Surat ul Qamar

Surah: 54

Verse: 16

سورة القمر

فَکَیۡفَ کَانَ عَذَابِیۡ وَ نُذُرِ ﴿۱۶﴾

And how [severe] were My punishment and warning.

بتاؤ میرا عذاب اور میری ڈرانے والی باتیں کیسی رہیں؟

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Then how (terrible) was My torment and My warnings? means, `how terrible was My torment that I inflicted on those who disbelieved in Me and denied My Messengers, who did not heed to My warnings How was My help that I extended to My Messengers and the revenge exerted on their behalf,'

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

۔ فَکَیْفَ کَانَ عَذَابِیْ وَنُذُرِ :” نذر “ فراء نے فرمایا :” انداز “ اور ” نذر “ مصدر ہیں ۔ ( فتح القدیر) یہاں ” نذر “ اصل میں ” نذری “ ( میرا ڈرانا) تھا ، آیات کے فواصل کی مطابقت کے لیے ” یائ “ خذف ہوگئی ، اس کی دلیل کے طور پر ” رائ “ پر کسرہ باقی رہا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَكَيْفَ كَانَ عَذَابِيْ وَنُذُرِ۝ ١٦ كيف كَيْفَ : لفظ يسأل به عمّا يصحّ أن يقال فيه : شبيه وغیر شبيه، كالأبيض والأسود، والصحیح والسّقيم، ولهذا لا يصحّ أن يقال في اللہ عزّ وجلّ : كيف، وقد يعبّر بِكَيْفَ عن المسئول عنه كالأسود والأبيض، فإنّا نسمّيه كيف، وكلّ ما أخبر اللہ تعالیٰ بلفظة كَيْفَ عن نفسه فهو استخبار علی طریق التنبيه للمخاطب، أو توبیخا نحو : كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ [ البقرة/ 28] ، كَيْفَ يَهْدِي اللَّهُ [ آل عمران/ 86] ، كَيْفَ يَكُونُ لِلْمُشْرِكِينَ عَهْدٌ [ التوبة/ 7] ، انْظُرْ كَيْفَ ضَرَبُوا لَكَ الْأَمْثالَ [ الإسراء/ 48] ، فَانْظُرُوا كَيْفَ بَدَأَ الْخَلْقَ [ العنکبوت/ 20] ، أَوَلَمْ يَرَوْا كَيْفَ يُبْدِئُ اللَّهُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ [ العنکبوت/ 19] . ( ک ی ف ) کیف ( اسم استفہام ) اس چیز کی حالت در یافت کرنے کے لئے آتا ہے جس پر کہ شیبہ اور غیر شیبہ کا لفظ بولا جاسکتا ہو جیسے ابیض ( سفید اسود ( سیاہی ) صحیح ( تندرست ) سقیم ( بیمار ) وغیرہ ۔ لہذا اللہ تعالیٰ کے متعلق اس کا استعمال جائز نہیں ہے اور کبھی اس چیز پر بھی کیف کا اطلاق کردیتے ہیں جس کے متعلق سوال کر نا ہو مثلا کہا جاتا ہے کہ اسود اور ابیض مقولہ کیف سے ہیں اور جہاں کہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے متعلق کیف کا لفظ استعمال کیا ہے تو وہ تنبیہ یا قو بیخ کے طور پر مخاطب سے استخبار کے لئے لایا گیا ہے جیسے فرمایا : ۔ كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ [ البقرة/ 28] کافرو تم خدا سے کیونکر منکر ہوسکتے ہو ۔ كَيْفَ يَهْدِي اللَّهُ [ آل عمران/ 86] خدا ایسے لوگوں کو کیونکر ہدایت دے ۔ كَيْفَ يَكُونُ لِلْمُشْرِكِينَ عَهْدٌ [ التوبة/ 7] بھلا مشرکوں کے لئے کیونکر قائم رہ سکتا ہے ۔ انْظُرْ كَيْفَ ضَرَبُوا لَكَ الْأَمْثالَ [ الإسراء/ 48] دیکھو انہوں نے کس کس طرح کی تمہارے بارے میں باتیں بنائیں ۔ فَانْظُرُوا كَيْفَ بَدَأَ الْخَلْقَ [ العنکبوت/ 20] اور دیکھو کہ اس نے کس طرح خلقت کو پہلی مر تبہ پیدا کیا ۔ أَوَلَمْ يَرَوْا كَيْفَ يُبْدِئُ اللَّهُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ [ العنکبوت/ 19] کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ خدا کسی طرح خلقت کو پہلی بار پیدا کرتا پھر کس طرح اس کو بار بار پیدا کرتا رہتا ہے ۔ عذب والعَذَابُ : هو الإيجاع الشّديد، وقد عَذَّبَهُ تَعْذِيباً : أكثر حبسه في العَذَابِ. قال : لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل/ 21] واختلف في أصله، فقال بعضهم : هو من قولهم : عَذَبَ الرّجلُ : إذا ترک المأكل والنّوم فهو عَاذِبٌ وعَذُوبٌ ، فَالتَّعْذِيبُ في الأصل هو حمل الإنسان أن يُعَذَّبَ ، أي : يجوع ويسهر، ( ع ذ ب ) العذاب سخت تکلیف دینا عذبہ تعذیبا اسے عرصہ دراز تک عذاب میں مبتلا رکھا ۔ قرآن میں ہے ۔ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل/ 21] میں اسے سخت عذاب دوں گا ۔ لفظ عذاب کی اصل میں اختلاف پا یا جاتا ہے ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عذب ( ض ) الرجل کے محاورہ سے مشتق ہے یعنی اس نے ( پیاس کی شدت کی وجہ سے ) کھانا اور نیند چھوڑدی اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب وعذوب کہا جاتا ہے لہذا تعذیب کے اصل معنی ہیں کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر اکسانا نذر وَالإِنْذارُ : إخبارٌ فيه تخویف، كما أنّ التّبشیر إخبار فيه سرور . قال تعالی: فَأَنْذَرْتُكُمْ ناراً تَلَظَّى[ اللیل/ 14] والنَّذِيرُ : المنذر، ويقع علی كلّ شيء فيه إنذار، إنسانا کان أو غيره . إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُبِينٌ [ نوح/ 2] ( ن ذ ر ) النذر الا نذار کے معنی کسی خوفناک چیز سے آگاہ کرنے کے ہیں ۔ اور اس کے بالمقابل تبشیر کے معنی کسی اچھی بات کی خوشخبری سنا نیکے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَأَنْذَرْتُكُمْ ناراً تَلَظَّى[ اللیل/ 14] سو میں نے تم کو بھڑکتی آگ سے متنبہ کردیا ۔ النذ یر کے معنی منذر یعنی ڈرانے والا ہیں ۔ اور اس کا اطلاق ہر اس چیز پر ہوتا ہے جس میں خوف پایا جائے خواہ وہ انسان ہو یا کوئی اور چیز چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُبِينٌ [ الأحقاف/ 9] اور میرا کام تو علانیہ ہدایت کرنا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٦ { فَکَیْفَ کَانَ عَذَابِیْ وَنُذُرِ ۔ } ” تو کیسا رہا میرا عذاب اور میرا خبردار کرنا ! “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(54:16) نذر۔ اصل میں نذری تھا۔ نذر اور انذار دونوں مصدر ہیں اور ہم معنی ہیں۔ جیسے انفاق ونفقۃ اور یقین وایقان۔ نذری۔ میرا ڈرانا۔ استفہام عذاب کی عظمت اور اس کی ہولناکی کو ظاہر کرنے کے لئے ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

فکیف ............ ونذر (54:16) ” دیکھ لو کیا میرا عذاب اور کیسی تھیں میری تنبیہات “ بہرحال ایسا ہی ہوا جس طرح قرآن نے تصویر کشی کی ہے۔ یہ ایک سخت تباہ کن عذاب تھا جس نے تمام مجرموں کو نیست ونابود کرکے رکھ دیا اور ڈرانے والے کا ڈراوا سچا ہوگیا یہ ہے قرآن کا انداز بیان نہایت سہل ، قابل فہم ، پڑھنے والے کے لئے خوب جازبیت کا حامل تاکہ ہر کوئی پڑھے اور تدبر کرے۔ سادہ سچائی کی جاذبیت کا حامل ، فطرت کے مطابق اور ہر طبیعت کے لئے پرجوش ، جس کے عجائبات ختم ہونے کا نام نہیں لیتے۔ اسے بار بار پڑھئے ہر بار نیا نظر آئے گا۔ جب بھی کوئی اس پر تدبر کرے اسے ایک نیا مفہوم اور نیا نکتہ ملے گا۔ جس قدر اس کے ساتھ کوئی نفس انسانی صحبت اختیار کرے اس کی محبت میں اضافہ ہی ہوتا جائے گا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

﴿فَكَيْفَ كَانَ عَذَابِيْ وَ نُذُرِ ٠٠١٦﴾ (سو کیسا تھا میرا عذاب اور میرا ڈرانا) مطلب یہ ہے کہ امم سابقہ کے واقعات محض حکایت کے لیے نہیں ہیں ان سے عبرت حاصل کرنا لازم ہے پرانی امتوں کی جو ہلاکت ہوئی وہ یوں ہی ذرا بہت تھوری سی تکلیف نہیں تھی وہ تو بہت بڑا عذاب تھا پڑھنے اور سننے والے سوچیں اور غور کریں اس بھیانک عذاب کی سختی اور ہولناکی کو ذہن میں لائیں اور ساتھ ہی یہ بھی غور کریں کہ اگر ہم برابر انکار کرتے رہیں اور اللہ کے رسول اور اس کتاب کے جھٹلانے پر کمر باندھے رہیں تو ہمارا بھی ایسا ہی انجام ہوسکتا ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(16) پھر دیکھا میرا عذاب اور میرا ڈرانا کیسا ہوا۔ یعنی نافرمانوں کے ساتھ کیسا سلوک ہوا۔