Surat ul Hadeed

Surah: 57

Verse: 11

سورة الحديد

مَنۡ ذَا الَّذِیۡ یُقۡرِضُ اللّٰہَ قَرۡضًا حَسَنًا فَیُضٰعِفَہٗ لَہٗ وَ لَہٗۤ اَجۡرٌ کَرِیۡمٌ ﴿ۚ۱۱﴾

Who is it that would loan Allah a goodly loan so He will multiply it for him and he will have a noble reward?

کون ہے جو اللہ تعالٰی کو اچھی طرح قرض دے پھر اللہ تعالٰی اسے اس کے لئے بڑھاتا چلا جائے اور اس کے لئے پسندیدہ اجر ثابت ہو جائے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

مَن ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا ... Who is he that will lend Allah a handsome loan? Umar bin Al-Khattab said that this Ayah refers to spending in Allah's cause. It was also said that it pertains to spending on children. What is correct is that it is more general than that. So all those who spend in the cause of Allah with good intentions and a sincere heart, then they fall under the generality of this Ayah. This is why Allah the Exalted said: مَّن ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللّهَ قَرْضًا حَسَنًا فَيُضَاعِفَهُ لَهُ ... Who is he that will lend Allah handsome loan: then (Allah) will increase it manifold to his credit (in repaying), and in another Ayah, أَضْعَافًا كَثِيرَةً (many times) (2:245), meaning, being handsome reward and tremendous provisions: Paradise on the Day of Resurrection. Ibn Abi Hatim recorded that Abdullah bin Masud said, "When this Ayah, مَّن ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللّهَ قَرْضًا حَسَنًا فَيُضَاعِفَهُ لَهُ (Who is he that will lend Allah handsome loan: then (Allah) will increase it manifold to his credit (in repaying),) was revealed, Abu Ad-Dahdah Al-Ansari said, `O Allah's Messenger! Does Allah ask us for a loan' The Prophet said, Yes, O Abu Ad-Dahdah. He said, `Give me your hand, O Allah's Messenger,' and the Prophet placed his hand in his hand. Abu Ad-Dahdah said, `Verily, I have given my garden as a loan to my Lord.' He had a garden that contained six hundred date trees; his wife and children were living in that garden too. Abu Ad-Dahdah went to his wife and called her, Umm Ad-Dahdah!' She said, `Here I am.' He said, `Leave the garden, because I have given it as a loan to my Lord, the Exalted and Most Honored.' She said, `That is a successful trade, O Abu Ad-Dahdah!' She then transferred her goods and children. The Messenger of Allah said, كَمْ مِنْ عَذْقٍ رَدَاحٍ فِي الْجَنَّةِ لاَِبِي الدَّحْدَاح How plentiful are the sweet date clusters that Abu Ad-Dahdah has in Paradise!" In another narration, the Prophet said, رُبَّ نَخْلَةٍ مُدَلاَّةٍ عُرُوقُهَا دُرٌّ وَيَاقُوتٌ لاَِبِي الدَّحْدَاحِ فِي الْجَنَّة How many a date tree that has lowered down its clusters, which are full of pearls and gems in Paradise for Abu Ad-Dahdah! ... وَلَهُ أَجْرٌ كَرِيمٌ and he will have a honorable reward.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

1 اللہ کو قرض حسن دینے کا مطلب ہے، اللہ کی راہ میں صدقہ و خیرات کرنا، یہ مال، جو انسان اللہ کی راہ میں خرچ کرتا ہے، اللہ ہی کا دیا ہوا ہے، اس کے باوجود اسے قرض قرار دینا، یہ اللہ کا فضل و احسان ہے کہ وہ اس انفاق پر اسی طرح اجر دے گا جس طرح قرض کی ادائیگی ضروری ہوتی ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٦] قرض حسنہ کے سلسلہ میں دس ہدایات :۔ قرض حسنہ سے مراد ہر وہ مال ہے جو محض اللہ کی رضا کے لیے اس کی ہدایات و احکام کے مطابق خرچ کیا جائے۔ خواہ وہ فرضی صدقہ یا زکوٰۃ ہو یا واجبی صدقات ہوں یا نفلی ہوں اور خواہ وہ فی سبیل اللہ جہاد میں خرچ کیا جائے یا کسی محتاج کی احتیاج کو دور کرنے کے لیے اسے دیا جائے۔ قرض حسنہ کے سلسلہ میں مندرجہ ذیل دس امور کا لحاظ رکھنا اسے افضل صدقہ بنادیں گے۔ (١) حلال کمائی سے خرچ کیا جائے کیونکہ حرام کمائی سے صدقہ قبول نہیں، (٢) صدقہ میں ناقص مال نہ دے، (٣) اس وقت صدقہ کرے جبکہ خود بھی اسے احتیاج ہو، (٤) اپنی احتیاج پر دوسرے کی احتیاج کو مقدم رکھے، (٥) صدقہ چھپا کردینا زیادہ بہتر ہے۔ (٦) صدقہ دینے کے بعد احسان نہ جتلائے اور نہ ہی کسی دوسری صورت میں اس کا معاوضہ حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ یہ باتیں صدقہ کو برباد کردیتی ہیں، (٧) صدقہ میں نمودو نمائش یعنی ریا کا شائبہ تک نہ ہو۔ یہ بات بھی صدقہ کو برباد کردیتی ہے، (٨) اپنے دیئے ہوئے صدقہ کو حقیر جانے۔ صدقہ دے کر اس کا نفس اس نیکی پر پھول نہ جائے، (٩) اگر صدقہ میں اپنا بہترین اور پسندیدہ مال دے تو یہ اس کے اپنے حق میں بہت بہتر ہے۔ (١٠) محتاج کو صدقہ دینے کے بعد یہ نہ سمجھے کہ میں نے اس پر احسان کیا ہے بلکہ یہ سمجھے کہ میرے مال میں اس کا یہ حق تھا اور میں نے اس کا حق ادا کیا ہے اور مستحق کو حق دے کر اپنے سر سے بوجھ ہلکا کیا ہے۔ [١٧] قرضہ حسنہ کے دو فائدے :۔ قرضہ حسنہ دینے والوں سے اللہ تعالیٰ نے دو وعدے فرمائے ایک یہ کہ اللہ اسے کئی گناہ زیادہ کرکے واپس کرے گا۔ دنیا میں بھی ایسے خرچ کیے ہوئے مال کی واپسی کا اللہ نے وعدہ کر رکھا ہے۔ (٣٤: ٣٩) اور آخرت میں تو سات سو گنا یا اس سے بڑھ کر بھی اضافہ ہوسکتا ہے یعنی قرضہ حسنہ کی مندرجہ بالا شرائط کو جتنا زیادہ ملحوظ رکھا جائے گا۔ اسی تناسب سے اس کے اجر میں اضافہ ہوگا۔ اور دوسرا وعدہ یہ کہ انہیں عمدہ اجر عطا کرے گا۔ یہ فقرہ اس حقیقت کی نشاندہی کرتا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کے ہی عطا کردہ مال میں سے انسان اس مال کا کچھ حصہ اللہ تعالیٰ کے کہنے کے مطابق خرچ کردے تو انسان کو بدلہ ملنے کا حق کہاں ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود اللہ ایسے قرض حسنہ دینے والوں کو بہت عمدہ اجر عطا فرمائے گا۔ واضح رہے کہ اللہ کا بندے کو اصل سے دوگنا یا زیادہ دینے کا معاملہ کوئی سود بیاج کا معاملہ نہیں ہے۔ اس لیے یہ معاملہ آقا اور اس کے غلام کے درمیان ہے۔ اور غلام کی خدمات کا مالک جتنا بھی صلہ دے دے، برابر برابر دے دوگنا دے، دس بیس گنا دے وہ سود بیاج نہیں کہلا سکتا۔ البتہ یہ اندازہ ضرور کیا جاسکتا ہے کہ آقا اپنے غلام کی خدمات کا کس قدر قدر شناس اور کریم النفس ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

مَنْ ذَا الَّذِیْ یُقْرِضُ اللہ قَرْضًا حَسَنًا ۔۔۔۔: اس کی تفسیر کے لیے دیکھئے سورة ٔ بقرہ (٢٤٤، ٢٤٥) اور ” اجرکریم “ کے لیے دیکھئے سورة ٔ انفال (٧٤) اور سورة ٔ حج (٥٠)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

مَنْ ذَا الَّذِيْ يُقْرِضُ اللہَ قَرْضًا حَسَـنًا فَيُضٰعِفَہٗ لَہٗ وَلَہٗٓ اَجْرٌ كَرِيْمٌ۝ ١١ ۚ ذو ذو علی وجهين : أحدهما : يتوصّل به إلى الوصف بأسماء الأجناس والأنواع، ويضاف إلى الظاهر دون المضمر، ويثنّى ويجمع، ويقال في المؤنّث : ذات، وفي التثنية : ذواتا، وفي الجمع : ذوات، ولا يستعمل شيء منها إلّا مضافا، قال : وَلكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ [ البقرة/ 251] ، وقال : ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى [ النجم/ 6] ، وَذِي الْقُرْبى [ البقرة/ 83] ، وَيُؤْتِ كُلَّ ذِي فَضْلٍ فَضْلَهُ [هود/ 3] ، ذَوِي الْقُرْبى وَالْيَتامی [ البقرة/ 177] ، إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذاتِ الصُّدُورِ [ الأنفال/ 43] ، وَنُقَلِّبُهُمْ ذاتَ الْيَمِينِ وَذاتَ الشِّمالِ [ الكهف/ 18] ، وَتَوَدُّونَ أَنَّ غَيْرَ ذاتِ الشَّوْكَةِ تَكُونُ لَكُمْ [ الأنفال/ 7] ، وقال : ذَواتا أَفْنانٍ [ الرحمن/ 48] ، وقد استعار أصحاب المعاني الذّات، فجعلوها عبارة عن عين الشیء، جو هرا کان أو عرضا، واستعملوها مفردة ومضافة إلى المضمر بالألف واللام، وأجروها مجری النّفس والخاصّة، فقالوا : ذاته، ونفسه وخاصّته، ولیس ذلک من کلام العرب . والثاني في لفظ ذو : لغة لطيّئ، يستعملونه استعمال الذي، ويجعل في الرفع، والنصب والجرّ ، والجمع، والتأنيث علی لفظ واحد نحو : وبئري ذو حفرت وذو طویت ( ذ و ) ذو ( والا ۔ صاحب ) یہ دو طرح پر استعمال ہوتا ہے ( 1) اول یہ کہ اسماء اجناس وانوع کے ساتھ توصیف کے لئے اسے ذریعہ بنایا جاتا ہے ۔ اس صورت میں اسم ضمیر کیطرف مضاف نہیں ہوتا بلکہ ہمیشہ اسم ظاہر کی طرف مضاف ہوتا ہے اور اس کا تنثیہ جمع بھی آتا ہے ۔ اور مونث کے لئے ذات کا صیغہ استعمال ہوتا ہے اس کا تثنیہ ذواتا اور جمع ذوات آتی ہے ۔ اور یہ تمام الفاظ مضاف ہوکر استعمال ہوتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَلكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ [ البقرة/ 251] لیکن خدا اہل عالم پر بڑا مہرابان ہے ۔ ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى [ النجم/ 6] ( یعنی جبرئیل ) طاقتور نے پھر وہ پورے نظر آئے ۔ وَذِي الْقُرْبى [ البقرة/ 83] اور رشتہ داروں ۔ وَيُؤْتِ كُلَّ ذِي فَضْلٍ فَضْلَهُ [هود/ 3] اور ہر ساحب فضل کو اسکی بزرگی ( کی داو ) دیگا ۔ ذَوِي الْقُرْبى وَالْيَتامی [ البقرة/ 177] رشتہ داروں اور یتیموں ۔ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذاتِ الصُّدُورِ [ الأنفال/ 43] تو دلوں تک کی باتوں سے آگاہ ہے ۔ وَنُقَلِّبُهُمْ ذاتَ الْيَمِينِ وَذاتَ الشِّمالِ [ الكهف/ 18] اور ہم ان کو دائیں اور بائیں کروٹ بدلاتے ہیں ۔ وَتَوَدُّونَ أَنَّ غَيْرَ ذاتِ الشَّوْكَةِ تَكُونُ لَكُمْ [ الأنفال/ 7] اور تم چاہتے تھے کہ جو قافلہ بےشان و شوکت ( یعنی بےہتھیار ) ہے وہ تمہارے ہاتھ آجائے ۔ ذَواتا أَفْنانٍ [ الرحمن/ 48] ان دونوں میں بہت سے شاخیں یعنی قسم قسم کے میووں کے درخت ہیں ۔ علمائے معانی ( منطق وفلسفہ ) ذات کے لفظ کو بطور استعارہ عین شے کے معنی میں استعمال کرتے ہیں اور یہ جو ہر اور عرض دونوں پر بولاجاتا ہے اور پھر کبھی یہ مفرد یعنی بدون اضافت کت استعمال ہوتا ہے ۔ اور کبھی اسم ضمیر کی طرف مضاف ہو کر اور کبھی معرف بلالم ہوکر ۔ اور یہ لفظ بمنزلہ نفس اور خاصہ کے بولا جاتا ہے ۔ اور نفسہ وخاصتہ کی طرح ذاتہ بھی کہاجاتا ہے ۔ مگر یہ عربی زبان کے محاورات سے نہیں ہے ( 2 ) دوم بنی طیی ذوبمعنی الذی استعمال کرتے ہیں اور یہ رفعی نصبی جری جمع اور تانیث کی صورت میں ایک ہی حالت پر رہتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ع ( الوافر ) یعنی کنواں جسے میں نے کھودا اور صاف کیا ہے ۔ قرض القَرْضُ : ضرب من القطع، وسمّي قطع المکان وتجاوزه قَرْضاً ، كما سمّي قطعا . قال : وَإِذا غَرَبَتْ تَقْرِضُهُمْ ذاتَ الشِّمالِ [ الكهف/ 17] ، أي : تجوزهم وتدعهم إلى أحد الجانبین، وسمّي ما يدفع إلى الإنسان من المال بشرط ردّ بدله قَرْضاً ، قال : مَنْ ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللَّهَ قَرْضاً حَسَناً [ البقرة/ 245] ، وسمّي المفاوضة في الشّعر مُقَارَضَةً ، والقَرِيضُ للشّعر، مستعار استعارة النّسج والحوک . ( ق ر ض ) القرض ( کرتا ) یہ قطع کی ایک قسم ہے پھر جس طرح کسی جگہ سے گزر نے اور تجاوز کر نیکے لئے قطع المکان کا محاورہ استعمال ہوتا ہے اس طرح قرض المکان بھی کہتے بھی ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذا غَرَبَتْ تَقْرِضُهُمْ ذاتَ الشِّمالِ [ الكهف/ 17] اور جب غروب ہو تو اس سے بائیں طرف کترا جائے ۔ یعنی غروب کے وقت انہیں ایک جانب چھوڑتا ہو اگزر جاتا ہے ۔ اور قرض اس مال کو بھی کہتے ہیں جو کسی کو اس کی ضرورت پوری کرنے کے لئے دیا جائے اس شرط پر کہ وہ واپس مل جائیگا ۔ قرآن میں ہے : ۔ مَنْ ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللَّهَ قَرْضاً حَسَناً [ البقرة/ 245] کوئی ہے خدا کو قرض حسنہ دے ؟ اور شعر گوئی ۔۔۔ کو بھی مقارضۃ کہا جاتا ہے اور شعر کو بطور استعارہ قریض کہا جاتا ہے جس طرح کہ تسبیح اور حو ک کے الفاظ اس معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ ضعف ( دوگنا) ضِّعْفُ هو من الألفاظ المتضایفة التي يقتضي وجود أحدهما وجود الآخر، کالنّصف والزّوج، وهو تركّب قدرین متساويين، ويختصّ بالعدد، فإذا قيل : أَضْعَفْتُ الشیءَ ، وضَعَّفْتُهُ ، وضَاعَفْتُهُ : ضممت إليه مثله فصاعدا . قال بعضهم : ضَاعَفْتُ أبلغ من ضَعَّفْتُ «1» ، ولهذا قرأ أكثرهم : يُضاعَفْ لَهَا الْعَذابُ ضِعْفَيْنِ [ الأحزاب/ 30] ، وَإِنْ تَكُ حَسَنَةً يُضاعِفْها[ النساء/ 40] ، وقال : مَنْ جاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ أَمْثالِها [ الأنعام/ 160] ، والمُضَاعَفَةُ علی قضيّة هذا القول تقتضي أن يكون عشر أمثالها، وقیل : ضَعَفْتُهُ بالتّخفیف ضَعْفاً ، فهو مَضْعُوفٌ ، فَالضَّعْفُ مصدرٌ ، والضِّعْفُ اسمٌ ، کا لثَّنْيِ والثِّنْيِ ، فَضِعْفُ الشیءِ هو الّذي يُثَنِّيهِ ، ومتی أضيف إلى عدد اقتضی ذلک العدد ومثله، نحو أن يقال : ضِعْفُ العشرةِ ، وضِعْفُ المائةِ ، فذلک عشرون ومائتان بلا خلاف، وعلی هذا قول الشاعر : 293- جزیتک ضِعْفَ الوِدِّ لمّا اشتکيته ... وما إن جزاک الضِّعف من أحد قبلي «3» وإذا قيل : أعطه ضِعْفَيْ واحدٍ ، فإنّ ذلک اقتضی الواحد ومثليه، وذلک ثلاثة، لأن معناه الواحد واللّذان يزاوجانه وذلک ثلاثة، هذا إذا کان الضِّعْفُ مضافا، فأمّا إذا لم يكن مضافا فقلت : الضِّعْفَيْنِ فإنّ ذلك يجري مجری الزّوجین في أنّ كلّ واحد منهما يزاوج الآخر، فيقتضي ذلک اثنین، لأنّ كلّ واحد منهما يُضَاعِفُ الآخرَ ، فلا يخرجان عن الاثنین بخلاف ما إذا أضيف الضِّعْفَانِ إلى واحد فيثلّثهما، نحو : ضِعْفَيِ الواحدِ ، وقوله : فَأُولئِكَ لَهُمْ جَزاءُ الضِّعْفِ [ سبأ/ 37] ، وقوله : لا تَأْكُلُوا الرِّبَوا أَضْعافاً مُضاعَفَةً [ آل عمران/ 130] ، فقد قيل : أتى باللّفظین علی التأكيد، وقیل : بل المُضَاعَفَةُ من الضَّعْفِ لا من الضِّعْفِ ، والمعنی: ما يعدّونه ضِعْفاً فهو ضَعْفٌ ، أي : نقص، کقوله : وَما آتَيْتُمْ مِنْ رِباً لِيَرْبُوَا فِي أَمْوالِ النَّاسِ فَلا يَرْبُوا عِنْدَ اللَّهِ [ الروم/ 39] ، وکقوله : يَمْحَقُ اللَّهُ الرِّبا وَيُرْبِي الصَّدَقاتِ [ البقرة/ 276] ، وهذا المعنی أخذه الشاعر فقال : زيادة شيب وهي نقص زيادتي وقوله : فَآتِهِمْ عَذاباً ضِعْفاً مِنَ النَّارِ [ الأعراف/ 38] ، فإنهم سألوه أن يعذّبهم عذابا بضلالهم، وعذابا بإضلالهم كما أشار إليه بقوله : لِيَحْمِلُوا أَوْزارَهُمْ كامِلَةً يَوْمَ الْقِيامَةِ وَمِنْ أَوْزارِ الَّذِينَ يُضِلُّونَهُمْ [ النحل/ 25] ، وقوله : لِكُلٍّ ضِعْفٌ وَلكِنْ لا تَعْلَمُونَ [ الأعراف/ 38] ، أي : لكلّ منهم ضِعْفُ ما لکم من العذاب، وقیل : أي : لكلّ منهم ومنکم ضِعْفُ ما يرى الآخر، فإنّ من العذاب ظاهرا و باطنا، وكلّ يدرک من الآخر الظاهر دون الباطن فيقدّر أن ليس له العذاب الباطن . ( ض ع ف ) الضعف الضعف ۔ یہ اسمائے متضایقہ سے ہے یعنی وہ الفاظ جو اپنے مفہوم ومعنی کے تحقیق میں ایک دوسرے پر موقوف ہوتے ہیں جیسے نصف وزوج اور ضعف ( دوگنا) کے معنی ہیں ایک چیز کے ساتھ اس کے مثل کامل جانا اور یہ اسم عدد کے ساتھ مخصوص ہے ۔ اور اضعفت الشئی وضعتہ وضاعفتہ کے معنی ہیں کسی چیز کو دو چند کردینا بعض نے کہا ہے کہ ضاعفت ( مفاعلۃ ) میں ضعفت ( تفعیل ) سے زیادہ مبالغہ پایا جاتا ہے آیت کریمہ : ۔ يُضاعَفْ لَهَا الْعَذابُ ضِعْفَيْنِ [ الأحزاب/ 30] ان کو دگنی سزادی جائے گی ۔ اور آیت : ۔ وَإِنْ تَكُ حَسَنَةً يُضاعِفْها[ النساء/ 40] اور اگر نیکی ( رکی ) ہوگی تو اس کو دو چند کر دیگا ۔ میں یضاعف ( مفاعلۃ پڑھا ہے اور کہا ہے کہ اس سے نیکیوں کے دس گناہ ہونے کی طرف اشارہ ہے جیسا کہ آیت : ۔ مَنْ جاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ أَمْثالِها [ الأنعام/ 160] سے معلوم ہوتا ہے اور بعض نے کہا ہے کہ ضعفتہ ضعفا فھوا مضعوف ۔ تخفیف عین کے ساتھ آتا ہے اس صورت میں ضعف مصدر ہوگا اور ضعف اسم جیسا کہ شئی اور شئی ہے اس اعتبار سے ضعف الشئی کے معنی ہیں کسی چیز کی مثل اتنا ہی اور جس سے وہ چیز دوگنی ہوجائے اور جب اس کی اضافت اسم عدد کی طرف ہو تو اس سے اتنا ہی اور عدد یعنی چند مراد ہوتا ہے لہذا ضعف العشرۃ اور ضعف المابۃ کے معنی بلا اختلاف بیس اور دو سو کے ہوں گے چناچہ اسی معنی میں شاعر نے کہا ہے ( الطویل ) جز نیتک ضعف الواد لما اشتیتہ وما ان جزاک الضعف من احد قبلی جب تونے محبت کے بارے میں شکایت کی تو میں نے تمہیں دوستی کا دو چند بدلہ دیا اور مجھ سے پہلے کسی نے تمہیں دو چند بد لہ نہیں دیا ۔ اور اعطہ ضعفی واحد کے معنی یہ ہیں کہ اسے سر چند دے دو کیونکہ اس کے اصل معنی یہ ہیں کہا یک اور اس کے ساتھ دو اور دے دو اور یہ کل تین ہوجاتے ہیں مگر یہ معنی اس صورت میں ہوں گے جب ضعف کا لفظ مضاعف ہو ورنہ بدوں اضافت کے ضعفین کے معنی تو زوجین کی طرح دوگنا ہی ہوں گے ۔ لیکن جب واحد کی طرف مضاف ہوکر آئے تو تین گنا کے معنی ہوتے ہیں قرآن میں ہے : ۔ فَأُولئِكَ لَهُمْ جَزاءُ الضِّعْفِ [ سبأ/ 37] ایسے لوگوں کو دوگنا بدلہ ملے گا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَآتِهِمْ عَذاباً ضِعْفاً مِنَ النَّارِ [ الأعراف/ 38] تو ان کی آتش جہنم کا دوگنا عذاب دے ۔ میں دوگنا عذاب مراد ہے یعنی دوزخی بار تعالٰ سے مطالیہ کریں گے کہ جن لوگوں نے ہمیں کمراہ کیا تھا انہیں ہم سے دو گناہ عذاب دیا جائے گا ایک تو انکے خود گمراہ ہونے کا اور دوسرے ، ہمیں گمراہ کرنے کا جیسا کہ آیت کریمہ : لِيَحْمِلُوا أَوْزارَهُمْ كامِلَةً يَوْمَ الْقِيامَةِ وَمِنْ أَوْزارِ الَّذِينَ يُضِلُّونَهُمْ [ النحل/ 25] یہ قیامت کے ادن اپنے اعمال کے پورے بوجھ بھی اٹھائیں گے اور جن کو یہ بےتحقیق گمراہ کرتے ہیں ان کے بوجھ بھی اٹھائیں گے ۔ سے مفہوم ہوتا ہے ۔ پھر اس کے بعد لِكُلٍّ ضِعْفٌ وَلكِنْ لا تَعْلَمُونَ [ الأعراف/ 38] کہہ کر بتایا کہ ان میں سے ہر ایک کو تم سے دگنا عذاب دیا جائے گا ۔ بعض نے اس کے یہ معنی بیان کئے ہیں کہ تم اور ان میں سے ہر ایک کو اس سے دگنا عذاب ہور ہا ہے جتنا کہ دوسرے کو نظر آرہا ہے ۔ کیونکہ عذاب دو قسم پر ہے ظاہری اور باطنی ، ظاہری عذاب تو ایک دوسرے کو نظر آئے گا مگر باطنی عذاب کا ادراک نہیں کرسکیں گے اور سمجھیں گے کہ انہی اندرونی طور پر کچھ بھی عذاب نہیں ہورہا ہے ( حالانکہ وہ باطنی عذاب میں بھی مبتلا ہوں گے ۔ اور آیت ؛لا تَأْكُلُوا الرِّبَوا أَضْعافاً مُضاعَفَةً [ آل عمران/ 130] بڑھ چڑھ کر سود در سود نہ کھاؤ ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ اضعافا کے بعد مضاعفۃ کا لفظ بطور تاکید لایا گیا ہے مگر بعض نے کہا ہے کہ مضاعفۃ کا لفظ ضعف ( بفتح الضاد ) سے ہے جس کے معنی کمی کے ہیں پس آیت کے معنی یہ ہیں کہ سود جسے تم افزونی اور بیشی سمجھ رہے ہو یہ ، دراصل بڑھانا نہیں ہے بلکہ کم کرنا ہے جیسے فرمایا : يَمْحَقُ اللَّهُ الرِّبا وَيُرْبِي الصَّدَقاتِ [ البقرة/ 276] کہ اللہ تعالیٰ سود کو کم کرتا اور صدقات کو بڑھاتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی کے پیش نظر شاعر نے کہا ہے ( الطویل ) (286) زیادۃ شیب وھی نقض زیادتی کہ بڑھاپے کی افرزونی دراصل عمر کی کمی ہے أجر الأجر والأجرة : ما يعود من ثواب العمل دنیویاً کان أو أخرویاً ، نحو قوله تعالی: إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ [يونس/ 72] ، وَآتَيْناهُ أَجْرَهُ فِي الدُّنْيا وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ [ العنکبوت/ 27] ، وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا [يوسف/ 57] . والأُجرة في الثواب الدنیوي، وجمع الأجر أجور، وقوله تعالی: وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ [ النساء/ 25] كناية عن المهور، والأجر والأجرة يقال فيما کان عن عقد وما يجري مجری العقد، ولا يقال إلا في النفع دون الضر، نحو قوله تعالی: لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 199] ، وقوله تعالی: فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ [ الشوری/ 40] . والجزاء يقال فيما کان عن عقدٍ وغیر عقد، ويقال في النافع والضار، نحو قوله تعالی: وَجَزاهُمْ بِما صَبَرُوا جَنَّةً وَحَرِيراً [ الإنسان/ 12] ، وقوله تعالی: فَجَزاؤُهُ جَهَنَّمُ [ النساء/ 93] . يقال : أَجَر زيد عمراً يأجره أجراً : أعطاه الشیء بأجرة، وآجَرَ عمرو زيداً : أعطاه الأجرة، قال تعالی: عَلى أَنْ تَأْجُرَنِي ثَمانِيَ حِجَجٍ [ القصص/ 27] ، وآجر کذلک، والفرق بينهما أنّ أجرته يقال إذا اعتبر فعل أحدهما، وآجرته يقال إذا اعتبر فعلاهما «1» ، وکلاهما يرجعان إلى معنی واحدٍ ، ويقال : آجره اللہ وأجره اللہ . والأجير : فعیل بمعنی فاعل أو مفاعل، والاستئجارُ : طلب الشیء بالأجرة، ثم يعبّر به عن تناوله بالأجرة، نحو : الاستیجاب في استعارته الإيجاب، وعلی هذا قوله تعالی: اسْتَأْجِرْهُ إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْأَمِينُ [ القصص/ 26] . ( ا ج ر ) الاجر والاجرۃ کے معنی جزائے عمل کے ہیں خواہ وہ بدلہ دنیوی ہو یا اخروی ۔ چناچہ فرمایا : ۔ {إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ } [هود : 29] میرا اجر تو خدا کے ذمے ہے ۔ { وَآتَيْنَاهُ أَجْرَهُ فِي الدُّنْيَا وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ } [ العنکبوت : 27] اور ان کو دنیا میں بھی ان کا صلہ عنایت کیا اور وہ آخرت میں بھی نیک لوگوں میں سے ہوں گے ۔ { وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا } [يوسف : 57] اور جو لوگ ایمان لائے ۔ ۔۔۔ ان کے لئے آخرت کا اجر بہت بہتر ہے ۔ الاجرۃ ( مزدوری ) یہ لفظ خاص کر دنیوی بدلہ پر بولا جاتا ہے اجر کی جمع اجور ہے اور آیت کریمہ : { وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ } [ النساء : 25] اور ان کے مہر بھی انہیں ادا کردو میں کنایہ عورتوں کے مہر کو اجور کہا گیا ہے پھر اجر اور اجرۃ کا لفظ ہر اس بدلہ پر بولاجاتا ہے جو کسی عہد و پیمان یا تقریبا اسی قسم کے عقد کی وجہ سے دیا جائے ۔ اور یہ ہمیشہ نفع مند بدلہ پر بولا جاتا ہے ۔ ضرر رساں اور نقصان دہ بدلہ کو اجر نہیں کہتے جیسے فرمایا { لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ } [ البقرة : 277] ان کو ان کے کاموں کا صلہ خدا کے ہاں ملے گا ۔ { فَأَجْرُهُ عَلَى اللهِ } ( سورة الشوری 40) تو اس کا بدلہ خدا کے ذمے ہے الجزاء ہر بدلہ کو کہتے ہیں خواہ وہ کسی عہد کی وجہ سے ہو یا بغیر عہد کے اچھا ہو یا برا دونوں پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ { وَجَزَاهُمْ بِمَا صَبَرُوا جَنَّةً وَحَرِيرًا } [ الإنسان : 12] اور ان کے صبر کے بدلے ان کو بہشت کے باغات اور ریشم ( کے ملبوسات) عطا کریں گے ۔ { فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ } ( سورة النساء 93) اس کی سزا دوزخ ہے ۔ محاورہ میں ہے اجر ( ن ) زید عمرا یا جرہ اجرا کے معنی میں زید نے عمر کو اجرت پر کوئی چیز دی اور اجر عمر زیدا کے معنی ہوں گے عمرو نے زید کو اجرت دی قرآن میں ہے :۔ { عَلَى أَنْ تَأْجُرَنِي ثَمَانِيَ حِجَجٍ } [ القصص : 27] کہ تم اس کے عوض آٹھ برس میری خدمت کرو ۔ اور یہی معنی اجر ( مفاعلہ ) کے ہیں لیکن اس میں معنی مشارکت کا اعتبار ہوتا ہے اور مجرد ( اجرتہ ) میں مشارکت کے معنی ملحوظ نہیں ہوتے ہاں مال کے لحاظ سے دونوں ایک ہی ہیں ۔ محاورہ ہی ۔ اجرہ اللہ واجرہ دونوں طرح بولا جاتا ہے یعنی خدا اسے بدلہ دے ۔ الاجیرہ بروزن فعیل بمعنی فاعل یا مفاعل ہے یعنی معاوضہ یا اجرت کا پر کام کرنے والا ۔ الاستیجار کے اصل معنی کسی چیز کو اجرت پر طلب کرنا پھر یہ اجرت پر رکھ لینے کے معنی میں بولا جاتا ہے جس طرح کہ استیجاب ( استفعال ) بمعنی اجاب آجاتا ہے چناچہ آیت کریمہ : { اسْتَأْجِرْهُ إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْأَمِينُ } [ القصص : 26] اسے اجرت پر ملازم رکھ لیجئے کیونکہ بہتر ملازم جو آپ رکھیں وہ ہے جو توانا اور امانت دار ہو میں ( استئجار کا لفظ ) ملازم رکھنے کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔ كرم الكَرَمُ إذا وصف اللہ تعالیٰ به فهو اسم لإحسانه وإنعامه المتظاهر، نحو قوله : فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [ النمل/ 40] ، وإذا وصف به الإنسان فهو اسم للأخلاق والأفعال المحمودة التي تظهر منه، ولا يقال : هو كريم حتی يظهر ذلک منه . قال بعض العلماء : الكَرَمُ کالحرّيّة إلّا أنّ الحرّيّة قد تقال في المحاسن الصّغيرة والکبيرة، والکرم لا يقال إلا في المحاسن الکبيرة، كمن ينفق مالا في تجهيز جيش في سبیل الله، وتحمّل حمالة ترقئ دماء قوم، وقوله تعالی: إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقاكُمْ [ الحجرات/ 13] فإنما کان کذلک لأنّ الْكَرَمَ الأفعال المحمودة، وأكرمها وأشرفها ما يقصد به وجه اللہ تعالی، فمن قصد ذلک بمحاسن فعله فهو التّقيّ ، فإذا أكرم الناس أتقاهم، وكلّ شيء شرف في بابه فإنه يوصف بالکرم . قال تعالی: فَأَنْبَتْنا فِيها مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ [ لقمان/ 10] ، وَزُرُوعٍ وَمَقامٍ كَرِيمٍ [ الدخان/ 26] ، إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة/ 77] ، وَقُلْ لَهُما قَوْلًا كَرِيماً [ الإسراء/ 23] . والإِكْرَامُ والتَّكْرِيمُ : أن يوصل إلى الإنسان إکرام، أي : نفع لا يلحقه فيه غضاضة، أو أن يجعل ما يوصل إليه شيئا كَرِيماً ، أي : شریفا، قال : هَلْ أَتاكَ حَدِيثُ ضَيْفِ إِبْراهِيمَ الْمُكْرَمِينَ [ الذاریات/ 24] . وقوله : بَلْ عِبادٌ مُكْرَمُونَ [ الأنبیاء/ 26] أي : جعلهم کراما، قال : كِراماً كاتِبِينَ [ الانفطار/ 11] ، وقال : بِأَيْدِي سَفَرَةٍ كِرامٍ بَرَرَةٍ [ عبس/ 15 16] ، وَجَعَلَنِي مِنَ الْمُكْرَمِينَ [يس/ 27] ، وقوله : ذُو الْجَلالِ وَالْإِكْرامِ [ الرحمن/ 27] منطو علی المعنيين . ( ک ر م ) الکرم ۔ جب اللہ کی صفت ہو تو اس سے احسان وانعام مراد ہوتا ہے جو ذات باری تعالیٰ سے صادر ہوتا رہتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [ النمل/ 40] تو میر اپروردگار بےپرواہ اور کرم کرنے والا ہے ۔ اور جب انسان کی صفت ہو تو پسندیدہ اخلاق اور افعال مراد ہوتے ہیں جو کسی انسان سے ظاہر ہوتے ہیں ۔ اور کسی شخص کو اس وقت تک کریمہ نہیں کہاجاسکتا جب تک کہ اس سے کرم کا ظہور نہ ہوچکا ہو ۔ بعض نے علماء کہا ہے کہ حریت اور کرم ہم معنی ہیں لیکن حریت کا لفظ جھوٹی بڑی ہر قسم کی خوبیوں پر بولا جا تا ہے اور کرم صرف بڑے بڑے محاسن کو کہتے ہیں مثلا جہاد میں فوج کے لئے سازو سامان مہیا کرنا یا کیس ایسے بھاری تا وان کو اٹھا لینا جس سے قوم کے خون اور جان کی حفاظت ہوتی ہو ۔ اور آیت : ۔ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقاكُمْ [ الحجرات/ 13] اور خدا کے نزدیک تم میں زیادہ عزت والا ہے جو زیادہ پرہیز گار ہیں ۔ میں القی یعنی سب سے زیادہ پرہیز گا ۔ کو اکرم یعنی سب سے زیادہ عزت و تکریم کا مستحق ٹہھر انے کی وجہ یہ ہے کہ کرم بہترین صفات کو کہتے ہیں اور سب سے بہتر اور پسند یدہ کام وہی ہوسکتے ہیں جن سے رضا الہیٰ کے حصول کا قصد کیا جائے لہذا جو جس قدر زیادہ پرہیز گار ہوگا اسی قدر زیادہ واجب التکریم ہوگا ۔ نیز الکریم ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو اپنی چیز کو کہتے ہیں جو اپنی ہم نوع چیزوں میں سب سے زیادہ باشرف ہو چناچہ فرمایا : ۔ فَأَنْبَتْنا فِيها مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ [ لقمان/ 10] پھر ( اس سے ) اس میں ہر قسم کی نفیس چیزیں اگائیں ۔ وَزُرُوعٍ وَمَقامٍ كَرِيمٍ [ الدخان/ 26] اور کھیتیاں اور نفیس مکان ۔ إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة/ 77] کہ یہ بڑے رتبے کا قرآن ہے ۔ وَقُلْ لَهُما قَوْلًا كَرِيماً [ الإسراء/ 23] اور ان سے بات ادب کے ساتھ کرنا ۔ الا کرام والتکریم کے معنی ہیں کسی کو اس طرح نفع پہچانا کہ اس میں اس کی کسی طرح کی سبکی اور خفت نہ ہو یا جو نفع پہچا یا جائے وہ نہایت باشرف اور اعلٰی ہو اور المکرم کے معنی معزز اور با شرف کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ هَلْ أَتاكَ حَدِيثُ ضَيْفِ إِبْراهِيمَ الْمُكْرَمِينَ [ الذاریات/ 24] بھلا تمہارے پاس ابراہیم کے معزز مہمانوں کی خبر پہنچی ہے ؛ اور آیت کریمہ : ۔ بَلْ عِبادٌ مُكْرَمُونَ [ الأنبیاء/ 26] کے معنی یہ ہیں کہ وہ اللہ کے معزز بندے ہیں جیسے فرمایا : ۔ وَجَعَلَنِي مِنَ الْمُكْرَمِينَ [يس/ 27] اور مجھے عزت والوں میں کیا ۔ كِراماً كاتِبِينَ [ الانفطار/ 11] عالی قدر تمہاری باتوں کے لکھنے والے ۔ بِأَيْدِي سَفَرَةٍ كِرامٍ بَرَرَةٍ [ عبس/ 15 16] ( ایسے ) لکھنے والوں کے ہاتھوں میں جو سر دار اور نیوک کار ہیں ۔ اور آیت : ۔ ذُو الْجَلالِ وَالْإِكْرامِ [ الرحمن/ 27] اور جو صاحب جلال اور عظمت ہے ۔ میں اکرام کا لفظ ہر دو معنی پر مشتمل ہے ۔ یعنی اللہ تعالیٰ عزت و تکریم بھی عطا کرتا ہے اور باشرف چیزیں بھی بخشتا ہے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

کوئی شخص ہے جو اللہ کی راہ میں خلوص اور ثواب کی امید رکھتا ہو اللہ تعالیٰ کو دے اور پھر اللہ تعالیٰ اس کو قبول کر کے اس کے ثواب کو سات سے لیکر ستر تک اور سات سو اور دو لاکھ تک جہاں تک اللہ تعالیٰ چاہے بڑھاتا ہے اور اس شخص کے لیے اللہ تعالیٰ کے یہاں جنت میں پسندیدہ اجر ہے یہ آیت حضرت ابو الدحداح کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١ ١{ مَنْ ذَا الَّذِیْ یُـقْرِضُ اللّٰہَ قَرْضًا حَسَنًا } ” کون ہے جو اللہ کو قرض دے قرض حسنہ ؟ “ { فَیُضٰعِفَہٗ لَہٗ وَلَــہٗٓ اَجْرٌ کَرِیْمٌ ۔ } ” کہ وہ اس کے لیے اسے بڑھاتا رہے اور اس کے لیے بڑا باعزت اجر ہے۔ “ اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر اور بھلا کون اجر دے سکتا ہے ؟ ایسا منافع اور بھلا کہاں سے مل سکتا ہے ؟ چناچہ اے اہل ایمان ! آگے بڑھو ! لبیک کہو اپنے رب کی اس پکار پر ! اور اپنا مال اور اپنا وقت قربان کر دو اس کی رضا کے لیے ! اپنی صلاحیتیں اور اپنی جان کھپا دو اس کی راہ میں ! یہاں پر یہ نکتہ ایک دفعہ پھر سے ذہن نشین کر لیجیے کہ انفاقِ مال اور انفاقِ جان ایک اعتبار سے ایک ہی چیز ہے۔ مال اور جان کے باہمی تعلق کو اس پہلو سے بھی سمجھنا چاہیے کہ ایک شخص اپنی جان ‘ یعنی جسمانی قوت ‘ ذہانت اور دیگر صلاحیتوں کی مدد سے مال کماتا ہے۔ پھر اپنے اس مال سے ایک طرف وہ اپنی جان کی بقا کا سامان پیدا کرتا ہے تو دوسری طرف اسی کی مدد سے وہ دوسروں کی قوت ‘ ذہانت اور دیگر صلاحیتوں کو خریدنے کی استعداد بھی حاصل کرلیتا ہے۔ اسی طرح انسان کی مہلت زندگی یعنی ” وقت “ بھی اس کی دولت ہے جس کے ذریعے سے وہ مال کماتا ہے۔ چناچہ عام طور پر کہا جاتا ہے : time is money کہ وقت اصل دولت ہے ۔ گویا انسان کی جان ‘ اس کا مال اور وقت باہم یوں متعلق و مربوط ہیں کہ ان میں سے کسی ایک کے انفاق میں عملی طور پر باقی دو چیزوں کا انفاق بھی شامل ہوتا ہے۔ چناچہ یہاں جس انفاق کی بات ہو رہی ہے اس میں آپ کا مال ‘ آپ کا وقت ‘ آپ کی جسمانی قوت ‘ ذہانت ‘ فطانت ‘ جان وغیرہ سب شامل ہیں۔ اب اگلی آیات میں روز محشر کے اس مرحلے کا نقشہ دکھایا جا رہا ہے جب منافقین کو چھانٹ کر سچے اہل ایمان سے الگ کردیا جائے گا۔ اس مرحلے کو ہمارے ہاں عموماً ” پل صراط “ کا مرحلہ کہا جاتا ہے۔ میدانِ حشر کا یہ نقشہ ذہن میں رکھیے کہ وہاں مختلف مواقع پر مختلف قسم کے لوگوں کی چھانٹی ہوتی چلی جائے گی۔ اس چھانٹی کے عمل کو سمجھنے کے لیے بجری بنانے والے کرشرز (crushers) میں لگی چھلنیوں کی مثال ذہن میں رکھیے ۔ جس طرح ان مشینوں میں لگی مختلف قسم کی چھلنیاں مختلف سائز کے پتھروں کو الگ کرتی چلی جاتی ہیں بالکل اسی طرح میدانِ محشر میں مختلف مراحل پر مختلف قسم کے انسان بھی اپنے اعتقادات و اعمال کی بنیاد پر الگ ہوتے چلے جائیں گے۔ چناچہ سب سے پہلی چھانٹی میں تمام کفار و مشرکین کو الگ کرلیا جائے گا۔ پھر کسی مرحلے پر ایمان کے دعوے داروں میں سے سچے مومنین اور منافقین کو الگ الگ کرنے کے لیے چھانٹی کی جائے گی اور یہی وہ مرحلہ ہے جس کا نقشہ آئندہ آیات میں دکھایا جا رہا ہے۔ اس چھانٹی کے لیے تمام مسلمانوں کو گھپ اندھیرے میں پل صراط پر سے گزرنا ہوگا جس کے نیچے جہنم بھڑک رہی ہوگی۔ جن لوگوں کے دلوں میں سچا ایمان تھا اور انہوں نے ایمان کی حالت میں نیک اعمال بھی کیے تھے ‘ ان کے قلوب اور داہنے ہاتھوں سے اس وقت نور پھوٹ رہا ہوگا اور وہ اس روشنی میں راستہ پار کر کے جنت میں پہنچ جائیں گے۔ لیکن جو لوگ دنیا میں سچے ایمان سے محروم رہے اور اعمالِ صالحہ کی پونجی بھی ان کے پاس نہیں ہوگی ‘ وہ خواہ دنیا میں مسلمانوں ہی کے ساتھ شریک رہے ہوں اور خواہ وہ مسلمانوں کے بڑے بڑے قائدین بن کر رہے ہوں اس وقت وہ روشنی سے محروم کردیے جائیں گے ۔ اس حالت میں وہ ٹھوکریں کھاتے جہنم میں گرتے چلے جائیں گے۔ آئندہ آیات میں اس مرحلے کا تفصیلی نقشہ کھینچا گیا ہے۔ اس کے بعد روز محشر کے اس مرحلے کی ایک جھلک سورة التحریم کی آیت ٨ میں بھی دکھائی گئی ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

16 How Generous and Beneficent is Allah that if a man spends the wealth granted by Himself in His way, He calls it a loan Himself, provided that it is a good loan, that is, a loan which in given with a pure intention, without any selfish motive of winning reputation and renown, or of doing favour to somebody, but only for the sake of Allah's approval and to win His good-will and rewards. Allah makes two promises in this regard: (1) That He will repay it increasing it manifold; and (2) that He will also give from Himself the best reward for it. According to a Hadith reported by Hadrat `Abdullah bin Mas'ud, when this verse was revealed and the people heard it from the Holy Prophet (upon whom be Allah's peace), Hadrat Abud-Dahdah Ansari asked: "O Messenger of Allah, dces Allah want a loan from us? The Holy Prophet replied: Yes, O Abud-Dahdah,. He said Kindly show me your hand. The Holy Prophet extended his hand towards him. He took his hand in his own hand and said: I give away my garden in loan to my Lord." Hadrat 'Abdullah bin Mas'ud says that the garden had 600 date-palms and his own house also in which his family lived- Saying this to the Holy Prophet (upon whom be Allah's peace) he went straight back home, and calling out to his wife said: "Come out, O mother of Dahdah, I have loaned this garden to my Lord." She replied: "Dahdah's father, you have made a, good bargain !' and she immediately vacated and left the garden with her effects and children." (Ibn Abi Hatim). This incident throws light on the conduct of the sincere believers of that time, and from this one can also understand the kind of the "good loan" that Allah has promised to return increasing it manifold with a rich reward in addition.

سورة الْحَدِیْد حاشیہ نمبر :16 یہ اللہ تعالیٰ کی شان کریمی ہے کہ آدمی اگر اس کے بخشے ہوئے مال کو اسی کی راہ میں صرف کرے تو اسے وہ اپنے ذمہ قرض قرار دیتا ہے ، بشرطیکہ وہ قرض حسن ( اچھا قرض ) ہو ، یعنی خالص نیت کے ساتھ کسی ذاتی غرض کے بغیر دیا جائے ، کسی قسم کی ریا کاری اور شہرت و ناموری کی طلب اس میں شامل نہ ہو ، اسے دے کر کسی پر احسان نہ جتایا جائے ، اس کا دینے والا صرف اللہ کی رضا کے لیے دے اور اس کے سوا کسی کے اجر اور کسی کی خوشنودی پر نگاہ نہ رکھے ۔ اس قرض کے متعلق اللہ کے دو وعدے ہیں ۔ ایک یہ کہ وہ اس کو کئی بڑھا چڑھا کر واپس دے گا ، دوسرے یہ کہ وہ اس پر اپنی طرف سے بہترین اجر بھی عطا فرمائے گا ۔ حدیث میں حضرت عبداللہ بن مسعود کی روایت ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی اور حضور کی زبان مبارک سے لوگوں نے اس کو سنا تو حضرت ابو الدحداح انصاری نے عرض کیا یا رسول اللہ ، کیا اللہ تعالیٰ ہم سے قرض چاہتا ہے ؟ حضور نے جواب دیا ، ہاں ، اے ابو الدحداح ۔ انہوں نے کہا ، ذرا اپنا ہاتھ مجھے دکھایئے ۔ آپ نے اپنا ہاتھ ان کی طرف بڑھا دیا ۔ انہوں نے آپ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر کہا میں نے اپنے رب کو اپنا باغ قرض میں دے دیا ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ اس باغ میں کھجور کے 600 درخت تھے ، اسی میں ان کا گھر تھا ، وہیں ان کے بال بچے رہتے تھے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات کر کے وہ سیدھے گھر پہنچے اور بیوی کو پکار کر کہا ‘’دحداح کی ماں ، نکل آؤ ، میں نے یہ باغ اپنے رب کو قرض دے دیا ہے وہ بولیں تم نے نفع کا سودا کیا دحداح کے باپ ، اور اسی وقت اپنا سامان اور اپنے بچے لے کر باغ سے نکل گئیں ( ابن ابی حاتم ) ۔ اس واقعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ مخلص اہل ایمان کا طرز عمل اس وقت کیا تھا ، اور اسی سے یہ بات بھی سمجھ میں آسکتی ہے کہ وہ کیسا قرض حسن ہے جسے کئی گنا بڑھا کر واپس دینے اور پھر اوپر سے اجر کریم عطا کرنے کا اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

8: اللہ تعالیٰ کو نہ مال کی حاجت ہے، نہ کسی سے قرض لینے کی، وہ ہر حاجت سے بے نیاز ہے، لیکن انسان جو کچھ صدقہ خیرات کرتا ہے، یا جہاد اور دینی کاموں میں خرچ کرتا ہے، اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے اسے قرض کے لفظ سے اس لیے تعبیر فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کا صلہ ایسے شخص کو دنیا اور آخرت میں اس اہتمام سے عطا فرماتا ہے جیسے کوئی قرض دار اپنا قرض واپس کرتا ہے۔ اور اچھے قرض سے مراد یہ ہے کہ وہ پورے خلوص کے ساتھ صرف اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے دیا گیا ہو، دکھاوا مقصود نہ ہو۔ سورۃ بقرہ : 245 اور سورۃ مائدہ : 12 میں بھی اچھے قرض کی یہ تعبیر گذر چکی ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(57:11) من ذالذی یقرض اللہ : من استفہامیہ ذا اسم اشارہ واحد مذکر الذی اسم موصول۔ یقرض اللہ اس کا صلہ۔ کون ہے وہ شخص جو دے اللہ کو قرض ۔ قرضا حسنا : قرضا مفعول مطلق موصوف۔ حسنا صفت، قرض حسنہ۔ بعض علماء نے بیان کیا ہے کہ قرض حسنہ کی مندرجہ ذیل صفات ہونی چاہئیں۔ (1) حلال مال ہو۔ (2) اعلیٰ درجہ کی چیز ہو۔ (3) خود کو بھی اس کی اشد ضرورت ہو۔ (4) پوشیدہ طور پر دے۔ (5) احسان نہ جتائے۔ (6) اذیت نہ پہنچائے۔ (7) مقصد رضائے الٰہی ہو۔ (8) جتنا بھی خرچ کرے اسے تھوڑا خیال کرے۔ فیضعفہ : ف جواب استفہام کے لئے۔ جملہ جواب استفہام ہے اور مضارع منصوب اسی وجہ سے ہے۔ ہ ضمیر مفعول واحد مذکر غائب جس کا مرجع قرضا حسنا ہے۔ یضعف مضارع منصوب واحد مذکر غائب مضاعفۃ (مفاعلۃ) مصدر۔ وہ بڑھا کردیتا ہے۔ یا بڑھا کر دے۔ ترجمہ :۔ تاکہ اس کو بڑھا وے ۔ بڑھا کر دے۔ ولہ اجر کریم : واؤ عاطفہ۔ لہ میں ہ ضمیر واحد مذکر غائب قرض دہندہ کے لئے ہے۔ اجر کریم موصوف وصفت۔ کریم کرم سے (باب کرم) سے مصدر۔ صفت مشبہ کا صیغہ ہے باعزت اجر۔ مطلب یہ کہ چند در چند بڑھا کردینے کے علاوہ مزید باعزت شاندار اجر ملے گا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 ” قرض حسن “ (اچھے فرض) سے مراد وہ مال ہے جو آدمی دل کی خوشی سے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے اس کی راہ میں خرچ کرے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم ہے کہ وہ اسے اپنے ذمہ قرض قرار دے رہا ہے حالانکہ انسان کے پاس جو کچھ ہے اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم ہے کہ وہ اسے اپنے ذمہ قرض قرار دے رہا ہے حالانکہ انسان کے پاس جو کچھ ہے اللہ تعالیٰ ہی کا دیا ہوا ہے۔ شاہ صاحب لکھتے ہیں قرض کے معنی یہ کہ اس وقت جہاد میں خرچ کرو پھر تم ہی دولتیں برتو گے۔ یہی معنی ہیں دونوں کے دینہ مالک اور غلام میں سود بیاج نہیں جو دیا سو اس کا اور جو نہ دیا سو اس کا۔ “ ‘4 یعنی جنت … مزیدت شریح کے لئے دیکھیے بقرہ 245

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

آیات ١١ تا ١٩ اسرار ومعارف۔ نیزا للہ کی راہ میں جان مال یا کوشش و محنت جو بھی خرچ کیا جاتا ہے وہ ضائع نہیں ہوتا بلکہ ایک قرض ہے یعنی ایسی دولت جس کی واپسی یقینی ہے اور وہ بھی اللہ کریم کے پاس توکیاہی خوب قرض ہے کہ اللہ کریم اسے کئی گنا بڑھادیتے ہیں اور زیادہ کرکے لوٹاتے ہیں نیز عنداللہ اس کی عزت و عظمت یہ الگ انعام ہے اور یہی مجاہدہ ایک دن مومن مردوں اور خواتین کے آگے اور دائیں بائیں نور کی صورت چلے گا کہ حساب کتاب کے بعد سخت اندھیرا چھاجائے گا اور کفار کو جہنم میں دھکیل دیاجائے گا جبکہ مومنین میں نورتقسیم ہوگا اور ہر ایک مرد وزن کو بقدر اس کے اعمال اور خلوص ملے گا جس کی روشنی میں وہ جہنم پر سے پل صراط کے راستے گزر جائیں گے اور جنت کی نعمتوں میں پہنچیں گے جہاں انہیں ہمیشہ ہمیشہ رہنا نصیب ہوگاجوسدا آباد اور سدابہار ہے اور اس میں نہریں جاری ہیں یہ مقام و مرتبہ پالینا ہی بہت بڑی کامیابی ہے مگر منافقین ایسے لوگ جو بظاہر تو مسلمان کہلاتے رہے مگر دل میں نور ایمان نہ رکھتے تھے وہ مرد خواتین مومنین کو پکاریں گے کہ ذرارک جاؤ ہمارا انتظار کرلو کہ تمہاری روشنی سے ہم بھی استفادہ کریں یا تمہارے نور سے کچھ روشنی لے لیں۔ منافقین کا حال۔ حدیث شریف میں وارد ہے کہ ہر عمل سے نور پیدا ہوتا ہے اگر وہ اتباع رسالت میں ہو اور ہر کافرانہ عمل سے بھی اور کفر سے بھی ظلمت پیدا ہوتی ہے جو اخرت کو ظاہر ہوجائے گی یہاں کفار کا تذکرہ نہیں کہ وہاں تو نور ہوگا ہی نہیں مگر منافقن جو عمل تو مسلمان کا سا کرتا ہے اس پر نور مرتب ہوگامگر دل میں خلوص نیت نہیں تو اس نور کی کوئی بنیاد نہ ہوگی وہ بجھ جائے گا جس طرح دنیا میں دھوکا کرتے تھے وہ آخرت میں پیش آجائے گا تب چلائیں گے کہ ذرا رک جاؤ ہم بھی تم سے کچھ نور حاصل کریں تو جواب دیاجائے گا کہ انہیں مت پکارو پیچھے جاؤ جہاں نورت بٹ رہا ہے وہاں سے لے کر آؤ وہاں جائیں گے تو ملے گا نہیں کہ تم لے چکے۔ تب منافقین اور مومنین کے درمیان دیوار کھڑی کردی جائے گی جس میں دروازہ ہوگاجس کے اندر تو اللہ کی رحمتیں ہوں گی اور باہر رہ جانے والے منافقین کے لیے عذاب ہوگاتب وہ پکار کر کہیں گے ہم بھی تو تمہارے ساتھ نماز روزہ کرتے تھے پھر ہمیں اس طرح عذاب میں کیوں ڈالا گیا جبکہ تم لوگ راحت میں پہنچ گئے تو جواب ملے گا ہاں بظاہر مگر اندر ہی اندر تم میں ایمان نہ تھا بلکہ مسلمانوں کی تباہی کے خواب دیکھا کرتے تھے اور تم دھوکے میں پڑے تھے تمہیں تمہارے نفس کی خواہشات نے بہکا دیا تھا تاآنکہ تمہیں موت نے آلیا اور تمہیں شیطان نے دھوکہ میں ڈال رکھا تھا اب آج کے روز اس کا کوئی مداوا نہیں ہوسکتا نہ تم سے اور نہ کفار سے کہ کوئی بھی معاوضۃ دے کرچھوٹ سکو یا کوئی عذر چل جائے بلکہ تمہاری منزل تو دوزخ ہے جو بہت ہی بری اور تکلیف دہ جگہ ہے ان منافقین میں وہ لوگ بھی شامل سمجھے گئے ہیں جو مطلب برآری کے لیے قرآن کے معانی اور دینی مسائل میں تبدیلی کرتے ہیں ۔ ذکرقلبی اور اس کے نتائج۔ یہ سب حقائق کتاب اللہ اور رسول خدا سے سن لینے کے بعد بھی بھلا مسلمانوں میں سستی کیوں آئے ابھی ان کے لیے یہ صورت پیدا نہیں ہوئی کہ ان کے دلوں میں خشوع اور عجز پیدا ہو اور وہ اللہ کا ذکر کرنے لگیں ان میں اللہ کی یاد بس جائے اور ذکر قلبی کے نتیجے میں احکام الٰہی جو نازل ہوئے ہیں ان پر عمل کرنے کی خلوص کی توفیق نصیب ہو اور اس بارہ میں سستی ہرگز نہ کرو اور یہود نصاری کی طرح عمل ہرگز نہ کرو کہ انہوں نے دین کو ثانوی حیثیت دی۔ اور اپنی دنیاداری کو ال درجہ میں ضروری سمجھا تو وقت گزرنے کے ساتھ ان کے دلوں پر قساوت اور سختی آگئی کہ قلوب مردہ ہوگئے اور قبول حق کو توفیق سلب ہوگئی ، لہذا ان کی اکثریت نافرمان ہوگئی کہ اب انہیں ایمان قبول کرنے کی توفیق بھی نہیں ہورہی یاد رکھو اللہ زمین کو اس کے مردہ ہوگئے اور قبول حق کی توفیق سلب ہوگئی یاد رکھو اللہ زمین کو اس کے مردہ ہونے کے بعد زندہ فرماتا ہے کہ ہر ذرے سے سبزہ پھوٹنے لگتا ہے اسی طرح تمہیں بھی مرکر زندہ ہونا ہے اور اس مضمون سے بیشمار دلائل بیان ہوئے ہیں کہ تم دانش سے کام لو اور عقل مندی کا ثبوت دو کہ عقل مندی صرف اطاعت اور اتباع میں ہے بیشک جن مردوں اور خواتین کی کوشش اور مال اللہ کی راہ میں خرچ ہوتا ہے ان کا اللہ کے ہاں ایسے جمع ہورہا ہے جیسے رب کریم قرض ہو اور اسے کئی گنا بڑھا کر انہیں لوٹائے گا۔ کہ یہی اس کی شان ہے لہذا ان کے لیے بہت زیادہ اجر بھی ہے اور عنداللہ ان کی عزت ومقام بھی ہے کہ جن لوگوں کو بھی اللہ اور رسول اللہ پر ایمان نصیب ہو ایسا کامل کہ اس میں سستی نہ پائی گئی ہو تو وہ سب اللہ کے نزدیک شہید اور صدیق ہیں۔ صدیق اور شہید۔ اس معاملے میں تفاسیر میں بہت تفصیل ہے کہ کیا سب مسلمان صدیق اور شہید ہیں تو نتیجہ یہ ثابت کیا گیا ہے کہ ہر وہ مسلمان جو ایثار وعمل میں کوئی سستی قریب نہ آنے دے ایک درجے میں شہید بھی ہے اور صدیق بھی اور ہر ایک کا درجہ اپنے خلوص اور اللہ کی عطا سے الگ ہے سیدنا عمر فاروق (رض) سے کچھ لوگوں سے فرمایا تمہارے سامنے کوئی غلط کام کرے تو منع کیوں نہیں کرتے ۔ عرض کیا لوگوں کی ایذا سے بچنے کے لیے ۔ فرمایا پھر تم صدیق وشہید نہیں ہو۔ غرض مصلحت اندیش اس میں داخل نہ ہوں گے یہ آیت بھی عظمت صحابہ پر دال ہے کسی کو ایمان کے ساتھ ایک لمحہ زیارت کا نصیب ہوا توسرتاپا کمالات نبوی میں مستغرق ہوگیا سو ایسے لوگوں کے لیے اللہ کریم کے ہاں بہترین اجر ہے اور ان کے لیے نور ہے مگر کفار اور آیات الٰہی سے منکرین کے لیے جہنم کی آگ ہے جس میں انہیں رہنا ہوگا۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن : یقرض۔ قرض دیتا ہے۔ یضعف۔ وہ دوگنا کرتا ہے۔ اضافہ کرتا ہے۔ یسعی۔ دوڑتا ہے۔ انظرونا۔ ہمیں دیکھو۔ ہمارا انتظار کرو۔ نقتبس۔ ہم کچھ حصہ لیں۔ ارجعوا۔ تم لوٹ جائو۔ التمسوا۔ تلاش کرو۔ سور۔ دیوار۔ آر۔ تربصتم۔ تم نے انتظار کیا۔ ارتبتھم۔ تم نے شک کیا۔ غرت۔ دھوکے میں ڈال دیا۔ الامانی۔ تمنائیں۔ مولی۔ مالک۔ خادم۔ تشریح : اللہ جو زمین و آسمان کے تمام خزانوں کا مالک ہے وہ اپنے فرماں بردار بندوں کو ان کی کوششوں، جدوجہد اور محنت سے بھی زیادہ عطا کرتا ہے۔ آدم کے پاس جو کچھ ہے وہ اللہ کا ہے وہی مالک ہے لیکن اس کی شان کریمی کے قربان کہ وہ اس کی رضا و خوشنوی کے لئے خرچ کئے گئے مال کو اپنے اوپر قرض قرار دے رہا ہے۔ فرمایا کہ تم میں سے کون ہے جو اللہ کو قرض دے جسے کئی تنا بڑھا کر اس کو واپس کرد یا جائے اور اس کیلئے ایک ایسا بدلہ بھی دیا جائے جو نہایت قابل احترام ہے۔ قرض حسنہ یہ ہے کہ اللہ کی راہ میں اللہ کے دین کی سربلندی اور صرف اس کی رضا و خوشنودی کیلئے نہایت خلوص، محبت اور عاجزی کے ساتھ کے بندوں پر خرچ کرنا جس میں لالچ، دکھاوا اور احسان جتانے کا کوئی جذبہ نہ ہو۔ نہ تو اس لئے دیا جائے کہ لوگ اس کو یہ کہیں کہ وہ بڑا سختی ہے بلکہ صرف ایک ہی جذبہ ہو کہ اللہ اس سے راضی ہوجائے۔ فرمایا کہ ایسے مخلص مسلمانوں کو اللہ دنیا اور آخرت میں ہر طرح اجرو ثواب اور بہترین انعامات سے نوازے گا۔ آخرت میں اس پل صراط سے گذار کر جنت میں جانے کا حکم دیا جائے گا جو بال سے زیادہ باریک اور تلوار سے زیادہ تیز ہوگا۔ اہل ایمان کو دو نور اور روشنیاں عطا کی جائیں گے۔ ان کے ایمان کا نور ان کے سامنے ہوگا اور ان کے اعمال کا نور ان کے داہنی جانب ہوگا اور ان کے دوسرے اعمال کا نور ہر طرف روشنی پھیلا رہا ہوگا۔ منافقین ان کے نور کی روشنی میں چل پڑیں گے اور اہل ایمان بڑی تیزی سے پل صراط سے گذر رہے ہوں گے۔ منافقین اس سخت اندھیرے میں جو ہر طرف چھایا ہوا ہوگا اس میں بھٹک رہے ہوں گے وہ اہل ایمان سے التجا کریں گے کہ ذرا ٹھہر جائو اور تیزی سے نہی چلو تاکہ وہ بھی ان کی روشنی میں راستہ طے کرتے جائیں۔ اہل ایمان ان منافقین سے کہیں گے وہ اسی طرف جائیں جہاں سے ہم نے یہ نور حاصل کیا ہے۔ جب وہ منافقین پلٹیں گے تو اہل ایمان اور منافقین کے درمیان ایک ایسی دیوار کھڑی کردی جائے گی جس میں ایک دروازہ ہوگا۔ اہل جنت اس دروازے سے جنت میں داخل ہوجائیں گے اور پھر وہ دروازہ بھی بند کردیا جائے گا۔ منافقین چلا کر کہیں گے کہ تم کیسے بےمروت ہو دنیا میں تو ہم اور تم دونوں ایک ساتھ رہتے اور عبادتیں کرتے تھے آج تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم ہماری ذرا مدد نہیں کرتے ؟ اس وقت اہل ایمان جواب دیں گے کہ بیشک ہم دنیا میں ایک ساتھ رہتے تھے لیکن ٭تم نے اپنے آپ کو گمراہی میں مبتلا کر رکھا تھا۔ ٭تم ہمارے ساتھ ہونے کے باوجود ہر وقت اس بات کی تمنا کرتے تھے کہ ہم کسی آفت یا مصیبت میں پڑجائیں۔ ٭دین اسلام کے ہر اصول میں شک و شبہ پیدا کرنا تمہارا شیوہ تھا۔ ٭تم اپنی غلط اور بےبنیاد تمناؤں میں الجھے رہے یہاں تک کہ اللہ کا حکم آپہنچا اور دھوکے باز شیطان نے تمہیں اپنے جال سے نکلنے نہ دیا۔ ان سے کہا جائے کہ اب تم سے اور کافروں سے کوئی معاوضہ لے کر چھوڑا نہ جائے گا۔ تمہارا ٹھکانا صرف وہ جہنم ہے جس کے تم لائق ہو اور تہ تمہارے لئے بدترین ٹھکانا ہے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ مضاعفہ سے زیادة فی الکم اور کریم سے زیادة فی الکیف کی طرف اشارہ ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : مال کی حیثیت بتلانے کے بعد اسے ” اللہ “ کی راہ میں خرچ کرنے کا حکم۔ پہلے حکم فرمایا کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرو کیونکہ تم اس کے دائمی مالک نہیں ہو بلکہ اپنے سے پہلے لوگوں کے وارث ہو۔ جس طرح تم پہلے لوگوں کے وارث بنے ہو اسی طرح تمہارے بعد آنے والے تمہارے وارث ہوں گے۔ پھر ارشاد فرمایا کہ تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے حالانکہ تم اس کے حقیقی وارث نہیں ہو۔ حقیقی اور دائمی وارث تو صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ اس کے بعد فرمایا کہ جن لوگوں نے الفتح سے پہلے خرچ کیا وہ بعد میں خرچ کرنے والوں سے بہتر ہیں۔ اب چوتھا ارشاد ہوا کہ کون ہے جو اللہ کو قرض حسنہ دے ؟ جو ” اللہ “ کو قرض حسنہ دے گا ” اللہ “ اسے کئی گنا اضافے کے ساتھ واپس کرے گا اور اسے بہترین اجر عطا فرمائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو بخل سے بچانے کے لیے قرآن مجید میں کئی مقامات پر صدقہ کرنے کو اپنے لیے قرض حسنہ قرار دیا ہے۔ انسان کی فطری کمزوری ہے کہ وہ مال وہاں خرچ کرتا ہے جہاں اسے فائدہ نظر آتا ہے۔ انسانی کمزوری کو سامنے رکھتے ہوئے اور اپنی فیاضی کا اظہار کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ کون ہے جو اپنے رب کو قرض حسنہ دے۔ غور فرمائیں ! کہ ” اللہ “ ہی انسان کو سب کچھ عطا کرنے والا ہے اور پھر وہی انسان سے قرض مانگتا ہے اپنے لیے نہیں بلکہ غریبوں، یتیموں، بیوگان اور جہاد کرنے والوں کے لیے۔ اس کی کرم نوازی کی انتہا دیکھیں کہ وہ محتاجوں کے ساتھ تعاون کی ترغیب دیتا ہے تو اسے اپنی ذات کے لیے قرض قرار دیتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود محتاج لوگوں کی حالت یہ ہے کہ وہ نہ کفر و شرک چھوڑتے ہیں اور نہ ہی اس کے حضور جھکنے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔ صدقہ کرنے والے کے لیے ارشاد فرمایا کہ اس کے لیے اجر کریم ہے۔ اجر کریم سے مراد دنیا میں مال کی برکت اور آخرت میں جنت کی نعمتیں ہیں۔ ( مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَہُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ کَمَثَلِ حَبَّۃٍ اَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِیْ کُلِّ سُنْبُلَۃٍ مِّاءَۃُ حَبَّۃٍ وَ اللّٰہُ یُضٰعِفُ لِمَنْ یَّشَآءُ وَ اللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ) (البقرۃ : ٢٦١) ” جو لوگ اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ان کی مثال اس دانے جیسی ہے جس میں سے سات بالیاں نکلیں اور ہر بالی میں سو دانے ہوں اور اللہ جسے چاہے بڑھا چڑھاکر دیتا ہے اور اللہ بڑی وسعت والا، خوب جاننے والا ہے۔ “ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ مَانَقَصَتْ صَدَقَۃٌ مِّنْ مَّالٍ وَّمَازَاد اللّٰہُ عَبْدًابِعَفْوٍ إِلَّا عِزًّا وَّمَا تَوَاضَعَ أَحَدٌ لِلّٰہِ إِلَّا رَفَعَہُ اللّٰہُ ) (رواہ مسلم : کتاب البر والصلۃ والآداب) ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا صدقہ مال میں کمی نہیں کرتا اور کسی بھائی کو معاف کرنے سے اللہ معاف کرنے والے کو مزید عزت بخشتا ہے۔ جو کوئی اللہ کے لیے تواضع اختیار کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے سر بلندفرماتا ہے۔ “ ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ جب آیت (مَنْ ذَا الَّذِی یُقْرِضُ اللَّہَ قَرْضًا حَسَنًا) نازل ہوئی تو ابودحداح نے کہا اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اللہ تعالیٰ ہم سے قرض کا مطالبہ کرتا ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہاں ! اے ابوالدحداح۔ ابودحداح نے کہا کہ میں نے اپنے رب کو وہ باغ قرض دیا جس میں کھجوروں کے چھ سو درخت ہیں۔ پھر وہ اپنے باغ میں آئے اور اس میں ام دحداح اپنے بچوں سمیت بیٹھی ہوئی تھی۔ ابودحداح نے اسے آواز دی تو اس نے ہاں میں جواب دیا۔ ابودحداح نے کہا یہاں سے نکل جاؤ ! بیشک میں نے یہ باغ اپنے رب کو قرض دے دیا ہے۔ “ (مسند البزار : جلد ١، ص، ٣٢١، قال البانی صحیح) مسائل ١۔ جہاد فی سبیل اللہ اور محتاجوں پر خرچ کرنا اللہ تعالیٰ کو قرض دینے کے مترادف ہے۔ ٢۔ قرض دینے والے کو اللہ تعالیٰ کئی گنا اضافے کے ساتھ واپس کرے گا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں صدقہ کرنے والے کے لیے اجر کریم ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے قرض مانگتا ہے : ١۔ اللہ کو قرض حسنہ دینے کا حکم۔ (المزمل : ٢٠) ٢۔ صدقہ صرف اللہ کی رضا کے لیے دینا چاہیے۔ (البقرۃ : ٢٦٥) ٣۔ صدقہ کرنا اللہ تعالیٰ کو قرض دینا ہے۔ (الحدید : ١١) ٤۔ اللہ اسے بڑھا کر واپس کرے گا۔ (الحدید : ١١) ٥۔ اللہ تعالیٰ اسے دگنا تگنا کرکے واپس کرے گا۔ (التغابن : ١٧) ٦۔ اللہ اسے سات سو گناہ سے بھی زیادہ بڑھائے گا۔ (البقرہ : ٢٦١)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

من ذالذی .................................... المصیر (٥١) (٧٥ : ١١ تا ٥١) ” کون ہے جو اللہ کو قرض دے ؟ اچھا قرض ، تاکہ اللہ اسے کئی گنا بڑھا کر واپس دے اور اس کے لئے بہترین اجر ہے۔ اس دن جب کہ تم مومن مردوں اور عورتوں کو دیکھو گے کہ ان کا نور ان کے آگے آگے اور ان کے دائیں جانب دوڑرہا ہوگا۔ (ان سے کہا جائے گا کہ ) آج بشارت ہے تمہارے لیے جنتیں ہوں گی جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہوں گی ، جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ یہی ہے بڑی کامیابی۔ اس روز منافق مردوں اور عورتوں کا حال یہ ہوگا کہ وہ مومنوں سے کہیں گے ذرا ہماری طرف دیکھو تاکہ ہم تمہارے نور سے کچھ فائدہ اٹھائیں۔ مگر ان سے کہا جائے گا ” پیچھے ہٹ جاؤ ، اپنا نور کہیں اور تلاش کرو۔ “ پھر ان کے درمیان ایک دیوار حائل کردی جائے گی جس میں ایک دروازہ ہوگا۔ اس دروازے کے اندر رحمت ہوگی اور باہر عذاب۔ وہ مومنوں سے پکار پکار کر کہیں گے ” کیا ہم تمہارے ساتھ نہ تھے “ ؟ مومن جواب دیں گے۔” ہاں ، مگر تم نے اپنے آپ کو خود فتنے میں ڈالا ، موقع پرستی کی شک میں پڑے رہے ، اور جھوٹی توقعات تمہیں فریب دیتی رہیں ، یہاں تک کہ اللہ کا فیصلہ آگیا ، اور آخر وقت تک وہ بڑادھوکے باز (شیطان) تمہیں اللہ کے معاملہ میں دھوکا دیتا رہا۔ لہٰذا آج نہ تم سے کوئی فدیہ قبول کیا جائے گا اور نہ ان لوگوں سے جنہوں نے کھلا کھلا کفر کیا تھا۔ تمہارا ٹھکانا جہنم ہے ، وہی تمہاری خبر گیری کرنے والی ہے اور یہ بدترین انجام ہے۔ “ یہ رب ذوالجلال کی طرف سے ایک زبردست پکار ، ایک زبردست موثر اشارہ اللہ اپنے فقیر اور محتاج بندوں سے کہتا ہے۔ من ذالذی ........................ حسنا (٧٥ : ١١) ” کون ہے جو اللہ کو قرض دے ؟ اچھا قرض “ تاکہ صرف یہ تصور کہ ایک مسلم فقیر ہے اور اللہ کی طرف ہر وقت محتاج ہے اور رب ذوالجلال اس سے قرض مانگ رہا ہے ، اس بات کے لئے کافی ہے کہ وہ اڑ کر اللہ کی راہ میں خرچ کرے ، کیونکہ لوگوں کی یہ عادت ہے کہ وہ نفع بخش کاروبار میں سرمایہ لگاتے ہیں۔ لوگ چونکہ فقیر ہیں اور اللہ کو دیا ہوا قرضہ محفوظ ہے ، اس کی واپسی یقینی ہے ، پھر یہ ان کے لئے ایک باعث عزت بات بھی ہے کہ وہ اللہ کو قرض دے رہے ہیں۔ عموماً لوگ نفع بخش کاروبار میں رقم لگاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ تو کئی گنا بڑھا کر اسے واپس کرتا ہے۔ اس لئے کوئی وجہ نہیں ہے کہ لوگ اس کاروبار میں سرمایہ نہ لگائیں۔ اللہ تعالیٰ انک صرف اچھے جذبات تک ہی نہیں لے جاتا بلکہ وعدہ فرماتا ہے کہ اس قرض حسن پر تمہیں کئی گنا اضافہ کرکے دے گا۔ بشرطیکہ وہ قرض حسن ہو اور صرف اللہ کے لئے دیا ہو اور کئی گنا اضافے کے ساتھ پھر اللہ کے ہاں مزید اجر بھی ملے گا۔ فیضعفہ .................... کریم (٧٥ : ١١) ” تاکہ اللہ اسے کئی گنا بڑھا کر واپس دے اور اس کے لئے بہترین اجر ہے۔ “ اور اس اجر کا نقشہ قیامت کے مناظر میں سے ایک منظر پیش کرکے بنایا جاتا ہے۔ قیامت کے دن یہ اجر دیا جائے گا اور یہ بہت ہی قابل قدر اجر ہوگا۔ یہ منظر قرآن کریم کے مناظر میں سے بالکل ایک نیا منظر ہے۔ اس منظر کی تصویر کشی اس طرح کی گئی ہے کہ اسے حرکت اور مکالمات سے بھر پور انداز میں بالکل ایک زندہ منظر بنا دیا گیا ہے۔ آج جب ہم قرآن کریم کو پڑھتے ہیں تو ہماری نظروں کے سامنے پوری تصویر آجاتی ہے۔ مومنین اور مومنات ہمیں سخت تاریکی میں چلتے نظر آتے ہیں لیکن ان کے سامنے اور ان کے دائیں جانب ہمیں ایک لطیف نور اور چمک نظر آتی ہے۔ یہ نور خود ان اہل ایمان کا نور ایمانی ہے اور یہ ان کے چہروں سے پھوٹ رہا ہے۔ ان مومنین اور مومنات کے اجسام سے یہ نور پھوٹ رہا ہے اور اس نور کی روشنی میں یہ اس دن کی تاریکی میں آگے بڑھ رہے ہیں ، یہ وہی نور ہے جو جاہلیت کے اندھیروں میں اللہ نے ان کو دیا تھا اور اس کی روشنی میں وہ چلتے تھے ، اب یہ نور ان کی ارواح کے ذریعہ ان کی خاکی جسم پر غالب آگیا ہے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان کے اجسام کے خاکی اجزا سے یہ نور چمک رہا ہو کہ جدید سائنس کی تحقیقات بھی اسی طرف جاری ہیں کہ مادہ ایٹم سے بنا ہے اور ایٹم دراصل نور اور ” شعاعیں “ ہے ۔ یوں گویا یہ نور پھر حقیقی نور ہوگا۔ اب اس منظر میں مومنین اور مومنات کو مبارک سلامت دی جاتی ہے۔ بشرکم .................... العظیم (٧٥ : ٢١) ” آج ہے خوش خبری تمہارے لیے جنتیں ہوں گی جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہوں گی ، جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ یہی ہے بڑی کامیابی۔ لیکن مبارک سلامت کے اس منظر پر ابھی یہ ختم نہیں ہے۔ ادھر سے منافقین اور منافقات کا گروہ بھی گرتا پڑتا چلا آرہا ہے۔ یہ حیران وپریشان اور کس مپرسی کی حالت میں ہے ، یہ لوگ مومنین اور مومنات کے ساتھ لپٹ جاتے ہیں اور کہتے ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

كون ہے جو اللہ کو قرض دے : پھر فرمایا ﴿ مَنْ ذَا الَّذِيْ يُقْرِضُ اللّٰهَ قَرْضًا حَسَنًا فَيُضٰعِفَهٗ لَهٗ وَ لَهٗۤ اَجْرٌ كَرِيْمٌۚ٠٠١١﴾ (وہ کون ہے جو اللہ کو قرض دے اچھا قرض پھر وہ اللہ اس کے لیے چند در چند کرکے بڑھا دے اور اس کے لیے اجر کریم ہے) اللہ تعالیٰ شانہ بندوں کا بھی خالق اور مالک ہے اور ان کے اموال کا بھی خالق اور مالک ہے جو بھی کوئی شخص اللہ کی رضا کے لیے مال خرچ کرتا ہے اللہ تعالیٰ نے مہربانی فرما کر اس کا نام قرضا حسنا رکھ دیا اور جتنا بھی کوئی شخص مال خرچ کرے (بشرطیکہ اللہ کی رضا کے لیے ہو) اس کو خوب زیادہ بڑھا کردینے کا وعدہ فرما لیا، اول تو مال اس کا ہے پھر بندوں نے خرچ بھی کیا اپنی ہم جنس مخلوق پر اللہ تعالیٰ شانہ غنی اور بےنیاز ہے اسے کسی مال کی حاجت نہیں اس نے فی سبیل اللہ مال خرچ کرنے والوں سے بہت زیادہ ثواب عطا فرمانے کا وعدہ کیا ہے کم سے کم ہر صدقہ کا ثواب دس گنا تو ملتا ہے اور سات سو تک بلکہ اس سے بھی زیادہ بڑھا چڑھا کر ثواب دیا جاتا ہے اخلاص کے ساتھ خرچ کرنا حلال اور طیب مال خرچ کرنا نفس کی خوشی کے ساتھ خرچ کرنا یہ سب قرض حسنہ کے عموم میں داخل ہے۔ صحیح مسلم (صفحہ ٢٥٨: ج ٢) میں ہے کہ روزانہ رات کو جب تہائی رات باقی رہ جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کون ہے جو مجھ سے دعا کرے میں اس کی دعا قبول کروں کون ہے جو مجھ سے سوال کرے میں اس کو دوں، كون ہے جو مجھ سے مغفرت مانگے میں اس کی مغفرت کردوں، كون ہے جو ایسے کو قرضدے جس کے پاس سب کچھ ہے اور جو ظلم کرنے والا نہیں ہے صبح تک یوں ہی فرماتے رہتے ہیں۔ یہ جو فرمایا کہ کون ہے جو ایسے کو دے جس کے پاس سب کچھ ہے اس میں یہ بتادیا کہ کوئی شخص یہ نہ سمجھے کہ ضرورت مند کو دے رہا ہوں بلکہ اپنا فائدہ سمجھ کر اللہ کی راہ میں خرچ کرے اور یہ جو فرمایا کہ وہ ظلم کرنے والا نہیں ہے اس میں یہ بتایا کہ جو کچھ اللہ کی راہ میں خرچ کروگے ضائع نہ جائے گا اس کے مارے جانے کا کوئی اندیشہ نہیں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

12:۔ ” من ذا الذی “ یہ ترغیب انفاق کا تیسرا طریق ہے۔ ” فیضعفہ “ جواب استفہام ہے۔ اس لیے منصوب ہے۔ اور قراءت رفع میں ” یقرض “ پر معطوف ہے۔ قال ابن عطیۃ ھنا الرفع یعنی فی یضاعفہ علی العطف۔ قرا عاصم فیضاعفہ بالنصب بالفاء علی جواب الاستفہام (بحر ج 8 ص 219) ۔ حاصل یہ ہے کہ فرض کرلیا مال تمہارا ہی ہے، تم نے خود کمایا ہے اور باپ دادا سے میراث میں پایا ہے، تو چلو بطور قرض ہی دے دو ۔ دنیا ہی میں اس سے کئی گنا زیادہ واپس کردوں گا اور آخرت کا اجر وثواب اس کے علاوہ ہوگا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(11) کون ہے جو اللہ تعالیٰ کو خوش دی اور خلوص کے ساتھ قرض دے پھر اللہ تعالیٰ اس قرض کے ثواب کو بڑھا دے اور دوگنا کردی اور اسی کے ساتھ اس کے لئے باعزت صلہ اور اجر بھی ہو۔ قرض حسنہ یعنی اللہ تعالیٰ کی راہ میں خوش دلی اور خلوص کے ساتھ خیرات کرے خدا کی راہ میں خیرات کرنے کو قرض فرمایا تاکہ خیرات کرنے والے کو اطمینان ہو کہ اس کی ادائیگی اللہ تعالیٰ کے ذمے ہے اس کو یعنی اس کے ثواب کو بڑھادیں گے دنیا میں خیرات کانفع پہنچے گا اور آخرت میں بھی باعزت اجر ملے گا۔ مطلب یہ کہ کمیت میں اجر کی زیادتی ہوگی اور کیفیت میں بھی ۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں قرض کے معنی یہ کہ اس وقت خرچ کرو جہاد میں پھر تمہیں دولتیں برتو گے اور یہی معنی دونے کے مالک میں اور غلام میں بیاض نہیں جو دیا سوا اسکا جو نہ دیا سو اس کا۔ یہ شاید اس زمانے کے بعض جاہل سود خواروں کا جوب ہے کہ جب خدا خود سود دیتا ہے تو ہمارے سود کھانے کو کیوں حرام کرتا ہے نعوذ باللہ۔ شاہ صاحب (رح) نے خود فرمایا کہ آقا اور غلام میں سود کا بنج نہیں ہوا کرتا کیونکہ جو کچھ غلام کے پاس ہے وہ سب آقاہی کا ہے۔