Surat ul Anaam

Surah: 6

Verse: 111

سورة الأنعام

وَ لَوۡ اَنَّنَا نَزَّلۡنَاۤ اِلَیۡہِمُ الۡمَلٰٓئِکَۃَ وَ کَلَّمَہُمُ الۡمَوۡتٰی وَ حَشَرۡنَا عَلَیۡہِمۡ کُلَّ شَیۡءٍ قُبُلًا مَّا کَانُوۡا لِیُؤۡمِنُوۡۤا اِلَّاۤ اَنۡ یَّشَآءَ اللّٰہُ وَ لٰکِنَّ اَکۡثَرَہُمۡ یَجۡہَلُوۡنَ ﴿۱۱۱﴾

And even if We had sent down to them the angels [with the message] and the dead spoke to them [of it] and We gathered together every [created] thing in front of them, they would not believe unless Allah should will. But most of them, [of that], are ignorant.

اور اگر ہم ان کے پاس فرشتوں کو بھیج دیتے اور ان سے مردے باتیں کرنے لگتے اور ہم تمام موجودات کو ان کے پاس ان کی آنکھوں کے روبرو لا کر جمع کر دیتے ہیں تب بھی یہ لوگ ہرگز ایمان نہ لاتے ہاں اگر اللہ ہی چاہے تو اور بات ہے لیکن ان میں زیادہ لوگ جہالت کی باتیں کرتے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah says: وَلَوْ أَنَّنَا نَزَّلْنَا إِلَيْهِمُ الْمَليِكَةَ ... And even if We had sent down unto them angels, Allah says: `Had We accepted what the disbelievers asked for,' that is -- those who swore their strongest oaths by Allah that if a miracle came to them they would believe in it -- `had We sent down angels,' to convey to them Allah's Message, in order to support the truth of the Messengers, as they asked, when they said, أَوْ تَأْتِيَ بِاللّهِ وَالْمَليِكَةِ قَبِيلً (or you bring Allah and the angels before (us) face to face). (17:92) قَالُواْ لَن نُّوْمِنَ حَتَّى نُوْتَى مِثْلَ مَأ أُوتِىَ رُسُلُ اللَّهِ They said: "We shall not believe until we receive the like of that which the Messengers of Allah had received." (6:124) and, وَقَالَ الَّذِينَ لاَ يَرْجُونَ لِقَأءَنَا لَوْلاَ أُنزِلَ عَلَيْنَا الْمَلَـيِكَةُ أَوْ نَرَى رَبَّنَا لَقَدِ اسْتَكْبَرُواْ فِى أَنفُسِهِمْ وَعَتَوْا عُتُوّاً كَبِيراً And those who expect not a meeting with Us said: "Why are not the angels sent down to us, or why do we not see our Lord!" Indeed they think too highly of themselves, and are scornful with great pride. (25:21) Allah said, ... وَكَلَّمَهُمُ الْمَوْتَى ... and the dead had spoken unto them, This is, to inform them of the truth of what the Messengers brought them; ... وَحَشَرْنَا عَلَيْهِمْ كُلَّ شَيْءٍ قُبُلً ... and We had gathered together all things before them, Ali bin Abi Talhah and Al-Awfi reported from Ibn Abbas, before their eyes. This is the view of Qatadah and Abdur-Rahman bin Zayd bin Aslam. This Ayah means, if all nations were gathered before them, one after the other, and each one testifies to the truth of what the Messengers came with, ... مَّا كَانُواْ لِيُوْمِنُواْ إِلاَّ أَن يَشَاء اللّهُ ... they would not have believed, unless Allah willed, for guidance is with Allah not with them. Certainly, Allah guides whom He wills and misguides whom He wills, and He does what He wills, لاَا يُسْأَلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَهُمْ يُسْأَلُونَ (He cannot be questioned about what He does, while they will be questioned). (21:23) This is due to His knowledge, wisdom, power, supreme authority and irresistibility. Similarly, Allah said, إِنَّ الَّذِينَ حَقَّتْ عَلَيْهِمْ كَلِمَةُ رَبِّكَ لاَ يُوْمِنُونَ وَلَوْ جَأءَتْهُمْ كُلُّ ءايَةٍ حَتَّى يَرَوُاْ الْعَذَابَ الاٌّلِيمَ Truly, those, against whom the Word (wrath) of your Lord has been justified, will not believe. Even if every sign should come to them, until they see the painful torment. (10:96-97) ... وَلَـكِنَّ أَكْثَرَهُمْ يَجْهَلُونَ but most of them behave ignorantly.

فرماتا ہے کہ یہ کفار جو قسمیں کھا کھا کر تم سے کہتے ہیں کہ اگر کوئی معجزہ وہ دیکھ لیتے تو ضرور ایمان لے آتے ۔ یہ غلط کہتے ہیں تمہیں ان کے ایمان لانے سے مایوس ہو جانا چاہیے ۔ یہ کہتے ہیں کہ اگر فرشتے اتر تے تو ہم مان لیتے لیکن یہ بھی جھوٹ ہے فرشتوں کے آ جانے پر بھی اور ان کے کہہ دینے پر بھی کہ یہ رسول برحق ہیں انہیں ایمان نصیب نہیں ہو گا ، یہ صرف ایمان نہ لانے کے بہانے تراشتے ہیں کہ کبھی کہہ دیتے ہیں اللہ کو لے آ ۔ کبھی کہتے ہیں فرشتوں کو لے آ ۔ کبھی کہتے ہیں اگلے نبیوں جیسے معجزے لے آ ، یہ سب حجت بازی اور حیلے حوالے ہیں ، دلوں میں تکبر بھرا ہوا ہے زبان سے سرکشی اور برائی ظاہر کرتے ہیں ، اگر مردے بھی قبروں سے اٹھ کر آ جائیں اور کہدیں کہ یہ رسول برحق ہیں ان کے دلوں پر اس کا بھی کوئی اثر نہیں ہو گا ( قُبلاً ) کی دوسری قرأت ( قبلاً ) ہے جس کے معنی مقابلے اور معائنہ کے ہوتے ہیں ایک قول میں ( قبلا ) کے معنی بھی یہی بیان کئے گئے ہیں ہاں مجاہد سے مروی ہے کہ اس کے معنی گروہ گروہ کے ہیں ان کے سامنے اگر ایک امت آ جاتی اور رسولوں کی ہدایت دے دے وہ جو کرنا چاہے کوئی اس سے پوچھ نہیں سکتا اور وہ چونکہ حاکم کل ہے ہر ایک سے باز پرس کر سکتا ہے وہ علیم و حکیم ہے ، حاکم و غالب و قہار ہے اور آیت میں ہے ( اِنَّ الَّذِيْنَ حَقَّتْ عَلَيْهِمْ كَلِمَتُ رَبِّكَ لَا يُؤْمِنُوْنَ ) 10 ۔ یونس:96 ) یعنی جن لوگوں کے ذمہ کلمہ عذاب ثابت ہو گیا ہے وہ تمام تر نشانیاں دیکھتے ہوئے بھی ایمان نہ لائیں گے جب تک کہ المناک عذاب نہ دیکھ لیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

111۔ 1 اور وہ حضرت محمد رسول اللہ کی رسالت کی تصدیق کردیتے۔ 111۔ 2 دوسرا مفہوم اس کا بیان کیا گیا ہے کہ جو نشانیاں وہ طلب کرتے ہیں وہ سب ان کے روبرو پیش کردیتے۔ اور ایک مفہوم یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ ہر چیز جمع ہو کر گروہ در گروہ یہ گواہی دے کہ پیغمبروں کا سلسلہ برحق ہے تو ان تمام نشانیوں اور مطالبوں کے پورا کردینے کے باوجود یہ ایمان لانے والے نہیں ہیں۔ مگر جس کو اللہ چاہے اسی مفہوم کی یہ آیت بھی ہے (سورۃ یونس 96۔ 97) جن پر تیرے رب کی بات ثابت ہوگئی ہے وہ ایمان نہیں لائیں گے، اگرچہ ان کے پاس ہر قسم کی نشانی آجائے یہاں تک کہ وہ دردناک عذاب دیکھ لیں۔ 111۔ 3 اور یہ جہالت کی باتیں ہی ان کے اور حق قبول کرنے کے درمیان حائل ہیں۔ اگر جہالت کا پردہ اٹھ جائے تو شاید حق ان کی سمجھ میں آجائے اور اللہ کی مشیت سے حق کو اپنا لیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١١٣] اس آیت میں بھی کفار کے کسی حسی معجزہ کے مطالبہ کا جواب دیا جا رہا ہے یعنی ان بدبختوں کا یہ حال ہے کہ اگر ہم فرشتے نازل کرتے جو ان کے سامنے گواہی دیتے کہ یہ پیغمبر واقعی اللہ کا رسول ہے اور یہ کتاب واقعی منزل من اللہ ہے۔ اور قبروں سے مردے اٹھ کر ان کو بتاتے کہ واقعی جو کچھ یہ پیغمبر کہتا ہے سچ کہتا ہے اور مرنے کے بعد کے حالات کچھ ہم دیکھ چکے ہیں بلکہ لاکھ معجزے ان کو دکھا دیتے تو صاف کہہ دیتے کہ یہ تو صاف جادو ہے اور ہماری نظر بندی کردی گئی ہے ایمان لانے کی طرف پھر بھی نہ آتے۔ [١١٤] ( اِنْ یَشَاِ اللّٰہُ ) 111 ۔ الانعام) کا ایک مطلب تو وہی ہے جو ترجمہ میں بیان کردیا گیا ہے یعنی کوئی ایک آدھ آدمی ایمان لے آتا جس کے نصیب میں ہوتا اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ اگر اللہ کی مشیئت میں ہوتا تو یہ سب ایمان لاسکتے تھے مگر اس طرح کا جبری ایمان نہ اللہ کی مشیئت میں ہے اور نہ اس کا کچھ فائدہ ہوتا ہے۔ [١١٥] یہ خطاب ان مسلمانوں کی طرف بھی ہوسکتا ہے جو یہ چاہتے تھے کہ اگر ان کے معجزہ کے مطالبہ کی حجت پوری کردی جائے تو شاید یہ کافر ایمان لے ہی آئیں اور بتایا یہ جا رہا ہے کہ یہ نادانی کی باتیں ہیں ان سے ایمان لانے کی توقع رکھنا عبث اور فضول ہے اور ان کافروں کی طرف بھی جو کسی حسی معجزہ کا مطالبہ کر رہے تھے ان کا یہ مطالبہ ہی ان کی نادانی کی دلیل ہے کہ جو شخص اپنے اندر اور اپنے باہر کائنات میں پھیلی ہوئی لاکھوں نشانیوں سے ہدایت حاصل نہیں کرنا چاہتا وہ ایسے معجزہ کو دیکھ کر بھی باتیں ہی بناتا رہے گا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَلَوْ اَنَّنَا نَزَّلْنَآ اِلَيْهِمُ الْمَلٰۗىِٕكَةَ ۔۔ : پچھلی آیت : (وَمَا يُشْعِرُكُمْ ۙ اَنَّهَآ اِذَا جَاۗءَتْ لَا يُؤْمِنُوْنَ ) میں جو بات مختصر بیان کی گئی تھی یہاں اسی کی تفصیل ہے، یعنی اگر ہم ان کے تمام مطالبات پورے کردیں، جیسے فرشتوں کو نازل کرنا اور مردوں کا کلام کرنا وغیرہ، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر ہم ہر چیز گروہ در گروہ یا آمنے سامنے لا کھڑی کردیں تو پھر بھی یہ ایمان نہیں لائیں گے۔ ہر چیز سے مراد ان کے مطالبات میں سے ہر چیز ہے، کیونکہ ” کل “ کے لفظ سے موقع کے مناسب ہر چیز ہوتا ہے، جیسا کہ ہدہد نے ملکۂ سبا سے متعلق کہا : ( وَاُوْتِيَتْ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ ) [ النمل : ٢٣ ] ” اور اسے ہر چیز دی گئی ہے۔ “ ظاہر ہے کہ ہر چیز تو اسے نہیں دی گئی تھی، حکومت و سلطنت سے متعلقہ اشیاء ہی عنایت کی گئی تھیں۔ اِلَّآ اَنْ يَّشَاۗءَ اللّٰهُ : مگر اللہ چاہے تو ضدی سے ضدی منکر کو بھی ایمان سے نواز سکتا ہے، جیسا کہ بعد میں عرب کے بیشمار عناد رکھنے والے کافر بھی مکہ فتح ہونے پر مسلمان ہوگئے۔ یہ مسلمانوں کے لیے بشارت کے الفاظ ہیں۔ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ يَجْهَلُوْنَ : یہاں وہ جہل مراد نہیں جو علم کے مقابلے میں ہوتا ہے، بلکہ وہ جہل ہے جو حلم کے مقابلے میں ہوتا ہے، یعنی اکھڑ پن یعنی بعض حلم والے بھی ان میں موجود ہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

آخری آیت وَلَوْ اَنَّنَا نَزَّلْنَآ اِلَيْهِمُ الْمَلٰۗىِٕكَةَ میں اسی مضمون کا بیان ہے کہ اگر ہم ان کو ان کے فرمائشی معجزات سب دکھلادیں، بلکہ ان سے بھی زیادہ فرشتوں سے ان کی ملاقات اور مردوں سے گفتگو کرادیں، جب بھی وہ ماننے والے نہیں، بعد کی دو آیتوں میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی گئی ہے کہ یہ لوگ اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عداوت کرتے ہیں تو کچھ تعجب کی بات نہیں، پچھلے تمام انبیاء کے بھی دشمن ہوتے چلے آئے ہیں، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے دلگیر نہ ہوں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَوْاَنَّنَا نَزَّلْنَآ اِلَيْہِمُ الْمَلٰۗىِٕكَۃَ وَكَلَّمَہُمُ الْمَوْتٰى وَحَشَرْنَا عَلَيْہِمْ كُلَّ شَيْءٍ قُبُلًا مَّا كَانُوْا لِيُؤْمِنُوْٓا اِلَّآ اَنْ يَّشَاۗءَ اللہُ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَہُمْ يَجْہَلُوْنَ۝ ١١١ لو لَوْ : قيل : هو لامتناع الشیء لامتناع غيره، ويتضمّن معنی الشرط نحو : قوله تعالی: قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء/ 100] . ( لو ) لو ( حرف ) بعض نے کہا ہے کہ یہ امتناع الشئی لا متناع غیر ہ کے لئے آتا ہے ( یعنی ایک چیز کا دوسری کے امتناع کے سبب ناممکن ہونا اور معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء/ 100] کہہ دو کہ اگر میرے پروردگار کی رحمت کے خزانے تمہارے ہاتھ میں ہوتے ۔ نزل النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ. يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] ( ن ز ل ) النزول ( ض ) اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا ملك ( فرشته) وأما المَلَكُ فالنحویون جعلوه من لفظ الملائكة، وجعل المیم فيه زائدة . وقال بعض المحقّقين : هو من المِلك، قال : والمتولّي من الملائكة شيئا من السّياسات يقال له : ملک بالفتح، ومن البشر يقال له : ملک بالکسر، فكلّ مَلَكٍ ملائكة ولیس کلّ ملائكة ملکاقال : وَالْمَلَكُ عَلى أَرْجائِها [ الحاقة/ 17] ، عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبابِلَ [ البقرة/ 102] ( م ل ک ) الملک الملک علمائے نحو اس لفظ کو ملا ئکۃ سے ماخوذ مانتے ہیں اور اس کی میم کو زائد بناتے ہیں لیکن بعض محقیقن نے اسے ملک سے مشتق مانا ہے اور کہا ہے کہ جو فرشتہ کائنات کا انتظام کرتا ہے اسے فتحہ لام کے ساتھ ملک کہا جاتا ہے اور انسان کو ملک ہیں معلوم ہوا کہ ملک تو ملا ئکۃ میں ہے لیکن کل ملا ئکۃ ملک نہیں ہو بلکہ ملک کا لفظ فرشتوں پر بولا جاتا ہے کی طرف کہ آیات ۔ وَالْمَلَكُ عَلى أَرْجائِها [ الحاقة/ 17] اور فرشتے اس کے کناروں پر اتر آئیں گے ۔ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبابِلَ [ البقرة/ 102] اور ان باتوں کے بھی پیچھے لگ گئے جو دو فرشتوں پر اتری تھیں ۔ كلم الكلْمُ : التأثير المدرک بإحدی الحاسّتين، فَالْكَلَامُ : مدرک بحاسّة السّمع، والْكَلْمُ : بحاسّة البصر، وكَلَّمْتُهُ : جرحته جراحة بَانَ تأثيرُها، ( ک ل م ) الکلم ۔ یہ اصل میں اس تاثیر کو کہتے ہیں جس کا ادراک دو حاسوں میں سے کسی ایک کے ساتھ ہوسکے چناچہ کلام کا ادراک قوت سامعہ کیساتھ ہوتا ہے ۔ اور کلم ( زخم ) کا ادراک قوت بصر کے ساتھ ۔ محاورہ ہے ۔ کلمتہ ۔ میں نے اسے ایسا زخم لگایا ۔ جس کا نشان ظاہر ہوا اور چونکہ یہ دونوں ( یعنی کلام اور کلم ) معنی تاثیر میں مشترک ہیں ۔ موت أنواع الموت بحسب أنواع الحیاة : فالأوّل : ما هو بإزاء القوَّة النامية الموجودة في الإنسان والحیوانات والنّبات . نحو قوله تعالی: يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم/ 19] ، وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق/ 11] . الثاني : زوال القوّة الحاسَّة . قال : يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا [ مریم/ 23] ، أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم/ 66] . الثالث : زوال القوَّة العاقلة، وهي الجهالة . نحو : أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] ، وإيّاه قصد بقوله : إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل/ 80] . الرابع : الحزن المکدِّر للحیاة، وإيّاه قصد بقوله : وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَ بِمَيِّتٍ [إبراهيم/ 17] . الخامس : المنامُ ، فقیل : النّوم مَوْتٌ خفیف، والموت نوم ثقیل، وعلی هذا النحو سمّاهما اللہ تعالیٰ توفِّيا . فقال : وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام/ 60] ( م و ت ) الموت یہ حیات کی ضد ہے لہذا حیات کی طرح موت کی بھی کئی قسمیں ہیں ۔ اول قوت نامیہ ( جو کہ انسان حیوانات اور نباتات ( سب میں پائی جاتی ہے ) کے زوال کو موت کہتے ہیں جیسے فرمایا : ۔ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم/ 19] زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق/ 11] اور اس پانی سے ہم نے شہر مردہ یعنی زمین افتادہ کو زندہ کیا ۔ دوم حس و شعور کے زائل ہوجانے کو موت کہتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا ۔ يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا[ مریم/ 23] کاش میں اس سے پہلے مر چکتی ۔ أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم/ 66] کہ جب میں مرجاؤں گا تو کیا زندہ کر کے نکالا جاؤں گا ۔ سوم ۔ قوت عاقلہ کا زائل ہوجانا اور اسی کا نام جہالت ہے چناچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل/ 80] کچھ شک نہیں کہ تم مردوں کو بات نہیں سنا سکتے ۔ چہارم ۔ غم جو زندگی کے چشمہ صافی کو مکدر کردیتا ہے چنانچہ آیت کریمہ : ۔ وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَبِمَيِّتٍ [إبراهيم/ 17] اور ہر طرف سے اسے موت آرہی ہوگی ۔ مگر وہ مرنے میں نہیں آئے گا ۔ میں موت سے یہی مین مراد ہیں ۔ پنجم ۔ موت بمعنی نیند ہوتا ہے اسی لئے کسی نے کہا ہے کہ النوم موت خفیف والموت نوم ثقیل کہ نیند کا نام ہے اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو توفی سے تعبیر فرمایا ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام/ 60] اور وہی تو ہے جو ارت کو تمہاری روحیں قبض کرلیتا ہے حشر الحَشْرُ : إخراج الجماعة عن مقرّهم وإزعاجهم عنه إلى الحرب ونحوها، وروي : «النّساء لا يُحْشَرن» أي : لا يخرجن إلى الغزو، ويقال ذلک في الإنسان وفي غيره، يقال : حَشَرَتِ السنة مال بني فلان، أي : أزالته عنهم، ولا يقال الحشر إلا في الجماعة، قال اللہ تعالی: وَابْعَثْ فِي الْمَدائِنِ حاشِرِينَ [ الشعراء/ 36] وَحَشَرْناهُمْ فَلَمْ نُغادِرْ مِنْهُمْ أَحَداً [ الكهف/ 47] ، وسمي يوم القیامة يوم الحشر کما سمّي يوم البعث والنشر، ورجل حَشْرُ الأذنین، أي : في أذنيه انتشار وحدّة . ( ح ش ر ) الحشر ( ن ) ( ح ش ر ) الحشر ( ن ) کے معنی لوگوں کو ان کے ٹھکانہ سے مجبور کرکے نکال کر لڑائی وغیرہ کی طرف لے جانے کے ہیں ۔ ایک روایت میں ہے (83) النساء لایحضرون کہ عورتوں کو جنگ کے لئے نہ نکلا جائے اور انسان اور غیر انسان سب کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ کہا جاتا ہے ۔ حشرت النسۃ مال بنی فلان یعنی قحط سالی نے مال کو ان سے زائل کردیا اور حشر کا لفظ صرف جماعت کے متعلق بولا جاتا ہے قرآن میں ہے : وَابْعَثْ فِي الْمَدائِنِ حاشِرِينَ [ الشعراء/ 36] اور شہروں میں ہر کار سے بھیج دیجئے ۔ اور قیامت کے دن کو یوم الحشر بھی کہا جاتا ہے جیسا ک اسے یوم البعث اور یوم النشور کے ناموں سے موسوم کیا گیا ہے لطیف اور باریک کانوں والا ۔ قبلا ۔ جمع قبیل واحد۔ جماعت درجمات۔ گروہ درگروہ۔ بعض کے نزدیک قابل کی جمع ۔ یعنی آنکھوں کے سامنے۔ آگے۔ أیمان يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ( ا م ن ) الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ شاء والْمَشِيئَةُ عند أكثر المتکلّمين كالإرادة سواء، وعند بعضهم : المشيئة في الأصل : إيجاد الشیء وإصابته، وإن کان قد يستعمل في التّعارف موضع الإرادة، فالمشيئة من اللہ تعالیٰ هي الإيجاد، ومن الناس هي الإصابة، قال : والمشيئة من اللہ تقتضي وجود الشیء، ولذلک قيل : ( ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن) والإرادة منه لا تقتضي وجود المراد لا محالة، ألا تری أنه قال : يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة/ 185] ، وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر/ 31] ، ومعلوم أنه قد يحصل العسر والتّظالم فيما بين الناس، قالوا : ومن الفرق بينهما أنّ إرادةالإنسان قد تحصل من غير أن تتقدّمها إرادة الله، فإنّ الإنسان قد يريد أن لا يموت، ويأبى اللہ ذلك، ومشيئته لا تکون إلّا بعد مشيئته لقوله : وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان/ 30] ، روي أنّه لما نزل قوله : لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير/ 28] ( ش ی ء ) الشیئ المشیئۃ اکثر متکلمین کے نزدیک مشیئت اور ارادہ ایک ہی صفت کے دو نام ہیں لیکن بعض کے نزدیک دونوں میں فرق ہے ( 1 ) مشیئت کے اصل معنی کسی چیز کی ایجاد یا کسی چیز کو پا لینے کے ہیں ۔ اگرچہ عرف میں مشیئت ارادہ کی جگہ استعمال ہوتا ہے پس اللہ تعالیٰ کی مشیئت کے معنی اشیاء کو موجود کرنے کے ہیں اور لوگوں کی مشیئت کے معنی کسی چیز کو پالینے کے ہیں پھر اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کو چاہنا چونکہ اس کے وجود کو مقتضی ہوتا ہے اسی بنا پر کہا گیا ہے ۔ ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن کہ جو اللہ تعالیٰ چاہے وہی ہوتا ہے اور جو نہ چاہے نہیں ہوتا ۔ ہاں اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کا ارادہ کرنا اس کے حتمی وجود کو نہیں چاہتا چناچہ قرآن میں ہے : ۔ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة/ 185] خدا تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور سختی نہیں چاہتا ۔ وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر/ 31] اور خدا تو بندوں پر ظلم کرنا نہیں چاہتا ۔ کیونکہ یہ واقعہ ہے کہ لوگوں میں عسرۃ اور ظلم پائے جاتے ہیں ۔ ( 2 ) اور ارادہ میں دوسرا فرق یہ ہے کہ انسان کا ارادہ تو اللہ تعالیٰ کے ارادہ کے بغیر ہوسکتا ہے مثلا انسان چاہتا ہے کہ اسے موت نہ آئے لیکن اللہ تعالیٰ اس کو مار لیتا ہے ۔ لیکن مشیئت انسانی مشئیت الہیٰ کے بغیروجود ہیں نہیں آسکتی جیسے فرمایا : ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان/ 30] اور تم کچھ بھی نہیں چاہتے مگر وہی جو خدائے رب العلمین چاہے ایک روایت ہے کہ جب آیت : ۔ لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير/ 28] یعنی اس کے لئے جو تم میں سے سیدھی چال چلنا چاہے ۔ الله الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم/ 65] . ( ا ل ہ ) اللہ (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ { هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا } ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ كثر الْكِثْرَةَ والقلّة يستعملان في الكمّيّة المنفصلة كالأعداد قال تعالی: وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة/ 64] ( ک ث ر ) کثرت اور قلت کمیت منفصل یعنی اعداد میں استعمال ہوتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة/ 64] اس سے ان میں سے اکثر کی سر کشی اور کفر اور بڑ ھیگا ۔ جهل الجهل علی ثلاثة أضرب : - الأول : وهو خلوّ النفس من العلم، هذا هو الأصل، وقد جعل ذلک بعض المتکلمین معنی مقتضیا للأفعال الخارجة عن النظام، كما جعل العلم معنی مقتضیا للأفعال الجارية علی النظام . - والثاني : اعتقاد الشیء بخلاف ما هو عليه . - والثالث : فعل الشیء بخلاف ما حقّه أن يفعل، سواء اعتقد فيه اعتقادا صحیحا أو فاسدا، كمن يترک الصلاة متعمدا، وعلی ذلک قوله تعالی: قالُوا : أَتَتَّخِذُنا هُزُواً ؟ قالَ : أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجاهِلِينَ [ البقرة/ 67] ( ج ھ ل ) الجھل ۔ ( جہالت ) نادانی جہالت تین قسم پر ہے ۔ ( 1) انسان کے ذہن کا علم سے خالی ہونا اور یہی اس کے اصل معنی ہیں اور بعض متکلمین نے کہا ہے کہ انسان کے وہ افعال جو نظام طبعی کے خلاف جاری ہوتے ہیں ان کا مقتضی بھی یہی معنی جہالت ہے ۔ ( 2) کسی چیز کے خلاف واقع یقین و اعتقاد قائم کرلینا ۔ ( 3) کسی کام کو جس طرح سر انجام دینا چاہئے اس کے خلاف سر انجام دنیا ہم ان سے کہ متعلق اعتقاد صحیح ہو یا غلط مثلا کوئی شخص دیا ۔ دانستہ نماز ترک کردے چناچہ اسی معنی کے اعتبار سے آیت : أَتَتَّخِذُنا هُزُواً ؟ قالَ : أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجاهِلِينَ [ البقرة/ 67] میں ھزوا کو جہالت قرار دیا گیا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١١١) اور اگر ہم ان منکریں کے پاس ان کے مطالبہ کے مطابق فرشتوں کو بھیج دیتے اور قبروں سے مردے نکل کر ان سے کہنے لگتے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں اور قرآن حکیم کلام ربی ہے اور ہم تمام چرندوں اور پرندوں کو ان کے سامنے لا کر کھڑا کردیتے اور جس بات کے یہ منکر ہیں اس کی سچائی کی گواہی دیتے مگر اس کے باوجود بھی یہ لوگ ایمان نہ لاتے، ماسوا یہ کہ اللہ تعالیٰ چاہتا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١١١ (وَلَوْاَنَّنَا نَزَّلْنَآ اِلَیْہِمُ الْمَلآءِکَۃَ ) یعنی ہم ان کے مطالبے کے مطابق ایک فرشتہ تو کیا فرشتوں کی فوجیں اتار سکتے ہیں ‘ ان فرشتوں کو آسمان سے اترتے ہوئے دکھا سکتے ہیں ‘ لیکن اگر ہم واقعتاً فرشتے اتار بھی دیتے اور ان کو دکھا بھی دیتے ۔۔ (وَکَلَّمَہُمُ الْمَوْتٰی وَحَشَرْنَا عَلَیْہِمْ کُلَّ شَیْءٍ قُبُلاً ) (مَّا کَانُوْا لِیُؤْمِنُوْٓا اِلَّآ اَنْ یَّشَآء اللّٰہُ ) اگر اللہ چاہے اور اگر کسی کے اندر حق کی طلب ہو تو اللہ تعالیٰ معجزوں کے بغیر بھی ایسے لوگوں کی آنکھیں کھول دیتا ہے۔ جو لوگ بھی محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لائے تھے وہ معجزے دیکھ کر تو نہیں لائے تھے۔ وہ طالبانِ حق تھے لہٰذا انہیں حق مل گیا۔ (وَلٰکِنَّ اَکْثَرَہُمْ یَجْہَلُوْنَ ۔ ) ۔ یہاں جاہل سے مراد جذباتی لوگ ہیں ‘ جو عقل سے کام نہیں لیتے بلکہ اپنے جذبات کے آلہ کار بن جاتے ہیں۔ اگلی آیت فلسفۂ دعوت و تحریک کے اعتبار سے بہت اہم ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

78. The people under discussion are so perverse that they do not prefer to embrace the Truth in preference to falsehood by rightly exercising their choice and volition. The only way that is left for them to become lovers of the Truth is, therefore, that by His overpowering will God should render them truth-loving not by their choice and volition, but by metamorphizing their very nature. Such a course, however, goes against the wisdom which underlies the creation of man. Hence it is futile to expect God to intervene in the matter and to force those people to believe by the exercise of His will.

سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :78 یعنی یہ لوگ اپنے اختیار و انتخاب سے تو حق کو باطل کے مقابلہ میں ترجیح دے کر قبول کرنے والے ہیں نہیں ۔ اب ان کے حق پرست بننے کی صرف ایک ہی صورت باقی ہے اور وہ یہ کہ عمل تخلیق و تکوین سے جس طرح تمام بے اختیار مخلوقات کو حق پرست پیدا کیا گیا ہے اسی طرح انہیں بھی بے اختیار کر کے جِبلّی و پیدائشی حق پرست بنا ڈالا جائے ۔ مگر یہ اس حکمت کے خلاف ہے جس کے تحت اللہ نے انسان کو پیدا کیا ہے ۔ لہٰذا تمہارا یہ توقع کرنا فضول ہے کہ اللہ تعالیٰ براہ راست اپنی تکوینی مداخلت سے ان کو مومن بنائے گا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

49: یہ وہ باتیں ہیں جن کی وہ فرمائش کیا کرتے تھے۔ سورۃ فرقان ( آیت نمبر 21) میں ان کا یہ مطالبہ مذکور ہے کہ ہمارے اوپر فرشتے کیوں نازل نہیں کئے گئے؟ اور سورۂ دخان (آیت نمبر ۳۶) میں یہ مطالبہ کہ ہمارے باپ دادوں کو زندہ کرکے ہمارے سامنے لاؤ۔ 50: یعنی حقیقت تو یہ ہے کہ تمام معجزات کو دیکھ کر بھی یہ ایمان لانے والے نہیں ہیں۔ پھر بھی جو مطالبات کر رہے ہیں، وہ محض جہالت پر مبنی ہیں۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

اوپر کی آیتوں کے سلسلہ میں فرمایا کہ اگر ان مشرکوں کے روبرو فرشتے مرے ہوئے مردے اور جہاں بھر کی ہر ایک چیز اللہ کے رسول اور اللہ کے کلام کی گواہی دیوے تو بھی جب تک اللہ نہ چاہے اس وقت تک یہ لوگ راہ راست پر نہ آویں گے لیکن اللہ یہ نہیں چاہتا کہ اپنے علم ازلی کے برخلاف کسی کو مجبور کر کے راہ راست پر لادے اس لیے ایسے لوگوں کی قسما قسمی پر مسلمانوں کے معجزہ کی خواہش ایک انجان پنے کی خواہش ہے جو مسلمانوں کے حق میں مناسب نہیں ہے بلکہ ان کے حق میں یہ مناسب ہے کہ وہ ایسے انجان معاملہ کو اللہ کی مرضی پر چھوڑ دیں اس کے علم ازلی کے موافق جو مناسب ہوگا وہ وقت مقررہ پر خود ظہور میں آجاوے گا۔ اللہ سچا ہے اللہ کا کلام سچا ہے اس کے علم ازلی لیں جو اہل مکہ دوزخی ٹھہر چکے تھے وہ فتح مکہ تک شرک کی حالت میں مرگئے اور جو لوگ راہ راست پر آنے والے تھے فقط فتح مکہ نے ان کو بڑے سے بڑے معجزہ کا اثر دکھایا جس سے وہ سب تابع اسلام ہوگئے ان آیتوں میں قرآن شریف کا ایک بڑا یہ معجزہ ہے کہ اہل مکہ کا جو حال اللہ تعالیٰ نے ان آیتوں میں فرمایا تھا آخر کو کچھ عرصہ کے بعد ویسا ہی ظہور ہوا جس لوگوں کا راہ راست پر آنا اللہ تعالیٰ کے علم میں اور اس علم کے موافق اس کے ارادہ ازلی میں ٹھہر چکا تھا وہی لوگ اہل مکہ میں سے راہ راست پر آئے اور باقی کے لوگ اسی گمراہی کی حالت میں دنیا سے اٹھ گئے صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے عبداللہ بن مسعود (رض) کی حدیث گذر چکی ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ ایک سو بیس دن کے عرصہ میں جب بچہ کا پتلا ماں کے پیٹ میں تیار ہوجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے علم ازلی کے موافق فرشتہ یہ لکھ لیتا ہے کہ بڑا ہو کر یہ بچہ نیک ہوگا یا بد اس کے بعد اس پتلے میں روح پھونکی جاتی ہے اسی طرح صحیح بخاری ومسلم میں حضرت علی (رض) کی حدیث ہے جس کے ایک ٹکڑے کا حاصل یہ ہے کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے علم ازلی میں نیک ٹھہر چکے ہیں ان کے دل میں ہمیشہ نیک کا موں کا ارادہ اللہ کی طرف سے پیدا ہوتا رہتا ہے جس سے ہر ایک نیکی کام کا کرنا ان کو آسمان ہوجاتا ہے اور جو لوگ اللہ تعالیٰ کے علم میں بدٹھہر چکے ہیں انکا دل نیک کام کی طرف مائل نہیں ہوتا اس واسطے اللہ تعالیٰ کی جانب سے ان کے دل میں نیک کاموں کا ارادہ پیدا نہیں ہوتا جس سے ایسے لوگ ہمیشہ بدکاموں میں لگے رہتے ہیں۔ یہ حدیثیں اس آیت اور اس سے اوپر کی آیتوں کی گویا تفسیر ہیں کیونکہ آیتوں اور حدیثوں کو ملا کر یہ مطلب ہوا کہ اہل مکہ میں سے جو لوگ عمر بھر کفر میں سرگردان رہے اور پھر اسی حالت پر مرگئے نہ قرآن کی نصیحت نے ان کے دل میں کچھ اثر پیدا کیا نہ معراج اور شق القمر جیسے معجزات کو انہوں نے عبرت کی نگاہ سے دیکھا یہ وہی لوگ تھے جو اللہ تعالیٰ کے علم کے موافق ماں کے پیٹ میں بد لکھے گئے تھے جس کے سبب سے عمر پھر اسلام کی طرح انکا دل مائل نہیں ہوا اسی واسطے ان آیتوں میں فرمایا کہ فرشتے مرے ہوئے مردے اور جہاں بھر کی سب چیزیں ان کے روبر اور اللہ کے رسول اور اللہ کے کلام کے سچے ہونے کی گواہی دیویں جب بھی اللہ تعالیٰ کے علم کے برخلاف ان لوگوں کی قسموں کا کچھ ظہور نہ ہوگا نُقَلِّبُ اَنْئِدَ تَھُمْ وَاَبْصَارَ ھُمْ ۔ اس کا مطلب وہی ہے جو حضرت علی (رض) کی حدیث میں گذرا کہ یہ لوگ علم الٰہی میں بدٹھہر چکے ہیں اس لیے جو معجزات یہ لوگ چاہتے ہیں وہ اوپر کے دل سے ہیں ان معجزات کے دیکھنے کے بعد بھی ان کا دل حق بات کی طرف مائل ہوگا نہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے کوئی نیک ارادہ ان کے جی میں پیدا ہوگا اس واسطے حق بات کی طرف سے انکا دل جیسا پھرا ہوا تھا ویسا ہی رہے گا اور ان کی آنکھوں پر ان معجزات کے دیکھنے کے بعد بھی وہی پرد اپڑا رہے گا جو معراج اور شق القمر کے بعد تھا :۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(6:111) حشرنا۔ ہم نے اکٹھا کیا۔ ہم نے جمع کیا ۔ الحشر (نصر) کے معنی ۔ لوگوں کو ان کے ٹھکانے سے مجبور کرکے نکال کر لڑائی کی طرف لیجانے کے ہیں۔ ایک روایت میں ہے النساء لا یحشرون عورتوں کو جنگ کے لئے نہ نکالا جائے۔ اور یہ انسان اور غیر انسان سب کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں ہے واذا الوحوش حشرت (81:5) اور جب وحشی جانور اکٹھے کئے جائیں گے قیامت کے دن کو بھی یوم الحشر کہا جاتا ہے کہ سب کو اس روز اکٹھا کیا جائے گا۔ قبلا۔ جمع قبیل واحد۔ جماعت درجمات۔ گروہ درگروہ۔ بعض کے نزدیک قابل کی جمع ۔ یعنی آنکھوں کے سامنے۔ آگے۔ یجھلون۔ مضارع جمع مذکر غائب۔ جھل۔ جھالۃ مصدر (باب سمع) وہ انہیں جانتے ۔ وہ جاہل ہیں۔ وہ جہالت کرتے ہیں۔ جہالت کی باتیں کرتے ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 اوپر آیت وما یشعر کم انھا اذا جات لایو منو ن الخ میں جو مجملا بیان ہوا ہے یہاں اسی کی تفصیل ہے (رازی) یعنی اگر ہم نے کے تمام مطالبات پورے کردیں جیسے فرشتوں کو نازل کرنا اور مردوں کا کلام کرنا وغیرہ بلک مزید بر آں ہر چیز گروہ در گروہ یا آمنے سامنے لاکھڑی کردیں تو پھر بھی یہ ایمان نہیں لائیں گے،2 کہ ہر چیز اللہ تعالیٰ کی قضا وقدر کے ساتھ ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

5۔ لیومنن بھا میں کفار کے قول کی نقل کی ہے اور انما الاٰیات عنداللہ میں ان کا جواب ہے اور وما یشعرکم سے آخر تک مسلمانوں کو فہمائش ہے اور خطاب ہے جواب کا حاصل یہ ہوا کہ رسول مدعی نبوت ہیں اور آیات فارقہ اس دعوی کی دلیل ہے اور مدعی کے ذمہ حسب تصفیہ عقلیہ مطلق دلیل کا قائم کرنا ضروری ہے تعیین کسی خاص آیات جدیدہ کے طلب کا کوئی حق نہ تھا ہاں دلائل قائم کردہ پر جرح وقدح کریں تو اس کا جواب اصالة یانیابة مدعی کے ذمہ ہے جس کے لیے ہر مدعی حقانیت اسلام اب بھی آمادہ ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : منکرین حق کے لایعنی مطالبات کا دوسرا جواب اور ان کی حیثیت۔ جیسا کہ پہلی آیات کی تفسیر میں عرض کیا جا چکا ہے کہ منکرین حق رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو لاجواب اور مسلمانوں کو پھسلانے کے لیے مختلف ہتھکنڈے استعمال کرتے اور مطالبات کرتے رہتے تھے۔ اس کے جواب میں فرمایا گیا کہ دلائل اور معجزات تو بہت آچکے لیکن یہ لوگ اپنی باغیانہ فطرت کی وجہ سے انھیں تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ اب اسی بات کو کھول کر یوں بیان کیا گیا ہے کہ اگر ہم آسمان سے ملائکہ نازل کریں اور وہ آواز پر آواز دیں کہ لوگو یہ رسول سچا ہے اور پھر مردوں کو قبروں سے اٹھا کر ان کے سامنے لا کھڑا کیا جائے اور وہ دہائی دیتے ہوئے کہیں کہ واقعی ہمارے مرنے کے بعد ہم سے اللہ، اس کے رسول اور ہمارے اعمال کے بارے میں سوال ہوا لیکن ہم ٹھیک ٹھیک جواب نہ دے سکے جس کی وجہ سے ہمیں اذیت ناک عذاب میں مبتلا رکھا گیا ہے جس کا تم تصور بھی نہیں کرسکتے۔ اسی طرح ان کا ہر مطالبہ تسلیم کیا جائے تو پھر بھی یہ بدفطرت لوگ کبھی اللہ کی توحید کا اقرار اس کے رسول پر سچا اعتقاد اور آخرت کی جو ابد ہی پر ایمان نہیں لائیں گے کیونکہ ان کی اکثریت جہلا پر مشتمل ہے سوائے ان لوگوں کے جن کا ایمان لانا اللہ کی مشیت میں لکھا ہوا ہے۔ یاد رہے منکرین حق کے ان مطالبات سے پہلے ایسے معجزات آچکے تھے جن کی حقیقت کو یہ اچھی طرح جان چکے تھے پھر نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اپنی سچائی کی تائید کے لیے یہ کہہ کر اپنے ماضی کا حوالہ پیش کرنا کہ میں نے تم میں چالیس سال کا طویل عرصہ گزارا ہے کیا تمہیں میری دیانت و امانت اور حق و صداقت پر کوئی شبہ ہے ؟ جس کے جواب میں منکرین حق نے بیک زبان اقرار کیا تھا۔ (مَا جَرَّبْنَا عَلَیْکَ إِلاَّ صِدْقًا) ” ہم نے آپ کو ہمیشہ سچا پایا ہے “ قرآن مجید کے بارے میں بار بار چیلنج دیا گیا کہ اگر تمہارے الزام میں کوئی حقیقت ہے کہ یہ نبی اپنی طرف سے قرآن بنا کر پیش کرتا ہے تو سب مل کر کوئی ایک سورة ہی بنا لاؤ۔ جس کا جواب کفار نہ دے سکے اور نہ قیام قیامت تک کوئی دے سکے گا۔ اس کے ساتھ ہی ان کے سامنے چاند دو ٹکڑے ہوا پتھروں نے رحمت دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کی شہادت دی اور آپ کی بیان کی ہوئی ایک ایک پیشگوئی سچ ثابت ہوئی۔ ان معجزات اور نشانیوں سے بڑھ کر کون سی نشانی اور معجزات ہوسکتے تھے جس کا وہ لوگ مطالبہ کرتے تھے۔ اس وجہ سے یہ جواب دیا گیا کہ ان کی ہر بات مان لی جائے پھر بھی یہ ایمان نہیں لائیں گے۔ ایسا اس لیے ہے کہ ان کی جہالت ان پر غالب آچکی ہے۔ یہاں جہالت سے مراد ان پڑھ نہیں بلکہ اکھڑ مزاجی اور ہٹ دھرمی ہے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ ہر طرح کے دلائل اور معجزات نازل کرنے پر قادر ہے۔ ٢۔ کافر عناد اور قساوت قلبی کی وجہ سے ایمان نہیں لاتے۔ ٣۔ لوگوں کی اکثریت جاہل ہوتی ہے۔ ٤۔ جہالت انسان کو کفر و شرک پر آمادہ رکھتی ہے۔ ٥۔ جہالت سے اللہ کی پناہ مانگنی چاہیے۔ تفسیر بالقرآن لوگوں کی اکثریت جاہل اور گمراہ ہوتی ہے : ١۔ اگر ہم منکرین کے سامنے ہر چیزکو اکٹھا کردیتے تب بھی وہ ایمان نہ لاتے کیونکہ اکثر ان میں جاہل ہیں۔ (الانعام : ١١١) ٢۔ کیا زمین و آسمان کی تخلیق مشکل ہے یا انسان کی پیدائش مگر اکثر لوگ جاہل ہیں۔ (الفاطر : ٥٧) ٣۔ یہ دین صاف اور سیدھا ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔ (یوسف : ٤٠) ٤۔ اللہ اپنے امر پر غالب ہے لیکن لوگ نہیں جانتے۔ (یوسف : ٢١) ٥۔ اللہ اپنے وعدہ کی خلاف ورزی نہیں کرتا لیکن اکثر لوگ جاہل ہیں۔ (الروم : ٦) ٦۔ وہ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھتے ہیں اور ان کی اکثریت بےعقل ہے۔ (المائدۃ : ١٠٣) ٧۔ قیامت کا علم اللہ تعالیٰ کو ہے لیکن لوگوں کی اکثریت بےعلم ہے۔ (الاعراف : ١٨٧)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

پارہ نمبر ٨ ایک نظر میں : اس پارے کے دو حصے ہیں ۔ پہلے حصے میں سورة الانعام کا باقی حصہ ہے ‘ جس کا پہلا حصے ہیں ۔ پہلے حصے میں سورة الانعام کا باقی حصہ ہے ‘ جس پہلا حصہ ساتویں پارے میں تھا۔ دوسرا حصہ سورة اعراف پر مشتمل ہے ۔ سورة انعام کا تعارف ہم نے ساتویں پارے میں کرا دیا تھا ۔ ہم چاہتے ہیں کہ اس تعارف کا ایک حصہ قارئین کی یاد تازہ کرنے کے لئے یہاں بھی ذکر کریں ۔ رہی سورة اعراف تو اس کے آغاز میں اس کا مکمل تعارف دے دیا جائے گا ‘ انشاء اللہ تعالیٰ ! سورة انعام کا یہ حصہ بھی اسی پیٹرن (PAttern) پر آگے بڑھتا ہے جس کی وضاحت ہم نے سورة انعام کے آغاز میں کردی تھی ‘ یعنی ساتویں پارے میں ۔ یہاں چند فقروں میں مختصر اشارات کافی ہوں گے ۔ اس سورة کے تعارف میں ساتویں پارے میں یہ فقرے اس قابل ہیں کہ انہیں ذہن میں تازہ کیا جائے ۔ ” یہ سورة مجموعی لحاظ سے حقیقت الوہیت سے بحث کرتی ہے ۔ اس پوری کائنات کے دائرے میں بھی اور انسانی زندگی کے دائرے میں بھی۔ انسانی نفس اور ضمیر کے دائرے میں بھی اور اس دکھائی دینے والی کائنات کے نامعلوم رازوں کے دائرے میں بھی اور عالم غیب کے نامعلوم رازوں کے دائرے کے اندر بھی تصور حاکمیت الہیہ کو پیش کرتی ہے اور گزرنے والوں کی باہمی کشمکش اور ان کی جگہ لینے والوں کی جانشینی میں بھی حاکمیت الہیہ کے کچھ رنگ دکھاتی ہے ۔ غرض اس کائنات پر نظر ڈالتے ہوئے مشاہد فطرت میں اللہ کی حاکمیت ‘ دنیا میں ہونے والے بڑے بڑے واقعات میں اللہ کی حاکمیت ‘ دنیا کی خوشحالی اور بدحالی میں اللہ کی حاکمیت اس سورة کا موضوع ہے ۔ قدرت الہیہ کے مختلف مظاہر ومشاہد میں اللہ کی حاکمیت ‘ انسان کی زندگی کے اوپر اللہ کی ظاہری اور باطنی گرفت میں اللہ کی حاکمیت دنیا میں رونما ہونے والے واقعات اور متوقع حوادث میں اور سب سے آخر میں قیامت کے مناظر اور خصوصا اس منظر میں اللہ کی حاکمیت جس میں سب لوگ بارگاہ الہی میں کھڑے ہونگے ۔ “ ” اس طرح یہ سورة قلب انسانی کو لے کر مختلف ابعاد وآفاق تک لے جاتی ہے اور ان کے نشیب و فراز کی سیر کراتی ہے ‘ لیکن پوری سورة میں قرآن کریم کا مکی انداز برقرار ہے جس کے اسلوب کے بارے میں ہم گزشتہ صفحات میں بیان کر آئے ہیں ۔ مکی اسلوب کے ساتھ ساتھ پورے قرآن کا انداز کلام بھی اس سورة میں اپنے اعلیٰ معیار رکھنے کے لئے کوئی بحث مطلوب ہو ۔ بلکہ سیدھے سادے انداز میں یہ سورة رب العالمین کا تعارف لوگوں سے کراتی ہے ‘ تاکہ لوگ اپنے سچے رب کی بندگی اور غلامی کریں ۔ ان کا ضمیر اور ان کی روح اللہ کی غلام ہوجائے ‘ ان کی جدوجہد اور ان کی تمام مساعی اللہ کی تابعداری میں ہوں ‘ ان کے رسوم و رواج اللہ کے رنگ میں ہوں ‘ اور ان کی زندگی کی پوری صورت حال اللہ وحدہ کی حاکمیت کے تحت ہو ‘ جس کے سوا زمین و آسمان میں کسی اور کی حاکمیت نہیں ہے ۔ “ ” یوں نظر آتا ہے کہ یہ سورة اول سے آخر تک ایک متعین نصب العین کی طرف بڑھ رہی ہے ۔ یہ کہ اللہ تعالیٰ ہی خالق ہے ‘ وہی مالک ہے ‘ وہی قدرتوں والا ہے ‘ اور وہی بادشاہ اور قہار ہے ۔ وہی پوشیدہ چیزوں اور غیب کا جاننے والا ہے ۔ وہ جس طرح رات ودن کو گردش دے رہا ہے ‘ اسی طرح وہ دلوں اور دماغوں کا بھی پھیرنے والا ہے اس لئے اس کو تمام لوگوں کی زندگیوں پر حاکم ہونا چاہئے ۔ لوگوں کی زندگیوں میں امر ونہی کا اختیار صرف اسی کو ہونا چاہئے ۔ کوئی حکم اور کوئی قانون اس کے حکم اور قانون کے سوا نہ ہوگا ۔ حلال و حرام کے تعین کا اختیار بھی صرف اسی کو ہے ‘ اس لئے کہ یہ تمام امور اللہ کی الوہیت کے عناصر ترکیبی ہیں ‘ لہذا لوگوں کی زندگیوں میں ان کے بارے میں تصرف صرف اللہ کرسکتا ہے ۔ اس کے سوا نہ کوئی خالق ہے ‘ نہ کوئی رازق ہے ‘ نہ زندہ کرنے والا ہے اور نہ مارنے والا ہے ‘ نہ نفع دینے والا ہے اور نہ نقصان دینے والا ہے ‘ نہ کوئی داتا ہے اور نہ کوئی مانع ہے ۔ غرض نہ اللہ کے سوا کوئی بھی کسی کے لئے یا اپنے لئے نفع ونقصان دینے والا ہے ‘ نہ کوئی داتا ہے اور نہ کوئی مانع ہے ۔ غرض نہ اللہ کے سوا کوئی بھی کسی کے لئے یا اپنے لئے نفع ونقصان کا مالک ہو سکتا ہے ‘ نہ دنیا میں اور نہ آخرت میں۔ اس سورة میں اول سے آخر تک اس مقصد کے لئے دلائل و شواہد پیش کئے گئے ہیں اور یہ دلائل ان مشاہدات ‘ مؤثرات اور قدرتی مواقف کے ذریعے فراہم ہوئے ہیں جو اس کائنات میں موجود ہیں اور فکر ونظر کو مسحور کرنے والے ہیں ۔ اور ان مناظر فطرت کے اس مطالعے سے دل پر ہر طرف سا اشارات ومؤثرات ہر دروازے اور ہر پہلو سے متوجہ ہوتے ہیں اور اثر انداز ہوتے ہیں۔ وہ سب سے بڑا مسئلہ جس پر یہ سورة زور دے رہی ہے ‘ وہ زمین وآسمانوں کے اندر اللہ کی الوہیت اور حاکمیت کا مسئلہ ہے ‘ زمین و آسمان کے وسیع دائرے میں اور کائنات کے وسیع و عریض میدان میں تصور حاکمیت الہیہ کا مسئلہ ۔ یہ سورة اسی مسئلے کو پیش کرتی ہے لیکن اطلاقی انداز اور بات کی مناسبت یہ ہے کہ جاہلیت کے پیروکار بعض ذبیحوں اور بعض کھانوں کے معاملے میں حلال و حرام کے اختیارات اللہ کے سوا دوسروں کو دیتے تھے ۔ اسی طرح نذر کے معاملے میں بعض قربانیوں ‘ بعض پھلوں اور بعض بچوں کے ملنے میں جاہلیت کے پرستار اللہ کے سوا دوسرے الہوں کو اختیارات دیتے تھے ۔ اس مناسبت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اس پوری کائنات کے اندر نظریہ حاکمیت الہیہ یہاں تفصیل کے ساتھ بیان کیا اور اسی مناسبت کی طرف سورة کی آخری آیات کے اندر اشارے کئے گئے ہیں۔ (پھر اگر تم اللہ کی آیات پر ایمان رکھتے ہو ‘ تو جس جانور پر اللہ کا نام لیا گیا ہو ‘ اس کا گوشت کھاؤ ۔ آخر کیا وجہ ہے کہ تم وہ چیز نہ کھاؤ جس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو ‘ حالانکہ جن چیزوں کا استعمال حالت اضطرار کے سوا دوسری تمام حالتوں میں اللہ نے حرام کردیا ہے ان کی تفصیل وہ تمہیں بتا چکا ہے ۔ بکثرت لوگوں کا حال یہ ہے کہ علم کے بغیر محض اپنی خواہشات کی بنا پر گمراہ کن باتیں کرتے ہیں ‘ ان حد سے گزرنے والوں کو تمہارا رب خوب جانتا ہے ۔ تم کھلے گناہوں سے بھی بچو اور چھپے گناہوں سے بھی ۔ جو لوگ گناہ کا اکتساب کرتے ہیں وہ اپنی اس کمائی کا بدلہ پاکر رہیں گے ۔ اور جس جانور کو اللہ کا نام لے کر ذبح نہ کیا گیا ہو ‘ اس کا گوشت نہ کھاؤ ‘ ایسا کرنا فسق ہے ۔ شیاطین اپنے ساتھیوں کے دلوں میں شکوک و اعتراضات القا کرتے ہیں تاکہ وہ تم سے جھگڑا کریں ۔ لیکن اگر تم نے ان کی اطاعت قبول کرلی تو یقینا تم مشرک ہو گے ۔ (٦ : ١١٨۔ ١٢١) (اور ان لوگوں نے اللہ کے لئے خود اس کی پیدا کی ہوئی کھیتوں اور مویشیوں میں سے ایک حصہ مقرر کیا ہے ‘ اور کہتے ہیں یہ اللہ کیلئے ہے بزعم خود ‘ اور یہ ہمارے ٹھہرائے ہوئے شریکوں کے لئے ہے ۔ پھر جو حصہ ان کے ٹھہرائے ہوئے شریکوں کے لئے ہے وہ تو اللہ کو نہیں پہنچتا مگر جو اللہ کے لئے ہے وہ ان کے شریکوں کو پہنچ جاتا ہے کیسے برے فیصلے کرتے ہیں یہ لوگ ۔ اور اسی طرح بہت سے مشرکوں کے لئے ان کے شریکوں نے اولاد کے قتل کو خوشنما بنایا ہے تاکہ ان کو ہلاکت میں مبتلا کریں اور ان پر ان کے دین کو مشتبہ بنا دیں ۔ اگر اللہ چاہتا تو یہ ایسا نہ کرتے ‘ لہذا انہیں چھوڑ دو کہ یہ اپنی افترا پردازیوں میں لگے رہیں ۔ کہتے ہیں یہ جانور اور یہ کھیت محفوظ ہیں ۔ انہیں صرف وہی لوگ کھا سکتے ہیں جنہیں ہم کھلانا چاہیں حالانکہ یہ پابندی ان کی خود ساختہ ہے ۔ پھر کچھ جانور ہیں جن پر سواری اور بار برداری حرام کردی گئی ہے اور کچھ جانور ہیں جن پر اللہ کا نام نہیں لیتے اور یہ سب کچھ انہوں نے اللہ پر افتراء کیا ہے ۔ عنقریب اللہ انہیں ان کی افتراء پر دازیوں کا بدلہ دے گا اور کہتے ہیں کہ جو کچھ ان جانوروں کے پیٹ میں ہے یہ ہمارے مردوں کیلئے مخصوص ہے اور ہماری عورتوں پر حرام ‘ لیکن اگر وہ مردہ ہوں تو دونوں اس کھانے میں شریک ہو سکتے ہیں ۔ یہ باتیں جو انہوں نے گھڑ لی ہیں ان کا بدلہ اللہ انہیں دے کر رہے گا ۔ یقینا وہ حکیم ہے اور سب باتوں کی اسے خبر ہے ۔ یقینا خسارے میں پڑگئے وہ لوگ جنہوں نے اپنی اولاد کو جہالت اور نادانی کی وجہ سے قتل کیا اور اللہ کے دیئے ہوئے رزق کو اللہ پر افتراء پردازی کر کے حرام ٹھہرا لیا ۔ یقینا وہ بھٹک گئے اور ہر گز وہ راہ راست پانے والوں میں سے نہ تھے ۔ (٦ : ١٣٦۔ تا ١٤٠) ” امت مسلمہ کی زندگی میں یہ ایک عملی پہلو تھا جس کی مناسبت سے اس سورة میں اس عظیم مسئلہ کو لیا گیا ۔ اس دور میں امت مسلمہ کے ماحول پر بھی جاہلیت چھائی ہوئی تھی ۔ قانون سازی اور حلال و حرام کے تعین کے معاملے میں جو شرکیہ عقائد موجود تھے ان کی اصلاح کے حوالے سے یہاں اللہ کی الوہیت ‘ اللہ کی حاکمیت اور تمام انسانوں کی بندگی اور عبودیت کے مسائل کو لیا گیا ۔ چناچہ جس طرح تمام مکی قرآن میں اس مسئلے کو لیا گیا ہے اسی طرح اس سورة میں بھی اس مسئلے کو بڑی تفصیل سے لیا گیا ہے اور مدنی آیات میں جہاں حلال و حرام اور حق قانون سازی کا بیان آتا ہے وہاں بھی مسئلہ حاکمیت الہیہ کو لیا جاتا ہے ۔ “ ” اس سیاق کلام میں جن موثر ہدایات اور فیصلوں اور قرار دادوں کا سیلاب امنڈتا چلا آ رہا ہے اور جن جانوروں نذروں اور ذبیحوں کے بارے میں مشرکین کی جو تردید کی جارہی ہے ‘ اسی حوالے سے یہاں اللہ کے مسئلہ الوہیت اور اللہ کے حق قانون سازی کو بھی بیان کیا جارہا ہے ۔ بتایا جاتا ہے کہ حلال و حرام کی اس قانون سازی کا تعلق اسلامی عقائد اور اسلامی نظریات کے ساتھ ہے ‘ اور وہ نظریہ ‘ حاکمیت الہیہ اور انسانوں کی بندگی اور غلامی کا ہے ۔ یہ مسئلہ کوئی معمولی مسئلہ نہیں ہے ‘ یہ اسلام اور کفر اور اسلام اور جاہلیت کا مسئلہ ہے ۔ ہدایات کے اس سیلاب میں سے ہم یہاں اس سورة کے تعارف میں صرف چند نمونے پیش کریں گے لیکن ان کی مکمل تفصیلات اس وقت آئیں گی جب ہم سورة کی آیات تفصیلی بحث کریں گے ۔ اپنے اثرات کے اعتبار سے یہ سیلاب نفس انسانی کے اندر اس دین کے مزاج کی حقیقی ماہیت بٹھا دیتا ہے ۔ وہ یہ کہ انسانی زندگی کا چھوٹا مسئلہ ہو یا بڑا اللہ کے حق حاکمیت کے تحت حل ہونا چاہئے اور اللہ کی حاکمیت اسلامی شریعت کی صورت میں ریکارڈ شدہ ہے ۔ اگر اس طرح نہ ہوگا تو پھر یہ تصور ہوگا کہ ایسے یا معاشرہ دین سے خارج ہے ‘ یا ایک جزوی مسئلے یا اس معمولی مسئلے کی حدتک انسان دین سے نکل گیا ہے ۔ ” اور یہ کثرت ہدایات اس بات کو بھی ظاہر کرتی ہے کہ دین انسانی زندگی کے تمام مظاہر سے اور زندگی کے تمام معاملات سے انسانوں کی حاکمیت کو ختم کرتا ہے ۔ یہ معاملات اہم ہوں یا غیر اہم ‘ بڑے ہوں یا چھوٹے ان کو اس عظیم اصول کے دائرے کے اندر لاتا ہے ۔ یعنی یہ کہ اللہ کی الوہیت کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس پورے کرہ ارض پر حاکم مطلق ہے ‘ بلاشرکت غیرے اس کائنات کے اوپر متصرف ہے اور یہ اصول دین اسلام کے اندر پوری طرح ظاہر اور مجسم ہے ۔ “ درج بالااقتباسات میں جس صورت حالات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے وہ امت مسلمہ کی زندگی میں موجود تھی اور امت کے اردگرد جاہلیت بھی موجود تھی جس کی اصلاح یہ سورة مذکورہ بالاانداز میں کررہی تھی ۔ اس پارے میں سورة انعام کے جس حصے کی بابت ہم بات کریں گے یہ حصہ اسی صورت حالات سے متعلق ہے جبکہ سورة انعام کا جو حصہ گزشتہ پارے میں گزر گیا ہے اس کا موضوع بھی مسئلہ الوہیت ‘ حاکمیت اور انسانوں کی بندگی تھا ‘ لیکن یہ مسئلہ وہاں عمومی طور پر لیا گیا تھا ۔ اب سیاق کلام یہاں مخصوص جاہلی رسوم کی شکل میں اسی مسئلہ الوہیت اور عبودیت کو لے رہا ہے اور دونوں کے درمیان ربط واضح ہے ‘ ایک جگہ اصول عام ہے اور دوسری جگہ اس کی مثال ہے ۔ اس پارے میں اب متعدد اور بیشمار مثالوں کو لے کر بعض جاہلی رسوم کو لیا گیا ہے ‘ کہ اہل جاہلیت نے بعض کھانوں کو حرام قرار یدا تھا اور بعض کو جائز قرار دے دیا تھا ۔ جن کا تعلق نذر ونیاز ‘ بعض پھلوں اور بعض بچوں سے تھا اس حوالے سے نہایت ہی موثر اور متعدد فیصلے کئے گئے ۔ ان فیصلوں کا ربط بعض حقائق اور اصولوں کے ساتھ ہے جو اس دین کی اساس ہیں۔ ان قواعد اور اصولوں کے بڑے بڑے اختلافات اور نتائج کو بھی پیش کیا گیا ہے ‘ ان تمام باتوں سے واضح ہوتا ہے کہ دین اسلام اس بات کو نہایت ہی زیادہ اہمیت دیتا ہے کہ انسان کی زندگی جاہلیت سے مکمل طور پر خالی ہو ‘ اور پوری کی پوری اسلام میں داخل ہو یعنی اللہ کی حاکمیت کے نیچے آجائے ۔ اس پارے کا آغاز بطور تمہید اس بات سے کیا جاتا ہے کہ اللہ کی مشیت تمام بندوں کو گھیرے ہوئے ہے ۔ جنوں کو بھی اور انسانوں کو بھی اور تمام جہانوں کے واقعات اللہ کی تقدیر اور مشیت کے مطابق رونما ہوتے ہیں ۔ انسانوں اور جنوں میں سے جو لوگ شیطان ہیں ‘ رسولوں کے دشمن ہیں ۔ انہیں اللہ تعالیٰ مہلت دیتا ہے ‘ ڈھیل دیتا ہے تاکہ وہ جن برائیوں کا ارتکاب کرنا چاہتے ہیں ‘ کرلیں ۔ اگر اللہ چاہتا تو انہیں مجبور کرکے ہدایت دے دیتا اور انہیں گمراہی سے روک دیتا ہے یا انہیں ہدایت دے دیتا اور راہ حق پر انہیں شرح صدر حاصل ہوجاتی یا انہیں اس بات سے روک دیتا کہ وہ رسولوں کو اذیت دیں ‘ مومنین کو تنگ کریں اور ان کے ہاتھ ہی رسولوں اور مومنین تک نہ پہنچ سکتے ۔ اس لئے کہ وہ جن برائیوں کا ارتکاب کرتے ہیں اور رسولوں کو اذیت دیتے ہیں تو یہ اللہ کی مشیت کے دائرے سے باہر نکل کر نہیں کرتے ‘ اللہ کی مشیت اور سلطنت کے اندر رہ کر وہ یہ کام کرتے ہیں ۔ یہ اللہ کی مشیت ہی ہے جس نے ان کو یہ سب کچھ کرنے کا اختیار دیا ہے کہ وہ چاہیں تو ہدایت کی راہ لیں اور چاہیں تو ضلالت کی راہ لیں ۔ وہ تو بہرحال اللہ کی قبضہ قدرت میں ہیں :” اور ہم نے تو اسی طرح شیطانوں انسانوں اور شیطان جنوں کو ہر نبی کا دشمن بنایا ہے جو ایک دوسرے پر خوش آئند باتیں دھوکے اور فریب کے طور پر القاء کرتے رہتے ہیں ۔ اگر تمہارے رب کی مشیت یہ ہوتی کہ وہ ایسا نہ کریں تو وہ کبھی نہ کرتے ‘ پس تم انہیں ان کے حال پر چھوڑ دو کہ اپنی افتراء پردازیاں کرتے رہیں اور جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ‘ ان کے دل اس دھوکے کی طرف مائل ہوں اور اس سے راضی ہوجائیں اور ان برائیوں کا اکتساب کریں جن کا اکتساب وہ کرنا چاہتے ہیں ۔ “ جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ انسانوں میں سے شیطان اور جنوں میں سے شیطان ‘ سنت الہی کے مطابق انبیاء رسل کے دشمن ہوں گے اور یہ کہ یہ شیاطین اپنی تمام کارستانیوں کے باوجود اللہ کے قبضہ قدرت میں ہیں ۔ اس لئے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس امر کو بہت ہی برا سمجھا کہ میں اللہ کے حکم بناؤں چاہے معاملہ چھوٹا ہو یا بڑا ہو ‘ اس لئے کھانے پینے کی ان چیزوں میں اللہ کے سوا کسی اور کے فیصلے کو ماننے کے معنی یہ ہیں کہ ہم تمام معاملات میں غیر اللہ کا حکم بنا رہے ہیں ۔ مطلب یہ ہوا کہ اللہ کے سوا میں کسی اور کی ربوبیت کا اقرار کیسے کرسکتا ہوں ۔ اس کے بعد یہ کہا جاتا ہے کہ اس کتاب اور اس شریعت کی صورت میں فیصلہ کن بات آگئی ہے اس لئے اللہ کی بات کے بعد کسی کی بات کا کیا موقعہ ہے اور اللہ کے حکم کے بعد کسی حکم کی ضرورت ہی کیا ہے ۔ ؟ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو متنبہ کردیا گیا کہ آپ اللہ کے دین کے معاملے میں کسی انسان کی اطاعت نہ کریں ۔ اس لئے کہ لوگ تو محض ظن وتخمین سے کام چلاتے ہیں اور ان کے پاس کوئی یقینی علم نہیں ہے ۔ اگر کسی نے ان کی اطاعت کی تو وہ اسے گمراہ کردیں گے ۔ اس بات کا علم صرف اللہ کو ہے کہ اسکے بندوں میں سے ہدایت یافتہ کون ہے اور گمراہ کون ہے ؟ یہ بات بطور تمہید یہ حکم دینے کے لئے کہی گئی کہ اگر تم مومن ہو تو ان جانوروں کو خوب کھاؤ جن پر اللہ کا نام لیا گیا ہو ‘ اور ان جانوروں کو نہ کھاؤ جن پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو ‘ اور اس بات سے ڈرایا گیا کہ تم حلال و حرام کے تین میں شیطان کے دوستوں کی بات ہر گز نہ مانو ۔ اگر تم ایسا کرو گے تو تم بھی انہیں کی طرح مشرکین میں سے ہو جاؤگے ۔ آخر میں پھر ان احکامات کا خاتمہ اس وضاحت پر ہوتا ہے کہ کفر کی حقیقت کیا ہے اور ایمان کی ماہیت کیا ہے ۔ اور وہ اسباب کیا ہیں جو ان کفار کو برائیوں کے ارتکاب پر مجبور ہیں۔ ذرا قرآن کے ان الفاظ پر غور کریں : ” پھر جب حال یہ ہے تو کیا میں اللہ کے سوا کوئی اور فیصلہ کرنے والا تلاش کروں ‘ حالانکہ اس نے پوری تفصیل کے ساتھ تمہاری طرف کتاب نازل کردی ہے ‘ اور جن لوگوں کو ہم نے تم سے پہلے کتاب دی تھی وہ جانتے تھے کہ یہ کتاب تمہارے رب ہی کی طرف سے حق کے ساتھ نازل ہوئی ہے لہذا تم شک کرنے والوں میں سے نہ ہو ۔ تمہارے رب کی بات سچائی اور انصاف کے اعتبار سے کامل ہے ‘ کوئی اس کے فرامین کو تبدیل کرنے والا نہیں ہے اور وہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے اور اے محمد اگر تم ان لوگوں کی اکثریت کے کہنے پر چلو جو زمین پر میں بستے ہیں تو وہ تمہیں اللہ کے راستے سے بھٹکا دیں گے ۔ وہ تو بس گمان پر چلتے اور قیاس آرائیاں کرتے ہیں ۔ درحقیقت تمہارا رب بہتر جانتا ہے کہ کون اس کے راستے سے ہٹا ہوا ہے اور کون سیدھی راہ پر ہے ۔ پھر اگر تم لوگ اللہ کی آیات پر ایمان رکھتے ہو تو جس جانور پر اللہ کا نام لیا گیا ہو اس کا گوشت کھاؤ ۔ آخر کیا وجہ ہے کہ تم وہ چیز نہ کھاؤ جس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو ‘ حالانکہ جن چیزوں کا استعمال حالت اضطرار کے سوا دوسری تمام حالتوں میں اللہ نے حرام کردیا ہے ان کی تفصیل وہ تمہیں بتا چکا ہے ۔ بکثرت لوگوں کا حال یہ ہے کہ علم کے بغیر محض اپنی خواہشات کی بناء پر گمراہ کن باتیں کرتے ہیں ‘ ان حد سے گزرنے والوں کو تمہارا رب خوب جانتا ہے ۔ تم کھلے گناہوں سے بھی بچو اور چھپنے والے گناہوں سے بھی ‘ جو لوگ گناہ کا اکتساب کرتے ہیں وہ اپنی کمائی کا بدلہ پاک کر رہیں گے اور جس جانور کو اللہ کا نام لے کر ذبح نہ کیا گیا ہو اس کا گوشت نہ کھاؤ ‘ ایسا کرنا فسق ہے ۔ شیاطین اپنے ساتھیوں کے دلوں میں شکوک و اعتراضات القاء کرتے ہیں تاکہ وہ تم سے جھگڑا کریں ۔ لیکن اگر تم نے ان کی اطاعت قبول کرلی تو یقینا تم مشرک ہو ۔ کیا وہ شخص جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اسے زندگی بخشی اور اس کو وہ روشنی عطا کی جس کے اجالے میں وہ لوگوں کے درمیان زندگی کی راہ طے کرتا ہے اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جو تاریکیوں میں پڑا ہوا ہو اور کسی طرح اس سے نہ نکلتا ہو۔ کافروں کے لئے تو اسی طرح ان کے اعمال خوشنما بنادیئے گئے ہیں اور اسی طرح ہم نے ہر بستی میں اس کے بڑے بڑے مجرموں کو لگا دیا ہے کہ وہاں اپنے مکروفریب کا جال پھیلائیں ۔ دراصل وہ اپنے فریب کے جال میں خود پھنسے ہیں مگر انہیں اس کا شعور نہیں ہے ۔ جب ان کے سامنے کوئی آیت آتی ہے تو وہ کہتے ہی ہم نہ مانیں گے جب تک کہ وہ چیز خود ہم کو نہ دی جائے جو اللہ کے رسولوں کو دی گئی ہے ۔ اللہ زیادہ بہتر جانتا ہے کہ اپنی پیغامبری کا کام کس سے لے اور کس طرح لے ۔ قریب ہے وہ وقت کہ یہ مجرم اپنی مکاریوں کی پاداش میں اللہ کے ہاں ذلت اور سخت عذاب سے دو چار ہوں گے ۔ “ اس کے بعد یہ بتایا جاتا ہے کہ ہدایت پانے والوں کی ہدایت اور ضلالت کی راہ لینے والوں کی گمراہی دونوں کی تکمیل تب ہی ہوسکتی ہے کہ جب قدرت الہیہ کا منشا ہو۔ دونوں قسم کے لوگ اللہ کے قبضہ قدرت اور اس کے اقتدار اعلی کے تحت ہیں اور یہ دونوں اللہ کی قدرت اور مشیت کے دائرے کے اندر رہتے ہیں ۔ فرمایا جارہا ہے : ” پس حقیقت یہ ہے کہ اللہ جسے ہدایت بخشنے کا ارادہ کرتا ہے اس کا سینے کو تنگ کردیتا ہے اور ایسا بھینچتا کہ اسے یوں معلوم ہونے لگتا ہے کہ گویا اس کی روح آسمان کی طرف پرواز کر رہی ہے ۔ اس طرح اللہ ناپاکی ان لوگوں پر مسلط کردیتا ہے جو ایمان نہیں لاتے ۔ “ آیات کا یہ حصہ اس بات پر اختتام پذیر ہوتا ہے کہ اس سے قبل جو امر ونہی وارد ہوئے جو اعتقادات اور تصورات بیان کئے گئے یہ سب کے سب صراط مستقیم ہیں ۔ اللہ کی مشیت اور قدرت کے تعین کے اصول اور ان اوامر ونواہی کے درمیان ربط پیدا کرکے انہیں ایک پیکج قرار دیا جاتا ہے جسے صراط مستقیم قرار دے کر حکم دیا جاتا ہے کہ اس راہ کو اپنائیں تاکہ اپنے رب کے ہاں امن وسلامتی کی منزل کو پالیں اور اللہ بہرحال اس کا ولی اور ناصر ہے ۔ ” حالانکہ یہ راستہ تمہارے رب کا سیدھا راستہ ہے اور اس کے نشانات ان لوگوں کے لئے واضح کردیئے گئے ہیں جو نصیحت قبول کرتے ہیں ۔ ان کے لئے ان کے رب کے پاس سلامتی کا گھر ہے اور وہ ان کا سرپرست ہے ‘ اس صحیح طرز عمل کی وجہ سے جو انہوں نے اختیار کیا ۔ “۔ ذبیحوں کی بحث اور ان کے کھانے کے مسائل ختم ہونے سے پہلے یہاں قرآن کریم ان لوگوں کے انجام کا ذک ربھی کردیتا ہے جو شیاطین ہیں اور جن وانس دونوں میں سے ہیں اور جو اس وقت اہل ایمان کے ساتھ ان ذیبحوں کے مسائل پر سخت الجھ رہے تھے ۔ بتایا جاتا ہے کہ آخری انجام اللہ کے ہاتھ میں ہوتا ہے اور وہ قادر مطلق اور حاکم ہے ۔ یہ اللہ ہی ہے جو جسے چاہے اس زمین کی خلافت عطا کرتا ہے ۔ جس کے بارے میں چاہے اسے اس جہان سے حرف غلط کی طرح مٹا دے ۔ اس بات پر سخت تنبیہ کی جاتی ہے کہ کوئی شخص خود سری اختیار نہ کرے اس لئے کہ اسے جو آزادی اور اختیار دیا گیا ہے وہ خود سری کے لئے نہیں دیا گیا بلکہ اسے آزمانے کے لئے دیا گیا ہے اور مہلت دی گئی ہے کہ وہ کس راہ پر چلتا ہے اور آخر کار جب مہلت ختم ہوگئی تو اس سے مواخذہ ہوگا اور جو کچھ اس نے کمایا اس کی سزا بھگتے گا ۔ ” اور جس روز اللہ ان سب لوگوں کو گھیر کر جمع کرے گا ‘ اس روز جنوں سے خطاب کرکے فرمائے گا ” اے گروہ جن ! تم نے نوع انسانی پر خوب ہاتھ صاف کیا ۔ “ انسانوں میں سے جو ان کے رفیق تھے وہ عرض کریں گے پروردگار ! ہم میں سے ہر ایک نے دوسرے کو خوب استعمال کیا ہے ‘ اور اب ہم اس وقت آپہنچے ہیں جو تو نے ہمارے لئے مقرر کردیا ہے ۔ اللہ فرمائے گا ” اچھا اب آگ تمہارا ٹھکانا ہے ‘ اس میں تم ہمیشہ رہو گے ۔ “ اس سے بچیں گے صرف وہی جنہیں اللہ بچانا چاہے گا ‘ بیشک تمہارا رب دانا اور علیم ہے ۔ دیکھو اس طرح ہم ظالموں کو ایک دوسرے کا ساتھی بنائیں گے ۔ اس کمائی کی وجہ سے جو وہ کرتے تھے ۔۔۔۔۔۔۔ ” اے گروہ جن وانس ! کیا تمہارے پاس خود تم ہی میں سے ہو پیغمبر نہیں آئے تھے جو تم کو میری آیات سناتے اور اس دن کے انجام سے ڈراتے تھے ۔ “ وہ کہیں گے ” ہاں ! ہم اپنے خلاف خود گواہی دیتے ہیں ۔ “ آج دنیا کی زندگی نے ان لوگوں کو دھوکے میں ڈال رکھا ہے ۔ مگر اس وقت وہ خود اپنے خلاف گواہی دیں گے کہ وہ کافر تھے ۔ تمہارا رب بستیوں کو ظلم کے ساتھ تباہ کرنے والا نہ تھا بلکہ ان کے باشندے حقیقت سے ناواقف تھے ۔ ہر شخص کا درجہ اس کے عمل کے لحاظ سے ہے اور تمہارا رب لوگوں کے اعمال سے بیخبر نہیں ہے ۔ تمہارا رب بےنیاز ہے اور مہربانی اس کا شیوہ ہے ۔ اگر وہ چاہے تو تم لوگوں کو لے جائے اور تمہاری جگہ دوسرے جن لوگوں کو چاہے لے آئے ‘ جس طرح اس نے تمہیں کچھ اور لوگوں کی نسل سے اٹھایا ہے ۔ تم سے جس چیز کا وعدہ کیا جا رہا ہے وہ یقینا آنے والی ہے اور تم خدا کو عاجز کرنے کی طاقت نہیں رکھتے ۔ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہہ دو کہ لوگو تم اپنی جگہ عمل کرتے رہو اور میں بھی اپنی جگہ عمل کر رہا ہوں ‘ عنقریب تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ انجام کار کس کے حق میں بہتر ہوتا ہے ۔ بہرحال یہ حقیقت ہے کہ ظالم کبھی فلاح نہیں پاسکتے ۔ “ اب ذرا غور کیجئے کہ کھانے یا نہ کھانے کا ایک جزئی مسئلہ ہے کہ کون سے ذبیحے کا کھانا جائز ہے اور کس کا ناجائز ہے ؟ لیکن اس جاہلی رسم و رواج کے مقابلے میں قرآن اسلامی نظریہ حیات کا اساسی تصور پیش کرتا ہے ۔ نہایت ہی موثر اشارات اور مختلف قسم کے مشاہدات سے اللہ کی مشیت کے بعض حقائق پر روشنی ڈالی جاتی ہے ‘ اللہ کے بعض تکوینی تصرفات کو پیش کیا جاتا ہے ‘ انسانی نفسیات کے بعض اصولوں سے پردہ اٹھایا جاتا ہے ‘ انسانی زندگی کے بعض ظاہری اور بعض خفیہ میلانات کو ظاہر کیا جاتا ہے ‘ زمین و آسمان پر اللہ کی حاکمیت کے بارے میں بعض حقائق پیش کئے جاتے ہیں ‘ دنیا وآخرت میں اور ان سب امور کو محض ایک جزوی مسئلہ حلت و حرمت کے ضمن میں ۔ سوال یہ ہے کہ اس مسئلے کو اس قدر اہمیت کیوں دی گئی ؟ اس لئے کہ یہ اس دین کا اساسی مسئلہ ہے ۔ یہ اس کرہ ارض پر اقتدار اور حاکمیت کا مسئلہ ہے کہ یہ حق کس کو حاصل ہے ؟ بالفاظ دیگر یہ الوہیت اور ربوبیت کا مسئلہ ہے اور فیصلہ یہ کرنا ہے کہ الہ اور رب کون ہے ؟ یہی ہے کہ اس جزوی مسئلے کے بیان کے ضمن میں اس قدر اساسی نظریاتی مباحث کو یہاں لایا گیا ہے ۔ یہی تمام امور مسئلہ نذر ونیاز کے بیان کے ضمن میں بیان ہوئے ہیں یعنی پھلوں ‘ مویشیوں اور اولاد کے بارے میں جاہلیت میں مروج نذر ونیاز کے بارے میں ۔۔۔۔۔۔ وجہ یہ ہے کہ عرب جاہلیت ذات باری کی منکر نہ تھی ۔ اسی طرح دور جاہلیت کے عرب اللہ کے ساتھ مساوی طور پر کسی اور کو الہ بناتے تھے ۔ ان کی کج فکری یہ تھی کہ وہ اللہ کے ساتھ کچھ اور الہ قرار دیتے تھے اور مقام و مرتبہ کے اعتبار سے ان کے الہ اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں کم مرتبہ ہوتے تھے اور وہ کہتے یہ تھے کہ ان دوسری شخصیات کو ہم الہ اس لئے قرار دیتے ہیں کہ انکے ذریعے ہم اللہ کا قرب حاصل کرتے ہیں اور یہی وہ شرک تھا جس کا وہ ارتکاب کرتے تھے اور اسی وجہ سے قرآن انہیں مشرکین کا لقب دیتا ہے ۔ نیز ان شرک میں سے ایک شرک یہ تھا کہ اپنے کاہنوں اور اپنے مشائخ کے ذریعے انہوں نے اپنے لئے کچھ قوانین اور کچھ رسم و رواج گھڑ لئے تھے جو ان کے لئے شریعت کا درجہ رکھتے تھے ۔ اور ان کا زعم یہ تھا کہ یہ قوانین اور رسوم ان کے لئے اللہ نے تجویزکئے ہیں اور اللہ نے انہیں حکم دیا ہے کہ وہ ان کی پابندی کریں۔ وہ اس قدر شدید مشرک نہ تھے کہ وہ ان قوانین اور رسوم کو اپنی طرف منسوب کرتے اور یہ دعوی کرتے کہ اقتدار اعلی کا حق خود انہیں حاصل ہے اور انہیں حق ہے کہ اپنے لئے جو چاہیں قانون سازی کریں ۔ یہ خود سری تو دور حاضر کے مشرکین نے سیکھی ہے جو یہ کہتے ہیں کہ وہ اللہ کے سوا از خود اپنے لئے قانون سازی کرسکتے ہیں ۔ یہی ان کا شرک تھا اور اسی وجہ سے وہ مشرکین کہلائے ۔ یہ قوانین اور رسومات جو انہوں نے خو داپنے لئے گھڑ لئے تھے اور زعم یہ تھا کہ وہ خدا کی طرف سے ہیں ان میں ان کے قوانین نذرونیاز بھی تھے جو انہیں نے اپنے پھلوں اور مویشیوں کے بارے میں وضع کئے تھے ۔ یہ قوانین انہوں نے خود بنائے تھے یا ان کے کاہنوں اور شیوخ نے بنائے تھے ۔ بہرحال وہ ایسے تھے کہ ” جو ان کے شرکاء کے لئے ہوتا وہ اللہ کے حصے کے ساتھ نہ مل سکتا اور جو اللہ کے لئے ہوتا وہ ان کے شرکاء کے حصص کے ساتھ مل سکتا ۔ “ مثلا وہ اپنی اولاد میں سے بعض کی منت مانتے اور اس طرح وہ اپنے بنائے ہوئے قوانین کے مطابق اپنی بیٹیوں کو قتل کرتے ۔ ان قوانین میں سے ایک قانون یہ تھا کہ وہ بعض فصلوں ‘ پھلوں اور مویشیوں کو بند کردیتے اور یہ کہتے کہ ان کا استعمال صرف ان کے لئے جائز ہوگا جنہیں اللہ اجازت دے حالانکہ ان چیزوں کو حرام بھی وہ خود قرار دیتے اور جن لوگوں کے لئے ان کا استعمال جائز تھا ان کا تعین بھی وہ خود کرتے ۔ بعض قوانین ایسے تھے کہ وہ بعض مویشیوں پر سواری حرام قرار دیتے مثلا بحیرہ ‘ سائبہ ‘ وصیلہ اور حام ۔ (دیکھئے سورة مائدہ) ایک قانون یہ بھی تھا کہ وہ مویشیوں کے بعض حمل کو مردوں کے لئے خاص کردیتے اور عورتوں پر حرام کردیتے الا یہ کہ مویشیوں کا بچہ مردہ پیدا ہو تو اس صورت میں دونوں شریک ہوتے ۔ یہ لوگ ایک چیز کو حرام قرار دیتے اور دوسری کو حلال قرار دیتے ۔ ایک قانون یہ بھی تھا کہ وہ مردار کو حلال قرار دیتے اور یہ کہتے کہ اسے خود اللہ نے ذبح کیا ہے ۔ اسلام ان تمام باتوں پر ایک کھلا حملہ کرتا ہے ۔ اس تنقیدی حملے میں بنیادی نظریاتی فیصلے کئے جاتے ہیں ۔ ان جزوی قوانین اور مسائل کے بارے میں قرآن کریم نہایت ہی موثر حقائق اور شواہد پیش کرتا ہے ۔ وہ شواہد وحقائق جو قرآن اس پوری مدت میں ایمان وشرک کے موضوع پر لاتا ہے ، اس لئے کہ ان جزوی مسائل کا تعلق بھی شرک اور ایمان کے اصولی مسائل کے ساتھ ہے ۔ یہ جزوی مسائل وہ ہیں جن پر ایمان اور شرک کے اصولوں کی تطبیق اور اطلاق ہوتا ہے ۔ اس تنقیدی حملے کا مطالعے کرکے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ یہ مسائل جزئی مسائل نہیں بلکہ اس دین کے اساسی مسائل ہیں ۔ ان کا تعلق نظریات کے ساتھ ہے ۔ یہ قوانین اور یہ رسوم ان مشرکین کے لئے ان لوگوں نے مزین کرکے تجویز کئے ہیں جن کو یہ لوگ اللہ کا شریک ٹھہراتے ہیں ۔ یہ شرکاء ان مشرکین کی زندگی کو تباہ کرتے ہیں اور ان پر دین کو مشتبہ بناتے ہیں ۔ یہ دینی تلبیس اور زندگی کی تباہ کاریاں دونوں ایک دوسرے کے ساتھ مربوط ہیں یا تو لوگ شریعت کے پیروکار ہوں گے اور اس صورت میں ان کی زندگی صحیح و سلامت ہوگی اور یا وہ اسلامی شریعت سے متضاد شریعت پر چلتے ہوں گے تو اس صورت میں وہ کوئی سیدھی راہ نہ پا سکیں گے اور ان کی زندگی خطرے میں ہوگی ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ۔ (آیت) ” وَکَذَلِکَ زَیَّنَ لِکَثِیْرٍ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ قَتْلَ أَوْلاَدِہِمْ شُرَکَآؤُہُمْ لِیُرْدُوہُمْ وَلِیَلْبِسُواْ عَلَیْْہِمْ دِیْنَہُمْ (٦ : ١٣٧) ” اور اسی طرح بہت سے مشرکین کے لئے ان کے شریکوں نے اپنی اولاد کے قتل کو خوشنما بنا دیا ہے تاکہ ان کو ہلاکت میں مبتلا کریں اور ان پر ان کے دین کو مشتبہ بنا دیں ۔ “۔ اس تنقیدی مہم کے دوران یہ بات معلوم ہوجاتی ہے کہ شریعت خداوندی سے سرتابی کی پشت پر ہمیشہ شیطانی سازش ہوتی ہے ۔ جب بھی کوئی قوم شریعت کو چھوڑتی ہے تو وہ جن لوگوں کی بھی اطاعت کرے گی وہ اللہ کے شرکاء ہوں گے ۔ اس مہم کا اہم عنصر یہ ہے کہ شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے اور جب اس کی یہ سازش کامیاب ہوتی تو وہ ایسے مشرکین کی قیادت ہلاکت اور تباہ کن گھاٹے کی طرف کرتا ہے ۔ (آیت) ” کُلُواْ مِمَّا رَزَقَکُمُ اللّہُ وَلاَ تَتَّبِعُواْ خُطُوَاتِ الشَّیْْطَانِ إِنَّہُ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ(142) ” کھاؤ ان چیزوں میں سے جو اللہ نے تمہیں بخشی ہیں اور شیطان کی پیروی نہ کرو ‘ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے ۔ “ اس مہم سے معلوم ہوتا ہے کہ حلال و حرام کا شریعت اسلامیہ کے سوا کسی دوسرے ذریعے سے تعین کرنا کھلا شرک ہے اور یہ شرک جلی کے برابر ہے ۔ لیکن تمام زمانوں میں مشرکین نے یہ دعوی کیا ہے کہ وہ شرک کرنے پر مجبور ہیں ورنہ وہ اللہ کی قوت قاہرہ کے خلاف کیونکر جاسکتے ہیں ۔ حالانکہ اللہ کی مشیت تو یہ تھی کہ اس نے ہر انسان کو ایک حد تک مختار بنایا ہے اور اسی اختیار کے نتیجے میں اس کے لئے آزمائش لازمی کی ہے لہذا اللہ تعالیٰ نے کسی کو بھی اس بات پر مجبور نہیں کیا کہ وہ شرک کرے بہرحال وہ آزمائش میں ہیں اور اللہ کے دائرہ قدرت کے اندر ان کی آزمائش ہو رہی ہے ۔ (آیت) ” سَیَقُولُ الَّذِیْنَ أَشْرَکُواْ لَوْ شَاء اللّہُ مَا أَشْرَکْنَا وَلاَ آبَاؤُنَا وَلاَ حَرَّمْنَا مِن شَیْْء ٍ کَذَلِکَ کَذَّبَ الَّذِیْنَ مِن قَبْلِہِم حَتَّی ذَاقُواْ بَأْسَنَا قُلْ ہَلْ عِندَکُم مِّنْ عِلْمٍ فَتُخْرِجُوہُ لَنَا إِن تَتَّبِعُونَ إِلاَّ الظَّنَّ وَإِنْ أَنتُمْ إَلاَّ تَخْرُصُونَ (148) ” یہ مشرک لوگ ضرور کہیں گے کہ ” اگر اللہ چاہتا تو نہ ہم شرک کرتے اور نہ ہمارے باپ دادا اور نہ ہم کسی چیز کو حرام ٹھہراتے ۔ “ ایسی ہی باتیں بنا کر ان سے پہلے کے لوگوں نے بھی حق کو جھٹلایا یہاں تک کہ آخر کار ہمارے عذاب کا مزہ انہوں نے چکھ لیا ۔ ان سے کہو ’ ” کیا تمہارے پاس کوئی علم ہے جسے ہمارے سامنے پیش کرسکو ؟ تم تو محض گمان پر چل رہے ہو اور نری قیاس آرائیاں کرتے ہو ۔ “ پھر کہو ” حقیقت رس حجت تو اللہ کے پاس ہے ‘ بیشک اللہ چاہتا تو تم سب کو ہدایت دے دیتا ۔ “ اب اس کے بعد ہمارے سامنے طلب ثبوت اور شہادت کا ایک منظرآتا ہے ۔ ان سے یہ ثبوت مانگا جاتا ہے کہ اپنے مزعومات کے بارے میں وہ دعوی کرتے کہ ان کو اللہ نے حرام کیا ہے تو اس پر وہ گواہ لائیں ۔ اس سے ذہن اس طرف منتقل ہوجاتا ہے کہ اس سورة کے آغاز میں بھی اللہ کی حاکمیت کے مسئلے پر ان سے ثبوت اور شہادت طلب کی گئی تھی ۔ اس لئے کہ اللہ کی حاکمیت اور حلال و حرام کے تعین کے اختیارات کا آپس میں چولی دامن کا تعلق ہے ۔ اور یہ کہ حلال و حرام کے تعین کا اختیار اللہ کی حاکمیت کے مخصوص ترین خصائص میں سے ایک ہے ۔ اور یہی حقیقی سوال ہے ۔ (آیت) ” قُلْ ہَلُمَّ شُہَدَاء کُمُ الَّذِیْنَ یَشْہَدُونَ أَنَّ اللّہَ حَرَّمَ ہَـذَا فَإِن شَہِدُواْ فَلاَ تَشْہَدْ مَعَہُمْ وَلاَ تَتَّبِعْ أَہْوَاء الَّذِیْنَ کَذَّبُواْ بِآیَاتِنَا وَالَّذِیْنَ لاَ یُؤْمِنُونَ بِالآخِرَۃِ وَہُم بِرَبِّہِمْ یَعْدِلُونَ (150) ” ان سے کہو ” کہ لاؤ اپنے وہ گواہ جو اس بات کی شہادت دیں کہ اللہ ہی نے ان چیزوں کو حرام کیا ہے ۔ “ پھر اگر وہ شہادت دے دیں تو تم ان کے ساتھ شہادت نہ دینا اور ہر گز ان لوگوں کی خواہشات کے پیچھے نہ چلنا جنہوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا ہے اور جو آخرت کے منکر ہیں اور جو دوسروں کو اپنے رب کا ہمسر بناتے ہیں ۔ “ یہاں لفظ (یعدلون) ذہن کو اس سورة کے آغاز میں عقیدہ توحید کے ذکر کے وقت اسی لفظ کے استعمال کی طرف متوجہ کرتا ہے ‘ وہاں بھی مشرکین کو یہ کہا گیا کہ وہ دوسروں کو اللہ کا ہمسر بناتے ہیں ۔ (یعدلون) دیکھئے سورة انعام آیت (١) اس کے بعد یہ مہم اس آخری فیصلے پر ختم ہوتی ہے کہ قانون سازی اور مویشیوں اور ان کے بچوں اور پھلوں کے سلسلے میں اللہ تعالیٰ نے جو فیصلہ کیا ہے وہی صراط مستقیم ہے ۔ یہی انداز گفتگو اس سے پہلے ذبیحوں کی حلت اور حرمت کے مضامین کے وقت اختیار کیا گیا تھا اور یہی انداز اس سورة کے آغاز میں مسئلہ الوہیت کے بیان کے وقت اختیار کیا گیا تھا ۔ (آیت) ” وَأَنَّ ہَـذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْماً فَاتَّبِعُوہُ وَلاَ تَتَّبِعُواْ السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَن سَبِیْلِہِ ذَلِکُمْ وَصَّاکُم بِہِ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ (153) ” نیز اللہ کی ہدایت یہ ہے کہ یہی میرا سیدھا راستہ ہے ‘ لہذا اسی پر چلو اور دوسرے راستوں پر نہ چلو کہ وہ اس کے راستے سے ہٹا کر تمہیں پراگندہ کردیں گے ۔ یہ ہے وہ ہدایت جو تمہارے رب نے تمہیں کی ہے شاید کہ تم کج روی سے بچو ۔ “ بات ان اقتباسات پر ختم نہیں ہوجاتی جن کی طرف ہم نے اشارہ کیا ‘ بلکہ اس سے آگے یہ بتایا جاتا ہے کہ اس سے پہلے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بھی اپنی قوم کے لئے ایک کتاب لے کر آئے تھے جس کے اندر تمام امور کی تفصیلات تھیں۔ وہ ہدایت اور رحمت تھی اور اس کتاب کا مقصد بھی یہ تھا کہ لوگ قیامت کی جوابدہی پر ایمان لے آئیں ۔ اس کتاب کا مقصد بھی یہ ہے کہ مسلمان اس کی اطاعت کریں اور خدا ترسی کا رویہ اختیار کریں تاکہ ان پر اللہ کی رحمتیں نازل ہوں اور وہ یہ نہ کہہ سکیں کہ اللہ نے یہود ونصاری کے لئے تو مفصل کتابیں بھیجیں مگر ہمارے لئے کوئی کتاب نہ بھیجی جس میں ہمارے لئے تفصیلی ہدایات ہوں اور انہیں معلوم ہو کہ شریعت کے احکام کیا ہے اور یہ کہ انہیں جو باتیں شریعت کی بتائی جاتی ہیں وہ شریعت نہیں ہے اور محض افتراء ہے ۔ اس کے بعد ان لوگوں کو تہدید آمیز تنبیہ کی جاتی ہے جو حضرت نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان نہیں لاتے اور اس جاہلی نظام پر قائم رہتے ہیں جسے وہ من جانب اللہ کہتے ہیں اور ان کا یہ دعوی صریح افتراء ہے اور اس کے ساتھ ساتھ وہ ایسے خارق العادت معجزات کا بھی مطالبہ کرتے ہیں جن کے نتیجے میں وہ تصدیق اور اتباع پر مجبور ہوجائیں ۔ ان لوگوں کو متنبہ کیا جاتا ہے کہ جس دن ایسے معجزات آگئے تو وہ دن ان کا آخری دن ہوگا اور اس کے بعد وہ ہلاک اور نیست ونابود کردیئے جائیں گے ۔ (آیت) ” ہَلْ یَنظُرُونَ إِلاَّ أَن تَأْتِیْہُمُ الْمَلآئِکَۃُ أَوْ یَأْتِیَ رَبُّکَ أَوْ یَأْتِیَ بَعْضُ آیَاتِ رَبِّکَ یَوْمَ یَأْتِیْ بَعْضُ آیَاتِ رَبِّکَ لاَ یَنفَعُ نَفْساً إِیْمَانُہَا لَمْ تَکُنْ آمَنَتْ مِن قَبْلُ أَوْ کَسَبَتْ فِیْ إِیْمَانِہَا خَیْْراً قُلِ انتَظِرُواْ إِنَّا مُنتَظِرُونَ (158) ” کیا اب یہ لوگ اس کے منتظر ہیں کہ ان کے سامنے فرشتے کھڑے ہوں یا تمہارا رب خود آجائے یا تمہارے رب کی صریح نشانیاں نمودار ہوجائیں ؟ جس روز تمہارے رب کی بعض نشانیاں نمودار ہوجائیں گی پھر کسی ایسے شخص کو اس کا ایمان کچھ فائدہ نہ دے گا جو پہلے ایمان نہ لایا ہو ‘ جس نے اپنے ایمان میں کوئی بھلائی نہ کمائی ہو ۔ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ان سے کہہ دو کہ اچھا ‘ تم انتظار کرو ‘ ہم بھی انتظار کرتے ہیں۔ “ اس کے بعد یہ فیصلہ آتا ہے کہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) امت مسلمہ اور دین اسلام اور ان لوگوں کے درمیان اتحاد ممکن ہی نہیں ہے جو اللہ کی شریعت کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے لئے حلال و حرام اور جائز وناجائز مقرر کرتے ہیں اور اپنے لئے شریعت خود بناتے ہیں اور اس پر یہ دعوی بھی کرتے ہیں کہ یہ شریعت الہیہ ہے ۔ (آیت) ” إِنَّ الَّذِیْنَ فَرَّقُواْ دِیْنَہُمْ وَکَانُواْ شِیَعاً لَّسْتَ مِنْہُمْ فِیْ شَیْْء ٍ إِنَّمَا أَمْرُہُمْ إِلَی اللّہِ ثُمَّ یُنَبِّئُہُم بِمَا کَانُواْ یَفْعَلُونَ (159) ” جن لوگوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا اور گروہ گروہ بن گئے ان سے تمہارا واسطہ کچھ نہیں ۔ ان کا معاملہ تو اللہ کے سپرد ہے ‘ وہی ان کو بتائے گا کہ انہوں نے کیا کچھ کیا ہے ۔ “ اللہ کا فیصلہ بہت ہی واضح ہے ۔ لست منھم فی شیء ” ان سے تمہارا کچھ واسطہ نہیں ہے ۔ “ اب یہ سورة اپنی انتہاکو پہنچ جاتی ہے اور قانون سازی اور اللہ کی حاکمیت کو نہایت ہی مفصل اور واضح انداز میں بیان کردیا جاتا ہے ‘ بظاہر تو یہ موضوع ایک جزئی موضوع نظر آتا ہے ‘ لیکن یہاں اس نظریاتی مسئلے کو نہایت ہی اصولی انداز میں پیش کیا جاتا ہے اور پورے دین کا فیصلہ کردیا جاتا ہے کہ یہ مسائل دین اسلام کے مقاصد ونظریات ہیں ۔ ان کے بارے میں اہل اسلام کا قلب ونظر صاف اور یکسو ہونا چاہئے اور پھر اس نظریے ‘ اس عقیدے اور یکسوئی کو ایک مفصل نظام حیات کی شکل میں ظاہر ہونا چاہئے ۔ (آیت) ” قُلْ إِنَّنِیْ ہَدَانِیْ رَبِّیْ إِلَی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ دِیْناً قِیَماً مِّلَّۃَ إِبْرَاہِیْمَ حَنِیْفاً وَمَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ (161) قُلْ إِنَّ صَلاَتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ (162) لاَ شَرِیْکَ لَہُ وَبِذَلِکَ أُمِرْتُ وَأَنَاْ أَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ (163) قُلْ أَغَیْْرَ اللّہِ أَبْغِیْ رَبّاً وَہُوَ رَبُّ کُلِّ شَیْْء ٍ وَلاَ تَکْسِبُ کُلُّ نَفْسٍ إِلاَّ عَلَیْْہَا وَلاَ تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِزْرَ أُخْرَی ثُمَّ إِلَی رَبِّکُم مَّرْجِعُکُمْ فَیُنَبِّئُکُم بِمَا کُنتُمْ فِیْہِ تَخْتَلِفُونَ (164) وَہُوَ الَّذِیْ جَعَلَکُمْ خَلاَئِفَ الأَرْضِ وَرَفَعَ بَعْضَکُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِّیَبْلُوَکُمْ فِیْ مَا آتَاکُمْ إِنَّ رَبَّکَ سَرِیْعُ الْعِقَابِ وَإِنَّہُ لَغَفُورٌ رَّحِیْمٌ(165) ” اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہو میرے رب نے بالیقین مجھے سیدھا راستہ دکھایا ہے ‘ بالکل ٹھیک دین جس میں کوئی ٹیڑھ نہیں ‘ ابراہیم کا طریقہ جسے یکسو ہو کر اس نے اختیار کیا تھا اور وہ مشرکوں میں سے نہ تھا ۔ کہو ‘ میری نماز ‘ میرے تمام مراسم عبودیت ‘ میرا جینا اور مرنا سب کچھ اللہ رب العالمین کے لئے ہے ۔ جس کا کوئی شریک نہیں اس کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور میں سب سے پہلے سر اطاعت جھکانے والا ہوں ۔ کہو کیا میں میں اللہ کے سوا کوئی اور رب تلاش کروں حالانکہ وہی ہر چیز کا رب ہے ؟ ہر شخص جو کچھ کماتا ہے اس کا ذمہ دار وہ خود ہے ‘ کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھاتا ‘ پھر تم سب کو اپنے رب کی طرف پلٹنا ہے ‘ اس وقت وہ تمہارے اختلافات کی حقیقت تم پر کھول دے گا ۔ وہی ہے جس نے تم کو زمین کا خلیفہ بنایا ‘ اور تم میں سے بعض کو بعض کے مقابلے میں بلند درجے دیئے تاکہ جو کچھ تم کو دیا ہے اس میں تمہاری آزمائش کرے ، بیشک تمہارا رب سزا دینے میں بھی بہت تیز ہے اور بہت درگزر کرنیو الا اور رحم فرمانے والا بھی ہے ۔ “ یہ وہ مسائل ہیں جو اسلامی نظریہ حیات اور دین اسلام کے اساسی مسائل ہیں ۔ دنیا وآخرت کے بارے میں ہدایات ‘ زندگی اور موت کے مسائل ‘ عمل اور مکافات عمل کے مسائل ‘ عبادت اور احسان کے مسائل اور ان تمام مسائل کو زبانی اسلوب بیان اس سورة کے اس رعب دار اختتامیہ میں نہایت ہی پرشوکت اور خوفناک انداز میں جمع کردیتا ہے ۔ اللہ کی حاکمیت اور سلطنت اور اس کی قانون سازی کے حق کے اعلی ترین مسئلے کو نہایت ہی سادہ اور روز مرہ کے مسائل یعنی کھانے وپینے کے عام مسائل کے ضمن میں بیان کردیا جاتا ہے ۔ اس لئے کہ اللہ کی حاکمیت اور بوبیت بڑے سے بڑے اور چھوٹے سے چھوٹے معاملات میں اپنا فیصلہ کرتی ہے ۔۔۔۔ ۔۔ یہ ہے اسلام جس کی تشریح خود قرآن مجید کر رہا ہے جو کلام الہ العالمین ہے ۔ درس ٣٧ تشریح آیات : یہ پارہ ہشتم کی ابتدائی آیات ہیں ۔ ان میں سے پہلا پیراگراف پارہ ہفتم کی آخری آیات سے متعلق ہے۔ پارہ ہفتم کی آخری آیات میں مشرکین عرب کی اس تجویز کا ذکر تھا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے سامنے خود ان کے تجویز کردہ معجزات پیش کردیئے جائیں تو وہ آپ کی تصدیق کریں گے اور آپ پر ایمان لائیں گے ۔ ان لوگوں کی ان قسموں کی وجہ سے بعض اہل اسلام بھی دل ہی دل میں یہ خواہش رکھتے تھے کہ اگر اللہ ان لوگوں کی اس خواہش کو پورا کردے تو بہتر ہو ‘ اور یہ لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھی یہ مطالبہ کرتے تھے کہ آپ بھی اللہ تعالیٰ سے یہ مطالبہ فرمائیں کہ اللہ ان لوگوں کی خواہشات کو پورا کردے ۔ پارہ ہفتم اور پارہ ہشتم کے ان حصوں کا پورا مضمون یوں ہے ۔ (آیت) ” وَأَقْسَمُواْ بِاللّہِ جَہْدَ أَیْْمَانِہِمْ لَئِن جَاء تْہُمْ آیَۃٌ لَّیُؤْمِنُنَّ بِہَا قُلْ إِنَّمَا الآیَاتُ عِندَ اللّہِ وَمَا یُشْعِرُکُمْ أَنَّہَا إِذَا جَاء تْ لاَ یُؤْمِنُونَ (109) وَنُقَلِّبُ أَفْئِدَتَہُمْ وَأَبْصَارَہُمْ کَمَا لَمْ یُؤْمِنُواْ بِہِ أَوَّلَ مَرَّۃٍ وَنَذَرُہُمْ فِیْ طُغْیَانِہِمْ یَعْمَہُونَ (110) وَلَوْ أَنَّنَا نَزَّلْنَا إِلَیْْہِمُ الْمَلآئِکَۃَ وَکَلَّمَہُمُ الْمَوْتَی وَحَشَرْنَا عَلَیْْہِمْ کُلَّ شَیْْء ٍ قُبُلاً مَّا کَانُواْ لِیُؤْمِنُواْ إِلاَّ أَن یَشَاء َ اللّہُ وَلَـکِنَّ أَکْثَرَہُمْ یَجْہَلُونَ (111) (٦ : ١٠٩ تا ١١١) ” یہ لوگ کڑی کڑی قسمیں کھا کھا کر کہتے ہیں کہ اگر کوئی نشانی (یعنی معجزہ) ہمارے سامنے آجائے تو ہم اس پر ایمان لائیں گے ۔ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ان سے کہو کہ نشانیاں تو اللہ کے اختیار میں ہیں ‘ اور تمہیں کیسے سمجھایا جائے کہ اگر نشانیاں آ بھی جائیں تو یہ ایمان لانے والے نہیں ۔ ہم اسی طرح ان کے دلوں اور نگاہوں کو پھیر رہے ہیں جس طرح یہ پہلی مرتبہ اس کتاب پر ایمان نہیں لائے تھے ۔ ہم انہیں ان کی سرکشی میں بھٹکنے کے لئے چھوڑے دیتے ہیں ۔ “ ان آیات کی تفسیر ہم پارہ ہفتم میں کر آئے ہیں ۔ یہاں ہم وہ عمومی حقائق بیان کریں گے جو ان آیات میں دیئے گئے ہیں اور جن کے بارے میں وہاں بات نہ ہوئی تھی۔ ١۔ پہلی حقیقت یہ ہے کہ ایمان وکفر ‘ اور ہدایت وضلالت کا دارومدار صرف دلائل پر نہیں ہوتا کہ اگر کسی سچائی پر دلائل نہ دیئے گئے تھے تو لوگ اسے تسلیم نہ کریں گے ۔ بلکہ سچائی تو بذات خود ایک دلیل ہوتی ہے ۔ سچائی کے اندر بذات خود اس قدر قوت ہوتی ہے کہ وہ قلب انسانی پر چھا جاتی ہے ‘ ہر انسان کا دل اس پر مطمئن ہوجاتا ہے اور اس کی طرف مائل ہوجاتا ہے لیکن کچھ دوسرے داخلی اور خارجی اسباب ایسے ہوتے ہیں جو کسی انسان اور قبولیت حق کے درمیان رکاوٹ بن جاتے ہیں ۔ ایسی ہی رکاوٹوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : (آیت) ” وَمَا یُشْعِرُکُمْ أَنَّہَا إِذَا جَاء تْ لاَ یُؤْمِنُونَ (109) وَنُقَلِّبُ أَفْئِدَتَہُمْ وَأَبْصَارَہُمْ کَمَا لَمْ یُؤْمِنُواْ بِہِ أَوَّلَ مَرَّۃٍ وَنَذَرُہُمْ فِیْ طُغْیَانِہِمْ یَعْمَہُونَ (110) ” اور تمہیں کیسے سمجھایا جائے کہ اگر نشانیاں آ بھی جائیں تو یہ ایمان لانے والے نہیں ۔ ہم اسی طرح ان کے دلوں اور نگاہوں کو پھیر رہے ہیں جس طرح یہ پہلی مرتبہ اس کتاب پر ایمان نہیں لائے تھے ۔ ہم انہیں ان کی سرکشی میں بھٹکنے کے لئے چھوڑے دیتے ہیں ۔ “ (بہت طویل ہونے کی وجہ سے اس آیت کی مکمل تفسیر شامل نہیں کی جا سکی۔ ہم اس کے لیے معذرت خواہ ہیں۔ برائے مہربانی اس آیت کی تفسیر کا بقیہ حصہ فی ظلال القرآن جلد سے پڑھیں)

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

120 یہ ماقبل ہی کی تفصیل ہے۔ یعنی اگر ہم ان کے مطلوبہ معجزات ان کو دکھا دیں مثلاً ان پر فرشتے اتار دیں۔ لَوْلَا اُنْزِلَ عَلَیْنَا الْمَلَائِکۃ الخ اور مردے زندہ ہو کر ان سے باتیں کرنے لگیں۔ فَاتُوْا بِاٰبَائِنَا اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ اور ہر چیز جو وہ چاہیں اٹھا کر ان کے سامنے کردیں تو بھی وہ ایمان نہیں لائیں گے۔ اِلَّا اَنْ یَّشَاءَ اللہُ اس میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کا بیان ہے۔ گمراہی کے تین درجات (1) سشیاطین انس و جنلب انابت الی اللہ۔ (2) ضلال اور (3) مہر جباریت میں سے تینوں ان میں موجود تھے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

111 اور ان کے عناد اور ان کی سرکشی کی حالت یو یہاں تک پہونچ گئی ہے کہ اگر ہم ان کی خواہشات کے موافق ان پر فرشتے بھی نازل کردیں اور ان سے مردے بھی زندہ ہو کر باتیں کرنے لگیں اور ہم تمام موجودات مخفیہ اور غیبیہ کو ان کے روبرو لا کر جمع بھی کردیں تب بھی یہ ہرگز ایمان نہیں لائیں گے یعنی یہ سب کچھ دیکھ لیتے تب بھی ایمان نہ لاتے مگر ہاں اللہ تعالیٰ کی مشیت کا اگر تقاضا ہو تو دوسری بات ہے یعنی اگر اللہ کو منظور ہو تو ایمان لاسکتے ہیں لیکن ان میں سے اکثر نادان اور جاہل و بیخیر ہیں یعنی اللہ تعالیٰ کی مشیت سے جاہل ہیں۔