Surat ul Anaam

Surah: 6

Verse: 165

سورة الأنعام

وَ ہُوَ الَّذِیۡ جَعَلَکُمۡ خَلٰٓئِفَ الۡاَرۡضِ وَ رَفَعَ بَعۡضَکُمۡ فَوۡقَ بَعۡضٍ دَرَجٰتٍ لِّیَبۡلُوَکُمۡ فِیۡ مَاۤ اٰتٰکُمۡ ؕ اِنَّ رَبَّکَ سَرِیۡعُ الۡعِقَابِ ۫ ۖوَ اِنَّہٗ لَغَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۱۶۵﴾٪  7 النصف

And it is He who has made you successors upon the earth and has raised some of you above others in degrees [of rank] that He may try you through what He has given you. Indeed, your Lord is swift in penalty; but indeed, He is Forgiving and Merciful.

اور وہ ایسا ہے جس نے تم کو زمین میں خلیفہ بنایا اور ایک کا دوسرے پر رتبہ بڑھایا تاکہ تم کو آزمائے ان چیزوں میں جو تم کو دی ہیں ۔ بالیقین آپ کا رب جلد سزا دینے والا ہے اور بالیقین وہ واقعی بڑی مغفرت کرنے والا مہربانی کرنے والا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah Made Mankind Dwellers on the earth, Generation After Generation, of Various Grades, in order to Test Them Allah said, وَهُوَ الَّذِي جَعَلَكُمْ خَلَيِفَ الاَرْضِ ... And it is He Who has made you generations coming after generations, replacing each other on the earth. According to Ibn Zayd and others, meaning, He made you dwell on the earth generation after generation, century after century and offspring after forefathers. Allah also said, وَلَوْ نَشَأءُ لَجَعَلْنَا مِنكُمْ مَّلَـيِكَةً فِى الاٌّرْضِ يَخْلُفُونَ And if it were Our will, We would have made angels to replace you on the earth! (43:60) and, وَيَجْعَلُكُمْ حُلَفَأءَ الاٌّرْضِ And makes you inheritors of the Earth, generations after generations. (27:62) and, إِنِّي جَاعِلٌ فِى الاَرْضِ خَلِيفَةً Verily, I am going to place (mankind) generations after generations on earth. (2:30) and, عَسَى رَبُّكُمْ أَن يُهْلِكَ عَدُوَّكُمْ وَيَسْتَخْلِفَكُمْ فِى الاٌّرْضِ فَيَنظُرَ كَيْفَ تَعْمَلُونَ It may be that your Lord will destroy your enemy and make you successors on the earth, so that He may see how you act. (7:129) Allah's statement, ... وَرَفَعَ بَعْضَكُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ ... And He has raised you in ranks, some above others, means, He has made you different from each other with regards to provision, conduct, qualities, evilness, shapes, color of skin, and so forth, and He has the perfect wisdom in all this. Allah said in other Ayat, نَحْنُ قَسَمْنَا بَيْنَهُمْ مَّعِيشَتَهُمْ فِى الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَرَفَعْنَا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَـتٍ لِّيَتَّخِذَ بَعْضُهُم بَعْضاً سُخْرِيّاً It is We Who portion out between them their livelihood in this world, and We raised some of them above others in ranks, so that some may employ others in their work. (43:32) and, انظُرْ كَيْفَ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ وَلَلٌّخِرَةُ أَكْبَرُ دَرَجَـتٍ وَأَكْبَرُ تَفْضِيلً See how We prefer one above another (in this world), and verily, the Hereafter will be greater in degrees and greater in preferment. (17:21) Allah's statement, ... لِّيَبْلُوَكُمْ فِي مَا اتَاكُمْ ... that He may try you in that which He has bestowed on you. means, so that He tests you in what He has granted you, for Allah tries the rich concerning his wealth and will ask him about how he appreciated it. He also tries the poor concerning his poverty and will ask him about his patience with it. Muslim recorded that Abu Sa`id Al-Khudri said that the Messenger of Allah said, إِنَّ الدُّنْيَا حُلْوَةٌ خَضِرَةٌ وَإِنَّ اللهَ مُسْتَخْلِفُكُمْ فِيهَا فَنَاظِرٌ مَاذَا تَعْمَلُونَ فَاتَّقُوا الدُّنْيَا وَاتَّقُوا النِّسَاءَ فَإِنَّ أَوَّلَ فِتْنَةِ بَنِي إِسْرَايِيلَ كَانَتْ فِي النِّسَاء Verily, this life is beautiful and green, and Allah made you dwell in it generation after generation so that He sees what you will do. Therefore, beware of this life and beware of women, for the first trial that the Children of Israel suffered from was with women. Allah's statement, ... إِنَّ رَبَّكَ سَرِيعُ الْعِقَابِ وَإِنَّهُ لَغَفُورٌ رَّحِيمٌ Surely, your Lord is swift in retribution, and certainly He is Oft-Forgiving, Most Merciful. this is both discouragement and encouragement, by reminding the believers that Allah is swift in reckoning and punishment with those who disobey Him and defy His Messengers. ... وَإِنَّهُ لَغَفُورٌ رَّحِيمٌ And certainly He is Oft-Forgiving, Most Merciful. for those who take Him as protector and follow His Messengers in the news and commandments they conveyed. Allah often mentions these two attributes together in the Qur'an. Allah said, وَإِنَّ رَبَّكَ لَذُو مَغْفِرَةٍ لِّلنَّاسِ عَلَى ظُلْمِهِمْ وَإِنَّ رَبَّكَ لَشَدِيدُ الْعِقَابِ But verily, your Lord is full of forgiveness for mankind in spite of their wrongdoing. And verily, your Lord is (also) severe in punishment. (13:6) and, نَبِّىءْ عِبَادِى أَنِّى أَنَا الْغَفُورُ الرَّحِيمُ وَأَنَّ عَذَابِى هُوَ الْعَذَابُ الاٌّلِيمُ Declare unto My servants, that truly, I am the Oft-Forgiving, the Most Merciful. And that My torment is indeed the most painful torment. (15:49-50) There are similar Ayat that contain encouragement and discouragement. Sometimes Allah calls His servants to Him with encouragement, describing Paradise and making them eager for what He has with Him. Sometimes, He calls His servants with discouragement, mentioning the Fire and its torment and punishment, as well as, the Day of Resurrection and its horrors. Sometimes Allah mentions both so that each person is affected by it according to his or her qualities. We ask Allah that He makes us among those who obey what He has commanded, avoid what He has prohibited, and believe in Him as He has informed. Certainly, He is Near, hears and answers the supplication, and He is the Most Kind, Generous and Bestowing. Imam Ahmad recorded that Abu Hurayrah said that the Messenger of Allah said, لَوْ يَعْلَمُ الْمُوْمِنُ مَا عِنْدَ اللهِ مِنَ الْعُقُوبَةِ مَا طَمِعَ بِجَنَّتِهِ أَحَدٌ وَلَوْ يَعْلَمُ الْكَافِرُ مَااِعنْدَ اللهِ مِنَ الرَّحْمَةِ مَا قَنَطَ أَحَدٌ مِنَ الْجَنَّةِ If the believer knew Allah's punishment, no one will hope in entering His Paradise. And if the disbeliever knew Allah's mercy, no one will feel hopeless of acquiring Paradise. خَلَقَ اللهُ مِايَةَ رَحْمَةٍ فَوَضَعَ وَاحِدَةً بَيْنَ خَلْقِهِ يَتَرَاحَمُونَ بِهَا وَعِنْدَ اللهِ تِسْعَةٌ وَتِسْعُون Allah created a hundred kinds of mercy. He sent down one of them to His creation, and they are merciful to each other on that account. With Allah, there remains ninety-nine kinds of mercy. Muslim and At-Tirmidhi also recorded this Hadith, At-Tirmidhi said "Hasan". Abu Hurayrah narrated that the Messenger of Allah said, لَمَّا خَلَقَ اللهُ الْخَلْقَ كَتَبَ فِي كِتَابٍ فَهُوَ عِنْدَهُ فَوْقَ الْعَرْشِ إِنَّ رَحْمَتِي تَغْلِبُ غَضَبِي When Allah created the creation, He wrote in a Book, and this Book is with Him above the Throne: `My mercy overcomes My anger.' This is the end of the Tafsir of Surah Al-An`am, all the thanks and appreciation for Allah. Top

اللہ کی رحمت اللہ کے غضب پر غالب ہے اس اللہ نے تمہیں زمین کا آباد کار بنایا ہے ، وہ تمہیں یکے بعد دیگرے پیدا کرتا رہتا ہے ایسا نہیں کیا کہ زمین میں خلیفہ بنا کر آزمائے کہ تم کیسے اعمال کرتے ہو؟ اس نے تمہارے درمیان مختلف طبقات بنائے ، کوئی غریب ہے ، کوئی خوش خو ہے ، کوئی بد اخلاق ، کوئی خوبصورت ہے ، کوئی بد صورت ، یہ بھی اس کی حکمت ہے ، اسی نے روزیاں تقسیم کی ہیں ایک کو ایک کے ماتحت کر دیا ہے فرمان ہے آیت ( اُنْظُرْ كَيْفَ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلٰي بَعْضٍ ۭ وَلَلْاٰخِرَةُ اَكْبَرُ دَرَجٰتٍ وَّاَكْبَرُ تَفْضِيْلًا 21؀ ) 17- الإسراء:21 ) دیکھ لے کہ ہم نے ان میں سے ایک کو ایک پر کیسے فضیلت دی ہے؟ اس سے منشاء یہ ہے کہ آزمائش و امتحان ہو جائے ، امیر آدمیوں کا شکر ، فقیروں کا صبر معلوم ہو جائے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں دنیا میٹھی اور سبز رنگ ہے اللہ تمہیں اس میں خلیفہ بنا کر دیکھ رہا ہے کہ تم کیسے اعمال کرتے ہو؟ پس تمہیں دنیا سے ہوشیار رہنا چاہیے اور عورتوں کے بارے میں بہت احتیاط سے رہنا چاہئے ، بنی اسرائیل کا پہلا فتنہ عورتیں ہی تھیں ۔ اس سورت کی آخری آیت میں اپنے دونوں وصف بیان فرمائے ، عذاب کا بھی ، ثواب کا بھی ، پکڑ کا بھی اور بخشش کا بھی اپنے نافرمانوں پر ناراضگی کا اور اپنے فرمانبرداروں پر رضامندی کا ، عموماً قرآن کریم میں یہ دونوں صفتیں ایک ساتھ ہی بیان فرمائی جاتی ہیں ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( وَاِنَّ رَبَّكَ لَذُوْ مَغْفِرَةٍ لِّلنَّاسِ عَلٰي ظُلْمِهِمْ ۚ وَاِنَّ رَبَّكَ لَشَدِيْدُ الْعِقَابِ Č۝6 ) 13- الرعد ) اور آیت میں ہے آیت ( نَبِّئْ عِبَادِيْٓ اَنِّىْٓ اَنَا الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ 49؀ۙ ) 15- الحجر:49 ) یعنی تریا رب اپنے بندوں کے گناہ بخشنے والا بھی ہے اور وہ سخت اور درد ناک عذاب دینے والا بھی ہے ، پس ان آیتوں میں رغبت رہبت دونوں ہیں اپنے فضل کا اور جنت کا لالچ بھی دیتا ہے اور آگ کے عذاب سے دھمکاتا بھی ہے کبھی کبھی ان دونوں وصفوں کو الگ الگ بیان فرماتا ہے تاکہ عذابوں سے بچنے اور نعمتوں کے حاصل کرنے کا خیال پیدا ہو ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے احکام کی پابندی اور اپنی ناراضگی کے کاموں سے نفرت نصیب فرمائے اور ہمیں کامل یقین عطا فرمائے کہ ہم اس کے کلام پر ایمان و یقین رکھیں ۔ وہ قریب و مجیب ہے وہ دعاؤں کا سننے والا ہے ، وہ جواد ، کریم اور وہاب ہے ، مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اگر مومن صحیح طور پر اللہ کے عذاب سے واقف ہو جائے تو اپنے گناہوں کی وجہ سے جنت کے حصول کی آس ہی نہ رہے اور اگر کافر اللہ کی رحمت سے کماحقہ واقف ہو جائے تو کسی کو بھی جنت سے مایوسی نہ ہو اللہ نے سو رحمتیں بنائی ہیں جن میں سے صرف ایک بندوں کے درمیان رکھی ہے اسی سے ایک دوسرے پر رحم و کرم کرتے ہیں باقی ننانوے تو صرف اللہ ہی کے پاس ہیں ۔ یہ حدیث ترمذی اور مسلم شریف میں بھی ہے ایک اور روایت میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مخلوق کی پیدائش کے وقت ایک کتاب لکھی جو اس کے پاس عرش پر ہے کہ میری رحمت میرے غضب پر غالب ہے ۔ صحیح مسلم شریف میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے رحمت کے سو حصے کئے جن میں سے ایک کم ایک سو تو اپنے پاس رکھے اور ایک حصہ زمین پر نازل فرمایا اسی ایک حصے میں مخلوق کو ایک دوسرے پر شفقت و کرم ہے یہاں تک کہ جانور بھی اپنے بچے کے جسم سے اپنا پاؤں رحم کھا کر اٹھا لیتا ہے کہ کہیں اسے تکلیف نہ ہو ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

165۔ 1 یعنی حکمران بنا کر اختیارات سے نوازا۔ یا ایک کے بعد دوسرے کو اس کا وارث (خلیفہ) بنایا۔ 165۔ 2 یعنی فقر و غنی، علم و جہل، صحت اور بیماری، جس کو جو دیا، اسی میں اس کی آزمائش ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٩٠] اس کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ انسان دنیا میں اللہ کا خلیفہ ہے اسے کچھ اختیارات دیئے گئے ہیں تاکہ زمین پر خلافت الٰہیہ قائم کرے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ انسان زمین میں اپنے سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں کا خلیفہ ہے اور یہ بحث پہلے سورة بقرہ کی آیت نمبر ٣٠ کے تحت گزر چکی ہے۔ [١٩١] انسان کا امتحان انہی چیزوں پر ہے جو اللہ نے اسے دے رکھی ہیں :۔ یعنی کوئی امیر ہے، کوئی غریب، کوئی عالم ہے کوئی جاہل، کوئی عقلمند ہے کوئی بےوقوف، کسی میں قوت کار کی استعداد زیادہ ہے کسی میں کم، جسمانی لحاظ سے کوئی مضبوط اور طاقتور ہے اور کوئی کمزور و نحیف۔ غرض اس دنیا میں انسانوں کے درجات میں تفاوت کے بیشمار پہلو ہیں۔ ان تفاوت درجات سے ہی دنیا کا نظام قائم رہ سکتا ہے اور اس دنیا میں ہر انسان کا امتحان اس کی اپنی استعداد کے مطابق ہی ہوتا ہے جو خوبی اللہ نے کسی کو دے رکھی ہے اسی میں اس کا امتحان ہوگا۔ [١٩٢] امیر کی آزمائش یہ ہے کہ وہ اللہ کا شکر ادا کرتا ہے یا نہیں، دوسروں کے جو مالی حقوق اس پر عائد ہوتے ہیں وہ ادا کرتا ہے یا نہیں ؟ اگر غریب ہے تو صبر و قناعت سے کام لیتا ہے یا جزع فزع شروع کردیتا ہے اور اس حال میں بھی اللہ کا شکر ادا کرتا ہے یا نہیں ؟ اور عالم کیا باعمل بھی ہے یا نہیں اور اپنے علم سے کیا دوسروں کو مستفید کرتا ہے اور دوسروں کو بھی سکھاتا ہے یا نہیں ؟ یعنی علم کی بنا پر اس پر جو ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں وہ ادا کرتا ہے یا نہیں ؟ اگر کوئی حاکم ہے تو وہ اپنی رعایا سے کیسا سلوک کرتا ہے ؟ اگر رعایا کا فرد ہے تو اپنے حکام کی کس قدر اطاعت کرتا ہے۔ غرض ہر انسان کا اس دنیا میں ایک خاص مقام ہے خواہ اس کا درجہ اونچا ہے یا نیچا اور اس مقام پر ہی اس کے حسب حال اس دنیا میں آزمائش ہو رہی ہے اگر وہ اس امتحان میں ناکام رہتا ہے تو اللہ جلد ہی اسے سزا دینے پر قدرت رکھتا ہے اور اگر وہ فرمانبردار ہے لیکن اس سے کو تاہیاں ہوگئی ہیں تو اللہ بخش دینے والا ہے اور اگر اس امتحان میں کامیاب رہا ہے تو اللہ اس کے حق میں بہت مہربان ہے۔ اسے دنیا میں بھی عزت بخشے گا اور آخرت میں بھی اپنے انعامات سے نوازے گا۔ یہ آیت اس سورة کا تتمہ ہے جس میں بنی نوع انسان پر یہ واضح کیا گیا ہے کہ اس کائنات میں اس کی کیا حیثیت ہے اور کس مقصد کے لیے اسے پیدا کیا گیا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَهُوَ الَّذِيْ جَعَلَكُمْ خَلٰۗىِٕفَ الْاَرْضِ : یعنی زمین میں ایک دوسرے کے بعد اقتدار بخشا، یا ایک دوسرے کا جانشین اور وارث بنایا۔ وَرَفَعَ بَعْضَكُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰتٍ ۔۔ : یعنی شکل و صورت، مال و جاہ اور علم و عقل میں ایک دوسرے پر برتری بخشنے کا مقصد اپنی دی ہوئی نعمتوں میں تمہارا امتحان ہے، اگر کفر اختیار کر کے ناکام ہوگئے تو بہت جلد سزا مل جائے گی، کیونکہ ہر آنے والی چیز قریب ہے اور موت اور قیامت تو یقیناً آنے والی ہیں اور بہت جلد آنے والی ہیں اور اگر ایمان لے آئے، پھر کوئی لغزش بھی ہوئی تو وہ ذات پاک حد سے بڑھ کر بخشنے والی اور بیحد رحم کرنے والی ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

In the fifth (164) verse, Surah Al-An` am reaches its end at a compre¬hensive note of advice. It brings the past history of peoples and their times into focus and invites attention to a projection towards the fu¬ture by saying: وَهُوَ الَّذِي جَعَلَكُمْ خَلَائِفَ الْأَرْ‌ضِ وَرَ‌فَعَ بَعْضَكُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَ‌جَاتٍ (And it is He who made you vice-regents of the earth and raised some of you in ranks over some others). Here, the word: خَلَائِفَ (khala&if) is the plural form of khalifah which means vice-regent or deputy. The sense of the verse is: It is Allah Ta` ala who has let you inhabit places occupied by peoples before you. There is no home, no land which you call your private prop¬erty today, and believe to be so, which was not, only yesterday, under the ownership of other human beings like you. Allah Ta` ala has, by re-moving them, made you sit in their place. Then, worth keeping in mind all the time is the fact of life that everyone among you too is not alike. One is poor, the other is rich. One is low, the other is high. And equally obvious is the fact that, had being rich or being low been within one&s control, who would have chosen to remain poor and low? This distance among steps and this difference in ranks is knocking at your doors to tell you that this power, control and choice is in the hands of some other Being who can make anyone poor, if He so wills; make anyone rich, if He so wills; give honour to whom He wills and let whoever He wills be low. Towards the end of the verse, it was said: لِّيَبْلُوَكُمْ فِي مَا آتَاكُمْ (so that He may test you in what He has given you). It means: By making you take the place of others, and by making you owners of their wealth and property, and then, by keeping you at different steps in terms of hon¬our and wealth, the very aim is to make you open your eyes to this framework of trial which seeks to determine your reaction to this phe¬nomena that blessings which once belonged to past peoples have now been entrusted in your hands. To be seen is what it would be that of gratitude and obedience, or that of ingratitude and disobedience? At the conclusion of the fifth and the last (165) verse, the end of both these stances was made clear by saying: إِنَّ رَ‌بَّكَ سَرِ‌يعُ الْعِقَابِ وَإِنَّهُ لَغَفُورٌ‌ رَّ‌حِيمٌ (Surely, your Lord is swift in punishing - and surely He is Most-Forgiving, Very-Merciful). In other words, it means: Your Lord is going to send His punishment on the disobedient soon - and for the obedient, He is Forgiving and Merciful. Surah Al-An&-am began with Hamd (the praise of Allah) and con¬cluded on Maghfirah (the seeking of forgiveness from Allah). May Al¬lah Ta` ala bless all of us with the Taufiq (ability bestowed by Allah) of Hamd, and honour us with Maghfirah from Him. It appears in Hadith that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said: Surah Al-An` am, the whole of it, was revealed at one time. Such was the ma¬jesty of its revelation that seventy thousand angels followed behind it reciting Tasbih (glorifying Allah). Therefore, Sayyidna Faruq al-A` zam (رض) said: Surah Al-An&-am is one of the highly merited Surahs of the Holy Qur&an. In some narrations, it has been reported from Sayyidna ` Ali (رض) that Allah Ta` ala would become the healer of the sick person over whom this Surah is recited. وَآخِرُ دَعوَانَا اَنِ الحمدُ للہِ رَبِّ العٰلَمِینَ

پانچویں اور چھٹی آیت میں ایک جامع نصیحت پر سورة انعام کو ختم کیا گیا ہے، اور وہ عہد ماضی کی تاریخ اور پچھلی قوموں کی سرگزشت کو ان کے سامنے لا کر اپنے مستقبل کی طرف متوجہ فرمایا گیا ہے : (آیت) وَهُوَ الَّذِيْ جَعَلَكُمْ خَلٰۗىِٕفَ الْاَرْضِ وَرَفَعَ بَعْضَكُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰتٍ ، اس میں لفظ خلاَئِف، خلیفہ کی جمع ہے جس کے معنی ہیں کسی کا قائم مقام اور گدی نشین، معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہی تم کو تم سے پہلی قوموں کی جگہ پر آباد کیا ہے، کوئی مکان زمین جس کو آج تم اپنی ملکیت کہتے ہو اور سمجھتے ہو ایسا نہیں جو کل تمہیں جیسے دوسرے انسانوں کی ملکیت میں نہ ہو، اللہ تعالیٰ نے ان کو ہٹا کر تمہیں ان کی جگہ بٹھایا ہے، اور پھر یہ بات بھی ہر وقت قابل غور ہے کہ تم میں بھی اب آدمی یکساں نہیں، کوئی مفلس ہے کوئی مال دار، کوئی ذلیل ہے کوئی عزت دار، اور یہ بھی ظاہر ہے کہ اگر مال داری اور عزت خود انسان کے اختیار میں ہوئی تو کونسا انسان مفلسی اور ذلت کو اختیار کرتا، یہ درجات کا تفاوت بھی تمہیں اس کی خبر دے رہا ہے کہ اختیار کسی اور ہستی کے ہاتھ میں ہے، وہ جس کو چاہے مفلس کر دے جس کو چاہے مال دار، جس کو چاہے عزت دے جس کو چاہے ذلت۔ آخر آیت میں (آیت) فرمایا لِّيَبْلُوَكُمْ فِيْ مَآ اٰتٰىكُمْ ، ” یعنی تمہیں دوسرے لوگوں کی جگہ بٹھانے اور ان کے مال جائداد کا مالک بن جانے اور پھر عزت و دولت کے اعتبار سے مختلف درجات میں رکھنے سے مقصد ہی یہ ہے کہ تمہاری آنکھیں کھلیں اور اس کا امتحان ہو کہ جو نعمتیں پچھلے لوگوں کو ہٹا کر تمہارے سپرد کی گئی ہیں، ان میں تمہارا عمل کیا ہوتا ہے، شکر گزاری اور فرمانبرداری کا یا ناشکری اور نافرمانی کا ؟ چھٹی آیت میں ان دونوں حالتوں کا انجام اس طرح بتلا دیا : (آیت) اِنَّ رَبَّكَ سَرِيْعُ الْعِقَابِ ڮوَاِنَّهٗ لَغَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ ” یعنی آپ کا رب نافرمانوں پر جلد عذاب بھیجنے والا ہے، اور فرمانبرداروں کے لئے غفور و رحیم ہے “۔ سورة انعام کا شروع حمد سے ہوا اور اختتام مغفرت پر، اللہ تعالیٰ ہم سب کو حمد کی توفیق اور مغفرت سے سرفراز فرما دیں۔ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ سورة انعام مکمل ایک ہی دفعہ نازل ہوئی، اور اس شان کے ساتھ نازل ہوئی کہ ستر (70) ہزار فرشتے اس کے جلو میں تسبیح پڑھتے ہوئے آئے، اسی لئے حضرت فاروق اعظم (رض) نے فرمایا کہ سورة انعام قرآن کریم کی افضل و اعلیٰ سورتوں میں سے ہے۔ بعض روایات میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے منقول ہے کہ یہ سورة جس مریض پر پڑھی جائے اللہ تعالیٰ اس کو شفاء دیتے ہیں۔ واٰخر دعوانا ان الحمد للّٰہ رب العلمین

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَہُوَالَّذِيْ جَعَلَكُمْ خَلٰۗىِٕفَ الْاَرْضِ وَرَفَعَ بَعْضَكُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰتٍ لِّيَبْلُوَكُمْ فِيْ مَآ اٰتٰىكُمْ۝ ٠ ۭ اِنَّ رَبَّكَ سَرِيْعُ الْعِقَابِ۝ ٠ ۡ ۖ وَاِنَّہٗ لَغَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۝ ١٦٥ ۧ جعل جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها، ( ج ع ل ) جعل ( ف ) یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔ خلف والخِلافةُ النّيابة عن الغیر إمّا لغیبة المنوب عنه، وإمّا لموته، وإمّا لعجزه، وإمّا لتشریف المستخلف . وعلی هذا الوجه الأخير استخلف اللہ أولیاء ه في الأرض، قال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَكُمْ خَلائِفَ فِي الْأَرْضِ [ فاطر/ 39] ، ( خ ل ف ) خلف ( پیچھے ) الخلافۃ کے معنی دوسرے کا نائب بننے کے ہیں ۔ خواہ وہ نیابت اس کی غیر حاضری کی وجہ سے ہو یا موت کے سبب ہو اور ریا اس کے عجز کے سبب سے ہوا دریا محض نائب کو شرف بخشے کی غرض سے ہو اس آخری معنی کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے اپنے اولیاء کو زمین میں خلافت بخشی ۔ ہے چناچہ فرمایا :۔ وَهُوَ الَّذِي جَعَلَكُمْ خَلائِفَ الْأَرْضِ [ الأنعام/ 165] اور وہی تو ہے جس نے زمین میں تم کو اپنا نائب بنایا ۔ رفع الرَّفْعُ في الأجسام الموضوعة إذا أعلیتها عن مقرّها، نحو : وَرَفَعْنا فَوْقَكُمُ الطُّورَ [ البقرة/ 93] ، قال تعالی: اللَّهُ الَّذِي رَفَعَ السَّماواتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَها[ الرعد/ 2] ( ر ف ع ) الرفع ( ف ) کے معنی اٹھانے اور بلند کرنے کے ہیں یہ مادی چیز جو اپنی جگہ پر پڑی ہوئی ہو اسے اس کی جگہ سے اٹھا کر بلند کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ جیسے فرمایا : وَرَفَعْنا فَوْقَكُمُ الطُّورَ [ البقرة/ 93] اور ہم نے طو ر پہاڑ کو تمہارے اوپر لاکر کھڑا کیا ۔ اللَّهُ الَّذِي رَفَعَ السَّماواتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَها[ الرعد/ 2] وہ قادر مطلق ہے جس نے آسمان کو بدوں کسی سہارے کے اونچا بناکر کھڑا کیا ۔ فوق فَوْقُ يستعمل في المکان، والزمان، والجسم، والعدد، والمنزلة، وذلک أضرب : الأول : باعتبار العلوّ. نحو : وَرَفَعْنا فَوْقَكُمُ الطُّورَ [ البقرة/ 63] ، مِنْ فَوْقِهِمْ ظُلَلٌ مِنَ النَّارِ [ الزمر/ 16] ، وَجَعَلَ فِيها رَواسِيَ مِنْ فَوْقِها [ فصلت/ 10] ، ويقابله تحت . قال : قُلْ هُوَ الْقادِرُ عَلى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذاباً مِنْ فَوْقِكُمْ أَوْ مِنْ تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ [ الأنعام/ 65] الثاني : باعتبار الصّعود والحدور . نحو قوله :إِذْ جاؤُكُمْ مِنْ فَوْقِكُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنْكُمْ [ الأحزاب/ 10] . الثالث : يقال في العدد . نحو قوله : فَإِنْ كُنَّ نِساءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ [ النساء/ 11] . الرابع : في الکبر والصّغر مَثَلًا ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة/ 26] . الخامس : باعتبار الفضیلة الدّنيويّة . نحو : وَرَفَعْنا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجاتٍ [ الزخرف/ 32] ، أو الأخرويّة : وَالَّذِينَ اتَّقَوْا فَوْقَهُمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ البقرة/ 212] ، فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا [ آل عمران/ 55] . السادس : باعتبار القهر والغلبة . نحو قوله : وَهُوَ الْقاهِرُ فَوْقَ عِبادِهِ [ الأنعام/ 18] ، وقوله عن فرعون : وَإِنَّا فَوْقَهُمْ قاهِرُونَ [ الأعراف/ 127] ( ف و ق ) فوق یہ مکان ازمان جسم عدد اور مرتبہ کے متعلق استعمال ہوتا ہے اور کئی معنوں میں بولا جاتا ہے اوپر جیسے فرمایا ۔ وَرَفَعْنا فَوْقَكُمُ الطُّورَ [ البقرة/ 63] اور کوہ طور کو تم پر اٹھا کھڑا کیا ۔ مِنْ فَوْقِهِمْ ظُلَلٌ مِنَ النَّارِ [ الزمر/ 16] کے اوپر تو آگ کے سائبان ہوں گے ۔ وَجَعَلَ فِيها رَواسِيَ مِنْ فَوْقِها [ فصلت/ 10] اور اسی نے زمین میں اس کے پہاڑ بنائے ۔ اس کی ضد تحت ہے جس کے معنی نیچے کے ہیں چناچہ فرمایا ۔ قُلْ هُوَ الْقادِرُ عَلى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذاباً مِنْ فَوْقِكُمْ أَوْ مِنْ تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ [ الأنعام/ 65] کہ وہ اس پر بھی قدرت رکھتا ہے کہ تم پر اوپر کی طرف سے یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے عذاب بھیجے ۔ 2 صعود یعنی بلند ی کی جانب کے معنی میں اس کی ضدا سفل ہے جس کے معنی پستی کی جانب کے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ إِذْ جاؤُكُمْ مِنْ فَوْقِكُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنْكُمْ [ الأحزاب/ 10] جب وہ تمہارے اوپر اور نیچے کی جانب سے تم پر چڑھ آئے ۔ 3 کسی عدد پر زیادتی کے معنی ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے جیسے فرمایا : ۔ فَإِنْ كُنَّ نِساءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ [ النساء/ 11] اگر اولاد صرف لڑکیاں ہی ہوں ( یعنی دو یا ) دو سے زیادہ ۔ 4 جسمانیت کے لحاظ سے بڑا یا چھوٹا ہونے کے معنی دیتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : مَثَلًا ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة/ 26] مچھر یا اس سے بڑھ کر کسی چیز مثلا مکھی ۔ مکڑی کی مثال بیان فرمائے ۔ 5 بلحاظ فضیلت دنیوی کے استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا ۔ وَرَفَعْنا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجاتٍ [ الزخرف/ 32] اور ایک دوسرے پر درجے بلند کئے ۔ اور کبھی فضلیت اخروی کے لحاظ سے آتا ہے جیسے فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اتَّقَوْا فَوْقَهُمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ البقرة/ 212] لیکن جو پرہیز گار ہیں وہ قیامت کے دن ان پر پر فائق ہوں گے ۔ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا [ آل عمران/ 55] کافروں پر فائق ۔ 6 فوقیت معنی غلبہ اور تسلط کے جیسے فرمایا : ۔ وَهُوَ الْقاهِرُ فَوْقَ عِبادِهِ [ الأنعام/ 18] اور وہ اپنے بندوں پر غالب ہے ۔ وَإِنَّا فَوْقَهُمْ قاهِرُونَ [ الأعراف/ 127] فرعون سے اور بےشبہ ہم ان پر غالب ہیں ۔ درج الدّرجة نحو المنزلة، لکن يقال للمنزلة : درجة إذا اعتبرت بالصّعود دون الامتداد علی البسیطة، کدرجة السّطح والسّلّم، ويعبّر بها عن المنزلة الرفیعة : قال تعالی: وَلِلرِّجالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ [ البقرة/ 228] ( د ر ج ) الدرجۃ : کا لفظ منزلہ ميں اترنے کی جگہ کو درجۃ اس وقت کہتے ہیں جب اس سے صعود یعنی اوپر چڑھتے کا اعتبار کیا جائے ورنہ بسیط جگہ پر امدراد کے اعتبار سے اسے درجۃ نہیں کہتے جیسا کہ چھت اور سیڑھی کے درجات ہوتے ہیں مگر کبھی اس کا اطلاق مزالہ رفیع یعنی بلند مرتبہ پر بھی ہوجاتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَلِلرِّجالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ [ البقرة/ 228] البتہ مردوں کو عورتوں پر فضیلت ہے ۔ بلی يقال : بَلِيَ الثوب بِلًى وبَلَاءً ، أي : خلق، ومنه قيل لمن سافر : بلو سفر وبلي سفر، أي : أبلاه السفر، وبَلَوْتُهُ : اختبرته كأني أخلقته من کثرة اختباري له، وقرئ : هُنالِكَ تَبْلُوا كُلُّ نَفْسٍ ما أَسْلَفَتْ [يونس/ 30] ، أي : تعرف حقیقة ما عملت، ولذلک قيل : بلوت فلانا : إذا اختبرته، وسمّي الغم بلاءً من حيث إنه يبلي الجسم، قال تعالی: وَفِي ذلِكُمْ بَلاءٌ مِنْ رَبِّكُمْ عَظِيمٌ [ البقرة/ 49] ، وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِنَ الْخَوْفِ الآية [ البقرة/ 155] ، وقال عزّ وجل : إِنَّ هذا لَهُوَ الْبَلاءُ الْمُبِينُ [ الصافات/ 106] ، وسمي التکليف بلاء من أوجه : - أحدها : أن التکالیف کلها مشاق علی الأبدان، فصارت من هذا الوجه بلاء . - والثاني : أنّها اختبارات، ولهذا قال اللہ عزّ وجل : وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ حَتَّى نَعْلَمَ الْمُجاهِدِينَ مِنْكُمْ وَالصَّابِرِينَ وَنَبْلُوَا أَخْبارَكُمْ [ محمد/ 31] . - والثالث : أنّ اختبار اللہ تعالیٰ للعباد تارة بالمسار ليشکروا، وتارة بالمضار ليصبروا، فصارت المحنة والمنحة جمیعا بلاء، فالمحنة مقتضية للصبر، والمنحة مقتضية للشکر . والقیام بحقوق الصبر أيسر من القیام بحقوق الشکر فصارت المنحة أعظم البلاء ین، وبهذا النظر قال عمر : ( بلینا بالضراء فصبرنا وبلینا بالسراء فلم نشکر) «4» ، ولهذا قال أمير المؤمنین : من وسع عليه دنیاه فلم يعلم أنه قد مکر به فهو مخدوع عن عقله «1» . وقال تعالی: وَنَبْلُوكُمْ بِالشَّرِّ وَالْخَيْرِ فِتْنَةً [ الأنبیاء/ 35] ، وَلِيُبْلِيَ الْمُؤْمِنِينَ مِنْهُ بَلاءً حَسَناً [ الأنفال/ 17] ، وقوله عزّ وجل : وَفِي ذلِكُمْ بَلاءٌ مِنْ رَبِّكُمْ عَظِيمٌ [ البقرة/ 49] ، راجع إلى الأمرین، إلى المحنة التي في قوله عزّ وجل : يُذَبِّحُونَ أَبْناءَكُمْ وَيَسْتَحْيُونَ نِساءَكُمْ [ البقرة/ 49] ، وإلى المنحة التي أنجاهم، وکذلک قوله تعالی: وَآتَيْناهُمْ مِنَ الْآياتِ ما فِيهِ بَلؤُا مُبِينٌ [ الدخان/ 33] ، راجع إلى الأمرین، كما وصف کتابه بقوله : قُلْ هُوَ لِلَّذِينَ آمَنُوا هُدىً وَشِفاءٌ وَالَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ فِي آذانِهِمْ وَقْرٌ وَهُوَ عَلَيْهِمْ عَمًى [ فصلت/ 44] . وإذا قيل : ابْتَلَى فلان کذا وأَبْلَاهُ فذلک يتضمن أمرین : أحدهما تعرّف حاله والوقوف علی ما يجهل من أمره، والثاني ظهور جو دته ورداء ته، وربما قصد به الأمران، وربما يقصد به أحدهما، فإذا قيل في اللہ تعالی: بلا کذا وأبلاه فلیس المراد منه إلا ظهور جو دته ورداء ته، دون التعرف لحاله، والوقوف علی ما يجهل من أمره إذ کان اللہ علّام الغیوب، وعلی هذا قوله عزّ وجل : وَإِذِ ابْتَلى إِبْراهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِماتٍ فَأَتَمَّهُنَّ [ البقرة/ 124] . ويقال : أَبْلَيْتُ فلانا يمينا : إذا عرضت عليه الیمین لتبلوه بها ( ب ل ی ) بلی الوقب ۔ بلی وبلاء کے معنی کپڑے کا بوسیدہ اور پرانا ہونے کے ہیں اسی سے بلاہ السفرہ ای ابلاہ ۔ کا تج اور ہ ہے ۔ یعنی سفر نے لا غر کردیا ہے اور بلو تہ کے معنی ہیں میں نے اسے آزمایا ۔ گویا کثرت آزمائش سے میں نے اسے کہنہ کردیا اور آیت کریمہ : هُنالِكَ تَبْلُوا كُلُّ نَفْسٍ ما أَسْلَفَتْ «3» [يونس/ 30] وہاں ہر شخص ( اپنے اعمال کی ) جو اس نے آگے بھیجے ہوں گے آزمائش کرلے گا ۔ میں ایک قرآت نبلوا ( بصیغہ جمع متکلم ) بھی ہے اور معنی یہ ہیں کہ وہاں ہم ہر نفس کے اعمال کی حقیقت کو پہچان لیں گے اور اسی سے ابلیت فلان کے معنی کسی کا امتحان کرنا بھی آتے ہیں ۔ اور غم کو بلاء کہا جاتا ہے کیونکہ وہ جسم کو کھلا کر لاغر کردیتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَفِي ذلِكُمْ بَلاءٌ مِنْ رَبِّكُمْ عَظِيمٌ [ البقرة/ 49] اور اس میں تمہارے پروردگار کی طرف سے بڑی دسخت آزمائش تھی ۔ ۔ وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِنَ الْخَوْفِ الآية [ البقرة/ 155] اور ہم کسی قدر خوف سے تمہاری آزمائش کریں گے ۔ إِنَّ هذا لَهُوَ الْبَلاءُ الْمُبِينُ [ الصافات/ 106] بلاشبہ یہ صریح آزمائش تھی ۔ اور تکلف کو کئی وجوہ کی بناہ پر بلاء کہا گیا ہے ایک اسلئے کہ تکا لیف بدن پر شاق ہوتی ہیں اس لئے انہیں بلاء سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ دوم یہ کہ تکلیف بھی ایک طرح سے آزمائش ہوتی ہے ۔ جیسے فرمایا وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ حَتَّى نَعْلَمَ الْمُجاهِدِينَ مِنْكُمْ وَالصَّابِرِينَ وَنَبْلُوَا أَخْبارَكُمْ [ محمد/ 31] اور ہم تو لوگوں کو آزمائیں گے تاکہ جو تم میں لڑائی کرنے اور ثابت قدم رہنے والے ہیں ان کو معلوم کریں ۔ سوم اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کبھی تو بندوں کو خوش حالی سے آزماتے ہیں کہ شکر گزار بنتے ہیں یا نہیں اور کبھی تنگی کے ذریعہ امتحان فرماتے ہیں کہ ان کے صبر کو جانچیں ۔ لہذا مصیبت اور نعمت دونوں آزمائش ہیں محنت صبر کا تقاضا کرتی ہے اور منحتہ یعنی فضل وکرم شکر گزاری چاہتا ہے ۔ اور اس میں شک نہیں کہ کہا حقہ صبر کرنا کہا حقہ شکر گزاری سے زیادہ آسان ہوتا ہے اس لئے نعمت میں یہ نسبت مشقت کے بڑی آزمائش ہے اسی بنا پر حضرت عمر فرماتے ہیں کہ تکا لیف پر تو صابر رہے لیکن لیکن فراخ حالی میں صبر نہ کرسکے اور حضرت علی فرماتے ہیں کہ جس پر دنیا فراخ کی گئی اور اسے یہ معلوم نہ ہوا کہ آزامائش کی گرفت میں ہے تو و فریب خوردہ اور عقل وفکر سے مخزوم ہے قرآن میں ہے ۔ وَنَبْلُوكُمْ بِالشَّرِّ وَالْخَيْرِ فِتْنَةً [ الأنبیاء/ 35] اور ہم تم لوگوں کو سختی اور آسودگی میں آزمائش کے طور پر مبتلا کرتے ہیں ۔ وَلِيُبْلِيَ الْمُؤْمِنِينَ مِنْهُ بَلاءً حَسَناً «2» [ الأنفال/ 17] اس سے غرض یہ تھی کہ مومنوں کو اپنے ( احسانوں ) سے اچھی طرح آزما لے ۔ اور آیت کریمہ : وَفِي ذلِكُمْ بَلاءٌ مِنْ رَبِّكُمْ عَظِيمٌ [ البقرة/ 49] اور اس میں تمہاراے پروردگار کی طرف سے بڑی ( سخت ) آزمائش تھی میں بلاء کا لفظ نعمت و مشقت دونوں طرح کی آزمائش کو شامل ہی چناچہ آیت : يُذَبِّحُونَ أَبْناءَكُمْ وَيَسْتَحْيُونَ نِساءَكُمْ [ البقرة/ 49]( تہمارے بیٹوں کو ) تو قتل کر ڈالتے تھے اور بیٹیوں کو زندہ رہنے دیتے تھے ۔ میں مشقت کا بیان ہے اور فرعون سے نجات میں نعمت کا تذکرہ ہے اسی طرح آیت وَآتَيْناهُمْ مِنَ الْآياتِ ما فِيهِ بَلؤُا مُبِينٌ [ الدخان/ 33] اور ان کو نشانیاں دی تھیں جنیہں صریح آزمائش تھی میں دونوں قسم کی آزمائش مراد ہے جیسا کہ کتاب اللہ کے متعلق فرمایا ۔ قُلْ هُوَ لِلَّذِينَ آمَنُوا هُدىً وَشِفاءٌ وَالَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ فِي آذانِهِمْ وَقْرٌ وَهُوَ عَلَيْهِمْ عَمًى [ فصلت/ 44] ( کسی کا امتحان کرنا ) یہ دو امر کو متضمن ہوتا ہے ( 1) تو اس شخص کی حالت کو جانچنا اور اس سے پوری طرح باخبر ہونا مقصود ہوتا ہے دوسرے ( 2 ) اس کی اچھی یا بری حالت کو دوسروں کے سامنے ظاہر کرنا ۔ پھر کبھی تو یہ دونوں معنی مراد ہوتے ہیں اور کبھی صرف ایک ہی معنی مقصود ہوتا ہے ۔ جب اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف تو صرف دوسرے معنی مراد ہوتے ہیں یعنی اس شخص لہ خوبی یا نقص کو دوسروں کے سامنے ظاہر کرنا مقصود ہوتا ہے ۔ کیونکہ ذات ہے اسے کسی کی حالت سے باخبر ہونے کی ضرورت نہیں لہذا آیت کریمہ : وَإِذِ ابْتَلى إِبْراهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِماتٍ فَأَتَمَّهُنَّ [ البقرة/ 124] اور پروردگار نے چند باتوں میں ابراھیم کی آزمائش کی تو وہ ان میں پورے اترے ۔ دوسری معنی پر محمول ہوگی ( یعنی حضرت ابراھیم کے کمالات کو دوسروں کے سامنے ظاہر کرنا مقصود تھا ) ابلیت فلانا یمینا کسی سے آزمائش قسم لینا ۔ إِيتاء : الإعطاء، [ وخصّ دفع الصدقة في القرآن بالإيتاء ] نحو : وَأَقامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكاةَ [ البقرة/ 277] ، وَإِقامَ الصَّلاةِ وَإِيتاءَ الزَّكاةِ [ الأنبیاء/ 73] ، ووَ لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئاً [ البقرة/ 229] ، ووَ لَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمالِ [ البقرة/ 247] الایتاء ( افعال ) اس کے معنی اعطاء یعنی دینا اور بخشنا ہے ہیں ۔ قرآن بالخصوص صدقات کے دینے پر یہ لفظ استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا :۔ { وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ } [ البقرة : 277] اور نماز پڑہیں اور زکوۃ دیں { وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ } [ الأنبیاء : 73] اور نماز پڑھنے اور زکوۃ دینے کا حکم بھیجا { وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ } ( سورة البقرة 229) اور یہ جائز نہیں ہے کہ جو مہر تم ان کو دے چکو اس میں سے کچھ واپس لے لو { وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ } [ البقرة : 247] اور اسے مال کی فراخی نہیں دی گئی سرع السُّرْعَةُ : ضدّ البطء، ويستعمل في الأجسام، والأفعال، يقال : سَرُعَ ، فهو سَرِيعٌ ، وأَسْرَعَ فهو مُسْرِعٌ ، وأَسْرَعُوا : صارت إبلهم سِرَاعاً ، نحو : أبلدوا، وسَارَعُوا، وتَسَارَعُوا . قال تعالی: وَسارِعُوا إِلى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ [ آل عمران/ 133] ، وَيُسارِعُونَ فِي الْخَيْراتِ [ آل عمران/ 114] ، يَوْمَ تَشَقَّقُ الْأَرْضُ عَنْهُمْ سِراعاً [ ق/ 44] ( س ر ع ) السرعۃ اس کے معنی جلدی کرنے کے ہیں اور یہ بطا ( ورنگ گردن ) کی ضد ہے ۔ اجسام اور افعال دونوں کے ( ان کے اونٹ تیز رفتاری سے چلے گئے ) آتے ہں ۔ جیسا کہ اس کے بالمقابل ایلد وا کے معنی سست ہونا آتے ہیں ۔ سارعوا وتسارعو ایک دوسرے سے سبقت کرنا چناچہ قرآن میں ہے : وَسارِعُوا إِلى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ [ آل عمران/ 133] اور اپنے پروردگار کی بخشش ( اور بہشت کی ) طرف لپکو ۔ وَيُسارِعُونَ فِي الْخَيْراتِ [ آل عمران/ 114] اور نیکیوں پر لپکتے ہیں ۔ يَوْمَ تَشَقَّقُ الْأَرْضُ عَنْهُمْ سِراعاً [ ق/ 44] اس روز زمین ان پر سے پھٹ جائے گی اور جھٹ جھٹ نکل کھڑے ہوں گے ۔ عُقُوبَةُ والمعاقبة والعِقَاب والعُقُوبَةُ والمعاقبة والعِقَاب يختصّ بالعذاب، قال : فَحَقَّ عِقابِ [ ص/ 14] ، شَدِيدُ الْعِقابِ [ الحشر/ 4] ، وَإِنْ عاقَبْتُمْ فَعاقِبُوا بِمِثْلِ ما عُوقِبْتُمْ بِهِ [ النحل/ 126] ، وَمَنْ عاقَبَ بِمِثْلِ ما عُوقِبَ بِهِ [ الحج/ 60] . اور عقاب عقوبتہ اور معاقبتہ عذاب کے ساتھ مخصوص ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ فَحَقَّ عِقابِ [ ص/ 14] تو میرا عذاب ان پر واقع ہوا ۔ شَدِيدُ الْعِقابِ [ الحشر/ 4] سخت عذاب کر نیوالا ۔ وَإِنْ عاقَبْتُمْ فَعاقِبُوا بِمِثْلِ ما عُوقِبْتُمْ بِهِ [ النحل/ 126] اگر تم ان کو تکلیف دینی چاہو تو اتنی ہی دو جتنی تکلیف تم کو ان سے پہنچی ہے ۔ وَمَنْ عاقَبَ بِمِثْلِ ما عُوقِبَ بِهِ [ الحج/ 60] جو شخص کسی کو اتنی ہی سزا کہ اس کو دی گئی ہے ۔ غفر الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة/ 285] ( غ ف ر ) الغفر ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة/ 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔ رحم والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین . ( ر ح م ) الرحم ۔ الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] لوگو ! تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے )

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٦٥) اسی رب نے گزشتہ قوموں کا تمہیں زمین میں جانشین کیا اور ایک دوسرے پر مال و دولت دے کر رتبہ بڑھایا تاکہ جو مال و دولت بطور خدام تمہیں دے ہیں اس کے ذریعے سے تمہاری آزمایش کرے کافر اور ناشکر گزار کو اللہ تعالیٰ جلد سزا دینے والا ہے اور وہ واقعی مومن مغفرت کرنے والا بڑی مہربانی کرنے والا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٦٥ (وَہُوَ الَّذِیْ جَعَلَکُمْ خَلٰٓءِفَ الْاَرْضِ ) خلیفہ بنانا ایک تو اس مفہوم میں ہے کہ جو خلافت حضرت آدم (علیہ السلام) کو دی گئی تھی اس کا حصہ بالقوۃ (potentially) تمام انسانوں کو ملا ہے ‘ اور جو بھی شخص اللہ کا مطیع اور فرماں بردار ہو کر اللہ کو اپنا حاکم اور بادشاہ مان لے تو وہ گویا اس کی خلافت کا حقدار ہوگیا۔ خَلآءِفَ الْاَرْضِکا دوسرا مفہوم یہ ہے کہ تمہیں زمین میں ایک دوسرے کا جانشین بنایا۔ ایک نسل کے بعد دوسری نسل اور ایک قوم کے بعد دوسری قوم آتی ہے اور انسانی وراثت نسل در نسل اور قوم در قوم منتقل ہوتی جاتی ہے۔ یہی فلسفہ اس سورة کی آیت ١٣٣ میں بھی بیان ہوا ہے۔ (وَرَفَعَ بَعْضَکُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰتٍ ) اس دنیوی زندگی میں اللہ نے اپنی مشیت کے مطابق کسی کو علم دیا ہے ‘ کسی کو حکمت دی ہے ‘ کسی کو ذہانت میں فضیلت دی ہے ‘ کسی کو جسمانی طاقت میں برتری دی ہے ‘ کسی کو صحت جسمانی بہتر دی ہے اور کسی کو حسن جسمانی میں دوسروں پر فوقیت دی ہے۔ یعنی مختلف انداز میں اس نے ہر ایک کو اپنے فضل سے نوازا ہے اور مختلف انسانوں کے درجات و مراتب میں اپنی حکمت کے تحت فرق و تفاوت بھی برقرار رکھا ہے۔ (لِّیَبْلُوَکُمْ فِیْ مَآ اٰتٰٹکُمْ ط) ۔ یعنی دنیا کی تمام نعمتیں انسان کو بطور آزمائش دی جاتی ہیں۔ بَلَا ‘ یَبْلُوْ کے معنی ہیں آزمانا اور جانچنا۔ ابتلاء (بمعنی امتحان اور آزمائش) اسی سے باب افتعال ہے ۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

146. This statement embodies three important truths: First, that human beings as such are vicegerents of God on earth, so that God has entrusted them with many things and endowed them with the power to use them. Second, it is God Himself Who has created differences of rank among His vicegerents. The trust placed in some is more than that of others. Some men have been granted control of more resources than others. Some are more gifted in respect of their abilities. Likewise, some human beings have been placed under the trust of others. Third, all this is indeed designed to test man. The entire life. of man is in fact, a vast examination wherein man is being tested about the trust he has received from God: how sensitive he is to that trust, to what extent he lives up to it, and to what extent he proves to be competent with it. What position man will be able to attain in the Next Life depends on the result of this test.

سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :146 اس فقرہ میں تین حقیقتیں بیان کی گئی ہیں: ایک یہ کہ تمام انسان زمین میں خدا کے خلیفہ ہیں ، اس معنی میں کہ خدا نے اپنی مملوکات میں سے بہت سی چیزیں ان کی امانت میں دی ہیں اور ان پر تصرف کے اختیارات بخشے ہیں ۔ دوسرے یہ کہ ان خلیفوں میں مراتب کا فرق بھی خدا ہی نے رکھا ہے ، کسی کی امانت کا دائرہ وسیع ہے اور کسی کا محدود ، کسی کو زیادہ چیزوں پر تصرف کے اختیارات دیے ہیں اور کسی کو کم چیزوں پر ، کسی کو زیادہ قوت کارکردگی دی ہے اور کسی کو کم ، اور بعض انسان بھی بعض انسانوں کی امانت میں ہیں ۔ تیسرے یہ کہ یہ سب کچھ دراصل امتحان کا سامان ہے ، پوری زندگی ایک امتحان گاہ ہے ، اور جس کو جو کچھ بھی خدا نے دیا ہے اسی میں اس کا امتحان ہے کہ اس نے کس طرح خدا کی امانت میں تصرف کیا ، کہاں تک امانت کی ذمہ داری کو سمجھا اور اس کا حق ادا کیا ، اور کس حد تک اپنی قابلیت یا ناقابلیت کا ثبوت دیا ۔ اسی امتحان کے نتیجہ پر زندگی کے دوسرے مرحلے میں انسان کے درجے کا تعین منحصر ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

جس طرح ہر مسلمان کو اللہ تعالیٰ کی رحمت اور بخشش کی توقع رکھنی چاہئے اسی طرح اس کے عذاب اور غصہ سے بھی ہر وقت ڈرنا چاہئے اس واسطے ایمان امید اور زندگی کے بیچ میں قرار پایا ہے صحیح مسلم ترمذی مسند امام احمد بن حنبل میں ابوہریرہ (رض) اور صحابہ (رض) کی مرفوع اور موقوف حدیثوں کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت نے فرمایا اللہ تعالیٰ کے عذاب اور غصہ کا حال اگر لوگوں کو معلوم ہوجاوے تو جنت میں داخل ہونے سے ہر ایک کا دل چھوٹ جاوے اسی طرح اس کی رحمت کا حال معلوم ہوجاوے تو کوئی اپنے آپ کو دوزخی نہ خیال کرے صحیح بخاری ومسلم میں ابوہریرہ (رض) کی حدیث ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ رحمت کے سو درجہ اللہ تعالیٰ نے پیدا کئے ہیں ایک درجہ دنیا بھر میں ساری خلقت کو بٹا ہے اور ننانوے درجے اللہ تعالیٰ کے پاس ہیں صحیح بخاری ومسلم میں ابوہریرہ (رض) کی دوسری حدیث ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ دنیا کے پیدا کرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ نے ایک نوشتہ عرش پر اپنے پاس لکھ کر رکھ لیا ہے کہ اللہ کی رحمت اللہ کے غضب اور غصہ پر غالب ہے۔ حاصل مطلب آیت کا یہ ہے کہ پچھلی امتوں کے بعد اے امت محمدیہ اللہ تعالیٰ نے ان امتوں کے نائب اور قائم مقام کے طور پر تم کو پیدا کیا ہے اور انتظام دنیا چلنے کے لئے بعضوں کو تم میں مال دار کیا ہے اور بعضوں کو تنگ دست تاکہ تنگ دست لوگوں کے کام کاج سے اپنی ہر طرح کو ضرورتوں کو رفع کر کے اپنی گذران کریں اور امیر غریب کے پیدا کرنے میں آزمائش بھی ہے کہ مال دار لوگ کہاں تک اس مال ومتاع کے دینے والے کا شکر کرتے ہیں اور غریب لوگ اپنی غریبی پر کہاں تک صبر و قناعت سے کام لیتے ہیں پھر فرمایا کہ یہ دنیا اور دنیا کا انتظام سب چند روزہ ہے اس چند روزہ انتظام میں خواہ امیر خواہ غریب جو کوئی اتنی عقل مندی کرے گا کہ پچھلی امتوں کے عذاب الٰہی سے ہلاک ہوجانے کا حال پیش نظر رکھ کر جہاں تک ہو سکے کچھ عقبے کا سامان کر لیوے گا تو اللہ تعالیٰ کی رحمت ایسی وافر ہے کہ وہ تھوڑے عمل کا بہت سا ثواب عنایت فرماویگا چناچہ فقط ایک کلمہ توحید کا ثواب کا حال اوپر گذر چکا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کہاں تک اس کو بڑھا دیا اور جو کوئی نادانی سے عمر بھر نافرمانی میں گرفتار رہے گا تو اللہ تعالیٰ کا عذاب بھی ایسا سخت ہے کہ جس کا کچھ ٹھکانا نہیں۔ معتبر سند سے شدادبن اوس (رض) کی حدیث ترمذی اور ابن ماجہ کے حوالہ سے گذر چکی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا عقلمند وہ شخص ہے جو موت سے پہلے موت کے مابعد کا کچھ سامان کر لیوے اور نادان وہ شخص ہے جو عمر بھر نافرمانی میں لگار ہے اور پھر عقبے میں اللہ تعالیٰ سے بہبودی کی توقع رکھے اس حدیث کو آیت کی تفسیر میں بڑا دخل ہے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(6:165) لیبلوکم۔ بلایبلوا (نصر) لام تعلیل کے لئے یبلوا مضارع واحد مذکر غائب کم ضمیر مفعول جمع مذکر حاضر۔ تاکہ تم کو آزمائے۔ بلاء مصدر۔ ما اتکم۔ (وہ نعمت) جو اس نے تم کو دی۔ سریع العقاب۔ سریع۔ سرعت سے کرنے والا۔ فعیل کے وزن پر بمعنی فاعل صفت مشبہ کا صیغہ ہے۔ عقاب سزا۔ عقوبت۔ عذاب۔ سزا دینا۔ عاقب یعاقب (مفاعلۃ) سے ۔ عقوبت۔ معاتبۃ و عقاب تینوں الفاظ عذاب کے لئے مخصوص ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 اپنا پہلی امتوں کایا آپس میں ایک دوسرے کا۔4 شکل و صورت مال وجاہ۔ علم و عقل وغیرہ میں۔ (کبیر)6 یہ عذاب گو آخرت میں ہوگا مگر کل ماھو آت فھو جلد ہی آنے والا ہے جیسے فرمایا۔ وَلِلَّهِ غَيْبُ السَّمَاوَاتِ وَالأرْضِ وَمَا أَمْرُ السَّاعَةِ إِلا كَلَمْحِ الْبَصَرِ أَوْ هُوَ أَقْرَبُ (نحل :77) یہ کفار کے لیے تخویف ہے۔ (قرطبی، ) الحمد للہ کہ آج صفر المظفر 1389 ھ کو تفسیر ورۃ انعام ختم ہوئی اور بعد از صلوۃ عصر تفسیر سورت اعراف شروع کی والحمد للہ المنعم العلام۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن : آیت نمبر 165 : خلئف ( خلیفۃ) ۔ نائب۔ قائم مقام ‘ رحیم (بہت رحم کرنے والا) ۔ تشریح : آیت نمبر 165 : گذشتہ آیات میں بتایا گیا ہے کہ اسلام کی روح کیا ہے ؟ ۔ وہ اپنے مسلم میں کون کون سے ظاہری و باطنی صفات ڈھونڈتا ہے ۔ اور کیوں ؟ یہ آخری آیت اسی ” کیوں “ کی تشریح ہے۔ ان صفات کی ضرورت اس لئے ہے تاکہ تم خلیفۃ اللہ فی الارض کی ذمہ داری اٹھا سکو۔ تاکہ تم دنیا کی چیزیں امانت الٰہی سمجھ کر برت سکوتا کہ تم اس کی سزا سے بچ سکو اور اس کی طرف سے معافی اور رحمت حاصل کرسکو۔ جو حاصل زندگی ہے۔ شرک اور خلافت دونوں کا جمع ہونا محال ہے۔ سورة انعام جو سراسر تردید شرک کی سورة ہے اپنی تمام بحث کا خاتمہ اس سب سے بڑی دلیل پر کرتی ہے کہ اسلام کیا ہے ؟ اور خلافت کیا ہے ؟ مصنوعی الہ سے بچنا خواہ وہ بت ہو ‘ افسانہ ہو ‘ نفس ہو ‘ حرص مال یاحرص جاہ ہو ‘ قوم پرستی ‘ کنبہ پرستی یا وطن پرستی ہو۔ شرک میں پھنس کر تم خود نظر ‘ تنگ نظر ‘ خود فریب ہو جائو گے۔ تمہارے قلب و نگاہ میں وہ عالمگیریت نہیں پیدا ہوگی جو اس دنیا میں اللہ کی نمائندگی کی کلیدی شرط ہے۔ اس مختصر آیت میں چار حقیقتیں پیش فرمائی گئی ہیں۔ (1) تمام انسان زمین پر اللہ تعالیٰ کے خلیفہ ہیں۔ سورة بقرہ آیت 30 میں ہے ” میں زمین پر اپنا نائب مقرر کرچکا ہوں “۔ پہلے نائب حضرت آدم (علیہ السلام) تھے۔ ان کے بعد ان کی اولادودر اولاد ۔ چناچہ اس خلافت کو مسلم مانتا ہے۔ غیر مسلم نہیں مانتا۔ (2) اس خلافت کے فرائض انجام دینے کے لئے اللہ تعالیٰ نے اپنی اشیاء پر انسان کو استعمال کی آزادی بخشی ہے۔ مسلم امانت کو امانت سمجھتا ہے۔ غیر مسلم خیانت کرتا ہے۔ (3) ان خلفا میں مراتب کا فرق بھی اللہ ہی نے رکھا ہے۔ کوئی امیر ہے کوئی غریب ‘ کوئی حاکم ہے کوئی محکوم ‘ کوئی باپ ہے کوئی بیٹا۔ (4) اللہ نے اپنی چیزوں پر انسان کو اختیارات بخشے ہیں تو کس لئے ؟ امتحان کے لئے۔ حق و باطل کی کشمکش میں کون کتنے بھر پانی میں ہے۔ کون طوفاں کے طمانچوں کا مقابلہ کررہا ہے۔ اور کون چاردیواری میں چھپا ہوا ساحل سے رزم خیرو شر کا فقط تماشہ دیکھ رہا ہے کون طائوس و رباب میں وقت اور صلاحیت کی امانت ضائع کررہا ہے۔ اسی امتحان کی بنیاد پر آخرت میں نمبر دیئے جائیں گے۔ فرمایا ہے اس امتحان کے نتیجہ میں دیر نہیں ہے۔ مردے کی قیامت قبر ہی سے شروع ہوجاتی ہے۔ ویسے بھی قیامت خواہ ہزاروں یا لکھوں سال دور ہو لیکن جب مردے اپنی زندگی ثانی میں اٹھیں گے تو انہیں ایسا معلوم ہوگا جیسے وہ ابھی سوئے تھے اور کچھ دیر بعد بیدار ہوگئے ہیں۔ اور اس کے یہ بھی معنی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو حساب بےباق کرتے ہوئے دیر نہیں لگے گی۔ یہ حساب تین بنیادوں پر ہوگا۔ انصاف۔ معافی۔ رحمت ۔ سزا پانے والوں کے ساتھ انصاف سراسرانصاف۔ جزاپانے والوں کے ساتھ معافی اور بعد ازاں رحمت۔ درحقیقت معافی رحمت کی ابتداء ہے۔ ایک اہم نکتہ پیش نظر رہنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے جو ہمیں دنیا میں خلیفہ بنا کر بھیجا ہے اپنی بیشمار امانتوں پر تصرفات دیئے ہیں۔ علم دیا ہے۔ عقل دی ہے۔ دنیاکا نظام حیات کچھ ایسا کردیا ہے کہ ہم ان تصرفات سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ اس کے بعد وہ ہمیں موت دے گا۔ قبر دے گا۔ قیامت دے گا۔ یہ سب کچھ اس کی رحمانیت کا ظہور ہے۔ اس میں کافرو مسلم ‘ جن و حیوان ‘ جاندار اور بےجان سب یکساں شریک ہیں۔ اپنے اپنے بارامانت اور مقصد زندگی کی حد تک۔ لیکن جب قیامت میں کنتی اور دوزخی کا فیصلہ ہوجائے گا۔ تو اہل جنت کے ساتھ اللہ کی رحیمیت شامل ہوگی۔ رحمانیت کا تعلق پہلی اور فانی زندگی سے ہے۔ رحیمیت کا تعلق دوسری اور لافانی زندگی سے ہے۔ رحمانیت کا تعلق سب سے بلا فرق ہے۔ رحیمیت کا تعلق صرف اہل ایمان سے ہے جبکہ ان کا ایمان ثابت ہوجائے گا۔ رحمانیت کا فیصلہ قیامت سے پہلے ہے۔ رحیمیت کا فیصلہ قیامت کے بعد ہے اور یہ بھی صرف مومنوں کے ساتھ ہے۔ قرآن میں جہاں کہیں بھی ” رحمن “ کا لفظ آیا ہے وہ تمام مخلوقات پر یکساں حاوی ہے۔ اور جہاں کہیں ” رحیم “ کا لفظ آیا ہے وہ صرف جنت میں مومنوں کے لئے مخصوص ہے۔ یہاں بھی ظاہر ہے کہ جب مغفرت ہوگی تب رحیمیت ہوگی۔ یہ سب سے بڑا انعام ہے۔ اس لفظ پر سورة الانعام ختم کی گئی ہے۔ واخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ آزمانا یہ کہ ان نعمتوں کی قدر کرکے منعم کی اطاعت کرتا ہے اور کون بےقدری کرکے اطاعت نہیں کرتا پس بعض مطیع ہوئے بعض نافرمان ہوئے اور دونوں کے ساتھ مناسب معاملہ کیا جائے گا۔ 3۔ پس نافرمانوں کے لیے عقاب ہے اور فرمانبرداروں کے لیے رحمت ہے اور نافرمانی سے فرماں برداری کی طرف آنے والوں کے لیے مغفرت ہے پس مکلفین کے لیے ضرور ہوا کہ دین حق کے موافق اطاعت اختیار کریں اور باطل اور مخالفت سے باز آئیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ نے کائنات کا نظام ایسے منضبط اور مربوط طریقہ سے بنایا ہے کہ اس میں کبھی خلل اور خلا پیدا نہیں ہوا۔ رات، دن ایک دوسرے کی جگہ لیتے ہیں روشنی اور اندھیرا ایک دوسرے کے پیچھے لگے ہوئے ہیں۔ ایک نسل دوسری نسل کی خلیفہ بنتی ہے۔ ایسے ہی انسانوں کی ایک کھیپ دوسری کھیپ کی جگہ سنبھالتی ہے۔ بیٹا باپ کی اور باپ اپنے باپ کی ذمہ داریاں سنبھالتا ہے۔ آج کا بچہ کل کو باپ بنتا ہے پھر اس کے فوت ہونے کے بعد اس کی اولاد اس کی جائیداد اور معاملات کی وارث بن جاتی ہے۔ اسی طرح ملکوں کی حکمرانی کا معاملہ ہے۔ کل کا حکمران آج نہیں اور آج کے حکمران کی مسند پر ایک مدت کے بعد کوئی اور بیٹھ جائے گا۔ خلافت کے اس نظام میں ایک فرد سے لے کر کسی بڑے سے بڑے، جابرحکمران اور نیک کو مفر نہیں سب کے سب خلافت کی زنجیر میں بندھے ہوئے ایک دوسرے کے پیچھے آنے پر مجبور ہیں۔ کوئی نہیں جو وسائل اور لشکر و سپاہ کی مدد سے یا اپنی نیکی اور ولایت کے بل بوتے پر اپنی جگہ پر ہمیشہ قبضہ جمائے رکھے۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کے مقبول ترین بندے انبیاء کرام (علیہ السلام) بھی اسی نظام کے تحت ایک دوسرے کے وارث بنے۔ اس نظام کو بنانے اور چلانے والا۔ اللہ اپنے بارے میں فرماتا ہے کہ وہی تو ہے جو تمہیں ایک دوسرے کے پیچھے لاتا یعنی خلیفہ بناتا ہے۔ ( سورة یونس : آیت۔ ١٤) میں فرمایا کہ تمہیں ایک دوسرے کا خلیفہ اس لیے بناتا ہے کہ تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم اپنے اپنے دائرہ کار میں رہ کر اپنی اپنی باری میں اپنے رب کی کتنی تابعداری اور کیا کردار ادا کرتے ہو۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس ذمہ داری کے بارے میں یوں فرمایا کرتے تھے۔ دین کے بارے میں پرکھنے، دنیا کا نظام چلانے اور ایک کو دوسرے کے ساتھ آزمانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو مختلف صلاحیتیں اور وسائل دے کر درجہ بدرجہ مراتب پر فائز فرمایا ہے۔ داعی کو رعایا کے ساتھ، امیر کو غریب کے ساتھ باپ کو اولاد اور اولاد کو والدین کے حقوق کے بارے میں، آجر کو اجیر اور چھوٹے بڑے کو ایک دوسرے کے حقوق و فرائض کے ساتھ آزمانے کا انتظام کر رکھا ہے۔ تاکہ دیکھے کہ کون کیا عمل کرتا ہے ؟ جو لوگ برے عمل کرتے ہیں۔ انھیں وارننگ دی کہ یاد رکھو دنیا کی مہلت نہایت مختصر ہے۔ اللہ تعالیٰ بہت جلد تمہارا حساب لینے والا ہے۔ جو لوگ نیک اعمال کی کوشش کرتے رہے لیکن پھر بھی ان سے بتقاضائے بشریت غلطیاں ہوگئیں۔ اللہ تعالیٰ دنیا میں بیماری، تکلیف اور استغفار کے ذریعے گناہ معاف کرتا ہے بالآخر اللہ تعالیٰ جلد حساب لینے اور نہایت ہی رحم فرمانے والا ہے۔ (عَن ابْنِ عُمَرَ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ کُلُّکُمْ رَاعٍ وَکُلُّکُمْ مَسْءُولٌ عَنْ رَّعِیَّتِہٖ وَالْأَمِیرُ رَاعٍ وَالرَّجُلُ رَاعٍ عَلٰی أَہْلِ بَیْتِہٖ وَالْمَرْأَۃُ رَاعِیَۃٌ عَلٰی بَیْتِ زَوْجِہَا وَوَلَدِہٖ فَکُلُّکُمْ رَاعٍ وَکُلُّکُمْ مَسْءُولٌ عَنْ رَعِیَّتِہٖ ) [ رواہ البخاری : کتاب النکاح، باب المرأۃ راعیۃ فی بیت زوجہا ] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان نقل کرتے ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم میں سے ہر ایک نگران ہے اور ہر کسی کو اپنی ذمہ داری کے بارے میں جواب دینا ہے، امیر نگران ہے آدمی اپنے گھر کا نگران ہے اور عورت اپنے خاوند کے گھر کی اور اپنے بچوں کی نگران ہے تو تم میں سے ہر کوئی ذمہ دار ہے اور ہر کسی سے اس کی ذمہ داری کے متعلق پوچھا جائے گا۔ “ مسائل ١۔ درجات میں تفاوت آزمائش کے لیے ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کسی کو نعمتیں دے کر اور کسی کو محروم رکھ کر آزماتا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن آزمائش کی مختلف صورتیں : ١۔ اللہ نے موت وحیات کو انسان کی آزمائش کے لیے پیدا فرمایا۔ (الملک : ٢) ٢۔ اللہ نے انسانوں کی آزمائش کے لیے بعض کو بعض پر فوقیت دی۔ ( الانعام : ١٦٥) ٣۔ مال واولاد انسان کے لیے آزمائش ہے اللہ کے ہاں بہت بڑا اجر ہے۔ (التغابن : ١٥) ٤۔ ہم تمہیں خوف، بھوک، مال واولاد اور پھلوں کی کمی میں مبتلا کر کے ضرور آزمائیں گے۔ (البقرۃ : ١٥٥)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اللہ تعالیٰ نے تمہیں زمین میں خلیفہ بنایا اور ایک کو دوسرے پر فوقیت دی سورۂ انعام ختم ہو رہی ہے اس میں بار بار دین حق کی دعوت دی، توحید کی طرف بلایا، مشرکین کی بےوقوفی بیان فرمائی اور ان کے عقائد باطلہ اور شرکیہ رسم و رواج کی تردید فرمائی اور توحید پر دلائل قائم کیے۔ اب آخر میں اللہ تعالیٰ کی بعض نعمتوں کی تذکیر فرمائی اور وہ یہ کہ اللہ نے تمہیں زمین میں خلیفہ بنایا پہلی امتیں چلی گئیں ایک دوسرے کے بعد آتی رہیں۔ اب تم ان کے بعد زمین میں آئے ہو۔ زمین میں تمہیں اقتدار سونپ دیا اور سب کو ایک حالت میں نہیں رکھا غنی بھی ہیں فقیر بھی ہیں، ضعیف بھی ہیں، حاکم بھی ہیں محکوم بھی ہیں۔ یہ اقتدار سپرد کرنا اور فرق مراتب رکھنا اس لیے ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں آزمائے کہ جو کوئی فوقیت کسی کو مال کے اعتبار سے یا منصب و مرتبہ یا کسی بھی حیثیت سے دی ہے وہ اس کو کس کام میں لگاتا ہے انصاف کرتا ہے یا ظلم کرتا ہے، بیکسوں پر رحم کھاتا ہے یا انہیں ستاتا ہے۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد ادا کرتا ہے یا نہیں۔ یہ سب چھوٹے بڑے طبقات قیامت کے دن حاضر ہوں گے، ظالم مظلوم کے درمیان انصاف ہوگا۔ ظالموں کو سزا ملے گی۔ حقوق العباد کی ادائیگی نیکیوں کے ذریعہ ہوگی، جو حقوق اللہ ضائع کیے اللہ جل شانہٗ چاہے ان کی اضاعت پر عذاب دے چاہے معاف فرما دے وہ سریع العقاب ہے، اور بلاشبہ وہ غفور ہے۔ قال القرطبی (ص ١٥٨ ج ٧) فی تفسیرہٖ قال اللہ تعالیٰ ! (وَھُوَ الَّذِیْ جَعَکُمْ خَلٰٓءِفَ الْاَرْضِ ) ” خَلاَء آف “ جمع خلیفۃٍ کَکَرائم جمع کریمۃٗ و کل من جاء بعد من مضی خلیفہ أی جعلکم خلفا للأمم الماضیۃ و القرون السالفۃ۔ (وَرَفَعَ بَعْضَکُمْ فَوْقَ بَعْضٍ ) فی الخلق و القوۃ و البسطۃ و الفضل والعلم۔ (درجٰتِ ) نصب باسقاط الخافض، أی الی درجات (لِیَبْلُوَکُمْ ) نصب بلام کَیْ ۔ والابتلاء الاختبار أی لیظھر منکم ما یکون غایتہٗ الثواب و العقاب، و لم یزل بعلمہٖ غنیَّا، فابتلی الموسر بالغنی و طلب منہ الشکر، و ابتلی المعسر بالفقر و طلب منہ ابصرو یقال، (لیبلوکم) ای بعضکم ببعض، ثمہ خوفھم فقال : (اِنَّ رَبَّکَ سَرِیْعُ الْعِقَابِ ) لمن عصاہ (وَ اِنَّہٗٗ لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ) لمَنْ اطاعہٗ ، و قال ” سَرِیْعُ الْعِقَاب “ مع وصفہ سبحانہ بالامھال ومع ان عقاب النّار فی الاٰخِرۃ، لان کل اٰت قریب فھو سریع علیٰ ھذا، کما قال تعالیٰ ! وَمَأ اَمْرُ السَّاعَۃِ الاَّ کَلَمْحِ الْبَصَرِ اَوْھُوَ اَقْرَبُ “ و قال ! ” وَیَرَوْنَہٗ بَعِیْدًا وَنَرٰہُ قَرِیْبًا “ و یکون ایضًا سریع العقاب لمن استحقہ فی دارالدنیا فیکون تحذیرًا لمواقع الخطیءۃ ھذہ الجھۃ واللہ اعلم و قال صاحب الروح (وَھُوَ الَّذِیْ جَعَلَکُمْ خَلٰٓءِفَ الاَْرْضِ ) ای یخلف بعضکم بعضا کلما مضی قرن جاء قرن حتی تقوم الساعۃ و لا یکون ذالک الا من عالم مدبر، والی ھذا ذھب الحسن أو جعلکم خلفاء اللہ تعالیٰ فی ارضہٖ تتصرفون فیھا۔ کما قیل۔ و الخطاب علیھما عام، و قیل : الخطاب لھذہ الامۃ، وروی ذٰلک عن السدی ای جعلکم خلفاء الامم السالفۃ (وَرَفَعَ بَعْضَکُمْ فَوْقَ بَعْضٍ ) فی الفضل و الغنی کما روی عن مقاتل (دَرَجات) کثیرۃ متفاوتۃ (لِیَبْلُوَکُمْ فِیْ مَآ اٰتکُمْ ) اَیْ لیعملکم معاملۃ من یبتلیکم لینظر ما ذا تعملون مما یرضیہ و ما لا یرضیہ (وَاِنَّ رَبَّک) تجرید الخطاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مع اضافۃ اسم الربّ الیہ لا براز مزید اللطف بہٖ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (سَرِیْعُ الْعِقَاب) أی عقابہ سبحانہ الاخروی سریع الاتیان لمن لم یراع حقوق ما آتاہ لان کل آتٍ قریب، او سریع التمام عند ارادتہ لتعالیہ سبحانہ عن استعمال المبادی و الاٰ لاتِ ١ ھ۔ فائدہ : دنیا میں جو اللہ تعالیٰ نے فرق مراتب رکھا ہے اس کا ایک فائدہ یہ ہے کہ جس کسی کے پاس کوئی نعمت ہے ہو اس نعمت پر شکر ادا کرے اور جو اس سے کم حیثیت کے لوگ ہیں ان کو دیکھ کر عبرت حاصل کرے اور بار بار یہ مراقبہ کرے کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو مجھے تنگدست بےاختیار اپاہج لولا لنگڑا نابینا بنا دیتا ۔ اگر اس طرح غور کرے تو نہ دوسروں کو حقیر جانے گا اور نہ اللہ کی نا شکری کرے گا۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ حضرت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی شخص ایسے شخص کو دیکھے جو مال اور شکل صورت میں اس سے بڑھ کر ہے تو اس کو بھی دیکھ لے جو اس سے کم ہے۔ (مشکوٰۃ المصابیح ج ٢ ص ٤٤٧) اور ایک روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا تم اس کو دیکھو جو تم سے کم ہے اور اس کو نہ دیکھو جو تم سے زیادہ ہے ایسا کرو گے تو تم پر جو اللہ تعالیٰ کی نعمتیں ہیں ان کو حقیر نہ جانو گے۔ (رواہ مسلم ص ٤٠٧ ج ٢) اور ایک حدیث میں یوں ہے کہ جس شخص میں دو باتیں ہوں گی اللہ تعالیٰ اسے صابر اور شاکر لکھ دے گا۔ دین میں اسے دیکھے جو اس سے بڑھ کر ہے پھر اس کا اقتداء کرے اور دنیا میں اسے دیکھے جو اس سے کمتر ہو پھر اللہ کی حمد بیان کرے کہ اللہ نے اسے اس شخص پر فضیلت دی ہے، ایسے شخص کو اللہ شاکر اور صابر لکھ دے گا اور جس نے اپنے دین میں ایسے شخص کو دیکھا جو اس سے کم ہے اور دنیا میں اسے دیکھا جو اس سے بڑھ کر ہے پھر اسے اس بات پر رنج ہوا کہ دنیا میں مجھے اتنا نہیں ملا تو اللہ اسے نہ شاکر لکھے گا اور نہ صابر لکھے گا۔ (مشکوٰۃ المصابیح) و لقد تم تفسیر سورة الانعام والحمد للہ اولاً و اٰخرًا و باطنا و ظاھرًا

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

187 مشرکین ایمان والوں سے کہا کرتے تھے کہ “ اِتَّبِعُوْا سَبِیْلَنَا وَلْنَحْمِلْ خَطَايَاکُمْ ” تم ہماری راہ پر آجاؤ ہم تمہارے گناہوں کا ذمہ اٹھا لیتے ہیں۔ فرمایا جرم کی سزا صرف مجرم ہی کو ملے گی۔ یہ نہیں ہوسکے گا کہ ایک مجرم کے گناہ کی سزا کسی اور کو دی جائے۔ “ وَ لَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وَّازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰي ” یہ تخویف اخروی ہے اور ماقبل کی تاکید ہے۔ 188: یہ ترغیب ہے۔ اللہ ہی نے تم کو تمہارے آباء و اجداد کا جانشین بنایا ہے اور مختلف خوبیوں اور نعمتوں میں بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے۔ تاکہ تمہاری آزمائش کرے کہ کون تم میں سے اس کے احکام کی پیروی کرتا ہے اور کون نافرمانی اور سرکشی کرتا ہے۔ “ اِنَّ رَبَّکَ سَرِيْعُ الْعِقَابِ ” یہ نہ ماننے والوں کے لیے تخویف اخروی اور “ وَ اِنَّهٗ لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ” یہ ماننے والوں کے لیے بشارت اخروی کی طرف اشارہ ہے۔ “ وَالْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ”۔ سورة انعام میں آیات توحید 1 ۔ “ اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَجَعَلَ الظُّلُمٰتِ وَالنُّوْرَ ڛ ثُمَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِرَبِّهِمْ يَعْدِلُوْنَ ۔ هُوَ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ مِّنْ طِيْنٍ ثُمَّ قَضٰٓى اَجَلًا ۭ وَاَجَلٌ مُّسَمًّى عِنْدَهٗ ثُمَّ اَنْتُمْ تَمْتَرُوْنَ ۔ وَهُوَ اللّٰهُ فِي السَّمٰوٰتِ وَفِي الْاَرْضِ ۭ يَعْلَمُ سِرَّكُمْ وَجَهْرَكُمْ وَيَعْلَمُ مَا تَكْسِبُوْن ” آیت 1 تا 3 ۔ نفی شرک اعتقادی صراحۃ وفعلی ضمنا۔ 2 ۔ “ وَلَهٗ مَا سَكَنَ فِي الَّيْلِ وَالنَّهَارِ ۭ وَهُوَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ ” آیت 13 ۔ نفی شرک اعتقادی صراحۃً و فعلی ضمنا۔ 3 ۔ “ قُلْ اَغَيْرَ اللّٰهِ اَتَّخِذُ وَلِيًّا فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَهُوَ يُطْعِمُ وَلَا يُطْعَمُ ” آیت 14 ۔ نفی شرک فعلی۔ 4 ۔ “ وَاِنْ يَّمْسَسْكَ اللّٰهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهٗٓ اِلَّا هُوَ ۭ وَاِنْ يَّمْسَسْكَ بِخَيْرٍ فَهُوَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ۔۔ وَهُوَ الْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِهٖ ۭ وَهُوَ الْحَكِيْمُ الْخَبِيْرُ ” نفی شرک اعتقادی 5 ۔ “ اَىِٕنَّكُمْ لَتَشْهَدُوْنَ اَنَّ مَعَ اللّٰهِ اٰلِهَةً اُخْرٰي ۭ قُلْ لَّآ اَشْهَدُ ۚ قُلْ اِنَّمَا هُوَ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ وَّاِنَّنِيْ بَرِيْۗءٌ مِّمَّا تُشْرِكُوْنَ ” آیت 19 ۔ نفی شرک اعتقادی صراحۃً اور فعلی ضمنا۔ 6 ۔ “ وَاِنْ كَانَ كَبُرَ عَلَيْكَ اِعْرَاضُهُمْ فَاِنِ اسْتَطَعْتَ اَنْ تَبْتَغِيَ نَفَقًا فِي الْاَرْضِ اَوْ سُلَّمًا فِي السَّمَاۗءِ فَتَاْتِيَهُمْ بِاٰيَةٍ ” آیت 35 ۔ نفی شرک اعتقادی۔ 7 ۔ “ قُلْ اَرَءَيْتَكُمْ اِنْ اَتٰىكُمْ عَذَابُ اللّٰهِ اَوْ اَتَتْكُمُ السَّاعَةُ اَغَيْرَ اللّٰهِ تَدْعُوْنَ ۚ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ 40؀ بَلْ اِيَّاهُ تَدْعُوْنَ فَيَكْشِفُ مَا تَدْعُوْنَ اِلَيْهِ اِنْ شَاۗءَ وَتَنْسَوْنَ مَا تُشْرِكُوْنَ ” آیت 41 ۔ نفی شرک فی التصرف 8 ۔ “ قُلْ اَرَءَيْتُمْ اِنْ اَخَذَ اللّٰهُ سَمْعَكُمْ وَاَبْصَارَكُمْ وَخَتَمَ عَلٰي قُلُوْبِكُمْ مَّنْ اِلٰهٌ غَيْرُ اللّٰهِ يَاْتِيْكُمْ بِهٖ ” آیت 46 ۔ نفی شرک فی التصرف 9 ۔ “ قُلْ لَّآ اَقُوْلُ لَكُمْ عِنْدِيْ خَزَاۗىِٕنُ اللّٰهِ وَلَآ اَعْلَمُ الْغَيْبَ وَلَآ اَقُوْلُ لَكُمْ اِنِّىْ مَلَكٌ ” آیت 46 ۔ نفی شرک اعتقادی۔ 10 ۔ “ قُلْ اِنِّىْ نُهِيْتُ اَنْ اَعْبُدَ الَّذِيْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ ” آیت 56 ۔ نفی شرک اعتقادی۔ 11 ۔ “ وَعِنْدَهٗ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُهَآ اِلَّا هُوَ ۭ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ ۭ وَمَا تَسْقُطُ مِنْ وَّرَقَةٍ اِلَّا يَعْلَمُهَا وَلَا حَبَّةٍ فِيْ ظُلُمٰتِ الْاَرْضِ وَلَا رَطْبٍ وَّلَا يَابِسٍ اِلَّا فِيْ كِتٰبٍ مُّبِيْنٍ 59؀ وَهُوَ الَّذِيْ يَتَوَفّٰىكُمْ بِالَّيْلِ وَيَعْلَمُ مَا جَرَحْتُمْ بِالنَّهَارِ ثُمَّ يَبْعَثُكُمْ فِيْهِ لِيُقْضٰٓى اَجَلٌ مُّسَمًّى ۚ ثُمَّ اِلَيْهِ مَرْجِعُكُمْ ثُمَّ يُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ 60۝ۧ وَهُوَ الْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِهٖ وَيُرْسِلُ عَلَيْكُمْ حَفَظَةً ” آیت 59 تا 61 ۔ نفی شرک اعتقادی۔ 12 ۔ “ قُلْ مَنْ يُّنَجِّيْكُمْ مِّنْ ظُلُمٰتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ تَدْعُوْنَهٗ تَضَرُّعًا وَّخُفْيَةً ۚ لَىِٕنْ اَنْجٰىنَا مِنْ هٰذِهٖ لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الشّٰكِرِيْنَ 63؀ قُلِ اللّٰهُ يُنَجِّيْكُمْ مِّنْهَا وَمِنْ كُلِّ كَرْبٍ ثُمَّ اَنْتُمْ تُشْرِكُوْنَ ” آیت 64 ۔ نفی شرک فی التصرف 13 ۔ “ قُلْ اَنَدْعُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَا لَا يَنْفَعُنَا وَلَا يَضُرُّنَا وَنُرَدُّ عَلٰٓي اَعْقَابِنَا بَعْدَ اِذْ هَدٰىنَا اللّٰهُ ” آیت 71 ۔ نفی شرک اعتقادی 14 ۔ “ وَهُوَ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بِالْحَقِّ ۭ وَيَوْمَ يَقُوْلُ كُنْ فَيَكُوْنُ ڛ قَوْلُهُ الْحَقُّ ۭوَلَهُ الْمُلْكُ يَوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّوْرِ ۭ عٰلِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ ۭوَهُوَ الْحَكِيْمُ الْخَبِيْرُ ” آیت 73 ۔ نفی شرک فی التصرف۔ 15 ۔ “ وَمَا نَرٰي مَعَكُمْ شُفَعَاۗءَكُمُ الَّذِيْنَ زَعَمْتُمْ اَنَّهُمْ فِيْكُمْ شُرَكٰۗؤُا ۭ لَقَدْ تَّقَطَّعَ بَيْنَكُمْ وَضَلَّ عَنْكُمْ مَّا كُنْتُمْ تَزْعُمُوْنَ ” آیت 94 ۔ نفی شرک اعتقادی۔ 16 ۔ “ اِنَّ اللّٰهَ فَالِقُ الْحَبِّ وَالنَّوٰى ۭ يُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَمُخْرِجُ الْمَيِّتِ مِنَ الْـحَيِّ ۭذٰلِكُمُ اللّٰهُ فَاَنّٰى تُؤْفَكُوْنَ ” آیت 95 تا “ ذٰلِكُمُ اللّٰهُ رَبُّكُمْ ۚ لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ ۚ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ فَاعْبُدُوْهُ ۚ وَهُوَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ وَّكِيْل ” آیت 102 ۔ نفی شرک اعتقادی صراحۃً و فعلی ضمنا۔ 17 ۔ “ فَكُلُوْا مِمَّا ذُكِرَ اسْمُ اللّٰهِ عَلَيْهِ اِنْ كُنْتُمْ بِاٰيٰتِهٖ مُؤْمِنِيْنَ ۔ وَمَا لَكُمْ اَلَّا تَاْكُلُوْا مِمَّا ذُكِرَ اسْمُ اللّٰهِ عَلَيْهِ ” آیت 118 ۔ نفی شرک فعلی، تحریمات غیر اللہ۔ 18 ۔ “ وَقَدْ فَصَّلَ لَكُمْ مَّا حَرَّمَ عَلَيْكُمْ اِلَّا مَا اضْطُرِرْتُمْ اِلَيْهِ ” آیت 119 ۔ نفی شرک فعلی، نیازات غیر اللہ۔ 19 ۔ “ وَجَعَلُوْا لِلّٰهِ مِمَّا ذَرَاَ مِنَ الْحَرْثِ وَالْاَنْعَامِ نَصِيْبًا ” تا “ وَلَوْ شَاۗءَ اللّٰهُ مَا فَعَلُوْهُ فَذَرْهُمْ وَمَا يَفْتَرُوْنَ ” آیت 136، 137 ۔ نفی شرک فعلی، نیازات غیر اللہ 20 ۔ “ وَقَالُوْا هٰذِهٖٓ اَنْعَامٌ وَّحَرْثٌ حِجْرٌ ڰ لَّا يَطْعَمُهَآ اِلَّا مَنْ نَّشَاۗءُ بِزَعْمِهِمْ ” تا “ وَاِنْ يَّكُنْ مَّيْتَةً فَهُمْ فِيْهِ شُرَكَاۗءُ ۭ سَيَجْزِيْهِمْ وَصْفَهُمْ ۭاِنَّهٗ حَكِيْمٌ عَلِيْمٌ” آیت 138، 139 ۔ نفی شرک فعلی۔ تحریمات غیر اللہ۔ 21 ۔ “ قَدْ خَسِرَ الَّذِيْنَ قَتَلُوْٓا اَوْلَادَهُمْ سَفَهًۢا بِغَيْرِ عِلْمٍ وَّحَرَّمُوْا مَا رَزَقَهُمُ اللّٰهُ ” آیت 140 ۔ نفی نیازات غیر اللہ و تحریمات غیر اللہ۔ 22 ۔ “ وَهُوَ الَّذِيْٓ اَنْشَاَ جَنّٰتٍ مَّعْرُوْشٰتٍ وَّغَيْرَ مَعْرُوْشٰتٍ وَّالنَّخْلَ وَالزَّرْعَ ” تا “ اَمْ كُنْتُمْ شُهَدَاۗءَ اِذْ وَصّٰىكُمُ اللّٰهُ بِھٰذَا ” آیت 141 تا 144 ۔ نفی شرک فعلی، تحریمات غیر اللہ 23 ۔ “ قُلْ لَّآ اَجِدُ فِيْ مَآ اُوْحِيَ اِلَيَّ مُحَرَّمًا عَلٰي طَاعِمٍ يَّطْعَمُهٗٓ اِلَّآ اَنْ يَّكُوْنَ مَيْتَةً اَوْ دَمًا مَّسْفُوْحًا اَوْ لَحْمَ خِنْزِيْرٍ فَاِنَّهٗ رِجْسٌ اَوْ فِسْقًا اُهِلَّ لِغَيْرِ اللّٰهِ بِهٖ ۚ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَّلَا عَادٍ فَاِنَّ رَبَّكَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ” آیت 145 ۔ نفی شرک فعلی، نیازات غیر اللہ۔ سورة انعام ختم ہوئی۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

165 اور اللہ تعالیٰ کی ذات اقدس وہ ہے جس نے تم کو زمین میں اپنا نائب اور خلیفہ بنایا اور تم کو زمین میں تصرف کا حق دیا اور تم سے باعتبارِ درجات کے بعض کو بعض پر فوقیت عطا کی اور ایک کو دوسرے سے مرتبہ میں بڑھایا اور بلند کیا تاکہ اس نے تم کو جو کچھ دیا ہے اس میں تمہاری آزمائش کرے اور تم کو آزمائے یقیناًٰ آپ کا پروردگار جلد سزا دینے والا بھی ہے اور یقیناً وہ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔ یعنی زمین میں تم کو رہنے اور بسنے کے لئے جگہ دی اور زمین پر تم کو ہر طرح سے تصرف کا حق دیا جاتا ہے مکان بنائو چاہے کھیتی کرو، کنواں کھودو، نہر بنائو، فرق مراتب کو وجہ آزمائش فرمایا ہر شخص ایک دوسرے کے لئے آزمائش ہے اور اللہ تعالیٰ کی ہر نعمت اور اس کا ہر ایک عطیہ موجبِ شکر و امتنان ہے خواہ زیادہ ہو یا کم۔ تم تفسیر سورة الانعام