The Story of the People of Nuh (علیہ السلام) and the Lesson Learnt from it مَجْنُونٌ وَازْدُجِرَ (and said, |" (He is) a madman|", and he was threatened...54:9). The word wazdujira literally denotes &he was rebuked&. It refers to the attitude of the people of Nuh علیہ السلام who rebuked and threatened him to stop him from preaching. On another occasion in the Qur&an, we read that the people of Nuh (علیہ السلام) threatened and warned him that if he does not stop propagating his message, he would be stoned to death. ` Abd Ibn Humaid reports from Mujahid that when some of his people found him somewhere, they would choke him, as a result he would become unconscious. But when he recovered, he would pray to Allah, &0 Allah! Forgive my people, for they do not know the truth&. In this way, he endured the persecution of his people patiently for nine hundred and fifty years, prayed for their forgiveness and understanding of the truth. Eventually, when the situation became intolerable, and he could no longer resist his people, he invoked Allah to help him against them. As a result, Allah opened the gates of the heaven with torrential rain, and the entire nation was drowned which is mentioned in the forthcoming verse.
خلاصہ تفسیر ان لوگوں سے پہلے قوم نوح نے تکذیب کی یعنی ہمارے بندہ (خاص نوح (علیہ السلام) کی تکذیب کی اور کہا کہ یہ مجنون ہیں اور (محض اس قول بیہودہ ہی پر اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ ان سے ایک بیہودہ فعل بھی سرزد ہوا یعنی) نوح (علیہ السلام) کو (ان کی طرف سے) دھمکی (بھی) دی گئی (جس کا ذکر سورة شعراء میں ہے لَىِٕنْ لَّمْ تَنْتَهِ يٰنُوْحُ لَتَكُوْنَنَّ مِنَ الْمَرْجُوْمِيْنَ ) تو نوح (علیہ السلام) نے اپنے رب سے دعا کی کہ میں (محض) درماندہ ہوں ، (ان لوگوں کا مقابلہ نہیں کرسکتا) سو آپ (ان سے) انتقام لے لیجئے (یعنی ان کو ہلاک کر دیجئے، کقولہ تعالیٰ (رَّبِّ لَا تَذَرْ عَلَي الْاَرْضِ مِنَ الْكٰفِرِيْنَ دَيَّارًا) پس ہم نے کثرت سے برسنے والے پانی سے آسمان کے دروازے کھول دیئے اور زمین سے چشمے جاری کردیئے پھر (آسمان اور زمین کا) پانی اس کام کے (پورا ہونے کے) لئے مل گیا جو (علم الٰہی میں) تجویز ہوچکا تھا (مراد اس کام سے ہلاکت ہے کفار کی، یعنی دونوں پانی مل کر طوفان بڑھا، جس میں سب غرق ہوگئے) اور ہم نے نوح (علیہ السلام) کو (طوفان سے محفوظ رکھنے کے لئے) تختوں اور میخوں والی کشتی پر جو کہ ہماری نگرانی میں (پانی کی سطح پر) رواں تھی (مع مومنین کے) سوار کیا یہ سب کچھ اس شخص کا بدلہ لینے کے لئے کیا جس کی بےقدری کی گئی تھی (مراد نوح (علیہ السلام) ہیں اور چونکہ رسول اور اللہ تعالیٰ کے حقوق میں تلازم ہے، اس میں کفر باللہ بھی آ گیا، پس یہ شبہ نہ رہا کہ یہ غرق کفر باللہ کے سبب نہ ہوا تھا) اور ہم نے اس واقعہ کو عبرت کے واسطے (حکایات اور تذکروں میں) رہنے دیا، سو کیا کوئی نصیحت حاصل کرنے والا ہے (مقصود اس سے ترغیب ہے تذکر کی) پھر (دیکھو) میرا عذاب اور میرا ڈرانا کیسا ہوا (یعنی جس چیز سے ڈرانا واقع ہوا تھا وہ کیسا پورا ہو کر رہا، تو اس ڈرانے کا حاصل بھی عذاب ہی ہوگیا، غرض عذاب الٰہی کے دو عنوان ہوگئے، ایک خود عذاب اور دوسرا وعدہ الٰہی کا پورا ہونا) اور ہم نے قرآن کو (جو کہ مشتمل ہے ایسے قصص مذکورہ پر) نصیحت حاصل کرنے کے لئے آسان کردیا (سب کے لئے عموماً بوجہ واضح ہونے بیان کے اور عرب کے لئے خصوصاً بوجہ عربی زبان کے) سو کیا (اس قرآن میں ایسے مضامین نصیحت کے دیکھ کر) کوئی نصیحت حاصل کرنے والا ہے (یعنی کفار مکہ کو بالخصوص ان قصص سے ڈر جانا چاہئے ) معارف ومسائل مَجْنُوْنٌ وَّازْدُجِرَ ، وازدجر کے لفظی معنی ہیں ڈانٹ دیا گیا (اس کا عطف لفظ قالوا پر ہے اس لئے) مراد یہ ہے کہ ان لوگوں نے حضرت نوح (علیہ السلام) کو مجنون بھی کہا اور پھر ان کو ڈانٹ دھمکا کر تبلیغ رسالت سے روکنا بھی چاہا، جیسا کہ ایک دوسری آیت میں ہے کہ ان لوگوں نے نوح (علیہ السلام) کو یہ دھمکی دی کہ اگر آپ اپنی تبلیغ و دعوت سے باز نہ آئے تو ہم آپ کو پتھراؤ کر کے مار دیں گے۔ عبد بن حمید نے مجاہد سے نقل کیا ہے کہ نوح (علیہ السلام) کی قوم کے بعض لوگ جب حضرت نوح کو کہیں پاتے تو بعض اوقات ان کا گلا گھونٹ دیتے تھے یہاں تک کہ وہ بیہوش ہوجاتے، پھر جب افاقہ ہوتا تو اللہ سے یہ دعا کرتے تھے کہ |" یا اللہ میری قوم کو معاف کر دے، وہ حقیقت سے ناواقف ہیں، ساڑھے نو سو سال قوم کی ایسی ایذاؤں کا جواب دعاؤں سے دے کر گزارنے کے بعد آخر میں عاجز ہو کر بددعا کی جس کا ذکر اگلی آیت میں ہے، جس کے نتیجہ میں یہ پوری قوم غرق کی گئی۔