Surat un Najam

Surah: 53

Verse: 23

سورة النجم

اِنۡ ہِیَ اِلَّاۤ اَسۡمَآءٌ سَمَّیۡتُمُوۡہَاۤ اَنۡتُمۡ وَ اٰبَآؤُکُمۡ مَّاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ بِہَا مِنۡ سُلۡطٰنٍ ؕ اِنۡ یَّتَّبِعُوۡنَ اِلَّا الظَّنَّ وَ مَا تَہۡوَی الۡاَنۡفُسُ ۚ وَ لَقَدۡ جَآءَہُمۡ مِّنۡ رَّبِّہِمُ الۡہُدٰی ﴿ؕ۲۳﴾

They are not but [mere] names you have named them - you and your forefathers - for which Allah has sent down no authority. They follow not except assumption and what [their] souls desire, and there has already come to them from their Lord guidance.

دراصل یہ صرف نام ہیں جو تم نے اور تمہارے باپ دادوں نے ان کے رکھ لئے ہیں اللہ نے ان کی کوئی دلیل نہیں اتاری ۔ یہ لوگ تو صرف اٹکل کے اور اپنی نفسانی خواہشوں کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں اور یقیناً ان کے رب کی طرف سے ان کے پاس ہدایت آچکی ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

إِنْ هِيَ إِلاَّ أَسْمَاء سَمَّيْتُمُوهَا أَنتُمْ وَابَاوُكُم ... They are but names which you have named -- you and your fathers, (of your own desire), ... مَّا أَنزَلَ اللَّهُ بِهَا مِن سُلْطَانٍ ... for which Allah has sent down no authority. meaning, proof, ... إِن يَتَّبِعُونَ إِلاَّ الظَّنَّ وَمَا تَهْوَى الاَْنفُسُ ... They follow but a guess and that which they themselves desire, they have no proof, except their trust in their forefathers who took this false path in the past, as well as, their lusts and desires to become leaders, and thereby gain honor and reverence for their forefathers, ... وَلَقَدْ جَاءهُم مِّن رَّبِّهِمُ الْهُدَى whereas there has surely come to them the guidance from their Lord! meaning, Allah has sent them Messengers with the clear truth and unequivocal evidence. However, they did not adhere to or follow the guidance that came to them through the Prophets. Wishful Thinking does not earn One Righteousness Allah the Exalted said, أَمْ لِلِْنسَانِ مَا تَمَنَّى

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٤] یعنی تمہارے یہ پتھر کے بت بس پتھر ہی ہیں۔ نہ یہ خدا یا دیوتا یا دیویاں ہیں۔ نہ ہی انہیں کچھ تصرف اور اختیار حاصل ہے۔ تم نے اپنے طور پر ایک عقیدہ بنا لیا۔ پھر اس پر جم گئے اور تمہارے وہم و قیاس کے علاوہ ان کی خدائی کی کوئی بنیاد نہیں۔ اللہ نے اپنی کسی کتاب میں ان کو اپنا یا اپنے اختیارات میں شریک قرار نہیں دیا اور تمہارے اس وہم و قیاس کی اصل وجہ ہی یہی کچھ ہے کہ تمہارا دل یہی چاہتا ہے جو پیکر محسوس کی شکل میں تمہارے سامنے ہوں اور تم ان پر نذریں نیازیں چڑھا کر یہ یقین کرلو کہ تمہارے سارے کام انہیں نذروں نیازوں اور انہیں دیوی دیوتاؤں کے طفیل سیدھے ہورہے ہیں۔ علاوہ ازیں اللہ کے ہاں یہ تمہاری سفارش بھی کرنے والی ہیں۔ تمہیں ایسا معبود گوارا نہیں جو تم پر حلال و حرام کی پابندیاں لگائے اور تمہیں اپنے اوامرو نواہی کے شکنجے میں کس کر تمہارا امتحان بھی کرے۔ [١٥] یعنی ہمارے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آکر تمہیں واضح الفاظ میں سیدھا راستہ بتادیا ہے کہ اس کائنات میں تمہاری عبادت کا اصل حقدار کون ہوسکتا ہے اور اس کے عقلی اور نقلی دلائل کیا ہیں ؟۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) انھی الا اسمآء سمیتموھآ انتم وابآئکم …: اس کی تفصیل کے لئے دیکھیے سورة اعراف (٧١) اور سورة یوسف (٤٠) کی تفسیر۔ (٢) ان یتثبعون الا الظن : تفسری کیلئے دیکھیے سورة یونس (٣٦، ٦٦) کی تفسیر۔ (٣) وما تھوی الانفس ولقد جآء ھم …: یعنی یہ لوگ ان کی پرستش صرف اپنے دلوں کی خواہشات کی پشیروی میں کر رہے ہیں۔ ان کا دل چاہتا ہے کہ کوئی ایسا معبود ہو جو دنیا میں ان کے کام بناتا رہے اور اگر آخرت آہی جائے تو وہاں بھی انہیں بخشوا دے، مگر ان پر حلال و حرام کی کوئی پابندی ہو نہ ان کی خواہشات پر کوئی قدغن ہو۔ اس لئے کبھی کسی کو اللہ کی اولاد بنا کر پوجنا شروع کر یدتے ہیں، جیسے کوئی مسیح یا عزیز (علیہ السلام) کو اس کا بیٹا بنا کر پوجتا ہے، جیسے یہود و نصاریٰ اور کوئی فرشتوں کو بیٹیاں بنا کر ، جیسے مشرکین عرب اور کبھی کسی کو اس کا ایسا محبوب یا محبوبہ بنا کر پوجنے لگتے ہیں جس کی محبت کے ہاتھوں وہ مجبور ہے اور ان کی کوئی بات ٹال نہیں سکتا، جیسا کہ عام بت پرست ہیں اور کئی جھوٹے مسلمانوں کا بھی یہی حال ہے اور دل میں امید باندھ لیتے ہیں کہ ان کے بنائے ہوئے یہ خیالی معبود قیامت کے دن انہیں اللہ تعالیٰ کی گرفت سے بچا لیں گے، کیونکہ ان کا اس کے ساتھ نسب یا محبت کا رشتہ ہے جس سے مجبور ہو کر اسے ان کی شفاعت ماننا پڑے گی۔ جب کہ حقیقت میں یہ سب ان کی ناکام تمنائیں اور آرزوئیں ہیں، بات یہ ہے :(ولقد جآء ھم من ربھم الھدی)” اور بلاشبہ یقیناً ان کے پاس ان کے رب کی طرف سے ہدایات آچکی۔ “ اور اصل ہدایت اور سیدھی راہ وہی ہے جو ہمارے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لے کر ان کے پاس آئے ہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Various Types of Zann إِن يَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَإِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِي مِنَ الْحَقِّ شَيْئًا (and conjecture is of no use in [ the matter on Truth.... 53:28) The Arabic word ظَن Zann is used in several different senses, and one of them is baseless thoughts. This is the sense in which it is employed in the verse, because baseless thoughts were the cause of idolatry. And the verse purports to remove the cause. Zann is also used as the antonym of yaqin. Yaqin refers to assured or definitive knowledge about something that really exists, not the figment of someone&s imagination. In this case, there is no room for any doubt or suspicion, as for instance knowledge gained from the Qur&an and Prophetic Traditions uninterruptedly reported by an indefinite number of people or by such a large number that it is impossible that they should agree upon falsehood. As opposed to this certain knowledge, zann is sometime used for the knowledge that is based on a proof, and not on baseless thoughts, but the proof is not so certain as may rule out other possibilities, as for example, injunctions based on general narratives of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . The first type of injunctions is referred to as qat&iyyat or yaqiniyyat and the second type is referred to as zanniyyat. This type of Zann is recognized by Shari` ah. There is ample evidence in Qur&an and Sunnah of its recognition. The entire Ummah concurs that it is obligatory to act upon it. The above verse when denouncing zann, refers to the first type of zann which connotes baseless thoughts. Thus there is no contradiction.

ظن کے مختلف اقسام اور ان کے احکام : وَاِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِيْ مِنَ الْحَقِّ شَـيْــــًٔا، لفظ ظن عربی زبان میں مختلف معانی کے لئے بولا جاتا ہے، ایک معنی یہ بھی ہیں کہ بےبنیاد خیالات کو ظن کہا جاتا ہے، آیت میں یہی مراد ہے اور یہی مشرکین مکہ کی بت پرستی کا سبب تھا، اسی کے ازالہ کے لئے یہ فرمایا گیا ہے، دوسرے معنی ظن کے وہ ہیں جو یقین کے بالمقابل آتے ہیں، یقین کہا جاتا ہے اس علم قطعی مطابق للواقع کو جس میں کسی شک و شبہ کی راہ نہ ہو، جیسے قرآن کریم یا احادیث متواترہ سے حاصل شدہ علم، اس کے مقابل ظن اس علم کو کہا جاتا ہے جو بےبنیاد خیالات تو نہیں دلیل کی بنیاد پر قائم ہے، مگر یہ دلیل اس درجہ قطعی نہیں جس میں کوئی دوسرا احتمال ہی نہ رہے، جیسے عام روایات حدیث سے ثابت ہونے والے احکام، اسی لئے قسم اول کے مسائل کو قطعیات اور یقینیات کہا جاتا ہے، اور دوسری قسم کو ظنیات، اور یہ ظن شریعت میں معتبر ہے، قرآن و حدیث میں اس کے معتبر ہونے کے شواہد موجود ہیں اور تمام امت کے نزدیک واجب العمل ہے، آیت مذکورہ میں ظن کو جو ناقابل اعتبار قرار دیا ہے اس سے مراد ظن بمعنی بےبنیاد بےدلیل خیالات ہیں، اس لئے کوئی اشکال نہیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنْ ہِىَ اِلَّآ اَسْمَاۗءٌ سَمَّيْتُمُوْہَآ اَنْتُمْ وَاٰبَاۗؤُكُمْ مَّآ اَنْزَلَ اللہُ بِہَا مِنْ سُلْطٰنٍ۝ ٠ ۭ اِنْ يَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَمَا تَہْوَى الْاَنْفُسُ۝ ٠ ۚ وَلَقَدْ جَاۗءَہُمْ مِّنْ رَّبِّہِمُ الْہُدٰى۝ ٢٣ ۭ «أَلَا»«إِلَّا»هؤلاء «أَلَا» للاستفتاح، و «إِلَّا» للاستثناء، وأُولَاءِ في قوله تعالی: ها أَنْتُمْ أُولاءِ تُحِبُّونَهُمْ [ آل عمران/ 119] وقوله : أولئك : اسم مبهم موضوع للإشارة إلى جمع المذکر والمؤنث، ولا واحد له من لفظه، وقد يقصر نحو قول الأعشی: هؤلا ثم هؤلا کلّا أع طيت نوالا محذوّة بمثال الا) الا یہ حرف استفتاح ہے ( یعنی کلام کے ابتداء میں تنبیہ کے لئے آتا ہے ) ( الا) الا یہ حرف استثناء ہے اولاء ( اولا) یہ اسم مبہم ہے جو جمع مذکر و مؤنث کی طرف اشارہ کے لئے آتا ہے اس کا مفرد من لفظہ نہیں آتا ( کبھی اس کے شروع ۔ میں ھا تنبیہ بھی آجاتا ہے ) قرآن میں ہے :۔ { هَا أَنْتُمْ أُولَاءِ تُحِبُّونَهُمْ } ( سورة آل عمران 119) دیکھو ! تم ایسے لوگ ہو کچھ ان سے دوستی رکھتے ہواولائک علیٰ ھدی (2 ۔ 5) یہی لوگ ہدایت پر ہیں اور کبھی اس میں تصرف ( یعنی بحذف ہمزہ آخر ) بھی کرلیا جاتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ع (22) ھؤلا ثم ھؤلاء کلا اعطیتہ ت نوالا محذوۃ بمشال ( ان سب لوگوں کو میں نے بڑے بڑے گرانقدر عطیئے دیئے ہیں اسْمُ والِاسْمُ : ما يعرف به ذات الشیء، وأصله سِمْوٌ ، بدلالة قولهم : أسماء وسُمَيٌّ ، وأصله من السُّمُوِّ وهو الذي به رفع ذکر الْمُسَمَّى فيعرف به، قال اللہ : بِسْمِ اللَّهِ [ الفاتحة/ 1] ، وقال : ارْكَبُوا فِيها بِسْمِ اللَّهِ مَجْراها [هود/ 41] ، بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ [ النمل/ 30] ، وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ [ البقرة/ 31] ، أي : لألفاظ والمعاني مفرداتها ومرکّباتها . وبیان ذلک أنّ الاسم يستعمل علی ضربین : أحدهما : بحسب الوضع الاصطلاحيّ ، وذلک هو في المخبر عنه نحو : رجل وفرس . والثاني : بحسب الوضع الأوّليّ. ويقال ذلک للأنواع الثلاثة المخبر عنه، والخبر عنه، والرّابط بينهما المسمّى بالحرف، وهذا هو المراد بالآية، لأنّ آدم عليه السلام کما علم الاسم علم الفعل، والحرف، ولا يعرف الإنسان الاسم فيكون عارفا لمسمّاه إذا عرض عليه المسمّى، إلا إذا عرف ذاته . ألا تری أنّا لو علمنا أَسَامِيَ أشياء بالهنديّة، أو بالرّوميّة، ولم نعرف صورة ما له تلک الأسماء لم نعرف الْمُسَمَّيَاتِ إذا شاهدناها بمعرفتنا الأسماء المجرّدة، بل کنّا عارفین بأصوات مجرّدة، فثبت أنّ معرفة الأسماء لا تحصل إلا بمعرفة المسمّى، و حصول صورته في الضّمير، فإذا المراد بقوله : وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ كُلَّها [ البقرة/ 31] ، الأنواع الثلاثة من الکلام وصور المسمّيات في ذواتها، وقوله : ما تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِهِ إِلَّا أَسْماءً سَمَّيْتُمُوها [يوسف/ 40] ، فمعناه أنّ الأسماء التي تذکرونها ليس لها مسمّيات، وإنما هي أسماء علی غير مسمّى إذ کان حقیقة ما يعتقدون في الأصنام بحسب تلک الأسماء غير موجود فيها، وقوله : وَجَعَلُوا لِلَّهِ شُرَكاءَ قُلْ سَمُّوهُمْ [ الرعد/ 33] ، فلیس المراد أن يذکروا أساميها نحو اللّات والعزّى، وإنما المعنی إظهار تحقیق ما تدعونه إلها، وأنه هل يوجد معاني تلک الأسماء فيها، ولهذا قال بعده : أَمْ تُنَبِّئُونَهُ بِما لا يَعْلَمُ فِي الْأَرْضِ أَمْ بِظاهِرٍ مِنَ الْقَوْلِ [ الرعد/ 33] ، وقوله : تَبارَكَ اسْمُ رَبِّكَ [ الرحمن/ 78] ، أي : البرکة والنّعمة الفائضة في صفاته إذا اعتبرت، وذلک نحو : الكريم والعلیم والباري، والرّحمن الرّحيم، وقال : سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى [ الأعلی/ 1] ، وَلِلَّهِ الْأَسْماءُ الْحُسْنى [ الأعراف/ 180] ، وقوله : اسْمُهُ يَحْيى لَمْ نَجْعَلْ لَهُ مِنْ قَبْلُ سَمِيًّا [ مریم/ 7] ، لَيُسَمُّونَ الْمَلائِكَةَ تَسْمِيَةَ الْأُنْثى [ النجم/ 27] ، أي : يقولون للملائكة بنات الله، وقوله : هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم/ 65] أي : نظیرا له يستحقّ اسمه، وموصوفا يستحقّ صفته علی التّحقیق، ولیس المعنی هل تجد من يتسمّى باسمه إذ کان کثير من أسمائه قد يطلق علی غيره، لکن ليس معناه إذا استعمل فيه كما کان معناه إذا استعمل في غيره . الاسم کسی چیز کی علامت جس سے اسے پہچانا جائے ۔ یہ اصل میں سمو ہے کیونکہ اس کی جمع اسماء اور تصغیر سمی آتی ہے ۔ اور اسم کو اسم اس لئے کہتے ہیں کہ اس سے مسمیٰ کا ذکر بلند ہوتا ہے اور اس کی معرفت حاصل ہوتی ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ ارْكَبُوا فِيها بِسْمِ اللَّهِ مَجْراها [هود/ 41] اور ( نوح (علیہ السلام) نے ) کہا کہ خدا کا نام لے کر ( کہ اس کے ہاتھ میں ) اس کا چلنا ( ہے ) سوار ہوجاؤ۔ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ [ النمل/ 30] وہ سلیمان کی طرف سے ہے اور مضمون یہ ہے ) کہ شروع خدا کا نام لے کر جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے ۔ اور آیت : وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ [ البقرة/ 31] اور اس آدم کو سب ( چیزوں کے ) نام سکھائے ۔ میں اسماء سے یہاں الفاظ و معانی دونوں مراد ہیں ۔ خواہ مفردہوں خواہ مرکب اس اجمال کی تفصیل یہ ہے ۔ کہ لفظ اسم دو طرح استعمال ہوتا ہے ۔ ایک اصطلاحی معنی میں اور اس صورت میں ہمیشہ مخبر عنہ بنتا ہے ۔ جیسے رجل وفرس دوم وضع اول کے لحاظ سے اس اعتبار سے ( کلمہ کی ) انواع ثلاثہ یعنی مخبر عنہ ( اسم ) خبر اور رابطہ ( حرف ) تینوں پر اس معنی مراد ہیں ۔ کیونکہ آدم (علیہ السلام) نے جس طرح اسماء کی تعلیم حاصل کی تھی ۔ اسی طرح افعال وحروف کا علم بھی نہیں حاصل ہوگیا تھا اور یہ ظاہر ہے کہ جب تک کسی چیز کی ذات کا علم حاصل نہ ہو محض نام کے جاننے سے انسان اسے دیکھ کر پہچان نہیں سکتا ہے مثلا اگر ہم ہندی یا رومی زبان میں چند چیزوں کے نام حفظ کرلیں تو ان چیزوں کے اسماء کے جاننے سے ہم ان کے مسمیات کو نہیں پہچان سکیں گے ۔ بلکہ ہمار علم انہیں چند اصوات تک محدود رہے گا اس سے ثابت ہوا کہ اسماء کی معرفت مسمیات کی معرفت کو مستلزم نہیں ہے اور نہ ہی محض اسم سے مسمی ٰ کی صورت ذہن میں حاصل ہوسکتی ہے ۔ لہذا آیت : وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ كُلَّها [ البقرة/ 31] میں اسماء سے کلام کی انواع ثلاثہ اور صورۃ مسمیات بمع ان کی ذوات کے مراد ہیں اور آیت ما تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِهِ إِلَّا أَسْماءً سَمَّيْتُمُوها [يوسف/ 40] جن چیزوں کی تم خدا کے سوا پرستش کرتے ہو وہ صرف نام ہی نام ہیں جو تم نے رکھ لئے ہیں ۔ کے معنی یہ ہیں ک جن اسماء کی تم پرستش کرتے ہو ان کے مسمیات نہیں ہیں ۔ کیونکہ و اصنام ان اوصاف سے عاری تھے ۔ جن کا کہ وہ ان اسماء کے اعتبار سے ان کے متعلق اعتقاد رکھتے تھے ۔ اور آیت : وَجَعَلُوا لِلَّهِ شُرَكاءَ قُلْ سَمُّوهُمْ [ الرعد/ 33] اور ان لوگوں نے خدا کے شریک مقرر کر رکھے ہیں ۔ ان سے کہو کہ ( ذرا ) انکے نام تولو ۔ میں سموھم سے یہ مراد نہیں ہے کہ لات ، عزی وغیرہ ان کے نام بیان کرو بلکہ آیت کے معنی پر ہیں کہ جن کو تم الاۃ ( معبود ) کہتے ہو ان کے متعلق تحقیق کرکے یہ تو بتاؤ کہ آیا ان میں ان اسماء کے معانی بھی پائے جاتے ہیں ۔ جن کے ساتھ تم انہیں موسوم کرتے ہو ( یعنی نہیں ) اسی لئے اس کے بعد فرمایا أَمْ تُنَبِّئُونَهُ بِما لا يَعْلَمُ فِي الْأَرْضِ أَمْ بِظاهِرٍ مِنَ الْقَوْلِ [ الرعد/ 33] ( کہ ) کیا تم اسے ایسی چیزیں بتاتے ہو جس کو وہ زمین میں ( کہیں بھی ) معلوم نہیں کرتا یا ( محض ) ظاہری ( باطل اور جھوٹی ) بات کی ( تقلید کرتے ہو ۔ ) اور آیت : تَبارَكَ اسْمُ رَبِّكَ [ الرحمن/ 78] تمہارے پروردگار ۔۔ کا نام برا بابر کت ہے ۔ میں اسم رب کے بابرکت ہونے کے معنی یہ ہیں ک اس کی صفات ۔ الکریم ۔ العلیم ۔ الباری ۔ الرحمن الرحیم کے ذکر میں برکت اور نعمت پائی جاتی ہے جیسا ک دوسری جگہ فرمایا : سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى [ الأعلی/ 1] ( اے پیغمبر ) اپنے پروردگار جلیل الشان کے نام کی تسبیح کرو ۔ وَلِلَّهِ الْأَسْماءُ الْحُسْنى [ الأعراف/ 180] اور خدا کے نام سب اچھے ہی اچھے ہیں ۔ اور آیت : اسْمُهُ يَحْيى لَمْ نَجْعَلْ لَهُ مِنْ قَبْلُ سَمِيًّا[ مریم/ 7] اسمہ یحیٰ لم نجعل لہ من قبل سمیا َ (719) جس کا نام یحیٰ ہے ۔ اس سے پہلے ہم نے اس نام کا کوئی شخص پیدا نہیں کیا ۔ میں سمیا کے معنی ہم نام ، ، کے ہیں اور آیت :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا[ مریم/ 65] بھلا تم اس کا کوئی ہم نام جانتے ہو ۔ میں سمیا کے معنی نظیر کے ہیں یعنی کیا اس کی کوئی نظیر ہے جو اس نام کی مستحق ہوا اور حقیقتا اللہ کی صفات کے ساتھ متصف ہو اور اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ کیا تم کسی بھی پاتے ہو جو اس کے نام سے موسوم ہوکیون کہ ایسے تو اللہ تعالیٰ کے بہت سے اسماء ہیں جن کا غیر اللہ پر بھی اطلاق ہوسکتا ہے یا ہوتا ہے لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا ہے کہ ان سے معافی بھی وہی مراد ہوں جو اللہ تعالیٰ پر اطلاق کے وقت ہوتے ہیں ۔ اور آیت : لَيُسَمُّونَ الْمَلائِكَةَ تَسْمِيَةَ الْأُنْثى[ النجم/ 27] اور وہ فرشتوں کو ( خدا کی ) لڑکیوں کے نام سے موسوم کرتے ہیں ۔ میں لڑکیوں کے نام سے موسوم کرنے کے معنی یہ ہیں ۔ کہ وہ فرشتوں کو بنات اللہ کہتے ہیں ۔ أب الأب : الوالد، ويسمّى كلّ من کان سببا في إيجاد شيءٍ أو صلاحه أو ظهوره أبا، ولذلک يسمّى النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم أبا المؤمنین، قال اللہ تعالی: النَّبِيُّ أَوْلى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْواجُهُ أُمَّهاتُهُمْ [ الأحزاب/ 6] ( اب و ) الاب ۔ اس کے اصل معنی تو والد کے ہیں ( مجازا) ہر اس شخص کو جو کسی شے کی ایجاد ، ظہور یا اصلاح کا سبب ہوا سے ابوہ کہہ دیا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ آیت کریمہ ۔ { النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ } [ الأحزاب : 6] میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مومنین کا باپ قرار دیا گیا ہے ۔ نزل النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ. يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] ( ن ز ل ) النزول ( ض ) اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا سلط السَّلَاطَةُ : التّمكّن من القهر، يقال : سَلَّطْتُهُ فَتَسَلَّطَ ، قال تعالی: وَلَوْ شاءَ اللَّهُ لَسَلَّطَهُمْ [ النساء/ 90] ، وقال تعالی: وَلكِنَّ اللَّهَ يُسَلِّطُ رُسُلَهُ عَلى مَنْ يَشاءُ [ الحشر/ 6] ، ومنه سمّي السُّلْطَانُ ، والسُّلْطَانُ يقال في السَّلَاطَةِ ، نحو : وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُوماً فَقَدْ جَعَلْنا لِوَلِيِّهِ سُلْطاناً [ الإسراء/ 33] ، ( س ل ط ) السلاطۃ اس کے معنی غلبہ حاصل کرنے کے ہیں اور سلطتہ فتسلط کے معنی ہیں میں نے اسے مقہود کیا تو وہ مقہود ہوگیا ۔ قرآن میں ہے :۔ وَلَوْ شاءَ اللَّهُ لَسَلَّطَهُمْ [ النساء/ 90] اور اگر خدا چاہتا تو ان کو تم پر مسلط کردتیاوَلكِنَّ اللَّهَ يُسَلِّطُ رُسُلَهُ عَلى مَنْ يَشاءُ [ الحشر/ 6] لیکن خدا اپنے پیغمبروں کو جن پر چاہتا ہے مسلط کردیتا ہے ۔ اور اسی سے بادشاہ کو سلطان ، ، کہا جاتا ہے ۔ اور سلطان کا لفظ تسلط اور غلبہ کے معنی میں بھی آتا ہے ۔ جیسے فرمایا : وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُوماً فَقَدْ جَعَلْنا لِوَلِيِّهِ سُلْطاناً [ الإسراء/ 33] اور جو شخص ظلم سے قتل کیا جائے ہم نے اس کے وارث کو اختیار دیا ہے۔ تبع يقال : تَبِعَهُ واتَّبَعَهُ : قفا أثره، وذلک تارة بالجسم، وتارة بالارتسام والائتمار، وعلی ذلک قوله تعالی: فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة/ 38] ، ، قالَ يا قَوْمِ اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِينَ اتَّبِعُوا مَنْ لا يَسْئَلُكُمْ أَجْراً [يس/ 20- 21] ، فَمَنِ اتَّبَعَ هُدايَ [ طه/ 123] ، اتَّبِعُوا ما أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ [ الأعراف/ 3] ، وَاتَّبَعَكَ الْأَرْذَلُونَ [ الشعراء/ 111] ، وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبائِي [يوسف/ 38] ، ثُمَّ جَعَلْناكَ عَلى شَرِيعَةٍ مِنَ الْأَمْرِ فَاتَّبِعْها وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ [ الجاثية/ 18] ، وَاتَّبَعُوا ما تَتْلُوا الشَّياطِينُ [ البقرة/ 102] ( ت ب ع) تبعہ واتبعہ کے معنی کے نقش قدم پر چلنا کے ہیں یہ کبھی اطاعت اور فرمانبرداری سے ہوتا ہے جیسے فرمایا ؛ فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة/ 38] تو جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ غمناک ہونگے قالَ يا قَوْمِ اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِينَ اتَّبِعُوا مَنْ لا يَسْئَلُكُمْ أَجْراً [يس/ 20- 21] کہنے لگا کہ اے میری قوم پیغمبروں کے پیچھے چلو ایسے کے جو تم سے صلہ نہیں مانگتے اور وہ سیدھے رستے پر ہیں ۔ فَمَنِ اتَّبَعَ هُدايَ [ طه/ 123] تو جو شخص میری ہدایت کی پیروی کرے گا ۔ اتَّبِعُوا ما أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ [ الأعراف/ 3] جو ( کتاب ) تم پر تمہارے پروردگار کے ہاں سے نازل ہوئی ہے اس کی پیروی کرو ۔ وَاتَّبَعَكَ الْأَرْذَلُونَ [ الشعراء/ 111] اور تمہارے پیرو تو ذلیل لوگ کرتے ہیں ۔ وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبائِي [يوسف/ 38] اور اپنے باپ دادا ۔۔۔ کے مذہب پر چلتا ہوں ثُمَّ جَعَلْناكَ عَلى شَرِيعَةٍ مِنَ الْأَمْرِ فَاتَّبِعْها وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ [ الجاثية/ 18] پھر ہم نے تم کو دین کے کھلے رستے پر ( قائم ) کردیا ہے تو اسیی ( راستے ) پر چلے چلو اور نادانوں کی خواہشوں کے پیچھے نہ چلنا ۔ وَاتَّبَعُوا ما تَتْلُوا الشَّياطِينُ [ البقرة/ 102] اور ان ( ہزلیات ) کے پیچھے لگ گئے جو ۔۔۔ شیاطین پڑھا کرتے تھے ۔ ظن والظَّنُّ في كثير من الأمور مذموم، ولذلک قال تعالی: وَما يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا[يونس/ 36] ، وَإِنَّ الظَّنَ [ النجم/ 28] ، وَأَنَّهُمْ ظَنُّوا كَما ظَنَنْتُمْ [ الجن/ 7] ، ( ظ ن ن ) الظن اور ظن چونکہ عام طور پر برا ہوتا ہے اس لئے اس کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا : وَما يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا[يونس/ 36] اور ان میں کے اکثر صرف ظن کی پیروی کرتے ہیں ۔ هوى الْهَوَى: ميل النفس إلى الشهوة . ويقال ذلک للنّفس المائلة إلى الشّهوة، وقیل : سمّي بذلک لأنّه يَهْوِي بصاحبه في الدّنيا إلى كلّ داهية، وفي الآخرة إلى الهَاوِيَةِ ، وَالْهُوِيُّ : سقوط من علو إلى سفل، وقوله عزّ وجلّ : فَأُمُّهُ هاوِيَةٌ [ القارعة/ 9] قيل : هو مثل قولهم : هَوَتْ أمّه أي : ثکلت . وقیل : معناه مقرّه النار، والْهَاوِيَةُ : هي النار، وقیل : وَأَفْئِدَتُهُمْ هَواءٌ [إبراهيم/ 43] أي : خالية کقوله : وَأَصْبَحَ فُؤادُ أُمِّ مُوسی فارِغاً [ القصص/ 10] وقد عظّم اللہ تعالیٰ ذمّ اتّباع الهوى، فقال تعالی: أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلهَهُ هَواهُ [ الجاثية/ 23] ، وَلا تَتَّبِعِ الْهَوى[ ص/ 26] ، وَاتَّبَعَ هَواهُ [ الأعراف/ 176] وقوله : وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْواءَهُمْ [ البقرة/ 120] فإنما قاله بلفظ الجمع تنبيها علی أنّ لكلّ واحد هوى غير هوى الآخر، ثم هوى كلّ واحد لا يتناهى، فإذا اتّباع أهوائهم نهاية الضّلال والحیرة، وقال عزّ وجلّ : وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ [ الجاثية/ 18] ، كَالَّذِي اسْتَهْوَتْهُ الشَّياطِينُ [ الأنعام/ 71] أي : حملته علی اتّباع الهوى. ( ھ و ی ) الھوی ( س ) اس کے معنی خواہشات نفسانی کی طرف مائل ہونے کے ہیں اور جو نفساتی خواہشات میں مبتلا ہو اسے بھی ھوی کہدیتے ہیں کیونکہ خواہشات نفسانی انسان کو اس کے شرف ومنزلت سے گرا کر مصائب میں مبتلا کردیتی ہیں اور آخر ت میں اسے ھاویۃ دوزخ میں لے جاکر ڈال دیں گی ۔ الھوی ( ض ) کے معنی اوپر سے نیچے گر نے کے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ فَأُمُّهُ هاوِيَةٌ [ القارعة/ 9] اسکا مرجع ہاویہ ہے : ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہ ھوت انہ کیطرف ایک محاورہ ہے اور بعض کے نزدیک دوزخ کے ایک طبقے کا نام ہے اور آیت کے معنی یہ ہیں کہ اسکا ٹھکانا جہنم ہے اور بعض نے آیت وَأَفْئِدَتُهُمْ هَواءٌ [إبراهيم/ 43] اور ان کے دل مارے خوف کے ( ہوا ہو رہے ہوں گے ۔ میں ھواء کے معنی خالی یعنی بےقرار کئے ہیں جیسے دوسری جگہ فرمایا : ۔ وَأَصْبَحَ فُؤادُ أُمِّ مُوسی فارِغاً [ القصص/ 10] موسیٰ کی ماں کا دل بےقرار ہوگیا ۔ اور اللہ تعالیٰ نے قرآن میں خواہشات انسانی کی اتباع کی سخت مذمت کی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلهَهُ هَواهُ [ الجاثية/ 23] بھلا تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے اپنی خواہش کو معبود بنا رکھا ہے ولا تَتَّبِعِ الْهَوى[ ص/ 26] اور خواہش کی پیروی نہ کرنا ۔ وَاتَّبَعَ هَواهُ [ الأعراف/ 176] اور وہ اپنی خواہش کی پیروی کرتا ہے ۔ اور آیت : ۔ وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْواءَهُمْ [ البقرة/ 120] اگر تم ان کی خواہشوں پر چلو گے ۔ میں اھواء جمع لاکر بات پت تنبیہ کی ہے کہ ان میں سے ہر ایک کی خواہش دوسرے سے مختلف اور جدا ہے اور ایہ ایک کی خواہش غیر متنا ہی ہونے میں اھواء کا حکم رکھتی ہے لہذا ایسی خواہشات کی پیروی کرنا سراسر ضلالت اور اپنے آپ کو درطہ حیرت میں ڈالنے کے مترادف ہے ۔ نیز فرمایا : ۔ وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ [ الجاثية/ 18] اور نادانوں کی خواہش کے پیچھے نہ چلنا ۔ وَلا تَتَّبِعُوا أَهْواءَ قَوْمٍ قَدْ ضَلُّوا [ المائدة/ 77] اور اس قوم کی خواہشوں پر مت چلو ( جو تم سے پہلے ) گمراہ ہوچکے ہیں ۔ قُلْ لا أَتَّبِعُ أَهْواءَكُمْ قَدْ ضَلَلْتُ [ الأنعام/ 56] ( ان لوگوں سے ) کہدو کہ میں تمہاری خواہشوں پر نہیں چلتا ۔ ایسا کروں میں گمراہ ہوچکا ہوں گا ۔ وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَهُمْ وَقُلْ آمَنْتُ بِما أَنْزَلَ اللَّهُ [ الشوری/ 15] اور ان ( یہود ونصاریٰ کی کو اہشوں پر مت چلو اور ان سے صاف کہدو کہ میرا تو اس پر ایمان ہے ۔ جو خدا نے اتارا ۔ وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص/ 50] اور اس سے زیادہ وہ کون گمراہ ہوگا جو خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کے پیچھے چلے ۔ الھوی ( بفتح الہا ) کے معنی پستی کی طرف اترنے کے ہیں ۔ اور اس کے بالمقابل ھوی ( بھم الہا ) کے معنی بلندی پر چڑھنے کے ہیں ۔ شاعر نے کہا ہے ( الکامل ) ( 457 ) یھوی مکار مھا ھوی الاجمال اس کی تنگ گھائیوں میں صفرہ کیطرح تیز چاہتا ہے ۔ الھواء آسمان و زمین فضا کو کہتے ہیں اور بعض نے آیت : ۔ وَأَفْئِدَتُهُمْ هَواءٌ [إبراهيم/ 43] اور ان کے دل مارے خوف کے ہوا ہور رہے ہوں گے ۔ کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے یعنی بےقرار ہوتے ہیں ھواء کی طرح ہوں گے ۔ تھا ویٰ ( تفاعل ) کے معنی ایک دوسرے کے پیچھے مھروۃ یعنی گڑھے میں گرنے کے ہیں ۔ اھواء اسے فضا میں لے جا کر پیچھے دے مارا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَالْمُؤْتَفِكَةَ أَهْوى [ النجم/ 53] اور اسی نے الٹی بستیوں کو دے پئکا ۔ استھوٰی کے معنی عقل کو لے اڑنے اور پھسلا دینے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ كَالَّذِي اسْتَهْوَتْهُ الشَّياطِينُ [ الأنعام/ 71] جیسے کسی کی شیاطین ( جنات ) نے ۔۔۔۔۔۔۔ بھلا دیا ہو ۔ نفس الَّنْفُس : الرُّوحُ في قوله تعالی: أَخْرِجُوا أَنْفُسَكُمُ [ الأنعام/ 93] قال : وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما فِي أَنْفُسِكُمْ فَاحْذَرُوهُ [ البقرة/ 235] ، وقوله : تَعْلَمُ ما فِي نَفْسِي وَلا أَعْلَمُ ما فِي نَفْسِكَ [ المائدة/ 116] ، وقوله : وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 30] فَنَفْسُهُ : ذَاتُهُ ، وهذا۔ وإن کان قد حَصَلَ من حَيْثُ اللَّفْظُ مضافٌ ومضافٌ إليه يقتضي المغایرةَ ، وإثباتَ شيئين من حيث العبارةُ- فلا شيءَ من حيث المعنی سِوَاهُ تعالیٰ عن الاثْنَوِيَّة من کلِّ وجهٍ. وقال بعض الناس : إن إضافَةَ النَّفْسِ إليه تعالیٰ إضافةُ المِلْك، ويعني بنفسه نُفُوسَنا الأَمَّارَةَ بالسُّوء، وأضاف إليه علی سبیل المِلْك . ( ن ف س ) النفس کے معنی روح کے آتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ أَخْرِجُوا أَنْفُسَكُمُ [ الأنعام/ 93] کہ نکال لو اپنی جانیں ۔ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما فِي أَنْفُسِكُمْ فَاحْذَرُوهُ [ البقرة/ 235] اور جان رکھو جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے خدا کو سب معلوم ہے ۔ اور ذیل کی دونوں آیتوں ۔ تَعْلَمُ ما فِي نَفْسِي وَلا أَعْلَمُ ما فِي نَفْسِكَ [ المائدة/ 116] اور جو بات میرے دل میں ہے تو اسے جانتا ہے اور جو تیرے ضمیر میں ہے میں اسے نہیں جنتا ہوں ۔ وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 30] اور خدا تم کو اپنے ( غضب سے ڈراتا ہے ۔ میں نفس بمعنی ذات ہے اور یہاں نفسہ کی اضافت اگر چہ لفظی لحاظ سے مضاف اور مضاف الیہ میں مغایرۃ کو چاہتی ہے لیکن من حیث المعنی دونوں سے ایک ہی ذات مراد ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ ہر قسم کی دوائی سے پاک ہے بعض کا قول ہے کہ ذات باری تعالیٰ کی طرف نفس کی اضافت اضافت ملک ہے اور اس سے ہمارے نفوس امارہ مراد ہیں جو ہر وقت برائی پر ابھارتے رہتے ہیں ۔ ( قَدْ ) : حرف يختصّ بالفعل، والنّحويّون يقولون : هو للتّوقّع . وحقیقته أنه إذا دخل علی فعل ماض فإنما يدخل علی كلّ فعل متجدّد، نحو قوله : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف/ 90] ، قَدْ كانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ [ آل عمران/ 13] ، قَدْ سَمِعَ اللَّهُ [ المجادلة/ 1] ، لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح/ 18] ، لَقَدْ تابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ [ التوبة/ 117] ، وغیر ذلك، ولما قلت لا يصحّ أن يستعمل في أوصاف اللہ تعالیٰ الذّاتيّة، فيقال : قد کان اللہ علیما حكيما، وأما قوله : عَلِمَ أَنْ سَيَكُونُ مِنْكُمْ مَرْضى [ المزمل/ 20] ، فإنّ ذلک متناول للمرض في المعنی، كما أنّ النّفي في قولک : ما علم اللہ زيدا يخرج، هو للخروج، وتقدیر ذلک : قد يمرضون فيما علم الله، وما يخرج زيد فيما علم الله، وإذا دخل ( قَدْ ) علی المستقبَل من الفعل فذلک الفعل يكون في حالة دون حالة . نحو : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور/ 63] ، أي : قد يتسلّلون أحيانا فيما علم اللہ . و ( قَدْ ) و ( قط) «2» يکونان اسما للفعل بمعنی حسب، يقال : قَدْنِي كذا، وقطني كذا، وحكي : قَدِي . وحكى الفرّاء : قَدْ زيدا، وجعل ذلک مقیسا علی ما سمع من قولهم : قدني وقدک، والصحیح أنّ ذلک لا يستعمل مع الظاهر، وإنما جاء عنهم في المضمر . ( قد ) یہ حرف تحقیق ہے اور فعل کے ساتھ مخصوص ہے علماء نحو کے نزدیک یہ حرف توقع ہے اور اصل میں جب یہ فعل ماضی پر آئے تو تجدد اور حدوث کے معنی دیتا ہے جیسے فرمایا : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف/ 90] خدا نے ہم پر بڑا احسان کیا ہے ۔ قَدْ كانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ [ آل عمران/ 13] تمہارے لئے دوگرہوں میں ۔۔۔۔ ( قدرت خدا کی عظیم الشان ) نشانی تھی ۔ قَدْ سَمِعَ اللَّهُ [ المجادلة/ 1] خدا نے ۔۔ سن لی ۔ لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح/ 18] ( اے پیغمبر ) ۔۔۔۔۔ تو خدا ان سے خوش ہوا ۔ لَقَدْ تابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ [ التوبة/ 117] بیشک خدا نے پیغمبر پر مہربانی کی ۔ اور چونکہ یہ فعل ماضی پر تجدد کے لئے آتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ کے اوصاف ذاتیہ کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا ۔ لہذا عَلِمَ أَنْ سَيَكُونُ مِنْكُمْ مَرْضى [ المزمل/ 20] کہنا صحیح نہیں ہے اور آیت : اس نے جانا کہ تم میں بعض بیمار بھی ہوتے ہیں ۔ میں قد لفظا اگر چہ علم پر داخل ہوا ہے لیکن معنوی طور پر اس کا تعلق مرض کے ساتھ ہے جیسا کہ ، ، میں نفی کا تعلق خروج کے ساتھ ہے ۔ اور اس کی تقدریروں ہے اگر ، ، قد فعل مستقل پر داخل ہو تو تقلیل کا فائدہ دیتا ہے یعنی کبھی وہ فعل واقع ہوتا ہے اور کبھی واقع نہیں ہوتا اور آیت کریمہ : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور/ 63] خدا کو یہ لوگ معلوم ہیں جو تم میں سے آنکھ بچا کر چل دیتے ہیں ۔ کی تقدیریوں ہے قد یتسللون احیانا فیما علم اللہ ( تو یہ بہت آیت بھی ماسبق کی طرح موؤل ہوگی اور قد کا تعلق تسلل کے ساتھ ہوگا ۔ قدوقط یہ دونوں اسم فعل بمعنی حسب کے آتے ہیں جیسے محاورہ ہے قد فی کذا اوقطنی کذا اور قدی ( بدون نون وقایہ ا کا محاورہ بھی حکایت کیا گیا ہے فراء نے قدنی اور قدک پر قیاس کرکے قدر زید ا بھی حکایت کیا ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ قد ( قسم فعل اسم ظاہر کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا بلکہ صرف اسم مضمر کے ساتھ آتا ہے ۔ جاء جاء يجيء ومَجِيئا، والمجیء کالإتيان، لکن المجیء أعمّ ، لأنّ الإتيان مجیء بسهولة، والإتيان قد يقال باعتبار القصد وإن لم يكن منه الحصول، والمجیء يقال اعتبارا بالحصول، ويقال «1» : جاء في الأعيان والمعاني، ولما يكون مجيئه بذاته وبأمره، ولمن قصد مکانا أو عملا أو زمانا، قال اللہ عزّ وجلّ : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] ، ( ج ی ء ) جاء ( ض ) جاء يجيء و مجيئا والمجیء کالاتیانکے ہم معنی ہے جس کے معنی آنا کے ہیں لیکن مجی کا لفظ اتیان سے زیادہ عام ہے کیونکہ اتیان کا لفط خاص کر کسی چیز کے بسہولت آنے پر بولا جاتا ہے نیز اتبان کے معنی کسی کام مقصد اور ارادہ کرنا بھی آجاتے ہیں گو اس کا حصول نہ ہو ۔ لیکن مجییء کا لفظ اس وقت بولا جائیگا جب وہ کام واقعہ میں حاصل بھی ہوچکا ہو نیز جاء کے معنی مطلق کسی چیز کی آمد کے ہوتے ہیں ۔ خواہ وہ آمد بالذات ہو یا بلا مر اور پھر یہ لفظ اعیان واعراض دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور اس شخص کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو کسی جگہ یا کام یا وقت کا قصد کرے قرآن میں ہے :َ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آپہنچا ۔ رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔ هدى الهداية دلالة بلطف، وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه : الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل، والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه/ 50] . الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء، وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا [ الأنبیاء/ 73] . الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی، وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن/ 11] الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43]. ( ھ د ی ) الھدایتہ کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه/ 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء/ 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ ( 3 ) سوم بمعنی توفیق خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔ ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43] میں فرمایا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

لات و عزی اور منات صرف بت ہی ہیں جن کو تم نے اور تمہارے آباؤ اجداد نے خود ہی گھڑ لیا تھا اللہ تعالیٰ نے تو ان کی عبادت کرنے اور ان کے معبود بنانے کے بارے میں کوئی کتاب نازل نہیں کی جس سے تم حجت پکڑو۔ بلکہ یہ لوگ صرف بےبنیاد خیالات اور نفس کی خواہش کی وجہ سے ان کی عبادت کر رہے ہیں اور ان کو معبود تجویز کر رکھا ہے۔ حالانکہ ان مکہ والوں کے پاس قرآن کریم میں صاف یہ مضمو آچکا ہے کہ اللہ تعالیٰ وحدہ لاشریک ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٣{ اِنْ ہِیَ اِلَّآ اَسْمَآئٌ سَمَّیْتُمُوْہَآ اَنْتُمْ وَاٰبَآؤُکُمْ } ” یہ کچھ نہیں ہے سوائے اس کے کہ کچھ نام ہیں جو رکھ لیے ہیں تم نے اور تمہارے آباء و اَجداد نے “ { مَّــآ اَنْزَلَ اللّٰہُ بِہَا مِنْ سُلْطٰنٍط } ” اللہ نے ان کے لیے کوئی سند نہیں اتاری۔ “ { اِنْ یَّـتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَمَا تَہْوَی الْاَنْفُسُ ج } ” یہ لوگ نہیں پیروی کر رہے مگر ظن وتخمین کی اور اپنی خواہشاتِ نفس کی۔ “ یعنی ان لوگوں نے اپنی خواہشاتِ نفس اور wishful thinkings کو عقائد کی شکل دے دی ہے اور کچھ فرضی نام رکھ کر ان کی پوجا شروع کردی ہے۔ { وَلَقَدْ جَآئَ ہُمْ مِّنْ رَّبِّہِمُ الْہُدٰی ۔ } ” جب کہ ان کے پاس ان کے رب کی طرف سے الہدیٰ آچکا ہے۔ “ اللہ تعالیٰ نے ان کی ہدایت کے لیے اپنی کتاب بھی نازل کی ہے اور محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی بھیجا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

17 That is, "Those whom you call gods and goddesses are neither gods nor goddesses, nor do they possess any attribute of divinity, nor any share whatever in the powers of Godhead. You have of your own whim made them children of God and deities and associates in Godhead. Allah has sent down no authority which you may, produce as a proof in support of your presumptions. " 18 In other words, the basic causes of their deviation are two: First, that they do not feel any need for the knowledge of reality for the purpose of adopting a creed and religion, but make a supposition on the basis of a mere conjecture and then put belief in it as though it were the reality, Second, that they have, in fact, adopted this attitude in order to follow the lusts of their souls: they desire that they should have such a deity as should help them attain their aims and objects in the world, and if at aII there is to be a Hereafter, it should take the responsibility to have them granted forgiveness there too, But it should not impose any restriction of the lawful and the unlawfirl on them nor should bind them in any discipline of morality. That is why they do not feel inclined to worship One God as taught by the Prophets, and only like to worship these invented gods and goddesses. 19 That is, in every age the Prophets appointed by Allah have been guiding these wicked people to the Truth, and now Muhammad (upon whom be Allah's peace and blessings) has come to tell them as to whom belongs Godhead in reality in the Universe.

سورة النَّجْم حاشیہ نمبر :17 یعنی تم جن کو دیوی اور دیوتا کہتے ہو وہ نہ دیویاں ہیں اور نہ دیوتا ، نہ ان کے اندر اُلوہیت کی کوئی صفت پائی جاتی ہے ، نہ خدائی کے اختیارات کا کوئی ادنیٰ سا حصہ انہیں حاصل ہے ۔ تم نے بطور خود ان کو خدا کی اولاد اور معبود اور خدائی میں شریک ٹھہرا لیا ہے ۔ خدا کی طرف سے کوئی سند ایسی نہیں آئی ہے جسے تم اپنے ان مفروضات کے ثبوت میں پیش کر سکو ۔ سورة النَّجْم حاشیہ نمبر :18 بالفاظ دیگر ان کی گمراہی کے بنیادی وجوہ دو ہیں ۔ ایک یہ کہ وہ کسی چیز کو اپنا عقیدہ اور دین بنانے کے لیے علم حقیقت کی کوئی ضرورت محسوس نہیں کرتے بلکہ محض قیاس و گمان سے ایک بات فرض کر لیتے ہیں اور پھر اس پر اس طرح ایمان لے آتے ہیں کہ گویا وہی حقیقت ہے ۔ دوسرے یہ کہ انہوں نے یہ رویہ دراصل اپنی خواہشات نفس کی پیروی میں اختیار کیا ہے ۔ ان کا دل یہ چاہتا ہے کہ کوئی ایسا معبود ہو جو دنیا میں ان کے کام تو بناتا رہے اور آخرت اگر پیش آنے والی ہی ہو تو وہاں انہیں بخشوانے کا ذمہ بھی لے لے ، مگر حرام و حلال کی کوئی پابندی ان پر نہ لگائے اور اخلاق کے کسی ضابطے میں ان کو نہ کسے ۔ اسی لیے وہ انبیاء کے لائے ہوئے طریقے پر خدائے واحد کی بندگی کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے اور ان خود ساختہ معبودوں اور معبودنیوں کی عبادت ہی ان کو پسند آتی ہے ۔ سورة النَّجْم حاشیہ نمبر :19 یعنی ہر زمانے میں انبیاء علیہم السلام اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان گمراہ لوگوں کو حقیقت بتاتے رہے ہیں اور اب محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے آ کر ان کو بتا دیا ہے کہ کائنات میں دراصل خدائی کس کی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(53:23) ان ہی : میں ان نافیہ ہے ہی ضمیر واحد مؤنث غائب کا اشارہ اصنام کی طرف ہے۔ جن کی کفار پوجا کیا کرتے تھے۔ سمیتموھا۔ سمیتم ماضی جمع مذکر حاضر تسمیۃ (باب تفعیل) مصدر سے واؤ اشباع کا ہے۔ اور ھا ضمیر واحد مؤنث غائب اصنام کے لئے ہے جنہیں وہ پوجا کرتے تھے۔ یہ محض نام ہی نام ہیں جو تم نے رکھ لئے ہیں۔ ورنہ ان میں حقیقت کچھ بھی نہیں ہے ۔ علامہ راغب آیت ما تعبدون من دونہ الا اسماء سمیتموھا کے تحت لکھتے ہیں۔ ” کچھ نہیں پوجتے ہو سوائے اس کے کہ محض نام ہیں جو تم نے رکھ لئے ہیں “۔ اس کا معنی یہ ہے کہ :۔ جن ناموں کا تم ذکر کرتے ہو ان کے مسیمیات نہیں ہیں بلکہ یہ اسماء ایسے ہیں جو بغیر مسمی کے ہیں کیونکہ ان ناموں کے اعتبار سے بتوں کے بارے میں جو وہ اعتقاد رکھتے ہیں اس کی حقیقت ان میں پائی ہی نہیں جاتی۔ انتم واباء کم۔ تم نے اور تمہارے باپ دادا نے یہ فاعل ہیں فعل سمیتم کے۔ بھا میں ھا ضمیر واحد مؤنث غائب الاصنام کے لئے ہے۔ سلطن سند۔ برھان ، دلیل، اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں کوئی سند نازل نہیں کی۔ ان یتبعون ای ما یتبعون وہ پیروی نہیں کر رہے۔ الا الظن وما تھوی الانفس : سوائے (1) گمان کی (2) اور جسے ان کے نفس چاہتے ہیں۔ ولقدواؤ حالیہ ہے۔ ملہ حالیہ ہے بمعنی : حالانکہ ان کے پاس ان کے رب کی طرف سے ہدایت آچکی ہے۔ الھدی۔ ای القران

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 11 یعنی قرآن اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذریعہ

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ یعنی خود اپنے دعوی پر تو کوئی دلیل نہیں رکھتے اور اس دعوی کی نقیض پر رسول کے ذریعہ سے دلیل سنتے ہیں اور پھر نہیں مانتے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : مشرکین جس طرح یہ ظلم کرتے ہیں کہ ملائکہ کو اللہ کی بیٹیاں قراردیتے ہیں اسی طرح ہی ان کا یہ بھی ظلم ہے کہ وہ بلادلیل اپنے بتوں اور بزرگوں کے نام داتا، گنج بخش، دستگیر اور لجپال وغیرہ رکھتے ہیں۔ دنیا میں کیے جانے والے شرک کا جائزہ لیا جائے تو قرآن مجید کی بتلائی ہوئی حقیقت روز روشن کی طرح آشکارہ دکھائی دیتی ہے کہ مشرکین جنہیں خدائی القابات سے پکارتے ہیں وہ صرف نام برائے نام ہیں ان کی کوئی حقیقت نہیں۔ فوت شدگان میں جن کے نام پر پاکستان کی اکثریت شرک کرتی ہے وہ سیدنا حضرت علی (رض) ، پیر عبدالقادر جیلانی اور لاہور میں علی ہجویری، سہوں میں شہباز قلندر، پاکپتن میں بابا فرید اور دیگر بزرگ ہیں نہ معلوم مشرک حضرت علی (رض) کو کون کون سے خدائی القابات دیتے ہیں لیکن ان کی قبر نجف میں ہونے کے باوجود پڑوس میں حضرت حسین (رض) اپنے خاندان سمیت شہید کردیئے گئے۔ نہ حضرت حسین (رض) اپنے آپ کو اور اپنے عزیز و اقارب کو بچا سکے اور نہ ہی حضرت علی (رض) ان کی مدد کو پہنچ پائے یہاں تک 2003 ء امریکوں نے عراق کی جنگ میں حضرت علی (رض) کے مزار پر بم باری کی وہاں چھپے ہوئے سینکڑوں لوگ جابحق ہوئے اور حضرت علی (رض) کے مزار کا ایک حصہ بھی منہدم ہوگیا۔ جنہیں لوگ مولیٰ علی مشکل کشا کہہ کر مدد کے لیے پکارتے ہیں وہ اپنے مزار کی بھی حفاظت نہ کرسکے۔ یہی حال پیر عبد القادر جیلانی کا ہے۔ عراق کی جنگ میں امریکیوں نے پیر عبدالقادر جیلانی کے مزار پر کثیر تعداد میں بم برسائے۔ ان کے مزار کو شدید نقصان پہنچا اور بغداد کا کافی حصہ تباہ ہوگیا۔ پیرصاحب نہ بغداد بچا سکے اور نہ ہی اپنے مزار کی حفاظت کرسکے۔ یہی حال پاکستان کے تمام مزارات کا ہے۔ علی ہجویری، پاکپتن اور دیگر مزارات پر بمبار لوگوں نے (2010 ء) میں خودکش حملے کیے۔ مزارات کو شدید نقصان پہنچا اور درجنوں لوگ موت کا لقمہ بن گئے۔ کسی فوت شدہ بزرگ نے نہ اپنی حفاظت کی اور نہ اپنے مزار پر آنے والوں کی حفاظت کرسکے۔ حکومت نے ہر مزار کی حفاظت کے لیے جگہ جگہ سیکورٹی اہلکار کھڑے کیے، واک تھرو گیٹ لگوائے اور لوگوں کی تلاشی لینے کا انتظام کیا لیکن اس کے باوجود مزارات پر کئی دھماکے ہوئے۔ جن کے پاس ہر دور کے حکمران اپنی حاجات پوری کروانے کے لیے جاتے ہیں وہ مزارحکومت کی حفاظت کے محتاج ہوئے۔ جس سے حقیقت کھل کر سامنے آگئی کہ واقعتا قبروں والے کسی کی کوئی مدد نہیں کرسکتے۔ اس کے باوجود باطل عقیدہ رکھنے والے کئی حکمران، علماء، ججز، وکلاء اور پڑھے لکھے لوگ کسی کو گنج بخش، کسی کو دستگیر، کسی کو لجپال کہتے ہیں گویا کہ جو ان کے منہ میں آتا ہے وہی نام دئیے جاتے ہیں۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ان کی حمایت میں کوئی دلیل نازل نہیں کی کہ جس بنیاد پر شرک کیا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ محض اپنے تصورات اور خواہشات کے مطابق ان کے نام رکھتے ہیں۔ حالانکہ ان کے پاس ان کے رب کی طرف سے راہنمائی آچکی ہے کہ شرک سب سے بڑا گناہ ہے اور اللہ تعالیٰ نے مشرک کو کبھی معاف نہیں کرنا۔ (النساء : ٤٨) اس کے باوجود بیشمار لوگ اپنے اعتقادات اور خیالات کے پیش نظر شرک کیے جارہے ہیں۔ کیا انسان اس بات پر غور نہیں کرتا کہ اللہ تعالیٰ انسان کی آرزو اور خواہشات کا پابند ہے ؟ لہٰذا انسان کو وہ نہیں ملے گا جس کی انسان تمنا اور آرزو رکھتا ہے۔ بلکہ انسان کو اسی کام کا اجر ملے گا جس کے کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ کیونکہ آخرت اور دنیا کے معاملات کا کلی اختیار ” اللہ “ کے پاس ہے۔ تفسیر بالقرآن شرک کی کوئی دلیل نہیں لیکن مشرک پھر بھی شرک کیے جاتے ہیں : ١۔ جو اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی غیر کو پکارتا ہے اس کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے۔ (المؤمنون : ١١٧) ٢۔ انہوں نے اللہ کے علاوہ کئی معبود بنالیے ہیں آپ فرمائیں کوئی دلیل لاؤ۔ (الانبیاء : ٢٤) ٣۔ ” اللہ “ کے سوا کوئی اور الٰہ ہے اگر تم سچے ہو تو کوئی دلیل لاؤ۔ (النمل : ٦٤) ٤۔ وہ اللہ کے سوا ان کی عبادت کرتے ہیں جن کی عبادت کے لیے کوئی دلیل نازل نہیں کی گئی۔ (الحج : ٧١) ٥۔ اے لوگو ! تمہارے پاس رب کی طرف سے دلیل آچکی ہے۔ (النساء : ١٧٤)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ان ھی الا اسمائ ........ ربھم الھدی (٣٥ : ٣٢) ” دراصل یہ کچھ نہیں مگر بس چند نام جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے رکھ لئے ہیں۔ اللہ نے ان کے لئے کوئی سند نازل نہیں کی۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ محض وہم و گمان کی پیروی کررہے ہیں اور خواہشات نفس کے مرید بنے ہوئے ہیں حالانکہ ان کے رب کی طرف سے ان کے پاس ہدایت آچکی ہے۔ “ یہ نام لات ، منات اور عزی وغیرہ کو معبود کہنا ، ان کو فرشتے کہنا ، فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں کہنا یا فرشتوں کو عورتیں کہنا ، یہ سب الفاظ ہیں لیکن جن معانی کے لئے یہ لوگ ان کو بولتے ہیں وہ تو سرے سے ہیں ہی نہیں نہ اس قسم کے دعا دی پر کوئی حجت ہے۔ اللہ نے ایسی کسی بات کی تصدیق نہیں کی ہے۔ لہٰذا ان دعا دی پر کوئی دلیل نہیں ہے۔ حقیقت کا اپنی جگہ ایک وزن ہوتا ہے۔ حقیقت کی اپنی جگہ قوت ہوتی ہے۔ رہا باطل تو وہ ضعیف اور ہلکا ہوتا ہے ، کمزور ہوتا ہے اور اس کے اندر گرفت کی قوت نہیں ہوتی۔ اس آیت کے نصف میں ان کو ان کے اوہام و خرافات میں غرق چھوڑ دیا جاتا ہے۔ ان سے مکالمہ ختم کردیا جاتا ہے اور ان سے نظر پھیر دی جاتی ہے۔ یوں کہ وہ گویا مکالمہ کے اندر تھے ہی نہیں۔ اب وہ غائب کردیئے جاتے ہیں اور ان پر تبصرہ ہوتا ہے۔ ان یتبعون ........ الانفس (٣٥ : ٣٢) ” حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ محض ظن و گمان کی پیروی کررہے ہیں اور خواہشات نفس کے مرید بنے ہوئے ہیں۔ “ لہٰذا ان کے پاس نہ حجت ہے نہ علم ہے اور نہ یقین ہے۔ ان کے عقائد محض ظن وتخمین پر مبنی ہیں۔ ان کی خواہشات ان کی دلیل ہیں حالانکہ عقائد ونظریات میں ظن اور خواہش کا کوئی دخل نہیں ہوتا۔ اس میں حقیقت یقین اور ہوا وہوس سے پاک اور غرض اور مطلب سے دور اور پاک رویہ درکار ہے جبکہ ان کے پاس محض ظن ، خواہش اور اغراض دنیاوی کے سوا کچھ بھی نہیں ۔ ولقد ........ الھدی (٣٥ : ٣٢) ” حالانکہ ان کے رب کی طرف سے ان کے پاس ہدایت آچکی ہے “ لہٰذا اب تو ان کے پاس یہ عذرات بھی نہیں رہے۔ معاملہ اگر خواہشات نفسانیہ تک پہنچ جائے اور خواہشات پر فیصلے ہونے لگیں تو انسان کی کوئی کل سیدھی نہیں رہ سکتی۔ پھر ہدایت کا اور تبلیغ کا کوئی فائدہ نہیں رہتا کیونکہ ہدایت کو رد کرنے کی وجہ یہ نہیں رہتی کہ ان کو معلوم نہ تھا بلکہ یہ ہوتی ہے کہ وہ چاہتے یہ تھے۔ پہلے انہوں نے خواہش نفس کے تحت فیصلے کرلئے ہیں اب وجہ جواز تلاش کررہے ہیں جب نفس انسانی یہاں تک گر جائے تو پھر اس کے لئے ہدایت مفید ہی نہیں ہوتی۔ دلیل کا اثر ہی نہیں ہوتا۔ اس وجہ سے اللہ سخت ناپسندیدگی کے ساتھ سوال فرماتا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

مشرکین نے اپنے لیے خود معبود تجویز کیے اور ان کے نام بھی خود ہی رکھے : مشرکین نے جو اللہ تعالیٰ کے سوا معبود بنا رکھے تھے خود ہی تجویز کیے تھے خود ہی ان کے نام رکھے تھے اسی کو فرمایا ﴿ اِنْ هِيَ اِلَّاۤ اَسْمَآءٌ سَمَّيْتُمُوْهَاۤ اَنْتُمْ وَ اٰبَآؤُكُمْ ﴾ (یہ صرف نام ہی نام ہیں جو تم نے اور تمہارے باپ دادوں نے نام رکھ لیے ہیں اور انہیں معبود تجویز کرلیا ہے) یہ مستحق عبادت ہو ہی نہیں سکتے غیر معبود کو تم معبود کہنے لگے ﴿ مَّاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ بِهَا مِنْ سُلْطٰنٍ﴾ (اللہ تعالیٰ نے ان کے معبود ہونے کی کوئی دلیل نازل نہیں فرمائی) ۔ ﴿ اِنْ يَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَ مَا تَهْوَى الْاَنْفُسُ ١ۚ ﴾ (یہ لوگ صرف بےاصل خیالات اور محض گمان کے پیچھے پیچھے چلتے ہیں اور نفسوں کی خواہشوں کا اتباع کرتے ہیں) جو جی میں آیا کہہ دیا اور تجویز کرلیا اور جو اصحاب اہواء نے بتادیا (جن میں ان کے باپ دادا بھی ہیں) اس کو مان لیا۔ ﴿ وَ لَقَدْ جَآءَهُمْ مِّنْ رَّبِّهِمُ الْهُدٰىؕ٠٠٢٣﴾ (اور حال یہ ہے کہ ان کے پاس ان کے رب کی طرف سے ہدایت آچکی ہے) اپنی اٹکل پر اور نفس کی تجویز پر ضد کر رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو واقعی اور یقینی ہدایت آئی ہے اس کو نہیں مانتے۔ ہدایت ربانی سے اللہ کی کتاب قرآن مجید اور اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات گرامی مراد ہے۔ اللہ تعالیٰ کی کتاب اور اللہ تعالیٰ کے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بتادیا ہے کہ عبادت کا مستحق صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ اس سے منحرف ہو رہے ہیں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

11:۔ ” انھی “ یہ پہلے دعوے کا اعادہ ہے بطریق لف و نشر مرتب۔ یہ معبودانِ باطلہ محض نام ہیں جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے اپنی خواہشات کے مطابق تجویز کر رکھے ہیں۔ ان کو معبود، کارساز، حاجت روا کہنا محض تمہارے الفاظ ہیں لیکن حقیقت میں وہ ان صفات سے سراسر عاری ہیں۔ وہ نہ معبود و کارساز ہیں، نہ شفیع و حاجت روا ان کو ان ناموں سے موسوم کرنا صریح گمراہی ہے۔ کیونکہ ان خود ساختہ معبودوں کے معبود ہونے پر اللہ نے کوئی دلیل نازل نہیں فرمائی۔ ماجعل اللہ علی الوھیتہا واستحقاقہا للعبادۃ حجۃ (مظہری ج 9 ص 118) 12:۔ ” ان یتبعون “ خطاب سے غیبت کی طرف التفات ہے یہ اس طرف اشارہ ہے کہ یہ سفہاء لائق خطاب ہی نہیں ہیں جیسا کہ بعد میں ارشاد ہے۔ ” فاعرض عن من تولی الخ “ ان معبودان باطلہ کو ان صفات سے پکارنے کے لیے مشرکین کے پاس کوئی دلیل نہیں وہ محض ظن وتخمین سے اور، باپ دادا کی دیکھا دیکھی اور خواہشاتِ نفس کی پیروی میں یہ سب کچھ کر رہے ہیں۔ ” ولقد جاءھم۔ الایۃ “ حالانکہ ان کے پاس اللہ کی طرف سے ہدایت آچکی ہے۔ اللہ کا پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اللہ کی کتاب کے سامنے رشد و ہدایت کی روشنی کے مینار ہیں، مگر وہ ان سے روشنی حاصل کرنے کے بجائے اپنی خواہشات کے پیچھے دوڑتے ہیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(23) یہ مذکورہ اصنام کچھ نہیں مگر چند نام ہیں جن کو تم نے اور تمہارے باپ دادوں نے رکھ لیا ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ان کے ثبوت پر کوئی دلیل اور حجت نہیں نازل فرمائی یہ لوگ محض بےبنیاد خیالات اور وہم فاسد اور اٹکل کی اور اپنی نفسانی خواہش اور جیوں کے چائو کی پیروی کرتے ہیں حالانکہ یہ واقعہ ہے کہ ان کے پروردگار کی جانب سے ان کے پاس صحیح ہدایت اور رہنمائی پہنچ چکی ہے۔ یعنی باوجود اس کے کہ ان کے پاس قرآنی تعلیم اور پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جن کی ذات مقدس جو ہدایت ہی ہدایت ہے ۔ یہ تمام سامان ہدایت پہنچ چکا ہے مگر باوجود اس کے کہ ان کی حالت یہ ہے کہ چند من گھڑت نام جو انہوں نے اور ان کے بڑوں نے دیوی اور دیوتائوں کے وضح کر رکھنے ہیں جن کے لئے آسمان سے کوئی دلیل نہیں اتری اور اللہ تعالیٰ نے کوئی حجت نہیں نازل فرمائی ان کے مفروضہ بتوں کی پرستش کئے جاتے ہیں یہ پیروی نہیں کرتے مگر محض اٹکل اور تخمینے اور گمان فاسد کی اور اپنے نفوس اور جیوں کی خواہش کی صرف پیروی کرتے ہیں اور جو سامان ہدایت ان کو پہنا ہے اس پر غور نہیں کرتے۔