Surat ul Waqiya

Surah: 56

Verse: 62

سورة الواقعة

وَ لَقَدۡ عَلِمۡتُمُ النَّشۡاَۃَ الۡاُوۡلٰی فَلَوۡ لَا تَذَکَّرُوۡنَ ﴿۶۲﴾

And you have already known the first creation, so will you not remember?

تمہیں یقینی طور پر پہلی دفعہ کی پیدائش معلوم ہی ہے پھر کیوں عبرت حاصل نہیں کرتے؟

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And indeed, you have already known the first form of creation, why then do you not remember? meaning, `you know that Allah has created you after you were nothing. He created you and gave you hearing, sight and hearts. Will you not then remember and take heed that He Who is able to create you in the beginning is more able to bring you back and resurrect you to life anew?' Allah the Ex... alted said in other Ayat, وَهُوَ الَّذِى يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ وَهُوَ أَهْوَنُ عَلَيْهِ And He it is Who originates the creation, then He will repeat it; and this is easier for Him. (30:27), أَوَلاَ يَذْكُرُ إلاِنْسَـنُ أَنَّا خَلَقْنَاهُ مِن قَبْلُ وَلَمْ يَكُ شَيْياً Does not man remember that We created him before, while he was nothing? (19:67), أَوَلَمْ يَرَ الاِنسَـنُ أَنَّا خَلَقْنَـهُ مِن نُّطْفَةٍ فَإِذَا هُوَ خَصِيمٌ مٌّبِينٌ وَضَرَبَ لَنَا مَثَلً وَنَسِىَ خَلْقَهُ قَالَ مَن يُحىِ الْعِظَـمَ وَهِىَ رَمِيمٌ قُلْ يُحْيِيهَا الَّذِى أَنشَأَهَأ أَوَّلَ مَرَّةٍ وَهُوَ بِكُلِّ خَلْقٍ عَلِيمٌ Does not man see that We have created him from Nutfah. Yet behold he (stands forth) as an open opponent. And he puts forth for Us a parable, and forgets his own creation. He says: "Who will give life to these bones after they are rotten and have become dust" Say: "He will give life to them Who created them for the first time! And He is the All-Knower of every creation." (36:77-79), and, أَيَحْسَبُ الاِنسَـنُ أَن يُتْرَكَ سُدًى أَلَمْ يَكُ نُطْفَةً مِّن مَّنِىٍّ يُمْنَى ثُمَّ كَانَ عَلَقَةً فَخَلَقَ فَسَوَّى فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالاٍّنثَى أَلَيْسَ ذَلِكَ بِقَـدِرٍ عَلَى أَن يُحْيِىَ الْمَوْتَى Does man think that he will be left neglected? Was he not a Nutfah of semen emitted? Then he became an `Alaqah (a clot); then shaped and fashioned in due proportion. And made of him two sexes, male and female. Is not He able to give life to the dead? (75:36-40)   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

621یعنی کیوں نہیں سمجھتے کہ جس طرح اس نے تمہیں پہلی مرتبہ پیدا کیا (جس کا تمہیں علم ہے) وہ دوبارہ بھی پیدا کرسکتا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ النَّشْاَۃَ الْاُوْلٰی۔۔۔۔: یعنی جب تم جانتے ہو اور اس کا اقرار بھی کرتے ہو کہ تمہیں پہلی بار ہمیں پیدا کیا ، جب تم کچھ تھے ہی نہیں ، تو پھر یہ کیوں نہیں مانتے کہ جب تم مرجاؤ گے تو ہم تمہیں دوبارہ بھی زندہ کریں گے ؟ دوبارہ پیدا کرنا تو پہلی بار سے آسان ہوتا ہے ۔ مزید دیکھئے سورة ... ٔ روم (٢٧) اور سورة ٔ مریم (٦٧) ۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ النَّشْاَۃَ الْاُوْلٰى فَلَوْلَا تَذَكَّرُوْنَ۝ ٦٢ ( قَدْ ) : حرف يختصّ بالفعل، والنّحويّون يقولون : هو للتّوقّع . وحقیقته أنه إذا دخل علی فعل ماض فإنما يدخل علی كلّ فعل متجدّد، نحو قوله : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف/ 90] ، قَدْ كانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ [ آل عمران/...  13] ، قَدْ سَمِعَ اللَّهُ [ المجادلة/ 1] ، لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح/ 18] ، لَقَدْ تابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ [ التوبة/ 117] ، وغیر ذلك، ولما قلت لا يصحّ أن يستعمل في أوصاف اللہ تعالیٰ الذّاتيّة، فيقال : قد کان اللہ علیما حكيما، وأما قوله : عَلِمَ أَنْ سَيَكُونُ مِنْكُمْ مَرْضى [ المزمل/ 20] ، فإنّ ذلک متناول للمرض في المعنی، كما أنّ النّفي في قولک : ما علم اللہ زيدا يخرج، هو للخروج، وتقدیر ذلک : قد يمرضون فيما علم الله، وما يخرج زيد فيما علم الله، وإذا دخل ( قَدْ ) علی المستقبَل من الفعل فذلک الفعل يكون في حالة دون حالة . نحو : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور/ 63] ، أي : قد يتسلّلون أحيانا فيما علم اللہ . و ( قَدْ ) و ( قط) «2» يکونان اسما للفعل بمعنی حسب، يقال : قَدْنِي كذا، وقطني كذا، وحكي : قَدِي . وحكى الفرّاء : قَدْ زيدا، وجعل ذلک مقیسا علی ما سمع من قولهم : قدني وقدک، والصحیح أنّ ذلک لا يستعمل مع الظاهر، وإنما جاء عنهم في المضمر . ( قد ) یہ حرف تحقیق ہے اور فعل کے ساتھ مخصوص ہے علماء نحو کے نزدیک یہ حرف توقع ہے اور اصل میں جب یہ فعل ماضی پر آئے تو تجدد اور حدوث کے معنی دیتا ہے جیسے فرمایا : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف/ 90] خدا نے ہم پر بڑا احسان کیا ہے ۔ قَدْ كانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ [ آل عمران/ 13] تمہارے لئے دوگرہوں میں ۔۔۔۔ ( قدرت خدا کی عظیم الشان ) نشانی تھی ۔ قَدْ سَمِعَ اللَّهُ [ المجادلة/ 1] خدا نے ۔۔ سن لی ۔ لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح/ 18] ( اے پیغمبر ) ۔۔۔۔۔ تو خدا ان سے خوش ہوا ۔ لَقَدْ تابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ [ التوبة/ 117] بیشک خدا نے پیغمبر پر مہربانی کی ۔ اور چونکہ یہ فعل ماضی پر تجدد کے لئے آتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ کے اوصاف ذاتیہ کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا ۔ لہذا عَلِمَ أَنْ سَيَكُونُ مِنْكُمْ مَرْضى [ المزمل/ 20] کہنا صحیح نہیں ہے اور آیت : اس نے جانا کہ تم میں بعض بیمار بھی ہوتے ہیں ۔ میں قد لفظا اگر چہ علم پر داخل ہوا ہے لیکن معنوی طور پر اس کا تعلق مرض کے ساتھ ہے جیسا کہ ، ، میں نفی کا تعلق خروج کے ساتھ ہے ۔ اور اس کی تقدریروں ہے اگر ، ، قد فعل مستقل پر داخل ہو تو تقلیل کا فائدہ دیتا ہے یعنی کبھی وہ فعل واقع ہوتا ہے اور کبھی واقع نہیں ہوتا اور آیت کریمہ : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور/ 63] خدا کو یہ لوگ معلوم ہیں جو تم میں سے آنکھ بچا کر چل دیتے ہیں ۔ کی تقدیریوں ہے قد یتسللون احیانا فیما علم اللہ ( تو یہ بہت آیت بھی ماسبق کی طرح موؤل ہوگی اور قد کا تعلق تسلل کے ساتھ ہوگا ۔ قدوقط یہ دونوں اسم فعل بمعنی حسب کے آتے ہیں جیسے محاورہ ہے قد فی کذا اوقطنی کذا اور قدی ( بدون نون وقایہ ا کا محاورہ بھی حکایت کیا گیا ہے فراء نے قدنی اور قدک پر قیاس کرکے قدر زید ا بھی حکایت کیا ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ قد ( قسم فعل اسم ظاہر کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا بلکہ صرف اسم مضمر کے ساتھ آتا ہے ۔ نشأ النَّشْءُ والنَّشْأَةُ : إِحداثُ الشیءِ وتربیتُهُ. قال تعالی: وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ النَّشْأَةَ الْأُولی[ الواقعة/ 62] . يقال : نَشَأَ فلان، والنَّاشِئُ يراد به الشَّابُّ ، وقوله : إِنَّ ناشِئَةَ اللَّيْلِ هِيَ أَشَدُّ وَطْئاً [ المزمل/ 6] يريد القیامَ والانتصابَ للصلاة، ومنه : نَشَأَ السَّحابُ لحدوثه في الهواء، وتربیته شيئا فشيئا . قال تعالی: وَيُنْشِئُ السَّحابَ الثِّقالَ [ الرعد/ 12] والإنْشَاءُ : إيجادُ الشیءِ وتربیتُهُ ، وأكثرُ ما يقال ذلک في الحَيَوانِ. قال تعالی: قُلْ هُوَ الَّذِي أَنْشَأَكُمْ وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصارَ [ الملک/ 23] ، وقال : هُوَ أَعْلَمُ بِكُمْ إِذْ أَنْشَأَكُمْ مِنَ الْأَرْضِ [ النجم/ 32] ، وقال : ثُمَّ أَنْشَأْنا مِنْ بَعْدِهِمْ قَرْناً آخَرِينَ [ المؤمنون/ 31] ، وقال : ثُمَّ أَنْشَأْناهُ خَلْقاً آخَرَ [ المؤمنون/ 14] ، وَنُنْشِئَكُمْ فِي ما لا تَعْلَمُونَ [ الواقعة/ 61] ، ويُنْشِئُ النَّشْأَةَالْآخِرَةَ [ العنکبوت/ 20] فهذه كلُّها في الإيجاد المختصِّ بالله، وقوله تعالی: أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ أَأَنْتُمْ أَنْشَأْتُمْ شَجَرَتَها أَمْ نَحْنُ الْمُنْشِؤُنَ [ الواقعة/ 71- 72] فَلِتشبيه إيجادِ النَّارِ المستخرَجة بإيجادِ الإنسانِ ، وقوله : أَوَمَنْ يُنَشَّؤُا فِي الْحِلْيَةِ [ الزخرف/ 18] أي : يُرَبَّى تربيةً کتربيةِ النِّسَاء، وقرئ : يَنْشَأ» أي : يَتَرَبَّى. ( ن ش ء) النشا والنشاۃ کسی چیز کو پیدا کرنا اور اس کی پرورش کرنا ۔ قرآن میں ہے : وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ النَّشْأَةَ الْأُولی[ الواقعة/ 62] اور تم نے پہلی پیدائش تو جان ہی لی ہے ۔ نشافلان کے معنی کے بچہ کے جوان ہونے کے ہیں ۔ اور نوجوان کو ناشی کہاجاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : إِنَّ ناشِئَةَ اللَّيْلِ هِيَ أَشَدُّ وَطْئاً [ المزمل/ 6] کچھ نہیں کہ رات کا اٹھنا دنفس بہیمی کی سخت پامال کرتا ہے ۔ میں ناشئۃ کے معنی نماز کے لئے اٹھنے کے ہیں ۔ اسی سے نشاء السحاب کا محاورہ ہے جس کے معنی فضا میں بادل کے رونما ہونے اور آہستہ آہستہ بڑھنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے َ : وَيُنْشِئُ السَّحابَ الثِّقالَ [ الرعد/ 12] اور بھاری بھاری بادل پیدا کرتا ہے ۔ الانشاء ۔ ( افعال ) اس کے معنی کسی چیز کی ایجاد اور تربیت کے ہیں ۔ عموما یہ لفظ زندہ چیز ۔۔ کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : قُلْ هُوَ الَّذِي أَنْشَأَكُمْ وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصارَ [ الملک/ 23] وہ خدا ہی جس نے تمہیں پیدا کیا ۔ اور تمہاری کان اور آنکھیں اور دل بنائے ۔ نیز فرمایا : هُوَ أَعْلَمُ بِكُمْ إِذْ أَنْشَأَكُمْ مِنَ الْأَرْضِ [ النجم/ 32] وہ تم کو خوب جانتا ہے جسب اس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا ۔ ثُمَّ أَنْشَأْنا مِنْ بَعْدِهِمْ قَرْناً آخَرِينَ [ المؤمنون/ 31] پھر ان کے بعد ہم نے ایک اور جماعت پیدا کی ۔ وَنُنْشِئَكُمْ فِي ما لا تَعْلَمُونَ [ الواقعة/ 61] اور تم کو ایسے جہان میں جس کو تم نہیں جانتے پیدا کردیں ۔ ثُمَّ أَنْشَأْناهُ خَلْقاً آخَرَ [ المؤمنون/ 14] پھر اس کو نئی صورت میں بنا دیا ويُنْشِئُ النَّشْأَةَ الْآخِرَةَ [ العنکبوت/ 20] پھر خدا ہی پچھلی پیدائش پیدا کرے گا ۔ ان تمام آیات میں انسشاء بمعنی ایجاد استعمال ہوا ہے جو ذات باری تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہے ۔ اور آیت کریمہ : أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ أَأَنْتُمْ أَنْشَأْتُمْ شَجَرَتَها أَمْ نَحْنُ الْمُنْشِؤُنَ [ الواقعة/ 71- 72] بھلا دیکھو جو آگ تم درخت سے نکالتے ہو کیا تم نے اس کے درخت کو پیدا کیا ہے یا ہم پیدا کرتے ہیں ۔ میں آگ کا درخت اگانے پر بطور تشبیہ انشاء کا لفظ بولا گیا ہے اور آیت کریمہ ) أَوَمَنْ يُنَشَّؤُا فِي الْحِلْيَةِ [ الزخرف/ 18] کیا وہ جوز یور میں پرورش پائے ۔ میں ینشا کے معنی تربیت پانے کے ہیں نفی عورت جو زبور میں تربیت ۔ ایک قرآت میں ينشاء ہے یعنی پھلے پھولے ۔ «لَوْلَا» يجيء علی وجهين : أحدهما : بمعنی امتناع الشیء لوقوع غيره، ويلزم خبره الحذف، ويستغنی بجوابه عن الخبر . نحو : لَوْلا أَنْتُمْ لَكُنَّا مُؤْمِنِينَ [ سبأ/ 31] . والثاني : بمعنی هلّا، ويتعقّبه الفعل نحو : لَوْلا أَرْسَلْتَ إِلَيْنا رَسُولًا[ طه/ 134] أي : هلّا . وأمثلتهما تکثر في القرآن . ( لولا ) لو لا ( حرف ) اس کا استعمال دو طرح پر ہوتا ہے ایک شے کے پائے جانے سے دوسری شے کا ممتنع ہونا اس کی خبر ہمیشہ محذوف رہتی ہے ۔ اور لولا کا جواب قائم مقام خبر کے ہوتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ لَوْلا أَنْتُمْ لَكُنَّا مُؤْمِنِينَ [ سبأ/ 31] اگر تم نہ ہوتے تو ہمضرور مومن ہوجاتے ۔ دو م بمعنی ھلا کے آتا ہے ۔ اور اس کے بعد متصلا فعل کا آنا ضروری ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لَوْلا أَرْسَلْتَ إِلَيْنا رَسُولًا[ طه/ 134] تو نے ہماری طرف کوئی پیغمبر کیوں نہیں بھیجا ۔ وغیرہ ذالک من الا مثلۃ ذكر ( نصیحت) وذَكَّرْتُهُ كذا، قال تعالی: وَذَكِّرْهُمْ بِأَيَّامِ اللَّهِ [إبراهيم/ 5] ، وقوله : فَتُذَكِّرَ إِحْداهُمَا الْأُخْرى [ البقرة/ 282] ، قيل : معناه تعید ذكره، وقد قيل : تجعلها ذکرا في الحکم «1» . قال بعض العلماء «2» في الفرق بين قوله : فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ [ البقرة/ 152] ، وبین قوله : اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ [ البقرة/ 40] : إنّ قوله : فَاذْكُرُونِي مخاطبة لأصحاب النبي صلّى اللہ عليه وسلم الذین حصل لهم فضل قوّة بمعرفته تعالی، فأمرهم بأن يذكروه بغیر واسطة، وقوله تعالی: اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ مخاطبة لبني إسرائيل الذین لم يعرفوا اللہ إلّا بآلائه، فأمرهم أن يتبصّروا نعمته، فيتوصّلوا بها إلى معرفته . الذکریٰ ۔ کثرت سے ذکر الہی کرنا اس میں ، الذکر ، ، سے زیادہ مبالغہ ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ ذَكَّرْتُهُ كذا قرآن میں ہے :۔ وَذَكِّرْهُمْ بِأَيَّامِ اللَّهِ [إبراهيم/ 5] اور ان کو خدا کے دن یاد دلاؤ ۔ اور آیت کریمہ ؛فَتُذَكِّرَ إِحْداهُمَا الْأُخْرى [ البقرة/ 282] تو دوسری اسے یاد دلا دے گی ۔ کے بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ اسے دوبارہ یاد دلاوے ۔ اور بعض نے یہ معنی کئے ہیں وہ حکم لگانے میں دوسری کو ذکر بنادے گی ۔ بعض علماء نے آیت کریمہ ؛۔ فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ [ البقرة/ 152] سو تم مجھے یاد کیا کر میں تمہیں یاد کروں گا ۔ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ [ البقرة/ 40] اور میری وہ احسان یاد کرو ۔ میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ کے مخاطب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب ہیں جنہیں معرفت الہی میں فوقیت حاصل تھی اس لئے انہیں براہ راست اللہ تعالیٰ کو یاد کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ اور دوسری آیت کے مخاطب بنی اسرائیل ہیں جو اللہ تعالیٰ کو اس نے انعامات کے ذریعہ سے پہچانتے تھے ۔ اس بنا پر انہیں حکم ہوا کہ انعامات الہی میں غور فکر کرتے رہو حتی کہ اس ذریعہ سے تم کو اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل ہوجائے ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور مکہ والو تمہیں ماؤں کے پیٹوں میں پہلی پیدائش کا یا یہ کہ حضرت آدم کے پیدا کرنے کا علم حاصل ہے پھر پہلی پیدائش سے عبرت حاصل کر کے دوسری مرتبہ پیدا کرنے پر کیوں ایمان نہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٦٢{ وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ النَّشْاَۃَ الْاُوْلٰی } ” اور تم (اپنی) پہلی زندگی کے بارے میں تو جانتے ہی ہو “ یعنی اپنی دنیوی تخلیق سے متعلق تمام مراحل کے بارے میں تو تم جانتے ہو۔ انسانی تخلیق کے مختلف مراحل کا ذکر قرآن مجید میں تکرار کے ساتھ آیا ہے ۔ لیکن جیسا کہ قبل ازیں بھی ذکر ہوچکا ہے ‘ سورة ا... لمومنون کی یہ آیات اس موضوع پر قرآن کے ذروئہ سنام کا درجہ رکھتی ہیں : { وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ سُلٰلَۃٍ مِّنْ طِیْنٍ - ثُمَّ جَعَلْنٰـہُ نُطْفَۃً فِیْ قَرَارٍ مَّکِیْنٍ - ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَۃَ عَلَقَۃً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَۃَ مُضْغَۃً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَۃَ عِظٰمًا فَکَسَوْنَا الْعِظٰمَ لَحْمًاق ثُمَّ اَنْشَاْنٰــہُ خَلْقًا اٰخَرَط فَتَبٰرَکَ اللّٰہُ اَحْسَنُ الْخٰلِقِیْنَ } ” ہم نے پیدا کیا انسان کو مٹی کے خلاصے سے۔ پھر ہم نے اسے بوند کی شکل میں ایک محفوظ ٹھکانے میں رکھا۔ پھر ہم نے اس نطفہ کو علقہ کی شکل دے دی ‘ پھر علقہ کو ہم نے گوشت کا لوتھڑا بنا دیا۔ پھر ہم نے گوشت کے اس لوتھڑے کے اندر ہڈیاں پیدا کیں ‘ پھر ہڈیوں پر گوشت چڑھایا ‘ پھر ہم نے اسے ایک اور ہی تخلیق پر اٹھا دیا۔ پس بڑا با برکت ہے اللہ ‘ تمام تخلیق کرنے والوں میں بہترین تخلیق کرنے و الا۔ “ تو جب اس حیرت انگیز اور پیچیدہ تخلیقی عمل کے مختلف مراحل تمہارے علم اور مشاہدے میں آ چکے ہیں : { فَلَوْلَا تَذَکَّرُوْنَ ۔ } ” تو پھر تم سمجھتے کیوں نہیں ہو ؟ “ تم عقل سے کام کیوں نہیں لیتے ؟ تم اس سے نصیحت اور یاددہانی کیوں اخذ نہیں کرتے ؟۔۔۔۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت اور صناعی کے ان مظاہر کا ادراک کرلینے کے بعد بھی تمہیں یہ بات کیوں سمجھ میں نہیں آتی کہ جس اللہ نے اس عمل سے گزار کر ہمیں ابتدا میں پیدا کیا ہے وہ دوبارہ بھی ہمیں پیدا کرسکتا ہے ؟ آئندہ آیات میں اللہ تعالیٰ کی خلاقی کی چند اور مثالیں بیان کی جا رہی ہیں :  Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

27 That is, "You already know how you were created in the first instance, how the sperm was transferred from the loins of the father by which you came into being, how you were nourished in the mother's womb, which was no less dark than the grave, and formed into a living human being, how an insignificant speak was developed and endowed with the heart and brain, eyes and ears, and hands and feet, a... nd how it was blessed with the wonderful faculties of intellect and sense, knowledge and wisdom, workmanship and inventiveness, etc. Is this miracle in any way less wonderful than raising the dead back to life ? And when you are witnessing this wonderful miracle with your own eyes and are yourselves a living evidence of it in the world, why don't you then learn the lesson that the same God Who by His power is causing this miracle to take place day and night, can also cause the miracle of life after death, Resurrection and Hell and Heaven to take place by the same power?"  Show more

سورة الْوَاقِعَة حاشیہ نمبر :27 یعنی تم یہ تو جانتے ہی ہو کہ پہلے تم کیسے پیدا کیے گئے تھے ۔ کس طرح باپ کی صُلب سے وہ نطفہ منتقل ہوا جس سے تم وجود میں آئے کس طرح رحم مادر میں ، جو قبر سے کچھ کم تاریک نہ تھا ، تمہیں پرورش کر کے زندہ انسان بنایا گیا ۔ کس طرح ایک ذرہ بے مقدار کو نشو و نما دے کر یہ...  دل و دماغ ، یہ آنکھ کان اور یہ ہاتھ پاؤں اس میں پیدا کیے گئے اور عقل و شعور ، علم و حکمت ، صنعت و ایجاد اور تدبیر و تسخیر کی یہ حیرت انگیز صلاحیتیں اس کو عطا کی گئیں ۔ کیا یہ معجزہ مردوں کو دوبارہ جِلا اٹھانے سے کچھ کم عجیب ہے ۔ ؟ اس عجیب معجزے کو جب تم آنکھوں سے دیکھ رہے ہو اور خود اس کی زندہ شہادت کے طور پر دنیا میں موجود ہو تو کیوں اس سے یہ سبق نہیں سیکھتے کہ جس خدا کی قدرت سے یہ معجزہ بھی رونما ہو سکتا ہے ۔ ؟   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

17: یعنی کم از کم اتنی بات تو تم بھی جانتے ہو کہ تمہاری پہلی پیدائش میں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کا دخل نہیں تھا، پھر اسی کو تنہا معبود ماننے اور اس کی دوبارہ زندہ کرنے کی قدرت کی تصدیق کرنے میں کیا رکاوٹ ہے؟

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٦٢۔ دنیا میں جب کوئی آدمی ایسا بڈھا یا ایسا بیمار ہوجاتا ہے کہ اس کو اپنی زیست کا بھروسہ کم ہوتا ہے تو زندگی کی راحت سے بسر کرنے کے جو سامان ہیں مثلاً مکان کا بنانا یا نوکری تجارت یا کسی اور دہندے کا کرنا اس طرح کا زیست سے ناامید اور بےبھروسہ آدمی پھر ان راحت کے سامانوں میں زیادہ دل نہیں لگاتا کیونک... ہ یہ سمجھتا ہے کہ جب جینا ہی بےبھروسہ ہے تو زیست کو راحت سے بسر کرنے کے سامان کی کیا ضرورت ہے کس لئے کہ جب زیست ہی نہیں تو زیست کو راحت سے بسر کرنے کا موقع کہاں ہے یہی حال منکرین حشر کا ہے کہ مرنے کے بعد دوبارہ زیست پر ان لوگوں کو پورا یقین نہیں ہے اس لئے دوبارہ زیست کو راحت سے بسر کرنے کے جو سامان ان کو بتائے جاتے ہیں کہ اللہ کو ایک جانو اللہ کی مرضی کے موافق کام کرو۔ کوئی کام برا اللہ تعالیٰ کی خلاف مرضی ہوجائے تو اللہ تعالیٰ سے اس کی معافی کی التجا کرو تو یہ باتیں ان لوگوں کی سمجھ میں نہیں آتیں۔ اس خرابی کے دفع کرنے کے لئے شروع میں مرنے کے بعد پھر جینے پر ایمان لانا ضروری ٹھہرایا ہے اور منکرین حشر کو قرآن شریف میں جگہ جگہ طرح طرح کی مثالوں سے اللہ تعالیٰ نے قائل کیا ہے تاکہ پہلے ان لوگوں کے جی میں مرنے کے بعد پھر جینے کا یقین پور طور پر پیدا ہوجائے تو پھر اس دوبارہ زیست کی راحت سے بسر کرنے کے جو سامان ان لوگوں کو بتائے جائیں گے ان سامانوں کے بہم پہنچانے کا فکر بھی ان کے دل میں خودبخود پیدا ہوجائے گا اس آیت میں ایک سیدھی مثال سے اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو سمجھایا ہے کہ پہلے تم بالکل نیست و نابود تھے ‘ ہم نے تم کو پیدا کیا تم مرو گے تو اس سے بڑھ کر اور کون سی بات ہوسکتی ہے کہ پہلے کی طرح تم بالکل نیست و نابود ہوجاؤگے۔ پھر کیا اتنی بات تمہاری سمجھ میں نہیں آتی۔ جس طرح ہم نے پہلی دفعہ تم کو پیدا کیا دوبارہ اسی طرح ہم کو پیدا کرنا کیا مشکل ہے اگرچہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کے آگے مشکل اور آسان کام سب یکساں ہیں لیکن یہ دنیا کے تجربہ کی ایک بات ہے کہ دفعہ جو کوئی ایک کام کرلے تو دوسری دفعہ اس کو وہ کام آسان ہوجاتا ہے۔ اسی واسطے سورة روم میں اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو یہ بھی سمجھایا ہے کہ جب ایک دفعہ ہم نے تم کو پیدا کردیا تو اپنے دنیا کے تجربہ کے موافق تمہیں یہ سمجھنا چاہئے کہ بہ نسبت پہلی دفعہ کے ہم کو دوسری دفعہ تمہارا پیدا کرنا بہت آسان ہے۔ قرآن شریف کی اکثر آیتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے خالق اور رازق ہونے کے یہ مشرک لوگ قائل تھے۔ اس لئے ان لوگوں کی مانی ہوئی بات سے ان کو قائل کیا گیا ہے کہ بغیر کسی نمونہ کے جب ایک کام کا ایک دفعہ ہوجانا تم لوگوں کی آنکھوں کے سامنے ہے جس کا تم لوگوں کو بھی اقرار ہے تو پھر اسی نمونہ کے موافق اس کام کے دوبارہ ہوجانے کو کوئی صاحب عقل مشکل نہیں بتا سکتا۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(56:62) النشاۃ الاولی موصوف و صفت، پیدائش اول (یعنی کس طرح ایک جرثومہ حقر سے تمہارا آغاز ہوا اور کن مختلف مدارج سے گزر کر تمہیں ایک مکمل انسان بہمہ صفت موصوف بنایا۔ فلولا تذکرون ۔ ۔ لولا۔ ہلا کیوں نہیں۔ نیز ملاحظہ ہو آیت 57 متذکرہ بالا۔ تذکرون ۔ مضارع جمع مذکر حاضر۔ تذکر (تفعل) مصدر۔ تم نصیحت پکڑ... تے ہو۔ تم دھیان رکھتے ہو۔ پھر تم کیوں نہیں نصیحت پکڑتے۔ پھر کیوں تم سبق نہیں لیتے (کہ جو ذات تمہاری نشاۃ اولیٰ پر قادر ہے وہ تمہارے مرنے کے بعد نشاۃ اخری پر بھی قدرت رکھتا ہے  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 یعنی جب تم یہ جانتے ہو اور اس کا اقرار بھی کرتے ہو کہ تمہیں پہلی بار ہمیں نے پیدا کیا ہے تو پھر یہ کیوں نہیں مانتے کہ جب تم مر جائو گے تو ہم تمہیں دوبارہ بھی زندگی دے سکیں گے حالانکہ دوسری بار پیدا کرنا پہلی بار پیدا کرنے کی بنسبت آسان تر ہے۔ نیز دیکھیے ( سورة روم آیت 27)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

6۔ یعنی یہ کہ وہ ہماری قدرت سے ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ولقد ................ تذکرون (٦ 5: ٢٦) ” اپنی پہلی پیدائش کو تو تم جانتے ہی ہو ، پھر کیوں سبق نہیں لیتے ؟ “ اور یہ دوسری پیدائش بہت ہی قریب ہے اور اس میں کوئی بات قابل تعجب نہیں ہے۔ اس سادگی اور اس سہل انداز میں قرآن کریم پہلی پیدائش اور دوبارہ پیدائش کے مسئلہ کو پیش کرتا ہے۔ ہمیں ایک ایسے طریقہ اس... تدلال سے دو چار کرتا ہے جسے ہم جانتے ہیں اور جس کا ہم کوئی انکار بھی نہیں کرسکتے کیونکہ یہ منطق بدیہات پر مبنی ہے اور انسانوں کے مشاہدات پر مبنی ہے اور جس میں کوئی پیچیدگی اور کوئی تجرید نہیں ہے ، نہ فلسفہ ہے اور نہ ذہنی تھکاوٹ ہے اور کوئی ایسی بحث نہیں جو وجدان تک پہنچتی ہو۔ یہ ایک بالکل جدید طریقہ ہے جو بدیع السموت اور قرآن کے نازل کرنے والے اختیار کیا ہے۔ ایک بار پھر نہایت سادہ اور سہل الفہم انداز میں ، ان کے سامنے ان کے روز مرہ کی چیزیں پیش کی جاتی ہیں اور ان میں سے ان کو ایک معجزانہ پہلو دکھایا جاتا ہے۔ وہ دیکھ رہے ہوتے ہیں اور اس سے غافل ہوتے ہیں۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

﴿ وَ لَقَدْ عَلِمْتُمُ النَّشْاَةَ الْاُوْلٰى ﴾ (اور تمہیں اپنی پہلی پیدائش کا علم ہے) اللہ تعالیٰ نے تمہیں پیدا فرمایا جب کہ تم کچھ بھی نہ تھے ﴿ فَلَوْ لَا تَذَكَّرُوْنَ ٠٠٦٢﴾ (سو تم کیوں نصیحت حاصل نہیں کرتے) جس نے پہلی بار پیدا فرمایا وہ دوبارہ بھی پیدا فرما سکتا ہے۔ پہلی تخلیق کرنے کے بعد اس کی ... قدرت ختم نہیں ہوگئی جیسی تھی ویسی ہی ہے، کماقال تعالیٰ فی سورة ق ﴿اَفَعَيِيْنَا بالْخَلْقِ الْاَوَّلِ ١ؕ بَلْ هُمْ فِيْ لَبْسٍ مِّنْ خَلْقٍ جَدِيْدٍ (رح) ٠٠١٥﴾ (کیا ہم پہلی بار پیدا کرنے سے تھک گئے بلکہ یہ لوگ ازسرنو پیدا کرنے کے بارے میں شبہ میں ہیں)  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

21:۔ ” ولقد علمتم۔ الایۃ “ پہلی پیدائش کو تو تم خوب جانتے ہو اور مانتے ہو کہ پہلی بار تمہیں اللہ ہی نے پیدا کیا ہے تو پھر اس سے کیوں عبرت نہیں پکڑتے ہو ؟ کہ جو ابتداء پیدا کرتا ہے وہ دوبارہ پیدا کرنے پر بھی قادر ہے (فلولا تذکرون) ای بانی ادر علی اعادتکم کما قدرت علی ابداء کم اول مرۃ (خازن و معالم ج ... 7 ص 23) ۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(62) اور بلا شبہ تم ابتدائی پیدائش اور پہلی مرتبہ کے پیدا کرنے کو تو جان ہی چکے پھر تم دوبارہ پیدا ہونے کو کیوں نہیں سمجھتے۔ یعنی پہلی مرتبہ کا پیدا ہونا تو تمہاری نگاہوں کے سامنے ہے اور تم کو اس کا علم ہے پھر دوبارہ اعاد سے اور دوبارہ پھر پیدا کرنے کی بات کیوں نہیں سمجھتے اس میں کیا دشواری ہوگئی جو...  بعث پر ایمان نہیں لاتے۔  Show more