Surat un Najam
Surah: 53
Verse: 42
سورة النجم
وَ اَنَّ اِلٰی رَبِّکَ الۡمُنۡتَہٰی ﴿ۙ۴۲﴾
And that to your Lord is the finality
اور یہ کہ آپ کے رب ہی کی طرف پہنچنا ہے ۔
وَ اَنَّ اِلٰی رَبِّکَ الۡمُنۡتَہٰی ﴿ۙ۴۲﴾
And that to your Lord is the finality
اور یہ کہ آپ کے رب ہی کی طرف پہنچنا ہے ۔
Some Attributes of the Lord, that He returns Man as He originated Him, and some of what He does with His Servants Allah the Exalted said, وَأَنَّ إِلَى رَبِّكَ الْمُنتَهَى And that to your Lord is the End. meaning, the return of everything on the Day of Resurrection. Ibn Abi Hatim recorded that `Amr bin Maymun Al-Awdi said, "Once, Mu`adh bin Jabal stood up among us and said, `O Children of Awd! I am the emissary of Allah's Messenger to you; know that the Return is to Allah, either to Paradise or the Fire."' Allah's statement, وَأَنَّهُ هُوَ أَضْحَكَ وَأَبْكَى
[٣٠] یعنی ہر شخص کو بھی اللہ تعالیٰ کے حضور میں حاضر ہونا ہے اور ہر شخص کے اچھے اور برے اعمال کا منتہیٰ بھی وہی ذات ہے۔ لہذا وہ ہر شخص کو اس کے اعمال کا بھی اور اثرات کا بھی پورا پورا بدلہ دے دے گا۔
وان الی ربک المنتھی : یعنی ہر شخص نے آخر کام اپنے رب ہی کے پاس پہنچنا ہے ، جیسا کہ فرمایا :” کل الینا راجعون “ ( الانبیائ : ٩٣) ” سب ہماری ہی طرف لوٹنے والے ہیں “۔ ایک مطلب اس کا یہ بھی ہے کہ تمام علوم و افکار کا سلسلہ اللہ تعالیٰ پر جا کر ختم ہوجاتا ہے ، جیسا کہ فرمایا :(یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ السَّاعَۃِ اَیَّانَ مُرْسٰہَا فِیْمَ اَنْتَ مِنْ ذِکْرٰہَا اِلٰی رَبِّکَ مُنْتَہٰہَا ) (النازعات : ٤٢۔ ٤٤) ” وہ تجھ سے قیامت کے متعلق پوچھتے ہیں کہ اس کا قیام کب ہے ؟ اس کے ذکر سے تو کس خیال میں ہے ؟ تیرے رب ہی کی طرف اس ( کے علم) کی انتہاء ہے “۔
وَأَنَّ إِلَىٰ رَبِّكَ الْمُنتَهَىٰ (and that to your Lord is the end [ of every one ],... 53:42) This means that ultimately everyone will return to Allah on the Day of Resurrection, and give an account of his actions. Some of the commentators interpret that this statement purports to say that the access of human thought and imagination ends with Allah. The reality of His Being and attributes cannot be discovered by human imagination, because they are beyond conceptualization. Thus we are clearly prohibited from deliberating (See Ma’ ariful Qur’ an, Vol.2/pp 277-280 [ Tr.]) in His Being and His Attributes. There are narrations that tell us to ponder over the manifestation of His Attributes and bounties, and not to conceptualize His Being and His Attributes or Qualities, the reality of which should be left to the Divine Knowledge only.
وَاَنَّ اِلٰى رَبِّكَ الْمُنْتَهٰى، مراد یہ ہے کہ آخر کار سب کو اللہ تعالیٰ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے اور اعمال کا حساب دینا ہے۔ بعض حضرات مفسرین نے اس جملہ کا یہ مطلب قرار دیا ہے کہ انسانی غور و فکر کا سلسلہ اللہ تعالیٰ کی ذات پر پہنچ کر ختم ہوجاتا ہے، اس کی ذات وصفات کی حقیقت کسی غور و فکر سے نہ حاصل کی جاسکتی ہے اور نہ اس میں غور و فکر کی اجازت، جیسا کہ بعض روایات میں ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کرو اس کی ذات میں غور و فکر نہ کرو بلکہ اس کو علم الٰہی کے سپرد کرو وہ تمہارے بس کا نہیں۔
وَاَنَّ اِلٰى رَبِّكَ الْمُنْتَہٰى ٤٢ ۙ إِنَّ وأَنَ إِنَّ أَنَّ ينصبان الاسم ويرفعان الخبر، والفرق بينهما أنّ «إِنَّ» يكون ما بعده جملة مستقلة، و «أَنَّ» يكون ما بعده في حکم مفرد يقع موقع مرفوع ومنصوب ومجرور، نحو : أعجبني أَنَّك تخرج، وعلمت أَنَّكَ تخرج، وتعجّبت من أَنَّك تخرج . وإذا أدخل عليه «ما» يبطل عمله، ويقتضي إثبات الحکم للمذکور وصرفه عمّا عداه، نحو : إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ [ التوبة/ 28] تنبيها علی أنّ النجاسة التامة هي حاصلة للمختص بالشرک، وقوله عزّ وجل : إِنَّما حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ [ البقرة/ 173] أي : ما حرّم ذلك إلا تنبيها علی أنّ أعظم المحرمات من المطعومات في أصل الشرع هو هذه المذکورات . وأَنْ علی أربعة أوجه : الداخلة علی المعدومین من الفعل الماضي أو المستقبل، ويكون ما بعده في تقدیر مصدر، وينصب المستقبل نحو : أعجبني أن تخرج وأن خرجت . والمخفّفة من الثقیلة نحو : أعجبني أن زيدا منطلق . والمؤكّدة ل «لمّا» نحو : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف/ 96] . والمفسّرة لما يكون بمعنی القول، نحو : وَانْطَلَقَ الْمَلَأُ مِنْهُمْ أَنِ امْشُوا وَاصْبِرُوا [ ص/ 6] أي : قالوا : امشوا . وكذلك «إِنْ» علی أربعة أوجه : للشرط نحو : إِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبادُكَ [ المائدة/ 118] ، والمخفّفة من الثقیلة ويلزمها اللام نحو : إِنْ كادَ لَيُضِلُّنا [ الفرقان/ 42] ، والنافية، وأكثر ما يجيء يتعقّبه «إلا» ، نحو : إِنْ نَظُنُّ إِلَّا ظَنًّا [ الجاثية/ 32] ، إِنْ هذا إِلَّا قَوْلُ الْبَشَرِ [ المدثر/ 25] ، إِنْ نَقُولُ إِلَّا اعْتَراكَ بَعْضُ آلِهَتِنا بِسُوءٍ [هود/ 54] . والمؤكّدة ل «ما» النافية، نحو : ما إن يخرج زيد ( ان حرف ) ان وان ( حرف ) یہ دونوں اسم کو نصب اور خبر کو رفع دیتے ہیں اور دونوں میں فرق یہ ہے کہ ان جملہ مستقل پر آتا ہے اور ان کا مابعد ایسے مفرد کے حکم میں ہوتا ہے جو اسم مرفوع ، منصوب اور مجرور کی جگہ پر واقع ہوتا ہے جیسے اعجبنی انک تخرج وعجبت انک تخرج اور تعجب من انک تخرج جب ان کے بعد ما ( کافہ ) آجائے تو یہ عمل نہیں کرتا اور کلمہ حصر کے معنی دیتا ہے ۔ فرمایا :۔ { إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ } ( سورة التوبة 28) ۔ مشرک تو پلید ہیں (9 ۔ 28) یعنی نجاست تامہ تو مشرکین کے ساتھ مختص ہے ۔ نیز فرمایا :۔ { إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ } ( سورة البقرة 173) اس نے تم امر ہوا جانور اور لہو حرام کردیا ہے (2 ۔ 173) یعنی مذکورہ اشیاء کے سوا اور کسی چیز کو حرام قرار نہیں دیا اس میں تنبیہ ہے کہ معلومات میں سے جو چیزیں اصول شریعت میں حرام ہیں ان میں سے یہ چیزیں سب سے بڑھ کر ہیں ۔ ( ان ) یہ چار طرح پر استعمال ہوتا ہے (1) ان مصدریہ ۔ یہ ماضی اور مضارع دونوں پر داخل ہوتا ہے اور اس کا مابعد تاویل مصدر میں ہوتا ہے ۔ ایسی صورت میں یہ مضارع کو نصب دیتا ہے جیسے :۔ اعجبنی ان تخرج وان خرجت ۔ ان المخففہ من المثقلۃ یعنی وہ ان جو ثقیلہ سے خفیفہ کرلیا گیا ہو ( یہ کسی شے کی تحقیق اور ثبوت کے معنی دیتا ہے جیسے ۔ اعجبنی ان زید منطلق ان ( زائدہ ) جو لما کی توکید کے لئے آتا ہے ۔ جیسے فرمایا { فَلَمَّا أَنْ جَاءَ الْبَشِيرُ } ( سورة يوسف 96) جب خوشخبری دینے والا آپہنچا (12 ۔ 92) ان مفسرہ ۔ یہ ہمیشہ اس فعل کے بعد آتا ہے جو قول کے معنیٰ پر مشتمل ہو ( خواہ وہ لفظا ہو یا معنی جیسے فرمایا :۔ { وَانْطَلَقَ الْمَلَأُ مِنْهُمْ } ( سورة ص 6) ان امشوا اور ان میں جو معزز تھے وہ چل کھڑے ہوئے ( اور بولے ) کہ چلو (38 ۔ 6) یہاں ان امشوا ، قالوا کے معنی کو متضمن ہے ان ان کی طرح یہ بھی چار طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ ان شرطیہ جیسے فرمایا :۔ { إِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ } ( سورة المائدة 118) اگر تو ان کو عذاب دے تو یہ تیرے بندے ہیں (5 ۔ 118) ان مخففہ جو ان ثقیلہ سے مخفف ہوتا ہے ( یہ تا کید کے معنی دیتا ہے اور ) اس کے بعد لام ( مفتوح ) کا آنا ضروری ہے جیسے فرمایا :۔ { إِنْ كَادَ لَيُضِلُّنَا } ( سورة الفرقان 42) ( تو ) یہ ضرور ہم کو بہکا دیتا ہے (25 ۔ 42) ان نافیہ اس کے بعداکثر الا آتا ہے جیسے فرمایا :۔ { إِنْ نَظُنُّ إِلَّا ظَنًّا } ( سورة الجاثية 32) ۔۔ ،۔ ہم اس کو محض ظنی خیال کرتے ہیں (45 ۔ 32) { إِنْ هَذَا إِلَّا قَوْلُ الْبَشَرِ } ( سورة المدثر 25) (ٌپھر بولا) یہ ( خدا کا کلام ) نہیں بلکہ ) بشر کا کلام سے (74 ۔ 25) { إِنْ نَقُولُ إِلَّا اعْتَرَاكَ بَعْضُ آلِهَتِنَا بِسُوءٍ } ( سورة هود 54) ۔ ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے کسی معبود نے تمہیں آسیب پہنچا ( کر دیوانہ کر ) دیا ہے (11 ۔ 54) ان ( زائدہ ) جو ( ما) نافیہ کی تاکید کے لئے آتا ہے جیسے : مان یخرج زید ۔ زید باہر نہیں نکلے گا ۔ إلى إلى: حرف يحدّ به النهاية من الجوانب الست، وأَلَوْتُ في الأمر : قصّرت فيه، هو منه، كأنه رأى فيه الانتهاء، وأَلَوْتُ فلانا، أي : أولیته تقصیرا نحو : کسبته، أي : أولیته کسبا، وما ألوته جهدا، أي : ما أولیته تقصیرا بحسب الجهد، فقولک : «جهدا» تمييز، وکذلك : ما ألوته نصحا . وقوله تعالی: لا يَأْلُونَكُمْ خَبالًا[ آل عمران/ 118] منه، أي : لا يقصّرون في جلب الخبال، وقال تعالی: وَلا يَأْتَلِ أُولُوا الْفَضْلِ مِنْكُمْ [ النور/ 22] قيل : هو يفتعل من ألوت، وقیل : هو من : آلیت : حلفت . وقیل : نزل ذلک في أبي بكر، وکان قد حلف علی مسطح أن يزوي عنه فضله وردّ هذا بعضهم بأنّ افتعل قلّما يبنی من «أفعل» ، إنما يبنی من «فعل» ، وذلک مثل : کسبت واکتسبت، وصنعت واصطنعت، ورأيت وارتأيت . وروي : «لا دریت ولا ائتلیت»وذلک : افتعلت من قولک : ما ألوته شيئا، كأنه قيل : ولا استطعت . الیٰ ۔ حرف ( جر ) ہے اور جہات ستہ میں سے کسی جہت کی نہایتہ حدبیان کرنے کے لئے آتا ہے ۔ ( ا ل و ) الوت فی الامر کے معنی ہیں کسی کام میں کو تا ہی کرنا گو یا کوتاہی کرنے والا سمجھتا ہے کہ اس امر کی انتہا یہی ہے ۔ اور الوت فلانا کے معنی اولیتہ تقصیرا ( میں نے اس کوتاہی کا والی بنا دیا ) کے ہیں جیسے کسبتہ ای اولیتہ کسبا ( میں نے اسے کسب کا ولی بنا دیا ) ماالوتہ جھدا میں نے مقدر پھر اس سے کوتاہی نہیں کی اس میں جھدا تمیز ہے جس طرح ماالوتہ نصحا میں نصحا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ { لَا يَأْلُونَكُمْ خَبَالًا } ( سورة آل عمران 118) یعنی یہ لوگ تمہاری خرابی چاہنے میں کسی طرح کی کوتاہی نہیں کرتے ۔ اور آیت کریمہ :{ وَلَا يَأْتَلِ أُولُو الْفَضْلِ مِنْكُمْ } ( سورة النور 22) اور جو لوگ تم میں سے صاحب فضل داور صاحب وسعت ) ہیں وہ اس بات کی قسم نہ کھائیں ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہ الوت سے باب افتعال ہے اور بعض نے الیت بمعنی حلفت سے مانا ہے اور کہا ہے کہ یہ آیت حضرت ابوبکر کے متعلق نازل ہوئی تھی جب کہ انہوں نے قسم کھائی تھی کہ وہ آئندہ مسطح کی مالی امداد نہیں کریں گے ۔ لیکن اس پر یہ اعتراض کیا گیا ہے کہ فعل ( مجرد ) سے بنایا جاتا ہے جیسے :۔ کبت سے اکتسبت اور صنعت سے اصطنعت اور رایت سے ارتایت اور روایت (12) لا دریت ولا ائتلیت میں بھی ماالوتہ شئیا سے افتعال کا صیغہ ہے ۔ گویا اس کے معنی ولا استطعت کے ہیں ( یعنی تونے نہ جانا اور نہ تجھے اس کی استطاعت ہوئ ) اصل میں رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔
آیت ٤٢{ وَاَنَّ اِلٰی رَبِّکَ الْمُنْتَہٰی ۔ } ” اور یہ کہ بالآخر پہنچنا تمہارے رب ہی کی طرف ہے۔ “
٤٢۔ ٥٥۔ تیرے رب کی طرف پہنچتا ہے کا مطلب یہ ہے کہ انسان اور انسان کی تمام ضرورت کی چیزوں کو جو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا یہ سب تو ان منکرین حشر کی آنکھوں کے سامنے ہے اب جبکہ دنیا میں ہر صاحب عقل مثلاً مکان کا بنانا باغ کا لگانا اور اس قسم کے جو کام کرتا ہے وہ کسی نتیجہ کو پیش نظر رکھ کر کرتا ہے پھر اللہ تعالیٰ کی شان اور حکمت سے یہ بعید ہے کہ اس نے دنیا کے اتنے بڑے کارخانہ کو بغیر کسی نتیجہ کے یوں ہی بےفائدہ پیدا کیا ہے۔ نہیں نہیں ایسا ہرگز نہیں ہے بلکہ یہ دنیا کا سارا کارخانہ اس لئے پیدا کیا گیا ہے کہ دنیا بھر کے نیک و بد کے حساب اور جزا و سزا کے لئے تمام مخلوق کو ایک دن اللہ تعالیٰ کے رو برو کھڑا ہونا پڑے گا تاکہ دنیاکا پیدا کیا جانا بےٹھکانے نہ رہے ‘ جو لوگ اس کے منکر ہیں ان کی عقل ٹھکانے نہیں ہے مسند بزار اور ١ ؎ طبرانی کی معاذ بن جبل (رض) کی صحیح حدیث اوپر گزر چیک ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ عمر اور جوانی کس کام میں صرف کی عمل کیا کیا کئے۔ روپیہ پیسہ کیونکر کمایا اور کہاں خرچ کیا۔ ان باتوں کے جواب کے لئے ہر ایک انسان کو ضرور قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے رو برو کھڑا ہونا پڑے گا۔ یہ حدیث آیت کے اس ٹکڑے کی گویا تفسیر ہے وہی ہنساتا رلاتا کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خوشی اور غمی کے سبب ایسے پیدا کئے ہیں جن سے اس کی بہت بڑی قدرت ظاہر ہوتی ہے اور انسان کو ان سے اللہ تعالیٰ کے پہچاننے کا بڑا موقع ملتا ہے مثلاً بڑے سے بڑے امیر شخص کو عزیروں کے مرنے یا کسی سخت مرض وغیرہ کے سبب سے کبھی ایسا رنج و غم پیش آجاتا ہے کہ ہر گھڑی اسے رونے سے کام رہتا ہے اس کا مال اس کے یار و مددگار اس کے ہنسی خوشی رہنے کی کوئی صورت نہیں نکال سکتے اور کبھی غریب سے غریب آدمی کو ایسی ہنسی خوشی سے رہنے کا ایسا سامان غیب سے پیدا ہوجاتا ہے کہ جو بیان سے باہر ہے مگر اتنی بات ہے کہ خود دنیا ناپائیدار اور اس کی خوشی اور رنج یہ سب ہری بھری چھائوں ہے وہ شخص بڑے ٹوٹے میں ہے جس نے یہاں کے عارضی ہنسی خوشی سے رہنے کے خیال میں عقبیٰ کا ہمیشہ کا رونا مول لیا۔ ابن ٢ ؎ ماجہ میں انس بن مالک (رض) سے اور مستدرک ٣ ؎ حاکم میں عبد اللہ بن قیس سے جو روایتیں ہیں۔ ان کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب روتے روتے اہل دوزخ کے آنسو سوکھ جائیں گے تو آنسوئوں کی جگہ ان کی آنکھوں سے خون بہنے لگے گا مگر وہاں کا رونا کچھ کام نہ آئے گا۔ اس حدیث کی سند میں ایک راوی یزید بن ابان رقاشی ہے جس کو بعض علماء نے ضعیف کہا ہے لیکن ابن معین اور ابن عدی نے اس کو ثقہ کہا ہے۔ وہی ہے مارتا اور جلاتا کا مطلب یہ ہے کہ ہر شخص کی عمر پوری ہوجانے کے بعد اس کا مرنا اور اس میں انسان کا لاچار ہونا یہ تو سب کی آنکھوں کے سامنے ہے پھر جس کی قدرت میں یہ ہے وہ اس پر بھی قادر ہے کہ مرنے کے بعد نیک و بد کے حساب و کتاب کے لئے انسان کو پھر دوبارہ پیدا کرے۔ جو لوگ اس کے منکر ہیں وہ خدا کو جھٹلاتے ہیں۔ قیامت کے دن جس کا خمیازہ بھگتیں گے ابوہریرہ (رض) ١ ؎ کی صحیح حدیث اوپر گزر چکی ہے جس کا حاصل یہ ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے انسان نے مجھ کو جھٹلایا میں نے اپنے کلام میں اس کے دوبارہ پیدا کرنے کی خبر دی اور وہ اس کا منکر ہے۔ ایک قطرہ منی عورت کے رحم میں جا کر کبھی اس سے لڑکا پیدا ہوتا ہے اور کبھی لڑکی یہ بھی اللہ کی ایک قدرت ہے جس میں انسان کا کچھ اختیار نہیں ورنہ جو لوگ لڑکی کے پیدا ہونے کو اچھا نہیں سمجھتے ہیں وہ لڑکی کے نہ پیدا ہونے کا ضرور کوئی علاج کرتے۔ اس پر لازم ہے دوسرا اٹھانا کا مطلب یہ ہے کہ اگرچہ اللہ پر کوئی چیز لازم نہیں لیکن جب اس نے اپنے کلام میں انسان کے دوبارہ پیدا کرنے کا وعدہ کیا ہے تو اس پر اس وعدہ کا پورا کرنا لازم ہے۔ اسی نے دولت دی اور پونجی کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں امیر و غریب بھی اللہ کی قدرت کی ایک نشانی ہے کہ کسی کے پاس حد سے زیادہ دولت ہے اور کوئی غریبانہ پونجی گزر کے قابل رکھتا ہے لیکن دنیا کا وہ امیر بڑا بےنصیب ہے جس نے یہاں کی امیری کے نشہ میں اپنی عقبیٰ خراب کرلی۔ کیونکہ عقبیٰ کی تکلیف کے آگے دنیا کی امیری کی راحت تو کبھی یاد بھی نہ آئے گی اور عقبیٰ کی ناقابل برداشت تکلیف اس نشہ کے طفیل سے ایسے لوگوں کو اٹھانی پڑے گی۔ چناچہ صحیح مسلم ٢ ؎ کی انس (رض) بن مالک کی حدیث اوپر گزر چکی ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ دنیا کے بڑے بڑے امیر جو دنیا کی راحت میں پھنس کر عقبیٰ سے غافل رہے اور آخر کو دوزخی قرار پائے۔ دوزخ کے پہلے ہی جھونکے میں دنیا کی سب راحت بھول جائیں گے وہی ہے رب شعریٰ کا۔ شعری ایک بہت بڑا تارا ہے جس کو عرب کے بعض قبیلے اسلام سے پہلے پوجا کرتے تھے۔ اس تارہ کی چال اور تاروں سے الگ ہے اور تاروں کی چال آسمان کی چوڑائی میں ہے اور یہ تارہ آسمان کی لمبائی کو طے کرتا ہے اس نادر بات کو اس تارے میں دیکھ کر ایک شخص ابو کبشہ نے عرب میں اس تارے کی پرستش کا رواج پھیلایا۔ جس طرح ابو کبشہ نے شعری کی پرستش کا ایک نیا رواج عرب میں پھیلایا اسی طرح اسلام کو ایک نیا رواج خیال کرکے اہل مکہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ابن ابی کبشہ کہا کرتے تھے۔ ١ ؎ یہ ابو کبشہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کئی پشت پرے کا نانا ہے جو قبیلے شعری کی پوجا کرتے تھے ان کو اس آیت میں یہ تنبیہ فرمائی کہ جس کی قدرت میں شعریٰ کا پیدا کرنا اس کا طلوع و غروب اس کی انوکھی چال کا مقرر کرنا ہے عبادت کے قابل وہ وحدہ لاشریک ہے۔ شعریٰ کو خدا کی خدائی میں کچھ دخل نہیں جو اس کو خدا کا شریک قرار دیا جائے۔ اب آگے چند پچھلی قوموں کے عذاب میں پکڑے جانے اور ہلاک ہوجانے کا ذکر فرما کر قریش کو یہ تنبیہ فرمائی کہ اگر یہ لوگ اپنی سرکشی اور اللہ کے رسول کی مخالفت سے باز نہ آئیں گے تو ان ہی قوموں کا سا انجام ان کا ہوگا ان قوموں کے قصے تفصیل سے اوپر گزر چکے ہیں۔ فبای الاء ربک تتماری میں پچھلی امتوں کی ہلاکت کے ذکر کو نعمت شمار کرنے کا یہ مطلب ہے کہ پچھلے لوگوں کی بری عادت سے حال کے لوگوں کو آگاہ کردینا بھی حال کے لوگوں کے لئے ایک بےبہا نصیحت کی نعمت ہے۔ (١ ؎ الترغیب والترہیب فصل فی ذکر الحساب وغیرہ ص ٧٥٦ ج ٤۔ ) (٢ ؎ الترغیب والترہیب فصل فی بکاء ھم و شھیقہم ص ٩١٨ ج ٤۔ ) (٣ ؎ الترغیب والترہیب فصل فی بکاء ھم و ثھیقہم ص ٩١٩ ج ٤۔ ) (١ ؎ صحیح بخاری تفسیر سورة قل ہو اللہ احد۔ ص ٧٤٣ ج ٢۔ ) (١ ؎ صحیح بخاری تفسیر سورة قل ہو اللہ احد۔ ص ٧٤٣ ج ٢۔ ) (١ ؎ صحیح بخاری باب کیف کان بدا الوحی الخ ص ٥ ج ١۔
(53:42) (4) وان الی ربک المنتھی : اور یہ کہ بیشک (ہرچیز کی) انتہاء تیرے رب تک (ختم) ہے منتھی انتھاء سے مصدر میمی ہے۔
وان الی ربک المنتھیٰ (٣٥ : ٢٤) ” اور یہ کہ آخر کار پہنچنا تیرے رب ہی کے پاس ہے “ لہٰذا کوئی اور راستہ نہیں ہے جو بھی راستہ ہے اس کی انتہا اللہ کے دربار پر ہونی ہے۔ اللہ کے سوا کوئی اور جائے پناہ نہیں۔ صرف اس کی پناہ گاہ ہے یا جنتوں میں ہے اور یا دوزخ میں ہے۔ اس حقیقت کا اثر انسانی شعور انسانی تصور اور انسانی عمل پر بہت ہی گہرا ہوتا ہے۔ جب انسان یہ محسوس کرتا ہے کہ اللہ کے حضور حاضری کے سوا تو کوئی چارہ نہیں لہٰذا وہ اپنے طرف عمل اور اپنے نفس کو اس کے لئے تیار کرتا ہے اور اس معاملے میں وہ سب کچھ کرتا ہے جو اس کے استطاعت میں ہو اور اس کا قلب ونظر اپنے آخری انجام کے ساتھ متعلق ہوتے ہیں اور اس کی نظریں آخری انجام پر لگی ہوتی ہے۔ انسانی سوچ کو اس آخری انجام اور آخری منزل تک پہنچا کر اسے پھر دنیا کے معاملات کی طرف واپس لایا جاتا ہے کہ اس دنیا میں بھی تمام امور اللہ کی مشیت کے مطابق طے ہوتے ہیں۔ اگرچہ انسان مختا رہے اور ذمہ دار ہے۔
﴿وَ اَنَّ اِلٰى رَبِّكَ الْمُنْتَهٰى ۙ٠٠٤٢﴾ (اور یہ کہ تیرے رب کے پاس پہنچنا ہے) اس دنیا میں جتنی بھی زندگی گزارلے آخر مرنا ہے بارگاہِ الٰہی میں حاضر ہونا ہے حسنات اور سیئات کا حساب دینا ہے یہ آیت کی ایک تفسیر ہے، دوسری تفسیر یہ کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ شانہ، کی مخلوقات میں غور کریں ان کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کریں اللہ تعالیٰ کی ذات عالی کے بارے میں غور نہ کریں کیونکہ اس کا ادراک نہیں ہوسکتا صاحب روح المعانی نے اس بارے میں بعض احادیث بھی نقل کی ہیں۔