Surat ul Waqiya

Surah: 56

Verse: 45

سورة الواقعة

اِنَّہُمۡ کَانُوۡا قَبۡلَ ذٰلِکَ مُتۡرَفِیۡنَ ﴿۴۵﴾ۚ ۖ

Indeed they were, before that, indulging in affluence,

بیشک یہ لوگ اس سے پہلے بہت نازوں میں پلے ہوئے تھے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Verily, before that, they indulged in luxury, meaning, in the life of the world, they were enjoying life's pleasures and satisfying their lusts, all the while ignoring what the Messengers brought to them,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

451یعنی دنیا اور آخرت سے غافل ہو کر عیش و عشرت کی زندگی میں ڈوبے ہوئے تھے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اِنَّہُمْ کَانُوْا قَبْلَ ذٰلِکَ مُتْرَفِیْنَ : یعنی ان کا یہ انجام بد اس لیے ہوا کہ اس سے پہلے دنیا میں انہیں ہر طرح کی خوش حالی عطاء کی گئی تھی ، مگر اس خوش حالی نے ان پر الٹا اثر کیا اور وہ شکر گزار ہونے کے بجائے نافرمانی پر تل گئے اور حلال و حرام کی پرواہ کیے بغیر اپنے نفس کی لذتوں میں منہمک ہوگئے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنَّہُمْ كَانُوْا قَبْلَ ذٰلِكَ مُتْرَفِيْنَ۝ ٤٥ ۚ ۖ ترف التُّرْفَةُ : التوسع في النعمة، يقال : أُتْرِفَ فلان فهو مُتْرَف . أَتْرَفْناهُمْ فِي الْحَياةِ الدُّنْيا [ المؤمنون/ 33] ، وَاتَّبَعَ الَّذِينَ ظَلَمُوا ما أُتْرِفُوا فِيهِ [هود/ 116] ( ت ر ف) الترفۃ ۔ عیش و عشرت میں فراخی اور وسعت کو کہتے ہیں ۔ کہا جاتا ہے ۔ اترف فلان فھو مترف وہ آسودہ حال اور کثرت دولت کی وجہ سے بدمست ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ أَتْرَفْناهُمْ فِي الْحَياةِ الدُّنْيا [ المؤمنون/ 33] اور دنیا کی زندگی میں ہم نے اس کو آسودگی دی رکھی تھی ۔ وَاتَّبَعَ الَّذِينَ ظَلَمُوا ما أُتْرِفُوا فِيهِ [هود/ 116] اور جو ظالم تھے و ہ ان ہی باتوں کے پیچھے لگے رہے ۔ جن میں عیش و آرام تھا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٤٥۔ ٥٣) وہ لوگ دنیا میں بڑے حد سے تجاوز کرنے والے تھے یا یہ کہ بڑی خوش حالی میں رہتے تھے اور وہ بڑے بھاری گناہ پر یعنی شرک یا یہ کہ جھوٹی قسموں پر اصرار کیا کرتے تھے اور دنیا میں یوں کہا کرتے تھے کہ جب ہم مرگئے اور مٹی اور ہڈیاں ہوگئے تو کیا اس کے بعد ہم دوبارہ زندہ کیے جائیں گے۔ اور پھر اس کے بعد اے ایمان و ہدایت سے گمراہ ہونے والو اللہ تعالیٰ اور رسول اور کتاب کو جھٹلانے والو یعنی ابو جہل اور اس کے ساتھیو درخت زقوم سے کھانا ہوگا اور پھر اس درخت زقوم سے پیٹ بھرنا ہوگا یہ درخت دوزخ کی جڑ میں سے اگا ہوا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤٥{ اِنَّہُمْ کَانُوْا قَبْلَ ذٰلِکَ مُتْرَفِیْنَ ۔ } ” یہ لوگ اس سے پہلے (دنیا میں) بڑے خوشحال تھے۔ “ دنیا میں انہیں ہر طرح کا عیش و آرام میسر تھا۔ وہاں انہوں نے خوب مزے کیے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(56:45) قبل ذلک : اس سے قبل، دنیا میں۔ مترفین : اتراف (افتعال) مصدر سے اسم مفعول جمع مذکر بحالت نصب مترف واحد۔ ناز پروردہ، آسودہ حال لوگ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 یعنی حرام و حلال سے بےپروا ہو کر نفس کی خواہشوں اور دنیا کی رنگ رلیوں میں مست ہوچکے تھے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : بائیں ہاتھ والوں کے جرائم اور انجام۔ ہائیں ہاتھ والوں کی اکثریت ان لوگوں پر مشتمل ہوگی جو دنیا میں خوش حال اور مال دار تھے، یہی لوگ معاشرے میں اکثر برائیوں کے موجد تھے، مالدار ہونے کے باوجود لوگوں کے حقوق غصب کرتے تھے اور غریبوں کا خیال نہیں رکھتے تھے حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ہر آسمانی کتاب میں لوگوں کے حقوق غصب کرنے سے منع کیا ہے اور غریبوں، مسکینوں، بیواؤں، یتیموں اور زیر دست لوگوں کا خیال رکھنے کا حکم صادر فرمایا ہے، خوش حال اور مال دار لوگوں کے مال میں کمزور لوگوں کا حق رکھا گیا ہے (الذاریات : ١٩) لیکن جہنم میں جانے والے مجرم کمزور لوگوں کے حقوق کا خیال نہیں رکھتے تھے جس کا وہ جہنم میں اقرار کریں گے۔ (المدثر : ٤٤) بائیں ہاتھ والوں کا جہنم میں جانے کا سب سے بڑا سبب یہ ہوگا کہ جہنمی بڑے بڑے گناہوں پر قولاً یا عملاً اصرار کیا کرتے تھے۔ بڑے گناہوں میں سب سے بڑا گناہ ” اللہ “ کی ذات اور اس کی صفات میں دوسروں کو شریک بنانا ہے جسے شرک کہا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا قطعی فیصلہ ہے کہ مشرک کو کبھی معاف نہیں کیا جائے گا۔ (النساء : ١١٦) مشرک کی عادت ہے کہ جب بھی اسے شرک سے منع کیا جائے تو وہ اس پر اصرار کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ اگر لوگ بڑے گناہوں سے بچتے رہیں تو میں ان کے چھوٹے چھوٹے گناہ ازخود معاف کردوں گا۔ (النساء : ٣١) جہنم میں جانے والوں کا تیسرا بڑا گناہ یہ ہوگا کہ دنیا میں جب بھی انہیں قیامت سے ڈرایا جاتاتو وہ کہتے تھے کہ کیا ہم مرجائیں گے اور ہماری ہڈیاں مٹی کے ساتھ مٹی ہوجائیں گی تو پھر ہمیں اٹھایا جائے گا ؟ کیا ہمارے باپ دادا بھی اٹھاے جائیں گے ؟ قرآن مجید نے اس باطل عقیدہ کی تردید کے لیے درجنوں دلائل دیئے ہیں لیکن قیامت کے منکر انہیں ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انہیں فرمائیں کہ یقیناً تمہارے پہلے اور پچھلے لوگوں کو ایک دن ضرور جمع کیا جائے گا۔ جس کا ایک وقت مقرر ہے۔ جس میں آگا پیچھا نہیں ہوگا۔ ( یونس : ٤٩) (عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَمْرٍو (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ الْکَبَاءِرُ الإِشْرَاک باللَّہِ ، وَعُقُوقُ الْوَالِدَیْنِ ، وَقَتْلُ النَّفْسِ ، وَالْیَمِینُ الْغَمُوسُ ) (رواہ البخاری : باب الْیَمِینِ الْغَمُوسِ ) ” حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا اللہ کے ساتھ شرک کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا، کسی کو ناحق قتل کرنا اور جھوٹی قسم اٹھانا کبیرہ گناہوں میں سے ہیں۔ “ مسائل ١۔ اپنے مال سے کمزوروں کا حق ادا نہ کرنے والے مال دار جہنم میں جائیں گے۔ ٢۔ شرک اور بڑے بڑے گناہوں پر اصرار کرنے والے جہنم میں داخل کیے جائیں گے۔ ٣۔ کوئی مانے یا انکار کرے قیامت ضرور برپا ہوگی کیونکہ اس کا ایک دن اور وقت مقرر کردیا گیا ہے۔ تفسیر بالقرآن مال میں بخل، گناہوں پر اصرار اور قیامت کا انکار کرنے والوں کی سزا : ١۔ خزانے جمع کرنے والوں کو عذاب کی خوشخبری دیں۔ (التوبہ : ٣٤) ٢۔ بخیل اپنا مال ہمیشہ نہیں رکھ سکتا۔ (ہمزہ : ٣) ٣۔ قیامت کو جھٹلانے اور لوگوں کو اللہ کے راستہ سے روکنے والے کے لیے جلا دینے والا عذاب ہوگا۔ (الحج : ٩) ٤۔ ” اللہ “ کی آیات کے ساتھ کفر کرنے اور قیامت کو جھٹلانے والے عذاب میں مبتلا کیے جائیں گے۔ (الروم : ١٦) ٥۔ قیامت کو جھٹلانے والوں کے لیے آگ کا عذاب ہے۔ (الفرقان : ١١) ٦۔ زمین میں چل، پھر کر دیکھو جھٹلانے والوں کا کیا انجام ہوا۔ (النحل : ٣٦) ٧۔ ہم نے ان سے انتقام لیا دیکھئے جھٹلانے والوں کا انجام کیسا ہوا۔ (الزخرف : ٢٥) ٨۔ قیامت کے دن منکرین کے لیے ہلاکت ہے۔ (الطور : ١١) ٩۔ منکرین کے لیے جہنم کا کھولتا ہوا پانی ہے۔ (الواقعہ : ٩٢)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

انھم ............ مترفین (٦ 5:5 ٣) ” یہ لوگ اس انجام کے پہنچنے سے پہلے سخت خوشحال تھے۔ “ مترفین کے لئے یہ خشک روٹی کس قدر تکلیف دہ ہوگی۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

دنیا میں کافروں کی مستی اور عیش پرستی : ﴿اِنَّهُمْ كَانُوْا قَبْلَ ذٰلِكَ مُتْرَفِيْنَۚۖ٠٠٤٥﴾ (اس سے پہلے یہ لوگ جب دنیا میں تھے بڑی خوشحالی میں رہتے تھے) یعنی دنیا کی خوش حالی نے انہیں تباہ و برباد کیا اور مستحق عذاب بنا دیا اپنے مال اور دولت اور عیش و آرام میں مست تھے ایمان قبول نہیں کرتے تھے اپنے مالک اور خالق کی طرف رجوع نہیں ہوتے تھے انہوں نے دنیا والے عیش و آرام ہی کو سب کچھ سمجھا لہٰذا آج عذاب میں گرفتار ہوئے۔ قال صاحب الروح المعنی انھم عذبوا لانھم کانوا فی الدنیا مستکبرین عن قبول ما جاء ھم بہ رسلھم من الایمان باللہ عزوجل وما جاء منہ سبحانہ وقیل : ھو الذی اقرفتہ النعمة ای ابطرتہ واطغتہ (صفحہ ١٤٥/٢٧)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

16:۔ ” انہم “ مترفین، عیش و عشرت اور شہوات نفسانیہ کے اتباع میں منہمک۔ الحث العظیم، بہت بڑا گناہ یعنی شرک و کفر۔ یہ دنیا میں عیش و عشرت اور خواہشات نفسانیہ کے پیچھے پڑے رہے اور شرک وکفر ایسے عظیم گناہ پر بضد رہے اور قیامت کا انکار کرتے رہے اور اس کو عقل و قیاس سے بعد سمجھ کر کہتے تھے کہ یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ ہم اور ہمارے باپ دادا مر کر مٹی ہوجائیں اور ہماری ہڈیاں بوسیدہ ہوجائیں اور پھر بھی ہم دوبارہ زندہ ہو کر اٹھ کھڑے ہوں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(45) یہ لوگ اس سے پہلے بڑے خوش عیش آسودہ اور ناز پروردہ تھے۔ یعنی دنیا میں آسودہ حالی کی زندگی بسر کرتے تھے۔