Surat ul Qamar

Surah: 54

Verse: 10

سورة القمر

فَدَعَا رَبَّہٗۤ اَنِّیۡ مَغۡلُوۡبٌ فَانۡتَصِرۡ ﴿۱۰﴾

So he invoked his Lord, "Indeed, I am overpowered, so help."

پس اس نے اپنے رب سے دعا کی کہ میں بے بس ہوں تو میری مدد کر ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Then he invoked his Lord (saying): "I have been overcome, so help (me)!" meaning, `I am weak and cannot overcome or resist my people, so help Your religion!' Allah the Exalted said, فَفَتَحْنَا أَبْوَابَ السَّمَاء بِمَاء مُّنْهَمِرٍ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١١] سینکڑوں برس اپنی قوم پر مغز کھپانے اور ان کی طرف سے ایذائیں اور جھڑکیاں برداشت کرنے کے بعد آپ نے اس وقت دعا کی کہ جب کسی شخص کے مزید ایمان لانے سے آپ قطعاً مایوس ہوگئے تھے۔ اور دعا یہ کی تھی کہ ہم پر جو ظلم و ستم یہ لوگ ڈھا چکے ہیں ہماری مدد فرما کر ان سے بدلہ لے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَدَعَا رَبَّـہٗٓ اَنِّیْ مَغْلُوْبٌ فَانْتَصِرْ : نوح (علیہ السلام) نے یہ دعا اس وقت کی جب اللہ تعالیٰ نے انہیں اطلاع دی کہ اب تیری قوم میں سے کوئی ایمان نہیں لائے گا ۔ مزید دیکھئے سورة ٔ نوح (٢٦، ٢٧) کی تفسیر ۔” انتصر ینتصر “ انتام لینا ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَدَعَا رَبَّہٗٓ اَنِّىْ مَغْلُوْبٌ فَانْتَصِرْ۝ ١٠ دعا الدُّعَاء کالنّداء، إلّا أنّ النّداء قد يقال بيا، أو أيا، ونحو ذلک من غير أن يضمّ إليه الاسم، والدُّعَاء لا يكاد يقال إلّا إذا کان معه الاسم، نحو : يا فلان، وقد يستعمل کلّ واحد منهما موضع الآخر . قال تعالی: كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] ، ( د ع و ) الدعاء ( ن ) کے معنی ندا کے ہیں مگر ندا کا لفظ کبھی صرف یا آیا وغیرہ ہما حروف ندا پر بولا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان کے بعد منادٰی مذکور نہ ہو لیکن دعاء کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب حرف ندا کے ساتھ اسم ( منادی ) بھی مزکور ہو جیسے یا فلان ۔ کبھی یہ دونوں یعنی دعاء اور نداء ایک دوسرے کی جگہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔ غلب الغَلَبَةُ القهر يقال : غَلَبْتُهُ غَلْباً وغَلَبَةً وغَلَباً «4» ، فأنا غَالِبٌ. قال تعالی: الم غُلِبَتِ الرُّومُ فِي أَدْنَى الْأَرْضِ وَهُمْ مِنْ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ [ الروم/ 1- 2- 3] ( غ ل ب ) الغلبتہ کے معنی قہرا اور بالادستی کے ہیں غلبتہ ( ض ) غلبا وغلبتہ میں اس پر مستول اور غالب ہوگیا اسی سے صیغہ صفت فاعلی غالب ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ الم غُلِبَتِ الرُّومُ فِي أَدْنَى الْأَرْضِ وَهُمْ مِنْ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ [ الروم/ 1- 2- 3] الم ( اہل ) روم مغلوب ہوگئے نزدیک کے ملک میں اور وہ مغلوب ہونے کے بعد عنقریب غالب ہوجائیں گے انْتِصَارُ والاسْتِنْصَارُ وَالانْتِصَارُ والاسْتِنْصَارُ : طلب النُّصْرَة وَالَّذِينَ إِذا أَصابَهُمُ الْبَغْيُ هُمْ يَنْتَصِرُونَ [ الشوری/ 39] ، وَإِنِ اسْتَنْصَرُوكُمْ فِي الدِّينِ فَعَلَيْكُمُ النَّصْرُ [ الأنفال/ 72] ، وَلَمَنِ انْتَصَرَ بَعْدَ ظُلْمِهِ [ الشوری/ 41] ، فَدَعا رَبَّهُ أَنِّي مَغْلُوبٌ فَانْتَصِرْ [ القمر/ 10] وإنما قال :«فَانْتَصِرْ» ولم يقل : انْصُرْ تنبيهاً أنّ ما يلحقني يلحقک من حيث إنّي جئتهم بأمرك، فإذا نَصَرْتَنِي فقد انْتَصَرْتَ لنفسک، وَالتَّنَاصُرُ : التَّعاوُن . قال تعالی: ما لَكُمْ لا تَناصَرُونَ [ الصافات/ 25] لا نتصار والانتنصار کے منعی طلب نصرت کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَالَّذِينَ إِذا أَصابَهُمُ الْبَغْيُ هُمْ يَنْتَصِرُونَ [ الشوری/ 39] اور جو ایسے ہیں کہ جب ان پر ظلم وتعدی ہو تو مناسب طریقے سے بدلہ لیتے ہیں ۔ وَإِنِ اسْتَنْصَرُوكُمْ فِي الدِّينِ فَعَلَيْكُمُ النَّصْرُ [ الأنفال/ 72] اور اگر وہ تم سے دین کے معاملات میں مدد طلب کریں تو تم کو مدد کرتی لا زم ہے ۔ وَلَمَنِ انْتَصَرَ بَعْدَ ظُلْمِهِ [ الشوری/ 41] اور جس پر ظلم ہوا ہو وہ اگر اس کے بعد انتقام لے ۔ فَدَعا رَبَّهُ أَنِّي مَغْلُوبٌ فَانْتَصِرْ [ القمر/ 10] تو انہوں نے اپنے پروردگار سے دعا کی کہ ( بار الہ میں ان کے مقابلے میں کمزور ہوں ان سے ) بدلہ لے ۔ میں انصر کی بجائے انتصر کہنے سے بات پر متنبہ کیا ہے کہ جو تکلیف مجھے پہنچ رہی ہے وہ گویا تجھے ذات باری تعالیٰ پہنچ رہی ہے وہ گویا تجھے ( ذات باری تعا لی پہنچ رہی ہے کیو ن کہ میں تیرے حکم سے ان کے پاس گیا تھا لہذا میری مدد فر مانا گو یا یا تیرا اپنی ذات کے لئے انتقام لینا ہے ۔ لتنا صر کے معنی باہم تعاون کرنے کے ہیں ۔ چنا نچہ قرآن میں ہے : ما لَكُمْ لا تَناصَرُونَ [ الصافات/ 25] تم کو کیا ہوا کہ ایک دوسرے کی مدد نہیں کرتے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

تو نوح نے دعا کی کہ میں درماندہ ہوں آپ ان پر عذاب نازل کر کے ان سے انتقام لے لیجیے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٠ { فَدَعَا رَبَّـہٗٓ اَنِّیْ مَغْلُوْبٌ فَانْتَصِرْ ۔ } ” تو اس نے پکارا اپنے رب کو کہ میں مغلوب ہوچکا ہوں ‘ اب تو ُ ان سے انتقام لے۔ “ رسولوں (علیہ السلام) کی مدد کے حوالے سے اللہ تعالیٰ کے قانون کا ذکر سورة الصّٰفٰت میں اس طرح آیا ہے : { وَلَقَدْ سَبَقَتْ کَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا الْمُرْسَلِیْنَ ۔ اِنَّہُمْ لَہُمُ الْمَنْصُوْرُوْنَ ۔ وَاِنَّ جُنْدَنَا لَہُمُ الْغٰلِبُوْنَ ۔ } ” اور ہماری یہ بات پہلے سے طے شدہ ہے اپنے ان بندوں کے لیے جن کو ہم (رسول بنا کر) بھیجتے رہے ہیں ‘ کہ ان کی لازماً مدد کی جائے گی۔ اور یقینا ہمارا لشکر ہی غالب رہے گا۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(54:10) فدعا ربہ : یعنی جب سینکڑوں برس سمجھانے پر کوئی بھی ایمان نہ لایا اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی آگئی کہ جس کے نصیب میں ایمان لانا تھا وہ لے آئے اب آئندہ کوئی بھی ایمان نہ لائے گا۔ تو حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنے رب سے درخواست کی کہ میں ان کی حرکتوں سے آچکا ہوں اب تو ہی میری مدد کر۔ فانتصر : ف سببیہ ہے۔ پس اس لئے۔ انتصر امر واحد مذکر حاضر۔ انتصار (افتعال) مصدر سے ، تو مدد کر ، تو میری مدد کر۔ تو بدلہ لے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

فدعا ربہ انی ملغوب فانتصر (54:10) ” آخر کار اس نے رب کو پکارا کہ میں مغلوب ہوچکا ہوں اب تو ان سے انتقام لے “ میری طاقت ختم ہوگئی۔ میں نے اپنی پوری جدوجہد کردی۔ قوتیں جواب دے گئیں اور یہ تیرا کام ہے اور انکار اور کفر مجھ پر غالب آگیا۔ لہٰذا تو ہی مدد کر۔ اے اللہ اب تو ہی ان سے انتقام لے۔ اپنی دعوت کا بدلہ لے۔ سچائی کا ساتھ دے۔ اپنے نظام کی مدد تو ہی کر حکم تیرا ہے جدوجہد تیرے لئے ہے میرا کردار اب ختم ہے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کا یہ کہنا تھا اور رسول خدا کی طرف سے معاملہ رب تعالیٰ کے سپرد کرنا تھا جو جبار وقہار ہے کہ دست قدرت نے اپنا کام شروع کردیا اور اس زمین کو ان سے صاف کردیا گیا۔ عذاب الٰہی کا چکریوں چلنا شروع ہوا کہ تمام طیبعی قوتوں نے اپنا کام شروع کردیا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

8:۔ ” فدعا ربہ “ جب نوح (علیہ السلام) اپنی قوم سے مایوس ہوگئے تو اللہ سے دعا کی کہ میں ان کے عناد و تعنت کی وجہ سے مغلوب ہوچکا ہوں اور اب وہ ایمان نہیں لائیں گے، اس لیے اب ان کو ہلاک کردے اور ان سے انتقام لے لے، کیونکہ میں تو ان سے انتقام نہیں لے سکتے۔ ففتحنا ابواب السماء الخ تو ہم نے آسمان کے دروازے کھول دئیے اور پرنالوں کی طرح آسمان سے پانی بہنے لگا۔ آسمان کے دروازے کھولنا کثرت بارش سے کنایہ ہے۔ اور زمین سے پانی کے چشمے جاری کردئیے۔ فالتقی الماء الخ۔ زمین و آسمان کا پانی مل کر اس اندازے کو پہنچ گیا جو اللہ نے مقرر فرمایا تھا یعنی پانی کی سطح اس قدر بلند ہوگئی جتنی اللہ کو منظور تھ۔ یا علی تعلیلیہ ہے اور مطلب یہ ہے کہ زمین و آسمان کا پانی اس مقصد کو پورا کرنے کے لیے مل گیا جو اللہ نے پہلے سے مقدر کر رکھا تھا یعنی قوم نوح (علیہ السلام) کی ہلاکت اور تباہی۔ او علی امر قدرہ اللہ تعالیٰ وکتبہ فی اللوح المحفوظ وھو ھلاک قوم نوح بالطوفان و (علی) علیہ للتعلیل (روح ج 27 ص 82) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(10) پھرنوح (علیہ السلام) نے اپنے پروردگار سے دعا کی کہ میں مغلوب ہوگیا ہوں اور دب گیا ہوں سو تو ان سے میرا بدلا لے ۔