اور ( رب کے ساتھ مل کر فعل پر داخل ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں ۔ إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران/ 178] نہیں بلکہ ہم ان کو اس لئے مہلت دیتے ہیں کہ اور گناہ کرلیں ۔ كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال/ 6] گویا موت کی طرف دھکیلے جارہے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر/ 2] کسی وقت کافر لوگ آرزو کریں گے ۔ میں بھی ما کافہ ہی ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ قلما اور لما میں بھی ما کافہ ہوتا ہے ۔ چہارم ما مسلمۃ یعنی وہ ما جو کسی غیر عامل کلمہ کو عامل بنا کر مابعد پر مسلط کردیتا ہے جیسا کہ اذا ما وحیتما کا ما ہے کہ ما کے ساتھ مرکب ہونے سے قبل یہ کلمات غیر عاملہ تھے لیکن ترکیب کے بعد اسمائے شرط کا سا عمل کرتے ہیں اور فعل مضارع کو جز م دیتے ہیں جیسے حیثما نقعد اقعد وغیرہ پانچواں مازائدہ ہے جو محض پہلے لفظ کی توکید کے لئے آتا ہے جیسے اذا مافعلت کذا ( جب تم ایسا کرو ماتخرج اخرج اگر تم باہر نکلو گے تو میں بھی نکلو نگا قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم/ 26] اگر تم کسی آدمی کو دیکھوں ۔ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما [ الإسراء/ 23] اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھا پے کو پہنچ جائیں ۔ ضل الضَّلَالُ : العدولُ عن الطّريق المستقیم، ويضادّه الهداية، قال تعالی: فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء/ 15] ( ض ل ل ) الضلال ۔ کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ اور یہ ہدایۃ کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء/ 15] جو شخص ہدایت اختیار کرتا ہے تو اپنے سے اختیار کرتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو گمراہی کا ضرر بھی اسی کو ہوگا ۔ صحب الصَّاحِبُ : الملازم إنسانا کان أو حيوانا، أو مکانا، أو زمانا . ولا فرق بين أن تکون مُصَاحَبَتُهُ بالبدن۔ وهو الأصل والأكثر۔ ، أو بالعناية والهمّة، ويقال للمالک للشیء : هو صاحبه، وکذلک لمن يملک التّصرّف فيه . قال تعالی: إِذْ يَقُولُ لِصاحِبِهِ لا تَحْزَنْ [ التوبة/ 40] ( ص ح ب ) الصاحب ۔ کے معنی ہیں ہمیشہ ساتھ رہنے والا ۔ خواہ وہ کسی انسان یا حیوان کے ساتھ رہے یا مکان یا زمان کے اور عام اس سے کہ وہ مصاحبت بدنی ہو جو کہ اصل اور اکثر ہے یا بذریعہ عنایت اور ہمت کے ہو جس کے متعلق کہ شاعر نے کہا ہے ( الطوایل ) ( اگر تو میری نظروں سے غائب ہے تو دل سے تو غائب نہیں ہے ) اور حزف میں صاحب صرف اسی کو کہا جاتا ہے جو عام طور پر ساتھ رہے اور کبھی کسی چیز کے مالک کو بھی ھو صاحبہ کہہ دیا جاتا ہے اسی طرح اس کو بھی جو کسی چیز میں تصرف کا مالک ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِذْ يَقُولُ لِصاحِبِهِ لا تَحْزَنْ [ التوبة/ 40] اس وقت پیغمبر اپنے رفیق کو تسلی دیتے تھے کہ غم نہ کرو ۔ غوی الغَيُّ : جهل من اعتقاد فاسد، وذلک أنّ الجهل قد يكون من کون الإنسان غير معتقد اعتقادا لا صالحا ولا فاسدا، وقد يكون من اعتقاد شيء فاسد، وهذا النّحو الثاني يقال له غَيٌّ. قال تعالی: ما ضَلَّ صاحِبُكُمْ وَما غَوى[ النجم/ 2] ، وَإِخْوانُهُمْ يَمُدُّونَهُمْ فِي الغَيِّ [ الأعراف/ 102] . وقوله : فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا[ مریم/ 59] ، أي : عذابا، فسمّاه الغيّ لمّا کان الغيّ هو سببه، وذلک کتسمية الشیء بما هو سببه، کقولهم للنّبات ندی . وقیل معناه : فسوف يلقون أثر الغيّ وثمرته . قال : وَبُرِّزَتِ الْجَحِيمُ لِلْغاوِينَ [ الشعراء/ 91] ، وَالشُّعَراءُ يَتَّبِعُهُمُ الْغاوُونَ [ الشعراء/ 224] ، إِنَّكَ لَغَوِيٌّ مُبِينٌ [ القصص/ 18] ، وقوله : وَعَصى آدَمُ رَبَّهُ فَغَوى [ طه/ 121] ، أي : جهل، وقیل : معناه خاب نحو قول الشاعر : ومن يغو لا يعدم علی الغيّ لائما «2» وقیل : معنی ( غَوَى) فسد عيشُه . من قولهم : غَوِيَ الفصیلُ ، وغَوَى. نحو : هوي وهوى، وقوله : إِنْ كانَ اللَّهُ يُرِيدُ أَنْ يُغْوِيَكُمْ [هود/ 34] ، فقد قيل : معناه أن يعاقبکم علی غيّكم، وقیل : معناه يحكم عليكم بغيّكم . وقوله تعالی: قالَ الَّذِينَ حَقَّ عَلَيْهِمُ الْقَوْلُ رَبَّنا هؤُلاءِ الَّذِينَ أَغْوَيْنا أَغْوَيْناهُمْ كَما غَوَيْنا تَبَرَّأْنا إِلَيْكَ [ القصص/ 63] ، إعلاما منهم أنّا قد فعلنا بهم غاية ما کان في وسع الإنسان أن يفعل بصدیقه، فإنّ حقّ الإنسان أن يريد بصدیقه ما يريد بنفسه، فيقول : قد أفدناهم ما کان لنا وجعلناهم أسوة أنفسنا، وعلی هذا قوله تعالی: فَأَغْوَيْناكُمْ إِنَّا كُنَّا غاوِينَ [ الصافات/ 32] ، فَبِما أَغْوَيْتَنِي [ الأعراف/ 16] ، وقال : رَبِّ بِما أَغْوَيْتَنِي لَأُزَيِّنَنَّ لَهُمْ فِي الْأَرْضِ وَلَأُغْوِيَنَّهُمْ [ الحجر/ 39] . ( غ و ی ) الغی ۔ اس جہالت کو کہتے ہیں جو غلطاعتقاد پر مبنی ہو ۔ کیونک جہالت کبھی تو کسی عقیدہ پر مبنی ہوتی ہے اور کبھی عقیدہ کو اس میں داخل نہیں ہوتا پہلی قسم کی جہالت کا نام غی ) گمراہی ہے قرآن پاک میں ہے : ما ضَلَّ صاحِبُكُمْ وَما غَوى[ النجم/ 2] کہ تمہارے رفیق محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) نہ رستہ بھولے ہیں اور نہ بھٹکے ہیں ۔ وَإِخْوانُهُمْ يَمُدُّونَهُمْ فِي الغَيِّ [ الأعراف/ 102] اور ان ( کفار ) کے بھائی انہیں گمراہی میں کھینچے جاتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا[ مریم/ 59] سو عنقریب ان کو گمراہی ( کی سزا ) ملے گی ۔ میں غی سے عذاب مراد ہے اور عذاب کو غی اس لئے کہاجاتا ہے کہ گمراہی عذاب کا سبب بنتی ہے لہذا عذاب کو غی کہنا مجازی ہے یعنی کسی شے کو اس کے سبب نام سے موسوم کردینا جیسا کہ نبات کو ندی ( طرادت ) کہہ دیتے ہیں ۔ بعض نے آیت کے یہ معنی کہتے ہیں کہ یہ لوگ عنقریب ہی اپنی گمراہی کا نتیجہ اور ثمرہ پالیں گے مگر مآل کے لحاظ سے دونوں معنی ایک ہی ہیں ۔ غاو بھٹک جانے والا گمراہ جمع غادون وغاوین جیسے فرمایا : وَبُرِّزَتِ الْجَحِيمُ لِلْغاوِينَ [ الشعراء/ 91] اور دوزخ گمراہوں کے سامنے لائی جائے گی ۔ وَالشُّعَراءُ يَتَّبِعُهُمُ الْغاوُونَ [ الشعراء/ 224] اور شاعروں کی پیروی گمرا ہلوگ کیا کرتے ہیں ۔ ( الغوی ۔ گمراہ غلط رو ۔ جیسے فرمایا :إِنَّكَ لَغَوِيٌّ مُبِينٌ [ القصص/ 18] کہ تو تو صریح گمراہ ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَعَصى آدَمُ رَبَّهُ فَغَوى[ طه/ 121] اور آدم نے اپنے پروردگار کے حکم کے خلاف کیا ( تو وہ اپنے مطلوب سے ) بےراہ ہوگئے ۔ میں غویٰ کے معنی یہ ہیں ک آدم نے جہالت کا ارتکاب کیا اور بعض نے اس کے معنی خاب کئ ہیں یعنی انہوں نے سراسر نقصان اٹھایا ۔ جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ( الطویل ) (334) ومن یغولا بعدم علی الغی لائما اور اگر ناکام ہوجائے تو ناکامی پر بھی ملامت کرنے والون کی کمی نہیں ہے ؛بعض نے غوی کے معنی ففدعیشہ کئے ہیں یعنی اس کی زندگی تباہ ہوگئی اور یہ غوی الفصیل وغویٰ جیسے ھویٰ وھوی ٰ ۔ سے ماخوذ ہے اور اس کے معنی ہیں اونٹ کے بچے نے بہت زیادہ دودھ پی لیا جس سے اسے بدہضمی ہوگئی اور آیت کریمہ : إِنْ كانَ اللَّهُ يُرِيدُ أَنْ يُغْوِيَكُمْ [هود/ 34] اور اگر خدا یہ چاہے کہ تمہیں گمراہ کرے ۔ میں یغویکم سے مراد گمراہی کی سزا دینے کے ہیں اور بعض نے اس کے معنی گمراہی کا حکم لگانا بھی کئے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : قالَ الَّذِينَ حَقَّ عَلَيْهِمُ الْقَوْلُ رَبَّنا هؤُلاءِ الَّذِينَ أَغْوَيْنا أَغْوَيْناهُمْ كَما غَوَيْنا تَبَرَّأْنا إِلَيْكَ [ القصص/ 63]( تو جن لوگوں پر ) عذاب کا حکم ثابت ہوچکا ہوگا وہ کہیں گے کہ ہمارے پروردگار ی وہ لوگ ہیں جن کو ہم نے گمراہی کیا تھا اور جس طرح ہم خود گمراہ تھے اسی سطرح انہیں گمراہ کیا تھا ۔ میں بتایا گیا ہے کہ کفار قیامت کے دن اعلان کریں گے کہ ہم ان کے ساتھ انتہائی مخلصانہ سلوک کیا تھا جو کہ ایک انسان اپنے دوست سے کرسکتا ہے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢ { مَا ضَلَّ صَاحِبُکُمْ وَمَا غَوٰی ۔ } ” (اے لوگو ! ) تمہارے یہ ساتھی نہ تو بھٹکے ہیں اور نہ ہی بہکے ہیں۔ “ قرآن حکیم میں قسم بالعموم شہادت کے لیے آتی ہے۔ یہاں ستاروں کے غروب یا سقوط کی قسم کھا کر قریش کو مخاطب کر کے بتایا جا رہا ہے کہ تمہارے یہ ساتھی (محمد ٌرسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نہ تو غلط فہمی کی بنا پر راستہ سے بہکے ہیں اور نہ اپنے قصد و اختیار سے جان بوجھ کر غلط راستے پر چلے ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

2 "Your Companion" implies the Holy Messenger of Allah (upon whom be peace) and the addressees are the Quraish. The word Sahib as used in the original means a friend, a companion, a close associate. Here, making mention of the Holy Prophet by the word Sahib-u-kum (yew Companion) instead of "Our Messenger" is very meaningful. This is meant to make the people of the Quraish realize: "The person being mentioned is no stranger to you: he is not an outsider whom you may not be knowing or recognizing already. He is a man of your own clan and tribe; he lives and moves among you; even your children know who and what he is, what is his character, what are his dealings, what are his ways and habits and characteristics, and how he has passed his life among you so far. If same one of you were to say an improbable thing about him, there would be a thousand men among you who knew him, who could see for themselves whether what was said actually applied to him or not. " 3 This is the thing for which an oath has been sworn by the setting star or stars. "Going astray" means a person's adopting a wrong way being unaware of the right way, and "being deluded" means his adopting the wrong way knowingly and consciously. The verse means: "Muhammad (upon whom be Allah's peace and blessings) is a well-known man among you. Your accusation that he has gone astray, or is misguided, is utterly wrong. In fact, he is neither gone astray nor misguided." Here, the propriety of swearing by the setting stars is that in the darkness of the starry night a person cannot see the things of his surroundings clearly, and from their vague appearances can form wrong judgments about them, e.g.. he may take a tra for a ghost in the dark, a string for a snake, a rock in the sand for a beast of prey. But when the stars have set and the day has dawned, everything appears before man in its real form and shape, and there remains no doubt whatever about the reality of anything. The same is the case also of Muhammad (upon whom be Allah's peace and blessings) among you. His life and personality is. not hidden in darkness, but is manifest like the bright dawn. You are aware that this "companion of yours" is a right-minded, wise and sagacious man. How can somebody from among the Quraish have the misunderstanding that he has gone astray? You also know how well-intentioned and honest and righteous person he is. How can one of you form the view that he has knowingly adopted a crooked way not only for himself but has started inviting others also to the same falsehood?

سورة النَّجْم حاشیہ نمبر :2 مراد ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مخاطب ہیں قریش کے لوگ ۔ اصل الفاظ استعمال کیے گئے ہیں ۔ صَاحِبُکُمْ ( تمہارا صاحب ) ۔ صاحب عربی زبان میں دوست ، رفیق ، ساتھی ، پاس رہنے والے اور ساتھ اٹھنے بیٹھنے والے کو ہوتے ہیں ۔ اس مقام پر آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کا نام لینے یا ہمارا رسول کہنے کے بجائے تمہارا صاحب کہہ کر آپ کا ذکر کرنے میں بڑی گہری معنویت ہے ۔ اس سے قریش کے لوگوں کو یہ احساس دلانا مقصود ہے کہ جس شخص کا تم سے ذکر کیا جا رہا ہے وہ تمہارے ہاں باہر سے آیا ہوا کوئی اجنبی آدمی نہیں ہے اس سے تمہاری پہلے کی کوئی جان پہچان نہ ہو ۔ تمہاری اپنی قوم کا آدمی ہے ۔ تمہارے ساتھ ہی رہتا بستا ہے ۔ تمہارا بچہ بچہ جانتا ہے کہ وہ کون ہے ، کیا ہے ، کس سیرت و کردار کا انسان ہے ، کیسے اس کے معاملات ہیں ، کیسے اس کی عادات و خصائل ہیں ، اور آج تک تمہارے درمیان اس کی زندگی کیسی رہی ہے ۔ اسے بارے میں منہ پھاڑ کر کوئی کچھ کہہ دے تو تمہارے اندر ہزاروں آدمی اس کے جاننے والے موجود ہیں جو خود دیکھ سکتے ہیں کہ یہ بات اس شخص پر چسپاں ہوتی بھی ہے یا نہیں ۔ سورة النَّجْم حاشیہ نمبر :3 یہ ہے وہ اصل بات جس پر غروب ہونے والے تارے یا تاروں کی قَسم کھائی گئی ہے ۔ بھٹکنے سے مراد ہے کسی شخص کا راستہ نہ جاننے کی وجہ سے کسی غلط راستے پر چل پڑنا اور بہکنے سے مراد ہے کسی شخص کا جان بوجھ کر غلط راستہ اختیار کر لینا ۔ ارشاد الہٰی کا مطلب یہ ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم جو تمہارے جانے پہچانے آدمی ہیں ، ان پر تم لوگوں کا یہ الزام بالکل غلط ہے کہ وہ گمراہ یا بد راہ ہو گئے ہیں ۔ در حقیقت وہ نہ بھٹکے ہیں نہ بہکے ہیں ۔ اس بات پر تاروں کے غروب ہونے کی قَسم جس مناسبت سے کھائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ رات کی تاریکی میں جب تارے نکلے ہوئے ہوں ، ایک شخص اپنے گردو پیش کی اشیاء کو صاف نہیں دیکھ سکتا اور مختلف اشیاء کی دھندلی شکلیں دیکھ کر ان کے بارے میں غلط اندازے کر سکتا ہے ۔ مثلاً اندھیرے میں دور سے کسی درخت کو دیکھ اسے بھوت سمجھ سکتا ہے ۔ کوئی رسی پڑی دیکھ کر اسے سانپ سمجھ سکتا ہے ۔ ریت سے کوئی چٹان ابھری دیکھ کر یہ خیال کر سکتا ہے کہ کوئی درندہ بیٹھا ہے ۔ لیکن جب تارے ڈوب جائیں اور صبح روشن نمودار ہو جائے تو ہر چیز اپنی اصلی شکل میں آدمی کے سامنے آجاتی ہے ۔ اس وقت کسی چیز کی اصلیت کے بارے میں کوئی اشتباہ پیش نہیں آتا ۔ ایسا ہی معاملہ تمہارے ہاں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی ہے کہ ان کی زندگی اور شخصیت تاریکی میں چھپی ہوئی نہیں ہے بلکہ صبح روشن کی طرح عیاں ہے ۔ تم جانتے ہو کہ تمہارا یہ صاحب ایک نہایت سلیم الطبع اور دانا و فرزانہ آدمی ہے ۔ اس کے بارے میں قریش کے کسی شخص کو یہ غلط فہمی کیسے لاحق ہو سکتی ہے کہ وہ گمراہ ہو گیا ہے ۔ تم یہ بھی جانتے ہو کہ وہ کمال درجہ کا نیک نیت اور راستباز انسان ہے ۔ اس کے متعلق تم میں سے کوئی شخص کیسے یہ رائے قائم کر سکتا ہے کہ وہ جان بوجھ کر نہ صرف خود ٹیڑھی راہ اختیار کر بیٹھا ہے بلکہ دوسروں کو بھی اسی ٹیڑھے راستے کی طرف دعوت دینے کے لیے کھڑا ہو گیا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

2: تمہارے ساتھ رہنے والے صاحب سے مراد حضور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں، اور آپ کے لئے یہ لفظ استعمال کرکے اللہ تعالیٰ نے اس حقیقت کی طرف متوجہ فرمایا ہے کہ آپ نے کہیں باہر سے آکر نبوت کا دعوی نہیں کردیا، بلکہ وہ شروع سے تمہارے ساتھ رہتے ہیں، اور ان کی پوری زندگی کھلی ہوئی کتاب کی طرح تمہارے سامنے ہے کہ انہوں نے زندگی بھر کبھی جھوٹ نہیں بولا، اور نہ کبھی کسی کو دھوکہ دیا ہے، اس کے برعکس آپ صادق اور امین کے لقب سے مشہور ہیں، اس لئے یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ عام زندگی میں تو جھوٹ سے اتنا پرہیزکریں اور اللہ تعالیٰ پر اتنا بڑا بہتان لگادیں۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(53:2) ماضل صاحبکم وما غوی : یہ جواب قسم ہے اور ما نافیہ ہے۔ ضل ماضی کا صیغہ واحد مذکر غائب ضلال باب ضرب مصدر سے ۔ متعدد معنی میں مستعمل ہے :۔ مثلاً بمعنی گمراہ ہونا۔ بہکنا۔ راہ سے دور جا پڑنا۔ کھوناجا ۔ ضائع ہوجانا۔ گم ہونا۔ ہلاک ہونا۔ وغیرہ وغیرہ۔ سیدھے راستہ سے روگردانی کو ضلال کہتے ہیں۔ یہ ہدایت کی ضد ہے ۔ راستہ سے روگردانی دانستہ ہو یا بھول کر، تھوڑی ہو یا زیادہ؛ اس کو ضلال کہتے ہیں۔ افعال و اقوال اور عقائد کی غلطی کے لئے ضلال ہی مستعمل ہے۔ جب کہ غوایۃ خاصۃ اعتقادی غلطی کو کہتے ہیں۔ ماضل نہیں بھٹکا وہ۔ وما غوی اور نہ وہ کسی اعتقاد غلطی کا مرتکب ہوا ہے ۔ غوی ماضی واحد مذکر غائب ۔ غنی باب ضرب مصدر سے ما غوی وہ گمراہ نہیں ہوا۔ وہ اعتقاد میں نہیں بھٹکا۔ وہ نہیں بہکا۔ اغوی بمعنی گمراہ کرنا۔ مدارک التنزیل میں ہے :۔ الفرق بین الضلال والغی ان الضلال ھو ان لایجد السالک الی مقصدہ طریقا اصلا۔ والغی ان لایکون لہ طریق الی مقصدہ مستقیم۔ ضلال اور غی میں فرق یہ ہے کہ وہ اپنے مقصد کا صحیح راستہ نہ پائے اور غوایۃ یہ ہے کہ اس کا مقصد کی طرف کوئی سیدھا راستہ نہ ہو۔ صاحبکم : مضاف مضاف الیہ۔ تمہارا صاحب ، تمہارا ساتھی۔ تمہارا رفیق ۔ صاحب صرف اس ساتھی کو کہا جاتا ہے کہ جس کی رفاقت اور سنگت بکثرت ہو۔ یہاں کم کا خطاب کفار کی جانب ہے اور صاحب سے مراد آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔ راغب (رح) نے لکھا ہے کہ :۔ یہاں صاحب کہہ کر کفار کو اس امر پر تنبیہ کرنا ہے کہ تم ان کے ساتھ رہ چکے ہو، ان کا تجربہ کرچکے ہو۔ اور ان کے ظاہر و باطن کو پہچان چکے ہو۔ اور پھر بھی تم نے ان میں کوئی خرابی یا دیوانگی نہیں پائی۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 10 جیسا کہ مشرکین مکہ کہتے ہیں۔ ضال (بہکا ہوا) وہ ہے جو جہالت کے سبب صحیح راہ بھٹک جائے اور غادی وہ ہے جو جان بوجھ کر سیدھے رستے سے ہمٹ جائے اور لفظ صاحبکم “ میں اشارزہ ہے کہ یہ لوگ آنحضرت کے حقیقی حال سے خوب واقف تھے۔ (ابن کثیر شوکانی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

5۔ اس قسم میں نظیر ہے مضمون جواب قسم ما ضل و ماغوی کی یعنی جس طرح ستارہ طلوع سے غروب تک اس تمام تر مسافت میں اپنی قاعدہ رفتار سے ادھر ادھر نہیں ہوا اسی طرح آپ اپنی عمر بھر میں ضلال وغوایت سے محفوظ ہیں، اس میں نیز اشارہ ہے اس طرف کہ جیسے نجم سے اہتداء ہوتا ہے اسی طرح اپ سے بھی بوجہ عدم ضلال و عدم غوایت کے اہتداء ہوتا ہے۔ (فائدہ) ضلال یہ کہ بالکل رستہ بھول کر کھڑا رہ جائے اور غوایت یہ کہ غیر راہ کو راہ سمجھ کر چلتا رہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ما ضل ........ یوحیٰ (٣٥ : ٤) ” تمہارا رفیق نہ بھٹکا ہے نہ بہکا ہے۔ وہ اپنی خواہش نفس سے نہیں بولتا۔ یہ تو ایک وحی ہے جو اس پر نازل ہوجاتی ہے۔ “ تمہارا ساتھی صحیح راہ پر ہے وہ گمراہ نہیں ہوا۔ وہ صراط مستقیم پر ہے۔ کسی ٹیڑھی راہ پر نہیں چل رہا ہے۔ وہ مخلص ہے ، مطلب پرست نہیں ہے۔ وہ حق کی تبلیغ کررہا ہے نہ وہم پرست ہے نہ افترا پرداز ہے اور نہ بدعتی ہے اور نہ وہ تمہیں جو تبلیغ کررہا ہے اس میں اس کے ہوائے نفس کا کوئی دخل ہے۔ وہ وہی کچھ کہتا ہے جو وحی ہوتی ہے اور وہ صادق وامین ہے۔ اس لئے وہ سچ کی تبلیغ کرتا ہے۔ اس وحی کے حاملین معلوم ہیں اس کا طریقہ کار متعین ہے اور اس کو لانے والوں کو حضور نے خود دیکھا ہے اپنی آنکھوں سے۔ یہ محض کوئی موہوم بات نہیں ہے نہ آپ کو کسی غیبی قوت قوت نے دھوکہ دے دیا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(2) کہ تمہارے رفیق صحبت اور ساتھی یعنی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نہ راہ گم کی اور نہ وہ راہ سے بہکے اور نہ بےراہ چلے۔ سیاروں کے طلوع اور غروب سے مسافروں کو جہت کا پتہ چلتا ہے اور رات کی تاریکی میں ان سیاروں سے بڑی رہنمائی ہوتی ہے اور چونکہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہادی برحق ہونے اور ہر قسم کی گمراہی اور غوایت سے پاک ہونے پر قسم کھائی تھی اس لئے تارے کی قسم کھائی اور اس مناسبت سے قسم کا یہ عنوان قائم کیا۔ عام مفسرین کی رائے یہ ہے کہ نجم سے مراد یہاں تاروں کی جنس ہے کوئی خاص تارا مراد لینا راجح نہیں اگر مفسرین کے بیشمار اقوال ہیں جیسے ثریا، زحل ، زہرہ یا وہ ستارے جو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ولادت کے وقت اترے اور لٹکتے تھے یا وہ نجوم جو رجم شیاطین کے وقت مستعمل ہوتے ہیں بعض نے نجم سے مراد قرآن کی آیتیں اور سورتیں لی ہیں۔ بہرحال قسم کا جواب ہے ماضل صاحبکم وماغوی گمر کردہ را جو راستہ نہ معلوم ہونے کی وجہ سے کھڑا رہ جائے اور غویٰ وہ جو ایک رستے سے بہک کر دوسی بٹیا پر پڑجائے سرکار دوعالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دونوں باتوں کی نفی فرمائی۔ کفار اکثر دو باتیں کہتے تھے دعویٰ رسالت کے بعد گم کردہ راہ اور راستے سے بھٹک جانے والا عام طور سے کہتے تھے حضرت حق تعالیٰ نے دونوں کی نفی فرمائی کہ نہ یہ گمراہ ہے نہ راستے سے بہکا ہے۔ ھری کا ترجمہ ہم نے مصدر کو قبول کے وزن پر رکھتے ہوئے کیا ہے اور اگر ھوی کو دخول کے وزن پر رکھا جائے تو اس کے معنی طلوع کے ہوں گے بہرحال ہم نے غروب کو اختیار کیا کیونکہ تارے کے غروب کے وقت مسافروں کو راہ اور جہت معلوم کرنے کا زیادہ شوق ہوتا ہے اور وہ اس وقت کا اہتمام بھی زیادہ کرتے ہیں۔ رفیق صحبت اور ساتھی اس لئے فرمایا کہ اس کی تمام زندگی سے تم واقف ہو تمہارے سامنے بڑھا اور پلا ہے اور تم خود بھی اس کی صداقت اور امانت کے معترف ہو۔