Surat ul Qamar

Surah: 54

Verse: 20

سورة القمر

تَنۡزِعُ النَّاسَ ۙ کَاَنَّہُمۡ اَعۡجَازُ نَخۡلٍ مُّنۡقَعِرٍ ﴿۲۰﴾

Extracting the people as if they were trunks of palm trees uprooted.

جو لوگوں کو اٹھا اٹھا کر دے پٹختی تھی گویا کہ وہ جڑ سے کٹے ہوئے کھجور کے تنے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Plucking out men as if they were uprooted stems of date palms. The wind would pluck one of them and raise him high, until he could no longer be seen, and then violently send him down on his head to the ground. His head would be smashed and only his body would be left, headless, ... كَأَنَّهُمْ أَعْجَازُ نَخْلٍ مُّنقَعِرٍ فَكَيْفَ كَانَ عَذَابِي وَنُذُرِ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٩] قوم عاد اور اس کا انجام :۔ یہ عذاب انتہائی تیز رفتار آندھی کی شکل میں تھا اور یہ ہوا نہایت ٹھنڈی تھی جو ان کے گھروں میں گھس جاتی تھی۔ درختوں کو بھی جڑ سے اکھاڑ کر پھینک رہی تھی اور قوم کے قدو قامت، ڈیل ڈول اور مضبوط اور طاقتور جسم والے لوگوں کو بھی پاؤں سے اکھاڑ کر زمین پر پٹخ دیتی تھی۔ جس سے ان کی گردنیں ٹوٹ جاتی تھیں اور یوں معلوم ہوتا تھا کہ وہ بھی کھجوروں کے جڑ سے اکھڑے ہوئے درخت ہی ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

تَنْزِعُ النَّاسَ کَاَنَّھُمْ اَعْجَازُ نَخْلٍ مُّنْقَعِرٍ :” نزع یتنزع نزعا “ ( ع) ” الشی من مکانہ “ کی چیز کو اس کی جگہ سے اکھاڑ پھینکنا۔” منقعر “ ” قعر “ (گہرائی) سے ہے ، اکھڑا ہوا ۔ مزید دیکھئے سورة ٔ طاقہ (٧) کی تفسیر۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

تَنْزِعُ النَّاسَ۝ ٠ ۙ كَاَنَّہُمْ اَعْجَازُ نَخْلٍ مُّنْقَعِرٍ۝ ٢٠ نزع نَزَعَ الشیء : جَذَبَهُ من مقرِّه كنَزْعِ القَوْس عن کبده، ويُستعمَل ذلک في الأعراض، ومنه : نَزْعُ العَداوة والمَحبّة من القلب . قال تعالی: وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍ [ الأعراف/ 43] . وَانْتَزَعْتُ آيةً من القرآن في كذا، ونَزَعَ فلان کذا، أي : سَلَبَ. قال تعالی: تَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشاءُ [ آل عمران/ 26] ، وقوله : وَالنَّازِعاتِ غَرْقاً [ النازعات/ 1] قيل : هي الملائكة التي تَنْزِعُ الأرواح عن الأَشْباح، وقوله :إِنَّا أَرْسَلْنا عَلَيْهِمْ رِيحاً صَرْصَراً فِي يَوْمِ نَحْسٍ مُسْتَمِرٍّ [ القمر/ 19] وقوله : تَنْزِعُ النَّاسَ [ القمر/ 20] قيل : تقلع الناس من مقرّهم لشدَّة هبوبها . وقیل : تنزع أرواحهم من أبدانهم، والتَّنَازُعُ والمُنَازَعَةُ : المُجَاذَبَة، ويُعَبَّرُ بهما عن المخاصَمة والمُجادَلة، قال : فَإِنْ تَنازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ [ النساء/ 59] ، فَتَنازَعُوا أَمْرَهُمْ بَيْنَهُمْ [ طه/ 62] ، والنَّزْعُ عن الشیء : الكَفُّ عنه . والنُّزُوعُ : الاشتیاق الشّديد، وذلک هو المُعَبَّر عنه بإِمحَال النَّفْس مع الحبیب، ونَازَعَتْنِي نفسي إلى كذا، وأَنْزَعَ القومُ : نَزَعَتْ إِبِلُهم إلى مَوَاطِنِهِمْ. أي : حَنَّتْ ، ورجل أَنْزَعُ : زَالَ عنه شَعَرُ رَأْسِهِ كأنه نُزِعَ عنه ففارَقَ ، والنَّزْعَة : المَوْضِعُ من رأسِ الأَنْزَعِ ، ويقال : امرَأَةٌ زَعْرَاء، ولا يقال نَزْعَاء، وبئر نَزُوعٌ: قریبةُ القَعْرِ يُنْزَعُ منها بالید، وشرابٌ طَيِّبُ المَنْزَعَةِ. أي : المقطَع إذا شُرِبَ كما قال تعالی: خِتامُهُ مِسْكٌ [ المطففین/ 26] . ( ن زع ) نزع ( ن زع ) نزع اشئی کے معنی کسی چیز کو اس کی قرار گاہ سے کھینچنے کے ہیں ۔ جیسا کہ کمانکو در میان سے کھینچا جاتا ہے اور کبھی یہ لفظ اعراض کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور محبت یا عداوت کے دل سے کھینچ لینے کو بھی نزع کہا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍ [ الأعراف/ 43] اور جو کینے ان کے دلوں میں ہوں گے ۔ ہم سب نکال ڈالیں گے ۔ آیت کو کسی واقعہ میں بطور مثال کے پیش کرنا ۔ نزع فلان کذا کے معنی کسی چیز کو چھین لینے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ تَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشاءُ [ آل عمران/ 26] اور جس سے چاہے بادشاہی چھین لے اور آیت کریمہ : ۔ وَالنَّازِعاتِ غَرْقاً [ النازعات/ 1] ان فرشتوں کی قسم جو ڈوب کر کھینچ لیتے ہیں ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ نازعات سے مراد فرشتے ہیں جو روحوں کو جسموں سے کھینچتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّا أَرْسَلْنا عَلَيْهِمْ رِيحاً صَرْصَراً فِي يَوْمِ نَحْسٍ مُسْتَمِرٍّ [ القمر/ 19] ہم نے ان پر سخت منحوس دن میں آندھی چلائی وہ لوگوں کو اس طرح اکھیڑ ڈالتی تھی ۔ میں تنزع الناس کے معنی یہ ہیں کہ وہ ہو اپنی تیز کی وجہ سے لوگوں کو ان کے ٹھکانوں سے نکال باہر پھینک دیتی تھی بعض نے کہا ہے کہ لوگوں کی روحوں کو ان کے بد نوں سے کھینچ لینا مراد ہے ۔ التنازع والمنازعۃ : باہم ایک دوسرے کو کھینچا اس سے مخاصمت اور مجا دلہ یعنی باہم جھگڑا کرنا مراد ہوتا ہے ۔ چناچہ ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِنْ تَنازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ [ النساء/ 59] اور اگر کسی بات میں تم میں اختلاف واقع ہو تو رجوع کرو ۔ فَتَنازَعُوا أَمْرَهُمْ بَيْنَهُمْ [ طه/ 62] تو وہ باہم اپنے معاملہ میں جھگڑنے لگے ۔ النزع عن الشئی کے معنی کسی چیز سے رک جانے کے ہیں اور النزوع سخت اشتیاق کو کہتے ہیں ۔ وناز عتنی نفسی الیٰ کذا : نفس کا کسی طرف کھینچ کرلے جانا کس کا اشتیاق غالب آجانا ۔ انزع القوم اونٹوں کا پانے وطن کا مشتاق ہونا رجل انزع کے معنی سر کے بال بھڑ جانا کے ہیں ۔ اور نزعۃ سر کے اس حصہ کو کہتے ہیں جہاں سے بال جھڑ جائیں ۔ اور تانیث کے لئے نزعاء کی بجائے زعراء کا لفظ استعمال ہوتا ہے بئر نزدع کم گہرا کنواں جس سے ہاتھ کے نوس النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب، قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس/ 1] ( ن و س ) الناس ۔ بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس/ 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔ عجز عَجُزُ الإنسانِ : مُؤَخَّرُهُ ، وبه شُبِّهَ مُؤَخَّرُ غيرِهِ. قال تعالی: كَأَنَّهُمْ أَعْجازُ نَخْلٍ مُنْقَعِرٍ [ القمر/ 20] ، والعَجْزُ أصلُهُ التَّأَخُّرُ عن الشیء، وحصوله عند عَجُزِ الأمرِ ، أي : مؤخّره، كما ذکر في الدّبر، وصار في التّعارف اسما للقصور عن فعل الشیء، وهو ضدّ القدرة . قال تعالی: أَعَجَزْتُ أَنْ أَكُونَ [ المائدة/ 31] ، وأَعْجَزْتُ فلاناً وعَجَّزْتُهُ وعَاجَزْتُهُ : جعلته عَاجِزاً. قال : وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِي اللَّهِ [ التوبة/ 2] ، وَما أَنْتُمْ بِمُعْجِزِينَ فِي الْأَرْضِ [ الشوری/ 31] ، وَالَّذِينَ سَعَوْا فِي آياتِنا مُعاجِزِينَ [ الحج/ 51] ، وقرئ : معجزین فَمُعَاجِزِينَ قيل : معناه ظانّين ومقدّرين أنهم يُعْجِزُونَنَا، لأنهم حسبوا أن لا بعث ولا نشور فيكون ثواب و عقاب، وهذا في المعنی کقوله : أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ السَّيِّئاتِ أَنْ يَسْبِقُونا [ العنکبوت/ 4] ، و «مُعَجِّزِينَ» : يَنسُبُون إلى العَجْزِ مَن تَبِعَ النبيَّ صلّى اللہ عليه وسلم، وذلک نحو : جهّلته وفسّقته، أي : نسبته إلى ذلك . وقیل معناه : مثبّطين، أي : يثبّطون الناس عن النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم کقوله : الَّذِينَ يَصُدُّونَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ [ الأعراف/ 45] ، وَالعَجُوزُ سمّيت لِعَجْزِهَا في كثير من الأمور . قال تعالی: إِلَّا عَجُوزاً فِي الْغابِرِينَ [ الصافات/ 135] ، وقال : أَأَلِدُ وَأَنَا عَجُوزٌ [هود/ 72] . ( ع ج ز ) عجز الانسان عجز الانسان ۔ انسان کا پچھلا حصہ تشبیہ کے طور ہر چیز کے پچھلے حصہ کو عجز کہہ دیا جاتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ كَأَنَّهُمْ أَعْجازُ نَخْلٍ مُنْقَعِرٍ [ القمر/ 20] جیسے کھجوروں کے کھو کھلے تنے ۔ عجز کے اصلی معنی کسی چیز سے پیچھے رہ جانا یا اس کے ایسے وقت میں حاصل ہونا کے ہیں جب کہ اسکا وقت نکل جا چکا ہو جیسا کہ لفظ کسی کام کے کرنے سے قاصر رہ جانے پر بولا جاتا ہے اور یہ القدرۃ کی ضد ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ أَعَجَزْتُ أَنْ أَكُونَ [ المائدة/ 31] اے ہے مجھ سے اتنا بھی نہ ہوسکا کہ میں ۔۔۔۔ ۔ اعجزت فلانا وعجزتہ وعاجزتہ کے معنی کسی کو عاجز کردینے کے ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِي اللَّهِ [ التوبة/ 2] اور جان رکھو کہ تم خدا کو عاجز نہیں کرسکو گے ۔ وَما أَنْتُمْ بِمُعْجِزِينَ فِي الْأَرْضِ [ الشوری/ 31] اور تم زمین میں خدا کو عاجز نہیں کرسکتے ۔ وَالَّذِينَ سَعَوْا فِي آياتِنا مُعاجِزِينَ [ الحج/ 51] اور جہنوں نے ہماری آیتوں میں کوشش کی کہ ہمیں ہرادیں گے ۔ ایک قرات میں معجزین ہے معاجزین کی صورت میں اس کے معنی ہوں گے وہ یہ زعم کرتے ہیں کہ ہمیں بےبس کردیں گے کیونکہ وہ یہ گمان کرچکے ہیں کہ حشر ونشر نہیں ہے کہ اعمال پر جذا وسزا مر تب ہو لہذا یہ باعتبار معنی آیت کریمہ : أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ السَّيِّئاتِ أَنْ يَسْبِقُونا [ العنکبوت/ 4] کیا وہ لوگ جو برے کام کرتے ہیں یہ سمجھے ہوئے ہیں کہ ہمارے قابو سے نکل جائیں گے ۔ کے مترادف ہوگا اور اگر معجزین پڑھا جائے تو معنی یہ ہوں گے کہ وہ آنحضرت کے متبعین کیطرف عجز کی نسبت کرتے ہیں جیسے جھلتہ وفسقتہ کے معنی کسی کی طرف جہالت یا فسق کی نسبت کرنا کے ہوتے ہیں ۔ اور بعض کے نزدیک معجزین بمعنی مثبطین ہے یعنی لوگوں کو آنحضرت کی اتباع سے روکتے ہیں جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : ۔ الَّذِينَ يَصُدُّونَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ [ الأعراف/ 45] جو خدا کی راہ سے روکتے ( ہیں ) اور بڑھیا کو عجوز اس لئے کہا جاتا ہے کہ یہ بھی اکثر امور سے عاجز ہوجاتی ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ إِلَّا عَجُوزاً فِي الْغابِرِينَ [ الصافات/ 135] مگر ایک بڑھیا کہ پیچھے رہ گئی ۔ أَأَلِدُ وَأَنَا عَجُوزٌ [هود/ 72] اے ہے میرے بچہ ہوگا اور میں تو بڑھیا ہوں ۔ نخل النَّخْلُ معروف، وقد يُستعمَل في الواحد والجمع . قال تعالی: كَأَنَّهُمْ أَعْجازُ نَخْلٍ مُنْقَعِرٍ [ القمر/ 20] وقال : كَأَنَّهُمْ أَعْجازُ نَخْلٍ خاوِيَةٍ [ الحاقة/ 7] ، وَنَخْلٍ طَلْعُها هَضِيمٌ [ الشعراء/ 148] ، وَالنَّخْلَ باسِقاتٍ لَها طَلْعٌ نَضِيدٌ [ ق/ 10] وجمعه : نَخِيلٌ ، قال : وَمِنْ ثَمَراتِ النَّخِيلِ [ النحل/ 67] والنَّخْلُ نَخْل الدّقيق بِالْمُنْخُل، وانْتَخَلْتُ الشیءَ : انتقیتُه فأخذْتُ خِيارَهُ. ( ن خ ل ) النخل ۔ کھجور کا درخت ۔ یہ واحد جمع دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : كَأَنَّهُمْ أَعْجازُ نَخْلٍ خاوِيَةٍ [ الحاقة/ 7] جیسے کھجوروں کے کھوکھلے تنے ۔ كَأَنَّهُمْ أَعْجازُ نَخْلٍ مُنْقَعِرٍ [ القمر/ 20] اور کھجوریں جن کے خوشے لطیف اور نازک ہوتے ہیں ۔ وَالنَّخْلَ باسِقاتٍ لَها طَلْعٌ نَضِيدٌ [ ق/ 10] اور لمبی لمبی کھجوریں جن کا گا بھاتہ بہ تہ ہوتا ہے اس کی جمع نخیل آتی ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَمِنْ ثَمَراتِ النَّخِيلِ [ النحل/ 67] اور کھجور کے میووں سے بھی ۔ النخل ( مصدر کے معنی چھلنی سے آٹا چھاننے کے ہیں اور انتخلت الشئی کے معنی عمدہ چیز منتخب کرلینے کے ؛ قعر قَعْرُ الشیء : نهاية أسفله . وقوله : كَأَنَّهُمْ أَعْجازُ نَخْلٍ مُنْقَعِرٍ [ القمر/ 20] أي : ذاهب في قعر الأرض . وقال بعضهم : انْقَعَرَتِ الشّجرة : انقلعت من قعرها، وقیل : معنی انْقَعَرَتْ : ذهبت في قعر الأرض، وإنما أراد تعالیٰ أنّ هؤلاء اجتثّوا کما اجتثّ النّخل الذاهب في قعر الأرض، فلم يبق لهم رسم ولا أثر، وقصعة قَعِيرَةٌ: لها قعر، وقَعَّرَ فلان في کلامه : إذا أخرج الکلام من قعر حلقه، وهذا کما يقال : شدّق في کلامه : إذا أخرجه من شدقه . ( ق ع ر ) قعر الشئی کے معنی کسی چیز کی گہرائی کی انتہاء کے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ كَأَنَّهُمْ أَعْجازُ نَخْلٍ مُنْقَعِرٍ [ القمر/ 20] کہ گویا اکھڑی ہوئی کھجوروں کے تنے ہیں ۔ میں نخلمنقعر سے کھجور کے وہ درخت مراد ہیں جن کی جڑیں زمین کی گہرائی تک چلی گئی ہوں اور بعض نے کہا سے کہ انقعدت الشجرۃ کے معنی درخت کے زمین کی گہرائی سے اکھڑ جانے کے ہیں اور بقول بعض اس کے معنی زمین کی کہرائی تک چلے جانے کے ہیں اور آیت کے معنی یہ ہیں کہ جس طرح زمین کی گہرائی تک چلے جانے والے نخلتہ کو جڑ سے اکھاڑ دیا جائے تو اس کا کوئی نشان باقی نہیں رہتا یہی مثال ان لوگوں کی ہے کہ ان کا کوئی نام نشان باقی نہیں رہے گا ۔ قصعۃ قعیرۃ گہرا پیالہ قعر فلان فی کلامہ : حلق سے آواز نکا لنا جیسا کہ جبڑے سے آواز نکالنے کو شدق کہا جاتا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٠ { تَنْزِعُ النَّاسَ لا کَاَنَّـہُمْ اَعْجَازُ نَخْلٍ مُّنْقَعِرٍ ۔ } ” وہ لوگوں کو یوں اکھاڑ پھینکتی تھی جیسے وہ کھجور کے تنے ہوں اکھڑی ہوئی جڑوں والے۔ “ طویل القامت ہونے کی وجہ سے ان لوگوں کو کھجور کے تنوں کے ساتھ تشبیہہ دی گئی ہے کہ ہوا کے اس عذاب کی وجہ سے وہ مردہ حالت میں زمین پر ایسے پڑے تھے جیسے جڑوں سے اکھڑے ہوئے کھجوروں کے تنے پڑے ہوں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(54:20) تنزع مضارع واحد مؤنث غائب، نزع (باب ضرب) مصدر سے جس کے معنی ہیں کسی چیز اپنی جگہ سے اکھاڑنے اور کھینچ لینے کے ۔ یعنی وہ (لوگوں کو) جڑوں سے اکھاڑ پھینکی ہے (بعض نے آندھی کے زور سے ہوا میں اڑجانا مراد لیا ہے۔ امام راغب (رح) لکھتے ہیں :۔ انا ارسلنا ۔۔ تنزع الناس (آیت 19:20) ہم نے ان پر سخت منحوس دن میں آندھی چلائی وہ لوگوں کو اس طرح اکھاڑ ڈالتی تھی۔ میں تنزع الناس کے معنی یہ ہیں کہ وہ ہوا اپنی تیزی کی وجہ سے لوگوں کو ان کے ٹھکانے سے نکال باہر پھینکتی تھی۔ درسی جگہ قرآن مجید میں ہے :۔ تؤتی الملک من تشاء وتنزع الملک ممن تشاء (3:26) اور تو جس کو بادشاہی بخشے اور جس سے چاہے بادشاہی چھین لے۔ تنزع الناس وہ لوگوں کو اس طرح اکھیڑے ڈالتی تھی۔ کانھم : گویا وہ سب : نیز ملاحظہ ہو 54:7 متذکرۃ الصدر۔ اعجاز نخل منقعر : اعجاز مضاف نخل منقعر موصوف و صفت مل کر مضاف الیہ۔ اعجاز جڑیں۔ تنے۔ عجز کی جمع جس کے معنی جسم کے پچھلے حصے کے آتے ہیں۔ درختوں کا چونکہ پچھلا حصہ جڑ ہی ہے اس اعتبار سے اعجاز نخل کے معنی درختوں کی جڑوں کے ہیں۔ منقعر اسم فاعل واحد مذکر۔ انعقار (انفعال) مصدر سے، ق ع ر مادہ۔ درخت کا جڑ سے اکھڑ جانا۔ منقعر جڑ سے اکھڑا ہوا۔ قعر : تہہ، پیندا، گڑھا۔ فارسی کا شعر ہے :۔ درمیان قعر دریا بندم کردہ بعد می گوئی کہ دامن ترمکن ہشیار باش بعید القعرگہری سوچ والا آدمی۔ اعجاز نخل منقعر : مڈھ سے اکھڑے ہوئے درختوں کی جڑیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(20) وہ ہوا لوگوں کو اس طرح اکھاڑ پھینکتی تھی جیسے وہ جڑ سے سے اکھڑی ہوئی کھجوروں کے تنے ہیں۔ ہم نے مستمر کا ترجمہ سخت کیا ہے بعض حضرات نے دوام کیا ہے دوام کا مطلب یہ ہے کہ ہوا کا ان پر اثر ہمیشہ رہا یعنی برزخ میں بھی اور جہنم میں بھی۔ یوم نحس سے مراد زمانہ ہے یعنی زمانہ نحس میں وہ ایک دن ہو یا آٹھ دن ہوں جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا ہے کھجوروں کے تنوں سے تشبیہ دینے میں شاید ان کے مضبوط اور جسیم ہونے کی طرف اشارہ ہو کیونکہ وہ بڑے لمبے تڑنگے اور ڈیل ڈول کے لوگ تھے اور بڑے طویل الجثہ تھے اور اگر مستمر کا ترجمہ شدید اور سخت کیا جائے تو معنی ظاہر ہیں۔ نحوست اس سے کیا زیادہ سخت ہوگی کہ بستیوں کا نام ونشان مٹ گیا آبادیاں بالکل تباہ و برباد ہوگئیں اور مرنے کے بعد بھی عذاب نے پیچھا نہیں چھوڑا۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی نحوست نہ اٹھی جب تک تمام ہوچکے نحوست کا دن انہی پر تھا یہ نہیں ہمیشہ کو۔