Surat ul Waqiya

Surah: 56

Verse: 74

سورة الواقعة

فَسَبِّحۡ بِاسۡمِ رَبِّکَ الۡعَظِیۡمِ ﴿٪ؓ۷۴﴾  15 الثلٰثۃ

So exalt the name of your Lord, the Most Great.

پس اپنے بہت بڑے رب کے نام کی تسبیح کیا کرو ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Then glorify with praises the Name of your Lord, the Most Great. meaning, the One by Whose ability these things opposites were created. He created the fresh tasty water, and had He willed, He would have created it salty like seawater. He also created the fire that burns, and made a benefit in it for the servants, suitable for their livelihood in this life and as a warning and a punis... hment for them in the Hereafter.   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّکَ الْعَظِیْمِ : تفصیل کے لیے دیکھیئے سورة ٔ اعلیٰ کی پہلی آیت کی تفسیر ۔ حذیفہ (رض) بیان کرتے ہیں :’ ’ انہوں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ نماز پڑھی ، آپ اپنے رکوع میں ” سبحان ربی العظیم “ اور سجدے میں ” سبحان ربی الاعلیٰ “ پڑھتے تھے اور کسی بھی رحمت کی آیت کے...  پاس سے گزرتے تو اس پر ٹھہر جاتے اور اللہ تعالیٰ سے سوال کرتے اور کسی بھی عذاب کی آیت کے پاس سے گزرتے تو اس پر ٹھہر جاتے اور اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگتے “۔ ( ابو داؤد ، الصلاۃ ، باب ما یقول الرجل فی رکوعہ و سجودہ : ٨٧١، وقال الالبانی صحیح)  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَ‌بِّكَ الْعَظِيمِ (So, proclaim the purity of the name of your Lord, the Magnificent...56:74) The logical and rational conclusion of the above considerations should be for man to believe in the All-Encompassing Divine Power and in His Oneness, and declare the Purity of the Great Lord; for that is the way to express His gratitude.

فَسَبِّحْ باسْمِ رَبِّكَ الْعَظِيْمِ ، اس کا لازمی اور عقلی نتیجہ یہ ہونا چاہئے کہ انسان حق تعالیٰ کی قدرت کاملہ اور توحید پر ایمان لائے اور اپنے رب عظیم کے نام کی تسبیح پڑھا کرے کہ یہی اس کی نعمتوں کا شکر ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّكَ الْعَظِيْمِ۝ ٧٤ ۧ سبح السَّبْحُ : المرّ السّريع في الماء، وفي الهواء، يقال : سَبَحَ سَبْحاً وسِبَاحَةً ، واستعیر لمرّ النجوم في الفلک نحو : وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ [ الأنبیاء/ 33] ، ولجري الفرس نحو : وَالسَّابِحاتِ سَبْحاً [ النازعات/ 3] ، ولسرعة الذّهاب في العمل نح... و : إِنَّ لَكَ فِي النَّهارِ سَبْحاً طَوِيلًا[ المزمل/ 7] ، والتَّسْبِيحُ : تنزيه اللہ تعالی. وأصله : المرّ السّريع في عبادة اللہ تعالی، وجعل ذلک في فعل الخیر کما جعل الإبعاد في الشّرّ ، فقیل : أبعده الله، وجعل التَّسْبِيحُ عامّا في العبادات قولا کان، أو فعلا، أو نيّة، قال : فَلَوْلا أَنَّهُ كانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ [ الصافات/ 143] ، ( س ب ح ) السبح اس کے اصل منعی پانی یا ہوا میں تیز رفتار ری سے گزر جانے کے ہیں سبح ( ف ) سبحا وسباحۃ وہ تیز رفتاری سے چلا پھر استعارہ یہ لفظ فلک میں نجوم کی گردش اور تیز رفتاری کے لئے استعمال ہونے لگا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ [ الأنبیاء/ 33] سب ( اپنے اپنے ) فلک یعنی دوائر میں تیز ی کے ساتھ چل رہے ہیں ۔ اور گھوڑے کی تیز رفتار پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ وَالسَّابِحاتِ سَبْحاً [ النازعات/ 3] اور فرشتوں کی قسم جو آسمان و زمین کے درمیان ) تیر تے پھرتے ہیں ۔ اور کسی کام کو سرعت کے ساتھ کر گزرنے پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ إِنَّ لَكَ فِي النَّهارِ سَبْحاً طَوِيلًا[ المزمل/ 7] اور دن کے وقت کو تم بہت مشغول کا رہے ہو ۔ التسبیح کے معنی تنزیہ الہیٰ بیان کرنے کے ہیں اصل میں اس کے معنی عبادت الہی میں تیزی کرنا کے ہیں ۔۔۔۔۔۔ پھر اس کا استعمال ہر فعل خیر پر ہونے لگا ہے جیسا کہ ابعاد کا لفظ شر پر بولا جاتا ہے کہا جاتا ہے ابعد اللہ خدا سے ہلاک کرے پس تسبیح کا لفظ قولی ۔ فعلی اور قلبی ہر قسم کی عبادت پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَلَوْلا أَنَّهُ كانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ [ الصافات/ 143] قو اگر یونس (علیہ السلام) اس وقت ( خدا کی تسبیح ( و تقدیس کرنے والوں میں نہ ہوتے ۔ یہاں بعض نے مستحین کے معنی مصلین کئے ہیں لیکن انسب یہ ہے کہ اسے تینوں قسم کی عبادت پر محمول کیا جائے اسْمُ والِاسْمُ : ما يعرف به ذات الشیء، وأصله سِمْوٌ ، بدلالة قولهم : أسماء وسُمَيٌّ ، وأصله من السُّمُوِّ وهو الذي به رفع ذکر الْمُسَمَّى فيعرف به، قال اللہ : بِسْمِ اللَّهِ [ الفاتحة/ 1] ، وقال : ارْكَبُوا فِيها بِسْمِ اللَّهِ مَجْراها [هود/ 41] ، بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ [ النمل/ 30] ، وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ [ البقرة/ 31] ، أي : لألفاظ والمعاني مفرداتها ومرکّباتها . وبیان ذلک أنّ الاسم يستعمل علی ضربین : أحدهما : بحسب الوضع الاصطلاحيّ ، وذلک هو في المخبر عنه نحو : رجل وفرس . والثاني : بحسب الوضع الأوّليّ. ويقال ذلک للأنواع الثلاثة المخبر عنه، والخبر عنه، والرّابط بينهما المسمّى بالحرف، وهذا هو المراد بالآية، لأنّ آدم عليه السلام کما علم الاسم علم الفعل، والحرف، ولا يعرف الإنسان الاسم فيكون عارفا لمسمّاه إذا عرض عليه المسمّى، إلا إذا عرف ذاته . ألا تری أنّا لو علمنا أَسَامِيَ أشياء بالهنديّة، أو بالرّوميّة، ولم نعرف صورة ما له تلک الأسماء لم نعرف الْمُسَمَّيَاتِ إذا شاهدناها بمعرفتنا الأسماء المجرّدة، بل کنّا عارفین بأصوات مجرّدة، فثبت أنّ معرفة الأسماء لا تحصل إلا بمعرفة المسمّى، و حصول صورته في الضّمير، فإذا المراد بقوله : وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ كُلَّها [ البقرة/ 31] ، الأنواع الثلاثة من الکلام وصور المسمّيات في ذواتها، وقوله : ما تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِهِ إِلَّا أَسْماءً سَمَّيْتُمُوها [يوسف/ 40] ، فمعناه أنّ الأسماء التي تذکرونها ليس لها مسمّيات، وإنما هي أسماء علی غير مسمّى إذ کان حقیقة ما يعتقدون في الأصنام بحسب تلک الأسماء غير موجود فيها، وقوله : وَجَعَلُوا لِلَّهِ شُرَكاءَ قُلْ سَمُّوهُمْ [ الرعد/ 33] ، فلیس المراد أن يذکروا أساميها نحو اللّات والعزّى، وإنما المعنی إظهار تحقیق ما تدعونه إلها، وأنه هل يوجد معاني تلک الأسماء فيها، ولهذا قال بعده : أَمْ تُنَبِّئُونَهُ بِما لا يَعْلَمُ فِي الْأَرْضِ أَمْ بِظاهِرٍ مِنَ الْقَوْلِ [ الرعد/ 33] ، وقوله : تَبارَكَ اسْمُ رَبِّكَ [ الرحمن/ 78] ، أي : البرکة والنّعمة الفائضة في صفاته إذا اعتبرت، وذلک نحو : الكريم والعلیم والباري، والرّحمن الرّحيم، وقال : سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى [ الأعلی/ 1] ، وَلِلَّهِ الْأَسْماءُ الْحُسْنى [ الأعراف/ 180] ، وقوله : اسْمُهُ يَحْيى لَمْ نَجْعَلْ لَهُ مِنْ قَبْلُ سَمِيًّا [ مریم/ 7] ، لَيُسَمُّونَ الْمَلائِكَةَ تَسْمِيَةَ الْأُنْثى [ النجم/ 27] ، أي : يقولون للملائكة بنات الله، وقوله : هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم/ 65] أي : نظیرا له يستحقّ اسمه، وموصوفا يستحقّ صفته علی التّحقیق، ولیس المعنی هل تجد من يتسمّى باسمه إذ کان کثير من أسمائه قد يطلق علی غيره، لکن ليس معناه إذا استعمل فيه كما کان معناه إذا استعمل في غيره . الاسم کسی چیز کی علامت جس سے اسے پہچانا جائے ۔ یہ اصل میں سمو ہے کیونکہ اس کی جمع اسماء اور تصغیر سمی آتی ہے ۔ اور اسم کو اسم اس لئے کہتے ہیں کہ اس سے مسمیٰ کا ذکر بلند ہوتا ہے اور اس کی معرفت حاصل ہوتی ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ ارْكَبُوا فِيها بِسْمِ اللَّهِ مَجْراها [هود/ 41] اور ( نوح (علیہ السلام) نے ) کہا کہ خدا کا نام لے کر ( کہ اس کے ہاتھ میں ) اس کا چلنا ( ہے ) سوار ہوجاؤ۔ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ [ النمل/ 30] وہ سلیمان کی طرف سے ہے اور مضمون یہ ہے ) کہ شروع خدا کا نام لے کر جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے ۔ اور آیت : وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ [ البقرة/ 31] اور اس آدم کو سب ( چیزوں کے ) نام سکھائے ۔ میں اسماء سے یہاں الفاظ و معانی دونوں مراد ہیں ۔ خواہ مفردہوں خواہ مرکب اس اجمال کی تفصیل یہ ہے ۔ کہ لفظ اسم دو طرح استعمال ہوتا ہے ۔ ایک اصطلاحی معنی میں اور اس صورت میں ہمیشہ مخبر عنہ بنتا ہے ۔ جیسے رجل وفرس دوم وضع اول کے لحاظ سے اس اعتبار سے ( کلمہ کی ) انواع ثلاثہ یعنی مخبر عنہ ( اسم ) خبر اور رابطہ ( حرف ) تینوں پر اس معنی مراد ہیں ۔ کیونکہ آدم (علیہ السلام) نے جس طرح اسماء کی تعلیم حاصل کی تھی ۔ اسی طرح افعال وحروف کا علم بھی نہیں حاصل ہوگیا تھا اور یہ ظاہر ہے کہ جب تک کسی چیز کی ذات کا علم حاصل نہ ہو محض نام کے جاننے سے انسان اسے دیکھ کر پہچان نہیں سکتا ہے مثلا اگر ہم ہندی یا رومی زبان میں چند چیزوں کے نام حفظ کرلیں تو ان چیزوں کے اسماء کے جاننے سے ہم ان کے مسمیات کو نہیں پہچان سکیں گے ۔ بلکہ ہمار علم انہیں چند اصوات تک محدود رہے گا اس سے ثابت ہوا کہ اسماء کی معرفت مسمیات کی معرفت کو مستلزم نہیں ہے اور نہ ہی محض اسم سے مسمی ٰ کی صورت ذہن میں حاصل ہوسکتی ہے ۔ لہذا آیت : وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ كُلَّها [ البقرة/ 31] میں اسماء سے کلام کی انواع ثلاثہ اور صورۃ مسمیات بمع ان کی ذوات کے مراد ہیں اور آیت ما تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِهِ إِلَّا أَسْماءً سَمَّيْتُمُوها [يوسف/ 40] جن چیزوں کی تم خدا کے سوا پرستش کرتے ہو وہ صرف نام ہی نام ہیں جو تم نے رکھ لئے ہیں ۔ کے معنی یہ ہیں ک جن اسماء کی تم پرستش کرتے ہو ان کے مسمیات نہیں ہیں ۔ کیونکہ و اصنام ان اوصاف سے عاری تھے ۔ جن کا کہ وہ ان اسماء کے اعتبار سے ان کے متعلق اعتقاد رکھتے تھے ۔ اور آیت : وَجَعَلُوا لِلَّهِ شُرَكاءَ قُلْ سَمُّوهُمْ [ الرعد/ 33] اور ان لوگوں نے خدا کے شریک مقرر کر رکھے ہیں ۔ ان سے کہو کہ ( ذرا ) انکے نام تولو ۔ میں سموھم سے یہ مراد نہیں ہے کہ لات ، عزی وغیرہ ان کے نام بیان کرو بلکہ آیت کے معنی پر ہیں کہ جن کو تم الاۃ ( معبود ) کہتے ہو ان کے متعلق تحقیق کرکے یہ تو بتاؤ کہ آیا ان میں ان اسماء کے معانی بھی پائے جاتے ہیں ۔ جن کے ساتھ تم انہیں موسوم کرتے ہو ( یعنی نہیں ) اسی لئے اس کے بعد فرمایا أَمْ تُنَبِّئُونَهُ بِما لا يَعْلَمُ فِي الْأَرْضِ أَمْ بِظاهِرٍ مِنَ الْقَوْلِ [ الرعد/ 33] ( کہ ) کیا تم اسے ایسی چیزیں بتاتے ہو جس کو وہ زمین میں ( کہیں بھی ) معلوم نہیں کرتا یا ( محض ) ظاہری ( باطل اور جھوٹی ) بات کی ( تقلید کرتے ہو ۔ ) اور آیت : تَبارَكَ اسْمُ رَبِّكَ [ الرحمن/ 78] تمہارے پروردگار ۔۔ کا نام برا بابر کت ہے ۔ میں اسم رب کے بابرکت ہونے کے معنی یہ ہیں ک اس کی صفات ۔ الکریم ۔ العلیم ۔ الباری ۔ الرحمن الرحیم کے ذکر میں برکت اور نعمت پائی جاتی ہے جیسا ک دوسری جگہ فرمایا : سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى [ الأعلی/ 1] ( اے پیغمبر ) اپنے پروردگار جلیل الشان کے نام کی تسبیح کرو ۔ وَلِلَّهِ الْأَسْماءُ الْحُسْنى [ الأعراف/ 180] اور خدا کے نام سب اچھے ہی اچھے ہیں ۔ اور آیت : اسْمُهُ يَحْيى لَمْ نَجْعَلْ لَهُ مِنْ قَبْلُ سَمِيًّا[ مریم/ 7] اسمہ یحیٰ لم نجعل لہ من قبل سمیا َ (719) جس کا نام یحیٰ ہے ۔ اس سے پہلے ہم نے اس نام کا کوئی شخص پیدا نہیں کیا ۔ میں سمیا کے معنی ہم نام ، ، کے ہیں اور آیت :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا[ مریم/ 65] بھلا تم اس کا کوئی ہم نام جانتے ہو ۔ میں سمیا کے معنی نظیر کے ہیں یعنی کیا اس کی کوئی نظیر ہے جو اس نام کی مستحق ہوا اور حقیقتا اللہ کی صفات کے ساتھ متصف ہو اور اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ کیا تم کسی بھی پاتے ہو جو اس کے نام سے موسوم ہوکیون کہ ایسے تو اللہ تعالیٰ کے بہت سے اسماء ہیں جن کا غیر اللہ پر بھی اطلاق ہوسکتا ہے یا ہوتا ہے لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا ہے کہ ان سے معافی بھی وہی مراد ہوں جو اللہ تعالیٰ پر اطلاق کے وقت ہوتے ہیں ۔ اور آیت : لَيُسَمُّونَ الْمَلائِكَةَ تَسْمِيَةَ الْأُنْثى[ النجم/ 27] اور وہ فرشتوں کو ( خدا کی ) لڑکیوں کے نام سے موسوم کرتے ہیں ۔ میں لڑکیوں کے نام سے موسوم کرنے کے معنی یہ ہیں ۔ کہ وہ فرشتوں کو بنات اللہ کہتے ہیں ۔ رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔ عظیم وعَظُمَ الشیء أصله : كبر عظمه، ثم استعیر لكلّ كبير، فأجري مجراه محسوسا کان أو معقولا، عينا کان أو معنی. قال : عَذابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ [ الزمر/ 13] ، قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ [ ص/ 67] ، ( ع ظ م ) العظم عظم الشئی کے اصل معنی کسی چیز کی ہڈی کے بڑا ہونے کے ہیں مجازا ہر چیز کے بڑا ہونے پر بولا جاتا ہے خواہ اس کا تعلق حس سے یو یا عقل سے اور عام اس سے کہ وہ مادی چیز ہو یا معنو ی قرآن میں ہے : ۔ عَذابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ [ الزمر/ 13] بڑے سخت دن کا عذاب ) تھا ۔ قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ [ ص/ 67] کہہ دو کہ وہ ایک سخت حادثہ ہے ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

سو آپ اپنے اس عظیم الشان پروردگار کے نام کی نماز پڑھیے یا یہ کہ اس کی توحید بیان کیجیے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٧٤{ فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّکَ الْعَظِیْمِ } ” پس تم تسبیح بیان کرو اپنے ربّ کے نام کی جو بہت عظمت والا ہے ۔ “ سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْم ! اب اگلی آیات میں قرآن کی عظمت کا بیان ہے۔ ان آیات کے مطالعہ سے پہلے عظمت قرآن کے حوالے سے سورة الرحمن کے آغاز کی یہ عظیم آیات بھی ذہن میں تازہ کر لیجیے ... : { اَلرَّحْمٰنُ - عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ - خَلَقَ الْاِنْسَانَ - عَلَّمَہُ الْبَیَانَ ۔ } ۔ قرآن کی عظمت کے اس بیان کے بین السطور میں یہ پیغام بھی مضمر ہے کہ انسانوں پر اس عظیم کتاب کا حق ادا کرنا لازم ہے۔ اس حوالے سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ فرمان بھی ہم ان آیات کے ضمن میں پڑھ آئے ہیں : (خَیْرُکُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَہٗ ) کہ تم میں سے بہترین لوگ وہ ہیں جو خود قرآن سیکھتے اور دوسروں کو سکھاتے ہیں۔ ان دونوں سورتوں کے مضامین چونکہ عکسی ترتیب سے بیان ہوئے ہیں ‘ اس لیے عظمت قرآن کا وہ مضمون جو سورة الرحمن کے آغاز میں آیا تھا ‘ اس سورت کے آخر میں آ رہا ہے اور سورة الرحمن کی مذکورہ چار آیات کے مقابلے میں یہاں اس موضوع پر آٹھ آیات آئی ہیں۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

35 That is, "Mention His blessed name and proclaim that He is free from and far above the defects and faults and weaknesses that the pagans and polytheists ascribe to Him, and which underlie every creed of disbelief and every argument that is presented by the deniers of the Hereafter. "

سورة الْوَاقِعَة حاشیہ نمبر :35 یعنی اس کا مبارک نام لے کر یہ اظہار و اعلان کرو کہ وہ ان تمام عیوب و نقائص اور کمزوریوں سے پاک ہے جو کفار و مشرکین اس کی طرف منسوب کرتے ہیں اور جو کفر و شرک کے ہر عقیدے اور منکرین آخرت کے ہر استدلال میں مضمر ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(56:74) فسبح اس میں ف سببیہ ہے سبح فعل امر واحد مذکر حاضر۔ تسبیح (تفعیل) مصدر ۔ پس تو تسبیح پڑھ۔ تو پاکی بیان کر۔ تو عبادت کر۔ باسم ربک : اس میں لفظ اسم زائد ہے۔ اور مراد ہے ذات ، یعنی اپنے رب کی پاکی بیان کر۔ ب بھی زائدہ ہے کیونکہ فعل تسبیح بغیر ب کے متعدی ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 8 کہ اس نے اپنے فضل و کرم سے انسان کے فائدہ کے لئے ایسی کار آمد چیزیں پیدا کیں۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ یہ سب امور نعم موجبہ للتوحید بھی ہیں اور دلائل موجبہ للاعتقاد والقدرة علی البعث بھی۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

فسبح ........ العظیم (٦ 5:4 ٧) ” پس اے نبی اپنے رب عظیم کے نام کی تسبیح کرو۔ “ اب روئے سخن مکذبین کی طرف پھیر کر سخت انداز میں قرآن کو اس کائنات سے مربوط کیا جاتا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

مختلف نعمتوں کے تذکرہ کے بعد فرمایا ﴿ فَسَبِّحْ باسْمِ رَبِّكَ الْعَظِيْمِ (رح) ٠٠٧٤﴾ (سواے مخاطب اپنے عظیم الشان پروردگار کی تسبیح بیان کرو) جس ذات عالی کی مذکورہ بالا نانعمتیں ہیں وہ ہر عیب اور ہر نقص سے پاک ہے، وہ عظیم ہے اس کی پاکی بیان کرنا لازم ہے) ۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

25:۔ ” فسبح باسم۔ الایۃ “ دلائل اربعہ کے بعد پہلی بار دعوی سورت کا ذکر ہے۔ خطاب ہر مخاطب سے ہر وہ شخص جو مذکورہ بالا دلائل عقلیہ میں غور و فکر کرے اس پر لازم ہے کہ وہ ان سے اللہ کی قدرت کاملہ اور اس کی وحدانیت کا سبق حاصل کرے اور ایسے عظیم مالک اور اعلی صفات پروردگار کو ہر شریک سے پاک سمجھے اسی کو ک... ارساز اور برکات دہندہ مانے۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(74) سو اے پیغمبر آپ اپنے عظیم الشان پروردگار کے نام کی پاکی بیان کیجئے۔ حضرت حق جل مجدہ نے اپنی قدرت کا مہ کو کیا خوب ترتیب سے بیان فرمایا ہے پہلے انسانی پیدائش اور عطائے وجود کا ذکر فرمایا اور یہ بات بتائی کہ انسان کی پیدائش اور اس کی ساخت میں ہماری ہی قدرت کا ظہور ہے گو بظاہر تم کو یہ معلوم ہوتا ... ہے کہ تمہاری مشقت کو دخل ہے لیکن حقیقتاً سب جگہ ہماری ہی فرماں روائی کو دخل ہے۔ مثلاً چند قطروں کا رحم میں ڈال دینا یہ تمہارا کام ہے لیکن رحم مادر میں ان قطروں کو انسانی شکل میں بنانا یہ کس کا کام ہے زمین میں تخم پاشی بظاہر تم کرتے ہو ہل چلاتے ہو بیج ڈالتے ہو لیکن اناج کا اگانا اور کھیتی کو پروان چڑھانا یہ کس کا کام ہے اگر ہم چاہیں تو اس کھیتی کو خشک کردیں اور چورا کردیں جیسا کہ سوروہ یونس اور سو رہ کہف میں گزر چکا ہے پھر سوائے اس کے کہ تم نقصان اور خسارا پکارتے پھرو اس کے سوا اور کیا کرسکتے ہو چونکہ پیدا ہونے کے بعد کھانے پینے کی ضرورت اور کھانے کے لئے آگ کی ضرورت ہوتی ہے اسی ترتیب سے حضرت حق نے اپنی نعمتوں کا اظہار فرمایا۔ فظلتم تفکھون کے کئی طرح ترجمے کئے گئے ہیں ہم نے سب کو تیسیر میں جمع کردیا ہے۔ مغرم، کے معنی تاوان اور مقروض کئے گئے ہیں تاوان کو شاہ صاحب (رح) نے کہیں کہیں چٹی بھی لکھا ہے۔ شاید سرکاری محصول زمین کا خراج یا بیج کا نقصان مراد ہو بادلوں سے پانی کا برسنا اور اترنا یہ بھی علاوہ ضروری ہونے کے قدرت کاملہ کی ایک بہت بڑی نشانی ہے جو ہر سال دیکھنے میں آتی ہے اور چونکہ اس پانی کے برسنے میں کسی کو مجازاً بھی دخل نہیں نہ کوئی ایک قطرہ بادلوں سے گراسکتا ہے اور نہ برستے ہوئے بادلوں کو روک سکتا ہے اس لئے فرمایا کہ اگر ہم چاہیں تو میٹھے پانی کی بجائے اس کو کڑوا اور کھاری کردیں۔ بہرحال تم شکر کیوں نہیں کرتے اور افراد شکر میں سے بڑا فرد توحید الٰہی ہے اس کے قائل کیوں نہیں ہوتے آخر میں آگ کی طرف اشارہ فرمایا چونکہ انسانی زندگی میں آگ کو بڑا دخل ہے حرارت سے غذاپکتی ہے ۔ تاپتے ہیں روشنی حاصل کرتے ہیں پانی گرم کرتے ہیں لوہا پگھلاتے ہیں غرض ہزار ہاکام آگ سے وابستہ ہیں۔ اس کو فرماتے ہیں کہ ہرے درخت سے آگ کو کون نکالتا ہے۔ مرخ اور عقار کی رگڑ سے آگ نکلتی ہے یہ کس کی قدرت ہے۔ تورون آگ سلگاتے ہو یا آگ درخت کی شاخ سے نکالتے ہو ہم نے اس حصول آگ کے طریقے اور آگ کو موجب نصیحت بنایا یعنی اس آگ کو استعمال کرنے اور کام میں لانے کے بعد اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور اس کی الوہیت پر ایمان لائو یا دوزخ کی آگ کو یاد کرکے ڈرو۔ بہرحال آگ کا وجود بھی نصیحت ہے ۔ مقوین مسافروں کے لئے بڑے فائدے کی چیز اور نفع بخش ہے ورنہ جنگل میں آگ کا حاصل ہونا سخت دشوار ہے یا مقیم اور مسافروں دونوں مراد ہیں۔ جیسا کہ اہل لغت نے کہا ہے کہ یہ اضداد میں سے ہے تو مطلب یہ ہوگا کہ مسافر اور مقیم دونوں کے فائدے کے لئے اس آگ کو بنایا ہے اور چونکہ تمام مخلوق کا انتفاع آگ کے ساتھ وابستہ ہے اور وہ انتفاع موقوف علی القدرۃ ہے تو سب مخلوق محتاج ہوئی قدرت کی اور یہی حق تعالیٰ کی قدرت استحاق الوہیت و عبادت کی دلیل ہے آگ حاصل کرنے کے طریقے بھی کئی ہیں بانس کی رگڑ سے چقماق وغیرہ سے چونکہ اہل عرب خاص طور سے مرخ اور عقائد سے آگ نکالا کرتے تھے اس لئے اس درخت کا ذکر فرمایا ۔ آخر میں اپنے پیغمبر کو ارشاد فرمایا کہ اے پیغمبر آپ اپنے پروردگار کے ناک کی پاکی بیان کیجئے وہ آپ کا پروردگار بڑی عظمت والا ہے یعنی سبحان ربی العظیم کہیے۔ حدیث میں آتا ہے کہ جب یہ آیت اتری تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اجعلوھا فی رکوعکم یعنی اس تسبیح کو اپنے رکوع میں داخل کرلو۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں کئی درخت ہیں سبز جن کو رگڑنے سے آگ نکلتی ہے آگے سورة یاسین میں اس کا ذکر ہوچکا ہے۔ اور فرماتے ہیں یا دیہ کہ اس آگ سے دوزخ کی آگ یاد آوے اور جنگل والوں کو آگ سے بہت کام ہیں اور کام سبھی کا چلتا ہے اس سے۔ خلاصہ : یہ کہ حق تعالیٰ نے جو امور ان آیتوں میں فرمائے اور جن نعمتوں کا ذکر فرمایا ہے وہ توحید کے لئے بھی سبب ہیں اور قدرۃ علی البعث کے ئے بھی موجب ہیں لہٰذا ان دونوں باتوں پر ایمان لانا چاہیے۔  Show more