Surat ul Anaam

Surah: 6

Verse: 104

سورة الأنعام

قَدۡ جَآءَکُمۡ بَصَآئِرُ مِنۡ رَّبِّکُمۡ ۚ فَمَنۡ اَبۡصَرَ فَلِنَفۡسِہٖ ۚ وَ مَنۡ عَمِیَ فَعَلَیۡہَا ؕ وَ مَاۤ اَنَا عَلَیۡکُمۡ بِحَفِیۡظٍ ﴿۱۰۴﴾

There has come to you enlightenment from your Lord. So whoever will see does so for [the benefit of] his soul, and whoever is blind [does harm] against it. And [say], "I am not a guardian over you."

اب بلاشبہ تمہارے پاس تمہارے رب کی جانب سے حق بینی کے ذرائع پہنچ چکے ہیں سو جو شخص دیکھ لے گا وہ اپنا فائدہ کرے گا اور جو شخص اندھا رہے گا وہ اپنا نقصان کرے گا اور میں تمہارا نگران نہیں ہوں

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Meaning of Basa'ir Allah says; قَدْ جَاءكُم بَصَأيِرُ مِن رَّبِّكُمْ فَمَنْ أَبْصَرَ فَلِنَفْسِهِ وَمَنْ عَمِيَ فَعَلَيْهَا ... Verily, Basa'ir (proofs) have come to you from your Lord, so whosoever sees, will do so for (the good of) himself, and whosoever blinds himself, will do so against himself, Basa'ir are the proofs and evidences in the Qur'an and the Message of Allah's Messenger. The Ayah, فَمَنْ أَبْصَرَ فَلِنَفْسِهِ (so whosoever sees, will do so for (the good of) himself) is similar to, فَمَنُ اهْتَدَى فَإِنَّمَا يَهْتَدِى لِنَفْسِهِ وَمَن ضَلَّ فَإِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْهَا So whosoever receives guidance, he does so for the good of himself, and whosoever goes astray, he does so at his own loss. (10:108) After Allah mentioned the Basa'ir, He said, وَمَنْ عَمِيَ فَعَلَيْهَا (And whosoever blinds himself, will do so against himself), meaning, he will only harm himself. Allah said, فَإِنَّهَا لاَ تَعْمَى الاٌّبْصَـرُ وَلَـكِن تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِى فِى الصُّدُورِ Verily, it is not the eyes that grow blind, but it is the hearts which are in the breasts that grow blind. (22:46) ... وَمَا أَنَاْ عَلَيْكُم بِحَفِيظٍ And I (Muhammad) am not a Hafiz over you. neither responsible, nor a watcher over you. Rather, I only convey, Allah guides whom He wills and misguides whom He wills. Allah said,

ہدایت و شفا قرآن و حدیث میں ہے بصائر سے مراد دلیلیں اور حجتیں ہیں جو قرآن و حدیث میں موجود ہیں جو انہیں دیکھے اور ان سے نفع حاصل کرے وہ اپنا ہی بھلا کرتا ہے جیسے فرمان ہے کہ راہ پانے والا اپنے لئے راہ پاتا ہے اور گمراہ ہونے والا اپنا ہی بگاڑتا ہے ۔ یہاں بھی فرمایا اندھا اپنا ہی نقصان کرتا ہے کیونکہ آخر گمراہی کا اسی پر اثر پڑتا ہے جیسے ارشاد ہے آنکھیں اندھی نہیں ہوتی بلکہ سینوں کے اندر دل اندھے ہو جاتے ہیں ، میں تم پر نگہبان حافظ چوکیدار نہیں بلکہ میں تو صرف مبلغ ہوں ہدایت اللہ کے ہاتھ ہے ، جس طرح توحید کے دلائل واضح فرمائے اسی طرح اپنی آیتوں کو کھول کھول کر تفسیر اور وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا تاکہ کوئی جاہل نہ رہ جائے اور مشرکین مکذبین اور کافرین یہ نہ کہدیں کہ تو نے اے نبی اہل کتاب سے یہ درس لیا ہے ان سے پڑھا ہے انہی نے تجھے سکھایا ہے ۔ ابن عباس سے یہ معنی بھی مروی ہیں کہ تو نے پڑھ سنایا تو نے جھگڑا کیا تو یہ اسی آیت کی طرح آیت ہو گی جہاں بیان ہے آیت ( وَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اِنْ ھٰذَآ اِلَّآ اِفْكُۨ افْتَرٰىهُ وَاَعَانَهٗ عَلَيْهِ قَوْمٌ اٰخَرُوْنَ ڔ فَقَدْ جَاۗءُوْ ظُلْمًا وَّزُوْرًا ) 25 ۔ الفرقان:4 ) کافروں نے کہا کہ یہ تو صرف بہتان ہے جسے اس نے گھڑ لیا ہے اور دوسروں نے اس کی تائید کی ہے اور آیتوں میں ان کے بڑے کا قول ہے کہ اس نے بہت کچھ غور وخوض کے بعد فیصلہ کیا کہ یہ تو چلتا ہوا جادو ہے ، یقینا یہ انسانی قول ہے اور اس لئے کہ ہم علماء کے سامنے وضاحت کر دیں تاکہ وہ حق کے قائل اور باطل کے دشمن بن جائیں ۔ رب کی مصلحت وہی جانتا ہے کہ جو ایک گروہ کو ہدایت اور دوسرے کو ضلالت عطا کرتا ہے ، جیسے فرمایا اس کے ساتھ بہت کو ہدایت کرتا ہے اور بہت کو گمراہ کرتا ہے اور آیت میں ہے تاکہ وہ شیطان کے القا کو بیمار دلوں کیلئے سبب فتنہ کر دے اور فرمایا آیت ( وَمَا جَعَلْنَآ اَصْحٰبَ النَّارِ اِلَّا مَلٰۗىِٕكَةً ۠ وَّمَا جَعَلْنَا عِدَّتَهُمْ اِلَّا فِتْنَةً لِّلَّذِيْنَ كَفَرُوْا ) 74 ۔ المدثر:31 ) یعنی ہم نے دوزخ کے پاسبان فرشتے مقرر کئے ہیں ان کی مقررہ تعداد بھی کافروں کے لئے فتنہ ہے تاکہ اہل کتاب کامل یقین کرلیں ایماندار ایمان میں بڑھ جائیں اہل کتاب اور مومن شک شبہ سے الگ ہو جائیں اور بیمار دل کفر والے کہتے ہیں کہ اس مثال سے اللہ کی کیا مراد ہے اسی طرح جسے اللہ چاہے گمراہ کرتا ہے اور جسے چاہے راہ راست دکھاتا ہے ، تیرے رب کے لشکروں کو بجز اس کے کوئی نہیں جانتا اور آیت میں ہے آیت ( وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَا هُوَ شِفَاۗءٌ وَّرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ ۙ وَلَا يَزِيْدُ الظّٰلِمِيْنَ اِلَّا خَسَارًا ) 17 ۔ الاسراء:82 ) یعنی ہم نے قرآن اتارا ہے جو مومنوں کے لئے شفا اور رحمت ہے البتہ ظالموں کو تو نقصان ہی ملتا ہے اور آیت میں ہے کہ یہ ایمان والوں کے لئے ہدایت و شفا ہے اور بے ایمانوں کے کانوں میں بوجھ ہے اور ان پر اندھا پن غالب ہے یہ دور کی جگہ سے پکارے جا رہے ہیں اور بھی اس مضمون کی بہت سی آیتیں ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ قرآن سے لوگ نصیحت حاصل کرتے ہیں اور گمراہ بھی ہوتے ہیں ۔ دارست کی دوسری قرأت درست بھی ہے یعنی پڑھا اور سیکھا اور یہ معنی ہیں کہ اسے تو مدت گزر چکی یہ تو تو پہلے سے لایا ہوا ہے ، یہ تو تو پڑھایا گیا ہے اور سکھایا گیا ہے ۔ ایک قرأت میں درس بھی ہے لیکن یہ غریب ہے ابی بن کعب فرماتے ہیں رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے درست پڑھایا ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

104۔ 1 بصائر بصیرۃ کی جمع ہے جو اصل میں دل کی روشنی کا نام ہے یہاں مراد وہ دلائل ہیں، جو قرآن نے جگہ جگہ اور بار بار بیان کئے ہیں اور جنہیں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی احادیث میں بیان فرمایا ہے جو ان دلائل کو دیکھ کر ہدایت کا راستہ اپنا لے گا اس میں اسی کا فائدہ ہے، نہیں اپنائے گا تو اسی کا نقصان ہے۔ جیسے فرمایا من اھتدی فانما یھتدی لنفسہ ومن ضل فانما یضل علیھا بنی اسرائیل اس کا مطلب بھی وہی ہے جو زیر وضاحت آیت کا ہے 104۔ 2 بلکہ صرف مبلغ داعی اور بشیر و نذیر ہوں راہ دکھلانا میرا کام ہے راہ پر چلا دینا یہ اللہ کے اختیار میں ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٠٦] قرآن آپ نے کس سے سیکھا ہے ؟ یعنی اللہ تعالیٰ کے وجود اور اس کی معرفت کے لیے بہت سے ایسے دلائل ذکر کردیئے گئے ہیں کہ اگر کوئی شخص ان میں غور و فکر کرے گا تو یقینا حقیقت کو پالے گا اور اس میں اسی کا بھلا ہے۔ اور جو خود ہی کچھ نہیں سمجھنا چاہتا تو وہ خود ہی اس کا نقصان برداشت کرے گا۔ اس سے آگے یک لخت متکلم بدل گیا ہے پہلے سلسلہ کلام اللہ تعالیٰ کی طرف سے تھا اور && میں تم پر محافظ نہیں && یہ جملہ رسول اللہ کی زبان سے ہے۔ اس طرح کی ضمائر کی تبدیلی کلام عرب میں بکثرت پائی جاتی ہے اور ایسے کلام کو اتنا ہی زیادہ فصیح شمار کیا جاتا ہے۔ یعنی رسول اللہ یہ فرما رہے ہیں کہ جو لوگ ان بصیرت افروز دلائل میں غور و فکر کی زحمت ہی گوارا نہیں کرتے تو میرے ذمہ یہ ڈیوٹی نہیں کہ میں وہ دلائل ایسے لوگوں کو دکھا کے یہ سمجھا کے چھوڑوں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قَدْ جَاۗءَكُمْ بَصَاۗىِٕرُ مِنْ رَّبِّكُمْ ۚ۔۔ : ” بَصَاۗىِٕرُ “ یہ ” بَصِیْرَۃٌ“ کی جمع ہے، جو دل کی روشنی کا نام ہے، جیسا کہ بصارت آنکھوں سے دیکھنے کو کہتے ہیں، یعنی مالک کی طرف سے تمہارے پاس دل اور آنکھوں کو روشن کرنے والے دلائل تو پہنچ چکے، جو اوپر کی آیات میں مذکور ہیں، اب ان پر غور و فکر کر کے جو ایمان لے آئے تو اس کا اپنا ہی فائدہ ہے اور جو ان پر غور نہ کرے اور ایمان نہ لائے تو اپنا ہی برا کرے گا۔ میں تم پر کوئی محافظ نہیں کہ تمہارے چاہنے یا نہ چاہنے کے باوجود تمہیں سیدھی راہ پر ڈال سکوں، ہدایت دینا یا نہ دینا تو اللہ ہی کا کام ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary Out of these five verses of Surah Al-An&am, the word: أَبْصَارُ‌` al absar& appearing in the first verse (103), is the plural of بَصَر‌ (basar) which means vision, sight or ability to see, while the word: اِدرَک (idrak) means to reach, grasp, perceive, comprehend or encompass. Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) has explained the meaning of ` idrak& at this place as to comprehend or encompass. (Al-Bahr Al-Muhit) Thus, the sense of the verse comes to be that even the combined ability of seeing given to the entire creation, to Jinns and humans and angels, and to the rest of the life forms, can never see Allah Jalla Sha&nuhu in a way that their vision would encompass His Being. But, as for Him, He watches the vision of His entire creation fully, and His ` seeing& encompasses all of them. Mentioned in this brief verse are two particular attributes of Allah Ta` ala. 1. Allah is Imperceivable: No eye in the whole universe, not even the combined eyesights of everyone, can encompass His Being. Sayyidna Abu Said al-Khudri رضی اللہ تعالیٰ عنہ reports that the Holy Prophet صلی اللہ علیہ وسلم said: If all human beings, Jinn, angels and Shaytan, from the first to the last, were to stand in a row, even their com¬bined sights cannot comprehend His Being. (Mazhari with reference to Ibn Abi Hatim) Thus, so unique an attribute can belong to none but to the most-exalted Being of Allah. Otherwise, the sight bestowed by Allah on even the most insignificant life form of His creation can see with its mini-eyes much larger bodies and comprehend what they are. The sun and the moon are spheres of great magnitude, our earth being no match to them, yet the human eye, even the eyes of the smallest of animals, would see them in a way that would encompass their presence. The truth of the matter is that the human eye is one sense organ out of the many given to human beings which enable them to see and react to what is perceptible. But, the Sacred Being of Allah Ta` ala is beyond the all-surrounding, all-comprehending overview of even rea¬son and conjecture. There is no way this knowledge could be acquired by one single sense of sight. The Being and the Attributes of Allah Ta` ala are limitless while human senses, reason and imagination are all limited. It is obvious that the limitless cannot fit into the limited. This is why the philosophers and metaphysicians of the world who spent their lives in intellectual research and the respected Sufis who traversed through this difficult spiritual field through the medium of Illumination (Kashf) and Experiencing of the Presence (Shuhud) all agree upon the proposition that neither has anyone arrived at the total comprehension of the reality of His Being and Attributes, nor is that possible. The Possibility of Seeing the Creator The question is: Is it possible for human beings to see Allah Ta` ala, or is it not? On this religious question or مَسٔلَہ mas&alah, the belief of all ` Ulama of Ahl al-Sunnah wa al-Jama` ah (the majority of Muslims who adhere to the Sunnah of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and his Saha¬bah (رض) is that it is not possible to see the Being of Allah Ta` ala in the state of life we have in this mortal world. This is the reason why, when Sayyidna Musa (علیہ السلام) prayed: رَبِّ اَرِنِی (My Lord, show (Yourself) to me - 7:143), the answer given was: لَن ترَانِی ( ‘lan tarani|" : ` you shall never see Me& - 7:143). It is obvious when this is the answer given to a prophet no less than Sayyidna Musa the Kalimullah (علیہ السلام) ، no Jinn or human be¬ing can even dare think about it. However, that believing Muslims will have the honour of seeing Allah Ta` ala in the &Akhirah stands proved on the authority of sound (Sahib) and strong &Al.hadith which have been reported in uninterrupted succession (mutawatir). And this is what appears in the Qur&an itself: وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَّاضِرَ‌ةٌ ﴿٢٢﴾ إِلَىٰ رَ‌بِّهَا نَاظِرَ‌ةٌ ﴿٢٣﴾ Faces on that Day shall be glowing, towards their Lord gaz¬ing! - 75:22-23 However, the disbelievers and the deniers will not have the honour of seeing Allah Ta` ala even on that Day, as punishment, as in a verse of the Qur&an: كَلَّا إِنَّهُمْ عَن رَّ‌بِّهِمْ يَوْمَئِذٍ لَّمَحْجُوبُونَ ﴿١٥﴾ No indeed; surely from (the sighting of) their Lord on that Day, they shall be deprived - 83:15. The Ziarah (the honour of seeing or visiting) of Allah Ta` ala shall take place in &Akhirah at several places - and on the Day of Resurrec¬tion (Al-Mahshar) as well as after reaching Jannah (Paradise). For the people of Jannah, the Ziarah of Allah Ta` ala shall be the greatest of all blessings. The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said: When the people of Jannah have entered Jannah, Allah Ta` ala will ask them if they need any more blessings besides what they have already received in Jannah; if so, let them ask and they shall be granted those too. They will say: 0 Allah, You granted us deliverance from Jahannam (Hell), and admitted us into the Jannah (Paradise). What else could we ask for? That would be the time when the Veil shall stand removed, everyone shall have the honour to see Allah Ta` ala, and of all the blessings of Jannah, this will be the greatest. This Hadith appears in the Sahih of Muslim as reported by Sayyidna Suhayb (رض) . As reported in a Hadith from the Sahih of al-Bukhari, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) was sitting under moonlight. His noble Sahabah were with him. He looked at the moon, then said: You shall see your Rabb with your own eyes (in the &Akhirah) in a way you are seeing this moon. In a Hadith of Tirmidhi and the Musnad of Ahmad, it has been reported from Sayyidna Ibn ` Umar (رض) that people blessed with spe¬cial ranks of Jannah by Allah Ta` ala will have the good fortune of see¬ing Him every morning and evening. In short, no one can see Allah Ta` ala in the mortal world while, in the &Akhirah, all those in Jannah will see Him. As for the Ziyarah made by the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) on the night of Mi&raj (the Ascent to the Heavens), that too was, in reality, the Ziarah of Allah Ta` ala as it would be in the Akhirah. According to Shaykh Muhiyuddin ibn al-` Arabi, the world is what lies circumscribed by the skies. Be¬yond that is the domain of &Akhirah. A Ziyarah there cannot be called a Ziyarah here in the world. Now, still unanswered remains the question: When we know from the verse of the Qur&an: لَّا تُدْرِ‌كُهُ الْأَبْصَارُ‌ (no vision can comprehend Him), that is, human beings just cannot see Allah Ta` ala, how would that become possible in the &Akhirah? The obvious answer is that the verse of the Qur&an does not mean that the Ru&yah, Ziyarah or Seeing of Allah Ta` ala is impossible for human beings. Instead of that, the meaning of the verse is that human vision cannot comprehend or encompass His Being because His Being is unlimited while human vision is limited. Even the Ziyarah made in the &Akhirah will be in a manner that vi¬sion would still fail to comprehend Him fully; while in the mortal world, human beings and their vision do not have the strength and ca¬pacity to bear by ` seeing& even in this manner. Therefore, this ru&yah or seeing is absolutely impossible in the mortal world. But, in the &Akhirah, given the strength and capability, this ru&yah, ziyarah, or seeing would become possible - but, a full, all-encompassing compre¬hending of the Most-True Being of Allah Subhanuhu wa Ta` ala would still remain impossible even then. 2. Allah is All-Perceiving: The second attribute of Allah Ta` ala mentioned in this verse is that His vision encompasses the whole uni¬verse. Nothing, anywhere, not even the minutest particle, is hidden from Him. This Absolute Knowledge with all-pervading, all-comprehending reach, is also a unique attribute of Allah Ta` ala. Other than Him, no created being has ever achieved such all-inclusive knowledge of everything, nor shall it ever be possible - because this is the domain of Allah, the most-exalted in His majesty. After that it was said: (and He is All-Fine, All-Aware). Lexically, the word: اللَّطِيفُ (al-Latif) has two meanings: (a) kind, (b) fine or subtle in contrast with thick or course, that is, what cannot be perceived through the senses. As for the word: الْخَبِيرُ‌ (al-Khabir), it means All-Aware. Thus, the sentence comes to mean that Allah Ta` ala is All-Fine (Al-Latif), there-fore, He cannot be comprehended through the senses - and He is All-Aware (Al-Khabir), therefore, nothing in the entire universe is beyond His knowledge and awareness. If Al-Latif is taken to mean kind at this place, it will be suggesting that though Allah Ta` ala is All-Aware of everything we say or do, even what we intend, think or feel - which would have required that we should have been caught for every sin - but, He is kind and gracious too, therefore, He does not call us to account for every sin. The word: بَصَائِرُ‌ (basa&ir (appearing in the second verse (104) is the plural of بَصیرہ basirah which means reason, intelligence or insight, that is, the power through which one can acquire the knowledge of things which do not fall within the range of perception through the senses. ` Basa&ir&, in this verse, means the evidences and sources through which one can get to know truth and reality. The meaning of the verse is: The sources and means of seeing the truth have reached you from Al¬lah, that is, the Qur&an has come, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has come, mani¬fest have been his miracles, and observed openly were his morals and dealings and teachings. All these are means of seeing the truth. So, whoever has used these means has become the one blessed with true insight with his benefits secured, while the one who elected to remain blind to the truth by ignoring these means ends up losing what was good. Towards the end of the verse, it was said: ` I do not stand guard over you.& It means that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has not been given the responsibility of forcing people to stop doing what was improper, as usually done by one appointed to oversee and guard (or self-appointed as vigilantes in our day). Instead, the functional responsibility of a messenger of Allah is only to convey commands, and explain. After that, following or not following the message conveyed becomes a matter of personal discretion and responsibility of the addressees.

دوسری آیت میں لفظ بصائر، بصیرت کی جمع ہے، جس کے معنی ہیں عقل و دانش یعنی وہ قوت جس کے ذریعہ انسان غیر محسوس چیزوں کا علم حاصل کرسکتا ہے، بصائر سے مراد آیت میں وہ دلائل اور ذرائع ہیں جن سے انسان حق اور حقیقت کو معلوم کرسکے، معنی آیت کے یہ ہیں کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آئے، آپ کے معجزات آئے، آپ کے اخلاق و معاملات وتعلیمات مشاہدہ میں آئیں یہ سب حق بینی کے ذرائع ہیں۔ تو جو شخص ان ذرائع سے کام لے کر صاحب بصیرت بن گیا، اس نے اپنا نفع حاصل کرلیا اور جو ان ذرائع کو چھوڑ کر حق سے اندھا رہا تو اپنا ہی نقصان کیا۔ آخر آیت میں فرمایا کہ ” میں تمہارا نگراں نہیں “۔ یعنی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے ذمہ دار نہیں کہ لوگوں کو زبردستی کر کے ناشائستہ کاموں سے روک ہی دیں، جیسے نگران اور محافظ کا کام ہوتا ہے، بلکہ رسول کا منصبی فریضہ صرف احکام کا پہنچا دینا اور سمجھا دینا ہے، پھر کوئی اپنے اختیار سے ان کا اتباع کرے یا نہ کرے، یہ اس کی ذمہ داری ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَدْ جَاۗءَكُمْ بَصَاۗىِٕرُ مِنْ رَّبِّكُمْ۝ ٠ۚ فَمَنْ اَبْصَرَ فَلِنَفْسِہٖ۝ ٠ۚ وَمَنْ عَمِيَ فَعَلَيْہَا۝ ٠ۭ وَمَآ اَنَا عَلَيْكُمْ بِحَفِيْظٍ۝ ١٠٤ ( بصائر) ، جمع بصیرة، اسم جامد يدل علی العقل والفطنة والحجة، وقد يستعمل في موضع الصفة مثل جو ارحه بصیرة عليه أي شاهدة، وزنه فعیلة، وبصائر فيه قلب الیاء همزة لمجيئها زائدة بعد ألف ساکنة، وزنه فعائل . ( بصر) مبصرۃ بَاصِرَة عبارة عن الجارحة الناظرة، يقال : رأيته لمحا باصرا، أي : نظرا بتحدیق، قال عزّ وجل : فَلَمَّا جاءَتْهُمْ آياتُنا مُبْصِرَةً [ النمل/ 13] ، وَجَعَلْنا آيَةَ النَّهارِ مُبْصِرَةً [ الإسراء/ 12] أي : مضيئة للأبصار وکذلک قوله عزّ وجلّ : وَآتَيْنا ثَمُودَ النَّاقَةَ مُبْصِرَةً [ الإسراء/ 59] ، وقیل : معناه صار أهله بصراء نحو قولهم : رجل مخبث ومضعف، أي : أهله خبثاء وضعفاء، وَلَقَدْ آتَيْنا مُوسَى الْكِتابَ مِنْ بَعْدِ ما أَهْلَكْنَا الْقُرُونَ الْأُولی بَصائِرَ لِلنَّاسِ [ القصص/ 43] أي : جعلناها عبرة لهم، وقوله عزّ وجل : وَكانُوا مُسْتَبْصِرِينَ [ العنکبوت/ 38] أي : طالبین للبصیرة . ويصحّ أن يستعار الاسْتِبْصَار للإِبْصَار، نحو استعارة الاستجابة للإجابة، وقوله عزّوجلّ : وَأَنْبَتْنا فِيها مِنْ كُلِّ زَوْجٍ بَهِيجٍ تَبْصِرَةً [ ق/ 7- 8] أي : تبصیرا وتبیانا . الباصرۃ کے معنی ظاہری آنکھ کے ہیں ۔ محاورہ ہے رائتہ لمحا باصرا میں نے اسے عیال طور پر دیکھا ۔ المبصرۃ روشن اور واضح دلیل ۔ قرآن میں ہے :۔ فَلَمَّا جاءَتْهُمْ آياتُنا مُبْصِرَةً [ النمل/ 13] جن ان کے پاس ہماری روشن نشانیاں پہنچیں یعنی ہم نے دن کی نشانیاں کو قطروں کی روشنی دینے والی بنایا ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ وَآتَيْنا ثَمُودَ النَّاقَةَ مُبْصِرَةً [ الإسراء/ 59] اور ہم نے ثمود کی اونٹنی ( نبوت صالح) کی کھل نشانی دی میں مبصرۃ اسی معنی پر محمول ہے بعض نے کہا ہے کہ یہاں مبصرۃ کے معنی ہیں کہ ایسی نشانی جس سے ان کی آنکھ کھل گئی ۔ جیسا کہ رجل مخبث و مصعف اس آدمی کو کہتے ہیں جس کے اہل اور قریبی شت دار خبیث اور ضعیب ہوں اور آیت کریمہ ؛۔ وَلَقَدْ آتَيْنا مُوسَى الْكِتابَ مِنْ بَعْدِ ما أَهْلَكْنَا الْقُرُونَ الْأُولی بَصائِرَ لِلنَّاسِ [ القصص/ 43] میں بصائر بصیرۃ کی جمع ہے جس کے معنی عبرت کے ہیں یعنی ہم نے پہلی قوموں کی ہلاکت کو ان کے لئے تازہ یا عبرت بنادیا آیت کریمہ ؛۔ وَأَبْصِرْ فَسَوْفَ يُبْصِرُونَ [ الصافات/ 179] حالانکہ وہ دیکھنے والے تھے میں مستبصرین کے معنی طالب بصیرت کے ہیں ۔ اور یہ بھی ہوسکتہ ہے کہ بطور استعارہ استبصار ( استفعال ) بمعنی ابصار ( افعال ) ہو جیسا کہ استجابہ بمعنی اجابۃ کے آجاتا ہے اور آیت کریمہ ؛ وَكانُوا مُسْتَبْصِرِينَ [ العنکبوت/ 38] نفس الَّنْفُس : ذاته وقوله : وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 30] فَنَفْسُهُ : ذَاتُهُ ، ( ن ف س ) النفس کے معنی ذات ، وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 30] اور خدا تم کو اپنے ( غضب سے ڈراتا ہے ۔ میں نفس بمعنی ذات ہے عمی العَمَى يقال في افتقاد البصر والبصیرة، ويقال في الأوّل : أَعْمَى، وفي الثاني : أَعْمَى وعَمٍ ، وعلی الأوّل قوله : أَنْ جاءَهُ الْأَعْمى[ عبس/ 2] ، وعلی الثاني ما ورد من ذمّ العَمَى في القرآن نحو قوله : صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ [ البقرة/ 18] ( ع م ی ) العمی ٰ یہ بصارت اور بصیرت دونوں قسم اندھے پن کے لئے بولا جاتا ہے لیکن جو شخص بصارت کا اندھا ہو اس کے لئے صرف اعمیٰ اور جو بصیرت کا اندھا ہو اس کے لئے اعمیٰ وعم دونوں کا استعمال ہوتا ہے اور آیت کریمہ : أَنْ جاءَهُ الْأَعْمى[ عبس/ 2] کہ ان کے پاس ایک نا بینا آیا ۔ میں الاعمیٰ سے مراد بصارت کا اندھا ہے مگر جہاں کہیں قرآن نے العمیٰ کی مذمت کی ہے وہاں دوسرے معنی یعنی بصیرت کا اندھا پن مراد لیا ہے جیسے فرمایا : صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ [ البقرة/ 18] یہ بہرے گونگے ہیں اندھے ہیں ۔ فَعَمُوا وَصَمُّوا[ المائدة/ 71] تو وہ اندھے اور بہرے ہوگئے ۔ بلکہ بصٰیرت کے اندھا پن کے مقابلہ میں بصارت کا اندھا پن ۔ قرآن کی نظر میں اندھا پن ہی نہیں ہے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٠٤) قرآن حکیم اور اس کا بیان تمہارے پاس پہنچ چکا ہے، اب جو اس کا اقرار کرے گا، اس کا ثواب اسی کو ملے گا اور جو انکار کرے گا، اس کی سزا اسی کو ملے گی اور میں تمہارا نگران نہیں ہوں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٠٤ (قَدْ جَآءَ کُمْ بَصَآءِرُ مِنْ رَّبِّکُمْ ج (فَمَنْ اَبْصَرَ فَلِنَفْسِہٖج وَمَنْ عَمِیَ فَعَلَیْہَا ط) اب جو ان بصائر کو آنکھیں کھول کر دیکھے گا ‘ چشم بصیرت وا کرے گا ‘ حقائق کا مواجہہ کرے گا ‘ حقیقت کو تسلیم کرے گا تو وہ خود اپنا ہی بھلا کرے گا اور جو ان کی طرف سے جان بوجھ کر آنکھیں بند کرلے گا ‘ کسی تعصب ‘ ہٹ دھرمی اور ضد کی وجہ سے حقیقت کو نہیں دیکھنا چاہے گا تو اس کا سارا وبال اسی پر آئے گا ۔ (وَمَآ اَنَا عَلَیْکُمْ بِحَفِیْظٍ ) ۔ یہ بات پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے ادا ہو رہی ہے کہ ہر کوئی اپنے اچھے برے اعمال کا خود ذمہ دار ہے ‘ میری ذمہ داری تم تک اللہ کا پیغام پہنچانا ہے ‘ میں تمہاری طرف سے جوابدہ نہیں ہوں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

69. Even though this statement is from God, it is expressed through the mouth of the Prophet (peace be on him). We observe that in the Qur'an the speaker frequently changes - sometimes it is God Who is speaking, sometimes it is the angel who carries the revelation, and sometimes a group of angels; on some occasions it is the Prophet (peace be on him) who is speaking, while on others it is the men of faith. Likewise, those addressed by the Qur'an also change - sometimes it is the Prophet (peace be' on him); sometimes it is the men of faith; sometimes it is the People of the Book; sometimes it is the unbelievers and the polytheists; sometimes it is the Quraysh; sometimes it is the Arabs; and sometimes, mankind as a whole. Regardless of these changes, however, the content of the message always remains the same - it consists of God's guidance to mankind. The statement 'I am not your keeper' signifies that the task of the Prophet is confined to carrying the light of true guidance to others, it is then up to them either to use it to perceive Reality for themselves or to keep their eyes closed. The Prophet (peace he on him) is not asked to compel those who deliberately kept their eyes shut to open them, forcing them to see what they did not wish to see.

سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :69 یہ فقرہ اگرچہ اللہ ہی کا کلام ہے مگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ادا ہو رہا ہے ۔ قرآن مجید میں جس طرح مخاطب بار بار بدلتے ہیں کہ کبھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے خطاب ہوتا ہے ، کبھی اہل ایمان سے ، کبھی اہل کتاب سے ، کبھی کفار و مشرکین سے ، کبھی قریش کے لوگوں سے ، کبھی اہل عرب سے اور کبھی عام انسانوں سے ، حالانکہ اصل غرض پوری نوع انسانی کی ہدایت ہے ، اسی طرح متکلم بھی بار بار بدلتے ہیں کہ کہیں متکلم خدا ہوتا ہے ، کہیں وحی لانے والا فرشتہ ، کہیں فرشتوں کا گروہ ، کہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم ، اور کہیں اہل ایمان ، حالانکہ ان سب صورتوں میں کلام وہی ایک خدا کا کلام ہوتا ہے ۔ اور مشرکین سے ، کبھی قریش کے لوگوں سے ، کبھی اہل عرب سے اور”میں تم پر پاسبان نہیں ہوں“ یعنی میرا کام بس اتنا ہی ہے کہ اس روشنی کو تمہارے سامنے پیش کردوں ۔ اس کے بعد آنکھیں کھول کر دیکھنا یا نہ دیکھنا تمہارا اپنا کام ہے ۔ میرے سپرد یہ خدمت نہیں کی گئی ہے کہ جنھوں نے خود آنکھیں بند کر رکھی ہیں ان کی آنکھیں زبردستی کھولوں اور جو کچھ وہ نہیں دیکھتے وہ انہیں دکھا کر ہی چھوڑوں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

42: یعنی مجھ پر یہ ذمہ داری نہیں ڈالی گئی ہے کہ تم میں سے ہر شخص کو زبردستی مسلمان کرکے کفر کے نقصان سے بچاؤں، میرا کام سمجھادینا ہے ماننا نہ ماننا تمہارا کام ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(104 ۔ 107) ۔ آنکھوں میں ہر چیز کے دیکھنے کی جو قوت ہے اس کو بصارت کہتے ہیں اور دل میں ہر چیز کے سمجھنے کی جو قوت ہے اس کو بصیرت کہتے ہیں بصائر بصیرت کی جمع ہے۔ شروع سورة سے توحید الٰہی اور قدرت الٰہی کو جو آیت قرآنی گذریں ان کو بصائر فرمایا مطلب یہ ہے کہ شروع سورة سے یہاں تک جو آیتیں گذریں وہ سمجھ دار آدمی کے دل میں قدرت نے ان کو بصائر فرمایا مطلب یہ ہے کہ شروع سورة سے یہاں تک جو آیتیں گذریں وہ سمجھ دار آدمی کے دل میں قدرت الٰہی کا اثر ڈالنے کے لیے اور اس اثر سے توحید الٰہی اس کے دل میں پیدا ہوجانے کے لیے کافی ہیں اب جو کوئی ان آیتوں کو سن کر ان کی نصیحتوں کے موافق عمل کرے گا اس کے عقبی درست ہوجاوے گی اور جو کوئی ان نصیحتوں کے بعد بھی کور باطن رہے گا اس کا خمیازہ اسی کو بھگتنا پڑے گا پھر فرمایا اے رسول اللہ کے تم ان لوگوں سے کہہ دو کہ میں فقط اللہ کا حکم پہنچانے والا ہوں تمہاری بداعمالی کی گرفت میرے ہاتھ میں نہیں ہے وہ تو اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے وہ جب چاہے گا تمہاری بداعمالی کا مؤاخذہ فرمادے گا۔ سورة انفال میں آوے گا کہ مشرکین مکہ قرآن کی آیتوں کو جھٹلاتے اور یہ کہتے تھے کہ اگر یہ قرآن کلام الٰہی ہے تو اس کے جھٹلانے کے وبال میں ہم پر کوئی آسمانی عذاب کیوں نہیں آتا اس کا جواب اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی معرفت قرآن میں جگہ جگہ یہ جتلا دیا ہے کہ عذاب کا بھیجنا اللہ کے وہ جب چاہے گا تمہاری بد اعمالی کا مؤاخذہ فرمادے گا۔ سورة انفال میں آوے گا کہ مشرکین مکہ قرآن کی آیتوں کو جھٹلاتے اور یہ کہتے تھے کہ اگر یہ قرآن کلام الٰہی ہے تو اس کے جھٹلانے کے وبال میں ہم پر کوئی آسمانی عذاب کیوں نہیں آتا اس کا جواب اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو معرفت قرآن میں جگہ جگہ یہ بتلا دیا ہے کہ عذاب کا بھیجنا اللہ کے اختیار میں ہے اللہ کے رسول کے اختیار میں نہیں ہے یہ لوگ ناحق عذاب کی جلدی کرتے ہیں وقت مقررہ پر عذاب کا آجانا بھی اللہ کی قدرت سے کچھ دور نہیں ہے۔ اللہ سچا ہے اللہ کا کلام سچا ہے بدر کی لڑائی کے وقت اس وعدہ کا ظہور ہوا کہ عذاب کی جلدی کرنے والے ابوجہل وغیرہ اس لڑائی میں بےگور وکفن بڑی ذلت سے مارے گئے اب آگے فرمایا کہ قرآن کی آیتوں میں ہر طرح کی نصیحت۔ مشرکین کے ہر ایک اعتراض کا جواب۔ سچی پیشین گوئی یہ سب کچھ تفصیل سے اس لیے بیان کیا جاتا ہے کہ جو لوگ علم ازلی میں نیک قرار پا چکے ہیں وہ جان لیویں کہ یہ باتیں ان پڑھ شخص سے بغیر غیب کی مدد کے ہرگز نہیں ہوسکتیں اور جو لوگ علم الٰہی میں بدٹھہر چکے ہیں وہ قرآن کی آیتیں سن کر طرح طرح کی باتیں بناویں کبھی کہویں یہ قرآن پچھلے لوگوں کی کہانی ہے کبھی کہویں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خود تو ان پڑھ ہیں اہل کتاب سے کچھ باتیں سیکھ کر وہ ہمارے رو برو بیان کرتے ہیں اور اس کا کلام الٰہی مشہور کرتے ہیں۔ پھر فرمایا کہ اے رسول اللہ کے ان لوگوں کی بےٹھکانے باتوں کا کچھ خیال نہ کرنا چاہئے بلکہ تم کو یہی چاہئے کہ تم قرآن کی ہدایت کے موافق ان لوگوں کو توحید کے احکام سنائے جاؤ تاکہ توحید سے ان کے کان آشنار ہیں اس کے بعد علم الہی کے موافق ان میں کے جو لوگ شریک پر اڑے ہیں نہ اللہ تعالیٰ ان کو مجبور کر کے راہ راست پر لانا چاہتا ہے نہ اس نے تم کو اس بات پر مامور اور وکیل کیا ہے کہ ہر ایک مشرک کی حالت کی نگہبانی کر کے اس کو اسلام پر مجبور کیا جاوے صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ (رض) کی حدیث ایک جگہ گذر چکی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قرآن شریف ایک ایسا بڑا معجزہ مجھ کو دیا گیا ہے جس کے سبب سے قیامت کے دن سب نبیوں کی امتوں سے میری امت کی تعداد زیادہ ہوگی۔ عبداللہ بن عمر وبن العاص (رض) کی صحیح مسلم کی حدیث بھی گذر چکی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا دنیا کے پیدا کرنے سے پچاس ہزار برس پہلے جو کچھ قیامت تک ہونے والا ہے اللہ تعالیٰ نے اپنے علم ازلی کے موافق وہ سب لوح محفوظ میں لکھ لیا ہے۔ صحیح بخاری ومسلم میں عبداللہ بن مسعود (رض) کی حدیث ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ماں کے پیٹ میں جب بچہ کا پتلا بن کر تیار ہوجاتا ہے تو اس میں روح پھونکنے سے پہلے اللہ کے حکم کے موافق فرشتہ یہ لکھا لیتا ہے کہ بڑا ہو کر یہ بچہ نیک اٹھے گایا صحیح بخاری و مسلم کے حوالہ سے ابوسعید خدری (رض) کی حدیث بھی گذر چکی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قرآن کی مثال مینہ کی اور اچھے برے لوگوں کی مثال اچھی برح زمین کی فرمائی ہے یہ حدیثیں ان آیتوں کی گویا تفسیر ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن شریف میں ایسی کامل نصیحت موجود ہے جس سے بہ نسبت اور امتوں کے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت کے تعداد قیامت کے دن بڑھ جاوے گی لیکن علم الٰہی کے موافق پہلے لوح محفوظ میں اور پھر ماں کے پیٹ میں جو لوگ بد لکھے جاچکے ہیں ان کے دل میں قرآن کی نصیحت کا اسی طرح کچھ نیک اثر پیدا نہیں ہوگا جس طرح بری زمین میں مینہ کا کچھ نیک اثر نہیں پیدا ہوتا اور مجبور کر کے ایسے بدلوگوں کو راہ راست پر لانا اللہ تعالیٰ کو منظور نہیں ہے کیونکہ یہ مجبوری اس انتظام الٰہی کے برخلاف ہے جس کی بنیاد پر دنیا پیدا کی گئی ہے کہ بغیر کسی مجبوری کے دنیا میں نیک وبد کو چانچا جاوے دنیا میں پیدا ہونے کے بعد اپنے قصد اور ارادہ سے ہر شخص عمر پھر جو کچھ کرے گا لوح محفوظ میں اور ماں کے پیٹ میں بچہ کے ہونے کے وقت میں اللہ تعالیٰ کے علم ازلی کے موافق ہر شخص کی وہ حالت لکھی گئی ہے اس حالت کے لکھے جانے سے جن لوگوں نے انسان کے مجبور ہونے کا مطلب نکالا ہے ان کی بڑی غلطی ہے :۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(6:104) بصائر کھلی دلیلیں۔ ظاہر نصیحتیں۔ بصیرۃ کی جمع ۔ جس طرح جسم کے لئے بصارت (بینائی) ہے اسی طرح روح کے لئے بصیرت ہے۔ ابصر۔ اس نے دیکھا۔ (افعال) ماضی کا صیغہ واحد مذکر غائب۔ عمی۔ وہ اندھا ہوا۔ عمی مصدر۔ ماضی صیغہ واحد مذکر غائب یہاں کور دل ہونا مراد ہے۔ حفیظ۔ نگہبان۔ حفظ سے بروزن فعیل بمعنی فاعل ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنیٰ میں سے ہے۔ کیونکہ وہ کل کا نگہبان ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 یعنی آنکھ میں یہ قوت نہیں ہے کہ اس کو دیکھ لے مگر جو وہ آپ کو دکھادے اس واسطے کے لطیف ہے (مو ضح) متعدد احادیث میں ہے کہ قیامت کے دن مومنین کو اللہ تعالیٰ کو دیدار نصیب ہوگا، چناچہ یہ اہل سنت و حدیث کا متفقہ عقیدہ ہے بعض سلف نے لکھا ہے کہ ادراک کے معنی کسی چیز کی حقیقت کو پالینے کے ہیں اور رو یت کے معنی آنکھ سے دیکھنے کے پس ادراک اخص ہے اور رویت اعم اور اعم کے نفی سے اخص کی نفی لاز م نہیں آتی مطلب یہ ہے کہ آیت میں ادراک کی نفی ہے لہذا دنیا رویت ہوسکتی ہے جیسا کہ آخرت میں ہوگی حضرت عائشہ (رض) آنحضرت کے لیے رویت کی نفی کرتی تھیں اور ان کے استدلال کی بنیاد بھی اسی آیت پر تھی جو قرب الی الصواب معلوم ہوتا ہے مگر حضرت ابن عباس (رض) رویت کے قائل تھے اور کبھی وہ یہ بھی فرماتے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے دل کی آنکھ سے دو مرتبہ اللہ تعالیٰ کو دیکھا ہے (ابن کثیر) مزید دیکھئے سورة النجم (آیت 11 ۔ 13)2 یعنی غور وفکر کر کے ایمان لائے،3 یعنی ان دلیلوں پر غور نہ کرے اور ایمان نہ لائے۔4 کہ تمہیں تمہارے چاہینے یا نہ چاہنے کے باوجود سیدھی راہ پر ڈال سکوں ہدایت دینا یا نہ دینا اللہ تعالیٰ کا کام ہے میرا کام تو یہ ہے کہ بندوں تک اس کا پیغام پہنچا دوں سو وہ پہنچا رہا ہوں

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(آیت) ” نمبر ١٠٤۔ یہ جو کچھ اللہ کی طرف سے آ رہا ہے بصیرت کی روشنی ہے ۔ بصیرت انسان کو ہدایت دیتی ہے اور راہنمائی کرتی ہے ۔ یہ بذات خود عین روشنی ہے ۔ اس لئے جو شخص اسے دیکھے گا وہ روشن دیکھے گا اور اگر کوئی آنکھیں بند کرے گا تو وہ اندھا ہوگا ۔ ان بصیرتوں اور روشنیوں کے آجانے کے بعد صرف اندھا ہی محروم رہ سکتا ہے ۔ وہ جس کے حواس کام نہ کررہے ہوں اور جس کے شعور کا دراوزہ بند ہو جس کا ضمیر اندھا ہو۔ اس کے بعد نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا جاتا ہے کہ آپ اپنی برات کا اعلان یوں کردیں کہ میں تم پر نگہبان اور پاسبان مقرر نہیں کیا گیا ہوں۔ (آیت) ” ما انا علیم بحفیظ “۔ (٦ : ١٠٤) ” میں تمہارے لئے پاسبان مقرر نہی ہوا ہوں “۔ یہاں عبار میں ایک عجیب تناسق ہے ۔ اللہ کی صفت بیان کرتے ہوئے کہا گیا تھا ۔ (آیت) ” اَّ تُدْرِکُہُ الأَبْصَارُ وَہُوَ یُدْرِکُ الأَبْصَارَ وَہُوَ اللَّطِیْفُ الْخَبِیْرُ (103) ” نگاہیں اس کو نہیں پاسکتیں اور وہ نگاہوں کو پا لیتا ہے وہ نہایت باریک بین اور باخبر ہے ۔ ‘ (آیت) ” قَدْ جَاء کُم بَصَآئِرُ مِن رَّبِّکُمْ فَمَنْ أَبْصَرَ فَلِنَفْسِہِ وَمَنْ عَمِیَ فَعَلَیْْہَا “۔ (٦ : ١٠٤) ” دیکھو تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے بصیرت کی روشنیاں آگئی ہیں ‘ اب جو بینائی سے کام لے گا اپنا ہی بھلا کرے گا اور جو اندھا بنے گا خود نقصان اٹھائے گا ۔ “ ایک جگہ ابصار اور مقابل میں بصائر ہے ۔ ایک جگہ بصیر ہے اور مقابلے میں عمی ہے ‘ یہ عربی اسلوب میں الفاظ کا بہترین انتخاب ہے۔ اس کے بعد روئے سخن حضرت نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف مڑ جاتا ہے اور بتایا جاتا ہے کہ قرآن کریم کے اندر جو اسلوب کلام اختیار کیا گیا ہے وہ ایسا نہیں ہے جو کسی امی شخص کی طرف سے بنایا جاسکتا ہو اور جس سے مالکان بصیرت خود بخود یہ نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ یہ یقینا کلام الہی ہے ۔ لیکن مشرکین انکار اس لئے نہ کرتے تھے کہ ان کے سامنے تشفی بخش دلائل نہ تھے ۔ بلکہ وہ بہانہ سازی کرتے تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کہتے تھے کہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ عظیم علمی کام اور فصیح وبلیغ کلام بعض اہل کتاب سے سیکھ کر بتا رہے ہیں حالانکہ وہ جانتے تھے کہ اس وقت جو اہل کتاب تھے ان کے پاس نہ یہ پیغام تھا اور نہ یہ اعلی کلام ۔ چناچہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہدایت کردی جاتی ہے کہ آپ مشرکین سے اعراض کریں اور اللہ کی ہدایات پر عمل کرتین چلے جائیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اللہ تعالیٰ کی طرف سے بصیرت کی چیزیں آچکی ہیں توحید کے دلائل اور اللہ تعالیٰ کی صفات جلیلہ بیان فرمانے کے بعد اب دلائل میں غور کرنے کی طرف توجہ دلائی جا رہی ہے۔ اولاً ارشاد فرمایا کہ تمہارے پاس بصیرت کی چیزیں آچکی ہیں اگر اپنی عقل کو متوجہ کرو گے اور ان بصیرت کی چیزوں میں غور و فکر کرو گے تو حقائق کو پہنچ جاؤ گے۔ دلائل توحید بھی سمجھ میں آجائیں گے اور توحید بھی سمجھ میں آجائے گی۔ جو شخص غور و فکر کرے گا بینا بنے گا تو اس کا نفع اسی کی جان کو ہوگا۔ اور جو شخص اندھا بنا رہے گا دلائل و بصائر میں غور کرنے سے گریز کرے گا تو اس کا نقصان اسی کو ہوگا، پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا کہ آپ کی ذمہ داری صرف پہنچانے کی ہے عمل کروانا آپ کے ذمہ نہیں، آپ ان سے فرما دیں کہ میں تم پر نگران نہیں ہوں۔ اس کے بعد فرمایا کہ ہم اسی طرح مختلف پہلوؤں سے دلائل بیان کرتے ہیں تاکہ ان لوگوں پر حجت پوری ہوجائے اور تاکہ وہ یوں کہیں کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم نے پڑھ لیا۔ یعنی جو کچھ تم بیان کرتے ہو دوسروں سے سیکھ لیا ہے (اور کہتے ہو کہ اللہ کی طرف سے ہے) اور تاکہ ہم اس کو بیان کریں ان لوگوں کے لیے جو جانتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ ہم مختلف پہلوؤں سے دلائل بیان کرتے ہیں تاکہ آپ ان کو پہنچا دیں اور تاکہ منکرین ضد وعناد کی وجہ سے یوں کہیں کہ آپ نے ان مضامین کو کسی سے پڑھ لیا ہے اور تم دوسروں سے سیکھ کر ہم سے خطاب کرتے ہو۔ کمافی سورة النحل (اَنَّمَا یُعَلَِّمُہٗ بَشَرٌ) اس طرح سے وہ لوگ اور زیادہ مجرم بنتے ہیں اور ان دلائل کے بیان کرنے کا ایک فائدہ یہ ہے کہ ہم علم والوں کے لیے اچھی طرح کھول کر بیان کردیں۔ (کیونکہ جو اہل علم ہیں وہ ہی منتفع ہوتے ہیں) ۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

111 بَصَائِرُ سے دلائل توحید مراد ہیں فَمَنْ اَبْصَرَ فَلِنَفْسِہٖ جس نے مسئلہ توحید قبول کرلیا اس نے اپنے ہی بھلے کا کام کیا۔ وَمَنْ عَمِیَ فَعَلَیْہَا اور جو شرک پر قائم رہا اس نے اپنا نقصان کیا وَ مَا اَنَا عَلَیْکُمْ بِحَفِیْظٍ میں تم پر نگران نہیں ہوں میں تو صرف اللہ کی طرف سی منذر و مبشر ہوں وَاِنَّمَا اَنَا مُنْذِرٌ اللہ تعالیٰ ھُوَ الَّذِیْ یَحْفَظُ اَعْمَالَکُمْ وَ یُجازِیْکم عَلَیھَا (روح ج 7 ص 249) اس سے معلوم ہوا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کارساز اور غیب دان نہیں تھے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

104 اے پیغمبر ! ان لوگوں سے کہہ دیجیے کہ تمہارے پروردگار کی جانب سے تمہارے پاس یقینا ہر قسم کے روشن اور بصیرت افروز دلائل آ چکے ہیں پھر جس شخص نے ان دلائل کو دیکھ لیا اور سمجھ کر ایمان لے آیا تو اپنے نفع کو اور بھلے کو اور اس کا فائدہ اسی کو پہونچے گا اور جو شخص ان دلائل واضح سے اندھا رہا اور اسے ان بہک گیا تو اس کا ضرر اور نقصان اسی کو پہنچے گا اور میں تمہارے اعمال کا کوئی نگہبان اور نگران نہیں ہوں۔ یعنی قرآن کریم میں ہر قسم کے دلائل عقلیہ اور نقلیہ نازل کئے گئے ہیں جو ان کو سمجھ کر ایمانلے آئے گا اور توحید و رسالت کو مان لے گا اس کو فائدہ ہوگا اور جو توحید رسالت کا باوجود ان دلائل کے قائل نہ ہوگا وہ نقصان اٹھائے گا۔