Surat ul Qamar

Surah: 54

Verse: 55

سورة القمر

فِیۡ مَقۡعَدِ صِدۡقٍ عِنۡدَ مَلِیۡکٍ مُّقۡتَدِرٍ ﴿۵۵﴾٪  10

In a seat of honor near a Sovereign, Perfect in Ability.

راستی اور عزت کی بیٹھک میں قدرت والے بادشاہ کے پاس ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

فِي مَقْعَدِ صِدْقٍ ... In a seat of truth, in the Dwelling of Allah's honor, encompassed by His pleasure, favors, bounties, generosity and compassion, ... عِندَ مَلِيكٍ مُّقْتَدِرٍ near the Muqtadir King. meaning with the Magnificent King Who created everything and measured its destiny; He is able to grant them whatever they wish and ask for. Imam Ahmad recorded that Abdullah bin `Amr said that the Prophet said, الْمُقْسِطُونَ عِنْدَ اللهِ عَلَى مَنَابِرَ مِنْ نُورٍ عَنْ يَمِينِ الرَّحْمنِ وَكِلْتَا يَدَيْهِ يَمِينٌ الَّذِينَ يَعْدِلُونَ فِي حُكْمِهِمْ وَأَهْلِيهِمْ وَمَا وَلُوا Verily, the just will be with Allah on podiums of light, to the right of Ar-Rahman, and both of His Hands are right. They are those who are just and fair in their judgement and with their families and those whom they are responsible for. Muslim and An-Nasa'i also recorded this Hadith. This is the end of the Tafsir of Surah Al-Qamar. All praise and thanks are due to Allah, and success and immunity from error come from Him.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

55۔ 1 مَقْعَدِ صِدْقٍ عزت کی بیٹھک یا مجلس حق، جس میں گناہ کی بات ہوگی نہ لغویات کا ارتکاب۔ مراد جنت ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٨] یعنی اللہ ذوالجلال اور قادر مطلق کے ہاں جن پرہیزگاروں کی مجلس ہوگی وہ سب کے سب سچے اور راست باز لوگ ہوں گے۔ انہیں اپنی سچائی کی بدولت اور اللہ اور اس کے رسول کے سچے وعدوں کے مطابق یہ مقام حاصل ہوگا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

١۔ فِیْ مَقْعَدِ صِدْقٍ عِنْدَ مَلِیْکٍ مُّقْتَدِرٍ : یہاں ” مقتدر “ بمعنی ” صادق “ برائے مبالغہ ہے ، جیسے ” عدل “ بمعنی ” عادل “ برائے مبالغہ ہے اور ” مقعد “ موصوف اپنی صفت ” صدق “ ( بمعنی صادق) کی طرف مضاف ہے ، جیسے کہا جاتا ہے :” مسجد الجامع “” صدق “ کا اصل معنی خبر کا واقع کے مطابق ہونا ہے ۔ ” فلاں شخص صادق ہے “ ۔ کا مطلب یہ ہے کہ وہ جو بات کہتا ہے وہ واقع میں اسی طرح ہوتی ہے جیسے اس نے کہا۔ پھر یہ لفظ کسی بھی چیز کی تعریف کے لیے اور اس کے اپنے اوصاف میں کامل ہونے کے لیے بولا جانے لگا ۔” فلان رجل صدق “ یعنی وہ رجولیت میں کامل ہے ۔ اردو میں کہا جاتا ہے ” فلاں سچ مچ مرد ہے “۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا (وَلَقَدْ بَوَّاْنَا بَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ مُبَوَّاَ صِدْقٍ ) (یونس : ٩٣)” اور ہم نے بنی اسرائیل کو ٹھکانہ دیا جو ٹھکانہ ہونے میں کامل تھا ، سچ مچ کا باعزت ٹھکانہ تھا “۔ اور فرمایا :(وَاجْعَلْ لِّیْ لِسَانَ صِدْقٍ فِی الْاٰخِرِیْنَ ) (الشعرا : ٨٤) ” اور پیچھے آنے والوں میں میرے لیے سچی ناموری رکھ ۔ “ اور فرمایا (وَقُلْ رَّبِّ اَدْخِلْنِیْ مُدْخَلَ صِدْقٍ ) ( بنی اسرائیل : ٨٠) ’ ’ اور کہہ اے میرے رب ! داخل کر مجھے سچا داخل کرنا “۔” فی مقعد صدق “ کا مطلب یہ ہے کہ وہ ایسی مجلس میں ہوں گے جو مجلس ہونے کے لحاظ سے ہر طرح کامل ہوگی، مجلس کے تمام لوازمات و مناسبات سے آراستہ ہوگی ، سچ مچ کی مجلس ہوگی۔ ٢۔ یاد رہے کہ یہاں ” مقعد ‘ ‘ کا ترجمہ جو ” مجلس “ کیا گیا ہے وہ اس کا پورا مفہوم ادا نہیں کرتا ، کیونکہ ” قعد “ اور ” جلس “ دونوں کا معنی اگرچہ ” بیٹھنا “ ہے ، مگر ” مقعد “ میں ٹھہرنے کا مفہوم پایا جاتا ہے جو ” مجلس “ میں نہیں پایا جاتا ، مثلاً سورة ٔ توبہ کی آیت (٨١) (فَرِحَ الْمُخَلَّفُوْنَ بِمَقْعَدِھِمْ خِلٰفَ رَسُوْلِ اللہ ِ ) میں ” بقعدھم “ کا معنی صرف بیٹھنا نہیں بلکہ ” بیٹھ رہنے والے مومن “ ہے۔ اسی طرح سورة ٔ نور کی آیت (٦٠) (والقواعد من النسائ) میں ’ ’ القواعد “ کا معنی ” بیٹھ رہنے والیاں “ ہے۔ یہاں ” القواعد “ کے بجائے ” الجوالس “ کا لفظ استعمال نہیں ہوسکتا ۔ سورة ٔ ق کی آیت (١٧) (: ” عن الیمین و عن الشمال قعید) میں فرشتوں کے مسلسل ساتھ بیٹھے ہونے کا جو مفہوم ادا ہو رہا ہے وہ ” جلیس “ میں نہیں ۔ اب اس کے مقابلے میں سورة ٔ مجادلہ کی آیت (١١) دیکھئے ، فرمایا :(اِذَا قِیْلَ لَکُمْ تَفَسَّحُوْا فِیْ الْمَجٰلِسِ فَافْسَحُوْا یَفْسَحِ اللہ ُ لَکُمْج وَاِذَا قِیْلَ انْشُزُو)” جب تمہیں کہا جائے کہ مجلسوں میں کھل جاؤ تو کھل جاؤ ، اللہ تعالیٰ تمہارے لیے فراخی کردے گا اور جب کہا جائے اٹھ کھڑے ہو تو اٹھ کھڑے ہوجاؤ “۔ یہاں ” تفسحوا “ ( کھل جاؤ) سے مجلس میں حرکت کا ثبوت ملتا ہے اور ” انشزوا “ ( اٹھ کھڑے ہو) سے ظاہر ہے کہ مجلس میں جلوس ترک بھی ہوسکتا ہے ، لیکن ” قعود “ کا معاملہ یہ نہیں ۔ اس ساری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ متقی لوگ ” مقعد ِ صدق “ میں ہوں گے جو پائیدار ہوگی ۔ ” مجلس صدق “ کے لفظ سے یہ مفہوم ادا نہیں ہوتا ۔ مفسر رازی نے یہ بات بہت مفصل اور مدلل لکھی ہے۔ ٣۔ عند ملیک مقتدر :” ملیک ‘ ” ملک “ میں سے فعیل “ کا وزن ہے ، ملک والا ۔ اس میں ” ملک “ سے زیادہ مبالغہ ہے ، اس لیے ترجمہ ” عظیم بادشاہ “ کیا گیا ہے ۔” مقتدر “ میں ” قادر “ یا ” قدیر “ سے زیادہ مبالغہ ہے ، جیسا کہ پیچھے ” اخذ عزیز مقتدر “ کے تحت گزارا ہے ، اس لیے ترجمہ ” بےحد قدرت والا “ کیا گیا ہے۔ کسی بھی گھر یا مکان کے مرتبے کا تعین اس جگہ سے ہوتا ہے جہاں وہ واقع ہو ، فرعون کی بیوی آسیہ (علیہا السلام) نے دنیا کی تمام سہولتیں چھپن جانے پر اللہ تعالیٰ سے اپنے پاس گھر بنا کردینے کی دعا کی تھی (رَبِّ ابْنِ لِیْ عِنْدَکَ بَیْتًا فِی الْجَنَّۃِ ) (التحریم : ١١) ” اے میرے رب ! میرے لیے اپنے پاس جنت میں ایک گھر بنا دے “۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے اپنی صفات میں سے ” ملیک مقتدر “ کا ذکر فرمایا ہے ، کیونکہ لوگ بادشاہوں کی مجلس میں اور ان کے پڑوس میں رہنے کے خواہش ہوتے ہیں اور جتنا زیادہ اقتدار والا بادشاہ ہو اتنی ہی اس کے قرب کی خواہش زیادہ ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے متقین کو بشارت سنائی کہ ان کی رہائش بادشاہوں کے بادشاہ کے پاس ہوگی جو سارے اقتدار کا مالک ہے۔ پھر ان کی عزت و شوکت کا کون انداز کرسکتا ہے۔ ( اللھم اجعلنا منھم) اس سورت کی فضیلت میں ایک حدیث مشہور ہے ( الکل شی عروس و عروس القرآن الرحمن)” ہر چیز کا ایک دولہا ہوتا ہے اور قرآن کا دولہا سورة ٔ رحمن ہے “ ( عروس کا معنی دولہا بھی ہے اور دلہن بھی) سیوطی نے اسے ” الجامع الصغیر “ میں ” شعب الایمان للبیقہی “ کے حوالے سے علی (رض) سے روایت کیا ہے ۔ علامہ البانی (رح) تعالیٰ نے اسے ضعیف لکھا ہے ۔ دیکھئے ضعیف الجامع ( ٤٧٢٩)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فِيْ مَقْعَدِ صِدْقٍ عِنْدَ مَلِيْكٍ مُّقْتَدِرٍ۝ ٥٥ ۧ قعد القُعُودُ يقابل به القیام، والْقَعْدَةُ للمرّة، والقِعْدَةُ للحال التي يكون عليها الْقَاعِدُ ، والقُعُودُ قد يكون جمع قاعد . قال : فَاذْكُرُوا اللَّهَ قِياماً وَقُعُوداً [ النساء/ 103] ، الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِياماً وَقُعُوداً [ آل عمران/ 191] ، والمَقْعَدُ : مكان القعود، وجمعه : مَقَاعِدُ. قال تعالی: فِي مَقْعَدِ صِدْقٍ عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ [ القمر/ 55] أي في مکان هدوّ ، وقوله : مَقاعِدَ لِلْقِتالِ [ آل عمران/ 121] كناية عن المعرکة التي بها المستقرّ ، ويعبّر عن المتکاسل في الشیء بِالْقَاعدِ نحو قوله : لا يَسْتَوِي الْقاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ [ النساء/ 95] ، ومنه : رجل قُعَدَةٌ وضجعة، وقوله : وَفَضَّلَ اللَّهُ الْمُجاهِدِينَ عَلَى الْقاعِدِينَ أَجْراً عَظِيماً [ النساء/ 95] وعن التّرصّد للشیء بالقعود له . نحو قوله : لَأَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِراطَكَ الْمُسْتَقِيمَ [ الأعراف/ 16] ، وقوله : إِنَّا هاهُنا قاعِدُونَ [ المائدة/ 24] يعني متوقّفون . وقوله : عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمالِ قَعِيدٌ [ ق/ 17] أي : ملك يترصّده ويكتب له وعليه، ويقال ذلک للواحد والجمع، والقَعِيدُ من الوحش : خلاف النّطيح . وقَعِيدَكَ الله، وقِعْدَكَ الله، أي : أسأل اللہ الذي يلزمک حفظک، والقاعِدَةُ : لمن قعدت عن الحیض والتّزوّج، والقَوَاعِدُ جمعها . قال : وَالْقَواعِدُ مِنَ النِّساءِ [ النور/ 60] ، والْمُقْعَدُ : من قَعَدَ عن الدّيون، ولمن يعجز عن النّهوض لزمانة به، وبه شبّه الضّفدع فقیل له : مُقْعَدٌ «1» ، وجمعه : مُقْعَدَاتٌ ، وثدي مُقْعَدٌ للکاعب : ناتئ مصوّر بصورته، والْمُقْعَدُ كناية عن اللئيم الْمُتَقَاعِدِ عن المکارم، وقَوَاعدُ البِنَاءِ : أساسه . قال تعالی: وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْراهِيمُ الْقَواعِدَ مِنَ الْبَيْتِ [ البقرة/ 127] ، وقَوَاعِدُ الهودج : خشباته الجارية مجری قواعد البناء . ( ق ع د ) القعود یہ قیام ( کھڑا ہونا کی ضد ہے اس سے قعدۃ صیغہ مرۃ ہے یعنی ایک بار بیٹھنا اور قعدۃ ( بکسر ( قاف ) بیٹھنے کی حالت کو کہتے ہیں اور القعود قاعدۃ کی جمع بھی ہے جیسے فرمایا : ۔ فَاذْكُرُوا اللَّهَ قِياماً وَقُعُوداً [ النساء/ 103] تو کھڑے اور بیٹھے ہر حال میں خدا کو یاد کرو ۔ الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِياماً وَقُعُوداً [ آل عمران/ 191] جو کھڑے اور بیٹھے ہر حال میں خدا کو یاد کرتے ہیں ۔ المقعد کے معنی جائے قیام کے ہیں اس کی جمع مقاعد ہے قرآن میں ہے : ۔ فِي مَقْعَدِ صِدْقٍ عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ [ القمر/ 55]( یعنی ) پاک مقام میں ہر طرح کی قدرت رکھنے والے بادشاہ کی بار گاہ میں ۔ یعنی نہایت پر سکون مقام میں ہوں گے اور آیت کریمہ : ۔ مَقاعِدَ لِلْقِتالِ [ آل عمران/ 121] لڑائی کیلئے مور چوں پر میں لڑائی کے مورچے مراد ہیں جہاں سپاہی جم کر لڑتے ہیں اور کبھی کسی کام میں سستی کرنے والے کو بھی قاعدۃ کہا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ لا يَسْتَوِي الْقاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ [ النساء/ 95] جو مسلمان ( گھروں میں ) بیٹھ رہتے اور لڑنے سے جی چراتے ہیں اور کوئی عذر نہیں رکھتے ۔ اسی سے عجل قدعۃ ضجعۃ کا محاورہ جس کے معنی بہت کاہل اور بیٹھنے رہنے والے آدمی کے ہیں نیز فرمایا : ۔ وَفَضَّلَ اللَّهُ الْمُجاهِدِينَ عَلَى الْقاعِدِينَ أَجْراً عَظِيماً [ النساء/ 95] خدا نے مال اور جان سے جہاد کرنے والوں کو بیٹھنے والوں پر درجے میں فضیلت بخشی ہے ۔ اور کبھی قعدۃ لہ کے معنی کیس چیز کے لئے گھات لگا کر بیٹھنے اور انتظار کرنے کے بھی آتے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ لَأَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِراطَكَ الْمُسْتَقِيمَ [ الأعراف/ 16] میں بھی سیدھے رستے پر بیٹھوں گا ۔ نیز فرمایا : ۔ إِنَّا هاهُنا قاعِدُونَ [ المائدة/ 24] ہم یہیں بیٹھے رہینگے یعنی یہاں بیٹھ کر انتظار کرتے رہینگے اور آیت کر یمہ : ۔ عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمالِ قَعِيدٌ [ ق/ 17] جو دائیں بائیں بیٹھے ہیں ۔ میں قعید سے مراد وہ فرشتہ ہے جو ( ہر وقت اعمال کی نگرانی کرتا رہتا ہے اور انسان کے اچھے برے اعمال میں درج کرتا رہتا ہے یہ واحد وجمع دونوں پر بولا جاتا ہے اسے بھی قعید کہا جاتا ہے اور یہ نطیح کی جد ہے ۔ یعنی میں اللہ تعالیٰ سے تیری حفاظت کا سوال کرتا ہوں ۔ القاعدۃ وہ عورت جو عمر رسیدہ ہونے کی وجہ سے نکاح اور حیض کے وابل نہ رہی ہو اس کی جمع قواعد ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَالْقَواعِدُ مِنَ النِّساءِ [ النور/ 60] اور بڑی عمر کی عورتیں ۔ اور مقعدۃ اس شخص کو بھی کہا جاتا ہے جو ملازمت سے سبکدوش ہوچکا ہو اور اپاہج آدمی جو چل پھر نہ سکے اسے بھی مقعد کہہ دیتے ہیں اسی وجہ سے مجازا مینڈک کو بھی مقعد کہا جاتا ہے اس کی جمع مقعدات ہے اور ابھری ہوئی چھاتی پر بھی ثدی مقعد کا لفظ بولا جاتا ہے اور کنایہ کے طور پر کمینے اور خمیس اطوار آدمی پر بھی مقعدۃ کا طلاق ہوتا ہے قواعد لبنآء عمارت کی بنیادیں قرآن میں ہے : ۔ وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْراهِيمُ الْقَواعِدَ مِنَ الْبَيْتِ [ البقرة/ 127] اور جب ابراہیم بیت اللہ کی بنیادی اونچی کر رہے تھے قواعد الھودج ( چو کھٹا ) ہودے کی لکڑیاں جو اس کے لئے بمنزلہ بنیاد کے ہوتی ہیں ۔ صدق الصِّدْقُ والکذب أصلهما في القول، ماضیا کان أو مستقبلا، وعدا کان أو غيره، ولا يکونان بالقصد الأوّل إلّا في القول، ولا يکونان في القول إلّا في الخبر دون غيره من أصناف الکلام، ولذلک قال : وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ، ( ص دق) الصدق ۔ یہ ایک الکذب کی ضد ہے اصل میں یہ دونوں قول کے متعلق استعمال ہوتے ہیں خواہ اس کا تعلق زمانہ ماضی کے ساتھ ہو یا مستقبل کے ۔ وعدہ کے قبیل سے ہو یا وعدہ کے قبیل سے نہ ہو ۔ الغرض بالذات یہ قول ہی کے متعلق استعمال ہوتے ہیں پھر قول میں بھی صرف خبر کے لئے آتے ہیں اور اس کے ماسوا دیگر اصناف کلام میں استعمال نہیں ہوتے اسی لئے ارشاد ہے ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ وہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ عند عند : لفظ موضوع للقرب، فتارة يستعمل في المکان، وتارة في الاعتقاد، نحو أن يقال : عِنْدِي كذا، وتارة في الزّلفی والمنزلة، وعلی ذلک قوله : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] ، ( عند ) ظرف عند یہ کسی چیز کا قرب ظاہر کرنے کے لئے وضع کیا گیا ہے کبھی تو مکان کا قرب ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے اور کبھی اعتقاد کے معنی ظاہر کرتا ہے جیسے عندی کذا اور کبھی کسی شخص کی قرب ومنزلت کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہے ۔ ملك) بادشاه) المَلِكُ : هو المتصرّف بالأمر والنّهي في الجمهور وَالمِلْكُ ضربان : مِلْك هو التملک والتّولّي، ومِلْك هو القوّة علی ذلك، تولّى أو لم يتولّ. فمن الأوّل قوله : إِنَّ الْمُلُوكَ إِذا دَخَلُوا قَرْيَةً أَفْسَدُوها[ النمل/ 34] ، ومن الثاني قوله : إِذْ جَعَلَ فِيكُمْ أَنْبِياءَ وَجَعَلَكُمْ مُلُوكاً [ المائدة/ 20] ( م ل ک ) الملک ۔ بادشاہ جو پبلک پر حکمرانی کرتا ہے ۔ یہ لفظ صرف انسانوں کے منتظم کے ساتھ خاص ہے . اور ملک کا لفظ دو طرح پر ہوتا ہے عملا کسی کا متولی اور حکمران ہونے کو کہتے ہیں ۔ دوم حکمرانی کی قوت اور قابلیت کے پائے جانے کو کہتے ہیں ۔ خواہ نافعل اس کا متولی ہو یا نہ ہو ۔ چناچہ پہلے معنی کے لحاظ سے فرمایا : ۔ إِنَّ الْمُلُوكَ إِذا دَخَلُوا قَرْيَةً أَفْسَدُوها[ النمل/ 34] بادشاہ جب کسی ملک میں داخل ہوتے ہیں ۔ تو اس کو تباہ کردیتے ہیں ۔ اور دوسرے معنی کے لحاظ سے فرمایا : ۔ إِذْ جَعَلَ فِيكُمْ أَنْبِياءَ وَجَعَلَكُمْ مُلُوكاً [ المائدة/ 20] کہ اس نے تم میں پیغمبر کئے اور تمہیں بادشاہ بنایا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥٥ { فِیْ مَقْعَدِ صِدْقٍ عِنْدَ مَلِیْکٍ مُّقْتَدِرٍ ۔ } ” بہت اعلیٰ راستی کے مقام میں اس بادشاہ کے پاس جو اقتدارِ مطلق کا مالک ہے۔ “ ان خوش قسمت لوگوں کے مقام و مرتبہ کا ذکر ایسے ہی الفاظ کے ساتھ سورة یونس کی اس آیت میں بھی ہوا ہے : { اَنَّ لَھُمْ قَدَمَ صِدْقٍ عِنْدَ رَبِّھِمْ ط } (آیت ٢) ” ان کے لیے ان کے رب کے پاس بہت اونچا مرتبہ ہے “۔ یعنی ان لوگوں کو آخرت میں شہنشاہِ ارض و سما کا خصوصی قرب حاصل ہوگا۔ اَللّٰھُمَّ رَبَّـنَا اجْعَلْنَا مِنْھُمْ ! اَللّٰھُمَّ رَبَّـنَا اجْعَلْنَا مِنْھُمْ ! اَللّٰھُمَّ رَبَّـنَا اجْعَلْنَا مِنْھُمْ ! آمین یاربَّ العَالَمین ! !

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(54:55) فی مقعد صدق مضاف مضاف الیہ۔ موصوف (مقعد) کی اضافت صفت (صدق) کی طرف۔ مقعد اسم ظرف مکان، قعود (باب نصر) مصدر سے۔ بیٹھنے کی جگہ۔ صدق۔ سچائی۔ راستی، نام نیک، ثناء سچی بات۔ صدق یصدق (باب نصر) کا مصدر ہے۔ اس کے معنی لغت میں سچ کہنے اور سچ کر دکھانے کے ہیں اور چونکہ یہ ذکر خیر کا سبب ہے اس لئے مجازا۔ نام نیک اور ذکر خیر کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ علامہ پانی پتی (رح) تفسیر مظہری میں رقمطراز ہیں :۔ مقعد صدق۔ یعنی ایسا مقام جہاں نہ کوئی بیہودہ بات ہوگی اور نہ گناہ۔ (سچائی کا مقام) اس سے مراد جنت ہے۔ ظاہر میں کوئی برائی ہو نہ باطن میں کوئی نقص “۔ ایسے فعل کو صدق کہا جاتا ہے۔ مندرجہ ذیل آیات میں یہی معنی مراد ہیں :۔ (1) فی مقعد صدق (54:55) (2) لہم قدم صدق عند ربھم (10:2) (3) ادخلنی مدخل صدق واخرجنی مخرج صدق (17:80) بغوی نے لکھا ہے :۔ امام جعفر صادق نے فرمایا :۔ آیت میں اللہ نے مقام کی صفت صدق کے لفظ سے کی ہے پس اس مقام پر اہل صدق ہی بیٹھیں گے۔ فی مقعد صدق بدل ہے جنت سے۔ عند ملیک مقتدر : یا تو فی معقد صدق سے بدل ہے یا یہ اس کی صفت ہے۔ ملیک موصوف۔ ملک سے صفت کا صیغہ برائے مبالغہ، بہت بڑا بادشاہ ۔ مقتدر اسم فاعل کا صیغہ واحد مذکر۔ اقتدار (افتعال) مصدر سے۔ ہر طرح کی قدرت والا۔ با اقتدار، صفت۔ مطلب آیت کا ہوگا :۔ یعنی اللہ کے پاس جو تمام چیزوں کا مالک اور حکمران ہے اور ہر شے پر قادر ہے کوئی شے اس کی قدرت سے خارج نہیں قرب خداوندی بےکیف ہے۔ دانش و فہم کی رسائی سے بالاتر ہے۔ ہاں اگر اللہ تعالیٰ کسی کا پردۂ بصیرت ہٹا دے تو اس کو قرب خداوندی کا وجدان ہوجاتا ہے۔ (تفسیر مظہری) فی مقعد صدق عند ملیک مقتدر۔ عمدہ مقام میں خداوند تعالیٰ کے ہاں رہیں گے یہ جنت روحانی ہے جو متقین میں سے خاص ابرار و احرار کا حصہ ہے ۔ مرنیکے بعد ان کی روح حظیرۃ القدس (جنت) کی طرف عالم بالا میں محبوب اصلی کے پاس جاکر آرام پاتی ہے تخت رب العالمین کی داہنی طرف بیٹھنے سے یہی مراد ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہم کو بھی اپنی اس بارگاہ قدس میں کاش اپنے ابرار کی صف میں جگہ دیدے وما ذلک علی اللہ بعزیر (تفسیر حقانی) مراد اصحاب الیمین (یا اصحٰب المیمنہ) ہیں جن کا ذکر سورة الواقعہ (56:27، 38، 90، 91) میں آیا ہے ان کو اصحاب المیمنہ بھی کہا گیا ہے۔ ان سے مراد وہ خوش نصیب ہیں جو روز محشر عرش الٰہی کے داہنی جانب ہوں گے ان کا اعمال نامہ ان کے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 حضرت عبید اللہ بن ابی عمرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : انصاف کرنے والے لوگ رحمان کے دائیں ہاتھ نور کے منبروں پر ہوں گے اور اس کے دونوں ہاتھ ہی دائیں ہیں۔ یہ لوگ ہوں گے جو اپنے فیصلوں میں اپنے گھر والوں اور اپنی رعیت کے ساتھ انصاف کرتے ہیں۔ (ابن کثیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ یعنی جنت کے ساتھ قرب بھی ہوگا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

﴿فِيْ مَقْعَدِ صِدْقٍ ﴾ (سچائی کی جگہ میں ہوں گے) ﴿ مَقْعَدِ صِدْقٍ ﴾ جو فرمایا ہے (جس کا ترجمہ عمدہ مقام اور سچائی کی جگہ کیا گیا ہے) حقیقت میں یہ استعارہ ہے۔ لفظ صدق اقوال اور اعمال اور عقائد کی سچائی کے لیے بولا جاتا ہے۔ جو حضرات ان چیزوں میں سچے ہیں انہیں اپنی سچائی کی وجہ سے وہاں بلند مقام ملے گا جہاں بہت زیادہ خوش ہوں گے اس لیے اس کا نام مقعد صدق رکھا گیا ہے۔ ساتھ ہی ﴿عِنْدَ مَلِيْكٍ مُّقْتَدِرٍ (رح) ٠٠٥٥﴾ بھی فرمایا کہ یہ بندے عظیم القدرت بادشاہ کے جوار میں ہوں گے یعنی انکا مرتبہ بلند ہوگا، اللہ تعالیٰ شانہ، مکان اور محل وجہت سے پاک ہے۔ قال صاحب الروح والعندیة للقرب الرتبی۔ (صفحہ ٩٦: ج ٢٧) وقد انتھی تفسیر سور ة القمر بفضل الملیک الحنان المنان والصلوٰ ة والسلام علی رسولہ سید الانسان والجان وعلی من تبعہ باحسان الی اواخر الدھور والازمان

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(55) انہیں ایک عمدہ پسندیدہ مقام میں ایسے بادشاہ کا تقرب حاصل ہوگا جو بڑا صاحب قدرت ہے اور جس کا سب پر قبضہ ہے۔ یعنی یہ لوگ ایک سچی بیٹھک میں بیٹھے ہوں گے جس کو مقام صدق کہتے ہیں وہاں بادشاہ مقتدر کا قرب حاصل ہوگا جس کو مقام عندیت بھی کہتے ہیں۔ اس لئے فرمایا عندملیک مقتدر یعنی عمدہ مقام میں بادشاہ مقتدر کے پاس سبحان اللہ اس مقام کی بلندی اور برتری کا کیا کہنا ہے کچھ سورة یونس میں ہم ذکر کرچکے ہیں یہ مقام قربت اور مقام تقرب وحدت ہے۔ اللھم انک ملیک مقتدر فارزقنی مقاما یکون عندک بجاء سیدالمرسلین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)۔ تم تفسیر سورة القمر