Surat ul Waqiya
Surah: 56
Verse: 64
سورة الواقعة
ءَاَنۡتُمۡ تَزۡرَعُوۡنَہٗۤ اَمۡ نَحۡنُ الزّٰرِعُوۡنَ ﴿۶۴﴾
Is it you who makes it grow, or are We the grower?
اسے تم ہی اگاتے ہو یا ہم اگانے والے ہیں ۔
ءَاَنۡتُمۡ تَزۡرَعُوۡنَہٗۤ اَمۡ نَحۡنُ الزّٰرِعُوۡنَ ﴿۶۴﴾
Is it you who makes it grow, or are We the grower?
اسے تم ہی اگاتے ہو یا ہم اگانے والے ہیں ۔
أَأَنتُمْ تَزْرَعُونَهُ ... Is it you that make it grow, `do you cause these seeds to grow inside the earth,' ... أَمْ نَحْنُ الزَّارِعُونَ or are We the Grower. Allah says, `rather it is We Who cause the seeds to remain firmly and grow inside the earth.' Ibn Jarir recorded that Abu Hurayrah said that the Messenger of Allah said, لاَا تَقُولَنَّ زَرَعْتُ وَلكِنْ قُلْ حَرَثْت Do not say, "Zara`tu (I made it grew)," but say, "Harathtu (I sowed tilled)." Abu Hurayrah added, "Have you not heard Allah's statement, أَفَرَأَيْتُم مَّا تَحْرُثُونَ - أَأَنتُمْ تَزْرَعُونَهُ أَمْ نَحْنُ الزَّارِعُونَ - Do you not see what you sow. Is it you that make it grow, or are We the Grower" Allah the Exalted said,
[٣٠] زمین کے پیٹ میں بیج کے تخلیقی مراحل :۔ یعنی تمہارا کام صرف زمین میں بیج ڈالنا ہے پھر اس کے بعد زمین کی تاریکیوں میں اس بیج پر جو تخلیقی مراحل آتے ہیں یا جو تغیرات واقع ہوتے ہیں ان کا نہ تمہیں علم ہے اور نہ ان میں کچھ تمہارا عمل دخل ہے۔ دانہ سے نازک سی کونپل کیسے بنتی ہے ؟ پھر اس نازک سی کونپل میں اتنا زور کہاں سے آتا ہے کہ وہ زمین کو پھاڑ کر باہر نکل آتی ہے بیج بےجان اور مردہ تھا۔ اس سے جاندار نباتات پیدا ہوگئی جو پھلتی پھولتی اور بڑھتی ہے اور تمہارے لیے رزق کا سامان مہیا کرتی ہے اب دیکھئے لاکھوں کی تعداد میں مردہ بیج زمین کے پیٹ میں دفن کیے جاتے ہیں۔ پھر اسی زمین کے قبرستان سے وہی مردہ بیج نئی زندگی اور نئی آن بان سے تمہارے سامنے پیدا ہو رہے ہیں پھر بھی تمہیں اس بات میں شک ہے کہ تم زمین میں دفن ہونے کے بعد دوبارہ پیدا کیے اور زمین سے نکالنے نہیں جاسکتے ؟
ءَ اَنْتُمْ تَزْرَعُوْنَہٗٓ اَمْ نَحْنُ الزّٰرِعُوْنَ ٦٤ زرع الزَّرْعُ : الإنبات، وحقیقة ذلک تکون بالأمور الإلهيّة دون البشريّة . قال : أَأَنْتُمْ تَزْرَعُونَهُ أَمْ نَحْنُ الزَّارِعُونَ [ الواقعة/ 64] ( ز ر ع ) الزرع اس کے اصل معنی انبات یعنی اگانے کے ہیں اور یہ کھیتی اگانا در اصل قدرت کا کام ہے اور انسان کے کسب وہنر کو اس میں دخل نہیں اسی بنا پر آیت کریمہ : أَأَنْتُمْ تَزْرَعُونَهُ أَمْ نَحْنُ الزَّارِعُونَ [ الواقعة/ 64] بھلا بتاؤ کہ جو تم بولتے ہو کیا اسے تم اگاتے ہو یا اگانے والے ہیں ۔ أَمْ»حرف إذا قوبل به ألف الاستفهام فمعناه : أي نحو : أزيد أم عمرو، أي : أيّهما، وإذا جرّد عن ذلک يقتضي معنی ألف الاستفهام مع بل، نحو : أَمْ زاغَتْ عَنْهُمُ الْأَبْصارُ [ ص/ 63] أي : بل زاغت . ( ا م حرف ) ام ۔ جب یہ ہمزہ استفہام کے بالمقابل استعمال ہو تو بمعنی اور ہوتا ہے جیسے ازید فی الدار ام عمرو ۔ یعنی ان دونوں میں سے کون ہے ؟ اور اگر ہمزہ استفہام کے بعد نہ آئے تو بمعنیٰ بل ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ { أَمْ زَاغَتْ عَنْهُمُ الْأَبْصَارُ } ( سورة ص 63) ( یا) ہماری آنکھیں ان ( کی طرف ) سے پھر گئی ہیں ۔
آیت ٦٤{ ئَ اَنْتُمْ تَزْرَعُوْنَہٗٓ اَمْ نَحْنُ الزّٰرِعُوْنَ } ” کیا تم اسے اگاتے ہو یا ہم اگانے والے ہیں ؟ “ یہاں ہماری زبانوں پر بےاختیار یہ الفاظ آجانے چاہئیں : بَلْ اَنْتَ یَارَبِّ ! کہ نہیں ! اے ہمارے پروردگار ! اسے تو ہی اگاتا ہے ‘ اس میں ہمارا کچھ بھی اختیار نہیں ! علامہ اقبال کی نظم اَلْاَرْضُ لِلّٰہ کے درج ذیل اشعار میں ان ہی آیات کے اسلوب اور مضمون کی جھلک نظر آتی ہے : ؎ پالتا ہے بیج کو مٹی کی تاریکی میں کون ؟ کون دریائوں کی موجوں سے اٹھاتا ہے سحاب ؟ کون لایا کھینچ کر پچھم سے باد سازگار ؟ خاک یہ کس کی ہے ‘ کس کا ہے یہ نور آفتاب ؟ کس نے بھر دی موتیوں سے خوشہ گندم کی جیب ؟ موسموں کو کس نے سکھلائی ہے خوئے انقلاب ؟ دہ خدایا ! یہ زمین تیری نہیں ‘ تیری نہیں ! تیرے آباء کی نہیں ‘ تیری نہیں ‘ میری نہیں ! یعنی یہ زمین ‘ یہ کائنات ‘ کائنات کا پورا نظام یہ سب کچھ اللہ ہی کا ہے اور اسی کی قدرت و مشیت سے اس کائنات کا یہ نظام چل رہا ہے۔
28 The above question drew the people's attention to the truth that they have been developed and nourished by Allah Almighty and have come into being by His act of creation. Now this second question draws their attention to this important truth that the provisions which sustain them, are also created only by Allah for them, as if to say: "Just as in your own creation human effort has nothing more to do than that your father may cast the sperm in your mother, so in the supply of the provisions for you also human effort has nothing more to do than that the farmer should sow the seed in the soil. The land in which cultivation is done, was not made by you. The power of growth to the soil was not granted by you. The substances in it that become the means of your food are not provided by you. The seed that you sow is not made capable for growth by you. The capability in every seed that from it should sprout up the tree of the same species of whose seed it is, has not been created by you. The process for changing this cultivation into blooming crops that is working under the soil and of arranging the required kind of weather and air and water above it dces not owe anything in any way to your planning and skill. All this is the manifestation of Allah's power and providence. Then, when you have come into being only by His act of creation and are being sustained by His provision, how can you then have the right to pose yourself as independent of Him, or save another than Him as your deity? Although apparently this verse reasons out TauhId, yet if one considers its theme a little more deeply, one finds in it the argument for the Hereafter, too. The seed that is sown in the soil is by itself dead, but when the farmer buries it under the soil, Allah infuses it with plant life, which puts out sprouts and blooms into spring. Thus, these countless bodies are rising from the dead in front of our eyes daily. Is this miracle in any way loss wonderful so that a person may regard the other wonderful miracle of the life hereafter, which is being foretold by the Qur'an, as impossible?
سورة الْوَاقِعَة حاشیہ نمبر :28 اوپر کا سوال لوگوں کو اس حقیقت کی طرف توجہ دلا رہا تھا کہ تم اللہ تعالیٰ کے ساختہ و پرداختہ ہو اور اسی کی تخلیق سے وجود میں آئے ہو ۔ اب یہ دوسرا سوال انہیں اس دوسری اہم حقیقت کی طرف توجہ دلا رہا ہے کہ جس رزق پر تم پلتے ہو وہ بھی اللہ ہی تمہارے لیے پیدا کرتا ہے ۔ جس طرح تمہاری پیدائش میں انسانی کوشش کا دخل اس سے زائد کچھ نہیں ہے کہ تمہارا باپ تمہاری ماں کے اندر نطفہ ڈال دے ، زمین ، جس میں یہ کاشت کی جاتی ہے ، تمہاری بنائی ہوئی نہیں ہے ۔ اس زمین کو روئیدگی کی صلاحیت تم نے نہیں بخشی ہے ۔ اس میں وہ مادے جن سے تمہاری غذا کا سامان بہم پہنچتا ہے ، تم نے فراہم نہیں کیے ہیں ۔ اس کے اندر جو بیج تم ڈالتے ہو ان کو نشو و نما کے قابل تم نے نہیں بنایا ہے ان بیجوں میں یہ صلاحیت کہ ہر بیج سے اسی نوع کا درخت پھوٹے جس کا وہ بیج ہے ، تم نے پیدا نہیں کی ہے ۔ اس کاشت کو لہلہاتی کھیتیوں میں تبدیل کرنے کے لیے زمین کے اندر جس عمل اور زمین کے اوپر جس ہوا ، پانی ، حرارت ، بُرودت اور موسمی کیفیت کی ضرورت ہے ، ان میں سے کوئی چیز بھی تمہاری کسی تدبیر کا نتیجہ نہیں ہے ۔ یہ سب کچھ اللہ ہی کی قدرت اور اسی کی پروردگاری کا کرشمہ ہے ۔ پھر جب تم وجود میں اسی کے لانے سے آئے ہو ، اور اسی کے رزق سے پل رہے ہو ، تو تم کو اس کے مقابلہ میں خود مختاری کا ، یا اس کے سوا کسی اور کی بندگی کرنے کا حق آخر کیسے پہنچتا ہے؟ اس آیت کا ظاہر استدلال تو توحید کے حق میں ہے ، مگر اس میں جو مضمون بیان کیا گیا ہے اس پر اگر آدمی تھوڑا سا مزید غور کرے تو اسی کے اندر آخرت کی دلیل بھی مل جاتی ہے ۔ جو بیج زمین میں بویا جاتا ہے وہ بجائے خود مردہ ہوتا ہے ، مگر زمین کی قبر میں جب کسان اس کو دفن کر دیتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے اندر وہ نباتی زندگی پیدا کر دیتا ہے جس سے کونپلیں پھوٹتی ہیں اور لہلہاتی ہوئی کھیتیاں شان بہار دکھاتی ہیں ۔ یہ بے شمار مردے ہماری آنکھوں کے سامنے آئے دن قبروں سے جی جی کر اٹھ رہے ہیں ۔ یہ معجزہ کیا کچھ کم عجیب ہے کہ کوئی شخص اس دوسرے عجیب معجزے کو ناممکن قرار دے جس کی خبر قرآن ہمیں دے رہا ہے ، یعنی انسانوں کی زندگی بعد موت ۔
18: یعنی تمہارا کام بس اتنا ہی تو ہے کہ تم زمین میں بیج ڈال دو، اس بیج کو پروان چڑھا کر کونپل کی شکل دینا اور اسے درخت یا کھیتی بنادینا اور اس میں تمہارے فائدے کے پھل یا غلے پیدا کرنا کیا تمہارے اپنے بس میں تھا اللہ تعالیٰ کے سوا کون ہے جو تمہارے ڈالے ہوئے بیج کو یہاں تک پہنچادیتا ہے؟
(56:64) ء انتم تزرعونہ جملہ استفہامیہ انکاری ہے تزرعون مضارع جمع مذکر حاضر زرع (باب فتح) مصدر سے (تم اگاتے ہو) ہ ضمیر مفعول واحد مذکر غائب ما موصولہ کے لئے ہے۔ حرث دانہ کو زمین میں بکھیرنا۔ بونا ۔ زرع : زمین میں بکھرے ہوئے یا بوئے ہوئے دانہ کا اگانا۔ اس کی پرورش کرکے اس کو بڑھانا۔ اور اس کی غایت تک اس کو پہنچانا۔ آدمی کا کام محض بونا ہے اور اس کو اگانا۔ اس کی پرورش کرنا خدا تعالیٰ کے اختیار و قدرت میں ہے ام بمعنی بل یعنی بوئے ہوئے دانہ کو اگانا۔ پرورش کرکے اس کی غایت تک لے جانا ہماری قدرت میں ہے اس کی زراعت تم نہیں کرتے۔ اور جگہ قرآن مجید میں ہے :۔ فلینظر الانسان الی طعامہ انا صببنا الماء صبا : ثم شققنا الارض شقا فانبتنا فیہا حبا وعنبا وقضبا وزیتونا ونخلا وحدائق غلبا وفاکھۃ وابا متاعا لکم ولانعامکم (80:2432) انسان کو چاہیے کہ اپنے کھانے کی طرف نظر کرے۔ بیشک ہم ہی نے پانی برسایا۔ پھر ہم ہی نے زمین کو چیرا پھاڑا پھر ہم ہی نے اس میں اناج اگایا۔ اور انگور اور ترکاری اور زیتون اور کھجوریں اور گھنے گھنے باغ۔ اور میوے اور چارہ (یہ سب کچھ) تمہارے اور تمہارے چارپایوں کے لئے بنایا۔ الزارعون : اسم فاعل جمع مذکر زرع (باب فتح) مصدر سے ۔ کھیتی کرنے والے۔
ف 3 یعنی بظاہر زمین میں بیج تم ڈالتے ہو لیکن اسے زمین کے اندر پرورش کرنا اور پھر باہر نکال کر اسے لہلہاتی کھیتی میں تبدیل کرنا کس کا کام ہے ؟ کیا تم دعویٰ کرسکتے ہو کہ یہ تمہاری محنت اور تدبیر کا نتیجہ ہے ؟ ہرگز نہیں بلکہ ہی کام ہمیں کرتے ہیں۔