Surat ul Hashar

Surah: 59

Verse: 4

سورة الحشر

ذٰلِکَ بِاَنَّہُمۡ شَآقُّوا اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ ۚ وَ مَنۡ یُّشَآقِّ اللّٰہَ فَاِنَّ اللّٰہَ شَدِیۡدُ الۡعِقَابِ ﴿۴﴾

That is because they opposed Allah and His Messenger. And whoever opposes Allah - then indeed, Allah is severe in penalty.

یہ اس لئے کہ انہوں نے اللہ تعالٰی کی اور اس کے رسول کی مخالفت کی اور جو بھی اللہ کی مخالفت کرے گا تو اللہ تعالٰی بھی سخت عذاب کرنے والا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ شَاقُّوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ ... That is because they opposed Allah and His Messenger. means, Allah prepared this specific punishment and sent His Messenger and his Companions against them, because they defied Allah and His Messenger and denied the good news that Allah sent forth in the Books of previous Messengers regarding the coming of Muhammad. The Jews knew these facts about Muhammad just as they knew their own children. Allah said, ... وَمَن يُشَاقِّ اللَّهَ فَإِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ And whosoever opposes Allah, then verily, Allah is Severe in punishment. The Prophet Cut down the Date Trees of the Jews by the Leave of Allah Allah said, مَا قَطَعْتُم مِّن لِّينَةٍ أَوْ تَرَكْتُمُوهَا قَايِمَةً عَلَى أُصُولِهَا فَبِإِذْنِ اللَّهِ وَلِيُخْزِيَ الْفَاسِقِينَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

ذٰلِکَ بِاَنّہُمْ شَآقُّوا اللہ َ وَرَسُوْلَہ۔۔۔۔۔: اس کی تفصیل کے لیے دیکھئے سورة ٔ انفال (١٣) کی تفسیر ۔ یہاں قابل توجہ بات یہ ہے کہ اس آیت میں ” ومن یشاق اللہ “ کے بعد ” ورسولہ “ کو حذف کردیا ہے ، اس سے یہ سمجھانا مقصود ہے کہ رسول کی مخالفت اللہ تعالیٰ ہی کی مخالفت ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

ذٰلِكَ بِاَنَّہُمْ شَاۗقُّوا اللہَ وَرَسُوْلَہٗ۝ ٠ ۚ وَمَنْ يُّشَاۗقِّ اللہَ فَاِنَّ اللہَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ۝ ٤ هذا ( ذَاكَ ذلك) وأما ( ذا) في (هذا) فإشارة إلى شيء محسوس، أو معقول، ويقال في المؤنّث : ذه وذي وتا، فيقال : هذه وهذي، وهاتا، ولا تثنّى منهنّ إلّا هاتا، فيقال : هاتان . قال تعالی: أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء/ 62] ، هذا ما تُوعَدُونَ [ ص/ 53] ، هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات/ 14] ، إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه/ 63] ، إلى غير ذلك هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور/ 14] ، هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن/ 43] ، ويقال بإزاء هذا في المستبعد بالشخص أو بالمنزلة : ( ذَاكَ ) و ( ذلك) قال تعالی: الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة/ 1- 2] ، ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف/ 17] ، ذلِكَ أَنْ لَمْ يَكُنْ رَبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرى [ الأنعام/ 131] ، إلى غير ذلك . ( ذ ا ) ہاں ھذا میں ذا کا لفظ اسم اشارہ ہے جو محسوس اور معقول چیز کی طرف اشارہ کے لئے آتا ہے ۔ چناچہ کہا جاتا ہے ۔ ھذہ وھذی وھاتا ۔ ان میں سے سرف ھاتا کا تژنیہ ھاتان آتا ہے ۔ ھذہٰ اور ھٰذی کا تثنیہ استعمال نہیں ہوتا قرآن میں ہے : أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء/ 62] کہ دیکھ تو یہی وہ ہے جسے تونے مجھ پر فضیلت دی ہے ۔ هذا ما تُوعَدُونَ [ ص/ 53] یہ وہ چیزیں ہیں جن کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا ۔ هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات/ 14] یہ وہی ہے جس کے لئے تم جلدی مچایا کرتے تھے ۔ إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه/ 63] کہ یہ دونوں جادوگر ہیں ۔ هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور/ 14] یہی وہ جہنم ہے جس کو تم جھوٹ سمجھتے تھے ۔ هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن/ 43] یہی وہ جہنم ہے جسے گنہگار لوگ جھٹلاتے تھے ۔ ھذا کے بالمقابل جو چیز اپنی ذات کے اعتبار سے دور ہو یا باعتبار مرتبہ بلند ہو ۔ اس کے لئے ذاک اور ذالک استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة/ 1- 2] یہ کتاب یہ خدا کی نشانیوں میں سے ہے ۔ ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف/ 17] یہ اس لئے کہ تمہارا پروردگار ایسا نہیں ہے کہ بستیوں کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہلاک کردے ۔ شقاق والشِّقَاقُ : المخالفة، وکونک في شِقٍّ غير شِقِ صاحبک، أو مَن : شَقَّ العصا بينک وبینه . قال تعالی: وَإِنْ خِفْتُمْ شِقاقَ بَيْنِهِما[ النساء/ 35] ، فَإِنَّما هُمْ فِي شِقاقٍ [ البقرة/ 137] ، أي : مخالفة، لا يَجْرِمَنَّكُمْ شِقاقِي [هود/ 89] ، وَإِنَّ الَّذِينَ اخْتَلَفُوا فِي الْكِتابِ لَفِي شِقاقٍ بَعِيدٍ [ البقرة/ 176] ، مَنْ يُشاقِقِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ الأنفال/ 13] ، أي : صار في شقّ غير شقّ أولیائه، نحو : مَنْ يُحادِدِ اللَّهَ [ التوبة/ 63] ، ونحوه : وَمَنْ يُشاقِقِ الرَّسُولَ [ النساء/ 115] ، ويقال : المال بينهما شقّ الشّعرة، وشَقَّ الإبلمة «1» ، أي : مقسوم کقسمتهما، وفلان شِقُّ نفسي، وشَقِيقُ نفسي، أي : كأنه شقّ منّي لمشابهة بعضنا بعضا، وشَقَائِقُ النّعمان : نبت معروف . وشَقِيقَةُ الرّمل : ما يُشَقَّقُ ، والشَّقْشَقَةُ : لهاة البعیر لما فيه من الشّقّ ، وبیده شُقُوقٌ ، وبحافر الدّابّة شِقَاقٌ ، وفرس أَشَقُّ : إذا مال إلى أحد شِقَّيْهِ ، والشُّقَّةُ في الأصل نصف ثوب وإن کان قد يسمّى الثّوب کما هو شُقَّةً. ( ش ق ق ) الشق الشقاق ( مفاعلہ ) کے معنی مخالفت کے ہیں گویا ہر فریق جانب مخالف کو اختیار کرلیتا ہے ۔ اور یا یہ شق العصابینک وبینہ کے محاورہ سے مشتق ہے ۔ جس کے معنی باہم افتراق پیدا کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَإِنْ خِفْتُمْ شِقاقَ بَيْنِهِما[ النساء/ 35] اگر تم کو معلوم ہو کہ میاں بیوی میں ان بن ہے ۔ فَإِنَّما هُمْ فِي شِقاقٍ [ البقرة/ 137] تو وہ تمہارے مخالف ہیں ۔ لا يَجْرِمَنَّكُمْ شِقاقِي [هود/ 89] میری مخالفت تم سے کوئی ایسا کام نہ کرادے ۔ وَإِنَّ الَّذِينَ اخْتَلَفُوا فِي الْكِتابِ لَفِي شِقاقٍ بَعِيدٍ [ البقرة/ 176] وہ ضد میں ( آکر نیگی سے ) دور ہوگئے ) ہیں ۔ مَنْ يُشاقِقِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ الأنفال/ 13] اور جو شخص خدا اور اس کے رسول کی مخالفت کرتا ہے ۔ یعنی اس کے اولیاء کی صف کو چھوڑ کر ان کے مخالفین کے ساتھ مل جاتا ہے ۔ جیسے فرمایا : مَنْ يُحادِدِ اللَّهَ [ التوبة/ 63] یعنی جو شخص خدا اور رسول کا مقابلہ کرتا ہے ۔ وَمَنْ يُشاقِقِ الرَّسُولَ [ النساء/ 115] اور جو شخص پیغمبر کی مخالفت کرے ۔ المال بیننا شق الشعرۃ اوشق الابلمۃ یعنی مال ہمارے درمیان برابر برابر ہے ۔ فلان شق نفسی اوشقیق نفسی یعنی وہ میرا بھائی ہے میرے ساتھ اسے گونہ مشابہت ہے ۔ شقائق النعمان گل لالہ یا اس کا پودا ۔ شقیقۃ الرمل ریت کا ٹکڑا ۔ الشقشقۃ اونٹ کا ریہ جو مستی کے وقت باہر نکالتا ہے اس میں چونکہ شگاف ہوتا ہے ۔ اس لئے اسے شقثقۃ کہتے ہیں ۔ بیدہ شقوق اس کے ہاتھ میں شگاف پڑگئے ہیں شقاق سم کا شگاف فوس اشق راستہ سے ایک جانب مائل ہوکر چلنے والا گھوڑا ۔ الشقۃ اصل میں کپڑے کے نصف حصہ کو کہتے ہیں ۔ اور مطلق کپڑے کو بھی شقۃ کہا جاتا ہے ۔ شدید والشِّدَّةُ تستعمل في العقد، وفي البدن، وفي قوی النّفس، وفي العذاب، قال : وَكانُوا أَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً [ فاطر/ 44] ، عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوى[ النجم/ 5] ، يعني : جبریل عليه السلام، وقال تعالی: عَلَيْها مَلائِكَةٌ غِلاظٌ شِدادٌ [ التحریم/ 6] ، وقال : بَأْسُهُمْ بَيْنَهُمْ شَدِيدٌ [ الحشر/ 14] ، فَأَلْقِياهُ فِي الْعَذابِ الشَّدِيدِ [ ق/ 26] . والشَّدِيدُ والْمُتَشَدِّدُ : البخیل . قال تعالی: وَإِنَّهُ لِحُبِّ الْخَيْرِ لَشَدِيدٌ [ العادیات/ 8] . ( ش دد ) الشد اور شدۃ کا لفظ عہد ، بدن قوائے نفس اور عذاب سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَكانُوا أَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً [ فاطر/ 44] وہ ان سے قوت میں بہت زیادہ تھے ۔ عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوى[ النجم/ 5] ان کو نہایت قوت والے نے سکھایا ؛نہایت قوت والے سے حضرت جبریل (علیہ السلام) مراد ہیں ۔ غِلاظٌ شِدادٌ [ التحریم/ 6] تندخواہ اور سخت مزاج ( فرشتے) بَأْسُهُمْ بَيْنَهُمْ شَدِيدٌ [ الحشر/ 14] ان کا آپس میں بڑا رعب ہے ۔ عُقُوبَةُ والمعاقبة والعِقَاب والعُقُوبَةُ والمعاقبة والعِقَاب يختصّ بالعذاب، قال : فَحَقَّ عِقابِ [ ص/ 14] ، شَدِيدُ الْعِقابِ [ الحشر/ 4] ، وَإِنْ عاقَبْتُمْ فَعاقِبُوا بِمِثْلِ ما عُوقِبْتُمْ بِهِ [ النحل/ 126] ، وَمَنْ عاقَبَ بِمِثْلِ ما عُوقِبَ بِهِ [ الحج/ 60] . اور عقاب عقوبتہ اور معاقبتہ عذاب کے ساتھ مخصوص ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ فَحَقَّ عِقابِ [ ص/ 14] تو میرا عذاب ان پر واقع ہوا ۔ شَدِيدُ الْعِقابِ [ الحشر/ 4] سخت عذاب کر نیوالا ۔ وَإِنْ عاقَبْتُمْ فَعاقِبُوا بِمِثْلِ ما عُوقِبْتُمْ بِهِ [ النحل/ 126] اگر تم ان کو تکلیف دینی چاہو تو اتنی ہی دو جتنی تکلیف تم کو ان سے پہنچی ہے ۔ وَمَنْ عاقَبَ بِمِثْلِ ما عُوقِبَ بِهِ [ الحج/ 60] جو شخص کسی کو اتنی ہی سزا کہ اس کو دی گئی ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

8 "Would have chastised them in the world": world have caused them to be annihilatcd. That is, had they fought instead of surrendering to save their lives, they would have been completely wiped out. Their men would have perished in the war and their womenfolk and children would have been taken prisoners and there would be no one to have them ransomed.

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(59:4) ذلک : یعنی وہ عذاب جو ان پر نازل ہوا یا نازل ہوگا۔ بانھم : ب سببیہ ہے یہ بہ سبب اس امر کے کہ انہوں نے۔ شاقوا اللہ ورسولہ۔ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کی۔ شاقوا ماضی جمع مذکر غائب۔ شقاق و مشاقۃ (مفاعلۃ) مصدر بمعنی مخالفت ، ضد، مقابلہ۔ اپنے دوست کی شق کو چھوڑ کر دوسری شق میں ہونا۔ شق بمعنی طرف۔ من۔ شرطیہ ہے۔ جو۔ یشاق۔ مضارع مجزوم (بوجہ جواب شرط) واحد مذکر غائب۔ شقاق (مفاعلۃ) مصدر۔ اصل میں یشاق تھا۔ ق کو ق میں ادغام کیا گیا (اور جو) مخالفت کرتا ہے (اللہ کی) من یشاق اللہ جملہ شرط ہے۔ فان اللہ شدید العقاب : ف جواب شرط کے لئے ہے اللہ منصوب بوجہ عمل اسم ان ہے۔ شدید العقاب مضاف مضاف الیہ مل کر خبر ان۔ ترجمہ :۔ تو اللہ تعالیٰ سخت عذاب دینے والا ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ آگے یہود کے ایک طعن کا جواب ہے جو ان کے درختوں کا کاٹنے اور جلانے کے باب میں کیا تھا کہ یہ فساد ہے اور فساد مذموم ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : بنو نضیر دنیا میں ذلیل ہوئے اور آخرت میں انہیں شدید عذاب دیا جائے گا کیونکہ یہ اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرنے والی تھے، جو بھی اللہ اور اس کے رسول کے خلاف چلے گا وہ آخرت میں سزا پائے گا۔ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے کہ صرف یہودی نہیں بلکہ جو بھی اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرے گا اللہ تعالیٰ اسے شدید عذاب میں مبتلا کرے گا۔ آیت کے پہلے حصے میں یہ ارشاد ہے کہ یہودیوں کو دنیا میں اس لیے عذاب دیا گیا کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرتے ہیں لیکن آیت کے آخری حصہ میں اللہ تعالیٰ نے صرف اپنا نام لیا گیا ہے۔ اکیلا اپنا نام اس لیے لیا ہے کیونکہ رسول کی مخالفت آپ کی ذات کی وجہ سے نہیں بلکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت کی وجہ سے تھی۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سیرت پر غور فرمائیں تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آئے گی کہ دعوت پیش کرنے سے پہلے اہل مکہ آپ کو صادق اور امین کے معزز لقب سے یاد کیا کرتے تھے لیکن جونہی آپ نے توحید کی دعوت دی تو انہوں نے آپ کے برے نام رکھے اور آپ کو مختلف قسم کی اذّیتیں دیں اور آپ کی ذات کے دشمن ہوئے۔ یہی رویہ یہود و نصاریٰ کا تھا اور ہے اس لیے ارشاد ہوا کہ جو بھی اللہ کی مخالفت کرے گا ” اللہ “ اسے شدید عذاب میں مبتلا کرے گا۔ اللہ تعالیٰ کی مخالفت کی مختلف صورتیں۔ ١۔ ” اللہ “ کی ذات اور صفات میں کسی اور کو شریک کیا جائے۔ ٢۔ جو شخص ” اللہ “ کی عبادت نہیں کرتا یا اس کی عبادت میں دوسرے کو شریک کرتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کے فرمان کی مخالفت کرتا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خاتم المرسلین بنایا ہے جو شخص آپ کو خاتم المرسلین رسول نہیں مانتا اور آپ کی اطاعت نہیں کرتا وہ اللہ تعالیٰ کی مخالفت کرتا ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی اور اپنے رسول کی اطاعت کا حکم دیا ہے جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت نہیں کرتا وہ عملاً اللہ تعالیٰ کی مخالفت کرتا ہے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ نے قیامت پر ایمان لانے کا حکم دیا ہے جو شخص قیامت کا انکار کرتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی مخالفت کرتا ہے اور جو ” اللہ “ کی مخالفت کرتا ہے۔ ” اللہ تعالیٰ “ اسے شدید عذاب میں مبتلا کرے گا۔ (مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاع اللّٰہَ وَمَنْ تَوَلّٰی فَمَآ اَرْسَلْنٰکَ عَلَیْہِمْ حَفِیْظًا) (النساء : ٨٠) ” جس نے رسول کی اطاعت کرے اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جو منہ پھیر لے ہم نے تمہیں ان پر نگہبان بنا کر نہیں بھیجا۔ “ (وَعَنْ اَبِیْ ہُرَےْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کُلُّ اُمَّتِیْ ےَدْخُلُوْنَ الْجَنَّۃَ اِلَّا مَنْ اَبٰی قِےْلَ وَمَنْ اَبٰی قَالَ مَنْ اَطَاعَنِیْ دَخَلَ الْجَنَّۃَ وَمَنْ عَصَانِیْ فَقَد اَبٰی) (رواہ البخاری : باب الاِقْتِدَاءِ بِسُنَنِ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میری پوری امت جنت میں داخل ہوگی سوائے اس کے جس نے جنت میں جانے سے انکار کیا۔ صحابہ (رض) نے پوچھا جنت میں جانے سے کون انکار کرتا ہے ؟ فرمایا جس نے میری اطاعت کی وہ جنت میں داخل ہوگا جس نے میری نافرمانی کی اس نے جنت میں جانے سے انکار کیا۔ “ مسائل ١۔ مسلمان کو ہر حال میں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرنی چاہیے۔ ٢۔ انسان کو ہر حال میں اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت سے بچنا چاہیے۔ ٣۔ جو شخص اللہ کے رسول کی مخالفت کرتا ہے وہ درحقیقت اللہ تعالیٰ کی مخالفت کرتا ہے۔ ٤۔ جو شخص اللہ تعالیٰ کی مخالفت کرے گا اللہ تعالیٰ اسے شدید ترین عذاب میں مبتلا کرے گا۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ نافرمانوں کو سخت عذاب دے گا : ١۔ اچھی طرح ذہن نشین کرلو کہ اللہ کی پکڑ بڑی سخت ہے۔ (المائدۃ : ٩٨) ٢۔ ” اللہ “ کفر کرنے والوں کو سخت ترین عذاب سے دو چار کرے گا۔ (آل عمران : ٥٦) ٣۔ اللہ کی آیات کے ساتھ کفر کرنے والوں کے لیے سخت ترین عذاب ہے۔ (آل عمران : ٤) ٤۔ اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرنے والوں کے لیے شدید عذاب ہوگا۔ (الانفال : ١٣) ٥۔ اللہ کی گرفت بہت سخت ہوا کرتی ہے۔ (البروج : ١٢)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ذلک ................ العقاب (٩٥ : ٤) ” یہ سب کچھ اس لئے ہوا کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کا مقابلہ کیا ، اور جو بھی اللہ کا مقابلہ کرے اللہ اس کی سزا دینے میں بہت سخت ہے “۔ المشاقہ کے معنی یہ ہیں کہ وہ اللہ کی طرف اور اس کی سائیڈ لینے کی بجائے جانب مخالف میں چلے گئے ہیں۔ اللہ کی جانب یہ تھی کہ وہ رسول اللہ کی طرف ہوجاتے۔ کیونکہ یہی اللہ کی طرف تھی۔ آیت کے آخر میں یہ کہا کہ جو اللہ کے مقابلہ کرتا ہے تو اس میں ضمنار سول کا مقابلہ بھی آجاتا ہے۔ یہ عجیب اور مضحکہ خیز منظر ہے کہ کمزور بندے رب ذوالجلال کے مقابلے پر اتر آئیں اور اللہ کے مقابلے میں قلعہ بند ہوں۔ یہ نہایت ہی خوفناک منظر ہے جس کی طرف اس آیت میں اشارہ کیا گیا ہے کہ انسانوں میں کمزور مخلوق اللہ کے غضب کو دعوت دے۔ اللہ تو شدید غضب والا ہے۔ یہاں ایک اہم بات ہے بنی نضیر کے بارے میں۔ الذین ................ الکتب (٩٥ : ٢) ” وہ لوگ جو اہل کتاب میں سے کافرہوتے ہیں “۔ اور اس سورت میں اس بار بار تکرار آئی ہے۔ اس لئے کہ انہوں نے اللہ کے دین کا انکار کردیا ہے جو اللہ نے حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل کیا تھا۔ یہودی حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آنے کا انتظار کیا کرتے تھے۔ یہاں ان کے لئے کفر کی صفت کا ذکر اس لئے ضروری تھا کہ یہی کفر ان کی اس سزا کا سبب تھا اور یہ بھی بتانا مقصود تھا کہ مسلمان ان کے خلاف جو ایکشن لے رہے ہیں اس کا اخلاقی جواز موجود ہے کہ یہ بھی دوسرے کافروں کی طرح کافر ہیں۔ اور اس وجہ سے ان پر عذاب آیا۔ لہٰذا۔ الذین .................... الکتب (٩٥ : ٢) کا فقرہ بہت ہی بامقصد ہے۔ اس کے بعد اہل ایمان کو بعض واقعات پر مطمئن کیا جاتا ہے ، کہ ایک تو یہ کفر کرنے والے تھے ، دوسرے یہ رسول اور اللہ سے دشمنی کرنے والے تھے ، اس لئے جنگی ایکشن کے دوران ان کے جو باغات کاٹے گئے یا جلائے گئے یا چھوڑے گئے ، تو اس کے بارے میں اللہ کا فیصلہ یہ ہے کہ یہ اللہ کے حکم سے ایسا ہوا۔ اور یہودی اس سلسلے میں جو پروپیگنڈہ کرتے ہیں مومنین کو اس سے متاثر نہیں ہونا چاہئے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

پھر فرمایا ﴿ ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ شَآقُّوا اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ ١ۚ﴾ (الایۃ) یعنی یہ سزا ان کو اس لیے دی گئی ہے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کی اور جو شخص اللہ کی مخالفت کرے گا سو اللہ سخت عذاب دینے والا ہے، بنی قینقاع کو پہلے جلا وطن کردیا گیا تھا اور بنی نضیر اپنے اس معاہدہ شکنی پر جلا وطن کیے گئے کہ انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو شہید کرنے کا باہمی مشورہ کر کے خفیہ پروگرام بنایا تھا۔ بنی قریظہ کا حال سورة احزاب کے تیسرے رکوع کی تفسیر میں بیان کیا جا چکا ہے ان لوگوں نے غزوہ احزاب کے موقع پر قریش مکہ اور ان کے ساتھ آنے والی جماعتوں کی مدد کی تھی۔ ان تینوں قبیلوں کے علاوہ یہود کے چھوٹے بڑے اور بھی چند قبیلے مدینہ منورہ میں آبا تھا۔ ان کے نام ابن ہشام نے اپنی کتاب سیرۃ النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں لکھے ہیں۔ سارے یہودیوں کو مدینہ منورہ سے نکال دیا گیا تھا ان میں قبیلہ بنی قینقاع اور قبیلہ بنو حارثہ بھی تھا۔ حضرت عبداللہ بن سلام (رض) بنی قینقاع سے تھے۔ (صحیح بخاری ص ٥٧٤ ج ٢ صفحہ مسلم ص ١٤ ج ٢)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(4) یہ سزائی دینا اور آخرت کی اس بنا پر ہیں کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی اور اس کے رسول کی مخالفت کی اور اللہ اور اس کے رسول کے مخالف بنے اور جو شخص اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی مار سخت ہے اور اللہ تعالیٰ سخت سزا دینے والا ہے۔