Surat ul Qamar

Surah: 54

Verse: 9

سورة القمر

کَذَّبَتۡ قَبۡلَہُمۡ قَوۡمُ نُوۡحٍ فَکَذَّبُوۡا عَبۡدَنَا وَ قَالُوۡا مَجۡنُوۡنٌ وَّ ازۡدُجِرَ ﴿۹﴾

The people of Noah denied before them, and they denied Our servant and said, "A madman," and he was repelled.

ان سے پہلے قوم نوح نے بھی ہمارے بندے کو جھٹلایا تھا اور دیوانہ بتلا کر جھڑک دیا گیا تھا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Story of the People of Nuh and the Lesson from it Allah the Exalted said, كَذَّبَتْ قَبْلَهُمْ ... denied before them, (before your people, O Muhammad), ... قَوْمُ نُوحٍ فَكَذَّبُوا عَبْدَنَا ... the people of Nuh. They rejected Our servant, means, they denied him categorically and accused him of madness, ... وَقَالُوا مَجْنُونٌ وَازْدُجِرَ and said: "A madman!" Wazdujir. Mujahid said about Wazdujir: "He was driven out accused on account of madness." It was also said that Wazdujir means, he was rebuked, deterred, threatened and warned by his people saying: لَيِنْ لَّمْ تَنْتَهِ ينُوحُ لَتَكُونَنَّ مِنَ الْمُرْجُومِينَ "If you do not stop O Nuh, you will be among those who will be stoned." (26:116) This was said by Ibn Zayd, and it is sound. فَدَعَا رَبَّهُ أَنِّي مَغْلُوبٌ فَانتَصِرْ

دیرینہ انداز کفر یعنی اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس امت سے پہلے امت نوح نے بھی اپنے نبی کو جو ہمارے بندے حضرت نوح تھے تکذیب کی اسے مجنون کہا اور ہر طرح ڈانٹا ڈپٹا اور دھمکایا ، صاف کہدیا تھا کہ اے نوح اگر تم باز نہ رہے تو ہم تجھے پتھروں سے مار ڈالیں گے ، ہمارے بندے اور رسول حضرت نوح نے ہمیں پکارا کہ پروردگار میں ان کے مقابلہ میں محض ناتواں اور ضعیف ہوں میں کسی طرح نہ اپنی ہستی کو سنبھال سکتا ہوں نہ تیرے دین کی حفاظت کر سکتا ہوں تو ہی میری مدد فرما اور مجھے غلبہ دے ان کی یہ دعا قبول ہوتی ہے اور ان کی کافر قوم پر مشہور طوفان نوح بھیجا جاتا ہے ۔ موسلا دھار بارش کے دروازے آسمان سے اور ابلتے ہوئے پانی کے چشمے زمین سے کھول دئیے جاتے ہیں یہاں تک کہ جو پانی کی جگہ نہ تھی مثلاً تنور وغیرہ وہاں سے زمین پانی اگل دیتی ہے ہر طرف پانی بھر جاتا ہے نہ آسمان سے برسنا رکتا ہے نہ زمین سے ابلنا تھمتا ہے پس حد حکم تک پہنچ جاتا ہے ۔ ہمیشہ پانی ابر سے برستا ہے لیکن اس وقت آسمان سے پانی کے دروازے کھول دئیے گئے تھے اور عذاب الٰہی پانی کی شکل میں برس رہا تھا نہ اس سے پہلے کبھی اتنا پانی برسا نہ اس کے بعد کبھی ایسا برسے ادھر سے آسمان کی یہ رنگت ادھر سے زمین کو حکم کہ پانی اگل دے پس ریل پیل ہو گئی ، حضرت علی فرماتے ہیں کہ آسمان کے دہانے کھول دئیے گئے اور ان میں سے براہ راست پانی برسا ۔ اس طوفان سے ہم نے اپنے بندے کو بچا لیا انہیں کشتی پر سوار کر لیا جو تختوں میں کیلیں لگا کر بنائی گئی تھی ۔ دسر کے معنی کشتی کے دائیں بائیں طرف کا حصہ اور ابتدائی حصہ جس پر موج تھپیڑے مارتی ہے اور اس کے جوڑے اور اس کی اصل کے بھی کئے گئے ہیں ، وہ ہمارے حکم سے ہماری آنکھوں کے سامنے ہماری حفاظت میں چل رہی تھی اور صحیح و سالم آر پار جار ہی تھی ۔ حضرت نوح کی مدد تھی اور کفار سے یہ انتقام تھا ہم نے اسے نشانی بنا کر چھوڑا ۔ یعنی اس کشتی کو بطور عبرت کے باقی رکھا ، حضرت قتادہ فرماتے ہیں اس امت کے اوائل لوگوں نے بھی اسے دیکھا ہے لیکن ظاہر معنی یہ ہیں کہ اس کشتی کے نمونے پر اور کشتیاں ہم نے بطور نشان کے دنیا میں قائم رکھیں ، جیسے اور آیت میں ہے آیت ( وَاٰيَةٌ لَّهُمْ اَنَّا حَمَلْنَا ذُرِّيَّــتَهُمْ فِي الْفُلْكِ الْمَشْحُوْنِ 41؀ۙ ) 36-يس:41 ) یعنی ان کے لئے نشانی ہے کہ ہم نے نسل آدم کو بھری ہوئی کشتی میں سوار کرایا اور کشتی کے مانند اور بھی ایسی سواریاں دیں جن پر وہ سوار ہوں اور جگہ ہے آیت ( اِنَّا لَمَّا طَغَا الْمَاۗءُ حَمَلْنٰكُمْ فِي الْجَارِيَةِ 11۝ۙ ) 69- الحاقة:11 ) ، یعنی جب پانی نے طغیانی کی ہم نے تمہیں کشتی میں لے لیا تاکہ تمھارے لئے نصیحت وعبرت ہو اور یاد رکھنے والے کان اسے محفوظ رکھ سکیں ، پس کوئی ہے جو ذکر و وعظ حاصل کرے؟ حضرت ابن مسعود فرماتے ہیں مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ( مدکر ) پڑھایا ہے ، خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی اس لفظ کی قرأت اسی طرح مروی ہے ، حضرت اسود سے سوال ہوتا ہے کہ یہ لفظ دال سے ہے یا ذال سے ؟ فرمایا میں نے عبداللہ سے دال کے ساتھ سنا ہے اور وہ فرماتے تھے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دال کے ساتھ سنا ہے ، پھر فرماتا ہے میرا عذاب میرے ساتھ کفر کرنے اور میرے رسولوں کو جھوٹا کہنے اور میری نصیحت سے عبرت نہ حاصل کرنے والوں پر کیسا ہوا ؟ میں نے کس طرح اپنے رسولوں کے دشمنوں سے بدلہ لیا اور کس طرح ان دشمنان دین حق کو نیست ونابود کر دیا ۔ ہم نے قرآن کریم کے الفاظ اور معانی کو ہر اس شخص کے لئے آسان کر دیا جو اس سے نصیحت حاصل کرنے کا ارادہ رکھے ، جیسے فرمایا آیت ( كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ اِلَيْكَ مُبٰرَكٌ لِّيَدَّبَّرُوْٓا اٰيٰتِهٖ وَلِيَتَذَكَّرَ اُولُوا الْاَلْبَابِ 2٩؀ ) 38-ص:29 ) ، ہم نے تیری طرف سے یہ مبارک کتاب نازل فرمائی ہے تاکہ لوگ اس کی آیتوں میں تدبر کریں اور اس لئے کہ عقلمند لوگ یاد رکھ لیں اور جگہ ہے آیت ( فَاِنَّمَا يَسَّرْنٰهُ بِلِسَانِكَ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُوْنَ 58؀ ) 44- الدخان:58 ) ، یعنی ہم نے اسے تیری زبان پر اس لئے آسان کیا ہے کہ تو پرہیزگار لوگوں کو خوشی سنا دے اور جھگڑالو لوگوں کو ڈرا دے ، حضرت مجاہد فرماتے ہیں اس کی قرأت اور تلاوت اللہ تعالیٰ نے آسان کر دی ہے ، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں اگر اللہ تعالیٰ اس میں آسانی نہ رکھ دیتا تو مخلوق کی طاقت نہ تھی کہ اللہ عزوجل کے کلام کو پڑھ سکے ۔ میں کہتا ہوں انہی آسانیوں میں سے ایک آسانی وہ ہے جو پہلے حدیث میں گذر چکی کہ یہ قرآن سات قرأت وں پر نازل کیا گیا ہے ، اس حدیث کے تمام طرق و الفاظ ہم نے پہلے جمع کر دئیے ہیں ، اب دوبارہ یہاں وارد کرنے کی ضرورت نہیں ۔ پس اس قرآن کو بہت ہی سادہ کر دیا ہے کوئی طالب علم جو اس الٰہی علم کو حاصل کرے اس کے لئے بالکل آسان ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

9۔ 1 یعنی قوم نوح نے نوح (علیہ السلام) کی تکذیب ہی نہیں کی، بلکہ انہیں جھڑکا اور ڈرایا دھمکایا بھی گیا تھا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٠] سیدنا نوح اور ان کی قوم کا ذکر :۔ وہ دیوانہ تو اس لیے کہتے تھے کہ آپ قوم کی اکثریت کے آبائی عقائد کے خلاف صرف تعلیم ہی نہیں دیتے تھے بلکہ اٹھ بھی کھڑے ہوئے تھے۔ آپ کا اور آپ کے چند ساتھیوں کا اس ساری قوم کے خلاف ہونا ہی ان کے نزدیک دیوانگی تھا۔ وہ لوگ کبھی آپ کو سنگسار کرنے کی دھمکی دیتے کبھی قتل کی اور کبھی صرف اس بات پر ڈانٹ پلا دیتے تھے کہ تم اس کام سے باز کیوں نہیں آتے ؟

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

١۔ کَذَّبَتْ قَبْلَہُمْ قَوْمُ نُوْحٍ ۔۔۔: اس سے پہلے جو فرمایا تھا (ولقد جاء ھم من الانباء ما فیہ مزدجر) تو یہاں سے ان واقعات کا ذکر شروع ہوتا ہے ۔ ان واقعات میں جھٹلانے والوں کے لیے عبرتیں ہیں جنہیں دیکھ کر اور سن کر وہ تکذیب سے باز آسکتے ہیں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اہل ایمان کے لیے تسلی اور حوصلے کا سامان ہے۔ یعنی ان اہل مکہ سے پہلے نوح (علیہ السلام) کی قوم نے انہیں جھٹلایا۔ ٢۔ وقالوا مجنون :” مجنون “ جسے جنون ہو ، پاگل ، دیوانہ ۔ تفصیل کے لیے دیکھئے سورة ٔ مومنون (٢٥) کی تفسیر۔ ٣۔ واذد جر : یہ ” زجر “ ( جھڑکنا) سے باب افتعال کا ماضی مجہول ہے ، اصل میں ” ازتجر “ تھا ، جس میں تائے افتعال مبالغہ کے لیے ہے ، یعنی اسے سخت جھڑکا گیا ۔ اس کے دو مطلب ہوسکتے ہیں ، ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں کہ نوح (علیہ السلام) کو سخت جھڑکا گیا ، سب و شتم کی بوچھاڑ کی گئی ، ان کا مذاق اڑایا گیا اور انہیں دھمکیاں دی گئیں۔ ( دیکھیئے اعراف : ٦٦۔ ہود : ٣٨۔ شعرائ : ١١٦) دوسرا مطلب یہ ہے کہ نوح (علیہ السلام) کی قوم نے کہا کہ یہ مجنون ہے اور اسے ہمارے معبودوں کی جھڑک پڑی ہوئی ہے ، جس سے اس کی عقل ٹھکانے نہیں رہی ، جیسا کہ ہود (علیہ السلام) کی قوم نے کہا تھا :(ان نقول الا اعترک بعض الھتنابسو) ( ھود : ٥٤)” ہم اس کے سوا کچھ نہیں کہتے کہ ہمارے معبودوں میں سے کسی نے تجھے کوئی آفت پہنچا دی ہے “۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The Story of the People of Nuh (علیہ السلام) and the Lesson Learnt from it مَجْنُونٌ وَازْدُجِرَ‌ (and said, |" (He is) a madman|", and he was threatened...54:9). The word wazdujira literally denotes &he was rebuked&. It refers to the attitude of the people of Nuh علیہ السلام who rebuked and threatened him to stop him from preaching. On another occasion in the Qur&an, we read that the people of Nuh (علیہ السلام) threatened and warned him that if he does not stop propagating his message, he would be stoned to death. ` Abd Ibn Humaid reports from Mujahid that when some of his people found him somewhere, they would choke him, as a result he would become unconscious. But when he recovered, he would pray to Allah, &0 Allah! Forgive my people, for they do not know the truth&. In this way, he endured the persecution of his people patiently for nine hundred and fifty years, prayed for their forgiveness and understanding of the truth. Eventually, when the situation became intolerable, and he could no longer resist his people, he invoked Allah to help him against them. As a result, Allah opened the gates of the heaven with torrential rain, and the entire nation was drowned which is mentioned in the forthcoming verse.

خلاصہ تفسیر ان لوگوں سے پہلے قوم نوح نے تکذیب کی یعنی ہمارے بندہ (خاص نوح (علیہ السلام) کی تکذیب کی اور کہا کہ یہ مجنون ہیں اور (محض اس قول بیہودہ ہی پر اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ ان سے ایک بیہودہ فعل بھی سرزد ہوا یعنی) نوح (علیہ السلام) کو (ان کی طرف سے) دھمکی (بھی) دی گئی (جس کا ذکر سورة شعراء میں ہے لَىِٕنْ لَّمْ تَنْتَهِ يٰنُوْحُ لَتَكُوْنَنَّ مِنَ الْمَرْجُوْمِيْنَ ) تو نوح (علیہ السلام) نے اپنے رب سے دعا کی کہ میں (محض) درماندہ ہوں ، (ان لوگوں کا مقابلہ نہیں کرسکتا) سو آپ (ان سے) انتقام لے لیجئے (یعنی ان کو ہلاک کر دیجئے، کقولہ تعالیٰ (رَّبِّ لَا تَذَرْ عَلَي الْاَرْضِ مِنَ الْكٰفِرِيْنَ دَيَّارًا) پس ہم نے کثرت سے برسنے والے پانی سے آسمان کے دروازے کھول دیئے اور زمین سے چشمے جاری کردیئے پھر (آسمان اور زمین کا) پانی اس کام کے (پورا ہونے کے) لئے مل گیا جو (علم الٰہی میں) تجویز ہوچکا تھا (مراد اس کام سے ہلاکت ہے کفار کی، یعنی دونوں پانی مل کر طوفان بڑھا، جس میں سب غرق ہوگئے) اور ہم نے نوح (علیہ السلام) کو (طوفان سے محفوظ رکھنے کے لئے) تختوں اور میخوں والی کشتی پر جو کہ ہماری نگرانی میں (پانی کی سطح پر) رواں تھی (مع مومنین کے) سوار کیا یہ سب کچھ اس شخص کا بدلہ لینے کے لئے کیا جس کی بےقدری کی گئی تھی (مراد نوح (علیہ السلام) ہیں اور چونکہ رسول اور اللہ تعالیٰ کے حقوق میں تلازم ہے، اس میں کفر باللہ بھی آ گیا، پس یہ شبہ نہ رہا کہ یہ غرق کفر باللہ کے سبب نہ ہوا تھا) اور ہم نے اس واقعہ کو عبرت کے واسطے (حکایات اور تذکروں میں) رہنے دیا، سو کیا کوئی نصیحت حاصل کرنے والا ہے (مقصود اس سے ترغیب ہے تذکر کی) پھر (دیکھو) میرا عذاب اور میرا ڈرانا کیسا ہوا (یعنی جس چیز سے ڈرانا واقع ہوا تھا وہ کیسا پورا ہو کر رہا، تو اس ڈرانے کا حاصل بھی عذاب ہی ہوگیا، غرض عذاب الٰہی کے دو عنوان ہوگئے، ایک خود عذاب اور دوسرا وعدہ الٰہی کا پورا ہونا) اور ہم نے قرآن کو (جو کہ مشتمل ہے ایسے قصص مذکورہ پر) نصیحت حاصل کرنے کے لئے آسان کردیا (سب کے لئے عموماً بوجہ واضح ہونے بیان کے اور عرب کے لئے خصوصاً بوجہ عربی زبان کے) سو کیا (اس قرآن میں ایسے مضامین نصیحت کے دیکھ کر) کوئی نصیحت حاصل کرنے والا ہے (یعنی کفار مکہ کو بالخصوص ان قصص سے ڈر جانا چاہئے ) معارف ومسائل مَجْنُوْنٌ وَّازْدُجِرَ ، وازدجر کے لفظی معنی ہیں ڈانٹ دیا گیا (اس کا عطف لفظ قالوا پر ہے اس لئے) مراد یہ ہے کہ ان لوگوں نے حضرت نوح (علیہ السلام) کو مجنون بھی کہا اور پھر ان کو ڈانٹ دھمکا کر تبلیغ رسالت سے روکنا بھی چاہا، جیسا کہ ایک دوسری آیت میں ہے کہ ان لوگوں نے نوح (علیہ السلام) کو یہ دھمکی دی کہ اگر آپ اپنی تبلیغ و دعوت سے باز نہ آئے تو ہم آپ کو پتھراؤ کر کے مار دیں گے۔ عبد بن حمید نے مجاہد سے نقل کیا ہے کہ نوح (علیہ السلام) کی قوم کے بعض لوگ جب حضرت نوح کو کہیں پاتے تو بعض اوقات ان کا گلا گھونٹ دیتے تھے یہاں تک کہ وہ بیہوش ہوجاتے، پھر جب افاقہ ہوتا تو اللہ سے یہ دعا کرتے تھے کہ |" یا اللہ میری قوم کو معاف کر دے، وہ حقیقت سے ناواقف ہیں، ساڑھے نو سو سال قوم کی ایسی ایذاؤں کا جواب دعاؤں سے دے کر گزارنے کے بعد آخر میں عاجز ہو کر بددعا کی جس کا ذکر اگلی آیت میں ہے، جس کے نتیجہ میں یہ پوری قوم غرق کی گئی۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

كَذَّبَتْ قَبْلَہُمْ قَوْمُ نُوْحٍ فَكَذَّبُوْا عَبْدَنَا وَقَالُوْا مَجْنُوْنٌ وَّازْدُجِرَ۝ ٩ كذب وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی: إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] ، ( ک ذ ب ) الکذب قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے قوم والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] ، ( ق و م ) قيام القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] نوح نوح اسم نبيّ ، والنَّوْح : مصدر ناح أي : صاح بعویل، يقال : ناحت الحمامة نَوْحاً وأصل النَّوْح : اجتماع النّساء في المَنَاحَة، وهو من التّناوح . أي : التّقابل، يقال : جبلان يتناوحان، وریحان يتناوحان، وهذه الرّيح نَيْحَة تلك . أي : مقابلتها، والنَّوَائِح : النّساء، والمَنُوح : المجلس . ( ن و ح ) نوح ۔ یہ ایک نبی کا نام ہے دراصل یہ ناح ینوح کا مصدر ہے جس کے معنی بلند آواز کے ساتھ گریہ کرنے کے ہیں ۔ محاورہ ہے ناحت الحمامۃ نوحا فاختہ کا نوحہ کرنا نوح کے اصل معنی عورتوں کے ماتم کدہ میں جمع ہونے کے ہیں اور یہ تناوح سے مشتق ہے جس کے معنی ثقابل کے ہیں جیسے بجلان متنا وحان دو متقابل پہاڑ ۔ ریحان یتنا وحان وہ متقابل ہوائیں ۔ النوائع نوحہ گر عورتیں ۔ المنوح ۔ مجلس گریہ ۔ عبد والعَبْدُ يقال علی أربعة أضرب : الأوّل : عَبْدٌ بحکم الشّرع، وهو الإنسان الذي يصحّ بيعه وابتیاعه، نحو : الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ [ البقرة/ 178] ، وعَبْداً مَمْلُوكاً لا يَقْدِرُ عَلى شَيْءٍ [ النحل/ 75] . الثاني : عَبْدٌ بالإيجاد، وذلک ليس إلّا لله، وإيّاه قصد بقوله : إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمنِ عَبْداً [ مریم/ 93] . والثالث : عَبْدٌ بالعِبَادَةِ والخدمة، والناس في هذا ضربان : عبد لله مخلص، وهو المقصود بقوله : وَاذْكُرْ عَبْدَنا أَيُّوبَ [ ص/ 41] ، إِنَّهُ كانَ عَبْداً شَكُوراً [ الإسراء/ 3] ، نَزَّلَ الْفُرْقانَ عَلى عَبْدِهِ [ الفرقان/ 1] ، عَلى عَبْدِهِ الْكِتابَ [ الكهف/ 1] ، إِنَّ عِبادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطانٌ [ الحجر/ 42] ، كُونُوا عِباداً لِي[ آل عمران/ 79] ، إِلَّا عِبادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ [ الحجر/ 40] ، وَعَدَ الرَّحْمنُ عِبادَهُ بِالْغَيْبِ [ مریم/ 61] ، وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان/ 63] ، فَأَسْرِ بِعِبادِي لَيْلًا[ الدخان/ 23] ، فَوَجَدا عَبْداً مِنْ عِبادِنا[ الكهف/ 65] . وعَبْدٌ للدّنيا وأعراضها، وهو المعتکف علی خدمتها ومراعاتها، وإيّاه قصد النّبي عليه الصلاة والسلام بقوله : «تعس عَبْدُ الدّرهمِ ، تعس عَبْدُ الدّينار» وعلی هذا النحو يصحّ أن يقال : ليس كلّ إنسان عَبْداً لله، فإنّ العَبْدَ علی هذا بمعنی العَابِدِ ، لکن العَبْدَ أبلغ من العابِدِ ، والناس کلّهم عِبَادُ اللہ بل الأشياء کلّها كذلك، لکن بعضها بالتّسخیر وبعضها بالاختیار، وجمع العَبْدِ الذي هو مُسترَقٌّ: عَبِيدٌ ، وقیل : عِبِدَّى وجمع العَبْدِ الذي هو العَابِدُ عِبَادٌ ، فالعَبِيدُ إذا أضيف إلى اللہ أعمّ من العِبَادِ. ولهذا قال : وَما أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ [ ق/ 29] ، فنبّه أنه لا يظلم من يختصّ بِعِبَادَتِهِ ومن انتسب إلى غيره من الّذين تسمّوا بِعَبْدِ الشمس وعَبْدِ اللّات ونحو ذلك . ويقال : طریق مُعَبَّدٌ ، أي : مذلّل بالوطء، وبعیر مُعَبَّدٌ: مذلّل بالقطران، وعَبَّدتُ فلاناً : إذا ذلّلته، وإذا اتّخذته عَبْداً. قال تعالی: أَنْ عَبَّدْتَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء/ 22] . العبد بمعنی غلام کا لفظ چار معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ ( 1 ) العبد بمعنی غلام یعنی وہ انسان جس کی خریدنا اور فروخت کرنا شرعا جائز ہو چناچہ آیات کریمہ : ۔ الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ [ البقرة/ 178] اور غلام کے بدلے غلام عَبْداً مَمْلُوكاً لا يَقْدِرُ عَلى شَيْءٍ [ النحل/ 75] ایک غلام ہے جو بالکل دوسرے کے اختیار میں ہے ۔ میں عبد کا لفظ اس معنی میں استعمال ہوا ہے ( 2 ) العبد بالایجاد یعنی وہ بندے جسے اللہ نے پیدا کیا ہے اس معنی میں عبودیۃ اللہ کے ساتھ مختص ہے کسی دوسرے کی طرف نسبت کرنا جائز نہیں ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمنِ عَبْداً [ مریم/ 93] تمام شخص جو آسمان اور زمین میں ہیں خدا کے روبرو بندے ہوکر آئیں گے ۔ میں اسی معنی کی طرح اشارہ ہے ۔ ( 3 ) عبد وہ ہے جو عبارت اور خدمت کی بدولت عبودیت کا درجہ حاصل کرلیتا ہے اس لحاظ سے جن پر عبد کا لفظ بولا گیا ہے وہ دوقسم پر ہیں ایک وہ جو اللہ تعالیٰ کے مخلص بندے بن جاتے ہیں چناچہ ایسے لوگوں کے متعلق فرمایا : ۔ وَاذْكُرْ عَبْدَنا أَيُّوبَ [ ص/ 41] اور ہمارے بندے ایوب کو یاد کرو ۔ إِنَّهُ كانَ عَبْداً شَكُوراً [ الإسراء/ 3] بیشک نوح (علیہ السلام) ہمارے شکر گزار بندے تھے نَزَّلَ الْفُرْقانَ عَلى عَبْدِهِ [ الفرقان/ 1] جس نے اپنے بندے پر قرآن پاک میں نازل فرمایا : ۔ عَلى عَبْدِهِ الْكِتابَ [ الكهف/ 1] جس نے اپنی بندے ( محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) پر یہ کتاب نازل کی ۔ إِنَّ عِبادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطانٌ [ الحجر/ 42] جو میرے مخلص بندے ہیں ان پر تیرا کچھ زور نہیں ۔ كُونُوا عِباداً لِي[ آل عمران/ 79] کہ میری بندے ہوجاؤ ۔ إِلَّا عِبادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ [ الحجر/ 40] ہاں ان میں جو تیرے مخلص بندے ہیں ۔ وَعَدَ الرَّحْمنُ عِبادَهُ بِالْغَيْبِ [ مریم/ 61] جس کا خدا نے اپنے بندوں سے وعدہ کیا ہے ۔ وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان/ 63] اور خدا کے بندے تو وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں فَأَسْرِ بِعِبادِي لَيْلًا[ الدخان/ 23] ہمارے بندوں کو راتوں رات نکال لے جاؤ ۔ فَوَجَدا عَبْداً مِنْ عِبادِنا[ الكهف/ 65]( وہاں ) انہوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ دیکھا ۔ ( 2 ) دوسرے اس کی پر ستش میں لگے رہتے ہیں ۔ اور اسی کی طرف مائل رہتے ہیں چناچہ ایسے لوگوں کے متعلق ہی آنحضرت نے فرمایا ہے تعس عبد الدرھم تعس عبد الدینا ر ) درہم دینار کا بندہ ہلاک ہو ) عبد کے ان معانی کے پیش نظر یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ہر انسان اللہ کا بندہ نہیں ہے یعنی بندہ مخلص نہیں ہے لہذا یہاں عبد کے معنی عابد یعنی عبادت گزار کے ہیں لیکن عبد عابد سے زیادہ بلیغ ہے اور یہ بھی کہہ سکتے ہیں : ۔ کہ تمام لوگ اللہ کے ہیں یعنی اللہ ہی نے سب کو پیدا کیا ہے بلکہ تمام اشیاء کا یہی حکم ہے ۔ بعض بعض عبد بالتسخیر ہیں اور بعض عبد بالا اختیار اور جب عبد کا لفظ غلام کے معنی میں استعمال ہو تو اس کی جمع عبید یا عبد آتی ہے اور جب عبد بمعنی عابد یعنی عبادت گزار کے ہو تو اس کی جمع عباد آئے گی لہذا جب عبید کی اضافت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو یہ عباد سے زیادہ عام ہوگا یہی وجہ ہے کہ آیت : وَما أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ [ ق/ 29] اور ہم بندوں پر ظلم نہیں کیا کرتے میں عبید سے ظلم کی نفی کر کے تنبیہ کی ہے وہ کسی بندے پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا خواہ وہ خدا کی پرستش کرتا ہو اور خواہ عبدالشمس یا عبد اللات ہونے کا مدعی ہو ۔ ہموار راستہ ہموار راستہ جس پر لوگ آسانی سے چل سکیں ۔ بعیر معبد جس پر تار کول مل کر اسے خوب بد صورت کردیا گیا ہو عبدت فلان میں نے اسے مطیع کرلیا محکوم بنالیا قرآن میں ہے : ۔ أَنْ عَبَّدْتَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء/ 22] کہ تم نے بنی اسرائیل کو محکوم بنا رکھا ہے ۔ جُنون : حائل بين النفس والعقل، وجُنَّ فلان قيل : أصابه الجن، وبني فعله کبناء الأدواء نحو : زکم ولقي «1» وحمّ ، وقیل : أصيب جنانه، وقیل : حيل بين نفسه وعقله، فجن عقله بذلک وقوله تعالی: مُعَلَّمٌ مَجْنُونٌ [ الدخان/ 14] ، أي : ضامّة من يعلمه من الجن، وکذلک قوله تعالی: أَإِنَّا لَتارِكُوا آلِهَتِنا لِشاعِرٍ مَجْنُونٍ [ الصافات/ 36] جنون ( ایضا ) جنوں ۔ دیونگی ۔ قرآن میں سے : ما بصاحبِكُمْ مِنْ جِنَّةٍ [ سبأ/ 46] کہ ان کے رفیق محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کسی طرح کا بھی ) جنون ۔۔ نہیں ہے ۔ اور دیوانگی کو جنون اس لئے کہا جاتا ہے کہ یہ انسان کے دل اور عقل کے درمیان حائل ہوجاتا ہے ۔ جن فلان ۔ اسے جن لگ گیا ۔ امراض کے معانی میں دوسرے افعال کی طرح یہ بھی فعل مجہول ہی استعمال ہوتا ہے جیسے زکم ( اسے زکام ہوگیا ) لقی ( اے لقوہ ہوگیا ) حم ( اے بخار ہوگیا ) وغیرہ ۔ بعض نے کہا ہے جن فلان کے معنی ہیں ۔ اس کے قلب کو عارضہ ہوگیا اور بعض نے کہا کہ دیوانگی نے اس کی عقل کو چھپالیا اور آیت کریمہ :۔ مُعَلَّمٌ مَجْنُونٌ [ الدخان/ 14] کے معنی ہیں کہ اسے وہ جن چمٹا ہوا ہے جو اسے تعلیم دیتا ہے اور یہی معنی آیت :۔ أَإِنَّا لَتارِكُوا آلِهَتِنا لِشاعِرٍ مَجْنُونٍ [ الصافات/ 36] کو بھلاک ایک دیوانے شاعر کے کہنے سے کہیں اپنے معبودوں کو چھوڑ دینے والے ہیں ۔ میں شاعر مجنون کے ہیں ۔ زجر الزَّجْرُ : طرد بصوت، يقال : زَجَرْتُهُ فَانْزَجَرَ ، قال : فَإِنَّما هِيَ زَجْرَةٌ واحِدَةٌ [ النازعات/ 13] ، ثمّ يستعمل في الطّرد تارة، وفي الصّوت أخری. وقوله : فَالزَّاجِراتِ زَجْراً [ الصافات/ 2] ، أي : الملائكة التي تَزْجُرُ السّحاب، وقوله : ما فِيهِ مُزْدَجَرٌ [ القمر/ 4] ، أي : طرد ومنع عن ارتکاب المآثم . وقال : وَقالُوا مَجْنُونٌ وَازْدُجِرَ [ القمر/ 9] ، أي : طرد، واستعمال الزّجر فيه لصیاحهم بالمطرود، نحو أن يقال : اعزب وتنحّ ووراءک . ( زج ر ) الزجر ۔ اصل میں آواز کے ساتھ دھتکارنے کو کہتے ہیں زجرتہ میں نے اسے جھڑکا ، روکا ۔ انزجر ( جھڑکنے پر ) کسی کام سے رک جانا ۔ یہ زجر کا مطاوع بن کر استعمال ہوتا ہے قرآن میں ہے :۔ فَإِنَّما هِيَ زَجْرَةٌ واحِدَةٌ [ النازعات/ 13] اور قیامت تو ایک ڈانٹ ہے ۔ پھر کبھی یہ صرف دھتکار دینا کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور کبھی آواز کیلئے اور آیت کریمہ : فَالزَّاجِراتِ زَجْراً [ الصافات/ 2] سے مراد وہ فرشتے ہیں جو بادلوں کو ڈانٹ کر چلاتے ہیں اور آیت :۔ ما فِيهِ مُزْدَجَرٌ [ القمر/ 4] جس میں ( کافی ) تنبیہ ہے ۔ میں مزدجر سے ایسی باتیں مراد ہیں جو ارتکاب معاصی سے روکتی اور سختی سے منع کرتی ہیں اور آیت ؛۔ وَازْدُجِرَ [ القمر/ 9] اور اسے جھڑکیاں دی گئیں ۔ کے معنی ہیں ڈانٹ کر نکال دیا گیا یہاں زجر کا لفظ اس لیے استعمال کیا گیا ہے کہ مار بھگانے کے وقت تہدید آمیز کلمات استعمال کئے جاتے ہیں ۔ جیسے جا چلا جا دور ہوجا وغیرہ ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

محمد آپ کی قوم سے پہلے قوم نوح نے تکذیب کی یعنی ہمارے بندہ خاص نوح کو جھٹلایا اور ان کے بارے میں کہا یہ دیوانے ہیں اور ان کو دھمکی بھی دی اور ڈرایا بھی۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٩ { کَذَّبَتْ قَبْلَہُمْ قَوْمُ نُوْحٍ } ” جھٹلایا تھا ان سے پہلے نوح کی قوم نے “ اب یہاں سے اس سورت میں انباء الرسل کا تذکرہ شروع ہو رہا ہے۔ جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہوچکا ہے ‘ سورة النجم اور سورة القمر کا آپس میں جوڑے کا تعلق ہے۔ چناچہ ہم دیکھ چکے ہیں کہ سورة النجم میں ” تذکیر بآلاء اللہ “ (اللہ تعالیٰ کی قدرتوں اور نعمتوں کے ذریعے تذکیر) کا انداز تھا ‘ جبکہ اس سورت میں ” تذکیر بایام اللہ “ اور انباء الرسل کا تذکرہ ہے۔ بالکل یہی تقسیم اور یہی انداز اس سے پہلے ہم سورة الانعام اور سورة الاعراف کے مطالعے کے دوران بھی دیکھ چکے ہیں۔ سورة الانعام میں آلاء اللہ کے ذریعے تذکیر کی گئی ہے ‘ جبکہ سورة الاعراف میں انباء الرسل کا انداز ہے ۔ اسی طرح یہ دونوں سورتیں بھی مل کر تذکیر و انذار کے دونوں پہلوئوں کی تکمیل کرتی ہیں۔ { فَـکَذَّبُوْا عَبْدَنَا وَقَالُوْا مَجْنُوْنٌ وَّازْدُجِرَ ۔ } ” تو انہوں نے ہمارے بندے کو جھٹلایا اور کہا کہ یہ تو مجنون ہے اور اسے جھڑک دیا گیا۔ “ اس بدبخت قوم نے ہمارے جلیل القدر رسول (علیہ السلام) کو نہ صرف جھٹلا دیا بلکہ اس کے ساتھ اہانت آمیز سلوک روا رکھا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

9 That is, `They denied that the Hereafter has to take place when man will have to render an account of his deeds; they denied the Prophethood of the Prophet who was making his people aware of this truth; and they denied the teaching of the Prophet, which taught them what to believe and what creed and conduct they should adopt in order to pass the reckoning of the Hereafter." 10 That is, "The people not only belied the Prophet but also branded him as a madman; they uttered threats against him, showered him with curses and abuses; and did whatever possibly they could to stop him from preaching the truth, and thus made life extremely difficult for him.

سورة الْقَمَر حاشیہ نمبر :9 یعنی اس خبر کو جھٹلا چکی ہے کہ آخرت برپا ہونی ہے جس میں انسان کو اپنے اعمال کا حساب دینا ہو گا ، اس نبی کی نبوت کو جھٹلا چکی ہے جو اپنی قوم کو اس حقیقت سے آگاہ کر رہا تھا ، اور نبی کی اس تعلیم کو جھٹلا چکی ہے جو یہ بتاتی تھی کہ آخرت کی باز پرس میں کامیاب ہونے کے لیے لوگوں کو کیا عقیدہ اور کیا عمل اختیار کرنا چاہیے اور کس چیز سے بچنا چاہیے ۔ سورة الْقَمَر حاشیہ نمبر :10 یعنی ان لوگوں نے محض نبی کی تکذیب ہی پر اکتفا نہ کیا ، بلکہ الٹا اسے دیوانہ قرار دیا ، اس کو دھمکیاں دیں ، اس پر لعنت ملامت کی بوچھاڑ کی ، اسے ڈانٹ ڈپٹ کر صداقت کی تبلیغ سے باز رکھنے کی کوشش کی ، اور اس کا جینا دوبھر کر دیا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٩۔ ٣٦۔ تفسیر عبد الملک بن جریج اور تفسیر ١ ؎ ابن کثیر میں حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ ہمیشہ معمولی مینہ تو بادلوں سے برستا ہے قوم نوح کے طوفان کے وقت بغیر بادلوں کے اللہ تعالیٰ نے آسمان کے در وازے کھول دیئے تھے جس سے طوفان کا عذاب آیا۔ صحیح ٢ ؎ حدیث میں اوپر گزر چکا ہے کہ نیک روحوں کے آسمان پر لے جانے کے لئے آسمان کے دروازے کھل جاتے ہیں اور بد روحوں کے لئے نہیں کھلتے اور معراج کی صحیح حدیثوں میں آسمان کے دروازہ کا ذکر موجود ہے پھر باوجود اس کے فلسفی اصول پر بعض مفسروں نے آسمان کے دروازوں کی جو تاویل کی ہے وہ تاویل قرآن شریف اور صحیح حدیثوں کے مخالف ہے جن رسولوں کے قصے اس سورة میں ہیں ان کی تفصیل تو اور سورتوں میں گزر چکی ہے یہاں اس قدر بیان کردینا کافی ہے کہ جب قریش میں کے منکر لوگوں نے ایسا بڑا ظاہر معجزہ چاند کے دو ٹکڑے ہوجانے کا دیکھا اور پھر بھی اس معجزے پر ایمان نہ لائے اور اس کو جادو بتایا تو اللہ تعالیٰ نے قوم نوح سے لے کر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے زمانہ تک پچھلی قوموں کا طرح طرح کے عذابوں سے ہلاک ہوجانے کا ذکر فرما کر اخیر کو فرمایا ہے کہ اے رسول اللہ کے ان منکروں سے پوچھو کہ ان منکروں میں کونسی خصوصیت ہے کہ یہ لوگ پچھلے عذاب الٰہی میں پکڑی ہوئی قوموں کے سے کام کریں گے اور پھر اللہ تعالیٰ ان کو کسی عذاب میں نہ پکڑے گا۔ کیا اللہ کی طرف سے ان کے پاس کوئی نوشتہ آگیا ہے کہ یہ لوگ جو چاہیں گے سو کریں گے۔ اور اللہ ان سے کچھ مواخذہ نہ کرے گا۔ ان کو اپنے جتھے کا یہ گھمنڈ ہے کہ ان کے جتھے کے لوگ آپس میں ایک دوسرے کی مدد کرکے عذاب الٰہی کو ٹال دیں گے۔ پھر فرمایا کہ تھوڑے دنوں میں ان کا یہ جتھا شکست کھا کر بھاگ جائے گا حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں کہ بدر کی لڑائی کے دن منکروں کے جتھے کی شکست کھانے اور بھاگنے کا مطلب اچھی طرح ١ ؎ سمجھ میں آیا فرعون اور اس کی قوم کے غرق ہو کر ہلاک ہوجانے کے بعد موسیٰ (علیہ السلام) پر تورات نازل ہوئی اور یہ سورة قصص میں گزر چکا ہے کہ آیت کے نازل ہونے کے بعد عام عذاب سے پھر کوئی قوم ہلاک نہیں ہوئی۔ اس لئے پہلے صاحب شریعت رسول نوح (علیہ السلام) کی قوم سے ساس طرح کی قوموں کا سلسلہ شروع ہوتا ہے جو عام عذاب سے ہلاک ہوئی ہیں اور فرعون اور اس کی قوم پر یہ سلسلہ ختم ہوجاتا ہے ان آیتوں میں قریش کی تنبیہ مقصود ہے اس سبب سے اس طرح کی قوموں کا سلسلہ وار ذکر فرمایا۔ لیکن اختصار کی نظر سے اہل مدین کے ذکر کو یہاں مخدوف فرما دیا۔ یہ جو فرمایا کہ نوح (علیہ السلام) کی قوم نے ان کو جھڑکا۔ اس کی تفسیر سورة شعراء میں گزر چکی ہے کہ ان کی قوم نے ان کو پتھروں سے کچل ڈالنے کی دھمکی دے کر جھڑکا تھا۔ ولقد انذرھم بطشتنا فتماروا بالنذر کا مطلب یہ ہے کہ عذاب کے آنے سے پہلے حضرت لوط (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو ہرچند عذاب الٰہی سے ڈرایا مگر ان کی قوم نے ان کی نصیحت نہ سنی اور اس نصیحت کو جھٹلاتے رہے۔ (١ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٢٦٦ ج ٤۔ ) (١ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٣٦٣ ج ٤۔ ) (٢ ؎ مشکوٰۃ شریف باب فیما یقال عند من حضرہ الموت فصل ثالث ص ١٤١ و ١٤٢۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(54:9) کذبت ماضی واحد مؤنث غائب۔ قبلہم میں ہم ضمیر جمع مذکر غائب کا مرجع اہل مکہ ہیں۔ جن کا اوپر ذکر معجزہ شق القمر دیکھ کر ایمان لانے سے انکار کرنے کے سلسلہ میں ہوا ہے۔ عبدنا : مضاف مضاف الیہ۔ ہمارا بندہ۔ مراد حضرت نوح (علیہ السلام) ہیں۔ وازدجر : واؤ عاطفہ، ازدجر ماضی مجہول واحد مذکر غائب۔ ازدجار (افتعال) مصدر سے۔ جس کے معنی چھڑکنے اور ڈانٹنے ڈپٹنے کے ہیں۔ وہ جھڑ کا گیا۔ اس کی ڈانٹ ڈپٹ کی گئی۔ بعض نے ازدجر کے معنی آسیب زدہ کے کئے ہیں۔ وازدجر کا عطف مجنون پر ہے یعنی کافروں نے یہ بھی کہا کہ نوح جنات کی جھپٹ میں آگیا ہے اور کسی جن نے مخبوط الحواس بنادیا ہے۔ یا اس کا عطف قالوا پر ہے یعنی نوح (علیہ السلام) کو قوم والوں نے دیوانہ کہا اور طرح طرح کی تکلیفیں دیں۔ اور جھڑکیاں بھی دیں

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 یعنی دھمکیاں دیں اور ہر طریقہ سے لعنت و ملامت کی کہ نبوت کا دعویٰ کرنے اور اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچانے سے باز رہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 9 تا 17 اذدجر جھڑک دیا گیا۔ مغلوب بےبس کردیا گیا۔ انتصر تو بدلہ لے۔ منھمر زور سے گرنے ولا۔ فجرنا ہم نے پھاڑ دیئے۔ ذات الواح تختوں والی۔ دسر (دسار) میخیں ، کیلیں۔ مدکر دھیان دینے والا۔ یسرنا ہم نے آسان کردیا۔ تشریح : آیت نمبر 9 تا 17 اللہ تعالیٰ ان بہت سے واقعات کی طرف متوجہ فرما رہے ہیں جو عبرت و نصیحت کا ذریعہ ہیں۔ ان میں سب سے پہلے حضرت نوح کے واقعہ کو بیان کیا جا رہا ہے کہ انہوں نے ساڑھے نو سو سال تک اپنی قوم کے ایک ایک فرد کو سمجھایا اور تبلیغ دین کی جدوجہد فرمائی مگر ان کی قوم کے وہ عیش پسند کفار و مشرکین جو اپنی جھٹوی عظمتوں میں گم تھے انہوں نے ان کی عظمت کا اعتراف کرنے کے بجائے ان کو دیوانہ کہا۔ ان کو یہ دھمکی بھی دی کہ اگر انہوں نے تبلیغ دین کی باتوں کو نہ چھوڑا تو وہ ان کو پتھر مار مار کر ہلاک کردیں گے ۔ جہاں موقع ہوتا وہ حضرت نوح پر حملہ کر کے ان کو شدید اذیتیں پہنچاتے۔ آخر کار اللہ نے حضرت نوح کو ایک ایسی بڑی کشتی بنانے کا حکم دیا جس میں ان پر ایمان لانے والے اور زمین کے جانور سما سکیں۔ حضرت نوح نے تختے اور لکڑیوں کو کیلوں سے جوڑ کر اللہ کی نگرانی میں ایک بہت بڑی کشتی بنائی جو موجودہ دور کے جہازوں سے کم نہ تھی۔ جب حضرت نوح کشتی بنا رہے تھے تو کفار نے ان کا مذاق اڑاتے ہوئے ان کو دیوانہ کہنا شروع کیا اور کہا کہ کیا خشکی پر بھی کشتیاں چلیں گی ؟ حضرت نوح کشتی بناتے جا رہے تھے اور قوم کے مذاق اڑانے سے بےپرواہ ہو کر قوم کو سمجھاتے بھی جارہے تھے مگر وہ قوم حضرت نوح کی قدر کرنے کے بجائے مسلسل ان کی نافرمانی کے ساتھ ساتھ ان کو ذلیل کرتی جا رہی تھی۔ ایک دن حضرت نوح نے اللہ کی بارگاہ میں عرض کردیا الٰہی ! میں نے دن اور رات نرمی ، سختی اور ہر طرح کی جدوجہد سے اس قوم کو سمجھانے کی کوشش کی مگر انہوں نے میری کوئی بات نہ مانی اب آپ اس قوم کے لئے سخت سے سخت فیصلہ فرما دیجیے کیونکہ اس قوم کے بڑے اور چھوٹے اطاعت اور فرما برداری کی سعادت سے محروم ہوچکے ہیں۔ میں مغلوب ہوچکا ہوں میری مدد فرمائیے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح کی فریاد سن کر حکم دیا کہ جتنے اہل ایمان ہیں وہ اور خشکی کے جانور ہیں ان کا ایک ایک جوڑا اپنی کشتی میں سوار کر لیجیے جب وہ سوار ہوگئے تو زبردست سیلابی بارشوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ تنور اور چشمے اہل بڑے ۔ ایسا لگتا تھا کہ زمین و آسمان کی بارشوں سے پوری زمین سمندر بن چکی ہے وہ پانی بڑی تیزی سے بڑھا۔ کشتی نوح پانی پر چلنا شروع ہوگئی۔ پانی اس قدر تیزی سے بڑھ رہا تھا کہ اونچے پہاڑوں کی چوٹیوں پر پناہ لینے والے بھی محفوظ نہ رہ سکے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح جیسی مخلص ہستی کا مذاق اڑانے والوں اور اذیتیں دینے والوں سے زبردست انتقام لیکر اس پروری قوم کو تہس نہس کر کے رکھ دیا اور اہل ایمان کو بچا لیا گیا۔ سچ ہے اللہ کے نیک بندوں کو ستانے والے اللہ کے انتقام سے نہیں بچ سکتے یہ وہ عبرت و نصیحت کی باتیں ہیں کہ اگر ان واقعات کو دیکھ کر بھی لوگ عبرت حاصل نہ کریں تو پھر کن باتوں سے سبق سیکھیں گے ؟ اللہ نے فرمایا کہ ہم نے اس قرآن اور اس میں بیان کئے گئے واقعات کو سمجھنا آسان کردیا ہے پھر بھی اگر کوئی نہیں سمجھتا تو اتنی بات اس کی سمجھ میں آ جانی چاہئے کہ جب اللہ کا عذاب آتا ہے تو اس سے بچنا ممکن نہیں ہوتا۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : قیامت اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کو جھٹلانے والوں میں سر فہرست نوح (علیہ السلام) کی قوم بھی تھی جن کا دنیا میں بھی بدترین انجام ہوا۔ قرآن مجید نے موقع کی مناسبت سے حضرت نوح (علیہ السلام) اور ان کی قوم کا کئی مقامات پر ذکر کیا ہے۔ یہاں منکرین کو سمجھانے کے لیے ایک مرتبہ پھر قوم نوح کا ذکر کیا ہے۔ قوم نوح بھی ان لوگوں میں شامل ہے جنہوں نے اپنے رسول کو یکسر طور پر مسترد کردیا، جس کے نتیجے میں دنیا میں بھی برے انجام سے دو چار ہوئے جس کا اس موقع پر یوں ذکر کیا جا رہا ہے کہ قوم نوح بھی ہمارے بندے نوح (علیہ السلام) کو جھٹلاچ کی ہے۔ نوح (علیہ السلام) نے انہیں ساڑھے نوسوسال سجھایا مگر قوم نے انہیں ہر بار پاگل کہا اور اس پر زیادتی کی اور کہا کہ اے نوح ! تو باز نہ آیا تو ہم تجھے پتھر مار مار کر مار دیں گے۔ اس صورتحال میں نوح (علیہ السلام) نے اپنے رب سے فریاد کی کہ میرے رب میں اپنی قوم کے سامنے مغلوب ہوگیا ہوں تو میری مدد فرما۔ ” نوح نے کہا اے میرے پروردگار ! میں نے اپنی قوم کو تیری طرف رات دن بلایا ہے۔ مگر میرے بلانے سے یہ لوگ اور دور بھاگ گئے۔ میں نے جب بھی تیری بخشش کے لیے انہیں بلایاتو انہوں نے اپنی انگلیاں اپنے کانوں میں ڈال لیں اور اپنے کپڑوں کو اوڑھ لیا اور اڑ گئے اور بڑا تکبر کیا۔ “ (نوح : ٥ تا ٨) (وَقَالُوْا لَا تَذَرُنَّ آلِہَتَکُمْ وَلَا تَذَرُنَّ وَدًّا وَّلَا سُوَاعًا وَلَا یَغُوثَ وَیَعُوقَ وَنَسْرًا) (نوح : ٢٣) ” اور کہا انہوں نے کہ اپنے معبودوں اور ودّ اور سواع اور یغوث اور یعوق اور نسر کو ہرگز نہ چھوڑنا۔ “ ( وَقَالَ نُوحٌ رَّبِّ لَا تَذَرْ عَلَی الْاَرْضِ مِنَ الْکٰفِرِیْنَ دَیَّارًا اِِنَّکَ اِِنْ تَذَرْہُمْ یُضِلُّوْا عِبَادَکَ وَلَا یَلِدُوْا اِِلَّا فَاجِرًا کَفَّارًا) (نوح : ٢٦، ٢٧) ” اور حضرت نوح نے کہا کہ اے رب ! تو روئے زمین پر کسی کافر کو نہ چھوڑ۔ اگر انہیں تو نے چھوڑ دے گا تو یقیناً یہ تیرے بندوں کو گمراہ کریں گے۔ “ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح (علیہ السلام) کی بدعا کو قبول فرما لیا۔ جس کے نتیجے میں ان پر زوردار بارشوں کا سلسلہ شروع ہوا یہاں تک کہ جگہ جگہ زمین سے چشمے پھوٹ پڑے اور زمین کا اوپر نیچے کا پانی مل گیا جس سے اس قوم کو غرق کردیا گیا۔ ” نوح کی طرف وحی کی گئی کہ بیشک تیری قوم میں سے کوئی شخص ایمان نہیں لائے گا مگر جو پہلے ایمان لا چکا جو کچھ وہ کرتے رہے ہیں اس پر غمگین نہیں ہونا۔ ہماری آنکھوں کے سامنے اور ہماری وحی کے مطابق کشتی بناؤ اور مجھ سے ظالموں کے بارے میں گفتگو نہ کرنا یقیناً وہ غرق کیے جائیں گے۔ وہ کشتی بناتا رہا اور جب اس کے پاس سے اس کی قوم کے سردار گزرتے تو اس سے مذاق کرتے۔ وہ کہتا اگر تم ہم سے مذاق کرتے ہو تو ہم بھی تم سے مذاق کریں گے جس طرح تم مذاق کرتے ہو۔ پس تمہیں جلد معلوم ہوجائے گا۔ کون ہے ؟ جس پر ایسا عذاب آتا ہے جو اسے رسوا کر دے گا اور کس پر دائمی عذاب نازل ہونے والا ہے ؟ یہاں تک کہ ہمارا حکم آپہنچا اور تنور ابل پڑا۔ ہم نے فرمایا بیڑے میں ہر جنس کے دو دو جوڑے سے نرومادہ اور اپنے گھر والوں کو سوار کرلو اور ان کو بھی جو ایمان لے آئے سوائے اس کے جس پر پہلے بات ہوچکی۔ تھوڑے لوگ تھے جو اس پر ایمان لائے۔ نوح نے کہا اس میں سوار ہوجاؤ۔ کشتی کا چلنا اور اس کا ٹھہرنا اللہ کے نام کے ساتھ ہے۔ یقیناً میرا رب بہت بخشنے اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔ کشتی ان کو لے کر پہاڑوں جیسی موجوں میں چلی جارہی تھی، نوح نے اپنے بیٹے کو آواز دی اور وہ ایک الگ جگہ میں تھا۔ اے میرے بیٹے ! ہمارے ساتھ سوار ہوجا اور کافروں کے ساتھ شامل نہ ہو۔ “ (ہود : ٣٦ تا ٤٢) (قَالَ سَاٰوِیْٓ اِلٰی جَبَلٍ یَّعْصِمُنِیْ مِنَ الْمَآءِ قَالَ لَا عَاصِمَ الْیَوْمَ مِنْ اَمْرِ اللّٰہِ اِلَّا مَنْ رَّحِمَ وَ حَالَ بَیْنَہُمَا الْمَوْجُ فَکَانَ مِنَ الْمُغْرَقِیْنَ ) (ہود : ٤٣) ” اس نے کہا میں جلد ہی کسی پہاڑ پر پناہ لے لوں گا جو مجھے پانی سے بچا لے گا۔ نوح (علیہ السلام) نے فرمایا آج اللہ کے حکم سے کوئی بچانے والا نہیں۔ مگر جس پر وہ رحم کرے اور دونوں کے درمیان موج حائل ہوگئی تو وہ غرق ہونے والوں میں سے ہوگیا۔ “ مسائل ١۔ اہل مکہ تم سے پہلے نوح (علیہ السلام) کی قوم بھی انہیں جھٹلا چکی ہے۔ ٢۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کو ان قوم نے پاگل کہا اور اس پر زیادتی کی۔ ٣۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے قوم کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کی۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ نے نوح (علیہ السلام) کو اپنے سامنے کشتی بنانے کا حکم دیا۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ نے نوح (علیہ السلام) کی قوم سے انتقام لیا۔ ٦۔ اللہ تعالیٰ نے بارش کے لیے آسمان کے دروازے کھول دیئے اور جگہ جگہ زمین میں چشمے جاری کردیئے۔ ٧۔ اللہ تعالیٰ نے قوم نوح کے واقعہ کو ان کے بعد آنے والے لوگوں کے لیے عبرت بنا دیا ہے۔ تفسیر بالقرآن قرآن مجید میں حضرت نوح (علیہ السلام) اور ان کی قوم کا تذکرہ : ١۔ نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو ایک ” اللہ “ کی عبادت کرنے کی دعوت دی۔ (المومنون : ٢٣) ٢۔ نوح (علیہ السلام) پر اللہ تعالیٰ نے سلامتی نازل فرمائی۔ (الصٰفٰت : ٧٩) ٣۔ نوح (علیہ السلام) پر اللہ تعالیٰ نے وحی کا نازل فرمائی۔ (النساء : ١٦٣) ٤۔ نوح (علیہ السلام) پر اللہ تعالیٰ نے اپنا انعام فرمایا۔ (مریم : ٥٨) ٥۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت سے نوازا۔ (الانعام : ٨٤) (الفرقان : ٣٧) ٦۔ ہم نے نوح (علیہ السلام) اور اس کے ساتھیوں کو نجات دی اور تکذیب کرنے والوں کو غرق کردیا۔ (الاعراف : ٦٤)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

کذبت ............ نوح (54: ٩) ” ان سے پہلے نوح کی قوم نے جھٹلایا “ انہوں نے آیات الٰہی کو بھی جھٹلایا اور رسالت کو بھی۔ فکذبوا عبدنا (54: ٩) ” انہوں نے ہمارے بندے کو جھوٹا قرار دیا “ یعنی نوح کو۔ وقالو مجنون (54: ٩) ” اور کہا یہ دیوانہ ہے “ جس طرح قریش نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کہا کہ مجنوں ہے اور انہوں نے حضرت نوح کو دھمکی دی کہ ہم تمہیں رجم کردیں گے اور مزاح کرکے اذیت دی اور انہوں نے آپ سے مطالبہ کیا کہ ہم پر تنقید کرنے سے باز آجاؤ اور آپ کو سخت دھمکیاں اور جھڑکیاں دیں۔ وازدجر (54: ٩) ” اور بری طرح جھڑکا گیا “ حالانکہ مناسب یہ تھا کہ وہ خود باز آتے اور ان کی اطاعت کرتے۔ اس نوبت تک پہنچ کر حضرت نوح رب تعالیٰ کی طرف دست بدعا ہوتے ہیں کیونکہ اللہ ہی نے ان کو اس مہم پر بھیجا تاکہ آپ اللہ کو وہ رپورٹ دے دیں کہ قوم نے میرے ساتھ یہ سلوک کیا ہے اور یہ کہ میں نے اس قدر جدوجہد کی ہے اور اب میری قوت نے جواب دے دیا ہے۔ حضرت نے اس وقت اللہ کو پکارا جب نہ کوئی حیلہ رہا اور نہ طاقت رہی۔ انہوں نے تمام حربے آزمائے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

سیّدنا نوح (علیہ السلام) کی تکذیب، قوم کا عنادوانکار، پھر قوم کی ہلاکت اور تعذیب اہل مکہ کا انکار اور عناد بڑھتا جا رہا تھا انہیں گزشتہ اقوام کی تکذیب اور ہلاکت اور تعذیب کے واقعات بتائے گئے۔ یہاں سیّدنا نوح (علیہ السلام) کی قوم اور قوم عادو ثمود اور حضرت لوط (علیہ السلام) کی قوم کے واقعات ذکر فرمائے ہیں اولاً سیّدنا نوح (علیہ السلام) کا تذکرہ فرمایا کہ اہل مکہ سے پہلے ہمارے بندہ نوح (علیہ السلام) کی بھی تکذیب کی گئی ان کی قوم نے انہیں دیوانہ بتایا اور ان کی بےادبی کرتے رہے قوم نے انہیں جھڑکا اور بےادبی کے ساتھ مقابلہ کیا (جس کی تفصیل سورة اعراف، سورة ہود اور سورة الشعراء میں گزر چکی ہے اور سورة نوح میں بھی آرہی ہے) ۔ (انشاء اللہ تعالیٰ ) حضرت نوح (علیہ السلام) ان کے درمیان ساڑھے نو سو سال رہے انہیں توحید کی دعوت دی۔ حق پیش کیا بارہا سمجھایا۔ لیکن انہوں نے نہ مانا بلکہ الٹا انہیں کو گمراہی میں بتانے لگے۔ کمافی سورة الاعراف ﴿ قَالَ الْمَلَاُ مِنْ قَوْمِهٖۤ اِنَّا لَنَرٰىكَ فِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ ٠٠٦٠﴾ ان لوگوں نے ضد پکڑ لی عناد پر اتر آئے اور کہنے لگے ﴿ فَاْتِنَا بِمَا تَعِدُنَاۤ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِيْنَ ٠٠٧٠﴾ کہ تم جو کچھ دھمکیاں دے رہے ہو عذاب کی باتیں کر رہے ہو اگر سچے ہو تو عذاب کو لے آؤ، ابھی سامنے کرکے دکھاؤ۔ حضرت نوح (علیہ السلام) ان کی حرکتوں سے بہت عاجز آچکے تھے بہت کم لوگ ان پر ایمان لائے سورة ہود میں ہے ﴿ وَ مَاۤ اٰمَنَ مَعَهٗۤ اِلَّا قَلِيْلٌ٠٠٤٠﴾ ان لوگوں نے تو عذاب مانگا ہی تھا حضرت نوح (علیہ السلام) نے بھی ان کے لیے بددعا کردی۔ سورة المومنون میں ہے کہ انہوں نے عرض کیا کہ ﴿ رَبِّ انْصُرْنِيْ بِمَا كَذَّبُوْنِ ٠٠٢٦﴾ اور یہاں سورة قمر میں ہے کہ فَدَعَا رَبَّهٗۤ اَنِّيْ مَغْلُوْبٌ فَانْتَصِرْ ٠٠١٠﴾ (سو انہوں نے اپنے رب کو پکارا کہ اے میرے رب میں مغلوب ہوں سو میری مدد فرمائیے) اور سورة نوح میں ہے کہ انہوں نے دعا میں عرض کیا ﴿ رَّبِّ لَا تَذَرْ عَلَى الْاَرْضِ مِنَ الْكٰفِرِيْنَ دَيَّارًا ٠٠٢٦﴾ (اے میرے رب کافروں میں سے کسی کو بھی زمین پر چلتا پھرتا مت چھوڑ) اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرمائی انھیں حکم دیا کہ کشتی بناؤ اس کشتی کو یہاں سورة القمر میں ﴿ذَاتِ اَلْوَاحٍ وَّ دُسُرٍۙ٠٠١٣﴾ سے تعبیر فرمایا ہے یعنی تختوں سے بنی ہوئی چیز جس میں میخیں یعنی کیلیں لگی ہوئی تھیں۔ جب یہ کشتی تیار ہوگئی تو ارشاد فرمایا کہ اپنے گھر والوں کو اور دیگر اہل ایمان کو اس میں سوار کرلو، جب یہ حضرات سوار ہوگئے تو اللہ تعالیٰ نے پانی کا طوفان بھیج دیا آسمان سے بھی پانی برسا اور خوب برسا اور زمین سے بھی چشمے جاری ہوئے دونوں پانی آپس میں مل گئے اور جو فیصلہ ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے قضاو قدر میں لکھا ہوا تھا اسی کے مطابق ان لوگوں کی ہلاکت و بربادی ہوگئی، کشتی پانی میں بہتی رہی اللہ تعالیٰ نے اپنی نگرانی میں اسکو جاری رکھا اور جو لوگ ان میں سوار تھے ان کی حفاظت فرمائی اور کافروں کو ڈبو دیا، چونکہ ان لوگوں نے حضرت نوح (علیہ السلام) کو بہت ستایا تھا اور ان کی ناقدری کی تھی اس لیے فرمایا ﴿ جَزَآءً لِّمَنْ كَانَ كُفِرَ ٠٠١٤﴾ (ان لوگوں کی غرقابی اس شخص کا بدلہ لینے کے لیے تھی جس کی ناقدری کی گئی) ۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

7:۔ کذبت قبلہم۔ یہ تخویف دنیوی کا پہلا نمونہ ہے۔ گذشتہ سرکش قوموں کا حال بیان کر کے معاندین قریش کو عبرت دلانا مقصود ہے۔ پہلی قوموں نے اپنے اپنے وقت کے پیغمبروں اور صحیفوں کو جھٹلایا آخر اسی جرم کی پاداش میں تباہ و برباد کردئیے گئے۔ مشرکین قریش کے پس اللہ کا آخری پیغمبر اور اس کی آخری کتاب آچکی ہے جس کا سمجھنا، ہم نے ان کے لیے آسان کردیا ہے۔ اگر وہ اپنی موجودہ روش عناد پر قائم رہے تو ان کا حشر بھی اقوام سابقہ کا سا ہوگا۔ کفار قریش سے پہلے قوم نوح ہمارے بندے نوح (علیہ السلام) کی تکذیب کرچکی ہے اور صرف تکذیب ہی نہیں کی بلکہ ازاراہ عناد و سرکشی ان کو تحقیر و استہزاء کا نشانہ بھی بنایا اور ان کی شان میں گستاخیاں بھی کیں انہیں دیوانہ بتایا کیونکہ وہ سینکڑوں برس سے صرف ایک ہی بات (اللہ کی توحید) کی رٹ لگا رہا ہے اس کی عقل ٹھکانے نہیں رہی، معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے جن معبودوں کی مخالفت کرتا ہے انہوں نے ناراض ہو کر اس کی عقل و فہم سلب کرلی ہے۔ عیاذا باللہ تعالی۔ جس طرح قوم عاد کے طاغیوں نے حضرت ہود (علیہ السلام) سے کہا تھا۔ ان نقول الا اعتراک بعض الھتنا بسوء (ہود رکوع 5) ۔ قال مجاھد وازدجر استطیر جنونا (ابن کثیر، بحر) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(9) ان لوگوں سے پہلے نوح (علیہ السلام) کی قوم نے تکذیب کی اور نوح کی قوم بھی تکذیب کا شیوہ اختیار کرچکی ہے چناچہ انہوں نے ہمارے بندے نوح (علیہ السلام) کو جھٹلایا اس کی تکذیب کی اور اس کو جھوٹا بتایا اور کہا کہ یہ دیوانہ ہے اور اس کو جھڑک دیا اور اس کو دھمکی دی گئی۔ یعنی حضرت نوح (علیہ السلام) کو جھوٹا کہا اور دیوانہ کہا اور جھڑکا اور دھمکایا جیسا کہ سورة شعراء میں گزرا ہے کہ اے نوح (علیہ السلام) اگر تو باز نہ آیا تو ہم تجھ کو سنگسار کردیں گے جب نوح (علیہ السلام) کے ساتھ یہ سلوک کیا گیا تو انہوں نے قوم کے حق میں یہ دعا کی۔