Surat ul Hashar

Surah: 59

Verse: 17

سورة الحشر

فَکَانَ عَاقِبَتَہُمَاۤ اَنَّہُمَا فِی النَّارِ خَالِدَیۡنِ فِیۡہَا ؕ وَ ذٰلِکَ جَزٰٓؤُا الظّٰلِمِیۡنَ ﴿٪۱۷﴾  5

So the outcome for both of them is that they will be in the Fire, abiding eternally therein. And that is the recompense of the wrong-doers.

پس دونوں کا انجام یہ ہوا کہ آتش ( دوزخ ) میں ہمیشہ کے لئے گئے اور ظالموں کی یہی سزا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

فَكَانَ عَاقِبَتَهُمَا أَنَّهُمَا فِي النَّارِ خَالِدَيْنِ فِيهَا ... So, the end of both will be that they will be in the Fire, abiding therein. meaning, the end of both he, Shaytan, who commanded that disbelief be committed, and those who accepted his call, was in the fire of Hell forever, ... وَذَلِكَ جَزَاء الظَّالِمِينَ Such is the recompense of the wrongdoers. means, this is the recompense of every unjust person.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

17۔ 1 یعنی جہنم کی دائمی سزا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٣] یعنی گمراہ ہونے والے کو خود عقل و ہوش سے کام لینا چاہئے اور گمراہ کرنے والے سے بچنا چاہیے۔ پھر جب وہ گمراہ ہوگیا تو دونوں ایک جیسے ہوگئے اور ایک دوسرے کے ساتھی بن گئے۔ لہذا دونوں کو ایک جیسی سزا ملے گی۔ دونوں ہی ہمیشہ کے لیے دوزخ کا ایندھن بنیں گے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَکَانَ عَاقِبَتَہُمَآ اَنَّہُمَا فِی النَّارِ خَالِدَیْنِ فِیْہَا۔۔۔۔: یعنی قیامت کے د ن نہ شیطان اور دوسرے گمراہ کرنے والے آگ سے یہ کہہ کر بچ سکیں گے کہ ہم نے انہیں کفر کی صرف دعوت دی تھی ، اس پر مجبور نہیں کیا تھا ، اب ہمارا ان سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی یہ کہہ کر بچ سکیں گے کہ ہمیں تو شیطان نے یا ان لوگوں نے گمراہ کیا تھا ، اس لیے ہمارے بجائے انہیں عذاب دیا جائے ، بلکہ گمراہی کی دعوت دینے والے بھی جہنم میں جائیں گے اور ان کے کہنے پر گمراہ ہونے والے سب لوگ بھی اور تمام ظالموں کی یہی جزا ہے۔ مزید دیکھئے سورة ٔ اعراف (٣٨، ٣٩) عنکبوت (١٢، ١٣) ، سباہ (٣١، ٣٢) اور سورة ٔ ق (٢٣ تا ٢٩)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَكَانَ عَاقِبَتَہُمَآ اَنَّہُمَا فِي النَّارِ خَالِدَيْنِ فِيْہَا۝ ٠ ۭ وَذٰلِكَ جَزٰۗؤُا الظّٰلِـمِيْنَ۝ ١٧ ۧ عاقب والعاقِبةَ إطلاقها يختصّ بالثّواب نحو : وَالْعاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ [ القصص/ 83] ، وبالإضافة قد تستعمل في العقوبة نحو : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا [ الروم/ 10] ، ( ع ق ب ) العاقب اور عاقبتہ کا لفظ بھی ثواب کے لئے مخصوص ہے جیسے فرمایا : ۔ وَالْعاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ [ القصص/ 83] اور انجام نیک تو پرہیز گاروں ہی کا ہے ۔ مگر یہ اضافت کی صورت میں کبھی آجاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا [ الروم/ 10] پھر جن لوگوں نے برائی کی ان کا انجام بھی برا ہوا ۔ نار والنَّارُ تقال للهيب الذي يبدو للحاسّة، قال : أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة/ 71] ، ( ن و ر ) نار اس شعلہ کو کہتے ہیں جو آنکھوں کے سامنے ظاہر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة/ 71] بھلا دیکھو کہ جو آگ تم در خت سے نکالتے ہو ۔ خلد الخُلُود : هو تبرّي الشیء من اعتراض الفساد، وبقاؤه علی الحالة التي هو عليها، والخُلُودُ في الجنّة : بقاء الأشياء علی الحالة التي عليها من غير اعتراض الفساد عليها، قال تعالی: أُولئِكَ أَصْحابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيها خالِدُونَ [ البقرة/ 82] ، ( خ ل د ) الخلودُ ( ن ) کے معنی کسی چیز کے فساد کے عارضہ سے پاک ہونے اور اپنی اصلی حالت پر قائم رہنے کے ہیں ۔ اور جب کسی چیز میں دراز تک تغیر و فساد پیدا نہ ہو۔ قرآن میں ہے : ۔ لَعَلَّكُمْ تَخْلُدُونَ [ الشعراء/ 129] شاید تم ہمیشہ رہو گے ۔ جنت میں خلود کے معنی یہ ہیں کہ اس میں تمام چیزیں اپنی اپنی اصلی حالت پر قائم رہیں گی اور ان میں تغیر پیدا نہیں ہوگا ۔ قرآن میں ہے : ۔ أُولئِكَ أَصْحابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيها خالِدُونَ [ البقرة/ 82] یہی صاحب جنت میں ہمشہ اسمیں رہیں گے ۔ جزا الجَزَاء : الغناء والکفاية، وقال تعالی: لا يَجْزِي والِدٌ عَنْ وَلَدِهِ وَلا مَوْلُودٌ هُوَ جازٍ عَنْ والِدِهِ شَيْئاً [ لقمان/ 33] ، والجَزَاء : ما فيه الکفاية من المقابلة، إن خيرا فخیر، وإن شرا فشر . يقال : جَزَيْتُهُ كذا وبکذا . قال اللہ تعالی: وَذلِكَ جَزاءُ مَنْ تَزَكَّى [ طه/ 76] ، ( ج ز ی ) الجزاء ( ض ) کافی ہونا ۔ قرآن میں ہے :۔ { لَا تَجْزِي نَفْسٌ عَنْ نَفْسٍ شَيْئًا } ( سورة البقرة 48 - 123) کوئی کسی کے کچھ کام نہ آئے گا ۔ کہ نہ تو باپ اپنے بیٹے کے کچھ کام آئے اور نہ بیٹا اپنے باپ کے کچھ کام آسکیگا ۔ الجزاء ( اسم ) کسی چیز کا بدلہ جو کافی ہو جیسے خیر کا بدلہ خیر سے اور شر کا بدلہ شر سے دیا جائے ۔ کہا جاتا ہے ۔ جزیتہ کذا بکذا میں نے فلاں کو اس ک عمل کا ایسا بدلہ دیا قرآن میں ہے :۔ وَذلِكَ جَزاءُ مَنْ تَزَكَّى [ طه/ 76] ، اور یہ آں شخص کا بدلہ ہے چو پاک ہوا ۔ ظلم وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه، قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ: الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی، وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس، وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری/ 42] والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه، وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] ، ( ظ ل م ) ۔ الظلم اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی کسب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔ ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

سو آخری انجام شیطان اور اس راہب کا یہ ہوا کہ دونوں ہمیشہ کے لیے دوزخ میں گئے اور کافروں کی یہی سزا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٧{ فَکَانَ عَاقِبَتَہُمَآ اَنَّہُمَا فِی النَّارِ خَالِدَیْنِ فِیْہَا } ” تو ان دونوں کا انجام یہ ہے کہ وہ آگ میں رہیں گے ہمیشہ ہمیش۔ “ { وَذٰلِکَ جَزٰٓؤُا الظّٰلِمِیْنَ ۔ } ” اور یہی ہے بدلہ ظالموں کا۔ “ انسان اور شیطان کی اس ” جوڑی “ کا ذکر سورة ق میں ہم پڑھ چکے ہیں۔ کسی کافر ‘ مشرک اور گنہگار کا جو قرین (ساتھی) شیطان ہوگا وہ اس کے بارے میں کہے گا : { وَقَالَ قَرِیْنُـہٗ ہٰذَا مَا لَدَیَّ عَتِیْدٌ ۔ } ” اور اس کا ساتھی کہے گا : (اے پروردگار ! ) یہ جو میری تحویل میں تھا ‘ حاضر ہے ! “ اللہ تعالیٰ کی طرف سے فرشتوں کو حکم ملے گا : { اَلْقِیَا فِیْ جَہَنَّمَ کُلَّ کَفَّارٍ عَنِیْدٍ ۔ } ” جھونک دو جہنم میں ہر ناشکرے سرکش کو “۔ اس کے بعد کی دو آیات میں اس جہنمی کی مزید صفات بیان کی گئی ہیں۔ وہ شیطان پھر کہے گا : { رَبَّـنَا مَآ اَطْغَیْتُہٗ وَلٰــکِنْ کَانَ فِیْ ضَلٰلٍم بَعِیْدٍ ۔ } ” پروردگار ! میں نے اس کو گمراہ نہیں کیا ‘ بلکہ یہ خود ہی بہت بڑی گمراہی میں مبتلا تھا “۔ اس پر اللہ تعالیٰ فرمائیں گے : { لَا تَخْتَصِمُوْا لَدَیَّ وَقَدْ قَدَّمْتُ اِلَـیْکُمْ بِالْوَعِیْدِ - مَا یُـبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَیَّ وَمَآ اَنَا بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِیْدِ ۔ } ” اب میرے سامنے جھگڑو مت ‘ جبکہ میں پہلے ہی تمہارے پاس وعید بھیج چکا ہوں۔ میرے حضور میں بات تبدیل نہیں کی جاسکتی اور میں اپنے بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ہوں۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

27 That is, "These hypocrites arc treating the Bani an-Nadir in much the same way as Satan treats men. Today they are urging them to stand firm and go forth and clash with the Muslims making them believe that they would come to their aid, but when they actually clash with the Muslims, they would renounce their pledges and promises and would never even look back to see their fate. The same way does Satan treat every disbeliever, and a similar treatment had he given to the disbelieving Quraish at Badr, as has been mentioned in Surah al-Anfal: 48 above. First. he incited them with false hopes and brought them out to confront the Muslims, saying: `Today no one can overcome you, for I am with you." But when the two forces met in battle, he took to his heels, saying: "I have nothing to do with you. 1 see that which you cannot see. Indeed, 1 fear Allah."

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(59:17) آیت 15 متذکرۃ الصدر میں فرمایا کہ :۔ شیطان دنیا میں انسان کو بہکاتا ہے اور ورغلاتا ہے اور جب اس کے بہکاوے میں آکر انسان گناہ کا ارتکاب کر بیٹھتا ہے تو انسان سے الگ ہوجاتا ہے اور کہتا ہے کہ میں نے کب تم کو ایسا کرنے پر اکسایا تھا۔ مجبور کیا تھا۔ میں تو خدائے رب العالمین ڈرتا ہوں۔ اور میں ایسا کیسے کرسکتا ہوں کہ دوسروں کو گناہ کرنے پر مجبور کروں۔ یہ بھی اس کا جھوٹ ہے اور دکھاوا ہے کیونکہ خدا کا خوف شیطان کی سرشت میں ہے ہی نہیں۔ سو اس آیت میں ارشاد ہوتا ہے کہ :۔ فکان عاقبتھما انھما فی النار خلدین فیہا۔ پھر ان دونوں کا (یعنی شیطان کا اور جس کو اس نے بہکایا تھا) یہ انجام ہوگا کہ وہ دونوں دوزخ میں ہوں گے (اور) ہمیشہ اس میں رہیں گے۔ کان فعل ناقص عاقبتھما مضاف مضاف الیہ مل کر کان کی خبر مقدم لہٰذا منصوب ہے۔ ان حرف مشبہ بالفعل ھما اسم ان فی النار اس کی خبر۔ جملہ انھما فی النار موضع رفع ہیں کان کا اسم مؤخر۔ خلدین فیہا جملہ حالیہ ہے (درآں حالیکہ وہ دونوں دوزخ میں ہمیشہ رہیں گے) ۔ عاقبتھما خبر کان مقدم وان مع اسمھا اخبرھا ای فی النار فی موضع الرفع علی الاسم وخلدین حال (مدارک التنزیل) ۔ عاقبتھما ان دونوں کا انجام ۔ انھما بیشک وہ دونوں۔ یعنی شیطان اور اس کا پیروکار۔ وذلک : یعنی ان دونوں کا دوزخ میں ہونا۔ جزاء الظلمین۔ مضاف مضاف الیہ اور ظالموں کی یہی سزا ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ پس جس طرح اس شیطان نے اس انسان کو اول بہکایا پھر وقت پر ساتھ نہ دیا اور دونوں خسران میں پرے، اسی طرح ان منافقین نے اول بنی نضیر کو بری رائے دی کہ تم نکلو نہیں، پھر عین وقت پر ان کو دغا دی، اور دونوں بلا میں پھنسے، بنی نضیر تو بلائے اخراج میں اور منافقین ناکامیابی میں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

17:۔ ” فکان عاقبتھما “ یہ شیطان اور کافر کا انجام ہے۔ دنیا میں تو شیطان انسان کو گمراہ کر کے الگ ہوجاتا ہے لیکن آخرت میں دونوں کا انجام جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور ایسے ظالموں کی یہی سزا ہے بعینہ یہی انجام ان منافقوں اور یہودیوں کا ہوگا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(17) پھر ان دونوں یعنی شیطان اور انسان کا انجام یہ ہوا کہ دونوں آگ میں گئے اور دونوں اس آگ میں ہمیشہ رہیں گے اور یہی سزا ہے گناہگاروں کی۔ یعنی دونوں کا انجام جہنم ہوا یعنی شیطان کا بھی اور کافر انسان کا بھی یہی انجام مدینے کے منافقین اور بنی نضیر اور بنی قینقاع کا ہوا کہ وہ دنیا میں تباہ و برباد ہوئے اور آخرت میں جہنم واصل ہوں گے۔